02:48    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

تحقیق و تنقید شاعری

3685 3 0 05

مجاور حسین رضوی

مرثیہ۔ ۔ تعارف

(’اردو مرثیہ اور صوفیائے کرام‘ کا اہم مقالہ اور دوسرے مضامین)

مرثیہ اردو کی ایک مقبول صنف سخن ہے جس کا شمار شاعری کی مقبول و معروف موضوعی اصناف میں ہوتا ہے۔ زمانہ قدیم میں دو بیتی، مربع، مثلث اور مخمس کے فارم میں بھی مرثیے رائج رہے۔ آج بھی غزل کے فارم کو شخصی مرثیوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ مرثیہ کو مسدس کی معروف شکل میں سب سے پہلے سودا نے استعمال کیا۔ انیس اور دبیر کے مرثیوں کی بے پناہ مقبولیت کے سبب مرثیوں کے ساتھ مسدس کی ہیئت مخصوص ہو گئی ہے۔

مرثیہ کے موجودہ اجزائے ترکیبی میر ضمیر نے متعین کئے جن کی پابندی کی جاتی ہے کبھی کبھی ان سے گریز بھی کیا گیا ہے۔ وہ اجزاء یہ ہیں (1) چہرہ (2) سراپا (3) رخصت (4) آمد (5) رجز (6) رزم (7)شہادت اور (8) بین

مرثیہ کی تہذیبی اور تمدنی اہمیت کے علاوہ اس کی ادبی اہمیت سے نکار نہیں کیا جاسکتا۔ مرثیہ کی مقبولیت کا راز جہاں مذہب سے وابستگی ہے وہیں تہذیبی اخلاقی اور ادبی محاسن میں بھی مضمر ہے۔ اس کی مقبولیت کے کئی اسباب ہیں جن میں سے زیادہ موثر اور مقبول عام سبب مرثیہ کی جذباتی اور مذہبی نوعیت ہے۔ مرثیہ گویوں ، خصوصاً انیس و دبیر نے اپنی بے پناہ تخلیقی قوت سے مرثیہ کو اعلیٰ و عظیم شاعری کی صف میں لا کھڑا کیا ہے جس کی مثال عالمی ادب میں بھی نہیں مل سکتی۔ ا ن ہی مرثیہ نگاروں نے انسانی رشتوں ، جذبات و احساسات کی آفاقیت، جمالی اقدار اور شعر کے جملہ محاسن کو پیش نظر رکھا، جس کی وجہ سے ادبی ذوق کی بھی تسکین ہوتی ہے۔

مرثیہ کا فن

مسرس، مرثیے کی انتہائی ترقی یافتہ شکل ہے۔ ابتداء میں مرثیہ دو بیتی، مثلث، مربع اور مخمس میں بھی لکھا گیا۔ سودا نے مرثیہ کو مسدس کی شکل میں روشناس کروایا۔ سودا سے قبل بھی مسدس کے فارم میں مرثیے لکھے گئے۔ میر تقی میر، سکندر پنجابی، احمد اور حیدر دکھنی نے کچھ مرثیے مسدس ہی میں لکھے تھے۔ سودا کے بعد بھی مرثیے کے لئے دیگر ہیئتیں استعمال کی گئیں۔ مثلاً غالب نے عارف کے مرثیے میں غزل کا فارم اختیار کیا۔ حالی نے غالب کا مرثیہ لکھا تو ترکیب بند میں اور اقبال نے والدہ کا مرثیہ مثنوی کی شکل میں لکھا۔ محمد علی جوہر، سیماب اکبر آبادی اور حفیظ جالندھری نے مرثیے کے لئے غزل، قطعات اور مخمس کی ہیئتیں اختیار کیں۔ ان مثالوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مرثیے کے لئے کوئی ہیئت مخصوص نہیں ، لیکن انیس اور دبیر کے مرثیوں کی مقبولیت کی وجہ سے مسدس کے فارم کو مرثیہ سے مخصوص سمجھا جانے لگا ہے۔

مرثیے کے اجزائے ترکیبی

مرثیہ چونکہ واقعات کربلا پر مبنی ہے اس لئے اس میں واقعات کربلا کی تفصیل بیان ہوتی ہے۔ مثلاً جاں نثار ان حسین اور خانوادہ حسین کی سیر و شخصیت، کردار، جذبات، احساسات، اعزہ سے رخصتی، میدان کار زار میں ان بے سر و ساماں فدائیانِ حسین کی آمد، آلات حرب، جنگ کا منظر، گھوڑوں کی تیزی، تلواروں و نیزوں کی چمک دمک، فرات کے کناروں پر یزیدیوں کے پہرے، پیاسوں کی شہادت اور پھر ان کی زخم خوردہ لاشوں پر بین و بکا وغیرہ۔ ان واقعات و بیانات میں ایک منطقی ربط و تسلسل قائم رکھنے کی خاطر مرثیے کے لئے آٹھ اجزائے ترکیبی وضع کئے گئے :

 

 (1) چہرہ (2) ماجرا (3) سراپا (4) رخصت (5) آمد (6) رجز (7) شہادت (9) بین

مرثیے میں اجزائے ترکیبی کا یہ تعین استاد دبیر میر ضمیر نے کیا۔ لیکن اس کی پابندی پوری طرح نہیں ہوسکی۔ خود ضمیر اور بعد میں انیس و دبیر کے یہاں بھی اس کی پابندی نہیں ہوسکی۔ مثلاً مرزا سلامت علی دبیر کا ایک مشہور مرثیہ ہے ’’کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے’‘۔ یہ مرثیہ ’’آمد’‘ سے شروع ہوتا ہے۔

 

چہرہ

 

مرثیے میں چہرہ، قصیدہ کی تشبیب کی طرح ہوتا ہے جس میں شاعر حمد، نعت، منقبت حضرت علیؑ و امام حسینؑ کے علاوہ مکہ سے سفر، سفر کے پرخطر حالات، گرمی کا موسم، صبح کا موسم بیان کرتا یا پھر اپنی شاعرانہ عظمت، قادر الکلامی، ثنا خوان حسین ہونے پر فخر کا اظہار کرتا ہے۔ کبھی پیاس کی کیفیت کی بیان کرتا ہے۔ عموماً موسم کے بیان میں گرمی کی شدت، صبح کا منظر، چڑیوں کی چہچہاہٹ، شبنم کا پھولوں پر گہرا آبدار بن کر چمکنا وغیرہ قسم کے مناظر تشبیہہ و استعارے اور صنائع بدائع کی زرتابی کے ساتھ قلم بند کرتے ہیں۔ انیس کے ایک مشہور مرثیے میں صبح کا منظر اس طرح بیان کیا گیا ہے :

وہ دشت، وہ نسیم کے جھونکے، وہ سبزہ زار

پھولوں پہ جا بہ جا وہ گہر ہائے آبدار

اٹھنا وہ جھوم جھوم کے شاخوں کا بار بار

بالائے نخل ایک جو بلبل تو گل ہزار

خواہاں تھے زیب گلشن زہرا جو آب کے

شبنم نے بھر دیے تھے کٹورے گلاب کے

 

سراپا

عموماً یہ ایک طرح سے انصار حسینی کا تعارف ہوتا ہے۔ کبھی کبھی لشکر یزید کے ساتھیوں کا بھی سراپا لکھا گیا ہے۔ سراپا لکھنے میں شاعر اپنا زور قلم صرف کر دیتا ہے، جس سے شاعر کی اپنی محبت و عقیدت کا بھرپور اظہار ہوتا ہے تو دوسری طرف باطل یعنی یزیدیوں سے تنفر کا احساس ہوتا ہے۔ سراپا بیان کرتے وقت تشبیہات و استعارات سے مدد لی جاتی ہے۔ صنائع بدائع کے خزانے لٹا دئیے جاتے ہیں۔ دبیر نے ایک مرثیے میں بالکلیہ ہی علیحدہ انداز میں تصویر کشی کی ہے۔ ان کہا کہنا ہے کہ وہ تشبیہہ کہاں سے لاؤں جو حسن حسینی کی تابش کو سہار سکے۔ کہتے ہیں کہ رخ کو آئینہ کہوں تو سمجھو کہ میں نے کچھ بھی ثنا نہیں کی، آنکھ کو نرگس کہوں تو ان آنکھوں کے لئے کسر شان ہے کیونکہ نرگس میں نہ پلکیں ہیں نہ پتلی نہ بصارت۔

آئینہ کہا رخ کو تو، کچھ بھی نہ ثنا کی

صنعت وہ سکندر کی، یہ صنعت ہے خدا کی

گر آنکھ کو نرگس کہوں ، ہے عین حقارت

نرگس میں نہ پلکیں ہیں ، نہ پتلی، نہ بصارت

 

رخصت

میدان جنگ میں جانے کے لئے خیمہ حسین سے ایک بعد دیگرے جانباز، سر پر کفن باندھ کر نکلتے ہیں تو خیمے میں مکیں ، متعلقین اور مستورات انہیں بہ دل بریاں ، بہ چشم گریاں ، بہ لب لرزاں مگر بھرپور قوت ایمانی کے ساتھ رخصت کرتے ہیں۔ اہل خیمہ کو یقین ہے کہ یہ اب زندہ واپس نہیں آئیں گے۔ اس موقع پر وداع کرنے والے عزیزوں اور پیاروں کے جذبات محبت اور قوت ایمانی کے جو مرقعے مرثیوں میں کھینچے گئے ہیں وہ پڑھنے کے لائق ہیں۔

 

آمد

میدان جنگ میں آمد کا منظر زیادہ طویل نہیں ہوتا۔ یہ بند رخصت اور رجز سے جڑا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی آمد کے موقع پر گھوڑے کی تعریف بھی کی جاتی ہے۔

 

رجز

عربوں میں رواج تھا کہ دو حریف جب میدان جنگ میں آمنے سامنے ہوتے تو جنگ شروع ہونے سے قبل ایک دوسرے کو للکارتے، اپنی اور اپنے آبا و اجداد کی شجاعت، طاقت اور خاندانی عظمت، دینداری و قوت ایمانی وغیرہ کا ذکر کرتے تھے، جس میں جوش، غضب اور ولولہ ہوتا تھا۔ اس اظہار کو جو فصاحت و بلاغت کا مرقع ہوتا ہے اصطلاحاً ’ ’رجز’‘ کہتے ہیں۔ سبھی مرثیہ نگاروں نے اس حصے میں بلاغت و فصاحت کے دریا بہا دئیے ہیں۔ انیس کے ایک مرثیے سے رجز کا ایک بند ملاحظہ ہو۔ یہ رجز حضرت امام حسینؑ کی زبانی ہے۔

دنیا ہو اک طرف تو لڑائی کو سر کروں

آئے غضب خدا کا ادھر، رخ جدھر کروں

بے جبرئیل کار قضا و قدر کروں

انگلی کے اک اشارے میں شق القمر کروں

طاقت اگر دکھاؤں ، رسالت مآبؐ کی

رکھ دوں زمین پہ چیر کے ڈھال آفتاب کی

 

رجز

یہ مرثیے کا نہایت ہی اہم حصہ ہوتا ہے جس میں شاعر میدان جنگ کی تیاری، فوجوں کے ساز و سامان، گھوڑوں کی تعرے، ان کا غیض و غضب، براق کی سی تیز رفتاری، تلواروں کی چمک، نیزوں کی کڑک، سپاہیوں کی پھرتی، بے جگری سے لڑائی، جاں توڑ مقابلہ وغیرہ، ان تمام حالتوں اور کیفیتوں کو بڑی خوبی سے بیان کرتا ہے، جس سے اس کی بلندی خیال اور قوت اظہار کا پتہ چلتا ہے۔ یہ اشعار دیکھئے جن میں میدان جنگ کی تصویر ہو بہو سامنے آ جاتی ہے۔

نیزے ہلے، وہ چل گئیں چوٹیں کہ الاماں

ہر طعن قہر کی تھی، قیامت کی ہر تکاں

چنگاریاں ، اڑیں جو سناں سے لڑیں سناں

وہ اژدہے گتھے تھے، نکالے ہوئے زباں

پھیلے شرر پرندوں کی جانیں ہوا ہوئیں

شمعوں کی تھیں لویں کہ ملیں اور جدا ہوئیں

 

شہادت

مرثیوں میں یہ حصہ بھی بڑا جاندار ہوتا ہے کیونکہ اسی بیان پر بین کی شدت کا انحصار ہوتا ہے۔ اس حصے میں فوج حسینی کے شہید کی میدان میں جرأت، بہادری اور فن سپاہ گری کے کمالات بیان کرتے ہوئے زخموں سے چور چور نڈھال ہو کر گر جانے اور شہادت پانے کا ذکر آتا ہے۔ یہ مرثیہ کا بڑا دلدوز حصہ ہوتا ہے۔ حضرت علی اکبر کی شہادت پر امام حسینؑ کا حال زار اور کیفیت انیس اس طرح بیان کرتے ہیں:

حضرت یہ کہتے تھے کہ چلا خلق سے پسر

اتنی زباں ہلی کہ خدا حافظ اے پسر

ہچکی جو آئی، تھام لیا ہاتھ سے جگر

انگڑائی لے کے رکھ دیا شہ کے قدم پہ سر

آباد گھر لٹا شہ والا کے سامنے

بیٹے کا دم نکل گیا بابا کے سامنے

مرثیہ کا آخری جزو بین ہوتا ہے، جس میں مجاہد کی شہادت اور لاش کو خیمے میں لانے، خواتین کے رنج و الم اور بین و بکا کے جذبات کی عکاسی کی جاتی ہے۔ یہی دراصل مرثیے کا مقصد و منشاء ہوتا ہے۔ شاعر کا کمال یہ ہے کہ اس حصے کو اتنا پر اثر اور جاندار بنا دے کہ مجلس برپا ہو جائے۔

کہین کو مرثیہ شہدائے کربلا اور واقعات کربلا کے حالات بیان کرنے لکھا جاتا ہے، لیکن مرثیہ گو کی شان تخلیق اور قوت اظہار سے مرثیہ ایک ادبی شہکار بن جاتا ہے۔ اس ادبی شہکار میں وحدت میں کثرت کے جلوے نظر آتے ہیں۔ اس میں قصیدے کی شان و شکوہ، جلالت و بلاغت ہوتی ہے۔ مثنوی کی سادگی و سلاست اور قصہ پن، منظر نگاری، جذبات نگاری، کردار نگاری، مکالمہ نگاری، محاکات کے جاندار وسیع و ہمہ گیر مرقعے نظر آتے ہیں۔ کردار نگاری میں عموماً انیس نے اس بات کا لحاظ رکھا ہے کہ مکالمے کردار سے مطابقت رکھتے ہوں۔ صغریٰ، سکینہ، عون و محمد بچے ہیں تو وہ بچوں کی سی باتیں کرتے ہیں۔ حضرت عباس غصہ ور جوان ہیں تو وہ جوشیلی گفتگو کرتے ہیں ، عورتیں اپنے لب و لہجے روز مرہ و محاوروں کا استعمال کرتی ہیں۔ مرثیوں سے تشبیہ و استعارے کے خزانے میں بیش بہا اضافہ ہوا ہے۔ زندگی میں بعض مواقع آتے ہیں کہ آدمی کی قوت گویائی ساتھ نہیں دیتی۔ مرثیہ گویوں نے ایسے نازک موقعوں پر الفاظ کے موتی لٹا دئیے ہیں۔ حسن تعلیل کی ایک خوبصورت مثال دیکھئے :

پیاسی جو تھی سپاہ خدا تین رات کی

ساحل سے سر پٹکتی تھیں موجیں فرات کی

صنعت غیر منقوط کی ایک دلچسپ مثال یہ ہے :

حر حملہ ور ہوا کہ اسد حملہ ور ہوا

وہ حملہ ور ادھر ادھر اسلام ور ہوا

سرگرم معرکہ سرا اعدا اگر ہوا

وہ گل کھلا کہ لالہ کہسار سر ہوا

اہل حسد کو درس ادھر آہ آہ کا

حور و ملک کو درد ادھر واہ واہ کا

 

اپنی معلومات کی جانچ :

.1 مرثیہ ادبی شہکار کس طرح بنتا ہے؟

.2 صنعت غیر منقوط سے کیا مراد ہے؟ ایک چھوٹا سا غیر منقوط جملہ لکھئے۔

 

تہذیبی اہمیت

آج بھی لکھنؤ دبستان کا ذکر آتا ہے تو وہاں کے عیش و عشرت، طوائف بازی، مرغ بازی، کبوتر بازی ، کھیل کود میلے ٹھیلوں کا تذکرہ اس طرح آتا ہے جیسے لکھنؤ میں اور کچھ نہیں تھا سوائے بازار عیش کے۔ اسی اعتبار سے لکھنؤ کے شعری سرمایہ کو خارجیت سے مملو ہونے کا بہتان تراشا گیا ہے۔ پاکیزگی، درد مندی، دل سوزی جیسے وہاں کی شاعری میں عنقا ہوا۔ لکھنؤ کا مذہبی ماحول مجلس عزا کی کثرت اور اس کے ساتھ عوام و خواص کی قدردانی بھی لکھنؤ کی تہذیب میں شامل ہے۔ مرثیہ نگاروں نے لکھنوی تہذیب کی بہترین عکاسی کی ہے۔ وہاں آداب، اخلاق، رہن سہن، طور طریق خواتین کے لباس، ان کی زبان، زیورات، لباس وغیرہ کی دلنشیں اور دلچسپ تصویریں پیش کر دی ہیں ، مثال کے طور پر دبیر کے مرثیے سے ایک بند پیش ہے جس میں بی بی کی سواری کا منظر کھینچا گیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ کیسی پوشاک تھی، کیسے زیور تھے اور کیسی سواری تھی۔

مری بی بی کی امیرانہ سواری ہو گی

ناقے پر عرش کے مانند عماری ہو گی

مسند نور پہ کسریٰ کی وہ پیاری ہو گی

گہنا سب تحفہ تو پوشاک بھی بھاری ہو گی

بیرقیں نور کی ہاتھوں میں کشادہ ہوں گی

فوجیں حوروں کی سواری میں پیادہ ہوں گی

تصویر کی اسی لطافت نے عملی صورت بھی اختیار کر لی۔ استقبال کسی عظیم ہستی کا کس طرح ہوتا ہے دیکھئے :

مسند آراستہ کی سبط پیمبر کے لئے

کشتیاں لا کے رکھیں عزت حیدر کے لئے

جھولا دالان میں ڈالا علی اصغر کے لئے

لا کے گلدستے برابر رکھے اکبر کے لئے

جام شربت کے بھرے ابن حسن کی خاطر

گہنا پھولوں کا منگا رکھا دلہن کی خاطر

اسی طرح اس زمانے میں استعمال ہونے والے ساز، باجے، نوبت، نقارے، طبل، بوق، کوس، دف، قرنا، جلاجل وغیرہ کا ذکر آتا ہے جن کے نام بھی آج ہم نہیں جانتے مثلاً

قرنا میں نہ دم ہے نہ جلا جل میں صدا ہے

بوق و دہل و کوس کی بھی سانس ہوا ہے

ہر دل کے دھڑکنے کا مگر شور بپا ہے

باجا جو سلامی کا اسے کہئے بجا ہے

سکتے ہیں جو آواز ہے نقارہ و دف کی

نوبت ہے درود خلف شاہ نجف کی

ان اشعار کے مطالعے سے اوزار و ہتھیار، آداب جنگ، فنون حرب سے ہم اچھی طرح متعارف ہوتے ہیں۔

ان سب سے بڑھ کر مرثیوں میں رشتوں کی پاسداری کا احساس ہوتا ہے جس کی ہر زمانے میں بڑی اہمیت رہی ہے۔

 

مرثیوں میں رشتوں کی تہذیبی اہمیت

مرثیہ انسانی رشتوں کی شاعری ہے۔ جب انسانی رشتے وجود میں آتے ہیں تو وہ کسی سماج یا سوسائٹی کی ہیئت اجتماعی کا پتہ دیتے ہیں اور کسی بھی سماج میں جتنے زیادہ رشتے ہوں گے، ان رشتوں کے درمیان حفظ مراتب کا جتنا تصور رہے گا اتنا ہی وہ سماج مہذب اور ترقی یافتہ کہلائے گا۔ اس کی وضاحت کے لئے یہ پہلو قابل غور ہے کہ مغرب میں اتنے رشتے نہیں ہوتے جتنے رشتے مشرق میں ہوتے ہیں۔ مغرب میں خاندان کا تصور محدود ہے ان کے پاس رشتوں کے لئے الفاظ بھی نہیں ہیں۔ ایک لفظ انکل، چچا، ماموں ، پھوپھا، خالو سب کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن اردو مدیں ایسا نہیں ہے۔ یہاں ہر رشتہ کا بیان بھی ہے اس کی الگ معنویت بھی ہے اور رشتے کے اعتبار سے اس کا مرتبہ اور اس کی قدر کا تعین بھی ہے۔

شعر و ادب میں صرف ایک رشتہ جو یقیناً بہت اہم ہے بار بار آتا ہے یا مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور وہ رشتہ عورت اور مرد کے درمیان جذبات کی بنیادوں پر مادی خواہشات کا رشتہ ہوتا ہے۔ یہ رشتہ عشق ہے، عاشقی ہے، محبوب ہے، محبوبہ ہے لیکن اس سے قطع نظر دوسرے رشتے مشکل سے نظر آتے ہیں۔ عالمی ادب کے شاہکاروں میں بھی فردوسی اپنے شاہنامہ و بہادری کے قصے بیان کر کے، صرف باپ بیٹے کے رشتے تک محدود رہ گیا۔ یہ فخر و امتیاز ہندوستان کی دو عظیم رزمیہ شاعری کے شاہکاروں ’’رامائن’‘ اور ’’مہابھارت’‘ کو حاصل ہوا۔ بھائی کی بھائی سے محبت (رام، لکشمن، بھرت) (یدھشٹر، ارجن، بھیم) پھر ماں کی اطاعت، باپ کی اطاعت، سوتیلی ماں کے جذبات اور لڑکے کی فرمانبرداری کے واقعات ملتے ہیں۔

ان دونوں عظیم کارناموں میں بھی ہر سن و سال کے افراد نہیں ملتے۔ ان میں بچے نہیں ہیں ، کوئی چھوٹی لڑکی نہیں ہے اوراسی کے ساتھ بہت سارے رشتے جیسے پھوپھی، چچی، ان کا کوئی تصور ان عظیم کارناموں میں بھی نہیں ملتا۔ دوستی اور دوستی کی بنیاد پر رشتے کی استواری کا کوئی تصور تفصیل سے اور واقعات کی نزاکت کے ساتھ کم ملتا ہے۔ یہ درست ہے کہ کچھ کردار ہیں لیکن یہ اپنے رشتوں کی تمام تر عظمتوں عقیدتوں اور وابستگیوں کو سامنے نہیں لاتے۔

اردو مرثیوں میں یہ تمام رشتے موجود ہیں۔ ایک خاندان ہے جس میں بیمار بیٹی سے بچھڑنے کی کیفیت بھی ملتی ہے۔ تقاضائے بشریت کے مطابق اس کا ساتھ چلنے پر اصرار بھی اس طرح نظر آتا ہے کہ

میں یہ نہیں کہتی کہ عماری میں بٹھا دو

بابا مجھے فضہ کی سواری میں بٹھا دو

رشتوں کی نزاکت اور سن وسال کے اعتبار سے ان کا رابطہ، وابستگی، تعلق خاطر اور ان کی باہمی محبتیں، ان کا انفرادی تشخص، انیس ہی کے مرثیہ ’’جب کربلا میں داخلہ شاہ دیں ہوا’‘ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ رشتوں میں نازک مرحلہ اس وقت آتا ہے جب وہ چاہنے والے برابر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ا ن میں تصادم بھی نہ ہو اور مراتب کا لحاظ بھی ہو۔ اس لئے کہ عام طور پر لوگ یہی کہتے اور سمجھتے ہیں کہ اس میں تصادم کیسے نہیں ہو گا۔ لیکن مرثیوں کی دنیا کچھ اور کہتی ہے۔ حضرت علی اکبر کی پھوپھی نے پالا ہے اور پالنے والی کا مرتبہ ماں کے برابر ہوتا ہے۔ دوسری طرف ان کی والدہ گرامی کا حق ہے! لیکن پھوپھی اور ماں دونوں کے رشتوں کا توازن برقرار رکھا گیا ہے۔

