ایک انگریز مفکّر کے خیال میں ’’ایک قوم ماضی کی قربانیوں کے شعور، اور مستقبل میں مزید قربانیاں دینے کی رضا مندی کے احساس سے جنم لیتی ہے۔ مشترکہ دُکھ اور مشترکہ تجربات ایک قوم کی تعمیرو ترقی میں مثبت کردار ادا کرتے ہیں۔ ‘‘
ہندوستانی قوم کا تاریخی تسلسل بھی ہندوستانی قومیت کی تعریف میں بہت اہم رہا ہے۔ ہندوستان میں مختلف نسلوں کے افراد رہتے ہیں مختلف مذاہب و عقائد یہاں کی رنگارنگ زندگی کا جز ہیں۔ تھوڑے فاصلے سے مختلف زبانوں کی بنیاد پر لسانی خطے قائم ہیں لیکن اس کثرت کے باوجود ہندوستان میں ہمیشہ سے ایک بنیادی وحدت رہی ہے۔ ہندستان کے کسی علاقے کا باشندہ کہیں بھی ہو اپنے کو ہندوستانی ہی کہتا ہے ہندستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہروں لکھتے ہیں کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ تاریخ کے کسی حصے میں بھی ایک ہندستانی نے ہندستان کے کسی بھی خطے میں اپنے لئے یگانگت محسوس کی ہو گی اور کسی بھی دوسرے ملک میں خود کو اجنبی محسوس کیا ہو گا‘‘
دراصل یہ باطنی احساس اور یہ نفسیاتی و جذباتی ہم آہنگی کا تصور قومیت کی تشکیل کرتا ہے اور کسی قوم کو متحد رکھنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اس متحد قومیت کے تصور کو قائم رکھنے کے لئے کسی ایسی زبان کی ضرورت پیش آتی ہے کہ جسے پوری قوم سمجھ، بول اور پڑھ سکے۔ مسلمانوں کی آمد کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں عربی و فارسی زبانیں بھی آئیں اور مسلمانوں کے اقتدار کے ساتھ درباروں میں فارسی نے سنسکرت کی جگہ حاصل کر لی مگر عام ہندوستانی اور حکومت وقت کے مابین تعلق کی استواری کے لئے ایک ایسی زبان کی ضرورت کو شدت کے ساتھ محسوس کیا گیا کہ جو مشترکہ قومیت کی تشکیل میں ممد و معاون ثابت ہو اور اس طرح اردو جیسی خوبصورت، نرم اور شیریں زبان عالم وجود میں آئی۔
ہو سکتا ہے کہ اردو کی پیدائش کا سبب اور جس کے جنم داتا مسلمان رہے ہوں مگر اردو محض مسلمانوں کی زبان ہے یہ بہتان محض الزام ہے کیوں کہ اس زبان کی ترویج و ترقی اور اشاعت میں ہمارے غیر مسلم ادباء و شعراء کا بہت بڑا ہاتھ ہے تقریباً دو، سوا دو صدیوں پر محیط اردو کے منظر نامے آئیں گے جو اردو کے جانثاروں و خدمت گاروں کی صفِ اول میں شامل ہیں اور غیر مسلم ہیں۔ اگر ایسے ناموں کی فہرست ہی ترتیب دی جائے تو بھی اس کے لئے ایک دفتر درکار ہو گا۔ میں اپنے محدود مطالعہ کے پیشِ نظر اس مختصر سے مضمون میں نہ تو ان سب کا احاطہ کرسکتا ہوں اور نہ ہی ان سب کو یاد کر سکتا ہوں سرِ دست ایک اجمالی جائزہ پیش کرنا ہی میرا منشا و مقصود ہے۔
