09:41    , منگل   ,   03    دسمبر   ,   2024

افتخار عارف کی شاعری

1986 0 0 01

دیار نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو

کوئی تو ہو جو مری وحشتوں کا ساتھی ہو

میں اس سے جھوٹ بھی بولوں تو مجھ سے سچ بولے

مرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی ہو

میں اس کے ہاتھ نہ آؤں وہ میرا ہو کے رہے

میں گر پڑوں تو میری پستیوں کا ساتھی ہو

وہ مرے نام کی نسبت سے معتبر ٹھہرے

گلی گلی میری رسوائیوں کا ساتھی ہو

کرے کلام جو مجھ سے تو میرے لہجے میں

میں چپ رہوں تو میرے تیوروں کا ساتھی ہو

میں اپنے آپ کو دیکھوں وہ مجھ کو دیکھے جائے

وہ میرے نفس کی گمراہیوں کا ساتھی ہو

وہ خواب دیکھے تو دیکھے مرے حوالے سے

مرے خیال کے سب منظروں کا ساتھی ہو

مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے

میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کوگھر کر دے 

یہ روشنی کے تعاقب میں بھاگتا ہوا دن 

جو تھک گیا ہے تو اب اس کو مختصر کر دے 

میں زند گی کی دعا مانگنے لگا ہوں بہت 

جو ہو سکے تو دعاؤں کو بے اثر کر دے 

ستارۂ سحری ڈو بنے کو آیا ہے 

ذرا کوئی میرے سورج کو باخبر کر دے 

قبیلہ وار کمانیں کڑکنے والی ہیں 

مرے لہو کی گواہی مجھے نڈر کر دے 

میں اپنے خواب سے کٹ کر جیوں تو میرے خدا 

اجا ڑ دے مری مٹی کو دربدر کردے 

مری زمیں مرا آخری حوالہ ہے 

سو میں رہوں نہ رہوں اس کو بارور کردے

1.0 "1"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

افتخار عارف کی شاعری

مزید شاعری

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