05:00    , جمعرات   ,   25    اپریل   ,   2024

تحقیق و تنقید شاعری

1293 2 0 10

ڈاکٹر احمد علی

انتساب

بیادِ والدِ محترم رحمت الٰہی برقؔ اعظمی مرحوم

 

میرے والد کا نہیں کوئی جواب

جو تھے اقصائے جہاں میں انتخاب

 

پھر بھی اُن کو جانتا کوئی نہیں

ذہن میں ہے جس سے پیہم اضطراب

 

اُن کا مجموعہ ہے ’’تنویرِ سُخن‘‘

جس میں حُسنِ فکر و فن ہے لاجواب

 

اُن کا ہے مرہونِ منت میرا فن

آج میں جو کچھ ہوں وہ ہے اُن کا خواب

 

اُن کے تھے استاد نوحِؔ ناروی

داغ سے جن کا سخن تھا فیضیاب

 

اُن کے خرمن سے ہے برقیؔ خوشہ چیں

ہے سخن جس کا اُنہیں کو انتساب

احمد علی برقیؔ اعظمی کی غزلیہ شاعری

(ایک جائزہ)

بخشا    خدا   نے  برق ؔ  مجھے  ایسا   مرتبہ

سایہ  بھی  جب پڑا  تو مرا  روشنی کے ساتھ

جب جناب رحمت الٰہی برقؔ اعظمی صاحب نے یہ شعر کہا تھا تو ان کے خواب و خیال میں بھی نہ ہو گا کہ اس شعر کی تعبیر ان کے صاحبزادے  احمد علی برقیؔ اعظمی بحیثیت ایک شاعر کی شکل میں دُنیائے اُردو کے اُفق پر ظاہر ہو کر ان کی یاد تازہ کر جائے گی۔ رحمت الٰہی برقؔ صاحب اپنے وقت کے ایک صاحب طرز اُستاد شاعر تھے۔ان کے مجموعہ کلام ’’تنویرسخن‘‘ کا سرسری مطالعہ بھی ان کی شاعرانہ مقام اور بلند پایہ صلاحیتوں کے اثبات و تصدیق کے لئے کافی ہے۔  اُردو کا ایک بہت بڑا َالمیہ یہ رہا ہے کہ ہر زمانہ میں اس میں خدا جانے کتنے بلند پایہ،صاحب علم اور منفرد رنگ کے شاعر اور ادیب پیدا ہوئے اور عمر بھر شعر و ادب کی بھر پور اور بے لوث خدمت انجام دے کر اِس حالت میں راہیِ ملک عدم ہو گئے کہ اہل اُردو نے نہ  توان کی زندگی میں ان کی اور ان کے فن کی مناسب قدر کی اور نہ ہی ان کے بعد انھیں یاد رکھنے کی طرح یاد رکھا چنانچہ آج بیشتر اُردو دُنیا اُن کے نام اور کام دونوں سے مطلق ناواقف ہے۔ جناب رحمت الٰہی برقؔ مرحوم بھی ایسے ہی شاعروں میں سے تھے۔ زیر نظر کتاب ’’روحِ سخن‘‘ اُن کے صاحبزادے احمد علی برقیؔ اعظمی کی شعر گوئی کا عکاس ایسا مجموعہ ہے جو اُن کے فن و فکر کی روشنی سے دُنیائے اُردو کو منوّر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر رحمت الٰہی صاحب آج زندہ ہوتے تو اس کتاب کودیکھ کر یقیناً بہت خوش ہوتے کیونکہ یہ مجموعہ نہ صرف ان کے شعری ورثے کی صحت اور زندگی کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے بلکہ احمد علی برقیؔ صاحب کے ہاتھوں خود بھی ایک نئے انداز فکر و بیان کی ابتدا کی ایک نیک فال کی حیثیت رکھتا ہے۔

برقیؔ صاحب کی شاعری ایک سیدھے سادے، شریف انفس انسان کی سیدھی سادی شاعری ہے جس کوہر صاحب دل سمجھ سکتا ہے اور محسوس بھی کر سکتا ہے۔ اس شاعری میں غزل کا کوئی مخصوص رنگ تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس میں نہ تو مرزا غالبؔ کی پیچیدہ خیالی اورفلسفہ ہے اور نہ میر تقی میرؔ کا سا حزن و ملال، نہ ناسخؔ کی استادی ہے اور نہ داغؔ کی سادہ بیانی اور معنی آفرینی، نہ جگرؔ مرادآبادی کی سرشاری ہے اور نہ فانیؔ بدایونی کی قنوطیت اور گریہ و زاری۔یہ شاعری انسانی جذبات و خیالات کا ایک عام سا اظہار ہے جس کو غزل کے سکہ بند اصولوں اور پیمانوں پر پرکھنا تحصیل لاحاصل کے مترادف ہو گا۔ اس میں ہر شخص کو اپنا دُکھ درد، اپنی اُمید اور حوصلہ، اپنی ناکامی اور نامرادی، دُنیا کے ہاتھوں خود پر گزرے ہوئے حالات و حادثات اور ایک عام انسان کی عام زندگی کے معمولات نظر آئیں گے اور یہی اس شاعری کی انفرادیت اور خصوصیت ہے۔ اگر شاعر کے ساتھ قدم بقدم چل کر وہ ذہنی سفر کیا جائے جو اس شاعری کا منبع ہے تواس سے لطف اندوز اور مستفید ہونا بہت آسان اور خوشگوار ہے۔

’’روحِ سخن‘‘ پر ایک سرسری نگاہ ڈالئے تو جو چیز اس میں فوراً نمایاں نظر آتی ہے وہ اس کی سادہ بیانی اور بوجھل الفاظ و تراکیب کا بڑی حد تک فقدان ہے۔ جو لوگ برقیؔ صاحب سے واقف ہیں، اُن کو کتاب میں موصوف کی شخصیت اور اخلاق و کردار کا عکس نظر آئے گا اور ان کے کلام کی سادگی اور پرکاری میں خود برقیؔ صاحب کارفرما دکھائی دیں گے۔ کتاب کا مطالعہ قاری کے لئے مختلف سطحوں پر خوشگوار اور خوش آئند ہے۔ اگر اس مجموعہ کا مطالعہ تفصیل اور دقت فکر و نظر سے کیا جائے تو صاحب کتاب کی غزلیہ شاعری کے چند ایسے مزید پہلو سامنے آتے ہیں جو اہل دل کو غور و خوض، تنقید و تنقیح اور تجزیہ و تحلیل کی دعوت دیتے ہیں جس کے نتیجہ میں برقیؔ صاحب کی غزل کے کچھ منفرد اور دلکش نقوش اجاگر ہوتے ہیں جو کتاب کی قدر و قیمت میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ اجمال کچھ تفصیل چاہتا ہے۔

غزل کے لغوی معنی ’’اپنے محبوب سے باتیں کرنا‘‘ ہیں۔ اس حوالے سے عشق کی وفا شعاری، حسن کی بے وفائی اور غفلت شعاری، عاشق و معشوق کے کچھ اصلی اور کچھ فرضی قصے، معاملات و واردات اور اسی قبیل کے دوسرے مضامین غزل کے عام اور معروف موضوعات میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ لیلیٰ اور مجنوں، شیریں اور فرہاد، سسّی اور پنوں کے اصلی اور فرضی قصے، گل و بلبل، گلشن و گل چیں، قفس اور صیاد کی کہانی، بہار و خزاں کا فسانہ، دُنیا کی بے ثباتی اور انسانی زندگی کے صبر آزما حقائق اپنی تمام تفصیلات اور تلازموں کے ساتھ صدیوں سے غزل کی روایات کا ایک نہایت دلچسپ اور بیش بہا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ غزل کا تصور کیجئے تو ایسے سب خیالات، تصورات، تجربات، مشاہدات اور محسوسات ہماری نگاہ عشق پرست کے سامنے آ جاتے ہیں جن کا تعلق عشق اور معاملات عشق سے کسی بھی صورت میں ہو سکتا ہے۔ پھر یہی عشق کبھی اپنے مجازی روپ میں ہماری تنہائیوں کا ساتھی ہے اور کبھی عشق حقیقی کے روپ میں ہمارے دکھ،درد کا مرہم بن جاتا ہے۔ اُردو کے پہلے معروف شاعر ولیؔ دکنی سے لے کر آج تک اُردو کی تاریخ میں ایک بھی شاعر ایسا نہیں گزرا ہے جس نے غزل کے ان معروف و مقبول موضوعات کو نظم کرنے میں تکلف سے کا م لیا ہو بلکہ کچھ اساتذہ  تو عاشقانہ معاملات پر اس قدر زور دیتے ہیں کہ ایسے مضامین اور طرز فکر ہی ان کی شناخت بن گئے ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ شعرا نے اِن عاشقانہ مضامین کو  صرف براہ راست ہی اپنی غزل میں ایک دلچسپ اور جذباتی موضوع کی طرح استعمال نہیں کیا ہے بلکہ شیریں و فرہاد، گل و بلبل، بہار و خزاں، ہجر و وِصال، صحرا نوردی اور سیر گلشن غرضیکہ ہر نفس شعر کو تشبیہ، استعارہ، اشارہ اور کنایہ کی طرح بھی باندھا ہے گویا کسی نہ کسی صورت سے یہ موضوعات ان کی غزلیہ شاعری کا چھوٹا یا بڑا جزو ضرور رہے ہیں۔اب یہ صورت حال اتنی عام ہے کہ غزل اور عاشقانہ مضامین لازم و ملزوم ہو کر رہ گئے ہیں گویا ایک کا تصور دوسرے کے بغیر نا ممکن ہے۔

درجِ  بالا حوالے سے اگر برقیؔ صاحب کی غزل کا مطالعہ کیا جائے تو ایک عجیب اور نہایت دلچسپ حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے۔جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے اُردو غزل کے محبوب موضوعات حسن و عشق کی کارفرمائی، گل و بلبل کے افسانے، شیریں و فرہاد کے قصے، دُنیا کی بے ثباتی اور کم سوادی، آشیانہ اور قفس، بہارو خزاں، تصوف و معرفت وغیرہ ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ غزل کی شعریت، تغزل، اثر پذیری، معنی آفرینی، ایجاز و اعجاز، داخلیت و خارجیت غرضیکہ ہر وہ خصوصیت یا انفرادیت جو اس کو بقول پروفیسر رشید احمد صدیقی صاحب ’’اُردو شاعری کی آبرو‘‘ کا مقام عطا کرتی ہے، اِنھیں بنیادی موضوعات سے نمو پاتی ہے اور انھیں سے سیراب ہوتی ہے۔ اگر غزل سے یہ نکال دئے جائیں تو وہ خشک، بے رنگ اور بے آب و گیاہ ہو کر رہ جائے گی۔ اُردو شاعری کے کئی صدی پر محیط دَور میں ایک بھی شاعر ایسا نہیں گزرا ہے جس نے اپنے کلام میں ان معاملات عشق سے کسی سطح پر احتراز برتا ہو۔ غزل کے دوسرے مضامین بھی اکثر و بیشتر یا تو براہ راست یا پھر اشارہ، کنایہ اور تشبیہات و استعارات کی صورت میں انھیں سوتوں سے پھوٹتے ہیں اور غزل کو اس کی صد رنگی سے مالا مال کرتے ہیں۔ اس حقیقت کے پیش نظر اگر برقیؔ صاحب کی غزل کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حیرت انگیز بات منکشف ہوتی ہے کہ انھوں نے غزل کے ان پرانے، آزمودہ اور روایتی موضوعات سے تقریباً مطلق پرہیز کیا ہے۔ ایک غزل کے بعد دوسری غزل پڑھتے جائیے تو اِن موضوعات پر ایک آدھ شعر ’’بقدر بادام‘‘ نظر آ جاتا ہے اور وہ بھی تلاش کرنا پڑتا ہے۔ دوسرے مضامین والے اشعار کی فراوانی میں ایسے روایتی اشعار گم ہو کر رہ گئے ہیں۔ مثال کے طور پر گل، گلشن، قفس، بہار و خزاں کو ذہن میں رکھ کر ’’روحِ سخن‘‘ کا مطالعہ کیجئے تو گنتی کے چند اشعار دکھائی دیتے ہیں جن کے عمومی رنگ کی عکاسی نیچے دی ہوئی مثالوں سے بخوبی ہوتی ہے…

 

سبھی نالاں ہیں جورِ باغباں سے

چمن کی  درہم و برہم   فضا   ہے

 

گل و بلبل دَریدہ پیرہن ہیں

نہیں یہ ظلم ہے تو اور کیا ہے

 

مرا دل خزاں کا شکار تھا مجھے انتظار بہار تھا

مگر آئی فصل بہار جب مرے  بال و پر وہ کتر گئے

 

بہار میں بھی عیاں ہیں خزاں کے اب آثار

جسے بھی دیکھئے لگتا ہے سوگوار مجھے

 

غنچے چمن میں آج ہیں یہ سر بریدہ کیوں

گل پیرہن ہیں باغ میں دامن دَریدہ کیوں

 

یہ کون باغباں ہے یہ کیسا نظام ہے

بار الم سے برگ و شجر ہیں خمیدہ کیوں

 

گلوں کی چاک دامانی کا منظر دیکھ کر اکثر

لبوں پر اہل گلشن کی شکایت آ ہی جاتی ہے

 

برقیؔ صاحب کی غزل کے مطالعہ کے بعد ذہن میں دو سوال اُبھرتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ انہوں نے اپنی غزلیہ شاعری میں غزل کے روایتی مضامین یعنی عشقیہ معاملات و واردات سے اتنا مکمل احتراز کیوں برتا ہے؟ دوسرے یہ کہ ان مضامین کی کمی کو انہوں نے کس طرح پورا کرنے کی کوشش کی ہے؟ پہلے سوال کا جواب تو شاید برقیؔ صاحب خود بھی نہ دے سکیں حالانکہ روایتی مضامین کے نہ باندھنے سے خود اُن کی شاعری کو کسی فائدہ کے بجائے نقصان پہنچا ہے کیونکہ اس طرح انہوں نے اپنے اوپر مضامین کا میدان نہایت تنگ کر دیا ہے اور سامنے کے مضامین نیز یکسانیتِ زبان وبیان کو کلام میں کھل کھیلنے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ یہ احتراز صاحب موصوف کی زود گوئی اور بسیار گوئی کا شاخسانہ ہے۔ وہ غزل کا مطلع کہتے ہیں تو ان کی زود گو طبیعت اسی رنگ میں دوسرے اشعار بے تکان موزوں کرنے لگتی ہے اور پھر اس  دَریا کی روانی کسی اور خیال یا بندش کو خاطر میں نہیں لاتی۔ دیکھتے ہی دیکھتے غزل مکمل ہو جاتی ہے اور برقیؔ صاحب کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا ہے کہ زیر تصنیف غزل کے مضامین سے ملتے جلتے مضامین وہ اور بہت سی غزلوں میں باندھ چکے ہیں۔ زود گوئی اور بسیار گوئی کا ایک لاحقہ یہ بھی ہے کہ شاعر اپنے کلام پر نظر ثانی کے توسط سے خود احتسابی کرنے میں کمزور ہوتا ہے۔ غزل کہہ کر اس کی زود پسند طبیعت اُس کی اشاعت اور ابلاغ کو دوسری باتوں پر ترجیح دیتی ہے اور اس طرح یہ صورت حال غزل دَر غزل قائم رہتی ہے۔

زیر نظر کتاب کے مطالعہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ برقیؔ صاحب نے روایتی غزلیہ مضامین کے فقدان کا علاج دو طرح سے کرنے کی شعوری یا غیر شعوری کوشش کی ہے۔ غزل مسلسل برقیؔ صاحب کے اس اقدام کا پہلا عنصر ہے۔موصوف کی بیشتر غزلیں شروع سے آخر تک ایک ہی رنگ اور تقریباًیکساں مضامین کے مختلف پہلو اُجاگر کرتی ہیں گویا ان کی غزلوں میں مسلسل غزل کا رنگ بہت نمایاں ہے۔ اس موضوع پران کے ساتھ گفتگو سے راقم الحروف نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ان کی غزل کا یہ رنگ غیر اختیاری ہے اور غزل کہتے وقت خود بخود مرتب ہوتا جاتا ہے یعنی وہ دانستہ غزل مسلسل نہیں کہنا چاہتے ہیں بلکہ ایسا غیر شعوری طور پر نا دانستگی میں  ہو جاتا ہے۔ یقیناً یہ صورت حال بھی ان کی زود گوئی کی وجہ سے ہے جس کا قدرے مفصل بیان آگے آئے گا۔ جیساکہ اوپر لکھا جا چکا ہے غزل شروع کرتے ہی ان کی زود گو طبیعت شعر گوئی کی باگ تھام لیتی ہے اور تقریباً بے اختیاری کے عالم میں غزل مکمل ہو جاتی ہے۔ایسی غزل مسلسل کی دو مثالیں دیکھئے۔ یہ رنگ تغزل پوری کتا ب میں نظر آتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ مسلسل غزل کی یہ یکسانیت غزل کی اثر پذیری کم کرتی ہے اور اس پر اتنی شدت اور التزام سے عمل نہیں ہونا چاہئے تھا۔

 

مُجھ کو ہنس ہنس کر رُلایا دیر تک

چین پھر اُس کو نہ آیا دیر تک

آنے والا تھا حریمِ ناز میں

منتظر تھا میں نہ آیا دیر تک

تھا بہت صبر آزما یہ انتظار

بارِ ناز اُس کا اُٹھایا دیر تک

آتشِ سیال تھا میرا لہو

میرا خوں اُس نے جلایا دیر تک

میں ورق اُس کی کتابِ حُسن کا

چاہ کر بھی پڑھ نہ پایا دیر تک

ایک یادوں کا تسلسل تھا جسے

میں نہ ہرگز بھول پایا دیر تک

حالِ دل برقیؔ کا تھا نا گفتہ بِہ

سر پہ چھت تھی اور نہ سایا دیر تک

 

غزل مسلسل کی ایک اور مثال درج ذیل ہے۔ ایک ہی مضمون کے مختلف پہلو بیان کرنے میں برقیؔ صاحب کی مشاقی میں شبہ نہیں لیکن ایک حد کے بعد اچھی چیز کے حسن میں بھی کمی محسوس ہونے لگتی ہے۔

 

خانۂ دل میں تھے مہماں آپ تو ایسے نہ تھے

کر دیا کیوں اِس کو ویراں آپ تو ایسے نہ تھے

 آپ  توافسانۂ ہستی کا  عنواں تھے مرے   

دیکھ کر اب ہیں گریزاں آپ تو ایسے نہ تھے

 توڑ  ڈالا  زندگی  بھر ساتھ دینے کا بھرم

ہوئے وہ عہد و پیماں آپ تو ایسے نہ تھے

میرے دل میں کچھ نہیں ہے بھول جائیں آپ بھی

کس لئے ہیں اب پشیماں آپ تو ایسے نہ تھے

آپ کے لب پر ہے آخر آج کیوں مُہرِ سکوت

سازِ دل پر تھے غزلخواں آپ تو ایسے نہ تھے

کیف و سرمستی کا ساماں آپ تھے میرے لئے

مثلِ آئینہ ہیں حیراں آپ تو ایسے نہ تھے

 کچھ بتائیں تو سہی اِس بدگمانی کا سبب

 کیوں ہیں اب برقیؔ سے نالاں آپ تو ایسے نہ تھے

 

غزل کے روایتی موضوعات سے احتراز کے علاج کا دوسرا عنصر برقیؔ صاحب کی وہ کوشش ہے جو ہر مضمون،ہر بیان اور ہر جذبہ کو ایک شخص واحد کے حوالے سے پیش کرتی ہے۔ یہ شخص واحد خود برقیؔ صاحب ہیں۔ ان کی بیشتر غزلوں کا مرکزی کردار خود اُن کی ذات ہے۔ اگر یہ نکتہ ذہن میں رکھ کر اُن کے کلام کا مطالعہ کیا جائے تو یہ ظاہر ہو جائے گا کہ ان کی غزل انھیں کی شخصیت کے اِردگرد گھومتی ہے اور اس کا ظاہر و باطن انھیں کی ہستی ہے۔ کیا برقیؔ صاحب اپنی غزل کو اس کی روایت سے الگ کر کے ان کوششوں سے ایک نیا روپ یا آہنگ دے سکے ہیں ؟ یہ مسئلہ غور و فکر کا طالب ہے۔ اس تناظر میں ’’روح سخن ‘‘ کا مطالعہ دلچسپی سے یقیناً خالی نہیں ہے۔ 

برقیؔ صاحب کا رنگ تغزل ان کی چھوٹی بحر کی غزلوں میں نکھر کر ظاہر ہوتا ہے۔ انہیں کم سے کم الفاظ میں اپنا مطلب بیان کرنے کا ہنر بخوبی آتا ہے۔ چونکہ موصوف نے فارسی زبان میں ڈاکٹریٹ کی ہوئی ہے اس لئے انہیں فارسی پر عبور حاصل ہے اور وہ تراکیب کے استعمال سے پوری طرح فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اور اُٹھاتے بھی ہیں۔ فارسی کی استعداد سے وہ مزید کام لے سکتے تھے لیکن ان کی چھوٹی بحر کی غزلوں میں تراکیب کم ہی نظر آتی ہیں۔ اس کی وجہ بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ برقیؔ صاحب نے ایسی غزلوں میں خود کو آسان اور سامنے کے مضامین تک محدود رکھا ہے۔ وہ ایسے مضامین کو باندھنے پر مجبور بھی ہیں کیونکہ غزل کے عام اور معروف مضامین سے تقریباً مکمل پرہیز نے ان پر مضامین کا میدان بہت تنگ کر دیا ہے۔ غزل میں روایتی مضامین کا ایک عظیم ذخیرہ موجود ہے اور شاعروں کی بڑی اکثریت انہیں اپنے اپنے انداز میں باندھ کر اپنی غزل کے دامن میں وسعت پیدا کر لیتی ہے۔ برقیؔ صاحب کے یہاں مضامین کی یکسانیت نظر آتی ہے جو بعض اوقات قاری کی عدم توجہ اور عدم دلچسپی کا سبب بن جاتی ہے۔ مضامین کی اس یکسانیت کے باوجود شاعر موصوف جا بجا اپنی شعر گوئی کی خداداد صلاحیت سے جذبات کا جادو جگاتے ہیں۔ سیدھے سادے انداز میں گہری بات کہہ دینا اور آسان اور عام فہم الفاظ میں قاری کے دل کو چھو لینا آسان کام نہیں ہے۔ برقیؔ صاحب یہ ہنر خوب جانتے ہیں۔ چھوٹی بحروں کے درج ذیل چند اشعار ان کی قادرالکلامی کی دلیل ہیں …

 

دل کی ویرانی کبھی دیکھی ہے کیا

یہ پریشانی کبھی دیکھی ہے کیا

میری چشم نم میں جو ہے موج زن

ایسی طغیانی کبھی دیکھی ہے کیا

آئینہ میں شکل اپنی دیکھ کر

ایسی حیرانی کبھی دیکھی ہے کیا

رسم الفت کو نبھا کر دیکھو

دل سے اب دل کو ملا کر دیکھو

جو تمہیں ہم سے  الگ کرتی ہے

تم وہ دیوار گرا کر دیکھو

بوجھ ہو جائے گا دل کا ہلکا

خود ہنسو اور ہنسا کر دیکھو

بدگمانی کا نہیں کوئی علاج

ہم کو نزدیک سے آ کر دیکھو

میں نہ آؤں تو شکایت کرنا

پہلے تم مجھ کو بلا کر دیکھو

کیوں ہو برقیؔ سے خفا کچھ تو کہو

تم اسے اپنا بنا کر دیکھو

 

بہت رفتار تھی یوں تو ہوا کی

مری شمعِ وَفا پھر بھی جلا کی

 

میں جس سے کر سکوں عرض تمنا

ضرورت ہے اُسی درد آشنا کی

 

ہے شیوہ جس کا برقیؔ بے وفائی

توقع اس سے کیا  مہر و وَفا کی

 

دیدہ و دل ہیں فرشِ راہ مرے

تجھ کو بھی انتظار ہے کہ نہیں

مجھ سے باتیں اِدھر اُدھر کی نہ کر

یہ بتا مجھ سے پیار ہے کہ نہیں

منتظر کب سے ہے ترا برقیؔ

تجھ کو کچھ پاسِ یار ہے کہ نہیں

 

جہاں فطرت فیاض نے برقیؔ صاحب کو ذوق سلیم اور طبع موزوں سے متصف کیا ہے وہیں انہیں زود گوئی کی صلاحیت بھی عطا کی ہے۔ برقیؔ صاحب کی شعر گو ئی بھی ان کے تخلص کی مناسبت سے برق رفتار ہے۔ وہ شعراس قد ر تیزی سے کہتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ  ’’فی البدیہہ مشاعروں ‘‘میں اکثر شرکت کرتے ہیں اور سب سے پہلے غزل کہہ کر ہاتھ جھاڑتے ہوئے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ برسو ں کی مشق کے بعد اب ان کی زود گوئی کی یہ کیفیت ہے کہ برقیؔ صاحب کے یہاں وقت، موقع، تقریب، جشن، محفل کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔کوئی تقریب یا محفل ہو، کیسا ہی موقع یا جشن ہو وہ جب چاہیں،جس وقت چاہیں، جس قدر چاہیں اور جس موضوع پر چاہیں فی البدیہہ ایک شعر کے بعد دوسرا شعر بلکہ پوری پوری غزلیں یا طویل نظم کہنے پر مکمل قدرت رکھتے ہیں۔یہ کہنا بالکل  درست ہے کہ اب شعر گوئی ان کی عادت میں داخل ہو گئی ہے اور ان کے لئے شعر کہنا یا کوئی واقعہ یا حادثہ نظم کرنا نثر لکھنے کے مقابلہ میں بدرجہا آسان ہے۔ چنانچہ ان کے پاس ’’موضوعاتی شاعری‘‘ کا ایک ایسابہت بڑا ذخیرہ جمع ہو گیا ہے جو انہوں نے اپنے اردگرد کے حالات و واقعات کے انگیز کرنے پر کی ہے۔ اس شاعری میں سیاسی، سماجی، مذہبی،اخلاقی غرضیکہ ہر موضوع پر چھوٹی یا بڑی نظم یا قطعہ نہایت چابک دستی اور شستگی سے نظم کیا گیا ہے۔ ان کی اس موضوعاتی شاعری کا ایک حصہ زیر نظر کتاب ’’روحِ  سخن‘‘ میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اتنے مختلف اور متنوع موضوعات پر یہ منظومات برقیؔ صاحب نے بلا تکان و تکلف کہی ہیں اور یہ ان کے فن کا کمال کی مکمل عکاسی کرتی ہیں۔ موضوعاتی شاعری نہ صرف یہ کہ آسان نہیں ہے بلکہ یک گونہ خطرناک بھی ہے کیونکہ ذرا سی لا پروائی یا تساہلی سے موضوعاتی شاعری رنگ بدل کر’’ فضولیاتی شاعری‘‘ بن سکتی ہے۔ برقیؔ صاحب جس طرح اس خطرے سے دامن بچا کر نکل گئے ہیں اس سے ان کی دقت نظر اور شاعرانہ مہارت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔

