تاریخ ادب سے یہ بات بخوبی ثابت ہے کہ دیگر اصنافِ ادب کی بہ نسبت شاعری زمانے کے رجحانات کی واضح انداز میں خبر دیتی ہے۔ ایسا شاید اس لیے ممکن ہے کہ شاعری اپنے معاشرے اور اپنے قارئین سے براہ راست گفتگو کرتی ہے اور اس ہم کلامی کے دوران وہ حقائق بھی آشکار ہوتے ہیں جن سے زمانہ اپنے رجحانات اخذ کرتا ہے۔ شاعری اس اعتبار سے اپنے عہد کی تخلیقی دستاویز ہوا کرتی ہے۔
اُردو نظم کی جو روایت آج سے ساٹھ ستر برس قبل ظاہر ہوئی اور جس کی نمائندگی راشد، میراجی اور مجید امجد کرتے تھے، اس کا موضوع انسان تھا جس کی پہچان کے حوالے اس کے خارجی ماحول میں موجود تھے۔ اس دور کی نظم نے انسان کے جس تصور کی فکری اور جذباتی طور پر نشاندہی کی وہ انسان عام زندگی کے تمدنی باشندے کی شکل میں ظاہر ہوا۔ اس نظم میں انسان کی شناخت اور عدم تکمیلیت کا گہرا احساس موجود ہے۔ اس لیے اس شاعری کے فکری رجحانات میں visionکو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔
۴۷ء کے بعد اُردو نظم میں جو رجحانات ظاہر ہوئے وہ فکری اور لسانی تھے، اور ان میں انسانی تجربے اور واردات کو بنیادی اہمیت حاصل تھی۔ قیام پاکستان کے وقت اُردو نظم رومان اور احتجاج کی دستاویز تھی اور یہ رجحانات اُردو نظم کی سرشت میں بہت گہرے تھے۔ لیکن جدید نظم جو فکری اعتبار سے وجودی فلسفے سے متاثر تھی اور انسان کی تنہائی اور مغائرت و بیگانگی کے احساس کو تخلیقی مقاصد کے لیے استعمال کرتی تھی، اس نے انسان کی داخلی صورتحال اور خارج کے مابین مکالمے کی صورت پیدا کی۔ جس سے نئے استعارات، تلازمات اور علامتی معنویت کے حامل امکانات وجود میں آئے۔ اور گذشتہ کچھ عرصے میں مسلسل ہیئتی، لسانی اور فکری تجربوں سے گزرتی ہوئی اُردو نظم آج جن خدوخال کے ساتھ ہمارے سامنے ہے، اس میں راشد کی پر شکوہ الفاظ اور خطابیہ لہجے کے روایت اپنے اسلوب کی تمکنت اور اثرات کے باوجود آگے چلتی نظر نہیں آتی۔ یہی وجہ ہے کہ راشد کے تتبع میں اپنا اسلوب تراشنے کی کوشش کرنے والے شعراء اپنے تمام تر تخلیقی امکانات کے باوجود کوئی دیر پا شناخت بنانے سے قاصر رہے ہیں۔ مجید امجد نے بھی زندگی کے مسائل اور وجودی حوالوں سے متشکل ہونے والی انسانی شناخت کو اپنی نظموں میں جس کامیابی سے سمویا اس کے، بعد میں آنے والے نظم نگاروں پر بھی اثرات مرتب ہوئے۔ اور کئی شعراء نے مجید امجد کے شعری آہنگ سے اپنے تخلیقی امکانات کی دریافت کی راہ تلاش کی۔ 60ء کی دہائی کے شعراء نے اُردو نظم میں انسان کے معاشرتی اور تمدنی تصور کرنا مکمل قرار دیا او زندگی کے مفہوم کو اس کے محدود زاویۂ نظر سے الگ کرتے ہوئے اس تصورِ کائنات کے ساتھ مربوط کیا، جس کی مثال ہمیں جیلانی کامران کے یہاں ملتی ہے۔ اس دور میں اُردو نظم میں لفظ کے استعمال کو مرکزی اہمیت دینے کا ایک رویہ بھی نظر آتا ہے۔ جس کی ابتداء افتخار جالب نے کی۔ انھوں نے نظم کا لسانی پیکر دریافت کرنے کی کوشش کی۔ نئی شاعری کے اس تصور کی بنیاد شعری تجربے کی کلیت، نئے لسانی اظہاریوں کی دریافت اور لفظ و معنی کی نئی سطحوں کی تجسیم کے عمل پر تھی۔ مگر لسانی تشکیلات کا یہ رجحان قائم بالذات نہ ہونے کے سبب اُردو نظم کی تقویت کا باعث نہ بن سکا۔
گذشتہ چالیس پچاس برسوں کی نظم فکری اعتبار سے وجودی فلسفے سے متاثر رہی ہے۔ اس کے تحت تخلیق کاروں نے تنہائی کے آشوب سے نجات کے لیے داخل اور خارج میں ہم کلامی کی صورت نکالی۔ یہ رویہ تنہائی کو موت کے ساتھ مربوط کرتا ہے جس کی ایک اہم مثال منیر نیازی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ وہ شعرا جن کا تہذیبی تناظر شہری زندگی اور اس کے مسائل سے عبارت ہے، ان کے ہاں یہ تجربہ وجودیت پسندی کا حامل نظر آتا ہے۔ اس ضمن میں قمر جمیل، مبارک احمد، زاہد ڈار، عباس اطہر، افضال احمد سید، عذرا عباس اور عبدالرشید وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ جبکہ وہ شعرا جن کے ذہنی سفر میں کہیں نہ کہیں قصباتی زندگی کے پڑاؤ موجود ہیں ، ان کے ہاں زمین اور فطرت سے گہرے انسلاک کے تحت تنہائی اور بیگانگی کے سوالات صوفیانہ جہت کے حامل نظر آتے ہیں۔ محمد سلیم الرحمن کا شمار بھی انہی شعرا میں ہوتا ہے۔
