03:41    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

تحقیق و تنقید شاعری

4570 0 0 00

جاوید رحمانی

حرفِ آغاز

مجھے یہاں اہلِ نظر اور خصوصاً ماہرینِ غالبیات کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ غالبؔ پر تنقید اور تحقیق کے میدان میں کیا کیا کارہائے نمایاں انجام دیے جا چکے ہیں۔

غالبؔ کے زمانے سے لے کر ہمارے عہد تک غالبؔ کی شخصیت ، سوانح اور فن کے مختلف پہلوؤں پر بے شمار مضامین اور کتابیں لکھی گئی ہیں۔ یہ معاملہ صرف ہندوستان تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ برِ صغیر کے باہر بھی دانشوروں اور ادبی نقادوں نے غالبؔ کی نظم اور نثر کو سنجیدہ مطالعے کا موضوع بنایا ہے۔ ظاہر ہے کہ غالبؔ جیسے عالمگیر فنکار کو جب عالمی سطح پر تحقیق اور تنقید کا موضوع بنایا جائے گا تو لکھنے والوں کے انفرادی ، زمانی اور مکانی رویّے بھی اس میں شامل ہو جائیں گے جس بِنا پر مختلف لکھنے والوں کے درمیان اختلافِ رائے کی صورتِ حال کا پیدا ہونا لازمی ہے۔

 چناں چہ غالبؔ تنقید میں یہ صورتِ حال نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے۔ شاید اس کو اس کتاب کے مصنف اور ہمارے نوجوان دوست جاوید رحمانی صاحب کی طرح کئی لوگ اپنی نوجوانی کی ترنگ میں افراط اور تفریط کا نام دیتے ہیں۔جب کہ وارث علوی صاحب جب یہ کہتے ہیں کہ غالبؔ پر اعلیٰ درجے کے تنقیدی مضامین صرف دو لکھے گئے ہیں تو یہ نشانہ غالبؔ پر نہیں ، اُن کے نقادوں پر ہے۔ دوسری طرف جہاں غالبؔ کو یگانہؔ،  عبد اللطیف اور مولوی ذکا اللہ جیسے لوگوں نے اپنا ہدف بنایا ہے۔ وہاں اُن کے نقد و نظر پر تعصّب حاوی نظر آتا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ غالبؔ پر لکھے جانے والے تنقیدی خزانے میں سب سے زیادہ مقدار اُس تنقید کی ہے ، جس میں غالبؔ کی شاعرانہ عظمتوں کو دریافت کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور یہ بذاتِ خود غالبؔ کی شاعرانہ عظمت کی روشن دلیل ہے۔

یہ ایک دل چسپ حقیقت ہے کہ اردو میں غالبؔ اور غالبؔ تنقید دونوں ہی کا آغاز حالیؔ سے ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ حالیؔ سے پہلے محمد حسین آزادؔ نے غالبؔ کے کلام پر تنقید کی تھی۔

بعض نقادوں کا خیال ہے کہ محمد حسین آزاد اپنے استاد ذوقؔ کی وجہ سے غالبؔ کے مخالف تھے لیکن اگر ’آبِ حیات‘ غور سے پڑھی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ محمد حسین آزاد، ذوقؔ کے حمایتی ضرور تھے لیکن غالبؔ کے بھی قدردان تھے۔ غالبؔ پر خاصی تفصیلی تنقید سب سے پہلے محمد حسین آزاد نے کی تھی۔

محمد حسین آزاد کی ’آبِ حیات‘ ۱۸۸۱ء میں شائع ہوئی تھی۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ’آبِ حیات‘ میں غالبؔ کے بارے میں جو کچھ کہا گیا تھا وہ محرّک بنا ’یادگارِ غالب‘ کا، جسے حالیؔ نے ۱۸۹۷ء میں شائع کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ ’آبِ حیات‘ میں محمد حسین آزاد کا غالبؔ تنقید کے میدان میں پہلا قدم ہے۔

بیشتر نقادوں نے حالیؔ  کو غالبؔ کا پہلا نقاد بتایا ہے ، مجھے اس سے اختلاف ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ حالیؔ کا مقدمہ شعر و شاعری ادب کی اہم دستاویز ہے اور’ یادگارِ  غالب‘ عملی تنقید کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے لیکن اسے غالبؔ تنقید کا پہلا پتھر بتانا بھی درست نہیں۔یہ آزاد کی حق تلفی ہو گی۔

جاوید رحمانی صاحب نے اپنی اس کتاب میں محمد حسین آزاد سے لے کر پروفیسر شمس الرحمن فاروقی تک کی غالبؔ تنقید کو اپنے مقالے کا موضوع بنایا ہے۔ یہ موضوع جتنا اہم ہے ، اُسی قدر وسیع بھی ہے۔ اگر ایک پروجیکٹ بنا کر اس موضوع پر کام کیا جائے تو یہ کام متعدّد جلدوں میں پھیل سکتا ہے۔تاہم یونی ورسٹی کے ایم۔فل کے مقالے کی اپنی کچھ حدود ہوتی ہیں اور ان حدود میں رہ کر ہی جاوید صاحب نے اپنے موضوع کے ساتھ حتی الامکان انصاف کیا ہے۔

میرا عقیدہ ہے کہ تنقید کو صحیح راستہ تحقیق دکھاتی ہے اور کلاسیکی ادب کی تنقید کے معاملے میں تو شاید تنقید تحقیق کے بغیر ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتی، اس لیے جب تک صحیح حقائق آپ کے سامنے نہ ہوں ، آپ تنقیدی نتائج تک بھی آسانی سے نہیں پہنچ سکتے۔

جاوید رحمانی صاحب نے اس مختصر سی کتاب میں اپنے خیالات کو سائنٹفک ڈھنگ سے پیش کرنے کے لیے اس بات کو ملحوظ رکھا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو متعلقہ حقائق کی بنیاد پر نتائج اخذ کر کے آگے بڑھا جائے۔ مجھے امید ہے کہ ادبی حلقوں میں اس کام کی خاطر خواہ پذیرائی ہو گی۔

 (خلیق انجم)

 

 

 

ڈاکٹر اطہر فاروقی۔ سکھدیو وہار، نئی دہلی۔

ای میل : farouqui@yahoo.com

’غالب تنقید‘ کی تنقید پر ایک نظر

جاوید رحمانی اپنے ہم عمروں میں اردو ادب خصوصاً اردو شاعری کے سب سے ذہین اور سنجیدہ طالبِ علم ہیں۔ اردو ادب چوں کہ ان کا اوڑھنا بچھونا ہے یوں ادب اور زندگی کے درمیان ان کے ہاں کوئی حدِ فاصل نہیں۔ جاوید رحمانی کی شکل میں اردو کی اُس ادبی دنیا میں جو یونیورسٹیوں کے اردو شعبوں تک محدود ہے ، زمانے کے بعد کوئی کج کلاہ آیا ہے۔ علمی معاملات میں جاوید رحمانی کسی تکلف، کسی مصلحت کے قائل نہیں یوں دل بدست آور کہ حجِ اکبر است میں بھی یقین نہیں رکھتے۔ عام گفتگو میں بھی تیوریوں  پر بل ڈالے بغیر بہت دھیمی آواز میں وہ ایسی تلخ بات کہہ دیتے ہیں کہ سامنے والے کو اٹھنا مشکل ہو جائے۔

آزادی کے بعد ہندوستان میں اردو کا زوال خصوصاً شمالی ہند کے ا سکولی نظام سے اردو کا مکمل صفایا اور حکومت کے ذریعے اردو کو فنا کرنے کی کوشش کے نتیجے میں اردو تنقید کا منظر نامہ کم و بیش یونیورسٹیوں اور کالجوں کے اردو شعبوں میں برسرِ کار اساتذہ کے حلقے تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ ان شعبوں میں جو لوگ اردو پڑھنے پر مجبور یا  پڑھانے پر مامور ہیں ، ان میں سے اکثر کی دلچسپی ادب میں واجبی اور فہم بھی بس یوں ہی سی ہے۔ بی اے کی سطح پر کالجوں میں اب صرف وہی طالبِ علم اردو میں داخلہ لیتے ہیں جن کی اکثریت نے ا سکول میں کبھی اردو نہیں پڑھی۔ صلاحیت کے اعتبار سے بھی معمولی درجے کے ان طالبِ علموں کو کسی اور مضمون کے ذریعے گریجویشن میں داخلہ نہیں مل سکتا۔ اردو سیاست کے نام پر ہر قسم کے میرٹ کو دھتا بتا کر پہلے بی اے اور پھر اردو ادب میں ایم اے کی ڈگری لینے والے یہ حضرات اولاً لکچر شپ اور پھر پروفیسر تک کی ترقی کے لیے جب کتابیں خلق کرنے نکلتے ہیں تو ان کی اکثریت تنقید کے کسی زاویے پر ہی اپنے ناقص فہم کی کند چھری اس لیے چلاتی ہے کیوں کہ زبان کی فہم اور ادب پڑھے بغیر اردو میں تنقید لکھنے پر ان سے کوئی باز پرس نہیں کرتا اور بغیر کسی محنت کے کتاب نام کی شے وجود میں آ جاتی ہے۔ ان ہی وجوہ سے اردو تنقید نے اردو ادب کی تفہیم میں کوئی رول ادا نہیں کیا۔ غالبؔ سے متعلق تنقیدی کتب اور مضامین کا بھی یہی احوال ہے۔ خود جاوید رحمانی نے بھی اعتراف کیا ہے کہ غالب تنقید کا منظر نامہ افراط و تفریط سے عبارت ہے (ص )۔ نوکری کی ضرورت کے تحت غالبؔ پر لکھے جانے والے تنقیدی مضامین اور ایم فل، پی ایچ ڈی کے یہ مقالے اپنے مندرجات کے اعتبار سے معشوق جھمری تلیا والے کی طرحی غزلوں کا دیوان معلوم ہوتے ہیں۔ یہ امتیاز بھی اردو ہی کا خاصہ ہے کہ ا سکول سے سینئر  سیکنڈری سطح تک جو نصاب رائج ہے اس پر ادب کی فہم کے دعوے دار کسی دبستان کی روشنی کبھی نہیں پڑ ی۔ اگر این سی ای آر ٹی کی کتابوں کو چھوڑ دیجیے تو ہندوستان میں ابھی بھی نصابی کتابوں میں غالبؔ سے متعلق یہ پھڑ کتا ہوا جملہ : ’غالبؔ نے مراسلے کو مکالمہ بنا دیا‘ بغیر کسی معقول علمی تشریح کے ، بجنوری کے اس مشہورِ زمانہ جملے (ہندوستان کی دو الہامی کتابیں ہیں : ویدِ مقدس اور دیوانِ غالب) کا گزشتہ ساٹھ برسوں سے متبادل ہے جسے سنتے ہی منہ سے ’واہ استاد‘ نکل جاتا ہے۔ این سی ای آر ٹی کتابوں کی تیاری کی اول تو اپنی سیاست ہے ، دوم یہ کتابیں ا سکول میں اردو پڑھنے والے طلبہ کے ایک فیصد تک بھی نہیں پہنچتیں یوں ان کتابوں میں اگر یہ جملہ موجود نہیں تب بھی طالبِ علموں کے لیے غالب فہمی کی صورتِ حال پر کوئی فرق نہیں پڑ تا۔ شمس الرحمن فاروقی کی ’تفہیمِ غالب‘ اور ’اردو کا ابتدائی زمانہ‘ اردو کے شاید ہی کسی ایسے استاد نے پڑھی ہوں جو سینئر  سیکنڈری سطح تک اردو شاعری اور زبان و ادب کی تاریخ پڑھانے کے فرائض انجام دیتا ہے۔ یہ کتابیں ا سکول کی سطح پر اردو پڑھانے والے اساتذہ تک پہنچیں ، اس کی کوئی کوشش کسی کی طرف سے کبھی نہیں ہوئی۔ ایسے میں مجبوری کے تحت اردو پڑھنے اور نوکری کی ضرورت کے لیے اردو پڑھانے والے حضرات اگر اردو تنقید سے کسی شغف، اردو ادب سے کسی وابستگی کا دعوا کریں تو ٹیکس دہندہ کے پیسے پر حرام خوری کرنے والے ان افیمچیوں پر لعنت بھیجنے کے علاوہ اور کیا کیا جائے ؟ غالبؔ اگر ہوتے تو کسی بوم ہاپوڑی  (میرٹھی؟) کے اسلوب میں ان ناقدینِ ادب کی ہجو ضرور کہتے۔

جاوید رحمانی صاحب کی کتاب ’غالب تنقید‘ (مطبوعہ انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی ء) ان کے ایم فل کا تحقیقی مقالہ ہے جسے انھوں نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے مرکزِ السنۂ ہند میں سپردِ قلم کیا۔ الٰہ آباد یونی ورسٹی کا ذکر کرتے ہوئے مصطفی زیدی نے لکھا ہے کہ اس یونی ورسٹی کی یہ بڑی خوبی کہ آپ کے خیالات خواہ سیاسی ہوں یا پھر رومانی، الٰہ آباد یونی ورسٹی میں انھیں رومانی ہی تصور کیا جاتا ہے۔ اغلب ہے کہ اسی سبب الٰہ آباد یونی ورسٹی عرصۂ دراز تک ترقی پسند نقادوں کی آماجگاہ بنی رہی۔ ترقی پسند نقاد ہونے سے زیادہ ذہنی عیاشی کا کوئی اور تصور چوں کہ ممکن نہیں یوں اردو کے ترقی پسند نقاد ادب اور زندگی میں جہاں سے بھی گزرے وہیں چنگیز خاں کی مملکت کا نظارہ جلوہ افروز ہوا۔ جے این یو میں پروفیسر محمد حسن جیسے ترقی پسند نقاد کے نقشِ قدم نصیر احمد خاں کی شکل میں کوئی تیس برسوں تک اردو پڑھنے والے طلبہ کے لیے ہادیِ منزل رہے۔ جے این یو سے متعلق اپنے ایک مضمون کا اقتباس قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں جس سے جے این یو میں عظیم ترقی پسند نقاد محمد حسن کی روایت کی عظمت کا اندازہ کرنے میں آسانی ہو۔ یہ اقتباس محمد حسن صاحب کے چہیتے نصیر احمد خاں سے متعلق ہے :’ اب ضمناً ذکر ہو جائے شعبے کے انھی ’محترم‘ استاد نصیر احمد خاں کا جن کو واقعتاً یہ بھی نہیں معلوم کہ اردو میں حروفِ تہجی کتنے ہیں اور اپنی اس لاعلمی کا اعتراف انھوں نے اردو سکھانے والی اپنی ایک کتاب میں تحریری طور پر بھی کیا ہے تاکہ سند رہے۔ بدقسمتی سے کتاب انگریزی میں ہے جو کسی کم صلاحیت طالبِ علم سے  اردو سے  ترجمہ کرائی گئی تھی۔ کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے (اس وقت) شکاگو یونیورسٹی کے استاد پروفیسر چودھری محمد نعیم نے دیگر باتوں کے علاوہ ایک خاص بات یہ کہی کہ یہ کتاب حالانکہ انگریزی جاننے والے لوگوں کو اردو سکھانے کے لیے لکھی گئی ہے مگر یہ صرف ان ہی لوگوں کی سمجھ میں آئے گی جنھیں اردو آتی ہے۔ تبصرے کا خاتمہ ان دعائیہ کلمات پر ہوتا ہے کہ خدا کرے یہ کتاب کسی طالبِ علم تک نہ پہنچے۔ کلاس میں نصیر احمد خاں ایسی جاہلانہ باتیں عام طور پر کرتے تھے جو ایم اے ، ایم فل کے طلبہ کے لیے سخت تعجب کا باعث ہوتیں ، مثلاً وہ بڑ ے اعتماد سے اعلان کرتے : حالی کی دو مشہور نظمیں ہیں  مسدسِ حالی اور مدو جزرِ اسلام۔ ایک اور موقعے پر لسانیات کے اپنے نام نہاد علم کا مظاہرہ کرتے ہوئے انھوں نے اقبال کے ایک مصرعے ؂ گراں خوب چینی سنبھلنے لگے۔ میں پورے اعتماد سے گراں کو الگ کر کے خواب چینی کو ایک مرکب کے طور پر نہ صرف پڑھا بلکہ اس خواب چینی میں مفہوم بھی ڈال دیا اور اس کا لسانیاتی تجزیہ بھی کر ڈالا۔ نصیر احمد خاں کی جہالت طلبہ کے لیے سخت پریشانی کا سبب ہوتی۔ جو طلبہ ان کے جھانسے میں آ کر اولاً ان کے ساتھ ایم فل یا پی ایچ ڈی کے لیے کام کرنے پر آمادہ ہو جاتے وہ بعد میں سخت عذاب میں پڑ تے۔ ان کے اکثر محبوب شاگردوں نے ان کے خلاف آخر میں بغاوت کی۔ ریٹائرمنٹ سے ذرا قبل ایک طالبِ علم نے انھیں مرکز میں سرِ عام جوتوں سے مارا۔ ان کے مخالفین کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ شعبے کی استاد، طلبہ اور کلرک کھڑ ے تماشہ دیکھتے رہے۔ بعد میں بھی اس طالبِ علم کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔ ایک بار شعبے کی میٹنگ میں اشفاق محمد خاں نے بھی ان کی پٹائی کی تھی۔ اس میٹنگ میں اردو اور ہندی کے تمام استاد موجود تھے۔ اس وقت اشفاق خاں کے خلاف بھی کوئی قانون کاروائی نہیں ہو سکی۔ یونی ورسٹی نے معاملے کی تحقیقات کرنے کے لیے جو انکوائری کمیٹی بنائی اسے کوئی چشم دید گواہ ہی نہ ملا۔ اردو شعبوں اور اردو کے استادوں کے اخلاقی زوال پر سوسیولوجی اور نفسیات میں کوئی سنجیدہ علمی کام ہونا چاہیے۔ نصیر احمد خاں کی ناپسندیدگی کے سبب ابتدا ہی سے میرا ان سے رشتہ دور ہی کا ہو گیا تھا جو بڑی عافیت کا سبب ہوا۔‘‘

جاوید رحمانی صاحب جیسے شاعری کے دلدادہ کی اسے بدقسمتی ہی کہا جائے گا کہ وہ ادب سے اتنے گہرے شغف کے باوجود ادب برائے ادب برائے خواص کے نظریے کی حامی الٰہ آباد یونی ورسٹی جانے کے بجائے جے این یو پہنچ گئے جہاں مرکزِ السنۂ ہند کے باہر یونی ورسٹی کا عام غیر معمولی طور پر روشن خیال اور ترقی پسند سماجی نظریات کا ترجمان تھا۔ اس ماحول میں ہر طرح کے خیالات خصوصاً مذہبی خیالات کو سیاسی ہی تصور کیا جاتا ہے۔ جے این یو نے غالب کی نسبت سے جاوید رحمانی کے رومانی خیالات بلکہ یوں کہیے کہ رومانٹک قسم کے آئیڈیلزم کا جاوید صاحب کی غالب کی۔۔۔ کے سبب کا اتنا لحاظ ضرور کیا کہ جاوید رحمانی کے تمام تر خیالات کو وہاں غالب کے خیالات سے زیادہ کچھ اور نہ تصور کیا۔ اس کا نتیجہ بس یہی ہوا کہ جاوید صاحب جے این یو سے راندۂ درگاہ کر دیے گئے۔ جاوید صاحب کی پی ایچ ڈی میں ایسا روڑ ا اٹکایا کہ موصوف اب تک غالبؔ ہی کی شریعت کے امین ہیں اور ان کے پروفیسر بننے کی کوئی راہ جلدی دکھائی نہیں دیتی۔ جیسے جیسے ان کا زورِ قلم بڑھے گا مجھے یقین ہے کہ ان پر اردو کے علمی اداروں کے دروازے مزید بند ہوتے جائیں گے۔

میں اردو تنقید کا بالکل قائل نہیں۔ غالب اور جدید یا یوں کہیے کہ نئے اردو ادب دونوں سے میری واقفیت مخمور سعیدی کی شاعری کے ذریعے ہوئی تھی۔ ممکن ہے اس تحریر کے کچھ قارئین نے مخمور صاحب کی بے پناہ عمدہ نظم ’رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف‘ کا مطالعہ کیا ہو۔ اولاً میں نے مخمور صاحب کے جس شعری مجموعے ’آتے جاتے لمحوں کی صدا‘ کا مطالعہ کیا تھا، یہ نظم اس میں شامل تھی۔ کچھ عرصے بعد نظم کی شاعری کی حمایت میں اخترالایمان کے اس مشہور جملے نے غالبؔ کی عظمت کے رنگ کو صیقل کیا :’غالب اردو غزل کا سیچوریشن (Saturation) پوائنٹ ہیں ‘۔

افیمچیوں کے ذریعے ادب کی افادیت کی کسی بحث کے چکّر میں راقم الحروف کبھی نہیں پڑ ا اور اسی لیے یہ کم فہم و کم علم صرف اس ادب اور شاعری کا قائل ہے جو عوام کے دلوں کو تسخیر کر سکے۔ یوں میرا کام ابنِ صفی اور غالب سے چل جاتا ہے جب کہ یونیورسٹیوں میں اردو کے کھیت مزدوروں اور دیگر ادب پسند خواص کے لیے محمد حسن عسکری کی عظیم شاعری موجود ہے۔ آپ چونکیے مت! عسکری کی عظیم شاعری سے میری مراد ان کی نثر ہے اور اس پر میرا ایمان راسخ ہے کہ عسکری کے انتظار حسین جیسے خواص پسند چیلوں کے پاس اتنا علم ہے کہ وہ عسکری کی تنقیدی نثر کو عظیم شاعری کا بہترین نمونہ قرار دے سکیں۔

 غالبؔ سے میرا رشتہ ایک ایسے قاری کا بھی ہے جس کی اردو ادب میں کوئی Ambition نہیں ہے۔ ان ہی وجوہ سے غالبؔ سے متعلق انتقادی ادب میں میری کاروباری نوعیت کی دلچسپی برائے نام بھی مشکل ہی سے ہو گی۔ یہ محض اتفاق ہے کہ جاوید رحمانی نے تنقیدِ غالب کے باب میں جن تحریروں سے استنباطِ نتائج کیا ہے مجھے ان کے مطالعے کا شرف اس مجبوری میں حاصل ہوا کیوں کہ میں نے بھی ایک زمانے میں ایم اے اردو کی ڈگری کو حاصل کر کے ان تمام لوگوں کو رسوا کیا جو کبھی نہ کبھی اس ڈگری سے سرفراز ہوئے ہیں۔ اس مقالے سے متعلق میں اپنے خیالات اس عجز کے ساتھ پیش کرتا ہوں کہ ان کی حیثیت بس ایک ایسے قاری کے خیالات کی ہے جس نے اردو تنقید کی بیش تر کتابیں نصابی مجبوری کے تحت پڑھی تھیں اور یہ مجبوری بھی کسی دل چسپی کا سبب نہ بن سکی۔

 بیسویں صدی میں غالبؔ کی پیٹھ پر سوار ہو کر اپنی دکان چلانے والوں یعنی غالب شناسوں کی اکثریت نے نہ صرف محمد حسین آزاد کی کتاب ’آبِ حیات‘ کو غالبؔ کے خلاف ایک ادبی محاذ کے طور پر دیکھا بلکہ غالبؔ کے تعلق سے آزادؔ کے رویے کو معاندانہ بھی قرار دیا ہے۔ اس مفروضے کو رد کرتے ہوئے جاوید رحمانی نے مدلل طور پر یہ ثابت کیا ہے کہ آزادؔ نے ہی نہ صرف یہ کہ پہلی مرتبہ حیاتِ غالبؔ کو شرح و بسط کے ساتھ پیش کیا بلکہ کلامِ غالبؔ کی کئی اہم خصوصیات پر بھی پہلی مرتبہ آزاد نے ہی روشنی ڈالی۔ جاوید رحمانی کا خیال ہے کہ حالیؔ نے حوالہ بھلے ہی نہ دیا ہو مگر انھوں نے اثر آزاد ہی سے قبول کیا۔ رحمانی صاحب کے خیال میں طریقِ کار کی سطح پر بھی حالیؔ نے آزادؔ کی پیروی کی ہے۔ اپنے اس دعوے کی دلیل مصنف نے یہ دی ہے کہ حالیؔ کی لکھی ہوئی دوسری سوانح عمریوں (مثلاً حیاتِ جاوید) میں ’یادگارِ غالب‘ کا رنگ نظر نہیں آتا۔ آزادؔ نے اگر ایک طرف لطائف و ظرائف کی مدد سے غالبؔ کی شخصیت کو نمایاں کرنے کی کوشش کی تو دوسری طرف ’خطوطِ غالب‘ سے پہلی مرتبہ غالبؔ کی سوانح اخذ کر کے ’خطوطِ غالب‘ کے اس زاویے کو بھی علمی استناد بخشا۔ حالیؔ نے بھی ’یادگارِ غالب‘ میں اسی طریقے کی پیروی کر کے ان مکاتیب سے اپنی اِس تصنیف کے مندرجات کو وقیع بنایا۔ جاوید رحمانی نے آزادؔ کے غالبؔ سے متعلق معاندانہ رویے کے مفروضے کو رد کرتے ہوئے منشی ذکاء اللہ کا وہ خط بھی نقل کیا ہے جو غالبؔ کے خلاف ہے اور جس کو محمد حسین آزادؔ نے شائع نہیں کیا۔ جاوید رحمانی صاحب کا خیال ہے کہ اگر آزادؔ کا مقصد غالبؔ کی کردار کشی ہوتا تو اس کا سب سے آسان طریقہ یہ تھا کہ وہ ذکاء اللہ کے مذکورہ خط کو ’آبِ حیات‘ میں شامل کر لیتے مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ اسی طرح غالبیات کے تعلق سے حالیؔ کے مطالعے میں جاوید رحمانی نے ’یادگارِ غالب‘ کے ساتھ ساتھ ’مقدمۂ شعر و شاعری‘ کو بھی اہمیت دی۔

 جاوید رحمانی نے عبدالرحمن بجنوری کی ’محاسنِ کلامِ غالب‘ کا مطالعہ بھی عام ڈگر سے ہٹ کر کیا اور بتایا کہ مغربی شعرا سے غالبؔ کا موازنہ بجنوری کی اوّلیات میں سے نہیں ہے جیسا کہ گیان چند جین اور بعض دیگر غالب شناس بہ زعمِ خود سمجھتے اور سمجھاتے رہے ہیں۔ اپنے دعوے کی دلیل میں جاوید صاحب اقبالؔ کی نظم ’مرزا غالب‘ کا حوالہ دیتے ہیں جو ۱۹۰۱ میں لکھی گئی۔ جاوید صاحب کے خیال میں اس نظم کی کوئی با ضابطہ تنقیدی حیثیت تو نہیں (اردو میں نظم کی با ضابطہ تنقیدی حیثیت : ایں چہ بوالعجیست؟) لیکن اس میں غالبؔ کا موازنہ گوئٹے سے کیا گیا ہے جو جاوید صاحب کے بہ قول غالب تنقید میں ایک موڑ کی حیثیت ضرور رکھتا ہے۔ مجھے جاوید صاحب کے اس خیال سے رتی بھر بھی اتفاق نہیں۔ بہرحال! اس کے بعد جاوید رحمانی بتاتے ہیں کہ عبدالرحمن بجنوری سے بہت پہلے صلاح الدین خدا بخش نے غالبؔ کی سوانح عمری انگریزی میں لکھی، جس کا دیباچہ انگریزی اخبار ’ہندوستان ریویو‘ میں چھپا اور ’صداے عام‘ نے اس کا ترجمہ مارچ ۱۹۱۰ میں شائع کیا۔ اس کے بعد صلاح الدین خدا بخش کا مضمون ’ہائینے اور غالب‘ ۱۴/فروری  کے ’کامریڈ‘ میں شائع ہوا۔ یہی نہیں بلکہ جاوید رحمانی صاحب کی تحقیق کے مطابق صلاح الدین خدا بخش کی کتاب Essays on Indian and Islamic Perspective میں ایک مضمون In appreciation of Ghalib بھی شامل ہے اور ان سبھی مضامین میں غالبؔ کا موازنہ مغربی شعرا سے کیا گیا۔ جاوید رحمانی کا خیال ہے کہ ہرچند کہ ان مضامین کی کوئی ادبی حیثیت نہیں مگر جن تحریروں نے ’محاسنِ کلامِ غالب‘ کے لیے راستہ ہموار کیا ان میں صلاح الدین خدا بخش کی محولۂ بالا تحریریں بھی توجہ طلب ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی عبدالماجد دریابادی کا مضمون ’فلسفۂ غالب‘ بھی ہے جو ’ادیب‘ الٰہ آباد کے جنوری ۱۹۱۳ کے شمارے میں شائع ہوا اور جس میں یورپی مفکرین کے حوالے سے غالبؔ کی شاعری میں حکیمانہ پہلو دریافت کرنے کی کوشش کا دعوا کیا گیا ہے۔ جاوید رحمانی نے مولانا ابوالکلام آزادؔ کے اس اداریے سے بھی بحث کی ہے جو ۱۹۱۴ میں لکھا گیا اور جس میں غالبؔ کو انیسویں نہیں بلکہ بیسویں صدی کا شاعر بتایا گیا تھا۔ یعنی مولانا آزاد نے غالبؔ کو اُس ماضی کے استعارے سے تعبیر نہیں کیا جس کی گم گشتگی کا رونا اس وقت مسلم انڈیا پوری شدت اور قوت سے رو رہا تھا۔ اس دور میں چوں کہ مولانا آزادؔ کے سیاسی ایجنڈے کے تابع خود مولانا اور ان کے مقلدین مذہبی افکار کی تشریح ان خطوط پر کر رہے تھے جو مستقبل میں سیاسی طور پر کانگریس کے لیے اس طور مفید ثابت ہو سکیں کہ مولانا آزاد کو مسلمانوں کا لیڈر تسلیم کر لیا جائے۔ یہ نظریہ قوم پرستی کے اس نظریے سے مماثل تھا جسے قیامِ پاکستان کے سبب فسطائی ہندو قوم پرستی نے ا چک لیا۔ خود مولانا آزاد مسلمانوں کو قوم پرستی کے جس سیاسی دھارے میں شامل دیکھنے کے خواہاں تھے اس کے لیے بعد میں نیشنل مین اسٹریم کی جو اصطلاح رائج ہوئی اس کی سرحدیں تقسیمِ ہند کے سبب ہندو قوم پرستی سے مل گئیں۔ کانگریس میں قومی سطح کے مسلم لیڈر کا ٹینڈر چوں کہ خود مولانا آزاد نے بھی بھرا تھا اور یہ ان ہی کے نام کھلا بھی، اس لیے مولانا آزادؔ کے ذریعے اس وقت غالب کو قومی ہیرو کی حیثیت سے پیش کرنے کا منطقی جواز موجود تھا۔

  ان ہی وجوہ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ جب ۱۹۱۶ میں بجنوری نے اپنا مقدمہ لکھنا شروع کیا تو ایسی فضا بن چکی تھی کہ غالبؔ کی عظمت کے بارے میں بڑ ے سے بڑ ا دعوا پیش کیا جا سکے۔ اس وقت ایسا کرنا چوں کہ نام نہاد مذاقِ عام (نام نہاد اس لیے کہ تھا تو وہ بھی مذاقِ خواص ہی۔ عوام کو بھلا کب کسی نے پوچھا ہے !) ہی کے مطابق تھا اس لیے بجنوری نے بھی ایسا ہی کیا۔ بجنوری کو دستِ قضا نے اپنے مقدمے پر نظرِ ثانی کی مہلت دی ہوتی تو اس مشہور تحریر کی شکل شاید کچھ اور ہی ہوتی۔ بہ صورتِ موجودہ بھی یہ تصنیف غالبیات میں ایک اہم باب کی حیثیت رکھتی ہے۔ جاوید رحمانی نے شیخ محمد ا کرام کی غالبؔ سے متعلق سپردِ قلم کی گئی تحریروں کا بھی اس کتاب میں پہلی مرتبہ تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ ایسا کرتے وقت جاوید رحمانی کے سامنے شیخ محمد ا کرام کی کتاب کی تمام اشاعتیں تھیں۔ بہ حالاتِ موجودہ اردو کی دنیائے تحقیق میں ایسی جستجو کی توقع کسی ریسرچ ا سکالر سے شاذ ہی کی جا سکتی ہے۔ یہاں یہ ذکر بے محل نہیں کہ جاوید رحمانی نے اپنے موضوع سے متعلق وہ تمام کتابیں پڑھی ہیں جن کا دیدار بھی ان کے ہم عصر اُن ریسرچ ا سکالرز کو نہیں ہوا ہو گا جو یونی ورسٹیوں میں ایم فل کا رجسٹریشن کراتے ہوئے یعنی پروفیسر بننے کا خواب دیکھنے لگے ہیں اور سب سے پہلے بیچارے غالبؔ ہی کو تختۂ مشق بناتے ہیں۔ جاوید رحمانی نے شیخ محمد ا کرام کا یہ بیان نقل کر کے بڑ ے اہم نتائج نکالے ہیں : ’’ہمارے خیال میں نقاد کا پہلا کام احتساب نہیں ، ترجمانی ہے ‘‘۔شیخ محمد ا کرام کا یہ خیال بھلے ہی درست ہو کہ نقاد کا پہلا کام ترجمانی ہے لیکن ترجمانی سے کوئی شخص نقاد نہیں بن سکتا۔ یہ تنقید کی پہلی منزل ہو سکتی ہے ، منتہا نہیں۔ بہ قول جاوید رحمانی، شیخ محمد ا کرام کی خوبی یہ ہے کہ وہ ترجمانی کی منزل سے تو آگے بڑھ جاتے ہیں مگر چوں کہ زیادہ آگے نہیں بڑھ پاتے اس لیے انھیں اس خوبی کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا۔ غالبؔ سے متعلق ان کی اس کتاب میں زیادہ حوصلہ افزا نتائج بھی اغلب ہے کہ ان ہی وجوہ سے نہیں نکل سکے۔

 مولانا غلام رسول مہر اور شوکت سبزواری کی کتابوں کا تجزیہ کر کے جاوید رحمانی نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ ان کی یہ کتابیں اردو کی مقبول لیکن تنقیدی اعتبار سے معمولی کتابیں ہیں اور ایسی کتابوں کو زیادہ سے زیادہ غالبؔ کی خدمت میں خراجِ عقیدت کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ چوتھے باب میں کلیم الدین احمد اور شمس الرحمن فاروقی کی تنقیدی تحریروں کا جائزہ ہے۔ یہ دونوں جاوید رحمانی کی محبوب شخصیتیں ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی کے مضمون ’غالب اور جدید ذہن‘ کو غالبؔ سے عقیدت رکھنے والے علمی طبقات میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے مگر یہاں بھی جاوید رحمانی کا خیال دوسروں سے مختلف ہے۔ ان کے خیال میں شمس الرحمن فاروقی کا یہ مضمون اس قدر اہم نہیں جتنی اس پر گفتگو کی گئی۔ وہ کہتے ہیں :’اس مضمون سے غالبؔ ہماری سمجھ میں کم آتے ہیں اور فاروقی زیادہ... (جاوید صاحب نے یہ وضاحت مگر نہیں کی کہ اس مضمون سے شمس الرحمن فاروقی کی شخصیت کے کس زاویے کی تفہیم ان کے لیے آسان ہوئی؟ فاروقی کی متعدد حیثیتیں ہیں اور ان کی ادبی شخصیت میں ان کی سماجی حیثیت نے اہم رول ادا کیا۔ شمس الرحمن فاروقی کی شخصیت کا مطالعہ ہمیں ان کے ادبی مقام ہی نہیں بلکہ مابعد تقسیم کی بے حد پیچیدہ صورتِ حال سے نبرد آزما مسلم انڈیا میں اس صورتِ حال کی تفہیم میں بھی مدد کرتا ہے جس میں مسلمانوں کا ایک نیا طریقہ فرسٹ جنریشن لرنر ہندوؤں کے ساتھ اقتدار کے اعلا ایوانوں میں متمکن ہوا۔ اگر جاوید رحمانی کی مراد محض اتنی ہے کہ فاروقی کی حیثیت کا بہ طور نقادِ غالب سے ہے تو انھیں اس کی وضاحت کرنی چاہیے تھی۔ اطہر فاروقی) اس میں جو دانشورانہ فضا چھائی ہوئی ہے وہ اپنی جگہ اہم سہی لیکن صاف بات یہ ہے کہ اس مضمون میں  غالبؔ کے سلسلے میں فاروقی کی قوتِ فیصلہ جواب دے جاتی ہے ... غالبؔ پر فاروقی کا سب سے خوب صورت اور بامعنی مضمون ’اردو شاعری پر غالب کا اثر‘ ہے۔ اس میں فاروقی نے غالبؔ کی روز افزوں مقبولیت کا جس طرح جائزہ لیا ہے ، وہ ان ہی کا حصہ ہے ‘‘۔اردو شاعری پر غالبؔ کا اثر‘ میں شمس الرحمن فاروقی صاحب نے ’مقدمۂ شعر و شاعری‘ میں غالبؔ کی شاعری کے جواز کی بات کہی ہے اور جس کا نتیجہ بہ قول شمس الرحمن فاروقی یہ نکلا: ’’جوں جوں غالبؔ کی وقعت میں اضافہ ہوتا گیا پرانی شاعری کا وقار گھٹتا گیا‘‘۔ جاوید رحمانی فاروقی کے اس مضمون کے مطالعے سے مندرجۂ ذیل نتیجے پر پہنچے ہیں :’یہ مضمون نہ صرف فاروقی بلکہ ارد وکی غالب تنقید میں گلِ سر سبد کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کی اہمیت کا اعتراف بالکل نہیں کیا گیا اور ’غالب اور جدید ذہن‘ جیسے مضامین سرا ہے گئے ‘‘ (ص۸۵۱)۔

جاوید رحمانی کے خیال میں شمس الرحمن فاروقی کا غالبؔ پر دوسرا معرکہ آرا مضمون ’خدائے سخن میر کہ غالب؟‘ ہے جو فاروقی صاحب کی کتاب ’شعرِ شور انگیز‘ میں ایک باب کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ اس مضمون کی بھی اردو کی علمی دنیا میں خوب پذیرائی ہوئی مگر جاوید رحمانی اردو شاعری کے ناقدین کی فہم پر بڑی سخت چوٹ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’فاروقی خدائے سخن کی اصطلاح کو شاعرانہ برتری کا نتیجہ نہیں بلکہ شخصیت کی ہمہ گیری کا نتیجہ بتاتے ہیں ... یہاں پر یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ میرؔ کو خدائے سخن کہنے والے کتنے نقاد اس اصطلاح کو اس تناظر میں دیکھتے ہیں (جس تناظر میں فاروقی نے اس کا تجزیہ کیا)۔ عام رویہ تو بہرحال یہی ہے کہ صنفِ غزل میں غالبؔ پر میرؔ کی برتری کے اظہار کے لیے یہ اصطلاح استعمال کی جاتی ہے ‘‘ (ص ص ۱۶۱، ۲۶۱)۔ غالبؔ سے متعلق شمس الرحمن فاروقی کی تحریروں کا جائزہ لینے کے ذیل میں جاوید رحمانی فاروقی کے مضمون ’خیال بند غالب‘ کا جائزہ لیتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں :’اس مضمون کا سب سے بڑ ا کارنامہ یہ ہے کہ یہ خیال بندی کی اس اصطلاح جو زمانۂ قدیم میں بھی بہت مروّج نہ تھی، کی قطعی تعریف متعین کرتا ہے۔ اس سلسلے میں فاروقی نے اردو شعرا کے کلام اور تذکروں اور شبلی کی ’شعر العجم‘ سے بہ طورِ خاص استفادہ کیا ہے لیکن خیال بندی کی قطعی تعریف متعین کرنے اور اس پر غالبؔ کے کلام کو پرکھنے کے لیے محض اتنا ہی کافی نہیں۔ چناں چہ فاروقی نے اپنے آزادانہ تنقیدی شعور کو رہنما بنایا ... اس میں اردو شاعری کے منظر نامے میں غالبؔ کے امتیازات کی تعیینِ قدر جس طرح کی گئی ہے وہ قابلِ رشک ہے۔ فاروقی نے غالبؔ کی شاعری کا جس طرح تنقیدی تجزیہ کیا اور اردو غزل کی تاریخ میں ان کا مقام متعین کرنے کی کوشش کی، اس سے پہلے اس کی ہمیں کوئی مثال نہیں ملتی۔ خصوصاً جن مقدمات پر غالبؔ کی عظمت کی بنیاد رکھی گئی ہے وہ ہماری تنقید میں ایک نئے باب کا اضافہ ہیں۔ اور ہمیں مشرقی شعریات کو بھی مغربی بوطیقا کے برابر اہم اور با معنی سمجھنے کا سبق دیتے ہیں۔ یہ اردو تنقید میں فاروقی کا ناقابلِ فراموش کارنامہ ہے ‘‘ (ص ص ۴۶۱، ۵۶۱)۔

  غالب تنقید کے ذیل میں شمس الرحمن فاروقی کے مقام و مرتبے کا جائزہ پہلی مرتبہ اس قدر شرح و بسط کے ساتھ جس معروضی انداز میں لیا گیا ہے وہ جاوید رحمانی ہی کا حصہ ہے۔ میں فاروقی صاحب کی کتاب ’تفہیمِ غالب‘ کا حد درجہ قائل ہوں۔ جاوید رحمانی نے بھی لکھا ہے کہ دیوانِ غالب کے پہلے شعر ’’کاغذی ہے پیرہن‘‘ کی پہلی قابلِ فہم تشریح شمس الرحمن فاروقی ہی نے کی۔ جاوید صاحب اعتراف کرتے ہیں کہ اس سے پہلے یہ شعر ہوا میں معلق تھا۔ جاوید رحمانی صاحب یہ بھی اعتراف کر چکے ہیں کہ غالب تنقید کا منظر نامہ افراط و تفریط سے عبارت ہے۔ سوال کیا جا سکتا ہے کہ جو لوگ دیوانِ غالب کے پہلے شعر کو نہیں سمجھ سکے انھوں نے تنقیدِ غالب کے نام پر جو کچھ لکھا ہے اسے گھاس کھودنے کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے ؟ جاوید رحمانی صاحب کے علم اور ان کی فہم کے تمام تر اعتراف کے باوجود میرا ان سے یہ معلوم کرنے کو جی چاہتا ہے کہ ایسے گھس کھدوں جنھوں نے غالب تنقید کے منظر نامے کو افراط و تفریط سے عبارت کر دیا، پر جاوید رحمانی صاحب نے اپنا اتنا سارا اور بیش قیمت وقت کیوں برباد کیا؟ جاوید صاحب کا جواب تو مجھے نہیں معلوم مگر میرا خیال یہ ہے کہ اس طرح جاوید رحمانی نے ناقدینِ غالبؔ کے ایک پورے گروہ کو ننگا کر دیا۔ بس خیریت یہ گزری کہ اس مطالعے میں انھوں نے چوں کہ تمام تر ناقدینِ غالبؔ کو شامل نہیں کیا یوں گولی محمد حسن عسکری اور ان جیسے کئی لوگوں کے کان کے پاس سے گزر گئی۔ میں اردو تنقید کی افادیت کا اس لیے بھی قائل نہیں کیوں کہ خود شمس الرحمن فاروقی صاحب کا یہ بیان مجھے اردو تنقید کے ذیل میں سولہ آنے باون رتی درست معلوم ہوتا ہے :’تنقید کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب شاید بہت تشفی بخش نہ ہو، لیکن تنقید کیا نہیں ہے ؟ کا جواب یقینا تشفی بخش اور بڑی حد تک قطعی ہو سکتا ہے۔‘‘ (تنقیدی افکار، ‏ ‏۲۰۰۴ء قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، ص ۱)۔

 اردو تنقید اور اس میں بھی غالب تنقید کی حد تک میرا کام فاروقی صاحب کی تفہیمِ غالب سے چل جاتا ہے۔ (اس کے سوا چارہ بھی کیا ہے ؟) جاوید رحمانی صاحب کے ذہن میں چوں کہ تنقید کا تصور بڑ ا رومانی اور آئیڈیل ہے اس لیے وہ تفہیمِ غالب کے زیادہ قائل نہیں۔ یہ بات دیگر ہے کہ غالب سے متعلق چوں کہ بیش تر تحریریں ان کے رومانی اور Idealistic تصور پر پوری نہیں اترتیں یوں مذکورہ کتاب غالب تنقید سے متعلق خود جاوید رحمانی صاحب کی مایوسیوں کی آماجگاہ بن کر رہ گئی ہے۔ جاوید صاحب کی قابلِ رحم حالت اس مولوی جیسی ہے جسے خود اس کے دلائل اپنے ہی نظریات کے تضادات کے غار میں پوری شدت کے ساتھ دھکیل دیں۔ اس موقعے پر مجھے اپنے ایک دوست شکیل احمد صاحب کا مزے دار قصہ یاد آتا ہے۔ یہ قصہ بہ ظاہر تو تفریحی نوعیت کا ہے مگر جاوید صاحب کی حالت سے قطعی مماثل ہے۔ شکیل احمد صاحب کو جو اب دہلی میں وکالت کرتے ہیں ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے زمانۂ طالبِ علمی میں مولویوں سے فروعی بحثوں کا بڑ ا شوق تھا جس کے لیے وہ اپنی عجیب و غریب دلیلوں کا سہارا لیتے تھے۔ اکثر مخاطب لاجواب بھی ہو جاتا تھا۔ علی گڑھ کی مشہورِ زمانہ نمائش میں ایک روز شکیل صاحب جماعتِ اسلامی کے بک اسٹال پر پہنچ گئے اور انھوں نے دینی کتابوں کا مطالبہ کیا۔ اسٹال پر موجود رضاکار ان کے مقصد کو نہ بھانپ سکا اور اس نے شکیل صاحب سے پوچھا کہ دینی کتابوں سے ان کی کیا مراد ہے ؟ کہنے کی ضرورت نہیں کہ جماعتِ اسلامی کے نظریے سے اسلام کی تشریح کرنے والی ہزاروں کتابیں اس اسٹال پر موجود تھیں جن میں مولانا مودودی کی کتابیں بلاشبہ سرِ فہرست تھیں۔ شکیل احمد صاحب نے دینی کتابوں کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ مثلاً مولانا اشرف علی تھانوی کی کتابیں۔ مولانا تھانوی کا نام شکیل صاحب نے کچھ زیادہ ہی عقیدت سے لیا۔ جماعتِ اسلامی کا معصوم رضاکار شکیل صاحب کے مقصد کو پھر بھی نہ بھانپ سکا اور اس نے برا سا منھ بنا کر شکیل صاحب سے کہا کہ اشرف علی تھانوی نے دینیات کے نام جو بکواس لکھی ہے اس کی چوں کہ کوئی افادیت نہیں یوں اس ادارۂ اشاعتِ اسلامی کے اسٹال پر ایسی واہیات کتب دستیاب نہیں۔ شکیل صاحب نے مولوی کو پھنسا ہوا دیکھ کر پوچھا کہ بھئی مولانا اشرف علی تھانوی نے مثلاً کیا بکواس لکھی ہے ؟ معصوم رضاکار نے کہا کہ مثلاً کنویں میں کتا گر جائے تو اتنے ڈول نکالو تب پانی پاک ہو کر وضو کے قابل ہو گا  خواتین حیض کے بعد اس طرح خود کو پاک کریں  وغیرہ وغیرہ۔ شکیل صاحب نے پوچھا کہ ان موضوعات پر مولانا مودودی نے کیا کچھ لکھا ہے ؟ جماعتِ اسلامی کے رضاکار نے کہا کہ مولانا نے ان فروعی موضوعات پر نہیں لکھا!! بس شکیل صاحب کو منشائے مقصود مل گئی اور انھوں نے مولوی سے پوچھا کہ بھائی صاحب مولانا مودودی نے لکھا نہیں ، اشرف علی تھانوی کی تحریریں فروعات اور دینیات کا بکواس نامہ ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کے خیال میں عام آدمی حرام پانی سے وضو کرے اور خواتین حیض کے بعد  میں یہ بالکل نہیں کہہ رہا ہوں کہ جاوید صاحب بھی مولوی کی طرح پھنس گئے ہیں مگر میں ان کی خدمت میں یہ ضرور عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جب تک اردو میں تنقید کی ابتدا نہ ہو جائے جس کی ابھی بہ قول فاروقی صاحب تو تشریح بھی نہیں ہوئی تب تک جاوید صاحب غالب تنقید سے متعلق اپنی علمی فتوحات تفہیماتِ غالب تک محدود رکھیں اور سرِ دست اس عظیم شاعر کے ہمہ جہتی اشعار کی تشریح کرنے کی غرض سے جہانِ معنی کی وسیع تر جو لا نگاہیں تلاش کرنے نکل پڑیں۔ یہ بڑ ے ثواب کا کام ہے۔ میں جاوید صاحب کی اس کتاب کو الجہاد فی الاسلام ماننے کے لیے تیار ہوں شرط یہ ہے کہ آئندہ وہ بھی بہشتی زیور لکھنے کو تیار ہوں نہ کہ فاطمہ جناح کی امارت جیسے فضول موضوعات کی حمایت یا مخالفت میں کتابچے لکھنے جیسا فروعی شوق پال لیں۔ امید کہ یہ کتاب ان قارئین کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گی جو ادبی بے حسی اور کاروباری ادب شناسی کے موجودہ ماحول میں بھی سنجیدہ ادبی تحریروں سے شغف رکھتے ہیں۔ میری اس قدرے طویل گفتگو کا جواز شاید یہی ہے کہ غالب تنقید پر جاوید رحمانی کی اس مختصر مگر اہم کتاب کا یہ دوسرا ایڈیشن اتنی جلدی آپ کے ہاتھوں میں ہے۔

 

٭٭٭

سخن ہائے گفتنی

’غالب تنقید‘ اصلاً میرا ایم فل کا مقالہ ہے ، جس میں محمد حسین آزاد سے شمس الرحمن فاروقی تک کی غالب تنقید کا جائزہ لیا گیا ہے۔ غالب تنقید کا پورا منظر نامہ افراط و تفریط سے عبارت ہے۔ ایک طرف شیخ محمد ا کرام کا ہم خیال طبقہ ہے جس کا دعویٰ ہے کہ اردو کے عام فن تنقید کی کیفیت کا اندازہ غالب تنقید سے کیا جا سکتا ہے تو دوسری طرف وارث علوی صاحب کا خیال ہے کہ غالبؔ پر اچھے مضامین صرف دو لکھے گئے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ غالبؔ پر بہت لکھا گیا ہے لیکن کس معیار کا یہ بحث طلب مسئلہ ہے۔ ایک طرف ان ناقدین کی تحریریں ہیں جو بجنوری کے ہم خیال ہیں اور غالبؔ کی مداحی جن کا نصب العین ہے ، دوسری طرف عبد اللطیف اور یگانہؔ کا قبیلہ ہے جو غالبؔ کو وہ ادبی مرتبہ بھی دینا نہیں چاہتا، غالبؔ جس کے یقیناً مستحق ہیں۔ ان میں متوازن نقطۂ نظر کی تلاش پر بھی بہت زور دیا گیا ہے اور جو نقاد اس کے مدعی ہیں وہ بھی کسی کنارے جا لگتے ہیں۔ اسی لیے ہم نے غالب تنقید کے منظر نامے کو افراط و تفریط سے عبارت بتایا ہے۔

 ہمارا مقصد ان میں متوازن نقطۂ نظر کی تلاش نہیں۔ اول اس لیے کہ ہمارے خیال میں تحقیق اور تنقید کی دنیا میں متوازن کا تصور ہی گمراہ کن ہے۔ کوئی تنقید متوازن یا انتہا پسند نہیں ہو سکتی بلکہ کوئی تحریر یا تو تنقید ہو گی یا نہیں ہو گی، اور اگر تنقید لکھنی ہے تو نقاد کو دل آزاری کا خطرہ مول لینا ہی ہو گا۔ اس سے گریز کر کے تنقید کا بار گراں نہیں اٹھایا جا سکتا۔ دوم اس لیے کہ ہمارے موضوع کا مطالبہ یہ ہے کہ غالب تنقید کے کیف و کم کو ظاہر کر دیں اور ہم نے ایسا ہی کرنے کی کوشش کی ہے۔

 غالبؔ پر کم و بیش ہر نقاد نے لکھا ہے۔ ان میں سے ہر ایک کا جائزہ لینا ممکن ہے نہ مناسب۔ چناں چہ ہم نے صرف نمائندہ تحریروں کو شامل کیا ہے گو بالواسطہ ذکر دوسری تحریروں کا بھی آ گیا ہے۔ یہ مقالہ چار ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان کی تلخیص یہاں میرے خیال میں غیر ضروری ہے۔ ہاں ! یہ عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہو ں کہ جو باب جس نقاد سے مخصوص ہے اس کے سوانحی خاکے کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ ان میں سے کئی کے مستند حالات عام طور پر دستیاب نہیں ہیں۔ جب کہ اس کی روشنی میں ان کے ذہنی ارتقا کو زیادہ بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے اور ان کے ذہنی تحفظات و تعصبات کی روشنی میں ان کی تحریروں کو زیادہ اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کام کے دوران مجھے جن سے نیاز حاصل ہوا اور تعاون بھی، ان میں پروفیسر شمیم حنفی اور پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں۔ میں ان کا تہِ دل سے شکرگزار ہوں۔ ڈاکٹر خلیق انجم سے تو لاگ اور لگاؤ کا رشتہ تب سے رہا ہے جب مجنوں لام الف لکھتا تھا دیوارِ دبستاں پر اور مجھے اب تک ہر قدم پر ان کا پُر خلوص تعاون حاصل رہا ہے تو ان کا شُکریہ بھی میرا خوشگوار اخلاقی فریضہ ہے۔ اور Prof. G.K. Chadha (سابق وائس چانسلر جواہر لال نہرو یونیورسٹی) کا خصوصی شکریہ ان ناز برداریوں کے لیے جو وہ مسلسل اس زمانے میں فرماتے رہے جب فقیہانِ شہر میرے خلاف یک زبان تھے۔

(۲)غالب تنقید کا پہلا اڈیشن ۲۱/ستمبر ۲۰۰۶ کو منظر عام پر آیا اور مارچ ۲۰۰۷ تک یہ کتاب ختم ہو گئی۔ میرا ارادہ تھا کہ دوسرے اڈیشن میں کچھ اضافہ کروں گا خصوصاً اپنے کرم فرمائے خاص جناب شمس الرحمن فاروقی کے اس طویل خط کی روشنی میں ، جو انھوں نے میری کتاب موصول ہونے پر لکھا تھا، لیکن پچھلے دنوں میری زندگی جن حالات و حادثات کی زد میں رہی ان میں میرے لیے اس ارادے کو عملی جامہ پہنانا ممکن نہ ہو سکا، چنانچہ یہ کتاب دوبارہ اسی شکل میں پیش کی جا رہی ہے۔

 اس بار اس کتاب میں ڈاکٹر اطہر فاروقی کا وہ مضمون بھی شامل کیا جا رہا ہے جو انہوں نے بڑی محنت اور محبت سے لکھا تھا اور اسی لیے اردو کے تقریباً تمام اہم رسائل میں یہ ڈائجسٹ بھی کیا گیا۔ میں اس محبت اور محنت دونوں کے لیے تہِ دل سے ممنون ہوں ڈاکٹر اطہر فاروقی کا بھی اور ان مدیران کا بھی جنھوں نے اس مضمون کو کچھ ان کی اور کچھ میری محبت میں اپنے رسائل میں جگہ دی۔ ڈاکٹر مظہر مہدی کا بھی شکر گزار ہوں جن کی نگرانی میں یہ مقالہ لکھا گیا اور پروفیسر معین الدین جینا بڑ ے ، پروفیسر محمد شاہد حسین، ڈاکٹر انور پاشا اور ڈاکٹر خواجہ محمد ا کرام الدین کا بھی شکر گزار ہوں۔

جناب مظہر امام اور پروفیسر لطف الرحمن جس طرح ہر قدم پر اور مسلسل میری حوصلہ افزائی کرتے رہے ہیں اس کے لیے شکریے کا لفظ بہت معمولی ہے ، لیکن:یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر

 جاوید رحمانی

 )۳۱/ستمبر۲۰۰۷)    بدھ وہار، نئی دہلی۔ ۷۶

 E-mail: rahmanijnu@gmail.com

بابِ اوّل

محمد حسین آزاد

مولانا الطاف حسین حالیؔ

محمد حسین آزاد

 

 محمد حسین آزاد کثیر الجہات شخصیت کے مالک تھے اور کثیر التصانیف بھی۔ لیکن ان کی اصل شہرت ’آبِ حیات‘ سے ہے۔ آزادؔ۱۰ جون ۱۸۳۰ء کو پیدا ہوئے۔۱؂ ان کے والد مولوی محمد باقر تھے جو شمالی ہند کے پہلے اردو اخبار کے مدیر تھے۔ آزادؔ کا خاندان ایران سے واردِ ہندوستان ہوا۔ چناں چہ ’’خاندانی زبان فارسی ہی رہی لیکن عوام سے اختلاط اور ضروریاتِ زندگی کی وجہ سے اردو سے بتدریج لگاؤ بڑھتا گیا‘‘۔۲؂ مولوی محمد باقر ذی علم ہی نہیں ، ذی حیثیت بھی تھے اور روشن خیال بھی۔ مولوی محمد باقر کی روشن خیالی ہی تھی جو ان کے اور مولوی جعفر علی کے درمیان مناظرے کی شکل میں ظاہر ہوئی، جس نے مولوی محمد حسین آزادؔ کو مذہبی تعصبات سے آزاد کیا۔ ڈاکٹر محمد صادق لکھتے ہیں :’۱۸۴۷ء یا اس کے لگ بھگ سترہ برس کی عمر میں آزادؔ تلامذہ اور اساتذہ کے اس حلقۂ خاص میں شامل ہوئے ، جو اس وقت شمالی ہند میں بہترین خیال کیا جاتا تھا۔ یہ زمانہ کالج کے انتہائی عروج کا تھا جب کہ طلبہ جوق در جوق چلے آ رہے تھے۔۔۔ جب آزادؔ نے داخلہ لیا تو اس کے بعد ان کے باپ اور مولوی جعفر علی میں ، جو کالج میں شعبۂ قانون کے مدرس تھے اور ان کے دوست تھے ، ایک زبردست مذہبی مباحثہ شروع ہو گیا۔۔۔ جس میں مولوی باقر پر باقاعدہ کفر کا فتویٰ عائد کیا گیا ہے کیوں کہ راسخ العقیدہ شیعہ ان کے عقائد کو فاسد خیال کرتے تھے۔۔۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا بحث و تکرار میں بیش از بیش تندی اور تیزی پیدا ہوتی گئی۔ اس نے دہلی کے شیعوں کو دو مخالف فریقوں میں تقسیم کر دیا۔۔۔ غالباً اپنے والد کی تحریک پر وہ (آزادؔ) بھی اس بحث میں کود پڑ ے اور کلاس میں مولوی جعفر علی سے چناں و چنیں شروع کر دی۔ فاضل مدرس کو مولوی باقر سے دو دو ہاتھ کرنے میں کوئی تامل نہ تھا۔ لیکن اس نئے محاذ سے وہ بہت جزبز ہوئے۔ پہلے تو انھوں نے اس کی کوئی پروا نہ کی، لیکن رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ سٹپٹا اُٹھے اور آزادؔ کے خلاف بے ادبی اور گستاخی کی شکایت کر دی۔۔۔ آزادؔ کی خوش قسمتی تھی کہ پرنسپل صاحبِ نظر اور با ذوق آدمی تھا۔۔۔ اس نے رفعِ شر کے لیے آزادؔ کو سنّی فقہ کی کلاس میں بھیج دیا جہاں انھیں مولوی سیّد محمد سے سنّی دینیات مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔۔۔ اب تک وہ شیعہ روایات میں کھوئے رہتے تھے۔ اب انھیں یہ موقع ملا کہ وہ تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھیں۔ انھوں نے محسوس کیا کہ مذہبی تعصبات کس قدر لایعنی ہوتے ہیں ‘‘۔۳؂