یہاں زود گوئی کے حوالے سے چند باتیں کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ زود گوئی صرف ایک قسم کی نہیں ہوتی۔ ایک زود گوئی تو وہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے غزل کے مضامین میں گہرائی اور گیرائی کم ہو جاتی ہے، اشعار میں زبان و بیان و مضامین کی یکسانیت دَر آتی ہے اور بعض اوقات کسی غزل پر یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ اس سے قبل نظر سے گزر چکی ہے۔ ایسی زود گوئی سے دامن بچانا مشکل ضرور ہے لیکن ایک ماہر اور صاحب فن شاعر کے لئے نا ممکن نہیں ہے۔ برقیؔ صاحب کی یہ زود گوئی اختیاری ہے۔ وہ حسب فرمائش جب کہئے ہر موضوع پر داد سخن دے سکتے ہیں اور دیتے ہیں۔ اُن کی زود گوئی ان کی غزل گوئی میں بھی دَر آئی ہے چنانچہ کئی زمینوں میں برقیؔ صاحب نے دو غزلے کہے ہیں۔ ویسے بھی ان کی عام غزل خاصی طویل ہوتی ہے۔اختیاری زود گوئی میں ایک بڑا  نقص یہ ہوتا ہے کہ بسا اوقات اس کے ساتھ بسیار گوئی کا لاحقہ بھی لگا ہوتا ہے گویا زود گو ئی اور بسیار گوئی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔جو شاعر زود گو ہو گا وہ تقریباً ً ہمیشہ بسیار گو بھی ہوتا ہے۔ زود گو شاعر شعوری طور پر اگربسیار گو نہ بھی ہو تو غیر شعوری طور پر اس کی زود گوئی اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ شعر کے بعد شعر کہتا جائے گویا اس کی زود گو طبیعت شعر گوئی کا جو سوتا کھول دیتی ہے وہ  فطری طور پر ایک دریا میں تبدیل ہو سکتا ہے اور شاعر اس میں بہنے کے لئے خود کو مجبور پاتا ہے۔ بذات خود نہ تو زود گوئی میں کوئی برائی ہے اور نہ ہی بسیارگوئی کوئی عیب ہے۔ البتہ زود گوئی تو  خطرناک نہیں ہوتی لیکن بسیار گوئی تقریباً  ہمیشہ ہی خطرناک ہوتی ہے کیونکہ بسیار گو شاعر اپنی دھُن میں سامنے کے مضامین اور اچھے مضامین میں تمیز نہیں کر سکتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اس کی شاعری بھرتی کا شکار ہو کر رہ جاتی ہے۔

زود گوئی کی دوسری قسم غیر اختیاری ہے۔ اس کو علامہ اقبالؔ کی شعر گوئی کے حوالے سے واضح کیا جا سکتا ہے۔ علامۂ موصوف کی شعر گوئی کے بارے میں بانگ دِرا کے دیباچہ نگار جناب شیخ عبدالقادر نے اپنے دیباچے میں لکھا ہے کہ…

’’(اقبالؔ ) شعر کہنے کی طرف جس وقت مائل ہوتے تو غضب کی آمد ہوتی تھی۔ ایک ایک نشست میں بے شمار اشعار ہو جاتے تھے۔ ان کے دوست اور بعض طالب علم جو پاس ہوتے پنسل کاغذ لے کر لکھتے جاتے اور وہ اپنی دھُن میں کہتے جاتے۔ میں نے اس زمانے میں انھیں کبھی کاغذ قلم لے کر فکر سخن کرتے نہیں دیکھا۔ موزوں الفاظ کا ایک دریا بہتا یا ایک چشمہ اُبلتا محسوس ہوتا تھا۔ ایک کیفیت رِقّت کی عموماً ان پر طاری ہوتی تھی، اپنے اشعار سُریلی آواز سے ترنم میں پڑھتے تھے، خود وجد کرتے اور دوسروں کو وجد میں لاتے تھے۔‘‘  آگے چل کر شیخ صاحب مزید لکھتے ہیں کہ ’’بایں ہمہ موزونی طبع وہ (اقبالؔ )حسب فرمائش شعر کہنے سے قاصر ہے۔ جب طبیعت خود مائل بہ نظم ہو تو جتنے شعر چاہے کہہ دے، مگر یہ کہ ہر وقت اور ہر موقع پر حسب فرمائش وہ کچھ لکھ سکے یہ قریب قریب ناممکن ہے۔‘‘

علامہ اقبالؔ کی زود گوئی غیر اختیاری تھی یعنی وہ ایک قسم کی کیفیت قلب تھی جو اُن پر کسی کسی وقت طاری ہو جاتی تھی۔ ان کے لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ جب چاہیں یہ کیفیت اپنے اوپر طاری کر لیں اور شعر کہنا شروع کر دیں۔ کسی دوست یا عزیز کی فرمائش پر غزل یا نظم کہنا اُن کے لئے تقریباً ً نا ممکن تھا۔ دوسرے الفاظ میں ہم غیر اختیاری زود گوئی کو آمد کہہ سکتے ہیں۔ 

یہاں کسی سطح پر بھی علامہ اقبالؔ اور برقیؔ صاحب کا تقابلہ مطلق مقصود نہیں ہے بلکہ زود گوئی کی مختلف قسموں کی نشاندہی اور شناخت دکھانا منظور ہے اور اس کوشش کا مقصد بھی برقیؔ صاحب کی غزل گوئی کے رموز و نکات کو واضح کرنا اور اُن پر دیانتداری سے اظہار خیال ہے۔ ادبی تنقید ایک صحت مند عمل ہے اور اس سے کسی کی تنقیص کبھی مقصود نہیں ہوتی۔ یہاں بھی یہی ادبی محرک کار فرما ہے۔ 

’’روح سخن‘‘  اپنی جملہ خوبیوں کی وجہ سے دُنیائے اُردو میں تحسین کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ نگاہ نکتہ چیں کو اس میں ایسے مقامات بھی نظر آئیں گے جن کی اصلاح کتاب کو بہتر بنا سکتی تھی لیکن یہ تو ہر انسانی کوشش کے ساتھ پیش آتا ہے۔ اس کیفیت کی ایک صورت کی جانب مختصر اشارہ کرنے میں ہرج نہیں ہے۔ شعر کو شاعر کی معنوی اولاد کہا جاتا ہے اور ہر شاعر کو اپنا کلام عزیز ہوتا ہے۔ اس کے لئے اپنے پورے کلام میں سے بہتر کلام کا انتخاب کرنا کسی آزمائش سے کم نہیں ہوتا کیونکہ اس کام میں ایک شعر کو دوسرے پر ترجیح دینی ضروری ہے۔ یہ کلیہ برقیؔ صاحب پر بھی صادق آتا ہے۔ وہ بھی ’’روح سخن‘‘ کی ترتیب و ترویج میں خود احتسابی کے صبر آزما مرحلے سے ہمیشہ کامیابی سے نہیں گزر سکے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ کتاب کی اشاعت کے لئے غزلوں کے انتخاب میں خود احتسابی کا سخت ترین معیار اختیار کرتے اور اس طرح اس کا معیار بلند کرتے۔لیکن وہ ہمیشہ ایسا نہ کر سکے ہیں چنانچہ دو چار مقامات پر ان کی غزلوں میں ایسے اشعار دَر آئے ہیں جو معیار کے لحاظ سے بہت کمزور ہیں۔ اچھی خاصی غزل میں ایسے اشعار قاری کے لئے ایک لمحۂ فکریہ بن جاتے ہیں۔ چند مثالیں دیکھئے…

دیارِ شوق میں تنہا بلا کے چھوڑ دیا

حسین خوابِ محبت دکھا کے چھوڑ دیا

کیا تھا وعدہ نبھانے کا رسم الفت کا

دکھائی ایک جھلک مسکرا کے چھوڑ دیا

’’رہا نہ گھر کا بالآخر نہ گھاٹ کا برقیؔ ‘‘

وہ آزماتا رہا، آزما کے چھوڑ دیا

 

مقطع کے پہلے مصرع کے صحیح سیاق وسباق کو ذہن میں رکھا جائے تو اس کا جواز غزل میں نظر نہیں آسکتا۔ زیادہ حدِ اَدب! اگلی مثالوں میں بھی قابل غور حصہ کو ’’……‘‘ سے مقید کر دیا گیا ہے۔

 

دَرِ دل کھلا ہے چلے آئیے

یہ بے جا تکلّف نہ فرمائیے

میں ہوں آپ کو دیکھ کر دم بخود

کہاں ہوں مجھے خود سے ملوائیے

’’ضیافت کے ساماں ہیں سب آپ کے

جو جی چاہے وہ پیجئے کھائیے‘‘

 

جلوہ گاہ خوباں میں جب کبھی وہ آتے ہیں

بارِ ناز سب ان کا شوق سے اُٹھاتے ہیں

دل پہ اہل دل کے وہ بجلیاں گراتے ہیں

زیر لب ہمیشہ وہ جب بھی مسکراتے ہیں

’’دو ہزار گیارہ تھا جیسے وعدۂ فردا‘‘

سالِ نو میں بھی دیکھیں کیا وہ گل کھلاتے ہیں

 

 برقیؔ صاحب کے یہاں اچھے اشعار کی کمی نہیں ہے۔ ان سے موصوف کی شاعری کا حسن مزید بڑھ گیا ہے۔ اگر وہ اپنے کلام کے حق میں جذباتیت سے کام نہ لیتے تو اس حسن و قیمت میں اور بھی اضافہ ہوتا۔ بایں ہمہ برقیؔ ؔ صاحب کی شاعری ایک حساس صاحب دل اور ماہر فن کی شاعری ہے۔ اُردو شاعری میں  برقیؔ صاحب نے اب تک جو مقام حاصل کیا ہے مستقبل میں اس میں ترقی یقینی ہے۔اس ضمن میں ہماری دُعائیں اور نیک تمنائیں ان کے ساتھ ہیں۔درج ذیل اشعار موصوف کی مہارت سخن اور صلابت فکر کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں …

نہ تو ملتا ہے وہ مجھ سے، نہ جدا ہوتا ہے

کچھ سمجھ  میں نہیں آتا کہ یہ کیا ہوتا ہے

 

جب نہیں دیتا دَرِ دل پہ وہ دستک برقیؔ

کیا بتاؤں میں تمھیں ایسے میں کیا ہوتا ہے

 

 جاتا ہے مجھ کو چھوڑ کے اے بے خبر کہاں

’’تیرے بغیر رونقِ دیوار و دَر کہاں ‘‘

 

پھر وہی شدتِ جذبات کہاں سے لاؤں

جیسے پہلے تھے وہ  حالات کہاں سے لاؤں

 

منتشر ہو گئے اَوراقِ کتابِ ہستی

ساتھ دیتے نہیں حالات کہاں سے لاؤں

 

داستاں ایسی ہے جس کا نہیں عنواں کوئی

مجھ سا دُنیا میں نہیں بے سر و ساماں کوئی

 

سوچتا ہوں کچھ کہوں، پھر سوچتا ہوں کیا کہوں

اپنے آگے وہ کسی کی مانتا کچھ بھی نہیں

 

’’روحِ سخن‘‘  اُردو غزلیہ شاعری میں ایک بیش بہا اضافہ ہے۔ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ برقیؔ صاحب کی شاعری غزل میں نئے تجربوں کی طرف اچھی پیش قدمی ہے۔ ان کا اگلا قدم شاید اس شعور معرفت کی اگلی منزل کی طرف بڑھے گا جس کا انہوں نے اپنے اس خوبصورت شعر میں اشارہ کیا ہے۔ برقیؔ صاحب کی یہی موجودہ خودشناسی اُردو شاعری میں ان کے مقام کی ضامن ہو گی۔

شعورِ معرفت مضمر ہے برقیؔ خود شناسی میں

’’خودی کا راز داں ہو جا، خدا کا ترجماں ہو جا‘‘

٭٭٭

 سرور عالم راز سرورؔ

۱۲۲۰۔اِنڈین رَن ڈرائیو، نمبر۔۱۱۶

کیرلٹن، ٹیکساس۔

(امریکہ)

’’روحِ سخن‘‘

’’روحِ سخن‘‘ ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی کا مجموعۂ کلام ہے، جس میں روایتی اسلوبِ اظہار کی جملہ پاسداری کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے قوتِ اظہار کو یوں بروئے کار لایا گیا ہے کہ قاری دورانِ مطالعہ ایک ایسے پر کیف جہانِ لفظ و معانی میں جا نکلتا ہے، جس میں عصری رجحانات سے ہم آہنگی اور تجربے کی آنچ مذاقِ سلیم پر ایک مستی کی سی کیفیت طاری کر دیتی ہے۔ کمالِ معاملہ بندی کے ساتھ ساتھ نکتہ آفرینی،بلاغتِ کلام، گوہر باریِ قلم ندرتِ بیاں اور الفاظ کی موزونیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاعر اپنی قادرالکلامی کا آئینہ لیے بڑی کامیابی سے فکرِ دوراں و غمِ جاناں کے دلسوز مناظر کی عکس بندی میں سرگرمِ عمل ہے۔

جملہ محاسنِ شعری میں یعنی جدتِ تخّیّل، جدتِ طرازیِ ادا، ندرتِ افکار اور دیگر اوصاف کو قدرتی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کلام میں ایک مخصوص سحرانگیز جاذبیت سرائیت کر گئی ہے، اور وہی نقطۂ   نظر جو اُردو کے ادبِ عالیہ میں مروج رہا ہے، اسی کی طرف شاعر کا جھکاؤ ہے۔

آپ ہیئت اور موضوع دونوں اعتبار سے روایت کا دامن تھامے دکھائی دیتے ہیں، مجاز سے حقیقت کی جہت میں سفر اُردو شاعری کی پہچان رہی ہے، اسی لیے شاعر کا ذہن بھی اسی حقیقت کو موضوعِ اظہار بناتا ہے، اور یوں اسالیبِ بیاں نئی مگر تعجب انگیز اختراعات کو قصرِ غزل کی زینت بناتا ہے۔

مجموعۂ کلام میں مسلسل اور مربوط انداز کا کلام اپنی انفرادیت سے قاری کو قافیہ پیمائی کی سنگلاخ وادی سے روشناس نہیں کراتا بلکہ اعلیٰ تخیلاتی غنائیت و لطیف نکتہ آفرینی کے حسنِ لازوال سے ہمکنار کرنے کا اہتمام گر ہے، حسرت کی طرح عشقیہ تصورات میں جذبہ کی پاکیزگی کے ساتھ گہرائی اور گیرائی بھی ملتی ہے، غمِ جاناں اور سیاسی و معاشرتی تقاضے کلام میں فلسفیانہ فکری اُپج کی نشاندہی کر رہے ہیں۔

غرض دلفریبیِ کلام اور مضمون آفرینی نے غزل کی خوابیدہ روح کو بیدار کر دیا ہے، یعنی بساط شعر و ادب پر پُرسوز اور درد مند دل کی آواز کو شگفتہ و اثر انگیز اُسلوبِ سخن آراستہ کر کے قدیم و جدید نظامِ  فکر کے تقاضوں کے عین مطابق عہدِ حاضر کے پیچیدہ سماجی مسائل کا احاطہ کرتے ہوئے حسنِ غزل کو نہ صرف دو آتشہ کیا ہے بلکہ فنی مہارت اور اُستادانہ چابک دستی سے اسے حیاتِ نو بخش دی ہے۔

یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ’روحِ سخن ‘اربابِ نقد و نظر سے بھر پور خراجِ تحسین حاصل کرے گی، میں اس دلپذیر مجموعہ کلام کی اشاعت پر جناب ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی کو نیک خواہشات اور مبارکباد پیش کرتا ہوں۔میری دعا ہے کہ یہ کتاب اس شاعرِ پر خلوص اور نہایت ہی نیک دل انسان کے لیے ’’برقیات‘‘ کے باب میں ہزاروں نئی کامیابیوں کا م پیش خیمہ ثابت ہو۔ آمین

٭٭٭

 مظفر احمد مظفر

انگلینڈ

احمد علی برقیؔ اعظمی اور اُن کی شاعری

ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی کی سحرانگیز شخصیت ایسی ہے کہ جو بھی ان سے ایک دفعہ مل لے ان کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ ان سے پہلی ملاقات آل انڈیا ریڈیو میں مدن کے چائے خانے پر ہوئی تھی۔ شاید صبح کے سوا چھ بج رہے تھے۔ ان دنوں میں وہاں اُردو یونٹ میں Casual News Reader تھا۔ میرے یونٹ کے ایک سینئر ساتھی نے ان سے میرا تعارف کرایا۔ انھوں نے میری تعلیم کے متعلق پوچھا۔میں نے  جے۔ این۔ یو۔ کا نام لیا تو انھوں نے فرط مسرت سے گلے لگا لیا اور کہا کہ میں بھی جے۔ این۔ یو۔ کا طالب علم ہوں۔ انھوں نے اپنے تعلیمی دور کے کئی قصے بھی سنائے۔ مجھے اس دن ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ عام سا نظر آنے والا سادگی  پسند شخص مشہور و معروف شاعر برقیؔ اعظمی ہے۔ جو اپنے انداز و اظہار کا یکتا شاعر ہے۔ ان سے بعد میں بھی لگاتار ملاقاتیں ہوتی رہیں اور ان کے شاعرانہ جوہر مجھ پر آشکارا ہونے لگے۔ احمد علی برقیؔ اعظمی کو موجودہ دور میں بلاشبہ عہدساز شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔ان کی شاعری میں جہاں جدید شاعری کا عکس نظر آتا ہے وہیں کلاسیکی نقوش بھی واضح طور پر موجود ہیں۔ میرے خیال میں موجودہ عہد میں یہ واحد ایسے شاعر ہیں جو کسی بھی موضوع پر یا کسی بھی موقع محل کی مناسبت سے فی البدیہہ اشعار وضع کرسکتے ہیں۔ موضوعاتی شاعری اور مصرع طرح پر شعر موزوں کرنا بے حد مشکل کام ہے اور اس میں شاعر کو شاعری کے فن سے انصاف کرنے میں مشکل پیش آتی ہے لیکن احمد علی برقی اس معاملے میں قابل تعریف ہیں کہ ان کی شاعری فن کی سطح پر بھی کھری اترتی ہے۔

برقیؔ اعظمی کو شاعری اپنے والد رحمت الٰہی برقؔ اعظمی سے ورثے میں ملی ہے جو خود بھی بڑے شاعر تھے۔ برقیؔ اعظمی اُردو کے ساتھ ساتھ فارسی پر بھی دسترس رکھتے ہیں اور فارسی میں بھی عمدہ شاعری کرتے ہیں۔ ان کے اشعار میں ایک خاص ندرت و جدت نظر آتی ہے۔ موضوع کلام، بحور و قوافی، موضوع و خیالات، منظر نگاری، تشبیہات و استعارات کا عمدہ استعمال ان کی شاعری کو انفرادی حیثیت دیتا ہے۔ اوزان اور بحور کے انتخاب میں بالغ نظری اور فنی پختگی بدرجہ اتم موجود ہے۔ ان کے اشعار ان کی قادرالکلامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ عصری میلانات، نئی تازگی، والہانہ پن، سلاست روانی، الفاظ کا در و بست، اسلوب کی تازہ کاری وغیرہ ان کی شاعری کے امتیازی جوہر ہیں۔ شعر کو سنوارنے اور اسے خوبصورتی عطا کرنے کا    بے مثال فن انھیں آتا ہے۔

وہ ایک سدابہار اور ہمہ جہت تخلیق کار ہیں۔ برقیؔ اعظمی کو نہ صرف شعر و ادب کی تمام اصناف حمد، نعت، قصیدہ، منقبت، غزل، نظم وغیرہ پر دسترس حاصل ہے بلکہ آج  وہ شاید واحد شاعر ہیں جو انٹرنیٹ اور سوشل سائٹس کی مدد سے دُنیا کے مختلف حصوں میں معروف و مقبول ہیں۔ انٹرنیٹ پر مختلف ادبی گروپوں کے ممبر ہیں۔ سائبر مشاعرے منعقد کرتے ہیں اور جدید ٹکنالوجی کی مدد سے تمام احباب و سخن شناس ان کے اشعار و قطعات سے فیضیاب ہوتے رہتے ہیں۔

انھوں نے موضوعاتی شاعری کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ عظیم شخصیات کو منظوم خراجِ عقیدت پیش کرنا ہو، کسی خاص دن پر شعر کہنا ہو، کوئی تہوار ہو، کوئی حادثہ، واقعہ ہو، کسی رسالے کا خاص شمارہ ہو، کوئی کتاب ہو، انھوں نے سبھی کو اپنے منظوم کلام میں سمو کر دوام عطا کیا ہے۔

ان کے مجموعہ کلام ’’روح سخن‘‘ میں حمد و نعت، غزلیں اور یاد رفتگاں کے عنوان کے تحت آرزوؔ لکھنوی، علامہ اقبالؔ، اصغرؔ گونڈوی، فیض احمد فیضؔ، ابن صفی، ابن انشا، مجازؔ، کیفیؔ، مجروؔح وغیرہ شعرا و ادبا پر منظوم خراجِ عقیدت بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ کچھ فارسی کلام بھی شامل ہیں۔ ’’روح سخن‘‘ کا سرسری طور پر مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوا کہ ان کے کلام میں روایتی و قدیم شاعری کا عکس موجود ہے۔ یہی نہیں بلکہ کچھ اشعار تو ایسے ہیں جو ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں اور کئی دنوں تک ذہن میں گونجتے رہیں گے۔ ملاحظہ ہو…

کیا ملے گا اُجاڑ کر تم کو

دل کی دُنیا مرے بسی ہے ابھی

سکون قلب کسی کو نہیں میسر آج

شکست خواب ہے ہر شخص کا مقصد آج

 

کچھ نہ آئی کام میری اشک باری ہجر میں

سو صفر جوڑے مگر برقیؔ نتیجہ تھا صفر

 

وہ تو کہیے آ گیا احوال پرسی کے لیے

ورنہ اس کا ہجر تھا صبر آزما میرے لیے

 

رزم گاہِ زیست میں ہر گام پر خود سر ملے

راہزن تھے قافلے میں مجھ کو جو رہبر ملے

 

عمر بھر جن کو سمجھتا تھا میں اپنا خیرخواہ

آستینوں میں انھیں کی ایک دن خنجر ملے

المختصر یہ کہ احمد علی برقیؔ اعظمی موجودہ عہد کے ایک باصلاحیت اور باکمال شاعر ہیں۔ ’’روح سخن‘‘ کی اشاعت پر ڈھیر ساری مبارکباد، اُمید ہے کہ ان کا یہ مجموعہ کلام اُردو ادب میں بے پناہ مقبولیت حاصل کرے گا اور اُردو ادب کے ناقدین بھی اس عظیم شاعر کی جانب مزید توجہ دیں گے۔

٭٭٭

عبدالحئی

اسسٹنٹ ایڈیٹر، اُردو دُنیا،  ’’فکر و تحقیق‘‘ اور ’’بچوں کی دُنیا‘‘

قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان، نئی دہلی

تحسین و تبریک

ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی دہلی کے نامور، زود گو اور قادر الکلام شاعر ہیں۔ اگرچہ اُن کی شہرت و مقبولیت دلّی تک محدود ہے،دلّی ہی کی شعری و ادبی محفلوں میں وہ شریک ہوتے ہیں اور دلّی ہی اُن کا منصبی دائرۂ عمل بھی ہے، لیکن رسائل و جرائد میں آئے دن چھپتے رہنے اور انٹرنیٹ کی علمی و ادبی سرگرمیوں سے مسلسل وابستگی نے اُنھیں عالمی شہرت و ہر دلعزیزی عطا کر دی ہے۔

جناب برقیؔ اعظمی اُردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شعر گوئی کی بھرپور قدرت رکھتے ہیں۔ انھوں نے شعر و ادب سے غیر مشروط وابستگی، مسلسل مشق و ممارست اور غیر معمولی محنت و توجہ کی وجہ سے شعر گوئی کو اپنے لئے نہایت آسان بنا لیا ہے۔ وہ جب اور جس موضوع پر چاہیں، نظم لکھ سکتے ہیں او رجس سخت سے سخت طرحی مصرعے پر چاہیں، غزل کہہ سکتے ہیں۔ بلکہ بعض اوقات تو طرحی مصرعوں پر دو غزلہ اور سہ غزلہ کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اُنھیں یہ چیز اُن کے والد محترم، استادالشعراء حضرت برقؔ اعظمی سے ورثے میں ملی ہے، جو دبستانِ داغؔ دہلوی سے بھی تعلق رکھتے تھے اور دبستانِ ناسخؔ لکھنوی سے بھی۔ دونوں ہی دبستانوں کی کار فرمائی اُن کے اشعار میں ملتی ہے۔ وہ اپنے عہد کے جیّداساتذۂ فن میں شمار ہوتے تھے۔ دیارِ شبلیؔ و شفیقؔ کے درجنوں شعراء اُن کے دامن فیضؔ سے وابستہ تھے۔میں بھی اُن کے نیاز مندوں            

زیرِ نظر کتاب ’’روحِ سخن‘‘ جناب برقیؔ اعظمی کی غزلوں کا مجموعہ ہے۔ اس میں وہ غزلیں بھی ہیں جو انھوں نے دلّی یا بیرونِ دلّی کی ادبی انجمنوں اور بزموں کی طرف سے دئے گئے مصرعہ ہائے طرح پر کہیں اور وہ بھی جو انھوں نے اپنے ذوق و طبیعت کے مطابق یا مشقِ سخن کے طور پر کہیں۔اِن میں بڑی تعداد غالبؔ کی ہم طرح غزلوں کی ہے۔ جہاں انھوں نے غالبؔ کے مصرعوں پر کہا ہے،لفظیات سے بادی النظر میں قاری کو یہی گمان ہوتا ہے کہ وہ غالبؔ کی غزل پڑھ رہا ہے…

آشوبِ روزگار سے دامن دریدہ ہوں

گلزارِ زندگی کا گُلِ نارسیدہ ہوں

ناگفتنی ہے گردشِ دوراں کی شرحِ حال

سنتا نہیں جسے کوئی وہ نا شنیدہ ہوں

جناب برقیؔ اعظمی نئے عہد کے شاعر ہیں اور پوری تعلیم بھی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں ہوئی ہے، لیکن اُن کی علمی و ادبی تربیت کچھ ایسی ہوئی ہے کہ وہ کسی بھی سطح پر اپنی تہذیب و روایت سے دامن کش نہیں ہوتے۔ اُن کی غزلوں میں ہمیں وہی رنگ و آہنگ ملتا ہے جو داغؔ اور ناسخؔ کے دبستانوں کی شناخت تصور کیا جاتا ہے۔ بلاشبہ یہ سب اُن کے استاذ و مربی حضر برقؔ اعظمی کے فیضِ تربیت کا اثر ہے۔جب ہم روح سخن میں اس قسم کے اشار دیکھتے ہیں تو دامنِ دل کھنچتا ہوامحسوس ہوتا ہے اور ایک عجیب قسم کا کیف و سرور حاصل ہوتا ہے…

نقاب میں ہے اسے کیسے بے نقاب کروں

میں اُس کے جُرم کا کس طرح احتساب کروں

 

فضا تمام معطر ہوئی گلستاں کی

جدھر وہ کھول کے گیسوئے مُشکبار چلے

دیارِ شوق میں اپنا عجیب عالم تھا

کہ بار بار گرے، اُٹھ کے بار بار چلے

 

شعار اس کا ہمیشہ کر کے وعدہ بھول جانا ہے

کبھی کوئی بہانہ ہے، کبھی کوئی بہانہ ہے

 

کروں کب تک میں آخر اس کی یوں ہی ناز برداری

ابھی آیا ہے میرے پاس اور کہتا ہے جانا ہے

 

میں ظلم و جور کا کس طرح سدِ باب کروں

جواب دے کے اُسے کیسے لاجواب کروں

 

جو ہونا ہو گا، وہ ہو جائے گا بفضلِ خدا

میں اپنی نیند کو بے وجہ کیوں خراب کروں

 

بات جو اُن کے حُسن کی بزمِ سخن میں چَل گئی

میری جو کیفیت تھی وہ میری غزل میں ڈھل گئی

 

ہمیں ایک دوسرے پر اگر اعتبار ہوتا

مجھے اُس سے پیار ہوتا، اُسے مجھ سے پیار ہوتا

 

اگر اس کا علم ہوتا ہے شکار گاہ دُنیا

میں فریبِ رنگ و بو کا نہ کبھی شکار ہوتا

 

میں نے اختصار کا خیال رکھتے ہوئے،کسی خاص انتخاب کے بغیر اِدھر اُدھر سے سے یہ چند اشعار نقل کر دئے۔ آپ دیکھیں گے کہ اِن میں زبان و بیان کا رکھ رکھاؤ بھی ہے اور فنی و عروضی چابکدستی بھی، فکر و تخیُّل کی بلندی بھی ہے اور لہجہ و اسلوب کی شائستگی بھی اور غزل کی روایت کی پاسداری کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی سی معاملہ بندی بھی۔ یہی انداز اور یہی رنگ و آہنگ اُن کی تمام غزلوں میں ہے۔کہیں سے بھی دیکھئے ہر غزل کا معیار یکساں ہے۔ ہر شعر ’’کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا اینجاست‘‘ کا مظہر ہے۔ یہی ایک اچھے فنکار کا کمال ہے۔