اردو شاعر ہو یا نثر، ظرافت ہویا خطابت، تنقید ہویا تحقیق، ڈرامہ ہویا رِپورتاژ ہر محاذ پر غیر مسلم دانشوروں کی خدمات اردو زبان و ادب کو حاصل رہی ہیں حصول آزادی میں بھی اردو نے ایک اہم رول اداکیا آزادی سے قبل منشی دیا نارائین نگم، منشی نول کشور، پنڈت دیا شنکر نسیم، پنڈت برج نارائین چکبست، پریم چند، رام پرساد بسمل، مہاراجہ کشن چند، تلوک چند محروم کے ساتھ ساتھ ہزاروں غیر مسلم دانشوروں نے اردو کے چمن کی آبیاری میں اپنا خون دل صرف کیا۔ اور آزادی کے بعد بھی رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری، کنور مہندرسنگھ بیدی سحر، راجندر سنگھ بیدی، گوپی چند نارنگ، جوگیندر پال، ہر چرن چاولہ، سریندر پرکاش، کرشن چندر، بلراج میزا، رامانند ساگر،بلراج کومل، پنڈت برج نارائن دتاتریہ کیفی، آنند موہن زتشی گلزار، خار دہلوی، گوپی ناتھ امن، دیوند راسر، کنورسین، امرتا پریتم، بلونت سنگھ، گیان چند جین، کالی داس گپتا رضا، ٹھاکر پونچھی، گلشن نندہ، گیان سنگھ شاطر، شرون کمار ورما، دت بھارتی، خوشتر گرامی، علامہ سحر عشق آبادی، ڈاکٹر اوم پر کاش زار علامی، بشیشور پرشاد منور، لال چند پرارتھی، بھگوان داس شعلہ، امر چند قیس جالندھری، ابوالفصاحت، پنڈت لبھورام جوش ملسیانی، پنڈت بال مکند عرش ملسیانی، رنبیر سنگھ، نوین چاولہ، فکر تونسوی، رام کرشن مضطر، کے۔ امریندر، جگن ناتھ آزاد، ساحر ہوشیار پوری، رشی پٹیالوی، ستیہ نند شاکر، کرشنا کماری شبنم، ایس۔ آر۔ رتن، کاہن سنگھ جمال، سدرشن کوشل، نریش چندر ساتھی، پریم عالم اور سریش چند شوق وغیرہ ایسے نام ہیں جو آفتاب و مہتاب بن کر اردو کے افق پر جگمگائے اور ان کی روشنی سے جہان اردو منّو رو تابناک ہوا یہ تمام حضرات وہ ہیں کہ جن کی شخصیت اور فن نہ تو کسی تعارف کی محتاج ہے اور نہ یہ غیر معروف اور گمنام ہیں ان میں سے بیشتر حضرات اردو ادب میں نہ صرف یہ کہ اہم مقام رکھتے ہیں بلکہ انہیں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ مختلف اوقات میں ان کے فن پر گفتگو ہوئی ہے اور ہندوستانی قوم نے انہیں حسبِ مقدور خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔
لیکن غیر مسلم ادباء شعرا کی ایک ایسی فہرست بھی ہے کہ جن کے فن پر نہ تو کبھی خاص گفتگو ہوئی اور نہ ہی انہیں ان کی حیثیت کے مطابق خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ ابھی تک اردو دنیا میں انہیں کوئی اہم مقام بھی حاصل نہیں ہوا ہے۔ میرے اس مضمون کا مرکز و محور یہی حضرات ہیں۔
**
۱۸ فروری ۱۹۱۴کو نادون ضلع ہمیر پور میں پیدا ہوئے ملازمت کے سلسلے میں چنڈی گڈھ گئے اور وہیں کے ہو کر رہ گئے ڈپٹی کمشنر چنڈی گڈھ گئے اور وہیں کے ہو کر رہے گئے ڈپٹی کمشنر چنڈی گدھ کے عہدہ سے ریٹائیرڈ ہوئے شاعری کے علاوہ نثری مضامین بھی لکھے ’’گل و شبنم‘‘ کے نام سے آپ کا مجموعہ کلام شائع ہوا۔
نمونہ کلام
بڑی کیف آور تھی وہ زندگی
جو نذرِ خرابات ہوتی رہی
میں جس بات سے شاد ڈرتا رہا
عموماً وہی بات ہوتی رہی