معاصر نظم پر مجموعی نظر ڈالنے سے اندازہ ہو تا ہے کہ ہم شاعری کے عجیب بے برکت عہد میں سانس لے رہے ہیں۔ سنجیدہ اور باصلاحیت شعراء کی انتہائی قلیل تعداد اس امر کی وضاحت کے لیے کافی ہے کہ ہر عہد کا تخلیق کار اپنے ذہن کی تنہائی میں زندہ رہتا ہے۔ ایک ہی عہد میں بہت سے شعرا تخلیقی اظہار کے مختلف راستے اپناتے ہیں ، مگر ان میں سے کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جس کی تخلیق کی طرف قاری بار بار پلٹ کر دیکھتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یہ سوال اس شاعر کی معنویت کو سمجھنے میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ ہر بڑے شاعر کا ایک آفاقی تناظر بھی ہو تا ہے اور اس کی شاعری اپنے زمانے کے حصار سے باہر بھی نکلتی ہے۔ محمد سلیم الرحمن کے تخلیقی شعور کی امتیازی خصوصیت یہی ہے کہ وہ اپنے مرکز سے علاحدہ ہوئے بغیر اور اپنے مقام کو چھوڑ ے بغیر ایک ایسے تہذیبی مسئلے کی نشاندہی کر سکتا ہے جو رفتہ رفتہ عالمگیر بنتا جا رہا ہے۔ ہمارا اجتماعی وجدان، ہمارا تاریخی شعور، ہر حقیقت کی طرف ہمارا رویہ، غرض یہ کہ اس شاعر میں زندگی کے تمام تجربوں کو ایک عالمگیر سچائی میں منتقل کر دینے کی غیر معمولی صلاحیت ہے۔ ان کے ہاں جو انسان دوستی کا جذبہ ملتا ہے اس کا سبب یہی ہے کہ ان کا ذہن مشرق و مغرب اور ماضی و حال کا ایک ساتھ احاطہ کر سکتا ہے۔ انفرادیت کا احساس ان کے ہاں بہت شدید ہے اور اس احساس کو بنیاد فراہم کرنے والی اصل حقیقت ان کی اپنی تہذیبی شناخت کا تصور ہے۔ اور یہی وہ پس منظر ہے جس میں ان کی نظمیں اپنے عہد کی سیاسی، روحانی اور ادبی اقدار متعین کرتے ہوئے اپنی معنویت ہم پر واضح کرتی ہیں۔
ہونٹ کڑوے ہیں ، کھدے ہیں جا بجا کھارے کنویں
پپڑیاں پیاسی زمیں پر، خشک دریا، زرد گھاس
ہر نئے نقشے کو منظر کا وہی روکھا جواب
تہ بہ تہ جھلسے ہوئے رنگوں سے درماندہ حواس
ذہن میں یادوں کی جھاگ اور ریزہ ریزہ شک ہزار
ریت میں ابرق کی پتھرائی چمک آنکھوں پہ بار
کھوٹ، کالی آندھیوں اور لُو کی یہ خائن زمیں
حرص کا اک پیچ جو دل سے نکلتا ہی نہیں
ہے عبث اندھی مشینوں کی کدو کاوش یہاں
ثبت ہے ہر شے اور ہر نقشے پہ عصرِ رائیگاں (ٹوٹی پھوٹی خواہش۔۔۔۔۔ )
شاعر ی کیا ہے، اس بارے میں محمد سلیم الرحمن کا کہنا ہے کہ
’’شاعری کیا ہے ؟ شعر کہنے والے کی ذات بیچ ایک دریاؤ، ذات کو بانٹتا ہوا۔ کبھی سیرابی، کبھی طغیانی، کبھی سکھاڑ، مگر ہمیشہ ایک جگائے رکھنے والا بہاؤ، نہ بھرنے والا زخم، جدائی کا نشان۔ اور ہر نظم ایک بظاہر بے ترتیب حقیقی یا خیالی دنیا کو بار بار مرتب کرنے کی کوشش۔ ہر نظم پیام جسے کبوتر اڑے اور مخالف ہواؤں اور صداؤں سے الجھتا ہوا جانے کس گھر جا اترے۔ یا بوتل میں بند عبارت جو سمندر میں بہتے بہتے کسی کے ہاتھا جائے۔ ایک حیرت زدہ اجنبی کی کسی دوسرے حیرت زدہ اجنبی سے ہم کلامی‘‘۱
محمد سلیم الرحمن کا عمومیت سے انفرادیت کی طرف سفرادھورا نہیں مکمل ہے۔ چنانچہ ان کی نظموں کو تاریخی ترتیب میں پڑھتے ہوئے قاری چونکتا نہیں۔ بلکہ اس گہرے احساس سے خود کو ہم آہنگ محسوس کرتا ہے جو کئی سادہ تجربات کے بعد ایک رچے ہوئے تجربے سے گزرتے ہوئے اس پر طاری ہوتا ہے۔ محمد سلیم الرحمن کی نظم روایتی طرز کی نظم نہیں ہے۔ اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ لاہور کی ادبی فضا میں شامل ہونے والے نئے رجحانات سے فوری طور پر متاثر ہونے کا کوئی ثبوت ان کی نظم میں نہیں ملتا۔ دوسری وجہ ان کا انگریزی ادب کا مطالعہ ہے۔ ان کا کہنا ہے:
’’میں نے نظم لکھنے کا طریقہ انگریزی اور یورپی ادب سے سیکھا ہے۔ اس لحاظ سے یہ نظمیں اُردو شعری روایت سے پوری طرح جڑی ہوئی نہیں ہیں ‘‘۔ ۲
لیکن اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ ان کی نظم استعارہ سازی اور علامت سازی کے ضمن میں نامانوس مما ثلتوں اور اجنبی نسبتوں کو بروئے کار لانے کی وجہ سے قاری کے لیے قدرے مشکل ضرور ثابت ہوتی ہے، لیکن مغربی شعریات کا انجذاب ان کی شاعری میں اس طور پر نہیں ہوا کہ ان کے یہاں کسی خاص شاعر کی گونج سنائی دے۔ انگریزی شاعری کی پہلی خصوصیت جو محمد سلیم الرحمن کی نظم میں دکھائی دیتی ہے وہ یہ ہے کہ نظم، خیالات کو غنائی رنگ دینے کا نام ہے۔ یعنی شاعر کو محض خیالات ہی تخلیق نہیں کرنے بلکہ نئے غنائی پیرا یے بھی وضع کرنے چاہیے۔ نظم نگاری کا یہ تصور شیلے کے یہاں غالب ہے۔ اسی بنا پر اس نے اپنی نظموں میں کئی قسم کے آہنگ تخلیق کیے ہیں۔ اور یہی خصوصیت محمد سلیم الرحمن کی نظموں میں بھی نمایاں ہے۔ دوسری اہم خصوصیت جو انگریزی شعری روایت کے انجذاب کے باعث ان کے ہاں نظر آتی ہے، یہ ہے کہ نظم کا موضوع وہ مانوس حقیقتیں ہیں جو ہمارے ارد گرد بکھری اور دھڑکتی زندگی کی ضامن ہیں مگر جنہیں بالعموم نظر انداز کیا جاتا ہے۔ نظم کا یہ تصور ورڈ زوزتھ کے پاس موجود تھا۔ اس کے نزدیک فطرت اصل حقیقت ہے اور اسی کو وہ اپنی نظم کو موضوع بناتا ہے۔ تیسرا عنصر جسے انگریزی رومانوی نظم سے استفادے کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے وہ انا کی خود مختاری کا مخصوص تصور ہے۔ رومانوی انا مطلق و خود مختار ہوتی ہے اس لیے وہ اپنے اظہار کو اپنا حق سمجھتی ہے۔ تاہم چونکہ انگریزی رومانوی شعراء pantheismکے بھی قائل تھے جس کے مطابق کائنات کی ہر شے ایک مقدس موجودگی سے لبریز ہے۔ ایک روشنی ہے۔ اس لیے خود مختار انا اشیاء سے بیگانگی اختیار کرنے کے بجائے ان سے موانست کا رشتہ استوار کرتی ہے۔ محمد سلیم الرحمن کی نظم میں بھی اشیاء سے موانست کا رشتہ بے حد گہرا ہے۔ تمام اشیاء ایک ہی بنیادی حقیقت کی زنجیر سے منسلک دکھائی دیتی ہیں۔ گھاس کی پتیاں ہوں کہ شام کا ستارہ، بیل کے گلے میں بجتی گھنٹیاں ہوں یارات کو سنائے جانے والے قصوں کی باز گشت، پرندے ہوں یا خود شاعر۔ سب ایک ہی رشتے کی ڈور میں بندھے ہوئے ہیں۔ اسے محدود مفہوم میں ہی pantheismقرار دیا جا سکتا ہے، اس لیے کہ یہ رویہ اپنی برتر سطح پر متصوفانہ رویہ ہے۔ جبکہ محمد سلیم الرحمن کے یہاں اشیاء اس باطنی روشنی سے شرابور نظر نہیں آتیں جس سے صوفی لمحۂ کشف میں گزرتا ہے۔ بلکہ یہاں اشیاء موانست کے جس رشتے میں بندھی ہیں وہ دکھ کا رشتہ ہے جوان کی تقدیر ہے۔ یہ ایک طرح کا جمالیاتی ربط ہے، اور اس موانست کے نتیجے میں جو کبھی انسانوں ، کبھی پرندوں ، کبھی درختوں کبھی دن رات اور کبھی خوابوں کے ہالے میں سانس لیتی دنیا سے جنم لیتی ہے، زندہ رہنے کی بہت سی صورتوں کا ایک بار پھر ظہور کرنا ممکن ہوتا ہے۔
"دور جانے کا دن!
کتنی زنگار گھڑیوں کے واسوخت کے درشنی
حبس کو گودتی ایک برفاب پن
سوئیوں میں اٹکتے ہوئے دل کے پردوں میں گم
خون کی بوند تم
دھوپ کی کھیتیاں
بادلوں کے افق، جن میں پلتا ہے طوفاں کوئی
ایسے تاراج رنگوں کی افتاد کے درمیاں
دور تک ساتھ چلنے کا اک بے مزہ اور روکھا مزہ
تم بھی اک شائبہ۔ (میری جاں ، تم یہاں۔۔۔۔ )
محمد سلیم الرحمن ان معدودے چند شعراء میں سے ایک ہیں ، جن کی لفظیات کا دائرہ بہت وسیع ہے اور وہ نظم کے موضوع، خیال کی ندرت اور احساس کی رنگارنگی کے باعث بدلتی رہتی ہے۔ بلکہ شاعر نے خیال کی ندرت کا ظاہر کرنے کے لیے زبان کے موجود و میسر پرقانع رہنا ہی ضروری نہیں جانا۔ انھوں نے عموماً ہندی اور کہیں پنجابی زبان کے مانوس اور غیر مانوس لفظوں کو برت کر ایک نئے شعری لحن کی بنیاد ہی نہیں رکھی، اس امر کا احساس بھی دلایا ہے کہ یکسانیت کی بوباس میں رچی لفظیات کا استعمال نئے پن کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ اپرمپار، اوالانشوں ، مصاف، گھمر، اڑاٹا، بابنی، کہربائی، سمنکھ، اگھوری، القط، مرفوع، غرفش، وساسول، پر قینچ، شایگاں۔ ایسے ہی کچھ الفاظ ہیں۔ لیکن محمد سلیم الرحمن کی شاعری کا اسرار نامانوس لفظیات سے ہی وابستہ نہیں ہے۔ اس کی شناخت کے لیے ان کی شاعری کے تراکیبی نظام کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی فکری پیچیدگی کو جس قدر سادگی سے بیان کرنے پر قادر ہیں ، اس قدر آسانی سے نادر اور رنگا رنگ تراکیب خلق کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ نیلمبر پورب، خیرگی کا گرداب، زخار فرسخ، ننداسی مسافت، ارغوانی بیابان، ناشیندہ کنارے، گل بار زبانیں ، نڈھال تجرید، خرمن تحیر، ساکت تجلیاں ، منتظر واشد، نیلگوں اثبات، کیفرِ یلدا، فوارہ نسیاں ، شایگاں پت جھڑ، زائچوں کا کرب، سرمائی حضوری وغیرہ جیسی منفرد تراکیب "نظمیں "میں جا بجا بکھری پڑی ہیں جو شاعر کے لسانی رویے کی خبر بھی دیتی ہیں اور موجود و غیر موجود کی دنیا کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی بھی غماز ہیں۔ محمد سلیم الرحمن نے اشیاء کی اجنبیت اور حیرت کو برقرار رکھنے کی سعی کی ہے اور اس میں کامیاب رہے ہیں۔ غلام حسین ساجد نے محمد سلیم الرحمن کی شاعری پر اپنے مضمون میں اسی حوالے سے کہا ہے:
محمد سلیم الرحمن کی ’’نظمیں ‘‘کو اُردو نظم کی مجموعی روایت کے ساتھ رکھ کر دیکھنا ممکن نہیں کیونکہ یہ کتاب موضوعات، اسلوب اور ہئیتی تنوع کی بنا پر لمحۂ موجود کی نظمیہ روایت سے یکسر الگ ہے۔ ۳