جناب برقیؔ اعظمی میرے ممدوح زادے ہیں، وہ مجھے ہمیشہ عزیز ہیں۔اُن کی سخنوری میں مجھے ہمیشہ دلچسپی رہی ہے۔ میں انھیں اُن کے عظیم والد حضرت رحمت الٰہی برقؔ اعظمی کا حقیقی وارث بھی سمجھتا ہوں اور اُن کا شعری و فنی جانشین بھی۔ مجھے یقین ہے کہ اُن کا یہ شعری سفراسی طرح جاری رہے گا اور وہ اپنی صلاحیت اور ذہانت سے اس راہ میں خوب سے خوب تر کارنامے انجام دیتے رہیں گے۔ میں ’’روحِ سخن‘‘ کی اشاعت پر اُنہیں تہہِ دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں،اگلے مجموعے کا منتظر بھی ہوں۔

٭٭٭

 ڈاکٹر تابشؔ مہدی

برقیؔ اعظمی میری نظر میں

اعظم گڑھ کا شعری اُفق جن شعراء کی بدولت مطلع انوار بنا، اُن میں ایک اہم نام جناب رحمت الٰہی برقؔ اعظمی کا ہے۔ ان کی حیثیت محض ایک پرگو، قادر الکلام اور اعلیٰ پایہ کے قصیدہ گو اور بلند رتبہ غزل گو  ہی کی نہیں بلکہ اصلاً وہ ایک دبستان تھے۔ جس موضوع اور جس صنف سخن میں جب چاہتے، اشعار کی جھڑی لگا دیتے۔

برقؔ صاحب کی شعری کائنات میں ایسے اشعار، قطعات اور نعتیں بھی ہیں جن میں کسی میں لب سے لب نہیں ملتے تو کسی میں وہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن میں محض نیچے یا اوپر نقوط ہیں، اسی طرح ان کی ایک ایسی تخلیق بھی ہے جس میں مصرعہ اوّل سے مصرعہ آخر، دائیں بائیں کہیں سے آخر کے حروف ملائے جائیں تو صلو علیہ و آلہ برآمد ہوتا ہے۔ یہ سخنوری نہیں اقلیم سخن پر کشور کشائی ہے اور یہی وہ وراثت ہے جو ہمارے فاضل دوست ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی کے حصے میں آئی ہے۔

 ڈاکٹر احمد علی برقیؔ گزشتہ ۳۵؍برسوں سے اس طرح دادِ سخن دے رہے ہیں گویا دُنیا میں شاعری، سخنوری اور سخن آفرینی سے بڑھ کر کوئی اور چیز نہیں، اسے ہم ڈاکٹر احمد علی برقیؔ کی فطری طبع کا نام بھی دے سکتے ہیں، گویا وہ فطری شاعری ہیں۔ اپنے والد برقؔ اعظمی کی طرح یہ بھی بڑے زود گو بلکہ پر گو ہیں اور نت نئے موضوعات پر طبع آزمائی کر تے رہتے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے وہ موضوعاتی شاعری کر رہے ہیں۔ اس میں ان کے دو طرح کے اشعار خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ایک انہوں نے ادبا و شعرا اور ممتاز اہل قلم کی نگارشات کے تعارف و تحسین کو اپنے اشعار کا عنوان قرار دیا ہے اور دوسرے وہ جو اس سے بھی زیادہ اہم ہے، وہ ہے شخصی شاعری ہے۔ اُردو ادب کے گزشتہ اور موجودہ ارباب کمال کی شخصیت اور شاعری پر انہوں نے جو نظمیں کہی ہیں یا انہیں جو منظوم خراج عقیدت پیش کیا ہے گو اس سے پہلے بھی بعض شعرا نے اس میدان میں طبع آزمائی کی ہے مگر ان کی حیثیت کبھی کبھی اٹھنے والی موج دریا سے زیادہ نہیں۔ لیکن ڈاکٹر احمد علی برقیؔ صاحب نے اس میدان میں ایک تلاطم پیدا کر دیا ہے اور بلاشبہ سیکڑوں ادیب، شاعر، نقاد، مصنّفین اور محققین کی شخصیت کو اپنی شاعری کے سانچے میں ڈھال کر اُردو ادب میں ایک خوبصورت باب کا اضافہ کیا ہے۔ اسے ہم تاریخ ادب اُردو منظوم کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ ڈاکٹر برقیؔ صاحب کی موضوعاتی شاعری کو یکجا شائع کیا جائے تاکہ وہ انٹرنیٹ کی دُنیا سے ہٹ کر ان اہل نظر تک پہنچیں جن کی انٹرنٹ تک رسائی نہیں ہے۔

ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی نئی نسل کے اُن ممتاز شعراء میں ہیں جنہوں نے اُردو وفارسی، دونوں زبانوں میں اور مختلف اصناف میں دادِ سخن دی ہے۔ خاص طور سے ان کی اُردو کی غزلیہ شاعری میں جدید انداز اور کلاسیکل فضا نے ایک نئی روح پیدا کی ہے اور اسے انہوں نے بجا طور   پر ’’روحِ سخن‘‘ کا نام دیا ہے۔

’’روح سخن‘‘ ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی کی غزلوں کا پہلا مجموعہ ہے۔ یہ غزلیں مختلف حالات اور مختلف زبانوں میں کہی گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں عصری حسیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔غزل کے روایتی عناصر سے بنے غزل کے ہیولے میں عصری حسیت،قدیم شعراء کی بعض مشہور زمینوں میں ان کی غزلیں آسمان پر روشن ستارے کے مانند چمک و دمک بکھیر رہی ہیں۔ یقین ہے کہ ’’روحِ سخن‘‘ روح کی بالیدگی میں معاون ہوں گی۔

’’روحِ سخن‘‘ کی اشاعت پر ہم ڈاکٹر احمد علی کو دلی مبارکباد پیش کرتے ہیں اور دعاگو ہیں کہ جلد از جلد ان کے دوسرے مجموعہ ہائے نظم و غزل کی اشاعت کا سامان ہو جائے۔

٭٭٭

 ڈاکٹر محمد الیاس اعظمی

ایک ہمہ جہت شخص، ایک بے مثال فنکار

غالباً ۲۰۰۷ء کی بات ہے،اُردو بندھن ڈاٹ کام (جدّہ، سعودی عربیہ )کے ناظمِ اعلیٰ جناب سالم باشوار صاحب نے گو کہ پہلی بار کال کی تھی،لیکن یہ پہلی کال ہونے کے باوجود پہلی کال نظر نہیں آتی تھی، کیونکہ صاحبِ اُردو بندھن نے اپنی پہلی ہی کال میں ہم سے اِتنی طویل گفتگو فرمائی تھی،کہ گمان ہوتا تھا جیسے وہ ہم سے زمانۂ دراز سے رفاقت کے بندھن میں بندھے ہوئے ہوں۔گفتگو کا موضوع تھا:صرف اور صرف ’’اُردو اور اِس کا فروغ‘‘۔ دراصل سالم باشوار صاحب کا شمار اُردو کے اُن عشاق میں ہوتا ہے، جنہوں نے انٹرنیٹ پر خدمتِ زبان و ادب کی قسم کھا رکھی ہے۔ یہ وہ احباب ہیں جن کی خدماتِ اُردو کا ثانی بڑی مشکل سے ملتا ہے۔جب فیس بک سے لوگ ابھی مانوس بھی نہیں تھے، جیسا کہ آج نظر آتے ہیں، تبھی سے سالم باشوار صاحب نے بڑے اہتمام کے ساتھ اُردو بندھن ڈاٹ کام کے نام سے ایک عالمی محفل شعر و سخن کی سجا رکھی تھی،جہاں شعراء جوق در جوق حاضری دیتے، کلام پوسٹ کرتے اور اِس طرح داد و تحسین کا دو طرفہ دَور گرم رہتا، جو آج بھی جاری ہے۔اِس سائٹ پر ہماری شعری تخلیقات کے علاوہ ہماری نثر بھی شائع ہونے لگی۔ سا لم صاحب ہماری نثرنگاری سے بہت متاثر تھے اور یہی شئے اُن کے مذکورہ کال کا محرک بنی تھی۔چونکہ ہم بھی اِسی سائٹ کے ذریعہ انٹر نیٹ پر نئے نئے وارد ہوئے تھے، تو نئے میڈیا کے آداب سے ابھی ناواقف ہی تھے، چنانچہ اُردو بندھن پر ’’مصروفِ شعر و سخن فنکاروں ‘‘ سے ہمیں زیادہ واقف ہونے کا موقع نہیں ملا تھا۔سالم بھائی نے اپنی پہلی گفتگو کے دوران ہمیں سب سے پہلے جس شخصیت سے متعارف کرایا تھا اُن کا نام تھا… احمد علی برقیؔ اعظمی۔ موصوف کے فون نمبر سے بھی سالم بھائی نے یہ کہتے ہوئے واقف کرایا تھا کہ ہم اُن سے رابطہ کریں۔لیکن ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گیے تھے کہ ہم سے پہلے ہی برقی صاحب نے فون پر ہم سے رابطہ کیا تھا اورFirst Impression is The Last Impressionکی وہ کیفیت پیدا کر دی تھی کہ فی الواقع پہلی ہی ملاقات میں ہم اُن کے گرویدہ ہو گیے تھے، اور یہ گرویدگی اور یہ Imprassion تا حال برقرار ہے اور اِنشاء اللہ جب تک جان رہے گی، رفاقت کا یہ تعلق برقرار رہے گا۔ پہلی ہی ٹیلیفونک گفتگو میں ہمیں یہ احساس ہو گیا تھا کہ ایک نہایت ہی نفیس انسان ہمارے حلقۂ احباب کا حصہ بن گیا ہے اور جس کی رفاقت پر بجا طور پر ناز کیا جا سکتا ہے۔

۲۰۱۰ء کے اوائل میں ’’مشرقی ادیان اور اِسلام‘‘ کے موضوع پر دہلی میں ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی تھی،جس میں ہم نے بھی اپنا مقالہ پیش کیا تھا۔ اِس موقع پر وہ ہماری قیام گاہ پر تشریف لائے اور یہی ہماری پہلی ملاقات تھی اور جب تک دہلی میں ہمارا قیام رہا، اُن سے ملاقاتیں اور گفتگوئیں ہوتی رہیں۔ وہ اپنے دولت کدے پر بھی لے گئے، اپنی کتابیں عنایت کیں اور ہماری خوب مہمان نوازی فرمائی۔ اِس سارے عرصے میں اُن کی یادوں کا جو پیکر قلب و ذہن میں اُتر آیا تھا، وہ بالکل وہی تھا جو ملاقات سے پہلے بنا ہوا تھا۔یعنی ایک شریف النفس انسان کا پیکر، جو اُس تصو ّری پیکر کے عین مطابق تھا جو ہمارے مذکورہ پہلے Impression کے وقت وجود میں آیا تھا۔ اُن کے مزاج کی سادگی اور اُن کے محبانہ سلوک کی گرمی کو قریب سے محسوس کرنے کا موقع ملا۔اُ ن کی عطا کردہ کتابوں میں اُن کے والد محترم کا ضخیم مجموعۂ کلام بھی تھا، جسے دیکھ کر بے ساختہ علامہ اِقبالؔ علیہ رحمہ کا یہ شعر ہماری زبان پر جاری ہو گیا…

باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو

پھر پسر وارثِ میراثِ پدر کیوں کر ہو

…اور تب کہیں جا کر اُن کی زبان دانی اور زود گوئی،کئی زبانوں پر اُن کا عبور، خصوصاً فارسی زبان سے اُن کا شغف، اُن کی متنوع شعری اور ادبی مصروفیتوں کے راز پر سے پردہ اُٹھ گیا اور یہ حقیقت کھل کر سامنے آ گئی کہ ایک باکمال بیٹا اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کے ذریعہ ایک ذی مرتبت فنکار باپ کی فکری و علمی وراثت کی ہرشق کو ازبر کیے ہوئے، اُن کی روایتوں کا پاسدار اور میراث پدر کا وارث بنا ہوا ہے، اور چونکہ وہ خود بھی بے پناہ شعری صلاحیتوں سے نوازا گیا ہے۔ چنانچہ اُس کی شعری و علمی گل افشانیاں محض اُس کے ذاتی تسکین کا سامان ہر گز نہیں ہیں،بلکہ وہ اِسی علمی و ادبی وراثت کو آگے بڑھانے میں مصروف ہے۔ دریں اثنا انٹرنیٹ کے لیے اُن کا مثبت Aptitude یا رجحان وہ کام کر گیا کہ حضرت برقیؔ، برقی لہروں کے دوش پرسوار ہوکر مذکورہ وراثت کے ساتھ دُنیا کے اُن گوشوں میں پہنچ گئے، جہاں اُردو ادب کی شمعیں اِن ہی روایات کے اُجالے پھیلانے میں مصروف ہیں اور برقیؔ صاحب جیسے صاحب فکر و فن کے استقبال کے لیے آنکھیں بچھائے کھڑی ہیں۔

جہاں تک اُن کی فکر ی جولانگاہ اور اِس کی وسعت کی بات ہے، تو جیسا کہ ہم نے عرض کیا،اِس کا دائرہ عالمی سطح تک پھیل گیا ہے اور فکر و فن کی مختلف جہتوں کے ساتھ وہ مصروفِ سخن نظر آتے ہیں۔آج دُنیا کی کوئی معروف آن لائن انجمن ایسی نہیں جہاں حضرتِ برقیؔ کی برق رفتار شاعری کی رسائی نہ ہوئی ہو۔ ایک طرف وہ ہر صنفِ سخن میں اپنی تخلیقیت کے کامیاب تجربے کرتے ہیں، تو دوسری طرف تازہ تخلیقات کو معرضِ وجود میں لانے کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ مثلاً کسی انجمن پر کسی مصرعِ طرح کا اعلان ہوتا ہے تو سب سے پہلی غزل برق رفتاری کے ساتھ کسی کی پہنچتی ہے تو وہ حضرتِ برقیؔ کی ہی ہوتی ہے۔کسی کتاب کی تقریبِ رونمائی ہو، کسی کتاب کا اجراء ہو رہا ہو تو برقیؔ صاحب کی رگِ سخن پھڑک جاتی ہے او ر کم از کم ۷؍ شعروں پر مشتمل منظوم خراج تحسین پیش کر ہی دیتے ہیں۔ خود بھی خوش ہوتے ہیں اور اپنے ممدوح کو بھی بے شمار خوشیاں عطا کر جاتے ہیں۔ 

’’یادِ رفتگان‘‘ کے ذیل میں تو اُنہوں نے وہ کارنامہ انجام دیا ہے کہ مرحومین کی روحیں تک فرحت محسوس کرتی ہوں گی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اِس ضمن میں اُنہوں نے قابلِ قدر و قابل تقلید مثالیں قائم کی ہیں۔ شعراء اور ادباء سمیت زندگی کے مختلف میدانوں میں مصروف مختلف Celebrities کی رحلت پر وہ ملول ہو اُٹھتے ہیں اور جب تک اُن پر تعزیتی نظم نہیں کہہ لیتے اُنہیں چین نہیں آتا۔ ایسا کرتے ہوئے وہ کسی قسم کی ذہنی تحفظات Bias کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ہر قسم کی شخصیت کو اپنا موضوعِ سخن بناتے ہیں۔ ایک طرف علامہ اِقبالؔ پر شعر کہتے ہیں تو دوسری طرف فلمی اداکار راجیش کھنہ کو بھی اپنے شعروں کا موضوع بناتے ہوئے کسی قسم کا تامل محسوس نہیں فرماتے۔

اِس سے نہ صرف اُن کی بے پناہ درد مندیِ اِنسانیت کا اِظہار ہوتا ہے، بلکہ وہ آرٹ اور فن کی دُنیا کے ہر فرد کے لیے اپنے دل میں قدردانی کے حقیقی جذبات کی پرورش کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ اِنسانیت نواز شاعر ہیں اور یہی اِنسانیت نوازی اُنہیں مولانا الطاف حسین حالیؔ کے ساتھ ایم۔ایف۔ حسین جیسے کسی مصور پر بھی شعر کہنے سے کبھی روک نہیں پاتی ہے۔ دراصل اِس کے لیے بڑی اعلیٰ ظرفی کی ضرورت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے اِس ظرفِ عالی سے برقیؔ صاحب کو خوب نوازا ہے۔ ایک ایسے زمانے میں جب ایک شاعر دوسرے شاعر کی ٹانگ کھینچنے سے کبھی نہیں ہچکچاتا، دوسروں کی شاعری کو ہدفِ ملامت بنانے سے ذرہ برابر نہیں چوکتا، اور صرف خود کو لوگوں کی توجہ کا مرکز بنانے کی فکر میں لگا رہتا ہے، ایسے میں برقیؔ صاحب جیسے اِنسان دوست شاعر کا وجود بسا غنیمت ہے، اور اِن کا یہ طرز عمل قابلِ ستائش ہی نہیں بلکہ قابلِ تقلید بھی ہے۔

یہ برقیؔ صاحب ہی کا ظرف ہے کہ وہ ایک طرف وہ فراقؔ گورکھپوری، نظیرؔ اکبرآبادی، ابن انشاء، اِظہارؔ اثر، علامہ اِقبالؔ، امیر خسروؔ، آرزوؔ لکھنوی، حفیظؔ میرٹھی، احمد فرازؔ، رحمت اِلٰہی برقؔ اعظمی، اصغرؔ گونڈوی، ناصر کاظمی، جوشؔ ملیح آبادی، دلاور فگارؔ، حسرتؔ موہانی، میر تقی میرؔ، مظہراِمام، راغبؔ مرادآبادی، صباؔ اکبرآبادی، عمر خیامؔ، عزم بہزاد، خواجہ الطاف حسین حالیؔ، مرزا غالبؔ، جیسے شعراء کو بعد از مرگ اپنا منظوم خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں، تو دوسری جانب فلمی شعراء جیسے کیفؔ بھوپالی، کیفیؔ اعظمی، مجروؔ ح سلطان پوری پر نظمیں کہہ کر ہمارے متذکرہ دعووں کا ثبوت پیش فرماتے ہیں۔ پھر یہ کہ وہ صرف شعر و سخن اور علم و ادب ہی کے میدانوں میں کام کرنے والوں کو یاد نہیں کرتے، بلکہ زندگی کے ہر میدان میں اپنی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے والے ’’فنکاران مرحومین‘‘ پر اُن کی موت پر منظوم شعری عقیدت کا اِظہار کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ فلمی اداکاروں، موسیقاروں، مصوروں اور غزل گائیکی کے شہسواروں کو بھی اپنی منظومات کا نذرانہ پیش کرتے ہیں، جیسے نوشاد علی، جانی واکر، راجیش کھنہ، محمد رفیع، جگجیت سنگھ، مہدی حسن، مقبول فدا حسین، منصور علی خان پٹودی۔ ہمارے بزرگ شعراء کو بھی وہ بھولتے نہیں ہیں، جیسے اسرار الحق مجازؔ، بابائے اُردو عبدالحق، پروفیسر مغنی تبسم، میر انیسؔ، مظفر رزمیؔ، مظفر وارثی، شہید اُردو نرائن پانڈے، پروفیسر وہاب اشرفی وغیرہ۔ یہاں تک کہ پڑوسی ملک پاکستان کے فنکاران معین اختر، پروین شاکر، مقبول صابری قوال، فیض احمد فیضؔ کو بھی یاد رکھتے ہیں۔ اِن کے علاوہ منشی پریم چند، نوحؔ ناروی، پروفیسر امیر حسن عابدی، ابوالکلام آزاد، امام غزالی، شبلیؔ نعمانی، سر سیّد احمد خان، سیّد صادقین نقوی، سعادت حسن منٹو، رضیہ بٹ، ہاجرہ مسرور، حکیم اجمل خان صاحب، مولانا انیس احمد اصلاحی، حیدر علی ریاستِ میسور کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ثابت کرتے ہیں کہ وہ وسیع الظرفی کی عظیم نعمتِ خداوندی سے نوازے گئے ہیں۔

وہ کسی کی ستائش بھی کرتے ہیں تو بہ زبانِ شعر کرتے ہیں۔ میں تو کہتا ہوں کہ اُن کی نس نس میں شاعری بھری ہوئی ہے۔ اُن کی رگِ سخن وقفے وقفے سے نہیں پھڑکتی، بلکہ وہ مسلسل حالتِ اِرتعاش میں رہتی ہے۔ پھر اُن کے مزاج کا یہ پہلو بھی نہایت شاندار ہے کہ اُنہوں نے کبھی کسی پر تنقید نہیں کی۔ نہ کسی فنکار کو دُکھ پہنچایا۔ ہر فنکار کا احترام کیا اور ستائش ہی سے نوازا۔ کسی کی تخلیق پرکمنٹس بھی دیے تو دل کھول کر تعریف کے ساتھ ہی دیے۔

ہم نمونۃً اُن کے کچھ تعزیتی شعر پیش کرتے ہیں۔ نشترؔ خیرآبادی کے بار ے میں جو نظم کہی، اُس کے یہ شعر ملاحظہ ہوں …

بادۂ عرفاں سے ہے سرشار اِن کی شاعری

رنگ میں ہے اُن کے فکر وفن کا دلکش اہتمام

اُن کی غزلیں بخشتی ہیں ذہن کو اک تازگی

دیتی ہیں وہ اہلِ دِل کو بادۂ عرفاں کا جام

 

مشتاق احمد یوسفی

اُردو ادب کو اُن پہ ہمیشہ رہے گا ناز

اُن کی نگارشات ہیں عالم میں انتخاب

گلہائے رنگا رنگ کی خوشبو سے جا بجا

ہے گلشنِ ادب میں معطر ہر اک کتاب

فرمان فتح پوری کی موت پر یہ شعر کہے…

 

ممتاز ہیں اُردو میں سب اُن کے ادب پارے

اس دور کی تھے عظمت فرمان فتحپوری

آیا ہے یہاں جو بھی جانا ہے اُسے برقیؔ

کیوں کرتے نہ پھر رحلت فرمان فتحپوری

کیفیتِ آمد سے مملو اِن اشعار سے یہ اندازہ کرنا کچھ مشکل نہیں کہ وہ ایسے شعر رسماً نہیں کہتے بلکہ اِن میں مکمل فنکارانہ خلوص کارفرما ہوتا ہے۔ بلاشبہ برقیؔ صاحب ایک زُود گو شاعر ہیں۔ اِن کا بس چلے تو گفتگو بھی شاعری میں کریں گے۔ بس کیوں نہیں چلے گا، بس تو ضرور چلے گا، لیکن اُن کا ساتھ دینے کے لیے اُن کا ہم پلہ اور زود گو شاعر کہاں سے آئے گا؟ اُن کی طرحی غزلوں، فی البدیہہ نعتوں، مختلف تہواروں، تاریخی ایام کے سلسلے میں اُن کی منظومات کا ایک دفتر ہے جو انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔ چونکہ وہ فارسی، اُردو اور انگریزی زبانوں پر مہارت رکھتے ہیں، اِس لیے اُنہوں نے منظوم تراجم بھی دُنیائے ادب کی خدمت میں پیش کیے ہیں۔ تعجب ہوتا ہے کہ اِس قدر شریف النفس شاعر و ادیب اِس دورِ بے ضمیر میں پیدا کیسے ہوا کہ اِتنی زبردست صلاحیتوں کے باوجود وہ اپنی سادہ مزاجی کے حوالے سے ایک لمحے کو بھی کسی کو یہ محسوس کرنے نہیں دیتا کہ وہ ایک عظیم شخصیت کا مالک عالمی شہرت یافتہ قلمکار و شاعر ہے، جس کے سینے میں ایک ایسا دھڑکتا دل ہے، جس میں انسانوں سے عموماً اور فنکاروں سے خصوصاً، التفات و اُلفت کا ایک ٹھاٹیں مارتا ہوا سمندر موجزن ہے۔

اِنٹرنیٹ اِس دور کے مثبت سوچ رکھنے والے تخلیق کار انسانوں کے لیے اللہ کا ایک انعام ہے، اور اُن ہی کے لیے انعام ہے، جن کے پاس عالمِ اِنسانیت کو دینے کے لیے ضرور کوئی نہ کوئی پیغام ہیَ۔ لیکن افسوس کہ ابھی یہ عام نہیں ہے۔ بہت کم شعراء ہیں جو اِس سے جڑے ہوئے ہیں۔ ممکن ہے ابھی دو دہے تو ضرور درکار ہوں گے جب اُردو کے باکمال فنکار اپنے فکر و فن سے عوام کو روشناس کرا نے کے لیے انٹرنیٹ کی دُنیا میں قدم رکھیں گے اور خود اپنے مقام و مرتبے کا ادراک کر پائیں گے۔ خوش نصیب ہیں وہ شعراء جنہیں فی زمانہ یہ موقع ملا ہوا ہے کہ وہ انٹر نیٹ کو اپنی شاعری و قلمکاری کے فروغ کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں۔ لیکن چونکہ یہ عام نہیں اِس لیے ہم سب ایک غیرمحسوس حقیقت کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں کہ انٹر نیٹ کے شعراء کو عالمی شہرت تو مل جاتی ہے، لیکن عوام میں پھر بھی وہ غیر مقبول ہو کر رہ جاتے ہیں۔ وہ تو کہیے کہ برقیؔ صاحب اور ہم جیسے شعراء کا شعری سفر انٹرنیٹ کی ایجاد سے پہلے بہت طویل عرصے سے جاری رہا ہے، تو بجا طور پر ہم پریہ بات یقیناً صادق نہیں آتی۔ ہاں، ہمیں اِس حقیقت کا اعتراف توہے کہ انٹرنیٹ ہماری شہرت سے زیادہ ہماری موجودہ شہرت کو چار چاند لگانے کا باعث ضرور بن گیا ہے۔

جہاں تک اُن کے فن اور اُن کی شاعری کی بات ہے تو الحمدللہ علم و ہنر کی کئی نامور شخصیتوں نے اِس فریضے کو خوب نبھایا ہے اور اُن کی شاعری پر سیر حاصل گفتگو اور اِظہار خیال کا حق ادا کر دیا ہے۔ اِس لیے ہم صرف اپنے اِن ہی تاثرات پر اکتفا کرنا چاہتے ہیں، جو گزشتہ سطور میں پیش کیے جا چکے ہیں اور دُعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ملت کے اِس عظیم شاعر کی عمر میں برکت عطا فرمائے اور اُس کے نقشِ قدم پر ہمیں بھی اپنے شعری سفر کی سمتیں متعین کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

٭٭٭

عزیز بلگامی

No. 43/373 First Floor

Bhuvaneshwari Nagar Main Road

Gopalappa layour, M K Ahmed Road,Kempapura Hebbal Post

BANGALORE - 560024 

Email: azeezbelgaumi@hotmail.com

برقیؔ اعظمی کی ’’روحِ سخن‘‘ پر میرے تاثرات

ڈاکٹر احمد علی برقیؔ صاحب کا بہترین مجموعۂ کلام ’’روحِ سخن‘‘ اپنی آب و تاب کے ساتھ منظرِ عام پر آ گیا ہے جو قابلِ دید بھی ہے اور قابلِ داد بھی۔جیسا کہ اس مجموعۂ کلام کے عنوان سے ظاہر ہے، بِلا شبہ یہ شعر و سخن کی روح ہے۔سمندر سے گہرا اور وسیع ۴۵۰ صفحات پر محیط یہ شعری مجموعہ تشنگانِ ادب کو اس کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہونے کی دعوت دے رہا ہے۔اِس کا ہر ہر شعر ایک سچے موتی کی طرح آب دار ہے۔ حمد، نعت اور غزلوں سے آراستہ ڈاکٹر برقیؔ اعظمی کایہ خوبصورت کلام اُردو ادب کا ایک بہترین اور بیش قیمت سرمایہ ہے جس کا اندازہ اربابِ بصیرت بخوبی کر سکتے ہیں۔حُسن و عشق، وصال و فراق، سوز و گداز،سیاست، ٹکنولوجی،آج کے حالات، اس دور کے عصری تقاضے اور زندگی کے جن موضوعات اور مسائل کو آپ نے اپنے جادوئی قلم کی نوک سے چھوا ہے اسے منور کر دیا۔جذبات، احساسات،خیالات، لفظیات اور نظریات کے ٹکسال میں ڈھلی ہوئی یہ بیش بہا دولت ایک حق پسند،خلوص کے پیکر اور ایک عظیم شاعر و مفکر کا سرمایۂ حیات ہے جو اپنے والدِ گرامی عظیم شاعر حضرت رحمت الٰہی برقؔ اعظمی کے نور چشم فرزند ہی نہیں، اپنے وطن عزیز اعظم گڑھ کے مایۂ نازسپوت ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کے ایک روشن چراغ ہیں جن کی روشنی ہندوستان سے باہر بھی اپنی آب  و تاب کے ساتھ پھیل رہی ہے اور ادبی دُنیا کے کونے کونے کو روشن کر رہی ہے۔

