02:53    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

اسرار الحق مجاز کی شاعری

1077 0 0 00

حجابِ فتنہ پرور اب اٹھا لیتی تو اچھا تھا

خود اپنے حُسن کو پردہ بنا لیتی تو اچھا تھا

 

تری نیچی نظر خود تیری عصمت کی محافظ ہے

تو اس نشتر کی تیزی آزما لیتی تو اچھا تھا

 

تری چینِ جبیں خود اک سزا قانونِ فطرت میں

اسی شمشیر سے کارِ سزا لیتی تو اچھا تھا

 

یہ تیرا زرد رخ، یہ خشک لب، یہ وہم، یہ وحشت

تو اپنے سر سے یہ بادل ہٹا لیتی تو اچھا تھا

 

دلِ مجروح کو مجروح تر کرنے سے کیا حاصل؟

تو آنسو پونچھ کر اب مسکرا لیتی تو اچھا تھا

 

ترے زیرِ نگیں گھر ہو، محل ہو، قصر ہو، کچھ ہو

میں یہ کہتا ہوں تو ارض و سما لیتی تو اچھا تھا

 

اگر خلوت میں تُو نے سر اٹھایا بھی تو کیا حاصل؟

بھری محفل میں آ کر سر جھکا لیتی تو اچھا تھا

 

ترے ماتھے کا ٹیکا مرد کی قسمت کا تارا ہے

اگر تو سازِ بیداری اٹھا لیتی تو اچھا تھا

 

عیاں ہے دشمنوں کے خنجروں پر خون کے دھبے

انہیں تو رنگِ عارض سے ملا لیتی تو اچھا تھا

 

سنانیں کھینچ لی ہیں سر پھرے باغی جوانوں نے

تو سامانِ جراحت اب اٹھا لیتی تو اچھا تھا

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

اسرار الحق مجاز کی شاعری

مزید شاعری

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