 آزادؔ کا تعلیمی سفر نہایت شاندار رہا۔ انھوں نے کالج میں اپنی علمی فتوحات کا لوہا منوا لیا تھا جس کا اندازہ ان کے پرنسپل کی رپورٹوں سے ہوتا ہے۔۴؂ آزادؔ نے دہلی کی علمی و ادبی فضا سے بھی گہرا اثر قبول کیا۔ وہ اسی ماحول کے پروردہ تھے جس کے بارے میں حالیؔ نے لکھا ہے :’’اگرچہ جس زمانے میں پہلی ہی بار راقم کا دلی جانا ہوا، اس باغ میں پت جھڑ شروع ہو گئی تھی، کچھ لوگ دلّی سے باہر چلے گئے اور کچھ دنیا سے رخصت ہو گئے تھے مگر جو باقی تھے اور جن کو دیکھنے کا مجھ کو ہمیشہ فخر رہے گا وہ بھی ایسے تھے کہ نہ صرف دلّی سے بلکہ ہندوستان کی خاک سے پھر کوئی ویسا اٹھتا نظر نہیں آتا‘‘۔۵؂

 آزادؔ کی ذوقؔ سے بے پناہ عقیدت کا مسئلہ کافی متنازعہ فیہ رہا ہے۔ ڈاکٹر محمد صادق نے آزادؔ کے بیان کی روشنی میں لکھا ہے :

{’’آزادؔ نے بڑ ے ہو کر ذوقؔ کی شاگردی اختیار کی تو انھیں اپنی طبیعت کو جلا دینے کا اور بھی موقع ملا۔ جب دہلی کے حریفان کمال میں مقابلے ہوتے تو آزادؔ اکثر ذوقؔ کے ساتھ گلی کوچوں میں پھرتے ‘‘۔۶؂اور ڈاکٹر اسلم فرخی نے بھی لکھا ہے :’آزادؔ کی شعر گوئی کی ابتدا بھی استاد ذوقؔ ہی کی نگرانی میں ہوئی‘‘۔۷؂

اور ڈاکٹر مظفر حنفی نے بھی ساہتیہ اکادمی سے جو مونوگراف محمد حسین آزادؔ پر شائع کیا، اس میں لکھا ہے :’شاعری میں آزادؔ نے ذوقؔ کی شاگردی اختیار کر لی تھی۔۔۔ دیوانِ ذوق میں بیان کردہ واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ذوقؔ اپنے چہیتے شاگرد آزادؔ کا کتنا خیال رکھتے تھے۔ آزادؔ کی شامیں اور تعطیل کے دن ذوقؔ کی صحبت میں ہی بسر ہوتے تھے۔ اور وہ ان سے زبان و ادب کے رموز سیکھتے تھے۔۔۔ شیخ ابراہیم ذوقؔ کے۱۸۵۴ء میں انتقال کے بعد آزادؔ حکیم آغا جاں عیشؔ سے مشورۂ سخن کرنے لگے جس کا سلسلہ کم و بیش دو برس جاری رہا لیکن اپنی تحریروں میں آزادؔ نے خود کو تلمیذِ ذوق ہی لکھا ہے ‘‘۔۸؂

 لیکن عابد پیشاوری نے آزادؔ کے ذوقؔ سے تلمذ کو افسانہ بتایا ہے ان سے پہلے مرزا سعد الدین خلف ضیاء الدین احمد خاں کی ایک عبارت ایسی ملتی ہے جس سے عابد پیشاوری ان کے ذوق سے رشتۂ تلمذ پر سوالیہ نشان قائم کرتے ہیں۔۹؂ اور انجمن پنجاب کی آزاد کی نظموں (مثنویوں ) پر جو تنقیدیں ملتی ہیں ان میں سے ایک بیان اخبار ’پنجابی‘ سے نقل کرتے ہیں جس میں واضح طور پر انھیں ذوقؔ کا شاگرد ماننے سے انکار کیا گیا ہے۔ معترض نے اپنے نام کی جگہ ’ذوقؔ کا ادنیٰ شاگرد‘ لکھا ہے اور اڈیٹر نے اس پر ایک نوٹ لگایا جس میں لکھا ہے :’اعتراض مذکور اس قسم کے ہیں کہ ان سے بے تامل آزاد کی فصاحت اور بلاغت بلکہ علمیت پر حرف آتا ہے اور یہ بیان اس پر طرہ ہے کہ آزادؔ شیخ مغفور کے شاگرد نہیں جن کی شاگردی سے ان کو فخر تھا‘‘۔۱۰؂ عابد پیشاوری نے یہ مقالہ انتہائی جارحانہ انداز میں لکھا ہے۔ وہ جس طرح ہر بیان کے بین السطور سے کام لینے کی کوشش کرتے ہیں ، وہ بہت مناسب نہیں۔ یہ کتاب شروع ہی اس طرح ہوتی ہے :’آبِ حیات میں آزادؔ نے تقریباً ایک سو پندرہ مرتبہ ذوقؔ کا نام لیا ہے ، سب سے زیادہ خود ذوقؔ کے احوال میں۔ ہمیں محض نام لینے سے بحث نہیں بلکہ ان واقعات سے غرض ہے جو ذوقؔ سے روایت کیے گئے ہیں۔ ہمارا خیال ہے خود ذوقؔ کے احوال کے علاوہ جہاں کہیں ذوقؔ سے واقعات روایت کیے گئے ہیں ، وہ بعد کا اضافہ ہیں۔۔۔ شومیِ قسمت سے ہماری دسترس میں نہ ’آبِ حیات‘ کا مسودہ ہے اور نہ اس کا پہلا اڈیشن۔ اس لیے قطعیت سے کوئی حکم لگانا شاید غلط ہو، تاہم جن واقعات کے بارے میں بہ یقین علم ہے ، یا جن کے خلاف داخلی شواہد موجود ہیں ، ان کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ خود آزادؔ کے ذہن کی پیداوار ہیں۔ یہی حال ذوقؔ کو استاد کہنے کا بھی ہے۔ اکثر تو ان کے نام کے ساتھ استاد کا لفظ اس لیے آیا ہے کہ وہ استاد شاہ تھے اور جگت استاد کہلاتے تھے۔ کہیں کہیں صریحاً تلمذ کا پہلو بھی نکلتا ہے اور یہ انگریزی محاورے کے مطابق AFTER THOUGHT ہے۔ یہ بھی کچھ کم تعجب خیز نہیں ، جہاں ذوقؔ کو استاد کہنا چاہیے تھا، وہاں ایسا نہیں کیا گیا‘‘۔۱۱؂ عابد پیشاوری کی مراد اس ’’جہاں ذوق کو استاد کہنا چاہیے تھا‘‘ سے ذوقؔ کا ’’قطعۂ تاریخ‘‘ ہے جو آزادؔ نے کہا تھا۔ یعنی ’’تاریخ وفات میں استادی کی طرف اشارہ کرنے کا مناسب ترین موقع تھا‘‘۔۱۲؂ میرے خیال میں اس مقالے میں اس تعلق سے کام کی بات بس اتنی ہے :

’’محققین نے آزادؔ کے تلمذ کی بنیاد ان کے اس قول کو بنایا ہے : مجھے بیس برس تک اس طرح حضوریِ خدمت رہی ہے کہ ہر وقت پاس بیٹھ کر ظاہر و باطن کے فوائد حاصل کرتا تھا۔۔۔ بیس برس کی حضوری کو من و عن قبول کر لینا تحقیق و تدقیق کی آنکھیں بند کر لینے کے مترادف ہے۔ آزاد ۱۰/جون ۱۸۳۰ء کو پیدا ہوئے۔ ذوقؔ کا انتقال ۱۵ نومبر ۱۸۵۴ء کو ہوا۔ اس لحاظ سے ذوقؔ کی وفات کے وقت ان کی عمر ۴۲ سال ۵ مہینے اور ۵ دن ہو گی۔ اگر بیس برس کی حضوری کو درست مانا جائے تو یہ بھی ماننا ہو گا کہ ہر وقت پاس بیٹھ کر فوائد ظاہر و باطن حاصل کرنے کا یہ سلسلہ کم و بیش چار سال کی عمر سے شروع ہو گیا تھا، جو ممکن نہیں ‘‘۔۱۳؂ اصل میں محمد حسین آزادؔ ہو ں یا حالیؔ یا اس زمانے کے ہمارے دوسرے بزرگ، ان کی کمزوری یہ ہے کہ وہ documentation کے معاملے میں محتاط نہیں تھے۔ اور اس کمزوری کا ہمارے جدید محققوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ ان کی تصحیح تک تو کوئی مضائقہ نہ تھا۔ لیکن ان کا فائدہ اٹھا کر اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کا عکس ان میں دیکھنے کی کوشش کی گئی اور اس فرضی جرم کی سزا انھیں دی گئی ایسی ہی کوشش سے عابد پیشاوری کی یہ کتاب عبارت ہے جس میں یہ تک کہا گیا:’ذوقؔ سے خواہ انھیں جس قدر رشد و ہدایت کی سعادت نصیب ہوئی ہو، شعر میں اصلاح لینے کی سعادت یقیناً ان کے حصے میں نہیں آئیں۔۔۔ ۱۸۵۷ء تک پہنچتے پہنچتے انھیں شاگردی کا خیال آ گیا تھا۔ شاید اس لیے کہ اس سے پہلے وہ دیوان کی ترتیب کا کام شروع کر چکے تھے (یا ارادہ تھا) اور اس کے لیے سند اعتبار کی ضرورت انھیں محسوس ہونے لگی تھی‘‘۔۱۴؂

گویا کسی کاروباری ضرورت کے تحت یہ سازش کی گئی۔ پھر تعجب کیا ہے جو گیان چند جین اپنے اس شاگرد خاص کی ذہانت کا قصیدہ پڑھتے نظر آتے ہیں۔ وہ اس کتاب کی بھی مبالغہ آمیز تعریف کرتے ہیں اور لکھتے ہیں :’اس سے پہلے وہ (ذوقؔ) دو سال سے حکیم آغا جان عیش سے مشورہ کرتے تھے۔ ۱۸۵۷ء میں آزادؔ نے طے کیا کہ وہ دیوانِ ذوق تیار کریں گے اور اس کے لیے خود کو ذوقؔ کا تلمیذ خاص لکھا لیکن عیشؔ کی شاگردی کو گول کر گئے ‘‘۔۱۵؂ یہ ہماری تحقیق کی ژرف بینی ہے جو اس طرح کے افسانے تراشتی ہے ہم زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ آزادؔ کے بیان میں ’’۲۰ برس کی حضوری، بے احتیاطی ہے۔ اسے منصوبہ بند سازش بتانا زیادتی ہے۔ ’’جدید ادب کے پس منظر میں اردو کی فکری تاریخ کا بہت اہم واقعہ ڈاکٹر لائٹز سے آزادؔ کی ملاقات ہے۔ ۱۸۶۴ء میں لائٹز گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل مقر ہو گئے تھے۔ پنجاب کے محکمۂ تعلیم میں آزادؔ کی ملازمت بھی یکم فروری ۱۸۶۴ء سے شروع ہوئی۔۔۔ محکمۂ تعلیم سے وابستگی کے بعد آزادؔ اور لائٹز کے تعلقات گہرے ہوتے گئے۔۔۔ جنوری ۱۸۶۵ء میں انجمن اشاعتِ مفیدہ کا قیام بھی اسی سلسلۂ تعلقات کی ایک کڑی ہے۔۔ ۱۸۷۴ء میں پنجاب کے ناظمِ تعلیمات کرنل ہالرائیڈ کے تعاون سے آزادؔ نے نظم اردو کے اس مشاعرے کی بنیاد رکھی جس سے جدید شاعری کی روایت کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے ‘‘۔۱۶؂

 اس مشاعرے (مناظمے ) کی روح تک رسائی کے لیے اس لکچر کو سمجھنا ضروری ہے جو آزادؔ نے ۱۵ اگست ۱۸۶۷ء کو لاہور میں دیا تھا، جس کا عنوان ’’نظم اور کلام موزوں کے باب میں خیالات‘‘ تھا۔ یہ لکچر مقدمۂ شعر و شاعری سے ۶۲ سال پہلے دیا گیا۔ اردو کی موجودہ شاعری سے بیزاری ان میں قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتی ہے اور جس زمانے میں یہ لکچر دیا گیا اس کی روشنی میں یہ کم انقلابی نہیں بلکہ بے حد انتہا پسندانہ ہے لیکن اس کی مخالفت حالیؔ کے مقدمے سے بہرحال کم ہوئی تو اس لیے کہ:’آزادؔ کا رویہ اپنی روایت کی طرف بہرحال زیادہ نرمی اور رواداری کا تھا اور اپنے ادبی ورثے پر ان کے اعتراضات کی لے اتنی اونچی اور تیز نہیں تھی۔ ان کی بے اطمینانی اور برگشتگی اپنی روایت سے زیادہ اپنے زمانے کے اردو معاشرے میں بتدریج بڑھتے ہوئے ابتذال اور عامیانہ پن کے باعث تھی۔ اس کے علاوہ حالیؔ پر انھیں یہ فوقیت بھی حاصل ہے کہ انھوں نے اس ابتذال سے نکلنے کا علاج مغرب سے ماخوذ فکر کے بجائے خود عربی، فارسی اور سنسکرت کی کلاسیکی روایت میں ڈھونڈنے کی کوشش کی‘‘۔۱۷؂

محمد حسین آزادؔ کا کوئی مطالعہ مکمل اور بار آور نہیں ہو سکتا اگر ہم اس حقیقت کو فراموش کر دیں :’آزاد اور شبلی کے یہاں اصلاح اور تبدیلی کی خواہش کے علاوہ مشرقیت کا احساس اور اپنی مخصوص تہذیبی روایتوں کا پاس بہت تھا۔ چناں چہ وہ اپنے آپ کو بدلنا بھی چاہتے تھے تو اس طرح کہ ان روایتوں کا سلسلہ نہ ٹوٹے اور ماضی کے ورثے میں کام کی جو باتیں موجود ہیں انھیں محفوظ کر لیا جائے۔ اردو اور فارسی کی کلاسیکی شاعری کے محاسن کا بھی یہ دونوں ایک پائیدار شعور رکھتے تھے اور مغرب سے مرعوب نہیں تھے ‘‘۔۱۸؂

 آزادؔ کی زندگی کے ان واقعات کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ ان کے ذہن کی ساخت پر کچھ روشنی پڑ جائے۔ ان کی سب سے مشہور تصنیف ’آبِ حیات‘ ہے ’’جو ۱۸۸۱ء میں شائع ہوئی‘‘ ۱۹ ؂ اور ’’دوسرا اڈیشن ۱۰/مئی ۱۸۸۳ء کو شائع ہوا‘‘۔۲۰؂ غالب تنقید کے ابتدائی نقوش اگرچہ تذکروں میں ملتے ہیں لیکن وہ کافی دھندلے ہیں اور انھیں غالب تنقید کا آغاز قرار دینا گویا اس اصطلاح کو اگلے زمانوں تک محدود کر دینا ہو گا۔ غالب تنقید کا باضابطہ آغاز حالیؔ کی ’یادگار غالب‘ (۱۸۹۷ء) سے بتایا جاتا ہے۔ اور یہ اگرچہ افسوسناک لیکن دلچسپ حقیقت ہے کہ ’یادگارِ غالب‘ اب بھی غالبؔ پر بہترین کتاب کی حیثیت رکھتی ہے۔ حالاں کہ غالبؔ پر اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے کہ شیخ محمد ا کرام کا خیال تھا کہ:’اردو ادب کے گوناگوں رجحانات بالخصوص ہمارے فنِ تنقید کے ارتقا کا پورا اندازہ ان کتب کے مطالعے سے ہو سکتا ہے جو غالبؔ کے متعلق لکھی گئیں فقط اس۔۔۔ سے ہم اپنے عام فنِ تنقید کی بلندی اور پستی، عمق اور سطحیت، واقعیت اور جذبات پسندی ناپ سکتے ہیں ‘‘۔۲۱؂

یہ جملے ۱۹۵۷ء میں لکھے گئے لیکن آج بھی درست ہیں۔ اور اس لحاظ سے ہمارا تنقیدی منظر نامہ خاصا افسوسناک ہے خصوصاً اس تناظر میں کہ ’یادگارِ غالب‘ آج بھی غالبؔ پر بہترین تنقید کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہم اس پر جو بھی اضافہ کر سکے ہیں وہ بس اتنا ہے کہ فٹ نوٹ سے تعبیر کیا جا سکے۔ حالیؔ سے پہلے غالبؔ کا مفصل تذکرہ محمد حسین آزادؔ نے ’آبِ حیات‘ میں لکھا۔ یہ اپنے زمانے کی اس قدر مقبول اور با اثر کتاب تھی کہ اس کا پہلا اڈیشن صرف دو سال میں بک گیا اور ۱۸۸۳ء میں دوسرا اڈیشن چھاپنا پڑ ا۔۲۲؂

 کاظم علی خاں نے محمد حسین آزادؔ کی غالبیات کے تحت دہلی اردو اخبار میں غالبؔ کی ادبی تخلیقات کی اشاعت کو بھی رکھا ہے جن کا سلسلہ ۳۰ مارچ ۱۸۵۱ء سے ۳!دسمبر ۱۸۵۳ء تک محیط ہے۔۲۳؂ یہ میرے خیال میں درست نہیں ، اس لیے کہ اس زاویے سے کئی اور لوگ بھی غالب شناسی کے بنیاد گزار ٹھہرائے جا سکتے ہیں۔ آزادؔ نے ’آبِ حیات‘ میں جس تفصیل سے غالبؔ کے حالات لکھے انھیں سلسلۂ غالبیات کی پہلی باضابطہ کڑی کہنا چاہیے۔ گو افسانہ طرازی کی اپنی خو سے مولانا آزادؔ یہاں بھی آزاد نہیں ہیں تاہم غالبؔ کے احوال نیز ادبی آثار کا ذکر جس قدر تفصیل سے یہاں کیا گیا ہے اس کی روشنی میں انھیں غالبؔ کا ’پہلا سوانح نگار‘ کہا گیا ہے۔۲۴؂ آغا محمد باقر نے ضروری حواشی کے ساتھ آزادؔ کے مسودۂ ’آبِ حیات‘ کے اس حصے کو شائع کر دیا ہے جو غالبؔ سے متعلق ہے۔ اس میں آزادؔ نے اپنے قلم سے ۵۴ صفحات میں غالبؔ کے حالات لکھے ہیں جن میں ترمیم و اضافے کا عمل صاف دیکھا جا سکتا ہے۔۲۵؂ اس لحاظ سے یہ کہنا غلط نہیں کہ غالبؔ کی پہلی بھرپور تصویر آزادؔ نے ’آبِ حیات‘ میں کھینچی۔ گو انھیں ذوقؔ کی ہمسری یہاں نصیب نہ ہو سکی۔ شاید اس لیے کہ آزادؔ ذوقؔ سے شدید جذباتی وابستگی رکھتے تھے۔ میں آزادؔ کی اس جذباتی وابستگی کو گیان چند جین اور عابد پیشاوری کی طرح عیاری یا آزادؔ کی تجارتی پالیسی نہیں سمجھتا۔ یہ لطیفہ ہے کہ آزادؔ نے گو اس قدر محنت غالبؔ کے لیے نہیں کی، جس قدر ذوقؔ کے لیے ، پھر بھی ’آبِ حیات‘ میں غالبؔ کی تصویر کا رنگ جتنا چوکھا آیا ذوقؔ کا نہیں۔ اس لحاظ سے ’آبِ حیات‘ ہمارے نقادوں کے لیے سرمایۂ عبرت بھی ہے کہ تخلیقات کی تہی دامنی پر نقاد کا التفات پردہ نہیں ڈال سکتا۔ آزادؔ نے ذاتی معلومات کے اندراج پر اکتفا نہیں کیا بلکہ منشی ذکاء اللہ، علاء الدین اور حالیؔ کو خط لکھا۔ ان کے استفسارات کے جواب میں علائی اور ذکاء اللہ کے دلچسپ خطوط ڈاکٹر محمد صادق کی کوشش سے دستیاب ہو چکے ہیں۔ اور حالیؔ کا خط بھی سامنے ہے۔ اور ان سے استفادے کا رنگ ’آبِ حیات‘ سے جھلکتا ہے :’’علائی کے اس خط کے مندرجات سے پتا چلتا ہے کہ آزادؔ نے علائی کو پون درجن استفسارات پر مشتمل ایک سوال نامہ ارسال کیا تھا۔۔۔ آزادؔ کے یہ نو عدد سوال غالبؔ کے تخلص کی تبدیلی، غالبؔ کے مذہب، شاعری کی ابتدا، عبدالصمد سے تلمّذ، تصانیف کے زمانے ، مثنوی ’بادِ مخالف‘ کے سببِ تالیف وغیرہ سے متعلق تھے ‘‘۔۲۶؂ یہ کد و کاوش اب بھی کمیاب ہے۔ انھوں نے ان خطوط سے استفادہ کیا اور غالبؔ کی پہلی زندہ اور متحرک تصویر کھینچی۔ جس کا صاف اثر ’یادگارِ غالب‘ تک میں محسوس کیا گیا۔ ڈاکٹر اسلم فرخی نے لکھا ہے :

’’یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ اثر پذیری اور غالبؔ کی شخصیت کو نمایاں کرنے میں آزادؔ، غالبؔ کے سوانح نگار حالیؔ کے مقابلے میں زیادہ کامیاب نظر آتے ہیں۔ غالبؔ کی شخصیت کو دونوں نے لطائف و ظرائف کے ذریعے سے اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ آزادؔ کے بیان میں زندگی کا جوش و خروش اور دل کشی ہے۔۔۔ آزادؔ کے بیان کی اثر پذیری اور دل کشی کا سب سے بڑ ا ثبوت یہ ہے کہ غالبؔ کے سلسلے میں ان کے بیشتر بیانات کو حالیؔ نے بادنی تصرف ’یادگارِ غالب‘ میں جگہ دی ہے۔ اگرچہ انھوں نے ایک جگہ کے علاوہ اور کہیں آزادؔ کا حوالہ نہیں دیا۔ حالاں کہ ’آبِ حیات‘ اور ’یادگارِ غالب‘ کے تقابلی مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حالیؔ پر آزادؔ کا اثر بہت گہرا ہے ‘‘۔۲۷؂

اسلم فرخی سے پہلے ڈاکٹر وحید قریشی نے بھی حالیؔ پر یہ اعتراض کیا ہے۔ ڈاکٹر انصار اللہ نظر نے لکھا ہے :’یہ بات بڑی اہم ہے کہ حالیؔ سے مالک رام تک غالبؔ کا کوئی بھی سوانح نگار اپنے کام کو ’آبِ حیات‘ کی مدد کے بغیر مکمل نہیں کر سکا بلکہ اکثر نے انھیں باتوں کو اپنا کر پیش کیا ہے۔ غالبؔ کی پہلی سوانح ’یادگارِ غالب‘ کے متعلق عرصہ ہوا ڈاکٹر وحید قریشی نے اپنے محققانہ مقالے کے ذریعے یہ بات ثابت کر دی تھی کہ اس کا اہم ترین مآخذ ’آبِ حیات‘ ہے ‘‘۔۲۸؂

یہاں انصار اللہ نظر کی مراد ڈاکٹر وحید قریشی کے اس مضمون سے ہے جو ’سویرا‘ ۲۲ لاہور میں شائع ہوا تھا۔ ڈاکٹر انصاراللہ نظر نے اسی نہج پر ’حیاتِ غالب‘ کا مطالعہ کیا ہے ، جو ’یادگارِ غالب‘ کے دو سال بعد اکتوبر ۱۸۹۹ء میں نگارستان پریس لکھنؤ سے شائع ہوئی تھی۔ اس کے مرتّب نواب سیّد محمد میرزا موجؔ تھے۔ ڈاکٹر محمد انصاراللہ نظر نے ’آبِ حیات‘ اور ’حیاتِ غالب‘ کا موازنہ کیا اور بتایا کہ:’’حیاتِ غالب کی اساس ’آبِ حیات‘ میں مندرجہ حالات غالبؔ ہی پر ہے۔ آزادؔ سے واقعات کی دریافت میں جو سہو ہوا تھا وہ سب اس کتاب میں بھی موجود ہے بلکہ غلطیوں میں مختلف وجوہ اور انداز سے اضافے ہوئے۔۔۔ بطور مجموعی ’حیاتِ غالب‘ ادبی یا تحقیقی نقطۂ نظر سے کچھ زیادہ اہم یا مفید کتاب نہیں ہے ‘‘۔۲۹؂

 جہاں تک ’یادگارِ غالب‘ پر ’آبِ حیات‘ کے اثرا ت کا تعلق ہے ، کاظم علی خاں نے بھی ’یادگارِ غالب‘ میں ’آبِ حیات‘ کی جلوہ گری کی دس مثالیں پیش کی ہیں اور غالبیات میں آزادؔ کی اولیات کی آٹھ مثالیں درج کی ہیں۔۳۰؂ جن میں نمبر تین اور چار بے حد اہم ہیں اور ان کی گونج حالیؔ کی ’یادگار‘ میں ہی نہیں بلکہ پوری غالب تنقید میں سنی جا سکتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :’’آبِ حیات میں آزادؔ نے غالبؔ کے بہت سے ایسے لطیفے پہلی بار پیش کیے ہیں جو غالبؔ کی سیرت میں خوش مزاجی اور ظرافت کے اس غالب رجحان کی نشان دہی کرتے ہیں جسے حالی نے ’یادگارِ غالب‘ میں خاص اہمیت دی ہے۔ یہ لطیفے غالبؔ کی شخصیت کو ’آبِ حیات‘ میں نیا آب و رنگ دے کر زیادہ جاندار بناتے ہیں۔ ’آبِ حیات‘ (ص۵۰۵ تا ۶۰۵) میں آزادؔ نے غالبؔ کی وضع قطع کو بیان کرنے میں جس سلیقے سے کام لیا ہے وہ بھی غالبیات میں ان کی قابلِ ذکر ایجاد ہے۔ آزادؔ نے غالبؔ کے قد و قامت، ناک نقشے اور چہرے مہرے کو خود غالبؔ کے ایک خط میں غالبؔ کے بیانات کی مدد سے پیش کر کے خطوطِ غالب کی اہمیت و افادیت کی جانب لکھنے والوں کی توجہ مبذول کرائی۔ ’آبِ حیات‘ سے قبل خطوطِ غالب کا ایسا بامعنی استعمال میری نظر سے نہیں گزرا۔۔۔

۔۔۔ آزادؔ نے ’آبِ حیات‘ میں احوالِ غالب کے سلسلے میں خطوطِ غالب سے جگہ جگہ کام لے کر غالبؔ کے سوانح نگاروں کے لیے ایک نیا راستہ بنا دیا‘‘۔ ۳۱؂ غالبیات کو محمد حسین آزادؔ کی سب سے بڑی دین یہی ہے۔ (۱) غالبؔ کی شخصیت کو لطائف و ظرائف کی مدد سے ابھارنا۔ اور (۲) خطوطِ غالب سے غالبؔ کی سوانح اخذ کرنے کا سلیقہ۔ یہ دونوں طریقے اب بھی اس قدر بامعنی اور اہم ہیں کہ نہ صرف غالبؔ بلکہ دوسرے شعرا کے سلسلے میں بھی ان کے استعمال کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ اور غالبؔ کے سلسلے میں تو انھیں خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے۔ حالیؔ سے ظ. انصاری تک ہر ایک نے تا بمقدور اسے اختیار کیا۔

’آبِ حیات‘ کے تسامحات پر کچھ زیادہ ہی زور دیا جاتا رہا ہے ، اس سلسلے میں مجھے یہ کہنا ہے کہ آزادؔ کی اصل غلطی یہ ہے کہ وہ حوالہ نہیں دیتے۔ ورنہ جدید ترین تحقیقات نے ثابت کر دیا ہے کہ اکثر وہ قصے جن کے گھڑ نے کا الزام آزادؔ کے سر رکھا گیا وہ دوسروں نے گھڑ ے ہیں۔ مجموعۂ نغز کی دریافت نے آزادؔ کو کئی مقامات پر بے گناہ ثابت کر دیا ہے۔ ہو سکتا ہے دوسری گتھیاں بھی کسی اور دریافت سے سلجھ جائیں۔ یہاں ہمیں آزادؔ کی صرف غالبیات سے بحث ہے ، اس سلسلے میں بیشتر غلطیاں غالبؔ کے خطوط اور علائی کے بیانات کی غلطیاں ہیں ، جن کو آزادؔ نے قبول کر لیا ہے۔

 ڈاکٹر محمد صادق نے ان خطوط کو شائع کر دیا ہے جن کو ’آبِ حیات‘ کے مآخذ کی حیثیت حاصل ہے۔ ہم یہاں منشی ذکاء اللہ اور علاء الدین کے خطوط نقل کرتے ہیں ، جن سے آزادؔ کا استفسار غالبؔ کے بارے میں تھا:

’جنابِ من!

 مجھے جب آپ کے تذکرے کے عالی خیالات اور مضامین کا تصور آتا ہے تو افسوس ہوتا ہے ، اب تک شائع کیوں نہیں ہوا۔ مگر جب میں یہ سوچتا ہوں کہ اگر آپ کو بندہ سے سچا سچا حال سب شاعروں کا معلوم ہوا تو بہت سے شاعروں کے شاگرد زندہ ہیں۔ وہ فی مافی کرنے کو تیار ہوں گے ، اس لیے ایک عذاب جان بن جائیں گے۔ اب مرزا غالبؔ کا حال یہ ہے کہ سوائے شاعر ہونے کے کوئی خوبی اس میں نہ تھی۔ حسد اس قدر تھا کہ کسی کی عزت کو نہ دیکھ سکتا۔ تنگ دل ایسا تھا کہ سارے بھائی بندوں کی حق تلفی کرنے میں اس کو افسوس نہ تھا۔ جس روز ذوقؔ مرگیا تو خوش ہو ہو کر کہتا تھا کہ آج بھٹیاروں کی بولی بولنے والا مرگیا۔ رند مشرب ایسا تھا کہ کہا کرتا تھا کہ صہبائی شعر کیا کہنا جانے۔ نہ اس نے شراب پی، نہ قمار بازی کی، نہ معشوقوں کے ہاتھ سے جوتیاں کھائیں ، نہ جیل خانے میں پڑ ا۔ طامع ایسا تھا کہ ایک ایک قصیدہ دس دس جگہ بیچتا تھا۔ اس لیے قصائد میں یہ نہیں لکھا کہ کس کی تعریف میں ہے بلکہ نمبر ان پر لگائے ہیں ، سیزدہم، دہم، نہم۔ میرے نزدیک فقط اس کی شاعری سے آپ غرض رکھیں اور کچھ خصائل اور اخلاق سے بحث نہ ہو۔ میاں غلام امام شہید فارسی کے شاعر مرزا قتیل کے شاگرد ہیں۔ وہ مرزا کو یہ کہتے ہیں کہ مغرب میں وہ اور مشرق میں میں۔ غالبؔ کا خود قول یہ تھا کہ جب سے ہندوستان میں فارسی شاعری کا چرچا ہوا، دو شاعر ہوئے ہیں : ایک غالبؔ اور دوسرا خسروؔ۔ ایک معتبر آدمی نے مجھ سے کہا تھا کہ نواب مصطفی خاں مرحوم اور ایک اہلِ شیراز کا حجاز کے سفر میں جہاز کے اندر صحبت کا اتفاق ہوا۔ انھوں نے مرزا کا دیوان تفریحِ طبع کے لیے دیا۔ اس نے ایک نظر ایک آدھ روز دیکھ کر واپس کر دیا اور لکھ دیا کہ ’دریں خرافات اوقات ضائع نکنیم، ما نمی دانیم کہ در کدام زبان ایں دیوان گفتہ شدہ است۔‘

 آپ کو یاد ہو گا کہ ایک شیرازی سیّد باقر علی، جو عیسائی ہو گیا تھا، جان مور نام رکھتا تھا۔ وہ ذوقؔ مرحوم کے پاس جاتا تھا۔ وہ اس سے مشکل شعر مرزا کے پوچھتے تھے ، وہ فوراً معنی بتا دیتا تھا اور محاورے کی ایک دو غلطی۔۔۔ (؟) تھا۔ عام اعتقاد مرزا پر یہاں کے لوگوں کا یہ ہے کہ فارسی کا شاعر اچھا تھا لیکن اردو کی نظم و نثر اس کی یہاں کے لوگوں کو پسند نہیں۔ تاریخی یا علمی مضامین کے نہ ہونے کا اعتراض مدرسہ کے تربیت یافتوں کو سوجھتا ہے۔ اور منشی اور دبیر جو پہلے زمانے کے ہیں وہ خود بھی نہیں جانتے۔ نکاتِ غالب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ زبان کی تحقیق میں طفلِ مکتب تھا۔ سوائے چند مصادر کی تحقیقات کے اس کو کسی اور مضمون سے خبر ہی نہیں۔ اگر کوئی لڑ کا بھی خان آرزو کی تصنیفات پر نظر سرسری ڈال جائے تو اس کو مرزا کے نکات سے دس گنے زیادہ نکتے یاد ہو جائیں۔(منشی ذکاء اللہ) ۲۸ جون۷۶ء

۔۔۔ ادیب شفیق حبیب لوذعی والمعی مولوی محمد حسین صاحب عربی پروفیسر کالج لاہور۔ سلام علیکم، علیکم سلامی۔ آپ کا مہربانی نامہ ۲۲!جون کا اس دور افتادہ کو ملا۔ اس کا ورود میرے لیے فتح الباب مسرت ہوا۔ آپ کا ارادہ نسبت تالیفِ تذکرۂ مشاہیر شعرا اور اس خصوصیت کے ساتھ کہ اس تذکرے میں ہر ایک شاعر کے تاریخی حالات اور ا سکی سوانح عمری کے واقعات، لطائف اور تلامذۂ رحمانی کا آپ نے التزام فرمایا ہے۔ اور بعنایتِ الٰہی اس کا تکمیل پر پہنچنا دریافت ہو کر نہایت درجہ مسرت حاصل ہوئی۔ اگرچہ میں سرمایۂ علمی بہت کم رکھتا ہوں ، الا ایسے امور کا نہایت شائق ہوں۔ اور افسوس ہے کہ وقت لکھنے اس تذکرے کے میں آپ سے دور تھا ورنہ آپ کو تاریخی حالاتِ شعرا کی نسبت، سوائے حالات مرزا اسداللہ خاں غالبؔ کے ، زیادہ تر امداد دی جاتی۔ کیوں کہ میں نے اپنے والد ماجد سے بہت کچھ سنا ہے۔ میں ایک خاکستر ہوں اس خرمنِ سوختہ کا جسے آتشِ غدر ۵۷ء نے جلا دیا۔ اب آپ نے مخدومی و مکرمی عمّی مرزا غالبؔ کا حال دریافت کیا ہے۔ اگرچہ اس کا منصبِ عمومی مکرمی جناب نواب ضیاء الدین خاں صاحب بہادر کو حاصل ہے ، وہ بالاستیعاب ان کے حال سے آپ کو اطلاع دیتے۔ بدیں وجہ کہ وہ مجھ سے زیادہ کہن سال بھی ہیں اور ان کے معلومات افہام و اوہام کے نزدیک معتمد علیہ اور معتبر تر ہیں۔ مگر خیر جو کچھ مجھے معلوم تھا وہ حوالۂ قلم ہے۔ آپ کو واضح ہو کہ جنابِ مرحوم سے تلمّذ بھی تھا اور غایت درجہ ان کو مہر و شفقت میری نسبت تھی۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ باہم میرے والد کے اور ان کے زیادہ محبت اور مودت تھی۔ اور چوں کہ وہ صاحبِ اولاد نہ تھے ، مثل فرزندوں کے مجھے تربیت کیا۔ میرے پاس جو کچھ ہے اسے بے تکلف لکھے دیتا ہوں۔ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اور راویانِ صادق کی تحقیق کے مطابق ہو یا نہ ہو۔

 آپ کا سوال نسبت تبدیلِ تخلص؟

 جواب: مجھ کو یاد ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ ۱۸۲۸ء یا  ۲۹ء کے قریب انھوں نے تخلص تبدیل کیا اور واقعی اسداللہ خاں کے نام کے واسطے غالب ہی تخلص زیبا تھا، کیوں کہ جناب امیر علیہ السلام کا یہ لقب قرار پایا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ کوئی اسد نامی ایک فرومایہ، بونگا، کوڈھبا جھجھر کا شعر کہتا تھا۔ اس کے ایک مقطع میں لفظِ اسد ان کی نظر سے گزرا، اور وہ مقطع یہ ہے :

اسد تم نے بنائی یہ غزل خوب

ارے او شیر رحمت ہے خدا کی

ہم تخلص ہونا جنابِ مرحوم کو ایسے لوگوں سے جو تہمتِ آدم ہیں ، نہایت مکروہ معلوم ہوا۔ اس وجہ سے اسداللہ خاں کے ساتھ غالبؔ کو موضوع کر دیا۔

 دوسرا سوال: بابت مذہبِ مرزا صاحب و آبائے مرزا صاحب؟

 جواب: اصل یہ ہے کہ مرزا صاحب اولادِ سلّم اور تور سے ہیں اور ترکمان کہلاتے ہیں۔ اجداد ان کے شیعہ مذہب نہ تھے۔ اور اس ملک کا آدمی اور خصوصاً یہ ترکمان لوگ اکثر تفضیلی ہیں۔ اور مرزا صاحب کو نظر سیر اور تاریخ پر تھی۔ ان کے نزدیک حقیقت خلافت و امامت کی ثابت ہوئی۔ ماسوا اس کے کثرتِ صحبت ایران کے ساتھ اور خصوصاً نواب حسام الدین حیدر خاں معروف کے ساتھ اور بخشی محمود خاں کے ساتھ اس امر کا باعث ہوئے کہ وہ علی پرست ہو گئے۔ اور غلو ان کا ہنگامِ مباحثہ تھا، نہ یہ کہ وہ تبرّائی ہوں۔ بزرگوں میں مرزا صاحب کے کسی کو ہم کیش مرزا صاحب نہ سنا۔

تیسرا سوال کہ کس سنہ میں شعر کہنے شروع کیے ؟

 جواب: سنہ مجھے اچھی طرح یاد نہیں مگر عنفوانِ جوانی سے طبیعت نے راہ دی اور یہ ہی شغل رہا۔ خصوصیت کے ساتھ اس زمانے کا کوئی شعر مجھے یاد نہیں۔

چوتھا سوال: ہرمزد ثم عبدالصمد کا معاملہ؟ جواب: آپ کی زبان سے میں نے اکثر سنا کہ وہ ان کا استاد تھا۔ وہ تاجر تھا۔ اقتنا ذخائر کے لیے آگرے کو اس نے امید گاہ بنایا تھا۔ پس اگر مرزا صاحب جھوٹے تصور کیے جائیں تو یہ روایت بھی بے اصل محض ہے۔ اور جب یہ روایت بے اصل ہے تو پھر القا و الہام کو ماننا پڑ ے گا۔ ایسا متعلّم سوائے سروشِ غیبی کے کیسے فیض پذیر ہو سکتا ہے۔

 پانچواں سوال: کتبِ مصنفہ کی تدوین۔

 جواب: دیوانِ فارسی ۱۷۳۳ء۔ ۱۸۳۵ء میں ترتیب ہو گیا۔ انطباع کا زمانہ مجھے یاد نہیں۔ وہ الواح مطبع سے مل سکتا ہے۔ دیوانِ اردو ۱۸۴۹ء کے بعد ترتیب پذیر ہوا۔ ’مہرِ نیم روز‘ شاید ۱۸۵۱ء میں شروع ہوئی۔ اس نے ۱۸۵۰ء اور ۱۸۵۱ء میں شرفِ باریابی۔۔۔ پایا۔ اور حکیم احسن اللہ خاں کے تقاضے سے تاریخ نگاری شروع کی، ورنہ بادشاہ ایسے اشواق و اشغال سے معرا تھے۔ ’دستنبو‘ ۱۸۵۷ء میں لکھی گئی۔

 چھٹے سوال کا جواب اسی پانچویں سوال کے جواب میں آ گیا۔

 ساتواں سوال: کلکتے میں طرحِ ’بادِ مخالف‘ اور اس کی وجہ۔ جواب: اہلِ پورب و بنگالہ بوجہ بے مذاقی کے قتیل پرست اور مادھو رام ستا ہیں اور مرزا صاحب کو اہلِ ہند کی نسبت کلام رہا۔ چناں چہ یہ بات مرزا صاحب کے اس شعر سے واضح ہے۔ شعر:

لیک ناید زمن کہ در گفتارمدحتِ لالہ سورداس کنم

اور باعث اس تفضیح کے چند بے تمیزانِ کلکتہ ہوئے کہ وہ آدابِ مہمان نوازی اور ہنر شناسی سے عاطل ہیں۔ بجائے تکریمِ ضیف تسویم و تفہیمِ ضیف کی گئی۔ اور اس تقریب کے باعث مولوی عبدالقادر صاحب نام اور مفتی کبیر احمد صاحب نام دو بزرگ کلکتے کے تھے اور یہ دونوں آدمی کالج گورنمنٹ میں معلم اور مشاہیر سے تھے۔ ٹرنرمٹکاف صاحب نے ’شاہنامہ‘ کی تصحیح کہ جس کو گویا تفضیح کہنا چاہیے ، ان دونوں صاحبوں کی پشت گری سے کی تھی۔ بالجملہ اسی بنا پر مثنوی ’بادِ مخالف‘ لکھی گئی۔ آٹھواں سوال: نواب مصطفی خاں کو ہدایتِ غیبی۔

 جواب: ہدایتِ غیبی رفیقِ حال ہوئی مگر حالتِ شیبی سے پہلے رنگ جما ہوا تھا۔ اگر رم جو منہیّات میں داخل نہیں ہے تو بنت العنب سے مضائقہ کس لیے ؟ شعر:ہو گی چھٹی شراب و لیکن کبھی کبھی پیتے تھے روز ابر و شبِ ماہتاب میں مگر ہاں انصاف کہ میاں عبدالغنی صاحب سے خانقاہ میں جب تجدیدِ بیعت کی اور خود بھی کسی قابل نہ رہے تو توبۂ کامل حاصل ہوئی۔ اور شاید پاس داشتِ حدیث خوانی ملحوظِ خاطر اسلام شکوہ رہا ہو۔

نواں سوال: مولوی الطاف حسین حالی کی روایت:

 جواب: واقعی مرزا صاحب مرحوم فرماتے تھے کہ دقّتِ اشارات و معنی و غرابتِ ترکیب ہم اردو میں نہ کرتے اگر طباع و افہام کو ایسا ناقص جانتے۔ مجالسِ احباب کی خدمت گزاری کو عموماً حاضر ہوں اور آپ کی اس مہجور پرستی کا شا کر۔ جب کسی وقت کوئی کام ہو تو آپ ارقام فرمائیں۔ اس کا سرانجام میرے لیے سرمایۂ مسرت ہے۔ مگر اس معاملۂ خاص میں باہمہ بے بضاعتی میں بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں اور یہ امر بے تلاق ممکن نہیں۔ اگر آپ تصنیف کی تکمیل چاہتے ہیں تو دو چار روز کے لیے مع اس تالیفِ شریف کے یہاں تک قدم رنجہ فرمائیں۔ یہ امر نہ دشوار اور نہ شاید آپ کو اس میں جائے انکار۔ ریواڑی سے لوہارو تک میرے ہاں کی سواریاں حاضر ہو سکتی ہیں اور لاہور سے ریواڑی تک ریل کی سبیل ہے۔ زیادہ والسلام والا کرام۔ میں نا تندرست ہوں ورنہ اپنے ہاتھ سے خط لکھتا۔المعذور معاف علاء الدین۳۲؂

ان خطوط سے ظاہر ہے کہ آزاد کے بیانات کی بیشتر غلطیاں منشی ذکاء اللہ اور علاء الدین کے بیانات کی غلطیاں ہیں اور کچھ غلطیوں کے ذمہ دار غالبؔ بھی ہیں کہ وہ مختلف واقعات کے بیان میں محتاط رویہ اختیار نہیں کرتے تھے۔ اس سلسلے کی کئی دلچسپ مثالیں کاظم علی خاں نے بھی نقل کی ہیں۔ اس لیے انھیں نظر انداز کیا جاتا ہے آزاد کا ایک امتیاز حالیؔ کے مقابلے میں یہ بھی ہے کہ وہ غالبؔ کے نرے مداح ہی نہیں ہیں بلکہ کہیں کہیں اپنی کٹیلی اور پرکار زبان میں ان کی شخصیت و شاعری کے منفی رویوں پر چوٹ بھی کی، جس نے طنز ملیح کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ اسی کے ساتھ ان کے خطوط پر بھی پہلی تنقید آزادؔ نے ہی کی۔ ان کی شاعری اور نثر نگاری کو سراہا بھی۔ شاعری کے بارے میں لکھا:’’جس قدر عالم میں مرزا کا نام بلند ہے اس سے ہزاروں درجہ عالم معنی میں کلام بلند ہے بلکہ اکثر شعر ایسے اعلا درجۂ رفعت پر واقع ہوئے ہیں کہ ہمارے نارسا ذہن وہاں تک نہیں پہنچ سکتے۔ جب ان شکایتوں کے چرچے زیادہ ہوئے تو اس ملک بے نیازی کے بادشاہ نے کہ اقلیم سخن کا بھی بادشاہ تھا، اپنی غزل کے ایک شعر سے سب کو جواب دے دیا۔نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا::نہ سہی گر مرے اشعار میں معنی نہ سہی

ایک دن استاد مرحوم سے مرزا صاحب کے انداز نازک خیالی کا اور فارسی ترکیبوں کا اور لوگوں کی مختلف طبیعتوں کا ذکر تھا میں نے کہا بعض شعر صاف بھی نکل جاتا ہے تو قیامت ہی کر جاتا ہے۔ فرمایا، خوب: پھر کہا کہ جو مرزا کا شعر ہوتا ہے اس کی لوگوں کی خبر بھی نہیں ہوتی، شعر ان کے میں تمھیں سناتا ہوں ، کئی متفرق شعر پڑھے تھے ، ایک اب تک خیال میں ہے :دریائے معاصی تنک آبی سے ہوا خشک   ::  میرا سر دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا

اس میں کلام نہیں کہ وہ اپنے نام کی تاثیر سے مضمون و معانی کے پیشہ کے شیر تھے۔ دو باتیں ان کے انداز کے ساتھ خصوصیت رکھتی ہیں ، اول یہ کہ معنی آفرینی اور نازک خیالی ان کا شیوۂ خاص تھا، دوسرے چوں کہ فارسی کی مشق زیادہ تھی اور اس سے انھیں طبعی تعلق تھا، اس لیے اکثر الفاظ اس طرح ترکیب دے جاتے تھے کہ بول چال میں اس طرح بولتے نہیں۔ لیکن جو شعر صاف صاف نکل گئے ہیں وہ ایسے ہیں کہ جواب نہیں رکھتے ‘‘۔۳۳؂

اس اقتباس میں مرزا کے کلام کو سراہا بھی خوب ہے۔ اور ان کی منطق شعر پر انگلی بھی پڑ گئی ہے جس کا ذکر آگے آئے گا تاہم مرزا پر خفیف سا طنز بھی ہے مثلاً ’’کئی متفرق اشعار پڑھے۔۔۔ (اور)۔۔۔ جو شعر صاف صاف نکل گئے ہیں ‘‘ میں متفرق پر خصوصی زور ہے جس کا اندازہ دو باتوں سے کیا جا سکتا ہے (۱) اس کے بغیر بھی جملہ مکمل ہو سکتا تھا کہ شعر تو متفرق ہی ہو گا۔ اور (۲) حاشیے میں عبداللہ خاں اوجؔ کا شعر نقل کرتے ہیں :ڈیڑھ جز پر بھی تو ہے مطلع و مقطع غائب غالب آسان نہیں صاحبِ دیواں ہونا گویا کہ آزاد جتانا یہ چاہتے ہیں کہ غالبؔ پوری غزل اچھی نہیں کہہ سکتے تھے ، کچھ شعر البتہ اچھے نکل جاتے تھے۔ مرزا کی شعری منطق پر انگلی پڑ جانے کی حقیقت یہ ہے کہ ان کے شعر کی پیچیدگی کا آزادؔ نے اعتراف کیا۔ جو اس زمانے میں بہت اہم ہے ، جب ہماری تنقید نے اپنا سفر شروع بھی نہیں کیا تھا۔ شمس الرحمن فاروقی نے لکھا ہے :’’انھوں نے مروّجہ اسلوب کے برخلاف ایک پیچیدہ اسلوب اختیار کیا، محمد حسین آزاد کی تشخیص یہی ہے اور بہت صحیح ہے۔ لیکن یہ تشخیص اپنی منطقی انتہا تک نہیں لے جائی گئی ہے ‘‘۔۳۴؂ یہ تشخیص اس وقت اپنی منطقی انتہا تک پہنچائی بھی نہیں جا سکتی تھی۔ اس لیے کہ آزادؔ ایک تو اپنے عہد کے چوکھٹے سے یہاں تک نہیں نکل سکتے تھے اور دوسرے یہ کہ ان کے سامنے جناب فاروقی کی طرح مشرق و مغرب کا سارا ادب بھی نہیں تھا۔ اور حالیؔ نے بھی اس کو قبول کیا اگرچہ حوالہ نہیں دیا اور حالیؔ بھی اسے منطقی انتہا تک نہیں لے جا سکے ، جب کہ اس کا مطالبہ آزادؔ کے مقابلے میں حالیؔ سے زیادہ کیا جا سکتا ہے۔ آزادؔ نے ان کی نثر کی داد اس طرح دی ہے :’میں نے چاہا کہ مرزا صاحب کی تصویر الفاظ و معانی سے کھینچوں ، مگر پھر یاد آیا کہ انھوں نے ایک جگہ اسی رنگ روغن سے اپنی تصویر آپ کھینچی ہے میں اس سے زیادہ کیا کر لوں گا اس کی نقل کافی ہے ‘‘۔۳۵؂ ایک اور جگہ لکھتے ہیں :’’ان کے خطوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی انشا پردازی کے شوق کو بڑی کاوش اور عرق ریزی سے نباہتے تھے اس واسطے مرنے سے دس پندرہ برس پہلے ان کی تحریریں اردو میں ہوتی تھیں ‘‘۔۳۶؂

اور پھر جگہ جگہ ان خطوں کے اقتباسات سے آزادؔ نے جس طرح اپنا نگار خانہ سجایا ہے وہ غالبیات کو عین آزاد کی دین ہے۔ جس سے ہمارے انشا پردازوں پر کھلا کہ ان خطوں کا اس قدر بامعنی استعمال بھی ممکن ہے اور اس کی یہ اہمیت بھی ہے۔ ’حالی کی اردو نثر نگاری‘ میں ڈاکٹر عبدالقیوم نے ڈاکٹر صادق کا یہ بیان نقل کیا ہے :’غالب کا جو کلام ’آبِ حیات‘ میں پیش کیا گیا ہے مولانا حالیؔ کے مشورے سے انتخاب کیا گیا تھا‘‘۔

اور لکھا کہ:’’آبِ حیات کے مرقعے دل چسپ ضرور ہیں لیکن ان کی حیثیت افسانۂ یارانِ کہن کی سی ہے اور حالیؔ کا مقصد ایک عظیم شاعر کی شاعرانہ عظمت، روشن دماغی اور زندہ دلی کو واضح کرنا تھا‘‘۔۳۷؂

یہ ڈاکٹر صاحب کی اپنے موضوع سے ہمدردی بول رہی ہے۔ ورنہ آزاد کی نثر میں زندگی کی لہر زیادہ جاری و ساری ہے۔ ڈاکٹر وحید قریشی نے ’یادگارِ غالب‘ پر ’آبِ حیات‘ کے جن اثرات کی نشان دہی کی تھی اس کا جواز ڈاکٹر عبدالقیوم یہ پیش کرتے ہیں کہ:’عام واقعات جو شہرت اختیار کر جاتے ہیں یا معاصرین کی موجودگی میں پیش آتے ہیں وہ متعدد تصانیف میں جگہ لیتے رہتے ہیں ‘‘۔۳۸؂یہ لچرسی منطق ہے اور اسے قبول کر لیں تو بھی حالیؔ آزادؔ کے اثر کی تہمت سے بری نہیں ٹھہرتے۔ ان کا پورا طریقۂ کار ’یادگار‘ میں اس امر کی غمازی کرتا ہے خصوصاً اس لیے بھی کہ حالیؔ کی دوسری سوانح عمریوں میں یہ رنگ نہیں پایا جاتا ہے۔ محمد حسین آزادؔ غالبؔ کے پہلے سوانح نگار تھے اور ’آبِ حیات‘ میں غالبؔ کی پہلی زندہ اور متحرک تصویر پیش کی جس نے غالبؔ کو مقبول بنانے میں بے حد اہم رول ادا کیا ہے۔ لیکن ہمارے بیشتر ناقدین نے آزادؔ کا مطالعہ ایک خاص مفروضے کے تحت کیا اور اسی لیے آزادؔ کے ساتھ انصاف نہیں کیا جا سکا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ’آبِ حیات‘ نہ لکھی جاتی تو حالیؔ کی ’یادگارِ غالب‘ کا بھی رنگ دوسرا ہوتا اور پھر غالبؔ کی شہرت کا گراف اتنا اونچا نہ ہوتا۔l

مولانا الطاف حسین حالیؔ

غالبؔ پر پہلی باضابطہ کتاب ’یادگارِ غالب‘ ہے جس کے مصنف حالیؔ ہیں۔ حالیؔ ۱۲۳۵ھ مطابق ۱۸۷۳ء میں پیدا ہوئے۔۳۹؂ انھوں نے ابتدائی تعلیم پانی پت میں ہی حاصل کی۔ سترہ سال کی عمر میں ان کی شادی ’میر باقر علی کی صاحبزادی اسلام النساء سے ‘ کر دی گئی اور حالیؔ کا اپنا بیان ہے کہ:’’سب کی یہ خواہش تھی کہ میں نوکری تلاش کروں مگر تعلیم کا شوق غالب تھا اور بیوی کا میکہ آسودہ حال۔ میں گھر والوں سے روپوش ہو کر دلّی چلا گیا۔ اور قریب ڈیڑھ برس کے وہاں رہ کر کچھ صرف و نحو اور کچھ ابتدائی کتابیں منطق کی مولوی نوازش علی مرحوم سے ، جو وہاں ایک مشہور واعظ اور مدرس تھے ، پڑھیں ‘‘۔۴۰؂

حالیؔ کی پرورش جس نہج پر ہوئی اس پر حالیؔ کا یہ بیان بخوبی روشنی ڈالتا ہے :’اگرچہ اس وقت قدیم دہلی کالج خوب رونق پر تھا مگر جس سوسائٹی میں ، میں نے نشو ونما پائی تھی، وہاں علم صرف عربی اور فارسی زبان میں منحصر سمجھا جاتا تھا۔ انگریزی تعلیم کا خاص کر پانی پت میں اول تو کہیں ذکر ہی سننے میں نہیں آتا تھا اور اگر اس کی نسبت لوگوں کا کچھ خیال تھا تو صرف اس قدر کہ وہ سرکاری نوکری کا ایک ذریعہ ہے نہ یہ کہ اس سے کوئی علم حاصل ہوتا ہے بلکہ برخلاف اس کے انگریزی مدرسوں کو ہمارے علما مجہلے (یعنی جہالت کی جگہ) کہتے تھے۔ دلّی پہنچ کر جس مدرسے میں مجھ کو شب و روز رہنا پڑ ا وہاں سب مدرس اور طلبہ کالج کے تعلیم یافتہ لوگوں کو محض جاہل سمجھتے تھے۔ غرض کبھی بھول کر بھی انگریزی تعلیم کا خیال دل میں نہ گزرتا تھا۔ ڈیڑھ برس تک دلّی میں رہنا ہوا، اس عرصے میں کبھی کالج کو جا کر آنکھ سے دیکھا تک نہیں اور نہ ان لوگوں سے (اس زمانے میں ) کبھی ملنے کا اتفاق ہوا جو اس وقت کالج میں تعلیم پاتے تھے جیسے مولوی ذکاء اللہ، مولوی نذیر احمد، مولوی محمد حسین آزاد وغیرہ وغیرہ‘‘۔۴۱؂

ڈاکٹر خلیق انجم نے لکھا ہے :