ڈاکٹر برقیؔ اعظمی کا بہترین کلام،اُن کا شعورِ فکر و فن،ان کی شخصیت و ذات و صفات، اُن کا علم و دانش، اُن کا اسلوب، اُن کی گہری فکر و نظر، اُن کی اعلیٰ ادبی شخصیت، اُن کی وسیع القلبی،اُن کی بلند نگاہ، اُن کی انسان دوستی، اُن کی اُردو کی خدمات ادبی دُنیا میں ایک ایسی نمایاں حیثیت رکھتی ہیں کہ جس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ ’’یادِ رفتگاں ‘‘ کے عنوان کے تحت ان کی نظموں کی مثال اُردو شاعری کی تاریخ میں کہیں نظر نہیں آتی۔ یادوں کی اس طرح بزم آرائی کا اہتمام کہیں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ اس بحرانی دور میں اُردو کی اس ڈوبتی ناؤ کے ناخدا بن کرجس ذمہ داری کو آپ نے نبھایا ہے وہ قابلِ تحسین ہے۔ علم و ادب کے دیوانے، شعر و سخن کے پروانے، آپ کی اس عظیم کاوش کے لئے آپ کو تہہِ دل سے داد اور مبارکباد دیتے ہیں اور آپ کو بصد احترام سلام کرتے ہیں۔ میں تو جناب ڈاکٹر برقیؔ اعظمی سے بس اتنا سوال کروں گا کہ جناب عالی! آپ کلام کہتے ہیں یا کمال کرتے ہیں ؟ اُن کے کلام کے میں کچھ نگینے پیش کر رہا ہوں تاکہ اُردو ادب کے جو با ضابطہ جوہری ہیں اُس کی چمک سے لطف اندوز ہو سکیں …

خدایا کرم گستری کر ہماری

ترا فیضِ رحمت ہے ہر سمت جاری

 

نہیں کوئی شے تیری قدرت سے باہر

ہیں شاہ و گدا تیرے در کے بھکاری

 

محمد مصطفی کے نوُر سے کون و مکاں چمکے

اُنہیں کی ذاتِ اقدس سے زمین و آسماں چمکے

 

دلِ مضطر کو یہ کیا ہو گیا ہے

ہمیشہ بھیڑ میں تنہا کھڑا ہے

 

خوشی میں بھی چھلک جاتا ہے چشمِ تر کا پیمانہ

ہر آنسو دل کی بیتابی کا افسانہ نہیں ہوتا

 

اُن سے روشن ہے مری شمعِ شبستانِ حیات

ہیں مری مونس و غمخوار تمہاری آنکھیں

 

برقیؔ مرا پیغام ہے یہ اہلِ جہاں کو

قائم کریں ایثار و محبت کی روایت

٭٭٭

 سیّد ضیا خیرآبادی

اٹلانٹا،امریکہ

سپہرِ شعر پہ روشن ہے آفتابِ سخن

میرے نوکِ قلم میں اتنا توسلیقہ اور شعور نہیں ہے کہ میں جناب ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی کی عظیم شخصیت اور شعورِ فکر و فن کو بخوبی صفحۂ قرطاس پر قلمبند کر سکوں لیکن میں یہ ضرور چاہوں گی کہ اُن کی اعلیٰ ذات و صفات، فن و شخصیت، ان کے وسعتِ قلب کی عظمتوں، اُن کے کردار کی اونچائیوں، اوراُن کے قلم کی خوبیوں کو حسنِ صداقت کے ساتھ آپ کے سامنے بیان کر سکوں۔ اللہ مددگار ہے وہ حقدار کو اُس کا حق دلوا ہی دیتا ہے۔

اعظم گڑھ کی سرزمین کئی گہر ہائے نایاب کی پروردہ رہی ہے۔کسی مبارک گھڑی اسی سرزمین نے ایک بیش قیمت ہیرا رحمت الٰہی برقؔ اعظمی جیسے علم و دانش کے سکندر، ایک باکمال جوہری کی نذر کیا جسے انہوں نے اپنے دستِ مبار ک سے تراش خراش کے اُردو ادب کے خزانے کو سونپ دیا۔ اس کوہِ نور ہیرے کی چمک دمک اور آب و تاب کو دیکھ کر اربابِ بصیرت کی آنکھیں چوندھیا گئیں۔ دورِ حاضر کے اہلِ قلم سکتے میں آ گئے۔ اُردو ادب کے بڑے بڑے شہسوار انگشت بدنداں رہ گئے۔ اس کوہِ نور کی چمک ملک کی آہنی دیواروں کو پار کرتی ہوئی بیرونی ملکوں میں جا پہنچی اور ہر اہلِ دل اور اہلِ قلم اس سے متاثر اور مرعوب ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ پھر اس کی چمک اور آب و تاب کے چرچے ہر زبان پر ہونے لگے۔ یہ نایاب کوہِ نور ہیرا کوئی اور نہیں … عہدِ حاضر کے عظیم شاعر، ہمارے جانے پہچانے  ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی صاحب ہیں۔

ڈاکٹر برقیؔ اعظمی صاحب سے میری ملاقات کبھی اور کہیں نہیں ہوئی۔ میں نے اُن کے فن اور شخصیت کو جو بھی سمجھا ہے اُن کے وسیع اور بہترین کلام کی گہرائیوں میں اُتر کر سمجھا ہے۔ اُردو ادب کے فلک پر سیکڑوں شمس و قمر اپنی چمک دمک  کے ساتھ جگمگا رہے ہیں اور کائناتِ ادب میں اپنی لطیف چاندنی بکھیر رہے ہیں۔ لیکن جب ہم ڈاکٹر برقیؔ اعظمی کے دلنشیں اور دلکش کلام ’’ روحِ سخن‘‘ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ صبح ہو گئی اور آسمان سخن پر چمک رہا ہے ایک آفتاب تنہاجس کی برقی شعاعیں زندگی کے ہر پہلو، حیات و کائنات کے ہر موضوع، دورِ حاضر کے ہر تقاضے انسانیت، محبت امن اور شانتی جیسے اعلی جذبوں، قوم و ملت کی دکھتی رگوں، مذہب کی اٹھی ہوئی گھٹاؤں، دین و ایمان کی پر نور برستی بارشوں اور سائنس و ٹکنالوجی کی فلک  بوس عمارتوں کو اُجاگر کر رہی ہیں۔

ڈاکٹر برقیؔ اعظمی کی اُردو ادب میں آمد ایک خوشگوار واقعہ ہے۔خزاں کے دور کے بعد جب بہار آتی ہے تو کیا لگتا ہے۔ اُن کی مبارک آمد پر کچھ ایسا ہی ہوا۔ اُردو ادب کا چہرہ فخر اور خوشی سے کھِل اُٹھا۔ اُردو کی انجمنیں لہکنے اور مہکنے لگیں۔ اُردو زبان پر جیسے نکھار آ گیا۔ شعر و سخن میں جیسے زندگی آ گئی۔اُردو زبان کی ڈوبتی نبضوں کو جیسے حیاتِ نو مل گئی۔ تشنگانِ ادب کو جیسے قرار آ گیا۔

شعرو سخن کے اس تاجدار کی اُردو ادب میں جب تاجپوشی ہوئی تو میرؔ، غالبؔ، داغؔ، فانیؔ، اقبالؔ جگرؔ، جوشؔ، فیضؔ اور احمد فراز کی روحوں کو جیسے وجد آ گیا۔ وہ سجدۂ شکر بجا لائیں اور اپنے اس فرزندِ عظیم کے لئے دعاگو ہو کر بصد شکر جھوم اُٹھیں۔ کوئی تو ہے جو ان کی وراثت کو آگے بڑھا رہا ہے۔کوئی تو ہے جو شعر و سخن کے جسم میں روح واپس لوٹا رہا ہے۔کوئی تو ہے جو اُردو ادب میں قوس قزح کا رنگ بھر رہا ہے۔کوئی تو ہے جو مرحومین ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کی میتوں پر آنسو بہا رہا ہے۔ کوئی تو ہے جو اُن کی تُربتوں پر دُعائے مغفرت کے ساتھ اپنے اشعار کے گُلہائے عقیدت چڑھا رہا ہے۔ کوئی تو ہے جو ان بے چراغ اور بے پھول قبروں پر یادوں کے دئے جلا رہا ہے۔ حضرت رحمت الٰہی برقؔ اعظمی صاحب کی روحِ مبارک اپنے اس نیک دل فرزند کی اقصائے عالم میں توقیر دیکھ کر خوشی اور فخر سے جھوم رہی ہو گی۔

 ڈاکٹر برقیؔ اعظمی کا کلام دلنشیں ’’ روح سخن ‘‘ سخن کی روح تو ہے ہی اُن کی فکری و فنی صلاحیتوں کا نچوڑ بھی ہے۔اُن کے خوابوں کی تعبیر ہے۔اُن کی کائناتِ حُسن کی تصویر ہے۔ ان کی دولتِ عشق کی جاگیر ہے۔ اُن کا سرمایۂ حیات ہے۔یہ وہ گلستان سخن ہے جہاں خزاں آتی ہی نہیں۔ اپنے مجموعۂ  کلام کے بارے میں وہ لکھتے ہیں …

مجموعۂ کلام ہے ’’روح سخن‘‘ مرا

پیشِ نظر ہے جس میں یہاں فکر و فن مرا

گلہائے رنگا رنگ کا گلدستۂ حسیں

اشعار سے عیاں ہے یہی ہے چمن مرا

یہ عظیم شاعر توقیر کی بلندیوں کو چھوتے ہوئے بھی اپنے والدِ گرامی حضرت رحمت الٰہی برقؔ اعظمی کے احترام میں اپنے فرائضِ فرزندگی سے سبکدوش نہیں ہوتا اور نہایت ادب و احترام کے ساتھ اپنے طاقِ دل میں اُن کی یاد کا چراغ جلائے حقِ فرزندگی ادا کرتے ہوئے لکھتا ہے…

میرے والد کا نہیں کوئی جواب

جو تھے اقصائے جہاں میں انتخاب

ان کا مجموعہ ہے ’’تنویرِ سخن‘‘

جس میں حُسنِ فکر و فن ہے لاجواب

… ایک اور جگہ ڈاکٹر برقیؔ اعظمی صاحب فرماتے ہیں …

آج میں جو کچھ ہوں وہ ہے ان کا فیضانِ نظر

اُن سے ورثے میں ملا مجھ کو شعورِ فکر و فن

…اپنے وطن پر فخراور ناز کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں …

شہر اعظم گڑھ ہے برقیؔ میرا آبائی وطن

جس کی عظمت کے نشاں ہیں ہر طرف جلوہ فگن

…اپنے بارے میں وہ فرماتے ہیں …

میرا سرمایۂ حیات ہے جو

وہ ہے میرے ضمیر کی آواز

ڈاکٹر برقیؔ اعظمی صاحب کا بہترین اور ضخیم مجموعۂ کلام ’’ روحِ سخن‘‘ ادب کی دُنیا میں شان کے ساتھ جلوہ فگن ہے۔ اس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔ یہ وہ گلدستۂ سخن ہے جس میں رنگ رنگ کے پھول مہک رہے ہیں۔ بارشِ انوار میں نہائی ہوئی اُن کی حمدیں حسنِ  ایمان کے ساتھ قارئین کے دل میں اُتر جاتی ہیں۔ اللہ کی بارگاہ میں وہ نہایت ادب و احترام کے ساتھ اپنے جذبات کا نذرانہ پیش کرتے ہیں …

میں شکر ادا کیسے کروں تیرے کرم کا

’’ حقا کہ خداوند ہے تو لوح و قلم کا‘‘

طوفانِ حوادث میں ہے برقیؔ کا سفینہ

کر سکتا ہے اب تو ہی ازالہ مرے غم کا

ایک اور جگہ ڈاکٹر برقیؔ صاحب فرماتے ہیں …

اے خدا تو نے زندگی بخشی

کیف و سرمستی و خوشی بخشی

تیرا منت گزار ہے برقیؔ

جس کے نغموں کو نغمگی بخشی

عشقِ نبیﷺسے سرشار ان کا نعتیہ کلام کیف حضوری کی بہترین مثال ہے…

نبی کی ذات زینت بن گئی ہے میرے دیواں کی

انہیں کا نور ہے جو روشنی ہے بزمِ امکاں کی

وہی ہیں شان میں جن کی ہے ورفعنا لَکَ ذِکْرَکْ

ثنا خواں اُن کی عظمت کی ہر اک آیت ہے قرآں کی

ثنائے رسالت مآب میں ایک اور جگہ ڈاکٹر برقیؔ اعظمی لکھتے ہیں …

کیا کوئی کرے شمعِ رسالت کا احاطہ

ممکن نہیں اس نور کی عظمت کا احاطہ

غزل کے بارے میں برقی صاحب کے خیالات بہت جامع اور واضح ہیں۔ وہ فرماتے ہیں …

احساس کا وسیلۂ اظہار ہے غزل

آئینہ دار ندرتِ افکار ہے غزل

اُردو ادب کو جس پہ ہمیشہ رہے گا ناز

اظہارِ فکر و فن کا وہ معیار ہے غزل

آتی ہے جس وسیلے سے دل سے زبان تک

خوابیدہ حسرتوں کا وہ اظہار ہے غزل

برقیؔ کے فکر و فن کا مرقع اسی میں ہے

برقؔ اعظمی سے مطلعِ انوار ہے غزل

حسن و عشق ڈاکٹر برقیؔ اعظمی کے کلام کا نہایت وسیع اور دلکش موضوع ہے۔ رنگ و نور میں نہائی برقیؔ اعظمی کی گُل چہرہ غزلیں اُردو ادب میں نہایت اہم اور معتبر مقام رکھتی ہیں۔اُن کے کلام سے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں …

بات ہے ان کی بات پھولوں کی

ذات ہے اُن کی ذات پھولوں کی

وہ مجسم بہار ہیں اُن میں

ہیں بہت سی صفات پھولوں کی

…کچھ اور خوبصورت اشعار دیکھئے…

ہیں اُس کے دستِ ناز میں دلکش حنا کے پھول

اظہارِ عشق اُس نے کیا ہے دکھا کے پھول

پاکیزگیِ نفس ہے آرائشِ خیال

ہیں آبروئے حُسن یہ شرم و حیا کے پھول

پھولے پھلے ہمیشہ ترا گلشنِ حیات

میں پیش کر رہا ہوں تجھے یہ دُعا کے پھول

برقیؔ ہے بے ثبات یہ دُنیائے رنگ و بو

دیتے ہیں درس ہم کو یہی مسکرا کے پھول

جذبۂ عشق کو برقیؔ صاحب کے کلام میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ وہ فرماتے ہیں …

عشق ہے در اصل حُسنِ زندگی

عشق سے ہے زندگی میں آب و تاب

اشکوں کی سیاہی سے لکھی ہوئی برقیؔ صاحب کی زار زار عشقیہ غزلیں اُردو ادب کا ایک بہترین سرمایہ ہیں۔پڑھنے والوں کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے شبِ فراق ہے، تنہائی ہے، اندھیرا ہے، اُداسی ہے،چراغِ دل ٹِمٹما  رہا ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے آسمان میں ماہتاب چمک رہا ہے۔ جوشِ جنوں اسے پانے کے لئے بیتاب در بدر پھر رہا ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے زندگی کی ریل گاڑی نا معلوم منزل کی طرف چلی جا رہی ہے اور یادوں کا ایک ہجوم ہے جو ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے صحرا کی وسعتوں میں جلتی ہوئی ریت پر کوئی برہنہ پا جانا جاناں پکارتا بھٹک رہا ہے۔

نفرتوں کی جنگ پوری دُنیا لڑ رہی ہے۔اُس ے متاثر ہو کر حساس شاعر کا دل دُنیا کے تمام مذاہب و ملت کے لوگوں کو پیامِ محبت سنا رہا ہے۔ ڈاکٹر برقیؔ صاحب کے کچھ اشعاراس سلسلے میں ملاحظہ فرمائیں …

امن عالم کی فضا ہموار ہونا چاہئے

’’آدمی کو آدمی سے پیار ہونا چاہئے‘‘

جب ہم ڈاکٹر برقیؔ اعظمی کے کلام کا بنظر دقیق تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں زبان اور بیان کی بہت سی خوبیاں اس میں نظر آتی ہیں جو اُن کی دلکش تحریروں کو حُسن بخشتی ہیں۔ اُن کے چہکتے ہوئے ردیف اور قافیے، اُن کی حیران کر دینے والی تشبیہات اور استعارے،  اور اُن کے دل کو چھونے والے محاورے بہت خوبصورتی کے ساتھ ان کے کلام میں استعمال ہوئے ہیں۔کچھ مثالیں ملاحظہ فرمائیں …

جس کو وہ پڑھتا رہے گا عمر بھر لکھ جاؤں گا

خط میں اس کے نام ایسا نامہ بر لکھ جاؤں گا

ایسا ہو گا میری اس تحریر میں سوز و گداز

موم ہو جائے گا پتھر کا جگر لکھ جاؤں گا

اشک پلکوں پہ چمکتے ہیں ستاروں کی طرح

میرا کاشانۂ دل اب ہے مزاروں کی طرح

یہاں اشک ستاروں کی طرح، خانۂ دل مزاروں کی طرح اور پتھر کا جگر وغیرہ ان کی تشبیہات اور استعاروں کی خوبصورت مثالیں ہیں …

میری آنکھیں کھُلی کی کھُلی رہ گئیں

وہ نظر آیا جب اک زمانے کے بعد

برقیؔ کی اس کے سامنے کوئی گلی نہ دال

جو گل اسے کھلانے تھے اس نے کھلا دئے

یہاں محاورے جیسے آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جانا، گل کھلانا اور دال نہ گلنا محاورے ہیں جن کو بڑی خوبی کے سا تھاستعمال کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر برقیؔ اعظمی کی کائناتِ شاعری ’’ روحِ سخن‘‘ میں آسمان کی وسعتیں اور زمین کی عظیم شفقتیں ہیں۔ سمندر کی گہرائیاں ہیں۔ پہاڑوں کی بُردباری ہے۔ جنگلوں کی ضخامت ہے۔ سورج کی فراخدلی ہے۔ آبشاروں کی بے کلی ہے۔ برق کی تڑپ ہے۔ جھومتے درختوں کی لہک ہے۔ مہتاب کا حسن ہے۔ بہاروں کی رنگت ہے۔شبنم کے آنسو ہیں، کلیوں کی چٹک اور شوخی ہے،پھولوں کی رنگت ہے،بہاروں کی گونج ہے، تتلیوں کا ذوق و شوق ہے، صبح سویرے کا پر نور اُجالا ہے،تپتی دوپہروں کی تپش ہے، شامِ غم کی اُداسی ہے، سیاہ راتوں کی وحشتیں ہیں، شبِ فراق کی اشکباری ہے، اور عبادت گاہوں کی پاکیزگی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ زندگی کے تمام رنگ، تمام موسم اور کائنات کے تمام حسن اُن کی شاعری میں بحسن و خوبی اُتر آئے ہیں۔دلکش اور خوش آہنگ ردیف و قافئے، دمکتی تشبیہات، کہکشاں سی زباندانی سے منور یہ کلام اُن کی کاوشوں کا پھل ہے۔اُن کا سرمایۂ زیست ہے۔سخن کے اس شہنشاہ کی ہرغزل ایک حسین تاج محل لگتی ہے۔

ڈاکٹر احمد علی برقیؔ کا تخلیقی سفرخلوص اور محبت کے گیت گاتا ہوا نفرت کی دیواروں کو توڑتا ہوا، ملکوں کی سرحدوں کو پار کرتا ہوا، انسانیت اور تہذیب کے وقار کو بڑھاتا ہوا، امن اور شانتی کا درس دیتا ہوا،حق کا پرچم اُٹھائے دورِ حاضر کے تقاضوں کو پورا کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔خداوند کریم انہیں شاد و آباد رکھے۔ انہیں ہر قدم پر کامیابی اور کامرانی عطا فرمائے۔

٭٭٭

 ڈاکٹر سیّدہ عمرانہ نشتر خیرآبادی

اٹلانٹا، امریکہ

برقیؔ اعظمی کی اُردو شاعری

(۱)

سیّد صباح الدین عبد الرحمن مرحوم (سابق ڈائریکٹر، دارالمصنّفین و مدیر ماہنامہ ’’معارف‘‘) کے شاگردِ رشید ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں ہے۔ موصوف 1977 سے تا حال دہلی میں مقیم ہیں۔ ان کا تعلق ہندوستان کی مردم خیز سرزمین اعظم گڑھ شہر کے محلہ باز بہادر کے ایک علمی گھرانے سے ہے۔ شاعری کا ذوق و شوق انہیں ورثے میں ملا ہے۔ موصوف کے والد ماجد رحمت الٰہی برقؔ اعظمی مرحوم ایک کہنہ مشق شاعر تھے۔ ان کے بڑے بھائی ڈاکٹر رحمت علی اکمل، ڈاکٹر شوکت علی شوکت اعظمی اور برکت علی برکت اعظمی بھی شعر و سخن سے شغف رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر برقیؔ نے اعظم گڑھ سے ابتدائی تعلیم اور شبلی نیشنل کالج اعظم گڑھ سے اُردو میں ایم۔اے کرنے کے بعد دہلی میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے 1996  میں فارسی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور پھر آل انڈیا ریڈیو، نئی دہلی میں ملازت اختیار کر لی۔

ڈاکٹر احمد علی برقیؔ کی شاعری کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ ایک طرف ان کی شاعری میں موضوعات کا تنوع قارئین و ناظرین کو متوجہ کرتا ہے تو دوسری طرف ان کی شعری خصوصیات اپنی زلف گرہ گیر کا اسیر بنا لیتی ہیں۔ ڈاکٹر برقیؔ اعظمی کے جذبوں کی صداقت، کلام کی شیرینی و ملاحت اور عرض ہنر میں دیدہ و دل کی بصارت جگہ جگہ جلوہ افروز نظر آتی ہے۔ وہ نہ تو مافوق العادت اوہام و تخیلات کے اسیر ہیں اور نہ ہی ماورائیت کے دلدادہ بلکہ زمین پر ننگے پاؤں چل کر زمینی حقیقتوں کا بچشم خود مشاہدہ کرتے ہیں اور ان سے بے باکانہ آنکھیں ملا کر باتیں کرتے ہیں۔ ان کے افکار و خیالات میں قدامت یا باسی پن کا کوئی احساس نہیں ہوتا، تازہ کاری ان کا وصف خاص ہے۔ وہ عصر حاضر کے بیحد ترقی یافتہ سماج میں کلبلاتے درد سے پوری طرح باخبر ہیں۔ وہ امن و سکون کو غارت کرنے والی جنگوں سے اجتناب کی دعوت تو دیتے ہیں لیکن زندگی کی جنگ علم و حکمت سے جیتنے کی وکالت بھی کرتے ہیں احمد علی برقیؔ کی شاعری میں اپنائیت لئے آفاقی احساسات کچھ اس انداز میں جلوہ گر ہوتے ہیں کہ قاری انہیں اپنے دل سے بہت قریب پاتا ہے۔

برقیؔ اعظمی کی شاعری میں وسعت، زبان و بیان کی دلکشی، لہجہ اور طرز ادا کی شیرینی، انداز بیان کی شگفتگی اور فکر و خیال کی رعنائی کے علاوہ لکھنے والوں کے لئے اس میں بہت کچھ ہے، خصوصاً موضوعات کا تنوع محققین کو راغب کرنے کے لئے کافی ہے۔ ان کی شخصیت کی عبقریت پر بہت سے دلائل شاہد عد ل ہیں کیونکہ انہوں نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں جن کا اُردو ادب کی آبیاری میں بہت بڑا کردار ہے۔ ان کا قلم بے تکان لکھتا ہے، خوب لکھتا ہے اور بہت تفصیل سے لکھتا ہے ان کا اپنا رنگ ہے اپنا زاویہ نگاہ اور الگ شناخت ہے۔ ان کے کلام کی خصوصیات پر کچھ لکھناسورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ تسلسل، تغزل، انداز بیان، روانی الفاظ وترکیبات کی جیسے ایک جوئے شیریں رواں دواں نظر آتی ہے۔

وہ انتہائی زود گو، خوش گو، بسیار گو شخصیت کے مالک ہیں۔ فکر و فن کی باریکیاں ان کے آگے طفل مکتب نظر آتی ہیں بلا شبہ برقیؔ اعظمی ایک عبقری شخصیت کے مالک ہیں۔ انہوں نے اپنی مجموعی شاعری سے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایک مخصوص دھارے میں بندھنے کے عادی نہیں ہیں بلکہ تنوع ان کی فطرت میں شامل ہے۔ ان کی غزلیں تغزل سے بھر پور اور فنکارانہ حسن کاری سے مزین ہوتی ہیں۔ تراکیب کی خوبصورتی، تشبیہات کی ندرت، الفاظ کا جادوئی دروبست، نرم و خوشنما قافیوں کے موتی، مشکل اضافتوں کے باوجود مصرعوں کی روانی اور ان سب پر مستزاد آپ کی کسر نفسی دلوں کو متاثر کرتی ہے۔ ڈاکٹر برقیؔ اعظمی کی غزلیں نہایت خوبصورت ردیفوں میں طرز ادا کی خوشنمائی کے ساتھ ساتھ انفرادی طرزِ فکر اور جدت پسندی کی بھی نمائندگی کرتی ہیں۔ وہ تجربات کی دلکشی کو کلام کی روح میں سموکر احساس کی خوشبو جگاتے ہیں اور قاری کے دل و دماغ کو متاثر کر کے جمالیاتی شعور کی آبیاری کرتے ہیں۔ ان کی سخنوری، طبیعت کی موزونیت اور روانی ہمیشہ ہی قائل کرتی ہے۔ ان کے ان اوصاف کا ہر شخص مداح ہے۔

برقیؔ اعظمی کی موضوعاتی اور فی البدیہہ شاعری

(۲)

شعر گوئی ایک بہت خوبصورت فن ہے۔ ایک اچھا شعر یا ایک خوبصورت غزل کہنے کے بعد شاعر کو روحانی فرحت و انبساط اور قلبی راحت و طمانیت کا احساس ہوتا ہے تاہم فی البدیہہ شاعری اکثر شعراء کے لئے مشکل اور ایک بہت کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ در اصل شاعر دو طرح کے ہوتے ہیں ایک تو ’’فطری شاعر‘‘ اور دوسرے وہ لوگ جو فن شعر و شاعری سے استفادے کے بعد بالقصد یعنی ارادتاً شاعری کرتے ہیں۔ فطری شاعر پیدائشی شاعر ہوتے ہیں۔ ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ کسی کمسن یا بالغ شخص نے کہ جس نے فن عروض یا شعر و شاعری کے بارے میں کبھی نہ کچھ پڑھا اور نہ ہی کسی سے سنا لیکن اس کی زبان سے منظوم کلام جاری ہو گیا۔ تاریخ میں ایسے بہت سے شعراء کا نام محفوظ ہے جنہوں نے فن عروض سے استفادے کے بغیر لاجواب شاعری کی اور عصر حاضر میں بھی ایسے بہت سے شعراء  موجود ہیں جو فطری شاعر ہیں یعنی وہ بہ تکلف شاعری نہیں کرتے بلکہ شعر خود بخود ان کی زبان پر جاری ہو جاتا ہے۔ تاہم عہد حاضر میں شعراء کی ایک تیسری قسم بھی پائی جاتی ہے جو نہ فطری شاعر ہیں اور نہ ہی ارادی شاعر ہیں ہم انہیں ’’متشاعر‘‘ کے نام سے جانتے ہیں جو بہ تکلف بھی شاعری پر قدرت نہیں رکھتے نتیجتاً انہیں کئی مواقع پر منہ کی کھانی پڑتی ہے۔