ایک موقع اور ہے۔ ماں کم عمری میں بچوں کی نفسیات سے باخبر ہے۔ بچے جوش ،ولولہ، حوصلہ اور عزم رکھتے ہیں وہ خاندانی شرف اور امتیاز کی بناء پر یہ چاہتے ہیں کہ ان کی شجاعت و بہادری کے اعتراف میں انہیں اپنے نانا اور دادا کا منصب ملے۔

لیکن بہادر ماں انہیں دل شکستہ بھی نہیں ہونے دینا چاہتی اور ساتھ ہی ساتھ بچوں کو سمجھاتی بھی ہے۔ بھائی کے استحقاق کا خیال بھی ہے، موقع وہ ہے کہ حضرت عباس کو منصف علمداری عطا ہو چکا ہے اور حضرت عون و محمد کو اس کا ملال ہے۔ ان کا خیال ہے کہ انہیں علم ملنا چاہئے۔ صرف ایک بند درج کیا جاتا ہے :

عمریں قلیل اور ہوس منصب جلیل

اچھا نکال قد کے بھی بڑھنے کی کچھ سبیل

ماں صدقے جائے گرچہ یہ ہمت کی ہے دلیل

یاں اپنے ہمسوں میں تمہارا نہیں عدیل

لازم ہے سوچے، غور کرے، پیش و پس کرے

جو ہوس کے نا ،کیوں بشر اس کی ہوس کرے

یہ جو مثالیں پیش کی گئیں اور جن انسانی رشتوں کا ذکر کیا گیا، وہ سارے رشتے عالمی ادب کی کسی صنف میں ایک جگہ نہیں ملتے۔ اردو میں بھی مرثیہ کے علاوہ رشتوں کی یہ تفصیلات اور کسی صنف میں نہیں ہیں۔ اس لئے کہ غزل کا عاشقانہ مزاج، قصیدہ کی دربار داری اور مثنوی کا داستانی رنگ، سماجیات کے اس نازک پہلو کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ مگر مرثیے میں وہ سارے انسانی اقدار موجود ہیں جو کاروان تہذیب کو آگے بڑھاتے ہیں۔ کیا مجال کہ مرثیہ ن گار کے قلم کو ہلکی سی لغزش بھی ہو جائے۔ مرثیے کی اہمیت اور انفرادیت کے اسباب میں سے یہ بھی ایک سبب ہے کہ مرثیہ نگار اپنے اوپر خوبصورت تہذیبی پابندیاں عائد ک رلیتا ہے اور پھر ان کے حصار سے باہر قدم نہیں نکالتا۔

جمالیاتی اقدار

عام طور سے مرثیوں کی مقدس المناک فضا میں ان جمالیاتی قدروں کی گنجائش نہیں ہوتی جو غزل یا عشقیہ مثنویوں میں دکھائی دیتی ہے۔ لیکن مرثیہ نگاروں نے جناب قاسم اور حضرت کبریٰ کی شادی کے واقعہ کا سہارا لیتے ہوئے اتنی صحت مند بالیدہ اور خوبصورت تصویریں پیش کی ہیں کہ جن سے تزکیۂ نفس اور قلب کی منزلیں طئے ہوتی نظر آتی ہیں۔ اس سلسلے میں کئی مرثیے ہیں بالخصوص :

پھولا شفق سے چرخ پہ جب لالہ زار صبح

شہرت رکھتا ہے۔ اپنی بات کی وضاحت کے لئے ایک بند بھی درج کیا جاتا ہے۔ جناب قاسم میدان جنگ میں جانے کے لئے اپنی زوجہ فاطمہ کبریٰ کے پاس رخصت ہونے آتے ہیں۔ فرماتے ہیں :

گھونگھٹ ہٹا کے ہم کو دکھا دو تو رخ کا نور

پاس اب نہ آسکیں گے کہ ہوتے ہیں تم سے دور

آنکھوں پہ ہیں ہتھیلیاں رقت کا ہے وفور

نرگس کے پھول ہاتھوں سے ملنا یہ کیا ضرور

جینے کی اب خوشی چمن دل سے فوت ہے

بلبل جو گل کی شکل نہ دیکھے تو موت ہے

 

اعلیٰ اخلاقی اقدار

مرثیوں کی دنیا میں ایک خاندان اور وسیع تر سماج کی تشکیل کرنے والے انسانی رشتوں کے ان تصورات سے یہ نکتہ سامنے آتا ہے کہ اے تہذیب اور مہذب سوسائٹی اس باہمی ارتباط اور رشتوں کی نزاکت کی بنیاد پر جن اعلیٰ اخلاقی اقدار کی حامل اور امین ہوتی ہے دراصل وہی اخلاقیات کا روشن ترین باب ہیں۔ ان رشتوں میں جو کردار سامنے آتے ہیں ان میں جناب حبیب ابن مظاہر، حضرت زہیر ابن قین اور وہ گمنام مسافر جو مرثیے

جب نوجواں پسر شہ دیں سے جدا ہوا

میں نظر آتا ہے، رشتوں کی اخلاقی فضا کو بلندیاں عطا کرتا ہے۔

مرثیے کی اہمیت اور مقبولیت میں جہاں انسانی رشتہ اہم ترین حیثیت رکھتا ہے وہیں مرثیوں میں اخلاقی مضامین اور بلندیاں اس طرح سامنے آتی ہیں کہ رہتی دنیا تک وہ کسی بھی مہذب سماج کے لئے مشعل راہ ہوسکتی ہیں۔ یہ اخلاقیات ایک طرف تو شاعر کے بیان سے ظاہر ہوتی ہے مثلاً میر انیس لکھتے ہیں :

نیک و بد عالم میں تامل نہیں کرتے

عارف کبھی بھی تجاہل نہیں کرتے

خاروں کے لئے رخ گل نہیں کرتے

تعریف خوش الحانی بلبل نہیں کرتے

خاموش ہیں گو شیشۂ دل چور ہوئے ہیں

اشکوں کے ٹپک پڑنے سے مجبور ہوئے ہیں

کہیں کہیں براہ راست اخلاقیات کا بیان ہے۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل مرثیے جن کے مطلعے یہ ہیں :

ع

جب خاتمہ بخیر ہوا، فوج شاہ کا

ع

جب زل کو کھولے ہوئے لیلائے شب آئی

ع

جب قطع کی مسافت شب آفتاب نے

دیکھے جاسکتے ہیں۔ خصوصیت سے ایک بند، امام عالی مقام کے رجز سے پیش کیا جاتا ہے :

خوشبو کا اپنی گل نے کیا ہے کبھی بیاں

شیریں لبوں میں شکر کبھی ہوتی ہے عیاں

کھلتی ہے آپ مشک کی بو وقت امتحاں

کتنا جھکا ہے اتنی بلندی سے آسماں

سایہ بڑا ہے تجھ سے بگولا دراز ہے

البتہ خاکسار جو ہے سرفراز ہے

اخلاقیات کے سلسلے میں اس نکتہ کی وضاحت ضروری ہے کہ انحراف پسندی یا آج کی سیاسی اصطلاح میں ’’دل بدلو’‘ ہونا یا اپنی جماعت کو چھوڑ کر دوسرے کی جماعت میں شامل ہونا اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ مرثیے نے بتایا کہ جب عرفان حق ہو جائے تو باطل سے منھ پھیر لینا اور حق کی طرف آنا ہی بڑا کارنامہ ہے۔

چنانچہ حضرت حُر کا کردار اور ان پر لکھے گئے مرثیے اس کے بہترین ترجمان ہیں۔ چنانچہ مونس کا مرثیہ :

’’مجلس افروز ہے مذکورہ وفاداری حر’‘

یا انیس کا مرثیہ :

’’بخدا فارس میدان تہور تھا حر’‘

دیکھے جاسکتے ہیں۔

عام طور سے مرثیوں کے بارے میں یہ خیال ہے کہ ان میں صرف رونے رلانے کا تصور ہے۔ حزن و ملال کی فضا ہے۔ آنسوؤں کے چراغ روشن ہیں۔ اس فضا میں نہ صلابت کا اماکن ہے، نہ مقاومت کا موقع ہے اور نہ لڑنے اور شکست دینے کی جرأت ہے، لیکن یہ سارے خیالات غلط فہمی پر مبنی ہیں۔ بے شک اردو مرثیے کی پانچ سو برس کی تاریخ میں واقعات کربلا کی اثر پذیری اور اس کا اعلان کہ ہم اس معرکہ عشق و باطل میں حق کے طرفدار ہیں ، مختلف انداز سے نواسۂ رسولؐ کی شہادت پر اظہار رنج و غم کرنا اور مقامی عناصر کے پس منظر میں یہ ہندوستانیت کے شعور کے ساتھ واقعات کربلا کو مذہبی اقدار کے ساتھ سامنے لانا، مرثیہ نگاروں کا طرہ امتیاز رہا ہے۔

لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ مرثیہ میں صلابت، عزم و ہمت اور شجاعت کی وادی خاردار میں اپنی آبلہ پائی سے کانٹوں کو سرخرو کرنے کا جذبہ نہیں رہا ہے۔ انیسویں صدی تک کے مرثیہ نگاروں نے بالخصوص انیس و دبیر، مونس وحید نے رجز، گھوڑے کی تعریف، تلوار کی تعریف، فنون جنگ کے اظہار، معرکہ آرائی کی تفصیلات پیش کر کے مرثیے کو صرف رونے رلانے کی حد تک محدود نہیں رکھا۔

لیکن دور حاضر میں جوش ملیح آبادی، آل رضا، جمیل مظہری، امید فاضلی، وحید اختر، یہ کچھ نام ہیں جنہوں نے مرثیہ کو باطل کے سر پر چمکتی ہوئی شمشیر بنا دیا۔ اب آج کا شاعر یہ لکھتا ہے کہ امام عالی مقام کے پیغام حق کو اس لئے کوئی نہیں روک سکتا کہ ایسی زنجیر ایجاد ہی نہیں ہوئی جو پھولوں کی خوشبو کو اسیر کرسکے اور ایسی کوئی شمشیر نہیں ہے جو بجلی کی تڑپ کو کاٹ سکے۔ جوش ملیح آبادی کے کچھ اور اشعار درج کئے جاتے ہیں :

تھیں بہتر خونچکاں تیغیں حسینی فوج کی

اور صرف اک سید سجاد کی زنجیر تھی

اتنی تیغوں کی رہی دل میں نہ تیرے یاد بھی

حافظے میں صرف ایک زنجیر باقی رہ گئی

ہے دنیا تیری نظیر شہادت لئے ہوئے

اب تک کھڑی ہے شمع ہدایت لئے ہوئے

نظیر اے زندگی! جلال شہ مشرقین دے

اس تازہ کربلا کو بھی عزِ حسین دے

مولانا محمد علی جوہر کا بھی زبان زد خاص و عام ایک شعر ملاحظہ ہو :

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

دراصل یہ اقبال کا فیضان ہے جنہوں نے کربلا کے اس رخ کی طرف بہت پہلے اشارہ کیا تھا۔

صدق خلیل بھی ہے عشق صبر حسین بھی ہے عشق

معرکہ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق

دور حاضر کے تمام مرثیہ لکھنے والے کربلا کو عزم و عمل اور جبر کے مقابلے میں صبر کا استعارہ سمجھتے ہیں اور حق و باطل کی آویزش میں راہ حق کی طرف بڑھنے کے لئے کربلا سے سبق حاصل کرتے ہیں۔

یہاں صرف دو نکات کی طرف توجہ دلانا ہے جن سے مرثیہ کی اہمیت اور مقبولیت روشن ہوتی ہے۔ ان میں سے پہلا نکتہ ہے عالمی ادب میں فطرت کا تصور مغرب میں فطرت خدا ہے (Wordsworth) اور یا پھر فطرت بے رحم ہے۔ کچھ بھی ہوا کرے وہ بے نیاز ہے۔ Mathew Arnold لکھتا ہے :

''Men may come and men may go, but I go on forever''

لیکن مرثیوں کی دنیا میں فطرت ایسے انسانوں کی محکوم ہے جو ا للہ کے منتخب بندے ہیں۔ صرف تین شعر ملاحظہ ہوں :

پیاسی جو تھی سپاہ خدا تین رات کی

ساحل سے سر پٹکتی تھیں موجیں فرات کی

دریا جو دور، پیاس میں تھا شہ کی فوج سے

منہ پر طمانچے مارتا تھا ضرب موج سے

خولہاں تھے نخل گلشن زہرا جو آب کے

شبنم نے بھر دئیے تھے کٹورے گلاب کے

یہاں طرز بے رحم نہیں ہے وہ اعلیٰ ترین انسانوں کی عظمت کا اعلان کرتی نظر آتی ہے۔

 

پیکر تراشی

مرثیوں کی دنیا میں جہاں پیکر تراشی بھی ہے صورت گری بھی ہے، بلندی تخیل بھی ہے اور اس کا اعلان بھی ہے کہ لفظ کا جادو بے جان اشیاء کو پیکر عطا کرتا ہے اور انہیں متحرک بنا دیتا ہے۔ صناعی، خیال کو حُسن عطا کرتی ہے اور وہ مذہب کلامی، تشبیہ، استعارہ، کنایہ اور تجینس کے تمام اقسام اور مروجہ لفظی اور معنوی صنعتیں مراثی میں ملتی ہیں جو ان کی تخلیق و تزئین میں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں۔

آخری پہلو یہ بھی قابل غور ہے کہ یہ عالمی ادب میں واحد صنف ہے جہاں موضوعات مذہب کا رنگ لئے ہوئے ہیں مگر دوسرے مذہب کے ماننے والے صنف مرثیہ سے نہ صرف یہ کہ دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ اس صنف میں طبع آزمائی بھی کرتے ہیں۔

اور وہ لوگ جو مذہباً، عقیدتاً مسلمان نہ تھے انہوں نے بھی مرثیے لکھے اور بڑی شان سے لکھے۔ تقریباً پانچ سو مرثیہ نگاروں میں سو مرثیہ نگار غیرمسلم ہیں۔ ان میں سیوا، کشن پرشاد شاد، الفت رائے الفت، کنورسین مضطر، مہاراجہ کلیان سنگھ، مکھن لال مکھن، راجہ بلوان سنگھ والی بنارس، روپ کماری، یا منی لال جوان، چھنولال دلگیر اور ڈاکٹر بتھونی لال وحشی مظفر پوری کے نام نامی ہیں۔ صر ف کچھ مثالیں اشارتاً پیش کی جاری ہیں۔ ان کے مرثیوں میں بھی وہ سارے اجزاء موجود ہیں جنہوں نے مرثیہ کو انفرادیت عطا کی ہے مثلاً روپ کماری کہتی ہیں :

 

ملا ہے پوت کب ایسا جگت میں ماؤں کو

غلامی فخر کرے جن کی سورماؤں کو

خوشی سے جھیلا زمانہ کی سب بلاؤں کو

پسند حق نے کیا آپ کی اداؤں کو

حضور راکب دوش نبیؐ جبھی تو ہوئے

کئے کلام جو اعلیٰ علی جبھی تو ہوئے

منی لال جوان کا ایک شعر ملاحظہ ہو :

 

نظر سے آگ برستی ہے لو نکلتی ہے

ہوا بھی ساتھ ہے لیکن ادب سے چلتی ہے

والی بنارس کا شعر ملاحظہ ہو :

پست است حب حسین و حسن بسینۂ من

ہمیں  زمرد و لعل است در خزینۂ من

اس طرح بے شمار غیرمسلم شعراء نے مرثیے لکھے اور وہ مقبول بھی ہوئے۔ صنف مرثیہ نے جہاں فنی اعتبار سے اس پہلو کو نمایاں کیا کہ مرثیہ ناظرین بھی چاہتا تھا، سامعین بھی چاہتا تھا اور قارئین بھی چاہتا تھا۔ یہ واحد صنف تھی جسے لحن سے بھی پڑھتے تھے۔ جسے منبر سے اس طرح سے ادا کرتے تھے کہ نظروں کے سامنے نقشہ کھینچ جاتا تھا اور اسے یوں بھی پڑھا جاسکتا تھا۔ یہ اس کا فنی معجزہ تھا کہ اس عظیم مہم میں ہندوستان کے دانشور طبقہ کے ہر مذہب و ملت کے افراد شریک تھے۔

مرثیے کا شمار نہ صرف ہماری شاعری کی مقبول اصناف میں ہوتا ہے بلکہ عالمی ادب میں بھی اس صنف کا جواب نہیں مل سکتا۔ ابتدا میں مرثیے کے لئے کوئی ہیئت مخصوص نہیں تھی، سودا نے اسے مسدس کی شکل عطا کی تو میر ضمیر نے اس کے اجزائے ترکیبی منطقی ترتیب متعین کی۔ میر وسودا کے زمانے سے لے کر آج تک دیگر ہیئتوں میں بھی مرثیے لکھے گئے اور ا جزائے ترکیبی کی بھی پابندی میں تھوڑی بہت چھوٹ اختیار کی۔

مرثیے کی مقبولیت کے اسباب میں سب سے زیادہ اہمیت مذہبی جذبات کو حاصل ہے۔ اسی جذبے کی تسکین کے لئے اعلیٰ و ارفع مرثیے لکھے گئے۔ ان مرثیوں میں مذہب کا سہارا لے کر تہذیبی، جمالیاتی، اخلاقی اور ادبی قدروں کو بھی مرثیہ میں شامل کر لیا گیا۔ مرثیوں میں رشتوں کی پاسداری میں تہذیب کے متنوع عوامل شعوری اور غیر شعوری طور پر شامل ہو گئے ہیں۔ مرثیے کو پر اثر مقبول بنانے میں زبان و بیان کی جادوگری تشبیہ و استعارے، صنائع و بدائع کے خزانے لٹا دئیے گئے ہیں۔ مرثیہ نگاروں کی فہرست میں ہزاروں شاعروں کے نام آتے ہیں لیکن جو مقبولیت میر انیس اور مرزا دبیر کو حاصل ہے وہ کسی اور کو نہ مل سکی۔ ان شاعروں کا مشاہدہ تیز ہے، لفظوں کے انتخاب و ترتیب کا ان میں سلیقہ ہے، کلام میں فصاحت بھی ہے اور بلاغت بھی، کردار نگاری میں ان کا جواب نہیں ، جذبات اور مناظر قدرت کی عکاسی میں وہ اپنے جوہر دکھاتے ہیں۔ مرثیوں کی مقبولیت کا اہم راز یہ بھی ہے کہ اس میں نفسیات انسانی کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ کائنات کا مطالعہ مرثیہ کو وقعت عطا کرتا ہے۔ سیرت و پیکر تراشی سے مرثیوں میں جان پڑ گئی ہے۔ مرثیہ کہنے کو ایک صنف سخن ہے مگر اس میں دیگر اصناف کی بھی جھلکیاں نظر آتی ہیں گویا وحدت میں کثرت کے جلوے نظر آتے ہیں۔

اردو مرثیہ کا آغاز و ارتقا

اردو میں مرثیے کی صنف بہت مقبول صنف رہی ہے۔ اردو میں مرثیہ دکن کے صوفیائے کرام کی سرپرستی میں پروان چڑھا۔ اشرف بیابانی کی نو سربار (1503ء) کو مرثیہ کا نقطۂ آغاز سمجھا جاتا ہے۔ اس کے بعد شاہ برہان الدین جانم اور شاہ راجو نے بھی مرثیے لکھے۔ محمد قلی قطب شاہ، غواصی اور وجہی کے یہاں بھی مرثیے ملتے ہیں۔ شمالی ہند میں مرثیہ نگاری کا آغاز روشن علی کے ’’عاشور نامے’‘ سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد فضل علی کی ’’کربل کتھا’‘ کا نام آتا ہے جو نثر میں ہے۔ شمالی ہند کے مرثیہ نگاروں میں مسکین، محب ،یکرنگ اور قائم وغیرہ نے بھی مرثیے لکھے۔ محمد رفیع سودا نے اردو مرثیہ کو مسدس کی ہیئت عطا کی۔ اٹھارویں صدی میں لکھے جانے والے مرثیے اپنے ارتقاء کے ابتدائی مراحل کی نشاندہی کرتے ہیں۔ انیسویں صدی کا آغاز مرثیے کی ترقی کی نوید لاتا ہے، اس زمانے میں جن لوگوں نے مرثیے لکھے ان میں دلگیر، فصیح، خلیق اور ضمیر کے نام اہمیت رکھتے ہیں۔ ضمیر کے شاگرد، دبیر اور خلیق کے لڑکے انیس نے اردو مرثیے کو بام عروج پر پہنچایا۔ ا

رثاء عربی لفظ ہے جس کے معنی میت پر رونے کے ہیں۔ اسی سے لفظ مرثیہ بنا ہے چنانچہ مرثیہ کا اطلاق ایسی ہی نظموں پر ہوتا تھا جن میں رثائی وصف ہو، لیکن اب بالخصوص اردو میں مرثیہ اس نظم کو کہتے ہیں جس کا موضوع واقعات کربلا ہوں۔ مرثیہ میں اگر کسی شخصِ خاص یا اشخاص کا تذکرہ ہو اور وہ واقعات کربلا یا محمد یا آل محمدؐ سے متعلق نہ ہو ں تو اس کو تعزیتی نظم کہیں گے۔

واقعۂ کربلا 61ھ میں ہوا جس میں امام حسینؓ کی شہادت ہوئی۔ اس واقعہ کی یاد ہر سال منائی جاتی ہے چنانچہ عربی میں بھی واقعہ کربلا سے متعلق رثائی نظمیں لکھی گئیں۔ یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ امام عالی مقام کی ہمشیرہ معظمہ نے سب سے پہلا مرثیہ لکھا تھا جس کا پہلا مصرع یہ تھا :

مدینۃ جدنا لاتعتبلنا

اس کے با وصف کہ بنو امیہ اور بنوعباس کے دور حکومت میں عزا داری کی حوصلہ افزائی نہیں ہوئی پھر بھی عربی میں سدیف، کمیت اسدی، سید حمیدی کے نام ملتے ہیں جنہوں نے ائمہ اہلبیت کے حضور میں ان کے جد کا مرثیہ پڑھا۔ ان میں دعبل خزاعی بہت معروف ہوئے۔ انہوں نے حضرت امام رضا کے سامنے کئی بار مرثیہ پڑھا۔

عربی سے مرثیے کا فارسی تک کا سفر بہت زیادہ وسعت نہیں رکھتا۔ فارسی کے پہلے مرثیہ نگار شیخ آذری کہے جاتے ہیں اور ان کا مندرجہ ذیل شعر نقل کیا جاتا ہے جو انہوں نے ہندوستان کے مقام بیدر میں لکھا تھا :

سوراخ می شود دل ماچوں گلِحسین

ہر جا کہ ذ۔ کر و  واقعۂ کربلا بود

شیخ آذری کے بعد فارسی میں جن شعراء کا نام آتا ہے ان میں مقبل، محتشم، قا انی، حبیب کردستانی وغیرہ معروف ہیں۔ خاص طور سے شبلی نے محتشم کا ذکر کیا ہے اور مثال بھی دی ہے۔

مرثیہ نگاری کی روایت عربی اور فارسی میں بھی تھی۔ اردو میں مرثیہ دکن میں موجود صوفیائے کرام کی سرپرستی میں پروان چڑھا۔ اس کا نقطہ آغاز حضرت شاہ اشرف بیابانی ؒ ہیں۔ ان کی نوسرہار 909م 1503ء میں لکھی گئی۔ وہ مجلسوں میں اپنے تصنیف کیے ہوئے مرثیے پڑھا کرتے تھے۔ ان کے بعد حضرت شاہ برہان الدین جانم کا مشہور مرثیہ ملتا ہے۔

