کب تلک پیاس کے صحرا میں جُھلستے جائیں
اب یہ بادل جو اُٹھے ہیں، تو برستے جائیں
کون بتلائے تُمھیں، کیسے وہ موسم ہیں کہ جو !
مُجھ سے ہی دُور رہیں، مُجھ میں ہی بَستے جائیں
ہائے ! کیا لوگ یہ آباد ہُوئے ہیں مُجھ میں
پیار کے لفظ لکھیں، لہجے سے ڈستے جائیں
آئینہ دیکھوں تو اِک چہرے کے بے رنگ نقُوش
ایک نادِیدہ سی زنجیر میں کَستے جائیں
جُز محبّت، کِسے آیا ہے میسّر، اُمّید !
ایسا لمحہ، کہ جِدھر صدیوں کے رستے جائیں