برقیؔ اعظمی کی بداہت گوئی ان کی موضوعاتی شاعری میں بہت کھل کر سامنے آئی ہے۔ وہ شاعری جو کسی خاص عنوان یا موضوع کے تحت کی جائے اسے موضوعاتی شاعری کہتے ہیں۔ ادبی شخصیات سے متعلق تعارفی تحریروں میں برقیؔ صاحب نے اپنے ذاتی تاثرات کے علاوہ ان کی خصوصیات، کارناموں اور اختصار کے ساتھ ان کی ’’حیات و خدمات‘‘ پر خاطر خواہ روشنی ڈالی ہے جو بلاشبہ ان کی قابل قدر خدمت ہے۔ ہماری اہم ترین ادبی شخصیات سے نوجوان نسل کو متعارف کرانے کا یہ نہایت خوبصورت اور دلپذیر انداز ہے جس کی ہند وپاک کے ادبی حلقوں میں پذیرائی کی جانی چاہئے۔ انہوں نے بے شمار موضوعات پر شاعری کی ہے۔ آج ہماری نئی نسل میں فلم، ٹی۔وی، موبائل اور انٹرنیٹ کے تئیں بڑھتے کریز کی وجہ سے کتابوں کی طرف سے رجحان بالکل ختم ہوتا جا رہا ہے جو علماء اور دانشوروں کے لئے لمحہ فکریہ اور پورے معاشرے کے لئے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ڈاکٹر برقیؔ اعظمی کی موضوعاتی شاعری سے متعلق ڈاکٹر غلام شبیر رانا رقمطراز ہیں … ’’اُردو ادب میں موضوعاتی شاعری پر بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ قلی قطب شاہ سے لے کر ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی تک اُردو میں موضوعاتی شاعری نے جو ارتقائی سفر طے کیا ہے اس کا جائزہ لینے سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ موضوعاتی شاعری نے اب ایک مضبوط اور مستحکم روایت کی صورت اختیار کر لی ہے۔ اس رجحان کو انجمن پنجاب کی خیال پرور اور فکر انگیز شاعری سے بے پناہ تقویت ملی۔ آقائے اُردو مولانا محمد حسین آزاد کی مساعی سے اُردو میں موضوعاتی شاعری کو ایک اہم مقام ملا۔ اس کے بعد یہ روایت مسلسل پروان چڑھتی رہی۔ عالمی شہرت کے حامل نامور شاعر محسن بھوپالی کا ایک شعری مجموعہ ’’موضوعاتی شاعری ‘‘ کے نام سے آج سے پندرہ برس پہلے شائع ہو چکا ہے۔ اس سے یہ صداقت معلوم ہو تی ہے کہ روشن خیال ادیبوں، دانشوروں اور شاعروں نے موضوعاتی شاعری کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس صنف میں طبع آزمائی کی۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ممتاز ادیب، شاعر، دانشور، نقاد اور محقق ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی نے اُردو کی موضوعاتی شاعری پر بھر پور توجہ دی ہے۔ ان کی شاعری کے متعدد نمونے میرے سامنے ہیں۔ وہ جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں اسے لا زوال بنا دیتے ہیں۔ ان کا اختصاص یہ ہے کہ وہ عظیم تخلیق کاروں کو منظوم خراج تحسین پیش کر کے ان کے بارے میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے کی مقدور بھر سعی کرتے ہیں۔ اس میدان میں ان کی مساعی اپنی مثال آپ ہیں۔ جس انداز میں وہ اپنے موضوع پر طبع آزمائی کرتے ہیں اوروں سے وہ تقلیدی طور پر بھی ممکن نہیں۔ اس لا زوال اور ابد آشنا شاعری میں کوئی ان کا شریک اور سہیم دکھائی نہیں دیتا۔ مرزا غالبؔ،میر تقی میرؔ،احمد فرازؔ،پروین شاکر،فیض احمد فیضؔ،سید صادقین نقوی،مظفر وارثی اور متعدد عظیم تخلیق کاروں کو ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی نے جس خلوص اور دردمندی سے خراج تحسین پیش کیا، وہ نہ صرف ان کی عظمت فکر کی دلیل ہے بلکہ اس طرح ان کا نام جریدہ عالم پر ہمیشہ کے لیے ثبت ہو گیا ہے۔ ان کا اسلوب ان کی ذات ہے۔ وہ انسانی ہمدردی کے بلند ترین منصب پر فائز ہیں۔ کسی کا دکھ درد دیکھ کر وہ تڑپ اٹھتے ہیں اور فی البدیہہ موضوعاتی شاعری کے ذریعہ وہ تزکیہ نفس کی متنوع صورتیں تلاش کر کے ید بیضا کا معجزہ دکھاتے ہیں۔ ان کی موضوعاتی شاعری کا تعلق کسی ایک فرد، علاقے یا نظریے سے ہرگز نہیں ان کی شاعری میں جو پیغام ہے اس کی نوعیت آفاقی ہے اور وہ انسانیت کے ساتھ روحانی وابستگی اور قلبی انس کا بر ملا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا یہ اسلوب انھیں ممتاز اور منفرد مقام عطا کرتا ہے۔ ان کے بار احسان سے اُردو داں طبقے کی گردن ہمیشہ خم رہے گی۔ انھوں نے تہذیبی اور ثقافتی اقدار کو اشعار کے قالب میں ڈھال کر وہ معرکہ آرا کارنامہ انجام دیا ہے جو تاریخ ادب میں آب زرسے لکھا جائے گا۔‘‘

یادِ رفتگاں کے عنوان سے مرحوم ادباء، شعراء و دیگر مختلف ادبی، مذہبی، سیاسی، سماجی، فلمی اور اسپورٹس سے وابستہ شخصیات پر فی البدیہہ شاعری کی ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے غالبؔ، میرؔ، نظیرؔ اکبر آبادی،شادؔ عظیم آبادی، شکیلؔ بدایونی، محمد رفیع، مجروؔ ح سلطان پوری،کیفیؔ اعظمی، ناصرؔ کاظمی، پروین شاکر کے علاوہ شبلیؔ نعمانی، سرسیّد، سجاد حیدر یلدرم، رحمت الٰہی برقؔ اعظمی، اسرار الحق مجازؔ، جوشؔ ملیح آبادی، جگرؔ مرادآبادی، عبدالعزیز یاسؔ چاند پوری،امتیاز علی تاجؔ، ابن صفی، وزیر آغا، ابن انشاء،پروفیسر امیر حسن عابدی، ڈاکٹر قمر رئیس، مقبول فدا حسین اور نواب پٹودی جیسی تمام اہم میدانوں کی قد آور شخصیات پر انہوں نے اتنا کچھ لکھا ہے کہ…

سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے لئے

موصوف کی موضوعاتی نظمیں گلوبل وارمنگ، ماحولیات پولیو، ایڈز، سائنس اور مختلف عالمی دنوں جیسے موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں۔اس قبیل کی اب تک تحریر کردہ ان کی کاوشوں سے کئی ضخیم مجموعے تیار ہو سکتے ہیں اور یہ گرمیِ تحریر تا دم تحریر جاری ہے۔

موضوعاتی شاعری کے تحت ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی نے ماحولیات، سائنس، بین الاقوامی دنوں، اور آفات ارضی و سماوی وغیرہ پر بھی بہت کچھ لکھا ہے، جس کا علاحدہ مجموعہ مرتب کیا جا سکتا ہے۔ 2010 میں جناب اعجاز عبید نے موصوف کی 50 موضوعاتی نظموں کا انتخاب ’’برقی شعاعیں ‘‘ کے نام سے برقی کتاب کی شکل میں شائع کیا تھا۔ موصوف برقیؔ اعظمی نے ڈاکٹر محمد اسلم پرویز کی ادارت میں شائع ہونے والے ماہنامہ ’’سائنس‘‘ میں 6 سال تک ہر ماہ مسلسل موضوعاتی نظمیں لکھی ہیں۔  مزید برآں ڈاکٹر برقیؔ اعظمی آج بھی کئی ویب سائٹس، جیسے اُردو انجمن، اُردو جہاں، اُردو گلبن، اُردو بندھن، شام سخن، اُردو دُنیا، آبجو، شعر وسخن وغیرہ سے وابستہ ہیں۔ آج بھی ان کی بداہت گوئی کا یہ عالم ہے کہ وہ فیس بک، اُردو لٹریری فورم، محاسن ادب، انحراف ادبی گروپ، فن اور فنکار،جدید ادبی تنقید، محمد معز خان صاحب کی محفل مشاعرہ و دیگر ویب سائٹس اور ادبی فورموں کی  ہفت روزہ، پندرہ روزہ، ماہانہ اور سہ ماہی نشستوں میں اپنی فی البدیہہ طرحی، غیر طرحی اور عام تخلیقات شیئر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے فی البدیہہ منظوم تبصرے بھی رقم فرماتے ہیں۔ وہ آج بھی فیس بک پر اور دُنیا بھر کی کئی ویب سائٹوں پر فی البدیہ طرحی اور عام مشاعروں میں پابندی سے شرکت کرتے ہیں۔ انہوں نے درجنوں کتب پر بھی اپنے تاثرات اور تبصروں کو منظوم شکل میں پیش کیا ہے۔ موصوف نے اپنے زیر ترتیب شعری مجموعے ’’روحِ سخن‘‘ پر اپنا منظوم پیش لفظ بھی تحریر فرمایا ہے۔ ڈاکٹر برقیؔ اعظمی کی فی البدیہہ شاعری اس وقت اپنے شباب پر ہے۔ فی الحال وہ کئی ویب سائٹس، انٹر نیٹ کے فورموں اور بلاگوں کے لئے فی البدیہہ لکھ رہے ہیں۔ بداہت گوئی کے لحاظ سے ڈاکٹر برقیؔ اعظمی کا فیس بک پر روز شائع ہونے والا کلام بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ وہ کبھی کسی انگریزی نظم کا اُردو میں فی البدیہہ ترجمہ پیش کر دیتے ہیں، کبھی کسی مشہور و معروف شخصیت کے انتقال پُر ملال پر منظوم تعزیتی پیغام اَپ لوڈ کر دیتے ہیں، کبھی کسی صاحب ہنر کو اعزاز و اکرام سے نوازے جانے پر اس کی زندگی کی حصولیابیوں پر فی البدیہہ مختصر سوانح اور کارناموں پر مشتمل پر زور نظم پیش کر دیتے ہیں۔ الغرض سارا دار مدار اپیلنگ پر ہے۔ جو چیز ان کو اپیل کرتی ہے اس کے بارے میں اپنے تاثرات، خیالات، تجزیات فی الفور منظوم صورت میں حاضر کر دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ رسمی طور پر فیس بک پر احباب اپنی مختلف تخلیقات میں برقیؔ صاحب کو ٹیگ کرتے ہیں جن پر اپنا مختصر تبصرہ بھی وہ اکثر اشعار کی صورت میں پیش کرتے ہیں جو اُن کی فی البدیہہ شاعری کی ایک بہت بڑی دلیل اور جیتی جاگتی مثال ہے۔

ان سب کے باوجود ان کی گمنامی کی سب سے بڑی وجوہات میں کچھ ان کی گوناں گوں مصروفیات اور کچھ مخصوص اداروں کی بے توجہی کار فرما رہی، جس کی وجہ سے وہ زمینی سطح پر بہت کم آمیز واقع ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر برقیؔ اعظمی تقریباً 28 سالوں سے آل انڈیا ریڈیو کے شعبۂ فارسی سے منسلک ہیں۔ اتنے طاقتور سوشل میڈیا سے طویل وابستگی کے باوجود انہوں نے کبھی بھی اس کا استعمال اپنے ذاتی مقاصد کے لئے نہیں کیا۔ حالانکہ فن شاعری میں ان کے اعلی مقام کے پیش نظر اگر وہ چاہتے تو آج پوری اُردو دُنیا میں برقیؔ اعظمی کا طوطی بولتا، مگر اپنی خود داری، قناعت پسندی اور عزلت پسندی کے پیش نظر وہ گوشۂ گمنامی میں قید رہے۔ اس تلخ حقیقت کے درد کو انہوں نے اپنے ایک شعر میں کچھ اس طرح بیان کیا ہے …

ہوتا زمانہ ساز تو سب جانتے مجھے

کیا خوئے بے نیازی ہے دیوانہ پن مرا

…اسی کرب کو ایک جگہ وہ یوں بیان کرتے ہیں …

ویب سائٹوں پر لوگ ہیں خوش فہمی کا شکار

نا آشنائے حال ہیں ہمسائے بھی مرے

…ایک جگہ یوں فرماتے ہیں …

فصیل شہر سے باہر نہیں کسی کو خبر

بہت سے اہل ہنر یوں ہی مر گئے چپ چاپ

یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے نمائش سے قطع نظر عزلت پسندی اور گوشہ گیری کو ترجیح دی۔ حالانکہ وہ چاہتے تو آل انڈیا ریڈیو کی ’’اُردو سروس‘‘ اور’’ اردو مجلس‘‘ کی ماہانہ نشستوں میں شریک ہو کر اپنے کلام کے جوہر دکھا سکتے تھے، مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اتنے پاور فل میڈیا سے وابستگی کے باوجود انہوں نے خود کو پروجیکٹ کرنے سے گریز کیا اور وہ آج بھی اپنی اسی روش پر قائم ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے اور یہ ہماری صحافتی برادری کی اب مشترکہ ذمہ داری بھی ہے کہ ’’حق بحق دار رسد ‘‘ کے تحت اُردو ادب میں ڈاکٹر برقیؔ اعظمی کے مقام کا تعین کیا جائے اور ان کی خدمات کا دل کھول کر اعتراف کیا جائے۔

میدان شعروسخن میں وہ آج بھی سرگرم سفر ہیں - دہلی کی مقامی ادبی نشستوں میں پابندی سے شریک ہوتے ہیں۔ فیس بک پر موجود ان کے البم میں ایک ہزار سے زائد غزلیں اور نظمیں دیکھی جا سکتی ہیں، علاوہ ازیں ان کی تخلیقات دیگر ویب سائٹس، رسائل و اخبارات، مثلاً بزم سہارا، راشٹریہ سہارا، نئی دُنیا، گواہ (حیدرآباد)، اُردو لنک (شکاگو)، لمس کی خوشبو (حیدر آباد) وغیرہ میں تواتر کے ساتھ شائع ہوتی رہتی ہیں۔ برقیؔ اعظمی کی شاعرانہ خصوصیات و محاسن کا احاطہ اس مختصر مضمون میں نہایت دشوار ہے میں بس اسی پر اکتفا کروں گا کہ…

دامانِ نگہ تنگ و گلِ حسن تو بسیار

٭٭٭

 اسرار احمد رازیؔ قاسمی

ذاکر نگر، نئی دہلی25

عصری شاعری میں غزلیہ ہیئت کا نگہبان

اظہارِ ذات اور اظہارِ کائنات کے لیے دورِ حاضر میں نظم کو اہمیت حاصل ہوتی جا رہی ہے جب کہ طویل عرصے تک قطعہ بند اور غزلیہ اشعار کے توسط سے ہی تمام اظہارات کو مربوط کر دیا گیا تھا،اگر چہ عصری آگہی کی رمق نظم نگاری کے زیرِ اثر پروان چڑھ رہی ہے اور آزاد نظم اور معرّیٰ نظم کے علاوہ نثری نظم کے عنوانات سے بیشتر شعراء کیفیاتی فضا اور ماحولیاتی اظہار کو نمونہ بنا کر شاعری کی جوت جگا رہے ہیں لیکن نظم کے وسیع میدان میں غزل کی ہیئت کو برقرار رکھتے ہوئے موضوعاتی غزلِ مسلسل لکھ کر اپنا تعارف اور اُردو کے مرحوم شعراء کو خراجِ عقیدت اور پھر غزل گوئی کے ذریعہ منفرد لب و لہجے کی نمائندگی کرنے والے شاعروں میں ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی کا شمار ہوتا ہے جو رواں بحروں کے انتخاب اور اضافتوں سے اجتناب برتتے ہوئے خالص سہلِ ممتنع میں غزل لکھنے پر کافی عبور رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنا تعارف خود غزلیہ انداز میں منظوم کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ غزل کی شعری ہیئت پر انہیں کافی عبور حاصل ہے اور مردّف ہی نہیں بلکہ غیر مردّف غزلیہ ہیئت کے ذریعہ وہ نعتِ شریف لکھنے اور غزل کے موضوعات کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ شاعروں کو منظوم نذرانہ پیش کرنے کے لیے بھی غزل کی ہیئت کا استعمال کرتے ہیں۔کسی شاعر کی یہ انفرادیت ہی اس کی ادبی شناخت کے لیے کافی ہے۔ برقیؔ اعظمی نے اس چھ غزلیہ اشعار میں جس انداز سے اپنا منظوم تعارف پیش کیا ہے اس سے خود اندازہ لگانا آسان ہو جاتا ہے کہ سادہ لفظوں اور رواں تراکیب کے ذریعہ شعر گوئی کرنے اور اس میں معنویت کے دفتر کے دفتر پوشیدہ رکھنے کا ہنر احمد علی برقیؔ اعظمی کو خوب آتا ہے اور انہوں نے اپنی شاعری کے لیے غزل کی ہیئت کا استعمال کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اکیسویں صدی میں قدم رکھتے ہوئے غزل کی ہیئت میں اس قدر جان ہے کہ وہ عصرِ حاضر کے تمام نئے مسائل کو اسی ہیئت میں پیش کرنے کی صلاحیت سے مالامال ہے۔ سب سے پہلے شاعر کے تعارف کو ملاحظہ فرمائیے کہ وہ کس روانی کے ساتھ غزل لکھتا ہے اور اسی غزل میں اپنے تعارف کو بھی پیش کرنے میں کامیابی حاصل کر لیتا ہے۔شاعر کا منظوم تعارف غزلیہ لب و لہجے میں ملاحظہ ہو…

شہر اعظم گڑھ ہے برقی میرا آبائی وطن

جس کی عظمت کے نشاں ہیں ہر طرف جلوہ فگن

میرے والد تھے وہاں پر مرجعِ اہلِ نظر

جن کے فکر و فن کا مجموعہ ہے تنویرِ سخن

نام تھا رحمت الٰہی اور تخلص برقؔ تھا

ضو فگن تھی جس کے دم سے محفلِ شعر و سخن

آج میں جو کچھ ہوں وہ ہے اُن کا فیضانِ نظر

اُن سے ورثے میں ملا مجھ کو شعورِ فکر و فن

راجدھانی دہلی میں ہوں ایک عرصے سے مقیم

کر رہا ہوں میں یہاں پر خدمتِ اہلِ وطن

ریڈیو کے فارسی شعبے سے ہوں میں منسلک

میرا عصری آگہی برقیؔ ہے موضوعِ سخن

 

سادہ اور رواں لفظوں کے ذریعہ غیر مردّف غزلیہ اشعار کے توسط سے ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی نے جس ہمہ دانی کے ساتھ تعارف کروایا ہے وہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ شاعر کو علمِ عروض اور شاعری ہی نہیں بلکہ شعری پیراہن میں کسی کیفیت کو بیان کرنے کی خصوصیت پر پوری طرح عبور حاصل ہے اور یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں یہ صلاحیت خدا کی جانب سے عطا ہوئی ہے اور مشقِ سخن نے انہیں مکمل شاعر کی حیثیت سے رُوشناس کرایا ہے۔ اس منظوم تعارف سے خود اندازہ ہو جاتا ہے کہ برقیؔ اعظمی عصری حسیات سے مالا مال ایسے شاعر ہیں جو صرف اور صرف غزلیہ پیراہن کے توسط سے ہر موضوع اور ہر کیفیت کو بیان کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ نعت جیسی مشکل صنف کو بھی رواں بحر میں پیش کر کے برقیؔ اعظمی نے اپنی فنی خوبیوں کا اظہار کیا ہے، جس کو محسوس کرنے کے لیے نعت کے چند اشعار پیش ہیں جن میں روانی اور تسلسل کے علاوہ خیال کے بہاؤ کی ایسی خوبی پائی جاتی ہے کہ جس کی مثال اُردو کے بہت کم شعراء کے کلام میں دکھائی دیتی ہے…

ہدایت کی شمعِ فروزاں تم ہی ہو

خدا خود ہے جس کا ثنا خواں تم ہی ہو

ہے قول و عمل جس کا یکساں تم ہی ہو

کتابِ سعادت کا عنواں تم ہی ہو

نہیں جس کا کونین میں کوئی ثانی

ہیں جن و بشر جس پہ نازاں تم ہی ہو

زباں جس کی برقیؔ ہے قرآنِ ناطق

جو ہیں سر بسر نورِ یزداں تم ہی ہو

 

بلا شبہ فخرِ موجودات،احمدِ مجتبیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح کے لیے جس دل گداز لب و لہجے کو استعمال کر کے برقیؔ اعظمی نے شعری فن کا اظہار کیا ہے اس کی مثال نعتیہ شاعری میں بھی ملنی مشکل ہے اور یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ برقیؔ اعظمی صرف تفننِ طبع یا پھر شعر گوئی کا حق ادا کرنے کے لیے کلام نہیں لکھتے بلکہ علمِ عروض کی پنہائیوں کو اپنے اندر سمو کر جب شاعری میں ڈوب جاتے ہیں تب شعر کہتے ہیں اسی لیے اُن کی شاعری میں نہ صرف اصلیت اور سادگی بلکہ جوش کے علاوہ تفحّن الفاظ اور مشاہدۂ ذات و کائنات کی وہ تمام خوبیاں شامل ہو جاتی ہیں جنہیں مولانا حالیؔ نے شاعری کی ضرورتیں قرار دے کر یہ ثابت کیا تھا کہ ان پانچوں عوامل کے ملنے کی وجہ سے ہی اعلیٰ ترین شاعری کے نمونے منظرِ عام پر آتے ہیں۔ غرض اکیسویں صدی میں داخل ہوتے ہوئے مولانا حالیؔ کی تنقیدی روایات کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے برقیؔ اعظمی نے غزل کی ہیئت کی برقراری کے ساتھ ایک ایسی دُنیا سجائی ہے جس میں موضوعات کے تنوع کے ساتھ ساتھ اظہارات کی ہمہ گیری اور خیالات کی پیش قدمی کا ایسا رجحان پایا جاتا ہے کہ جس کی مثال اُردو شاعری میں دو صدیوں میں ملنی مشکل ہے۔حالیؔ نے شاعری کو سادہ اور آسان بنایا لیکن حالیؔ کے بعد کے تمام نظم نگار شعراء جیسے چکبستؔ، دیا شنکر نسیمؔ، تلوکؔ چند محروم، علامہ اقبالؔ،جوشؔ ملیح آبادی حتیٰ کہ ترقی پسند شاعروں نے بھی نظم کی شاعری کو پیچیدہ تراکیب اور تشبیہات اور استعارات کی دُنیا سے وابستہ کر کے شاعری کو سادگی سے دُور کر دیا، اگر اُس دَور میں سادہ لفظیات کے ساتھ شاعری کو فروغ دینے والے شعراء کا نام لیا جائے تو اُن میں جگرؔ، فانیؔ، حسرتؔ اور خمارؔ جیسے شعراء دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے سادہ لفظیات کے ساتھ شاعری میں پُرکاری کے حُسن کو شامل کر دیا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی اسی روایت کی توسیع کے علمبردار نظر آتے ہیں اور انہوں نے بطورِ خاص غزل کے لب و لہجے اور اُس کی ہیئت کو برقرار رکھتے ہوئے موضوعاتی شاعری کر کے یہ ثابت کر دیا کہ غزل کی ہیئت صرف حسن و عشق اور گل و بلبل کی شاعری کی نمائندہ نہیں بلکہ عصرِ حاضر کے مسائل کی پیش کشی اسی غزلیہ ہیئت کی شاعری میں ممکن ہے۔ چنانچہ انہوں نے دورِ حاضر کے نمائندہ مسائل کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ایسی شاعری کی طرف توجہ دی جو موضوعات کا احاطہ کرتے ہوئے بہتر اظہار کی نشاندہی کرتی ہے۔اس اظہار کے لیے انہوں نے انگریزی لفظیات کو بھی غزلیہ اشعار کا پیرہن بخش دیا۔غزل کی ہیئت میں لکھی اُن کی نظم ’’ہے آلودگی نوعِ انسان کی دشمن‘‘ کے چند اشعار پیش ہیں جس میں شاعر نے انگریزی لفظیات کو بھی غزلیہ آہنگ میں شامل کرتے ہوئے نئی ندرت کا ثبوت فراہم کیا ہے۔

سلو پوائزن ہے فضا میں پلیوشن

ہر اک شخص پر یہ حقیقت ہے روشن

یوں ہی لوگ بے موت مرتے رہیں گے

نہ ہو گا اگر جلد اس کا سلیوشن

بڑے شہر ہیں زد میں آلودگی کے

جو حسّاس ہیں اُن کو ہے اس سے اُلجھن

فضا میں ہیں تحلیل مسموم گیسیں

ہیں محدود ماحول میں آکسیجن

جدھر دیکھیے ’’کاربن‘‘ کے اثر سے

ہیں مائل بہ پژ مردگی صحنِ گلشن

کسی کو ہے ’’دمّہ‘ کسی کو ’’الرجی‘‘

مکدّر ہوا ہے کسی کو ہے ٹینشن

سلامت رہے جذبۂ خیر خواہی

چھڑائیں سبھی اس مصیبت سے دامن

 

طویل نظم کے چند اشعار پیش کر کے یہ بات ثابت کی جا رہی ہے کہ احمد علی برقیؔ اعظمی نے ایک ایسے عہد میں موضوعاتی غزلیں لکھ کر نظمیہ کیفیت پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے اور دورِ حاضر کے مروجہ انگریزی الفاظ کو اُن میں جگہ دے کر اسلوب کی ایسی سطح نمودار کی ہے جسے برقیؔ اعظمی کی جدّت ہی نہیں بلکہ اُن کی ایجاد سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ برقیؔ اعظمی معاصر ادب کے ایک ایسے نباض شاعر ہیں جنہوں نے عصری ماحول اور اُس میں پیدا ہونے والی بے ضابطگیوں کی نبض پر ہاتھ رکھ کر نہ صرف بیماری کی شناخت کی ہے بلکہ اُس کے لیے موزوں اسلوب کی دوا بھی پیش کر دی ہے۔انہوں نے غزل کی محدود ہیئت کو لامحدود بنا کر موضوعاتی تنوع کو اس انداز سے شامل کیا ہے کہ غزل میں بھی نظم کا حُسن نمایاں ہو رہا ہے اس لیے انہیں مبارکباد دی جانی چاہیے کہ اُن کی غزلیہ شاعری نے سماجی موضوعات کی پیش کشی میں کامیابی حاصل کر کے غزل کی ہیئت کی مؤثر نشاندہی کر دی ہے۔رواں بحروں اور سادہ لفظوں کے  ذریعہ پُر اثر بنانے والے شاعروں میں جگرؔ مراد آبادی اپنی انفرادی شناخت رکھتے ہیں اور برقیؔ اعظمی کی شاعری کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے جگرؔ کی شاعری سے استفادے کی ایک نئی صورت منظرِ عام پر لائی ہے اور وہ جگرؔ کے تمام شاگردوں میں اس لیے ممتاز اور ممیز ہیں کہ جگرؔ کے مدح خوانوں نے یا تو غزل کی شاعری کو اپنایا یا پھر خالص ہندوستانی کھیت کھلیان کی کیفیت کو شاعری میں پیش کر کے جگرؔ کی نمائندگی کا حق ادا کیا، اس کے بجائے برقیؔ اعظمی نے جگرؔ کے لب و لہجے کو سلامت رکھتے ہوئے غزل کی دُنیا میں نظمیہ لطافت کو شامل کرنے میں کامیابی حاصل کی اور یہی خوبی برقی اعظمی کی شعری شناخت کا وسیلہ بن جاتی ہے۔

دورِ حاضر کے جدید موضوعات میں خاص طور پر’’ گلوبل وارمنگ‘‘ کو ہی ردیف بنا کر انہوں نے طویل غزلیہ نظم لکھی اسی طرح انٹرنٹ،عالمی سائنس ڈے،عالمی ارض ڈے،ایڈز کا سدِّ باب،آلودگی باعثِ حادثات،آلودگی مٹائیں جیسے موضوعات کو بھی غزلیہ شاعری میں پیش کرتے ہوئے برقی اعظمی نے ندرتِ فکر اور موضوع کی پیش کشی کے معاملے میں حد درجہ کامیابی حاصل کی ہے۔