حضرت شاہ برہان الدین جانم، حضرت شاہ راجو، غواصی اور وجہی نے دکنی میں مرثیے لکھے۔ ڈاکٹر چراغ علی نے حسینی اور سید شاہ ندیم اللہ ندیم اور سفارش حسین نے عزلت کا تذکرہ کیا ہے۔ دکنی میں جن اہم مرثیہ نگاروں کے نام ملتے ہیں ان میں محمد قلی قطب شاہ، عبداللہ قطب شاہ، شاہی اور مرزا کے نام شامل ہیں۔ خاص طور سے مرزا کے سلسلہ میں مباحث بھی ہیں کہ گولکنڈہ اور بیجا پور دونوں جگہوں پر اس کا نام ملتا ہے البتہ یہ واضح نہیں ہے کہ وہ ایک ہی شخصیت ہے یا دو الگ شخصیتیں ہیں۔ دکنی میں ابتدائی عہد کے تقریباً ہر قابل ذکر شاعر نے مرثیہ لکھا ہے۔

مغلوں کی آمد سے پہلے تک کے مرثیہ نگاروں کے یہاں نصیر الدین ہاشمی کے مطابق مندرجہ ذیل خصوصیات پائی جاتی ہیں کہ ان کا اصل مقصد حضرت امام حسین اور اہل بیتِ رسالت کا غم و الم تازہ کرنا اور ان کی یاد میں آنسو بہانا تھا۔ فرضی روایات اور افسانوں کو مرثیوں کا جز و اعظم قرار نہیں دیا گیا۔ مرثیوں میں ادبی شان بھی پائی جاتی ہے اور واقعہ نگاری کا اور مرقع نگاری کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔

مغلوں کے بعد والے دور کے مرثیہ نگاروں میں ہاشم علی برہان پوری اور درگاہ قلی خاں کو ڈاکٹر مسیح الزماں نے خصوصیت سے قابل ذکر سمجھا ہے۔ سفارش حسین نے کاظم اور غلام علی خاں لطیف، محمد افضل افضل، برہان، مظفر، قاضی محمود بحری وغیرہ کے مراثی کی نشاندہی کی ہے۔ ان کے خیال میں محمد صدیق قیس حیدر آبادی اگر صرف مرثیہ میں ہی طبع آزمائی کرتے تو دکن میں بھی میرانیس پیدا ہو چکا ہوتا۔ انہوں نے بالاجی ترمیک جی ذرہ کا بھی ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :دکنی مراثی ایک ایسا بحرِ ذخار ہے جس کی ہر بوند گوہر ِآبدار ہے

دکنی میں مرثیہ کی بہت ساری ذیلی اصناف بھی ملتی ہیں جن میں زاری، سواری، واویلا، ہائے ہائے، نوحہ، ماتم وغیرہ ہیں۔ مرثیہ بالخصوص دکنی مراثی کے تفصیلی مطالعے کے لیے دکن میں اردو۔ نصیرالدین ہاشمی، تاریخ ادب اردو۔ جمیل جالبی، اردو مرثیہ۔ سفارش حسین اور اردو مرثیے کا ارتقا۔ ڈاکٹر مسیح الزماں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اکثر روا روی میں یہ بھی لکھا ہوا ملتا ہے کہ مرثیے کے فروغ کا سبب کسی مخصوص مسلک کے افراد کی بادشاہت اور ان کا اقتدار میں رہنا تھا۔ یہ پورا تصور غیر منطقی ہے کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو اس مسلک کے شعرا کی اکثریت ہوتی اور جب اس مسلک کے لوگ اقتدار سے ہٹتے تو مرثیے کی ترقی اور اس کے ارتقا میں رکاوٹ آ جاتی۔

شمالی ہند میں مرثیہ نگاری کا آغاز روشن علی سے ہوتا ہے۔ اس کا عاشور نامہ ڈاکٹر مسعود حسین خاں نے شائع کر دیا ہے۔ اس کا تذکرہ ڈاکٹر جمیل جالبی نے بھی تاریخ ادب اردو میں اور سفارش حسین نے بھی اپنی کتاب ’’اردو میں مرثیہ’‘ میں کیا ہے۔ روشن علی کا عاشور نامہ 1688ء میں لکھا گیا۔ اس عہد کے مرثیہ نگاروں میں ڈاکٹر مسیح الزماں نے سب سے پہلے فضل علی فضلی کی ’’کربل کتھا’‘ کا ذکر کیا ہے۔ کربل کتھا میں فضلی نے مختلف شہداء کے حال کی مجلسوں میں چسپاں کرنے کے لئے اشعار لکھے تھے ورنہ کربل کتھا کی حیثیت نثر میں ایسے کارنامے کی ہے جس سے شمال میں اردو نثر کے ارتقاء پر روشنی پڑتی ہے۔

اس عہد کے ممتاز مرثیہ نگاروں میں مسکین، محب، یکرنگ، قائم وغیرہ ہیں۔ لیکن سب سے اہم نام مرزا محمد رفیع سودا کا ہے جنہوں نے اردو مرثیہ کو مسدس کی ہیئت میں لکھا۔ سودا نے اپنے مرثیوں میں ان تمام رسومات کا تذکرہ کیا ہے جو ہندوستان میں عموماً شادی بیاہ کے موقع پر انجام دی جاتی ہیں۔ ڈاکٹر مسیح الزماں کے مطابقسودا کے کلیات میں ان کے مرثیوں کی تعداد 72 ہے جن میں چھ چھ مفرد، مسدس اور مخمس ہیں ، چھ متفرق شکلوں میں ہیں اور 48مربع۔ ان کے علاوہ 12سلام ہیں۔ انہوں نے ہیئت اور مواد میں بہت سے تجربے کیے۔ سماج کے تانے بانے میں اس کی جڑیں تلاش کیں اور ایک ہوشیار صناع کے مانند اسے طرح طرح کے سانچوں میں ڈھالا۔ موضوع کے اعتبار سے جناب قاسم کی شادی سب سے زیادہ ان کی توجہ کا مرکز بنی۔

ان کے چند مرثیوں کے مطلعوں کے پہلے مصرعے درج کئے جاتے ہیں :

(1 ) میں ایک نصاری سے پوچھا زراہ ناداں

(2 ) یارو ستمِ نو یہ سنو چرخ کہن کا

(3) کہا اساڑھ نے یہ جیٹھ کے مہینے سے

(4) سن لو محباں نس دن جگ کے خون نین سے جاری ہے۔

سودا کے ساتھ ہی میر تقی میر کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ میر نے اپنے مرثیوں میں اپنے عہد کے رسوم اور معاشرت کے عناصر بھی داخل کئے ہیں۔

محرم کا نکلا ہے پھر کر ہلال قیامت رہیں گے دلوں کو ملال

جن کو دیکھنے سے اس عہد کی عزا داری اور محرم میں لوگوں کے شغف کا بہت کچھ اندازہ ہو جاتا ہے۔

میر صاحب سے کچھ پہلے اور ان کے معاصرین میں میر عبداللہ مسکین، میر ضاحک، میر حسن، پھلواری شریف کے شاہ محمد ہدایت اللہ، مہربان خان رند، مرزا ظہور علی خلیق دہلوی، شاہ نورالحق پتاں عظیم آبادی، قلندر بخش جرأت، غلام ہمدانی مصحفی، میر شیر علی افسوس اور عظیم آباد کے صوفیا سے متعلق مرثیہ نگاروں کی ایک طویل فہرست ملتی ہے۔

مرثیہ نگاری کے اس سرسری جائزے میں سب سے اہم نام میرؔ اور سوداؔ کے بعد میاں سکندر کا ہے جن کا مرثیہ؂

ہے روایت شتر اسوار کسی کا تھا رسول

آج بھی مجالس میں پڑھا جاتا ہے اور اکثر محققین کا یہ خیال ہے کہ انہوں نے ہی سب سے پہلے مسدس کی ہیئت میں مرثیے لکھے اور چوں کہ یہی زمانہ متین برہانپوری اور سودا کا ہے اس لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ روایت کا تاج کس کے سر پر رکھا جائے۔

اس عہد کے مرثیہ نگاروں نے جہاں ہیئت کے تجربے کیے وہیں اس پر بھی زور دیا کہ مرثیے کو ادبی حیثیت حاصل ہو۔

دکنی میں جو رثائیت تھی وہ شمال میں آ کر فارسی اثرات اور معاشرے اور تہذیبی اقدار و عناصر سے ہم آہنگی کی بناء پر تدریجاً تغیر پذیر رہی اور رثائیت کم ہوتی گئی، شعراء کو صناعی اور روایت نظم کرنے کا زیادہ شوق رہا۔ ان مرثیوں میں لمبی بحریں بھی ہیں۔ انہیں منبر پر پڑھنے کا رواج بھی اس زمانہ کے کچھ عرصہ کے بعد ہی ہوا۔ اب عموماً ایسے واقعات اور پہلو نظم کیے جانے لگے جن سے متاثر ہو کر سامعین گریہ کریں۔ بیٹے کی لاش پر ماں کا بین، امام حسین کی بہن یا اہل حرم سے رخصت وغیرہ، جناب فاطمہ کی روح کا جنت سے میدان کربلا میں آنا، وہاں کے حالات کا جائزہ لے کر گریہ و بکا کرنا، بہت سے مرثیوں میں ملتا ہے۔ ان مرثیوں میں سماجی زندگی کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں اور واقعہ نگاری کے نمونے بھی ملتے ہیں۔

دکن کے علاوہ اودھ میں بھی مرثیے پر خصوصی توجہ کی گئی۔ اس سے پہلے کہ اودھ میں مرثیے کے عروج و ارتقاء پر روشنی ڈالی جائے یہ وضاحت ضروری ہے کہ جب اودھ میں مرثیہ دورِ عروج کی طرف بڑھ رہا تھا تو اس وقت دہلی یا دکن میں مرثیہ کی روایت کی تابانی میں کس طرح کی کمی نہیں ہوئی۔ اودھ میں مرثیہ کی روایت کو ارتقاء کی طرف لے جانے والوں پر ڈاکٹر مسیح الزماں نے تفصیلی بحث کی ہے اور بہت سے نام تحریر کئے ہیں۔ جن میں مرزا ظہور علی، راجہ کلیان سنگھ خلف، راجہ شتاب رائے، مولانا محمد حسین محزوں (جو الہ آباد آ کر دائرہ شاہ اجمل کے ایک کمرہ میں رہا کرتے تھے اور درس دیتے تھے) شامل ہیں۔ اسی طرح آیۃ اللہ جوہری (پھلواری شریف) کا تذکرہ ملتا ہے۔ ان لوگوں نے ان روایات کی پابندی کی جو انہیں ملی تھیں ،کوئی روایت سازی نہیں کی، کوئی ایسا پہلو بھی نہیں ہے جس کی بنیاد پر انہیں منفرد سمجھا جائے۔ لکھنؤ سے پہلے مختلف جگہوں پر مرثیہ گوئی کی روایت فروغ پا رہی تھی۔ ان مرثیہ نگاروں میں اہم نام مرزا پناہ علی بیگ، افسر دہ حیدرآبادی کا ہے۔ کریم الدین نے ان کی مرثیہ گوئی کے بارے میں لکھا ہے کہ افسردہ اپنے کمال فن کی وجہ سے اپنے ہم عصروں میں ممتاز مقام رکھتے تھے۔ انہوں نے مرثیہ میں رقت خیز مضامین شامل کئے۔ سفارش حسین نے افسردہ کو مقصد اور فن دونوں کے اعتبار سے کامیاب شاعر قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر مسیح ا لزماں بھی افسردہ کے معترف ہیں اور لکھتے ہیں کہ بعض مرثیوں میں تمہید کا التزام کیا ہے۔ اس تمہید میں کنایوں اور اشاروں کی مدد سے شاعرانہ محاسن پیدا کئے ہیں اور پیرائے بیان کو جدت و ندرت دی ہے۔

لکھنؤ کے مرثیہ گوئی کے پہلے دور میں افسردہ ’’گدا’‘ احسان کے ساتھ حیدری کا بھی نام لیا جاتا ہے۔ گدا یا احسان کے مرثیوں میں بھی مقامی رسوم اور اودھ کی معاشرت ملتی ہے لیکن ان مرثیوں میں اعلیٰ اخلاقی تعلیمات اور مقصد شہادت کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں لیکن مرثیہ گویوں کی خاص توجہ جذبات کی عکاسی کی طرف نظر آتی ہے۔

انیسویں صدی کا آغاز مرثیہ کا دور تعمیر ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب فیض آباد اپنے شباب کے ساتھ لکھنؤ کو حیات نو دے رہا تھا۔ امام باڑے، عزا خانے سج رہے تھے اور ا پنے دور آغاز سے ہی لکھنؤ کی فضاء میں یا حسین کی گونج سنائی دینے لگی تھی۔ اس دور کو ڈاکٹر مسیح الزماں نے دور تعمیر سے تعبیر کیا ہے لیکن اس دور میں جو تجربے کئے گئے ہیں اور جس طرح زبان کی تراش و خراش پر زور دیا گیا، وہ اپنی جگہ پر ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ ان مرثیہ نگاروں میں چھنو لعل دلگیر، مرزا جعفر علی فصیح، میر مستحسن خلیق، میر مظفر حسین ضمیر کے نام بہت اہم ہیں۔ ان میں دلگیر کے مراثی اس عہد کی معاشرت کی سماجی دستاویز ہیں خاص طور پر اعلیٰ طبقے کی خواتین کی بول چال، مزاج اور رسوم کا تذکرہ غم انگیز کنائیوں کے ساتھ ان کے یہاں ملتا ہے۔

جعفر علی فصیح نے بھی ضمیر کے معاصر کی حیثیت سے مرثیہ گوئی میں نام پیدا کیا مگر اس عہد کے مایہ ناز مرثیہ نگار مظفر حسین ضمیر ہیں۔ وہ روایت ساز بھی ہیں۔ اگر انہیں تاریخ مرثیہ گوئی کا مجتہد کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ مصحفی نے ریاض الفصحاء میں انہیں نئی راہیں ، نئے رستے پیدا کرنے والا لکھا ہے۔ جعفر علی نے سب سے پہلے مرثیہ کا نیا کینڈا تیار کیا، جس میں چہرہ کو سب سے پہلے جگہ ملی، پھر سراپا آیا اس کے بعد گھوڑے اور ہتھیاروں کی تعریف، ان کا سراپا بھی لکھا، رزمیہ انداز میں واقعہ نگاری کی۔ ان کے مرثیہ کا ایک مطلع ملاحظہ ہو۔

کس نور کی مجلس میں مری جلوہ گری ہے

یہ مرثیہ 1249م 1833ء میں کہا گیا۔ فنون جنگ سے واقفیت کو مرثیہ جیسی غم انگیز صنف میں داخل کر کے جوش و ولولے کے ساتھ اس صنف کو ایک نئی سمت عطا کی گئی۔ انہوں نے مرثیے کو سراپا اور جنگ کے مناظر سے وسعت دی۔ جنگ کے بیانات کا جس طرح اضافہ کیا اس نے مرثیہ کی دنیا ہی بدل دی۔ اس طرح ضمیر ہی وہ پہلے مرثیہ گو ہیں جنہوں نے اردو مرثیے کو ہیئت کے اعتبار سے ایک با ضابطہ صنف بنایا۔ اگر ضمیر نہ ہوتے تو اردو مرثیہ انیس و دبیر سے محروم رہ جاتا۔

1803ء میں مرزا سلامت علی دبیر دہلی کے مشہور محلہ بلیماران میں پیدا ہوئے۔ دہلی کے بگڑے ہوئے سیاسی حالات کی وجہ سے شرفا اور شعراء و ہنر مند دلی چھوڑ کر جا رہے تھے۔ دبیر بھی سعادت علی خان کے زمانے میں لکھنؤ پہنچے۔ اس زمانے میں لکھنؤ میں مرثیہ گوئی کا اچھا خاصا رواج تھا۔ مرزا دبیر نے لکھنؤ پہنچ کر تعلیمی مدارج طئے کئے اور اسی شہر کے نامور علماء سے عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی، صرف و نحو، منطق، ادب و حکمت کی درسی کتابیں پڑھیں ، حدیث، تفسیر قرآن و اصول حدیث و فقہ کا علم حاصل کیا۔ شاعری کا ذوق بچپن سے تھا۔ گیارہ سال کی عمر میں ضمیر کی شاگردی اختیار کی۔ ضمیر نے خود انہیں دبیر تخلص عطا کیا۔ یہ 1814ء کی بات ہے۔ اس وقت لکھنؤ میں ناسخ و آتش کے چرچے تھے۔ مرزا دبیر نے مرثیہ نگاری میں بلند مقام حاصل کیا۔ ابھی تک مرزا کے مرثیوں کی صحیح تعداد متعین نہیں ہوسکی ہے۔ پھر بھی دفتر ماتم کی تمام جلدوں کے مراثی اگر شمار کر لئے جائیں تو یہ تعداد چار سو سے اوپر پہنچتی ہے۔ ان کے بعض مرثیوں کے مطلعے درج کئے جاتے ہیں :

ع کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے

ع قید خانہ میں تلاطم ہے کہ ہند آتی ہے

ع جب حرم قلعہ شیریں کے برابر آئے

ع بانو کے شیر خوار کو ہفتم سے پیاس ہے

ع ذرہ ہے، آفتاب در بو تراب کا

ع ہم ہیں سفر میں اور طبیعت وطن میں ہے

دبیر بڑے پرگو مشاق اور قادر الکلام شاعر تھے۔ جذبات نگاری اور شوکت الفاظ کو دبیر کا امتیازی وصف قرار دیا جاتا ہے۔ سراپا نگاری اور رزم نگاری کے اعلا نمونے دبیر کے یہاں ملتے ہیں۔ دبیر کے مرثیوں میں ضائع و بدائع، لفظی و معنوی خوبیوں کا استعمال فیاضی سے ملتا ہے۔ بعض مرثیوں میں تو دبیر نے تمام صنعتیں ایک ساتھ نظم کر دی ہیں۔ دبیر کے یہاں مرثیوں میں علمیت، فنی پختگی اور زبان و بیان کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مارتا نظر آتا ہے۔ ان کی تعلیم اور عالمانہ ژرف نگاہی کی وجہ سے مرثیوں میں وزن و وقار آگیا ہے لیکن کبھی کبھی یہی محاسن کھٹکنے بھی لگتے ہیں۔

دبیر کے یہاں خیال آفرینی، مضمون سے مضمون نکالنا اور مذہب کلامی اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔ موازنہ انیس و دبیر میں شبلی نے خیال بندی اور دقت پسندی کو مرزا صاحب کے تاج کمال کا طرہ ثابت کیا ہے۔ مرزا صاحب نے بے نقطہ مرثیہ بھی لکھا ہے اس میں اپنا تخلص دبیر کے بجائے عطارد رکھا ہے۔ ان کی ایک کتاب ابواب المصائب بھی ہے۔ یوں تو ان کے ہزاروں شعر مثال میں پیش کئے جاسکتے ہیں ، مگر میر انیس کی وفات پر ان کا بے نظیر قطعہ تاریخ اور اس کا آخری شعر معجزہ فن کا نمونہ ہے۔

آسماں بے ماہ کامل سدرہ بے روح الامیں

طور سینا بے کلیم اللہ و منبر بے انیس

میر انیس 1803ء میں پیدا ہوئے اور مرزا دبیر سے صرف تین مہینے قبل ان کا انتقال ہوا۔ ان کی سوانح پروفیسر نیر مسعود نے لکھی ہے اور ان کی شاعری کو جوش ملیح آبادی نے اپنی نظم انیس اعظم میں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔

انیس فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ میر حسن کے پوتے، خلیق کے لڑکے تھے۔ انیس نے میر نجف علی اور حیدر علی سے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔ نیر مسود لکھتے ہیں کہ ’’ہندوستانی روایت اور اودھی بھاکا سے بھی باخبر تھے۔ ’‘

پہلے حزیں تخلص کرتے تھے اور غزلیں بھی لکھتے تھے۔ ناسخ نے انیس تخلص تجویز کیا۔ پہلا مرثیہ لکھنؤ میں علامہ تفضل حسین کے چچا زاد بھائی، اکرام اللہ خاں کے امام باڑے میں پڑھا۔ مرثیے کا مطلع درج کیا جاتا ہے :

ع جب حرم، مقتل سرور سے وطن میں آئے

انیس نے بھی سینکڑوں مرثیے لکھے۔ انہوں نے عظیم آباد (پٹنہ) اور حیدرآباد کا سفر بھی کیا۔ 1871ء میں حیدرآباد آئے تھے اور یہاں انہوں نے اپنا معرکہ خیز مرثیہ

ع حب خاتمہ بخیر ہوا فوج شاہ کا

تہور جنگ کے عزا خانے یعنی عنایت جنگ کی دیوڑھی میں پڑھا تھا۔ انیس کے کچھ مشہور مرثیوں کے مطلعے درج کئے جاتے ہیں :

ع بخدا فارس میدان تہور تھا حر

ع جاتی ہے کس شکوہ سے رن میں خدا کی فوج

ع جب قطع کی مسافت شب آفتاب نے

ع جب غازیان فوج خدا نام کر گئے

ع طئے کر چکے حسین جو راہ ثواب کو

ع جب نو جواں پسر شہ دیں سے جدا ہوا

ع آج شبیر پہ کیا عالم تنہائی ہے

میر انیس مرزا دبیر کے ہمعصر تھے۔ زبان کی سلاست و فصاحت کی وجہ سے ا نیس کے مرثیے عوام میں بہت مقبول ہوئے۔ محرم کی مجالس میں آج بھی ان کے مرثیے پڑھے جاتے ہیں۔ ا پنی قادر الکلامی اور اثر آفرینی سے انیس نے مرثیہ کی زمین کو آسمان بنا دیا۔ میر انیس زبان کی صفائی، بندش کی چستی اور مناظر قدرت کی عکاسی میں اپنی مثل آپ ہیں۔ انیس کو فن حرب میں بڑا درک تھا۔ اس لئے جب جنگ کا منظر کھینچتے ہیں تو بدن پر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

انیس اپنے مرثیوں میں کردار نگاری میں بھی کمال دکھا جاتے ہیں۔ جذبات نگاری پر انہیں بے پناہ قدرت حاصل ہے۔ وہ جب چاہیں اپنے قاری کو رلاسکتے ہیں۔ میر انیس کی شاعری اور کمال فن کے سبھی قائل ہیں۔

انیس نے خود بھی شاعری کے تعارف میں کئی بند لکھے ہیں۔

قلم فکر سے کھینچوں جو کسی بزم کا رنگ

شمع تصویر پہ گرنے لگے آ آ کے پتنگ

صاف حیرت زدہ مانی ہو تو بہزاد ہو دنگ

خوں برستا نظر آئے جو دکھاؤں میں جنگ

رزم ایسی ہو کہ دل سب کے پھڑک جائیں ابھی

بجلیاں خوں بھری تیغوں کی چمک جائیں ابھی

ضمیر کے دور سے ایک طرح سے مرثیہ کی ہیئت مسدس طئے پا گئی تھی اور اس کے اجزاء میں چہرہ، ماجرا، سراپا، رخصت، آمد، رجز، جنگ، شہادت، بین اور دعا شامل ہو گئے تھے۔ چنانچہ انیس کے بعد ان کے خانوادے کے میر خورشید علی، میر نفیس، میر مونس اور ایک واسطے سے میر وحید انیس کی روایات کی پیروی کرتے رہے۔

میر عشق، تعشق اور پیارے صاحب رشید، دبستان عشق کے ممتاز مرثیہ نگار تھے، جن کے کمال فن اور دبستان عشق کی مرثیہ گوئی پر جعفر رضا نے خوبصورت انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے بعض شاندار مراثی سے متعارف کرایا جن میں میر عشق کا