گلشن میں یہ پھولوں کا تبسم کب تک
بلبل کے یہ نغمے یہ ترنم کب تک
دو روزہ ہے یہ جشنِ بہاراں اے دوست
یہ کون بتائے کہ ہیں ہم تم کب تک
**
۲۵ جولائی ۱۹۳۶ء کو نابھہ پنجاب میں پیدا ہوئے وہیں تعلیم حاصل کی تعلیم سے فراغت کے بعد گورنمنٹ کالج نابھہ میں صدر شعبۂ انگریزی کے عہدے پر معمور ہوئے آزاد صاحب جدید غزل کے علم بردار ہیں آپ کی غزلیں قنوطیت کے انفعالی احساس اور رجائیت کی مملو پسندی کے عین درمیان ایک ایسا لمحۂ فروزاں ہیں کہ جسے شاعر نے بار بار چھونے کی کوشش کی ہے غالباً یہ ہی آزاد صاحب کی فکر کا امتیازی وصف اور ان کے فن کی معراج ہے۔
جب سوچنا تو زیر قدم ساتوں آسماں
جب دیکھنا تو خود کو تہہ آب دیکھنا
کیا تجربہ ہے آنکھوں میں سیلاب روک کر
خود سرزمینِ دل کو ہی سیراب دیکھنا
حیات فرض ہے یا قرض کٹنے والا ہے
میں جسم و جاں کی حدوں سے گذرنے والا ہوں
**
کلّو میں ۳۰جولائی ۱۹۶۵ء کو پیدا ہوئے تعلیم شملہ میں حاصل کی اور وہیں سکونت پذیر ہو گئے۔ ہماچل سیکرٹیر کے ریٹایرڈ آفیسر ہیں لال چند پرارتھی جو ویر بھدرسنگھ حکومت میں کیبنٹ منسٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ادیب و شاعر بھی تھے کے دس سال تک پر سنل سکریٹری رہے۔
چمن والوں کو کیا معلوم کیا کچھ ہونے والا ہے
نگاہیں برق کی رہ رہ کے پڑتی ہیں گلستاں پر
رات دن چاہا ہے ان کو ہم نے ارمانوں کے ساتھ
نام اپنا بھی جڑا ہے ان کے افسانوں کے ساتھ
**
۲۹ دسمبر ۱۹۲۹ء کو جالندھر میں پیدا ہوئے ۴۵ میں گورنمنٹ کالج لدھیانہ سے انگریزی میں ایم۔ اے امتیاز کے ساتھ پاس کیا ۶۵ میں ہماچل گورنمنٹ کی سروس اختیار کی اور شملہ گورنمنٹ کالج میں بطور صدر شعبہ انگریزی کام کیا ابو الفصاحت پنڈت لبھورام جوش ملسیانی کے شاگرد ہیں نثر لکھنے کا بھی شوق رہا ہے۔
بھروسہ جن کو اپنے آپ پر ہو
گذر جاتے ہیں وہ ہر امتحاں سے
عجب ہے منزلِ راہِ طلب بھی
وہیں پر ہیں چلے تھے ہم جہاں سے
ہماری وضع داری اے قمر کچھ اس طرح کی ہے
خدا کے سامنے بھی ہاتھ پھیلانا نہیں آتا
**
۲۵اکتوبر ۱۹۳۰ءکو چنڈی گڈھ میں پیدا ہوئے اکاؤنٹ جنرل پنجاب چنڈی گڑھ کے دفتر میں بطور اسسٹنٹ آڈٹ آفیسر ملازم رہے۔ پر سوتم لال شعلہ جو سناتن دھرم کالج لاہور میں اردو فارسی کے پروفیسر تھے، کے چھوٹے بھائی ہیں۔ پرویز کے کلاس میں شریفانہ خصائص کا واضح پر تو ملتا ہے ان کے کلام میں بے ساختگی اور مانویت پائی جاتی ہے۔
آپ کے عہد کی پہچان یہ ہی ہے شاید
کوئی پیاسا ہو مگر اس کو نہ پانی دینا
صبا چلی ہے تو مہکے ہیں زخم پھولوں کے
بہارِ ناز نے جلوے دکھائے ہیں کیا کیا
اسے بھی ہم نے فن جانا اسے بھی اک ہنر جانا
نگاہ شوق سے بچ کر ترے دل میں اتر جانا