 ہر موضوع پر اُن کی شاعری میں غزلیہ ہیئت کی نظمیں موجود ہیں اور رواں لب و لہجے کی وجہ سے اُن کی شاعری نہ صرف عام فہم اور دل کو متاثر کرتی ہے بلکہ اُس کی روانی شعر کو گنگنانے اور اُسے یاد کر لینے کا سبب بھی بن جاتی ہے۔اُن کی غیر مردّف غزلیہ ہیئت میں پیش کردہ موضوعاتی غزل کا عنوان ہے ’’منحصر ہے آج انٹر نٹ پہ دُنیا کا نظام‘‘ کے چند اشعار ملاحظہ ہوں جن میں انٹر نٹ کی انگلش لفظیات کو انہوں نے بڑی ہی چابکدستی کے ساتھ استعمال کیا۔نظم کے غزلیہ لہجے میں اظہار اور تسلسل کی روانی کو ہر ادب دوست محسوس کرسکتا ہے…

منحصر ہے آج انٹرنیٹ پہ دُنیا کا نظام

اشہبِ دوراں کی ہے اس کے ہی ہاتھوں میں لگام

’’ورلڈ وائڈ ویب ‘‘میں ہے ممتاز ’گوگل ڈاٹ کام‘

استفادہ کر رہے ہیں آج اس سے خاص و عام

سب سوالوں کا تسلّی بخش دیتی ہے جواب

اس لیے مشہور ہے سارے جہاں میں اس کا نام

ہیں ’’ریڈف میل‘‘ اور ’’یاہو‘‘ بھی نہایت کارگر

جاری و ساری ہے ان کا بھی سبھی پر فیضِ عام

خدمتِ اُردو میں ہے مصروف’’اردستان‘‘ اور

’’انڈین مسلمس‘‘،’’ٹو سرکلس‘‘ خبریں ڈاٹ کام

ہیں یہ ویب سائٹ ضرورت وقت کی احمد علی

اس لیے اہلِ نظر کرتے ہیں ان کا اہتمام

 

ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی نے غزلیہ ہیئت کو کام میں لاتے ہوئے جتنی بھی نظمیں لکھی ہیں اُن میں اکثر جگہوں پر مردّف رویے کو اختیار کیا ہے کہیں کہیں غیر مردّف لہجے کی بھی نمائندگی کی ہے۔بلا شبہ غزلیہ ہیئت میں خیالات نظم کرنے کے لیے غیر مردّف ہیئت کو ہی ترسیل کی تکمیل کا موقع حاصل ہو جاتا ہے اس لیے برقیؔ اعظمی کی شاعری میں اسی طرز کی مؤثر نمائندگی موجود ہے، اس کے علاوہ برقیؔ اعظمی کا ایک اہم کارنامہ یہ بھی کہ انہوں نے ’’یادِ رفتگاں ‘‘ کے زیرِ عنوان اُردو کے مرحوم شاعروں اور ادیبوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے بھی غزلیہ ہیئت میں اظہارِ خیال کیا ہے، انہوں نے معاصر شاعروں اور ادیبوں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ’’شخصی مرثیہ‘‘ کے توسط سے ابنِ صفی،مشتاق احمد یوسفی،احمد فرازؔ اور فیض احمد فیضؔ اور علامہ اقبالؔ کی ستائش کے لیے غزل کی ہیئت میں بہترین خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ہر شاعر اور ادیب پر لکھی ہوئی اُن کی غزل نما نظموں کو نمونے کے طور پر پیش کرنا سخت دشوار ہے، اس لیے ابنِ صفی کی یاد میں اُن کا منظوم خراجِ عقیدت بطورِ نمونہ پیش کیا جاتا ہے۔ غزل کے اس انداز میں بھی انہوں نے یادِ رفتگاں کے زیرِ عنوان غیر مردّف غزلیہ ہیئت کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ ابنِ صفی مرحوم کی یاد میں اُن کے چند اشعار بطورِ نمونہ پیش ہیں …

ابنِ صفی سپہرِ ادب کے تھے ماہتاب

اُردو ادب میں جن کا نہیں ہے کوئی جواب

وہ اپنے دوستوں کے دلوں میں ہے آج تک

ویب سائٹ اُن کی کیوں نہ ہو عالم میں انتخاب

جاسوسی ناولوں میں جو ہیں اُن کے شاہکار

اپنی مثال آپ ہیں وہ اور لاجواب

کرداروں کی زبان سے اپنے سماج کے

وہ کر رہے تھے تلخ حقائق کو بے نقاب

برقیؔ جو اُن کا فرض تھا وہ تو نبھا گئے

ہے اقتضائے وقت کریں اُس کا احتساب

 

ڈاکٹر احمد علی برقیؔ نے مرحوم شاعروں اور ادیبوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے بھی سادہ لب و لہجے کی توسط سے غزلیہ ہیئت میں فن کے گُن گائے ہیں۔ اس سے خود اندازہ ہوتا ہے کہ برقیؔ اعظمی ہر خیال اور موضوع کو پوری تابناکی کے ساتھ شعر میں پیش کرنے کی صلاحیت سے مالامال ہیں، البتہ یہ ایک حقیقت واضح ہوتی ہے کہ انہوں نے غزل کی ہیئت کے لیے بے شمار عروضی آہنگ کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف ان ہی بحروں کا انتخاب کیا جو رواں اور دل بستگی کا سامان فراہم کرتی ہیں۔ بعض اوقات ایک ہی بحر میں استعمال ہونے والی کئی موضوعاتی نظمیں اور خراجِ عقیدت کا انداز اُن کی شاعری کو یکسانیت سے ہم آہنگ کر دیتا ہے لیکن اُن کے شاعرانہ تشخّص کو بہر حال قبول کیا جانا چاہیے۔بے شمار موضوعاتی نظموں، یادِ رفتگان اور اپنے تعارف کے علاوہ نعت اور غزلوں کے ذریعہ برقیؔ اعظمی نے اعلیٰ انداز کی محفل سجائی ہے اور اُن کی غزلوں میں بھی وہی سادگی اور روانی کام کر جاتی ہے جو شعر کی تفہیم کے ساتھ ساتھ اُس کی ترسیل کا حق بھی ادا کرتی ہے۔چونکہ انہیں جگرؔ مراد آبادی کے رنگِ تغزّل سے خصوصی دلچسپی ہے اور وہ خود کو جگرؔ کے پیرو قرار دیتے ہیں۔ اس لیے جگرؔ کی غزلوں کی زمینوں میں انہوں نے نذرِ جگرؔ مرادآبادی کا جو ایوان سجایا ہے وہ بھی بذاتِ خود ادب کا ایک اہم حصہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ جگرؔ کو اُن کی غزلوں کی زمینوں میں خراجِ عقیدت پیش کرنا بھی ایک مشکل رویہ ہے لیکن اس مرحلے میں بھی برقیؔ اعظمی ثابت قدمی سے اپنی راہ کا تعین کر لیتے ہیں۔ جگرؔ کے بارے میں اُن کی نذرِ جگرؔ والی غزلیہ ہیئت کی نظموں سے چند اشعار پیش ہیں جس میں انہوں نے جگر کی غزلوں کی زمینوں کو بروئے کار لایا ہے…

ہے جگرؔ کی شاعری برقیؔ حدیثِ دلبری

اس تغزّل نے بنا ڈالا ہے دیوانہ مجھے

نذرِ جگرؔ کے چند اور شعر جو بذاتِ خود برقیؔ اعظمی نے جگر کے لب و لہجے کو برقرار رکھتے ہوئے پیش کیا ہے ملاحظہ ہو…

میں جدائی  تری کس  طرح سہوں شام کے بعد

بن ترے تُو ہی بتا کیسے رہوں شام کے بعد

جُز ترے کون کرے گا مری وحشت کا علاج

کس سے میں اپنا کہوں حالِ زبوں شام کے بعد

آتا رہتا ہے مرے ذہن میں اکثر یہ خیال

کیا ملے گا کبھی مجھ کو بھی سکوں شام کے بعد

ضبط کرتا ہوں بہت احمد علی برقیؔ مگر

بڑھنے لگتا ہے مرا جوشِ جنوں شام کے بعد

 

برقیؔ اعظمی نے کئی غزلوں میں جگرؔ کے انداز کو برقرار رکھتے ہوئے انہیں اُن کی زمینوں میں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔اُن کی غزلوں میں بھی فطری روانی اور غزل کی چابکدستی نمایاں ہوتی ہے۔وہ طویل غزلیں لکھنے پر بھی قدرت رکھتے ہیں اور اُن کی غزلوں میں قافیے بڑے چست اور معنی خیز ہوتے ہیں۔ وہ بڑی چابکدستی کے ساتھ خیالات کو لفظوں کے بندھن میں باندھنے کا ہنر رکھتے ہیں اور خاص بات یہی ہے کہ انہوں نے غزل کی روایتی خصوصیات کو بنائے رکھنے میں اپنے فن کو شدّت کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ اُن کی غزلوں سے کسی مختص شعر کا انتخاب کر کے پیش کرنا سخت دشوار ہے کیونکہ ہر شعر اپنی وحدت اور خیال کی باریک بینی کی وجہ سے کیفیاتی فضا قائم کرنے میں منفرد ہے البتہ انہوں نے اپنے مقطعوں میں جس ندرت اور پاکیزہ خیالی کو پیشِ نظر رکھا ہے اُس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اُن کی غزلوں کے چند مقطعے بطورِ نمونہ پیش ہیں …

طبیعت ہے برقیؔ کی جدّت پسند

کسی نے نہیں جو کیا کر چلے

 

کچھ نہ آئی کام میری اشک باری ہجر میں

سو صفر جوڑے مگر برقیؔ نتیجہ تھا صفر

 

ناکامیوں سے کم نہ ہوا میرا حوصلہ

برقیؔ قدم میں آگے بڑھاتا چلا گیا

سفر دشتِ تمنا کا  بہت  دشوار   ہے  برقیؔ

پہنچ جاؤں گا میں لیکن وہاں لغزیدہ لغزیدہ

 

برقیؔ کے حالِ زار تھی اُس نے نہ لی خبر

وہ کر رہا تھا نامہ نگاری تمام رات

برقیؔ اعظمی رواں بحروں میں غزل لکھنے کی حسن کاری سے بخوبی واقف ہیں اور وہ جمالیاتی احساس کو غزل میں شامل کر کے ایک جانب تو شعری کائنات سجاتے ہیں تو دوسری جانب احساس کی گرمی کے توسط سے اپنے کلام کو تاثیر سے وابستہ کرتے ہیں۔ اُن کی شاعری کے یہ چند ایسے اوصاف ہیں جو عصرِ حاضر کے شاعروں میں خال خال ہی نظر آتے ہیں۔اس لیے روانی اور سبک روی کے ساتھ غزل کی کائنات سجانے پر برقیؔ اعظمی کے کلام کا استقبال کرنا چاہیے اور یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے غزل کے اظہاری وسیلے کو وسعت دے کر اکیسویں صدی میں غزلیہ شاعری کی اہمیت اور افادیت کو حد درجہ مستحکم کر دیا ہے۔

٭٭٭

 ڈاکٹر محمد صدیق نقویؔ

ادونی

 (آندھرا پردیش)

ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی کی موضوعاتی شاعری

اُردو ادب میں موضوعاتی شاعری پر بہت کم  توجہ دی گئی ہے۔قلی قطب شاہ سے لے کر ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی تک اُردو ادب میں موضوعاتی شاعری نے جو ارتقائی سفر طے کیا ہے اس کا ایک طویل پس منظر ہے۔اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ہر موضوع کا تعلق بہ ظاہر محدود متن اور پس منظر سے ہو تا ہے مگر جہاں تک اس کے دائرۂ کار کا تعلق ہے تو یہ لا محدود ہو تا ہے۔ماضی میں اس رجحان کو انجمن پنجاب کی خیال انگیز اور فکر پرور تحریک سے ایک ولولہ تازہ نصیب ہوا۔آقائے اُردو مولانا محمد حسین آزاد، خواجہ الطاف حسین حالیؔ، شبلیؔ نعمانی،اسمٰعیل میرٹھی  اور متعد د زعما نے خونِ جگر سے اس صنف شاعری کی آبیاری کی اور اسے پروان چڑھانے میں اپنی  تمام  صلاحیتیں صرف کیں۔ موضوعاتی شاعری اور اس کے پس پردہ کارفرما  لا شعوری محرکات کا بہ نظرِ غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ معاصر ادبی دور میں موضوعاتی شاعری نے اب ایک مضبوط اور مستحکم روایت کی صورت میں اپنی افادیت کا لوہا منوا لیا ہے۔ اس طرح یہ روایت تاریخ کے مسلسل عمل کے اعجاز سے پروان چڑھتی ہوئی دَور جدید میں داخل ہوئی۔ اس عہد میں ہمیں تمام اہم شعرا کے ہاں اس کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ عالمی شہرت کے حامل نامور پاکستانی ادیب اور دانشور محسن بھوپالی کا ایک شعری مجموعہ ’’موضوعاتی شاعری ‘‘ کے نام سے آج سے پندرہ برس قبل شائع ہو ا تھا۔اس طرح اولیت کا اعزاز انھیں ملتا ہے۔ ان کی نظم ’’شہر آشوب کراچی‘‘ مقبول موضوعاتی نظم ہے۔اُردو کے روشن خیال ادیبوں نے نئے افکار، جدید اسالیب، اور زندگی کی نئی   معنویت کو موضوعاتی شاعری کی اساس بنایا۔

ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی کی شاعری میں موضوعات کا تنوع،جدت اور ہم گیری ان کی انفرادیت کا  ثبوت ہے۔ ان کی موضوعاتی شاعری جہاں کلاسیکی روایات کا پر تو لیے ہوئے ہے وہاں اس میں عصری آگہی کا عنصر بھی نمایاں ہے۔معاشرے، سماج اور اقوام عالم کے ساتھ قلبی وابستگی کے معجز نما اثر سے ا ن کے ہاں ایک بصیرت اور علمی سطح فائقہ دکھائی دیتی ہے۔ وہ جس علمی سطح سے تخلیق فن کے لمحوں میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں اس کا براہِ راست تعلق آفاقیت سے ثابت ہوتا ہے۔ فرد، معاشرے، سماج، وطن، اہل وطن،حیات،کائنات اور اس سے بھی آگے ارض و سما کی لا محدود نیرنگیاں ان کی موضوعاتی شاعری میں اس دلکشی سے سما گئی ہیں کہ قاری ان کے اسلوب بیاں سے مسحور ہو جاتا ہے۔ ان کی یہ موضوعاتی شاعری منظوم تذکرے کی ایک منفرد صورت قرار دی جا سکتی ہے۔ اس موضوعاتی شاعری میں منظوم انداز میں جو تنقیدی بصیرتیں جلوہ گر ہیں، وہ اپنی مثال آپ ہیں۔اس سے قبل ایسی کوئی مثال اُردو شاعری میں موجود نہیں۔ انسان شناسی اور اسلوب کی تفہیم میں کوئی ان کا مقا بلہ نہیں کر سکتا۔ موضوعاتی نظموں میں جو منفرد اسلوب انھوں نے اپنایا ہے وہ اوروں سے تقلیدی طور پر بھی ممکن نہیں۔ وہ لفظوں میں تصویر کھینچ کر رکھ دیتے ہیں اور قاری چشم تصور سے تمام حالات و واقعات سے آگاہ ہو جاتا ہے۔وہ اصلاحی اور تعمیری اقدار کو اساس بنا کر پرورش لوح و قلم میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کی شاعری میں قصیدہ گوئی یا مصلحت اندیشی کا کہیں گزر نہیں۔ وہ ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز حریت فکر کے مجاہد کی طرح اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حرف صداقت لکھتے چلے جاتے ہیں۔ ان کی موضوعاتی شاعری کا تعلق زیادہ تر مرحوم ادیب، شاعر، فنون لطیفہ کے نابغہ روزگار  افراد اور فطرت کے مظاہر ہیں۔ حق گوئی، بیباکی اور فطرت نگاری ان کی موضوعاتی شاعری کا نمایاں ترین وصف ہے۔

ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی نے تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگ سنگ میں اُترنے کی جو کامیاب سعی کی ہے  وہ لائق صد رشک و تحسین ہے۔ ان کا تشخص اپنی تہذیب، ثقافت، کلاسیکی ادب اور اقوام عالم کے علو م و فنون کے ساتھ قرار پاتا ہے۔ وہ اقتضائے وقت کے مطابق تیزی سے بدلتی ہوئی دُنیا  کے ساتھ عہد وفا استوار رکھتے ہیں اور اسی کو علاج گردش لیل و نہار قرار دیتے ہیں۔ وہ  اس امرکی جانب متوجہ کرتے ہیں کہ اگر کوئی قوم اپنے اسلاف کی عظمت اور فکری میراث سے چشم پوشی کی مہلک غلطی کی مرتکب ہوتی ہے تو اس نے گویا یہ بات طے کر لی ہے کہ اسے اپنی ترقی اور عظمت سے کوئی سرو کار نہیں ہے۔اسی لیے ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی نے عالمی شہرت کے حامل تخلیق کاروں کے بارے میں نہایت خلوص اور درد مندی سے کام لیتے ہوئے مثبت شعور اور آگہی پروان چڑھانے کی کوشش کی ہے۔ کلاسیکی اُردو شعرا کے متعلق ان کی موضوعاتی شاعری ان کی انفرادیت کے حیران کُن پہلو سامنے لاتی ہے۔ اس موضوعاتی شاعری میں ایک دھنک رنگ منظرنامہ ہے۔ تخلیق کار نے ید بیضا کا معجزہ دکھایا ہے۔ اس میں موضوعات کی ندرت، معروضی حقائق، خارجی اور دا خلی کیفیات، انفرادی اور اجتماعی زندگی کے جملہ معمولات اس مہارت سے اشعار کے قالب میں ڈھالے گئے ہیں کہ قاری  حیرت زدہ رہ جاتا ہے اور وہ پکار اُٹھتا ہے…

اے مصور تیرے ہاتھوں کی بلائیں لے لوں

اپنی موضوعاتی شاعری میں ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی نے جن عظیم شخصیات کو منظوم نذرانہ عقیدت پیش کیا ہے ان میں میر تقی میرؔ، میرزا اسداللہ خان غالبؔ، احمد فرازؔ، پروین شاکر، شبنم رومانی، فیض احمد فیضؔ، سیّد صادقین نقوی امروہوی (مصور)، مظفر وارثی اور متعدد تخلیق کاروں کو انہوں نے زبر دست خراج تحسین پیش کیا ہے۔ زبان و بیان پر اُن کی خلاقانہ دسترس کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ ان کے اسلوب میں پائی جانے والی اثر آفرینی قلب اور روح کی گہرائیوں میں اتر کر دامن دل کھینچتی ہے۔

انسانیت اور زندگی کی اقدار عالیہ کے ساتھ ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی کی والہانہ محبت ان کی موضوعاتی شاعری میں جس انداز میں جلوہ گر ہے، وہ ان کے ندرت تخیل اور انفرادی اسلوب کی شاندار مثال ہے۔ بے لوث محبت اور درد کا یہ رشتہ ان کی ایسی تخلیق ہے جس میں کوئی ان کا شریک اور سہیم نہیں۔وہ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے داعی اور علمبردار ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ جغرافیائی حدود اور زمان و مکاں کے دائروں سے آگے نکل کر انسانیت کے آفاقی محور میں اپنا تخلیقی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سائنس کے غیر شخصی انداز سے قطع نظر ان کے اسلوب میں شخصی اور انفرادی انداز کی بوقلمونی اپنا رنگ جما رہی ہے۔ ان کی موضوعاتی شاعری میں ان کا انفرادی اسلوب اس دلکش انداز میں صفحہ قرطاس پر منتقل ہوتا ہے کہ اُن کے قلبی احساسات، سچے جذبات، الفاظ اور زبان کی گہری معنویت، پر تاثیر اشاراتی کیفیات اور سب سے بڑھ کر تہذیبی میراث کا تحفظ ان کا مطمح نظر قرار دیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے ہمارے ادب،تہذیب و ثقافت اور تاریخ کی مستحسن اور عزیز ترین اقدار و روایات کو صیقل کیا ہے ان کی اس فکری و فنی کاوش نے متعدد تجربات، مشاہدات اور بصیرتوں کو پیرایۂ اظہار عطا کیا ہے۔ ان کے سوتے ہمارے اسلاف کی فکری میرا ث سے پھوٹتے ہیں۔ ان کے مطالعہ سے قاری ان تمام مآخذ اور منابع سے آگہی حاصل کر لیتا ہے جن پر ابلق ایام کے موسموں کی گرد پڑ چکی ہے۔ ہمارا معاشرہ اور فطرت کے تقاضے اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ رخش عمر مسلسل رو میں ہے انسان کا ہاتھ نہ تو باگ پر ہے اور نہ ہی اس کے پاؤں رکاب میں ہیں۔ ان تمام تناسبوں اور تقاضوں کو ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہیے۔شعوری سوچ اور گہرے غور و فکر کے بعد ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی نے موضوعاتی شاعری کو اپنے اسلوب کے طور پر اپنایا ہے۔یہ سب کچھ  تاریخی شعور کا مرہون منت ہے جو حدود وقت، زماں اور لامکاں اور ارضی و سماوی قیود سے بالا تر ہے۔ ایک جری اور زیرک تخلیق کار اسی شعور کو رو بہ عمل لاتے ہوئے روایت کو استحکام عطا کرتا ہے۔ وہ اپنی داخلی کیفیت سے مجبور ہو کر کسی بھی موضوع پر برجستہ اور فی البدیہہ لکھنے پر قادر ہیں۔ یہ ان کی قادرالکلامی کا ٹھوس ثبوت ہے۔ ان کا یہ اسلوب انھیں ممتاز اور منفرد مقام عطا کرتا ہے۔ ان کی تخلیقی فعالیت اور ادب پاروں سے اُردو زبان و ادب کی ثروت میں جو بے پناہ اضافہ ہوا ہے وہ تاریخ ادب کا ایک درخشاں باب ہے۔ ان کے بار احسان سے اُردو زبان و ادب کے شیدائیوں کی گردن ہمیشہ خم رہے گی۔ان کے فن پاروں کی حقیقی قدر وقیمت کا تعین کرتے وقت قاری اس بات پر ضرور توجہ دیتا ہے کہ تخلیق کار نے کامیاب ابلاغ کے تمام طریقے پیش نظر رکھے ہیں ان میں اسلوب کی انفرادیت، الفاظ کا عمدہ انتخاب، سادگی اور سلاست، خلوص اور صداقت شامل ہیں۔ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی کی موضوعاتی شاعری کا حقیقی استحسان کرنے کے لیے ذوق سلیم کا ہونا اشد ضروری ہے۔ وہ تزکیہ نفس کی ایسی صورتیں تلاش کر لیتے ہیں کہ فریب سود و زیاں سے گلو خلاصی کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔ انھوں نے مواد اور ہیئت کے جمالیاتی عناصر کو اس طرح شیر و شکر کر دیا ہے کہ ان کی موضوعاتی شاعر ی پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے۔ ان کی ادبی کامرانیوں کا اعتراف بہت ضروری ہے۔ تاریخ ہر دور میں اس نابغہ روزگار ادیب کے نام کی تعظیم کر ے گی۔

پچاس صفحات پر مشتمل ’’برقی شعاعیں ‘‘ ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی کی وہ معرکۃالآرا تصنیف ہے جس میں انھوں نے تاریخ ادب میں پہلی بار ماحولیات کے تحفظ کے موضوع پر نظمیں لکھی ہیں۔ یہ تمام نظمیں برقی کتاب کی شکل میں انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہیں۔ سرسیّد احمد خان نے علی گڑھ تحریک کے ذریعہ 1857ء میں بر صغیر پاک و ہند کے عوام کی فلاح  اور ملت اسلامیہ کی تعلیمی ترقی کے لیے جو فقید المثال خدمات انجام دیں انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں …

 

بیادِ سر سیّد احمد خاں …

ہے یہ سر سیّد کا فیضان نظر

جس نے شہر علم کے کھولے ہیں در

جس گھڑی کوئی نہ تھا پرسان حال

تھی بھلائی قوم کی پیش نظر

ان کا برقیؔ ہے یہ احسان عظیم

ہیں علوم  عصر سے ہم باخبر

جدید اُردو ادب ہو یا قدیم کلاسیکی ادب ان کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔ وہ ہر موضوع پر بے تکان لکھتے چلے جاتے ہیں۔ اپنے جذبات کا اظہار کرتے  وقت وہ نہایت دلنشین انداز میں تمام حقائق کو اشعار کے قالب میں ڈھالتے ہیں۔ ’’مشتے از خروارے‘‘ کے مصداق چند موضوعاتی نظموں سے منتخب اشعار پیش خدمت ہیں۔ ان کے مطالعہ سے تخلیق کار کے اسلوب کا استحسانی مطالعہ ممکن ہے۔

 

 میر تقی میرؔ …

میرؔ کی شاعری میں ہے سوز دروں

منعکس جس سے ہوتا ہے حال زبوں

ان کا رنگ تغزل ہے سب سے جدا

آج بھی جس سے ملتا ہے ذہنی سکوں

مرزا اسداللہ خان غالبؔ …

شہر دہلی ہے دیار غالبؔ

یہیں واقع ہے مزار غالبؔ

آج تک اُردو ادب کے برقیؔ

محسنوں میں ہے شمار غالبؔ

 شبنم رومانیؔ …

چلے گئے شبنم رومانیؔ بجھ گئی شمع شعر و سخن

ہل نظر کو یاد رہے گا ان کا شعور فکر و فن

ابن صفیؔ …

ابن صفی سپہر ادب کے تھے ماہتاب

اُردو ادب میں جن کا نہیں ہے کوئی جواب

شادؔ عظیم آبادی …

قصر اُردو کے تھے ستوں شادؔ عظیم آبادی

فکر و فن کے تھے فسوں شادؔ عظیم آبادی

عمر خالدی…

چل بسے اس جہاں سے عمر خالدی

درس حسن عمل تھی جن کی زندگی

راغبؔ مراد آبادی…

راغبؔ مراد آبادی جہاں میں نہیں رہے

جو تھے جہاں اُردو میں اک فخر روزگار

اُردو ادب کو ان پہ ہمیشہ رہے گا ناز

جن کے نوادرات ہیں اُردو کا شاہکار

ابن انشاؔ (شیر محمد)…

ابن انشا کا نہیں کوئی جواب

ان کا حسن فکر و فن ہے لا جواب

ان کا طرز فکر و فن سب سے جدا

ان کا فن روشن ہے مثل  آفتاب

ممتازؔ منگلوری…

ڈاکٹر ممتازؔ منگلوری بھی رُخصت ہو گئے

کیوں نہ ہو دُنیائے اُردو ان کے غم میں سوگوار

ان کی تصنیفات ہیں اُردو ادب کا شاہکار

ان کی ہیں خدمات ادبی باعث صد افتخار

سیّد صادقین امروہوی…

شاعر و خطاط و دانشور تھے سیّد صادقین

جن کا ہوتا تھا عظیم الشان لوگوں میں شمار

سرحدوں کی قید سے آزاد ہیں ان کے فنون

جن کے ہیں مداح اقصائے جہاں میں بے شمار

ڈاکٹر وزیر آغا…

ستون اُردو لرز رہا ہے نہیں رہے اب وزیر آغا

جسے بھی اُردو سے کچھ شغف ہے وہ نام سے ان کے ہے شناسا

نقوش ہیں لازوال ان کے تمام اصناف فکر و فن میں

سبھی کو ہے اعتراف اس کا ادب کے محسن تھے وہ سراپا

مظفر وارثی …

چھوڑکر ہم کو ہوئے رُخصت مظفر وارثی

جن کی عملی زندگی تھی مظہر حب نبی

نعت گوئی میں تھے وہ حسانِ ثانی برملا

ان کی غزلیں اور نظمیں تھیں سرود سرمدی

 

ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہیں۔ ان کی موضوعاتی شاعری میں اس عشق کا بر ملا اظہار ملتا ہے۔ کسی قسم کی عصبیت ان کے اسلوب میں نہیں پائی جاتی۔ ان کا پیغام محبت ہے اور وہ اخوت کی جہانگیری اور محبت کی فراوانی کے مبلغ ہیں۔ اُردو کی فنی اور جمالیاتی اقدار کے فروغ میں ان کا جو کردار رہا ہے وہ لائق صد رشک و تحسین ہے۔ ان کی انفرادیت نے ان کو صاحب طرز ادیب کے منصب پر فائز کیا ہے۔ ان کے ادبی وجود کا اثبات اور استحکام ان کی جدت، تنوع اور انفرادیت کا مرہون منت ہے۔ وہ تقلید کی کورانہ روش سے دامن بچا کر نئے زمانے نئے صبح و شام پیدا کرنے کے متمنی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ افکار تازہ ہی سے جہان تازہ کا سراغ ملتا ہے۔ ایسے زیرک اور فعال تخلیق کار کا ادبی کام قابل قدر ہے۔ انھوں نے اپنی مستعدی اور تخلیقی فعالیت سے جمود کا خاتمہ کیا اور دلوں کو مرکز مہر و وفا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے بارے میں یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ ادب کا کوئی دیانتدار نقاد ان کی اس تخلیقی فعالیت کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔انھوں نے قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں بھی انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو اپنا شعار بنا رکھا ہے۔ ان کی شاعری اور اسلوب جس حسین اور دلکش انداز میں قاری کے شعور کو وسعت اور ذہن و ذکاوت کو لطافت سے فیضیاب کرتا ہے، وہ ان کے بلند پایہ تخلیق کار ہونے کی دلیل ہے۔ ان کی موضوعاتی شاعری کی باز گشت  تا ابد سنائی دیتی رہے گی…

پڑھتے  پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ

مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں

٭٭٭

 ڈاکٹر غلام شبیر رانا

برقیؔ اعظمی کی ’’روحِ سخن‘‘

ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی جیسے قادر الکلام شاعر کے مجموعۂ شاعری ’’روحِ سخن ‘‘ کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے گھبراہٹ سی ہو رہی ہے… کہاں وہ اور کہاں یہ ناچیز۔

برقیؔ اعظمی ایک زود گو شاعر ہیں۔ اُن کی زود گوئی ان کے کلام کے معیار پر اثر انداز نہیں ہوتی بلکہ اسے مہمیز کرتی ہے۔اُن کی طبیعت میں جو ایک جولانی، جوش ولولہ اور زمزمہ ہے اسے حاصل کرنے میں انھوں نے نہ صرفِ پتہ مارا ہے بلکہ جگر کاوی کی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ وہ ایک ساحر ایک جادوگر ہیں۔ اُن کے سامنے الفاظ تشبیہات تلمیحات اور محاورے قطار اندر قطاردست بستہ سر جھکائے کھڑے ہیں اور انتظار میں ہیں کہ کب برقیؔ صاحب حکم دیں اور وہ سجدہ بجا لائیں۔

اُردو ان کے گھر کی لونڈی ہے اور فارسی اُن کی دوست۔انہوں نے ابوالکلام آزاد اور اقبالؔ کی فارسی غزلوں کو جس طرح اُردو کا جامہ پہنایا ہے تو یوں لگتا ہے کہ یہ غزلیں اُردو میں لکھی گئی ہیں۔ برقیؔ اعظمی کی قادرالکلامی ، تخلیقی قوت اور اسلوب کا تہور جان کر مجھے تین شاعر یاد آتے ہیں۔ میر انیسؔ، جوش ملیح آبادی اور جعفر طاہر۔ ان تینوں کو زبان و بیان پر جو قدرت حاصل تھی وہ اپنی مثال آپ ہیں۔انہوں نے طرح طرح اور متنوع موضوعات کو جس حُسنِ نزاکت اور دلنشینی سے پیش کیا ہے اُسے ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ وہ خدا داد صلاحیت ہے۔تخلیقی عمل کا تجزیہ ایک بڑا کٹھن مرحلہ ہے اور اس کے بارے میں کوئی عالم یا نقاد آخری رائے نہیں دے سکتا۔ برقیؔ اعظمی نے ان شاعروں کی صف میں کھڑے ہونے کی کاوش کی۔ انہوں نے ہیئت اور موضوع میں روایت کی پاسداری کرتے ہوئے جدید تقاضوں کو پس انداز نہیں ڈالا۔ ان کے اسلوب میں جو جوشِ بیان ہے وہ صرف الفاظ سے پیدا نہیں ہوتا اس کا تعلق بحر و آہنگ سے ہے۔ انہوں نے مشکل زمینوں اور لمبی بحروں سے اجتناب کیا۔ وہ اپنے تخیل کی صناعی اور فنکاری کو  پورے طور پر بروئے کار لائے اور فن اور اسلوب کو ایک دوسرے میں مدغم کر کے ایک نیا شعری سانچا تخلیق کیا جس میں جذبات کی صداقت،انداز کی شیرینی اور حلاوت قدم قدم پر آپ کو ملتی ہے۔

 غزل اپنی تنگ دامنی کی وجہ سے ردیف اور قافیہ میں قید ہے اور بہت سے موضوعات کو اس انداز میں پیش نہیں کرسکتی لیکن ایک قادر الکلام شاعر کے سامنے یہ تنگ دامانی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ میرؔ، غالبؔ اور اقبالؔ نے جس طرح غزل کے امکانات میں ایسی وسعت پیدا کی کہ دُنیا کے سارے مسائل کا احاطہ کر لیا۔ برقیؔ اعظمی نے روایات کی پیروی کی وہ جذبات کو مصور کرتے ہیں اور خیالات کی تصویر بناتے ہیں۔

برقیؔ اعظمی نے اپنی غزلوں میں چھوٹی بحر کو استعمال کیا ہے۔ اُردو کے کلاسیکل شاعروں نے بھی یا درمیانی بحریں زیادہ استعمال کی ہیں۔ شاید بہت سے مضامیں کو ان بحروں میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ میر تقی میرؔ غالباً پہلے شاعر ہیں جنھوں نے نہایت صناعی اور مہارت سے چھوٹی بحروں کا استعمال کیا ایک اور ہر طرح کے مضامین کو ان میں باندھا۔ غالبؔ نے چھوٹی بحریں استعمال کیں لیکن زیادہ نہیں۔ البتہ جدید دور میں جگر مرادآبادی  اور ان کے بعد فیض احمد فیضؔ نے چھوٹی بحروں کو نہایت چابکدستی سے برتا۔ برقیؔ اعظمی کی غزلوں کا زیادہ سرمایہ  چھوٹی بحروں میں ہے۔ انھوں نے جوش بیان اور معنی کو اس طرح شیر و شکر کیا کہ غزل کی غنائیت اور سوز و گداز ذرا بھی مجروح نہیں ہوا۔

برقیؔ اعظمی کی غزل میں آپ کو جس کلچر کی گونج سنائی دیتی ہے وہ بر صغیر ہند و پاک کی گنگا جمنی رنگت ہے لیکن اس کے باوجود اس کا لہجہ اسلامی ہے۔ میں ثبوت کے طور پر ان کی چند غزلیں پیش کرتا ہوں۔

دیارِ شوق میں تنہا بُلا کے چھوڑ دیا

حسین خوابِ محبت دکھا کے چھوڑ دیا

کیا تھا وعدہ نبھانے کا رسمِ اُلفت کا

دکھائی ایک جھلک مُسکرا کے چھوڑ دیا

وہ سبز باغ دکھاتا رہا مجھے اور پھر

نگاہِ ناز کا شیدا بنا کے چھوڑ دیا

اُجاڑنا تھا اگر اُس کو تو بسایا کیوں

نگارخانۂ ہستی سجا کے چھوڑ دیا

سمجھ میں کچھ نہیں آتا یہاں سے جاؤں کہاں

عجیب موڑ پہ یہ اُس نے لا کے چھوڑ دیا

ہے آج خانۂ قلبِ حزیں یہ تیرہ و تار

جلا کے شمعِ تمنا بُجھا کے چھوڑ دیا

٭٭٭

 

نظر بچا کے وہ ہم سے گزر گئے چُپ چاپ

ابھی یہیں تھے نہ جانے کِدھر گئے چُپ چاپ

ہوئی خبر بھی نہ ہم کو کب آئے اور گئے

نگاہِ ناز سے دل میں اُتر گئے چُپ چاپ

دکھائی ایک جھلک اور ہو گئے روپوش

تمام خواب اچانک بکھر گئے چُپ چاپ

یہ دیکھنے کے لئے منتظر ہیں کیا وہ بھی

دیارِ شوق میں ہم بھی ٹھہر گئے چُپ چاپ

کریں گے ایسا وہ اِس کا نہ تھا ہمیں احساس

وہ قول و فعل سے اپنے مُکر گئے چُپ چاپ

فصیلِ شہر کے باہر نہیں کسی کو خبر

بہت سے اہل ہنر یوں ہی مر گئے چُپ چاپ

دکھا رہے تھے ہمیں سبز باغ وہ اب تک

اُنھیں جو کرنا تھا برقیؔ وہ کر گئے چُپ چاپ

٭٭٭

 

اُردو کلچر اور ادب کو اس دَور میں جو مخدوش حالات درپیش ہیں ان پر سیاسی مذہبی ثقافتی اور ہُنری نظریات کی ایک زبردست یلغار ہے۔ اس یلغار کو صرف برقیؔ اعظمی جیسے دانشور اپنی تخلیقات سے روک سکتے ہیں۔

عظیم ادب کے دو اصول ہوتے ہیں۔ پہلا اصول یہ ہے کہ اس شہ پارے میں وہ ساری خوبیاں اور جوہر موجود ہوں جن کو ہم داخلی خصوصیات کہتے ہیں۔ دوسرا اصول یہ ہے کہ ہیئت واسلوب سے زیادہ اہم شاعر کا پیغام ہوتا ہے جو اعلیٰ ترین خیالات اور تصورات کا مرقع ہوتا ہے۔

شاعری جزویست از پیغمبری

اس نظریہ کی روشنی میں اگر دُنیا کے عظیم شاہکاروں کو پرکھا جائے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ عظیم ادب وہ ہے جو عظیم تصورات پیش کرتا ہے۔ اس اصول،کا اطلاق برقیؔ اعظمی کی شاعری پر پوری طرح ہوتا ہے۔

برقیؔ اعظمی کی شاعری کا ایک پہلو ایسا ہے جس پر بہت شاعروں نے طبع آزمائی نہیں کی ہے۔ موضوعاتی شاعری ایک کٹھن، مشکل اور خشک فن ہے۔ انھوں نے ’’یادِ رفتگاں ‘‘ کے عنوان کے تحت زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں شخصیات پر نظمیں کہی ہیں۔ اکثر نظمیں فی البدیہہ ہیں۔ برقیؔ اعظمی کی موضوعاتی شاعری کلاسیکی روایاتِ شعر و ادب سے پوری طرح ہم آہنگ ہے لیکن اس میں عصرِ حاضر کا رنگ بھی پوری طرح آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ اعظمی صاحب کے یہاں موضوعات کے انتخاب میں ایک آفاقیت ہے۔ وہ رنگ و نسل اور مذہب کی حدود پار کر جاتے ہیں۔ان کے دل میں انسانیت کا گہرا درد موجود ہے۔ انہوں نے جو نقش رنگا رنگ پیش کئے اس کی مثال اُردو ادب میں نہیں ملتی۔ اعلیٰ انسانی اقدار اور آفاقی محبت ان کی موضوعاتی شاعری کا سمبل ہے۔ اس طرح وہ ایک تاریخی شعور سے آشنا ہوتے ہیں جو ان کو صوفیوں کے حلقہ میں لے آتا ہے۔ میرے نزدیک وہ جدید دور کے سچے صوفی ہیں۔

مجھے پورا یقین ہے کہ ان کے شعری مجموعے ’’ روحِ سخن‘‘ کی نہ صرف ادبی حلقوں بلکہ عوام میں بھی پذیرائی ہو گی۔ میری نیک تمنائیں اور دُعائیں ان کے ساتھ ہیں۔

٭٭٭

 انور خواجہ

ریزیڈینٹ ایڈیٹر، ہفت روزہ ’’اُردو لنک‘‘

امریکہ

ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی کے افکارِ پریشاں

برسوں بعد اوکھلا میں واقع جامعہ نگر سے متصل جوہری فارم میں واقع موصوف کے دولت کدے پر ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو یہ جان کر بیحد مسرت و شادمانی کا احساس ہو ا کہ وہ اپنے والدِ مرحوم رحمت الٰہی برقؔ اعظمی کے کلام کی ترتیب و اشاعت کے بعد اپنے مجموعۂ کلام کی اشاعت کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ مجموعۂ کلام کا عنوان ہے ’’روحِ سخن‘‘۔ جب ناچیز نے مسودے کی ورق گردانی شروع کی تو انہوں نے مجھ سے بھی کچھ لکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ چنانچہ مسودہ میں اپنی عارضی قیام گاہ پر لے آیا۔ جب اس کا بغور مطالعہ شروع کیا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اتنا باکمال شاعر اب تک گوشۂ گمنامی میں کیوں پڑا تھا۔

موضوعِ سخن ہے مرا رودادِ زمانہ

ہیں وقت کی آواز یہ افکار پریشاں

ایک ایسا شاعر جس کی نگاہ زمانے کے نشیب و فرازپر ہو وہ بھلا تقریباً ساٹھ سال تک اپنے شعری مجموعے کو آخر منظرِ عام پر کیوں نہ لایا۔ظاہر ہے اس کا سبب مالی مسائل ہی ہو سکتے ہیں۔وہ تو بھلا ہو قومی کونسل برائے فروغِ اُردو زبان کا، کہ جس کے مالی تعاون نے برقیؔ اعظمی کو وہ برقؔ رفتاری عطا کی ہے کہ ستمبر ۲۰۱۳ء میں ’’رُوحِ سخن‘‘ طباعت کے مراحل سے گزر کر قارئین کے درمیان جلوہ گر ہو جائے گی۔ لیکن ناچیز نے ان کے کلام میں جن چند خصوصیات کا مشاہدہ کیا ہے، اسے مختصراً بیان کرنا میں اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں۔

ڈاکٹر برقیؔ اعظمی کے کلام کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے والد مرحوم کی طرح ہی اُستاد داغؔ دہلوی کی روایتِ تغزل کے پاسدار نظر آتے ہیں …

 

دھڑک رہے ہیں فقط آپ اس کی دھڑکن میں

سوائے آپ کے کوئی نہیں وظیفۂ دل

 

عشق ہے دراصل حسنِ زندگی

عشق سے ہے زندگی میں آب و تاب

 

کیسا ہے خوابِ ناز کہ آنکھیں ہیں نیم باز

ہے دلنواز اس کی یہ ناز و ادا کی نیند

 

جھنجھنا اُٹھتا ہے اس سے یہ مرا تارِ وجود

جب بھی کرتا ہوں تصور تری انگڑائی کا

 

گل بداماں، گل بدن، گل پیرہن

باغِ دل کے باغباں خوش آمدید

آپ ہیں رشکِ غزالِ خوش خرام

نازشِ سروِ رواں خوش آمدید

 

اظہارِ تمنا کرتے ہی، ہو جاتے ہیں وہ چیں بہ جبیں

اور سامنے رکھ کر آئینہ بس زلف سنوارا کرتے ہیں

 

رخِ گلگوں کو دیکھ لیتے ہیں

جب کوئی گل کھلا نہیں ہوتا

بزمِ تصورات میں ہوتا ہے وہ مری

ہوتی ہے جب بھی دل میں مرے خواہشِ غزل

 

اُس کا رعبِ حُسن تھا غارت گرِ ہوش و خرد

دیکھتے ہی سلب اُس کو تابِ گویائی ہوئی

 

گر چہ مشاطۂ فطرت نے سنوارا ہے انہیں

پیشِ آئینہ وہ کرتے ہیں خود آرائی بھی

 

اُس کی جو تصویرِ تصور نقش ہے لوحِ دل پہ مری

اُس میں سب سے دلکش منظر ہے اس کی انگڑائی کا

 

یوں تو ہے جلوہ گہہِ ناز پُر از ماہ وشاں

پیکرِ حسن مگر وہ ہے جو تم جیسا ہو

 

روٹھنے اور منانے میں رات سے ہو گئی سحر

میں نے کہا یہاں ہوں میں، اس نے کہا کہاں ہیں آپ؟

 

ہے رودادِ دل یہ غزل کے بہانے

کوئی اس حقیقت کو مانے نہ مانے

 

شرمانا مجھے دیکھ کے اس کا پسِ پردہ

اور چہرۂ زیبا پہ حجابات کا عالم

 

متذکرہ بالا اشعار کا بغور مطالعہ کیا جائے توولیؔ دکنی، میر تقی میرؔ، مومن خاں مومن، داغؔ و حسرتؔ اور جگرؔ تمام متغزلین کی شعری حسّیات کا رس ایک منفرد انداز میں چھلکتا نظر آتا ہے۔ تمام اشعار میں اُن کے ذاتی تجربات و مشاہدات واضح طور پر نظر آتے ہیں اور بعض تشبیہات  و استعارات میں ایسی نُدرت دیکھنے کو ملتی ہے جو اُردو کی رومانی شاعری میں خال خال ہی پائی جاتی ہے۔

 ڈاکٹر برقیؔ اعظمی کی سخنوری کی دوسری خصوصیت جو راقم الحروف نے محسوس کی وہ یہ ہے کہ شاعر عشق کے ذاتی تجربات کو آفاقی سطح تک لے جانے میں پوری طرح کامیاب نظر آتا ہے…

تھے یہی بن گئے جو ترکِ تعلق کا سبب

اب مجھے درہم و دینار سے ڈر لگتا ہے

یادِ ماضی کے تصورسے پراگندہ ہے دل

سوچتا ہوں تو مجھے پیار سے ڈر لگتا ہے

دونوں شکارِ گردشِ دوراں ہیں آج کل

اب گل کی راہ و رسم نہیں عندلیب سے

ڈاکٹر برقیؔ اعظمی اپنی شاعرانہ پرواز کے دوران اپنے والد محترم حضرت برقؔ اعظمی کو کبھی فراموش  نہیں کر پاتے…

آج میں جو کچھ ہوں وہ ہے اُن کا فیضانِ نظر

جن کے فکر و فن کا مجموعہ ہے تنویرِ سخن

میں آج جو بھی ہوں برقؔ اعظمی کا فیض ہے وہ

مرا کلام زمانے کو عارفانہ لگے

پھر ہجر و فراق کے مضامین نہ صرف اُردو شاعری بلکہ عالمی شاعری کا بھی پسندیدہ موضوع رہے ہیں۔تقریباً ہر شاعر نے اپنے معشوق کی جدائی کی تڑپ کو خوبصورت ترین الفاظ و تراکیب اور جدتِ طبع کے ساتھ قلم بند کیا ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر برقیؔ اعظمی کی شاعری میں بھی ندرت کی ہمہ گیری پائی جاتی ہے۔محبوب کے فراق میں ذرا مندرجہ ذیل اشعار دیکھیں …

میری چشمِ نم میں ہے جو موجزن

ایسی طغیانی کبھی دیکھی ہے کیا؟

ہے وہی مضرابِ سازِ دل مرا

ہوں سراپا گوش بر آوازِ دوست

ڈاکٹر برقیؔ خود  فرماتے ہیں …

طبیعت ہے برقیؔ کی جدت پسند

کسی نے نہیں جو کیا کر چلے

 

یہ دردِ جدائی ہے نا گفتہ بہہ اب

سنادے یہ با چشمِ تر جانے والے

 

روح فرسا ہے جدائی کا تصور ان کی

یادِ ماضی میں بھُلاؤں تو بھُلاؤں کیسے

 

منتظر ہیں ترے دیدار کی پیاسی آنکھیں

خواب ہی میں سہی آ جا لبِ بام اے ساقی

 

ہے شبِ فرقت ابھی آئے گی کب صبحِ اُمید

کتنے دلکش تھے وہ زلفِ یار سلجھانے کے دن

 

کتنی ویرانی ہے اب اس میں نہ پوچھو مجھ سے

میرا کاشانۂ دل اب ہے مزاروں کی طرح

 

میں خزاں دیدہ ہوں ہے باغ، تمنا ویران

ایسا لگتا ہے کہ ہو گورِ غریباں کوئی

محبوب کے ہجر میں ذرا عاشق کا حالِ زار ملاحظہ فرمائیں …

تم کہاں کھو گئے کب سے ہوں تمہارا مشتاق

ہے میسر مجھے سب کچھ تجھے پانے کے سوا

 

جہانِ رنگ و بو برقیؔ ہے بے نور

نہیں ہے مونس و غمخوار کوئی

 

جس کو سمجھ رہا تھا رگِ جاں سے بھی قریب

اس کا مجھے زمانے نے ہونے نہیں دیا

 

تیرگی سے نہیں کوئی شکوہ

ایک وحشت ہے روشنی سے مجھے

 

ڈاکٹر برقیؔ کے کلام میں سوز و گداز کا ایک انوکھا پہلو جا بجا نظر آتا ہے…

سر سبز تھا جو پہلے خزاں کا شکار ہے

شاخِ شجر کو دیکھ کے میں آبدیدہ ہوں

میری غزلوں میں ہے جو سوزِ دروں آج نہاں

میری رودادِ محبت کا ہے عنواں جاناں

 

ڈاکٹر برقیؔ اعظمی اپنی عظمتِ رفتہ کی بازیافت کے بھی متمنی نظر آتے ہیں …

میرا یہی ہے کاتبِ تقدیر سے سوال

کیا ہو گی اپنی عظمتِ رفتہ کبھی بحال

لوحِ دل پر جو مری ثبت ہیں یادوں کے نقوش

کاش پھر مجھ کو وہی گزرا زمانہ مل جائے

مرے پیشِ نظر رہتی ہے ہر دم عظمتِ رفتہ

تہی دستی میں بھی یہ خوئے سلطانی نہیں جاتی

شاید اسی لئے اُن کے کلام میں عظمتِ رفتہ کی بازیابی کی روح رواں علامہ اقبالؔ سے حد درجہ عقیدت کا اظہار ملتا ہے…

جذبۂ فکر و عمل کی تشہیر

فکر اقبالؔ کی تقلید کریں

مشعلِ اقبالؔ کو رکھ سامنے

دُور ہو جائے گا سب وہم و گماں

اقبال کی عظمت سے جو بے بہرہ ہیں اب تک

پڑھنے کو انہیں بانگِ درا کیوں نہیں دیتے

ڈاکٹر برقیؔ کے کلام میں تمام اعمال سے بہتر خدمتِ خلق کو قرار دیا گیا ہے…

خدمتِ خلقِ خدا سے نہیں بڑھ کر کچھ بھی

جذبۂ حسن، عمل نوعِ بشر لے آئے

دُنیا ہے رزمگاہ سنبھل کر رہو یہاں

شیشے کے گھر میں رہ کے نہ پھینکو کسی پہ سنگ

نہیں ہے اس سے بڑا اور کارِ خیر کوئی

دیا ہے دل جو خدا نے تو دلنواز رہے

بھارت میں آزادی کے بعد فسادات اقلیتوں کا مقدر بن چکے ہیں، جس کی گونج ڈاکٹر برقیؔ کے کلام میں جا بجا سنائی دیتی ہے…

خانۂ دل میں سجائی تھی جو سوغات اُسے

ہو گئی نذرِ فسادات کہاں سے لاؤں

بحرِ امواجِ حوادث میں سفینہ ہے مرا

جس طرف بھی دیکھتا ہوں سامنے ہے موجِ خوں

ہمیشہ رہتا ہے جو برق و بادِ تُند کی زد میں

وہ میرا آشیانہ ہے کرے کوئی بھرے کوئی

جن مکینوں کو تھا اپنی خوبیِ قسمت پہ ناز

نذرِ آتش ایک دن ’گُلبرگ‘ میں وہ گھر ملے

…اور پھر جس شاعر کا دل تمام نوعِ بشر کے لئے دھڑکتا ہو وہ محنت کشوں کے استحصال پر کیسے خاموش رہ سکتا ہے…

ظلمتِ شب کے فرسودہ دستور کو میں نہیں جانتا میں نہیں مانتا

جو نشانہ بناتا ہو مزدور کو میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

مزدور کا حق مار کے جو کی ہے اکٹھا

اب اُس سے سنبھلتی نہیں دولت وہ سنبھالے

سمٹ کر رہ گئی ہے کیوں یہ دولت چند ہاتھوں میں

جو ہو سب کے لئے وجہِ سعادت کیوں نہیں ہوتی

ڈاکٹر برقیؔ انسانی قدروں کے زوال اور اس پامالی سے حد درجہ بے زار و بد دل نظر آتے ہیں …

منظر ہے آج شام و سحر کا لہو لہو

قلبِ حزیں ہے نوعِ بشر کا لہو لہو

زندگی ہے اب بڑے شہروں میں گویا اک عذاب

مصلحت اندیش ہیں لوگوں میں اپنا پن کہاں

ہے زوال آمادہ اب انسانیت

یوں تو کہنے کو ہیں اب انساں بہت

ڈاکٹر برقیؔ اعظمی فضا کی آلودگی اور عالمی حدت سے بھی کافی بیزار ہیں اور چیخ چیخ کر اپنے اشعار میں نوعِ انسانی کی تباہی کے متعلق بار بار متنبہ کر رہے ہیں …

اوج پر ہے اب گلوبل وارمنگ

رونقِ بزمِ جہاں کل ہو نہ ہو

آج کل خلقت مہنگائی اور بدعنوانی سے حد درجہ خفا نظر آتی ہے۔عام آدمی کا تو اب چولھا جلنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ایسے صبر آزما ماحول میں بھلا برقیؔ اعظمی کیوں کر خاموش رہ جاتے۔

سبھی بیزار ہیں ہر سو گرانی اور کرپشن سے

سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ جائیں تو کہاں جائیں

گزشتہ ساٹھ برسوں سے صیہونیت اسلام پر غالب آنے کی حتی الامکان کوشش کر رہی ہے لیکن جب تک فرزندانِ اسلام اور امن پسند مخلوق اس کُرۂ ارض پر موجود ہے اس کا یہ خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ لیکن بہرحال اس کی ریشہ دوانیاں اور سازشیں بہر طور جاری ہیں اس موضوع پر بھی برقیؔ اعظمی نے اپنے تخیل کا جادو جگایا ہے۔

حالات سے ہے مشرقِ وسطی کے آشکار

صیہونیت کی زد میں ہے امن و امان پھر

ہے فلسطین اس کی ایک مثال

جیسے اک کارزار ہے دُنیا

ڈاکٹر برقیؔ نے دُنیا کی برق رفتاری  کا اچھا خاصہ مشاہدہ کیا ہے۔اسی لئے ان کو دُنیا کی موجودہ رفتار میں حشر سامانی کا منظر دکھائی دیتا ہے۔

سکونِ قلب عنقا ہو گیا ہے

جدھر بھی دیکھئے محشر بپا ہے

ڈاکٹر برقیؔ کا شکوہ بجا ہے۔ آج کل میڈیا اقلیتوں کی صحیح تصویر پیش کرنے کے بجائے اس کی دل آزاری پر آمادہ رہتا ہے۔

الزام دوسروں کا وہ منڈھتے ہیں میرے سر

کرتا ہے نشر میڈیا میں ہوں گناہگار

یہ کیسا انقلاب آیا جہاں میں

بہر سو فتنہ سامانی کے دن ہیں

ڈاکٹر برقیؔ نے شہری زندگی کی بھاگ دوڑ کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ یوں تو ہر کوئی اس بھاگتی دوڑتی زندگی سے بیزار ہے لیکن ڈاکٹر برقیؔ کی بیزاری ظاہر ہے جداگانہ ہے…

فضا ہے شیر کی ناسازگار سب کے لئے

وہ کون ہے جو یہاں آج بدحواس نہیں

جس طرف دیکھو بپا ہے محشر

گر نہیں ہے یہ قیامت کیا ہے

ڈاکٹر برقیؔ ہُنر مندوں کی بدحالی سے بھی سخت نالاں ہیں …

زندگی میں اہلِ فن کو پوچھتا کوئی نہیں

قدر کرتی ہے یہ دُنیا اُن کے مر جانے کے بعد

اہلِ فضل و کمال ہیں گمنام

بامِ شہرت پہ ہیں زمانہ ساز

ڈھیر ساری معرکۃ  الآرا غزلوں کے خالق ڈاکٹر برقیؔ کے دل میں جو خلش بار بار سر اُٹھاتی ہوئی نظر آتی ہے اس احساس کو شاعر نے یوں شعری جامہ پہنایا ہے۔