ع ’’عروج اے میرے پروردگار دے مجھ کو’‘

تعشق کا ع سچ ہے دنیا میں شب ہجر بلا ہوتی ہے اور

ع کھینچ اے قلم مرقع صحرائے کربلا

شامل ہیں۔

ان کے مطابق مراثی میں تغزل کی آمیزش اس خاندان کی سب سے بڑی خدمت ہے جو بعد میں بہار اور ساقی نامہ کے بیانات میں اور نمایاں ہوتی ہے۔ انیس کے خانوادوں نے مرثیہ کو اس بلندی تک پہنچا دیا کہ مرثیہ ’’ادبی تاریخ’‘ کا سب سے زیادہ روشن اور تابناک باب ثابت ہو گیا۔ اس طرح مرثیہ گوئی ارتقائی منازل طئے کرتے ہوئے بیسویں صدی کی دوسری دہائی تک پہنچی تو ملک جنگ آزادی میں برطانوی سامراج سے ٹکر لے رہا تھا۔ اس وقت شاد عظیم آبادی اصلاحی رنگ کا مرثیہ لکھ چکے تھے۔

1918ء میں جوش نے ’’آواز حق’‘ کے عنوان سے جدید مرثیے کی داغ بیل ڈالی۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اقبال اپنے مفرد اشعار میں ’’حسین’‘ اور ’’شبیری’‘ کے استعارے کے ذریعہ سے شہادت کے اثرات و رموز اور معنویت کی طرف متوجہ کر چکے تھے۔ فارسی تصنیف رموز بیخودی میں ان کی نظم

ع ’’آں امام عاشقاں پور بتول’‘

کربلا کو نئے انداز سے سوچنے پر مجبور کر چکی تھی۔ مگر جوش نے آوازہ حق کے بعد ’’ذاکر سے خطاب’‘ میں بھی ایک نیا رنگ دیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے مرثیے ’’حسین اور انقلاب’‘ سے جدید مرثیہ گوئی کا آغاز ہوتا ہے۔

اب مرثیے کے اجزائے ترکیبی اور رثائیت سے زیادہ پیغام حسینی کی معنویت پر زور دیا جانے لگا۔ جوش نے کل 9 مرثیے لکھے ہیں۔ ان کے ایک مرثیے سے ایک بند پیش کیا جاتا ہے جس سے ان کے انداز مرثیہ گوئی کا پتہ چل سکتا ہے :

یہ صبح انقلاب کی جو آج کل ہے ضو

یہ جو مچل رہی ہے صبا پھٹ رہی ہے پو

یہ جو چراغ ظلم کی تھرا رہی ہے لو

در پردہ یہ حسین کے انفاس کی ہے رو

حق کے چھڑے ہوئے ہیں جو یہ ساز دوستو

یہ بھی اسی جری کی ہے آواز دوستو

جوش کی شاعری کے پورے مزاج کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان کا مندرجہ ذیل شعر پڑھیں تو ان کے مرثیوں کے شعری آہنگ اور شعری مزاج کو سمجھنا آسان ہو گا :

زندگی ہے سر بسر آتش فشانی ! یا حسین

آگ دنیا میں لگی ہے، آگ ! پانی ! یا حسین

جوش کے بعد یا جوش کے لفظوں میں جدید مرثیے کے بانی کے طور پر آل رضا کا نام آتا ہے۔

اردو مرثیہ جس کا نقطہ آغاز سولہویں صدی میں حضرت شاہ اشرف تھے، ارتقائی منازل طئے کرتے ہوئے جب بیسویں صدی میں داخل ہوا تو اسے جوش ملیح آبادی جیسے قدر آور شاعر کی تعمیر کردہ روایات ملی تھیں۔ انہیں روایات کی بنیاد پر دور حاضر میں بھی مرثیے لکھے جا رہے ہیں۔ اس عہد میں بھی (یعنی جوش کے فوراً بعد کے زمانے میں ) سب سے اہم نام آل رضا کا ہے۔ جوش نے انہیں جدید مرثیے کا بانی قرار دیا ہے۔ انہوں نے تقریباً بیس مراثی لکھے ہیں۔ ان کا پہلا مرثیہ ہے ع ’’کلمہ حق کی ہے تحریر دل فطرت میں ‘‘۔ ان کے مجموعے میں آخری مرثیہ ع ’’قافلہ آل محمد کا سوے شام چلا’‘ ہے۔

پہلے مرثیے سے ایک بند ملاحظہ ہو :

ابر بے فصل نے اب کے یہ سماں دکھلایا

آسماں سوگ میں تھا جب کہ محرم آیا

رندھ گئی جتنی فضا اتنا ہی غم بھی چھایا

بوندیں پڑنے جو لگیں یاد نے دل تڑپایا

کتنا پانی ہے جو بے وقت برس جاتا ہے

اور کبھی قافلہ پیاسوں کا ترس جاتا ہے

آل رضا کے ساتھ علامہ جمیل مظہری کا ذکر بھی ناگزیر ہے۔ ان کا شاہکار مرثیہ ’’شام غریباں ‘‘ ہے۔ ایک بند دیکھئے :

تیرگی تجھ کو مبارک ہو یہ عاشور کی شام

عہد ظلمت کی سحر، خاتمہ’ نور کی شام

شفق افروز ہے خون دل مہجور کی شام

آج کی شام تو ہے زینت رنجور کی شام

آفریں اس پہ بہتر کی عزا دار ہے جو

اک نئے قافلہ کی قافلہ سالار ہے جو

اس میں یہ فنی معجزہ بھی ملتا ہے کہ مرثیہ میں صرف ’’شام’‘ کا بیان ہے ’’شب’‘ نہیں ہوپاتی۔

دور حاضر کے مرثیہ نگاروں میں نجم آفندی اہم ہیں۔ حالانکہ ان کی اہمیت نوحہ و سلام کی وجہ سے زیادہ ہے۔ پھر بھی ان کا ایک مرثیہ بہت مشہور ہوا جس کا آخری شعر درج کیا جاتا ہے۔

عباس نامور کا علم لے کے جائیں گے

ہم چاند پہ حسین کا غم لے کے جائیں گے

ڈاکٹر وحید اختر نے انقلابی انداز میں کئی مرثیے لکھے۔ ان کے مجموعہ کا نام ’’کربلا تا کربلا’‘ ہے۔ ایک مرثیہ اسیران کربلا پر ہے اور ایک مرثیہ لفظ ’’قلم’‘ سے شروع ہوتا ہے۔

امید فاضلی کے دو مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ پہلا مجموعہ ’’سرنینوا’‘ دوسرا مجموعہ ’’تب و تاب جاودانہ’‘ ہے۔ دونوں مجموعوں میں کل بارہ مرثیے ہیں۔ سب سے اچھا مرثیہ علم و عمل ہے۔ جس کا ایک بند دیکھئے :

مرحبا صل علیٰ علم کا در کھلتا ہے

مصحف نور سر رحل نظر کھلتا ہے

لب جو کھولوں تو یہاں عجز ہنر کھلتا ہے

منزل آتی ہے تو سامان سفر کھلتا ہے

علم کے در سے اگر میری سفارش ہو جائے

کشت تخئیل پر الفاظ کی بارش ہو جائے

ایک اور بند پیش ہے :

علم آیات الہی کی حرا میں تنزیل

اس کی آواز ہے داؤد تو لہجہ ہے خلیل

یہی قرآن کا دعویٰ، یہی دعوے کی دلیل

یہ وہ اجمال ہے، ممکن نہیں جس کی تفصیل

یہ رگ حرف میں خوں بن کے رواں ہوتا ہے

اس کی آغوش میں وجدان جواں ہوتا ہے

 

اس ساری گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ اردو شاعری میں غزل کے بعد مرثیہ ہی کو عوام میں مقبولیت حاصل رہی ہے۔ یہی وہ صنف ہے جو اپنے آغاز سے آج تک زندہ ہے اور مسلسل ترقی کر رہی ہے۔ 1503ء میں اشرف بیابانی کے نو سرہار سے ادب میں ہمیں مرثیے کے ابتدائی نقوش ملتے ہیں۔ دکن میں برہان الدین جانم، محمد قلی قطب شاہ، غواصی، وجہی، شاہی اور مرزا کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ شمالی ہند میں روشن علی، فضل علی فضلی، مسکین، محب، یکرنگ کے نام قابل ذکر ہیں۔ مرزا رفیع سودا نے مرثیے کو مسدس کی ہیئت میں لکھا۔ سودا کے ہم عصروں میں مسکین، ضاحک، میر حسن، خلیق اور مصحفی جیسے شاعروں کے نام آتے ہیں۔ اردو میں جب بھی مرثیہ کا تذکرہ آتا ہے، مرزا دبیر اور میر انیس کے نام صفحۂ ذہن پر روشن ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ شاعر ہیں جنہوں نے مرثیہ کو بام عروج پر پہنچادیا۔ ان کے بعد میر انیس کے خانوادوں نے اس فن کی آبیاری کی۔ دور جدید میں جوش، آل رضا، جمیل مظہری، نجم آفندی اور ڈاکٹر وحید اختر نے مرثیہ کا مقام بلند کیا اور مرثیہ کو صرف رونے رلانے کی صنف سے آگے بڑھا کر فکرو آگہی کے زاویے عطا کیے۔ اس دور میں رثائیت پر اتنا زور نہیں ہے جتنا زور پیغام حسینؓ کی عظمت کی وضاحت پر ہے۔ اب مرثیہ رونے رلانے کی چیز نہیں رہا بلکہ قلب و نظر اور فکر و عمل کو حوصلہ و عزم بخشنے اور جہاد زندگانی میں کربلا کی عطا کردہ شمشیر سے کام لینے کا نام ہے۔

اردو مرثیہ اور صوفیائے کرام

حضرت برہان الدین جانم حضرت میراں جی عشاق کے خلیفہ بھی تھے۔ سن ولادت 1481ء اورسن وفات 1544ء بتایا جاتا ہے حالانکہ دونوں تاریخوں میں اختلاف ہے۔ مرثیہ میں جانم نے اپنے مخصوص صوفیانہ مزاج کے مطابق دات باری تعالیٰ کے عرفان و معرفت کیلئے غم حسین کو لازم قرار دیا ہے۔ حسینؑ کے غم کے ذریعے سے عالم ناسوت (تن کی خواہشات ) سے ملکوت تک کاسفر ممکن ہے۔ جانم نے امام عالی مقام کو اسم اعظم کہا ہے اوراس لئے بھی کہا ہے کہ تخلیق کے وقت جو ارواح سے اقرار لیا گیا تھا ( کیا میں تمہارا رب نہیں ہو۔ بیشک) اس کی تصدیق شہادت حسین سے ہوتی ہے۔

اسم اعظم کہنے پر راقم الحروف نے درگاہ یوسفین کے سجادہ نشین سے جب استفسار کیا تو انھوں نے بڑی اعلیٰ درجہ کی بات کہی تھی۔ فرمایا ’’ دات حسین جس حد تک جس کی سمجھ میں آتی ہے اور جتنا ذخیرہ الفاظ اس کا ساتھ دیتا ہے وہ اپنی فہم و فکر کے اعتبار سے لفظ کا استعمال کرتا ہے وہ سید الشہدا ء بھی کہہ سکتا ہے ، ذبح عظیم بھی ،امام عاشقاں بھی ، سرتخلیق بھی اوراسم اعظم بھی،

جانم کے اس مرثیہ کی انفرادیت اسی سے ظاہر ہوتی ہے کہ چھ سو سال سے زیادہ ہو گئے بہت سے صوفیاء نے مرثیے لکھے لیکن کوئی بھی تصوف کے ان مراحل کو نہ پیش کرسکا۔ جانم کے تذکرے کے بعد سولہویں صدی کے اہم شاعر سید شاہ یوسف محمد ، محمدالحسینی شاہ راجو کا ذکر کیا جاتا ہے کہ ان ہی کی پیشن گوئی کے مطابق ابوالحسن تانا شاہ کو عبداللہ قطب شاہ نے اپنا داماد منتخب کیا تھا اس عہد کے شعراء نے بھی شاہ صاحب کو القاب تقسیم ہوا کرتے تھے۔ چنانچہ نواب الدین عابد کو عابد شاہ اورابوالحسن کو تانا شاہ کا لقب دیا تھا۔

سید جعفر لکھتی ہیں۔

’’ شاہ راجو کے بعض مرثیے بھی قدیم بیاضوں میں دستیاب ہوئے ہیں ادارہ ادبیات اردو کے کتب خانے میں شاہ راجو کے دو مرثیے محفوظ ہیں یہ دونوں مرثیے دکن کے عام رواج کے مطابق غزل کی ہئیت میں موزوں کئے گئے ہیں۔ اکثر دکنی مرثیہ نگاروں نے ہلال محرم کو غم کی نشانی قرار دیتے ہوئے اسے عزاداران حسین کے حزن و ملال کی تمہید بتایا ہے۔ شاہ راجو بھی اسی انداز کے مضمون سے اپنے مرثیے کا آغاز کرتے ہیں۔

غم زدہ ہو کھن پو نکلیا غم کا چند رہائے ہائے

شورماتم کا اٹھیا ہر جگہ میں گھر گھر ہائے ہائے

اس پورے مرثیے میں حزنیہ کیفیت اور رثائی مضامین کا احساس ہوتا ہے اگرچہ مضامین میں کوئی خاص ندرت اور اپج موجود نہیں

اس کے باوجود پختگی کلام اور طرز ادا کی صفائی و برجستگی نے شاہ راجو کے مرثیوں کو قابل توجہ بنا دیا ہے انھوں نے تشبیہات واستعارات ، حسن تعلیل او ردوسرے محاسن شعری سے بھی اچھا کام لیا ہے حسن تعلیل کے مسلسل استعمال نے شاہ راجو کے مرثیے میں تھوڑا سا تصنع ضرور پیدا کر دیا ہے۔

آسماں پہنا ہے کفنی نیل کی تب سوں گلے

جیو دیتے کربلا میں شاہ اصغر ہائے ہائے

آسماں رتن کوں رنگایا لہو شفق تے اپنا

جب تھے دیکھا بھیں اُپر ہے غم کا ڈونگر ہائے ہائے

آسماں گردش منے پھرتا رہتا ہے ہر صبح شام

اس دکھوں سوں تلملایا عرش انبر ہائے ہائے ‘‘

شاہ راجو کا یہ شعری اجتہاد یعنی ’’ہائے ہائے ‘‘ کی ردیف بڑی معنویت رکھتی ہے بعد کے مرثیہ گویوں نے اس کے مسلسل استعمال سے اسے ایک صنف کی شکل دے دی حیدرآباد میں مجالس کے اختتام پر ہائے ہائے ، ہائے ہائے کہنے کی روایت آج بھی موجود ہے۔

اسی عہد کا شعر غواصی عظیم مثنوی نگار ہے۔ سیف الملوک

بدیع الجمال ، مینا ستونتی جیسی مثنویوں کا خالق تصوف کے نور سے اپنے قلب و ذہن کو منور کرتا ہے۔ غزلوں میں بھی اس کا یہ انداز ہے۔ نصیرالدین ہاشمی نے یہ نشاندہی بھی کی ہے کہ اس نے خواجہ حافظ کی غزلوں کا ترجمہ کیا ہے۔

سیدہ جعفر نے تاریخ ادب اردو میں افسر امروہوی کی بیاض سے غواصی کے اشعار درج کیسے ہیں۔ پانچ شعر نقل کئے جاتے ہیں۔

اے اہل درد اشک سوں انکھیاں (کوں ) تر کرو

نکلیا ہے پھر کے ماہ محرم نظر کرو

نازل زمین یہ سرتھے ہوا غم حسین کا

ماتم زدیاں کوں ایک طرف تھے خبر کرو

سلطان کربلا کسی غریبی کوں یاد کر

تکڑے جگر کوں ہور سینے کوں جھجر کرو

بے دین ہوا یزید کیا دین میں خلل

لعنت مدام ان کے اوپر سربسر کرو

ہے ڈر اگر تمن کوں قیامت کی آگ کا

سایئے کوں اہل بیت کے سرپر چھتر کرو

چراغ علی نے اس کے ایک مرثیے کا اقتباس دیا ہے

آرام تیرے نانون بن یک پل نین کو جاں توں

قربان تیرے نانوں پر جیوں ہمارے یاحسینؑ

تیرے بدل سکھ چھوڑ کر مکھ جیونے تے موڑ کر

نرجیوہورہے ہیں سب جیواں جیودے جلا رے یاحسینؑ

تپتے ہیں کب تے بند کریچ دیکھنے کو ں انکھیاں

کو لگ چھپا رہے گا اجھوں درسن دکھا رے یاحسینؑ

تج چودھویں چندا بدل پھرتے ڈاواں ڈول ہو

دکھ سات چھاتی پھوڑے پھرتے تارے یاحسینؑ

دکھ کے دریا میں ڈوب غوطے کھاتے ہیں تیرے دوستاں

ٹک ہات دسے جو سب نکل آویں کنارے یا حسینؑ

تج لطف کا بار اگر یک سات ہمنا پر بہے

توپھل ابدلگ خوش رہیں چمناں کے سارے یاحسینؑ

ان کا دوسرا مرثیہ ہائے ہائے ردیف رکھتا ہے اوراس سے اس دعوے کو تقویت پہنچتی ہے کہ دکن میں فریاد کی لے بھی متعین کی گئی اور نالے کو پابند نے بھی کیا گیا چنانچہ ہند میں کہیں بھی ہائے ہائے کی ردیف نہ ملے گی اور نہ ہی مجالس کے اختتام پر سینہ زنی کرتے ہوئے ماتم کے ساتھ ہائے ہائے کہنے کا رواج ہے دکن میں وا ویلا کی صنف بھی تھی۔ اپنے محدود مطالعہ کی بنا پر بہرحال یہ لکھنے کو جی چاہتا ہے کہ واویلا کا بھی موجد غواصی ہے

سادگی ، بیساختگی اور جذبات غم کا بے تکلف اظہار نوحہ کی خصوصیات ہیں لیکن غواصی کے نوحہ میں جو احساس کی تلخی ، خلوص کی فراوانی اور جذبات کا طوفان ہے وہ دوسرے نوحوں میں کم نظر آتا ہے چند شعر ملا خطہ ہوں۔

جو رو جفا ہوں کس کمر آل علی سو بغض دہر

اے بے حیا اے بے کٹر کیا کام کتیا ہائے ہائے

دل کوں رسول اللہ کے گھالیا تپش میں آہ کے

توں حق پوویسے شاہ کے کیا کام کتیا ہائے ہائے

کیوں توں حسینؑ اُوپر اٹھا کیوں کربلا میں سرسٹیا

توں حق کی رحمت سوں ٹوٹیا کیا کام کتیا ہائے ہائے

تج میں جو ہوتا کچ وفسا اسلام پاتاسب صفا

دلگرنہ ہوتے مصطفے کیا کام کتیا ہائے ہائے

کالے چھبیلے بال سب لہو میں ہوئے ہیں لال سب

روتے نبیؐ اطفال سب کیا کام کتیا ہائے ہائے

بولیا غواصی مرثیہ سونے دلی ہو رانبیاء

ترخالیے اپنا ہیا کیا کام کتیا ہائے ہائے

واویلا کا مقطع درج کیا جاتا ہے۔

محرم جگ میں پھر آیا ہے یا راں آہ واویلا

ہزاراں دکھ ، ہزاراں غم ، ہزاراں آہ واویلا

غواصی کی تاریخ پیدائش 1550ء تا1580ء متعین کی جاتی ہے اور تاریخ وفات 1691ء کے آس پاس ہے ان کا نام شیخ حسین بہاء الدین غواصی تھا۔ شاہ ولی حیدر ولی اللہ ان کے پیر تھے۔ سیدہے جعفر نے ان کے بارے میں حتمی طور سے لکھا ہے کہ عقائد کے اعتبار سے امامیہ نہ تھے۔

اسی عہد کا مشہور شاعر ملا اسد اللہ وجہی ہے جس کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات دونوں مستند طور پر نہیں ملتیں لیکن حیرت انگیز طور پر اس کی کتابوں کا سن تصنیف معلوم ہو جاتا ہے جیسے قطب مشتری1018ہجری کی اورسب اس 1045ہجری کی ہے۔ وجہی بہت ہی با کمال شاعر اور اپنے عہد کا بہت بڑا دانشور تھا اس نے مرثیے بھی لکھے ہیں اور اس سے مرثیہ لکھنے میں ایک جگہ یہ بھی ہوا ہے کہ وہ مرثیہ لکھتے لکھتے ایک دم سے مرثیہ کی مجلس میں شریک خاتون کا سراپا بیان کرنے لگا۔ وہ صوفی تھا اس میں کوئی دو رائے نہیں۔ حضرت برنیہ شاہ صاحب کی درگاہ میں اس کی قبر بھی بیان کی جاتی ہے۔ وہ اب ملا اسد اللہ کے نام سے اپنی شخصیت کا استناد پاسکاہے ورنہ وجہی الدین بھی اس کا نام لکھا گیا ہے۔

ڈاکٹر حمیرہ جلیلی نے اپنی موقر تصنیف ’’ سب رس کی تدوین ‘‘ کے سلسلے میں حتمی طور پر لکھا ہے کہ وجہی کا مسلک امامیہ نہ تھا۔ سفارش حسین کے حوالے سے اس کے کچھ اشعار نقل کئے جاتے ہیں۔

حسین کا غم کرو عزیزاں

انجونین سوں جھروں عزیزاں

بتا جو اول ہوا ہے غم کا

عرش گگن ہور دہرت ہلایا

قضا میں جوں جوں لکھا الٰہی

گریا حسینؑ پر او ہی سمایا

بنیاں ، دلیاں کے انجواں سوں مکھڑے

یو غم حسین کا جنم دہلایا

دلاں میں دوگگی چہوہ تے چٹکیاں

یو غم نے ملگا دہر کا لگایا

بیجاپور سے لے کر گول کنڈہ تک سترھویں صدی میں بے شمار شعراء نے مرثیے لکھے۔ بالخصوص محمد قلی قطب شاہ ، علی عادل شاہ ، شاہی یا پھر مرزا ، لیکن یہ لوگ صوفی نہ تھے اس لئے ان کا تذکرہ نہیں کیا جا رہا ہے البتہ اس موقع پر حیرت ہوتی ہے کہ بعض بہت ہی بلند شخصیتوں نے مرثیے نہیں لکھے خصوصاً پانچ عناصر پچیس گن کے فلاں والے حضرت امین الدین علی اعلیٰ کے مرثیے نہ لکھنے پر تعجب ہے آپ مزار اس عہد کے روضہ مقدسہ امام رضا کے روضہ کی نقل ہے۔ روضہ چہاردہ معصومین کے اسماء گرامی بھی درج بتائے جاتے ہیں شاعر بھی تھے لیکن مرثیہ نہیں لکھا۔ اور یہاں صرف صوفی شعراء کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ ان میں ایک نام محمد نصرت نصرتی جنہوں نے باقاعدہ طور پر مرثیہ نہیں لکھا ہے۔ علی نامہ میں کچھ اشعار ہیں جن میں واقعہ کربلا کا ذکر آگیا ہے۔ کچھ شعر ملاحظہ ہوں۔

اے وائے ظالم کیوں دکھا ایسے جگر گوشیاں کونس

جگ جگ جوانی پر غصب راجب کہا قہار کا

یوسروبالاکاٹ کر سب خانداں کے باغ سیں

بہوائی لہو کیاں ندیاں ، طوفاں اچیا اخبار کا

تب فاطمہ زاری میں آ بولے جب کوئی یاں نہ ہوے

اے وائے کن ماتم کرے اس سردخوش رفتار کا

اس مرثیہ کے بارے میں ڈاکٹر چراغ علی کچھ مشکوک ہیں ان کے خیال میں یہ الگ سے مرثیہ تھا کسی کم سواد کاتب نے علی نامہ میں یہی زمین دیکھ اسے اس میں شامل کر دیا۔ انھوں نے اسے مرثیہ ، نصرتی کے عنوان سے ہو دیکھتا تھا۔ حالانکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نصرتی کو مرثیہ سے خصوصی دلچسپی تھی۔ سیدہ جعفر لکھتی ہیں۔

’’بیجاپور میں مراثی کو لحن و ترنم کے ساتھ سنانے کا ذکر سب سے پہلے نصرتی نے علی نامہ میں کیا اس سے نصرتی کی اہمیت کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔ ’‘