**
۲۰نومبر ۱۹۳۲ءکو شملہ میں پیدا ہوئے ہماچل پردیش کے تعلیمی اداروں میں کام کرنے کے بعد بھاشا سنسکرت و بھاگ ہماچل پردیش کے شعبۂ اردو سے وابستہ ہو گئے۔ محکمہ کے مشاعروں، سیمناروں اور دیگر اردو پروگراموں کے انعقاد کے ساتھ ساتھ اس و بھاگ کی اردو مطبوعات کی ادارت کے فرائض بخوبی انجام دئے۔ عرصے تک عروسِ سخن کو سجانے سنوارنے میں مصروف رہے۔ ۴۸۹۱میں محکمہ کی جانب سے جاری کئے گئے سہ ماہی رسالہ ’’فکر و فن ‘‘ کی ادارت فرمائی۔ ’’ خونِ جگر ‘‘ کے نام سے آپ کا مجموعہ کلام شائع ہوا۔
کیا جانئے ہوا ہے زمانے کو آج کیا
دنیا تھی خلد زار ابھی کل کی بات ہے
یہ ہے انصاف تو خونِ صداقت کس کو کہتے ہیں
سنا کرتے تھے جو اس کی حقیقت دیکھ لی ہم نے
**
۱۵جولائی ۱۹۲۷ء کو شملہ میں پیدا ہوئے وہیں تعلیم حاصل کی اور محکمہۂتعلقاتِ عامہ ہماچل پردیش میں ملازمت اختیار کی ریٹائیرڈ ہونے کے بعد روز نامہ ’’ملاپ‘‘ نئی دہلی میں بطور کالم نویس کام کیا جدید رنگ و آہنگ کے شعر کہنے والوں میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔
بھول ہوئی جو بیٹھ گئے ہم ان کے سائے میں اک پل
پتھر کیوں برساتی ہیں یکہ شیش محل کی دیواریں
جس پہ مچھلی کوئی نہ ہو
ایسی بناؤ اک تصویر
کس عالم سے پوچھیں کمار
آپ کے شعروں میں کی تفسیر
**
۲۷اکتوبر ۱۹۳۰ءکو دہلی میں پیدا ہوئے ایک عرصہ تک حکومت ہند کے ماہ نامہ ’’ آج کل ‘‘ کے مدیر رہے نظم اور غزل دونوں پر قدرت حاصل ہے۔ اُن کا قاری ایک ایسی فضا میں ہوتا ہے جہاں حقائق خود رو پھولوں کی طرح کھلتے اور مشاطگی سے بے نیاز نظر آتے ہیں اُن کے لہجے میں ساد گی و سچائی کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ راز کی نئے رنگ کی علامتی شاعری اور بھی بہت خوبیاں اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔
مجھے تلاش کریں گے نئی رتوں میں لوگ
میں گہری دھند میں لپٹا ہوا جزیرہ ہوں
طلوع صبح کا منظر عجیب ہے کتنا
مرا خیال ہے میں پہلی بار جاگا ہوں
وہ شخص کیا ہوا جو مقابل تھا سوچئے
بس اتنا کہہ کے آئینے خاموش ہو گئے
**
پٹھان کوٹ (پنجاب) کے مشہور و معروف وکیل پنڈت ترلوک چند کے گھر ۵نومبر۱۹۳۱کو پیدا ہوئے۔ ایم۔ اے ایل۔ ایل، بی۔ تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد سرکاری ملازمت میں آ گئے اور کئی برس تک ہماچل پردیش حکومت کے اکاؤنٹنٹ دفتر میں کام کیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد پٹھان کوٹ میں وکالت شروع کی۔ آپ کی شاعری میں زورِ بیان، بر جستگی الفاظ، سوزوگداز اور جدتِ ادا سبھی خوبیاں موجود ہیں۔ دو مجموعۂ کلام ’’کلس‘‘ اور ’’شام ڈھل گئی ‘‘ منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔ اِس کے علاوہ آپ نے شعرائے ہماچل پردیش کا ایک تذکرہ بھی ’’آغوشِ گل ‘‘ کے نام سے مرتب کیا۔
مقید ہو نہ جانا ذات کے گنبد میں یارو
کسی روزن کسی دروازہ کو وا چھوڑ دینا
سحر ہوتے ہی کوئی ہو گیا رخصت گلے مل کر
فسانے رات کے کہتی رہی ٹوٹی ہوئی چوڑی