جدید اُردو نظم جن تخلیقی تجربوں سے گزرتی آئی ہے وہ موضوع سے زیادہ ہئیت سے جڑے ہوئے تھے۔ خواہ وہ لسانی تشکیلات کے توسط سے واضح ہونے والی انسانی باطن کی نا دریافت حقیقتیں ہوں یا، علامت، امیج، تلازمۂ خیال اور شعور کی روکے تحت زندگی کو بیک وقت کئی زاویوں سے دیکھنے کی حوصلہ مندی۔ یہ سب لاشعور کے مطالعے سے انسانی آزادی کی حد جاننے کی کوشش تھی۔ کیونکہ ایک آزاد معاشرہ فرد کی آزادی سے مشروط ہے، اور شاعری میں احتجاج یا اضطراب کا سوال پیدا ہونا کسی براہِ راست تجربے یا عصر کی سوچ سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔ البتہ کچھ سوالات بنی نوع انسان اور تاریخ کے مشترکہ اور مستقل سوالات ہیں مثلاً انسانی شعور و ادراک کی تحدیدات، اور ہونے نہ ہونے کی بے اختیاری۔ اور کسی تخلیقی فنکار کی انفرادیت اس وقت سامنے آتی ہے جب وہ دوسروں کے دیکھے ہوئے خوابوں میں اپنے خوابوں کو گڈ مڈ نہیں ہونے دیتا۔ جس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ زندگی کی طے شدہ اقدار اور ان کے سرچشموں سے بعض اوقات کچھ ایسے دائرے اور نظام بھی وجود میں آتے ہیں جو اپنی الگ شناخت کے حامل ہوتے ہین۔ دوسرے لفظوں میں ہر زمانے اور عہد کی اپنی روح ہوتی ہے جس کی تفہیم کے ذریعے تخلیق کار کی آواز اس کے عہد کی روح سے منسلک اور فیض یابِ نظر آتی ہے۔ اور کسی شاعر کا آہنگ جب اس کے عہد اور پوری شعری روایت کے آہنگ سے ملتا ہے تو بڑا ادب وجود میں آتا ہے۔ اس اعتبار سے محمد سلیم الرحمن کی نظمیں معاصر ادب اور عہد کے درمیان اس پل کی حیثیت رکھتی ہیں جس کے ذریعے فرد کے باطن سے معاشرے تک اور معاشرے سے نکل کر انسانی نفسیات کے داخلی منطقوں تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔
کتنی بھاری ہے مٹی کی آسودگی
نیند بھرتی نہیں ، آنکھ کھلتی نہیں
اک سیہ دائرہ، جس کے چاروں طرف
بے کراں ہے افق، گھومتی ہے زمیں
ہر نئے دن کی پرتوں میں شامل یہاں
اک اکارت ساغم، سر دبے مائیگی
تہ میں وہم و گمان کے رچی بھی تو کیا
بس یہی سیمیائی سی ہمسائیگی۔ (صبح ہوتے ہی دنیا۔۔۔ )
یہ شہر خود ہی خوف ہے
امید سے خالی بھی یہ
امید سے آباد بھی
رِستی ہوئی، گلتی ہوئی، اک بے نتیجہ یاد بھی
زندانِ بے دیوار سے
بچ کر کوئی جائے کہاں
ہیں خود یہاں پر قید بھی
اور خود ہی پہرے دار بھی، صیاد بھی اور صید بھی۔ (ایک بگٹٹ شہر کے آگے پیچھے)
ان نظموں میں فرد کی کلیت کو بھی تسلیم کیا گیا ہے اور تاریخ اور وقت کے جبر سے مشکل ہونے والی اس ہزیمت کا ادراک بھی کیا گیا ہے جو فرد کے سماجی، معاشی اور روحانی استحصال کے نتیجے میں اس کی داخلی نفسیات مسخ کرنے کا باعث بنتی ہے۔ کیونکہ مسئلہ دراصل ادب کی تعمیرو تشکیل کا نہیں ، بلکہ انسان اور انسانی زندگی کا ہے۔ یعنی حقیقت انسان کی نوعیت، انسان کی شناخت اور اس کی تحلیل ہوتی ہوئی پہچان کی اصل کیا ہے۔ شاعر کا المیہ یہ ہے کہ وہ عدم تسلیمیت کے باعث کائنات میں اجنبی بھی ہے اور کائنات سے بندھا ہوا بھی۔ ہونے اور نہ ہونے کی ایک ایسی تمثیل جسے خارجی دنیا میں اپنی ناگزیریت کے حوالوں کی تلاش ہے۔ ایک ایسی دنیا جس میں معمولاتِ زندگی دو قدروں کے حامل ہیں۔ ایک تو یہ کہ اپنے وجود کی ماہیت سے فراموشی کا انتخاب کیا جائے اور شے بن کر کائناتی نظام کے پرزے کی حیثیت اختیار کر لی جائے۔ دوسرے یہ کہ وجود کی فراموشی کو وجود کی باز یافت کا ذریعہ بنا کر نفی سے اثبات کا امکان حاصل کیا جائے۔ یہاں شاعر کا تخیل اس کے خوابوں اور تصورِ کائنات کی نمائندگی کرتا ہے اور یہی وہ عمل ہے جو وقت کی حرکیات کو بدل دیتا ہے۔ اس طرح ان نظموں میں vision اور آدرش کی مساوات بنتی نظر آتی ہے۔ اور اہم بات یہ ہے کہ محمد سلیم الرحمن کی شاعری بے معنویت کی عکس گری نہیں کرتی بلکہ ایسی صورتحال میں زندہ رہنے کی قوت فراہم کرتی ہے۔
نو آبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد ادب میں selfکا تصور، تشخص کا بحران اور Placeاور Displacementکا مسئلہ بہت نمایاں ہو کر سامنے آیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ہجرت اور جلاوطنی ایک نفسیاتی واردات کے علاوہ ایک طرزِ احساس کے طور پر بھی ہمارے ادب کا ایک بڑا استعارہ بن گئی۔ یہ استعارہ انسان اور اشیاء کی اپنے اپنے مقام سے ہجرت سے وجود میں آنے والی ذہنی بے جڑی کے اہم مسئلے کی نشاندہی کرتا ہے، جس نے وطن میں رہتے ہوئے بے وطنی کے احساس کو تحریک دی۔ کسی آدرش یا جبر کے تحت ہجرت کرنے والے روحانی جلاوطنی کا شکار ہونے کے باوجود کسی شدید جذباتی بحران کی زد میں نہیں آتے۔ لیکن دورِ جدید میں بدلتے ہوئے طرزِ حیات کے تقاضوں کے تحت مضافات سے بڑے شہروں کی طرف ہجرت کرنے والے اس بے فیض جذباتی بحران کا شکار ہوئے۔ محمد سلیم الرحمن کی نظموں میں خواب، نیند اور موت کے تلازمات میں یاد اور فراموشی کی بنت سے شاعر اپنی شناخت کا سرا تلاش کرنے کی جستجو کرتا ہے، اور قاری کو احساس دلاتا ہے کہ یہ محض شاعر کا نہیں ، ایک پوری نسل کا اجتماعی ماضی ہے اور محمد سلیم الرحمن کی نظمیں اس اجتماعی حافظے کی تحفیظ۔ امریکی شاعر ڈونلڈ ہال نے ایک جگہ لکھا ہے کہ شاعر کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے جلاوطنی کی زندگی گزار کر وطن واپس آئے۔ اضطراب اور تسلی سے بھر پور جلاوطنی۔ ایک گھر جسے چھوڑا جائے اور پھر اس میں واپس آیا جائے ۴ محمد سلیم الرحمن کی شاعری ان دونوں تجربات کے بین بین ظہور کرتی ہے۔ اس اعتبار سے یہ ذہنی ہجرت یا جلاوطنی مادی اور روحانی دونوں مفاہیم لیے ہوئے ہے۔ ایک ایسے صوفیانہ مراقبہ یا سفر کی علامت جو خیال کی مختلف سطحوں سے ہوتا ہوا شعور کے مرکزے تک جاتا ہے۔ شاعر خود کو اس انبوہ کا ایک حصہ سمجھنے کے ساتھ ساتھ جو صدیوں سے بے سمت چل رہا ہے شعوری سطح پر اس سے الگ بھی سمجھتا ہے۔ روحانی ترفع اور بصیرت کے اس مقام پر جہاں وقت کے حصار سے نکل کر کسی ابدی سچائی کا سراغ بھی لگایا جا سکتا ہے۔ ذیل کی مثالوں سے اس امر کی وضاحت بخوبی ہو سکتی ہے۔
ذرا آہستہ کروٹ لو، ستارہ ڈوب جائے گا
کسی دیوار کا سایہ سرک کر پاس آئے گا
بہیں گے خواب میں آنسو، رکا ہے وقت گھڑیوں میں
بڑی چپ ہے تمھارے شہرِ نا پرساں کی گلیوں میں
ستارہ ڈوبنے دو، زخم دوبارہ ہرے ہولیں
کسی کنجِ قفس، سربزانو، دو گھڑی رولیں
خزانے غفلتوں کے اور نسیاں کی شہنشاہی
پلوں پر نیند میں چلتے ہوئے بے خانماں راہی (ستارہ ڈوبنے کا گیت)
۲۔ کھمبیاں ، کینچوے اور سبز سنہرے دالان
ایک ٹوٹی ہوئی چھت، زنگ لگے قفل کئی
کسی کھڑکی میں نئے چاند کی اٹکی ہوئی قاش
ادھ بنے خاکوں میں گڈمڈ ہے دھواں اور لئی
پا بہ زنجیر اسی حبسِ پریشاں میں سدا
زندہ درگور، کسی جرم کی تہمت لے کر
یاد کرتا ہوں انھیں جو کبھی زندہ تھے یہاں
جن کی چیخوں سے لرزتا ہے ابھی تک یہ گھر (اک نہاں خانے میں۔۔۔۔ )
انسانی روح کے کچھ عمیق ترین گوشے ایسے ہوتے ہیں جن تک رسائی صرف دکھ کے ذریعے ہو سکتی ہے، اور ان گوشوں تک رسائی کے بغیر دانش کا حصول ممکن نہیں۔ ان نظموں کے شاعر کے لیے بھی کچھ غور و فکر اور ارتفاعِ ذات کی ایک صورت ہے۔ اس لیے وہ دکھ کے عمق سے تخلیقِ انسان اور تخلیقِ کائنات کے زمانے تلاش کرتا نظر آتا ہے۔ کیونکہ اسے اپنے ادھورے پن کے علاوہ معاشرتی بے حسی کا کرب بھی سہنا پڑتا ہے۔ خالصتاً مادی یا عناصر کی زندگی سے آگے بڑھ کر وہ انسانی مقدرات اور خدا یا کسی غیبی اشارے کے باہمی تعلق کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ ایک اسرار آمیز جستجو ہے، ایک گہری روحانی تفتیش جس کی حد یں ہماری طبیعی دنیا سے آگے تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اس سے بیک وقت ایک حقیقی اور ماورائے حقیقت دنیا دونوں کی تصویر بنتی ہے۔ اس لیے یہاں تجربے کی کائنات صرف بیان کردہ لفظوں کی پابند نہیں بلکہ بین السطور بھی بہت کچھ پڑھا جا سکتا ہے۔
جہاں آگ بجھنے کو ہو کیوں وہاں اتنے سارے
دہکتے ہوئے رنگ اور پر حرارت شبیہیں
اندھیرے میں تحلیل ہونے سے پہلے مرے دائیں بائیں
پر و بال پھیلائے، ساکت، معلق؟
کسی گنگ اور دائمی شام کے دل میں
ان دھوپ اور جھاگ جیسے ارادوں کی تلچھٹ
کوئی جن کے اسرار کی بھی نہ دے گا گواہی
نہ آنکھیں ، نہ یاد یں ، نہ نشوں کے کڑوے کرشمے
نہ ٹھنڈی سلاخیں ، نہ تاروں کی پرچھائیوں سے بھرے طاقچے اور گملے
اکیلے دکیلے کا اب رات کی رات اللہ بیلی۔ (یہ چپ چاپ اندر سے سب۔۔۔۔ )
واقعات کی وہ تصویریں جو منظر سے گزر کر پس منظر کی دھندلاہٹ کا حصہ بن گئی ہیں ، ان نظموں میں شاعر انھیں Recallکر رہا ہے۔ ان تصویروں کے مناظر میں اسے کہانی کے تمام پہلو نظر آتے ہیں مگر بسا اوقات ایک مرکزی جزو کی کمی بھی محسوس ہو تی ہے۔ لہذا وہ تصویر کوئی مستقل اور مدلل معنی نہیں دیتی۔ یہ کمی ہے مخاطب کی عدم شرکت کا احساس جو شاعر کے لیے زمان و مکان کے ہر معروف frameسے باہر ہونے کی علامت بن جاتا ہے۔ ذیل کی مثال دیکھیے
پھر سے نیرنگِ تمنا کے زیاں میں بے رفاقت
جھٹپٹے کے بوجھ سے کچھ سرگراں سے
کہر بائی کوئی طاقت یا حرارت
چھن گئی ہو جیسے اپنے درمیاں سے
تم دھوئیں اور کائی سے ہم رنگ سرمائی حضوری
اپنی ویرانی کے اندر ایک خستہ اور ادھوری
یاد کے چاروں طرف دیوار چننے کا جتن ہو
ان کہی باتوں کو سننے میں مگن ہو (جانی پہچانی انہی۔۔۔۔ )
۲۔ سیر میں اور سفر میں تم سب سے الگ تھلگ یہاں
سب سے الگ تھلگ ہوں میں سیر میں بھی سفر میں بھی
پرتی ہے ہر طرف سے شہ، ہوتی ہے بار بار مات
لیکن امید و بیم کی الٹی نہیں بساط ابھی