اس عہد کے معروف صوفی مرثیہ نگاروں میں نواب الدین عابد شاہ ہیں جن کا تذکرہ شاہ راجو کے ضمن میں آ چکا ہے۔ سیدہ جعفر نے ان کے مراثی کے کچھ مطلعے لکھے ہیں جو پیش کئے جاتے ہیں۔

دکھ تھے سرور کے جب چلے انجھو

سات دریا تے جا ملے انجھو

محرم کے چند رکوں دیکھ ماتم سوں ملک سارے

خوشی دل کی سے دھوکر رکھوں رو رو ملک سارے

چندرپرسوز آتے سوں نکل کر

کلیجا دل جلیا ہے سب پگھل کر

غم کی لگی ہے آگ میرے تن بدن کوں آج

نالے کا جاصدا میرا پہنچا گگن کوں آج

آہ نئیں کربلا میں کوئی غم خوارحسین

اس زمیں پر سب کھپے ہیں جوتھے دلدارحسین

شہر بانو نے رو رو کر شہادت ہوئی پچھیں بولی

اتا جینے کی ہوئی ہے اب بڑی خواری مسلماناں

ایک مرثیے کے کچھ اور اشعار بھی ملاحظہ ہوں

صبا کو ں عارنئیں آئی سولے گی آج آنے کوں

دیکھو فرمان کیوں لیانی دو جگ کا شہ لے جانے کوں

یکایک یوں شہادت کی صبا دیکھو خبر لیائی

سودل میں فاطمہ کے یواگن شعلہ جلانے کوں

صبا نے آج یک دھر تھے اچائی شور ماتم کا

دلال کر چاک عالم کے نمک غم تس پولانے  کوں

یوکیسا گرد ہور ہاراں صبا نے ساتھ لائی تھی

نبی کے گھر کا دیوا یو بوجا اندکار بھانے کوں

یو غم گویا خزاں لیائی صبا ہر پھول میانے

جتا گلزار کر غم گیں انجو شبنم رلانے کوں

عابد کے مراثی کی سب سے اہم خصوصیت ان کی سوزنا کی اور گداختگی ہے

ان کے مرثیے بڑے پر اثر ہیں اور شاعر کو جذبات درد و الم کے اظہار پر

کامل قدرت حاصل ہے۔ عابد شاہ نے مرثیے کے فن کے بارے میں

یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ مرثیہ لکھنے کیلئے ’’ خون جگر’‘ کی ضرور ہوتی ہے

اوراس کے بغیر یہ فن پھیکا اور بے رنگ نظر آتا ہے۔

یو لکھ لکھ مرثیہ آتش سے مضموں

غم کا لاہوا اس غم سوں جل کر

عابد توں مرثیے جتے لکھا سولکھ اتال

خون جگر سوں دل کے بھری سودوات ہے۔

عابد نے اپنے مراثی میں اپنے عہد کے اعتبار سے مستقبل کے فن کو دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ سیدہ جعفر لکھتی ہیں کہ اس نے صرف بکا اور مرثیت پر ہی توجہ مرکوز نہیں کی ہے بلکہ شہدائے کربلا اور بالخصوص امام حسینؑ کی سیرت کے نقوش ابھارے ہیں۔

باوجود محنت و درد و بلا در کربلا

تھا ترقی میں حضور دل سوں افگار حسین

جانتے تھے بابت ہو ہفتاد دولت یقیں

یو عبادت یو شجاعت ہے سزادارحسین

اسی کے ساتھ جس شاعر کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ بھی شاہ راجو کا مرید اور لقب یافتہ اور گول کنڈہ کا آخری تاجدار ہے اس نے جتنے برس دلق پوش کی حیثیت سے گزارے تھے اتنے ہی برس تاج پوش کی حیثیت سے گزارے۔ یہ کہاجاسکتا ہے کہ وہ بادشاہ تھا لیکن راقم الحروف اسے صوفی بزرگ سمجھتا ہے۔ صوفی کا مرید صوفی کی وجہ سے بادشاہ کا داماد۔ صوفی کی وجہ سے بادشاہیت، حیدرآباد میں یہ عام روایت ہے کہ گولکنڈہ کا قلعہ حضرات یوسفین کی کنکری پر لکھی ہوئی تحریر کی وجہ سے فتح ہوا۔ فتح گول کنڈہ کے وقت تاریخی طور پر لکھا ہے کہ ابوالحسن ناشتہ کر رہا تھا اس کے اطمینان میں ذرہ برابر نہ فرق آیا نہ اس نے فاتحین کو ناشتے کیلئے مدعو کیا اور یہی ایک سچے صوفی کی شان ہے کہ اس کانفس مطمئنہ ، کی حد میں داخل ہو۔ ابوالحسن نے مرثیے بھی لکھے۔ نمونہ پیش کیا جاتا ہے لیکن یہ ابوالحسن تانا شاہ عشقی کے مرثیے کے اشعار ہیں۔ یہ یقین سے تعین کیاجاستیا ہے کہ یہ عشقی ابوالحسن تانا شاہ ہی ہے یا کوئی اور۔

گول محمدؐ کے چمن کا یا حسینؑ

سورحیدر کے گگن کا یا حسینؑ

کیوں پریا اندر کار جوں تو شمع تھا

فاطمہ کے انجمن کا حسینؑ

ڈاکٹر زور نے اشرف کے تیرہ مرثیوں کی نشان دہی کی ہے۔ اشرف گجراتی جنگ نامہ حیدر کے مصنف ہیں۔ 1746ء تک ان کی حیات کا ثبوت ملتا ہے۔ مذہبی جوش و خروش بہت تھا۔ مرثیوں کی زبان یوں ہے۔

اگن سوں ماتم شہ کے جلاہے تن بدن میرا

برنگ برق خرمن سوز دل ہے ہر سخن میرا

لگا ہے بس کہ تیر ماتم شہ دل منیں کاری

شہید کربلائے غم ہوا ہے جگ میں من میرا

ہوں گلگشت رضواں کی کرے کیوں عندلیب دل

محبت کی گلی ہے شاہ دیں کی ہے وطن میرا

علی اصغر کے غم میں حضرت شہر بانو کے غم و ماتم کی اس طرح تصویر کشی کی ہے۔

بانو کہیں اصغر نہیں اب میں جھولاؤں کس کے تئیں

سونا ہوا ہے پالنا اب میں سولاؤں کس کے تئیں

ڈاکٹر چراغ علی نے حسینی کے مرثیہ کی نشاندہی کی ہے۔ حسینی صوفی ہے اور صوفیا کی روایات کے تحت وہ مرثیہ کا آغاز ’’طلوع ماہ محرم’‘ سے کرتا ہے اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس عہد میں محرم کا چاند نمودار ہوتے ہی پوری فضاء سوگوارہو جاتی ہے۔ حسینی لکھتے ہیں۔

اس غم سوں جگ روتے آہیں جوگی جنگم ہوتے آہیں

دکھ سوں جنم کھوتے آہیں اے شہ ترسے دیتا گ سوں

دکنی مرثیوں میں صنعت حسن تعلیل حسینی کے یہاں ملاحظہ ہو۔

تن گاں کر اپنا چندر تارے  اجھوکے بوند کر

روتا پھرے آسمان پر ائے شہ تیرے دیتا گ سوں

سورج سومکھ پیلا کیا ، آسماں تن نیلا کیا

بادل نین گیلا کیا اے شہ تیرے دیتا گ سوں

سید شاہ ندیم اللہ ندیم کے مراثی میں فطری جذبات کی عکاسی بھی ہے اور خاص طورسے حضرت علی اصغر کے حال کا مرثیہ بہت ہی اہم ہے۔ نصیرالدین ہاشمی نے ان کا تذکرہ بہت مختصر کیا ہے۔ چراغ علی کو بھی ان کے حالات زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل نہ ہوسکیں۔ ندیم کے یہاں صنعت ترجیح اسی مرثیے میں ملاحظہ ہو۔

تجھ بن بانو ہیں بے حال لہو میں بکھرے سرکے بال

کہتی ہے ہے میرا لال سونا تیرا پالنا

تھا توشہ کا من کا چاؤ مجھ دیکھا کے من کا بھاؤ

کاری ہے مجھ دل پہ گھاؤ سونا تیرا پالنا

ندیم نے حضرت علی اصغر کی صغیر سنی میں شہادت کے دردناک پہلو کو اجاگر کرنے کیلئے حضرت علی اصغر کی والدہ کی مامتا کی تڑپ کو بڑی کامیابی کے ساتھ پیش کیا ہے۔

چھاتی کو کس لاؤں میں کس کو دودھ پلاؤں میں

اصغر تجھ کا پاؤں میں سونا تیرا پالنا

تھا مجھ دل میں یہ ارمان سالگرہ کرتی سامان

تجھ کو ں تھا یہ برس تداں سوناتیرا پالنا

ندیم نے دوسرے مرثیے میں جس کا مطلع ہے۔

اے بالک حسین کے پیارے للو ہائے شاہ اصغر

ظالماں ظلم سوں مارے للو ہائے شاہ اصغر

فکر و فن کی انہی نزاکتوں سے کام لیا ہے اس مرثیہ میں بھی غمزدہ ماں کی کیفیات کو بڑی کامیابی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ مثلاً وہ کہتے ہیں۔

للویج پلانے مائی گنوارے کنے جو آئی

لہوبھریا مکھ دیک پلائی للو ہائے شاہ اصغر

پیادودنیں توبک تل روتاتھا توں قتل تلاچل

کیا سخت منج سوں کی دل للو ہائے شاہ اصغر

للوگانے بھان آئی گنوارے میں تج نجھائی

ستا ہے ککرا چائی للو ہائے شاہ اصغر

کدہیں نیں توں یوں سوتارے پلاؤں گی رود پیارے

اڑاکرآنچل میں آڑے للو ہائے شاہ اصغر

عزلت ، سید عبدالولی سواتی کا ذکر بیشتر تذکروں میں ملتا ہے۔ اپنے عہد کے معروف شاعر تھے۔ سفارش حسین ان کے بارے میں لکھتے ہیں۔

’’ شمالی ہندوستان اور دکن کے سب ہی تذکرے لکھنے والے عزلت کا ذکر کرتے ہیں اوراس کی شاعری کا اعتراف عزلت کو اس وقت کے علوم اور فنون میں پوری دست گاہ حاصل تھی اور مصوری وموسیقی میں کمال ، زندہ دل ، صوفی منش اور صحبت شرب انسان تھا۔

عبدالجبار ملکاپوری نے عزلت کی مرثیہ گوئی پر یہ تبصرہ کیا ہے۔

آپ اہل بیتؐ کے مداح تھے اور ان کے فضاء میں

اس قدر مبالغہ کرتے تھے کہ بعض کے نزدیک امامیہ مشہور ہو گئے۔

محرم شریف میں بھی دس روز تک شہدائے کربلا کا بیان فرماتے تھے ، خود ہی مجلس میں مرثیہ و نوحہ اس طرز سے بیان کرتے تھے کہ بجنسہ اس وقت کا سماں دکھلا دیتے تھے۔

نمونہ ، وا مصیبت مصطفےٰ کا جان آج

خاک پر بے سرپڑا بے جان آج

ے غلام اے شاہ عزلت نت ملول

دے اثراس کے سخن کوں یا رسولؐ

میران ہاشمی مہدوی مسلک کے تھے۔ حضرت سید محمد جون پوری کو مہدی موعود تسلیم کرتے تھے۔ انھوں نے ریختی بھی لکھی ہے چونکہ ان کے پیر و مرشد ہاشم تھے اس لئے اپنے کو ہاشمی کہتے ہیں معراج نامہ بھی لکھا ہے اور ریختی کے موجد بھی کہے جاتے ہیں ان کے بارے میں ’’تاریخ ادب اردو’‘ میں لکھا ہے۔

’’ ہاشمی کا ایک مرثیہ بڑا پر درد اور اثر آفرین ہے۔ یہ پورا مرثیہ ایک المیہ لے میں ڈوبا ہوا ہے اور ہر شعر میں مرثیت اور سوز و گداز موجود ہے حسن تعلیل کی مدد سے مرثیہ نگار نے اپنے جذبات غم کے اظہار میں مظاہر قدرت کو اس طرح شریک عزاء کیا ہے۔

تارے نئیں آسماں پر ماتم میں شہ کے سوزسوں

گویا کہ زہرہ چرخ پر توڑی گلے کی گلسری

آسماں نیلا پیرہن پینا ہے اس ماتم ستی

خورشید غم ناتاب لالیا پھاڑلباس زرزری

عام طور سے ہاشمی کا ایک مرثیہ کثرت سے نقل کیا جاتا ہے اس کی زبان آج کے دور کی زبان معلوم ہوتی ہے۔ نصیر الدین ہاشمی نے ’’ دکن میں اردو’‘ کے صفحہ 294پر ذکر کیا ہے جو درج ہے۔

دل بند مصطفےؐ کا تابوت لے چلے ہیں

فرزند مصطفے کا تابوت لے چلے ہیں

سلطان دوجہاں کا ، سردار اولیاء کا

مظلوم کربلا کا تابوت لے چلے ہیں

حضرت حسین وحسن کا شاہ زمیں زمن کا

حضرت نبی منگا کر تابوت لے چلے ہیں

اے ہاشمی شہاں کا ، سلطان دوجہاں کا

بقول اس جواں کا تابوت لے چلے ہیں

قاضی محمد بیجاپوری بحری کے متعلق نصیرالدین ہاشمی لکھتے ہیں۔

قاضی بحرالدین کے لڑکے تھے اس لئے اپنا تخلص بحری رکھا۔ بحرالدین قاضی دریا کے لقب سے بھی معروف تھے آپ کا سلسلہ نسب حضرت عبد القادر جیلانی سے ملتا ہے تاریخ ولادت میں اختلاف ہے۔ 1030؁ھ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے۔ بحری قاضی بھی تھے اور شاہ باقر عرف منجن بحری کے مرید بھی تھے۔ قادریہ اور چشتیہ دونوں سلسلوں کے تھے۔ آپ کی مثنوی ’’ من لگن’‘ بہت مشہور ہے آپ نے مرثیے بھی لکھے ہیں۔ سفارش حسین کے حوالہ سے مثال درج کی جاتی ہے۔

جب شاہ کے وجود مبارک پہ غم ہوا

تب سب جہاں تے حرف خوشی کا عدم ہوا

رخ گلرخاں کے غم منے جیوں زعفراں ہے زرد

تھا قدالف  نمن سواوجیوں دال خم ہوا

گلزار ، گلستاں منے غم تے ہو چاک چاک

روتا ہے ہر شجر نہ کہ شبنم تے نم ہوا

دل جل کے راکھ کیوں نہ ہو اچھی کے بن منے

جیوں کہ چنار غم کی اگن کا اگم ہوا

غم تاب لیا نہ آب میں غرقاب نوحیاں

ہور قوم لوط غم تے زمیں میں ہضم ہوا

ہر ایک الم بغیر ملم نیں ہے یو عجب

غم کے الم کوں پہر کے یہی غم ملم ہوا

بن دوکھ ہر بشر کوں نہ پانی نہ کھان ہے

پانی سوں نیر نین کا ہور قوت دم ہوا

کروبیاں فلک پہ تیار دئے آر، مار

سناسیاں کوں جل میں یو غم دم بہ دم ہوا

پیغمبراں میں جیوں کہ محمدؐ سوختم ہے

یوں غازیاں میں شہ کی عزا سوں ختم ہوا

جیکوئی دل میں شاہ کے غم کا نہال لائے

او دل یقین کہ حشر کو باغ ارم ہوا

بحری مدام شاہ کے ماتم میں یوں گلے

جیوں چاند آسمان پہ گل گل کے کم ہوا۔

سید شاہ حسین بیجاپوری ذوقی کو ان کے مرشد شاہ محمد خاں نے بحرالعرفان کا خطاب دیا تھا۔ انھوں نے ذوق نامہ بھی لکھا ہے۔ سفارش حسین لکھتے ہیں ذوتی درویش منش اور صوفی مشرب انسان تھا ، شاعری اس کیلئے پیشہ نہیں تھی۔ چراغ علی نے بھی ذوقی کے حسن بیان کی توصیف کی ہے۔ وہ بحر کے انتخاب میں بھی خوش سلقے کا ثبوت دیتے ہیں۔

ذوقی کے فکر و فن کا حسن اور زبان پر اس کی قدرت دیکھے

وہ جاہل دوزخ وطن آئے ہیں بادل کے نمن

جون برق تیغ صف شکن شہ جگمگاتے کیوں نہیں

’’ جاہل دوزخ وطن’‘ کی ترکیب کس درجہ چست اور چپیدہ ہے اوراس میں کس قدر تلخی احساس کو سمودیا ہے اور یزیدیوں کے لشکر کی ’’ بادل ‘‘ سے تشبیہ کس قدر برجستہ اور بھرپور ہے۔ ذوقی نے یہ پورا مرثیہ فکر و فن کے اسی منہاج PITCHسے کہا ہے۔ ایسے ہی مرثیے دکن میں مرثیہ کی ترقی کے ان حدود کا پتہ دیتے ہیں جہاں پہنچ کر دکنی مرثیے کی مذہبیت میں ادبیت کا وہ نکھار آگیا ہے جو صنف مرثیہ کو دبستان لکھنو کی سب سے بڑی دین ہے۔ ذوقی کا یہ مختصر مرثیہ ذیل میں نقل کیا جاتا ہے۔

اے شمع بزم مرتضیٰ گھر آج آتے کیوں نہیں

تاریک ہے تم بن جہاں جلوا دکھاتے کیوں نہیں

وہ جاہل دوزخ وطن آئے ہیں بال کے نمن

جوں برق تیغ صف شکن شہ جگمگاتے کیوں نہیں

وہ شمع بزم مصطفےٰ باد اجل سوں گل ہوا

سب سوزدل سوں تن سدایاراں گلاتے کیوں نہیں

چھوڑوسگل دنیا کے کام دس دن تک اے خاص و عام

ماتم کی آتش میں مدام تن کوں ملاتے کیوں نہیں

ذوقی تمارا ہے غلام ، فضل و کرم سے یا امام

اپنی زیارت کوں مدام اس کو ں بلاتے کیوں نہیں

سفارش حسین لکھتے ہیں : ذوقی کے مرثیوں میں مکالمہ بھی ملتا ہے۔

شاہ ماتم تخت گردوں پر وساماہ محن

فوج غم نے ملک دل ویراں کئے ہیں چوکدہن

تب ہزاراں درد و غم سوں شہر بانو نے کہا

مجھ کوں کس کوں سونپ کر جاتے ہو اے سرور تمن

تم بناں اے جان جاناں کیوں کروں میں زندگی

تم بناں کس کو ں کہوں میں یہ ایپس کا دکھ کٹھن

تم بناں ہر روز مجہ سینے منے یک سال ہے

تم بناں ہر رات غم سوں مجہ اوپر ہے یک قرن

شہ نے فرمایا کہ کچھ نہیں چارہ جز صبر و شکیب

ہے تمارایا وراس غم میں خدائے ذوالمنن

تم کوں روتے سوں نہیں کرتا منع اے غم گسار

موں پریشاں مت کرو اورپارہ پارہ پیرہن

گرچہ اے ذوقی ترے بے حد گناہاں ہیں ولے

شکراللہ ہیں شفیع روز محشر پنجتن!

محمد صدیق خاں قیس حیدر آبادی، شیر محمد خاں ایمان کے بھانجے تھے۔ وہ بھی مرثیہ کہتے تھے ،قیس انہی کے بھانجے اور شاگرد تھے ان کے بارے میں راقم الحروف کو زمانی روایتیں تو بہت ملیں کہ یہ تصوف کا اچھا ذوق رکھتے تھے لیکن کوئی مستند دستاویزی ثبوت نہ مل سکا۔ عزیز محترم پروفیسر یوسف زئی نے یہ بتایا کہ حیدرآباد میں قیس کی شہرت بحیثیت صوفی رہی ہے۔ مرثیے بڑے معرکے کے لکھے ہیں۔ سفارش حسین نے مرقع سخن کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’ اگر قیس نے مرثیے ہی میں طبع آزمائی کی ہوتی تو دکن میں بھی ایک میر انیس پیدا ہو چکا ہوتا’‘

سفارش حسین نے قیس کے مکمل بند نہیں دیئے ، جستہ جستہ شعر دیے ہیں۔ قیس پر ڈاکٹر حفیظ قتیل کا ایک مقالہ بھی شائع ہو چکا ہے۔ اس کا ضخیم قلمی دیوان میں موجود ہے۔ قیس بڑی اچھی غزلیں بھی کہتے تھے کریم الدین نے بھی طبقات الشعراء میں ان کا ذکر کیا ہے۔ مرثیہ کے شعر درج کئے جاتے ہیں۔ 1230ھ میں انتقال ہوا۔

برش کا تری تیغ کے جب لکھوں ہوں مضموں

خامہ سے ٹپکنے لگے دودی کی جگہ خوں

اور پرچہ قرطاس بھی ہو جائے گا گلگوں

دریا ہو لہو کا تو ہر ایک مصرعہ موزوں

بے شک ہے تو لا ریب ہے گنجینہ اسرار

توبحر ولایت کا بھی ہے گا در شہوار

جس وقت کہ خورشید قیامت ہو نمودار

ہم سایہ علم کا ہو مرے سرپہ علمدار

نیزے کا وہ عالم ہے ترے قبلہ عالم

خورشید قیامت کا ہو جس نیز ے کا پرچم

دیکھے خط محور تو نہ پھر مار سکے دم

وہ پھل ہے کہ پیغام قضاجس سے ہے توام

متین برہان پوری۔ میرمہدی نام اور متین تخلص تھا چونکہ شاہ سراج کے شاگر د تھے اس لئے انھیں زمرہ صوفیاء میں شمار کیا گیا ہے ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مرثیہ کو مسدس کی ہئیت میں لکھا ان کے مربع کا ایک بند نقل کیا جاتا ہے۔ مسدس کی شکل میں کوئی بند نہیں ملا۔

کہے بتول نے آ کر مرے یتیم حسین

شکیب و صبر کے مظہر مرے یتیم حسین

جفا کشیدہ و بے سرمرے یتیم حسین

دیاتوں سرکوں رضا پر مرے یتیم حسین

دکن میں مرثیہ کے عروج و ارتقاء کا دور تا حال ہے اور یہاں کے مرثیہ نگاروں کی فہرست بہت طویل ہے ان میں طبعی ، محبت ، اولیاء لطیف ، افضل ، مقیمی ، شوقی ، صنعتی ، قطبی ، سلاطین گولکنڈہ مرزا ہاشم علی برہان پوری یا پھر دور حاضر کے باقر امانت فانی ، وحید اختر ، حامی غرض کہ تقریباً تمام شعراء نے کسی نہ کسی شکل میں رثائیہ شاعری کی ہے۔

مصلے الدین شاذ تمکنت کی نظمیں اورسلام بہت معروف ہیں لیکن جن لوگوں کی تصوف سے وابستگی کادستاویزی ثبوت نہیں مل سکا ان کا تذکرہ نہیں کیا گیا ہے۔

تاریخ کا یہ بھی حسین ترین اتفاق ہے کہ دکن میں مرثیہ کا آغاز اگر حضرت شاہ اشرف بیابانی اور حضرت برہان الدین جانم کار ہیں منت ہے تو شمالی ہند میں اس کا آغاز روشن علی سارنگ پوری کے ہاتھوں ہوتا ہے ان کے بارے میں جمیل جالبی لکھتے ہیں۔

’’ روشن علی نے عاشور نامہ ’’1688-89/1100ء میں لکھا جیسا کہ ان دواشعار سے ظاہرہوتا ہے

تاریخ دسویں و ماہ صفر

ہوا اس کا انجام وقت فجر ( شعر3533)

ہزار ادپر یک صد میں بیتیں تمام

بروز دو شنبہ ، صفر، وقت شام ( شعر3544)

حاکم مالوہ : سلطان باز بہادر شجاع خاں کا بیٹا تھا یہ بات واضح ہوئی کہ سمارنگ پورسہارن پور نہیں ہے بلکہ یہ مالوہ کے علاقے کا شہر سارنگ پور ہے جو اجین اور بھوپال سے قریب ہے اور جہاں روشن علی نے اقامت اختیار کر لی تھی’‘۔