 ’’حالیؔ پہلی بار جب دلّی آئے تھے تو بہت کم عمر طالب علم تھے ، سترہ اٹھارہ سال کی عمر تھی اور چوں کہ انھیں علم حاصل کرنے کی لگن تھی اس لیے دلّی کی ادبی محفلوں اور مشاعروں سے دور رہے یا بہت کم ان میں شرکت کی۔ لیکن دوسری بار یعنی ۷۵۸۱ء کے بعد ۱۶۸۱ء میں ملازمت کی تلاش میں جب حالیؔ دلّی آئے تو ان کی عمر تقریباً ۴۲ سال تھی۔ اب وہ صاحبِ علم تھے۔ فارسی اور عربی اور اس عہد کے دیگر مروّجہ علوم پر خاصی قدرت حاصل کر چکے تھے اس لیے انھیں خود پر اعتماد حاصل ہو چکا تھا۔۔۔ دہلی میں محمد ا کرم خاں شیداؔ کا دیوان خانہ ادبی مرکز بنا ہوا تھا۔ جہاں شعر و سخن کی محفلیں ہوتی تھیں۔ حالیؔ بھی ان محفلوں میں شریک ہونے لگے ‘‘۔۴۲؂

حالیؔ کو عام طور پر شیفتہ کے بچوں کی اتالیقی پر مامور بتایا گیا ہے جو خلافِ واقعہ ہے۔ ڈاکٹر خلیق انجم لکھتے ہیں :’حالیؔ لکھتے ہیں کہ آٹھ سال تک بطورِ مصاحبت ان (شیفتہ) کے ساتھ رہنے کا اتفاق ہوا اور یہی بات درست ہے۔ مالک رام صاحب اور صالحہ عابد حسین کو محسوس ہوا کہ اگر حالیؔ کو شیفتہ کا مصاحب بتایا جائے تو اردو ادب میں حالیؔ کی قدر و قیمت کم ہو جائے گی حالاں کہ حالیؔ یہ نہیں سوچتے تھے۔۔۔ شیفتہ کا مصاحب ہونا حالیؔ کے لیے نہیں مالک رام اور صالحہ عابد حسین کے لیے شرم کی بات تھی‘‘۔۴۳؂

شیفتہؔ کی وفات ۱۸۶۹ء کے بعد حالیؔ پنجاب گورنمنٹ بک ڈپو میں ملازم ہو گئے اور لاہور چلے گئے۔ حالیؔ کا بیان ہے کہ:’نواب شیفتہ کی وفات کے بعد پنجاب گورنمنٹ بک ڈپو لاہور میں ایک اسامی مجھ کو مل گئی جس میں مجھ کو یہ کام کرنا پڑ تا تھا کہ جو ترجمے انگریزی سے اردو میں ہوتے تھے ان کی اردو عبارت درست کرنے کو مجھ کو ملتی تھی۔ تقریباً چار برس میں نے یہ کام لاہور میں رہ کر کیا۔ اس سے انگریزی لٹریچر کے ساتھ فی الجملہ مناسبت پیدا ہو گئی اور نامعلوم طور پرآہستہ آہستہ مشرقی اور خاص کر عام فارسی لٹریچر کی وقعت دل سے کم ہونے لگی‘‘۔۴۴؂

حالیؔ کے لیے لاہور کا قیام ایک اہم تجربہ ثابت ہوا اگرچہ وہاں حالیؔ کا دل نہیں لگا۔ لیکن وہاں کا قیام ان کی زندگی میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہاں محکمۂ تعلیم سے ’اتالیقِ پنجاب‘ پیارے لال آشوبؔ کی ادارت میں جاری ہوا تو حالیؔ نے بھی کچھ مہینے سب اڈیٹر کی حیثیت سے کام کیا، کچھ دنوں تک محمد حسین آزادؔ نے بھی سب اڈیٹر کی ذمہ داری سنبھالی۔ ’اتالیق پنجاب‘ کے بعد ’پنجاب میگزین‘ جاری ہوا۔ پہلے محمد حسین آزادؔ اور پھر حالیؔ نے اس کے سب اڈیٹر کی ذمہ داری بھی سنبھالی۔۴۵؂

 کرنل ہالرائڈ کی تحریک پر ۱۸۷۴ء میں مولوی محمد حسین آزادؔ نے ’مناظموں ‘ کی بنیاد رکھی تو حالیؔ لاہور میں ہی تھے۔ حالیؔ نے ان ’مناظموں ‘ کے لیے چار مثنویاں لکھیں جو ’برکھا رُت‘، ’حبِّ وطن‘، ’نشاطِ امید‘ اور ’مناظرۂ رحم و انصاف‘ کے نام سے مشہو رہیں۔

 دہلی کے اینگلو عربک ا سکول میں مدرس کی جگہ خالی ہوئی تو حالیؔ نے درخواست دی اور عربی کے مدرسِ اوّل کی حیثیت سے ان کا تقرر ہو گیا۔ یہ تقرر ۱۸۷۵ء میں ہوا۔ اور ۱۸۸۷ء میں ان کا تبادلہ ایچی سن کالج میں لاہور کے بورڈنگ ہاؤس میں طلبہ کی اتالیقی پر ہوا، لیکن انھیں طلبہ کا رویّہ پسند نہیں آیا۔ تین مہینے بعد وہ ۵ جون ۱۸۸۷ء کو اینگلو عربک ا سکول میں اپنی پرانی جگہ پر واپس آ گئے ‘‘۔۴۶؂

 ۱۸۸۷ء میں ہی حیدرآباد سے پچھتّر روپے ما ہوار کا وظیفہ جاری ہوا اور وہ مستقل طور پر پانی پت چلے گئے۔۴۷؂ ۱۹۰۴ء میں حالیؔ کو کرنل ہالرائڈ کی سفارش پر شمس العلما کا خطاب ملا۔ ۱۸۹۳ء میں ’مقدمۂ شعر و شاعری‘ شائع ہوئی۔ یہ حالیؔ کی معرکۃ الآرا کتاب تھی اور اس کی مخالفت بھی بڑ ے پیمانے پر کی گئی۔ اس بارے میں ممتاز حسین نے لکھا ہے :’حالیؔ کی مخالفت کا ایک بڑ ا سبب یہ بھی تھا کہ حالیؔ صرف ایک نقاد ہی نہیں بلکہ اپنے وقت کے ایک اہم شاعر تھے۔ وہ قدیم رنگِ تغزل میں غزلیں کہہ کر اپنی جگہ بنا چکے تھے ، چنانچہ ان سے لوگ اس کی توقع نہیں رکھتے تھے کہ وہ اس قسم کی بے مزا جدید شاعری کریں گے جیسی کہ ان کی جدید شاعری کو ان لوگو ں نے تصور کیا۔ اور نہ اس کی توقع ان کی ذات سے تھی کہ وہ اپنے ’مقدمۂ شعر و شاعری‘ میں ایشیائی شاعری کو جھوٹ اور مبالغے کا پلندہ قرار دے کر اس کے خلاف اس قسم کا جہادِ اکبر کریں گے جیسا کہ انھوں نے اپنے مقدمے میں کیا ہے ‘‘۔۴۸؂

آزادؔ سے زیادہ حالیؔ کی مخالفت کا راز اس بیان کے دوسرے حصے میں پوشیدہ ہے۔ آزادؔ کی بے اطمینانی ہم عصر اردو شاعری سے زیادہ تھی۔ اور اپنی ادبی روایت کا وہ بہرحال احترام کرتے تھے۔ جب کہ حالیؔ نے پوری اردو شاعری پر خطِ تنسیخ کھینچ دیا اور اسی لیے آزادؔ کے مقابلے میں حالیؔ کو زیادہ مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑ ا۔ اور حالیؔ کی پذیرائی بھی زیادہ ہوئی۔ شیخ محمد ا کرام لکھتے ہیں :’اردو شاعری کی تو انھوں نے تاریخ ہی بدل ڈالی۔ آج تک اردو اور فارسی شاعری میں شعر کی خوبی الفاظ کے انتخاب، تشبیہوں کی جدت اور مضمون کی شگفتگی پر منحصر تھی۔ حالیؔ نے شعر کی بنیاد خالص جذبات پر رکھی‘‘۔۴۹۴؂حالیؔ کے اس نقطۂ نظر کی خوبی اور خامی پر بحث ہو سکتی ہے اور ہونی چاہیے لیکن اس سے اردو تنقید نے جو اثر قبول کیا، اس سے انکار ممکن نہیں۔ اور اس پر حالیؔ کی بردباری کا عالم یہ کہ ’’جب اردو ادب کے محسنوں کا ذکر آتا ہے تو حالیؔ چپکے سے سرسیّد کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں کہ ’فادر آف اردو لٹریچر‘ تو وہ ہیں ‘‘۔۵۰؂

 اس میں شک نہیں کہ ’مقدمۂ شعر و شاعری‘ اپنے زمانے کی نہایت با اثر کتاب تھی۔ لیکن ا کرام کا یہ کہنا کہ اس کا ’’جواب اردو تو کیا مغرب کی بہت کم زبانوں میں ملے گا‘‘ مبالغے سے خالی نہیں۔ اور پھر یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ مقدمے کے معروضات بالکل نئے اور انوکھے نہیں تھے بلکہ اردو شاعری کی اصلاح کا خیال عام ہونے لگا تھا۔ پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے لکھا ہے :’جدید اردو شاعری کا باقاعدہ آغاز ۱۸۷۴ء کے مشاعرۂ پنجاب اور نئی تنقید کی ابتدا حالیؔ کے ’مقدمۂ شعر و شاعری‘ سے کی جاتی ہے جو ۱۸۹۳ء میں شائع ہوا۔ لیکن رام چندر نے حالیؔ سے ۴۶ سال پہلے اپنے رسالہ ’خیرخواہِ ہند‘ میں اردو شاعری پر تنقید کی ہے ، جس سے اس میدان میں ان کی صلاحیتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہاں ان خیالات کو پیش کرنے سے مراد رُخِ روشن کے آگے شمع رکھنا نہیں ہے۔ صرف یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ ان میں سے بعض اعتراضات کو حالیؔ نے آگے چل کر زیادہ صراحت اور تنقیدی بصیرت کے ساتھ پیش کیا ہے ‘‘۔۵۱؂اور آزادؔ کا معرکہ آرا خطبہ بھی ہے جس نے حالیؔ کے مقدمہ سے پہلے اردو شاعری کے عام نقائص کی طرف متوجہ کیا۔ لیکن ان کے یہاں وہ شدت نہیں جو حالیؔ کے یہاں ملتی ہے۔ اس کا ایک سبب تو آزادؔ کے یہاں اپنی روایت کا احترام ہے ، دوسرا سبب ڈاکٹر محمد صادق کے بقول یہ بھی ہو سکتا ہے۔ وہ ’آبِ حیات‘ کے جائزے میں لکھتے ہیں :’’ایک اور قابلِ غور بات یہ ہے : اکثر اصحاب کا خیال ہے کہ آزادؔ نے شعرائے اردو سے بہت نا انصافی کی ہے اور ان کی خامیوں کو ابھار ابھارکر دکھایا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان کا مضحکہ اڑ ایا ہے۔ ان خطوط کے مطالعے سے اس بدظنی کی ذرا بھی تائید نہیں ہوتی۔ دراصل معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ آزادؔ نے ان تمام بیانات کو، جن سے ذم کا پہلو نکلتا ہے ، نظر انداز کر دیا ہے۔ اس کا ایک سبب یہ ہو سکتا ہے کہ آزادؔ کو ان شعرا سے عشق تھا۔ انھوں نے ’آبِ حیات‘ کے خاتمے پر جس والہانہ شیفتگی کا اظہار کیا ہے ، اس کی مثال ہمارے ادب میں نہیں ملتی۔ لیکن اس کا سبب ایک اور ہو سکتا ہے جو زیادہ قرینِ قیاس ہے۔ میری رائے میں اسے ان کی محتاط طبیعت پر محمول کیا جا سکتا ہے۔ آزادؔ میں مولانا حالیؔ یا سیّد احمد جیسی اخلاقی جرأت نہ تھی۔ وہ تنقید سے بہت جزبز ہوتے تھے۔ مولانا حالیؔ کے ذیل کے خطوط سے صاف ظاہر ہے کہ آزادؔ کی حساس طبیعت بدظنی سے بہت گھبراتی تھی۔ لہٰذا وہ شعرا کے معائب بیان کرنے سے احتراز کرتے تھے ، یا کم از کم اس سے گھبراتے تھے ‘‘۔۵۲؂

 حالیؔ کے اعتراضات میں جتنی شدت تھی اتنی ہی شدید مخالفت کا انھیں بھی سامنا کرنا پڑ ا۔ لیکن ’مقدمۂ شعر و شاعری‘ کی پذیرائی بھی خوب ہوئی جس کا ایک سبب تو حالیؔ کا تجزیاتی منطقی اسلوب تھا کہ مقدمے میں انھوں نے نظریاتی اور پھر عملی تنقید سے ایسی جامعیت پیدا کر دی جس کی کوئی اردو کی حد تک مثال پہلے موجود نہ تھی۔ دوسرا سبب یہ تھا کہ ان تمام اصناف سے ایک عام بیزاری کی کیفیت محسوس کی جا رہی تھی اور ان کے نقائص کا احساس کسی قدر عام ہوچلا تھا اور ان میں اصلاح کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ حالیؔ نے اس احساس کو قوتِ گویائی عطا کر دی۔ غالب تنقید کے سلسلے میں مقدمے کی اہمیت یہ ہے کہ حالیؔ نے شعر کی پوری بحث کلام غالب کو سامنے رکھ کر کی اور یہ التزام رکھا کہ ان کے نظریے کی زد میں غالبؔ کا کلام نہ آئے۔ اس بارے میں شمس الرحمن فاروقی نے لکھا ہے :’اس وقت تو عالم یہ ہے کہ ’مقدمۂ شعر و شاعری‘ میں شعر کی خوبیوں کا جو بیان کیا گیا ہے اور جس کی اساس ملٹن پر رکھی گئی ہے۔ وہ تقریباً پورے کا پورا غالبؔ پر منطبق ہو سکتا ہے بلکہ سادگی کی تعریف میں وہ جملے جہاں انھوں نے سادگی کی اضافیت کی بات کی ہے اور اصلیت کی تعریف میں وہ عبارات جہاں انھوں نے ان خیالات کو بھی اصلیت پر مبنی قرار دیا ہے جو شاعر کے عندیہ میں موجود ہوں یا یہ معلوم ہوتا ہو کہ وہ شاعر کے عندیہ میں موجود ہیں۔ غالبؔ کے علاوہ اور کسی اردو شاعر پر پورے ہی نہیں اترتے ‘‘۔۵۳؂

اور فاروقی صاحب کا تو یہ تک خیال ہے کہ غالبؔ کی شاعری کی روز افزوں مقبولیت کا راز بھی یہ ہے کہ اردو میں تنقید کی عمارت ’مقدمۂ شعر و شاعری‘ پر تعمیر کی گئی اور مقدمہ اپنے اندر غالبؔ کی شاعری کا جواز رکھتا تھا۔ غالبؔ پر حالیؔ کی باضابطہ کتاب ’یادگارِ غالب‘ ہے۔ ’’یہ پہلی مرتبہ محمد رحمت اللہ رعد کے نامی پریس، کانپور میں چھپ کر ۱۸۹۷ء میں شائع ہوئی تھی‘‘۔۵۴؂

 ڈاکٹر نیر مسعود نے لکھا ہے :’’لہٰذا حالیؔ کے نقطۂ نظر سے مناسب طریقِ کار یہی تھا کہ غالبؔ کے اس واحد کارنامے پر زیادہ سے زیادہ روشنی ڈالیں اور برسبیل تذکرہ ان کی زندگی اور شخصیت کا بھی ایک خاکہ پیش کر دیں۔ آج ’یادگارِ غالب‘ میں سب سے زیادہ اہمیت غالبؔ کی سوانح عمری کی ہے ، اس کے بعد ان کی اردو نظم و نثر پر تبصرے اور اس کے بعد ان کی فارسی نظم و نثر پر تبصرے کا درجہ ہے لیکن خود حالیؔ کی نظر میں کتاب کے اہم عناصر کی یہ ترتیب معکوس تھی‘‘۔۵۵؂

یہ نتیجہ حالیؔ کے اس بیان سے نکالا گیا ہے کہ:

 ’’مرزا کی لائف میں کوئی منوّہ بالشّان واقعہ ان کی شاعری و انشا پردازی کے سوا نظر نہیں آتا۔ لہٰذا جس قدر واقعات ان کی لائف کے متعلق اس کتاب میں مذکور ہیں ان کو ضمنی اور استطرادی سمجھنا چاہیے۔ اصل مقصود اس کتاب کے لکھنے سے شاعری کے اس عجیب و غریب ملکے کا لوگوں پر ظاہر کرنا ہے جو خدا تعالیٰ نے مرزا کی فطرت میں ودیعت کیا تھا اور جو کبھی نظم و نثر کے پیرائے میں کبھی ظرافت اوربذلہ سنجی کے روپ میں ، کبھی عشق بازی اور رند مشربی کے لباس میں اور کبھی تصوف اور حبِ اہلِ بیت کی صورت میں ظہور کرتا تھا۔ پس جو ذکر ان چاروں باتوں سے علاقہ نہیں رکھتا اس کو کتاب کے موضوع سے خارج سمجھنا چاہیے ‘‘۔۵۶؂

یہ بیان حالیؔ کے سرسیّد تحریک سے تعلق کا مظہر ہے جو ان کی بنیادی فطرت سے علاقہ نہیں رکھتا۔ حالیؔ تضادات کے مجموعے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک طرف ان کی شعر و ادب سے والہانہ شیفتگی ہے جو اُن کا دامن نہیں چھوڑ تی، جس کا اندازہ اس بیان سے کیا جا سکتا ہے :’’اگرچہ جس زمانے میں پہلی ہی بار راقم کا دلّی جانا ہوا، اس باغ میں پت جھڑ شروع ہو گئی تھی، کچھ لوگ دلّی سے باہر چلے گئے اور کچھ دنیا سے رخصت ہو گئے تھے ، مگر جو باقی تھے اور جن کو دیکھنے کامجھ کو ہمیشہ فخر رہے گا، وہ بھی ایسے تھے کہ نہ صرف دلّی سے ، بلکہ ہندوستان کی خاک سے پھر کوئی ویسا اٹھتا نظر نہیں آتا، کیوں کہ جس سانچے میں وہ ڈھلے تھے ، وہ سانچہ بدل گیا۔ مگر جب مرزا کے اس اعلا مرتبے کا جو شاعری و انشا پردازی میں فی الواقع انھوں نے حاصل کیا تھا، ٹھیک اندازہ کیا جاتا ہے تو ناچار یہ کہنا پڑ تا ہے کہ زمانے کی یہ تمام قدردانی زیادہ سے زیادہ اس پیرِزال کی سی قدردانی تھی جو ایک سوت کی اٹی لے کر یوسف کی خریداری کو مصر کے بازار میں آئی تھی۔۔۔ اگرچہ مرزا کی تمام لائف میں کوئی بڑ ا کام ان کی شاعری اور انشا پردازی کے سوا نظر نہیں آتا، مگر صرف اسی ایک کام نے ان کی لائف کو دارالخلافے کے اخیر دور کا ایک مہتم بالشان واقعہ بنا دیا ہے اور میرا خیال ہے کہ اس ملک میں مرزا پر فارسی نظم و نثر کا خاتمہ ہو گیا، اور اردو نظم و نثر پر بھی ان کا کچھ کم احسان نہیں ہے ‘‘۔۵۷؂اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ حالیؔ مرزا کی شاعری کے کس قدر قائل تھے اور علم و ادب کا پاس انھیں کتنا تھا۔ اور ان کے اس رویئے کی غمازی ان کی اس انتخابیت سے بھی ہوتی ہے کہ انھیں غالبؔ اور سعدیؔ کی سوانح لکھنے کا خیال آتا ہے ، کسی مصلح کی سوانح کا نہیں۔ سرسیّد احمد کی سوانح ضرور لکھی لیکن سرسیّد کو صرف مصلح کہہ کے ادب بدر کرنا درست نہیں۔ اس لیے یہاں تک تو کہا جا سکتا ہے کہ حالیؔ سرسیّد تحریک سے وابستہ اور ان تصورات کے قیدی تھے ، جن سے سرسیّد تحریک عبارت تھی۔ لیکن شعر و ادب سے والہانہ شیفتگی بھی رکھتے تھے۔ اور اس معاشرے کے پروردہ تھے ، جو شاعر کو اپنا سرمایۂ افتخار سمجھتا تھا اور اسے اپنی زندگی میں مرکزی مقام عطا کرتا تھا۔ اس کا اندازہ اس سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ سرسیّد نے ’آثارالصّنادید‘ میں مرزا غالبؔ کی سوانح اور ملکۂ شاعری پر بھی روشنی ڈالی۔ اور متعدد سیاحوں کے سفرنامے میں غالبؔ کے حالات و واقعات ملتے ہیں ، جنھوں نے باضابطہ غالبؔ کی زیارت کی تھی۔ ہاں ! یہ الگ بات ہے کہ ان کی ترتیب سائنٹفک انداز میں نہیں اور ہو بھی نہیں سکتی تھی۔ بہرحال حالیؔ نے غالبؔ کے حالات بھی کافی تفصیل سے لکھنے کی کوشش کی ہے۔ جس کا اندازہ اندراجات کی اس مختصر سی فہرست سے کیا جا سکتا ہے۔ جو اس طرح ہے :

 ’’تاریخِ ولادت، خاندان، تاہل، مسکن، مطالعۂ کتب، سفرِ کلکتہ، مجادلۂ اہلِ کلکتہ، قیامِ لکھنؤ، ملازمت سرکاری سے انکار، قید ہونے کا واقعہ، قلعہ کا تعلق، خدمت اصلاح اشعار بادشاہ، بدیہہ گوئی، اولاد، عارف کا مرثیہ، حالاتِ غدر، کتاب دستنبو، وظیفۂ رامپور، قاطعِ برہان، قاطعِ برہان کی مخالفت اور اس کی وجہ، قاطعِ برہان کی تائید، گمنام خطوں میں گالیاں ، عربی استعداد، فارسی دانی، عروض، نجوم، تصوف اور تاریخ، خط، شعر خوانی، مرزا کے اخلاق و عادات و خیالات، وسعتِ اخلاق، مروّت، فراخ حوصلگی، کتاب فہمی، حسنِ بیان اور ظرافت، خود داری، خوراک، آموں کی رغبت، حسنِ طلب، ناؤ نوش، اسلام کا یقین، شوخیِ بیان وغیرہ‘‘۔

اس فہرست سے ظاہر ہے کہ حالیؔ نے اپنے طور پر ایک ایسی سوانح عمری لکھنی چاہی جو بہر لحاظ مکمل ہو۔ اور کوئی پہلو ان کی زندگی کا تشنہ نہ رہ جائے اور اس سلسلے میں انھوں نے آزادؔ کی پیروی بھی کی اس طرح کہ (۱) غالبؔ کی شخصیت کو لطائف و ظرائف کی مدد سے ابھارا اور (۲) خطوطِ غالبؔ کو مواد کے طور پر استعمال کیا اور اس سے سوانح اخذ کی، اور گاہے بگاہے ان سے استدلال بھی کیا۔

 حالیؔ نے غالبؔ کی سوانح اور مفصل سوانح لکھی لیکن وہ کس قدر مستند ہے یہ ایک دلچسپ بحث کا موضوع ہے اور اس پر کافی کچھ لکھا بھی گیا ہے۔ لیکن یہ ہمارے موضوع سے علاقہ نہیں رکھتا۔ اس لیے ہم یادگار کے صرف تنقیدی حصے سے بحث کریں گے جس کو جناب نیر مسعود نے یادگار کے اہم عناصر کی ترتیب میں درمیانی جگہ دی ہے ، یہاں برسبیلِ تذکرہ یہ بھی عرض کر دوں کہ اس ترتیب میں سب سے کم درجہ انھوں نے ’فارسی نظم و نثر پر تبصرہ‘ کو دیا ہے۔ جب کہ جناب رشید حسن خاں نے لکھا ہے :’مرزا صاحب کی فارسی نثر اور فارسی شاعری سے متعلق حالیؔ نے جو کچھ لکھا تھا، اس پر ذرا سا بھی اضافہ نہیں کیا جا سکا ہے۔۔۔۔ یہ واضح کر دیا جائے کہ برہانِ قاطع سے تعلق رکھنے والی بحثیں اس قول کے دائرے سے باہر کی چیز ہیں۔ ان کا تعلق لسانی مباحث سے ہے ، تنقید یا ادبی تحقیق سے نہیں۔۔۔ یہ بات ہمارے سامنے ضرور رہنا چاہیے کہ حالیؔ کا ذہن تنقیدی مباحث سے جیسی قریب کی نسبت رکھتا تھا، تحقیقی مباحث سے ان کے مزاج کو ویسا علاقہ نہیں تھا۔ اسی وجہ سے اس کتاب کا تحقیقی حصہ خاصا کمزور ہے ‘‘۔۵۸؂اور یہ بیان درست ہے۔ حالیؔ محققانہ احتیاط سے اس قدر عاری تھے کہ قاضی عبدالودود نے غالب انٹر نیشنل سمینار کے خطبۂ افتتاحیہ میں حالیؔ کی غلط بیانیوں کی درجنوں مثالیں فی البدیہہ پیش کر دی ہیں۔۵۹؂ اس سے یادگار میں اغلاط کے تناسب کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اور حالیؔ کی احتیاط کا بھی، جس کا مطالبہ ایک محقق سے بہرحال کیا جانا چاہیے۔ اور حالیؔ کی کتاب اس معیار پر پوری نہیں اُترتی اور یادگار کی اصل اہمیت تنقیدی رہ جاتی ہے۔

 حالاں کہ شیخ محمد ا کرام نے لکھا ہے کہ: شاید جوں جوں وقت گزرتا جائے ’یادگارِ غالب‘ کی اصل حیثیت تنقیدی نہیں ، ادبی (؟) نظر آئے ‘‘۔۶۰؂ لیکن یہ قیاس محض ہے اور واقعہ یہ ہے کہ یادگار آج بھی غالبؔ پر بہترین تنقیدی کتاب کی حیثیت رکھتی ہے۔

 حالیؔ نے مرزا کے کلام پر ریویو کے تحت چار خصوصیات بیان کی ہیں۔ وہ پہلے ہی یہ عذر پیش کر دیتے ہیں کہ ’’ہم کو مرزا کے عمدہ اشعار کے جانچنے کے لیے ایک جداگانہ معیار مقرر کرنا پڑ ے گا۔ جس کو امید ہے کہ اہلِ انصاف تسلیم کریں گے ‘‘۔۶۱؂ پہلی خصوصیت جدتِ بیان ہے ، وہ لکھتے ہیں :’ان کی غزل میں زیادہ تر ایسے اچھوتے مضامین پائے جاتے ہیں ، جن کو اور شعرا کی فکر نے بالکل مس نہیں کیا اور معمولی مضامین ایسے طریقے میں ادا کیے گئے ہیں ، جو سب سے نرالا ہے ؛ اور ان میں ایسی نزاکتیں رکھی گئی ہیں ، جن سے اکثر اساتذہ کا کلام خالی معلوم ہوتا ہے ‘‘۔۶۲؂

اس سلسلے میں مزید لکھتے ہیں :

 ’’علاوہ جدتِ مضامین اور طرفگیِ خیالات کے اور بھی خصوصیتیں مرزا صاحب کے کلام میں ایسی ہیں جو اور ریختہ گویوں کے کلام میں شاذ و نادر پائی جاتی ہیں۔ اولاً، عام اور مبتذل تشبیہیں جو عموماً ریختہ گویوں کے کلام میں متداول ہیں ، مرزا جہاں تک ہو سکتا ہے ، ان تشبیہوں کو استعمال نہیں کرتے ، بلکہ تقریباً ہمیشہ نئی نئی تشبیہیں ابداع کرتے ہیں۔ وہ خود ایسا نہیں کرتے ، بلکہ خیالات کی جدت ان کو جدید تشبیہیں پیدا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ ان کے ابتدائی ریختہ میں جو تشبیہیں دیکھی جاتی ہیں ، وہ اکثر غرابت سے خالی نہیں ہیں۔۔۔ لیکن جس قدر خیالات کی اصلاح ہوتی گئی، اسی قدر تشبیہوں میں ، باوجود ندرت اور طرفگی کے سنجیدگی اور لطافت بڑھتی گئی‘‘۔۶۳؂حالیؔ نے وضاحت کے لیے مناسب مثالیں فراہم کر دی ہیں ، اس خصوصیت کی طرف پہلے پہل محمد حسین آزادؔ نے اشارہ کیا۔ لیکن حالیؔ کا امتیاز یہ ہے کہ حالیؔ نے اس خصوصیت کو نشان زد ہی نہیں کیا، بلکہ اس پر سلیقے سے گفتگو بھی کی اور اپنے تجزیے کو جاندار بنانے کے لیے مناسب مثالیں بھی فراہم کر دیں۔ اور یہ سب خالص تنقیدی زبان میں کیا۔

 حالیؔ نے کلامِ غالبؔ کی دوسری خصوصیت استعارہ، کنایہ و تمثیل کے زیادہ استعمال کو بتایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :’دوسری خصوصیت یہ ہے کہ مرزا نے استعارہ و کنایہ و تمثیل کو جو کہ لٹریچر کی جان اور شاعری کا ایمان ہے ، اور جس کی طرف ریختہ گو شعرا نے بہت کم توجہ کی ہے ، ریختہ میں بھی نسبتاً اپنے فارسی کلام سے کم استعمال نہیں کیا‘‘۔۶۴؂

اور اس سلسلے کی پانچ مثالیں درج کی ہیں اور ان کا تجزیہ کیا اور پھر لکھا کہ:’اصل خیالات سیدھے سادے ہیں مگر استعارے اور تمثیل نے ان میں ندرت اور طرفگی پیدا کر دی‘‘۔ ۶۵؂

شیخ محمد ا کرام نے لکھا ہے : ’’ڈاکٹر بجنوری نے ان مثالوں میں اضافہ کیا ہے اور اپنی کتاب کے باب نہم میں ان تشبیہوں کی مثالیں دی ہیں جو غائر مشاہدۂ فطرت پر مبنی ہیں۔ لیکن جن ترکیبوں کو انھوں نے مرزا کی الفاظ سازی اور خوش نگاری کا نمونہ بتایا (ص۳۴) ان کا جزوِ غالب بھی استعارے ہیں جن سے دو لفظوں میں غالبؔ نے ایک مکمل تصویر کھینچ دی ہے۔ مثلاً موجِ نگاہ، وادیِ خیال، فردوس گوش، دامِ تمنا وغیرہ۔ فی الحقیقت مرزا تشبیہ اور استعارہ کے بادشاہ تھے۔ اور دنیا کے شاید ہی کسی شاعر کے کلام میں نئی اور موزوں تشبیہوں اور استعاروں کی وہ افراط ہو جو ان کے کلام میں ہے ‘‘۔۶۶؂

}یہ حالیؔ کی اپنی تشخیص ہے جس کو عبدالرحمن بجنوری، شیخ محمد ا کرام اور دوسرے تنقید نگار بڑی دور تک لے گئے ہیں۔ اور حالیؔ کی یہ دریافت کلامِ غالبؔ کی تعئینِ قدر کے سلسلے میں بڑی اہمیت رکھتی ہے۔

 حالیؔ نے ان مقامات پر جو اشعار مہیا کیے اور ان کی جو تفسیر لکھی ہے اس کے بارے میں وارث علوی نے صحیح لکھا ہے کہ:

 ’’حالیؔ شعر کی تفسیر کے ذریعے شعر کے حسنِ معنی اور حسنِ صورت کو نمایاں کرتے تھے۔ اور مجھے کہنے دیجیے کہ اس میدان میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔۔۔ حالیؔ کا مقصد یہ تھا کہ غالبؔ کے اشعار کی شاعرانہ خوبیوں کو اس طرح سے بیان کیا جائے کہ قاری شعر کی معنوی اور صوری خوبیوں سے واقف ہو کر شعر سے پوری طرح لطف اندوز ہو سکے۔ حالیؔ کی تفسیری تنقید کی بھی چند حدود ہیں لیکن حالیؔ ان حدود میں ایک کامیاب نقاد ہیں۔ یہ بات نہیں کہ حالیؔ Evaluative تنقید کے اصولوں سے واقف نہیں۔۔۔ لیکن غالبؔ پر لکھتے وقت ان کے پیش نظر جو مقصد تھا وہ Evaluation سے زیادہ Appreciation کا تھا۔۔۔ یہ بات صریحاً بے بنیاد ہے کہ حالیؔ کی اخلاقی شخصیت غالبؔ پر اچھی تنقید لکھنے میں مانع ہوئی‘‘۔۶۷۶؂اس کی مزید توثیق گیان چند جین کے اس اعتراف سے ہوتی ہے :’’آج جو ہم غالبؔ کے بعض پہلو دار اشعار کے لطیف معنوں سے محظوظ ہوتے ہیں وہ یادگار ہی کی دین ہے۔ شاید انھوں نے یہ معنی خود غالبؔ سے سنے ہوں گے۔ تنقید کا یہ طریقہ کسی قدر فرسودہ ہو سکتا ہے ، لیکن اس سلجھے ہوئے طریقے سے غالبؔ فہمی میں جتنی مدد ملتی ہے وہ بعد کے نمائشی تبصروں سے نہیں ملتی‘‘۔۶۸؂

حالیؔ نے تیسری خصوصیت شوخی و ظرافت بتائی ہے۔ وہ غالبؔ کو حیوانِ ظریف بتاتے ہیں اور کلام میں بھی شوخی و ظرافت کے غالب رجحان کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ گو انھوں نے مثالیں پیش نہیں کیں ، وہ لکھتے ہیں :’’تیسری خصوصیت کیا ریختہ میں اور کیا فارسی میں ، کیا نثر میں کیا نظم میں ، باوجود سنجیدگی و متانت کے شوخی و ظرافت ہے ، جیسا کہ مرزا کے انتخابی اشعار سے ظاہر ہو گا۔ مرزا سے پہلے ریختہ گو شعرا میں دو شخص شوخی و ظرافت میں بہت مشہور ہیں ، ایک سوداؔ اور دوسرے انشاؔ، مگر دونوں کی تمام شوخی و خوش طبعی ہجو گوئی یا فحش و ہزل میں صرف ہوئی۔ بخلاف مرزا غالبؔ کے کہ انھوں نے ہجو یا فحش و ہزل سے کبھی زبانِ قلم کو آلودہ نہیں کیا‘‘۔۶۹؂

شاعری کی حد تک تو اس بیان کی صحت میں کلام نہیں۔ لیکن نثر (خصوصاً معرکے کے تعلق کی) میں مرزا نے بھی پھکڑ پن کا کچھ کم ثبوت نہیں دیا۔ لیکن حالیؔ کی اخلاقیات استاد کے اس کمزور پہلو سے نظر بچا لیتی ہے۔

 چوتھی خصوصیت پہلو داری ہے جس کو حالیؔ ’’مرزا اور دیگر ریختہ گویوں کے کلام میں مابہ الامتیاز‘‘ بتاتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ:’’ان کے اکثر اشعار کا بیان ایسا پہلو دار واقع ہوا ہے کہ بادی النظر میں اس کے کچھ اور معنی مفہوم ہوتے ہیں ، مگر غور کرنے کے بعد اس میں ایک دوسرے معنی نہایت لطیف پیدا ہوتے ہیں ‘‘۔۷۰؂

اور اس سلسلے کی دس مثالیں فراہم کی ہیں اور ان اشعار کی تفسیر جس طرح لکھی ہے وہ حالیؔ کی نکتہ رسی پر دال ہے۔ پروفیسر کلیم الدین احمد نے اس پہلو داری کو ’’غالبؔ آرٹ کا اصل کارنامہ‘‘ قرار دیا ہے۔۷۱؂

 حالیؔ اس کے بعد منتخب اشعار کی شرح لکھتے ہیں۔ جس کی بنیاد پر کتنی ہی شرحیں لکھی جا چکی ہیں۔ لیکن اس کی اہمیت بدستور ہے۔ اور غالب شناسی کے فروغ میں اس کا جو حصہ رہا ہے وہ فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

 اس کے بعد قطعات و رباعیات پر گفتگو کی ہے ، جو چنداں اہم نہیں۔ پھر نثر اردو کا جائزہ لیا ہے ، جس کی ابتدا ہی میں یہ جتا دیا کہ ’’جہاں تک دیکھا جاتا ہے ، مرزا کی عام شہرت ہندوستان میں جس قدر ان کی اردو نثر کی اشاعت سے ہوئی ہے ، ویسی نظم اردو اور نظم فارسی سے نہیں ہوئی‘‘۔۷۲؂

 یہ غالباً نثر اردو کی با ضابطہ تعین قدر کی پہلی کوشش ہے اور اس میں حیرت انگیز حد تک جامعیت پائی جاتی ہے۔ حالیؔ نے ان خطوں کی جان مرزا کی شوخی و ظرافت کو بتایا ہے جو مرزا میں اس طرح موجود تھی جیسے ستار کے تار میں سر۔۷۳؂

 مرزا کی مکتوب نگاری کے سلسلے میں کچھ تحقیقی بیانات بھی ہیں ، جن کے سلسلے میں جو تحقیقی موشگافیاں ملتی ہیں ، ان سے میں نے سروکار نہیں رکھا ہے کہ ان سے میرے موضوع کا علاقہ نہیں۔ حالیؔ لکھتے ہیں :’مرزا کی اردو خط و کتابت کا طریقہ فی الواقع سب سے نرالا ہے۔ نہ مرزا سے پہلے کسی نے خط و کتابت میں یہ رنگ اختیار کیا اور نہ ان کے بعد کسی سے اس کی پوری تقلید ہو سکی۔ انھوں نے القاب و آداب کا پرانا اور فرسودہ طریقہ اور بہت سی باتیں جن کو مترسلین نے لوازم نامہ نگاری میں سے قرار دے رکھا تھا، مگر درحقیقت فضول اور دور از کار تھیں ، سب اڑا دیں۔ وہ خط کو کبھی میاں ، کبھی برخوردار، کبھی بھائی صاحب، کبھی مہاراج، کبھی کسی اور مناسب لفظ سے آغاز کرتے ہیں ، اس کے بعد مطلب لکھتے ہیں اور اکثر بغیر اس قسم کے الفاظ کے سرے ہی سے مدعا لکھنا شروع کر دیتے ہیں : ادائے مطالب کا یہ طریقہ بالکل ایسا ہے جیسے دو آدمی بالمشافہ بات چیت یا سوال و جواب کرتے ہیں ‘‘۔۷۴؂

اس کے بعد طرزِ بیان کی پیچیدگی اور سفّاکی پر روشنی ڈالتے ہیں کہ کس طرح مرزا اکثر ’’مکتوب الیہ کو خطاب کرتے کرتے اس کو غائب فرض کر لیتے ہیں ‘‘ اور اس کا سلسلہ ’’مغربی طریقے ‘‘ کے قصوں سے ملاتے ہیں ، اس فرق کے ساتھ کہ:’وہاں سائل اور مجیب کا نام یا ان کے ناموں کی کوئی علامت لکھ دی جاتی ہے۔۔۔ مرزا ایسے موقع پر سائل و مجیب کا نام نہیں لیتے اور نہ ان کے نام کی علامت لکھتے ہیں ، مگر سوال و جواب کے ضمن میں ایسا ایک لفظ لے آتے ہیں جس سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ سوال کیا ہے اور جواب کیا‘‘۔پھر یہ جتا دیتے ہیں کہ یہ ایسی خصوصیت نہیں جس کی تقلید ممکن نہ ہو اور پھر اس خصوصیت پر روشنی ڈالتے ہیں ، جس نے ان خطوط کو ’ناول اور ڈراما‘ سے زیادہ دلچسپ بنا دیا ہے۔ ’’مگر وہ چیز جس نے ان کے مکاتبات کو نوول اور ڈراما سے زیادہ دلچسپ بنا دیا ہے ، وہ شوخیِ تحریر ہے ، جو اکتساب یا مشق و مہارت یا پیروی و تقلید سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگوں نے خط و کتابت میں مرزا کی روش پر چلنے کا ارادہ کیا ہے اور اپنے مکاتبات کی بنیاد بذلہ سنجی و ظرافت پر رکھنی چاہی ہے۔ مگر ان کی اور مرزا کی تحریر میں وہی فرق پایا جاتا ہے جو اصل اور نقل یا روپ اور بہروپ میں ہوتا ہے۔۔۔ معلوم ہوتا ہے کہ مرزا خط لکھتے وقت ہمیشہ اس بات کو نصب العین رکھتے تھے کہ خط میں کوئی ایسی بات لکھی جائے کہ مکتوب الیہ اس کو پڑھ کر محظوظ اور خوش ہو‘‘۔۷۵؂یہ شوخی و ظرافت غالبؔ کی شخصیت کا ایک جزو ہی نہیں بلکہ جزوِ غالب ہے اور اسی نے مرزا کی شخصیت کو اس قدر دل نشیں بنا دیا ہے کہ رنج و غم کی مسلسل پیکار بھی اس کو پژمردہ نہیں کر پاتی۔ شاید اسی لیے ڈاکٹر احسن فاروقی نے ’حیوانِ ظریف‘ کو اردو تنقید کا سب سے اہم الہامی فقرہ کہا ہے ، وہ لکھتے ہیں :’ان (غالبؔ) کو مفکر، المیہ نگار، غزل خواں ، مدح سرا، تنقید نگار اور نہ معلوم کیا کچھ نہیں ثابت کیا گیا ہے۔ وہ یہ سب ہیں ، مگر یہ سب باتیں ان کی ظریف حیوانیت کا حصہ ہیں۔ وہ مکمل حیوانِ ظریف ہیں ‘‘۔۷۶؂اور اس حیوانِ ظریف کی سراغ رسانی کا فریضہ حالیؔ نے انجام دیا۔ اور گیان چند جین نے جو لکھا ہے کہ ’’غالبؔ کے خطوط کی جو بنیادی خصوصیت حالیؔ نے گنوا دی ہیں ، میرا خیال ہے کہ ان پر اضافہ نہیں ہو سکا، غالبؔ کی مکتوب نگاری پر کیسے ہی عالمانہ مضامین لکھے جائیں ’یادگارِ غالب‘ کے ڈھانچے ہی پر تعمیر ہوتے ہیں ‘‘۔۷۷؂

تو میرا خیال ہے کہ ان بنیادی خصوصیات سے یہاں مراد شوخی و ظرافت ہی ہو گی ورنہ گیان چند جین کے علم میں یہ بات ضرور ہو گی کہ مولانا غلام رسول مہرؔ نے ان خصوصیات پر اضافہ کیا ہے جس کی بحث اپنے مقام پر آئے گی۔

 یہاں میں پھر یہ بیان کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ حالیؔ نے غالبؔ کی اصل شخصیت تک پہنچنے کی کوشش کی، جو بڑی حد تک کامیاب بھی ہے۔ لیکن اس میں محمد حسین آزادؔ کا بھی حصہ ہے جس کا ہمیں اعتراف کرنا چاہیے۔ مالک رام نے ’آزادؔ بنام غالبؔ‘ کے تحت مولانا محمد حسین آزاد کی ’آبِ حیات‘ کے ان بیانات کا جائزہ لیا ہے جو غالبؔ سے متعلق ہیں۔ لیکن یہ جائزہ معاندانہ ہے ، وہ لکھتے ہیں :’یہ ہے مولانا آزادؔ مرحوم کی فردِ جرم غالبؔ کے خلاف۔ اس سے آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ: ۱۔ غالبؔ دراصل اردو کے نہیں فارسی کے شاعر تھے۔

۲۔ ان کی تعلیم و تربیت ناقص رہ جانے سے وہ اس میں بھی صحیح اور خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکے۔

۳۔ اردو میں ان کا اکثر کلام ناقابلِ فہم یا دوسرے لفظوں میں بے معنی ہے۔

۴۔ اردو میں وہ غلط محاورہ اور روزمرہ لکھتے ہیں۔

۵۔ وہ اردو نثر میں فارسی ترکیبوں اور محاوروں کا ترجمہ لکھتے ہیں جو اردو کے اہلِ زبان کے روزمرہ کے خلاف ہوتا ہے۔۶۔ ان کی اردو سوائے غیر سنجیدہ تحریر کے اور کسی مصرف کی نہیں۔۷۔ ان کے خطوط عام قاری کے لیے بے مزہ ہیں ‘‘۔۷۸؂

یہ بیان پر ماورائے بیان کی فوقیت کا عبرتناک نمونہ ہے۔ ان میں آخری دو اعتراضات کا علاقہ محمد حسین آزادؔ کی تحریر سے ہے اور دوسرے اعتراضات وہ ہیں جو آزادؔ نے نہیں لکھے اور مالک رام نے پڑھ لیے ہیں۔ ہم نے آزادؔ کی ’آبِ حیات‘ سے ترجمۂ غالبؔ کا جو تجزیہ شروع میں کیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ اعتراضات بے بنیاد ہیں۔ اور آزادؔ کی ذوقؔ سے ارادت کے پیش نظر گویا فرض کر لیے گئے ہیں۔ اور جیسا کہ ہماری تنقید کا عام دستور ہے پھر کسی نے ’آبِ حیات‘ کے ترجمۂ غالبؔ کو پڑھنے کی زحمت نہیں کی اور یہ اعتراضات سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے گئے۔ میرا خیال ہے کہ آزادؔ کی ’آبِ حیات‘ نہ ہوتی تو حالیؔ کی ’یادگارِ غالب‘ کا رنگ دوسرا ہوتا۔ بصورتِ موجودہ ’یادگارِ غالب‘، ’آبِ حیات‘ کی تقلید ہے ، اگرچہ نری تقلید نہیں۔ مالک رام نے لکھا ہے :’’غرض کہ جہاں لطائف وغیرہ میں ’آبِ حیات‘ اور ’یادگارِ غالب‘ میں عبارت یکساں اور ملتی جلتی ہے ، میرے خیال میں اس کا باعث یہ ہے کہ آزادؔ اور حالیؔ دونوں کی معلومات کا منبع ایک تھا‘‘۔۷۹؂

 یہ نری خیال آرائی ہے۔ آزادؔ اور حالیؔ کے اسالیبِ نثر کے فرق کو دیکھیے تو اتنی مشابہت کا جواز یہ بتانا کہ ’’دونوں کی معلومات کا منبع ایک تھا‘‘ کسی طرح درست نہیں ہو سکتا۔ یہ وہ کہہ سکتا ہے جو آزادؔ کے اسلوب اور حالیؔ کے اسلوب کو نہ پہچانتا ہو۔ حالیؔ نے ’یادگارِ غالب‘ میں ’آبِ حیات‘ سے استفادہ کیا ہے ، ہمیں اس بات پر شرمندہ نہ ہونا چاہیے۔ کلامِ غالبؔ کی بعض خصوصیات ایسی ہیں جن کی طرف پہلے پہل محمد حسین آزادؔ نے اشارہ کیا لیکن حالیؔ کا امتیاز یہ ہے کہ حالیؔ نے ان خصوصیات پر سلیقے سے اور خالص علمی زبان میں گفتگو بھی کی اور اپنے تجزیے کو جاندار بنانے کے لیے مناسب مثالیں بھی فراہم کر دیں۔

حواشی:

۱؂ ڈاکٹر محمد صادق: محمد حسین آزاد۔ احوال و آثار‘ نومبر ۱۹۷۶ء، لاہور، مجلس ترقی ادب۔

۲؂ ایضاً، ص۹۔۳؂ ایضاً، ص ص ۱۴، ۱۵، ۱۶، ۱۹، ۲۰۔

۴؂ ایضاً، ص۲۰۔

۵؂ الطاف حسین حالیؔ: ’یادگارِ غالب‘ اکتوبر ۱۹۵۸ء، دہلی، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، ص۱۲۔

۶؂ ڈاکٹر محمد صادق: ’محمد حسین آزاد۔ احوال و آثار‘ نومبر ۱۹۶۷ء، لاہور، مجلس ترقی ادب، ص۳۲۔

۷؂ عابد پیشاوری: ’ذوق اور محمد حسین آزاد‘ ۱۹۷۸ء، دہلی، ادارہ فکر جدید۔

۸؂ مظفر حنفی: ’محمد حسین آزاد‘ ۱۹۹۶، دہلی، ساہتیہ اکادمی، ص ص۱۲، ۱۳۔

۹؂ عابد پیشاوری: ’ذوق اور محمد حسین آزاد‘ ۱۹۸۷ء، دہلی، ادارہ فکر جدید، ص۱۲۲۔

۱۰؂ ایضاً، ص۱۲۳۔

۱۱؂ ایضاً، ص۵۔

۱۲؂ ایضاً، ص۱۲۱۔

۱۳؂ ایضاً، ص۱۱۲۔

۱۴؂ ایضاً، ص۱۲۱۔

۱۵؂ گیان چند جین: ’محمد حسین آزاد۔آبِ حیات‘ اردو کی ادبی تاریخیں ، ۲۰۰۰ء، کراچی، انجمن ترقی اردو پاکستان، ص۸۰۔

۱۶۔ شمیم حنفی: ’بازدید۔ نظم اردو اور کلامِ موزوں کے باب میں خیالات‘ اردوادب، جولائی تا ستمبر ۲۰۰۱ء، دہلی، انجمن ترقی اردو (ہند)، ص ص۴۰، ۴۱۔

۱۷؂ ایضاً، ص۵۶۔

۱۸؂ ایضاً، ص۵۳۔

۱۹؂ ڈاکٹر محمد صادق: ’محمد حسین آزاد۔ احوال و آثار‘ نومبر ۱۹۶۷ء، لاہور، مجلس ترقی ادب، ص۸۴۔

۲۰؂ ایضاً، ص۹۴

۲۱؂ شیخ محمد ا کرام: ’حکیم فرزانہ‘ ۱۹۵۷ء لاہور، فیروز سنز، ص۱۳۔

۲۲؂ ڈاکٹر محمد صادق: ’محمد حسین آزاد۔ احوال و آثار‘ ۱۹۶۷ء، لاہور، مجلس ترقی ادب، ص۸۹۔

۲۳؂ کاظم علی خاں : ’غالب اور محمد حسین آزاد‘ مشمولہ غالب نامہ، جولائی ۱۹۸۹ء، نئی دہلی، غالب انسٹی ٹیوٹ، ص ص۲۰۶ تا ۲۱۰۔

۲۴؂ کالی داس گپتا رضا: ’آبِ حیات میں ترجمۂ غالب‘ مشمولہ ’آجکل‘ فروری ۱۹۸۸ء، نئی دہلی، پبلی کیشنز ڈویژن۔

۲۵؂ آغا محمد باقر: ’آبِ حیات کے مسودے میں غالبؔ کے حالت، صحیفہ، جنوری ۱۹۹۶ء (غالب نمبر حصۂ اول) لاہور۔

۲۶؂ کاظم علی خاں : ’غالب اور محمد حسین آزاد‘ غالب نامہ، جولائی ۱۹۸۹ء، نئی دہلی، غالب انسٹی ٹیوٹ۔

۲۷؂ ڈاکٹراسلم فرخی: ’محمد حسین آزاد۔حیات اور تصانیف‘ حصہ دوم ۱۹۶۵ء، کراچی: انجمن ترقی اردو، پاکستان۔

۲۸؂ ڈاکٹر انصار اللہ نظر: ’حیاتِ غالب۔ ایک مطالعہ‘ علی گڑھ، اردو ادب غالب نمبر ۱۹۶۹ء، شمارہ ۱۔

۲۹؂ ایضاً، ص۴۱۔

۳۰؂ کاظم علی خاں : ’غالب اور محمد حسین آزاد‘ غالب نامہ، جولائی ۱۹۸۹ء، نئی دہلی، غالب انسٹی ٹیوٹ۔

۳۱؂ ایضاً، ص۲۲۵۔

۳۲؂ ڈاکٹر محمد صادق: ’محمد حسین آزاد۔ احوال و آثار‘ ۱۹۶۷ء، لاہور، مجلس ترقی ادب، ص ص۲۴۰۔۲۳۴

۳۳؂ محمد حسین آزاد: ’آبِ حیات‘ لکھنؤ، سرفراز پریس، ص ص۶۴۳، ۶۴۴۔

۳۴؂ شمس الرحمن فاروقی: ’غالب کی مشکل پسندی‘ مشمولہ صحیفہ غالب نمبر حصہ دوم، اپریل ۱۹۸۹ء، لاہور، مجلس ترقی ادب۔

۳۵؂ محمد حسین آزاد: ’آبِ حیات‘ پانچواں اڈیشن ۲۰۰۲ء، لکھنؤ، یوپی اردو اکادمی، ص۴۸۶۔

۳۶؂ ایضاً، ص۵۰۱۔

۳۷؂ عبدالقیوم: ’حالی کی اردو نثر نگاری‘ دسمبر ۱۹۶۴ء لاہور، مجلس ترقی ادب، ص۱۷۶۔

۳۸؂ ایضاً۔

۳۹؂ ڈاکٹر خلیق انجم: ’حالی کے سوانح ، الطاف حسین حالی: تحقیقی و تنقیدی جائزے ‘ ۲۰۰۲ء، دہلی، غالب انسٹی ٹیوٹ، ص۵۸۔

۴۰؂ بحوالہ ایضاً، ص۶۱۔

۴۱؂ ایضاً، ص۶۲۔

۴۲؂ ایضاً، ص ص ۶۹، ۷۰۔

۴۳؂ ایضاً، ص۷۳۔

۴۴؂ ایضاً، ص۷۵۔

۴۵؂ ایضاً، ص۷۷۔

۴۶؂ ایضاً، ص۸۰۔

۴۷؂ ایضاً، ص ص۸۱، ۸۲۔

۴۸؂ پروفیسر ممتاز حسین: ’حالی کے شعری نظریات۔ ایک تنقیدی مطالعہ‘ فروری ۱۹۸۸ء، کراچی، سعد پبلی کیشنز، ص۲۔

۴۹؂ شیخ محمد ا کرام: ’موجِ کوثر‘ ۱۹۸۸ء، لاہور، ادارۂ ثقافت اسلامیہ، ص۱۲۶۔

۵۰؂ ایضاً، ص۱۲۴۔

۵۱؂ صدیق الرحمن قدوائی: ’ماسٹر رام چندر، اگست ۱۹۶۱ء، دہلی، شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی، ص۲۸۔

۵۲؂ ڈاکٹر محمد صادق: ’آبِ حیات کی حمایت میں اور دوسرے مضامین‘ جولائی ۱۹۷۳ء، لاہور، مجلس ترقی ادب، ص ص۹، ۱۰۔

۵۳؂ شمس الرحمن فاروقی: ’شعر غیر شعر اور نثر‘ ۱۹۷۳ء، الٰہ آباد، شب خون کتاب گھر، ص۲۸۹۔

۵۴؂ مالک رام، مقدمہ یادگارِ غالب‘ اکتوبر ۱۹۸۷ء، دہلی، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، ص۱۰۔

۵۵؂ نیر مسعود: ’محققین غالب۔ حالی‘ مشمولہ ’غالب نامہ‘ جولائی ۱۹۸۹ء، دہلی، غالب انسٹی ٹیوٹ، ص ۶۸۔

۵۶؂ حالی، الطاف حسین: ’یادگارِ غالب‘ اکتوبر ۱۹۸۵ء، دہلی، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، ص۱۶۔

۵۷؂ ایضاً، ص ص۱۳، ۱۴۔

۵۸؂ رشید حسن خاں : ’یادگارِ غالب‘ مشمولہ ’الطاف حسین حالی: تحقیقی و تنقیدی جائزہ‘ ۲۰۰۲ء، دہلی، غالب انسٹی ٹیوٹ، ص ص۱۹، ۲۰۔

۵۹؂ خاں ، یوسف حسین: ’بین الاقوامی غالب سمینار‘ ۱۹۶۹ء، دہلی، صدسالہ یادگارِ غالب کمیٹی، ص ص۵۷ تا ۷۱۔

۶۰؂ شیخ محمد ا کرام: ’حکیم فرزانہ‘ ۱۹۵۷ء، لاہور، فیروزسنز۔

۶۱؂ الطاف حسین حالیؔ: ’یادگارِ غالب‘ اکتوبر ۱۹۸۷ء، دہلی، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، ص۱۳۳۔

۶۲؂ ایضاً، ص ص۱۳۳، ۱۳۴۔

۶۳؂ ایضاً، ص۱۴۱۔

۶۴؂ ایضاً، ص۱۴۳۔

۶۵؂ ایضاً، ص ص۱۴۴، ۱۴۵۔

۶۶؂ شیخ محمد ا کرام: ’آثارِ غالب‘ ۱۹۳۶ بمبئی: تاج آفس، ص۱۸۹۔

۶۷؂ وارث علوی: ’حالی مقدمہ اور ہم‘ ۱۹۸۳ء، الٰہ آباد، اردو رائٹرس گلڈ، ص ص۴۱، ۴۲۔

۶۸؂ گیان چند جین: ’غالب کے نقاد‘ مشمولہ ’رموزِ غالب‘ فروری ۱۹۶۷ء، دہلی، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، ص۳۱۳۔

۶۹؂ الطاف حسین حالیؔ: ’یادگارِ غالب‘ اکتوبر۱۹۸۷ء، دہلی، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، ص۱۴۵۔

۷۰؂ ایضاً، ص۱۴۵۔

۷۱؂ کلیم الدین احمد: ’اردو شاعری پر ایک نظر‘ ۱۹۸۵ء، پٹنہ، بک امپوریم۔

۷۲؂ الطاف حسین حالیؔ: ’یادگارِ غالب‘ اکتوبر ۱۹۸۵ء، دہلی، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، ص ص۱۹۷، ۱۹۸۔

۷۳؂ ایضاً، ص۲۰۲۔

۷۴؂ ایضاً، ص۱۹۹۔

۷۵؂ ایضاً، ص ص۲۰۱، ۲۰۲۔

۷۶؂ محمد احسن فاروقی: ’حیوانِ ظریف‘ مشمولہ ’احوال و نقد غالب‘ مرتّبہ پروفیسر محمد حیات خاں سیال، جنوری ۱۹۶۷ء، لاہور، نذر سنز۔

۷۷؂ گیان چند جین: ’غالب کے نقاد، رموزِ غالب، فروری ۱۹۷۶ء، دہلی، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ۔

۷۸؂ مالک رام: آزاد بنام غالب‘ مشمولہ ’احوال و نقد غالب‘ جنوری ۱۹۶۷ء، لاہور، نذر سنز۔

۷۹؂ مالک رام: ’یادگارِ غالب‘ اکتوبر ۱۹۸۷ء، دہلی، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، ص۸۔l

بابِ دوم

عبدالرحمن بجنوری ڈاکٹر عبد اللطیف

مرزا یگانہؔ چنگیزی

عبدالرحمن بجنوری

 