گوشہ نشینیاں بھی اب اصل میں گردِ کارواں
گھیرے ہوئے ہیں دور تک بیتے دنوں کے جمگھٹے
سایے کسی سوانگ کے جیسے ہوں صف یہ صف کھڑے
ہر دن میں جھوٹ سچ کے جھول، بھید کی بیسیوں تہیں ، (سیر میں اور سفر میں۔۔۔ )
جدید دور کے انسان کا سب سے بڑا المیہ خود بر گشتگی یا ہجرِ ذات ہے۔ محمد سلیم الرحمن نے بھی ایک عدم، ایک احساسِ تنہائی خود پر مسلط کیا ہے، کیونکہ نئی دنیا عدم سے ہی وجود میں آیا کرتی ہے۔ عدم کے مابعد الطبیعاتی مفہوم میں nothingnessبھی شامل ہے اور جذباتی سطح پر یہ علامت نارسائی کی اس شدید کیفیت کی آئینہ دار ہے جو خود کو purgeکرنے کی ایک صورت ہے۔ اس لیےnothingnessسے مراد ذات کا فنا ہو جانا نہیں بلکہ ذات کی تکمیل کی طرف اشارہ ہے۔ ایک ایسی کیفیت جو زمان و مکاں سے ماورا ہے اور اپنی، ہئیت میں یہ ایک جمالیاتی تجربہ ہے۔ محمد سلیم الرحمن کی نظم موجود سے بیزاری، احساس بیگانگی، بے معنویت اور عدم مرکزیت کو اپنی تخلیق کاری کے بنیادی محرکات بناتی ہے۔ لیکن یہ روایتی alienationنہیں ہے، کیونکہ ان نظموں میں موجود کردار اپنے وجود کے بکھراؤ کے اظہار میں اس قدر منہمک ہے کہ اسے فرصت ہی نہیں کہ وہ اس alienationکو محسوس کر سکے جس کے لیے وجودِ غیر انا کے شدید تجربے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں alienation کا مفہوم تنہائی نہیں بلکہ پہچاننے کی مشکل ہے، یعنی وہ کیفیت جب مانوس صورتیں ، اشیاء اور صورت حالات نامانوس اور اجنبی محسوس ہوتی ہیں۔ یا پھر نئے محسوسات اس طور پر طاری ہوتے ہیں گویا یہ کیفیات پہلے بھی گزر چکی ہیں۔
مجھے اس اپنی خزاں میں جو چیز یاد ہے وہ ہر ایک رستے
میں ان گنت پتلیوں کی گردش کا کرب، جیسے
ہزار ہا موم بتیاں جو مرے بدن اور میری آنکھوں
کو چھو کے بجھتی ہوں اور اندھیرے کو میرے اندر اتارتی ہوں
یہ پتلیاں جن میں گھومتے اور ڈوبتے ہیں سبھی ستارے
یہ آسمانوں کو تکنے والے تباہ چہرے
نڈھال تجرید کے مرقعوں میں صف بہ صف منتظر ہیں مینہ کے
جوان کی پامالیوں کو دھوکر سفید کر دے
جلے بجھے اور خام رنگوں کی چپقلش سے جگہ جگہ شق
یہ مرگِ انبوہ، جس کی تہ میں دبی ہوئی آگ کی حرارت
ہے آخری فیصلوں کا موسم کہ آئینہ دار میں یہاں پہ
خود اپنے چہرے کو ڈھونڈتا پھر رہا ہوں شاید یا کھو چکا ہوں۔ (سیاہ راتوں کے۔۔۔۔ )
۲۔ میں چلتا ہوں سرکو جھکائے، کٹا ہوا
مشرق سے چلتی ہے ہوا یا مغرب سے
خاک اڑی ہے کہاں کہاں ، اب کیا پروا
میں ہوں اپنی دنیا کا برباد سہرا
چھنتا ہے مجھ سے جینے کا رفتہ رفتہ سارا مزہ
اپنے بدن میں آپ ہی میں ہر وحدت سے معزول ہوا
سر کو جھکائے گرے ہوئے پتوں کو گنتا چلتا ہوں
یاد ہے مجھ کو خاک بسر ہونے کی سزا (سر پہ چلتا آسماں۔۔۔۔۔ )
ان نظموں میں apocalypseیا مکاشفۂ موت کی کیفیت ہے، اور یہ شاعری ایک ایسے ذہن کی نشاندہی کرتی ہے جو کرب اور خوشی، امید اور خوف، شکست اور فریب آرزو کی تمام منزلوں سے گزر چکا ہے۔ جس پر سب کچھ اور جس میں سب کچھ واقع ہو چکا ہے۔ بصیرت کی یہ گہرائی اور تجربے کی یہ وسعت اور اس کی knowingnessاس کے علاوہ کسی طرح آ ہی نہیں سکتی۔
اُردو شعری روایت میں رات متضاد معانی کی حامل رہی ہے۔ ظلم، مایوسی، انتظار وغیرہ ان تمام مفاہیم میں ایک بات مشترک ہے کہ رات زمان کی ایک جہت ہے۔ محمد سلیم الرحمن کے شعری مجموعے میں رات کے عنوان سے نو نظمیں درج ہیں ، لیکن ان کی نظموں میں رات محض وقت نہیں بلکہ ایک ایسا وقت ہے جو ازل اور ابد دونوں کو اپنی وسعت میں سمیٹے ہوئے ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ زندگی کی ہر جہت، مثبت اور منفی، اس رات کا جزو ہے۔ تاہم اس رات کا رنگ گہرا سیاہ نہیں سرمئی ہے۔ اس لیے موت کا تذکرہ بھی یادداشت بن کر ایک اور نوع کی زندگی میں بدل جاتا ہے۔ محمد سلیم الرحمن نے یہاں ایک خاموش کائنات کو گفتگو سے آشنا کیا ہے۔ یہ رویہ موضوع سے معروض کی جانب پھیل کر انسانی اکائی کے ٹوٹے ہوئے رشتے کو اس طرح جوڑتا ہے کہ پورا پیش منظر داخلی واردات کا تلازمہ بن جاتا ہے۔ یہ ان ذہنی رویوں کی زبان ہے جن سے یہ عہد گزر رہا ہے اور جن کی عکاسی کے لیے رات، بارش، نیند، خواب، فراموشی، موت اور ہوا کے تلازمات اس شاعری میں بار بار آتے ہیں ، جو شاعر کے داخلی آشوب کا حوالہ ہیں جس میں تاریکی اور روشنی ایک ہی تصویر کے دو پہلو بن جاتے ہیں۔ نتیجۃً وہ زندہ رہتے ہوئے موت کی خواہش کرتا ہے اور لوگوں کے درمیان رہتے ہوئے تنہائی کی داستان بیان کرتا ہے۔ ایک اکیلا انسان، ایک پوری عمر کی تنہائی جس کے قدموں کے پیچھے ہے اور موت کی تنہائی جس کے قدموں کے آگے۔ گہری سرمئی راکھ اور رات کے رنگ کی تنہائی، جو اس کی مٹی اور پیروں تلے کی خاک کا ذائقہ کبھی ایک نہیں ہونے دیتی۔ چند مثالیں اس نکتے کی وضاحت کے لیے ذیل میں درج کی جا رہی ہیں۔