’’ درحقیقت یہ عاشور نامہ بھی ہے اور جنگ نامہ بھی اس میں روشن علی نے واقعات کربلا اور جنگ نامہ محمد حنیف کو ملا کر ایک کر دیا ہے۔ محمد حنیف ظالم یزید کو ہلاک کرتے ہیں اور سننے والے عاشور نامہ کو سن کر اطمینان کا سانس لیتے ہیں۔ روشن علی نے واقعات کربلا اور واقعات محمد حنیف کو ملا کر نہ صرف داستان کو مکمل کر دیا ہے بلکہ دلہن کو ہلاک کر کے ٹریجیڈی کو کامیڈی میں بدل دیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ عاشور نامہ اپنے دور میں مقبول رہا ہو گا۔

اس عاشور نامہ میں کل چوالیس اشعار ہیں جمیل جالبی لکھتے ہیں۔

’’منقبت چار یارسے معلوم ہوتا ہے کہ روشن علی سی سنی العقیدہ مسلمان تھے ان کا پیشہ امامت تھا اور وہ مسجد کے ایک حجرے میں رہتے تھے اس شعرسے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے ’’ سہارنگ پور’‘ میں سکونت اختیار کر لی تھی۔

یہ کرسیردنیا موافق قدر

سکونت کیا تھا سہارنگ پور شہر(شعر63)

روشن علی نے عاشور نامہ میں جو روایات لکھی ہیں ان کا کوئی ماخذ اور مصدر نہیں بتایا ہے اورجس طرح حضرت شاہ اشرف بیابانی نے اپنی مثنوی کی بنیاد ایک غیر متحقق واقعہ پر رکھی ہے اسی طرح روشن علی کا ماخذ اور مصدرکسی مستندحوالہ پر نہیں ہے اس پر تفصیلی بحث جمیل جالبی نے کی ہے۔

***

غرضیکہ واقعات کا ایک پیچ دارسلسلہ ہے اور بات کربلا تک پہنچتی ہے۔ کربلا میں امام حسینؑ نے جناب قاسم کے سہراباندھا اور نکاح پڑھایا گیا۔ جمیل جالبی لکھتے ہیں

’’ روشن علی نے لکھا ہے کہ خوشی کے اس موقع پر عورتوں نے منگل گائے دوسرے مرثیہ گویوں کی طرح روشن علی کا بھی یہ مسئلہ نہیں ہے کہ وہ سوچے کہ میدان جنگ میں جہاں بیشتر افراد شہید ہو چکے ہیں ،عورتیں کیسے گا سکتی ہیں۔ اس موقع پر سہراکہاں سے میسرآسکتا ہے ؟ بہرحال نکاح کے بعد ابھی حضرت قاسم اپنی بیوی کے پاس گئے ہی تھے کہ میدان جنگ سے فوج یزید نے پکارا:

کہ میدان خالی ہے آؤ شتاب

لڑو آن کر ہم ستی بے جواب

بہت وقت گزرا نہ آیا کوئی

سبھی مر گئے یا بچا ہے کوئی

یہ سن کر جناب قاسم میدان جنگ میں گئے اور نہایت بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت پیا۔ ان کے بعد علی اکبر بن حسین گئے وہ بھی شہید ہوئے۔ علی اصغر کے تیر لگنے کا بھی واقعہ بیان کیا ہے۔ حضرت زین العابدین نے اجازت چاہی تو حسینؑ نے کہا کہ تم بیمار ہواسی وقت اپنا سجادہ نشین مقرر کیا اور  دعا دی کہ سارے اولیاء ، قطب ، غوث تیری نسل سے ہوں گے اور خود میدان جنگ میں چلے گئے اس کے بعد امام حسینؑ کی بہادری ، شجاعت اور شہادت کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان کی شہادت کے بعد اہل خاندان پر کیا گزری اس کا حال مختلف افسانوی روایات کے ساتھ بیان کیا ہے اور لکھا ہے۔

ستردوبہتر ہوئے ہیں شہید

بہ حکم الٰہی بہ قہر یزید

اس کے بعد مختلف روایات ، واقعات اور خواب بیان کئے گئے ہیں یہاں سے جنگ محمد حنیف عاشور نامہ میں شامل ہو جاتی ہے اس میں روشن علی نے بیان کیا ہے کہ کس طرح یزید قتل کیا جاتا ہے اورکس طرح حضرت زین العابدین کو تخت پر بٹھا کر تاج ان کے سرپر رکھا جاتا ہے اور ان کے نام کا خطبہ پڑھا جاتا ہے۔ دعا پر عاشور نامہ ، ختم ہو جاتا ہے۔

عاشور نامہ کا سن تصنیف 1100ھ؁ !1688ء ہے۔ مسعودحسین خاں نے اسے مرتب کر کے شائع کرا دیا ہے۔

روش علی کے انداز فکر اوراس کی ادبی حیثیت کیلئے جستہ جستہ اشعار پیش کئے جا رہے ہیں

کروں پہلے توحید ایزد تعالی

نہ ہے ذات کو اس کی ہرگز زوال

الٰہی تری ذات ہے لم یزل

جہاں سب میں معمور تو بر شکل

توئی ذوالجلال اور توئی  والکرم

ہوا ایک پل میں سوتیرا رحم

اگر یہ نہ بد ہو نا لشکر عیاں

نہ طاقت تھی لشکر کو آوے وہاں

رفیق ان کے جوتھے ہوئے سب شہید

ہوا نور رحمت کا ان پر پدید

کہا پھر یہ مسلم نے اے کوفیاں

مسلماں بھی ہے کوئی با ایماں

کوزہ ایک پانی کا لادے شتاب

کو دینا ہے آخر خدا کو جواب

یہ سن کوفیوں نے تلے سرکیا

نہ پانی انھوں نے میسر کیا

انہی بیچ تھا ایک حبشی جواں

مشک بھرکے پانی کی لایا وہاں

کہ مسلم پیو پانی تم سیرہو

انھوں نے دعا کی تری خیر ہو

کری حق نے یارو دعا وہ قبول

وہ حبشی اسی وقت پایا حصول

روشن علی مذہبی اور صوفی منش آدمی تھے۔

شمالی ہند میں جو مرثیہ کی روایت ملتی ہے ان میں سب سے اہم نام ظہور الدین شاہ حاتم دہلوی کا ہے یہ وہی شاہ حاتم ہیں جو سودا کے استاد تھے ان کے مراثی کی نشاندہی تقریباً تمام کی گئی مگر مرثیہ کا نمونہ نہیں ملا اس عہد کے مرثیہ نگاروں میں میر محمد مہدی مسکیں ، انسان ، میر عبداللہ مسکیں ، وغیرہ بہت مشہور ہوئے۔ مرثیہ لکھنے والوں میں احسن اللہ خاں بیاں ، غلام مصطفے یک رنگ نے مرثیے لکھے ان کی نشاندہی ’ ’ اردو مرثیہ پاکستان میں ‘‘ ضمیر اختر نقوی کی کتاب میں ملے گی۔ شاہ مبارک آبرو خواجہ میر درد کے شاگرد اسد دہلوی وغیرہ نے بھی مرثیے لکھے مگر خود خواجہ میر درد نے ایک شعر بھی نہیں لکھا ہے۔ سیدن کے بارے میں تحقیق ہو رہی ہے حالانکہ اسے دکنی کہا جاتا ہے مگر وہ شمالی ہند کا تھا۔ سفارش حسین لکھتے ہیں۔

’’ سیدن نے مرثیہ کو جس خیال میں پیش کیا ہے وہ صوفیوں میں عام تھا معلوم ہوتا ہے کہ وہ صوفی تھا۔ نمونہ کے طور پر دو شعر پیش کئے جاتے ہیں

ماہ محرم میں دیکھو چندا ہو مالی آئیاں

تارے گگن کو گوند کرسہراجوشہ کو لائیاں

اپنے پوجیوں کو ں وار کر دیوے دہنگاناسیس کا

ہریک نے شہ کے سنگ سوں خلعت سہانی پائیاں

لوگوں نے گھیسا خلیفہ محمد علی سکندر کو صوفی شمار کیا ہے۔ راقم الحروف ان کے حالات زندگی پڑھنے کے بعد ان کا تذکرہ کرنے سے اوراس بزم میں بٹھانے سے قاصر ہے حالانکہ انھیں ایسا پہلا مسدس نگار کہا جاتا ہے جس نے مسدس کی ہئیت میں مرثیہ لکھا۔

ہے روایت شتراسوار کسی کا تھا رسولؐ

میاں سکندر کے ساتھ مرزا محمد رفیع سودا کا نام ہے۔ سودا کا تصوف محفل نظر نہیں ہے۔ تصوف سے ان کی وابستگی ان کے اشعار سے نمایاں ہے لیکن انھیں صوفی کہنا وقت طلب ہے۔

ہرسنگ میں شرار ہے تیرے ظہور کا

مردہ کولیں کے در دل سے ہٹا دے

ان کی مرثیہ گوئی اتنی معروف ہو چکی ہے کہ اس پر تبصرہ بھی غیر ضروری سا معلوم ہوا۔ کچھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کے مرثیے مہربان خاں رند کے اور مہربان خاں رند کے مرثیے ان کی کلیات میں ہیں ان کے کچھ مرثیوں کے مطلعے درج کئے جاتے ہیں۔

۱۔ کیا کروں شادی قاسم کا میں احوال رقم

۲۔ میں اک نصاریٰ سے پوچھا زراہ نادانی

۳۔ اب رونے کو اُٹھاہے آ ج کو ہساروں کے بیچ

۴۔ کہا اساڑھ نے یہ جیٹھ کے مہینے سے

اور ان کے مرثیے کا یہ مثالی مطلع دیکھئے

چلا جب شام کربلاسے زین العبا تنہا

میر صاحب کے مرثیے مسیح الزماں مرحوم نے الگ سے مرتب  کر کے شائع کرا دئے تھے اس میں 39مرثیے ہیں۔ لوگ سرسری طور پر لکھ دیتے ہیں کہ میر کے یہاں بین کی وہ کسک نہیں ہے مگر یہ بات صحیح نہیں ہے چند اشعار  ملاحظہ ہوں۔

پھول رہتے تھے بھرے جس میں ہمیشہ صد رنگ

اسی دامن سے گتھے رہتے ہیں اب خار بہن

آیا تھا کس گھڑی کا جو پھر گیا نہ گھرو ہ

سردے مرے جہاں سے آخر  گزر گیا وہ

تیروسناں کی بارش کرتا رہا نظارا

دیکھا نہ آنکھ اٹھا کر کنبہ موا بھی سا

اس عہد کے شعراء میں سفارش حسین نے مقبول شاہ بے نوا کا ذکر کیا ہے مگر کوئی نمونہ کلام نہیں دیا اس کے بعد تصوف کی لہر کچھ یا تو کمزور ہو گئی یا مرثیہ لکھنے والوں نے بذات خود مرثیہ نگاری کو ایک مشرب اورمسلک کی طرح اختیار کیا مگر بعض جگہ بڑی پریشانی ہوئی مثلاً غالب تصوف کے امام ، دنیا کو جلوہ یکتائی معشوق کہنے والے دو بند مرثیے کے بھی لکھے مگر انھیں صوفی مرثیہ نگار لکھنے میں تامل ہے۔ البتہ اس سلسلے میں سفارش حسین نے عظیم آباد کے شعراء کا ذکر کیا ہے ان شعرائے عظیم آباد میں سب سے اہم نام غلام علی راسخ کا ہے۔ نمونہ کلام ملاحظہ ہو۔

آہ دسویں دن محرم کے یہ کشت و خوں ہوا

تختہ دامان ارض ماریہ گل گوں ہوا

کیوں نہ ہوبے آب جب ایسا در مکنوں ہوا

جس کی بے آبی سے سالار رسال محزوں ہوا

جذب کی طاقت عطا ہوئی کربلا کی خاک کو

ورنہ جوش خوں ڈوباتا کشتی افلاک کو

سفارش حسین ان کے بارے میں لکھتے ہیں۔

’’ راسخ درویش منش اور صوفی مشرب انسان تھے۔

یہی رنگ ان کے مرثیوں میں بھی تھے زبان پر فارسی کا گہرا سایہ ہے بیان جذبات سے پراور اثر سے لبریز ہے۔ سفارش حسین نے تقریبا30ایسے مرثیہ نگاروں کا ذکر کیا ہے جن کا تعلق عظیم آباد یا پھلواری شریف سے تھا ان میں سے بیشتر کے اسمائے گرامی ان کے صوفی ہونے کی دلیل ہیں ان کا تذکرہ اور ان کے کلام کا نمونہ سفارش حسین کے حوالے سے پیش کیا جا رہا ہے۔

شاہ محمد آیت اللہ عظیم آبادی مذاقی ، پھلواری شریف پٹنہ ( بہار) کے خانوادے میں اکثر و بیشتر لوگ شاعری کی ذوق اور مرثیہ گوئی کا شوق رکھتے تھے ان میں سے ایک مذاقی بھی ہیں ان کا شعر و شاعری کا مذاق بہت شائستہ تھا۔ فارسی شورش اور ریختہ میں جوہری تخلص کرتے تھے۔ مرثیے کیلئے مذاقی تخلص چناتھا۔ پھلواری شریف میں تین قلمی بیاضیں ہیں ان میں سے ایک میں ان کے مرثیے بھی ہیں۔

نمونہ:۔

آل نبی نہیں جینے پایا ، ہائے حسینؑ بدیسی پنتھی

کٹا بتول وعلی کا جایا ، ہائے حسینؑ بدیسی پنتھی

تیغ ستم کوں تن پر رکھایا ہائے حسینؑ بدیسی پنتھی

خنجر سے گردن کٹوایا، ہائے حسینؑ بدیسی پنتھی

تن کوں سرسے ہے نہ پھروا ، سراوس تن سے دور ہی دور

سرنیزہ پر جھوم رہا ہے ، تن ماٹی میں گھاؤ سے چور

ہائے نبی کا خاص نواسہ ، وائے بتول وعلی کا پور

کیا کیا ظلم نہ اس پر آیا ، ہائے حسینؑ بدیسی پنتھی

بعد شہید ہوئے سرور کے خیمہ بیچ در آیا قاتل

لوہو بھرا دو خنجر براں کف میں لے چمکا یا قاتل

گھر میں اثاثہ جو کچھ پایا ، پیادوں سے لٹوایا قاتل

سب نسوات سے ناکہ بر آیا ، ہائے حسینؑ بدیسی پنتھی

قصہ غم کا دور دراز ہے ، کہہ مت آگے اس کے مذاقی

قلم کا دل رقت میں آیا بہت رہا لکھنے کو باقی

روز جزا میں پانی پلاتا اے کوثر کے حوض کے ساقی

نالہ و آہ سے دل بھر آیا،ہائے حسینؑ بدیسی پنتھی

مندرجہ بالا اشعار سے شاہ صاحب کے مخصوص رحجان اور ذوق سماع کا بھی اندازہ ہوتا ہے یہ کلام میر صاحب کے عہد کے آس پاس کاہے۔

طپاں۔ شاہ نور الحق عظیم آبادی

پھلواری شریف پٹنہ ، بہار کے سجادہ نشینوں میں سے تھے اور صاحب حال و قال ، عربی اور فارسی کے عالم تھے کسی رسالے لکھے ہیں ،پھلواری شریف ، ہنگال تالاب ، پٹنہ سٹی کی بیاضوں میں ان کے مرثیے ہیں جو مربع بھی ہیں اور مسد س بھی۔

نمونہ کلام:

فسانہ غم و درد و ملال کیا کہے

جو کچھ کہ دیں میں ہوا اختلال کیا کہئے

غرض نبیؐ کے نواسے کا حال کیا کیئے

علیؑ کے لخت جگر کا مآل کیا کیئے

گئی مدینہ میں جب کربلا سے یا دشمال

عجب ہوا کہ ہوائے صباح  وقت زوال

کیا نبیؐ نے اشارہ ہی سے تفحص حال

پٹک کے سریہی بولے کہ حال کیا کیئے

شکست لشکر دیں ہو تو آہ کیا کیئے

تری جناب میں اے دیں پناہ کیا کیئے

غم حسین کو واویلتاہ کیا کیئے

ہزار کیجئے دل میں خیال کیا کیئے

فرد۔ شاہ محمدابوالحسن عظیم آبادی۔ پھلواری شریف کے سجادوں میں سے تھے ،اہل علم اور صاحب ذوق، انیسویں صدی میں ان کا دیوان شائع ہوا بہت سے مرثیے کہے ہیں اور سخن کی ہر صنف میں

نمونہ

شام جانے لگے جب بے سروساماں عابد

یادگار خلف ، شاہ شہیداں عابد

مقتل شاہ پہ باخیل  یتیماں عابد

آئے پابوسی شبیر کو گریاں عابد

اہل بیتوں سے پس شاہ جو وہاں باقی تھے

اس طرح ساتھ لئے حضرت سجاد چلے

حلقہ غمزدگاں جاتا تھا پیچھے پیچھے

پیش اُوسب کے تھے سرداراسیراں عابد

سرحد شام پہ جب پہنچے جو احوال ہوا

فرد کب لکھ سکے وہ واقعہ درد و عزا

اشک ریزاں ہے قلم سن کے یہ مصرعہ میرا

تھے لب لعل پہ شہ کے گہرا فشاں عابد

بیاں۔ خواجہ احسن اللہ دہلوی

اصل میں کشمیری تھے۔ بیان کی پیدائش دلی میں ہوئی۔ مرزا مظہر جان جاناں کے شاگرد تھے۔ تصوف کی طرف بھی طبیعت مائل تھی۔ نظام حیدر آباد کی سرکار سے متصل ہوئے اور وہیں انتقال کیا۔ مولف خم خانہ جاوید کا کہنا ہے کہ بیان کے شاگرد رائے گلاب چند ہمدم نے وفات کی تاریخ کہی۔

نمونہ

پیغمبرؐ کی ہودی جس وقت رخصت

گئیں جنت میں جب خاتون جنت

علی کی بھی ہووی ثابت شہادت

حسن بھی ہو چکے دنیا سے رخصت

اکیلا پا کے آل مصطفےٰ کو

دیئے یہ دکھ حسینؑ مجتبےٰ کو

ثروت شاہ غلام مخدوم عظیم آبادی

ثروت کا تعلق بھی پھلواری شریف سے تھا۔ بیاض میں ان کے مرثیے بھی ہیں۔

نمونہ

جب خاک پہ شر بیٹھے اتر خانہ زیں سے

سرکاٹ لیا شمر نے آ خنجر کیں سے

اس سرکو جو رفعت تھی سرعرش بریں سے

نیزہ نے رکھا سرپہ اٹھا اس کو زمیں سے

وہ صید حرم  ماند ؤ مجبور تھا بیٹھا

تھے دام کے حلقہ کی طرح گردسب اعدا

یوسف کا غرض دیکھ کے بگڑا ہوا سودا

دس تھے سگ گرگیں اٹھے یکبار زمیں سے

ظہور۔ شاہ ظہور الحق عظیم آبادی

یہ شاہ نورالحق طپاں کے بیٹے تھے۔ پھلواری شریف پٹنہ سے ان کا تعلق بھی تھا۔ باپ کی طرح مرثیے کہے اور ان سے ایک قدم آگے رکھا ، یعنی اردو کے علاوہ مقامی بولی میں بھی مرثیہ کہا

وہ کوہ علم و رضا اور سنگر تسلیم

دے بحر و کان شجاعت علی کے در یتیم

اب ان کے درد سے لاکھوں دلی کے دل میں دونیم

انھیں نہ تیغ سے آیا دریغ وتیرسے بیم

نہ بے دلی سے اثر ان کو نہ نہیب سے ٹک

ڈگے نہ ان کے قدم جادہ شکیب سے ٹک

یہ بحر طویل میں مرثیہ ہے اس کی داخلی شہادت مشتاق کو تصوف سے قریب تر کرتی ہے اس لئے اس کے کلام کا نمونہ دیا جا رہا ہے

آہ جس وقت حسینؑ ابن علی ، سبط نبیؐ ، چھوڑ مدینہ کو گیا کربلا

تھی وہ سب قوم دغا ، گرنے لگا ادس کے اوپر ارض وسما

ادس کے گلے جب کہ چلا ظلم کا خنجر

آہ حسینم آہ

میں کیا کروں تحریر، نہیں سہل یہ تقریر، کہ حضرت شبیر

ہوئے رن میں بے میر وہ جتنے تھے بے پیر،پکڑ ہات میں شمشیر

چلے خیمے کے اندر

آہ حسینم آہ

تھے عابدیں بیمار، کہیں عترت اطہار، جیسے حیدر کرار

سید احمد مختار ،کہیں گھر کے ہوسردار، ڈرے ان سے نہ زنہار

چھناسرسے لی چادر

آہ حسینم آہ

غنی۔ مولانا عبدالغنی عظیم آبادی

ان کا تعلق بھی پھلواری شریف سے تھا وہاں کی بیاض میں ان کے مرثیے بھی ہیں۔

نمونہ

کہو تو کیونکر رہے آب و تاب پانی میں

نہ ہووے کیونکہ بھلا اضطراب پانی میں

حسینؑ و تشنہ لبے اور حباب پانی میں

ملے نہ ساقی کوثر کو آب پانی میں

لہر ہو موج میں پانی کے کیوں نہ شعلہ اثر

جو خود ہو مالک کوثر سوآب کو مضطر

عجب نہیں جو کرے سوز سینہ سردر

بہ آہ شعلہ سے ماہی کباب پانی میں

ترقی۔ شاہ امان علی عظیم آبادی

پھلواری شریف پٹنہ ( بہار) سے تعلق تھا وہاں کی بیاض میں بہت سے مرثیے ہیں۔

نمونہ

شب عاشور جو کی شہ نے عبادت میں بسر

غم فرقت سے ہوئی چاک گریبان سحر

کہاسجادکتیں سردردیں نے روکر

آج ہووے گا جدا تن سے ہمارا یہ سر

نقد جاں را بہ رہ دوست فدا خود اہم کرد

سرخودگوئے بہ میدان رضا خواہم کرد

ہم نے شب خواب میں دیکھا ہے کہ مادر زہرا

ہوئیں اس دشت بلا خیز میں جلوہ فرما

اپنے گیسوئے سخن سائے کو جاروب کیا

خار و خاشاک کو اس دشت کی کرتی ہیں صفا

صاف میدان بلاساختہ گیسوئے رسول

نور پیدا شدہ ہر گوشہ ازروئے بتول

احمدی۔ مولانا احمدی

احمدی اعلیٰ درجے کے عالم اور بلند مرتبہ صوفی تھے۔ پھلواری شریف پٹنہ ، بہار سے ان کا بھی تعلق تھا۔ پھلواری شریف کی بیاضوں میں ان کے مرثیے بھی ہیں جو مربع بھی ہیں اورمسدس بھی ایک مسدس مرثیے کے آخری بند نمونے کے طور پر نقل کئے جاتے ہیں۔

سرپانانا کی باندھ کردستار

ہاتھ میں مرتضےٰ کی لے تر دار

چلے کہتے ہوئے پکار پکار

نور دو چشم حیدر کرار

کون؟ میں ہوں بنی کا نورالعین

شاہ ہوں نام ہے مرا ہی حسین

اے ستم پیش گان بدکردار

کوتہ اندیشہ گان ظلم شعار

کس پہ تم کھینچتے ہویا تلوار

مجھ پہ ؟ میں ہوں نبیؐ کا دوش سوار

خوں سے آشفتہ روئے احمر کو

جا دکھاؤں گا میں پیغمبر کو

محزوں۔ مولوی غلام جیلانی عظیم آبادی

فارسی میں سرشار تخلص تھا۔ مرثیے میں مناسبت کے لحاظ سے محزوں تخلص اختیار کیا تھا۔ مرثیہ منفرد کہا