 ’محاسنِ کلامِ غالب‘ اردو کی مقبول ترین کتابوں میں سے ایک ہے۔ اس کے مصنف مولوی عبدالرحمن بجنوری ہیں جو ۱۸۸۵ء میں پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی تعلیم کولٹہ میں ہوئی اور ۱۹۰۳ء میں محمڈن اینگلو انڈین کالج (علی گڑھ) میں داخلہ لیا۔ ۱۹۰۶ء میں بی. اے . اور ۱۹۹۰ء میں ایل. ایل. بی. کا امتحان پاس کیا اور اعلا تعلیم کے لیے یورپ کا سفر کیا۔ خورشید الاسلام نے لکھا ہے :

 ’’بجنوری اپنے اوضاع و آداب میں مشرقی تھے۔ اپنی ادبی روایت کے ذی ہوش پرستار تھے اور پرانے علوم پر نگاہ رکھتے تھے اور اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ وہ اپنے تمام معاصرین سے کہیں زیادہ مغرب اور اس کی معاشرت اور اس کی ترقی کے اسباب کو جانتے تھے۔ وہ جدید علوم سے غیر معمولی شغف اور ان میں سے چند میں غیر معمولی دستگاہ رکھتے تھے۔ عربی و فارسی کے علاوہ وہ ترکی زبان و ادب سے بھی آشنا تھے۔ انگریزی پر زبردست قدرت رکھتے تھے اور فرانسیسی، اطالوی اور جرمن جانتے تھے۔ فلسفہ ان کا خاص مضمون تھا۔ اسلامی فقہ پر انھیں عبور حاصل تھا‘‘۔۱؂

اس میں شک نہیں کہ ناقدینِ غالبؔ میں بجنوری پہلے شخص ہیں جو کئی زبانیں جانتے تھے۔ لیکن اس علم سے بجنوری نے جو کام لیا، وہ بہت اطمینان بخش نہیں۔ تنقید میں اہمیت اس بات کی نہیں کہ ناقد کتنا علم رکھتا ہے یا کتنی زبانیں جانتا ہے بلکہ اہمیت اس بات کی ہے کہ اس علم سے اس نے کیا کام لیا۔ اور اس سطح پر بجنوری کا مطالعہ ہمیں مایوس کرتا ہے۔

 بجنوری نے لندن سے بار ایٹ لا اور جرمنی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی اور ہندوستان لوٹ آئے۔ مرادآباد میں وکالت شروع کی اور ۱۹۱۶ء میں ریاست بھوپال میں مشیر تعلیم مقرر ہوئے ‘‘۔۲؂ ڈاکٹر سیّد محی الدین قادری زورؔ نے لکھا ہے :’بھوپال کے نواب محمد حمید اللہ خاں اس وقت ولی عہد ریاست تھے اور بجنوری کے شفیق دوست اور قدر دان تھے۔ بھوپال ہی میں مرزا غالبؔ کے کلام کا ایک قدیم نسخہ ان کی نظر سے گزرا۔ یہ نسخہ مرزا غالبؔ نے بھوپال کے فوجدار خاں کو بطورِ نذر پیش کیا تھا‘‘۔۳؂اسی نسخے کے لیے بجنوری نے وہ معرکۃ الآرا مقدمہ لکھا، جو ’محاسنِ کلامِ غالب‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ پہلی بار۱۹۲۱ء میں رسالہ ’اردو‘ میں شائع ہوا۔

  حالیؔ نے پیرویِ مغربی کی دعوت ضرور دی تھی اور تا بمقدور مغربی تصورات سے استفادہ بھی کیا۔ لیکن بنیادی طور پر حالیؔ کا طرزِ تنقید مشرقی ہی تھا۔ کچھ جو مغربی معیارات غالبؔ کی تعینِ قدر کے سلسلے میں راہ پا گئے تھے ، ان کا تعلق حالیؔ کی جودتِ طبع سے تھا، کہ انھوں نے اپنے طور پر غالبؔ کی انفرادیت کو گرفت میں لینے کی کوشش کی۔ حالیؔ کے بعد غالبؔ کو اقبالؔ جیسا مداح ملا، جو صرف جادو بیان شاعر ہی نہ تھا بلکہ مشرق و مغرب کے ادب پر گہری نگاہ بھی رکھتا تھا۔ اقبالؔ نے ۱۹۰۱ میں ’مرزا غالب‘ لکھی۔ اس نظم کی کوئی باضابطہ تنقیدی حیثیت تو نہیں لیکن اس میں غالبؔ کا موازنہ گوئٹے سے کیا گیا ہے جو غالبؔ تنقید میں ایک موڑ کی حیثیت ضرور رکھتا ہے :آہ تو اجڑی ہوئی دلّی میں آرامیدہ ہے گلشن و یمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے ’یادگارِ غالب‘ کے بعد ’محاسنِ کلامِ غالب‘ کو غالبؔ تنقید میں سب سے اہم کتاب بتایا گیا ہے۔ لیکن بجنوری کو سراہا کم گیا اور ’دشنام یار‘ کا زیادہ مستحق سمجھا گیا۔ گیان چند جین نے لکھا ہے :’غالبؔ کے نقادوں میں سب سے بلند بانگ ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری ہی ہیں ، جن کی ’محاسنِ کلامِ غالب‘ ۱۹۲۱ء میں شائع ہوئی۔ یہ تنقید نہیں ، تشریح نہیں ، قصیدہ خوانی ہے ، انشائیہ ہے ، طبل نوازی ہے ، اشتہار ہے ، وکالت ہے اور ان سب کے پردے میں اپنے علم کی بھدی نمائش ہے ‘‘۔۴؂

{یہ جھنجھلاہٹ دیدنی بھی ہے اور عبرتناک بھی۔ وہ مزید لکھتے ہیں :’مقالے میں جس قماش کی تنقید ہے اس کا نچوڑ پہلے جملے میں آ گیا ہے۔ ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں : وید مقدس اور دیوانِ غالب۔ یہ نثری شعر ہے لیکن معنی سے تہی۔۔۔ یہ مداحی ہے لیکن غیر مدلل‘‘۔۵؂

یہاں میں پروفیسر گیان چند جین کی تفسیرِ غالبؔ سے ایک اقتباس پیش کرتا ہوں :

’’ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب    ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا

اس شعر پر مجھے ہندو دیومالا کے دامن اوتار کی یاد آتی ہے۔ یہ کسی راجا کو شرمندہ کرنے کے لیے برہمن کے بھیس میں آئے اور اس سے جھونپڑی بنانے کے لیے تین قدم زمین کا سوال کیا۔ راجا نے ہاں کر دی۔ دامن نے ایک قدم میں پوری دنیا کو محیط کر لیا، دوسرے میں پاتال کو، تیسرے قدم کے لیے کوئی جگہ ہی نہ بچی‘‘۔ (تفسیرِ غالب، ص ۶۷)میں مؤدبانہ ڈاکٹر جین سے پوچھنا چا ہوں گا کہ یہ کس قماش کی تنقید یا تشریح ہے ؟ اور اس کا غالبؔ کے اس شعر سے کیا علاقہ؟ کلیم الدین احمد نے فاروقی پر لکھتے ہوئے لکھا تھا کہ:’رہا غالبؔ کا معاملہ، تو یہ عجیب بات ہے کہ وہ Liberal قسم کا نقاد ہو یا ترقی پسند قسم، یا جدیدیت کا علمبردار، سبھی غالبؔ کے آگے اپنی سپر ڈال دیتے ہیں ‘‘۔۶؂

تو یہ ہماری غالب تنقید کا مسئلہ ہے۔ کون ہے جس نے غالبؔ پر نہیں لکھا؟ لیکن غالبؔ کا دامن حریفانہ کھینچنے والے انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ پھر بجنوری سے شکایت کیوں ؟ ’محاسنِ کلامِ غالب‘ کو رد کرتے وقت ہم اس کے پس منظر اور بجنوری کی حدود کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں۔ ہم بجنوری پر یہ الزام رکھتے ہیں کہ انھوں نے غالبؔ کا موازنہ مغربی شعرا سے کیا اور  کچھ اس طرح کیا کہ باضابطہ اس کی طرح پڑ گئی۔ لیکن یہ بجنوری کی اولیات میں سے نہیں ہے۔ عبدالرحمن بجنوری سے بہت پہلے صلاح الدین خدا بخش نے غالبؔ کی سوانح عمری انگریزی میں لکھی، جس کا دیباچہ انگریزی اخبار ’ہندوستان ریویو‘ میں چھپا اور صدائے عام نے اس کا ترجمہ مارچ ۰۱۹۱ء میں شائع کیا۔ صلاح الدین خدا بخش کا ہی مضمون ’ہائینے اور غالب‘ کامریڈ۱۴ فروری ۱۹۱۱ء میں شائع ہوا اور ان کی کتاب Essays Indian and Islamic میں ایک مضمون In Appreciation of Ghalib شامل ہے۔ ان مضامین میں غالبؔ کا موازنہ مغربی شعرا سے کیا گیا۔ صلاح الدین خدا بخش نے لکھا ہے :

 ’’غالبؔ لازماً خود شناسی کا شاعر ہے ، وہ بادۂ ارغوانی اور جام کے گیت گاتا ہے ، وہ اپنے دل کو قارئین کے سامنے چیر کر رکھ دیتا ہے۔ اور خود اپنی تلخیوں ، اپنی قسمت کی کوتاہیوں ، اپنی سراب نما امیدوں (جو کبھی پوری نہیں ہوئیں ) اپنی عذاب میں ڈالنے والی فلاکتوں ، اپنی ناکام کوششوں ، اپنے شبہات جن میں کبھی خدا تعالیٰ کی نیکی اور انصاف پسندی کے مسرت بخش اعتقاد کی جھلک نمایاں ہو جاتی ہے ، اپنی شاعری کے لافانی ہونے پر ناقابلِ تسخیر اعتقاد کے نغمے گاتا ہے۔ الغرض اس کی نثر اور شاعری اس کے مختلف اور تغیر پذیر حالات کی یادداشت ہیں۔ اس میں کبھی پُر مسرت توقع کی کیفیت پائی جاتی ہے اور کبھی ایسی تیرگی کہ جس کی تھاہ نہیں ملتی‘‘۔۷؂

وہ لکھتے ہیں :’ان کی لطافت اور متانت ان کی بلند پروازی اور رفعت، ان کے قہقہے اور آنسو اس قدر نازک، اس قدر پاکیزہ ہیں کہ الفاظ میں نہیں سما سکتے ‘‘۔

وہ غالبؔ کو اس عہد کا سب سے بڑ ا نثر نگار بھی بتاتے ہیں اور پھر لکھتے ہیں :’اس کے خیالات نہایت بلند، دقیق اور نازک اور اتنے ہی خوب رو ہیں جتنے کہ وہ الفاظ حسین ہیں جن میں ان کو ادا کیا گیا ہے ، اس کے اردو اور فارسی دیوان ادبی جواہرات ہیں۔ دودھیا پتھر، یاقوت رُمّانی اور نیلم سب ایک مرکّب کی صورت میں پیش کیے گئے ہیں۔ وہ موحد تھا جس نے بہت عرصے پہلے مذہب کے غیر ضروری عناصر سے علاحدگی اختیار کر لی تھی، اس نے کوئی فرقہ وارانہ نشان نہیں لگایا۔ وہ اسلام کا قائل تھا، ایسا اسلام جو کٹّرپن، فرقہ بندی اور تنگ خیالی سے آزاد، معرا اور مبرّا تھا‘‘۔۸؂

ان مضامین کی کوئی ادبی حیثیت تو نہیں ، لیکن تاریخی حیثیت یہ ہے کہ انھوں نے ’محاسنِ کلامِ غالب‘ کے لیے راستہ ہموار کیا۔ ’محاسنِ کلامِ غالب‘ میں غالبؔ اور ہائینے کے موازنے پر تبصرہ بھی ملتا ہے۔ عبدالرحمن بجنوری لکھتے ہیں :’صلاح الدین خدا بخش نے غالبؔ کا مقابلہ ہائن رش ہائی نے (Heinsich Heine) المانی شاعر سے کیا ہے۔ کہاں ہائن رش ہائی نے محض مغنی جو عشق و الفت کے مضامین بصورتِ قطعات افسردگی کے ساتھ بیان کر کے خاموش ہو جاتا ہے۔ کہاں غالبؔ جو دنیا کو اطلس کی مثال اپنے شانوں پر اٹھائے ہوئے ہے اور جس کا سرود سیارہ بہ سیارہ ہوتا ہوا فلک الافلاک تک پہنچتا ہے ‘‘۔۹؂

اس کے بعد مولانا عبدالماجد دریابادی کا مضمون ’فلسفۂ غالب‘ شائع ہوا۔ یہ مضمون ’ادیب‘ الٰہ آباد کے جنوری ۱۹۱۳ء کے شمارے میں شائع ہوا جس میں یورپی مفکرین کے حوالے سے غالبؔ کی شاعری میں حکیمانہ پہلو دریافت کرنے کی کوشش کی گئی۔ وہ لکھتے ہیں :’’درحقیقت اردو شعرا میں صرف غالبؔ ایسا شخص گزرا جس کا نام آج بے خوف و خطر دنیا کے ممتاز ترین شاعروں کے پہلو بہ پہلو اُن کے ہمسر و مدِ مقابل کی حیثیت سے پیش کیا جا سکتا ہے ‘‘۔۱۰؂

وہ غالبؔ کی شاعری میں ان کا فلسفۂ حیات ڈھونڈتے ہیں اور کہتے ہیں :

 ’’غالبؔ کی اصل تعلیم یہ ہے کہ دنیا ایک بے حقیقت و بے ثبات چیز ہے۔ جو کچھ نظر آ رہا ہے اس کی ہستی سراب کی سی ہے ، اس لیے یہاں کی کسی چیز پر مسرور ہونا حماقت ہے۔ انسانی معلومات و تحقیقات کے جو نتائج ہیں یہ سب ایک اضافی و اعتباری وقعت رکھتے ہیں ورنہ کسی شے کی اصل ماہیت کا علم انسان کے امکان میں نہیں۔ اس عقیدے کے لحاظ سے غالبؔ ان حکما کا پیرو ہے جنھیں مشککین کہا جاتا ہے۔ لیکن مشککین کے برخلاف وہ رہبانیت کی تعلیم نہیں دیتا۔ وہ کہتا ہے کہ بے ثباتیِ عالم کے عقیدے کا نتیجہ ترکِ دنیا نہ ہونا چاہیے بلکہ بے فکری و آزادی کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی کاٹ دینا چاہیے۔ اور اس حیثیت سے غالبؔ حکمائے لذتین کا ہم آہنگ ہے ‘‘۔۱۱؂

انھوں نے غالبؔ کے شعر کی تشریح کر کے انھیں ’’برکلے ‘‘ کا ہمنوا بتایا جو سترہویں صدی کا ایک انگریزی فلسفی تھا۔ وہ لکھتے ہیں :’’اس حیثیت سے غالبؔ تقریباً بالکل ’برکلے ‘ کا ہمنوا ہے۔ برکلے کی طرح وہ بھی نہایت شدومد سے یہ دعویٰ کرتا ہے کہ عالمِ وجود محض وہمی یا خیالی ہے۔ فرق یہ ہے کہ فلسفی کو جس عقیدے کی توضیح میں صدہا صفحات اور بیسیوں دلائل استعمال کرنا پڑ ے ہیں اس نکتے تک شاعر کا وجدان ایک آن میں پہنچ جاتا ہے ‘‘۔

پھر اسپینوزا سے وحدت الوجود کے نقطے پر غالبؔ کو متصل بتاتے ہیں۔ کہتے ہیں :’’حکمائے یورپ میں اسپنیوزا اس کا سربرآوردہ مدعی ہو گزرا ہے ، غالبؔ کے کلام میں اس عقیدے کی تعلیم مختلف پیرایوں میں نہایت کثرت سے ملتی ہے۔ یہ مذہب گو کہ آج یورپ میں ناپید ہے ، لیکن قدمائے یونان میں مشککین نے اسے معراجِ کمال پر پہنچا دیا تھا۔ فارسی شعرا میں خیامؔ اور حافظؔ بھی کبھی ایسے ہی خیالات ظاہر کر گئے ہیں۔ غالبؔ اس تعلیم کا تاجدار ہے ، اس نے اس پر جو کچھ کہا ہے وہ درحقیقت مذہبِ مشککین کے امامِ پرہوکی صدائے بازگشت ہے ‘‘۔۱۲؂

اس میں غالبؔ کے فلسفۂ غم و مسرت، فلسفۂ مذہب اور نظریۂ دوزخ و بہشت کا بھی جائزہ لیا گیا ہے اور یہ مضمون غالبؔ کو دنیا کے عظیم مفکرین کی صف میں کھڑ ا کر دیتا ہے اور گو غالبؔ کے ہاں توضیحات نہیں ، پھر بھی غالبؔ کا قد کسی سے چھوٹا نہیں معلوم ہوتا۔ اور مولانا دریابادی کے خیال میں غالبؔ کے وجدانِ صحیح نے اس کو اسرارِ فطرت کا راز دار بنا دیا ہے اور اسے عرفان کی اس منزل پر پہنچا دیا ہے جہاں ہمارے عظیم مفکرین صدہا صفحات اور بیسیوں دلائل کے سہارے پہنچتے ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزادؔ نے ۱۹۱۴ء میں ’الہلال‘ کا ایک طویل اداریہ ’مرزا غالبؔ مرحوم کا غیر مطبوعہ کلام‘ لکھا۔ ’الہلال‘ اپنے زمانے کا سب سے با اثر اخبار تھا۔ اس اداریے کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں ’’اردو خواں طبقے کو اس حقیقت کی طرف پہلی بار توجہ کرائی گئی کہ غالبؔ انیسویں نہیں بلکہ بیسویں صدی کے شاعر تھے ‘‘۔۱۳؂

 یہ اداریہ غالبؔ سے مولانا آزادؔ کی بے پناہ عقیدت کا مظہر ہے۔ اور اس میں غالبؔ کو قومی ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس اداریے کی ایک اور اہم چیز مولانا آزادؔ کی وہ تاویل ہے ، جو انھوں نے غالبؔ کی بیجا مداحی کی پیش کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :’گو بہادر شاہ (رحمۃ اللہ علیہ) خود کچھ نہ تھا، مگر اس سے بقائے عظمت و جبروت اسلامی کی ایک بہت بڑی روح زندہ تھی۔ اس کے مٹنے سے اکبر و شاہ جہاں کا گھر بے چراغ ہو گیا۔ اس کا مٹنا دراصل سلاہ تیمور اور آل بابر کا مٹنا تھا۔ معتصم عباسی خود کچھ نہ تھا لیکن جب فتنۂ تاتار میں بغداد کے محل لوٹے گئے تو معتصم کی جگہ ہارون و مامون کی عزت لُٹ رہی تھی:

وما کان قیسا ھلکہ ھلک واحدولٰکنہ بنیان قومِ تھدما

 مرزا غالبؔ نے عمر بھر بہادر شاہ کی لاحاصل مداحی کی تھی اور وہ قصیدے جو عرفیؔ و نظیریؔ کے قصائد کا مقابلہ کرنے کا دم رکھتے تھے ، ایک ایسے مخاطب کے سامنے ضائع کیے گئے تھے ، جس کے سر پر جہانگیر و شاہ جہاں کا تاج تو ضرور تھا، پر نہ تو عرفیؔ و نظیریؔ کی قدر شناسی کا ہاتھ تھا اور نہ کلیم کو زرِ خالص سے تُلوا کر بخشش کرنے والا خزانہ۔۔۔ تاہم وہ جو کچھ لکھتا تھا اس کا تخاطب خود بہادر شاہ سے نہ ہوتا تھا بلکہ اس تخت اعظم کی روحِ صولت و عظمت اس کے سامنے ہوتی تھی، جس پر کبھی بیٹھ کر اکبر نے فیضیؔ سے ، جہانگیر نے عرفیؔ و طالبؔ سے اور شاہجہاں نے کلیم سے مدحیہ قصیدے سنے تھے ‘‘۔۱۴؂اس اداریے میں دلّی کی بربادی اور غالبؔ کی دردمندی کا جو نقشہ کھینچا ہے ، وہ کہاں تک درست ہے اور کتنا مبالغہ آمیز، اس پر گفتگو کی جا سکتی ہے لیکن مولانا آزاد کے جادو نگار قلم نے غالبؔ کی شاعرانہ عظمت پر جو تبصرہ کیا ہے ، اس کا اثر کتنا واضح اور دور رس ثابت ہوا، یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ حالاں کہ بیجا مداحی کی تاویل کے سلسلے میں جناب عتیق صدیقی کی رائے درست ہے کہ ’’یہ غالبؔ کے بھی حاشیۂ خیال میں شاید نہ آئی ہو گی‘‘ لیکن اس کی گونج قصیدوں کی تنقید میں اب تک سنی جاتی ہے۔ اسی طرح غالبؔ کی دل سوزی اور دردمندی، کہاں تک ان کی شخصیت کا جزو تھی اور کہاں تک شاعری کا، یہ مسئلہ بحث طلب ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ خصوصیات غالبؔ کی شخصیت کے جزوِ لاینفک کے طور پر قبول کر لی گئی ہیں ، اس میں کلام نہیں۔

 اس پس منظر کو نظر میں رکھیں تو ڈاکٹر حدیقہ بیگم کی یہ رائے درست معلوم ہوتی ہے کہ:

 ’’غالبؔ جنھیں حالیؔ نے ایک عظیم شاعر کی حیثیت سے پیش کیا تھا، انھیں صلاح الدین خدا بخش نے ایک آفاقی شاعر کا درجہ دیا، عبدالماجد دریابادی نے انھیں دنیا کے عظیم فلسفیوں اور مفکرین کا ہم پلّہ بتایا، اور ابوالکلام آزادؔ نے انھیں ایک قومی ہیرو کی حیثیت سے روشناس کرانے کی کوشش کی۔ چناں چہ ۱۹۱۶ء میں جب عبدالرحمن بجنوری نے دیوانِ غالب پر مقدمہ لکھنے کا ارادہ کیا تو ایک ایسی فضا بن چکی تھی کہ لوگ غالبؔ کی عظمت کے بارے میں کوئی بھی دعوا سننے کے لیے تیار تھے۔۔۔ ’محاسنِ کلامِ غالب‘ اس طرح صرف بجنوری کا ایک اکیلا نعرۂ مستانہ نہ تھا بلکہ غالبؔ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی ایک اور ضروری کڑی تھی‘‘۔۱۵؂

 ’محاسنِ کلامِ غالب’ کو ڈاکٹر محمد حسن نے تنقید نہیں بلکہ ’’غالبؔ کی خدمت میں نئی نسل کا خراجِ عقیدت‘‘ بتایا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اس زاویے سے بھی اس کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بجنوری پہلے شخص ہیں جو کئی مغربی زبانوں سے اچھی واقفیت رکھتے ہیں تو ان سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر لیتے ہیں۔ اور اسی لیے ’محاسنِ کلامِ غالب‘ ہمیں صدمہ پہنچاتی ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ ہمیں یہ بھی نہ بھولنا چاہیے کہ بجنوری کو دستِ قضا نے اس پر نظرِ ثانی کی بھی مہلت نہیں دی، ورنہ شاید اس کی شکل دوسری ہوتی۔ بصورتِ موجودہ بھی یہ غالبیات میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اور غالب تنقید کا موجودہ منظر نامہ بھی بجنوری کے مقدمے سے کچھ بہت مختلف نہیں ہے۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی نے لکھا ہے :’’غالبؔ کو نفسیاتی اسلوبِ تنقید کی روشنی میں پہلے پہل بجنوری مرحوم ہی نے پیش کیا۔ ان سے پہلے غالبؔ پر طباطبائی اور حسرتؔ کی شرحیں شائع ہو چکی تھیں لیکن ان کی حیثیت تنقیدی نہ تھی بلکہ تشریحی اور مکتبی۔ یہ بجنوری مرحوم کے مقالے کا تصرف ہے کہ آج کل کے پڑھے لکھوں میں غالبؔ سے شیفتگی پیدا ہوئی اور اربابِ ذوق و فکر نے غالبؔ ہی نہیں بلکہ دوسرے شعرا کو بھی بجنوری مرحوم ہی کے اندازِ تنقید سے جانچنا شروع کیا‘‘۔۱۶؂

اس بیان کے کچھ حصے پروفیسر رشید احمد صدیقی کی خوش اعتقادی اور سادہ لوحی کا نتیجہ ہیں۔ عبدالرحمن بجنوری کے طریقۂ تنقید کو نفسیاتی نہیں کہا جا سکتا۔ ہاں ! یہ البتہ درست ہے کہ اس مقدمے نے غالبؔ سے شیفتگی کی لہر کو تیز تر کر دیا۔ عابد پیشاوری نے لکھا ہے کہ:’اردو میں تنقید کے نام پر دو مقدمے مشہور ہیں۔ پہلا ’مقدمۂ شعر و شاعری‘ جو حالیؔ نے اپنے دیوان پر لکھا اور دوسرا ’محاسنِ کلامِ غالب’ جو بجنوری نے غالبؔ کے قدیم دیوان پر لکھا۔ یہ دونوں مقدمے چوں کہ ان دیوانوں سے خاصے بے میل تھے ، جن پر وہ لکھے گئے تھے۔ اس لیے دونوں الگ سے شائع ہو کر مشہور ہوئے ، ایک ’مقدمۂ شعر و شاعری‘ کے نام سے اور دوسرا ’محاسنِ کلامِ غالب‘ کے نام سے ‘‘۔۱۷؂

اور یہی اس مقدمے کی خوبی بھی ہے اور خرابی بھی۔ یہ مقدمہ فہم و ادراک کی سطح سے بلند، نہایت بلند ہے۔ عابد پیشاوری کا یہ مطالبہ درست ہے کہ کاش کوئی ’محاسنِ کلامِ غالب‘ کی بھی ایک شرح لکھ دیتا۔ لیکن ہمیں یہ بھی نہ بھولنا چاہیے کہ ’محاسنِ کلامِ غالب‘ نے غالبؔ کی عظمت کا جو بلند بانگ دعویٰ پیش کیا، اس نے بحث و مباحثے کے ایک ایسے سلسلے کو جنم دیا، جس سے اردو تنقید کو بہرحال فائدہ پہنچا اور بجنوری کا ہم خیال ایک بڑ ا طبقہ میدان میں آیا۔ ڈاکٹر سیّد عبد اللطیف نے اگرچہ اپنی کتاب بجنوری کے جواب کے طور پر لکھی، لیکن دیباچے میں یہ لکھنا بہرحال بجنوری کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے کہ ’’اردو ادبی تنقید ان دنوں اسی قسم کے نقادوں کی تختۂ مشق بنی ہوئی ہے جو دنیا کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ مقدس ویدوں کے علاوہ ہندوستان میں اگر کوئی الہامی کتاب ہے تو وہ دیوانِ غالب ہے ‘‘۔۱۸؂

 ’محاسنِ کلامِ غالب‘ میں دعوے تو بہت ہیں ، دلیل عنقا ہے۔ لیکن بجنوری کی زبان کچھ ایسی شاعرانہ اور دل پذیر ہے کہ عام قاری کے سر چڑھ کے بولتی ہے۔ اور پھر ہر بات کا آغاز کچھ ایسے مفکرین کے اقوال سے ہوتا ہے کہ عام قاری کی تو بساط ہی کیا، ہمارے ا سکالر بھی سپر ڈال دیتے ہیں۔ اس کتاب کا آغاز ہی محلِ نظر ہے :’ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں ، وید مقدس اور دیوانِ غالب‘‘۔اس پر عابد پیشاوری کے دونوں اعتراضات درست ہیں (۱) ’’دیوانِ غالب تو خیر ہندوستان میں لکھا گیا لیکن وید قطعاً نہیں ‘‘ اور (۲) ’’وید چار ہیں پھر دو کتابیں کہنے کا جواز‘‘؟

 تعجب ہے کہ اتنا سامنے کا سوال ہم نے اتنی دیر میں کیوں اٹھایا؟ شیخ محمد ا کرام نے شکایت کی ہے کہ اس کے کئی فقرے حقیقت سے زیادہ عقیدت پر مبنی ہیں اور کئی اشعار کو ایسے معنی پہنائے گئے جو غالبؔ کے خیال میں نہ رہے ہوں گے۔ لیکن اس میں بجنوری کی ہی کیا تخصیص؟ یہ چلن اب بھی عام ہے بہرحال ان کوتاہیوں کے باوجود شیخ محمد ا کرام نے اعتراف کیا کہ:’ان کا مقدمہ اردو کی ایک قابلِ ذکر تصنیف ہے ، ایک تو طرزِ تحریر اور زورِ عبارت کے نقطۂ نظر سے اور دوسرے کلامِ غالبؔ کے کئی پہلوؤں پر جو تبصرہ انھوں نے کیا ہے وہ وسیع مطالعہ اور غور و خوض پر مبنی معلوم ہوتا ہے ‘‘۔۱۹؂

شیخ محمد ا کرام کی ’حکیم فرزانہ‘ ۱۹۵۷ء میں شائع ہوئی، اس میں انھوں نے لکھا ہے کہ:’اس عہد کے ادب غالب کا بہترین نمونہ بجنوری کی ’محاسنِ کلامِ غالب‘ ہے۔ بجنوری ایک ذکی الحس قلب اور نہایت شستہ ادبی مذاق رکھتے تھے لیکن ان کی تصنیف نقد و نظر کا شاہکار نہیں۔ ایک نعرۂ مستانہ ہے جو سمجھ میں آئے نہ آئے لیکن دلوں کو ضرور گرما دیتا ہے ‘‘۔۲۰؂

بجنوری کے محاسن کی حدود میں کلام نہیں ، لیکن ان حدود میں کامیابی بے مثال ہے۔ پروفیسر محمد حسن نے بڑ ے پتے کی بات کہی ہے کہ:’’غالبؔ کی عظمت کی یہ بہت بڑی دلیل ہے کہ بجنوری کی شکل میں نئی نسل نے نہ صرف ان سے عقیدت کا اظہار کیا، بلکہ ان کی عظمت کو پرانے معیاروں کی بجائے عملی معیاروں پر قائم کیا ہے۔ لیکن اس عظمت کا اس سے بھی زیادہ کامیاب اظہار اس بات سے ہوتا ہے کہ غالبؔ کی مقبولیت بجنوری کے استدلال کے شکست ہو جانے پر بھی قائم رہی‘‘۔۲۱؂

 بجنوری نے جس مفکرانہ گہرائی و گیرائی پر اصرار کیا، اس کی کیفیت اصل سے بالکل جداگانہ ہے۔ اور اس کا احساس اب عام ہو چلا ہے ، لیکن ’محاسنِ کلامِ غالب‘ اب بھی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہے۔ مجھے پروفیسر خورشید الاسلام کے اس بیان سے اختلاف ہے کہ ’’بجنوری ان کے نظریۂ حیات و کائنات پر زور دیتے ہیں ، یعنی بجنوری کی نظر میں ایک نقاد کا یہ فرض ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ کسی شاعر کے کلام میں حیات کا کوئی تصور ملتا ہے یا نہیں۔ مظاہر میں ربط دریافت کرنے کی سعی ملتی ہے یا نہیں۔ انسان اور انسانیت کے منصب اور منتہا کے بارے میں کوئی بصیرت پائی جاتی ہے یا نہیں ‘‘۔

 اس میں شبہ نہیں کہ بجنوری نے جملہ مظاہر کا سلسلہ غالبؔ کے کلام سے جوڑ نے کی کوشش کی ہے۔ لیکن یہ کوشش بلیغ اور عالمانہ نہیں بلکہ پُر جوش مبلغ کی کوشش سے مشابہ ہے۔ پروفیسر گیان چند جین کی رائے درست ہے کہ:’جس طرح آریہ سماجی موجودہ دور کی تمام ایجادات کو ویدوں میں تلاش کر لیتے ہیں اسی طرح بجنوری نے قدیم فلسفیوں کی حکمت کا نچوڑ اور جدید سائنس کے تمام اہم انکشافات غالبؔ کے کلام میں ڈھونڈ نکالے ‘‘۔۲۲؂  پروفیسر خورشید الاسلام نے لکھا ہے :

’جس شخص نے غالبؔ کو دہلی کے تنگ کوچوں سے نکال کر اور ذوق ؔو  مومنؔ کی صحبت اور کلیمؔ و عرفیؔ کی ہمنوائی سے رہا کر کے اس مقام پر پہنچایا جو اس کا تھا اور جس کی بدولت نئی نسل میں غالبؔ محترم اور اپنی ادبی روایات قابلِ ذکر سمجھی جانے لگی، وہ بجنوری تھے۔ بجنوری اپنے اوضاع و آداب میں مشرقی تھے۔ اپنی ادبی روایت کے ذی ہوش پرستار تھے اور پرانے علوم پر نگاہ رکھتے تھے اور اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ وہ اپنے تمام معاصرین سے کہیں زیادہ مغرب اور اس کی معاشرت اور اس کی ترقی کے اسباب کو جانتے تھے۔ وہ جدید علوم سے غیر معمولی شغف اور ان میں سے چند میں غیر معمولی دستگاہ رکھتے تھے۔ عربی و فارسی کے علاوہ وہ ترکی زبان و ادب سے بھی آشنا تھے۔ انگریزی پر زبردست قدرت رکھتے تھے اور فرانسیسی اطالوی اور جرمن جانتے تھے۔ فلسفہ ان کا خاص مضمون تھا۔ اسلامی فقہ پر انھیں عبور حاصل تھا۔ قانون کی انھوں نے اعلا تعلیم حاصل کی تھی۔ فنِ مصوری کے رمز شناس تھے۔ ادب ان کا مشغلہ تھا اور تعلیم کا شعبہ ان کی معاش کا وسیلہ تھا‘‘۔۲۳؂  اس فہرستِ اختصاص میں کس کو کلام ہو سکتا ہے ؟ اس میں بھی شبہ نہیں کہ بجنوری میں اپنی روایت کے غیر معمولی احترام کا رویہ اس مرعوبیت کے ردِّ عمل کے طور پر پیدا ہوا جو یورپی روایت سے سر سیّد تحریک نے عام کی تھی اور بجنوری نے صرف ۳۳ سال کی عمر میں اتنا وسیع اور متنوع علم حاصل کیا، اس کی بھی قدر کی جانی چاہیے۔ لیکن یہ بھی کہنا پڑ تا ہے کہ غالبؔ کی شخصیت بجنوری کے بے پایاں علم کے تلے کچھ دب سی گئی ہے جس طرح قاضی عبدالودود کے تبحر علمی کے سامنے غالبؔ بونے اور ہانپتے کانپتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس فرق کے ساتھ کہ قاضی صاحب کا علمی تبحّر غالبؔ کی ہمہ دانی کی پول کھولتا ہے تو بجنوری کا تبحّر علمی غالبؔ کا بھرم قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن اپنے مقصد میں بجنوری بری طرح نا کامیاب ہیں۔ یہ تو درست ہے کہ نئی نسل میں غالبؔ کا احترام بجنوری نے پیدا کیا لیکن اس میدان میں وہ اکیلے نہیں ، بلکہ حالیؔ شریکِ غالب ہیں ، جب کہ بجنوری کی مداحی نے غالبؔ سے نئی نسل کو برافروختہ بھی کیا، اور اس میدان میں بجنوری تنہا ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بجنوری کی ہمہ دانی سے قاری مبہوت دکھائی دیتا ہے اور یہ گویا فرض کر لیتا ہے کہ بجنوری کہتے ہیں تو سچ ہی کہتے ہوں گے۔ اور پھر جو شاندار جملے تراشے ہیں وہ عام قاری کو غور و فکر کی مہلت ہی نہیں دیتے اور وہ آمنّا و صدقّنا کہتا ہوا آگے بڑھ جاتا ہے۔ اس کی کچھ مثالیں مثالیں ملاحظہ فرمائیں :

۱۔ ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں۔ مقدس وید اور دیوانِ غالب (ص۵)

۲۔ شاعری انکشاف حیات ہے (ص۵)۳۔ عروض موزونیت کی میزان میں الفاظ کے تولنے کا نام ہے (ص۶)

۴۔ مرزا غالبؔ کے لیے شاعری موسیقی اور موسیقی شاعری ہے۔ یہی باعث ہے کہ دیوان کا ہر مصرع تار رباب نظر آتا ہے (ص۷)۵۔ زبان ارضی ہے اور شاعرانہ خیالات سماوی ہیں (ص۹)

۶۔ الفاظ وہ خشت و گل، چوب اور آہن ہیں جن سے ادبیات کی عمارت عبارت ہوتی ہے (ص۱۱)۷۔ تصور کے زبان سے ادا کرنے کا نام ہی لفظ ہے (ص۱۲)۸۔ تصویر رقبۂ حیات پر ایک نقطہ ہے۔ شعر ایک دائرہ ہے (ص۲۰)

۹۔ کتاب قدرت ایک تاریک کتاب ہے جس کے اوراق پر سوائے شعرا کے کوئی روشنی نہیں ڈال سکتا (ص۲۴)

۱۰۔ جس طرح نبوت بطنِ مادر سے شروع ہوتی ہے عشق بھی عہدِ طفلی سے آغاز ہوتا ہے (ص۲۶)

پہلے بیان کی کجی پر روشنی ڈالی جا چکی ہے۔ دوسرا بیان درست ہے اور ایک زمانے سے رائج ہے۔ تیسرا بیان عروض کی کسی حد تک تعریف ہے ، مکمل نہیں۔ اس لیے کہ موزونیت کی میزان پر کھرے اترنے والے فقرے بھی عروض کی میزان پر کھوٹے نکل سکتے ہیں۔ چوتھا دعویٰ سراسر بے بنیاد ہے۔ سیّد صباح الدین عبدالرحمن نے اس پر اچھی بحث کی ہے اور ان کی یہ رائے درست ہے کہ:’لیکن ہر مصرع تارِ رُباب ہے ، اس کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی بعض غزلیں تو ایسی مشکل اور مغلق ہیں کہ کوئی مطرب خواہ کیسا ہی رہزنِ تمکین و ہوش کیوں نہ ہو، ان کو گا کر محفل میں کوئی کیفیت نہیں پیدا کر سکتا‘‘۔  پانچواں بیان انگریزی کے رومانی نقادوں کے اس تصور کی صدائے بازگشت ہے کہ ہیئت اور مواد کا الگ الگ وجود ہے۔ اب یہ منطق رد کی جا چکی ہے۔ اور نمبر ۶ اور ۷ میں کوئی خاص بات نہیں۔ آٹھواں بیان صرف اس قدر بتاتا ہے کہ شاعری مصوری کے مقابلے میں زیادہ وسعت اور جامعیت رکھتی ہے ، یہ درست ہے لیکن بجنوری کی دریافت نہیں۔ نواں بیان بھی ثبوت طلب ہے اور اس میں کئی قباحتیں ہیں ، مثلاً کتابِ قدرت سے کیا مراد ہے ؟ آیا اس کا وجود ممکن بھی ہے کہ نہیں ؟ وہ کون سے شعرا ہیں جو اس پر روشنی ڈال سکتے ہیں ؟ اور جب شعرا روشنی ڈال سکتے ہیں پھر وہ تاریک کتاب کیوں ہے ؟ وغیرہ وغیرہ۔

 دسواں بیان بھی اس لحاظ سے محلِ نظر ہے کہ اس میں جو دلیل پیش کی گئی ہے وہ خود اپنی اصل میں ایک دعویٰ اور محتاجِ دلیل ہے۔

 کچھ بیانات ایسے ہیں جن پر ناطقہ سر بگریباں ہے کہ کیا کہیے ، مثلاً:’لوح سے تمت تک مشکل سے سو صفحے ہیں لیکن کیا ہے جو یہاں حاضر نہیں ، کون سا نغمہ ہے جو اس زندگی کے تاروں میں بیدار یا خوابیدہ موجود نہیں ‘‘۔ ص ۵

تعجب ہے کہ پروفیسر خورشید الاسلام نے اس کو قبول کر لیا، وہ کہتے ہیں :’اس دعوے سے اختلاف تو مشکل ہو گا، جب سچے مبالغہ کے بعد احتیاط سے کام لے کر بیدار یا خوابیدہ کی شرط بھی لگا دی گئی ہو‘‘۔۲۴؂

اگر یہ درست ہے تو ہمیں دیوانِ غالب کے علاوہ، جو کچھ موجود ہے ، اسے دریا برد کر دینا چاہیے۔ اسی قبیل کا ایک اور دعویٰ ملاحظہ فرمائیں :’غالبؔ اور گوئٹے (Goethe) دونوں کی ہستی انسانی تصور کی آخری حدود کا پتا دیتی ہے شاعری کا دونوں پر خاتمہ ہو گیا‘‘۔ ص۸ غالبؔ پر نظمؔ طباطبائی اور حسرتؔ کے جو اعتراضات تھے ، بجنوری نے انھیں بیک جنبشِ قلم رد کر دیا۔ انھوں نے اس کا تجزیہ ضروری نہ سمجھا اور فرما دیا کہ:’’شیکسپیئر (Shakespeare) اور غالبؔ کا کام قواعد زبان کی پابندی نہیں ہے یہ قواعد زبان کا کام ہے کہ ان کی پابندی کرے یا ان کی خاطر اپنی درسیات میں خاص ضمیمہ جات کا اضافہ کرے ‘‘۔ (ص ۱۳)بجنوری نے اپنے ممدوح کو عرش سے پرے پہنچا دیا اور یہ بات عام طور پر تسلیم بھی کر لی گئی ہے۔ لیکن بجنوری کا جادو اب بھی سر چڑھ کے بول رہا ہے ، مثلاً بجنوری نے لکھا:’’مرزا غالبؔ کی عبادت گاہ عرش و کرسی کے سائے میں ہے وہ تسبیح جس پر وہ اسمائے الٰہی کا وظیفہ پڑھتے ہیں صد ہزار دانہ ہے اور وہ دانے اجرام فلکی اور اجسام سماوی ہیں۔ کعبہ و دیر، کلیسا اور کنشت اس رفیع بارگاہ سے یکساں نظر آتے ہیں۔ جہاں عوام و خواص کا مذہب منتہی ہو جاتا ہے ، مرزا کا مذہب آغاز ہوتا ہے ‘‘۔ (ص۵۷)بیخودؔ موہانی نے ۱۹۲۵ء میں لکھا:’جو اوروں کا آسمان ہے وہ مرزا کی زمین ہے جو ان کے بدیہیات ہیں وہ اوروں کے نظریات بھی نہیں ‘‘۔۲۵؂اثر صاف ظاہر ہے۔ اسی طرح بجنوری نے لکھا ہے :۱۔ ’’غالبؔ کا دل ایک آئینہ ہے جس میں ہر مظہر الٰہی اور منظر قدرت کا جلوہ موجود ہے۔ اس کی زبان ترجمانِ حقیقت ہے۔ اس کے پرکار تخیل کا دائرہ امکان سے ہم کنار ہے۔ عالم کون و فساد میں ایک ذرّے کی جنبش بھی اس کے حلقۂ غور سے باہر نہیں ہے۔ غالبؔ ایک فلسفی ہے جو شاعری کا جامہ زیب تن کیے ہوئے ہے ‘‘۔۲۶؂

۲۔ ’’غالبؔ کی شاعری کے جسم پر زبان کا جامہ اسی وجہ سے تنگ ہے۔۔۔ چوں کہ مرزا غالبؔ کا موضوع کلام بیشتر فلسفہ ہے یہ مشکل اور بھی زیادہ ہو گئی ہے ‘‘۔ (ص۱۰)

۳۔ ’’جب مرزا نے اپنے فلسفیانہ خیالات کے لیے موزوں الفاظ کی تلاش کی تو اردو کے ذخیرۂ الفاظ کو بہت محدود پایا۔۔۔ مرزا کے خیالات نے اپنے اظہار کے لیے خود الفاظ تیار کر لیے بلکہ دقّت نے مرزا کی مشکل پسند طبیعت کے لیے کام کو زیادہ آسان کر دیا۔ الفاظ سازی کے فن میں مرزا اجتہاد کامل کا درجہ رکھتے ہیں۔ چناں چہ یہ الفاظ ملاحظہ ہوں :

‘‘ دام شنیدن، خمار رسوم، آتش خاموش، جوہر اندیشہ، گلبانگ تسلی‘‘۔

ان تمام بیانات کی سادگی محتاجِ بیان نہیں۔ لیکن انھیں آج بھی تنقیدی سمجھا جاتا ہے اور پیروی کی جاتی ہے۔

 شوکت سبزواری نے ۱۹۶۴ء میں ’فلسفۂ کلامِ غالب‘ شائع کی۔ اس میں بجنوری کی گونج صاف محسوس ہوتی ہے ، وہ لکھتے ہیں :’کہا جاتا ہے کہ غالبؔ کا فلسفہ ایک ناکام فلسفہ اور اس کا زاویۂ نگاہ ایک منتشر زاویۂ نگاہ ہے اگر فلسفہ کی نا تمامی اور زاویۂ نگاہ کے انتشار سے مراد یہ ہے کہ اس میں ارسطو کے تکوینی فلسفہ کی سی جامعیت یا قدیم ہندی فلسفیانہ نظاموں کی سی دقّت بینی نہیں تو یہ درست ہے ‘‘۔اور پھر بھی یہ ثابت کرنا چاہا کہ:’حیات و کائنات اور اخلاق کے فلسفے کی تمامیت اور زاویۂ نگاہ کی جامعیت پوری طرح آشکار ہے ‘‘۔۲۶؂

اور رام بابو سکسینہ نے بھی ان کا موازنہ ’براؤننگ، ہینے اور گیٹے ‘ سے کیا اور فیصلہ دیا کہ:’غالبؔ کی شاعری میں فلسفی کی عقل و ادراک، صوفی کی نگاہ دور بیں اور چابک دست مصور کا نازک ہاتھ، ان تینوں چیزوں کا اجتماع ہو گیا ہے ان کی صنعت پرکاری اور پرکاری صنعت ہے۔ حسن حق ہے اور حق حسن ہے ‘‘۔۲۷؂

رام بابو سکسینہ نے کلامِ غالب کی پانچ خصوصیات پر روشنی ڈالی جن میں پہلی جدت پسندی، دوسری نظر فریب طرزِ تحریر، تیسری ذاتی جذبات پر زور، چوتھی فلسفیت اور حقیقت طرازی پانچویں جذبات نگاری اور ظرافت و شوخی بتائی ہے۔۲۸؂ یہ بات تسلیم کی جائے یا نہیں ، یہ ایک الگ بحث ہے۔ لیکن اس میں کلام نہیں کہ غالبؔ کو رمز شناس فلسفی اور حقیقت آگاہ حکیم پہلی مرتبہ بتانے والوں میں بجنوری سرِ فہرست ہیں۔ اگرچہ اس ضمن میں کچھ مبہم اشارے ان سے پہلے بھی ملتے ہیں لیکن وہ ہمارے اجتماعی حافظے کا اس طرح حصہ نہیں بن سکے ، جس طرح بجنوری ہیں۔ اسی طرح مرزا کی الفاظ سازی کا مطالعہ بھی بجنوری کی اولیات میں سے ہے جن کا جزوِ غالب شیخ محمد ا کرام نے استعارے کو بتایا ہے :

’’جن سے دو لفظوں میں غالبؔ نے ایک مکمل تصویر کھینچ دی ہے ‘‘۔۲۹؂

اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ:’’مرزا تشبیہ اور استعارہ کے بادشاہ تھے ‘‘۔۳۰؂وارث علوی نے لکھا ہے :’تنقیدی سطح پر حالیؔ ا کرام اور بجنوری کی تنقید آج ہمیں محدود اور کہیں کہیں غیر تسلی بخش بھی معلوم ہو لیکن اس بات سے انکار نہیں کہ غالبؔ کی عام مقبولیت کو ایک بصیرت اور تنقیدی نطق عطا کرنے میں ان بزرگوں کا بڑ ا حصہ ہے ‘‘۔۳۱؂اور میں اس سلسلے میں بجنوری اور ا کرام کا حصہ زیادہ تسلیم کرتا ہوں۔ یادگار کو چوں کہ تاریخی تقدم حاصل ہے اس لیے اس سے تحقیقی سطح پر بھی ہمارے معاملات قائم رہے ہیں جہاں تک تنقیدی سطح پر غالبؔ کی عام مقبولیت میں اضافے کا تعلق ہے اس میں بجنوری اور ا کرام کا حصہ زیادہ ہے۔ جناب شمس الرحمن فاروقی نے بھی لکھا ہے کہ:’بجنوری نے حالیؔ کے اصولوں اور اشاروں پر چلتے ہوئے ایسی تنقید لکھ دی جو بعض اعتبارات سے ’یادگارِ غالب‘ سے بھی زیادہ با اثر ثابت ہوئی‘‘۔۳۲؂

بجنوری نے یہ بھی لکھا کہ:’دیوانِ غالب کے مطالعے سے معلوم ہو گا کہ مرزا نے ایک لفظ جہاں تک ہو سکا ہے دوبارہ استعمال نہیں کیا‘‘۔ (ص۱۲)

اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بجنوری نے دیوانِ غالب کا کتنا غیر ذمہ دارانہ مطالعہ کیا تھا، یا یہ کہ جوشِ عقیدت میں حقیقت کو پیچھے چھوڑ جانے میں انھیں ذرا بھی تامّل نہیں۔ اس سلسلے میں سیّد صباح الدین عبدالرحمن اور خورشید الاسلام کی کتابوں میں بہت کچھ مل جائے گا، ان میں کئی ایسے شعر نقل کیے گئے ہیں جن میں غالبؔ نے ایک لفظ کو کئی بار استعمال کیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی نے اس موضوع پر باضابطہ اور اچھی بحث نہیں کی، لیکن ان اشعار کے یکجا کر دیے جانے سے بھی بجنوری کا یہ مفروضہ تو رد ہو ہی جاتا ہے۔ اسی طرح پروفیسر خورشید الاسلام لکھتے ہیں :’بجنوری شاعری کی سب سے نمایاں اور ممتاز خصوصیت کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ تشبیہ و استعارے کی مناسب تعریف کرنے کے بعد یعنی: تشبیہ یا استعارہ کا پہلا کام معنی آفرینی ہے  تشبیہ یا استعارہ کا دوسرا کام حسن آفرینی ہے  تشبیہ یا استعارہ کا تیسرا کام اختصار اور بلاغت پیدا کرنا ہے بجنوری لفظ کے وسیع تر امکانات کا سراغ لگاتے ہیں ‘‘۔۳۳؂ یہاں یہ بتانا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ ان بیانات میں تشبیہ یا استعارے کی اصل یا تعریف بالکل نہیں ، جو پروفیسر خورشید الاسلام فرماتے ہیں۔ بلکہ ان میں تشبیہ اور استعارے کا تفاعل زیرِ بحث آیا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ایک بجنوری پر کیا موقوف، ہمارے دوسرے ناقدین نے بھی غالبؔ پر محتاط گفتگو بہت کم کی ہے۔

 بجنوری کی ایک اور کمی یہ ہے کہ وہ متضاد باتیں بھی کہتے چلے جاتے ہیں اور انھیں احساس بھی نہیں ہوتا۔ ان کی تنقید کی بنیاد جملوں یعنی جزو پر قائم ہے جو کل کا حصہ کہاں تک بن پاتے ہیں ، اس سے بجنوری کو غرض نہیں۔ انھیں سروکار ہے خوب صورت جملوں سے ، جن میں منطقی ربط کا مسئلہ ان کا نہیں۔ وہ جملہ لکھتے ہیں مقالہ نہیں۔ مثلاً وہ لکھتے ہیں :۱۔ تصویر رقبۂ حیات پر ایک نقطہ ہے۔ شعر ایک دائرہ ہے ‘‘ (ص۲۰)

۲۔ ’’شعر کا تعلق وقت سے اور تصویر کا تعلق فضا سے ہے۔ تصویر ایک نگاہ میں اپنے مضمون کو ظاہر کر دیتی ہے شعر وقت کا طالب ہوتا ہے۔ اور کلی کی طرح رفتہ رفتہ اپنے معنی کو بیان کرتا ہے ، تصویر ایک ثانیہ کی یادگار ہے ، شعر ایک تتلی ہے جس کے پیچھے خیال بچے کی طرح کہیں سے کہیں نکل جاتا ہے ‘‘ (ص۸۸)۳۔ ’’بہترین شعر وہ ہے جس کے مضمون کو مصور بلا دقت صفحۂ قرطاس سے جامۂ تصویر پر منتقل کر سکے اور جو حالتِ خواب تصویر میں قائم ہو وہ بیداری سے مبدل نہ ہو‘‘ (ص۹۰)

اس میں پہلا اور دوسرا بیان تصویر پر شعر کی افضلیت کا دعویٰ کرتا ہے۔ یہ بحث میں ابھی چھوڑ رہا ہوں کہ اس سے اتفاق کہاں تک ممکن ہے۔ جب کہ تیسرا بیان اس کی تردید کر دیتا ہے۔ اور اگر واقعی تصویر ایک نقطہ اور شعر ایک دائرہ ہو، تو نقطہ دائرہ کو محیط نہیں ہو سکتا اور نہ اس کی نمائندگی کا اہل ہو سکتا ہے۔ نقطہ تو دائرہ کے اندر سانس لے سکتا ہے لیکن دائرہ نقطے میں سما جائے ، یہ ممکن نہیں۔

  ان کوتاہیوں کے باوجود یہ مقدمہ اردو تنقید میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور حالیؔ کی ’یادگارِ غالب‘ کے بعد غالبؔ پر سب سے اہم کتاب ہے۔ اور تنقیدی سطح پر غالبؔ کا لوہا منوانے میں ’یادگارِ غالب‘ سے زیادہ کامیاب ثابت ہوئی ہے۔ پروفیسر خورشید الاسلام نے لکھا ہے :’حالیؔ جدید تنقید کے رہنما ہیں ، بجنوری صحیح معنی میں پہلے جدید نقاد ہیں۔ حالیؔ سادہ ہیں ، بجنوری بلیغ ہیں ، حالیؔ کی نظر محدود اغراض پر ہے ، بجنوری کی نظر انسانی تہذیب کی وسعت اور اس کے پیمانوں پر ہے ‘‘۔۳۴؂

میں بجنوری کو پہلا جدید نقاد تو کجا، نقاد تک ماننے کو تیار نہیں۔ لیکن پروفیسر خورشید الاسلام کی اس رائے سے اتفاق رکھتا ہوں کہ:’’ان کا اسلوب اردو کے چند منفرد اسالیب میں سے ہے اور اس کی خوبی یہ ہے کہ وہ ادب کے حسن، توانائی اور تہ داری کو پڑھنے والوں کے دل و دماغ پر وارد کر دیتا ہے ‘‘۔۳۵؂ اور اسی لیے بجنوری غالبؔ کا رعب قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے اور محاسن نے پہلی مرتبہ غالبؔ کو بین الاقوامی حیثیت دی اور اس احساس کو عام کیا کہ غالبؔ کسی مغربی شاعر سے کم رُتبہ نہیں ہیں ، بشرطیکہ ہم اپنی روایت کا احترام سیکھیں اور مغربی علوم و افکار سے بھی برابری کی سطح پر معاملہ کریں۔ گو بجنوری کا طرزِ استدلال درست نہیں تھا اور رد کیا جا چکا ہے۔ تاہم اس اعتماد اور رویّے کی اپنی اہمیت ہے خصوصاً جس عہد میں بجنوری نے یہ مقدمہ لکھا اس میں اس جرأت و اعتماد اور خود شناسی کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ یہ مقدمہ اردو تنقید میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔l

ڈاکٹر عبد اللطیف

ڈاکٹر عبد اللطیف اس خاندان کے چشم و چراغ تھے جس نے بڑ ے بڑ ے ’’صوفیائے کرام اور علمائے عظام‘‘ پیدا کیے ہیں۔ ڈاکٹر سیّد عبد اللطیف ۱۱ ستمبر ۱۸۹۱ء کو کرنول میں پیدا ہوئے۔۳۶؂ ان کے والد شاہ حسین الحسینی تھے جو اپنے زمانے کے جید عالم اور صوفی تھے۔۳۷؂ سیّد عبد اللطیف کی تعلیم عربی اور فارسی سے شروع ہوئی۔۳۸؂ جب ان کی عمر بارہ سال کی تھی، وہ مقامی ہائی ا سکول میں داخل کر دیے گئے جہاں سے ۰۱۹۱ء میں دسویں کا امتحان پاس کیا ۳۹؂ اور اعلا تعلیم کے لیے مدراس کرسچین کالج میں داخلہ لیا، جہاں سے ۱۹۱۵ء میں بی. اے . کیا۔ انھوں نے اپنے مضمون (اصولِ تنقید ادبیات اور تاریخ تنقید ادبیات، انگریزی) میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔۴۰؂ اس کے بعد سیّد نواب علی چودھری کے ذاتی سکریٹری مقرر ہوئے اور پھر بمبئی کے مضافات (پنچ گنی) کے ایک پبلک ا سکول کے دو برس تک پرنسپل رہے اور ۱۹۲۰ء میں عثمانیہ یونیورسٹی (حیدرآباد) میں انگریزی کے اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے۔۴۱؂ ۱۹۲۲ ء میں چار اسسٹنٹ پروفیسروں کو تین سال کی تعلیمی رخصت پر مزید تعلیم کے لیے یورپ بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا، سیّد عبد اللطیف بھی ان میں سے ایک تھے۔ لیکن وہاں سے خبر آئی کہ وہاں بی. اے . آنرز (انگریزی) کی تمام جگہیں پُر ہو چکی ہیں اور اب داخلہ اگلے سال ہی ممکن ہے۔ سیّد عبد اللطیف اپنے والد کے اصرار پر انگلستان چلے گئے۔ ’’انگلستان میں وہ کنگز کالج (لندن یونیورسٹی) کے صدر شعبۂ انگریزی پروفیسر سر ازرائیل گولانز کے سامنے پیش ہوئے۔ سر ازرائیل اور ان کے ساتھی پروفیسر عبد اللطیف صاحب کی انگریزی میں مہارت اور انگریزی ادب پر عبور سے اتنے متاثر ہوئے کہ انھوں نے پوچھا: آپ بی اے (آنرز) میں داخلے کی جگہ ایم اے یا پی ایچ ڈی کے امتحان کی تیاری کیوں نہیں کرتے ؟ بھلا انھیں کیا عذر ہو سکتا تھا! چناں چہ یہ براہِ راست پی ایچ ڈی کی تیاری کرنے لگے۔ مقالے کا موضوع قرار پایا ’انگریزی ادب کے اثرات اردو ادب پر‘ اور اس کی تیاری اور پیش کرنے کی میعاد تین برس مقرر ہوئی۔ یہ ۱۹۲۲ء کے شروع کی بات ہے ‘‘۔۴۲؂ نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی نے ۱۹۲۳ء میں انگلستان اور امریکہ کی یونیورسٹیوں کے انگریزی پروفیسروں کی پہلی کانفرنس منعقد کی۔ اس میں تمام یونیورسٹیوں کے ایک ایک نمائندے شریک ہوئے۔ لیکن لندن یونیورسٹی نے دو نمائندے ، سر ازرائیل گولانز کی سفارش پر بھیجنا منظور کیا، ایک سر ازرائیل گولانز اور دوسرے سیّد عبد اللطیف۔ ’’حالاں کہ وہ ہنوز صرف ریسرچ ا سکالر تھے اور پروفیسر نہیں بنے تھے۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ سر ازرائیل کے دل میں ان کی کتنی وقعت تھی اور وہ ان کی قابلیت کے کس درجہ قائل تھے ‘‘۔۴۳؂

