تہمتِ چند اپنے ذمّے دھر چلے
کس لئے آئے تھے ہم کیا کر چلے
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
کیا ہمیں کام ان گلوں سے اے صبا
ایک دم آئے اِدھر اُودھر چلے
دوستو دیکھا تماشا یاں کا بس
تم رہو اب ہم تو اپنے گھر چلے
آہ بس جی مت جلا تب جانیے
جب کوئی افسوں ترا اس پر چلے
ایک میں دل ریش ہوں ویسا ہی دوست
زخم کتنوں کے سنا ہے بھر چلے
شمع کے مانند ہم اس بزم میں
چشمِ تر آئے تھے دامن تر چلے
ڈھونڈتے ہیں آپ سے اُس کو پرے
شیخ صاحب چھوڑ گھر باہر چلے
ہم جہاں میں آئے تھے تنہا ولے
ساتھ اپنے اب اسے لےکر چلے
ہم نہ جانے پائے باہر آپ سے
وہ ہی آڑے آ گیا جیدھر چلے
جوں شرارِ ہستئ بے بود یاں
بارے ہم بھی اپنی باری بھر چلے
ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ
جب تلک بس چل سکے ساغر چلے
درد کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب
کس طرف سے آئے تھے کیدھر چلے