نمونہ کلام:۔

چلا خنجر ، کٹاجس دم گلا شبیر سرورکا

زمیں لرزی ، فلک کا نپا، اٹھا تب محشر کا

عزیز و قصر اندوہ و طومار جفا کوئی

لکھے کیا غم سے ہوتا ہے گریباں چاک دفتر کا

عزیز وگر شفاعت چاہتے ہو در صف محشر

کرو دس روز بھر ماتم رسولٔ اللہ کے منظر کا

جواد۔ مولوی جواد علی عظیم آبادی

پھلواری شریف سے تعلق تھا وہاں کی بیاض میں ان کے بھی مرثیے ہیں۔ نمونہ کلام

بانو کریں یوں خطاب قاسم

یہ گیسوے مشک تاب قاسم

اور خوں کا ملا خضاب قاسم

افسوس ترا شباب قاسم

تیرا یہ رخ شگفتہ چوں گل

صرصر کا جسے نہ تھا تحمل

تھی جس کی سدانقاب کاکل

کیوں آج ہے بے نقاب قاسم

وحدت: مولوی محمدحسن عظیم آبادی

پھلواری شریف پٹنہ: بہار سے ان کا بھی تعلق تھا وہاں کی بیاض میں ان کے بھی مرثیے ہیں۔ نمونہ کلام:

شور مچا ہے عرش بریں پر، ہائے رے قاسم ہائے قاسم

کیا ستم ہے صاحب دیں پر ہائے رے قاسم ہائے رے قاسم

کس نے لگایا تیر جبیں پر، ہائے رے قاسم ہائے رے قاسم

لاش پڑی ہے تیری زمیں پر ہائے رے قاسم ، ہائے قاسم

مفت طبق کی چرخ کے اوپر کہتے ہیں روروقدسیاں

جیتا رہا نہیں ابن حسن کا ، بیاہ کے دن دولھا بناں

وجیہ۔ مولوی محمد وجیہ عظیم آبادی

صاحب علم و معرفت وجیہ کا تعلق پھلواری شریف سے تھا۔ ان کی بیاض میں ان کے مرثیے بھی ہیں۔ نمونہ کلام:

کیں ہم کنار درد ہیں زہرا عدن کے بیچ

ہیں کس کے زخم تازہ سے رنج و محن کے بیچ

پیکان تیر آج ہے کس کے ذقن کے بیچ

پرسرخ رو حسین ہیں خونیں کفن کے بیچ

جنت میں آج فاطمہ زہرا ہیں بے قرار

نالہ ہے لب پہ اور دو چشماں ہیں اشکبار

کہتی ہیں واحسین علی شاہ نامدار

کس نے بولا کے مار لیا آج رن کے بیچ

اب جن شعراء کے کلام کا نمونہ دیا جا رہا ہے ان کا تعلق اس دور میں جب لکھنو میں افسردہ ، فصیح ، دلگیر اور ضمیر کی آوازوں کی گونج پر و دبیر کی آوازیں حاوی ہونا شروع ہو گئی تھیں یہ دور تصوف کے کا تو نہیں کہاجاسکتا مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تصوف نے الٰہی کے زیر اثر ایک نئی سمت اختیار کر لی تھی اور نعرہ تکبیر سے صف جنگاہ کی تھی۔ خانقاہ کے سماع خانہ میں خاموشی چھا رہی تھی ایسے میں بھی میں نے مرثیے لکھے۔ سفارش حسین رضوی نے پھلواری شریف میں بیاض حوالہ سے ان بزرگوں کے اسمائے گرامی اور ان کے کلام کا نمونہ دیا ہے ان لوگوں کے بارے میں تفصیلات نہیں مل سکیں۔ البتہ ان کے نام نامی سے تصوف کی شعاعیں پھوٹتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔

غمیں۔ مولوی سید ابراہیم علی عظیم آبادی

آج زینب کی یہ تقریر ہے اللہ اللہ

سربہ سرغم کی ہے تحریر ہے اللہ اللہ

کہتیں کیا بھائی کی تقصیر ہے اللہ اللہ

ہائے شبیر اور یہ تیر ہے اللہ اللہ

کمال۔ مولوی کمال علی عظیم آبادی

فلک پہ کس لئے روشن ہے ماہ سے آتش

مگر ہے دامن چرخ سیاہ سے آتش

کہوتو کس کے اٹھے خیمہ گاہ سے آتش

مگر ہے آہ یتیمان شاہ سے آتش

محمدی۔ مولوی قطب الاولیاء عظیم آبادی

سناں بہ صورت سعیابہ شہادت شاہ

کہ فرق نیزہ پہ تسبیح حق سے شہ آگاہ

زباں پ اشہدان لا الہ الا اللہ

محمدؐ عربی کا جمال پیش نگاہ

زہے نیاز حسین و زہے نماز حسین

زہے بہ راز الٰہی ، زہے نیاز حسین

وسعت۔ شاہ غلام شبلی عظیم آبادی

پھلواری شریف کے سجادوں سے ان کا تعلق بھی تھا۔

پدر کی لاش پر اک بار عابد

لگے کہنے بہ چشم زار عابد

کہ بابا آپ کا دلدار عابد

ہوا زنجیر پا بیمار عابد

اے بابا آپ کاجسم مطہر

طپاں ہے خاک میں ہو خوں سے احمر

اس پورے تذکرہ میں تمۃ کلام کے طور پر پدم شری علی جواد زیدی کے حوالے سے کچھ شعراء کا تذکرہ ملا ہے اسے یہاں درج کیا جا رہا ہے۔

احسن۔ شاہ سید علی احسن جائسی (ولادت ۱۲۶۰ھ!۱۸۴۴ء)

احسن صوفیوں کے مشہور خانوادے آستانہ عالیہ اشرفیہ جائس کے ایک عالم اور صاحب کیف و حال بزرگ تھے آپ کے والد سید ظہور اشرف بھی صاحب کمال تھے۔ احسن کا شمار ہند و پاکستان کے مشہور علماء وقت میں ہوتا تھا۔ روحانی عظمتوں کی ورثہ داری کے ساتھ ساتھ اپنے ذاتی تبحرِ علمی ، روحانی کمالات ، شاعرانہ بلند خیالی ، نکتہ رسی اور وسعت نظر (علمی) کی بدولت پورے براعظم میں مشہور تھے۔

لکھنو کے مشہور علمی مرکز فرنگی محل میں تکمیل علم کیا۔ بڑے خوش عقیدہ حنفی تھے او ر ہر طرح کے تعصب اور تنگ نظری سے پاک تھے۔ محبت رسول اور اہل بیت اطہار سے سرشار اور امام حسین علیہ السلام کے عاشق صادق تھے۔ عزا داری میں اتنا اہتمام کرتے تھے کہ جائس کے سارے عزا دار مل کر بھی اتنا نہیں کرتے تھے۔

شاہ علی حسن قصائد میں ہندوستان گیر شہرت کے مالک تھے خصوصاً وہ قصائد جو انھوں نے حضرت علی کے فضائل میں لکھے ہیں وہ ان کی خوش عقیدگی کی مثال ہیں۔ بارہ اماموں اور علی الخصوص حضرت امام حسینؑ سے بے پناہ عقیدت و مورت رکھنے والا یہ مرثیہ گوئی میں بھی ایک بلند و وقیع مرتبہ کا مالک ہے۔ شاہ علی حسن کے متعدد مرثیے غیر مطبوعہ اب بھی کسی حد تک محفوظ ہیں۔

اے خامہ سے اشک کا سیلاب رواں ہو

اے نطق بصد درد دلی مرثیہ خواں ہو

اے لوح سیہ پوشی الفاظ عیاں ہو

اے سطرصف بزم امام دوجہاں بنو

اے فکر معانی کی نہ تفتیش کو کم کر

چن چن کے مصیبت کے مضامیں کو بہم کر

ہرسال جو توفیق ہے مصروف رفاقت

سامان عزا کے ہیں بہم کرنے کی عادت

ہے تعزیہ داری مرے نزدیک سعادت

رونے کو سمجھتاہوں میں خالق کی عبادت

المنۃ للہ کہ عقیدت سے بھرا ہو

بچپن سے عزا دار شہ ہردوسراہوں

تا چرخ بریں نالوں کی احسن ہے رسائی

خاموش ہو اے سبط پیغمبر کے فدائی

کر حق سے مناجات بصد ناصیہ سائی

بہترین صد پاش شہ کرب و بلائی

اس مرثیہ نو کا الٰہی یہ صلہ ہو

دل سے نہ جد آل محمدؐ کی ولا ہو

اسمعیل۔ سید شاہ اسمعیل امروہوی

انھوں نے وفات نامہ بی بی فاطمہ لکھا ہے۔ سید حسین شرف الدین ان کے مورث اعلیٰ تھے۔ جناب سیدہ کا نوحہ بہ طرز مرثیہ ملاحظہ کیجئے۔

نبیؐ موت جو آئے کر پہونچا

بی بی فاطمہ غم بہت کھائی

بی بی روئے بولی بابا حضور

جدا ہو تمن میں پڑی ہے جو دور

مجھے چھوڑ تم جو چلے اے پدر

کیوں جوا ہووے اسے جامے پر

نبیؐ سن جو بولیا اے فرزند سن

سبھوں پہلے مجھ پاس پہونچو تمن

شب و روز بی بی کی جاں کھوئیا

پدر کی جدائی میں روئیا

زمانہ سترھویں صدی کے اواخر کا معلوم ہوتا ہے۔

امیر مینائی۔ منشی امیر احمد لکھنوی( ۱۸۲۹ء۔ ۱۹۰۰ء)

حضرت شاہ میناسے بہت وابستہ تھے شہرت عام ان کے صوفی ہونے کی ہے۔ آل رسول کے شیدائی تھے۔ آں حضرت کی ولادت سے وفات تک پر ایک مسدس لکھا ہے۔ سلام ملتا ہے۔

جو کربلا میں شاہ شہیداں سے پھر گئے

کعبہ سے منحرف ہوئے قرآں سے پھر گئے

دیندار تھے وہ لوگ جو شہ پر فدا ہوئے

بے دیں جو تھے وہ دین مسلماں سے پھر گئے

شہیر مچھلی شہری۔ سید محمد نوح

استاذی سید اختر حسین سروش مچھلی شہری جانشین شہیر مچھلی شہری کا ارشاد گرامی تھا کہ شہیر کا رحجان طبع تصوف کی طرف تھا۔ مرزا دبیر کے شاگرد تھے۔ عبد الغفور نساخ سے معرکہ آرائی بھی رہی، مرثیہ کا ایک بند پیش کیا جا رہا ہے۔

یہ شیشہ گردوں میں لہو کس کا بھرا ہے

کس غم سے پراگندہ ستاروں کا پرا ہے

کیوں سنگ عزا مہر نے سینہ پہ دھرا ہے

ہر ماہ میں کیوں زخم مہ نو کا ہرا ہے

ملبوس حرم فرش عزا خانہ ہے کس کا

تسبیح ملک عرش پہ افسانہ ہے کس کا

شاد۔ مہاراجہ کشن پرشاد

1941ء میں ان کا انتقال ہوا۔ نظام کے مدار اللمول بھی تھے۔ امین السطنت کا بھی خطاب تھا۔ حیدرآباد میں ان کے بارے میں یہ شہرت بھی تھی کہ وہ صوفی تھے۔ واللہ اعلم بالصواب

سفارش حسین ان کے بارے میں لکھتے ہیں۔

’’ شاد ہندوستانی تہذیب کی آغوش کے پالے ہوئے مرنجاں مرنج انسان تھے۔ قلب میں وسعت اور رواداری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ان کا مشرب بامسلماں اللہ اللہ ، با برہمن ، رام رام تھا۔ شاعری میں بھی ان کا مقام خاصا بلند تھا۔ ہر صنف سخن میں شعر کہے ہیں ،مرثیہ بھی لکھا جس میں درد اور سوز ہے۔ نمونہ:۔

پہلے مسلم کو کیا قتل مسلمانوں نے

ہائے کیا ظلم کیا جان کے نادانوں نے

گھر کو برباد کیا گھر کے نگہبانوں نے

قافلہ لوٹ لیا مل کے حدی خوانوں نے

کمر اب ٹوٹ گئی شاہ کی ،طاقت نہ رہی

جب ہراول نہ رہا فوج کی شوکت نہ رہی

کوشش کی گئی ہے کہ معروف صوفیاء کے مراثی کے نمونے کئے جاسکیں۔ ان بزرگوں کے علاوہ اور حضرات بھی ہوں گے ، نگاہ نارسانہ پہنچ سکی ! صوفیاء کے مراکز ایک طرح سے روحہ کے اشاعتی مراکز تھے اور انھوں نے اپنے تصورات کے اعتبار سے حسینیت کو ، امام عالی مقام کے پیغام کو عوام تک پہنچانے کی سعی مشکور کی۔

اس گوشہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ اردو کے تقریباً تمام شعراء کے یہاں صوفیانہ رنگ ہے۔ صنم خانہ ، عشاق میں شمع حرم میں بتاں کا رنگ جھلکتا ہے اور ہر شعبے میں اس کا جلوہ ہے اور گلشن میں صبا کو اس کی جستجو ہے مگر اس طرح کے خیالات و افکار کی بنا پر انھیں صوفی شاعر نہیں کہا گیا ہے۔ میر اور غالب تو ہمہ ادست اور وحدت الوجود کے پرستارتھے لیکن راقم الحروف نے صوفی اسی کو قرار دیا ہے جو خانقاہی نظام سے وابستہ ہواورکسی سلسلے سے بیعت رکھتا ہو۔

ظاہر ہے کہ ان بزرگوں کے پیش نظر ہندوستانی تناظر میں اعلیٰ ترین مقاصد تھے جن میں مسلکی کثرت میں وحدت کا جلوہ دکھانا تھا اوراسی لئے انھوں نے صنف مرثیہ کا انتخاب کیا تھا۔

حالات بدلے ، ذوق بدلا ، تصوف کی تحریک بدلی مختلف شکلوں میں آج بھی موجود ہے۔ خانقاہیں بھی ہیں ، دائرے بھی ہیں یقیناً ان کے روحانی فیوض و برکات کا سلسلہ جاری ہو گا لیکن دور حاضر میں کسی اہم صوفی شاعر کا مرثیہ نہ مل سکالیکن وہ روایت آج بھی موجود ہے اور ان کے پیغام میں ہر لمحہ خون کی وہ سرخی جھلکتی ہے جو امام عالی مقام کے پیام شہادت میں موجود ہے۔

 

 

***

شاہ است حسین ، بادشاہ است حسین

دین است حسین ، دیں پناہ است حسین

سردادنداددست دردست یزید

حقا کہ بنائے لا الہ است حسین

ان مصرعوں کا انتساب خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کی طرف کیا جاتا ہے مگر محترم رشید حسن خاں اس انتساب سے متفق نہیں ہیں۔

بہرحال یہ رباعی کسی صوفی شاعر اور بڑی حد تک حضرت خواجہ ہی کی تسلیم کی جاتی ہے اوراس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ صوفیاء کی نظر میں امام عالی مقام کا کیا درجہ و منزلت ہے اقبال نے اس رباعی کے چراغ سے اپنا چراغ روشن کرتے ہوئے کہا۔

بہر حق در خاک و خوں غلطیدہ است

پس بنائے لا الہ گردیدہ است

حقیقت یہ ہے کہ تصوف کے سلسلے میں جتنی بھی بحث کی جائے وہ وہ تشنگی کا احساس پیدا کرتی ہے اس لئے کہ مابعد الطبیعاتی طور پر تصوف کے نظریات فلاطینوں سے متاثر ہیں اوردوسری طرف ابن عربی کے اعیان ثابتہ کا نظریہ اور وجود کے واحد ہونے کا تصور ہے۔ تیسری طرف ایک مخصص قسم کی رہبانیت ، جہاں ترک اوراستغنا ، فقر و بے نیازی اور توکل کے اپنے مفاہیم ہیں۔ چوتھی بات یہ کہ کہیں کہیں تسلسل کا فقدان۔ دور حاضر کے قاری کوکسی جگہ اپنے خیالات کو مرتکز نہیں ہونے دیتا۔

تصوف کی تحریک کا ایک پہلو سیاسی بھی رہا ہے اوراس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ صوفیائے کرام نے چاہے خانگاہ کو خانقاہ میں بدل کے یاد بہار اور مٹھ کو خانقاہ کی شکل و صورت عطا کرے۔ بہرحال اپنے اقتدار کا ایک مرکز تو بنا ہی لیا تھا۔ ایسا مرکز جس سے شاہان کج کلاہ کو کبھی کبھی اپنی پگڑی سنبھالنا دشوار ہو جاتی تھی اگر یہ کہہ دیا گیا کہ حضور دلی دوراست تو دلی دور ہی رہتی تھی۔

لیکن یہ سارے گوشے بحث طلب بھی ہوسکتے ہیں تشنہ بھی رہ سکتے ہیں لیکن تصوف کا اہم ترین نکتہ جو تمام سلسلوں میں قدر مشترک کی حیثیت رکھتا ہے وہ ’’عشق’‘ ہے مجاز سے حقیقت تک ، سالک مقامات میں کھو جائے اس سے بحث نہیں یہ کیفیت ہو کہ تجلیات میں خود اپنا وجود گم ہو جائے کچھ بھی ہو مگر ’’ عشق’‘ وہ بنیادی تصور ہے جو تمام صوفیا کے یہاں ہے ہر سلسلہ میں ہے اور اگر اقبال نے وحدت الوجود کی مخالفت کی اور یہ بتایا کہ اس فلسفہ کی وجہ سے اضمحلال بے عملی اور رواقیت نے اجتماعی طور پر ایک پوری قوم کو بے حس بنا دیا اوراس کے افراد اس حد تک قسمت پرست ہو گئے کہ جھوم جھوم کے پڑھتے رہے۔

قسمت میں جو لکھا ہے وہ آئے گا اپ سے

پھیلایئے نہ ہاتھ نہ دامن پساریئے

لیکن قناعت نما قسمت پرستی کی مخالفت کے باوجود’’ عشق’‘ اقبال کے یہاں بھی خود ایک ’’ سیل ‘‘ ہے جو ہر طرح کے سیل کو روک لیتا ہے اس کی تقویم میں عصر رواں کے سوانہ جانے کتنے بے نام زمانے ہیں عشق اصل حیات ہے۔ عشق پر موت حرام ہے۔ وحدت الوجود کا صوفی بھی تخلیق کائنات کا سبب یہ قرار دیتا ہے کہ ’’ محبت کے ذریعہ خود کو پر ظاہر کیا ‘‘ تب ایک ماسوا کی خواہش ہوئی وجود آدمؑ اسی کا نتیجہ ہے اور وہ مظہر ذات الٰہی ہے صوفیا کے طرز فکر کے جتنے بھی شعبے ہوں ہر جگہ عشق کی کارفرمائی نظر آتی ہے ’’ عشق ہی زندگی کاسوز ہے، زندگی کا ساز ہے ، عشق خاک کا قرار ہے۔ ہوا کا اضطرار ہے ، پانی کی رفتار ہے ، موت عشق کی مستی ہے ، حیات عشق کی ہشیاری۔ عشق کی یہ بلند منزل اقبال نے اس طرح واضح کی کہ ایک طرف انھوں نے عشق کو ’’ صدق خلیلؑ ‘‘ کہا اوردوسری طرف ’’ صبرحسینؑ ‘‘ کو بھی عشق بتایا۔ اقبال نے امام عالی مقام کو ’’ امام عاشقاں ‘‘ کہا ہے اوراسی سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ عشق کا لفظ جو عربی ہونے کے باوجود قرآن حکیم میں نہیں ہے مگر شعراء کیلئے بے حد دل کش رہا ہے۔ بالخصوص صوفیا کے لئے اس لفظ کی اساس حیات بھی ہے اور مقصد حیات بھی۔

آئینہ خانہ ہستی میں عشق کا شخصی پیکر اعلیٰ صوفیا کو  یقیناً ذات محمدؐ میں نظر آتا ہے چنانچہ ذوالنون مصری کے سلسلے میں یہ عبارت ملتی ہے کہ انھوں نے فریاد کی’’ میرے مالک !میں اپنی انانیت سے چھٹکارا نہیں پاسکا تو جواب ملا، میرے حبیب محمدؐ کے نقش قدم پر چل ،اور تب میں اپنی ذات کے خول سے اسطرح باہر نکل آیا جیسے سانپ کینچلی بدلتا ہے۔ تو حقیقت آشکار ہوئی’‘ صوفی کے یہاں ذات سرورکائناتؐ ولایت مطلقہ کی منزل رکھتی ہے ان سے عشق حقیقت کا انکشاف ہے اس کے بعد صوفی کے یہاں ولایت کی منزل پر مولا علیؑ ہیں عشق محمدؐ کے اعتبار سے حضرت اویس قرنی پہلے صوفی ہیں۔

تصوف کی وہ تحریک جو بغداد کی گلیوں سے گزرتی ہوئی عجم کے لالہ زاروں تک پھیلی اس کا نہج اور اس کی تفصیلات ہندوستان کے مخصوص حالات کے تحت الگ ہی ہے۔ صوفیائے کرام کی یہاں آمد کا سلسلہ 1072ء سے شروع ہو جاتا ہے اور اہم صوفیا میں حضرت فرید داتا گنج بخش (1265ء) حضرت بختیار کا کی (1236ئ) حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ (1226ء ) حضرت نظام الدین اولیاء ؒ(1325ء ) حضرت گیسودراز(1326ء ) یہ وہ اہم نام ہیں جنہیں بجا طور پر فاتح کہنا چاہئے۔ بے شک ان کے ہاتھ میں تلوار تھی لیکن یہ لوہے کی نہیں اخلاق کی تلوار تھی۔ انھوں نے قلوب پر حکومت کی اور جس زمین پر یہ قبضہ کرنا چاہتے تھے اس زمین میں محبت کا بیج پھوٹتا تھا ، انسانیت کی کونپلیں نکلتی تھیں اور یہ سکھایاجاتاتھاکہ وہ رب العالمین ہے اوراس تک پہنچنے کیلئے تعینات کے پردے کو در دل سے ہٹانا ہو گا۔

ان بزرگوں کو چوں کہ تبلیغ کرنی تھی ، اپنے مسلک کی اشاعت کرنا تھی ، لوگوں کو محبت کی تلقین کرنا تھی اس لئے انھوں نے اسلامی تاریخ کے واقعہ کو منتخب کیا جس واقعہ کی یاد منانے کیلئے کسی خاص ضرور نہ تھی چنانچہ مذہبی اعتبار سے امام عالی مقام سے سمجھتے ہوئے ان بزرگوں نے اشاعت مسلک کیلئے حضرت امام کی شخصیت میں بے حد کشش محسوس کی اس کے کچھ اسباب درج ذیل ہیں۔

۱۔ امام عشق الٰہی میں اس منزل پر فائز ہو گئے تھے جہاں تک سراٹھانے کا تصور بھی نہ تھا ، زیر شمشیرتڑپنے کا کیا سوال

۲۔ استفراق کی جو کیفیت امام حسینؑ نے سجدہ آخرمیں پیش روایات کے سلسلے کو آگے بڑھاتی تھی جہاں حالت نماز جائے توپتہ نہ چلے۔

مسلمانوں کا تعارف اس انداز سے بھی ہندوستان یہ ایک فاتح قوم ہے جس کے ساتھ ایک اسٹیج پر اکٹھا ہے بالخصوص مذہبی سطح پر تو نا ممکن ہے۔ عید ہے تو نماز پڑھا ہے تو قربانی اور نماز ہے ، جمعہ ہے تو نماز ہے ، رمضان میں روزے رکھنا ہیں۔ اور رہا حج تو اس کی حقیقت تک پہنچنے کے ضروری تھا لیکن محرم کا مہینہ ایسا تھا جہاں نواسہ رسول کیلئے کوئی قید یا پابندی نہیں تھی۔ امام بارگاہ کو امام باڑہ بنا لیا اور امام باڑے میں ہرکس وناکس کو تھی۔ کربلا کے واقعہ کی یاد ان صفات کو زندہ اور بیدار انسانیت کا منبع اور سرچشمہ کہنا چاہئے۔ صبر و رضا ، شجا محاسبہ ، نفس اور ان سب کے ساتھ امام اعلی مقام کو للکارنا۔