وہ اٹیں خون سے حسیں گلیاں
وہ ہوا سنگسار دروازہ
**
ضلع ہوشیار پور پنجاب کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ بی اے کے بعد آئی۔ پی۔ ایس کا امتحان پاس کیا۔ محکمۂ پولیس کے مختلف اعلی عہدوں پر فائز رہے، اس کے بعد شملہ میں ڈی آئی جی پولیس رہے۔ اوج صاحب نے جو کچھ لکھا۔ سادگی و پرکاری، گہرائی و گیرائی میں اُن کا کلام ضرب المثل ہو سکتا ہے۔ اردو ادب سے اُن کی دلچسپی قابلِ قدر ہے۔
رہ کے گلشن میں بھی ترسے ہیں گلِ ترکے لئے
یہ مقدر تھا تو کیا روئیں مقدر کے لئے
انہیں اوج کیا علم فرقت میں اُن کی
چراغِ نظر بجھ چکا ہے کسی کا
منتظر آنکھیں اسی منظر کی ہیں
خوب تھا حسنِ نظارہ آپ کا
**
۱۵جولائی ۱۹۳۵ءکو ضلع بھیوانی ہریانہ میں پیدا ہوئے۔ پنجاب یونیورسٹی ست نفسیات میں ایم۔ اے کرنے کے بعد گرو نانک یونیورسٹی امر تسر سے پی۔ ایچ۔ ڈی۔ کی، اسکے بعد پشیہ کالج بھیوانی میں نفسیات پڑھانے پر مامور ہوئے۔ غزل ترنم سے پڑھتے ہیں اور خوب پڑھتے ہیں۔ کلام کے دو مجموعے ’’لمحات کا بہتا دریا ‘‘ اور ’’محسوس کر و مجھ کو ‘‘ شائع ہوئے۔ اول الذ کر دیوناگری لپی (ہندی) میں بھی شائع ہوا۔ حضرتِ شمیم کرہانی کے شاگرد ہیں۔
میں کیسے بند کر لوں منتظر آنکھوں کے دروازے
مرے دل کو خیالِ منتظر سونے نہیں دیتا
بہاروں کا تبسم اور برساتوں کی نم آنکھیں
خمار اُن سے بچھڑ جانے کا غم سونے نہیں دیتا
**
۵ اپریل ۱۹۳۸ء شملہ ہماچل پریش میں پیدا ہوئے۔ اعلی تعلیم کے حصول کے بعد دفتر اکاؤنٹنٹ جزل ہماچل پردیش میں بطور آڈٹ آفیسر کام کرنے لگے۔ ابتدا ہی سے شعر و شاعری سے گہرا لگاؤ رہا۔ بزمِ ادب شملہ کے سکریٹری رہے۔ شوق صاحب نے کم لکھا مگر جو کچھ لکھا اُس میں اور اک، آگہی اور وزن ہے۔
یہ اور بات ہے ہم منھ سے کچھ نہیں کہتے
ہر ایک بات کی لیکن ہمیں خبر ہے میاں
بند ہیں دل کے سارے دروازے
کس طرح آ گئی ہوا بابا
ترے سلوک کا چاہا تھا تجزیہ کرنا
تمام عمر میں الجھا رہا سوالوں میں
**
چنڈی گڑھ میں ۱۸جولائی ۱۹۳۷ءکو پیدا ہوئے۔ چندی گڑھ سے نکلنے والے انگریزی روزنامے ’’ٹریبون‘‘ سے بطورِ جرنلسٹ وابستہ رہے۔ اردو میں غزلیں اور انگریزی میں کہانیاں اور انشائیے لکھے۔ اپنے اردگرد کے حالات و واقعات کو شعر کے پیکر میں ڈھالنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ہمیشہ تحت الفظ میں پڑھا مگر انداز ایسا رہا کہ جس نہ ہر بار سامعین کو محظوظ کیا۔
سلاخیں گرم کرو جسم داغ کر دیکھو
مرا وجود کسی غم سے کھولتا ہی نہیں
اپنی خوشبو مرے سینے میں امانت رکھدے
آنے والے نہ سہی، گذرے زمانے دے جا
پربتوں کی کوکھ سے اُجلی نشانی بھیجنا
ہو سکے تو اِس برس جھرنوں کا پانی بھیجنا
**
میرٹھ یو۔ پی۔ میں پیدا ہوئیں۔ اپنے ہلکے پھلکے اشعار کو وجد آفریں و دلفریب ترنم کے ساتھ مشاعروں میں کافی عرصہ تک پیش کرتی رہیں۔ اور ہمیشہ سامعین سے اچھی داد بھی حاصل کی۔
