09:29    , پیر   ,   06    مئی   ,   2024

مومن خان مومن کا تعارف

( 1800-1851 )

مومن خان نام اور مومن تخلص تھا۔ والد کا نام غلام نبی خاں تھا۔ مومن کے دادا سلطنت مغلیہ کے آخری دور میں شاہی طبیبوں میں داخل ہوئے اورحکومت سے جاگیر بھی حاصل کی۔ مومن 1800ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ان کے والد کو شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے بہت عقیدت تھی۔ چنانچہ شاہ صاحب موصوف نے ہی مومن خاں نام رکھا۔ مومن بچپن ہی سے ذہن طبع تھے۔ حافظہ بہت اچھا تھا۔ چنانچہ عربی و فارسی، طب، نجوم اور موسیقی میں جلدی کمال حاصل کر لیا۔ اصناف شاعری میں قصیدہ، رباعی،واسواخت، غزل، ترکیب بند، مثنوی سبھی پر طبع آزمائی کی ہے۔

دلی سے پانچ مرتبہ باہر نکلے مگر وطن کی محبت نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ مومن نہایت آزاد مزاج، قانع اور وطن پرست تھے۔ امراوء اور روساء کی خوشامد سے انہیں سخت نفرت تھی۔ یہی ان کے کریکٹر کی ایک نمایاں خصوصیت تھی۔ مومن کی یادگار ایک دیوان اور چھ مثنویاں ہیں۔ 1851ء میں اپنے کوٹھے سے گر کر وفات پائی۔

مومن کی جنسی توانائی کا اظہار عملی زندگی سے ہی نہیں بلکہ کلام سے بھی ہوتا ہے۔دبستان لکھنؤ کے شعرا کے برعکس انہوں نے جنس نگاری کو فحش اور ابتذال سے بچا کر صحت مند حدود میں رہنے دیا۔ بیشتر اشعار میں روایت یا مفروضات کم ہیں اور ذاتی تجربات زیادہ، اسی لیے شاعری میں عاشق کا تصور ابھرتا ہے وہ میر تقی میر کی خود سپردگی اور خاکساری، لکھنوی شعرا کی ہوسناکی اور کجروی اور غالب کی نرگسیت اور خود پسندی سے قطعی مختلف ہے۔ مومن کا عاشق واضح طور پر ہرجائی ہے۔ ان کا یہ شعر عاشق کے تمام فلسفہ حیات کا نچوڑ ہے۔

ہم بھی کچھ خوش نہیں وفا کرکے

تم نے اچھا کیا نباہ نہ کیا

یہ وہی انداز ہے جس نے داغ دہلوی کے پاس جاکر رنڈی بازی کی صورت اختیار کر لی۔ اگر خالص جنس نگاری کے لحاظ سے دیکھیں تو مومن غالب سے بڑھ جاتے ہیں۔ صرف اشعار کی تعداد کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ شدت اور وارفتگی میں بھی غالب کے ہاں بعض اوقات جنس کو مزاح وغیرہ سے کیمو فلاج کرنے کا رجحان ملتا ہے۔ لیکن مومن کا انداز کسی حقیقت نگار کا ہے۔ البتہ رشک میں دونوں کا یکساں حال ہے۔ یہی نہیں بلکہ مومن نے آواز سے اپنی خصوصی جنسی دلچسپی کا اظہار بھی کیا۔ اسی طرح بعض ملبوسات اورزیورات سے وابستہ جنسی تلازمات بھی ابھارے گئے ہیں اور ایسی غزلوں کی بھی کمی نہیں جن میں واضح طور پر ایسے اشارات کیے کہ کسی مخصوص ہستی کی جھلک دیکھنے پربھی اتنا اندازہ لگانا دشوار نہیں رہتا کہ خطاب صنف مخالف سے ہے اور لاجنس شاعری کے اس دور میں یہ بہت بڑی بات ہے۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