میرا منظورِ نظر مجھ سے رہا ناآشنا

بے نتیجہ میری برقیؔ خامہ فرسائی ہوئی

ڈاکٹر برقیؔ اُردو شاعری میں صنفِ غزل کی حیثیت تسلیم کرتے ہوئے فرماتے ہیں …

اُردو ادب کو جس پہ ہمیشہ رہے گا ناز

اظہارِ فکر و فن کا وہ معیار ہے غزل

تمام تر قدرتِ اظہار اور خلاقانہ صلاحیتوں کے باوجود ڈاکٹر برقیؔ کہیں کہیں اس قدر پژمردہ اور قنوطیت کے شکار نظر آتے ہیں جس کی نظیر اُردو شاعری میں فانیؔ بدایونی کے سوا اور کے یہاں تو دیکھنے کو نہیں ملتی…

ہے عرصۂ حیات مرا تنگ اس قدر

جی چاہتا ہے چل دوں اسے چھوڑ چھاڑ کے

بہار میں بھی عیاں ہیں خزاں کے اب آثار

جسے بھی دیکھئے لگتا ہے سوگوار مجھے

سکون قلب کسی کو نہیں میسر آج

شکستِ خواب ہے ہر شخص کا مقدر آج

برقیؔ ہے آج ماہیِ بے آب کی طرح

کیوں خانۂ خراب میں رکھا گیا مجھے

 پورے مجموعۂ کلام کے بغور مطالعے کے دوران راقم الحروف نے پایا کہ ڈاکٹر برقیؔ اعظمی محاوروں کے استعمال میں یکتائے روزگار ہیں۔ ایک محاورہ جو انھوں نے کثرت سے استعمال کیا ہے وہ ہے سبز باغ دکھانا۔ ذرا آپ بھی ملاحظہ فرمائیں …

یہ ہے سبز باغ اس کا نہ کرو یقین اس پر

میں مزاج داں ہوں اس کا ہے نہیں بھی ہاں کے پیچھے

 

دکھا رہا ہے مجھے سبز باغ جو برقیؔ

وہ لے کے پھرتا ہے کیوں آستیں میں خنجر آج

 

وہ اپنے ساتھ لے گئے میرا سکون قلب

اک سبز باغ مجھ کو دکھا کر چلے گئے

 

وہ سبز باغ دکھاتا رہا مجھے اور پھر

نگاہِ ناز کا شیدا بنا کے چھوڑ دیا

 

تم دکھاؤ گے یوں ہی برقیؔ کو کب تک سبز باغ

ایسی حرکت  پر اتر آؤ گے سوچا بھی نہ تھا

ڈاکٹر برقیؔ اعظمی ملت مسلمہ کی شیرازہ بندی کے بھی متمنی نظر آتے ہیں۔ وہ ملت کے انتشار پر نہ صرف برہم ہوتے ہیں بلکہ لعنت و ملامت کرنے کا موقع بھی نہیں گنواتے۔

گردشِ حالات سے لیتے نہیں کوئی سبق

ہم ہیں بے حس اس قدر جس کی نہیں کوئی نظیر

سر سیّد اور حالیؔ نہیں ہے کوئی یہاں

عہدِ رواں میں اس کا مجھے ہے بہت ملال

ملتے ہیں میر جعفر و صادق نئے نئے

ہے بھیڑئے کے جسم پہ انساں کی آج کھال

ہے ترا شکوۂ اغیار عبث

کیا مسلماں ہے مسلماں کے قریب

شیرازہ منتشر ہے ملت کا عہدِ نو میں

کچھ شیخ کے ہیں پیچھے اور کچھ ہیں خاں کے پیچھے

بحیثیت مجموعی ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی نے اپنے مجموعۂ کلام ’’روح سخن‘‘ میں صنفِ غزل کی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے جدت و ندرت کی نئی راہیں روشن کی ہیں جو آنے والی نسلوں کے لئے مشعلِ راہ ثابت ہوں گی۔صنفِ غزل میں طبع آزمائی کی ایک طویل روایت کے باوجود ’’روحِ سخن‘‘ کو مذکورہ صنف میں ایک خوبصورت اور قابلِ توجہ اضافہ قرار دیا جائے گا۔ یہ راقم الحروف کا محض ایک دعویٰ نہیں بلکہ آنے والے شعر و شاعری کے اساتذہ اور معتبر ناقدین بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں پس و پیش کے شکار ہرگز نہیں ہوں گے۔ بہتر یہ ہو گا کہ میں اس مضمون کو ڈاکٹر برقیؔ اعظمی کے شعر پر ہی ختم کروں …

پوچھتا کوئی نہیں بزمِ سخن میں آج اسے

شاعری برقیؔ کی زیبِ داستاں ہو جائے گی

٭٭٭

 حسن امام حسنؔ

قطعۂ تاریخ انطباع

شعری مجمو عہ ’’روحِ سخن‘‘ برقیؔ اعظمی

سرگوشیاں میانِ عنادل ہیں ان دنوں

مجموعہ آ گیا کسی شیریں مقال کا

 

ہے شاعری میں اُس کی روانی وہ موجزن

منظر ہو جیسے نظروں میں آبِ زلال کا

 

محفوظ تا ابد رہے اِس کی شگفتگی

سایہ پڑے نہ کہنگیِ ماہ و سال کا

 

چاہا بہ شکلِ قطعۂ تاریخِ انطباع

ہو اعتراف، برقیؔ کے فضل و کمال کا

اِتنے میں گونجی ہاتفِ غیبی کی یہ صدا

موقع نہیں تھا جس میں کسی قیل و قال کا

 

واحد نظیرؔ دل سے یہ تاریخ ہو رقم

’’روحِ سخن‘‘ ہے آئینہ برقیؔ خیال کا

۱۹۷۹   +   ۴۳   =    ۲۰۱۳ء

٭٭٭

 ڈاکٹر واحد نظیرؔ

(اسسٹنٹ پروفیسر)

شعبۂ تربیتِ اُردو اساتذہ

جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی۔

احوالِ واقعی

میں (احمد علی برقیؔ اعظمی) ۲۵؍ دسمبر ۱۹۵۴ء کو شہر اعظم گڑھ (یو۔پی) کے محلہ باز بہادر میں پیدا ہوا۔  میں درجہ پنجم تک مدرسہ اسلامیہ باغ میر پیٹو، محلہ آصف گنج، شہر اعظم گڑھ کا طالبعلم رہا، بعد ازآں شبلی ہائر سیکینڈری اسکول  سے  دسویں کلاس کا امتحان پاس کرنے کے بعد انٹرمیڈیٹ کلاس سے لے کر ایم۔اے اُردو تک شبلی نیشنل کالج، اعظم گڑھ کا طالب علم رہا۔ میں نے  ۱۹۶۹ء میں ہائی اسکول، ۱۹۷۱ء میں انٹرمیڈیٹ، ۱۹۷۳ء میں بی۔اے اور ۱۹۷۵ء میں ایم۔اے اُردو کی سند حاصل کی اور شبلی کالج سے ہی ۱۹۷۶ء میں بی۔ایڈ کیا۔

بعد ازآں مزید اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے ۱۹۷۷ء میں دہلی آ کر جواہر لعل نہرو یونیورسٹی،نئی دہلی میں ایم۔اے فارسی میں داخلہ لیا اور یہاں سے ۱۹۷۹ء میں ایم۔اے فارسی کی سند حاصل کی اور بعد ازآں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی ہی سے پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

میرے والد کا نام رحمت الٰہی اور تخلص برقؔ اعظمی تھا جو نائب رجسٹرار قانون گو کے عہدے پر فائز تھے۔میرے والد ایک صاحب طرز اور قادر الکلام استاد سخن تھے جنہیں جانشینِ داغؔ حضرت نوحؔ ناروی سے شرفِ تلمذ حاصل تھا۔ میرے بچپن کا بیشتر حصہ والد محترم کے سایۂ عاطفت میں گزرا۔ مجھے کہیں آنے جانے کی اجازت نہیں تھی۔ بیشتر وقت والد صاحب کے فیضِ صحبت میں گزرتا تھا جس سے میں نے بہت کچھ حاصل کیا اور آج میں جو کچھ ہوں انہیں کا علمی،قلمی اور روحانی تصرف ہے۔ میرا اصلی نام احمد علی اور تخلص والد کے تخلص برقؔ کی مناسبت سے برقیؔ اعظمی ہے۔ والد صاحب کے فیضِ صحبت کی وجہ سے شعری اور ادبی ذوق کی نشوو نما بچپن میں ہو گئی تھی جو بفضلِ خدا اب تک جاری و ساری ہے۔ والد صاحب کے ساتھ مقامی طرحی نشستوں میں با قاعدگی سے شریک ہوتا رہتا تھا۔ اس وجہ سے تقریباً ۱۵؍سال کی عمر سے طبع آزمائی کرنے لگا۔ ادبی ذوق کا نقطۂ آغاز والدِ محترم کا فیضِ صحبت رہا اور میں نے جو کچھ بھی حاصل کیا انھیں کا فیضانِ نظر اور روحانی تصرف ہے۔ اصنافِ ادب میں  غزل میری محبوب ترین صنفِ سخن ہے۔ غزل سے قطع نظر مجھے موضوعاتی نظمیں لکھنے کا ۲۰۰۳ء سے ۲۰۰۹ء تک کافی شوق رہا اور میں نے اس عرصہ میں ماحولیات، سائنس،  اور مختلف عالمی دنوں کی مناسبت سے بہت کچھ لکھا جو ۶؍سال تک مسلسل ہر ماہ ایک مقامی میگزین ماہنامہ ’’سائنس‘‘ میں شائع ہوتا رہا اور اتنی نظمیں لکھ ڈالیں کی ایک مستقل شعری مجموعہ ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ مجھے ’’یادِ رفتگاں ‘‘ سے خاصی دلچسپی ہے چنانچہ میں بیشتر شعرا، ادیبوں اور فنکاروں کے یومِ وفات اور یوم تولد کی مناسبت سے اکثر و بیشتر لکھتا رہتا ہوں۔ اس سلسلے میں نے حضرت امیر خسروؔ، ولیؔ دکنی، میرؔ، غالبؔ، حالیؔ، شبلیؔ، سر سیّد، احمد فرازؔ، فیضؔ، پروینؔ شاکر، ناصر کاظمیؔ، مظفرؔ وارثی، شہریارؔ، بابائے اُردو مولوی عبدالحق، ابن انشا، جگرؔ، شکیلؔ بدایونی، مجروحؔ سلطانپوری، مہدی حسن، صادقین، مقبول فدا حسین وغیرہ پر بہت سی موضوعاتی نظمیں لکھی ہیں جن کا بھی ایک مجموعہ مرتب ہو سکتا ہے۔ میں عملی طور سے میڈیا سے وابستہ ہوں اور ۱۹۸۳ء سے آل انڈیا ریڈیو کے شعبۂ فارسی سے وابستہ ہوں اور فی الحال انچارج شعبۂ فارسی ہوں۔

فیضؔ، ساحرؔ، مجروحؔ، جگر، حسرتؔ، فانیؔ، پروین شاکر، اور ناصر کاظمیؔ وغیرہ میرے پسندیدہ شعرا ہیں۔ ادیبوں میں سرسید احمد خاں اور شبلی نعمانی سے بیحد لگاؤ ہے۔ میں اُردو ویب سائٹس اور فیس بک پر بہت فعال ہوں اور فیس بک پر میری ۴۰۰۰ سے زائد غزلیں او ر نظمیں البم کی شکل میں موجود ہیں۔

موجودہ دور میں ادب اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے اور اس کی توسیع اور ترویج کے امکانات روشن ہیں۔معاصرانہ چشمک اور گروہ بندی فروغ زبان و ادب کی راہ میں سدِّ راہ ہیں۔ سود و زیاں سے بے نیاز ہو کر اگر ادبی تخلیق کی جائے اور اس میں خلوص بھی کارفرما ہو تو فروغِ ادب کے امکانات مزید روشن ہو سکتے ہیں۔میں اپنی خوئے بے نیازی کی وجہ سے گوشہ نشین رہ کر اپنے ادبی اور شعری ذوق کی تسکین کے لئے انٹرنیٹ اور دیگر وسائلِ ترسیل و ابلاغ کے وسیلے سے سرگرمِ عمل ہوں۔ میں اُردو کی بیشتر ویب سائٹس اور اور فیس بُک کے بیشمار فورمز سے وابستہ ہوں۔مجھے خوشامدپسندی اور زمانہ سازی نہیں آتی اس لئے مقامی سطح پر غیر معروف ہوں۔

 

ہوتا زمانہ ساز تو سب جانتے مجھے

کیا خوئے بے نیازی ہے دیوانہ پن مرا

 

ویب سائٹوں پہ لوگ ہیں خوش فہمی کے شکار

نا آشنائے حال ہیں ہمسائے بھی مرے

 

 

عرضِ حال

ہوتے ہیں اُن کے نام پہ برپا مشاعرے

معیار شعر اُن کی بَلا سے گِرے گِرے

جن کا رسوخ ہے انہیں پہچانتے ہیں سب

ہم دیکھتے ہی رہ گئے باہرکھڑے کھڑے

جو ہیں زمانہ ساز وہ ہیں آج کامیاب

اہلِ کمال گوشۂ عزلت میں ہیں پڑے

زندہ تھے جب تو ان کو کوئی پوچھتا نہ تھا

ہر دور میں ملیں گے بہت ایسے سر پھرے

برقیؔ ستم ظریفیِ حالات دیکھئے

اب ان کے نام پر ہیں ادارے بڑے بڑے

جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا، غزل میری محبوب صنف سخن ہے۔ میرے اسلوبِ سخن پر غیر شعوری طور سے غزلِ مسلسل کا رنگ حاوی ہے۔ گویا میری بیشتر غزلوں میں جیسا کہ بعض احباب نے اس کی طرف اشارہ کیا، غزل کے قالب میں نظم یا مثنوی کا گمان ہوتا ہے جو بعض احباب کی نظر میں محبوب اور بعض لوگوں کے خیال میں معیوب ہے۔ میرا شعورِ فکر و فن میرے ضمیر کی آواز ہے۔ میری غزلیں داخلی تجربات و مشاہدات کا وسیلۂ اظہار ہونے کے ساتھ ساتھ بقول جناب ملک زادہ منظور احمد صاحب  ’’حدیثِ حسن بھی ہیں اور حکایتِ روزگار بھی‘‘۔ میں جس ماحول کا  پروردہ ہوں میری شاعری اس کے نشیب و فراز اور ناہمواریوں اور اخلاقی اقدار کے زوال کی عکاس ہے۔ میں جو کچھ اپنے اِرد گِرد دیکھتا یا محسوس کرتا ہوں اسے موضوعِ سخن بنانا اپنا اخلاقی اور سماجی فریضہ سمجھتا ہوں جس کے نتیجے میں میری بیشتر شعری تخلیقات اجتماعی شعور کی بازگشت کی آئینہ دار ہیں۔ میں کلاسیکی روایات کا پاسدار ہونے کے ساتھ ساتھ جدید عصری میلانات و رجحانات کو بھی موضوع سخن بنانے سے گریز نہیں کرتا۔ حالاتِ حاضرہ کے تناظر میں بیدار مغز سخنور اور قلمکارجس ذہنی کرب کا احساس کرتے ہیں ان کی تخلیقات میں شعوری یا غیر شعوری طور سے اس کا اظہار ایک فطری اور ناگزیر امر ہے۔ چنانچہ…

ہیں مرے اشعار عصری کرب کے آئینہ دار

قلبِ مضطر ہے مرا سوزِ دروں سے بیقرار

آپ پر ہوں گے اثر انداز جو بے اختیار

میری غزلوں میں ملیں گے شعر ایسے بیشمار

صفحۂ قرطاس پر کرتا ہوں اس کو منتقل

داستانِ زندگی ہے میری برقیؔ دلفگار

اُردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت ہمارا قومی،ملی اور اخلاقی فریضہ ہے۔اس ضمن میں مقامی اور علاقائی سطح پر ہمارے شاعروں، ادیبوں اور اربابِ فکر و نظر کی علمی و ادبی خدمات کی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے۔لیکن اُردو زبان و ادب کے بین الاقوامی سطح پر فروغ میں معیاری اُردو ویب سائٹوں کے کارہائے نمایاں حلقۂ اربابِ فکر و نظر میں جنہیں انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب ہے، اظہر من الشمس ہیں۔

خاکسار کو سب سے پہلے انٹرنیٹ کی دُنیا میں متعارف کرانے میں جناب ستپال بھاٹیا کی ہندی ویب سائٹ آج کی غزل ڈاٹ بلاگ اسپاٹ ڈاٹ کام نقشِ اوّل کا درجہ رکھتی ہے۔ اسی سائٹ کی فہرست میں مجھے محترم سرور عالم راز سرورؔ صاحب اور اُن کا نامِ نامی، ان کا معیاری کلام اور اُن کی سائٹ کا لنک نظر آیا اور اس طرح میں اُن کی شہرۂ آفاق ویب سائٹ ’’ اُردو انجمن ڈاٹ کام‘‘ سے باقاعدہ روشناس ہوا اور مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں ہے کہ میری انٹرنیٹ کی دُنیا میں باقاعدہ طور پر رسائی اور اربابِ فکرو نظر سے شناسائی کا نقطۂ آغاز ’’اُردو انجمن ڈاٹ کام‘‘ ہے۔ سرور عالم راز سرورؔ صاحب کا تبحرِ زبان و بیان  اُن کی اصلاحِ سخن سے ظاہر ہے جس کا کوئی جواب نہیں ہے اور جو میرے لئے مشعلِ راہ ہے اور رہے گی۔

اُردو انجمن کے بعد مجھ سے ناظمِ ’’ اُردو جہاں ‘‘ محترمہ سارا جبین صاحبہ نے رجوع کیا اور یہ میرا دوسرا میدانِ عمل تھا، ہے اور انشا ء اللہ ہمیشہ رہے گا۔میری غزلوں کا صوری و معنوی حُسن و جمال اُن کی مخلصانہ،دلکش اور سحر انگیز تزئین اور نقاشی کا مرہونِ منت ہے۔ اُن کے اِس بارِ احساں سے میں کبھی سبکدوش نہیں ہو سکتا۔

میرا تیسرا پڑاؤ ’’اُردو بندھن ڈاٹ کام‘‘ رہا جہاں میں محترم سالم احمد باشوار صاحب کی شفقت  سے بہرہ مند ہوا، جنھوں نے میری حوصلہ افزائی کے لئے از راہِ لطف  میری با ضابطہ ویب سائٹ بنا دی اور مستقل طور سے بے لوث  دستبردِ زمانہ سے اُس کی نگہداشت فرما رہے ہیں۔ خدائے بزرگ و برتر اُنھیں اس کا اجرِ عظیم عطا فرمائے۔

’’اُردو دُنیا ڈاٹ نیٹ‘‘ میں میں محترم مظفر احمد مظفرؔ صاحب سے بہت متاثر ہوں جنھوں نے میری غیر معمولی تشویق اور حوصلہ افزائی فرمائی اور ہمیشہ حوصلہ افزا  منثور اور منظوم اظہارِ خیال سے نوازتے رہے۔’’ دستک‘‘ کے بارہویں شمارے میں خاکسار کے فکر و فن پر اُن کا مبسوط تبصرہ  اُن کی شفقت و محبت کا آئینہ دار ہے۔

میں محترمہ سنیتا وگ کی ’’ شامِ سخن ڈاٹ کام‘‘، جناب مہتاب قدر کی ’’ اُردو گلبن ڈاٹ کام‘‘، آبجو ڈاٹ کام، اور کبھی کبھی اُردو آرٹسٹ ڈاٹ کام  پر بھی اپنی خامہ فرسائی کے نقوش ثبت کرتا رہتا ہوں۔

مجھے بیرونِ ملک حلقۂ اربابِ فکر و نظر میں متعارف کرانے میں محترم حسن چشتی صاحب مقیمِ شکاگو، اُن کے رفیقِ دیرینہ انور خواجہ اور ہفت روزہ ’’اُردو لنک‘‘ کا نہایت اہم رول رہا ہے۔ میری لوحِ دل پر ثبت ان کی شفقت کے نقوش لازوال ہیں۔ اُن کی وساطت سے میں محترم سردار علی صاحب مقیمِ ٹورانٹو،کناڈا  اور اُن کی عالمگیر شہرت کی حامل ’’شعر و سخن ڈاٹ کام‘‘ سے روشناس ہوا جو مجھے مستقل اپنی شفقت سے نوازتے رہتے ہیں۔

محترم اعجاز عبید صاحب کی نوازشوں کے لئے بھی میں ان کا صمیمِ قلب سے سپاس گزار ہوں جنھوں نے حال ہی میں از راہِ لطف ’’برقی شعاعیں ‘‘ کے نام سے  میری کچھ موضوعاتی نظموں کو، جو میرا خصوصی میدان عمل ہے، برقی کتاب کی شکل میں زیورِ طبع سے آراستہ کیا ہے۔ خدائے بزرگ و برتر ان کی ادبی و علمی خدمات کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے۔

جب میں نے فیس بُک سے رجوع کیا تو مجھے پتہ چلا کہ شیدائیانِ اُردو کس طرح یہاں بھی اُردو کے فروغ میں بقدرِ ظرف اپنے فکر و فن کے جوہر دکھا رہے ہیں اور یہاں بھی شمعِ اُردو  اپنی آب و تاب کے ساتھ ضو فگن ہے۔ فیس بُک کی وساطت سے میں ’’اُردو منزل‘‘، صغیر احمد جعفری  صاحب  اور اُردو کے فروغ میں اُن کی گراں قدر خدمات سے روشناس ہوا اور یہاں موجود احباب اور اُن کے دل پذیر کلام سے مستفید ہونے کا شرف حاصل ہو رہا ہے۔ فیس بُک پر موجود مختلف ادبی گروہوں، خصوصاً اُردو  لٹریری فورم الف، انحراف، بزمِ امکان، اُردو  شاعری، محبت، گلکاریاں اور دیا گروپ کی ہفتہ وار فی البدیہہ طرحی نشستوں میں طبع آزمائی نے بھی میرے شعور فکر و فن کو  جلا بخشی جس کے لئے ان کا بھی ممنون ہوں۔ میرے محترم دوست مسلم سلیم، جو اپنے ۲۲؍ بلاگس اور ویب سائٹس کے وسیلے سے اُردو زبان و ادب کی غیر معمولی خدمت انجام دے رہے ہیں، کی برقیؔ نوازی بھی میرے رخشِ قلم کے لئے مہمیز کا درجہ رکھتی ہے جن کی پیہم نوازشوں کے لئے صمیم قلب سے سپاس گزار ہوں اور اُن کے بارِ احساں سے کبھی سبکدوش نہیں ہو سکتا۔

میرے ہمکارِ عزیز محمد ولی اللہ ولیؔ … جن کا شعری مجموعہ  ’’ آرزوئے صبح‘‘ حال میں منظر عام پر آیا ہے… کی تشویق میرے اس شعری مجموعے کی اشاعت کے لئے محرک ثابت ہوئی اور اگر میں یہ کہوں کہ میرا یہ شعری مجموعہ ان کی تشویق کا مرہونِ منت ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ اس برقیؔ نوازی کے لئے ان کا بھی ممنون ہوں۔ ’’قومی کونسل برائے فروغِ اُردو زبان‘‘، جس کی فروغ زبان و ادب میں غیر معمولی خدمات اظہر من الشمس ہیں، کا اس شعری مجموعے کی اشاعت میں مالی تعاون لایقِ تحسین و ستائش  ہے جس کے لئے اس موقر ادارے  اور خصوصاً اس کے فعال اور ادب  و ادیب نواز ڈائرکٹر ڈاکٹر خواجہ اکرام ا الدین کا اس مالی تعاون کے لئے صمیمِ قلب سے شکر گزار ہوں۔ محترم سرور عالم راز سرورؔ، مکرمی مظفر احمد مظفرؔ، محترم عزیز بلگامی، ڈاکٹر تابشؔ مہدی، ڈاکٹر محمد الیاس اعظمی، سید ضیا رضوی خیرآبادی، محترمہ سیدہ عمرانہ نشتر خیرآبادی، عزیزی اسرار احمد رازی، مکرمی محمد صدیق نقوی، محترم غلام شبیر رانا، محترم حسن چشتی (مقیمِ حال شکاگو)، انور خواجہ (ریزیڈینٹ ایڈیٹر،  ہفت روزہ ’’اُردو لنک‘‘، امریکہ)، محترم مسلم سلیمؔ، جناب ملک زادہ منظورؔ احمد، عالمی شہرت یافتہ ناول و افسانہ نگار محترم مشرف عالم ذوقی، عزیزی عبدالحئی خان (اسسٹنٹ ایڈیٹر ’’اُردو دُنیا‘‘، قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان، نئی دہلی)، ڈاکٹر واحد نظیرؔ اور محبی حسن امام حسن کا اُن کے حوصلہ افزا تاثرات کے لئے صمیم قلب سے سپاس گزار ہوں۔عزیزی محمد احمد اور محمد انصر اور دیگر احباب کا بھی اُن کے مفید مشوروں اور تعاون کے لئے شکر گزار اور احسان مند ہوں۔ عزیزی سلطان شکیل اور مکرمی نفیس احمد کا اس شعری مجموعے کی تنظیم و تزئین  کے لئے ممنون ہوں۔ مکرمی انیس امروہوی (مدیر سہ ماہی ’’قصے‘‘) اور اُن کے ہنرمند فرزند مسعود التمش کا اس دیدہ زیب سرورق اور مکمل کتاب کی تزئین کاری کے لئے تہہِ دل سے ممنون ہوں۔ اپنی شریک حیات شہناز بانو، بیٹے فراز عالم، بہو سحر عالم، بیٹیوں رخشندہ پروین، نازیہ اور سعدیہ پروین کا بھی اُن کی نیک خواہشات کے لئے تہہِ دل سے شکر گزار ہوں۔

٭٭٭

 ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی

اے۔ ۱۲۲، تیسری منزل، جوہری فارم، گلی نمبر۔ ۴

جامعہ نگر، نئی دہلی۔ ۱۱۰۰۲۵

منظوم تعارف

شہرِ اعظم گڑھ ہے برقیؔ میرا آبائی وطن

جس کی عظمت کے نشاں ہیں ہر طرف جلوہ فگن

 

میرے والد تھے وہاں پر مرجعِ اہلِ نظر

جن کے فکر و فن کا مجموعہ ہے ’’تنویرِ سخن‘‘

 

نام تھا رحمت الٰہی اور تخلص برقؔ تھا

ضو فگن تھی جن کے دم سے محفلِ شعر و سخن

 

آج میں جو کچھ ہوں وہ ہے اُن کا فیضانِ نظر

اُن سے ورثے میں ملا مجھ کو شعورِ فکر و فن

 

راجدھانی دہلی میں ہوں ایک عرصے سے مقیم

کر رہا ہوں میں یہاں پر خدمتِ اہلِ وطن

 

ریڈیو کے فارسی شعبے سے ہوں میں منسلک

میرا عصری آگہی برقیؔ ہے موضوعِ سخن

٭٭٭

روحِ سخن

مجموعۂ کلام ہے ’’روحِ سُخن‘‘ مرا

پیش نظر ہے جس میں یہاں فکر و فن مرا

 

برقؔ اعظمی کا فیضِ نظر ہے میں جو بھی ہوں

ظاہر ہے نام سے یہ کہاں ہے وطن مرا

 

گلہائے رنگا رنگ کا گلدستۂ حسیں

اشعار سے عیاں ہے یہی ہے چمن مرا

 

سوزِ دروں حکایتِ آشوبِ روزگار

اور ہے ’’حدیثِ دلبری‘‘ طرزِ کہن مرا

 

ویب سائٹوں پہ لوگ ہیں خوش فہمی کے شکار

ناآشنا وطن میں ہے رنگِ سخن مرا

 

ہوتا زمانہ ساز تو سب جانتے مجھے

کیا خوئے بے نیازی ہے دیوانہ پن مرا

 

برقیؔ مرا کلام مرا خضر راہ ہے

کہتے ہیں لوگ آج یہ ہے حُسنِ ظن مرا

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

براہ راست 1 تبصرہ

محمد روح الامین میُوربھنجی
ماشاء اللّٰہ! اعجاز عبید صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں، ماشاء اللّٰہ! بہت ہی خوب خدمات انجام دے رہے ہیں، مستقبل میں اس طرح کی چیزوں سے استفادہ کرکے قارئین کے دلوں سے دعا ہی دعا نکلا کرے گی ان شاء اللّٰہ

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