رات کتنی لمبی تھی، شمعیں جل بجھیں ساری
بات کہتے سنتے میں مند گئیں سبھی آنکھیں
تب ہوا نے رخ بدلا
راکھ اور پگھلتا موم، گھومتی، چمکتی سبز
سوئیاں ، کھڑے ہند سے، اور وقت کی سفاک
پرزہ پرزہ سر گوشی
بوندیوں کی ٹپ ٹپ میں پھر ہرے بھرے جادو
جیسے نیند کا دھو کا، یا اجاڑتی آواز، جاگتی ہوئی دوری
رات کے کنارے سے (رات ۲)
۲۔ رات اہلِ دید کا رختِ سفر، رزقِ خیال
وقت کی پیچاں رگوں میں خون کی پروانہ وار
گردشوں کا سوزو ساز
رات کے سیلِ رواں میں بادباں در بادباں
گم نوردوں کے چراغاں ، زمزمے، طبل و علم
سر بسر راز و نیاز
صبح کے ساحل پہ تختے، بادباں ، مستول، رخت
آدمی، دریائی پریاں ، جاں بلب اور خلط ملط
بے اماں غرقابیوں کی یاد گار (رات ۸)
۳۔ جاگنے والوں کا سینہ چاک کرتی رات میں
ٹمٹماتی، خون سے دھلتی ہوئی سنگینیاں
عاقبت مٹی کا ڈھیر
دربدر اڑتی ہوئی خبروں کی پت چھڑ میں یہاں
جاگتے ہیں بھولنے والوں کو آنکھوں میں کئی
بے نوا، اجڑے وطن
اک ہراساں یاد کے محور پہ بے نیل و مرام
رات کی ناگفتہ بہ فردوں کو پر کرتے خیال
یا ہواؤں کا شمال۔ (رات ۹)
محمد سلیم الرحمن کی نظموں میں بسااوقات خیال کی کچھ غیر مرئی صورتیں بھی سامنے آتی ہیں جو قدرے مبہم اور شاعر کے کسی ذاتی فکری اور نفسیاتی منطقے کی موجودگی کا احساس دلاتی ہیں اور جہاں قاری آسانی سے داخل نہیں ہو سکتا۔ البتہ غور کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ خیال رفتہ رفتہ سمتِ معکوس میں مراجعت کر رہا ہے اور جذباتی و فور تکان اور اس کے بعد رائیگانی پر منتج ہو رہا ہے۔
میں بھی اپنی دھن میں جیسے
چاہ بابل میں کوئی
پر قینچ اور نا بر فرشتہ
جس کی غرفش
ایک آسیبی انا سے
سارے گھر میں گونجتی ہے
اس جہاں میں سب پہیلی ہیں
اگر میں بھی پہیلی ہوں تو کیا ہے
آخری سطروں میں کیا لکھا ہوا ہے
کوئی پار س لفظ، اکسیری اشارہ
دور ہوتی روشنی کو
کون ہے جو پاس لائے؟ (رات کے دیوار و در میں )
۲۔ اس تمھارے ایندھنوں اور پھانسیوں کے
شہرِ ناپرساں میں نومولود چہرے
جن کے کانوں میں اذانوں کے بجائے
کولھوؤں کی چر چر اہٹ
آئے دن تم کو سلامی دینے والی
خارشی شہ سرخیوں میں نشتروں کی نیک نامی
سائرن اور پیٹیاں ، نس بندیاں
درسی کتب کے ہر صفحے پر
آج زیب داستاں ہم
استخواں دراستخواں تاریخ کے پہیوں کے نیچے
اور مرفوع القلم تم
کل کو ٹھونگیں اور بھنبھوڑیں گے تمہیں بھی چیل کوے اور کتے (ظالم بادشاہوں کے لیے نظم)
یہاں دب سروں میں بات کرنے والے اس شاعر کے لہجے میں تھوڑی کاٹ در آتی ہے۔ یہ کاٹ اسلوب کی سطح پر کم اور زیرِ آب زیادہ ہے۔ لہجہ بلند آہنگ نہیں لیکن شعور اور حقیقت سے کھائی ٹھوکر، غم و غصہ، احساس اور معاشرتی تفاعل کے نتیجے میں پیدا ہونے والا ردِ عمل بلند آہنگ ہے۔ کیونکہ ذات کی دریافت جو شعری نظام میں انسان کی دریافت بن جاتی ہے، اس شاعر ی کا ایک ایک اہم تجربہ ہے۔ اور یہ تجربہ اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک شاعر کی ذات کا خارجی دنیا سے ٹکراؤ نہ ہو۔ سارتر کی طرح یہاں زندگی کی مما لیت کو محسوس کیا گیا ہے۔ سارتر کہتا ہے اس دنیا میں نہ تو نیکی ہے، نہ ہی کوئی قدر اور نہ ہی اس کا کوئی مقصد ہے۔ یہ میری ہے اور مہمل ہے۔ ۵
محمد سلیم الرحمن کی براہِ راست بیان اور مکمل تجسیم کے درمیان معلق کچھ نظمیں ایسی بھی ہیں جو بیان سے بھی استفادہ کرتی ہیں اور جزوی تجسیم کے حصول کی بھی کوشش کرتی ہیں۔ ان نظموں میں مصرعوں کی ترتیب کچھ ایسی ہے کہ تکمیل تک پہنچتے پہنچتے نظم کے تمام مصرعے ایک مسلسل مصرعے کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ ان نظموں میں معنویت کا دائرہ مکمل نہیں کیا گیا بلکہ خیال کی چھوٹی چھوٹی قوسوں کے درمیان خلا چھوڑ دیا گیا ہے، جنھیں جوڑنے کے لیے قاری ذہنی سطح پر یہ دائرہ مکمل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یہی عمل نظم کی جمالیاتی اہمیت میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔
چمک دار موجوں کے کالے ورق پر لکھا لا لٹینوں نے اک گنجلک سا
نوشتہ مقدر کا، جیسے کہانت کسی دیوتا کی، اٹل اور ابوجھی
مگر کشتیوں ، گودیوں اور تموج کی ہلچل میں فرصت کسے بوجھنے کی
جہازوں پہ ہوہا، روپہلے دھوئیں کی اڑان اور اونچی کرینوں کی گردش
بسیلے کچھو کے کی مانند سیٹی فضا میں کبھی اور چمنی سے ابھرا