واقعات کربلا کی یاد منانے میں ہندوستانیوں کو تھا ایسا عوامی اسٹیج جہاں مذہبی دیواریں نہ تھیں اسی ذوق سماع نے مختلف رخ سے اپنی تسکین کی پناہ گاہیں جس وسیع پیمانے پر مرثیہ کی ذیلی اصناف مثلاً نوحہ ، ہائے ہائے کی صدا ذوق سما ع کی تسکین کرتی تھی۔ جعفر رضا نے لکھا ہے کہ بندہ نواز ؒ محرم میں دس محرم 803ھ مطابق 31اگست1400ء پر معتقدین بڑی تعداد میں یکجا ہوئے۔ قوال نے ستاروں کے تاروں کو چھیڑنا شروع کیا کہ حضرت خواجہ بندہ نواز ؒ نے ارشاد فرمایا۔

’’آج ہر شخص کو عاشورہ محرم کی یاد منانا ہے آج کی سماع حضرت امام حسین علیہ السلام کی یاد میں ہو گی اور لوگوں کو گریہ کرنا ہو گا’‘۔

انھوں نے کہا’ ’ غم کے موقع پر صوفیاسماع کرتے تھے مریدوں کو مرشد کی تقلید کرنا چاہئے ‘‘

یہ حقیقت ہے کہ حضرت خواجہ بندہ نواز سے موسوم رسائل بڑی حد تک ان کے بہت بعد کے قرار پائے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ حضرت بندہ نواز نے کوئی منظوم کلام ہمارے لئے نہیں چھوڑا ہے لیکن جو لوگ گلبرگہ شریف کی زیارت سے مشرف ہوئے ہیں اور وہاں کی روایت سے باخبر ہیں وہ مزار شریف کے اندرونی حصہ میں پنجتن پاک کے اسمائے گرامی اور سب سے بڑھ کے مجالس کے تسلسل کی روایت کی گواہی دیں گے اس پہلو کی طرف اس لئے اشارہ کیا گیا کہ یہ اندازہ ہوسکے کہ دکن میں جب اردو نے آنکھیں کھول کر اپنے چاروں طرف دیکھا ہو گا تو نورانی صورتوں کے ساتھ اس کے کانوں میں صدائے یا حسینؑ کبھی پڑی ہو گی۔

یہ تودرست ہے کہ اب تک کی تحقیق کے مطابق فخر دین نظامی کی مثنوی کدم راؤ پدم راؤ 1439ء اردو کا پہلا مسند شعری کارنامہ ہے۔ بہاء الدین باجن کا سن شریف اور پھر ان کے ’’ خزائن رحمت’‘ کے کچھ اشعار اور ان کا زمانہ تصنیف ابہام کا شکار ہے اس لئے فخر دین نظامیؒ کا کارنامہ اگر پہلا ہے تو دوسرا مستند کارنامہ حضرت شاہ اشرف بیابانیؒ کی مثنوی ’’ نوسرہار’‘ ہے جسے اردو مرثیہ کا نقش اول کہنا چاہئے اس سلسلے میں سیدہ جعفر لکھتی ہیں ’’ نوسرہار کاسنہ تصنیف 909ھ مطابق 1503ء ہے۔ اشرف نے خود دو جگہ کہا ہے۔

ہجرت بنی نوسونو

کہیا اشرف نوسریو

تا حال نوسرہار کے تین نسخوں کا پتہ چل سکاہے ایک انجمن ترقی اردو ہند کے کتب خانے کا خزینہ ہے دوسرا ادارہ ادبیات اردو کی زینت ہے اور تیسرا انجمن ترقی اردو کراچی پاکستان میں محفوظ ہے۔ غالباً اسی کے تتبع میں ایک بزرگ علی اکبر نے ’’ چھ سرہار’‘ لکھی تھی جس کا ایک نسخہ کتب خانہ سالارجنگ میں موجود ہے ‘‘۔

نوسرہارکا ایک نسخہ راقم الحروف نے الحاجہ ڈاکٹر زینت ساجدہ (حیدرآباد) کے پاس دیکھا تھا اور وہ سالارجنگ کے مخطوطے کا عکس ہے۔ ڈاکٹر زینت ساجدہ نے نوسرہارپراپنا بے نظیر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا۔ افسوس کہ وہ اب تک شائع نہیں ہوا۔

حضرت شاہ اشرف بیابانی1459ء میں پیدا ہوئے ان کاسلسلہ نسب انتیسں واسطوں سے حضرت علیؓ سے ملتا ہے۔ 1529ء میں وفات پائی۔ آپ کا مزار شریف ورنگل (آندھراپردیش ) میں ہے آپ کیلئے مشہور ہے کہ شاہ اشرف بیابانی ، بھوکے کو بھوجن پیاسے کو پانی،

’’ نوسرہار’‘ کے سلسلے میں ایک پہلو اور بھی دل کش ہے کہ فارسی کی ’’ روضۃ الشہدا‘‘ اور اشرف کی نوسرہار کا زمانہ تصنیف تقریباً ایک ہے۔ یہ نشاندہی کرنا ضروری ہے کہ اس کا بنیادی ڈھانچہ جن روایات پر ہے اس کا استناد قابل اعتنا نہیں۔ سیدہ جعفر لکھتی ہیں۔

’’ نوسرہار کا سرچشمہ فیضان دراصل وہ مجالس عزاء میں جو ہر عشرہ محرم میں ان کے گھر میں منعقد ہوا کرتی تھیں۔ میر منور علی ضیائے بیابانی ‘‘ میں اشرف کے والد ضیا الدین بیابانی کی ایک کرامت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

ان دنوں محرم کا مہینہ تھا اور حضرت قدس سرہ کے پاس ماہ محرم کے عشرہ شریف میں مجلس ہوا کرتی تھیں چنانچہ اس وقت بھی آپ کے پاس مجلس گرم تھی اوراس وقت حضرت قدس سرہ اپنے وعظ میں فضائل حضرت شہید کربلا رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حالات و واقعات کربلا بیان فرما رہے تھے اس وقت آپ کا وعظ نہایت پر اثر اور رقت آمیز تھا خود حضرت قدس سرہ پر رقت طاری تھی اور حاضرین آہ و زاری و نالہ و بکا میں مبتلا تھے۔

یہ مجالس اشرف بچپن سے سنتے آئے تھے اس لئے واقعات کربلا ان کے دل پر نقش ہو گئے تھے اور مصائب اہل بیت ان کے دل و دماغ پر چھائے ہوئے تھے۔ 909ھ میں ان کے والد کا انتقال ہوا تو رشد و ہدایت کے ساتھ عزا داری کا فرض بھی انھیں کو انجام دینا پڑا اور انھوں نے اسی سال ’’ نوسرہار’‘ لکھی چونکہ ان کے والد کی وفات اور’’ نوسرہار’‘ کا سنہ تصنیف ایک ہی ہے اس لئے قیاس کیاجاسکتا ہے کہ والد کے انتقال کے بعد جو پہلا محرم آیا اس میں اشرف نے اپنے والد کی عزا داری کی یاد میں اور اپنے عہد سجادگی کی پہلی مجلس کیلئے یہ مثنوی تصنیف کی ہو گی’‘۔

اشرف کے سلسلے میں نذیر احمد نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ واقعہ کربلا کی جو تفصیلات بیان کی گئی ہیں وہ تاریخی اعتبار سے محل نظر ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ راقم الحروف بھی اس سے تو اتفاق رکھتا ہے کہ جو واقعہ بیان کیا گیا ہے وہ مستند نہیں ہے لیکن ناممکن الوقوع بھی نہیں ہے ان پر یہ اعتراض کہ انھوں نے بہت سے واقعات بیان نہیں کئے ہیں درست نہیں ہے ایک مثنوی میں سارے واقعات کا احاطہ کرنا ممکن بھی نہیں ہے اس دور میں یہ روایت عام تھی کہ یزید کا بیٹا اپنے باپ سے باغی ہو گیا تھا۔ حضرت حر کا امام حسینؑ کی فوج میں شامل ہونا ایک ایسا بے نظیر واقعہ تھا جو سب کی توجہ اپنی طرف کھینچتا ہے شاہ اشرف کو تسامح ہوا اور وہ انھیں یزید کا لڑکا لکھ گئے اصل میں اس مثنوی کا ایک پہلو اور ہے وہ رمزیہ ہے جس کی تفصیل کیلئے یہ صفحات ناکامی ہیں صرف اشارہ کیا جاتا ہے کہ شر کی علامت کبھی صحیح النسب نہیں ہوسکی اور یہ کہ حق و صداقت کا پیکر یا طل کے سائے میں بھی اسی طرح پرورش پاسکتا ہے جس طرح حضرت موسیؑ نے فرعون کے گھر میں پرورش پائی تھی۔

شاہ اشرف کے مراثی کے کچھ اقتباسات بطور مثال پیش کئے جاتے ہیں۔

انبر گرجا لرز سے بھیں

جانو قیامت ہوئیں۔

سورج دوکھوں پکڑے تاب

چاند گھٹے نت چھرچھر آپ

ڈونگرکمسبے سوکے گھاٹ

پتھر ترقے سینا پھاٹ

دوکھوں سیتی پانت بکھر

دوکھوں ہودے دھس کھانگر

پھولوں باڑی کملائے

سیوتی چیپا جوئی جائے

گھنگچی سینہ لوہوبھر

کالاٹیکا مکھ پردھر

اور ان اشعار میں سراپا نگاری کا ملاحظہ ہو۔

ماتھا جانوں سورج باٹ

یا کے جانوں چاند ملا

امرت گھولے سونا باے

جو کوئن دیکھن پھول جائے

سرگاں جیسے لمبے بال

چندرسورج دنوں گائے

ویتھ سہاوتے جیوسہاوے

ہونٹ سلونے من لبھاؤے

پلکاں چھوڑے جان کمل

ناک سہاوے انکھاں مل

اشرف نے میدان جنگ کا منظر بھی پیش کیا ہے۔

حملہ کیتا جیوں ان آغاز

گوٹ پڑیا جیوں بیری

بیرون باھیں کھول بجاؤ

برسن لاگاکھانڈے

جس کاٹن کر دھوند کا جیوں

پھوٹے کافرسینہ

جیوان بیٹھا پہلی پھوڑ

کتے بیری کھا لے

اتنے کافر سٹے مار

کرنا سکے کوئی شمار

شہادت کی منظر کشی اشرف کے یہاں یوں ہے۔

گگن اس دکھ اٹھ کرنباس

گرج رہاج اب جرم

اس دکھ نیلا بریا ہوئے

نیر بہاوے چندروے

اپنا ہوا خون انبار  دھری سہ نہ کسی

لے کے لے لیا گگن پر

گگن سارا لوہو

دوکنہ لنکا پکڑی آگ

جل بل کوئلہ ہوئی

لنکا ہوئی ستی وار

لاجنہ ڈوبی سمندر

کوئل آپس یوں دکھ دھر

پھرے کاپڑکا

ہرنیہ کالا ابرن اوڑ

جنگل لیتا سینگ مروڑ

بین میں شاہ اشرف کا انداز یہ ہے۔

بانو ہوئی اُوبھی باؤ

گھر تئیں نکل آگن آؤ

جوڑا کھولیا جوڑا بھان

گوڑن لاگی بالیاں کان

آنکھوں کیرا کا جل پونچھ

بال پٹیاں سب لیتیا گونجہ

گھابرگئی ڈانواں ڈول

سرکے بالوں جوڑا کھول

پٹین لاگی باپا پھر

کوٹن لاگی سینہ سر

واہ اے میرے شاہ نامدار

اب مجھ ناہیں کوئی آدھار

توگھر آؤ پیارے کنت

او بھی دیکھوں تیری نپٹ

تجھ بن مجھ پر جگ اوجاڑ

کس پر چلے دکھ سکھ لاڑ

ساہورے پیو کے ناہیں کوئے

کیوں گھالوں جو مارا روئے

اس طرح ان کے یہاں دور حاضر کے بیان کردہ اجزائے مرثیہ کے بیشتر نقوش مل جاتے ہیں۔

شاہ اشرف کے بعد دوسرا اہم نام حضرت شاہ برہان الدین جانم کاہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر محمد چراغ علی کی کتاب ’’ دکن میں اردو مرثیہ کا ارتقاء ‘‘ کا مندرجہ ذیل اقتباس میں بطور تمہید اور بلا تبصرہ پیش کیا جا رہا ہے۔

’’ ان صوفیائے کرام کے مراثی اور شیعہ مرثیہ گو شعراء کے مراثی کے قابلی مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بزرگ آل رسول کی محبت میں ایسے ہی شدید تھے جس قدر شیعہ مرثیہ گو شعراء دکھائی دیتے ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ بعض سنی مرثیہ گو شعراء کے مراثی میں آل رسول کی محبت میں جو دیوانگی نظر آتی ہے وہ شیعہ مرثیہ گو شعراء کے جنون محبت سے کبھی کبھی زیادہ ہی دکھائی دیتی ہے یہاں اس حقیقت کا انکشاف دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ ان صوفی مرثیہ نگاروں میں متعدد بزرگ قادری خانوادے سے تعلق رکھتے تھے جن کے بارے میں یہ سمجھاجاتا ہے کہ اہل سنت والجماعت کا یہ گروہ مذہب اثنا عشری سے زیادہ اختلاف رکھتا ہے مسائل کی بنیاد پر یہ اختلافات جو کچھ بھی ہوں جہاں تک آل رسولؐ کی محبت کا تعلق ہے قادری چشتی اور شیعہ سبھی مجلس عزاء میں سینہ زنی کرتے نظر آتے ہیں۔

اس عبارت کی روشنی میں حضرت برہان الدین جانم کے مرثیہ کا مطالعہ بے حد مفید ہو گا۔ حضرت جانم ، شاہ میرا جی شمس العشاق کے صاحبزادے تھے اردو کے پہلے نثرنگار کی حیثیت سے بھی آپ کی تصنیف کلمۃ  الحقائق اہم کہی جاتی ہے حالانکہ میرا جی نے مرثیہ نہیں لکھا مگر جانم کا یہ مرثیہ عرصہ دراز تک اردو کا پہلا مرثیہ سمجھاگیا اب بھی بہت سے محققین کی نظر میں جانم ہی اردو کے پہلے مرثیہ نگار ہیں وہ اشرف کی نوسرہار کو مرثیہ کے بجائے شہادت نامہ کے ذیل میں رکھتے ہیں۔

جان کے مرثیہ پر تبصرہ کرنے سے قبل یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اشعار درج کئے جائیں۔

محرم کا چندرپھر کھن پولے ماتم ہوا پیدا

مجاں کے دلاں میں سب شہاں کا غم ہوا پیدا

دکھی ہوا حدیث میانے نکل وحدت منے آنے

یوغم عالم کو دکھلانے صفی آدم ہوا پیدا

الست ربکم رب سوں اور روحاں سن کے بولے یوں

سواقالوبلی کا جوں کرشمہ جسم ہوا پیدا

مکاں سٹ گنج مخفی کا لیا ہے بھیس سفلی کا

پھراکراسم علوی کا یوسب عالم ہوا پیدا

ہوظاہر روح کے جسماں ہوئے قدرت کیرے اسماں

سواس طلسم کے کئی قسماں پکڑمحسکم ہوا پیدا

ہوا ہور باؤ یل پانی ہوا یو خاک جسمانی

ولے اس نور نورانی نبیؐ اعظم ہوا پیدا

لیاناسوت جیوانی سو ملکوت نور کے بانی

ہوا جبروت روحانی سولا ہوت دم ہوا پیدا

احد وحدت میں احمدؐ ہو ہوا ظاہر محمدؐ ہو

حسینؑ سرور کیر اجد ہو یو اسم اعظم ہوا پیدا

مدینہ علم جوں سرورعلیؑ تھے باب جوں رہبر

سومعنی علم کا مظہر شہ اکرم ہوا پیدا

کہوں کیا حال عالم کا کلیما بول خاتمؐ کا

ولے اس اسم اعظم کا نہ کئی محرم ہوا پیدا

حسینا گئے ہیں جس رہ پر سوواضح کیوں ہے گم رہ پر

سمایا جیوں کھڑ یاشہ پر سوایسا کم ہوا پیدا

ہوا ماتم رسولؐ اوپر علی پر ہور بتولؐ اوپر

نین نرگس کے پھول اوپر انجو شبنم ہوا پیدا

فلک اس غم سوں ہو کر خم بسایاجگ اپر ماتم

کریں سب دم بدم یوغم  جدہاں لے دم ہوا پیدا

نہیں آرام کس یک دن گھٹے سکھ دکھ بڑھے دن دن

جو کرنے شہ کا غم نس دن یوسب عالم ہوا پیدا

جناورسب سٹے زوجاں  دریا کیاں کھلبلیاں ہو جاں

شمر جب کفر کیاں فوجاں لے شہ کے سم ہوا پیدا

رہیا طاقت نہ طاعت کوں دئے سب چھوڑ راحت کوں

سواس غم کی جراحت کوں نہ کیں مرہم ہوا پیدا

شہاں کے تیں سرانے کو ں نہایت غم کا پانے کوں

یو دکھ شہ کا بجھانے کوں سوجام جسم ہوا پیدا

جتا قلبی میں غم بستاسوروحی میں عیاں دستا

یوہو تیرے سوں وابستا خفی جانم ہوا پیدا

جان کے سلسلے میں ڈاکٹر چراغ علی کی رائے سب سے پہلے پیش کی جاتی ہے جس میں انھوں نے اس مرثیہ کے مرکزی خیال کی تشریح بھی کی ہے۔

جانم کا یہ مرثیہ موضوع مزاج اور آہنگ کے اعتبار سے بہت انوکھا مرثیہ ہے دکن میں مرثیہ نگاری کا مقصد محض رونا رلانا اور اہل بیت سے اپنی محبت و عقیدت کا اظہار کرنا رہا ہے لیکن جانم نے اس مرثیہ میں درد و غم کے جذبات و کیفیات کو بیان کرنے کی بجائے فلسفہ تصوف کو امام حسینؑ کی شہادت سے مرتبت کرنے کی کوشش کی ہے۔ مرثیہ کا آغاز تو محرم کے چاند کے ذکر سے کرتے ہیں لیکن فوراً ہی دوسرے شعر سے وہ تکوین عالم کی صوفیانہ تعبیر کی طرف آ جاتے ہیں چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ ذات باری نے مرتبہ احدیت سے مرتبہ واحدیت کی طرف نزول کیا تو عالم ارواح میں آدم صفی اللہ کی تخلیق ہوئی اس تخلیق کا مقصد جانم یہ قرار دیتے ہیں کہ خدا نے آدم کو اس لئے پیدا کیا کہ ان کی نسل امام ہمام کی شہادت پر غم کرے چنانچہ وہ کہتے ہیں۔

دکھی ہو احدیت  میانے نکل وحدت منے آنے

یوغم عالم کوں دکھلانے صفی آدم ہوا پیدا

وہ آگے چل کر کہتے ہیں کہ دات واجب نے ذات ممکن میں جو غم امام کا بیج بویا تھا وہ غم عالم ممکن میں آ کر ظاہر ہوا وہ تکوین عالم کے مختلف مدارج و مراتب کا ذکر کرتے ہوئے نور محمدی کی طرف آتے ہیں جو عین الاعیان ہیں اس کے بعد کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مرتبہ احدیت سے نزول کر کے مرتبہ واحدیت میں آیا تو سب سے پہلے نور محمدیؐ ظاہر ہوا اوراس نور کو امام حسینؑ کا جد امجد بنایا جانم کہتے ہیں کہ ہم غم حسینؑ کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن سچ پوچھو تو یہ کلیجہ حضرت محمدﷺ کا ہی تھا کہ ان کے نور سے امام حسینؑ کا نور پیدا ہونے والا تھا جس کو میدان کربلا میں شقی القلبی کے ساتھ پیش کیا جانے والا تھا۔ نواسے کی ولادت سے پہلے اس کی شہادت کا علم رکھتے تھے اور مشیت ایزدی سے راضی تھے۔

اس تمہید کے بعد جانم غم حسینؑ کی طرف آتے ہیں اور حسن تعلیل کرتے ہوئے ساری دنیا کو امام کا سوگواربتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کائنات امام ہی کا غم منانے کیلئے خلق کی گئی ہے وہ پھر آخری شعر میں تصوف کا علمی انداز اختیار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جو غم حسین میرے قلب میں بساہوا ہے وہ عالم ارواح ہی میں میری روح میں ودیعت کر دیا گیا تھا۔ وہی خفی عالم شہادت میں جلی ہو کر نمایاں ہوا ہے۔ غالباً اردو مرثیہ کی تاریخ میں جانم کا یہی ایک مرثیہ ہے جس میں تصوف کے نازک نکات بیان کئے گئے ہیں اور تکوین عالم کا باعث غم حسینؑ کو قرار دینے کیلئے ابن عربی کے فلسفے تنزلات سے پورا پورا فائدہ اٹھایا ہے۔

ڈاکٹر چراغ علی کی اس گراں قدر رائے اور تشریح کے بعد اب پروفیسر سیدہ جعفر کا تبصرہ ملاحظہ ہو

’’ برہان الدین جانم کا شمار بیجاپور کے اولیائے کبار میں ہوتا ہے اور ان کے فیض روحانی سے جنوبی ہند کے اکثر چشتیہ ارباب طریقت سرشار رہے ہیں جانم کا ایک علمی کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے تصوف کے مباحث ومسائل کی ترتیب و تدوین کی اہمیت کو پہلی بار پوری شدت کے ساتھ محسوس کیا اور متصوفانہ اصطلاحات و مفاہیم کو صفحہ قرطاس پر محفوظ کر دینے کی کوشش کی جانم کے مرثیہ میں ان کے صوفیانہ مزاج او ر عارفانہ روش کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔ اپنے مرثیے میں انھوں نے ایک منفرد انداز اختیار کیا ہے اور صرف گریہ و بکا پر اکتفا نہیں کی ہے بلکہ فلسفہ شہادت کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں عام روایت کے مطابق مرثیہ کی ابتدائی تو ماہ محرم کے آغاز کے ذکر سے ہوتی ہے لیکن بہت جلد جانم کا عارفانہ مزاج اپنے موضوع کے متصوفانہ پہلو کی طرف رجوع ہو جاتا ہے اور وہ تکوین عالم کی صوفیانہ نقطہ نظر سے تشریحیں پیش کرتے ہیں۔ تخلیق کائنات کا ذکر کرتے ہوئے جانم کہتے ہیں کہ ذات باری تعالیٰ نے مرثیہ احدیت سے مرتبہ واحدیت کی طرف نزول کیا تو عالم مثال میں آدم صفی اللہ خلق ہوئے جس کا مقصد یہ تھا کہ نبی آدم کو شہادت عظمی کی اہمیت کا ادراک حاصل ہو۔ جانم کہتے ہیں۔

دکھی ہوا حدیت میانے نکل وحدت منے آنے

یوغم عالم کو دکھلانے صفی آدم ہوا پیدا

پورا مرثیہ متصوفانہ رنگ میں ڈوبا ہوا ہے اور اردو مرثیے کی تاریخ میں اسے ایک خاص اہمیت حاصل ہے اس میں ابن عربی کے فلسفہ تنزلات سے استفادہ کیا گیا ہے اوراسے صوفی مرثیہ نگار نے اپنے مسلک کی روشنی میں نظم کیا ہے۔ جا نم نے نور محمدیؐ کی تخلیق کا بھی ذکر کیا ہے اور کہتے ہیں کہ خالق مطلق نے اس نور کو حسینؑ کے نور کا مبدا بتایا۔ اس طرح ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اردو مرثیہ کی ابتداء کا سہرا بھی چونکہ صوفیہ (کذا صوفیاء ) کے سرہے اس لئے منزل آغاز میں یہ صنف صوفیانہ تصورات اور عارفانہ طرز فکر کی حامل رہی اوراسی پس منظر میں رثائیہ مضامین باندھے گئے ہیں یہ پورا مرثیہ جانم کے صوفے نہ مزاج اور عالمانہ طرز فکر کا ترجمان ہے۔

***

تشکر: پروفیسر رحمت یوسف زئی جن کے توسط سے کتاب کا مواد حاصل ہوا

ان پیج سے تبدیلی، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

5.0 "1"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