08:56    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

میر ا جی کا تعارف

( 1912-1949 )

25 May 1912 - 03 Nov 1949

بقول سر سہیل ”میرا جی کو سمجھنے کے لئے انسان کو میراجی بننا پڑتا ہے۔“
ترقی پسند تحریک کے زور و شور کے زمانے میں 1939ءمیں حلقہ ارباب ذوق کا قیام عمل میں آیا۔ مجموعی طور پر حلقہ ترقی پسند تحریک کا ردعمل تو نہ تھا۔ لیکن دونوں کے ادبی رویے مختلف ضرور تھے۔ حلقہ کے لوگ عصری شعور رکھتے تھے لیکن وہ ادب میں یک رنگی کے قائل نہ تھے وہ انسان کو اس کی کلیت کے حوالے سے دیکھنا اور سمجھنا چاہتے تھے۔ اسی طرح ادب کے مطالعے سے بھی وہ کسی مخصوص نقطہ نظر تک محدود نہ تھے۔ حلقہ اربابِ ذوق کے شاعروں کی اصل شناخت ان کی نظم نگاری ہے۔ ان حضرات نے قدیم روایت سے انحراف کرتے ہوئے نظم کے مروجہ تصور میں بھی تبدیلی پیدا کی جو ان کے نظریہ شعر سے پوری طرح ہم آہنگ تھی۔ ٦٣٩١ءکے آس پاس شعر ی موضوعات کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ نظم کی ہیت میں بھی تبدیلی واقع ہوئی اس دوران آزاد نظم کی ہیئت کو مقبولیت ملی۔ حلقہ کے شاعروں نے اس ہیئت کو کچھ اس طرح برتا کہ اسے تحریک کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ ن۔م راشداور تصدق حسین خالد کو آزاد نظم کا بانی کہا جاتا ہے۔ لیکن آزاد نظم میں ایک بہت ہی مقبول نام ”میراجی “ کابھی ہے۔
میراجی ، جن کا اصل نام محمد ثنا اللہ تھا ۔ منشی محمد مہتاب الدین کے ہاں ٥٢ مئی ٢١٩١ءکو لاہور میں پیداہوئے۔ پہلے ”ساحری“ تخلص کرتے تھے۔ لیکن ایک بنگالی لڑکی ”میراسین“ کےیک طرفہ عشق میں گرفتار ہو کر ”میراجی“ تخلص اختیار کر لیا۔ میراجی کی ذات سے ایسے واقعات وابستہ ہیں کہ ان کی ذات عام آدمی کے لئے ایک افسانہ بن کر رہ گئی ہے۔ اُن کا حلیہ اور ان کی حرکات و سکنات ایسی تھیں کہ یوں معلوم ہوتا تھا انہوں نے سلسلہ ملامتیہ میں بیعت کر لی ہے۔ لمبے لمبے بال ،بڑی بڑی مونچھیں ، گلے میں مالا ، شیروانی پھٹی ہوئی، اوپر نیچے بیک وقت تین پتلونیں، اوپر کی جب میلی ہوگئی تو نیچے کی اوپر اور اوپر کی نیچے بدل جاتی۔ شیروانی کی دونوں جیبوں میں بہت کچھ ہوتا۔ کاغذوں اور بیاضوں کا پلندہ بغل میں دابے بڑی سڑک پر پھرتا تھااور چلتے ہوئے ہمیشہ ناک کی سیدھ میں دیکھتا تھا۔ وہ اپنے گھر اپنے محلے اور اپنی سوسائٹی کے ماحول کو دیکھ دیکھ کر کڑتا تھا اس نے عہد کر رکھا تھا کہ وہ اپنے لئے شعر کہے گا۔ صرف ٧٣ سال کی عمر میں ٣ نومبر 1949ءکو مرگئے۔ اس مختصر سی عمر میں میراجی کی تصانیف میں ”مشرق و مغرب کے نغمے“ ”اس نظم میں “”نگار خانہ“”خیمے کے آس پاس“ شامل ہیں۔ جبکہ میراجی کی نظمیں ، گیت ہی گیت، پابند نظمیں اور تین رنگ بھی شاعر ی کے مجموعے ہیں، آئیے میراجی کی شاعری کی فکری اور فنی خصوصیات کا جائزہ لیتے ہیں،