کبودی ستون اور انجن دہک کر بنے ظلمتوں میں دھڑکتے ہوئے دل
دھوئیں ، ازدحام اور چیخوں سے مغضوب گودی، کنارے کے چکٹے تلاطم
سے پیچھا چھڑا کر کھلے آسماں اور بڑھتے ہوئے امن کی شاد مانی
سیہ رال، زنگ اور برادے سے بد شکل عرشہ بجھے اور خالی سے چہرے
بپھرتے ہوئے فاصلوں کے تناؤ میں کھینچتا ہوا آسماں پارہ پارہ
کہ ہر موج، اونچی ابلواں چٹانوں کی مانند، ساقط گرجتا افق ہے
سمندر کے افسانوں مرحلوں میں بڑی تشنگی اور تنہائیاں ہیں
اندھیری شفق کے پرستان میں سرنگوں پرچموں کی اداسی، دلوں میں
تحیر کہ اس ارغوانی بیاباں کے اس پار نہ جانے کتنے کنارے
ابھی دھوپ سے ہوں گے اجلے مگر ہم مہم اور غربت کا آشوب سہتے
ٹھٹھرتے دنوں اور دھواں دھار راتوں میں ، بے خواب، سب منزلوں سے پرے ہیں
یہاں ان اندھیروں میں ، بد رنگ پرچم تلے، ناشنیدہ کناروں کی جانب
عناصر کے نرغے میں بے دست دپا اک شکستہ سفینہ بہا جا رہا ہے
جھلستی ہوئی دھوپ، حبس اور پیاسی زبانوں کے ڈھنڈا ر دن جیسی صدیاں
یا مینہ اور بجلی کے طوفان ایسے کہ پھر عمر بھر جی لگے نہ ٹھکانے
کبھی ابر اور دھند کی چیرتی قرمزی صبح نے یادوں کا بہروپ بھر کر
وطن کے مناظر میں بحری پرندوں کی براق پرواز سے جان ڈالی
ہمیں کچھ بجھانے کی نادان کوشش میں جھونکوں کی سرگرشیاں اور آہیں
نمک کی تہیں فرش پر دھوپ پھیلی رہی دیر تک۔ دن مندا۔ لالٹینیں
(افق سے ابھرتے ہوئے۔۔۔ )
اس نظم کے مختلف ٹکڑے میں کئی تیز تیز چلتی ہوئی تصویریں ہیں۔ ایک تصویر دوسری تصویر کو جنم دیتی ہے اور سب تصویریں آپس میں گڈمڈ ہوتی ہوئی شاعر کے تجربے کا مکمل عکس بن جاتی ہیں۔ یہ سب تصویریں شاعر کے باطنی تجربے سے پھوٹتی ہوئی سوچیں ہیں۔ ان میں سے کوئی تصویر بھی محض تصویر نہیں ، اپنی جگہ ایک علامت ہے اور یہ سب علامتیں ایک دوسرے کی تکمیل کر رہی ہیں۔ یوں یہاں جذبہ اور تجربہ جامدنہیں بلکہ ان کا بہاؤ اکٹھا ہے۔ تجربے کی ہر سطح کو گرفت میں لانے کی کوشش میں شاعر نے ایک پورے منظر کی Disintegrationکو مختلف سمتوں میں اس طرح پھیلا دیا ہے کہ تجربہ ہمارے چاروں طرف سے ہم پر حاوی ہو جاتا ہے۔
محمد سلیم الرحمن کی نظموں کی دلکشی کا ایک بڑا سبب ان کی تمثال کا ری ہے۔ اور ان میں شعریت خیال کی اس رو کی طرح نمایاں ہے جس میں شاعر نے اپنے تجربات پرو کر نظمیں تخلیق کی ہیں ، اس لیے عدم ابلاغ کا مسئلہ کہیں پیدا نہیں ہو تا۔ اگر کہیں ہے بھی تو اس کی وجہ فکری پیچیدگی نہیں بلکہ ندرتِ خیال اور اسلوب کی سطح پر multiple imageryہے جو موجود میں نا موجود کی شمولیت سے اسے ایک paraphysiologicalتجربے کی حیثیت دے دیتی ہے۔
آج کی بے چراغ رات
کچھ بھی نہیں ہے میرے پاس
کل کے چھدے بدن کے بیچ
سہمی ہوئی خطیر یاس
دن کی لہو لہان گود
تشنہ لبی کی گیرو دار
رات کی پور پور میں
نیند کو روندتے سوار
لیس ہیں گرچہ سب یہاں
چیتھڑے ہو چکے حواس
کس کے حساب میں لکھیں
باقی بچی ہوئی پیاس؟ (تہی دستی)
محمد سلیم الرحمن کی نظم درحقیقت نا معلوم اور نا دید سے مکالمہ ہے۔ ایک ایسی تصویر کی طرح جو صورت پذیری اور معنی آفرینی کے ہزار ہا امکان رکھتی ہے، ایک مکمل جمالیاتی تجربے کی مانند ان کی نظم ماضی و حال کی تخلیق نو کے ذریعے آئندہ کی صورت گری کرتی ہے۔ اتنے تخلیقی امکانات کی حامل شاعری کی تفہیم مروجہ تنقیدی پیمانوں پر ممکن نہیں۔ کیونکہ محمد سلیم الرحمن کی انفرادیت نے اپنے تخلیقی اظہار کے لیے جو راہ اختیار کی ہے وہ فوری ابلاغ نہیں بلکہ خلوص اور ریاضت کے ساتھ تفہیم کی متقاضی ہے۔ انھوں نے ایک سچے تخلیق کار کی طرح مختلف رویوں اور رجحانات سے اپنی باطنی سچائیوں سے ہم آہنگ رنگوں کا انتخاب کیا اور ان کی ترتیبِ نو سے ایک منفرد اسلوب تراش لیا۔ اس لیے ایک بامعنی تحیر ان کی نظم کا خاصہ ہے جو قاری کے ذہن کو تادیر اپنی گرفت میں رکھتا ہے۔ ایک حیرت انگیز Originality، گم شدہ و نامعلوم تجربات کو زندہ کر دینے کی ایک غیر معمولی صلاحیت ہے جو محمد سلیم الرحمن کی نظم کو معاصر نظم کے دھارے سے بالکل الگ اور امتیازی شناخت عطا کرتی ہے۔
٭٭٭
۱۔ محمد سلیم الرحمن، نظمیں ‘‘ قوسین پبلیشرز، لاہور، ۲۰۰۲ بیک فلیپ
۲۔ مکتوب محمد سلیم الرحمن، بنام راقم، یکم نومبر ۲۰۰۸ء
۳۔ غلام حسین ساجد، نظمیں ایک مطالعہ، مشمولہ: کتابی سلسلہ، انگارے، شمارہ ۶، مرتبہ: سید عامر سہیل، ڈاکٹر، جون ۲۰۰۳ء، ص ۱۳
۴۔ ڈونلڈ ہال، شاعری اور امنگ، مترجمہ: مہناز زینب، مشمولہ: کتابی سلسلہ، معاصر شاعری، شمارہ ۳، ۴، مرتبن: سعید احمد، تابش کمال، مارچ ۲۰۰۸ء، ص ۱۳۱
۵۔ نسیم شاہد، سارتر کے مضامین، کاروان ادب، ملتان، ۱۹۹۱ء، ص ۳۹
٭٭٭