 امریکہ سے واپسی پر سر ازرائیل نے ان سے کہا کہ ’’مقالے کا مواد جمع ہو چکا ہے تو اسے مکمل کر لیجیے ، ہم دو سال میں ہی آپ کا مقالہ جمع کر لیں گے ’’تین سال کی قید تو عام حالات میں ہے ‘‘۔ اور انھوں نے دو سال میں ہی مقالہ جمع کر دیا۔’’لیکن سالانہ جلسۂ تقسیمِ اسناد (کانووکیشن) کا زمانہ ابھی دور تھا۔ بارے سر ازرائیل کی وساطت اور اثر و رسوخ سے یہ مہم بھی سر ہو گئی؛ ایک غیر معمولی کانو وکیشن کا انتظام کیا گیا جس میں انھیں سند عطا کی گئی (۱۹۲۴ء) یوں یہ تین برس کی جگہ دو ہی برس میں اپنا کام مکمل کر کے حیدرآباد واپس پہنچ گئے ‘‘۔۴۴؂

 سفرِ انگلستان سے پہلے عثمانیہ یونیورسٹی نے ان سے ایک معاہدے پر دستخط کروایا تھا کہ واپسی پر دس برس تک یونیورسٹی کی ملازمت کریں گے ، اور ان کی تنخواہ سے ایک حصہ کاٹا جائے گا۔ انھوں نے دس برس تک پڑھایا اور پھر ایک درخواست دے دی کہ مجھے ملازمت سے سبکدوش کر دیا جائے تاکہ یکسوئی سے علمی کام کر سکوں۔ لیکن پنشن کی رقم بہت معمولی تھی۔’جب یہ حالات نظام مرحوم میر عثمان علی خاں (ف فروری ۱۹۶۷ء) کے علم میں آئے ، تو انھوں نے حکم دیا کہ چوں کہ ڈاکٹر سیّد عبد اللطیف کا ملازمت سے دستبردار ہونے سے مدعا خدمت علم ہے ، اس کی قدر کرنا چاہیے۔ پس ان کے لیے پوری پانچ سو ماہانہ کی پنشن منظور کی جاتی ہے (جو عام حالات میں پچیس سالہ ملازمت کے اختتام پر دی جاتی ہے )‘‘۔۴۵؂

)اس لحاظ سے ہم ڈاکٹر سیّد عبد اللطیف کو اردو کا پہلا پروفیسر ایمریٹس کہہ سکتے ہیں ، بلکہ تمام ہندوستانی زبانوں میں ان سے پہلے یہ اعزاز کسی کو نہیں ملا۔

 ۱۹۳۷ء میں انھوں نے ایک انگریزی ہفت روزہ ’نیو ایرا‘ (عصرِ نو) جاری کیا۔ ڈاکٹر سیّد عبد اللطیف نے اس زمانے کی نظریاتی اور عملی سیاست میں بھی حصہ لیا۔ اس موضوع پر ان کی دو بے حد اہم کتابیں ’مسلم کلچر ان انڈیا‘ اور’ ڈفرنٹ کلچرل زونز ان انڈیا‘ ہیں۔ وہ ۱۹۴۲ء میں گاندھی جی کی دعوت پر بمبئی پہنچے اور اس جلسے میں موجود تھے ، جس میں ’ہندوستان چھوڑ و‘ کی قرار داد کانگریس کی مجلسِ عاملہ نے منظور کی۔۴۶؂ ۱۹۴۶ء میں ایک انگریزی ہفت روزہ ’کلیرین (Clarion) جاری کیا، جو حیدرآباد کے مسائل پر نہایت بیباکی سے اظہارِ خیال کرتا تھا۔ ۱۹۵۰ء سے ۱۹۵۲ء تک عثمانیہ کالج کرنول کے پرنسپل رہے اور پھر حیدرآباد چلے آئے۔ ۱۹۵۲ء میں مولانا ابوالکلام آزادؔ کی تحریک پر انسٹی ٹیوٹ آف انڈومڈل ایسٹ کلچرل اسٹڈیز اور اکیڈمی آف اسلامک اسٹڈیز قائم کی، جن سے تقریباً چالیس کتابیں شائع ہوئیں۔ ۱۹۵۴ء میں مولانا آزاد نے ان سے فرمائش کی کہ ’ترجمان القرآن‘ کا ترجمہ انگریزی میں کر دیں اور اس کے لیے ان کے پاس دلّی میں قیام کریں۔ ’’چناں چہ ۱۹۵۴ء سے مولانا آزاد کی وفات (۲۲ فروری ۱۹۵۸ء) تک ان کا بیشتر زمانہ مولانا آزادؔ کے ساتھ بسر ہوا‘‘۔ ’ترجمان القرآن‘ کا ترجمہ وہ مولانا آزادؔ کی زندگی میں مکمل نہ کر سکے۔ یہ ترجمہ ۱۹۶۱ء میں تین جلدوں میں مکمل ہوا۔۴۷؂ مالک رام نے ان کی ۲۳ انگریزی کتابوں کی فہرست دی ہے۔ اردو داں حلقے میں وہ اپنی دوسری کتاب Ghalib - A Critical Appreciation of his Life and Urdu Poetry (۱۹۲۷) کے ترجمے سے جانے جاتے ہیں۔ مالک رام نے اس کا سالِ اشاعت ۱۹۲۷ء بتایا ہے جب کہ سیّد مظفر حسین برنی لکھتے ہیں :’ڈاکٹر سیّد عبد اللطیف نے اپنی صدائے احتجاج انگریزی میں اپنی مشہور کتاب Ghalib - A Critical Appreciation of his Life and Urdu Poetry کی صورت میں ۱۹۲۸ء میں بلند کی۔ اس کا اردو میں ترجمہ سیّد معین الدین قریشی نے کیا جو حیدرآباد دکن سے ۱۹۳۲ء میں شائع ہوا‘‘۔۴۸؂

اس کتاب کو عام طور پر محاسن کلامِ غالب کا ردِّ عمل بتایا گیا ہے۔ پروفیسر گیان چند جین نے لکھا ہے :’’بجنوری اور لطیف کی کتابیں غالبؔ کے جائزے کے دو انتہائی نقطے پیش کرتی ہیں ، لیکن اس کے باوجود دونوں میں یک گونہ مشابہت ہے۔ دونوں مغرب زدہ ہیں ، دونوں اپنی بات کہنے سے قبل مغربیوں کے اقوال درج کرتے ہیں ، دونوں نے اپنے اپنے انداز میں شاعری کی تعریف کی ہے اور پھر اس پیمانے پر غالبؔ کے کلام کو آنکا ہے۔ ڈاکٹر سیّد عبد اللطیف نے ایک محقق کے انداز میں غالبؔ کی سوانح اور شخصیت پر بھی نظر ڈالی ہے۔۔۔ غالبؔ کی شاعری پر جس طرح انھوں نے نظر ڈالی ہے وہ بادی النظر میں قائل بھی کرتا ہے اور خلوص سے بھی بھرپور معلوم ہوتا ہے لیکن غور سے دیکھا جائے تو یہ اتنا معصوم اور منصفانہ نہیں۔ دوسروں نے اگر غالبؔ کی خامیوں کی طرف سے آنکھیں بند کر لی تھیں تو ڈاکٹر لطیف نے تمام خوبیوں سے انکار کر دیا‘‘۔۴۹؂

اور شاید اسی لیے نقادوں کے ایک گروہ نے ڈاکٹر عبد اللطیف کی تمام خوبیوں کا انکار کر دیا۔ وارث علوی لکھتے ہیں :’یگانہ، غالبؔ کو Debunk کرنا چاہتے تھے اور اسی مقصد کے لیے وہ مشرق و مغرب کے ایسے اصولِ تنقید کی تلاش میں سرگرداں ہیں ، جس کسوٹی پر غالبؔ کی شاعری کو غلط قسم کی ثابت کیا جا سکے۔ اردو میں تو وہ حالیؔ اور شبلیؔ سے اصولِ تنقید اخذ کرتے ہیں لیکن چوں کہ مغربی ادب سے ان کی واقفیت سطحی اور محدود ہے اس لیے وہ اپنے سے بھی زیادہ ایک دوسرے مجہول نقاد عبد اللطیف کا سہارا لیتے ہیں جن کا دو ٹوک فیصلہ یہ تھا کہ غالبؔ کا شمار دنیا کے بڑ ے شاعروں میں نہیں ہو سکتا‘‘۔۵۰؂ یہ ایک طرح کی انتقامی کار روائی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ڈاکٹر عبد اللطیف مغربی ادب سے مرعوب بلکہ احساسِ کمتری کا شکار تھے لیکن جیسا کہ اس اعتراف کے باوجود شمس الرحمن فاروقی نے لکھا ہے کہ غالبؔ تنقید کے سلسلے میں ’’مغربی انداز کو شعوری طور پر اختیار کرنے والوں میں ڈاکٹر عبد اللطیف سرِ فہرست ہیں ‘‘۔۵۱؂

 ان کی اس اہمیت سے انکار نہیں کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر عبد اللطیف نے حالیؔ اور بجنوری کے طریقۂ کار کی جن کوتاہیوں کو نمایاں کیا ہے ، صرف اس سے ہماری تنقید کو جو فائدہ پہنچا، وہ بھلایا نہیں جا سکتا۔ اور پھر انھوں نے غالبؔ کے کلام کی تاریخی ترتیب کا جو منصوبہ اور خاکہ پیش کیا ہے وہ غالبؔ تنقید میں انھیں بلند منصب پر فائز کرنے کے لیے کافی ہے۔

 اس میں شک نہیں کہ غالبؔ کے تعلق سے ڈاکٹر عبد اللطیف کا رویہ معاندانہ تھا اور شاید یہ مبالغہ آمیز تحسین کا ردِّ عمل تھا جس کے ذمہ دار غالبؔ کم اور غالب پرست زیادہ تھے۔ ڈاکٹر عبد اللطیف نے غالبؔ کی سوانح سے اس کی شاعری کو جہاں مربوط کرنا چاہا وہاں ٹھوکر کھائی۔ ہماری کلاسیکی شعریات شاعر کے سوانح سے بیگانۂ محض تو نہیں لیکن اس کے اثر و نفوذ کی نوعیت جداگانہ ہے اور اس کو ملحوظ رکھنا ہو گا۔ اس کی نوعیت اور کیفیت وہ نہیں ہو گی جو مثلاً جدید شاعری کے مطالعے میں ہوتی ہے۔ اسی طرح سیّد عبد اللطیف نے عظمتِ شاعری کو جن بنیادوں سے مشروط کیا ہے وہ بھی خود ساختہ اور مفروضہ ہیں۔ اسی طرح وہ جوش مخالفت میں متضاد باتیں بھی کہہ جاتے ہیں ، جو بظاہر متضاد نہیں معلوم ہوتیں ، مگر ان کا تجزیہ بتاتا ہے کہ ان میں مصنف تضاد بیانی کا شکار ہوا ہے ، مثلاً ایک جگہ تو وہ یہ کہتے ہیں :’’اس کے تغزل کی خصوصیت معلوم کرنے کے لیے دوسروں سے مقابلہ کرنا ایسا ہی ناگزیر سمجھا گیا تو صحیح طریقہ یہ تھا کہ اسی میدان کے اور شعرا کو لے لیا جاتا نہ یہ کہ اپنے ہیرو کی خاطر مغربی حسن کاری اور فلسفہ و ادب کے ان تمام مشاہیر کا خاکہ اڑ ایا جائے جن سے وہ واقفیت رکھتے ہیں ‘‘۔۵۲؂

یہ اعتراض غزل کی ریزہ خیالی اور نظم کے ربط و تسلسل کی بنیاد پر کیا گیا کہ غزل اس ارتقائے خیال کی متحمل نہیں ہو سکتی، جو مثلاً نظم کی خصوصیت ہے۔

 اور دوسری جگہ فرماتے ہیں :

{’’اس کا فلسفہ کیا ہے اور وہ کہاں ہے ؟۔۔۔ اب تک کسی نے بھی مختلف خیالات کو جوڑ کر کوئی نظام پیش کرنے کی کوشش نہیں کی جس سے یہ معلوم ہوتا کہ غالبؔ نے آخر فلسفے کی کیا خاص خدمت انجام دی ہے ‘‘۔۵۳؂

یہ مطالبہ پہلے اعتراض کی بنیاد پر ضرب لگاتا ہے۔ جب ڈاکٹر عبد اللطیف نے یہ طے کر لیا کہ غزل کسی فلسفے اور باضابطہ نظامِ فکر کی متحمل نہیں ہو سکتی، لہٰذا غالبؔ کا موازنہ نظم گو شعرا سے نہ کرنا چاہیے ، تو یہ مطالبہ کہ ان کے ’’مختلف خیالات کو جوڑ کر کوئی نظام پیش‘‘ کیا جائے۔ اور اس کو غالبؔ کی تعینِ قدر میں مرکزی حیثیت دی جائے ، غلط ہے۔ اسی طرح ان کے شعر سے سوانح اخذ کرنے کی کوشش بھی محلِ نظر ہے۔ اور انھوں نے غالبؔ کے زیادہ تر اشعار کو ذہنی مشق بتایا ہے ، یہ بھی غلط ہے اور یہ کوتاہیاں ان کے معاندانہ رویے کی پیداوار ہیں۔ لیکن ان کی بنیاد پر اس کتاب کو یکسر رد کر دینا بھی مناسب نہیں۔ انھوں نے غالبؔ کے شخصی رجحانات کی سراغ رسانی کی اہمیت بتائی کہ ان کا ’’اثر اس کی عادات و کیفیات اور اخلاق پر پڑ ا ہو‘‘۔۵۴؂ اسی طرح عبد اللطیف نے غالبؔ کی ’بے اطمینانی‘ کو ان کی شاعری میں مرکزی اہمیت کا حامل بتایا اور ہمارے نقادوں کی توجہ کا محتاج بھی۔ اور ہم جانتے ہیں کہ غالبؔ کی شاعری میں جدید تنقید جس تشکیک کو کلیدی اہمیت دیتی ہے ، اس کے سرے اس بے اطمینانی سے ہی ملتے ہیں۔ اسی طرح غالبؔ کی شاعری کے صوفیانہ رنگ پر ڈاکٹر لطیف کا تبصرہ بے حد اہم ہے۔۵۵؂ جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ اس کتاب کی اہمیت بہرحال ہے اور غالب تنقید کے سخت سے سخت جائزے میں اس کو یکسر رد نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں جو کسی قدر مجہولیت راہ پا گئی ہے ، اس کے ذمہ دار غالبؔ کم اور غالبؔ کے نادان دوست زیادہ ہیں ، جنھوں نے غالبؔ کے اس دانا دشمن کو پیدا کیا۔ اور میرا خیال یہ ہے کہ اگر سیّد عبد اللطیف کی یہ کتاب نہ لکھی جاتی تو شیخ محمد ا کرام کی ’غالب نامہ‘ اور کالیداس گپتا رضا کی ’دیوانِ غالب (تاریخی ترتیب سے )‘ جیسی کتابیں منظرِ عام پر نہ آتیں اور غالبیات کا ایک انتہائی اہم گوشہ پردۂ خفا میں رہتا۔l

مرزا یگانہ چنگیزی

مرزا یگانہؔ چنگیزی نے اندازاً اپنی تاریخِ پیدائش ۲۷  ذی الحجہ ۱۳۰۱ھ مطابق ۱۷ اکتوبر ۱۸۸۴ء بتائی ہے۔۵۶؂ اسی تاریخ کو نیر مسعود نے بھی تسلیم کیا ہے۔۵۷؂ یگانہؔ کا اپنا بیان ہے :’میں ۱۹۰۹ء میں اپنے علاج کے لیے لکھنؤ آیا۔ علاج سے جسم تو ٹھیک ہو گیا، اس کی جگہ ایک ذہنی روگ نے لے لی۔ اس زمانے میں لکھنؤ کی فضا شعر و شاعری سے معمور تھی۔ یہاں کی خاک کچھ ایسی دامن گیر ہوئی کہ عظیم آباد واپس جانے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ حسنِ اتفاق سے کچھ مدت بعد یہیں ایک شریف گھرانے میں ، حکیم میرزا محمد شفیع کی بیٹی سے میری شادی ہو گئی۔ لیجیے ، پانو میں ا یک اور بیڑی پڑ گئی۔ یہ ۱۹۱۳ء کی بات ہے۔ اس کے بعد میں وطن گیا اور بزرگوں سے جو تھوڑ ا بہت ورثے میں ملا تھا، اسے اونے پونے داموں پر ٹھکانے لگا، مستقل طور پر لکھنؤ چلا آیا۔ یہاں جو مشاعرے ہوتے تھے ، میں ان میں برابر شریک ہوتا۔ اب اس میں میرا کیا قصور! یہ خدا کی دین ہے ، میرا کلام پسند کیا جانے لگا۔ باہر کے مشاعروں میں بھی اکثر جانا پڑ تا۔ میری یہ ہر دلعزیزی اور مقبولیت ان تھڑ دلوں سے دیکھی نہ گئی۔ اسی زمانے میں ، ان لوگوں کو مخاطب کر کے میں نے ایک فخریہ قطعہ کہا تھا۔ آپ بھی سنیے :

 ۹۶۷۷ا تھا۔ اور ان کے اس روے ّے کون ہوں کیا ہوں ، مجھے بھی دیکھ لیں اہلِ نظر

کوچہ گردِ لکھنؤ، خاکِ عظیم آباد ہوں

مرد جاہل ہوں ، مگر جہل مرکب سے بری

شخص خود بیں ہوں ، نہ میں خود ساختہ استاد ہوں

ہوں ادب پروردۂ بیتاب فخرِ روزگار

ناز اس پر ہے کہ خاک آستان شادؔ ہوں

شیرؔ و رنجورؔ و تمناؔ و مبارکؔ کا غلام

خادمِ امداد ہوں ، میں بندۂ آزاد ہوں

میرے محسن ہیں : نہالؔ و شائقؔ و شیداؔ و رازؔ

یاد ہیں مجھ کو تو سب، میں بھی کسی کو یاد ہوں ؟

جان سے بڑھ کر سمجھتے ہیں مجھے یاسؔ اہلِ دل

آبروئے لکھنؤ، خاکِ عظیم آباد ہوں

بعد کو میں نے شوخی سے داماد کے قافیے میں اس پر ایک شعر کا اضافہ کر دیا:

لکھنؤ کے فیض سے ہیں دو دو سہرے میرے سر

اک تو استادِ یگانہ، دوسرے داماد ہوں

یہ قطعہ میں نے علی الاعلان عظیم آباد کے ایک مشاعرے میں پڑھا، اور لکھنؤ واپس آ کر روزنامہ ’ہمدم‘ میں شائع کرا دیا۔ اب تو ان خود رو استادوں کے تلوں سے لگ گئی، یہ کون ہوتا ہے ، اپنے آپ کو آبروئے لکھنؤ کہنے والا! تخلص یاسؔ سے یگانہؔ کرنے کی ابتدا بھی اسی سے ہوئی۔ یہ ۱۹۲۰ء کی بات ہے ‘‘۔۵۸؂

یگانہؔ کی زندگی بڑی حسرت ناک تھی۔ رفاقت علی شاہد نے درست لکھا ہے کہ: ’’وہ ۱۹۰۵ء میں لکھنؤ آئے۔ ۱۹۲۳ء میں وہ نول کشور پریس کی ملازمت سے الگ ہوئے اور پانچ سال تک علی گڑھ، اٹاوہ اور لاہور میں مختلف ملازمتیں کرتے رہے۔ ۱۹۲۸ء میں انھیں ریاست حیدرآباد دکن میں ملازمت ملی۔ ریٹائرمنٹ (۱۹۲۴ء) تک وہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ ریاست کے مختلف اضلاع میں رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد چار سال تک (۱۹۴۶ء تک) کسی نئی خدمت کی امیدواری میں ان کا قیام شہر حیدرآباد میں رہا۔ ۱۹۰۵ء (لکھنؤ میں آمد) سے اپنی وفات (۱۹۵۹ء) تک اکیاون (۵۱) برسوں میں یگانہؔ تیئیس (۲۳) برس لکھنؤ سے باہر رہے۔ اس طرح لکھنؤ میں ان کے قیام کی مدت ستائیس (۲۷) سال بنتی ہے ‘‘۔۵۹؂

 یگانہؔ کا پہلا مجموعۂ کلام ’نشتر یاس‘ ۱۹۱۴ء میں شائع ہوا اور اس میں بھی غالبؔ پر اعتراضات کی پرچھائیاں ملتی ہیں اور اہلِ لکھنؤ کی مخالفت میں یگانہؔ نے اپنے آپ کو ’خاک پائے آتشؔ‘ لکھا۔ اور ’چراغِ سخن‘ تک آتے آتے وہ ’آتش پرست‘ بن گئے۔۶۰؂ وہ ۱۹۲۳ء تک ’اودھ اخبار‘ کے ’اسسٹنٹ اڈیٹر‘ رہے۔۶۱؂ اہلِ لکھنؤ کی مخالفت کے نتیجے میں یگانہؔ کو یہ ملازمت چھوڑنی پڑ ی۔ ’اودھ اخبار‘ سے الگ ہونے کے بعد وہ ریلوے آفس میں کلرک ہو گئے۔۶۲؂ لیکن کچھ ہی دنوں میں یہ ملازمت چھوڑ دی اور ۱۹۲۴ء میں اٹاوہ چلے گئے ، جہاں وہ اسلامیہ ہائی ا سکول میں ملازم ہو گئے ۶۳؂ اور مارچ ۱۹۲۵ء تک وہ اٹاوہ میں ہی رہے۔۶۴؂ ۱۹۲۶ء میں لاہور آ گئے جہاں اوائل ۱۹۲۷ء تک ’اردو مرکز‘ سے وابستہ رہے۔ لاہور میں مشفق خواجہ کے بقول جولائی ۱۹۲۷ء تک یگانہؔ کا قیام ثابت ہے۔۵۶؂ اس کے بعد یگانہؔ حیدرآباد چلے گئے اور محکمۂ رجسٹریشن کے ناظم (بشیر یار جنگ) نے اپنے محکمے میں نقل نویس مقرر کر دیا۔ اور غالباً ۱۹۳۱ء میں وہ محکمۂ رجسٹریشن میں باقاعدہ ملازم ہو گئے۔۶۶؂ یگانہؔ کا ۱۹۳۳ء میں عثمان آباد سے تبادلہ لاتور ہو گیا جہاں ۱۹۳۷ء تک ٹھہرے اور ۱۹۳۸ء میں ’سیلو‘ چلے گئے اور ۴۲۔۱۹۴۱ء میں ان کا قیام یادگیر میں تھا۔ ۱۹۴۲ء میں ریٹائر ہو گئے اور پھر حیدرآباد کا سفر کیا، جہاں کئی برسوں تک تلاشِ معاش میں سرگرداں رہے۔ حیدرآباد سے واپسی پر مارچ ۱۹۵۰ء میں انھوں نے اپنی بیٹی عامرہ بیگم کی شادی کی۔ ۱۹۵۱ء سے وفات تک کا زمانہ یگانہؔ کی انتہائی کسمپرسی کا زمانہ تھا۔۶۷؂ یگانہؔ نے وفات ۳ اور ۴ فروری ۱۹۶۵ء کی درمیانی رات میں پائی۔۶۸ یگانہؔ کی ’غالب شکن‘ ۱۹۳۴ء میں شائع ہوئی۔ یہ کوئی باضابطہ کتاب نہیں بلکہ پروفیسر مسعود حسن رضوی ادیب کے نام یگانہؔ کا خط ہے ، اس کے صفحہ ۲ پر یگانہؔ یہ مژدہ سناتے ہیں کہ وہ ’’غالبؔ کے شاعرانہ نقائص کی طرف گزشتہ بیس سال کی مدت میں بارہا اشارہ کر چکے ہیں ‘‘۔۶۹؂ یہ خط ۱۹۳۳ء میں لکھا گیا، اس سے پروفیسر نیر مسعود نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ’’غالبؔ پر ان کی تنقیدوں کا آغاز ۱۹۱۳ء سے سمجھا جا سکتا ہے ‘‘۷۰؂ یہ درست ہے۔ اس میں یگانہؔ لکھتے ہیں :’’مجھے کیا ضرورت تھی کہ غالبؔ کے ان عیوب و نقائص کی تشہیر کرتا مگر غالب پرستوں کی کورانہ عقیدت نے تمام شعرائے ماضی و حال کے حقوق چھین کر سب غالبؔ کو دے دیے ہیں ‘‘۔۷۱؂ اس کتاب میں کچھ بیانات ایسے ملتے ہیں ، جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یگانہؔ نے غالبؔ کو سمجھا بھی نہیں تھا۔ اس لیے اس کتاب کی تنقیدی اہمیت بہت نہیں۔ مثلاً یگانہؔ لکھتے ہیں کہ:’خدا بھلا کرے نکتہ چینوں کا جن کے تشدد سے تنگ آ کر آخر عمر میں میر تقی میرؔ کو اپنا امام بنایا‘‘۔۷۲؂

یہ بیان ایک تو اس غلط فہمی کا نتیجہ ہے کہ غالبؔ ابتدا میں صرف مشکل اور پیچیدہ شعر کہتے تھے۔ یہ مسئلہ تحقیق کا سہی، لیکن غالبؔ کے رنگِ سخن کو میرؔ سے مشابہ قرار دینا، یہ تنقیدی شعور کی کمی پر دال ہے۔

 گیان چند جین نے یگانہؔ کو ’پھکڑ باز دشنام گو‘ بتایا ہے اس کے باوجود وہ یہ اعتراف کرتے ہیں کہ:’غالب شکن میں کام کی بات ہے تو چوریاں یا نقالیاں والا باب، جس میں غالبؔ کے متعدد اشعار کو مشاہیر فارسی سے ماخوذ دکھایا گیا ہے۔ بیشتر اشعار کی مشابہت اتنی قریبی ہے کہ اس میں شک نہیں رہتا کہ غالبؔ نے دانستہ خوشہ چینی کی ہے ‘‘۔۷۳؂اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یگانہؔ نے فارسی ادب کا کتنا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ یہ باب (چوریاں ، نقالیاں ) دوسرے اڈیشن میں بڑھایا گیا۔ ڈاکٹر نیر مسعود نے لکھا ہے کہ:

 ’’اس سلسلے میں یگانہؔ کو ان کی تلاش کی داد دی جا سکتی ہے لیکن اسی سلسلے میں ان کی تنقیدی عصبیت اور اس سے پیدا ہونے والی تنقیدی خامیاں اور کمزوریاں بھی کھل کر سامنے آ گئی ہیں۔۔۔ غالبؔ کے شعروں کو مسروقہ مال ثابت کرنے کی دھن میں یگانہؔ موضوع اور مضمون کے فرق کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور اس کا خیال نہیں کرتے کہ کچھ مشترک موضوع ہیں جو ہمارے شعری نظام کی تشکیل کرتے ہیں۔۔۔ دو شاعروں کا کسی ایک موضوع پر طبع آزمائی کرنا سرقہ و توارد کے ذیل میں نہیں آتا۔ دو شاعروں کے مضمون کا لڑ جانا البتہ اس قسم کے سوال پیدا کر سکتا ہے ‘‘۔۷۴؂

اس میں شبہ نہیں کہ یگانہؔ نے مضمون اور موضوع کے فرق کو نظر انداز کر دیا ہے۔ لیکن ہماری تنقید نے موضوع اور مضمون میں فرق کرنا بہت بعد میں سیکھا ہے۔ یگانہؔ کے زمانے میں ان میں تمیز نہیں کی جاتی تھی۔ لہٰذا یگانہؔ کی اس کوتاہی کو عصبیت کہنا درست نہیں ، ہاں ! کہیں کہیں پر ادعائیت البتہ جھلکتی ہے ، مثلاً:

جسے نصیب ہو روز سیاہ میرا سا

وہ شخص دن نہ کہے رات کو تو کیونکر ہو

(غالبؔ)

ز فروغ آفتابم نہ بود خبر کہ بے تو

چود و زلفِ تست یکساں شب و روزم از سیاہی

(عرفیؔ)

اس پر یگانہؔ نے عرفیؔ کو سراہا ہے اور غالبؔ کی گرفت کی ہے اور لکھا ہے :’’کہتے ہیں کہ جس شخص کو غالبؔ کا سا روزِ سیاہ نصیب ہو وہ رات کو دن نہ کہے تو کیونکر بنے ، مگر یہ الٹی گنگا بہائی ہے جسے روز بد روز سیاہ کا سامنا ہو اس کی آنکھوں میں تو روز روشن بھی اندھیرا ہو جاتا ہے ، دن کو رات سمجھنے لگتا ہے۔ نہ یہ کہ رات کو دن کہنے لگے ، اندھیرے کو اجالا سمجھنے لگے ‘‘۔اس پر نیر مسعود نے لکھا ہے کہ:’یہاں بھی یگانہؔ کو شعر کی تنقید میں نثر کی منطق سے کام لیتے دیکھا جا سکتا ہے اور اس منطق کی رو سے عرفی کے شعر پر بھی یہ اعتراض وارد کیا جا سکتا ہے کہ جس شخص کو روزِ روشن تاریک نظر آ رہا ہو اس کی آنکھوں میں رات تو اس تاریک دن سے کہیں زیادہ تاریک ہو جائے گی، لہٰذا اس کے شب و روز کو سیاہی میں یکساں کہنا غلط ہے۔ دراصل غالبؔ اپنی شب و روز کا نہیں اپنے صرف روزِ سیاہ کا ذکر کر رہے ہیں ‘‘۔۷۵؂

 یگانہؔ نے غالبؔ کے شعروں کو فارسی کے جن اشعار سے ماخوذ بتایا ہے ، ان میں کئی کے مصنف کا نام نہیں لیا اور نامعلوم اور لاعلم کے تحت لکھا ہے ، ان کے بارے میں نیر مسعود کی یہ رائے درست معلوم ہوتی ہے کہ:’یگانہؔ خود بھی فارسی کے اچھے شاعر تھے اور اردو شعر کو فارسی کے قالب میں ڈھالنے کی قدرت رکھتے تھے۔۔۔ شبہ کیا جا سکتا ہے کہ انھوں نے غالبؔ کو سارق ثابت کرنے کے جوش میں ان کے شعروں کے مضمون کو خود فارسی میں نظم کر دیا ہو‘‘۔۷۶؂اور اسی کے ساتھ پروفیسر نیر مسعود کا یہ تجزیہ بھی کہ:’’جہاں تک کلامِ غالبؔ کی تنقید کا تعلق ہے ، یگانہؔ کے محاکمے سخت غیر اطمینان بخش اور بہت غلط ثابت ہوئے ہیں۔ انصاف پسندی کے دعووں اور گاہ گاہ غالبؔ کی تعریف کے باوجود عصبیت ان کی تنقید کو بری طرح مجروح کرتی ہے۔ اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہر ممکن طریقے سے غالبؔ کو ایک کمتر درجے کا نقال ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں ‘‘۔۷۷؂ غالب شکن‘ میں یگانہؔ کا اعتماد نہایت قابلِ قدر ہے ، وہ لکھتے ہیں :’ڈاکٹر عبد اللطیف کا یہ قول صحیح نہیں ہے کہ غالبؔ کوئی بڑ ا شاعر نہیں ہے۔ غالبؔ اردو کا بڑ ا شاعر ہے ، اعلا درجہ کا غزل گو ہے۔ ایشیا میں بڑ ا شاعر وہی نہیں جو ملٹن کی فردوس گمشدہ جیسی طویل اور مسلسل (نظم) لکھ ڈالے۔ ایشیائی شاعری میں غزل گوئی کی صنف سب سے زیادہ مشکل، سب سے زیادہ آسان، سب سے زیادہ کارآمد، سب سے زیادہ فضول بھی ہے ‘‘۔۷۸؂

یہاں یگانہؔ کا اعتماد حیرت انگیز ہے۔ ایک عبد اللطیف پر کیا منحصر کہ بیسویں صدی کے ہمارے بڑ ے بڑ ے نقادوں سے یہ چوک ہوئی ہے اور وہ یورپی ادب کے زیر اثر عظمت کو طول طویل نظموں سے مشروط کرتے رہے ہیں۔ جب کہ یگانہؔ نے مشرقی اور مغربی مذاق کے فرق کو پا لیا۔ اگرچہ اس کا تجزیہ پوری طرح نہیں کیا۔ شاید اس لیے کہ وہ جو بات کہہ گئے اس کی اہمیت سے صحیح طور پر واقف نہ تھے۔ یگانہؔ نے لکھا ہے :’یورپ کی ذہنی روشنی میں غالبؔ کو دیکھنا کتنا غلط اور گمراہ کن اصول ہے۔ بھلا یورپ کی فضا سے غالبؔ کے ذہن کو کیا تعلق۔ غالبؔ کی نشو و نما ہندوستانی اور ایرانی لٹریچر کی فضا میں ہوئی۔ فارسی لٹریچر کی روشنی میں غالبؔ کے کلام پر صحیح تنقید ہو سکتی ہے ‘‘۔۷۹؂ یہاں یگانہؔ سے چوک یہ ہوئی ہے کہ ایک تو وہ تنقیدی معیارات کو مشرق و مغرب میں سختی سے تقسیم کر دیتے ہیں اور اس کے کیف و کم کا صحیح شعور نہیں رکھتے۔ اس میں شک نہیں کہ تنقیدی معیارات میں مشرقی اور مغربی ادبی روایت کی رعایت ضروری ہے۔ لیکن انھیں یکسر مختلف ٹھہرانا اور یہ کہنا کہ ’’فارسی لٹریچر کی روشنی میں غالبؔ کے کلام پر۔۔۔۔ الخ‘‘ ایک انتہا پسندی کا جواب دوسری انتہا پسندی سے دینا ہے۔ یگانہؔ کے علم میں یہ بات ضرور رہی ہو گی کہ فارسی تنقید زبان و بیان کی اصطلاحوں سے آگے نہ بڑھ سکی ہے اور وہ غالبؔ جیسے شاعر سے کماحقہ انصاف نہیں کر سکتی۔ ڈاکٹر راہی معصوم رضا نے لکھا ہے : ’’ایشیا میں بڑ ا شاعر وہی نہیں جو ’ملٹن کی فردوس گمشدہ جیسی طویل و مسلسل نظم لکھ ڈالے ، یہ بات عظیم آباد کے ایک مکتبی سے سننے کی توقع کسے ہو سکتی تھی؟ اور پھر غزل کو سب سے زیادہ مشکل سب سے زیادہ آسان سب سے زیادہ کارآمد اور سب سے زیادہ فضول‘ کہہ کر یاسؔ نے بڑی جرأت کا ثبوت دیا‘‘۔۸۰؂

 یہاں پر دو باتوں کی طرف اشارہ ضروری ہے ، ایک تو یہ کہ یگانہؔ کی جرأتِ رندانہ کو امر مسلّم کی حیثیت حاصل رہی ہے ، دوسرے یہ کہ اس زمانے کا عظیم آباد کوئی معمولی شہر نہ تھا بلکہ وہ عظیم آباد تھا جس کے بارے میں کہا گیا ہے :

یہ دھرتی اب بھی گلزار ختن ہے با کمالوں سے

غزال آنکھیں چراتے ہیں عظیم آباد والوں سے

اور پھر یہ بھی ہے کہ ’مبتدی‘ یگانہؔ کو کون کہہ سکتا ہے ؟ اسی طرح ڈاکٹر راہی معصوم رضا کا یہ ایراد بھی فضولِ محض ہے کہ ’’کوئی صنف یا موضوع عظیم نہیں ہوتا‘‘۔ موضوع کی حد تک تو یہ بات درست ہے لیکن صنف کے معاملے میں یہ قطعی طور پر کہنا مشکل ہے۔ اس لیے کہ جو اصناف بالکل معمولی ہوں اور جن میں امکانات ہی نہ ہوں انھیں شاعر کا برتاؤ عظیم نہیں بنا سکتا۔ لہٰذا کسی صنف کو عظیم کہنا ممکن ہو یا نہ ہو ’کمترین‘ کہنا بہرحال ممکن ہے۔ یگانہؔ کی جرأت دیکھنی ہو تو ڈاکٹر راہی معصوم رضا کے مضمون سے یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں :’’یاسؔ کے نزدیک آرٹ کی تین شرطیں ہیں :

۱۔ نسبت صحیح۔ یعنی شاعر جس موضوع پر کہنا چاہتا ہو اس کی صحیح واقفیت رکھتا ہو۔۲۔ خلوص۔ یعنی اس موضوع سے اسے سچی دلچسپی ہو۔ ۳۔ طرزِ ادا۔

یہاں حالیؔ کی تینوں شرطوں کا دور دور پتہ نہیں ہے۔ یہاں نہ سادگی پر زور دیا گیا ہے اور نہ جوش پر اور نہ اصلیت پر۔ یہاں موضوع، ہیئت اور شاعر کی شخصیت پر زور دیا گیا ہے۔ یہاں تعریفوں میں وہ ابہام بھی نہیں جو حالیؔ کے یہاں ملتا ہے ‘‘۔۸۱؂

ان بیانات سے ظاہر ہے کہ یگانہؔ سے غالبؔ کی تعینِ قدر میں غلطی اس لیے نہیں ہوئی کہ وہ غالبؔ کی شاعری کے سچے پارکھ نہیں تھے ، بلکہ اس لیے کہ وہ ردِّ عمل کی شاعری کر رہے تھے۔ وہ غالبؔ کے پردے میں کسی اور کو مطعون کر رہے تھے۔ ان کا ’شہرت کاذبہ‘ میں یہ فرمانا کہ ’’کجا یاس آتش پرست کجا تقلید غالب‘‘ بھی ہمیں غالبؔ ہی کے اس شعر کی یاد دلاتا ہے :آتش پرست کہتے ہیں اہلِ جہاں مجھے سرگرم نالہ ہائے شر ر بار دیکھ کر جس طرح وہاں اہلِ جہاں کی منطق الٹی تھی اسی طرح یہاں یگانہؔ کی منطق الٹی ہے اور یگانہؔ کی جملہ نثری تصانیف کے مطالعے سے جو توقعات بندھتی ہیں ’غالب شکن‘ اس پر پوری نہیں اترتی اور اس کا مجموعی اثر اچھا نہیں پڑ تا۔ یگانہؔ غالبؔ کے دامن کو حریفانہ کھینچتے ہیں اور اس میں برائی بھی نہیں لیکن وہ اپنی تنقید سے بڑ ا کام نہیں لے پاتے اور یہ تنقید انھیں فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچاتی ہے۔ شاید اسی لیے شمس الرحمن فاروقی نے لکھا ہے :’’یگانہؔ نے رباعیوں اور مختصر نثری تحریروں کے ذریعے غالبؔ کو برا بھلا کہنے میں کچھ کمی نہ کی، لیکن ان کی تحریر میں ذاتی تعصب اور احساسِ کمتری کا تیزاب زیادہ تھا، تنقید کا آب زلال کم‘‘۔۸۲؂ یگانہؔ کی ’غالب شکن‘ کا مجموعی تاثر یہی ہے کہ یگانہؔ غالبؔ کو مات دے نہیں رہے بلکہ غالبؔ سے مات کھا رہے ہیں ، جس طرح بڑ ے شاعر سے چھوٹا نقاد مات کھاتا ہے۔ ہاں ! اس کا اتنا فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ وہ بیچ میں کچھ پینترے دکھا لیتا ہے اور اس طرح دوسرے نقادوں کی تصانیف اس کے مزار کا کتبہ بن جاتی ہیں۔

حواشی:

۱؂ خورشید الاسلام: ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری: تنقیدیں ، ۱۹۷۷ء، علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، ص ص۳۳۹، ۳۴۰۔

۲؂ ڈاکٹر سنجیدہ خاتون: بیسویں صدی (نصف اول) کے اردو مصنّفین سوانح آثار مآخذ ۲۰۰۴ء، علی گڑھ: ڈاکٹر سنجیدہ خاتون، ص۲۶۶۔

۳؂ ڈاکٹر سیّد محی الدین قادری زور، عبدالرحمن بجنوری، شاہراہ سالنامہ ۱۹۵۵ء، ص۲۱۸۔

۴؂ گیان چند جین: غالب کے نقاد، مشمولہ رموزِ غالب، فروری ۱۹۷۶، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، ص۳۱۴۔

۵؂ ایضاً، ص۳۱۴۔

۶؂ کلیم الدین احمد: اردو تنقید پر ایک نظر، پٹنہ: بک ایمپوریم، ص۴۶۵۔

~۷؂ حدیقہ بیگم: نقد بجنوری، ۱۹۸۴ء، دہلی: مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، ص۲۳۔

۸؂ ایضاً

۹؂ عبدالرحمن بجنوری: محاسن کلامِ غالب، اپریل ۱۹۵۸ء، علی گڑھ: انجمن ترقی اردو (ہند)، ص۸۔

~۱۰؂ حدیقہ بیگم: نقد بجنوری، ۱۹۸۴ء دہلی: مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، ص۲۵۔

۱۱؂ ایضاً، ص۲۵۔

۱۲؂ ایضاً، ص۲۶۔

۱۳؂ عتیق صدیقی: غالب پر ابوالکلام آزاد کا ایک مقالہ، مشمولہ ’صحیفہ‘ غالب نمبر، جنوری ۱۹۶۹ء، لاہور: مجلس ترقی ادب۔

۱۴؂ ایضاً، ص ص۱۳۸، ۱۳۹۔

۱۵؂ حدیقہ بیگم: نقد بجنوری، نومبر ۱۹۸۴ء، دہلی: مکتبہ جامعہ لمیٹڈ۔

۱۶؂ محی الدین قادری زور: عبدالرحمن بجنوری، شاہراہ سالنامہ، ص۹۱۲۔

۷۱؂ عابد پیشاوری: تنقید غالب کا ایک فقرہ، مشمولہ غالب نامہ، جولائی ۱۹۹۶ء، دہلی: غالب انسٹی ٹیوٹ۔

۱۸؂ ڈاکٹر عبداللطیف: غالب ترجمہ، سیّد معین الدین قریشی، ۲۰۰۲ء، دہلی: غالب انسٹی ٹیوٹ۔

۱۹؂ شیخ محمدا کرام: آثارِ غالب، بمبئی تاج آفس، ص۸۸۔۱۸۷۔

۲۰؂ شیخ محمد ا کرام: حکیم فرزانہ، ۱۹۵۷ء، لاہور: فیروز سنز، ص ص۱۴، ۱۵۔

۲۱؂ محمد حسن: غالب کے چند اہم نقاد، مشمولہ احوال و نقد غالب، جنوری ۱۹۶۷ء، کراچی: نذر سنز، ص۸۲۵۔

۲۲؂ گیان چند جین: غالب کے نقاد، مشمولہ رموز غالب، فروری ۱۹۷۶ء، دہلی: مکتبہ جامعہ لمیٹڈ۔

۲۳؂ خورشید الاسلام: ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری، تنقیدیں ، ۱۹۷۷ء، علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، ص ص۳۳۹، ۳۴۰۔

۲۴؂ ایضاً

۲۵؂ بیخودؔ موہانی: غالب کی شرحوں پر ایک سرسری نظر، گنجینۂ تحقیق، ۱۹۲۷ء، لکھنؤ: یوپی اردو اکادمی، ص۳۔

۲۶؂ سیّد صباح الدین عبدالرحمن: غالب مدح و قدح کی روشنی میں ، مشمولہ بین الاقوامی غالب سمینار، ۱۹۲۴ء، دہلی: صد سالہ یادگارِ غالب کمیٹی، ص۳۱۹۔

۲۷؂ ایضاً، ص۳۱۱۔

۲۸؂ رام بابو سکسینہ: تاریخ ادب اردو، ص ص۳۳۳ تا ۳۳۸۔

۲۹؂ شیخ محمد ا کرام: آثارِ غالب، بمبئی تاج آفس۔

۳۰؂ ایضاً

۳۱؂ وارث علوی: غالب کی شاعری سے متعلق ہمارا تنقیدی رویہ، مشمولہ عرفانِ غالب، ۱۹۷۳ء، علی گڑھ: مسلم یونیورسٹی، ص۱۸۲۔

۳۲؂ شمس الرحمن فاروقی: غالب پر چار تحریریں ، ۲۰۰۱ء، دہلی: غالب انسٹی ٹیوٹ، ص۲۳۔

۳۳؂ خورشید الاسلام: ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری، تنقیدیں ، علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، ص۳۵۳۔

۳۴؂ ایضاً، ص۳۶۳۔

۳۵؂ ایضاً، ص۳۶۳۔

۳۶ مالک رام: تذکرۂ معاصرین (جلد اول)، اپریل ۱۹۷۲ء، نئی دہلی: مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، ص۳۸۲۔

۳۷؂ ایضاً، ص۳۸۳۔

۳۸؂ ایضاً، ص۳۸۳۔

۳۹؂ ایضاً، ص۳۸۳۔

۴۰؂ ایضاً، ص۳۸۴۔

۴۱؂ ایضاً، ص۳۸۴۔

۴۲؂ ایضاً، ص ص۳۸۴، ۳۸۵۔

۴۳؂ ایضاً، ص۳۸۶۔

۴۴؂ ایضاً، ص۳۸۶۔

۴۵؂ ایضاً، ص۳۸۷۔

۴۶؂ ایضاً، ص۳۸۸۔

۴۷؂ ایضاً، ص۳۹۱۔

۴۸؂ سیّد مظفر حسین برنی: پیش لفظ غالب (ترجمہ سیّد معین الدین قریشی)، ۲۰۰۲ء، دہلی: غالب انسٹی ٹیوٹ، ص۱۔

۴۹؂ گیان چند جین: غالب کے نقاد، مشمولہ رموزِ غالب، ۱۹۷۶ء، دہلی: مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، ص ۳۱۷۔

۵۰؂ وارث علوی: غالب کی شاعری سے متعلق ہمارا تنقیدی رویہ، مشمولہ عرفانِ غالب، ۱۹۷۳ء، علی گڑھ: مسلم یونیورسٹی، ص۱۸۵۔

۵۱؂ شمس الرحمن فاروقی: غالب پر چار تحریریں ، ۲۰۰۱ء، دہلی: غالب انسٹی ٹیوٹ، ص۲۶۔

۵۲؂ عبد اللطیف: غالب، ۲۰۰۲ء، دہلی: غالب انسٹی ٹیوٹ، ص ص۱۰، ۱۱۔

۵۳؂ ایضاً، ص۸۸۔

۵۴؂ ایضاً، ص۵۴۔

۵۵؂ ایضاً، ص ص۶۲، ۶۳، ۶۴، ۶۵، ۶۶

۵۶؂ رفاقت علی شاہد: یگانہ کے بارے میں چند حقائق، ارتقا(۲۲)، دسمبر ۱۹۸۸ء، کراچی: ارتقا، ص۱۰۶۔

۵۷؂ نیر مسعود: یگانہ احوال و آثار، ۱۹۹۱ء، دہلی: انجمن ترقی اردو (ہند)، ص۹۴ (یگانہ کی لوح تربت کی تحریر)۔

۵۸؂ مالک رام: میرزا یگانہ چنگیزی، میرزا یگانہ: شخصیت اور فن، ۱۹۹۲ء، علی گڑھ: آصف پبلی کیشنز، ص ص۲۰، ۲۱۔

۵۹؂ رفاقت علی شاہد: یگانہ کے بارے میں چند حقائق، ارتقا(۲۲)، دسمبر ۱۹۹۸ء، کراچی: ارتقا، ص۱۰۹۔

۶۰؂ مشفق خواجہ: کلیاتِ یگانہ، ۳۰۰۲ء، دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، ص۴۸۔

۶۱؂ ایضاً، ص ۵۰۔

۶۲؂ ایضاً، ص ۵۰ ۔

۶۳؂ ایضاً، ص ۵۲۔

۶۴؂ ایضاً، ص ۵۲۔

۶۵؂ ایضاً، ص ۵۴۔

۶۶؂ ایضاً، ص ۵۵۔

۶۷؂ ایضاً، ص ۵۹۔

۶۸؂ ایضاً، ص ۶۴۔

۶۹؂ نیر مسعود: یگانہ اور تنقید کلام غالب، غالب نامہ، ۱۹۹۶ء، دہلی: غالب انسٹی ٹیوٹ، ص۹۱۔

۷۰؂ ایضاً، ص ۹۱۔

۷۱؂ ایضاً، ص ۹۲۔

۷۲؂ ایضاً، ص ۹۳۔

۷۳؂ گیان چند جین: غالب کے نقاد، مشمولہ رموزِ غالب، ۱۹۷۶ء، دہلی: مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، ص۳۱۹۔

۷۴؂ نیر مسعود: یگانہ اور تنقید کلام غالب، غالب نامہ، جولائی ۱۹۹۶ء، دہلی: غالب انسٹی ٹیوٹ، ص ص۹۶، ۹۷۔

۷۵؂ ایضاً، ص ص ۱۰۲، ۱۰۳۔

۷۶؂ ایضاً، ص ۱۰۴۔

۷۷؂ ایضاً، ص ۱۰۳۔

۷۸؂ ڈاکٹر راہی معصوم رضا: یاس عظیم آبادی (فن اور نظریۂ فن)، اردو ادب، جولائی تا ستمبر ۱۹۶۳ء، علی گڑھ: انجمن ترقی اردو (ہند)، ص۱۱۷۔

۷۹؂ ایضاً، ص ۱۱۷ ۔

۸۰؂ ایضاً، ص ۱۱۸۔

۸۱؂ ایضاً، ص ۱۱۹۔

۸۲؂ شمس الرحمن فاروقی: غالب پر چار تحریریں ، ۲۰۱ء، دہلی: غالب انسٹی ٹیوٹ، ص۲۶۔

بابِ سوم

شیخ محمد اکرام مولانا غلام رسول مہرؔ

شوکت سبزواری

شیخ محمد اکرام

 

 شیخ محمد ا کرام ۱۰ ستمبر ۱۹۰۸ء کو پیدا ہوئے۔۱؂ گورنمنٹ کالج لاہور سے ۱۹۳۰ء میں ایم اے کیا اور انڈین سول سروس میں آ گئے ۲؂ اور آکسفورڈ میں اس کی تعلیم اور تربیت پائی، جہاں جرمن زبان بھی سیکھی۔۳؂ ۵ اکتوبر ۱۹۳۳ء کو حکومتِ ہند کی ملازمت میں آئے اور تقرر بمبئی میں ہوا۔۴؂ وہاں مراٹھی زبان سیکھی۔ ۱۹۴۶ء میں وزارت اطلاعات و نشریات کے ڈپٹی سکریٹری ہو گئے۔۵؂ ۱۹۴۷ء میں پاکستان چلے گئے ، جہاں ۱۹۶۶ء میں اسی وزارت سے سبک دوش ہوئے۔ وہ زمانۂ طالب علمی میں کالج کی میگزین ’راوی‘ اور ’بہرۂ اردو‘ کے مدیر بھی رہ چکے تھے ۶؂ اور ہجرت کے بعد ’بابائے اردو نے انجمن کی منتظمہ‘ میں شامل کر لیا تھا۔۷؂ اور ان کی کتابیں چشمۂ کوثر، رودِ کوثر، موجِ کوثر، غالب نامہ اور شبلی نامہ اردو کی نہایت اہم اور مقبول کتابیں ہیں۔ اس کے باوجود ان پر بہت کم لکھا گیا ہے اور جو کچھ لکھا گیا ہے اس میں ایمانداری کم اور تعصب زیادہ ہے۔ مثلاً جلیل قدوائی کے مضمون سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ا کرام اردو کے مصنف تھے لیکن صحیح اردو نہیں لکھ سکتے تھے۔۸؂ حالاں کہ اسی مضمون میں ا کرام کے بارے میں یہ تاثر دینے کے فوراً بعد وہ لکھتے ہیں :’میرے ہاتھ سے کاغذ لے کر اپنے مقدمے کے آخر میں یہ فقرہ بڑھا دیا: ’جلیل قدوائی صاحب سے نظموں کے جمع کرنے میں ہمیں بیش بہا مدد ملی‘ اس کا اظہار بھی ہمارا خوش گوار فرض ہے ‘‘۔۹؂اس سے ظاہر ہے کہ یہ مضمون ’’کذب و افترا کا دفتر‘‘ ہے۔ جو شخص اپنی کتاب کے مقدمے کا ایک صفحہ درست نہیں لکھ سکتا اس سے یہ فقرہ بھی متوقع نہیں اور وہ بھی جلیل قدوائی صاحب کی مدد کے بغیر۔

 شیخ محمد ا کرام کو وفات سے قبل ’’پرائڈ آف پرفارمینس کا اعزاز عطا‘‘ کیا گیا اور ’’پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے انھیں اعزازی ڈگری بھی مل گئی تھی‘‘۔۱۰؂ ان کی وفات ۱۷ جولائی ۱۹۷۳ء کو لاہور میں ہوئی۔

 غالب تنقید میں شیخ محمد ا کرام ایک خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کی کتابیں اس سلسلے کی مقبول اور مستند کتابیں تسلیم کی گئی ہیں۔ ان کی کتاب ’غالب نامہ‘ ۱۹۳۶ء میں شائع ہوئی۔ علی جواد زیدی نے لکھا ہے :

’’شیخ محمد ا کرام کی تالیفی، تحقیقی اور تنقیدی صلاحیتوں کی نمود غالبیات ہی سے ہوئی۔ حالیؔ کی ’یادگار غالب‘ ۱۸۹۷ء) کے بعد ’غالب نامہ‘ پہلی کتاب ہے جو حیاتِ غالب کو نئے بسط و شرح کے ساتھ موضوعِ گفتگو بناتی ہے۔ جہاں تک تنقید کا تعلق ہے ، بجنوری کی عقیدت مندانہ افراط کے بعد یہ متوازن نقطۂ نظر اپنانے کی کوشش کرتی ہے ‘‘۔۱۱؂ حکیم فرزانہ کی تمہید میں شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں :’’ہم نے ’غالب نامہ‘ کی پہلی اشاعت کے شروع میں کہا تھا کہ ہم نے اپنی کتاب ڈاکٹر لطیف کی تصنیف غالب کے جواب میں لکھی ہے ، مخالفت میں نہیں۔ لیکن ڈاکٹر لطیف کی کتاب ایک چیلنج تھا غالب کے قدر شناسوں کے لیے۔ ہمارا خیال تھا کہ جدید طرزِ تنقید کے جن اصولوں کی بنا پر ڈاکٹر صاحب نے غالبؔ کو ایک گھٹیا درجے کا شاعر خیال کیا تھا، انہیں اصولوں کے زیادہ صحیح استعمال اور غالبؔ کے کلام سے وسیع تر واقفیت سے بالکل مختلف نتائج برآمد ہو سکتے ہیں ‘‘۔۱۲؂ اور اس میں شک نہیں کہ انھوں نے ان اصولوں کے زیادہ صحیح استعمال کا ثبوت دیا۔ لیکن حالیؔ کی سی افراط سے ان کا مزاج بھی پاک نہیں۔ وہ کلامِ غالبؔ کی تقسیم پانچ ادوار میں کرتے ہیں اور ابتدائی دور کے کلام میں شاعرانہ حسن کے فقدان، آمد کی کمی، آورد اور تصنع اور زبان کی ثقالت کی شکایت کرتے ہیں ۱۳؂ اور دوسرے دور کی خصوصیت ’’نفسیاتِ انسانی کے متعلق شاعر کی معلومات‘‘ کو بتاتے ہیں ، جس پر وہ نفسیاتی ژرف بینی کی ذیلی سرخی قائم کرتے ہیں اور لکھتے ہیں :’فارسی ترکیبیں کم ہیں اور خیالات بھی صاف اور خوشگوار ہیں۔ کلام میں بیدلؔ اور صائبؔ کے بجائے عرفیؔ اور نظیریؔ کا رنگ غالب ہے۔ تشبیہیں نیچرل اور موزوں ہیں اور اظہارِ خیالات میں خلوص بہت نمایاں ہے ‘‘۔۱۴؂

تیسرے دور کو عام طور پر فارسی شاعری کا دور بتایا ہے اور لکھا ہے کہ:’’یہ صحیح ہے کہ مرزا اس زمانے میں گاہے گاہے اردو اشعار کہتے رہے۔۔۔ لیکن۔۔۔ انھوں نے اپنی عمر کے ایک طویل حصے میں اردو سے دانستہ کنارہ کشی اختیار کر رکھی تھی‘‘۔۱۵؂

اور چوتھے دور کو درباری شاعری کا دور بتایا، جس میں ’’لطفِ زبان ندرتِ خیال پر غالب آ گیا ہے ‘‘ وہ لکھتے ہیں :’’اس دور کی بعض غزلوں پر ذوقؔ کا رنگ غالب ہے ، مثلاً ان کی وہ مشہور غزل جس کے مقطع میں بہادر شاہ کے ارادۂ حج کی طرف اشارہ ہے۔ اس غزل کا شاید کوئی شعر ایسا نہیں ہے جسے ذوقؔ نہ لکھ سکتا ہو۔۔۔ اس دور میں اس طرح کی غزلیات، جو معنوی حسن سے بیشتر عاری ہیں اور غالبؔ کے عام معیارِ شاعری پر پوری نہیں اترتیں ، کئی ہیں ‘‘۔۱۶؂

اور اسی کے ساتھ اس دور میں بھی کچھ غزلوں کو نشان زد کیا، جس کے بارے میں وہ لکھتے ہیں :’اس دور کی ایک خصوصیت ایک خاص رنگ کے اشعار کی فراوانی ہے ، جن میں دو مصرعوں کے اندر شاعر نے جہانِ معنی جلوہ گر کیا ہے ، اور اس میں تاسف، تخیل اور تجربے کا اس طرح عطر کھینچا ہے کہ ان سے کاغذ کا دل و دماغ معطر ہوتا ہے ‘‘۔اور ’’زبان کی سلاست اور خیالات کی سادگی‘‘ کے ساتھ شوخی و ظرافت کو ان کی امتیازی خصوصیت بتایا۔ اور پانچویں دور کی ’’بہترین یادگار ان کے اردو خطوط‘‘ کو بتایا۔۱۷؂