عقل و دانش یہ مانا بڑی چیز ہیں
دل بھی درکار ہے شاعری کے لئے
غم چھپاتی رہی زندگی، مسکراتی رہی زندگی
دور کی ایک آواز پر جاں لٹاتی رہی زندگی
**
بھگوان داس شباب للت۔ ۳اگست ۱۹۳۳ءکو سر زمینِ پنجاب میں پیدا ہوئے۔ تاریخ اور اردو میں ایم۔ اے کرنے کے بعد مرکزی سرکار کے محکمۂ اطلاعات و نشریات میں فیلڈ آفسر مقرر ہوئے۔ شباب صاحب ایک پر گو شاعر ہیں۔ کلام کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ اپنے عہد کے بلند پایہ شاعر، استاد اور مترجم جناب بشیشور پر شاد منور لکھنوی سے اکتساِ جن کیا۔ تازہ مجموعۂ کلام ’’سمندر پیا سا ہے ‘‘ کچھ عرصہ پہلے شائع ہوا۔
چھین کر تم لے گئے الفاظ کا امرت کلس
میں وہ شیو شنکر تھا جو زہرِ معانی پی گیا
**
۸ نومبر ۱۹۲۵ءکو لکھنو میں پیدا ہوئے ریٹرنڈ لیٹر آفس لکھنؤ میں ڈپٹی مینجر کے عہدہ پر فائض تھے وہیں سے نومبر ۴۸ میں ریٹایرڈ ہوئے بہت اچھا شعر کہتے اور مشاعروں میں اپنے مخصوص انداز میں پیش فرماتے۔ کہنے اور پڑھنے دونوں کا انداز متاثر کن تھا غزلوں اور نظموں کے دو مجموعہ ’’دکھ سکھ ‘‘ اور ’’پتسیا‘‘ کے نام سے شائع ہوئے۔ پچھلے دنوں لکھنؤ میں انتقال فرمایا۔
ہوکے بے چین میں بھاگا کیا آہو کی طرح
بس گیا تھا میرے اندر کوئی خوشبو کی طرح
**
۱۱ اکتوبر ۱۹۳۳کو چنڈی گڈھ پنجاب میں پیدا ہوئے حکومت ہماچل پردیش کے محکمہ سیر و سیاحت میں ملازم رہے بھاشا و سنسکرتی و بھاگ ہماچل پردیش کے زیر اہتمام شائع ہونے والے تذکروں ’’دریافت ‘‘ اور ’’ترتیب‘‘ کو مرتب کیا ’’سرسبز‘‘ نام سے ایک ششماہی رسالہ جاری کیا آپ کا مجموعہ کلام ’’شعر شگفت‘‘ کے نام سے منظر عام پر آ چکا ہے۔
دل کی دہلیز پہ کیوں طور جلاتے ہو دیا
اس خرابے میں بھلا کون ہے آنے والا
کبھی کبھی مٹی بھی لہو پکارتی ہے
جتنا دیکھیں اتنی چاہت اور بڑھے
کبھی کبھی آنکھیں بھی موتی پروتی ہیں
طور یہ آنکھیں ماؤں جیسی ہوتی ہیں
**
۹ مئی ۱۹۳۱کو شملہ میں پیدا ہوئے وہیں پلے بڑھے تعلیم حاصل کی اور محکمۂ زراعت ہماچل پردیش شملہ میں ملازم رہے۔ بزم ادب شملہ کے سرگرم رکن اور منی مہیش کلا کے صدر رہے شاعری کا ذوق پیدائشی ہے کافی عرصے سے نثر بھی لکھ رہے ہیں۔
میں نے سمجھا تھا چمن میں آ گئی فصلِ بہار
جب قریب آشیاں کچھ روشنی ہونے لگی
بڑھ بڑھ کے اور لوگ ہوئے ان سے ہم کلام
میرے لبوں پہ مہرِ خموشی لگی رہی
**
۲۰جنوری ۱۹۳۱کو نور پور ضلع کانگڑہ میں پیدا ہوئے کیلاش چندر نام ہے محکمہ تعلیم سے وابستہ رہے گورنمنٹ ہائی اسکول ککھیڑ تحصیل نور پور ضلع کانگڑہ میں ہیڈ ماسٹر کے فرائض انجام دئے۔ یہیں سے ریٹائیرڈ ہوئے جناب بھگوان داس شعلہ کے شا گرد ہیں ’’ جرم وفا‘‘ کے نام سے ایک مجموعہ کلام شائع ہوا۔
کھوئی کھوئی ہوئی معصوم سی ان نظروں کو
جی میں آتا ہے کلیجہ سے لگائے رکھئے