مغربی شعراءکا اثر:۔

میراجی فرانس کے ایک آوارہ شاعر ”چارلس بودلئیر“ سے بہت متاثر تھے۔ بودلیئر دوستوں کو دشمن بنانے میں یدطولیٰ رکھتا تھا ۔ میراجی بھی ان سے کم نہ تھے۔ ”مشرق و مغرب کے نغمے“ میں میراجی نے بودلئیر کے بارے میں لکھا ہے کہ اس نے کئی نظمیں اپنی ذات کے لئے لکھی ہیں۔ میراجی کی ابتدائی دور کی شاعری اپنی ذات کے لئے ہے۔ بودلیئر کے بارے میں میراجی نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ لاشعور کا شاعر تھا وہ نئے احساسات ، نئے لہجے ، نئے انداز بیاں اور نئی زبان کا شاعر تھا۔ یہی کام میراجی نے بھی کیا
اس کے علاوہ وہ امریکہ کے تخیل پرست شاعر ”ایڈ گر ایلن پو “ سے بہت زیادہ متاثر ہیں ۔ اُس کی بیوی اُس کے لئے ایک ایسا سایہ بن جاتی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور میراجی کے ہاں بھی ”سایہ “ کی علامت بار بار آتی ہے۔”پو“عورت کے بجائے عورت کے تصور کی پوجا کرتا تھا۔ میراجی کی شاعر ی کے بارے میں نقادوں نے لکھا ہے کہ میراجی کو تصور سے پیار ہے۔ تصور میراجی کا آدرش ہے۔ منظر بھی منظر بن کر نہیں تصور بن کر ان کی شاعر ی میں آتا ہے۔
ویشنو مت یا ہندو مت کا اثر:۔
میراجی کی نظموں میں وشنو مت کے بہت زیادہ اثرات ہیں۔ ویشنو بھگتی تحریک دراصل قدیم ہندوستان کے تہذیبی ابال کی ایک صورت تھی۔ جو براہمنوں کی اجارہ داری کے مقابلے میں ذات پات کو ختم کرنے کے رجحان آریائوں کے خاص مذہبی روایات کے مقابلے میں زمین کی زرخیزی سے متعلق دیوتائوں اور اوتاروں کی تخلیق اور سنسکرت کے مقابلے میں دیس کی اپنی بولیوں کے احیاءمیں ڈھل کر نمودار ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے ہندوستا ن نے اسے قبول کرلیا۔
یہ تحریک دکن سے شروع ہوئی او ر شمالی ہند میں اس نے خوب ترقی کی راما نند ، کبیر اور تلسی داس نے بھگتی کی اس تحریک کو پروان چڑھایا۔ اس تحریک سے پہلے رام اور سیتا کی پوجا ہوتی تھی۔ لیکن ان لوگوں نے کرشن اور رادھا کی پوجا شروع کی اور اپنی شاعری میں اُسے جگہ دی۔جو کہ ایک ناجائز معاشقے کی داستان ہے۔
میراجی کی نظموں کے مطالعہ کے سلسلے میں ویشنو بھگتی تحریک کے دو پہلو زیادہ اہم ہیں۔ ان میں ایک تو کرشن اور رادھا کی محبت سے متعلق ہے۔ کرشن ایک چرواہا تھا اور رادھا ایک بیاہتا شہزادی تھی اور ان کی محبت ملن اور سنجوک سے کہیں زیادہ فراق اور دوری اور مفارقت کی محبت تھی۔ پھر جہاں ملن کے سمے آتے تھے وہاں کہانی کا وہ پہلو زیادہ نمایاں ہوتا تھا جسے”مدھر“ کا نام دیا گیا ہے اور جو دراصل مرد اور عورت کی ناجائز جنسی محبت کے والہانہ پن اور شدت کو اجاگر کرتا ہے۔دوسرا پہلو ”کالی“ اور ”شو“ سے متعلق ہے اور اس نے جنسی علامتوں علامتوں کے بارے میں میرا جی کا خوب ساتھ دیا ہے۔ویشنو مت بھگتی تحریک کے تصورات میں جنسی پہلو بڑی شدت کے ساتھ اجاگر ہوا ہے۔ اور میراجی کی نظموں میں جنسی پہلو کو نمایاں کرنے کی دھن دراصل ویشنو بھگتی تحریک کے ان اثرات کا نتیجہ ہے۔

میر ا جی کی شاعری

میر ا جی کا مجموعہ کلام

ہم معذرت خواہ ہیں کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