 یہاں جس معروضی انداز اور تجزیاتی ذہن کا ثبوت ملتا ہے ، تعجب ہے اس شخص سے یہ جملے بھی یادگار ہیں :’شاہجہاں کا تاج محل اور غالبؔ کی شاعری، فن کی دو مختلف اصناف کے شاہکار ہیں۔ لیکن دونوں کی تہ میں ایک ہی روح کارفرما ہے۔ تخیل کی سربلندی و لطافت، تلاشِ حسن اور فنی پختگی دونوں میں معراج کمال پر ہے ‘‘۔

حیاتِ غالبؔ کا آغاز ان شاندار جملوں سے ہوتا ہے جن میں شاعرانہ لطافت تو بہت ہے ، تنقیدی اور فلسفیانہ صداقت بالکل نہیں۔

 اور اسی لیے میں نے کہا ہے کہ حالیؔ کی سی افراط شیخ محمد ا کرام کے ہاں بھی پائی جاتی ہے۔ وہ ایک طرف تو مرزا کو مغلوں کی نفاست، خوش معاشی اور حبِ دنیا سے متصف بتاتے ہیں۔۱۸؂ اور دوسری طرف وہ کہتے ہیں :’ہندوستان میں اسلامی حکومت نے تہذیب و تمدن کے جس باغ کی آبیاری کی، مرزا اس میں گلِ سر سبد کی حیثیت رکھتے ہیں۔۔۔ غالبؔ وحدت الوجود کے ترجمان تھے ، اقبال وحدت الشہود کے ، ان کے اسلوبِ خیال اور فلسفۂ زندگی میں وہی فرق تھا، جو امام الہند شاہ ولی اللہ اور مجدد الف ثانی کے طریقِ کار میں۔۔۔ ایک میں شانِ جمالی جلوہ گر تھی تو دوسرے میں شانِ جلالی۔ ایک غیر منقسم اسلامی ہندوستان کا ترجمان تھا، دوسرا پاکستان کا معمار‘‘۔۱۹؂ وہ اسی پر بس نہیں کرتے بلکہ یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ:’ایک نئی قوم کی تعمیر کا کام تو فی الحقیقت شاہ ولی اللہ کے وقت سے شروع ہوا تھا۔۔۔ مرزا غالبؔ کا بھی اس تعمیری کام میں حصہ تھا‘‘۔۲۰؂ اس بیان پر علی جواد زیدی کا یہ تبصرہ درست ہے کہ ’یہ دراصل اس حسنِ ظن کا صدقہ ہے جو ا کرام اپنی محبوب ہستیوں کے بارے میں روا رکھتے ہیں ‘‘۔۲۱؂

اور ا کرام کے تمام جدید تنقیدی اصولوں کے دعوے اور تجزیاتی انداز کے باوجود غالبؔ ان کی محبوب ہستی بہرحال ہیں۔ اور ا کرام نے کہیں کہیں ان کی وکالت کا انداز اختیار کر لیا ہے ، جو شاید اس احساس کا زائیدہ ہے کہ وہ ڈاکٹر لطیف کی کتاب کا جواب لکھ رہے ہیں۔

 یہ بھی ہے کہ غالبؔ سے اس حسنِ ظن کے لیے اکیلے ا کرام کی ذات ذمہ دار نہیں ، بلکہ یہ اس عہد کا مشترکہ ورثہ ہے ، جیسا کہ غلام رسول مہرؔ کے اس بیان سے ظاہر ہے :’’جس چراغاں زار کی نظر افروز جگمگاہٹ نے روئے زمینِ ہند کو دریائے نور بنا رکھا تھا حتیٰ کہ تارے بھی زمین پر اُتر آتے تو اس دریائے نور میں بلبلے بننا اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتے ، اسے افسردگی کی ہوائے مخالف بجھا چکی تھی۔ لیکن ایک ٹمٹماتا سا دیا باقی تھا، جس کی جھلک عہدِ گزشتہ کی ضو افشانیاں اور نور باریاں یاد دلا رہی تھی۔ غالبؔ کے صریر خامہ کی نوائے سروش نوا نہ تھی بلکہ اس بربادی کا نوحہ اور اسی تباہی کا مرثیہ تھی‘‘۔۲۲؂ سجاد باقر رضوی نے اس پر مزید اضافہ کر دیا ہے :’’غالبؔ برصغیر کی تقریباً ہزار سالہ تہذیب کا استعارہ ہیں ، ایسا ہی استعارہ جیسا کہ امیر خسرو تھے۔ امیر خسرو کا تعلق دورِ عروج سے تھا، مرزا غالبؔ کا دورِ زوال سے ‘‘۔۲۳؂

 میں یہ نہیں کہتا کہ ان اقتباسات میں غالبؔ کو جو مرتبہ دیا گیا ہے غالبؔ اس کے اہل نہیں تھے۔ میرا اعتراض یہ ہے کہ غالبؔ کی سربلندی کے جو حوالے تخلیق کیے گئے ہیں ، اور جو بنیادیں فراہم کی گئی ہیں ، وہ غلط ہیں اور ان کا تعلق حقیقت سے اتنا نہیں ، جتنا کہ ہمارے حسنِ ظن سے ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ غالبؔ غور و فکر کے عادی تھے اور اس کے نشانات ان کے کلام میں قدم قدم پر ملتے ہیں۔ لیکن اس نہج اور محور پر غور و فکر سے غالبؔ کے مزاج کو کوئی علاقہ نہیں۔ اور پھر جب ہم انھیں مسلم طرزِ فکر کا پابند کر دیتے ہیں اور مسلم تہذیب سے مخصوص کر کے اس کا استعارہ فرض کر لیتے ہیں تو اس سے غالبؔ کا اصل امتیاز، جس کو ہم تشکیک سے یاد کرتے ہیں ، خطرے میں پڑ جاتا ہے۔

 اسی کے ساتھ حالیؔ، غلام رسول مہرؔ، شیخ محمد ا کرام اور سجاد باقر رضوی کے مبہم بیانات کی ایک کمزوری یہ بھی ہے کہ ہم غالبؔ کے دور کو دورِ زوال علمی سطح پر فرض کر لیتے ہیں۔ اور اس میں غالبؔ کی ذات کو مغتنم سمجھنے لگتے ہیں ، جب کہ یہ غلط ہے۔ یہ دور سیاسی طور پر دورِ زوال ضرور ہے ، لیکن علمی سطح پر یہ مغل تہذیب کا زریں دور ہے۔ اس سلسلے میں پروفیسر تنویر احمد علوی کا یہ تبصرہ ملاحظہ فرمائیں :

 ’’اصل میں مولانا حالیؔ اس وقت کی دہلی کے سیاسی زوال اور اقتصادی کم مائیگی کا ذکر کرنا چاہتے ہیں۔ ورنہ جہاں تک علمی کمالات اور ادبی فتوحات کا سوال ہے ، یہ دور خود مغل تاریخ کا ایک اہم عہد ہے۔ اور اس شاندار عہد کے اہلِ علم، اربابِ زہد و ورع اور اصحابِ فکر و فن میں ایسے ایسے منتخب روزگار افراد موجود ہیں کہ ان میں سے ہر فرد گویا اپنی ذات میں ایک انجمن ہے۔۔۔ یہ تھی عہدِ غالبؔ کی دلّی ، جس کی محرابِ زندگی قوسِ قزح کی طرح ہفت رنگ تھی اور جس کے افقی دائرے میں غالبؔ کے فکر و فن کو نمو پذیر ہونے اور فروغ پانے کا موقع ملا‘‘۔۲۴؂ شبیر احمد خاں غوری نے شاہ عبدالعزیز کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس (دہلی) میں اتنے مدارس ہیں کہ کوئی گشت لگائے تو اس کو ہر جگہ کتابیں ہی کتابیں نظر آئیں گی۔ یہ اس عہد کی علمی صورتِ حال تھی، جس کا جواب مغل تاریخ کا کوئی دوسرا دور پیش نہیں کر سکتا۔ تو سیاسی اور اقتصادی بدحالی کا عالم یہ تھا کہ ’’جس جمنا کے کنارے کبھی ہاتھیوں کی لڑائیاں دیکھی جاتی تھیں ، وہاں اب ظلِ سبحانی بٹیروں کی لڑائیاں اور پتنگوں کے معرکے دیکھتے تھے ‘‘۔۲۵؂

  تعجب ہوتا ہے کہ ا کرام جیسا سمجھ دار شخص بھی اس فرق کو محسوس نہیں کرتا یا بیان نہیں کر پاتا۔ ا کرام کا تنقیدی رویہ بنیادی طور پر نفسیاتی ہے ، جس میں تحقیقی احتیاط بھی ظاہر ہے۔ ا کرام سے پہلے اردو میں نفسیاتی تنقید کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ مرزا رسواؔ کے مراسلات میں اس کی ابتدائی شکلیں ملتی ہیں ، جن کی بہت اہمیت نہیں۔ میرا جی کے تجزیوں میں اس کا استعمال بہتر اور عام ہے ، لیکن ان کا سروکار اردو ادب سے کم سے کم ہے۔ بہرحال ا کرام نے نفسیاتی تنقید کے اصولوں پر غالبؔ کی زندگی اور تصانیف کا مطالعہ کرنا چاہا جس کی اہمیت بہرحال ہے حالاں کہ وارث علوی نے غالبؔ کے تعلق سے ہمارے تنقیدی رویوں کا جائزہ لینے کے بعد لکھا کہ:’’اردو میں غالبؔ پر اچھے مضامین تو صرف دو ہی لکھے گئے ہیں۔ ایک حمید احمد خاں کا مضمون ’غالب کی شاعری میں حسن و عشق‘ اور دوسرا آفتاب احمد خاں کا مضمون ’غالب کا غم‘‘۔۲۶؂

ان دونوں مضامین کو دیکھیں تو ان مضمون نگاروں کی قسمت پر رشک آتا ہے کہ انھیں کتنی کم محنت پر کتنی بڑی اجرت ملی ہے۔ اور تعجب ہوتا ہے کہ وارث علوی نے ایسی مبالغہ آمیز تعریف کی ہے۔ بلکہ اپنی اس رائے کا اعادہ ’حالی، مقدمہ اور ہم‘ میں بھی کیا جو ۱۹۸۳ء میں شائع ہوئی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وارث علوی نے اپنی ترنگ میں یہ فقرہ نہیں کہا، اور اپنی اس رائے پر اب بھی قائم ہیں۔ یہ دونوں مضامین جن کا ایسا شاندار خیرمقدم وارث علوی نے کیا، نہایت سطحی قسم کے ہیں۔

 شیخ محمد ا کرام نے ’غالب نامہ‘ میں غالبؔ کے اردو اور فارسی کلام کا طویل انتخاب تاریخی ترتیب سے پیش کیا اور اس پر تقریباً ڈیڑھ سو صفحے کا مقدمہ لکھا، جس میں مرزا کے حالاتِ زندگی اور نظم و نثر اور شخصیت پر تبصرہ تھا۔ اس کے بعد ’آثارِ غالب‘ لکھی، جس پر ذیلی سرخی یہ قائم کی:’مرزا اسداللہ خاں غالبؔ کی زندگی اور تصانیف کا مطالعہ جدید علم نفسیات اور فنِ تنقید کی روشنی میں ‘‘۔

اس کو تذکرہ اور تبصرہ دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ تذکرہ ۱۸۰ صفحات کو محیط ہے ، جس کا آغاز اس شاندار شاعرانہ استعجاب سے ہوتا ہے :’مغلوں کے جاہ و جلال کا اصل گہوارہ شاہ جہاں آباد تھا لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ نہ صرف ان کے فنِ تعمیر کا شاہکار اکبرآباد میں ہے بلکہ ان کے سب سے بڑ ے شاعر اور ان کی تہذیب و تمدن کے بہترین ترجمان کا مولد بھی وہی بلدۂ حسن و شعر ہے ‘‘۔۲۷؂

اور اس کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ ’’مرزا غالبؔ خود مغل تھے ‘‘ اور پھر مکمل حالات ایک خاص ترتیب سے درج کرتے ہیں۔ اس کے بعد دوسرا حصہ یعنی تبصرہ شروع ہوتا ہے ، جو تین ذیلی سرخیوں میں تقسیم ہے۔ پہلی سرخی ’’غالب کے تذکرہ نگار‘‘ ہے ، جس کے تحت پہلے ’یادگارِ غالب‘ کا جائزہ لیا ہے۔ اس میں ا کرام کا لب و لہجہ دفاعی نوعیت کا ہے۔ وہ حالیؔ کی کوتاہیوں کی تاویل پیش کرتے ہیں۔ یہ خصوصاً اس وقت ناگوار معلوم ہوتا ہے جب وہ حالیؔ کی پردہ داری کا جواز ہندوستانی ماحول میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور حالیؔ کے اس بیان کی مدد سے کہ:’’جہاں ہیرو کے ایک عیب یا خطا کا معلوم ہونا اس کی تمام خوبیوں اور فضیلتوں پر پانی پھیر دیتا ہے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ کسی کی بایوگرافی کرٹیکل طریقے سے لکھی جائے ‘‘۔وہ یہ لکھتے ہیں کہ:’جن حالات میں ’یادگارِ غالب‘ لکھی گئی، ان کا خیال کرتے ہوئے حالیؔ کا طریقِ کار ہی صحیح معلوم ہوتا ہے ‘‘۔

یہ انداز تنقید کا نہیں ، وکالت کا ہے۔ حالیؔ نے جس انسانی کمزوری کا ذکر کیا ہے ، وہ ہندوستانی معاشرے سے مخصوص نہیں۔ اس کے باوجود کرٹیکل بایوگرافی دوسری زبانوں میں لکھی جاتی رہی ہے۔ ’یادگار‘ کے تنقیدی حصے کے تعلق سے وہ حالیؔ کی عاجزی اور سلامت روی کو خصوصیت سے سراہتے ہیں۔ پھر محاسنِ کلامِ غالبؔ کو ’یادگار‘ کے بعد سب سے اہم کتاب بتاتے ہیں۔ وہ یہ اعتراف کرتے ہیں کہ:’جہاں تک سوانحی حالات کا تعلق ہے ابھی تک حالیؔ سے آگے کوئی نہیں بڑھا۔۔۔ تنقیدی نقطۂ نظر سے بھی مرزا کی اردو نثر اور فارسی نظم و نثر پر کوئی تبصرہ یادگار سے بہتر آج تک شائع نہیں ہوا۔ البتہ ان کے اردو کلام کے متعلق بہت کچھ لکھا جا چکا ہے ‘‘۔

اور بجنوری اور لطیف کی کتابوں پر تبصرہ کیا، جس میں بجنوری کی محاسنِ کلامِ غالب کو ’اردو کی ایک قابلِ ذکر تصنیف‘ بتایا:’’ایک تو طرزِ تحریر اور زورِ عبارت کے نقطۂ نظر سے اور دوسرے کلامِ غالب کے کئی پہلوؤں پر جو تبصرہ انھوں نے کیا ہے ، وہ وسیع مطالعہ اور غور و خوض پر مبنی معلوم ہوتا ہے ‘‘۔اور پھر ڈاکٹر لطیف کی کتاب کے بارے میں کہتے ہیں کہ:’کلامِ غالب کا مطالعہ جن اصولوں پر انھوں نے کیا ہے ، وہ شاید ضرورت سے زیادہ کڑے ہیں۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ انھوں نے یہ کتاب لکھ کر اردو ادب پر بڑ ا احسان کیا ہے ایک تو غالبؔ کے متعلق اندھی خوش اعتقادی کا جو سیلاب بہا آتا تھا اسے انھوں نے روکا اور ’الہلال‘ کے اجرا کے بعد جو جذباتی طرزِ تحریر اور طرزِ تنقید اردو میں عام ہو گیا تھا اس کی اصلاح کی کوشش کی‘‘۔

اس کے بعد کلامِ غالب کی خصوصیات کا جائزہ لیا۔ جس میں غالبؔ کی تشبیہیں اور استعارے خصوصیت سے زیر بحث آئے۔ اس کے بعد غالبؔ کی شاعری کو پانچ ادوار میں تقسیم کیا، جس کا ذکر پہلے آ چکا ہے۔ پہلے اور دوسرے ادوار کے درمیان وہ بادۂ نیم رس کی سرخی قائم کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ:’’مرزا نے جس طریقے سے اپنا اسلوبِ شاعری بدلا اس کا اندازہ اس امر سے ہو سکتا ہے کہ ذیل کے مطلعوں والی غزلیں اور اپنا اردو کا بہترین قصیدہ وہ پچیس برس کی عمر سے پہلے لکھ چکے تھے :حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد    بارے آرام سے ہیں اہلِ جفا میرے بعد، آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک    کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک،  بساط عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی   سو رہتا ہے بانداز چکیدن سرنگوں وہ بھی،  درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے    کیا ہوئی ظالم تری غفلت شعاری ہائے ہائے   نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلی نہ سہی،  امتحاں اور بھی باقی ہیں تو یہ بھی نہ سہی،  جب تک دہانِ زخم نہ پیدا کرے کوئی   مشکل کہ تجھ سے راہِ سخن وا کرے کوئی،   آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے     ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے ‘‘۲۸؂ ا کرام کا یہ تجزیہ غالب تنقید میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے پہلے عام طور پر یہ تسلیم کیا جاتا تھا کہ غالبؔ نے ابتدا میں مشکل گوئی کو ہی اپنا شعار بنایا اور جو صاف شعر ہیں وہ آخری زمانے کے ہیں۔ جب مرزا نے دوستوں کے مشورے اور طعنوں سے مجبور ہو کر میر تقی میرؔ کو اپنا امام بنایا۔ یہ تجزیہ اس مفروضے کو رد کر دیتا ہے۔ ا کرام نے پانچوں ادوار کی خصوصیات تقریباً متعین کر دی ہیں ، جن پر اب تک کسی نے اضافہ نہیں کیا۔ پانچویں دور کی بہترین یادگار غالب کے اردو خطوط کو بتایا اور غالبؔ کے اردو خطوط کا جائزہ لیا اور ان خطوط کی خصوصیات پر مدلل گفتگو کی۔ وہ لکھتے ہیں :’’زبان اور ادب کی اس ترقی کے باوجود کہنا پڑ تا ہے کہ مرزا جیسا انشا پرداز، جو روزمرہ کے معمولی واقعات کو اس خوبی اور صفائی سے بیان کرے۔۔۔ ابھی تک پیدا نہیں ہوا‘‘۔

وہ خالص انشاپردازانہ نقطۂ نظر سے مولانا محمد حسین آزاد کا مرتبہ سب سے بلند تسلیم کرتے ہیں اور غالبؔ کا موازنہ آزادؔ سے کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ:’آبِ حیات کی دلچسپی اور دلآویزی ’اردوئے معلّیٰ‘ سے زیادہ ہے۔ تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ بطور ایک انشا پرداز کے غالبؔ کا پلّہ آزادؔ سے ہلکا ہے ، بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ ’اردوئے معلیٰ‘ روزمرہ کے معمولی واقعات کا بیان ہے اور ’آبِ حیات‘ کا موضوع ہی ایسا شگفتہ اور دل پسند تھا کہ اسے دلچسپ بنانا بہت مشکل نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔ اپنی کتاب کو دلچسپ بنانے کے لیے آزادؔ نے واقعات کی صحت کا خاص خیال نہ رکھا۔۔۔ بعض ایسے واقعات بھی بڑھائے جن کی تصدیق کسی تاریخی کتب سے نہیں ہوتی اور بعض اہلِ تحقیق کے خیال میں مصنف کے اپنے نگار خانۂ دماغ کی تخلیق ہیں۔ مرزا غالبؔ کے خطوط میں اس قصہ آفرینی اور مصنوعی دلچسپی کی گنجائش نہ تھی۔ انھیں اپنے گرد و پیش کے عام واقعات میں رنگ بھرنا تھا اور یہ ان کی انشاپردازی کا کمال ہے ، کہ حقیقت سے روگردانی کیے بغیر انھوں نے ان واقعات کو اس آب و تاب سے بیان کیا ہے کہ دلچسپی اور نشاط انگیزی میں ’اردوئے معلی‘، ’آبِ حیات‘ سے بہت نیچے نہیں ، اس کے علاوہ طرزِ تحریر کا فرق ہے۔ آزادؔ کی تحریر میں تصنع ہے ، آورد ہے۔ مرزا کی تحریر کی طرح سرسری اور سادہ نہیں ‘‘۔۲۹؂ اس کے بعد وہ مولانا غلام رسول مہرؔ کا اقتباس نقل کرتے ہیں ، جس میں ابوالکلام آزادؔ کے مکاتیب کا موازنہ غالبؔ کے خطوط سے کیا گیا ہے اور یہ رائے ظاہر کی گئی ہے کہ:’مولانا کے مکاتیب میں مزید دلچسپی اور افادہ کا پہلو یہ ہے کہ ان کا دائرۂ علم و فضل غالبؔ کے مقابلے میں بہت وسیع ہے ‘‘۔ اکرام پہلے تو یہ بتاتے ہیں کہ:’یہ خطوط چھپ کر شائع نہیں ہوئے ، اس لیے ان کی انھیں نثروں کے متعلق کوئی رائے قائم کی جا سکتی ہے جو زیورِ طبع سے آراستہ ہو گئی ہیں ‘‘۔

اور پھر مولانا آزاد کے مختلف اسالیب نثر کا جائزہ لیتے ہیں اور اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ:’’اس میں کوئی ایسی امتیازی شان نہیں کہ اسے مرزا کی نثر کے مقابل میں پیش کیا جا سکے۔ قصہ کوتاہ مولانا ابوالکلام آزادؔ کا عام رنگ مرزا کی نثر سے اس قدر مختلف ہے کہ ان دونوں کا صحیح طور پر مقابلہ مشکل ہے۔ اور بہرکیف مولانا کی نثر کو مرزا کی نثر کے ہم پایہ نہیں کہا جا سکتا، کیوں کہ اگرچہ اس میں ایک دو ایسی خصوصیتیں ہیں ، جو مرزا کی تحریر میں نہیں ، لیکن اس میں کئی ایسے اہم اور بنیادی نقائص ہیں جن سے مرزا کی نثر پاک ہے ‘‘۔۳۰؂ اس کے بعد وہ ’غالبؔ کی مقبولیت کے اسباب‘ کے تحت لکھتے ہیں :’کلامِ غالبؔ کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ اس کا حیرت انگیز تنوع ہے ‘‘۔غالبؔ کی عشقیہ شاعری کو رسمی اور شخصی جذبات سے عاری بتاتے ہیں جس کی حیثیت ذہنی مشق کی ہے ’’لیکن خیال بندی اور مبالغہ یا شوخی سے نئے مضامین پیدا کیے گئے ہیں ‘‘۔ اس حصے کا سب سے جاندار مطالعہ وہ ہے جو ’غالب کا فلسفہ‘ کے تحت پیش کیا گیا ہے۔ وہ عام غالب شناسوں کی ڈگر سے ہٹ کر پوری معروضیت سے یہ جائزہ لیتے ہیں اور لکھتے ہیں :

 ’’ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہر بڑ ا شاعر زندگی پر اثر ڈالتا ہے اور انتہائی شاعرانہ عظمت کا معیار انسانی زندگی کو بدلنے کی قابلیت ہے۔ لیکن اثر اندازی کے لیے یہ ضروری نہیں کہ شاعر کسی معین فلسفۂ زندگی یا پیغام کا حامل بھی ہو، یہی نہیں بلکہ دنیائے شعر میں انتہائی عظمت اکثر انہی لوگوں نے حاصل کی ہے ، جنھوں نے انسانی عقائد اور زندگی کے معین فلسفوں کو تو نہیں چھوا، لیکن اپنے کلام میں تخیل کی تربیت اور روح کی نشو و نما کا ایسا سامان چھوڑ ا ہے جس سے انسانی فطرت میں ایک انقلاب پیدا ہوتا ہے۔ شیکسپیئر اور غالبؔ دونوں اسی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ‘‘۔۳۱؂

اس اقتباس میں دو چیزیں قابلِ اعتراض ہیں۔ اول انتہائی شاعرانہ عظمت کا معیار، جو ا کرام پیش کرتے ہیں ، وہ مثالی ہے۔ اور حقیقی زندگی میں اس کی رو سے دیکھیں تو شاید ایک شاعر ایسا نہ نکلے جس نے یہ انتہائی شاعرانہ عظمت حاصل کی ہو۔ دوم یہ کہ غالبؔ کا شیکسپیئر سے موازنہ بے بنیاد ہے۔ وہ کلامِ غالب کا جزوِ غالب غم کو بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ:’غالب کے اشعار میں حزن و افسردگی کی جھلک ہے ، لیکن غالبؔ کی افسردگی عام قنوطیوں کی طرح دنیا کی مذمت کے باعث نہیں ، بلکہ دنیا کی دلفریب چیزوں سے لگاؤ کی وجہ سے ہے۔۔۔ یہ حزن و افسردگی اس آدمی کی ہے جو زندگی کی قدر و قیمت پہچانتا ہے ‘‘۔۳۲؂

اس کے بعد غالبؔ کے مذہب سے بحث ہے ، جو نتیجہ خیز نہیں۔ اس کے بعد غالبؔ کا موازنہ، میرؔ، مومنؔ سے اور پھر خسروؔ، فیضیؔ اور اقبالؔ سے کیا ہے۔ اس تقابل و تجزیہ میں جس ژرف بینی کا ثبوت دیا گیا ہے وہ حیرت انگیز ہے۔ اور تعجب ہوتا ہے شمس الرحمن فاروقی کی اس رائے پر کہ:’’شیخ محمد ا کرام اور ان کے بعد خورشید الاسلام اور رالف رسل کی وسیع و عریض کتاب Ghalib, life and Letters (اول اڈیشن ۱۹۶۹ء) میں یہ کمزوری مشترک ہے کہ یہ تینوں حضرات کلاسیکی غزل کی شعریات سے بڑی حد تک نابلد ہیں۔ لہٰذا ان کے لیے شاعری اور سوانح میں فرق کرنا بعض اوقات مشکل ہو جاتا ہے ‘‘۔۳۳؂

اس میں شبہ نہیں کہ ا کرام نے بھی بعض اوقات شاعری اور سوانح کے فرق کو نظر انداز کر دیا ہے لیکن یہ کلاسیکی شعریات سے ناواقفیت کا نتیجہ نہیں۔ کم از کم ا کرام کی حد تک یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ا کرام کی غالبؔ سے عقیدت ہے ، جو انھیں افراط کا شکار بنا دیتی ہے۔

  مغلیہ تہذیب و تمدن کا ترجمان کے تحت اس اجمال کی تفصیل بیان کی ہے ، جس سے اس کتاب کا آغاز ہوتا ہے۔ انھوں نے غالبؔ کے مغل اور مغلیہ سلطنت کا ترجمان ہونے پر بس نہیں کیا، بلکہ انھیں مغلوں کی نسلی خصوصیات سے بھی متصف بتایا۔ ا کرام کا یہ مطالعہ اس لحاظ سے تو نتیجہ خیز بہرحال ہے کہ غالبؔ کی مغل دربار سے وابستگی اور شیفتگی کو تہذیبی سیاق و سباق میں جس طرح دیکھا جاتا تھا، اس کی تردید ہو گئی ہے اور عام طور پر یہ تسلیم کیا جانے لگا کہ مغل جس نفاست پسندی، عیش کوشی اور ہموار طبعی کے قائل ہوتے ہیں ، غالبؔ ان اقدار کے بہترین ترجمان تھے۔ خواجہ احمد فاروقی نے بھی لکھا کہ:’قدیم ترکوں میں ایک قسم کی دنیاداری، عقل معاش، عیش پسندی اور پرکاری بھی ملتی ہے۔۔۔ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے وہ کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھتے۔۔۔ غالبؔ مغل تھے۔۔۔ ان کی رگوں میں وہی خون موجزن تھا جو مغل بادشاہوں کی رگوں میں تھا، ان ہی لوگوں کی طرح ان کو زندگی کی اچھی چیزوں سے محبت تھی۔ اچھا کھانا، اچھا پینا، اچھا رہن سہن‘‘۔۳۴؂

لیکن اس سے یہ نقصان بھی ہوا کہ غالبؔ کو تمام تہذیبی اقدار سے بیگانہ کر کے دیکھنے کی کوشش کی گئی۔ یہ غالب تنقید کے دو انتہائی سرے تھے اور پہلی قسم کے نقادوں سے جہاں چوک یہ ہوئی کہ تہذیبی معنویت کی تلاش میں وہ بھول گئے کہ غالبؔ انسان بھی تھے اور ان کے ردِّ عمل کی نوعیت شخصی بھی ہو سکتی ہے ، جس کو لازماً تہذیبی اقدار سے نہیں جوڑ نا چاہیے۔ دوسری قسم کے نقاد یہ بھول گئے کہ غالبؔ کی اسی محبت محرومی اور حسرت کی داستان غالبؔ کی زندگی اور شاعری ہے۔ اور اسی نے نظم و نثر کا وہ نگارخانہ سجایا ہے ، جس کے سروکار گو شخصی اور ذاتی ہی سہی، لیکن اس کے ڈانڈے ہماری تہذیب اور طرزِ معاشرت سے بھی مل جاتے ہیں اور یہ ہماری تہذیب کا گراں قدر حصہ بھی ہے۔ بہرحال شیخ محمد ا کرام غالبؔ کو مغلوں کی جملہ نسلی خصوصیات سے متصف بتاتے ہیں۔ وہ غالبؔ کو ’’مغلیہ تہذیب و تمدن کا بہترین ترجمان‘‘ بتاتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ:’’مغل مادی چیزوں کی اہمیت سے پوری طرح واقف تھے۔ اور ان کا اس معاملے میں وہی نقطۂ نظر ہو سکتا تھا، جو ان کے ترک ہم قوموں (مثلاً مصطفی کمال پاشا) کا آج تک ہے ‘‘۔

اور مغلیہ تہذیب کے عناصر ترکیبی میں ایک قسم کی نا وابستگی کو خصوصی اہمیت دی ہے۔ یہاں پر یہ اعتراض البتہ کیا جا سکتا ہے کہ شیخ محمد ا کرام نے لفظ تہذیب کو حد سے زیادہ محدود کر دیا ہے۔ بہرحال ا کرام نے بتایا کہ:’مرزا کی اپنی ذات میں وہ ذہنی خصوصیات موجود تھیں ، جس سے اس قوم کے بہترین افراد متصف تھے ‘‘۔۳۵؂ آفتاب احمد خاں کے حوالے سے علی جواد زیدی نے لکھا ہے کہ:’’نسلی تحقیق سے معاملہ خواہ مخواہ الجھ جاتا ہے ‘‘۔ یہ درست، لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ماننا پڑ تا ہے کہ:

 ’’بجنوری و لطیف کی یک رخی تنقید میں توازن لانے کی پہلی سنجیدہ کوشش ا کرام ہی نے کی‘‘۔۳۶؂

اور یہ بھی کہ:’آثارِ غالب۔۔۔ اپنے زمانے کی اکثر انگریزی سوانح عمریوں سے بھی زیادہ صاف گو ہے اور یہ بڑی بات ہے ‘‘۔۳۷؂ شیخ محمد ا کرام کی اس کتاب کے کئی اڈیشن شائع ہوئے اور ہر ایک میں ترمیم و اضافہ کا عمل جاری رہا۔ اس کا چوتھا اڈیشن اس سلسلے میں خصوصیت سے قابلِ ذکر ہے ، جو حکیم فرزانہ کے نام سے ۱۹۵۷ء میں شائع ہوا ہے۔ اس سلسلے میں ا کرام کی تمہید سے یہ طویل اقتباس نقل کیا جاتا ہے ، وہ لکھتے ہیں کہ:

’’موجودہ اشاعت میں بھی اضافے ہوئے ہیں۔ لیکن ان سے بھی اہم زاویۂ نگاہ کی ایک بنیادی تبدیلی ہے۔ جب ’غالب نامہ‘ پہلی مرتبہ شائع ہوا تو علامہ اقبال زندہ تھے۔ انھوں نے راقم السطور کے نام ایک خط میں کتاب کے متعلق ہمت افزا کلمات تحریر کیے۔ لیکن ساتھ ہی غالبؔ کی پیرویِ بیدلؔ کے متعلق جو تنقیدی اظہارِ خیال تھا۔ اس سے اختلاف کیا۔ ان ارشادات کے پیش نظر ہم نے کلیاتِ بیدلؔ کو ایک بار پھر دیکھا، مگر بیدلؔ کے صحیح مقام کا ہمیں پھر بھی اندازہ نہ ہوا اور ہم نے اپنے نقطۂ نظر میں تبدیلی کی ضرورت محسوس نہ کی۔ لیکن آج سے تین چار سال پہلے جب ہم نے ارمغانِ پاک کو دوسری اشاعت کے لیے ترتیب دیا اور اپنا طویل مقدمہ لکھتے وقت ہندوستان کی فارسی شاعری میں بیدل کا مقام متعین کرنے کی کوشش کی تو ہمیں اس وقت بیدل کی خوبیوں کا بہترین اندازہ ہوا اور ہم نے اس کے متعلق لکھا ’’اس کی خاص وجہ امتیاز یہ ہے (اور اسی وجہ سے اہلِ ترکستان و افغانستان مثل مولوی روم کے بھی اس کی تعظیم کرتے ہیں ) کہ اس نے شعر کو مجاز اور ظاہری اور عارضی باتوں سے ہٹا کر زندگی کی عمیق حقیقتوں کی طرف پھیرنا چاہا اور اپنے اشعار کو حقائق و معارف کا آئینہ بنایا‘‘ بیدل کے مقام کے صحیح اندازہ کے ساتھ غالبؔ کے دقیق اور دماغی اشعار (رنگِ بیدلؔ) کے متعلق بھی ہمارا نقطۂ نظر بدل گیا۔ اور کلامِ غالبؔ کے فکری پہلوؤں کی اہمیت ہماری نظروں میں بڑھ گئی۔ اب ہمارے نزدیک مرزا کی شاعرانہ شخصیت کا اصل اندازہ اس وقت ہوتا ہے۔ اگر انھیں بیدل کا جانشین سمجھیں۔۔۔ بالآخر انھوں نے رنگ بیدل چھوڑ کر عرفی و نظیری کا طرزِ تحریر اختیار کیا۔ لیکن جو حکیمانہ اسلوب خیال راسخ ہو گیا تھا، وہ برقرار رہا‘‘۔۳۸؂

چناں چہ اس میں ا کرام نے فارسی شاعری پر خصوصی توجہ دی ہے ، جیسا کہ ان کے اس بیان سے بھی ظاہر ہے کہ ’’اس ضمن میں غالبؔ کے فارسی کلام کی بڑی اہمیت تھی (جسے بجنوری اور لطیف دونوں نے یکسر نظر انداز کر دیا تھا)‘‘ اور فلسفۂ غالبؔ کا مطالعہ نئے سرے سے کیا۔ اور کتاب کے شروع میں ایک جائزہ ’’غالبؔ اور اردو تنقید نگاری‘‘ کا لیا ہے ، جو اصل میں مقدمے کا دوسرا حصہ ہے اور تیسرا حصہ حکیم فرزانہ کے عنوان سے ہے۔

 اس میں بیدلؔ اور غالبؔ کی سرخی قائم کر کے بیدل سے غالبؔ کی اثر پذیری کا جائزہ لیا، جس کا آغاز ہی اس شاندار جملے سے ہوتا ہے کہ ’’بالآخر غالبؔ کی شاعری نے جو صورت اختیار کی، اس میں قوسِ قزح کی طرح بیدل، ظہوری، صائب، عرفی، نظیری سب کا رنگ شامل ہے اور ان تمام اثرات پر مرزا کی اپنی متنوع شخصیت کا پرتو غالب ہے ‘‘۔۳۹؂ حکیم فرزانہ کا یہ حصہ جو غالب اور تنقید نگار کی سرخی کے تحت لکھا گیا ہے ، کئی لحاظ سے اہم ہے۔ گو اس کے بعض حصوں سے اختلاف کی گنجائش بھی موجود ہے۔ اس حصے میں غالب تنقید کا اجمالی خاکہ کھینچا گیا ہے۔ گزشتہ صفحات میں جناب شمس الرحمن فاروقی کے اس اعتراض سے بحث کی جا چکی ہے کہ ’’شیخ محمد ا کرام اور ان کے بعد خورشید الاسلام اور رالف رسل۔۔۔ تینوں حضرات کلاسیکی غزل کی شعریات سے بڑی حد تک نابلد ہیں ‘‘۔ اس حصے میں کئی بیانات ایسے موجود ہیں ، جن سے اس کی تردید ہو جاتی ہے۔ مثلاً ا کرام لکھتے ہیں کہ ’’قدیم ادب کا ایک مسلمہ اصول تھا کہ غزل گو شاعروں کے بیان سے اس کے ذاتی کردار کی نسبت کوئی نتیجہ اخذ نہ ہو سکتا تھا۔۔۔ قدیم غزل میں زندگی اور فن کے درمیان مسلمہ بے تعلقی تھی‘‘ وغیرہ ان بیانات سے صاف ظاہر ہے کہ ا کرام جانتے تھے کلاسیکی غزل کی شعریات میں شاعری اور سوانح کی حدود جداگانہ ہیں۔ اب یہ اعتراض البتہ کیا جا سکتا ہے کہ غالبؔ کے سلسلے میں انھوں نے اس اصول میں اتنی لچک پیدا کر لی ہے کہ شاعری اور سوانح کا فرق واضح نہیں رہ گیا ہے۔

  پروفیسر کلیم الدین احمد کی تنقید کا ذکر جس لہجے میں کرتے ہیں اس سے جھنجھلاہٹ ظاہر ہے اور ا کرام یہاں غیر متعلق نکات پر تبصرہ کر کے گزر جاتے ہیں۔ مثلاً کلیم الدین احمد نے غالبؔ کے بارے میں کیا لکھا، اس سے بحث نہیں کرتے اور ان کی بت شکنی اور انتہا پسندی پر پھبتی کستے ہوئے گزر جاتے ہیں اور ڈاکٹر وحید قریشی کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’جو اندازِ خیال ڈاکٹر لطیف اور پروفیسر کلیم الدین احمد سے منسوب کیا جاتا تھا۔ اس کے موجودہ ترجمان لاہور کے ڈاکٹر وحید قریشی ہیں ‘‘۔ اس بیان سے محسوس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر لطیف اور پروفیسر کلیم الدین احمد ایک ہی قبیل کے نقاد ہیں جب کہ دونوں میں کوئی چیز مشترک نہیں۔ اسی طرح ا کرام کی معصومیت اس بیان سے بھی جھلکتی ہے :’’پروفیسر احتشام حسین کو مغربی ادب اور فن تنقید سے جو وسیع واقفیت ہے وہ یقینا ڈاکٹر لطیف کو نہ تھی اور شاید پروفیسر کلیم الدین احمد کو بھی نہیں ‘‘۔۴۰؂

پروفیسر احتشام حسین کا پروفیسر کلیم الدین احمد سے کیا موازنہ؟ پروفیسر احتشام حسین کی اردو ادب سے وسیع واقفیت مشکوک ہے ، جس کا اندازہ غالبؔ پر ان کے مضامین اور ’’اردو ادب کی تنقیدی تاریخ‘‘ کے سرسری مطالعے سے ممکن ہے۔ اور ا کرام کو اس کا علم ضرور رہا ہو گا اور ان کا یہ نعرۂ مستانہ ’’بغض معاویہ‘‘ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ ترقی پسند نقادوں سے بھی وہ عام طور پر غیر مطمئن ہیں اور اس سلسلے کے کئی بیانات بھی خاصے بحث طلب ہیں۔ ان پر حالیؔ کا گہرا اثر ہے۔ وہ اپنے طریقِ کار کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’ہمارے خیال میں نقاد کا پہلا کام احتساب نہیں ، ترجمانی ہے۔ ہمارا اولین مقصد یہ نہیں کہ شاعر اور اس کے کلام کو کسی خارجی کسوٹی پر کسیں۔ بلکہ ہماری سب سے بڑی آرزو یہ ہے کہ شاعر کو، اس کے اندازِ طبیعت کو، اس کے اسلوبِ خیال اور اسلوبِ بیان کو سمجھ سکیں اور پھر یہ دیکھیں کہ ان میں فی نفسہٖ کون سی خوبی ہے۔ ہماری نظر زیادہ تر مشابہتوں اور مثبت پہلوؤں پر ہے ، کوتاہیوں اور منفیانہ پہلوؤں پر نہیں ‘‘۔

اس میں شبہ نہیں کہ نقاد کا پہلا کام ترجمانی ہے۔ لیکن صرف ترجمانی سے کوئی نقاد نہیں بن سکتا۔ یہ تنقید کی پہلی منزل ہے ، منتہا نہیں۔ اور ا کرام کی خوبی یہ ہے کہ وہ اس منزل سے آگے بڑھتے ہیں اور خامی یہ ہے کہ زیادہ آگے نہیں بڑھ پاتے۔ ان کے طریقِ کار کی دوسری کوتاہیاں آڑ ے آ جاتی ہیں۔ ان کی نظر ’’مشابہتوں اور مثبت پہلوؤں پر زیادہ‘‘ رہتی ہے۔ تو مشابہتیں سطحی بھی ہو سکتی ہیں اور مثبت کوئی مستقل نہیں بلکہ اضافی قدر ہے۔ اور یہی حال منفی کا بھی ہے۔ اس لیے کوتاہیوں اور منفیانہ پہلوؤں سے گریز فی نفسہٖ کوئی قابلِ قدر خصوصیت نہیں بلکہ اس سے جو کام لیا گیا ہے وہ اس کی قدر متعین کرے گا۔ بہرحال ا کرام حالیؔ سے بے حد متاثر ہیں اور حالیؔ کا اثر ان کے طریقِ کار پر صاف محسوس ہوتا ہے اور اسی کے ساتھ ا کرام مغربی ادب پر بھی نظر رکھتے ہیں اور اس سے کام لیتے ہیں۔ لیکن ان کی عقیدت کہیں کہیں حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اور وہ وکیل صفائی کی طرح من مانے نتائج اخذ کرنے لگتے ہیں ، مثلاً حالیؔ کی اخلاقی جرأت کو ثابت کرنا ہے تو وہ لکھتے ہیں کہ ’’جس ز مانے میں حالیؔ نے ’یادگارِ غالب‘ لکھی، اس وقت غالبؔ کو شعرا کی صف میں جو درجہ دیا جاتا تھا اس کے پیش نظر اس موضوع کا انتخاب صرف صحیح تنقیدی شعور کا کارنامہ ہی نہ تھا۔ اس کے لیے اخلاقی جرأت کی بھی ضرورت تھی‘‘۔۴۱؂

 کون سا درجہ دیا جاتا تھا؟ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ غالبؔ کی اس زمانے میں جو حیثیت تھی، ا کرام اس سے واقف نہ رہے ہوں گے۔ لیکن حالیؔ کی اخلاقی جرأت کا دعویٰ دلیل طلب ہے ، تو ا کرام نے مبہم بیانات کی مدد سے جو چاہا، نتیجہ اخذ کر لیا۔ حالیؔ سے پہلے اور بہت پہلے سر سیّد نے ’آثارالصنادید‘ میں غالبؔ کو شامل کیا، ذوقؔ کو نہیں۔ پھر حالیؔ کے لیے کون سی دشواری تھی؟ اور کیوں اس موضوع کے انتخاب کے لیے اخلاقی جرأت کی ضرورت تھی؟ غالبؔ کے علما، ادباء اور صلحا تمام قائل تھے تو پھر حالیؔ کو کس کی مخالفت کا اندیشہ ہو سکتا تھا؟

 اس کتاب میں ا کرام کا زور غالبؔ کے حکیمانہ خیالات پر زیادہ ہے۔ وہ غالبؔ کو معروف معنوں میں فلسفی نہیں مانتے۔ وہ لکھتے ہیں :’غالبؔ ایک باقاعدہ فلسفی نہ سہی، لیکن انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر اس کے بیسیوں نہیں سینکڑوں اشعار ہیں۔ اس کا اندازِ خیال حکیمانہ تھا۔ غالبؔ پر سب سے زیادہ اثر بیدلؔ کا تھا اور بیدلؔ میں فقط اشکال نہیں ، فلسفیانہ عمق بھی ہے ‘‘۔۴۲؂

وہ غالبؔ کے حکیمانہ خیالات کو دو عنوان کے تحت پیش کرتے ہیں : ’’(۱) حقیقت اشیا اور (۲) انسانی زندگی‘‘۔ اور لکھتے ہیں : ’’چوں کہ دونوں قسم کے مضامین ایک ہی ذہن رسا کے نتائج تھے ، اس لیے ان میں قدرتی طور پر ہم آہنگی اور تطابق ہے۔ غالبؔ کے فلسفۂ حقیقتِ اشیا کے تین مدارج ہیں (۱) نفی (۲) اثبات اور (۳) توحید وجودی۔ حیاتِ انسانی کے متعلق بھی ان کے فلسفے کے تین عناصر ہیں (۱) غم (۲) حوصلہ (۳) عرفان اور فی الحقیقت یہ مدارج و عناصر ایک ہی انداز خیال کی مختلف صورتیں ہیں ‘‘۔۴۳؂ اس سے ظاہر ہے کہ وہ غالبؔ کو کس سطح پر دیکھتے ہیں۔ گو وہ باضابطہ فلسفی کہنا پسند نہیں کرتے ، لیکن اس کو فلسفیانہ حیثیت بہرحال دے دیتے ہیں اور یہ ان کی عقیدت کا کرشمہ ہے۔

وہ غالبؔ کے حزن و ملال، مایوسیوں اور ناکامیوں کی بنیاد اس دور کی کرب انگیز فضا میں ڈھونڈتے ہیں۔ اس طرح گویا حالیؔ کے پیروکار ہیں ، جو غالبؔ کی تعین قدر کے لیے جداگانہ معیار کے متقاضی تھے۔ چناں چہ ا کرام یہ جانتے تو ہیں کہ قدیم شعریات میں خصوصاً غزل کی شعریات میں زندگی اور فن کے درمیان مسلمہ بے تعلقی پائی جاتی ہے۔ لیکن غالبؔ کے سلسلے میں وہ اس اصول کو کسی حد تک ساقط المعیار تصور کر لیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :’غالبؔ کی شخصی ناکامیاں اور ماحول کی نامساعدت اس طرح دست بگریباں تھیں کہ ان کا شخصی اظہارِ غم بھی گرد و پیش کا مرثیہ ہے :

دوست دارم گر ہے را کہ بکارم زدہ اند

کایں ہمانست کہ پیوستہ در ابروے تو بود

فی الحقیقت مرزا کی ذاتی مایوسیاں اور ناکامیاں بھی ایک شکست خوردہ معاشرے کا نتیجہ تھیں ‘‘۔۴۴؂

یہاں تک غالبؔ کی شخصیت اور شاعری میں ربط کی تلاش غلط نہیں ، بشرطیکہ محتاط رویہ اختیار کیا جائے اور ا کرام اس احتیاط سے عاری ہیں۔ اس لیے کہیں کہیں وہ غالبؔ کے خیالات کی جیں زیادہ گہرائی میں ڈھونڈنے لگ جاتے ہیں۔ لیکن عام طور پر ان کی رائے کی اصابت میں کلام نہیں۔

~ جہاں انھوں نے مشاہیر سے غالبؔ کا موازنہ کیا ہے ، وہاں بھی کئی چیزیں بالکل نئی ہیں۔ اور ا کرام کے حیرت انگیز تنقیدی شعور کو ظاہر کرتی ہیں ، مثلاً وہ لکھتے ہیں : ’’مرزا غالبؔ میرؔ کی نسبت سوداؔ سے زیادہ قریب تھے۔۔۔ غالبؔ میں سوداؔ کی خوبیاں سبھی تھیں ، عیب کوئی نہ تھا۔ لیکن میرؔ کی نسبت سوداؔ سے ان کی طبیعت زیادہ ملتی تھی‘‘۔

 یہ بیان اس لیے اہم ہے کہ غالبؔ اور سوداؔ میں مماثلت سطحی نہیں تھی اور غالبؔ کا موازنہ عام طور پر میرؔ سے تو کیا جاتا تھا، جس کے لیے بنیادیں غالبؔ کے بیانات نے بھی فراہم کی ہیں۔ لیکن سوداؔ اور غالبؔ کا موازنہ بالکل نہیں کیا جاتا، حالاں کہ غالبؔ میرؔ نہیں بلکہ سوداؔ کے سلسلے کے شاعر ہیں اور ا کرام کا محولۂ بالا بیان ان کے تنقیدی شعور پر دال ہے۔

 ا کرام کی یہ کتابیں اپنی کوتاہیوں کے باوجود غالب تنقید میں نمایاں مقام رکھتی ہیں اور شاید اسی لیے اپنے زمانے کی با اثر اور مقبول کتاب کی حیثیت سے جانی جاتی ہیں اور پھر یہ بھی ہے کہ ا کرام کی کوتاہیاں کچھ انہی سے مخصوص نہیں ہیں ، بلکہ غالب تنقید کا عام منظر نامہ بھی ان سے خالی نہیں۔ ڈاکٹر کمال احمد صدیقی کی یہ رائے درست ہے کہ ’’اپنی شاعری کے سب سے بڑ ے مفسر خود غالبؔ تھے اور اپنی تنقید کے سلسلے میں ایسی غیر مرئی ہدایتیں چھوڑ گئے ہیں کہ آج تک ان پر عمل آوری ہو رہی ہے ‘‘۔۴۵؂

 ان حالات میں ، اور وہ بھی اب سے کوئی نصف صدی پیشتر شیخ محمد ا کرام نے غالبؔ کا آزادانہ مطالعہ پیش کیا، جس کی مثالیں ان کتابوں میں کئی جگہ موجود ہیں تو اس کے لیے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی نے بجا طور پر ’آثارِ غالب‘ کو ’’اپنے زمانے کی اکثر انگریزی سوانح عمریوں سے بھی زیادہ صاف گو‘‘ قرار دیا ہے اور ا کرام کا تنقیدی شعور بھی ہمارے اکثر نقادوں سے بالیدہ ہے۔ کہیں کہیں وہ غالبؔ، حالیؔ اور اپنی بعض دوسری محبوب ہستیوں کی عقیدت میں حد سے آگے نکل جاتے ہیں اور اس سلسلے میں غلط تجزیے سے بھی نہیں چوکتے۔ لیکن بالعموم ایسا نہیں۔ اور ان کے دل کے ساتھ پاسبانِ عقل کی موجودگی عام طور پر انھیں بھٹکنے نہیں دیتی۔ اسلوب احمد انصاری نے لکھا ہے کہ:

 ’’اپنی کتاب ’آثارِ غالب‘ میں شیخ محمد ا کرام نے ان کی شاعری کے چار ادوار قائم کر کے ان کی سلسلہ واری کی طرف توجہ دلائی تھی۔ اس سلسلہ واری کی ایک تاریخی حوالہ یعنی Referential اہمیت تو بے شک ہے لیکن کتاب کا تنقیدی حصہ نسبتاً کمزور ہے اور اس لیے درخور اعتنا نہیں ‘‘۔۴۶؂

یہ اسلوب احمد انصاری صاحب کی سادہ لوحی ہے۔ شیخ محمد ا کرام کے بارے میں علی جواد زیدی کی یہ رائے درست ہے کہ:

 ’’حالیؔ کی یادگار (۱۸۹۷ء) کے بعد ’غالب نامہ‘ پہلی کتاب ہے جو حیاتِ غالب کو نئے بسط و شرح کے ساتھ موضوعِ گفتگو بناتی ہے۔ جہاں تک تنقید کا تعلق ہے ، بجنوری کی عقیدت مندانہ افراط کے بعد یہ متوازن نقطۂ نظر اپنانے کی کوشش کرتی ہے۔۔۔ تنقیدی سطح پر حالیؔ کے علاوہ عبدالرحمن بجنوری کی عقیدت کے جوش و وفورِ جذبات کا سامنا تھا۔۔۔ اس کے برعکس مغربی معیاروں ہی کی ڈھال تیار کر کے عبد اللطیف نے ایک غیر متوازن منفیانہ رجحان اپنا لیا تھا۔ ا کرام نے ان دونوں کے مقابلے میں فکر غالب کی تفہیم و تشریح کے لیے کچھ نئے زاویے اپنائے۔۔۔ ان کی تنقید ایک تہذیب یافتہ ذہن کی پروردہ ہے اور شاعر کے فکر و فن کو خارجی اور داخلی عوامل کے پس منظر میں پرکھتی ہے ‘‘۔۴۷؂

مجھے علی جواد زیدی کی اس رائے سے اتفاق ہے۔ اس اضافے کے ساتھ کہ ا کرام کا ذہنی میلان حالیؔ اور بجنوری کی عقیدت مندانہ افراط کی طرف نمایاں ہے ، جو غالباً اس لیے ہے کہ ان کے ذہن میں یہ بات ہر وقت موجود رہتی ہے کہ وہ ڈاکٹر لطیف کی کتاب کا جواب لکھ رہے ہیں۔ گیان چند جین نے ’’یادگارِ غالب کے بعد شیخ محمد ا کرام کی آثارِ غالب‘‘ کو ایسی کتاب بتایا ہے ’’جو سوانح کی تحقیق کے لیے بھی اہم ہے اور تصانیف کی تنقید کے لیے بھی‘‘۔ وہ لکھتے ہیں :’انھوں نے غالبؔ کی شاعری پر عام تبصرہ کیا، جو کتاب کا سب سے اہم حصہ ہے۔۔۔ غالبؔ اور وطنیت کی بحث میں ا کرام کی متوازن رائے ہے کہ غالبؔ جدید مفہوم میں وطن پرست نہ تھے۔ آخری اہم چیز جس کی طرف انھوں نے توجہ دلائی غالبؔ اور مغلیہ ذہنیت کی ترجمانی ہے۔ ا کرام کے نزدیک مغل نفاست پسندی، خوش معاشی، عیش کوشی اور ہموار طبعی کے قائل ہوتے ہیں اور غالبؔ ان اقدار کے بہترین ترجمان تھے۔ اسی طرح ا کرام نے غالبؔ کی شخصیت اور نفسیات کا وسیع پیمانے پر جائزہ لیا۔ بحیثیت مجموعی ا کرام کے جائزے سے ہر جگہ تشفی ہوتی ہے ‘‘۔۴۸؂

مولانا غلام رسول مہرؔ

مولانا غلام رسول مہرؔ کی تاریخِ ولادت مختلف سوانح نگاروں نے مختلف بتائی ہے۔ ان کے تجزیے کے بعد ڈاکٹر شفیق احمد نے ۱۳ اپریل ۱۸۹۵ء طے کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :’مولانا مہر ۱۳ اپریل ۱۸۹۵ء کو پھول پور میں اعوانوں کے گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اعوان اپنے بارے میں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا تعلق سرزمین عرب سے ہے اور وہ حضرت علی کی غیر فاطمی اولاد سے ہیں ‘‘۔۴۹؂

  مولانا مہر خاصے خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد چودھری محمد علی خاں تعلیم یافتہ نہیں تھے اس لیے مولانا مہرؔ کی تعلیم پر خاص توجہ کی۔ انھوں نے پرائمری درجے تک تعلیم کھانبرا میں حاصل کی اور پھر مشن ہائی ا سکول جالندھر میں داخلہ لے لیا۔ اسی زمانے میں شعر گوئی کی طرف مائل ہوئے۔ مشن ا سکول سے میٹرک کر کے لاہور آئے اور اسلامیہ کالج میں داخلہ لے لیا اور ۱۹۱۵ء میں بی اے کی ڈگری لی۔ مولانا مہر کی زندگی میں غالبؔ، اقبالؔ اور مولانا ابوالکلام آزادؔ ایک خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ اس بارے میں ابو سلمان شاہجہانپوری لکھتے ہیں :’اقبالؔ اور غالبؔ کے علاوہ عہدِ جدید کی شخصیتوں میں مولانا ابوالکلام آزادؔ سے مہر صاحب بہت متاثر ہیں۔ مولانا سے ان کا پہلا باقاعدہ تعارف ۱۹۱۴ء میں ہوا۔ اس سے پیشتر ۱۹۱۲ء میں مہر صاحب ’حزب اللہ‘ کے ممبر بن چکے تھے ‘‘۔۵۰؂

مولانا مہرؔ ۱۹۱۷ء میں حیدرآباد میں انسپکٹر مدارس مقرر ہوئے جہاں سے ۱۹۲۰ء میں اپنے وطن پھول پور واپس آ گئے۔۵۱؂ مالک رام نے جس مبہم انداز میں ان کے حیدرآباد جانے اور وہاں سے واپس آنے کا ذکر کیا ہے اس سے یہ چار سالہ قیام ۵۲ سالہ معلوم ہوتا ہے۔۵۲؂   ۱۸ نومبر ۱۹۲۱ء  سے مولانا مہر نے ’زمیندار‘ لاہور کے اڈیٹر کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا، ۵۳؂ جہاں سے چند ہی دنوں بعد اپنی والدہ کے اصرار پر استعفیٰ دے دیا۔ فروری ۱۹۲۲ء میں جب ’زمیندار‘ دوبارہ جاری ہوا تو ادارت کی ذمہ داری مولانا مہر نے ہی سنبھالی۔۵۴؂ مولانا مہر کو ’زمیندار‘ سے کافی شہرت مل چکی تھی۔ محمد علی جوہر نے ’ہمدرد‘ اور ابوالکلام آزادؔ نے اخبار ’خلافت‘ کی اڈیٹری کے لیے دعوت دی۔۵۵؂ ۲۰ مارچ ۱۹۲۷ء کو بوجوہ ’زمیندار‘ کی ادارت سے مہرؔ نے علاحدگی اختیار کر لی۵۶؂ اور ۲ اپریل ۱۹۲۷ء سے ’انقلاب‘ جاری ہوا، جو مولانا مہر اور مولانا عبدالمجید سالک کی ادات میں نکلا۔۵۷؂

 ڈاکٹر شفیق احمد لکھتے ہیں :’انقلاب دو اپریل ۱۹۲۷ء سے جاری ہوا اور پھر اواخر ۱۹۴۹ء تک افقِ صحافت پر ایک روشن ستارے کی طرح چمکتا رہا۔ اس کی تقریباً ساڑھے بائیس سالہ زندگی میں بہت سے نشیب و فراز آئے۔ ملک کے مختلف حصوں میں اس کا داخلہ بند کیا گیا۔۔۔ لیکن۔۔۔ ایک طویل عرصے تک ہندوستان کے طول و عرض میں انقلاب ہی کو مسلم اکثریت کا واحد ترجمان اخبار قرار دیا گیا‘‘۔۵۸مولانا مہر کثیر التصانیف بزرگ تھے۔ ۱۹۳۶ء میں مولانا غلام رسول مہر کی ’غالب‘ شائع ہوئی۔ مولانا مہر غالبؔ کے بڑ ے مداحوں میں سے ایک ہیں۔ انھوں نے ’یادگارِ غالب‘ کے تحقیقی تسامحات کی نشاندہی اور تصحیح کی ہے جو فی نفسہٖ بڑ ا کام ہے ، لیکن ہمارے موضوع سے علاقہ نہیں رکھتا۔ عبدالمجید سالک نے لکھا ہے کہ: ’’مہر صاحب نے۔۔۔ صاحب سوانح کے کلام نظم و نثر اور اس کی نجی تحریروں سے اس کے حالاتِ زندگی فراہم کیے ہیں جن کی صداقت سے کوئی دوسرا شخص تو درکنار خود صاحبِ سوانح بھی انکار نہیں کر سکتا‘‘۔

 یہ بات کسی اور کے بارے میں شاید کہی جا سکتی ہو لیکن غالبؔ کے بارے میں درست نہیں۔ غالبؔ کے اولین سوانح نگاروں خصوصاً آزاد اور حالیؔ نے بھی اکثر ٹھوکر کھائی جہاں غالبؔ کے بیانات پر بھروسہ کیا۔ غالبؔ اپنی زندگی کے اہم ترین واقعات کے بیان میں بھی نہایت غیر محتاط تھے۔ جہاں تک تنقیدی مباحث کا تعلق ہے اس میں غلام رسول مہر بہت کامیاب نہیں ہیں۔ شاید اس لیے کہ ایک تو وہ زود نویس ہیں ، دوسرے عقیدت کی غلاف سے باہر نہیں نکلتے۔ ان کے وہ مقالات جو غالب تنقید سے علاقہ رکھتے ہیں ، یہ ہیں :

مرزا غالب اور میر تقی میر ماہ نو کراچی فروری ۱۹۴۹ء غالب بحیثیت نقاد نگار کراچی جنوری، فروری ۱۹۶۹ء غالب کا تصور دوزخ و جنت ماہِ نو کراچی فروری ۱۹۵۶ء غالب دو شعر دو ستارے ماہِ نو کراچی فروری ۱۹۶۲ء غالب کی شاعری: غور و فکر کے نئے پہلو ماہِ نو کراچی فروری ۱۹۶۴ء مرزا غالب کی شاعری کے بعض خاص پہلو آجکل نئی دہلی فروری  ۱۹۶۷ غالب کی عظمت فولیو لاہور غالب نمبر ۱۹۶۷ء افکارِ غالب کے نئے زاویے صحیفہ لاہور غالب نمبر جنوری ۱۹۴۹ء غالب کی شاعری نقوش غالب نمبر فروری ۱۹۶۹ء  غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے سالنامہ مجلہ یادگار غالب کراچی ۱۹۶۹ء فکرِ غالب کی معجز نمائیاں افکار کراچی فروری، مارچ ۱۹۶۹ء~ داستان فرہاد اور غالب کا تصورِ محبت العلم کراچی غالب نمبر ۱۹۶۹ء مرزا غالب کا مقامِ شعر گوئی اوراق لاہور اپریل ۱۹۶۹ء مرزا غالب کا فارسی کلام مخزن لاہور مئی، جون ۱۹۶۹ء  اردو املا میں مرزا غالب کا اجتہاد سب رس حیدرآباد غالب نمبر دسمبر ۱۹۶۹ء مرزا غالب کی انسان دوستی لیل و نہار لاہور فروری ۱۹۷۱ء

یہ غلام رسول مہرؔ کے ان مقالات کی نامکمل فہرست ہے ، جن کا علاقہ غالب تنقید سے ہے۔ ان تمام تک نہ تو رسائی آسان ہے اور نہ ایک مقالے میں ان کا جائزہ۔ چناں چہ میں ان کی کتاب ’غالب‘ اور چند مقالات کی روشنی میں ، ان کے تنقیدی رویّے کا جائزہ پیش کرتا ہوں۔ وہ لکھتے ہیں :’’جس چراغاں زار کی نظر افروز جگمگاہٹ نے روئے زمینِ ہند کو دریائے نور بنا رکھا تھا۔ حتیٰ کہ تارے بھی زمین پر اتر آتے تو اس دریائے نور میں بلبلے بننا اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتے۔ اسے افسردگی کی ہوائے مخالف بجھا چکی تھی۔ لیکن ایک ٹمٹماتا سا دیا باقی تھا، جس کی جھلک عہدِ گزشتہ کی ضوفشانیاں اور نور باریاں یاد دلا رہی تھی۔ غالب کے صریر خامہ کی نوائے سروش نوا نہ تھی بلکہ اسی بربادی کا نوحہ اور اسی تباہی کا مرثیہ تھی‘‘۔۵۹؂

اس سے ظاہر ہے کہ وہ غالبؔ کے غم کو شخصی نہیں سمجھتے بلکہ اسے تہذیبی سیاق و سباق میں دیکھنا پسند کرتے ہیں اور اس تہذیب کا بھی ان کے ذہن میں جو خاکہ ہے ، وہ مبالغہ آمیز ہے۔ اس کی خوبیوں کے تو وہ معترف ہیں ، خامیوں کا احساس نہیں رکھتے۔ مولانا مہرؔ کی اپنی رائے یہ ہے کہ ’’اس کتاب کو ایک لحاظ سے غالبؔ کی تزک کہا جا سکتا ہے ‘‘۔۶۰؂

 اس کتاب کی ایک اور کمی یہ ہے کہ مولانا مہرؔ مشرقی تنقید سے آگے نہیں بڑھتے۔ حالاں کہ جس عہد میں یہ کتاب لکھی گئی وہ مغربی علوم و افکار سے مکمل آگہی کا دور ہے اور یہ آگہی مولانا کو کسی قدر میسر بھی تھی۔ وہ لکھتے ہیں :’’میں ہوش سنبھالتے ہی کسی دوسرے شاعر کی عقیدت کا حلقہ اپنی گردن ڈالے بغیر غالب کا معتقد بن گیا تھا۔۔۔ میری عقیدت اجتہاد و تحقیق کے جوہر سے معریٰ تھی۔ میں نے صرف غالبؔ کو دیکھا تھا اور کسی دوسرے سے شناسائی و معرفت حاصل نہیں کی تھی۔۔۔ شرعی اصطلاح میں میری حیثیت ’حامی مقلد‘ کی تھی۔۔۔ تصوف کی زبان میں میں مجذوب تھا‘‘۔۶۱؂

اور اسی لیے سیّد صباح الدین عبدالرحمن نے لکھا کہ ’’ ان کا شمار غالبؔ کے پرستاروں کی صفِ اولین میں ہے ‘‘۔۶۲؂ مولانا کی ’غالب‘ کے بارے میں ڈاکٹر شفیق احمد نے لکھا ہے :’’غالب‘ میں بطور سوانح عمری نمایاں اوصاف کے ساتھ ساتھ کچھ نقائص بھی ہیں ، مثلاً اس کا سب سے بڑ ا نقص تو یہی ہے کہ جذباتِ عقیدت و محبت کے باعث غالبؔ کی شخصیت کے بعض نمایاں معائب کو پیش کرنے سے احتراز کیا گیا ہے۔ مثلاً معلوم ہے کہ مرزا غالبؔ بعض اوقات امرا و رؤسا کو خوش کرنے کے لیے ان کی بے جا تعریف کر دیتے تھے ، لیکن مولانا مہر نے شخصیت کے اس پہلو کا ذکر تک نہیں کیا بلکہ ابوالکلام آزاد کی طرف سے تحریری طور پر اس پہلو کی طرف توجہ مبذول کرانے کے باوجود وہ مرزا کی شخصیت کا یہ رخ گول کر گئے ، حالاں کہ یہ سب باتیں مرزا کی اپنی عبارات میں اندرونی شہادتوں کے طور پر موجود ہیں : طنز و مزاح مرزا غالبؔ کے کلام کا نمایاں وصف ہے۔ صرف کلام ہی نہیں بلکہ وہ عام زندگی میں بھی ہنستے مسکراتے نظر آتے ہیں ‘ لیکن ’غالب‘ میں مرزا کی شخصیت کے اس پہلو کا کہیں سراغ نہیں ملتا‘‘۔۳۶۳؂

یہ کوتاہیاں معمولی نہیں ہیں۔ اور مولانا آزاد کی جس تحریر کا ذکر کیا گیا ہے ، تعجب ہے کہ وہ ڈاکٹر شفیق احمد کی نظر سے نہیں گزری ورنہ ان کا لہجہ دوسرا ہوتا۔ مولانا آزاد نے جو اعتذار اور تاویل کا انداز اختیار کیا ہے وہ بھی ایک ذمہ دار سوانح نگار کے لیے مناسب نہیں اور غالبؔ سے جس حسنِ ظن کی شکایت ہمیں مولانا مہر سے ہے ، اس کے شکار مولانا ابوالکلام آزاد بھی ہیں۔ ڈاکٹر شفیق احمد وضعداری کے صحیح مفہوم سے بھی واقف نہیں ہیں۔ وہ ’نوائے سروش‘ کے بارے میں لکھتے ہیں :’’مولانا مہر وضعدار آدمی تھے ، لہٰذا جہاں کسی شارح سے اتفاق کیا ہے ، وہاں تو اس کا نام لکھ دیا ہے ورنہ صرف بعض افراد اور بعض اصحاب وغیرہ لکھ کر اختلافِ رائے ظاہر کر دیا ہے ‘‘۔۶۴؂

یہ وضعداری نہیں ، سہل انگاری ہے ، مصلحت ہے۔ ’نوائے سروش‘ سے ابھی بحث نہیں اور یہ کوئی قابلِ ذکر کتاب بھی نہیں۔ غالبیات میں مولانا مہر کی شناخت ’خطوطِ غالب‘ اور ’غالب‘ سے ہے۔ اس میں ’خطوطِ غالب‘ ہمارے موضوع سے علاقہ نہیں رکھتی۔ اور ’غالب‘ کا جس قدر جائزہ لیا گیا ہے اس سے ظاہر ہے کہ وہ غالبؔ کے پرستار ہیں اور کسی قدر شارح بھی، لیکن نقاد اور محقق نہیں ہیں ، لہٰذا ان کی آراء کا مطالعہ اسی نقطۂ نظر سے کیا جانا چاہیے۔ ’خطوطِ غالب‘ کے سلسلے میں ان کے خیالات کسی قدر اہم ہیں۔ ان خطوط کی اہم خصوصیت وہ بے تکلفی اور سادگی، جدت، منظر کشی، جزئیات نگاری، نکتہ آفرینی، شکوہ و معذرت، تاریخی پرواز، مزاح و ظرافت، مقفّیٰ عبارت، کمالِ حسنِ تحریر، اندازِ مکالمات، ذات اور ماحول کے بیان کو بتاتے ہیں۔ ان میں بھی کئی اجزا ایک دوسرے میں ضم ہو جانے والے ہیں اور ان کی الگ سے فہرست سازی فضول ہے۔ مثلاً منظر کشی اور جزئیات نگاری کا الگ الگ بیان ضروری نہ تھا اور یہ دونوں بھی ذات اور ماحول کے بیان میں شامل ہیں۔ اسی طرح مزاح و ظرافت اور شکوہ و معذرت کا جداگانہ بیان غیر ضروری ہے۔ گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ مولانا مہر (۱) مشرقی تنقید کی حدود سے باہر نہیں نکلتے (۲) ضروری اور غیر ضروری عناصر میں امتیاز نہیں برتتے اور (۳) غالبؔ، اقبالؔ اور ابوالکلام آزادؔ کے فرماں بردار پیروکار ہیں اور ان کے سلسلے میں معروضیت نہیں اختیار کر سکتے۔ یہ تینوں کوتاہیاں بہت بڑی ہیں جن کو ان کے محتاط انداز نے کسی قدر گوارا بنا دیا ہے۔ جناب شمس الرحمن فاروقی نے لکھا ہے کہ:’غلام رسول مہر (اول اڈیشن ۱۹۳۶ء) نے محتاط توصیف کا انداز اختیار کیا، لیکن چوں کہ انھوں نے غالبؔ کے اردو فارسی خطوط سے خوب استفادہ کیا تھا اس لیے ان کی سوانح عمری کا رنگ بھی مغربی رنگ سے قریب ہے ‘‘۔۶۵؂

اس میں شک نہیں کہ یہ سوانح عمری مغربی رنگ سے قریب ہے۔ لیکن یہ محض اتفاق ہے اور یہ بھی ہے کہ غالبؔ کی اس سے زیادہ متحرک اور جاندار تصویر ’یادگارِ غالب‘ میں ملتی ہے۔ ’یادگار‘ کے مقابلے میں مولانا مہر کی کتاب پھیکی اور بے رنگ ہے۔ اور اس میں غالبؔ کی زندہ اور باغ و بہار شخصیت ابھر نہیں پاتی۔ گویا نقشِ ثانی نقشِ اول سے بہتر نہیں ہے اور تنقید تو گویا ہے ہی نہیں۔ دو ایک تنقیدی فقرے اس کتاب میں ملتے بھی ہیں تو مولانا ابوالکلام آزاد کو خوش کرنے کے لیے۔

شوکت سبزواری

شوکت سبزواری ۱۹۰۵ء میں پیدا ہوئے۔۶۶؂ ان کی تعلیم کا آغاز میرٹھ میں ہی عربی اور فارسی کی تعلیم سے ہوا۔ اور:

’’بحیثیت مذہبی عالم کے ، کم عمری ہی میں انھیں شہرت حاصل ہو گئی تھی۔ وہ مناظر بھی بڑ ے اچھے تھے۔ باہر سے جب بھی کوئی مناظر میرٹھ کے قرب و جوار میں آتا تو ڈاکٹر صاحب ہی کو آگے بڑھایا جاتا‘‘۔۶۷؂

مولوی فاضل کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ چونے والوں کی مسجد کے مدرسے میں معلم ہو گئے اور پرائیویٹ سے عربی اور فارسی اور اردو میں ایم اے کے امتحانات دیے۔۶۸؂ ’کچھ دنوں انھوں نے اسلامیہ کالج بریلی میں ملازمت کی، اس کے بعد وہ میرٹھ کالج میں آ گئے ‘‘۔۶۹؂

ان کی کتاب ’فلسفۂ کلامِ غالب‘ اسی زمانے یعنی ۱۹۶۴ء میں شائع ہوئی۔ ڈاکٹر شوکت سبزواری ۱۹۵۰ء میں ڈھاکہ آ گئے۔ وہ لکھتے ہیں :’قیامِ پاکستان کے بعد مغربی یوپی میں ایک بھونچال آیا جس نے زندگی کی طنابیں تک اکھاڑ پھینکیں۔ بہت سے نشیب و فراز دیکھنے کے بعد ۱۹۵۰ء میں ڈھاکے آ گیا‘‘۔۷۰؂

وہ ڈھاکے سے چند سال بعد کراچی چلے گئے جہاں مولوی عبدالحق کی کوششوں سے ترقی اردو بورڈ سے منسلک ہو گئے۔ ڈاکٹر شوکت سبزواری کی اصل شہرت ماہرِ لسانیات کی حیثیت سے ہے ، لیکن ان کی طبیعت میں بلا کا مناظرانہ وفور تھا اور اس کا اثر ان کی تمام تحریروں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر شوکت سبزواری کی ’فلسفۂ کلامِ غالب‘ ۱۹۶۴ء میں شائع ہوئی۔ شوکت سبزواری کی شہرت ماہرِ لسانیات کی حیثیت سے ہے لیکن غالب تنقید کے سلسلے میں بھی ان کی کوششوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے شیخ محمد ا کرام کے اس خیال کو کہ غالبؔ فلسفی نہ تھا، رد کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :’کہا جاتا ہے کہ غالبؔ کا فلسفہ ایک ناکام فلسفہ تھا اور اس کا زاویۂ نگاہ ایک منتشر زاویۂ نگاہ ہے۔ اگر فلسفے کی ناتمامی اور زاویۂ نگاہ کے انتشار سے مراد یہ ہے کہ اس میں ارسطو کے تکوینی فلسفے کی سی جامعیت یا قدیم ہندی فلسفیانہ نظاموں کی سی دقت بینی نہیں تو یہ درست ہے ‘‘۔

اس کے باوجود انھیں اصرار ہے کہ غالبؔ کے افکار میں حیات و کائنات اور اخلاق کے فلسفے کی جامعیت آشکار ہے۔ نیاز فتح پوری نے اس کتاب کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ: ’’غالبؔ کے نظریۂ حیات، فلسفیانہ تصورات، اخلاقی موضوعات اور جمالیاتی تاثرات کے متعلق بحث۔۔۔ اور اس گفتگو میں اس بالغ نظری سے کام لیا ہے جو شیدائیانِ غالبؔ میں شاید ہی کسی کی طرف سے اس وقت تک ظاہر ہوئی ہو‘‘۔ اس میں شبہ نہیں کہ شوکت سبزواری کو مشرقی اور مغربی ادبیات سے جتنی گہری واقفیت حاصل تھی، وہ بہت کم افراد کے حصے میں آتی ہے۔ لیکن شوکت سبزواری اپنی عقیدت کے زندانی ہیں اور ان کی طبیعت کا مناظرانہ وفور انھیں غور و فکر کی مہلت بہت کم دیتا ہے۔ ان کا اثرؔ سے مناظرہ میرؔ و غالبؔ (غالب: فکر و فن) کے چولے میں ظاہر ہوتا ہے جس میں پہلے سے زیادہ شدت سے غالبؔ کو میرؔ پر ترجیح دی۔ غالبؔ قنوطی تھا یا رجائی؟ اس بحث میں ڈاکٹر شوکت سبزواری کا فیصلہ ہے کہ:’غالب دراصل نہ قنوطی ہیں نہ رجائی، ارتقائی ہیں یعنی زندگی میں روز و شب کی طرح شادی و غم بھی گزراں ہیں ‘‘۔۷۱

 قاضی عبدالودود نے ’غالب بحیثیت محقق‘ میں دکھایا کہ ’’غالبؔ نرے شاعر، انشاپرداز اور ادیب تھے ، زباندانی اور تحقیق لغات سے ان کو کیا نسبت؟‘‘ اس کا جواب شوکت سبزواری نے لکھا جس میں غالبؔ کو زباندانی اور تحقیق لغات میں طاق دکھایا گیا ہے اور جوشِ انتقام میں وہ قاضی عبدالودود کو ناقل اور غالبؔ کو محقق بتاتے ہیں۔ اس سے ان کے ذہنی میلانات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ان کی قابلیت میں کلام نہیں لیکن وہ اپنی عقیدت کے زندانی ہیں اور غالبؔ سے ان کی عقیدت، دوسری تمام شخصیات سے بڑھی ہوئی ہے۔ اسی لیے وہ غالبؔ کے نقاد نہیں بن پاتے ، وہ اثرؔ لکھنوی کو رد کرنے کی دھن میں میرؔ کو بونا بنا دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :’’غزل گو شعرا نے اپنی ہستی کو دل میں سمیٹ لیا۔۔۔ میرؔ کا حال بھی یہی ہے بلکہ میر اس باب میں دوسرے غزل گو شعرا سے آگے ہیں دل ان کا گھر ہے اور وہ اس تنگنائے میں سرگرم سیر ہیں ‘‘۔۷۲؂ وہ اثرؔ لکھنوی کو رد کرنے کے لیے یہ بھی لکھ دیتے ہیں :’اذیت نے میرؔ کو سن بنا رکھا ہے نہ وہ غم کی ’نشتر زنی‘ محسوس کرتے ہیں اور نہ مسرت کی گدگدیاں ، یہ جمود ہے۔ غالبؔ نے زندگی کی جو تصویر پیش کی ہے وہ اس سے بہت مختلف ہے ، وہ جمود نہیں امنگ ہے ‘‘۔۷۳؂ اور یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں میرؔ کے اس شعر سے :ہوا ہوں فرط اذیت سے میں توسن اے میرؔ   تمیز رنج و خیال نشاط مجھ کو نہیں

گویا کہ وہ کلاسیکی غزل کی شعریات سے بھی واقف نہیں ہیں۔ شوکت سبزواری کے خیال میں :

 ’’غالبؔ سب سے پہلا شاعر ہے جس نے دلی جذبات پر فکر و نظر کا رنگ چڑھایا اور دل کی دنیا سے نکل کر کائنات و آفاق کا مطالعہ کیا۔ صحت مند شاعر کی شان یہی ہے اور یہی غالبؔ کی تنہا شاعرانہ خصوصیت ہے جس کی بنا پر میں اس کو اردو زبان کا فلسفی شاعر کہتا ہوں۔ فلسفے کے لیے ایک خاص ذوق، ایک خاص نظر اور ایک خاص آگاہی درکار ہے ، یہ غلط ہے کہ اردو کا ہر بڑ ا شاعر فلسفی ہے ، ہاں یہ صحیح ہے جیسا کہ حضرت اثرؔ نے لکھا ہے کہ ’کوئی شاعر بڑ ا شاعر نہیں ہو سکتا جب تک فلسفی یا مفکر نہ ہو‘۔۔۔ شعر کے لیے سوز درکار ہے اور فلسفے کے لیے فکر و نظر۔ سوز و فکر کے امتزاج سے فلسفیانہ شاعری وجود میں آتی ہے ‘‘۔۷۴؂

 تعجب ہے اگر کوئی شاعر بڑ ا شاعر نہیں ہو سکتا جب تک وہ فلسفی یا مفکر نہ ہو تو ہر بڑ ا شاعر فلسفی ہے ، یہ غلط کیوں ہے ؟ دوسری بات یہ کہ کائنات و آفاق کا مطالعہ ایک خاص منطقی ترتیب و تنظیم کا متقاضی ہوتا ہے اور یہ نہ ہو تو اس مطالعے کی فلسفیانہ اساس قائم ہی نہ ہو گی اور اگر اشارہ کافی خیال کیا جائے تو اس کے لیے فلسفی کہنا کیا ضرور ہے ، شاعر بھی تو جاننے والے کو کہتے ہیں۔ ایک اور دلچسپ اقتباس ملاحظہ فرمائیں ، شوکت سبزواری لکھتے ہیں :’غالبؔ کے متعلق انھوں (اثرؔ لکھنوی) نے لکھا ہے کہ ’غالبؔ کے معاشقے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ خطوط سے صرف اتنا پتہ چلتا ہے کہ جوانی میں ایک ڈومنی پر مرے نہیں تھے بلکہ اس کو مار رکھا تھا‘۔ مثال میرؔ کے معاشقے کی بھی نہیں ملتی۔ غالبؔ نے ڈومنی کو مار رکھا تھا، میرؔ صاحب دلّی کے چکنے چپڑ ے لونڈوں کے پیچھے گلی کوچوں میں مارے مارے پھرے ‘‘۔۷۵؂ یہاں معاملہ مناظرانہ پینتروں سے بڑھ کے زنانہ چونچلے تک آ گیا ہے۔ اثرؔ لکھنوی تو نقاد نہیں ہیں اور نہ تنقید کی شریعت سے آگاہ، لیکن تعجب ہوتا ہے جب پروفیسر شوکت سبزواری بھی اسی مناظرانہ جوش کا مظاہر کرنے لگتے ہیں اور اکثر کرتے ہیں۔ اسی لیے میں نے کہا کہ وہ غالبؔ کے نقاد نہیں ہیں۔

حواشی:

۱؂ مالک رام، شیخ محمد ا کرام حالاتِ زندگی، مشمولہ غالب نامہ ۲۰۰۵ء، دہلی: غالب انسٹی ٹیوٹ

۲؂ ایضاً

۳؂ ایضاً

۴؂ ایضاً

۵؂ ایضاً

۶؂ ایضاً

۷؂ جلیل قدوائی، شیخ محمد ا کرام: چند اور اکابر چند اور معاصر ۱۹۹۳ء، کراچی: راس مسعود سوسائٹی، ص ص ۱۶۲۔۱۶۱۔

۸؂ ایضاً، ص ص۱۶۲ ۔۱۶۳۔

۹؂ ایضاً ص۱۶۳۔

۱۰؂ ایضاً ص ص۱۶۴۔۱۶۳۔

۱۱؂ علی جواد زیدی: شیخ محمد ا کرام کا دائرۂ تحقیق، مشمولہ غالب نامہ جولائی ۱۹۸۹ء، دہلی: غالب انسٹی ٹیوٹ، ص ۱۷۔

۱۲؂ شیخ محمد ا کرام۔ حکیم فرزانہ، ۱۹۵۷ء لاہور: فیروز سنز، ص۷۔

۱۳؂ شیخ محمد ا کرام: آثارِ غالب’ بمبئی: تاج آفس، ص ص ۱۹۲ تا ۱۹۵۔

۱۴؂ ایضاً ص۱۹۸۔

۱۵؂ ایضاً ص ص ۲۰۷، ۲۰۸۔

۱۶؂ ایضاً ص۲۱۳۔

۱۷؂ ایضاً ص۲۲۲۔

۱۸؂ ایضاً ص ص ۳۴۹ تا ۳۶۳۔

۱۹؂ شیخ محمد ا کرام۔ حکیم فرزانہ، ۱۹۷۵  لاہور: فیروز سنز، ص ۲۰۶ اور ص ص ۲۹۲، ۲۹۳۔

۲۰؂ علی جواد زیدی: شیخ محمد ا کرام کا دائرۂ تحقیق، مشمولہ غالب نامہ ۱۹۸۹ء دہلی: غالب انسٹی ٹیوٹ، ص۲۴۔

۲۱؂ ایضاً ص۲۲۔

۲۲؂ غلام رسول مہر: غالب ۱۹۳۶ء لاہور: مسلم پرنٹنگ پریس، ص ص ۱۷۱، ۱۷۲۔

۲۳؂ سجاد باقر رضوی: غالب فردوں گمشدہ سے گلشن ناآفریدہ تک، مشمولہ غالب نامہ ۱۹۸۲ء دہلی: غالب انسٹی ٹیوٹ۔

۲۴؂ تنویر احمد علوی: غالب کے فارسی قصائد، مشمولہ غالب نامہ ۱۹۸۲ء دہلی: غالب انسٹی ٹیوٹ۔

۲۵؂ خلیق احمد نظامی: غالب کی دلّی، مشمولہ ’تحقیقات‘ مرتّبہ ڈاکٹر نذیر احمد، نئی دہلی: غالب انسٹی ٹیوٹ۔

۲۶؂ وارث علوی: غالب کی شاعری سے متعلق ہمارا تنقیدی رویہ، مشمولہ ’عرفانِ غالب‘ ۱۹۷۳ ء علی گڑھ: یونیورسٹی پبلی کیشن ڈویژن، ص۲۲۵۔

۲۷؂ شیخ محمد ا کرام: آثارِ غالب، بمبئی: تاج آفس، ص۹۔

۲۸؂ ایضاً ص۱۹۶۔

۲۹؂ ایضاً ص ص ۲۳۴،۲۳۵۔

۳۰؂ ایضاً ص۲۴۲۔

۳۱؂ ایضاً ص ۲۷۶۔

۳۲؂ ایضاً ص۲۸۰۔

۳۳؂ شمس الرحمن فاروقی: غالب پر چار تحریریں ، ۲۰۰۱ء دہلی: غالب انسٹی ٹیوٹ، ص ۲۷۔

۳۴؂ خواجہ احمد فاروقی: غالب کی شخصیت اور شاعری میں ترکی و ایرانی عناصر، مشمولہ اردوئے معلی غالب نمبر، فروری ۱۹۶۹ء دہلی: دہلی یونیورسٹی۔

۳۵؂ شیخ محمد ا کرام: آثارِ غالب، بمبئی: تاج آفس، ص ۳۵۱۔

۳۶؂ علی جواد زیدی: شیخ محمد ا کرام کا دائرۂ تحقیق، مشمولہ غالب نامہ ۱۹۸۹ء دہلی: غالب انسٹی ٹیوٹ، ص۲۴۔

۳۷؂ شمس الرحمن فاروقی: غالب پر چار تحریریں ، ۲۰۰۱ء دہلی: غالب انسٹی ٹیوٹ، ص۲۷۔

۳۸؂ شیخ محمد ا کرام۔ حکیم فرزانہ، ۱۹۵۷ لاہور: فیروز سنز، ص ۲۰۶  اور ص ص ۱۰، ۱۱۔

۳۹؂ ایضاً ص۶۷۔

۴۰؂ ایضاً ص۳۳۔

۴۱؂ ایضاً ص۴۲۔

۴۲؂ ایضاً ص۱۸۸۔

۴۳؂ ایضاً ص۱۹۱۔

۴۴؂ ایضاً ص۲۰۶۔

۴۵؂ کمال احمد صدیقی: بجنوری اور نقد غالب، مشمولہ تنقیدار، مرتّبہ پروفیسر نذیر احمد، ۱۹۸۷ء دہلی: غالب انسٹی ٹیوٹ، ص۲۱۸۔

۴۶؂ اسلوب احمد انصاری: دیباچہ نقد و نظر، غالب نمبر ۱۹۸۷ء، جلد نمبر۱۹، شمارہ نمبر۲، علی گڑھ، ص۱۲۱۔

۴۷؂ علی جواد زیدی: شیخ محمد ا کرام کا دائرۂ تحقیق، مشمولہ غالب نامہ ۱۹۸۹ء دہلی: غالب انسٹی ٹیوٹ، ص ص ۱۷ تا ۱۹۔

۴۸؂ گیان چند جین: غالب کے نقاد، رموزِ غالب فروری ۱۹۹۷ء، دہلی: مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، ص۳۱۹، ۳۲۰۔

۴۹؂ ڈاکٹر شفیق احمد: مولانا غلام رسول مہر: حیات اور کارنامے ، جون ۱۹۸۸ء، لاہور: مجلس ترقی ادب، ص۲۲۔

۵۰؂ ایضاً ص ۳۸۔

۵۱؂ ایضاً ص۴۸۔

۵۲؂ ملاحظہ فرمائیں غالب (از غلام رسول مہرؔ) ۲۰۰۵ء، دہلی: غالب انسٹی ٹیوٹ۔ تذکرۂ معاصرین، جلد اول سے مولانا مہر کے حالات اس میں شامل کیے گئے ہیں ، جس میں لکھا گیا ہے ’’لاہور کے اسلامیہ کالج سے ۱۹۱۵ء میں بی اے کیا۔ اس کے بعد حیدرآباد میں انسپکٹر تعلیمات مقرر ہوئے۔ ۱۹۴۰ء میں حیدرآباد سے اپنے وطن واپس آ گئے ‘‘۔

۵۳؂ ڈاکٹر شفیق احمد: مولانا غلام رسول مہر: حیات اور کارنامے ، جون ۱۹۸۸ء، لاہور: مجلس ترقی ادب، ص ۵۳۔

۵۴؂ ایضاً ص ۵۵۔

۵۵؂ ایضاً ص۵۷۔

۵۶؂ ایضاً ص۵۹۔

۵۷؂ ایضاً ص۶۵۔

۵۸؂ ایضاً ص۶۸۔

۵۹؂ غلام رسول مہر: غالب، لاہور: مسلم پرنٹنگ پریس، ص ص ۱۷۱، ۱۷۲۔

۶۰؂ سلیم اختر: غالب کا حامی مقلد، مشمولہ تحقیقات، مرتّبہ نذیر احمد، ۱۹۸۷ء دہلی: غالب انسٹی ٹیوٹ، ص۳۳۵۔

۶۱؂ ایضاً ص۳۳۴۔

۶۲؂ سیّد صباح الدین عبدالرحمن: غالب مدح و قدح کی روشنی میں ، مشمولہ بین الاقوامی غالب سمینار، ۱۹۶۹دہلی: صد سالہ یادگار غالب کمیٹی، ص۳۱۳۔

۶۳؂ ڈاکٹر شفیق احمد: مولانا غلام رسول مہر: حیات اور کارنامے ، جون ۱۹۸۸ء، لاہور: مجلس ترقی ادب، ص۲۸۳۔

۶۴؂ ایضاً ص۳۹۶۔

۶۵؂ شمس الرحمن فاروقی: غالب پر چار تحریریں ، ۲۰۰۱ء دہلی: غالب انسٹی ٹیوٹ، ص۲۶۔

۶۶؂ مالک رام: تذکرۂ ماہ و سال، نومبر ۱۹۹۱ء، دہلی: مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، ص۲۲۹۔

۶۷؂ شارق میرٹھی: ڈاکٹر شوکت سبزواری۔ شخصیت اور ادبی خدمات، ماہنامہ سب رس، جون ۱۹۷۳ء، حیدرآباد: ص۷۔

۶۸؂ ایضاً ص۷۔

۶۹؂ ایضاً ص۸۔

۷۰؂ ایضاً ص۸۔

۷۱؂ بحوالۂ گیان چند: غالب کے نقاد، رموز غالب، فروری ۱۹۷۶ء دہلی: مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، ص ۳۲۱۔

۷۲؂ شوکت سبزواری: غالب۔ فکر و فن، ۱۹۶۱ء، کراچی: انجمن ترقی اردو پاکستان، ص ۱۷۲۔

۷۳؂ ایضاً ص۱۷۸۔

۷۴؂ ایضاً ص ص ۱۷۳، ۱۷۴۔

۷۵؂ ایضاً ص۱۸۹۔

بابِ چہارم

کلیم الدین احمد

شمس الرحمن فاروقی

کلیم الدین احمد

 

  پروفیسر کلیم الدین احمد۱۵ ستمبر ۱۹۰۸ء کو خواجہ کلاں ، پٹنہ سٹی میں پیدا ہوئے۔۱؂  ۱۹۲۴ء میں میٹرک کا امتحان 2nd Division سے پاس کیا۔ ۱۹۲۸ء میں پٹنہ کالج سے بی اے (انگریزی آنرز) کیا اور ۱۹۳۰ء میں ایم اے انگریزی پٹنہ یونیورسٹی سے ہی کیا۔۲؂ ۱۷ ستمبر ۱۹۳۰ء کو انگلستان کے لیے روانہ ہوئے ، جہاں کیمبرج سے دو ٹرائی پوس کیا اور فرانس، ہالینڈ، بلجیم، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ کی سیر کر کے ۱۹۳۳ء میں ہندوستان واپس آئے۔۳؂ ۳۱ اگست ۱۹۳۳ء کو پٹنہ کالج میں انگریزی کے اسسٹنٹ پروفیسر ہوئے۔ ۱۹۳۹ء میں ’گل نغمہ‘ شائع کی، جس کے مقدمے پر کافی بحث ہوئی۔ ۱۹۴۰ء میں ’اردو شاعری پر ایک نظر‘ شائع ہوئی۔ ۱۹۴۰ء میں ہی دائرۂ ادب کا قیام عمل میں آیا اور اس کی طرف سے ’معاصر‘ جاری کیا گیا جس پر نام بطور مدیر اگرچہ ڈاکٹر عظیم الدین احمد کا ہوتا تھا، لیکن ادارت کی ذمہ داری کلیم الدین احمد ہی سنبھالتے تھے۔ ۱۹۴۲ء میں ’اردو تنقید پر ایک نظر‘ شائع ہوئی۔ ۱۹۴۴ء میں ’اردو زبان اور فنِ داستان گوئی‘ شائع ہوئی۔ ۱۹۵۵ء میں ’سخن ہائے گفتنی‘ شائع ہوئی۔ ۱۹۶۳ء میں ’عملی تنقید‘ جلد اول منظرِ عام پر آئی۔ نومبر ۱۹۷۷ء میں ’ادبی تنقید کے اصول‘ پر خواجہ غلام السیّدین میموریل ٹرسٹ کی دعوت پر لکچر دیا۔ ۱۹۷۸ء میں ’میری تنقید: ایک بازدید‘ کے موضوع پر خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری میں لکچر دیا۔۴؂  ۱۹۷۹ء میں ’اقبال ایک مطالعہ‘ شائع ہوئی۔ یہ فہرست نامکمل ہے۔ یہاں ان کتابوں کا ہی ذکر کیا گیا ہے جو متنازعہ فیہ رہی ہیں اور براہِ راست اردو شاعری اور تنقید سے بحث کرتی ہیں۔ کلیم الدین احمد کی کتابیں اردو تنقید میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اسلوب احمد انصاری کے مضمون ’تنقید اور تخلیق‘ پر بازدید میں پروفیسر ابوالکلام قاسمی نے لکھا ہے :’’اردو میں عرصۂ دراز تک فن پارے اور فن کار کے عمومی مطالعے کا سلسلہ جاری رہا ہے ، حتیٰ کہ بیسویں صدی کے نصفِ اوّل میں سوائے الطاف حسین حالیؔ اور کلیم الدین احمد کے کوئی نقاد ایسا نہیں ملتا جس نے فن پارے کے عمیق مطالعے کی طرف توجہ صرف کی ہو۔ اس ضمن میں اگر وسیع طریقِ مطالعہ اور عمیق طریقِ مطالعہ کی اصطلاحات استعمال کی جائیں تو زیادہ بہتر ہے۔ محمد حسین آزادؔ ہوں ، شبلی نعمانی ہوں یا قدرے بعد کے نقادوں میں عبدالرحمن بجنوری، فراقؔ گورکھپوری، آل احمد سرور، احتشام حسین، مجنوں ؔ گورکھپوری اور اس انداز کے مختلف طرزِ فکر سے تعلق رکھنے والے دوسرے نقاد ہوں ، ان سب کے یہاں وسیع طریقِ مطالعہ کی روایت پائی جاتی ہے۔ ان میں سے کوئی نقاد فن پارے کو بحیثیت موضوع اور معروض زیر بحث نہیں لاتا۔ عام تنقیدی صورتِ حال یہ رہی ہے کہ بعض فن پاروں کے سیاق و سباق میں فی نفسہٖ فن پارے کو موضوع نہ بنا کر فن کار کے پورے شاعرانہ کردار کو زیر بحث لایا جائے اور کسی مخصوص کلیے یا تعلیمی اصول کی بنیاد پر اس فن کار کی بہت سی تخلیقات کو مثال کے طور پر پیش کر دیا جائے ‘‘۔۵؂

اور اردو معاشرہ اسی قبیل کی تنقیدوں کا عادی رہا ہے۔ اسی لیے کلیم الدین احمد کی تنقیدوں سے ہمارے حسنِ ظن کو صدمہ پہنچتا ہے اور ہم اسے مغرب زدگی بتانے میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔ اس طرح ان ذمہ داریوں سے فرار کا آسان راستہ مل جاتا ہے جن کا مطالبہ کلیم الدین احمد کی تنقیدیں ایک نقاد سے کرتی ہیں۔ فراقؔ گورکھپوری نے اس سلسلے میں ایک دل چسپ بات لکھی ہے :’’لطف یہ ہے کہ اردو کا جو شاعر جس قسم کا ہے وہ اپنی یا اپنی قسم کی شاعری پر آپ کی نکتہ چینی سے کچھ چیں بہ جبیں ہے۔ لیکن آپ کی کتاب کے دوسرے حصوں سے غالباً خوش ہے۔ غزل پرست لوگ صنفِ غزل کے خلاف آپ کی دلیلوں سے کچھ پریشان ہیں تو مرثیہ مثنوی اور دورِ حاضر کی مسلسل اردو نظموں پر آپ کی سخت مگر بے لاگ تنقید سے خوش ہیں۔ جو نظم کے طرفدار ہیں وہ نظموں پر آپ کی تنقید سے ناخوش اور غزل پر آپ کی تنقید سے خوش ہیں ‘‘۔۶؂ میں کلیم الدین احمد کو اردو کا عہد ساز نقاد تسلیم کرتا ہوں۔ اگرچہ ذہنی تحفظات و تعصبات سے وہ بھی یکسر پاک نہیں ہیں اور کوئی بھی نقاد بحیثیت انسان ان سے بالکل بے نیاز ہو بھی نہیں سکتا۔

 کلیم الدین احمد کی ’اردو شاعری پر ایک نظر‘ ۱۹۴۰ء میں شائع ہوئی۔ یہ نہایت با اثر تنقیدی کتاب تسلیم کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر راہی معصوم رضا کا خیال ہے کہ کلیم الدین احمد کے خیالات سے اختلاف ممکن ہے لیکن مقدمہ کے بعد ’اردو شاعری پر ایک نظر‘ واحد ایسی کتاب ہے ، جو ہمیں نقاد کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتی ہے۔ پروفیسر کلیم الدین احمد کے تنقیدی رویوں پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے ، لیکن میرے خیال میں اس پر بہترین تحریر خود کلیم الدین احمد کی ’میری تنقید ایک بازدید‘ ہے۔ ’اردو شاعری پر ایک نظر‘ میں کلیم الدین احمد نے اردو شاعری کے منظر نامے کو پیش کیا ہے ، اس میں غالبؔ پر بھی گفتگو شامل ہے۔ انھیں غزل کی ریزہ خیالی سے عام شکایت ہے اور غالبؔ بھی اس الزام سے بری نہیں۔ وہ لکھتے ہیں :’شاعر دو طرح کے ہوتے ہیں۔ کچھ شاعر تو نئی راہیں نکالتے ہیں ، پرانے رستوں پر چلنا وہ اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ پرانی روش سے ان کا جی گھبراتا ہے اور نئی روش ایجاد کرتے ہیں۔ کچھ شاعر ایسے بھی ہوتے ہیں ، جو کسی نئی راہ کی ضرورت نہیں سمجھتے ، جو جانے ہوئے راستوں پر چلتے ہیں۔ اس میں کشادگی پیدا کرتے ہیں یا اپنی چال میں کچھ نئی شان یا بانکپن پیدا کرتے ہیں۔ غالبؔ اسی قسم کے شاعر ہیں : نئی طرز وہی نکالتا ہے جس میں کچھ جدت کا مادہ ہوتا ہے ، جس کی شخصیت روایات کی حدود میں قبر کی تنگی محسوس کرنے لگتی ہے ، جس کے انوکھے ، نایاب تجربے معمولی مقرر اور جانے ہوئے سانچوں میں جائز نکاس نہیں پاتے۔ اس لیے وہ ایک نئی روایات کی بنا ڈالتا ہے ، نئی نئی صورتیں ایجاد کرتا ہے ، ادب میں نئی شاخیں نکالتا ہے یعنی اپنی عمارت الگ بناتا ہے۔ دوسرے اس کی پیروی کرتے ہیں۔ اس کے بنائے ہوئے رستوں پر چلتے ہیں ، اس کی روش، اس کا رنگ اختیار کرتے ہیں۔ لیکن نئی راہ ہر شخص کے بس کی بات نہیں اور نہ ہر شخص کو اس کی ضرورت ہے اور نہ یہ کوئی بڑائی کی دلیل ہے۔ روایات کی حدود میں رہتے ہوئے بھی بزرگی ممکن ہے۔ اگر نئی روش مشکل ہے اور ہر شخص کے بس کی بات نہیں تو کسی مقرر مستحکم محدود روش میں انفرادی شان (بھی) بہت دشواری سے حاصل ہو سکتی ہے ‘‘۔

یہاں کلیم الدین احمد نئی راہ، نئی طرز، نئی روش اور نئے رنگ سے نیا سانچہ اور نئی صنف مراد لیتے ہیں اور گو یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہر شخص کو اس کی ضرورت نہیں اور نہ یہ کوئی بڑائی کی دلیل ہے۔ اس کے باوجود نئی طرز کو جدت کا زائیدہ اور جدت کے لیے لازمی بھی بتاتے ہیں اور روایات کو بھی سانچے اور صنف کے مفہوم میں استعمال کرتے ہیں جب کہ روایت صنف کا ایک حصہ محض ہے۔ یہ زیادتی ہے اور اس طرح ادبی اور تاریخی اہمیتیں گڈمڈ ہو جاتی ہیں ، مثلاً رودکی نے نئی صنف کے طور پر غزل کا استعمال کیا، اس سے اس کی تاریخی اہمیت تو ظاہر ہوتی ہے لیکن ادبی اہمیت رودکی کی وہ نہیں جو مثلاً حافظؔ کی ہے اور ایسا نہیں کہ حافظؔ میں جدت کا مادّہ نہیں تھا یا رودکی کے مقابلے میں کم تھا۔ لہٰذا یہ کہنا کہ جدت کا مادّہ لازماً نئے سانچے پیدا کرے گا، درست نہیں۔ کسی مقرر مستحکم اور محدود روش میں کشادگی اور توسیع بھی جدت ہے اور یہاں پر یہ بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ کتنے لوگ ہیں جن سے نئی اصناف یادگار ہیں ؟ پھر بھی ہم یہ نہیں کہتے کہ ان معدودے چند لوگوں میں ہی جدت کا مادّہ تھا اور دوسرے فنکار پرانی روش پر چلنے والے ہیں۔ ان کے تجربے انوکھے ، نایاب اور اہم نہیں ہیں۔ دنیا کے بیشتر بڑ ے ادبی کارنامے مروّجہ اصناف میں ہی ظہور پذیر ہوئے ہیں۔ اسی طرح کلیم الدین احمد لکھتے ہیں کہ غالبؔ نے :’’اگر کبھی اس (غزل) میں کسی قسم کی کمی محسوس کی تو:بقدر شوق نہیں ظرف تنگنائے غزل    کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے    یا اسی قسم کا ایک آدھ شعر کہہ کر اپنی وقتی بے اطمینانی کا اظہار کر لیا۔ دل کی بھڑ اس نکل گئی اور پھر اسی تنگنائے غزل میں اپنے خیال اور جذبات کی وسعتوں کو سمیٹتے رہے ‘‘۔۸؂ یہ مدحیہ غزل ہے ، جس میں تجمل حسین خاں کی مدح مقصود ہے اور غالبؔ کے اس شعر میں غزل کی صنفی تنگ دامانی کا گلہ نہیں بلکہ صرف یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ غزل میں ممدوح کی وہ مدح ممکن نہیں جو مثلاً قصیدے میں ہو سکتی تھی۔ اور شاعر چاہتا تو ہے کہ تجمل حسین خاں کے اوصافِ حمیدہ مزید بیان کیے جائیں۔ اس کے شوق کی تسکین کے لیے اتنی مدح ناکافی ہے۔ لیکن غزل کی اپنی حدود اور صنفی تقاضے ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ غالبؔ غزل سے مطمئن نہ تھے ، غلط ہے۔ اور تعجب ہے کہ ہمارے نقادوں نے اس کی گرفت نہیں کی اور غزل کی مدافعت کے لیے خواہ مخواہ کی تاویلیں پیش کرتے رہے۔ اسی طرح کلیم الدین احمد غالبؔ کے آرٹ کو روایتی قرار دیتے ہیں ، اس مفہوم میں کہ غالبؔ نے غزل میں ہی طبع آزمائی کی۔ یہ بھی غلط ہے اس لیے کہ روایتی کی اصطلاح منفی معنوں میں استعمال ہوتی ہے اور غالبؔ اس مفہوم میں ہرگز روایتی نہیں ہیں۔ انھوں نے روایت سے استفادہ ضرور کیا ہے ، لیکن اس کے غلام نہیں بنے۔ اسی کے ساتھ وہ غالبؔ کو ’’اپنی حدود کے اندر اپنی آپ مثال‘‘ کہتے ہیں اور میرؔ اور غالبؔ کے فرق کو بڑی خوبی سے واضح کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :’میرؔ کے آرٹ میں گہرائی ہے۔ اور شاید جہاں تک صرف گہرائی کا تعلق ہے ، کوئی دوسرا شاعر میرؔ سے آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔ غالبؔ کے آرٹ میں یہ گہرائی نہیں۔ اس میں وسعت ہے ، تنوع ہے۔ ایسی وسعت جن کا گمان بھی شاید میرؔ کو نہ تھا۔۔۔ میرؔ کے کامیاب شعروں سے صاف پتا چلتا ہے کہ میرؔ کی دنیا محدود قسم کی ہے ، جس میں ا تھاہ گہرائی ہے۔ لیکن وسعت کچھ زیادہ نہیں۔ یہی وسعت غالبؔ کے آرٹ کی نمایاں خوبی ہے۔ غالبؔ کا حلقۂ دامِ خیال بہت وسیع ہے ، اس جال میں سبھی کچھ سمٹ آئے ہیں ‘‘۔۹؂ یہاں پر ایک کمی البتہ کھٹکتی ہے کہ کلیم الدین احمد نے یہ نہیں بتایا کہ تنقیدی قدر و قیمت اس وسعت اور گہرائی کی کیا ہے ؟ وہ یہ بھی واضح کر دیتے ہیں کہ ’’اس وسعت پر زور دینے کا یہ مطلب نہیں کہ اس آرٹ میں گہرائی نہیں ہے اور۔۔۔ یہ آرٹ سطحی قسم کا ہے ‘‘۔ وہ غالبؔ کی انفرادیت پر خصوصیت سے زور دیتے ہیں اور لکھتے ہیں :

 ’’غزل کی کمی یا خصوصیت کہیے یہ بھی ہے کہ اس میں تجربات بہت عام صورت میں ، اپنی خصوصیت سے الگ ہو کر ظاہر ہوتے ہیں۔ وہ خصوصیتیں جو شاعر کے ماحول اور اس کی شخصیت سے متعلق ہیں ، فنا ہو جاتی ہیں اور تجربات ایسی عام اور غیر متعین شکل میں نظر آنے لگتے ہیں کہ ان کی انوکھی شان، ان کا انوکھا پن باقی نہیں رہتا۔ غالبؔ غزل کی اس کمی کے باوجود بھی اپنی انفرادی شان قائم رکھتے ہیں۔ ان کے آرٹ میں ایک انوکھا پن ہے ، جو اور کہیں نہیں ملتا۔۔۔ غالبؔ کی ایک انفرادی شخصیت تھی، اس میں ایک خود داری تھی، ایک شان تھی، ایک وضع تھی جسے وہ کبھی نہ چھوڑ تے تھے۔۔۔ اس شخصیت میں پیچیدگی بھی تھی اور گہرائی بھی اور پھر ایک قسم کی شوخی اور متانت بھی‘‘۔۱۰

وہ غالبؔ کی قوتِ مشاہدہ اور دور بینی کی داد دیتے ہیں اور انھیں ادراک کے بلند مقام پر فائز بتاتے ہیں۔ اگرچہ یہ شکوہ بھی کرتے ہیں کہ غزل کے صنفی نقص کی بنا پر ’’وہ اتنے بلند و بزرگ کارنامے نہ پیش کر سکے جو اُن کی شان کے شایاں تھے ‘‘۔ وہ لکھتے ہیں کہ:’شاعر اپنے زمانے میں ادراک کے سب سے اونچے مقام پر ہوتا ہے۔۔۔ اس مقام سے وہ گرد و پیش، بلند و پستی کا جائزہ لیتا ہے جو چیزیں وہ دیکھتا ہے ان سے متاثر ہوتا ہے اور ان سے متاثر ہونے میں اس کی شخصیت کا پرتو نظر آتا ہے ، پھر وہ انھیں تاثرات کو اپنی (کذا) آرٹ کی مدد سے ایک ابدی صورت بخش دیتا ہے۔ اس کی طبیعت حساس ہوتی ہے ، اس کی آنکھیں دور بین اور خورد بین ہوتی ہیں۔ وہ سطحی چیزوں کے علاوہ ان چیزوں کو بھی دیکھ لیتا ہے جو بظاہر دکھائی نہیں دیتیں۔ لیکن اپنی پوشیدہ جگہوں سے ، اپنے چھپے ہوئے گوشوں سے زندگی اور زندہ چیزوں پر اپنا اثر ڈالتی ہیں اور انھیں کسی خاص صورت میں تبدیل کرتی ہیں یا کسی خاص رنگ میں رنگ دیتی ہیں۔ غالبؔ اپنے زمانے میں ادراک کے اسی بلند مقام پر تھے اور اسی جگہ سے زندگی، ماحول، پیش نظر اور آئے دن ہونے والی چیزوں کو دیکھتے تھے ‘‘۔۱۱؂

وہ غالبؔ کو ایک محشر خیال بتاتے ہیں۔ وہ غالبؔ اور سوداؔ کی مشابہتوں پر بھی روشنی ڈالتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ ’غالبؔ اور سوداؔ کے دماغ و تخیل میں بھی ہم رنگی ہے ، غالبؔ نے حسنِ الفاظ تو سوداؔ سے نہیں سیکھا لیکن جذبات کی بلندی اور تخیل کی پرواز میں وہ سوداؔ سے بہت کچھ ملتے جلتے ہیں۔۔۔ وہ مروّجہ مضامین غزل پر قناعت نہیں کرتے اور اکثر فلسفیانہ مضامین کو داخلِ شعر کرتے ہیں اور قدرت نے ان کو یہ قوت عطا کی تھی کہ وہ مصنوعی جذبات و خیالات کو جوش کے ساتھ محسوس کر سکیں۔ اس لحاظ سے وہ سوداؔ سے برتر تھے اور اسی وجہ سے وہ سوداؔ سے زیادہ کامیاب ہوئے۔۔۔ سوداؔ کی شوخی موجود ہے لیکن تاثیر میں سوداؔ سے بہت آگے ہیں ‘‘۔۱۲ ؂وہ غالبؔ کی نئی تشبیہوں ، نئے استعارے کو سراہتے ہیں۔ اگرچہ شیخ محمد ا کرام کی طرح انھیں تشبیہ و استعارے کا بادشاہ نہیں کہتے۔ وہ غالبؔ کے ذوقِ تماشا، مشاہدۂ عالم اور دیدۂ بینا کا ترجمان ان کے شعروں کو بتاتے ہیں جن میں جذبات و خیالات کی برابر اہمیت ہے۔ ان کے جذبات و احساسات کی صداقت اور الفاظ کی تازگی و شگفتگی کو آمد کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ان کے اسلوب کی ناہمواری کو بھی نشان زد کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :’ان کے اسلوب (کذا) کی ناہمواری ہے میرؔ و دردؔ کی طرح ان کا کوئی خاص اندازِ بیان نہیں ، کم سے کم تین طرح کے اسلوب ان کے کلام میں پائے جاتے ہیں۔ پہلے رنگ میں فارسیت کا غلبہ ہے ، الفاظ اور بندشوں سے فارسیت نمایاں ہے ، صرف کہیں چند اردو کے الفاظ جوڑ دیتے ہیں۔۔۔ دوسری جانب انتہا کی سادگی ہے۔ نہایت سیدھے معمولی لفظوں میں اختصار کے ساتھ آسان و سہل فہم طرز میں اپنے خیالات کی ترجمانی کرتے ہیں۔۔۔ یہ سادگی کیسی دل پذیر ہے۔ ہر لفظ مثل بلور شفاف۔ ترنم بھی موجود ہے۔ یہ غالبؔ کی خصوصیت ہے۔ ترنم ان کے اشعار میں تمام نمایاں ہے اور جس طرح جذبات و خیالات میں تنوع ہے اسی طرح ترنم میں بھی گونا گوں تغیر ہے۔۔۔ غالبؔ کا تیسرا رنگ ان دو رنگوں کے بیچ میں واقع ہوا ہے۔ فارسی الفاظ اور بندشوں کی اس سیدھی سادی وضع میں خوشگوار آمیزش ہے۔۔۔ اس غزل میں وہ بد نمائی نہیں جو پہلے رنگ میں ملتی ہے۔ فارسی بندشیں اور ترکیبیں ہیں لیکن یہ بھدی نہیں معلوم ہوتیں۔ یہ تو آنکھوں کو بھلی اور کانوں کو خوشگوار معلوم ہوتی ہیں۔ اس رنگ میں دوسرے رنگ سے زیادہ گنجائش و وسعت ہے۔ ہر قسم کے جذبات و خیالات کی سمائی ممکن ہے۔ پھر ترنم بھی کم نہیں ‘‘۔۱۳؂

اور ہر ایک قسم کی مثالیں دی ہیں۔ غالبؔ کے اسلوب کی تمام نیرنگی اس مختصر سے مطالعے میں سمٹ آئی ہے۔ اگرچہ اس ناہمواری سے جو نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ میرؔ و دردؔ کی طرح ان کا کوئی خاص اندازِ بیان نہیں ، یہ غلط ہے۔ کلیم الدین احمد نے ہی لکھا ہے :’وہ فارسی نما اشعار لکھیں یا سیدھے سادے لفظوں میں اپنے جذبات و خیالات کو بیان کریں ، ہر بھیس میں غالبؔ کا انداز صاف دکھائی دیتا ہے۔۔۔ وہ کسی بھیس میں کیوں نہ ہوں ہمیشہ اپنے اندازِ قد سے پہچانے جاتے ہیں ‘‘۔۱۴؂

تو یہ شناخت صرف انفرادی شخصیت سے قائم نہیں ہوتی اور نہ ہو سکتی ہے بلکہ اس میں غالبؔ کا خاص اندازِ بیان بھی شامل ہوتا ہے۔ بہرحال وہ غالبؔ کے اسلوب کی ناہمواری کے ساتھ مضامین کی ناہمواری پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :’غالبؔ میں صرف اسلوب ہی کی ناہمواری نہیں۔ مضامین میں بھی یہی ناہمواری ہے۔ کہیں وہ اعلا فلسفیانہ خیالات کو حلقۂ شعر میں کھینچ لاتے ہیں تو کہیں وقیع صوفیانہ تصورات کو پُر جوش و پُر اثر طریقے سے بیان کرتے ہیں۔ کہیں گہرے اور نفیس کوائف کی ترجمانی کرتے ہیں تو کہیں مشاہدۂ عالم کا تازہ اور شگفتہ نقشہ کھینچتے ہیں لیکن اس بوقلمونی کے ساتھ وہ پرانے اور فرسودہ خیالات، مروّجہ عشقیہ جذبات کو عامیانہ اور رکیک طور پر نظم بھی کرتے ہیں۔ اس ناہمواری کی وجہ سے طبیعت مکدر ہو جاتی ہے ‘‘۔۱۵؂

 پروفیسر کلیم الدین احمد کا یہ مضمون سترہ صفحات کا ہے اور اختصار اور جامعیت کی حیرت انگیز مثال پیش کرتا ہے۔ اس میں غالبؔ کی شاعری کے محاسن و معائب کا جس طرح جائزہ لیا گیا ہے وہ دوسرے نقاد کی کتابوں پر بھاری ہے اور اس سے غالبؔ کی شخصیت اور شاعری کے خدوخال روشن ہو جاتے ہیں۔ وہ غالبؔ کے آرٹ کی اصل خصوصیت یہ بتاتے ہیں کہ:’’غالبؔ کے آرٹ کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ اس نے غزل، خصوصاً شعر مفرد کی تنگی کو وسعت میں تبدیل کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ دو مصرعوں کی کیا بساط ہے ، اس میں گنجائش بہت کم ہے۔ کسی چیز کو پورے طور پر بیان کرنا ناممکن نہیں تو دشوار ضرور ہے۔ غالبؔ نے اس مشکل کو آسان کرنے میں دوسرے شاعروں کے مقابلے میں زیادہ کامیابی حاصل کی ہے۔ غالبؔ کا قول ہے کہ ہر کام کا آسان ہونا دشوار ہے۔ اسی طرح ایک شعر کا نظم بن جانا دشوار ہی نہیں ناممکن سا ہے۔۔۔۔ غالبؔ کوشش کرتے ہیں کہ ایک شعر میں مختلف خیالات و جذبات یا ایک ہی خیال، ایک ہی جذبے کے مختلف پہلوؤں کو سمیٹ لائیں۔ اس ارادے میں جامعیت کے ساتھ تو کامیابی ممکن نہیں لیکن وہ ایک ترکیب استعمال کرتے ہیں جس سے مشکل آسان ہو جاتی ہے۔ چند خیالات تو پوری طرح ایک شعر میں نظم نہیں ہو سکتے ، لیکن غالبؔ ایک خیال کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ دوسری باتوں کی طرف توجہ جا پڑ تی ہے اور شعر پڑھ کر ذہن ان دوسری باتوں کی جستجو میں لگ جاتا ہے۔ گویا محشرستان خیال کا دروازہ کھل جاتا ہے اور غالبؔ کا شعر اس دروازے کی کلید ہے ‘‘۔۱۶؂

وہ غالبؔ کے آرٹ کا کمال اس کو قرار دیتے ہیں کہ ’’جراحتِ پیکاں کو وہ زخمِ تیغ کی طرح دل کشا بنا سکتا ہے ‘‘۔ اس مضمون میں غالبؔ کی بزرگی اور حدود کا جو احساس ملتا ہے اس سے ہمارے حسنِ ظن کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ شاید اسی لیے وارث علوی اپنے طویل مضمون ’غالبؔ کی شاعری سے متعلق ہمارا تنقیدی رویہ‘ میں اس کا ذکر بھی نہیں کرتے جب کہ حالیؔ سے ممتاز حسین تک کی تحریروں کا جائزہ لیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ’’اردو میں غالبؔ پر اچھے مضامین تو صرف دو ہی لکھے گئے ہیں ، ایک حمید احمد خاں کا مضمون ’غالب کی شاعری میں حسن و عشق‘ اور دوسرا آفتاب احمد کا مضمون ’غالب کا غم‘ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ان دونوں خاں صاحبوں کی قد و قامت کا کوئی تیسرا نقاد ابھی تک تو ہم غالبؔ کو نہ دے سکے ‘‘۔۱۷؂ یہ اردو کی بدقسمتی ہے کہ وارث علوی جیسا قد آور نقاد ان عامیانہ مضامین کو اردو کا سرمایۂ افتخار بتائے اور ان کا یہ بیان ’’حالی مقدمہ اور ہم‘‘ میں بھی شامل ہے جو ۱۹۸۳ء میں شائع ہوئی ہے۔ لہٰذا ہم یہ سوچنے میں حق بجانب ہوں گے کہ وہ اپنی اس رائے پر اب بھی قائم ہیں۔ اور شاید ہماری تنقید کی اسی بوالعجبی کی وجہ سے غالبؔ پر کلیم الدین احمد کے مضمون جیسا جامع مضمون دوسرا نہیں لکھا جا سکا ہے۔ ہم کہتے تو ہیں کہ ’’شخصیت اور شاعری کا فرق ملحوظ خاطر نہ رکھنے کی وجہ سے غالبؔ کے نقادوں نے ان کے ساتھ نہایت افسوس ناک ستم ظریفیاں روا رکھی ہیں ‘‘۔۱۸؂ اور یہ کہ اردو نقادوں کا عام رویہ یہ رہا ہے کہ ’’ہر بڑ ے شاعر میں ایسے فکری عناصر تلاش کریں جو اُن کے لبرل ذہن کے طاق و محراب کے نقش و نگار بن سکیں چنانچہ۔۔۔ جو تنقیدیں لکھی جاتی ہیں ان کا تعلق نہ غالبؔ سے ہوتا ہے نہ غالبؔ کی شاعری سے بلکہ وہ عکس ہوتی ہے نقاد کے خیالات کا اور نقاد گویا اپنے روشن اور خود پسند خیالات کے لیے غالبؔ کے اشعار سے سند پیش کرتا ہے ‘‘۔۱۹؂ لیکن ہم خوگر اسی قسم کی تنقید کے ہیں چنانچہ ’’جس تنقید کا بنیادی اصول معروضیت ہے یعنی شاعر کے کلام کو ایک اکائی سمجھ کر غیر جذباتی انداز میں اس کا۔۔۔ معروضی تجزیہ کیا جائے ‘‘۔۲۰؂ وہ ہماری طبع نازک پر گراں گزرتی ہے۔

شمس الرحمن فاروقی

شمس الرحمن فاروقی کی تاریخِ پیدائش ۳۰ ستمبر ۱۹۳۵ء ہے۔۲۱؂ مذہبی اور ابتدائی عربی و فارسی کی تعلیم مولوی محمد شریف صاحب سے حاصل کی اور ابتدائی ا سکولی تعلیم ویسلی ہائی ا سکول اعظم گڑھ میں حاصل کی۔۲۲؂ نویں کے بعد گورکھپور آ گئے ۲۳؂ اور دسویں گورنمنٹ جوبلی ہائی ا سکول گورکھپور سے کی اور انٹرمیڈیٹ میاں جارج اسلامیہ انٹر کالج گورکھپور سے کیا اور بی اے ۱۹۵۳ء میں مہارانا پرتاپ کالج گورکھپور سے کیا اور ۱۹۵۵ء میں الٰہ آباد یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم اے کیا۔۲۴؂ ۱۹۵۵ء سے ۱۹۵۶ء تک ستیش چندر ڈگری کالج بلیا میں انگریزی کے استاد رہے اور ۱۹۵۶ء سے ۱۹۵۸ء تک شبلی کالج اعظم گڑھ میں۔۲۵؂  ۱۹۵۷ء میں سول سروس کا امتحان پاس کیا اور ۱۹۵۸ء میں انڈین پوسٹل سروس میں شامل ہو گئے ، اس ملازمت سے ۱۹۹۴ء میں سبکدوش ہوئے۔۲۶؂

 شمس الرحمن فاروقی کی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے ہوا۔۲۷؂ وہ لکھتے ہیں :’’میری پہلی ادبی کاوش ایک مصرع تھا جو میں نے سات سال کی عمر (۱۹۴۲ء) میں کہا۔۔۔ ایک دو سال بعد میں نے خالی وقتوں میں ایک قلمی ماہ نامے ’گلستان‘ کی ترتیب و اشاعت شروع کی۔ ترتیب اس معنی میں کہ ادھر اُدھر کی کاپیوں سے کاغذ جمع کر کے انھیں چھوٹی تقطیع پر کچھ ٹیڑھا میڑھا کاٹ کر میں ان کے سولہ یا بیس یا چوبیس صفحات بنا لیتا اور براہِ راست انھیں صفحات پر اپنی تصنیفات درج کرتا۔ یہ زیادہ تر میرے افسانے اور مضامین ہوتے ‘‘۔۲۸؂ اسی دیباچے میں فاروقی یہ بھی بتاتے ہیں :’’ایم اے کے دوران میں نے اپنی زندگی کا لائحۂ عمل یہ تجویز کر لیا تھا کہ کسی یونیورسٹی، ترجیحا ً الٰہ آباد یا علی گڑھ میں انگریزی کا استاد بننا، انگریزی میں شاعری کرنا اور اردو میں تنقید لکھنا۔۔۔ میرا یہ کہنا کچھ غلط نہ ہو گا کہ ۱۹۴۹ء /۱۹۵۰ء سے کوئی ۱۹۷۵ء تک میں انگریزی اور انگریزی کے توسط سے دوسری یورپی زبانوں کے فکشن اور ڈراما کا بڑ ا پُر شوق طالب علم رہا۔ مطالعے کے اس شوق اور اپنی ادبی زندگی کے بہت شروع میں بالالتزام افسانہ لکھنے کے باوجود میں نے ۱۹۵۲ء/ ۱۹۵۳ء کے بعد افسانہ کیو ں نہ لکھا، اس سوال کا جواب میرے پاس نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتا ہوں کہ ہارڈی کے علاوہ بھی میں نے کئی مغربی ناول نگاروں کو ہمت شکن پایا اور ’آہو نہ چر سکیں گے اس شیر نر کے بن میں ‘ والی کیفیت مجھ پر مستولی رہی۔ اس کے برعکس اردو میں تنقید لکھنا میری نظر میں زبان کی خدمت تھا اور شعر کہنا ایک گہری، ناقابلِ وضاحت، ذاتی مجبوری۔۔۔ یہی لیل و نہار تھے کہ میں نے اپنا رسالہ نکالنے کی ٹھانی اور چند مہینے کی تیاری کے بعد ’شب خون‘ کا پہلا شمارہ بابت ماہ جون ۱۹۶۶ء شائع کر دیا‘‘۔۲۹؂ شب خون‘ پر شروع میں بطور مدیر شمس الرحمن فاروقی کا نام نہیں ہوتا تھا بلکہ ڈاکٹر سیّد اعجاز حسین کا نام درج ہوتا تھا۔ جعفر رضا لکھتے ہیں :’شب خون کی تشکیل ایک مختصر مجلس، یعنی شمس الرحمن فاروقی، جمیلہ فاروقی (بیگم شمس الرحمن فاروقی)، حامد حسین حامد (پرانا نام حامد بہکاوی) اور راقم السطور پر مبنی تھی۔ بزرگوں میں ڈاکٹر سیّد اعجاز حسین، پروفیسر سیّد احتشام حسین اور ڈاکٹر مسیح الزماں مرحومین شامل تھے۔۔۔ ’شب خون‘ کے اول بارہ شماروں (جون ۱۹۶۶ء تا مئی ۱۹۶۷ء) میں راقم السطور نائب مدیر اور ڈ اکٹر سیّد اعجاز حسین مدیر رہے۔ اس کے بعد میں نے ’شب خون‘ سے اپنا رشتہ نائب مدیر کی حیثیت سے منقطع کر لیا لیکن میرے اور شمس الرحمن فاروقی کے درمیان مخلصانہ رشتہ پہلے ہی جیسا رہا اور یہی رشتہ بفضلہ ہنوز برقرار ہے۔۔۔ مزید چند شماروں کے بعد ڈاکٹر اعجاز حسین نے بھی علاحدگی اختیار کر لی۔۔۔ اس کے بعد سے ’شب خون‘ کے سفید و سیاہ کے مالک تنہا شمس الرحمن فاروقی رہے ہیں ‘‘۔۳۰؂

 شمس الرحمن فاروقی اردو کے عہد ساز نقاد ہیں۔ ان کی اولین حیثیت اگرچہ جدید اردو ادب کے وکیل اور نظریہ ساز کی ہے اور اس سلسلے میں اکثر انھیں ہدفِ ملامت بھی بنایا جاتا رہا ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ فاروقی ہمارے عہد کے واحد نقاد ہیں جن کی ہر تحریر ہم میں سے بہتوں کے لیے ہمت شکن ضرور ثابت ہوتی ہے ، جس مفہوم میں خود فاروقی کے لیے ہارڈی کی ناول نگاری ’ہمت شکن‘ ثابت ہوئی تھی۔ فاروقی کی تنقیدی فتوحات کا دائرہ نہایت وسیع ہے اور رنگارنگ بھی۔ اور اس میں ایک رنگ غالب تنقید کا بھی ہے۔ ان کی ’تفہیم غالب ‘۱۹۸۹ء میں شائع ہوئی لیکن ’شب خون‘ میں ۱۹۶۸ء سے ۱۹۸۸ء تک قسط وار شائع ہوئی۔ یہ کوئی تنقیدی کتاب نہیں ، بلکہ شرح ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ تنقیدی مباحث اس میں شامل ہیں جن کا باضابطہ مطالعہ کیا جانا چاہیے ، مثلاً اس سلسلے میں ایک سوال یہ اٹھایا جا سکتا ہے کہ میرؔ کی تفہیم کے لیے فاروقی نے جن اصولوں کا سہارا لیا، غالبؔ کی تفہیم کے اصول ان سے مختلف بلکہ اکثر متغائر کیو ں ہیں ؟ دوسرا سوال یہ کہ غالبؔ کی تفہیم میں جن اصولوں سے کام لیا گیا ہے ان کی توضیح کیوں نہیں ؟ جس طرح میرؔ کے سلسلے میں فاروقی نے کی ہے۔

 ’تفہیم غالب‘ نے جس طرح ہمارے چند مفروضہ مسلمات کو رد کیا ہے ، ان کا بھی اعتراف نہیں کیا گیا ہے مثلاً طباطبائی نے ’کاغذی پیرہن‘ کے سلسلے میں غالبؔ کے بیان کو غلط ٹھہرایا تھا۔ اور یہ بات عام طور پر تسلیم کر لی گئی تھی، جس سے دیوانِ غالب کا پہلا شعر تقریباً ہوا میں معلق تھا۔ فاروقی نے ایک فارسی شعر سے غالبؔ کے دعوے کو ثابت کیا اور بتایا کہ غالبؔ نے جس رسم کا ذکر کیا ہے وہ بہرحال تھی۔ وہ لکھتے ہیں :’کاغذی پیرہن پہن کر داد خواہی کے لیے جانا مشہور قدیم ایرانی رسم ہے اور کمال اسماعیل کا یہ شعر اس کے وجود کی دلیل کے لیے کافی ہے :کاغذیں جامہ بہ پوشید و بدرگاہ آمدزادۂ خاطر من تا بہ دہی داد مرا

اس رسم سے ملتی جلتی رسم کا سراغ قدیم روم میں بھی ملتا ہے۔ قدیم رومائی رواج کی رو سے داد خواہ یا امیدوار لوگ حاکم کے پاس سفید لباس پہن کر جایا کرتے تھے چنانچہ انگریزی کا لفظ Candidate بہ معنی ’امیدوار‘ اسی رسم کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ انگریزی میں Candid کے معنی ’صاف‘ کے ہیں۔ اصل لاطینی میں Candid کے معنی تھے ’سفید‘ اور Candidatus کے معنی سفید لباس پہننے والا، یعنی امیدوار‘‘۔۳۱؂

طباطبائی کے اعتراض کی اس سے عمدہ تردید کیا ہو سکتی ہے ؟ یہ محض اشارے ہیں جن سے تفہیم غالب کی تنقیدی حیثیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن تفہیم غالب کی اصل حیثیت شرح کی ہے جس کا غالب تنقید سے براہِ راست تعلق نہیں۔ اس لیے اس پر گفتگو یہاں ممکن نہیں۔

 فاروقی کی ’شعر غیر شعر اور نثر‘ ۱۹۷۳ء میں شائع ہوئی، یہ فاروقی کے نہایت اہم مضامین کا مجموعہ ہے۔ ’غبار کارواں ‘ (شعر غیر شعر اور نثر) میں فاروقی نے لکھا ہے :’بی اے کا امتحان دے کر میں نے گرمی کی چھٹیوں میں شیکسپیئر پڑھنا شروع کیا۔۔۔ ان دنوں سے لے کر آج تک شیکسپیئر اور میرے درمیان ایک ایسا ربط قائم ہے جس کا اظہار الفاظ میں نہیں ہو سکتا اور جو غالبؔ کے علاوہ کسی اور شاعر کے ساتھ قائم نہیں ہو سکا ہے ‘‘۔۳۲؂

اسی ربط کی سرگزشت وہ مضامین ہیں جو فاروقی نے غالبؔ پر لکھے ہیں۔ اس کتاب میں غالبؔ پر چار مضامین ہیں : (۱) غالب اور جدید ذہن (۲) اردو شاعری پر غالب کا اثر (۳) غالب کی مشکل پسندی) ۴) غالب کی ایک غزل کا تجزیہ پروفیسر کلیم الدین احمد نے فاروقی کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’انھوں نے رچرڈز کے شاگرد Emposn کی مشہور کتاب Seven types of ambiguity کا بھی بغور مطالعہ کیا ہے اور لفظی موشگافی کا فن Emposn سے سیکھا ہے ‘‘۔۳۳؂

 یہ فن ان مضامین میں بھی موجود ہے ’غالب اور جدید ذہن‘ کا آغاز ہی اس اعتراف سے ہوتا ہے کہ:’بڑی شاعری کی ایک پہچان یہ ہے کہ ہر زمانے میں اس کے پرستار اس کی بڑ ائی کی جو وجہیں ڈھونڈتے ہیں وہ اکثر ایک دوسری سے مختلف ہوتی ہیں۔ اس بات پر سب کا اتفاق ہوتا ہے کہ یہ شاعری بڑی ہے لیکن کیوں بڑی ہے ؟ اس سوال کے جوابات نہ صرف مختلف ہوتے ہیں بلکہ اکثر دو مختلف نسلیں جو جوابات ڈھونڈتی ہیں وہ ایک دوسرے سے متخالف اور متغائر بھی ہوتے ہیں ‘‘۔۳۴؂

اس کے بعد وہ جدید ذہن کی مخصوص نشانیاں تلاش کرتے ہیں اور نارسی اور بے اطمینانی کے احساس کو جدید ذہن کی سب سے بڑی پہچان بتاتے ہیں اور لکھتے ہیں :’لہٰذا جدید ذہن کی مخصوص نشانیاں یہ ہیں : ایک فطری بے اطمینانی اور نارسائی کا احساس، لفظ کا احترام اور وسیع المعنی ہونے کی وجہ سے اس کی علامتی حیثیت کی تصدیق، اپنی ذات (کائناتِ صغریٰ) میں اور اپنی ذات کے باہر (کائناتِ کبریٰ) میں بھی اسرار کی تلاش‘‘۔۳۵؂ اور بتاتے ہیں کہ:’’جدید ذہن (جدید نقاد جس کا نباض ہے ) غالبؔ کے کلام کی جس صفت کی طرف سے سب سے پہلے متوجہ ہوتا ہے وہ اس کی طلسمی اور اسراری فضا ہے ، یہ فضا چند الفاظ کے استعمال سے وجود میں آئی ہے۔۔۔ یہ سارے کے سارے الفاظ غالبؔ کے یہاں جس کثرت سے آئے ہیں اس کی مثال اردو شاعری میں کہیں نہیں ملتی، میرؔ و اقبالؔ کے یہاں بھی نہیں۔ حالاں کہ ان دونوں کے کلام میں بھی طلسم اور اسرار کی فضا ملتی ہے۔ غالبؔ کے یہاں طلسمی فضا کی شدت و قوت کی دو خاص وجہیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ انھوں نے ان الفاظ کو بعض ایسے Combination میں استعمال کیا ہے جو نہ صرف انوکھے ہیں بلکہ توسیع معنی کا کام کرتے ہیں۔۔۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ان تمام الفاظ کو بہت آسانی سے کئی الگ الگ لڑ یو ں میں پرونا ممکن ہے اور آخری تجزیہ میں یہ سب لڑ یاں باہم دگر مربوط اور منسلک معلوم ہوتی ہیں۔ اس طرح ایک دائرہ بن جاتا ہے۔ جس میں آغاز اور اختتام یک جا ہو جاتے ہیں ‘‘۔۳۶؂

یہاں یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ ان الفاظ کے اور اسی طرح استعمال سے کیا وہ طلسمی فضا خلق کی جا سکتی ہے ؟ اور وہ فنکار کیا غالبؔ کا حریف ہو سکتا ہے جو اس مرحلے میں کامیابی حاصل کر لے ؟ فاروقی اس بحث سے پہلو بچا جاتے ہیں اور غالبؔ کے کچھ اشعار کی تشریح کرتے ہیں جس میں یہ لفظی موشگافی کا فن شباب پر ہوتا ہے۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ فاروقی جن بنیادوں پر غالبؔ کی جدیدیت کی عمارت تعمیر کرتے ہیں وہ اپنی اولین شکل میں محمد حسن عسکری اور آل احمد سرور کے یہاں مل جاتی ہیں۔ حسن عسکری کے خیال میں :’غالبؔ کی جدیدیت کا احساس شاید سب سے پہلے عبدالرحمن بجنوری کو ہوا تھا۔ وہ اس لیے کہ مروّجہ اقدار سے بے اطمینانی کا جو عمل یورپ میں اٹھارویں صدی کے آخری حصے میں شروع ہوا تھا اور اسے شعوری شکل اختیار کرتے دس سال گزر گئے تھے ، پھر انگریزی تعلیم پانے والوں نے رومانی شاعروں کا تھوڑ ا بہت مطالعہ کیا تو اونگھتے کو ٹھیلتے کا بہانہ ہوا اور سماج کی اقدار سے انحراف ذہین اور حساس آدمی کا نشانِ امتیاز قرار پایا‘‘۔۳۷؂

}اگر غالبؔ کا نشانِ امتیاز صرف اتنا ہے تو اس وصف میں کئی دوسرے اس کے شریک غالب نکل آئیں گے۔ تعجب ہوتا ہے جب فاروقی صاحب جیسا ذہین نقاد بھی اسی بنیاد پر اپنی عمارت کھڑی کرتا ہے اور اس میں جو اضافہ کر پاتا ہے وہ لفظی موشگافی اور اپنی بے پناہ علمیت اور منطقی اسلوب کی نمائش سے زیادہ نہیں۔ اور اس مضمون سے غالبؔ ہماری سمجھ میں کم آتے ہیں اور فاروقی زیادہ۔ وہ کچھ اشعار کی عالمانہ تشریح کرتے ہیں جو حقیقت پسندانہ کم اور عالمانہ زیادہ ہے اور بتاتے ہیں :’’ان اشعار کو لفاظی اور قولِ محال سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ یہ دراصل اس قسم کے ما بعد الطبیعیاتی اور اسراری تجربے کا اظہار ہے جس کے لیے یے ٹس Yeats نے غالبؔ کے کچھ ہی دنوں بعد (غالبؔ کی وفات ۱۸۹۶ء، یے ٹس کی پیدائش ۱۸۶۵ء) زندگی میں موت یا موت میں زندگی کا استعارہ وضع کیا تھا۔ یے ٹس اور غالبؔ میں کئی باتیں مشترک ہیں ، علی الخصوص یہ کہ دونوں روزمرہ کی دنیا کی تاویل اور تعبیر اپنی ایک دنیا بنا کر کرتے ہیں جس میں مشاہدے کی قدر آنکھوں کی محتاج نہیں ہوتی۔ آج جو ہم غالبؔ اور یے ٹس کی طرف بار بار رجوع کرتے ہیں وہ اسی وجہ سے کہ یہ دونوں جدید انسان کی کسمپرسی کو ایک ایسی دنیا میں پناہ دیتے ہیں جو اس دنیا سے بہت قریب ہے جس کی یادیں جدید انسان کے اجتماعی لاشعور میں پوشیدہ ہیں ‘‘۔۳۸؂

اس میں جو دانشورانہ فضا چھائی ہوئی ہے وہ اپنی جگہ اہم سہی لیکن صاف بات یہ ہے کہ غالبؔ کے سلسلے میں فاروقی کی قوتِ فیصلہ جواب دے جاتی ہے اور وہ اس کی تلافی گول مول باتوں سے کرنا چاہتے ہیں۔ اور وہ اِدھر اُدھر کی توجیہات میں کھوجاتے ہیں۔ غالبؔ پر فاروقی کا سب سے خوبصورت اور بامعنی مضمون ’’اردو شاعری پر غالبؔ کا اثر‘‘ ہے۔ اس میں فاروقی نے غالبؔ کی روز افزوں مقبولیت کا جس طرح جائزہ لیا ہے وہ انھیں کا حصہ ہے ، وہ لکھتے ہیں :’یہ بات اپنی جگہ مسلّم ہے کہ ’یادگارِ غالب‘ نے غالبؔ کی ادبی حیثیت کو مستحکم کرنے اور اس طرح ان کا اثر وسیع کرنے میں بڑ ا کام کیا۔

 لیکن اردو کی سب سے با اثر تنقیدی کتاب ’مقدمۂ شعر و شاعری‘ ہے۔ حالیؔ غالبؔ کے شاگرد تھے۔ انھوں نے جب شعر و قصائد کے ناپاک دفتر کو مطعون کرنا شروع کیا اور غزل خوانی کو بے وقت کی راگنی کہا تو انھیں خوب معلوم تھا کہ ان کی تنقید سے اس تمام شاعری پر ضرب پڑ تی ہے ، جس کا ایک اہم اور نمایاں حصہ خود ان کے استاد کی شاعری ہے۔۔۔ اگر وہ اس ساری شاعری کو مطعون کرتے تو غالبؔ بھی زد میں آ جاتے۔ لہٰذا انھیں اپنے اس نظریہ میں اس کا التزام رکھنا تھا کہ غالبؔ پر ضرب نہ آنے پائے۔ یہ اردو ادب اور غالبؔ کی خوش نصیبی تھی کہ حالیؔ کے نظریات میں غالبؔ کی نہ صرف گنجائش نکل آئی بلکہ ان کا جواز بھی پیدا ہو گیا۔۔۔ اس وقت تو عالم یہ ہے کہ ’مقدمۂ شعر و شاعری‘ میں شعر کی خوبیوں کا جو بیان کیا گیا ہے اور جس کی اساس ملٹن پر رکھی گئی ہے۔ وہ تقریباً پورے کا پورا غالبؔ پر منطبق ہو سکتا ہے۔ بلکہ سادگی کی تعریف میں وہ جملے جہاں انھوں نے سادگی کی اضافیت کی بات کی ہے اور اصلیت کی تعریف میں وہ عبارات جہاں انھوں نے ان خیالات کو بھی اصلیت پر مبنی قرار دیا ہے جو شاعر کے عندیہ میں موجود ہوں یا یہ معلوم ہوتا ہو کہ وہ شاعر کے عندیہ میں موجود ہیں ، غالبؔ کے علاوہ اور کسی اردو شاعر پر پورے ہی نہیں اترتے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ شعر کی خوبیوں کی ساری بحث غالبؔ کا کلام سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے ‘‘۔۳۹؂یہ محاکمہ درست ہے اور فاروقی کا اس نتیجے پر پہنچنا بھی کہ :’’حالیؔ نے پوچ لچر اور سطحی مضامین پر مشتمل شاعری کا قصر منہدم کر دیا جس کے نتیجے میں جدید شاعری وجود میں آئی لیکن چوں کہ ان کی تنقید غالبؔ کا جواز اپنے اندر رکھتی تھی اس لیے غالب کی عظمت میں کوئی تخفیف نہ ہوئی اور جوں جوں غالبؔ کی وقعت میں اضافہ ہوتا گیا پرانی شاعری کا وقار گھٹتا گیا‘‘۔

 اسی کے ساتھ انھوں نے غالبؔ کی زبان اور استعارے پر غیر معمولی قدرت پر بھی زور دیا اور بتایا کہ غالبؔ کو مشکل پسندی محض بالذات مقصود نہ تھی اور ’’جدید استعارے کا پیش تر ڈھانچا غالبؔ کا دیا ہوا ہے ‘‘ اور اپنے عہد کی شعر کی داخلی مشینیات (کو) جگہ جگہ غالبؔ سے مستعار بتایا۔ اس مطالعے کا اختصار کہیں کہیں کھٹکتا ہے اس کے باوجود یہ مضمون نہ صرف فاروقی بلکہ اردو کی غالب تنقید میں گلِ سر سبد کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کی اہمیت کا اعتراف بالکل نہیں کیا گیا اور ’’غالب اور جدید ذہن‘‘ جیسے مضامین سرا ہے گئے۔ ’’غالبؔ کی مشکل پسندی‘‘ اصل میں ایک سوال کو حل کرنے کی کوشش ہے۔ فاروقی کا خیال ہے کہ:’’انھوں (غالبؔ) نے مروّجہ اسلوب کے برخلاف ایک پیچیدہ اسلوب اختیار کیا۔ محمد حسین آزاد کی تشخیص یہی ہے اور بہت صحیح ہے لیکن یہ تشخیص اپنی منطقی انتہا تک نہیں لے جائی گئی ہے ‘‘۔۴۰؂

اور فاروقی اس کو منطقی انتہا تک لے جانا چاہتے ہیں اور اس راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ یہ سوال ہے کہ:’’انھوں نے بہت سے اسالیب میں وہی ایک اسلوب کیوں اختیار کیا جو اردو شاعری کی روایت سے تقریباً قطعاً منافی تھا؟ منفرد ہونے کے اور بھی طریقے تھے یہی ایک طریقہ کیوں ؟‘‘۴۱؂

اور پھر لفظی موشگافی کی ایک طویل رہگزر شروع ہوتی ہے ، تھکا دینے والی اور نتیجہ یہ نکلتا ہے :’’لہٰذا غالبؔ کے نزدیک مشکل پسندی کا معیار استعارہ ہے لیکن اس استعارے میں اس مخصوص ہوش مندی کی بھی کارفرمائی ہے۔۔۔ جو میرؔ کے یہاں مفقود نظر آتی ہے ، اس ہوش مندی یعنی دانشورانہ حاکمیت کا نتیجہ یہ ہوا کہ غالبؔ کا استعارہ ہیئت اور موضوع کے اس امتزاج کو حاصل کر لیتا ہے جہاں استعارے کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ ورنہ  استعارے کا روایتی استعمال تو استعارے کو لباس کی طرح برتتا ہے جس کو شعر سے الگ بھی کر سکتے ہیں۔ بہت ممکن ہے استعارہ الگ کرنے سے شعر کے زور یا حسن میں کمی آ جائے لیکن بنیادی مفہوم میں کمی نہیں آ سکتی۔ غالبؔ کے یہاں استعارہ چوں کہ الگ نہیں ہو سکتا، اس لیے الگ کرنے کی کوشش شعر کا خون کرنے میں کامیاب ہو جائے تو ہو جائے لیکن اور کچھ ہاتھ نہیں آ سکتا۔ یہی غالبؔ کے شعر کا اشکال ہے۔۔۔ استعارے کو عقل سے مدغم کرنے کا یہ تیور غالبؔ کی مشکل گوئی کی اساس ہے۔۔۔ غالبؔ کا اشکال بالذات مقصود نہیں تھا بلکہ اس کا مقصود مشاہدات کی مختلف سطحوں کو یک جا کرنا تھا‘‘۔۴۲؂ اس طویل اقتباس سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں غالبؔ کی مشکل پسندی کو محاورے کے طور پر نہیں دیکھا گیا بلکہ اس کی تہ میں اُترنے کی کوشش اور کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ یہاں مغربی معیارات سے بھی مدد لی گئی ہے لیکن مشرقی خود شناسی بھی عروج پر ہے اور یہ دونوں الگ الگ نہیں ہیں جس طرح مثلاً عبدالرحمن بجنوری اور ڈاکٹر عبد اللطیف صاحبان کے ہاں ہیں کہ کبھی ایک کا پلڑ ا بھاری ہے تو کبھی دوسرے کا۔ بلکہ یہاں یہ دونوں اس طرح حل ہو گئے ہیں کہ انھیں الگ نہیں کیا جا سکتا۔  ’’غالبؔ کی ایک غزل کا تجزیہ‘‘ میں تجزیے کے جو اصول بیان کیے گئے ہیں وہ بہت قیمتی ہیں ، اگرچہ ان میں کچھ خامیاں بھی ہیں۔ جن کو پروفیسر کلیم الدین احمد نشان زد کر چکے ہیں ، ان کا اعادہ تحصیل حاصل ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ اصول جو بیان کیے گئے انھیں تجزیے میں برتا نہیں جا سکا۔ کلیم الدین احمد نے ایک شعر کے تجزیے کی کوتاہیاں بیان کر دی ہیں (ملاحظہ فرمائیں : ’اردو تنقید پر ایک نظر‘ ص۴۶۵ تا ۴۶۹، پٹنہ: بک امپوریم) اور دوسرے اشعار کے تجزیے بھی محلِ نظر ہیں ، لیکن انھیں نظر انداز اس لیے کیا جاتا ہے کہ اس کی اصلی حیثیت تشریح کی ہے جس کا غالب تنقید سے علاقہ محض واجبی سا ہے۔

 غالبؔ پر فاروقی کا معرکہ آرا مضمون ’’خدائے سخن میر کہ غالب؟‘‘ ہے جو ’شعر شور انگیز‘ میں ایک باب کے طور پر شامل ہے۔ اس میں وہ کہتے ہیں :’سب سے پہلی ضرورت تو اس بات کی ہے کہ اس اصطلاح (یعنی خدائے سخن) کے معنی متعین کیے جائیں۔ کیوں کہ غالبؔ کے ہوتے ہوئے میں میرؔ کو خدائے سخن نہیں کہہ سکتا۔ لیکن میرؔ کے ہوتے ہوئے غالبؔ کو بھی خدائے سخن کہنا ممکن نہیں ‘‘۔۴۳؂

اب اس کو کیا کیجیے کہ دونوں ہیں اور پھر بھی میرؔ خدائے سخن کہے جاتے ہیں۔ اس لیے یہ سوال اور پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ لیکن فاروقی اس پیچیدگی کو حل کرتے ہیں اور یہاں فاروقی کی قوتِ فیصلہ حیرت انگیز ہے۔ وہ دونوں کو ایک درجے کا شاعر نہیں مانتے اور نہ ایک طرح کا۔ اس اصطلاح کے معنی کی تعئین اردو شاعری کی روایت اور تاریخ کی روشنی میں کرنا چاہتے ہیں اور لکھتے ہیں :

 ’’میرا خیال یہ ہے کہ خدائے سخن کے معنی کا تعلق میرؔ کے اس بدنام قول سے ہے کہ اس وقت شاعر صرف ڈھائی ہیں ، ایک تو خود میں ، ایک مرزا رفیع اور آدھے خواجہ میر دردؔ۔ اور جب کسی نے میر سوزؔ کا نام لیا تو انھوں نے چیں بہ جبیں ہو کر کہا خیر پونے تین سہی۔۔۔ انھوں نے دردؔ کو آدھا شاعر اس وجہ سے نہیں کہا کہ ان کے خیال میں دردؔ خراب شاعر تھے یا ان میں شاعرانہ صفات صرف بدرجۂ نصف تھیں۔ میرؔ کی مراد دراصل یہ تھی کہ جہاں خود ان کو اور سوداؔ کو غزل کے علاوہ قصیدہ اور مثنوی میں بھی دخل ہے ، دردؔ صرف غزل گو ہیں لہٰذا وہ آدھے شاعر ہیں۔ اور میر سوزؔ چوں کہ ایک معمولی درجے کے غزل گو ہیں اس لیے وہ آدھے کے آدھے شاعر ہیں ‘‘۔۴۴؂

اور اس پر استدلال غالبؔ کے اس خط سے کرتے ہیں ، جو حاتم علی مہر کے نام ہے اور جس میں ناسخؔ کو یک فنا کہا گیا ہے کہ ’’قصیدے اور مثنوی سے ان کو علاقہ نہ تھا‘‘ اور پھر لکھتے ہیں :’اب میرؔ کا حال دیکھیے۔ اچھے یا بُرے ، وہ کسی صنف میں بند نہیں

ہیں۔ غزل، قصیدہ، مثنوی، مرثیہ، رباعی ان سب میں انھوں نے خاصا کلام چھوڑ ا ہے۔ اور اگر شہر آشوب اور واسوخت اور ہجو کو الگ اصناف مانیے تو آٹھ اصناف میں میرؔ کا کلام خاصی مقدار میں موجود ہے۔۔۔ انھوں نے ایک بحر بھی تقریباً ایجاد کی۔ اس کے برخلاف غالبؔ نے اردو میں صرف غزل، قصیدہ اور رباعی کہی۔۔۔ عروض میں غالبؔ کا کوئی تصرف نہیں۔ جہاں تک معیار کا سوال ہے غالبؔ کا قصیدہ میرؔ کے قصیدے سے یقیناً بہتر ہے ، لیکن میرؔ کا قصیدہ اتنا کمزور بھی نہیں ہے جتنا کمزور اسے مشہور کیا جاتا ہے۔۔۔ کثرتِ اصناف میں سوداؔ میرؔ کے کچھ نزدیک ضرور پہنچتے ہیں لیکن اس میں تو کوئی شک ہی نہیں ہو سکتا کہ بحیثیت مجموعی میرؔ کا مرتبہ سوداؔ سے بلند ہے یعنی میرؔ، سوداؔ سے بہتر شاعر ہیں۔ لہٰذا ایسے شاعر کو، جو اپنے عہد کا ممتاز ترین شاعر ہو، اور جس کے کلام سے ہر صنف کا نمونہ خاصی مقدار میں مل جاتا ہو، جس نے ایک صنف اور ایک بحر تقریباً خود ایجاد کی ہو، اس کو خدائے سخن کہا جائے تو کیا غلط ہو گا؟ اسی طرح مرزا اوج کو خدائے سخن اس لیے کہا گیا کہ اردو زبان میں ان سے بڑ ا عروضی کوئی پیدا نہ ہوا۔ خدا عام انسانوں پر اپنا قانون نافذ کرتا ہے اور عروضی اصول فن اور شعر گوئی کے قوانین وضع کرتا یا ان قوانین کی تشریح کرتا ہے۔ لہٰذا سب سے بڑ ے عروضی کو خدائے سخن کہنا کوئی ایسی نامناسب بات نہیں ‘‘۔۴۵؂

فاروقی خدائے سخن کی اصطلاح کو شاعرانہ برتری کا نتیجہ نہیں بلکہ شخصیت کی ہمہ گیری کا نتیجہ بتاتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ:’میرؔ کی اس ہمہ گیری کے سامنے غالبؔ کی دلچسپ اور شوخ و سنجیدہ شخصیت کم رنگا رنگ معلوم ہوتی ہے۔۔۔ جو لوگ شخصیت کی ہمہ گیری کو شاعری کا بھی معیار سمجھتے ہیں ان کے لیے میرؔ یقیناً غالبؔ سے بڑ ے شاعر ہیں۔ ظاہر ہے کہ شخصیت کی ہمہ گیری شاعرانہ مرتبے کا ایک پہلو تو ہو سکتی ہے ، لیکن شاعرانہ مرتبے کا تعین محض اس ہمہ گیری کے حوالے سے نہیں ہو سکتا۔۔۔ ہاں اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ میرؔ کو بھی دنیا کے بڑ ے شاعروں کی صف میں رکھنے میں مجھے کوئی تامّل نہیں ، اور ان کی اس بڑ ائی کی تعمیر میں ان کی شخصیت نے بھی حصہ لیا ہے بلکہ میں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ غالبؔ سے نسبتاً کم بڑ ے شاعر ہونے کے باوجود میرؔ نے اپنی ہمہ گیری کے باعث اکثر ایسے حامی پیدا کیے جو انھیں غالبؔ سے برتر ماننے پر مصر ہیں۔ اور یہ ہمہ گیری ان کی شاعری کے سارے میدان میں موجود ہے ، یعنی اس کا تعلق محض الفاظ کی کثرت اور تنوع یا مختلف علوم و تجربات کا براہِ راست درک ہونے سے نہیں ، بلکہ انسانی زندگی کے تمام مظاہر اور انسانی Psyche کے تمام گوشوں سے ہے ‘‘۔۴۶؂

یہاں پر یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ میرؔ کو خدائے سخن کہنے والے کتنے نقاد اس اصطلاح کو اس تناظر میں دیکھتے ہیں ؟ عام رویہ تو بہرحال یہی ہے کہ صنفِ غزل میں غالبؔ پر میرؔ کی برتری کے اظہار کے لیے یہ استعمال کی جاتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ جب فاروقی میرؔ کی ہمہ گیری کو شاعری کے سارے میدان میں یہاں تک پھیلاتے ہیں کہ یہ محض الفاظ کی کثرت اور تنوع یا مختلف علوم و تجربات کا درک (گویا کہ اظہار) نہ رہ کے انسانی زندگی کے تمام مظاہر اور انسانی Psyche کے تمام گوشوں کو محیط ہو جاتی ہے۔ گویا ان کا اظہار کرتی ہے ورنہ فاروقی کو یہ علم کیسے ہوتا؟ تو پھر غیر عشقیہ غزل کا سہرا غالبؔ کے سر کیوں باندھا جاتا ہے ؟ میرے خیال میں میرؔ کی بہترین شاعری بہرحال عشقیہ ہے جس نے میرؔ کو میرؔ بنایا ہے۔ اور اس کے دوسرے حصے محض زیبِ داستاں کے لیے ہیں۔ لہٰذا ان پر کسی نقاد کا اس طرح زور دینا جیسا کہ مثلاً فاروقی دے رہے ہیں ، گمراہی کا سبب ہو سکتا ہے۔ اور غالبؔ اور میرؔ کا جو فرق فاروقی نے بیان کیا ہے وہ بھی اسی غلط بنیاد پر قائم ہے۔ وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’’غالبؔ اور میرؔ کی شعریات ایک طرح کی ہے ‘‘ یہ دلیل طلب ہے یا پھر شعریات سے فاروقی کی مراد کیا ہے ؟ اس کی وضاحت ضروری تھی۔ خصوصاً اس لیے بھی کہ اس کے فوراً بعد فاروقی لکھتے ہیں :’غالبؔ کا تخیل آسمانی اور باریک تھا، میرؔ کا تخیل زمینی اور بے لگام۔ غالبؔ نے اپنی شاعری کے لیے اس طرح کی زبان وضع کی جسے ادبی زبان کہا جا سکتا ہے۔ میرؔ نے روزہ کی زبان کو شاعری کی زبان بنا دیا‘‘۔۴۷؂

یہاں پر یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ جب تخیل مختلف، دائرۂ کار مختلف اور زبان مختلف تو شعریات ایک طرح کی کیسے ہوئی؟ کیا صرف اس لیے کہ دونوں کا ذریعۂ اظہار اردو ہے ؟ یہ شعریات کے مفہوم کو ضرورت سے زیادہ وسعت دے دینا ہو گا۔ وہ اثرؔ لکھنوی کے اس نظریے کی کہ غالبؔ کا بہترین کلام بیشتر میرؔ سے مستعار ہے ، گرفت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس نظریے سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ غالبؔ کو پڑھنے کی ضرورت ہی کیا ہے ، میرؔ کا کلام کافی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ فاروقی نے میرؔ کی ہمہ گیری کا جو تصور پیش کیا ہے اور میرؔ کے دائرۂ اظہار کو جس طرح پھیلایا ہے اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ پھر کسی شاعر کو پڑھنے کی ضرورت کیا ہے ؟ میرؔ کا کلام کافی ہے۔ ان تمام اختلافات کے باوجود یہ مضمون پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ان کا یہ محاکمہ درست ہے کہ:’’غالبؔ نے جو کچھ میرؔ سے مستعار لیا اس کے بغیر بھی وہ غالبؔ رہتے ، اسی طرح جس طرح میرؔ نے اِدھر اُدھر سے کچھ لیا لیکن اس کو نہ لیتے تو بھی وہ میرؔ رہتے ‘‘۔۴۸؂

 دراصل وہ غالبؔ ہوں یا میرؔ ان کے ہاں دوسروں کا جو کچھ ہے وہ تزئین در و بام کے لیے ہے اور اسی لیے وہ غالبؔ اور میرؔ ہیں۔ دوسرے رنگ ان کے ہاں گہرا جاتے تو وہ مصحفیؔ ہو سکتے تھے ، انشاؔ ہو سکتے تھے ، جرأتؔ ہو سکتے تھے ، میرؔ اور غالبؔ نہیں ہو سکتے تھے۔ غالبؔ پر فاروقی کا ایک اور اہم مضمون ’’خیال بند غالب‘‘ ہے۔ یہ ’’غالب پر چار تحریریں ‘‘ میں شامل ہے۔ اس میں پہلے تو خیال بندی کی تعریف متعین کی ہے اور بتایا کہ اعظم الدولہ سرور نے ’عمدۂ منتخبہ‘ میں غالبؔ کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ ’’رویۂ خیال بندی بیش از بیش‘‘ برتتے ہیں اور پھر یہ بتاتے ہیں کہ:’’ادبی تاریخ کے حوالے سے دیکھیں تو واقعہ یہ ہے کہ خیال بندی کا باقاعدہ آغاز ہمارے یہاں شاہ نصیر سے ہوا (اگرچہ سوداؔ اور میر سوزؔ اِکّا دُکّا جگہ میرؔ اور پھر آخری زمانے میں مصحفیؔ کے یہاں اس کے نشانات مل جاتے ہیں ) ناسخؔ   و آتشؔ نے اس کو عروج دیا اور غالبؔ نے اسے درجۂ کمال تک پہنچا دیا‘‘۔۴۹؂

اس مضمون کا سب سے بڑ ا کارنامہ یہ ہے کہ خیال بندی کی اصطلاح جو زمانۂ قدیم میں بہت مروّج نہ تھی، کی قطعی تعریف متعین کرتا ہے۔ اس سلسلے میں فاروقی نے اردو شعرا کے کلام اور تذکروں اور شبلی کی ’شعر العجم‘ سے بطورِ خاص استفادہ کیا ہے۔ لیکن اس کی قطعی تعریف کے متعین کرنے اور اس پر غالبؔ کے کلام کو پرکھنے کے لیے اتنا کافی نہیں۔ چناں چہ فاروقی نے اپنے آزادانہ تنقیدی شعور کو رہنما بنایا۔ وہ لکھتے ہیں کہ:’’ہمارے شعرا کا عام عمل یہ رہا ہے کہ غزل کو صرف عشق یا متعلقاتِ عشق پر مبنی مضامین تک محدود نہ رکھیں۔ پھر خیال بند شعرا نے مضامین میں مزید تنوع حاصل کرنے کا اہتمام کیا اور اس کی خاطر بعض سامنے کی چیزوں (مثلاً کیفیت) کو ترک بھی کیا۔ غالبؔ کا زمانہ آتے آتے یہ بات کم و بیش ناممکن لگتی ہے کہ غالبؔ نے اپنی غزلوں کے لیے کچھ ایسے بھی مضامین ایجاد کیے ہوں ، یا دریافت کیے ہوں ، جنھیں مندرجہ بالا کسی شق میں نہ رکھا جا سکتا ہو۔ لیکن ظاہر ہے کہ غالبؔ نے ایسا کیا۔ غالبؔ کا اہم ترین کارنامہ اس ضمن میں یہ ہے کہ انھوں نے اس قسم کے غیر عشقیہ مضامین تو کثرت سے باندھے ہی جن کے لیے غزل میں گنجائش بن چکی تھی، لیکن انھوں نے ایسے بھی مضامین اختیار کیے جو غزل کے مروّجہ مضامین میں شامل نہیں تھے ‘‘۔۵۰؂ اس کے بعد غالبؔ سے اقبالؔ کی اثر پذیری کا جائزہ لیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اقبالؔ نے غالبؔ سے فارسی تراکیب کے برتنے کا سلیقہ نہیں سیکھا بلکہ یہ سیکھا کہ غزل کا شعر کس طرح غزل کے مروّجہ مضامین سے باہر نکل کے لکھا جا سکتا ہے۔ اور لکھتے ہیں :’اس طرح ہم خیال بندی کے اصول اور غالبؔ کی اس پر عمل پیرائی کو اردو غزل کا وہ سب سے اہم موڑ کہہ سکتے ہیں جو اٹھارویں صدی کے بعد ظہور پذیر ہوا، اور جس نے اقبالؔ کی غزل کے علاوہ جدید غزل کے لیے بھی راہ ہموار کی‘‘۔۵۱؂

اس کے بعد غالبؔ کے کچھ اشعار (جو ردیف ’الف‘ سے بے تکلف اٹھا لیے گئے ہیں ) کا تجزیہ کر کے بتایا کہ یہ اپنے پیش روؤں اور معاصرین سے کس طرح اور کس حد تک الگ ہیں۔ اور وہ ان اشعار کو حکیمانہ یا فلسفیانہ نہیں مانتے لیکن مجموعی آہنگ کی روشنی میں لکھتے ہیں کہ:’یہ اشعار سننے سے زیادہ (یا اگر زیادہ نہیں تو کم سے کم سننے کے علاوہ) چپ چاپ پڑھے جانے کا تقاضا کرتے ہیں۔ ان کا آہنگ سرگوشی کا نہیں لیکن ایسا پھر بھی محسوس ہوتا ہے کہ ان کا مخاطب ایک شخصِ واحد ہے یا پھر یہ اشعار خود کلامی کے عالم سے ہیں۔ یہ جدید اردو شاعری کی صفت ہے اور غالبؔ یہاں بھی جدیدیت کی پیشوائی کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں ‘‘۔

غالبؔ کی پیشوائی ترقی پسند تنقید پہلے ہی قبول کر چکی تھی، اب جدیدیت کے نظریہ ساز بھی اس کا دم بھرنے لگے۔ بہرحال یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ غالبؔ کی شاعری کے رموز صرف سننے سے نہیں کھل سکتے ، یہ ہم سے غور و فکر کا مطالبہ کرتی ہے۔ فاروقی کا ایک اور دلچسپ انکشاف ملاحظہ فرمائیں :’غالبؔ کے پہلے کسی بھی اردو شاعر کے یہاں اظہار کی نارسائی کا مضمون نہیں ملتا۔ یہ ایک نیا مضمون غالبؔ نے شاید اپنی طبیعت سے بنایا، یا انھوں نے اسے شاید بیدلؔ کے یہاں سے اخذ کر کے اس پر اپنا رنگ چڑھایا۔ بہرحال یہ بات دھیان میں رکھنے کی ہے کہ اردو ہی کیا، مشرق اور مغرب کے دوسرے کلاسیکی شعرا کے یہاں بھی اظہار کی نارسائی کا مضمون نہیں ملتا‘‘۔۵۲؂

اور وہ بتاتے ہیں کہ غالبؔ نے اس مضمون کو اتنی بار باندھا ہے کہ وہ فرانسیسی علامت نگار یا آج کے جدید شاعر معلوم ہوتے ہیں۔ اور فاروقی کے خیال میں جدید ذہن اور ذوق کے غالب کی طرف کھنچنے کا ایک سبب یہ بھی ہے۔ اس سلسلے میں فاروقی کی سب سے اہم دریافت یہ ہے :

 ’’ایک اور بات جس کی بنا پر غالبؔ کا کلام جدید ذہن کے لیے شاہ نصیر یا ناسخؔ سے زیادہ توجہ انگیز ہے ، غالبؔ کی تجریدیت ہے۔ یہ سراسر خیال بندی کا اظہار ہے۔ یعنی بہت سے اشعار ایسے ہیں جن میں غالبؔ نے مضمون کو غیر مرئی اور اکثر غیر محسوس بلکہ غیر حقیقی اشیا و مقدمات پر قائم کیا ہے۔ اس طرح معنی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔۔۔ تجرید کے ساتھ قولِ محال بھی غالبؔ نے استعمال کیا ہے۔ اس طرح کسی چیز کا عدم وجود ہی اس کے وجود کی دلیل بن جاتا ہے۔۔۔ ان اشعار کو بہترین شاعری کی مثال میں کہیں بھی پیش کیا جا سکتا ہے ، ان کے مضامین کا سارا دار و مدار تجرید اور تعقل پر ہے ، لہٰذا یہ خیال بندی کی بھی اعلا ترین مثالوں میں سے ہیں ‘‘۔۵۳؂

اس میں اردو شاعری کے منظر نامے میں غالبؔ کے امتیازات کی تعئین جس طرح کی گئی ہے وہ قابلِ رشک ہے۔ فاروقی نے غالبؔ کی شاعری کا جس طرح تنقیدی تجزیہ کیا اور اردو غزل کی تاریخ میں ان کا مقام متعین کرنے کی کوشش کی، اس سے پہلے ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔

 خصوصاً جن مقدمات پر غالبؔ کی عظمت کی بنیاد رکھی گئی ہے ، وہ ہماری تنقید میں ایک نئے باب کا اضافہ ہیں۔ اور ہمیں مشرقی شعریات کو بھی مغربی بوطیقا کے برابر اہم اور بامعنی سمجھنے کا سبق دیتے ہیں۔ یہ اردو تنقید میں فاروقی کا ناقابلِ فراموش کارنامہ ہے۔

حواشی:

۱؂ ڈاکٹر سیّد حسنین احمد: ’کلیم الدین احمد۔ ایک نظر میں ‘ کلیم الدین احمد سمینار کے مقالے ، پٹنہ: بہار اردو اکادمی، ص۱۴۷۔

۲؂ ایضاً ص۱۴۷۔

۳؂ ایضاً ص۱۴۸۔

۴؂ ایضاً ص۱۵۰۔

۵؂ ابوالکلام قاسمی: ’باز دید‘: اردو ادب، جنوری تا مارچ ۲۰۰۰ء، دہلی: انجمن ترقی اردو (ہند)، ص ۲۴۔

۶؂ فراقؔ گورکھپوری: ’ایک خط بنام کلیم الدین احمد‘ انتخاب معاصر، پٹنہ: خدا بخش اورینٹل لائبریری، ص۷۷۔

۷؂ کلیم الدین احمد: ’اردو شاعری پر ایک نظر‘ ۱۹۸۵ء پٹنہ: بک امپوریم، ص ص ۲۰۴، ۲۰۵۔

۸؂ ایضاً ص ۲۰۷۔

۹؂ ایضاً ص ۲۰۸۔

۱۰؂ ایضاً ص ص ۲۱۰، ۲۱۱۔

۱۱؂ ایضاً ص ۲۱۰۔

۱۲؂ ایضاً ص ۱۹۷۔

۱۳؂ ایضاً ص ص ۲۰۱۲۰۲، ۲۰۳۔

۱۴؂ ایضاً ص ۲۱۱۔

۱۵؂ ایضاً ص ۲۰۳۔

۱۶؂ ایضاً ص ص ۲۱۲، ۲۱۳۔

۱۷؂ وارث علوی: ’غالب کی شاعری سے متعلق ہمارا تنقیدی رویہ‘ عرفانِ غالب ۱۹۷۳ء، علی گڑھ: یونیورسٹی پبلی کیشنز ڈویژن، ص۲۲۵۔

۱۸؂ ایضاً ص ۲۰۱۔

۱۹؂ ایضاً ص ۲۲۲۔

۲۰؂ ایضاً ص ۲۲۲۔

۲۱؂ شمس الرحمن فاروقی: ’شعر غیر شعر اور نثر‘۱۹۷۳، الٰہ آباد: شب خون کتاب گھر، ص ۱۸۔

۲۲؂ رحیل صدیقی: شمس الرحمن فاروقی محو گفتگو‘ جلد اول، ۲۰۰۴ء، دہلی: رعنا کتاب گھر، ص ۱۔

۲۳؂ شمس الرحمن فاروقی: ’شعر غیر شعر اور نثر‘ ۱۹۷۳ء، الٰہ آباد: شب خون کتاب گھر، ص ۱۳۔

۲۴؂ رحیل صدیقی: شمس الرحمن فاروقی محو گفتگو‘ جلد اول، ۲۰۰۴ء، دہلی: رعنا کتاب گھر، ص ۱۔

۲۵؂ ایضاً ص۱۔

۲۶؂ ایضاً ص۱۔

۲۷؂ شمس الرحمن فاروقی: سوار اور دوسرے افسانے ، ۲۰۰۳ء طبع دوم، الٰہ آباد: شب خون کتاب گھر، ص ۱۱۔

۲۸؂ ایضاً ص۱۱۔

۲۹؂ ایضاً ص ص ۱۸،۱۹۔

۳۰؂ جعفر رضا: پہلے قدم کی یادیں ، شب خون، جون تا دسمبر ۲۰۰۵ء، الٰہ آباد: شب خون کتاب گھر ص ص ۵۴۹، ۵۵۰۔

۳۱؂ شمس الرحمن فاروقی: تفہیم غالب، ۱۹۸۹ء، دہلی: غالب انسٹی ٹیوٹ، ص۲۲۔

۳۲؂ شمس الرحمن فاروقی: ’شعر غیر شعر اور نثر‘ ۱۹۷۳ء، الٰہ آباد: شب خون کتاب گھر، ص ۱۴۔

۳۳؂ کلیم الدین احمد: اردو تنقید پر ایک نظر، ۱۹۸۳ء، پٹنہ: بک امپوریم، ص ۴۴۸ ۔

۳۴؂ شمس الرحمن فاروقی: ’شعر غیر شعر اور نثر‘ ۱۹۷۳ء، الٰہ آباد: شب خون کتاب گھر، ص۲۷۴۔

۳۵؂ ایضاً ص۲۷۸۔

۳۶؂ ایضاً ص۲۷۸۔

۳۷؂ قاضی جمال حسین: نقد غالب اور جدید ذہن کا مسئلہ، نقد و نظر غالب نمبر، ۱۹۹۷ء، علی گڑھ۔

۳۸؂ شمس الرحمن فاروقی: ’شعر غیر شعر اور نثر‘ ۱۹۷۳ء، الٰہ آباد: شب خون کتاب گھر، ص ۲۸۴۔

۳۹؂ ایضاً ص ۲۸۹۔

۴۰؂ ایضاً ص۳۰۱۔

۴۱؂ ایضاً ص۱۰۳۔

۴۲؂ ایضاً ص ص۳۰۷،۳۰۸، ۳۰۹۔

۴۳؂ شمس الرحمن فاروقی: خدائے سخن میر کہ غالب؟ مشمولہ تنقیدات، مرتّبہ نذیر احمد،۱۹۹۷ء، دہلی: غالب انسٹی ٹیوٹ، ص۲۱۹۔

۴۴؂ ایضاً ص ص ۲۱۹،۲۲۰۔

۴۵؂ ایضاً ص ص۲۲۰، ۲۲۱

۴۶؂ ایضاً ص ۲۲۳۔

۴۷؂ ایضاً ص ۲۲۴ ۔

۴۸؂ ایضاً ص ۳۳۸۔

۴۹؂ شمس الرحمن فاروقی: ’غالب پر چار تحریریں ‘ ۲۰۰۱ء، دہلی: غالب انسٹی ٹیوٹ، ص۹۰۔

۵۰؂ ایضاً ص ص ۱۱۴، ۱۱۵

۵۱؂ ایضاً ص۱۲۱۔

۵۲؂ ایضاً ص ص۱۲۵،۱۲۶۔

۵۳؂ ایضاً ص ص۱۳۳، ۱۳۴۔

 

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے فائل اور اجازت دی

ان پیج سے تبدیلی، پروف ریڈنگ اور  ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