نور پھیلاتی ہے یہ غم کے اندھیروں میں کنول
عشق کی شمع بہر حال جلائے رکھئے
وہ ولولوں کی دھوپ، محبت کی چاندنی
لیکر کنول چلا گیا موسم شباب کا
**
دسمبر ۱۹۲۹میں مارنڈو تحصیل پالم پور ضلع کانگڑہ میں پیدا ہوئے سب ڈویزنل مجسٹریٹ پالم پور کے دفتر میں بطور اسسٹینٹ ملازم رہے۔ نظم، غزل، افسانے، تنقید و تحقیقی مضامین لکھے اردو کے علاوہ ہندی اور پہاڑی زبان میں بھی بہت کچھ تخلیقی کام کیا گذشتہ دِنوں مختصر سے علالت کے بعد انتقال کیا۔
کبھی آس کی دھوپ سنہری، مایوسی کی دھند کبھی
لگتا ہو جیون ہے جیسے خواب کسی سودائی کا
دین و دنیا کی اب ساغر ہم کو کوئی فکر نہیں
میخانے کے دروازے تک آ پہنچے ہیں دیوانے
ہے شامِ انتظار عجب بے کلی کی شام
اتنی اُداس تو نہ ہو یا رب کسی کی شام
**
یکم اگست ۵۳۹۱ کو ہریانہ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے اردو، فارسی اور نفسیات میں ایم۔ اے کیا کروں کیشتر یونیورسٹی میں اردو، فارسی کے لیکچرر اور ڈپٹی لائبریرین کے عہدوں پر فائض رہے۔ ادبی سرگرمیوں میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ امر چند قیس جالندھری کے شاگرد ہیں نظم و نثر میں کئی کتابیں لکھیں۔
ناپنے نکلی ہے شہر دل کی وسعت کو مگر
کیا لگا پائے گی میرے دل کا اندازہ ہوا
شاید تری وفا میں رہی ہو کوئی کمی
اے چاند تو نے یار پُرانے جو کھو دئے
**
۴ اکتوبر ۱۹۳۱کو مخدوم پورہ ضلع جالندھر پنجاب میں پیدا ہوئے تعلیم سے فراغت کے بعد صحافت کا پیشہ اختیار کیا روز نامہ ’’ہند سما چار‘‘ جالندھر کے ایڈیٹوریل اسٹاف میں شامل رہے۔ ایک عرصہ درانہ تک عروس اردو کو سجانے سنوارنے میں اہم رول ادا کیا۔ نظم و نثر میں کچھ کتابیں شائع ہو چکی ہیں شاعری کی طرح آپ کی نثر بھی دل پذیر ہوتی ہے۔ نظم، غزل، افسانہ، ناول، ڈرامہ سبھی کچھ لکھا انگِنت مشاعروں و سمیناروں میں حصہ لیا۔
زہر نکلا ہے تو امرت بھی کبھی نکلے گا
بحرِ ہستی کو سلیقہ سے کھنگالا جائے
اپنا اپنا ذوق طلب ہے اپنی اپنی فِکر نظر ہے
ہر منزل انجام سفر ہے ہر منزل آغاز سفر ہے
یہ سچ ہے کو ہ غم کا اُٹھانا محال ہے
لیکن تری رضا ہو تو انکار بھی نہیں
تو یہ ہیں ہمارے ہزار ہا غیر مسلم شعراء اور ادباء۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان حضرات کے جن پر تفصیلی گفتگو کی جائے تاکہ ان کے مقام کے تعین میں آساتی ہو۔ اس سے بھی ضروری اور اہم بات یہ ہے کہ غیر مسلموں کی نئی نسل اردو سے بڑی حد تک نا آشنا ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس نسل کو اردو کی جانب متوجہ کریں اور ان کے دلوں میں اردو سے دلچسپی کا جذبہ پیدا کریں یہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
٭٭٭٭٭
ماخذ
urdutahzeeb.net/urdu-language-and-literature
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید