جناب نظمؔ طباطبائی کی عظیم المرتبت اور بھاری بھر کم شخصیت دنیائے ادب اور خاص کر اہل حیدرآباد کیلئے محتاج تعارف نہیں ہے۔ یہ وہ صاحب قلم ہیں جنہوں نے اردو کو نہایت متین اور عالمانہ گفتگو سے نہ صرف روشناس کرایا بلکہ ایسے اصول و ضوابط وضع کئے کہ ہر قسم کے دقیق اور جدید سائنسی مضامین ادب کی چاشنی کے ساتھ با آسانی تحریر کئے جا سکتے ہیں۔ نظمؔ طباطبائی حیدرآباد کے دار الترجمہ اور مجلس وضع اصطلاحات کے قیام کے روز اول سے تا حیات وابستہ رہے اور دار الترجمہ کے ناظر ادبی کی حیثیت سے دیکھئے تو کوئی کتاب ایسی نہ تھی جس کے ترجمہ ہونے کے بعد اس کے ہر ہر لفظ کو اور جملوں کی ساخت کو انہوں نے دیکھا اور پرکھا نہ ہو۔ یوں سمجھئے کہ جامعہ عثمانیہ کے اردو میں تمام تدریسی مواد کی صحتِ زبان پر نظمؔ طباطبائی کی مہر تصدیق ثبت تھی۔ ان کی اسکریننگ کے بعد ہی کوئی ترجمہ لائق طباعت و اشاعت سمجھا جاتا تھا۔ نقد و نظر ، شاعری ، نثر نگاری ، ترجمہ ، قواعد ، عروض ، ضائع بدائع یا اور کوئی شعبہ زبان ایسا نہ تھا جس میں نظم ؔ صاحب کا اجتہاد داخل نہ ہو۔ ان کے زبان سے متعلق کسی بھی فیصلے کو ادبیات کی دنیا میں کسی کی جرات نہیں تھی کہ اس کی تردید کرتا یا اس کے بر خلاف رائے دیتا۔ ہماری زبان میں جناب نظمؔ طباطبائی ایک طرح سے مجتہد جامع الشرائط تھے۔ جناب نظمؔ طباطبائی کا سلسلہ نسب حسنی سادات سے ملتا ہے۔ امام حسن ؑ کے پوتے جناب اسمٰعیل تھے جن کا لقب ’’طبا طبا‘‘ تھا اس لئے یہ سلسلہ طباطبائی کے نام سے موسوم ہے۔ ان کے اجداد ایران سے ہندوستان آئے اور لکھنؤ میں آ کر آباد ہوئے۔ ان کی والدہ نواب معتمد الدولہ سید محمد خان عرف آغا میر کے خاندان کی تھیں اور ان کے والد سید مصطفےٰ حسین دربار اودھ سے وابستہ تھے۔ 18 نومبر 1853ء کو محلہ حیدر گنج قدیم میں بروز جمعہ نظمؔ طباطبائی پیدا ہوئے۔ سید علی حیدر نام تھا۔ کبھی نظمؔ اور کبھی حیدرؔ تخلص کرتے تھے۔ علم و فضل میں یہ خاندان لکھنؤ میں مشہور تھا۔ نظمؔ صاحب کی تعلیم ایک مکتب میں ہوئی جہاں ملا باقر جیسے عالم ان کو پڑھاتے تھے عربی ادب اور فقہ میں استعداد علمی کا آغاز انہیں بزرگ اساتذہ کی بدولت ہوا۔ فارسی اور علم عروض کی تعلیم انہوں نے میندو لال رازؔ سے حاصل کی۔ 1868ء میں پندرہ برس کی عمر میں یہ اپنی والدہ کے ساتھ مٹیا برج (کلکتہ ) چلے آئے جہاں واجد علی شاہ کی بدولت ایک چھوٹا لکھنؤ آباد ہو گیا تھا۔ یہاں مولانا محمد علی مجتہد العصر سے درسِ نظامی منطق اور فلسفہ پڑھا اور اس طرح اپنی تعلیم مکمل کی۔ پھر وہ مٹیا برج میں ہی واقع شہزادگانِ اودھ کے لئے قائم کردہ مدرسہ میں ملازم ہو گئے۔ مدرسہ کے انگریزی کے استاذ محمد عسکری سے انہوں نے انگریزی زبان سیکھی اور اسکے بدلے عسکری صاحب کو عربی پڑھائی۔ واجد علی شاہ کے انتقال کے بعد مدرسہ ٹوٹ گیا تو ان کا ذریعہ معاش ختم ہو گیا۔ پھر مولوی سید افضل حسین لکھنؤی ، چیف جسٹس حیدرآباد کی دعوت پر 1887ء میں نظمؔ صاحب حیدرآباد آ گئے۔ افضل حسین صاحب سے ان کی ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب وہ اس سے قبل تفریحاً حیدرآباد آئے تھے۔ کسی مستقل معاشی وسیلہ کے فراہم ہونے تک افضل حسین صاحب نے اپنے فرزند آغا سید حسین کی اتالیقی ان کے سپرد کی۔ 1889ء میں نواب عماد الملک سید حسین بلگرامی نے جو ناظم تعلیمات تھے نظمؔ صاحب کو مدرسہ اعزہ میں عربی کا استاد مقرر کر دیا۔ 1890ء میں کتب خانہ آصفیہ کے پہلے مہتمم بنائے گئے۔ اس کی تنظیم اور توسیع میں نظمؔ صاحب نے بڑی دلچسپی لی۔ اس وقت یہ کتب خانہ اس جگہ تھا جہاں پر اب صدر ٹپہ خانہ عابد روڈ سرکل پر ہے۔ اسکے بعد مدرسہ عالیہ میں عربی فارسی کے استاد کی حیثیت سے ان کا تقرر ہوا۔ پھر ان کا تبادلہ نظام کالج کر دیا گیا جہاں پہلے عربی اور فارسی پڑھاتے رہے پھر اردو کے پروفیسر بنا دئے گئے۔ 1912ء میں ایک سال سے کچھ زیادہ عرصہ تک شہزادگان آصفیہ کے اتالیق رہے پھر نظام سابع کے حکم سے 1918ء نظمؔ صاحب کو صرفِ خاص مبارک سے جامعہ عثمانیہ کے دار الترجمہ منتقل کر دیا۔ یہاں پر ان کی تدریسی مشغولیات ختم ہوئیں اور علمی اور ادبی تحقیقات کی زندگی کا آغاز ہوا۔ 1921ء میں وظیفہ پر علیحدہ ہونے کے بعد ان کو دوبارہ ملازمت پر بلا لیا گیا کیونکہ ان کے بغیر بہت سے کام رک گئے تھے۔ ملازمت کا یہ سلسلہ ان کے انتقال 1933ء تک جاری رہا۔ سرکاری وظیفہ کے علاوہ ان کو دار الترجمہ کی خدمت اور تاریخ طبری کے اردو ترجمے پر انعام و اکرام سے نوازا گیا تھا۔ 1927ء کو انہیں سرکار نظام کی طرف سے حیدر یار جنگ کا خطاب عطا کیا گیا ہے۔ شاعری میں انکے شاگردوں میں سلطنت اودھ اور سلطنت آصفیہ کے شہزادگان کے علاوہ اور بھی بہت سے ایسے لوگ ہیں جو دنیائے ادب میں نامور ہوئے۔ مرزا آسمان جاہ انجم ، پرنس جہاں قدر نیر (داماد واجد علی شاہ )، عبدالحلیم شرر ، پنڈت رتن ناتھ سرشارؔ، منشی فیاض الدین فیاض ؔ ، سید غلام مصطفےٰ ذہین ، سید ناظر حسین ہوش بلگرامی ، مہاراجہ کرشن پرشاد، نواب تراب یار جنگ سعید، حکیم محمد عابد غیور ؔ ، شہید یار جنگ شہید، اصغر یار جنگ اصغر ؔ اور میرے والد سید علی محمد اجلال۔ یہ نسبت دیگر ماہرین زبان کے نظمؔ صاحب کی شہرت یوں عام نہیں ہے ان کے رشحاتِ قلم اتنے بلند ہیں کہ ان کو پڑھنے والا اپنی بے بضاعتی کی وجہ سے گھبراتا ہے اور اس لئے صرف نظر کر لیتا ہے۔ جب نظمؔ صاحب نے دیوان غالبؔ کی شرح اعلیٰ جماعتوں میں پڑھنے والے اور ریسرچ کے طالب علموں کی مدد کے لئے لکھی تو عام ادیبوں نے یہ اعتراض کیا کہ یہ شرح ایسی ہے جس کیلئے ایک اور شرح کی ضرورت ہے۔ یہ بالواسطہ اعتراف کم علمی تھا۔ یہ نظم ؔ طباطبائی کی ہی جلالتِ علمی تھی کہ انہوں نے غالب کے ہر شعر پر نگاہ ڈالی اور اسکے محاسن اور معائب پر بے لاگ تبصرہ کیا اور جو فیصلہ انہوں نے سنا دیا وہ آج تک حرف آخر کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ شرح عوام کے لئے نہیں لکھی گئی تھی۔ ویسے بھی دیکھا جائے تو غالب کا کلام باوجود شہرت کے جس قدر عام آدمی کے لئے ہے وہ صرف چند ہی اشعار پر مشتمل ہے۔ غالب کے کلام کے دیگر شارحین نے نظمؔ صاحب کی شرح کو ہی پیش نظر رکھا ہے یا ان ہی کے اشارات کو تفصیل یا اجمال یا تکرار سے بیان کیا ہے۔ اور اختلاف وہاں کیا ہے جہاں انہوں نے غالب ؔ کے خلاف لکھا ہے۔ غالب ؔ کے بعد شاعری میں جو تجربے کئے گئے وہ موضوع کے اعتبار سے تھے جس میں ردیف ، قافیہ ، اور بحر کی ساری رائج الوقت پابندیاں سامنے رکھی گئی تھیں لیکن نظم ؔ صاحب نے یہ اجتہاد کیا کہ نظمؔ اور شعر کی ’’ہئیت ‘‘ میں نئے نئے تجربات کئے۔ غزل ، مثنوی ، رباعی وغیرہ کی عام ہئیت سے ہٹ کر انہوں نے اردو میں اسٹینزا (stanza) کو رائج کیا اور انگریزی ساخت کی نظمیں لکھیں جو ایک بالکل نئی چیز تھی۔ انہوں نے انگریزی منظومات کے اردو منظومات میں انگریزی نہج پر ترجمے کئے اور ایک نئی بات یہ کی کہ ردیف اور قافیہ انگریزی اصولوں کی بناء پر متعین کئے۔ نظمؔ صاحب کے بعد ہی اردو میں اسٹینزا نویسی کا آغاز ہوا۔ نظمؔ طباطبائی کے انگریزی منظومات سے کئے گئے یوں تو بہت سے ترجمے اردو میں موجود ہیں لیکن جو مرتبہ انگلستان کے نامی شاعر طامس گرے کی ایلیجی Elegyکے ترجمہ ’’گور اسغریباں ‘‘ کو حاصل ہے اس درجہ کو آج تک کوئی نہ پہنچ سکا۔ ’’گور غریباں ‘‘ کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ نظمؔ صاحب نے مفہوم کا ترجمہ کیا ہے اور اردو زبان کے اسلوب اور مقامی اسلوب اور مقامی ماحول کا پورا پورا لحاظ رکھا ہے۔ یہ لفظی ترجمہ نہ ہونے کے باوجود ایلیجی کی تمام خوبیاں موجود ہیں۔ اگر اس کے لئے لفظ ترجمہ استعمال نہ کیا جائے تو یہ کلاسیکی ادب اردو کی بلند پایہ منظومات میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ بقول پروفیسر سروری کے یہ ان چند ترجموں میں سے ایک ہے جو اصل سے بڑھ گئے ہیں۔ اس ساری نظم میں الفاظ کے وہ موتی پروئے گئے ہیں۔ اس ساری نظم میں الفاظ کے وہ موتی پروئے گئے کہ عروسِ شاعری کا حسن دمک اٹھا ہے۔ یہ نظمؔ اس طرح شروع ہوتی ہے۔
وداع روز روشن ہے گجر شام غریباں کا
چراگاہوں سے پلٹے قافلے وہ بے زبانوں کے
قدم کس شوق سے گھر کی طرف اٹھتا ہے دہقاں کا
یہ ویرانہ ہے میں ہوں اور طائر آشیانوں کے
چونکہ یہ ایک مرثیہ کا ابتدائی بند ہے اس لئے اگر آپ اسکی لفظیات پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ الفاظ وداع ،شامِ غریباں ، بے زبانی ، ویرانہ وغیرہ ایسے ہیں جو نوحہ گری کا ماحول پیدا کر رہے ہیں اس کے علاوہ بحر میں بھی ایک دھیمے قسم کا سوز پایا جاتا ہے۔ یہی تاثرات کم و بیش آخر تک موجود ہیں۔ اس مختصر مضمون میں تحسین کی زیادہ گنجائش نہیں ہے صرف ایک بند کی طرف توجہ دلانا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا بے نام،غریب اور معصوم زندگی جی کر گاؤں کے قبرستان میں دفن ہو جانے والوں کے لئے کتنی خوبصورت تشبیہیں استعمال کی گئی ہیں۔
بہت سے گوہر شہوار باقی رہ گئے ہونگے
کہ جن کی خوبیاں سب مٹ گئیں تہہ میں سمندر کی
ہزاروں پھول دشت و در میں ایسے بھی کھلے ہونگے
کہ جن کے مسکرانے میں ہے، خوشبو مشک اذفر کی
(اذفر۔ تیز خوشبو )
طباطبائی کی شعری تخلیقات صرف دو۔ دواوین کی صورت میں ہیں۔ ایک دیوان قصائد اور منظومات کا ہے جو ’’ نظمؔ طباطبائی ‘‘ کے نام سے موسوم ہے اور دوسرا دیوان ’’صوتِ تغزل‘‘ ہے۔ غزلیں ساری فرمائشی ہیں یا کسی مصرعہ طرح پر ہیں۔ بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے ارادے سے کبھی کوئی غزل نہیں کہی۔ ان کے کچھ اشعار یہ ہیں۔
عبث ہے آپ کی تغیر حال کا رونا
جناب نظمؔ رہی ایک سدا کس کی
اے صبا ! تذکرہ وطن کا نہ کر
رہنے والے ہیں دشتِ غربت کے
آدمی آدمی کے کام آئے
یہی معنی ہے آدمیت کے
تقدیر کے لکھے کو نہ ہرگز برا سمجھ
لغزش محال ہے قلم کارساز میں
نظمؔ صاحب دراز قد ، کسی قدر مٹانے کی طرف مائل جسم ،کتابی چہرہ ، بھرے بھرے گال ، گھنی داڑھی اونچی ناک ، غلافی آنکھیں (مطالعہ کی کثرت کی وجہ سے آنکھوں کے پپوٹے ڈھلک گئے تھے ) اور سرخ و سفید رنگ کے مالک تھے۔ شیر وانی زیب تن کرتے تھے۔ کبھی ایرانی کبھی ترکی ٹوپی پہنتے تھے۔ آصف جاہی دربار میں ان پر درباری لباس کی پابندی نہیں تھی۔ 1928ء میں رفیقہ حیات کے انتقال کے بعد ان کی عام تندرستی بہت خراب ہو گئی مگر ان کی مصروفیات میں کوئی خلل نہیں آ سکا چنانچہ انتقال سے دو دن قبل تک وضع اصطلاحات کی مجلس میں شریک رہے۔ 23 مئی 1933ء بروز سہ شنبہ داعی اجل کو لبیک کہا۔ باغ مرلی دھر کے عقب میں تکیہ موسیٰ شاہ قادری میں مدفون ہوئے۔ ان کے مدفن پر جو کتبہ لگا ہے اس پر ان کا یہ شعر کندہ ہے۔
مل گئی قبر کی جگہ اے نظمؔ
ہو گئی ختم عمر بھر کی تلاش
اور اسی لوح کی دوسری طرف ’’گور غریباں ‘‘ کے آخری بند درج ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ طامس گرے کے مزار پر بھی یہی اشعار انگریزی میں تحریر ہیں۔ سچ ہے کہ غم ہستی کے افسانے میں ساری انسانیت شریک ہے۔
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
مصنف مرحوم ایک خط میں خود اس مطلع کے معنی بیان کرتے ہیں کہتے ہیں ، ایران میں رسم ہے کہ داد خواہ کاغذ کے کپڑے پہن کر حاکم کے سامنے جاتا ہے ، جیسے مشعل دن کو جلانا یا خون آلودہ کپڑا بانس پر لٹکا لے جانا ، پس شاعر خیال کرتا ہے کہ نقش کس کی شوخی تحریر کا فریادی ہے کہ جو صورتِ تصویر ہے ، اُس کا پیرہن کاغذی ہے ، یعنی ہستی اگرچہ مثل ہستی تصاویر اعتبار محض ہو موجب رنج و ملال و آزار ہے ، غرض مصنف کی یہ ہے کہ ہستی میں مبداء حقیقی سے جدائی و غیریت ہو جاتی ہے اور اس معشوق کی مفارقت ایسی شاق ہے کہ نقش تصویر تک اُس کا فریادی ہے اور پھر تصویر کی ہستی کوئی ہستی نہیں ، مگر فنا فی اللہ ہونے کی اُسے بھی آرزو ہے کہ اپنی ہستی سے نالاں ہے ، کاغذی پیرہن فریادی سے کنایہ فارسی میں بھی ہے اور اُردو میں ، میر ممنونؔ کے کلام میں اور مومنؔ خاں کے کلام میں بھی میں نے دیکھا ہے ، مگر مصنف کا یہ کہنا کہ ایران میں رسم ہے کہ دادخواہ کاغذ کے کپڑے پہن کر حاکم کے سامنے جاتا ہے ، میں نے یہ ذکر نہ کہیں دیکھا نہ سنا ، اس شعر میں جب تک کوئی ایسا لفظ نہ ہو جس سے فنا فی اللہ ہونے کا شوق اور ہستی اعتباری سے نفرت ظاہر ہو اس وقت تک اسے بامعنی نہیں کہہ سکتے ، کوئی جان بوجھ کر تو بے معنی کہتا نہیں یہی ہوتا ہے کہ وزن و قافیہ کی تنگی سے بعض بعض ضروری لفظوں کی گنجائش نہ ہوئی اور شاعر سمجھا کہ مطلب ادا ہو گیا تو جتنے معنی کہ شاعر کے ذہن میں رہ گئے ، اسی کو المعنی فی بطن الشاعر کہنا چاہئے ، اس شعر میں مصنف کی غرض یہ تھی کہ نقش تصویر فریادی ہے ، ہستی بے اعتبار و بے توقیر کا اور یہی سبب ہے کاغذی پیرہن ہونے کا ہستی بے اعتبار کی گنجائش نہ ہو سکی اس سبب سے کہ قافیہ مزاحم تھا اور مقصود تھا مطلع کہنا ہستی کے بدلے شوخی تحریر کہہ دیا اور اس سے کوئی قرینہ ہستی کے حذف پر نہیں پیدا ہوا آخر خود ان کے منہ پر لوگوں نے کہہ دیا کہ شعر بے معنی ہے۔
کاوِ کاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
کاوِ کاوِ کھودنا اور کریدنا مطلب یہ ہے کہ تنہائی و فراق میں سخت جانی کے چلتے اور دم نہ نکلنے کے ہاتھوں جیسی جیسی کاوشیں اور کاہشیں مجھ پر گذر جاتی ہیں اُسے کچھ نہ پوچھ رات کا کاٹنا اور صبح کرنا جوئے شیر کے لانے سے کم نہیں یعنی جس طرح جوئے شیر لانا فرہاد کے لئے دُشوار کام تھا
اسی طرح صبح کرنا مجھے بہت ہی دُشوار ہے۔ اس شعر میں شاعر نے اپنے تئیں کوہکن اور اپنی سخت جانی شب ہجر کو کوہ اور سپیدۂ صبح کو جوئے شیر سے تشبیہ دی ہے۔
جذبۂ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہئے
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
دم کے معنی سانس اور باڑھ اور یہاں دونوں معنی تعلق و مناسبت رکھتے ہیں کہ سینۂ شمشیر کہا ہے ، مطلب یہ ہے کہ میرے اشتیاق قتل میں ایسا جذب و کشش ہے کہ تلوار کے سینہ سے اس کا دم باہر کھینچ آیا۔
آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
یعنی میری تقریر کو جس قدر جی چاہے سنو ، اُس کے مطلب کو پہنچنا محال ہے ، اگر شوق آگہی نے صیاد بن کر شنیدن کا جال بچھایا بھی تو کیا ، میری تقریر کا مطلب طائر عنقا ہے جو کبھی اسیر دام نہیں ہونے کا غرض یہ ہے کہ میرے اشعار سراسر اسرار ہیں۔
بسکہ ہوں غالبؔ اسیری میں بھی آتش زیرپا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
مضطرب اور بے تاب کو آتش زیرپا کہتے ہیں اور آتش جب دیرپا ہوئی تو زنجیرپا گویا موئے آتش دیدہ ہے اور یہ معلوم ہے کہ بال آگ کو دیکھ کر پیچ دار ہو جاتا ہے اور حلقۂ زنجیر کی سی ہیئت پیدا کرتا ہے۔
_______
جراحت تحفہ الماس ارمغاں داغِ جگر ہدیہ
مبارکباد اسدؔ غم خوارِ جانِ دردمند آیا
مشہور ہے کہ الماس کے کھالینے سے دل و جگر زخمی ہو جاتے ہیں تو جو شخص کہ زخم دل و جگر کا شائق ہے ، الماس اُس کے لئے ارمغاں ہے ، یہ سارا شعر مبارکبادی کا مضمون ہے ، کہتا ہے کہ ایسی ایسی نعمتیں اور ہدیے حسن و عشق نے مجھے دئیے ، وہ میرا غم خوار ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ غم خوار سے ناصح مراد ہے اور مبارکباد تشنیع کی راہ سے ہے۔
جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار
صحرا مگر بہ تنگی چشم حسود تھا
یعنی ایک قیس کا نام تو صحرا نوردی میں ہو گیا ، اس کے سوا کسی اور کی بہتری صحرائے حاسدِ چشم سے نہ دیکھی گئی ، گویا کہ صحرا باوجود وسعتِ چشم حاسد کی سی تنگی رکھتا ہے ، مگر یہاں شاید کے معنی رکھتا ہے۔
آشفتگی نے نقش سویدا کیا دُرست
ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا
داغ سویدائے دل سے ہمیشہ دود آہ اُٹھ اُٹھ کر پھیلا کرتا ہے ، اس سے ظاہر ہوا کہ سویدائے دل کی حلقت آشفتگی سے ہے ، معنوی تعقید اس شعر میں یہ ہو گئی ہے کہ پریشانی کی جگہ آشفتگی کہہ گئے ہیں ، غرض یہ تھی کہ سویدائے دل سے دود پریشان اُٹھا کرتا ہے اور اس کا سرمایہ و حاصل جو کچھ ہے یہی دود آہ ہے جو ایک پریشان چیز ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ یہ نقش سویدا خدا نے محض پریشانی ہی سے بنایا ہے اور یہ داغ دود آہ سے پیدا ہوا ہے ، جبھی تو اس سے ہمیشہ دُھواں اُٹھا کرتا ہے۔
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا
یعنی زمانہ عیش اس طرح گذر گیا جیسے خواب دیکھا تھا ، نہ اب لطفِ وصل ہے ، نہ صدمۂ ہجر کا مزہ ہے ، یوں سمجھو کہ مصنف نے گویا اس شعر کو یوں کہا ہے : ’’ زمانہ عیش نہ تھا بلکہ تھا خواب میں خیال کو الخ ‘‘۔
پڑھتا ہوں مکتبِ غم دل میں سبق ہنوز
لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا
غم وہ کیفیتِ نفسانی ہے جو مطلوب کے فوت ہو جانے سے پیدا ہو ، مطلب یہ ہے کہ مکتبِ غم میں میرا سبق یہ ہے کہ رفت گیا اور بود تھا ، یعنی زمانہ عیش کبھی تھا اور اب جاتا رہا۔
ڈھانپا کفن نے داغِ عیوب برہنگی
میں ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا
یعنی مرجانے ہی سے عیبِ برہنگی مٹا نہیں تو ہر لباس میں میں ننگِ ہستی و وجود تھا ، ننگِ وجود ہونے کو برہنگی سے تعبیر کیا ہے ، فقط لفظ کا متشابہ مصنف کے ذہن کو اُدھر لے گیا۔
تیشہ بغیر مر نہ سکا کوہ کن اسدؔ
سرگشتۂ خمار رسوم و قیود تھا
کوہ کن پر طعن ہے کہ رسم و راہ کی پابندی جو دیوانگی و آزادی کے خلاف ہے ، اس قدر اس کو تھی کہ جب تیشہ سے سر پھوڑا تو کہیں مرا ، اگر نشہ عشق کامل ہوتا تو بغیر سر پھوڑے مرگیا ہوتا ، خمارِ نشہ اُترنے سے جو بے کیفیتی اور بے مزگی ہوتی ہے ، اُسے کہتے ہیں رسوم و قیود کو بے مزہ و بے لطف ظاہر کرنے کے لئے اُسے خمار سے تشبیہ دی ہے۔
_______
کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا
دل کہاں کہ گم کیجئے ہم نے مدعا پایا
یعنی تمہاری چتون یہ کہہ رہی ہے کہ تیرا دل کہیں پڑا پائیں گے تو پھر ہم نہ دیں گے ، یہاں دل ہی نہیں ہے جسے ہم کھوئیں اور تمہیں پڑا ہوا مل جائے ، مگر اس لگاوٹ سے ہم سمجھ گئے دل تمہارے ہی پاس ہے۔
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزہ پایا
درد کی دوا پائی درد بے دوا پایا
یعنی زیست میرے لئے ایک درد تھی کہ عشق اُس کی دوا ہو گیا اور خود وہ درد بے دوا ہے۔
دوست دارِ دُشمن ہے اعتماد دل معلوم
آہ بے اثر دیکھی نالہ نارسا پایا
یعنی آہ میں اثر نہیں ، نالہ میں رسائی نہیں ، دل پر بھروسہ نہیں کہ وہ دُشمن کا دوست ہے۔
سادگی و پرکاری بے خودی و ہوشیاری
حسن کو تغافل میں جرأت آزما پایا
یعنی حسینوں کا تغافل کرنا اور عشاق کے حال سے بے خبر بننا یہ فقط عشاق کا دل دیکھنے کے لئے اور جرأت آزمانے کے واسطے ہے ، اصل میں پرکاری و ہوشیاری ہے اور ظاہر میں سادگی و بے خبری ہے۔
غنچہ پھر لگا کھلنے آج ہم نے اپنا دل
خوں کیا ہوا دیکھا گم کیا ہوا پایا
ایک عاشق بے دل غنچہ پر یہ گمان کرتا ہے کہ یہی میرا دل ہے جو مدت سے کھویا ہوا تھا۔
حالِ دل نہیں معلوم لیکن اس قدر یعنی
ہم نے بارہا ڈھونڈا تم نے بارہا پایا
ڈھونڈا اور پایا کا مفعول بہ دل ہے۔
شورپند ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا
آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا
’ آپ ، کا اشارہ ناصح کی طرف ہے اور اس میں تعظیم نکلتی ہے اور مقصود تشنیع ہے اور مزہ اور شور نمک کے مناسبات میں سے ہیں ، مصنف نے ’ مزہ ، کو قافیہ کیا اور ہائے مختفی کو الف سے بدلا ، اُردو کہنے والے اس طرح کے قافیہ کو جائز سمجھتے ہیں ، وجہ یہ ہے کہ قافیہ میں حروفِ ملفوظہ کا اعتبار ہے ، جب یہ ’ہ ، ملفوظہ نہیں بلکہ ’ ز ، کے اشباع سے الف پیدا ہوتا ہے تو پھر کون مانع ہے اُسے حرف روی قرار دینے سے ، اسی طرح سے فوراً اور دُشمن قافیہ ہو جاتا ہے ، گو رسم خط اس کے خلاف ہے ، لیکن فارسی والے مزہ اور دوا کا قافیہ نہیں کرتے اور وجہ اُس کی یہ ہے کہ وہ ہائے مختفی کو کبھی حرف روی ہونے کے قابل نہیں جانتے۔
_______
دل مرا سوزِ نہاں سے بے محابا جل گیا
آتش خاموش کے مانند گویا جل گیا
یعنی چپکے چپکے کس طرح جلا کیا کہ کسی کو خبر نہ ہوئی ، ’ گویا ، کا لفظ خاموش کی مناسبت سے ہے ، ’ مانند ، کا لفظ بول چال میں نہیں ہے ، مگر شعراء نظم کیا کرتے ہیں۔
دل میں ذوقِ وصل و یاد یار تک باقی نہیں
آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا
یعنی رشک کی آگ ایسی تھی کہ معشوق کو دل سے بھلادیا اور اس کا غیر سے ملنا دیکھ کر ذوقِ وصل جاتا رہا۔ گھر سے دل مراد ہے اور آگ سے رشکِ رقیب۔
میں عدم سے بھی پرے ہوں ورنہ غافل بارہا
میری آہِ آتشیں سے بالِ عنقا جل گیا
مصنف کی غرض یہ ہے کہ میری نیستی و فنا یہاں تک پہنچی کہ اب میں عدم میں بھی نہیں ہوں اور اس سے آگے نکل گیا ہوں ، ورنہ جب تک میں عدم میں تھا ، جب تک میری آہ سے عنقا کا شہپر اکثر جل گیا ہے ، عنقا ایک طائر معدوم کو کہتے ہیں اور جب وہ معدوم ہوا تو وہ بھی عدم میں ہوا اور ایک ہی میدان میں آہِ آتشیں و بالِ عنقا کا اجتماع ہوا ، اسی سبب سے آہ سے شہپر عنقا جل گیا ، لیکن مصنف کا یہ کہنا کہ میں عدم سے بھی باہر ہوں ، اس کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ میں نہ موجود ہوں ، نہ معدوم ہوں اور نقیضین مجھ سے مرتفع ہیں ، شاید ایسے ہی اشعار پر دلی میں لوگ کہا کرتے تھے کہ غالب شعر بے معنی کہا کرتے ہیں اور اُس کے جواب میں مصنف نے یہ شعر کہا
نہ ستائش کی تمنا نہ صلہ کی پرواہ
گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی
پرے کا لفظ اب متروک ہے ، لکھنؤ میں ناسخؔ کے زمانہ سے روزمرہ میں عوام الناس کے بھی نہیں ہے ، لیکن دلی میں ابھی تک بولا جاتا ہے اور نظم میں بھی لاتے ہیں ، میں نے اس امر میں نواب مرزا خاں صاحب داغؔ سے تحقیق چاہی تھی ، اُنھوں نے جواب دیا کہ میں نے آپ لوگوں کی خاطر سے ( یعنی لکھنؤ والوں کی خاطر سے ) اس لفظ کو چھوڑ دیا ، مگر یہ کہا کہ مومنؔ خاں صاحب کے اس شعر میں
چل پرے ہٹ مجھے نہ دکھلا منھ
اے شبِ ہجر تیرا کالا منھ
اگر پرے کی جگہ اُدھر کہیں تو برا معلوم ہوتا ہے ، میں نے کہا کہ ’ پرے ہٹ ، بندھا ہوا محاورہ ہے ، اس میں ’ پرے ، کی جگہ ، اُدھر ، کہنا محاورہ میں تصرف کرنا ہے ، اس سبب سے برا معلوم ہوتا ہے ، ورنہ پہلے جس محل پر ’ چل پرے ہٹ ، بولتے تھے اب اُسی محل پر دور بھی محاورہ ہو گیا ہے ، اس توجیہ کو پسند کیا اور مصرع کو پڑھ کر الفاظ کی نشست کو غور سے دیکھا : ’ دور بھی ہو مجھے نہ دکھلا منھ ، اور تحسین کی۔
عرض کیجئے جوہر اندیشہ کی گرمی کہاں
کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا
یعنی یہ کہاں ممکن ہے کہ اپنی طبیعت کی گرمی ظاہر کر سکوں فقط دشت نوردی کا ذرا خیال کیا کہ صحرا میں آگ لگ اُٹھی اور یہ مبالغہ غیر علوی ہے کہ طبیعت میں ایسی گرمی ہو کہ جس چیز کا خیال آئے وہ چیز جل جائے عرض کو لوگ جوہر کے ضلع کا لفظ سمجھتے ہیں حالاں کہ جوہر کے مناسبات میں سے عرض بہ تحریک ہے نہ بہ سکون۔
دل نہیں تجھ کو دکھاتا ورنہ داغوں کی بہار
اس چراغاں کا کروں کیا کارفرما جل گیا
دل کو کارفرما بنایا ہے اور داغوں کو چراغاں لفظ چراغاں کو چراغ کی جمع نہ سمجھنا چاہئے۔
میں ہوں اور افسردگی کی آرزو غالب ؔکہ دل
دیکھ کر طرزِ تپاک اہل دُنیا جل گیا
طرزِ تپاک سے تپاک ظاہری و نفاق باطنی مراد ہے اور افسردگی اور جلنا اس کے مناسبات سے ہیں۔
شوق ، ہر رنگ رقیبِ سر و ساماں نکلا
قیس تصویر کے پردہ میں بھی عریاں نکلا
یعنی مجنوں کی تصویر بھی کھنچتی ہے تو ننگی ہی کھنچتی ہے ، اس حال میں بھی عشق دُشمن سر و سامان ہے ، شوق سے مراد عشق ہے ، ہر رنگ کے معنی ہر حال میں اور ہر طرح سے اگر یوں کہتے کہ شوق ہر طرح رقیب سر و ساماں نکلا جب بھی مصرع موزوں تھا ، لیکن تصویر کے مناسبات میں سے رنگ کو سمجھ کر ہر رنگ کہا اور ہر طرح و بے طرح کو ترک کیا ، مناسبات کے لئے محاورہ کا لفظ چھوڑ دینا اچھا نہیں اور رقیب کے معنی دُشمن کے لئے ہیں۔
زخم نے داد نہ دی تنگیٔ دل کی یارب
تیر بھی سینۂ بسمل سے پر افشاں نکلا
یعنی زخم دل نے بھی کچھ تنگی دل کی تدبیر نہ کی اور زخم سے بھی دلِ تنگی کی شکایت دفع نہ ہوئی کہ وہی تیر جس سے زخم لگا وہ میری تنگیٔدل سے ایسا سراسیمہ ہوا کہ پھڑکتا ہوا نکلا تیر کے پر ہوتے ہیں اور اُڑتا ہے ، اس سبب سے پر افشانی جو کہ صفتِ مرغ ہے ، تیر کے لئے بہت مناسب ہے ، مصنف مرحوم لکھتے ہیں یہ ایک بات میں نے اپنی طبیعت سے نئی نکالی ہے ، جیسا کہ اس شعر میں
نہیں ذریعۂ راحت جراحت پیکاں
وہ زخم تیغ ہے جس کو دل کشا کہئے
یعنی زخم تیر کی توہین بسبب ایک رخنہ ہونے کے اور تلوار کے زخم کی تحسین بسبب ایک طاق سا کھل جانے کے۔
بوئے گل نالۂ دل دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا
یعنی تیری بزم سے نکلنا پریشانی کا باعث ہے ، پہلے مصرع میں سے فعل اور حرفِ تردید محذوف ہے ، یعنی پھولوں کی مہک ہو یا شمعوں کا دُھواں ہو یا عشاق کی فغاں ہو۔
دل حسرت زدہ تھا مائدۂ لذتِ درد
کام یاروں کا بقدرِ لب و دنداں نکلا
یعنی جس میں جتنی قابلیت تھی اُس نے اُسی قدر مجھ سے لذتِ درد کو حاصل کیا ، ورنہ یہاں کچھ کمی نہ تھی ، کام کا لفظ لب و دنداں کے ضلع کاہے۔
تھی نو آموز فنا ہمت دُشوار پسند
سخت مشکل ہے کہ یہ کام بھی آساں نکلا
اے ہمت تو باوجود یہ کہ ابھی نو آموز فنا ہے ، کس آسانی سے مرحلۂ فنا کو طے کرگئی ، ہمت کو دُشوار پسند کہہ کر یہ مطلب ظاہر کرنا منظور ہے کہ میری ہمت خوف و خطر میں مبتلا ہونے کو لذت سمجھتی ہے یہ کام اشارہ ہے فنا کی طرف یعنی ہم جانتے تھے کہ جان دینا بہت مشکل کام ہے مگر افسوس ہے کہ وہ بھی آساں نکلا۔
دل میں پھر گریہ نے اک شور اُٹھایا غالبؔ
آہ ! جو قطرہ نہ نکلا ، تھا سو طوفاں نکلا
یعنی جس گریہ پر میرا ضبط ایسا غالب تھا کہ میں اُسے قطرہ سے کم سمجھتا تھا ، اب وہ طوفان بن کر مجھ پر غالب ہو گیا۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ آنسو کا جو قطرہ کہ آنکھ سے نکلا نہ تھا وہ اب طوفان ہو گیا۔
_______
دھمکی میں مرگیا جو نہ باب نبرد تھا
عشق نبرد پیشہ طلب گار مرد تھا
باب نبرد یعنی لائق نبرد مطلب یہ ہے کہ جو شخص مرد میدانِ عشق نہ تھا وہ اس کی دھمکی ہی میں مرگیا ، میر ممنون ؔ کے کلام میں باب ان معنی پر بہت جگہ آیا ہے۔
تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
اُڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا
یعنی رنگ میرا جب نہیں اُڑا تھا جب بھی زرد تھا ، ورنہ مرنے کے وقت تو سبھی کا رنگ اُڑکر زرد ہو جاتا ہے اور مردنی چہرہ پر پھر جاتی ہے ، یعنی اُڑنے سے مرنے کے وقت اُڑنا رنگ کا مقصود ہے
تالیف نسخہائے وفا کر رہا تھا میں
مجموعۂ خیال ابھی فرد فرد تھا
یعنی فن عشق میں مجھے اور بھی مرتبۂ تصنیف حاصل ہو چکا تھا ، میرے عقل و ہوش کا مجموعہ تک فرد فرد غیر مرتب ہورہا تھا یعنی ناتجربہ کاری کا زمانہ تھا۔
دل تا جگر کہ ساحل دریائے خوں ہے آب
اس رہ گذر میں جلوۂ گل آگے گرد تھا
یعنی میرے دل سے لے کر جگر تک اب تو ایک دریائے خون ہے آگے اسی رہ گذر میں وہ بہاریں تھیں کہ جلوۂ گل جس کے آگے گرد ہوا جاتا تھا ، یعنی کسی زمانہ میں ہم بھی دلِ شگفتہ و رنگین رکھتے تھے اور اب خاطر افسردہ و غمگین رکھتے ہیں۔
جاتی ہے کوئی کشمکش اندوہِ عشق کی
دل بھی اگر گیا تو وہی دل کا درد تھا
یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی طرح اندوہِ عشق کم ہو جائے ، دل بھی جاتا رہا ، جب بھی اسی طرح دردِ دل باقی رہا ، وہی کے معنی ، اسی طرح دوسرا پہلو یہ ہے کہ دل کا جانا خود ہی دردِ دل ہے۔
احباب چارہ سازی وحشت نہ کر سکے
زنداں میں بھی خیال بیاباں نورد تھا
یعنی میں زنداں میں بند تھا ، مگر میرا خیال بیاباں میں تھا ، کچھ قید سے چارہ سازی ، وحشت نہ ہوئی۔
یہ لاش بے کفن اسد ؔ خستہ جاں کی ہے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
یعنی عجب آزاد تھا کہ لاش بے کفن ہے۔
_______
شمار سبحہ مرغوب بتِ مشکل پسند آیا
تماشائے بیک کف بردنِ صد دل پسند آیا
مرغوب آیا ، یعنی مرغوب ہوا ، مشکل پسند بت کی صفت ہے محض قافیہ کے لئے حاصل اس شعر کا یہ ہے کہ اُسے ایک ہتھے میں سو سو دل عاشقوں کے لے لینا پسند ہے ، پھر اس سو دل کی ایک تسبیح بھی مصنف نے بنائی ہے اور کہتے ہیں کہ گویا اُسے تسبیح کا شمار بہت مرغوب ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ مصنف نے بیک کف بردن صد دل میں حساب عقد انامل کی طرف اشارہ کیا ہے اور عقدِ صد کی یہ شکل ہے کہ چھنگلیا کی سر کو انگوٹھے کی جڑ میں لگا کر انگوٹھا سارا اُس کی پشت پر جمادیتے ہیں ، عرب میں اس حساب کا رواج تھا ، رسولِ خدا انے جس حدیث میں فتنۂ چنگیز و ہلاکو و تیمور وغیرہ کی زینب بنت جحش ؓسے پیشین گوئی کی ہے ، اس میں ذکر ہے : حضرت ایک دن ڈرے ہوئے ان کے پاس آئے اور فرمایا : ’’ لا الہ الا اﷲ ویل للعرب من شرقد اقترب فتح الیوم من روم ، یاجوج وماجوج مثل ہذہ ‘‘ یہ کہہ کر آپ نے کلمہ کی اُنگلی کو انگوٹھے سے ملا کر حلقہ بنایا ذہیب اور سفیان بن عیینہ نے اس حدیث کو روایت کر کے عقدِ تسعین کی شکل دونوں اُنگلیوں سے بنائی ، یعنی کلمہ کی اُنگلی کا سر انگوٹھے کی جڑ میں سے لگا کر انگوٹھے کو اس کی پشت پر جمادیا ، فتنۂ تاتار سے کئی سو برس پیشتر کی کتابوں میں بخاری وغیرہ کی یہ حدیث موجود ہے ، خوارزم شاہ نے جب دیوارِ ترکستان کو کھدوا ڈالا جب ہی سے چنگیز و ہلاکو و تیمور کو ملی اور سلطنت عرب کو تباہ کرڈالا ، اُس زمانہ میں شاہ خوارزم قطب الدین سلجوقی تھے۔
بفیض بے دلی نومیدی جاوید آساں ہے
کشائش کو ہمارا عقدۂ مشکل پسند آیا
یعنی دُنیا کی طرف سے جو بے دلی و بے دماغی ہم کو ہے اس کی بدولت صدمہ نومیدی و یاس کا اُٹھا لینا ہم کو سہل ہے ، ہمیں دُنیا پر خود رغبت نہیں ہے ، کشود کار کی اُمید ہو تو کیا اور نا اُمیدی ہو جائے تو کیا۔ یہ پہلے مصرع کے معنی ہوئے اور دوسرے مصرع کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا عقدۂ مشکل کشائش کو پسند آگیا ، یعنی اب کبھی اس کی کشائش نہ ہو گی ، اس سبب سے کہ کشائش کو اس کا عقدہ ہی رہنا پسند ہے اور پسند اس سبب سے ہے کہ ہمیں پرواہ نہیں ، پھر ایسی بے نیازی کشائش کو کیوں نہ پسند آئے۔
ہوائے سیر گل آئینۂ بے مہری قاتل
کہ اندازِ بخوں غلطیدن بسمل پسند آیا
یعنی اسے تماشائے گل کی خواہش ہونا اُس کی بے مہری کا آئینہ ہے اور اس کی جفاجوئی کی دلیل ہے ، اس وجہ سے کہ گل میں بسمل بخوں غلطیدہ کا انداز ہے ، پہلے مصرع میں سے فعل محذوف ہے۔
_______
دہر میں نقش وفا وجہ تسلی نہ ہوا
ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا
یعنی لوگ جو دُنیا میں وفا کرتے ہیں ، اس کے معنی یہی ہیں کہ تسلی چاہتے ہیں ، جب وفا کر کے تسلی نہ ہوئی تو فقط وفا بے معنی و مہمل رہ گیا ، حاصل یہ کہ وفاداریٔ عشاق بے معنی بات ہے۔
سبزۂ خط سے ترا کاکل سرکش نہ دبا
یہ زمرد بھی حریفِ دم افعی نہ ہوا
مشہور ہے کہ زمرد کے سامنے سانپ اندھا ہو جاتا ہے ، مگر تیرا سبزۂ خط کیا زمرد ہے کہ افعی زلف پر اس کا اثر نہ ہوا ، یعنی خط نکل آنے کے بعد بھی زلف کی دل فریبی میں فرق نہیں آیا۔
میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں
وہ ستم گر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا
یعنی مر کے غم سے پیچھا چھڑانا چاہا تو اس نے رسوائی و بدنامی کے اندیشہ سے اسے بھی گوارا نہ کیا ، معنوی خوبیاں اس شعر میں بہت سی ہیں ، کثرتِ اندوہ علاج میں درماندگی اس پر بھی دل آزاری و جفاکاریٔ معشوق ، پھر اس حالت میں بھی اسی کی مرضی پر رہنا۔
دل گذرگاہِ خیالِ مے و ساغر ہی سہی
گر نفس جادۂ سرمنزل تقوی نہ ہوا
تار اور رشتہ اور خط اور جادۂ نفس کے تشبیہات میں سے ہیں ، غرض شاعر کی یہ ہے کہ اگر تقویٰ نہ حاصل ہوا تو رندی ہی سہی ، قافیہ تقویٰ میں فارسی والوں کا اتباع کیا ہے کہ وہ لوگ عربی کے جس جس کلمہ میں ہی دیکھتے ہیں اُس کو کبھی ’ الف ، اور کبھی ’ ی ، کے ساتھ نظم کرتے ہیں۔ ’’ تمنی و تمنا ، تجلی و تجلیٰ وتسلی و تسلیٰ و ہیولی و ہیولیٰ و دینی و دُنیا ‘‘ بکثرت اُن کے کلام میں موجود ہے۔
_______
ہوں ترے وعدہ نہ کرنے میں بھی راضی کہ کبھی
گوش منت کش گل بانگ تسلی نہ ہوا
یعنی اگر تو وعدۂ وصل کرتا تو جب بھی میں خوش تھا ، اس وجہ سے کہ وہ عین مقصود ہے اور تو نے وعدہ نہیں کیا تو اس پر بھی میں خوش ہوں کہ احسان سے بچا اور اُس احسان سے جو کبھی نہیں اُٹھایا تھا۔
کس سے محرومی قسمت کی شکایت کیجئے
ہم نے چاہا تھا کہ مرجائیں سو وہ بھی نہ ہوا
یعنی آخری خواہش میں نے یہ کی تھی کہ موت ہی آجائے اُس سے بھی محروم رہا۔
مرگیا صدمۂ یک جنبش لب سے غالبؔ
ناتوانی سے حریف دمِ عیسیٰ نہ ہوا
اس شعر میں معنی کی نزاکت یہ ہے کہ شاعر حرکتِ لبِ عیسیٰ کو صدائے عیسیٰ کی حرکت سے مقدم سمجھتا ہے ، کہتا ہے کہ میں پہلے حرکتِ لب ہی کے اوجھڑ سے مرگیا اور حریفِ دمِ عیسیٰ نہ ہوا ، یعنی دمِ عیسیٰ سے معاملہ نہ پڑا اور ناتوانی کے سبب سے صدائے عیسیٰ کے سننے کی نوبت ہی نہ آنے پائی۔
_______
ستائش گر ہے زائد اس قدر جس باغ رضواں کا
وہ اک گلدستہ ہے ہم بے خودوں کے طاق نسیاں کا
کسی شئے کو طاق پر رکھنا یا بالائے طاق رکھ دینا محاورہ ہے اس کا خیال ترک کر دینے کے معنی پر اور طاق نسیاں پر رکھنا اور بھی زیادہ مبالغہ ہے اور یہاں گلدستہ کی لفظ نے یہ حسن پیدا کیا ہے کہ گلدستہ کو زینت کے لئے طاق پر رکھا کرتے ہیں ، دوسرے یہ کہ باغ کو مقام تحقیر گلدستہ سے تعبیر کیا ہے ، یہ بھی حسن سے خالی نہیں لیکن یہ حسن بیان و بدیع سے تعلق رکھتا ہے ، معنوی خوبی نہیں ہے۔
بیاں کیا کیجئے بیداد کاوشہائے مژگاں کا
کہ ہر اک قطرۂ خوں دانہ ہے تسبیحِ مرجاں کا
یعنی سوزن مژگاں نے ایسی کاوشیں کیں کہ میرے جسم میں ہر ایک قطرۂ خوں تسبیح مرجان کا دانہ بن گیا ہے یعنی ہر قطرۂ خون سوراخ پڑگیا۔
نہ آئی سطوت قاتل بھی مانع میرے نالوں کو
لیا دانتوں میں جو تنکا ہوا ریشہ نیستاں کا
دستور ہے کہ کسی کے رعب و سطوت کے اظہار کرنے کے لئے جو مرعوب ہو جاتا ہے وہ اپنے دانتوں میں گھانس پھونس اُٹھا کر دبالیتا ہے تاکہ وہ شخص اسے اپنا مطیع و مغلوب سمجھے اور قصدِ قتل سے باز آئے ، شاعر کہتا ہے کہ قاتل کے رعب و سطوت سے بھی میری نالہ کشی نہ موقوف ہوئی میں نے جو تنکا اظہارِ رعب کے لئے دانتوں میں دبایا وہ ریشہ نیستاں ہو گیا اور یہ ظاہر ہے کہ نیستاں میں نے پیدا ہوتی ہے اور نے صاحبِ نالہ ہے غرض کہ وہ تنکا نالہ کشی کی جڑ ہو گیا۔
دکھاؤں گا تماشا ، دی اگر فرصت زمانے نے
مرا ہر داغِ دل ایک تخم ہے سروِ چراغاں کا
یعنی ایک ایک داغ سے نالۂ پرشرر نکلے گا جو سرو چراغاں سے مشابہ ہو گا تو گویا داغ دل وہ بیج ہے جس سے سروِ چراغاں اُگے گا۔
کیا آئینہ خانہ کا وہ نقشہ تیرے جلوہ نے
کرے جو پرتوِ خورشید عالم شبنم ستاں کا
یعنی جس طرح آفتاب کے سامنے شبنم نہیں ٹھہرسکتی اُسی طرح تیرے مقابلہ کی تاب آئینہ نہیں لا سکتا آئینہ خانہ کی تشبیہ شبنم ستاں سے تشبیہ مرکب ہے۔
مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولیٰ برق خرمن کاہے خون گرم دہقاں کا
یعنی میں وہ دہقان ہوں جس کی سرگرمی خود اُسی کے خرمن کے لئے برق کا کام کرتی ہے یعنی خرمن کو جلا ڈالتی ہے۔ یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ حرارت غریزی جو کہ باعثِ حیات ہے خود وہی ہر وقت تحلیل و فنا بھی کر رہی ہے۔ ہیولیٰ بمعنی مادہ اور مصنف نے صورت کی لفظ ہیولیٰ مناسبت سے استعمال کی ہے اور تعمیر سے تعمیر جسم خاکی مقصود ہے خون گرم بھنی ہوئی سرگرمی۔ اس شعر میں جو مسئلہ طب مصنف نے نظم کیا ہے اُسے آگے بھی کئی جگہ باندھا ہے۔
اُگا ہے گھر میں ہر سو سبزہ ویرانی تماشا کر
مدار اب کھودنے پر گھاس کے ہے میرے درباں کا
سبزہ سے مراد سبزۂ بیگانہ ہے اس سبب سے کہ جو سبزہ بے موقع اُگتا ہے اُسے سبزۂ بیگانہ کہتے ہیں اور گھر میں سبزہ کا اُگنا بے موقع ہے تو مراد مصنف کی یہ ہے کہ ویرانی کی نوبت یہ پہنچی ہے کہ سبزۂ بیگانہ میرے گھر میں اُگا ہے اور دربان کا کام ہے کہ بیگانہ کو گھر کے اندر سے نکال دے ، تماشا کر یعنی یہ سیر دیکھ۔
خموشی میں نہاں خوں گشتہ لاکھوں آرزوئیں ہیں
چراغِ مردہ ہوں میں بے زباں گورِ غریباں کا
خاموش آدمی کو بے زبان کہتے ہیں اور چراغ کی لو کو زبان سے تشبیہ دیتے ہیں تو بجھے ہوئے چراغ کو بے زبان آدمی کے ساتھ مشابہت ہے اور اسی طرح سے خوں گشتہ آرزوؤں کو گورِ غریباں سے مشابہت ہے۔
ہنوز اک پرتوِ نقشِ خیالِ یار باقی ہے
دل افسردہ گویا حجرہ ہے یوسف کے زنداں کا
ہنوز کی لفظ سے یہ معنی نکلتے ہیں کہ خیال بھلانے پر بھی کچھ پرتو اس کا باقی رہ گیا ہے اور اس پرتو میں بھی یہ نور ہے کہ دل پر حجرۂ زندان یوسف کا عالم ہے اور اس شعر میں لفظ افسردہ سے دل کا حجرہ ہونا ظاہر ہوا اور خیال یار کے بھلانے کا سبب بھی اسی لفظ سے پیدا ہے یعنی جب دل افسردہ ہوا تو پھر خیالِ یار کیسا اور افسردگی کو تنگی لازم ہے ، اس سبب سے حجرہ اُسے کہا کہ تنگ کوٹھری کا نام حجرہ ہے۔
بغل میں غیر کے آج آپ سوتے ہیں کہیں ورنہ
سبب کیا خواب میں آ کر تبسم ہائے پنہاں کا
مصنف کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ رقیب کی بغل میں جو چپکے چپکے تو ہنس رہا ہے مجھے وہ ہنسی خواب میں دکھائی دے رہی ہے اور اُسی ہنسی کا اندازہ دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ اس انداز کی ہنسی وصل ہی کے وقت ہوتی ہے ورنہ تو میرے خواب میں آ کر میرے ساتھ تبسم پنہاں کرے میرے ایسے نصیب کہاں۔
نہیں معلوم کس کس کا لہو پانی ہوا ہو گا
قیامت ہے سر شک آلودہ ہونا تیری مژگاں کا
لہو پانی ایک ہونا رونے کے معنی پر ہے یعنی تیری آنکھ میں آنسو دیکھنے کی تاب کس کو ہے اور اشارہ اس بات کی طرف بھی کیا ہے کہ مژگانِ معشوق جو ہمیشہ دل و جگر عشاق میں کھٹکا کرتی ہے اُس کا آنسو وہی آنسو ہیں جو عشاق کے دل میں پیدا ہوکر آنکھوں کی طرف جایا چاہتے تھے یعنی تیری پلکوں پر جو آنسو ہیں وہ تیرے دل سے نکلے ہوئے نہیں ہیں بلکہ یہ آنسو وہی ہیں جو عشاق کے دل و جگر میں پیدا ہوئے تھے اور تیری مژہ پر آنسو ہونا اس کی علامت ہے کہ عشاق کا لہو پانی ایک ہو گیا۔
نظر میں ہے ہماری جادۂ راہ فنا غالبؔ
کہ یہ شیرازہ ہے عالم کے اجزائے پریشاں کا
یعنی جس رشتۂ فنا میں تمام اوراقِ عالم سئے ہوئے ہیں اُن سے بھولا ہوا نہیں ہوں یعنی فنا ہر وقت میری آنکھوں کے سامنے ہے۔
_______
نہ ہو گا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا
حبابِ موجۂ رفتار ہے نقشِ قدم میرا
ذوق سے صحرا نوردی مراد ہے اور رفتار کو موج اور نقش قدم کو حباب کے ساتھ تشبیہ دینے سے مطلب یہ ہے کہ جس طرح موج کا ذوق روانی کبھی کم نہیں ہوتا اسی طرح میرا بھی ذوق کم نہیں ہو گا ، ایک بیابانِ ماندگی خواہ صد بیابانِ ماندگی کہو مراد ایک ہی ہے یعنی ماندگی مصرع ایک بیابان کہہ کر ماندگی کی مقدار بیان کی ہے گویا بیابان کو پیمانہ اُس کا فرض کیا ہے۔
محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے
کہ موجِ بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا
بوئے گل دم کھنچنے کے ساتھ ناک میں آتی ہے تو یہ کہنا کہ بوئے گل سے ناک میں دم آتا ہے بیجا نہیں اور ناک میں دم آنا بیزار ہونے کے معنی پر ہے ، یہاں دوسرے معنی مقصود ہیں اور پہلے معنی کی طرف ابہام کیا ہے۔
_______
سراپا رہن عشق و ناگزیر الفت ہستی
عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کیا
اس شعر میں عشق کو برق اور ہستی و خرمن سے تشبیہ دی ہے کہتے ہیں رہن عشق بھی ہوں اور جان بھی عزیز ہے میری دہائی ہے جیسے کوئی آتش پرست برق کی پرستش بھی کرے اور خرمن کے جل جانے کا افسوس بھی کرے ، پہلے مصرع میں فعل ’ ہوں ، محذوف ہے حاصل کے معنی خرمن۔ ناگزیر اُلفتِ ہستی ہوں یعنی جان کو عزیز رکھنے پر مجبور ہوں جس طرح یہ کہتے ہیں کہ فلاں امر ناگزیر ہے یعنی ضرور ہے اسی طرح فارسی میں یوں بھی کہتے ہیں کہ فلاں شخص ارفلانِ ناگزیر است۔
بقدر ظرف ہے ساقی خمار تشنہ کامی بھی
جو تو دریائے مے ہے تو میں خمیازہ ہوں ساحل کا
ساحل کی تشنگی مشہور ہے اور اس کا کج دوا کج ہونا خمیازہ کی صورت پیدا کرتا ہے اور خمیازہ خمار کی علامت ہے مطلب یہ ہے کہ شراب پلانے میں جس قدر تیرا حوصلہ بڑھا ہوا ہے پینے میں اُسی قدر میرا ظرف بڑھا ہوا ہے۔
_______
محرم نہیں ہے تو ہی نواہائے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا
یعنی جس چیز کو تو عالم حقیقت کا حجاب سمجھتا ہے وہ رباب کا ایک پردہ ہے جس سے نغمہ ہائے رازِ حقیقت بلند ہیں مگر اس کے تال سر سے تو خود ہی واقف نہیں لطف نہیں اُٹھا سکتا۔
رنگ شکستہ صبح بہارِ نظارہ ہے
یہ وقت ہے شگفتن گل ہائے ناز کا
یعنی نظارہ اُس کا موسم بہار ہے اور نظارہ سے اُس کے میرا رنگ اُڑ جانا طلوع صبح بہار ہے اور طلوع صبح بہار پھولوں کے کھلنے کا وقت ہوتا ہے غرض یہ ہے کہ بروقت نظارہ میرے منہ پر ہوائیاں اُڑتے ہوئے اور مہتاب چھٹتے ہوئے دیکھ کر وہ سرگرم ناز ہو گا یعنی میرا رنگ اُڑ جانا وہ صبح ہے جس میں گل ہائے ناز شگفتہ ہوں گے۔
تو اور سوئے غیر نظر ہائے تیز تیز
میں اور دُکھ ترے مژہ ہائے دراز کا
اس شعر میں ’ ہائے ، یا تو علامت جمع و اضافت ہے یا کلمۂ تاسف ہے ، دونوں صورتیں صحیح ہیں۔
صرفہ ہے ضبط آہ میں میرا وگرنہ میں
طعمہ ہوں ایک ہی نفس جاں گداز کا
اس شعر میں اپنی ناتوانی و نقاہت اور اپنی آہ کی شدت و حدت کا بیان مقصود ہے یعنی اگر ضبط کروں تو ایک ہی آہ میں تحلیل ہوکر فنا ہو جاؤں۔
ہیں بسکہ جوش بادہ سے شیشے اُچھل رہے
ہر گوشۂ بساط ہے سر شیشہ باز کا
شیشہ باز مرد شعبدہ باز کو کہتے ہیں جو کہ شعبدہ دکھاتے وقت ہاتھوں کو اور سر کو ہلاتا ہے اور بساط سے وہ فرش مراد ہے جس کے گوشوں پر شراب کے شیشے چنے ہوئے ہیں۔
کاوش کا دل کرے ہے تقاضا کہ ہے ہنوز
ناخن پہ قرض اس گرہ نیم باز کا
یعنی دل میرا جو کہ تنگی و گرفتگی سے گرہ ہو کے رہ گیا ناخن غم سے کاوش کا تقاضا کرتا ہے جیسے کوئی اپنا قرض مانگتا ہے اور نیم باز کے لفظ سے یہ ظاہر ہے کہ کاوش غم پہلے بھی ہوئی مگر ناتمام ہوئی۔
تاراج کاوشِ غم ہجراں ہوا اسدؔ
سینہ کہ تھا دفینہ گہر ہائے راز کا
یعنی اے اسدؔ افسوس دفینہ راز کو غم نے کھودکر نکالا اور تاراج کیا ، حاصل یہ کہ غم نے رُسوا کیا۔
_______
بزمِ شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا
رکھیو یارب یہ درِ گنجینۂ گوہر کھلا
اس شعر میں یہ اشارہ ہے کہ بزم شاہی میں جو گنجینۂ گوہر ہے تو فقط اسی سبب سے ہے کہ میرے اشعار کا دفتر وہاں کھلا ہے اور یہ دُعا ہے کہ الٰہی در کو کھلا رکھ ، اس کے معنی یہ ہیں کہ آباد رکھ اور اس کا فیض جاری رکھ۔
شب ہوئی پھر انجم رخشندہ کا منظر کھلا
اس تکلف سے کہ گویا بت کدئے کا در کھلا
فقط تاروں کے کھلنے کا سماں دکھایا ہے یہ شعر غزل کا نہیں بلکہ قصیدہ کی تشبیب کاہے غالباً اور شعر اس کے ساتھ ہوں گے جو انتخاب کے وقت نکال ڈالے گئے۔
گرچہ ہوں دیوانہ پر کیوں دوست کا کھاؤں فریب
آستیں میں دشنہ پنہاں ہاتھ میں نشتر کھلا
یعنی دُنیا کی دوستی ایسی ہے کہ ظاہر و باطن یکساں نہیں ہاتھ میں نشتر کھلا ہوا ہونا اظہارِ غم خواری کے لئے ہے یعنی فصد و علاج کا قصد ظاہر کرتا ہے اور آستین میں دشنہ چھپائے ہوئے ہیں یعنی چھریاں مارنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
گو نہ سمجھوں اُس کی باتیں گو نہ پاؤں اُس کا بھید
پر یہ کیا کم ہے کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا
اس شعر میں ’ کھلنا ، بے تکلف ہوکر باتیں کرنے کے معنی پر ہے۔
ہے خیال حسن میں حسن عمل کا سا خیال
خلد کا اک در ہے میری گور کے اندر کھلا
’ خیالِ حسن ، یعنی تصور چہرۂ معشوق سے قبر میں باغ بہشت دکھائی دے رہا ہے اس لئے کہ اُس کے چہرہ میں باغ کی سی رنگینی ہے تو گویا کہ تصور حسن اور حسن اعمال کا ایک ہی ثمرہ ہے۔
منہ نہ کھلنے پر ہے وہ عالم کہ دیکھا ہی نہیں
زلف سے بڑھ کر نقاب اس شوخ کے منہ پر کھلا
اس شعر میں ’ کھلنا ، زیب دینے کے معنی پر ہے دیکھو معنی ردیف میں جدت کرنے سے شعر میں کیا حسن ہو جاتا ہے۔
درپہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھر گیا
جتنے عرصہ میں مرا لپٹا ہوا بستر کھلا
فقط معشوق کی ایک شوقی کا بیان منظور ہے اور یہ بہترین مضامین غزل ہوا کرتا ہے۔
کیوں اندھیری ہے شبِ غم ہے ؟بلاؤں کا نزول
آج اُدھر ہی کو رہے گا دیدۂ اختر کھلا
پہلے مصرع میں سوال و جواب ہے یعنی تاریکی شبِ غم کا سبب یہ ہے کہ بلندی عرش پر سے بلائیں اُتر رہی ہیں اور تاروں نے اُن کے اُترنے کا تماشہ دیکھنے کے لئے اس طرف سے اُس طرف آنکھیں پھیرلی ہیں یعنی اس کثرت سے اُتر رہی ہیں جیسے میلہ قابل تماشا ہوتا ہے۔
کیا رہوں غربت میں خوش جب ہو حوادث کا یہ حال
نامہ لاتا ہے وطن سے نامہ بر اکثر کھلا
دستور ہے کہ خبر مرگ جس خط میں لکھتے ہیں اُسے کھلا ہی روانہ کرتے ہیں اور غربت کے معنی مسافرت۔
اُس کی اُمت میں ہوں میں میرے رہیں کیوں کام بند
واسطے جس شے کے غالبؔ گنبدِ بے در کھلا
یعنی معراج کی شب میں۔
_______
شب کہ برقِ سوزِ دل سے زہرۂ ابر آب تھا
شعلۂ جوالہ ہر یک حلقۂ گرداب تھا
یعنی ابر کا زہرہ آب تھا اور جو گرداب اس میں پڑتا تھا وہ شعلہ جوالہ تھا ، یہ فقط میرے سوزِ دل کی تاثیر تھی۔
واں کرم کو عذر بارش تھا عناں گیر خرام
گریہ سے یاں پنیۂ بالش کفِ سیلاب تھا
یعنی انھیں تو کرم کرنے میں بارش مانع تھی اور میرا روتے روتے یہ حال ہوا تھا کہ پان بجائے پنیۂ بالش کفِ سیلاب تھا۔
واں خود آرائی کو تھا موتی پرونے کا خیال
یاں ہجوم اشک میں تارِ نگہ نایاب تھا
یعنی تار نگہ میں اس کثرت سے آنسو پروئے ہوئے تھے کہ وہ خود پوشیدہ و مفقود ہو گیا تھا جس طرح دھاگے کو موتی چھپالیتے ہیں دیکھو پوری تشبیہ پائی جاتی ہے مگر تازگی اس بات کی ہے کہ تشبیہ دینا مقصود نہیں ہے شاعر دو متشابہ چیزیں ذکر کر رہا ہے اور پھر تشبیہ نہیں دیتا ہے۔
جلوۂ گل نے کیا تھا واں چراغاں آبجو
یاں رواں مژگان چشم تر سے خون ناب تھا
یعنی وہاں اس کثرت سے اور اتنی دُور تک تختۂ گل تھا کہ اس کے عکس سے معلوم ہوتا تھا کہ چراغاں نہر میں ہورہا ہے اور یہاں دُور تک خون کے آنسو بہہ نکلے تھے اور آب جو کے مقابلے میں چشم تر تھی اور شاخ ہائے گل کے جواب میں پلکوں پر لہو کی بوندیں۔ آب جو کے بعد ’ کو ، کا لفظ حذف کر دینا کچھ اچھا نہیں معلوم ہوتا۔
یاں سر پر شور بے خوابی سے تھا دیوار جو
واں وہ فرق ناز محو بالش کمخواب تھا
یعنی نیند نہ آنے کے سبب سے میرا سر دیوار کو ڈھونڈ رہا تھا اور میں سر ٹکرانا چاہتا تھا۔
یاں نفس کرتا تھا روشن شمع بزم بے خودی
جلوۂ گل واں بساط صحبتِ احباب تھا
یعنی ہماری محفل میں شمع آہ روشن تھی اور وہاں کی صحبت میں پھولوں کا فرش تھا ، احباب سے معشوق کے احباب مراد ہیں۔
فرش سے تا عرش واں طوفاں تھا موجِ رنگ کا
یاں زمیں سے آسماں تک سوختن کا باب تھا
یعنی وہاں رنگ و عیش کی رنگ رلیاں ہورہی تھیں اور ہم یہاں جل رہے تھے سوختن کے باب سے ماضی و حال و مستقبل کی تصریف مراد ہے نزاکت یہ ہے کہ اس امتداد زمانے کو جو تصریف میں سوختن کے ہے مصنف نے امتداد مکانی پر منطبق کیا ہے دوسرا پہلو یہ بھی نکلتا ہے کہ یہاں کا زمین و آسمان آگ لگادینے کے قابل ہے۔
ناگہاں اس رنگ سے خون نابہ ٹپکانے لگا
دل کہ ذوقِ کاوش ناخن سے لذت یاب تھا
یعنی اس رنگ سے جو آگے کی غزل میں آتا ہے اور کاوش ناخن استعارہ ہے کاوش غم سے۔
نالۂ دل میں شب انداز اثر نایاب تھا
تھا سپند بزم وصل غیر گو بیتاب تھا
یعنی اگرچہ دل بیتاب بنا مگر اُس کی بیتابی برخلاف مدعا تھی گویا دل بیتاب سپند بزم وصل غیر تھا۔
مقدم سیلاب سے دل کیا نشاط آہنگ ہے
خانۂ عاشق مگر سازِ صدائے آب تھا
یعنی سیلاب کے آنے سے خانۂ عاشق صدائے آب کا ارغنوں بن گیا جس کو سن کر دل کو سرور و نشاط ہے۔ آہنگ کا لفظ مناسب ساز ہے غرض یہ ہے کہ عشاق کو اپنی خانہ خرابی سے لذت حاصل ہوتی ہے۔
نازش ایام خاکستر نشینی کیا کہوں
پہلوئے اندیشہ وقفِ بستر سنجاب تھا
یعنی اگرچہ میں خاک نشیں تھا لیکن میرا دل قناعت کے فخر و ناز کے سبب سے فرش سنجاب پر لوٹ رہا تھا۔
کچھ نہ کی اپنے جنونِ نارسا نے ورنہ یاں
ذرّہ ذرّہ روکش خورشید عالم تاب تھا
جنونِ نارسا نے کچھ نہ کی یعنی اکتسابِ فیض سے اور اتحادِ معشوق سے محروم رکھا ، ورنہ ایک ایک ذرّہ نے ایسا اکتسابِ نور کیا تھا کہ رشک دہ آفتاب تھا۔
آج کیوں پرواہ نہیں اپنے اسیروں کی تجھے
کل تلک تیرا بھی دل مہر و وفا کا باب تھا
یاد کر وہ دن کہ ہر اک حلقہ تیرے دام کا
انتظار صید میں اک دیدۂ بے خواب تھا
یہ قطعہ ہے اور حلقۂ دام کو دیدۂ بے خواب سے تشبیہ دی ہے وجہ شبیہ یہ ہے کہ دیدۂ بے خواب کی طرح حلقۂ دام کھلا رہتا ہے۔
میں نے روکا رات غالبؔ کو وگرنہ دیکھتے
اُس کے سیل گریہ میں گردوں کفِ سیلاب تھا
یعنی سیلاب گریہ آسمان تک بلند ہو جاتا۔
_______
ایک ایک قطرئے کا مجھے دینا پڑا حساب
خونِ جگر ودیعتِ مژگانِ یار تھا
حساب دینا پڑا یعنی آنکھوں سے خون بہانا پڑا گویا خونِ جگر اُس کی امانت تھا۔
اب میں ہوں اور ماتم یک شہر آرزو
توڑا جو تو نے آئینہ تمثال دار تھا
قاعدہ ہے کہ آئینہ میں ایک ہی عکس دکھائی دیتا ہے لیکن جب اُسے توڑ ڈالو تو ہر ہر ٹکڑے میں وہی پورا عکس معلوم ہونے لگتا ہے اور یہاں ہر ہر عکس کو دیکھ کر ایک ایک آرزو کا خون ہوتا ہے۔ غرض کہ جس آئینہ میں معشوق کے عکس و تمثال کا جلوہ تھا اُس کے ٹوٹنے سے ایک شہر آرزو کا خون ہو گیا یہ کہا ہوا مضمون ہے :
نظر آتے کبھی کاہے کو اک جا خودنما اتنے
یہ حسن اتفاق آئینہ اُس کے روبرو ٹوٹا
ایک شہر آرزو میں ویسی ہی ترکیب ہے جیسی ایک بیاباں ماندگی و یک قدم وحشت میں ہے۔
گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو کہ میں
جاں دادۂ ہوائے سر رہ گذار تھا
ہوا کے معنی آرزو اور رہ گذار سے معشوق مراد ہے۔
موج سراب دشت وفا کا نہ پوچھ حال
ہر ذرّہ مثل جوہر تیغ آبدار تھا
یعنی جس طرح تلوار میں جوہر آبدار ہوتے ہیں اسی طرح موج سراب کے ذرّہ تھے حاصل یہ کہ سرزمین عشق پر تلوار برستی ہے۔
کم جانتے تھے ہم بھی غم عشق کو پر اب
دیکھا تو کم ہوئے پہ غم روزگار تھا
یعنی کم ہوئے پر بھی بہت زیادہ نکلا۔
_______
بسکہ دُشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
یعنی کمالِ انسانیت کے مرتبہ پر پہنچنا سہل نہیں ہے۔
گریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانہ کی
در و دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا
ٹپک رہا ہے یعنی ظاہر ہورہا ہے اور ٹپکنے کی لفظ گہر کے لئے اور گریہ کے ساتھ بھی بہت ہی مناسبت رکھتی ہے :
لفظ یہ کہ تازہ است بمضموں برابر است
وائے دیوانگی شوق کہ ہر دم مجھ کو
آپ جانا اُدھر اور آپ ہی حیراں ہونا
ہر دم یعنی ہر مرتبہ سانس لینے میں اُس مبدأ حیات و وجود کی طرف دوڑتا ہوں اور اپنی نارسائی سے حیران ہوکر رہ جاتا ہوں۔
جلوہ از بسکہ تقاضائے نگہ کرتا ہے
جوہر آئینہ بھی چاہے ہے مژگاں ہونا
یعنی اُس کا جلوۂ حسن یہ کہہ رہا ہے کہ مجھے دیکھو تو آئینہ چاہتا ہے کہ آنکھ بن جائے اور جوہر یہ چاہتا ہے کہ پلکیں بن جائیں اور آئینہ سے آنکھ کی تشبیہ مضمون مشہور ہے اور یہاں آئینہ سے آئینہ فولادی مراد ہے کہ جوہر اسی میں ہوتے ہیں۔
عشرتِ قتل گہ اہل تمنا مت پوچھ
عید نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا
یعنی قتل گاہ میں عشاق کو ایسی مسرت حاصل ہے کہ شمشیر کو عریاں دیکھ کر وہ جانتے ہیں کہ ہلال عید کا نظارہ دکھائی دیا لفظ ہلال تنگی وزن سے نہ آ سکا اور شعر کا مطلب ناتمام رہ گیا۔
لے گئے خاک میں ہم داغ تمنائے نشاط
تو ہو اور آپ بصد رنگ گلستاں ہونا
یعنی ہم داغ لیکے چلے اب تجھے باغ باغ ہونا مبارک ہو اور یہی محاورہ ہے باغ باغ ہونے کی جگہ پر گلستاں ہونا خالص مصنف کا تصرف ہے۔
عشرتِ پارۂ دل زخم تمنا کھانا
لذتِ ریش جگر عرق نمکداں ہونا
دونوں مصرعوں میں فعل ’ ہے ، محذوف ہے۔
کی مرے قتل کے بعد اُس نے جفا سے توبہ
ہائے اُس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
یعنی لہو دیکھتے ہی رحم آگیا کہ یہ میں نے کیا کیا ، نہ غصہ آتے دیر لگی نہ پشیمان ہوتے دیر لگی اور ممکن ہے کہ زود پشیماں طعن و طنز سے کہا ہو یعنی جب کام اختیار سے باہر ہو چکا جب رحم آیا کیا جلد پشیمان ہوا۔
حیف اُس چار گرہ کپڑے کی قسمت غالبؔ
جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا
یعنی اگر ہجر ہے تو وہ آپ چاک کرے گا اور اگر وصل ہے تو شوخی معشوق کے ہاتھوں پر پرزے اُڑجائیں گے۔
_______
شب خمارِ شوق ساقی رست خیز انداز تھا
تامحیط بادہ صورت خانۂ خمیازہ تھا
یعنی رات کو میرے شوق نے قیامت برپا کر رکھی تھی اور شوق میں بے لطفی و بے مزگی جو تھی اس وجہ سے اُسے خمار سے تشبیہ دی اور کہتا ہے کہ یہاں سے لے کر دریائے بادہ تک میرے خمیازہ کا صورت خانہ بنا ہوا تھا یعنی میں نے خمار میں ایسی لمبی لمبی انگڑائیاں لیں جن کی درازی محیط بادہ تک پہنچی ، غرض مصنف کی یہ ہے کہ انگڑائیاں لینے میں جو ہاتھ پاؤں پھیلتے تھے وہ گویا شراب کو ڈھونڈتے تھے۔
یک قدم وحشت سے درس دفتر امکاں کھلا
جادہ اجزائے دوعالم دشت کا شیرازہ تھا
یک قدم وحشت سے وحشت کا مرتبہ ادنیٰ مقصود ہے اور اجزائے دو عالم دشت بمنزلہ اجزائے عالم ، عالم دشت یا اجزائے دو صد دشت ہے جس سے مراد کثرت ویرانی ہے یعنی ممکنات نے اپنے مبدأ سے ایک ذراسی وحشت و مغائرت جو کی تو عالم امکان موجود ہو گیا اور اُس وحشت کا ایک قدم جس جادہ پر پڑا گویا وہ اوراق دو صد دشت کا شیرازہ تھا اس سبب سے کہ وحشت میں جب قدم اُٹھے گا دشت ہی کی طرف اُٹھے گا اور عارف کی نظر میں تمام عالم امکان ویران ہے۔ دو عالم دشت کی ترکیب میں مصنف نے دشت کی مقدار کا پیمانہ عالم کو بتایا ہے جس طرح ماندگی کی مقدار کا پیمانہ بیابان کو اور تامل کی مقدار کا پیمانہ زانو کو اور آرزو کا پیمانہ شہر کو قرار دیا ہے۔
مانع وحشت خرامی ہائے لیلیٰ کون ہے
خانۂ مجنونِ صحرا گرد بے دروازہ تھا
مصنف نے صحرا گرد مجنوں کی صفت ڈال کر اُس کے گھر کا پتہ دیا یعنی مجنوں کا گھر تو صحرا ہے اور صحرا وہ گھر ہے جس میں دروازہ نہیں پھر لیلیٰ کیوں وحشی ہوکر اُس کے پاس نہیں چلی آتی کون اُسے مانع ہے۔
پوچھ مت رُسوائی انداز استغنائے حسن
دست مرہون حنا رخسار رہن غازہ تھا
یعنی حسن کو باوجود استغنا ایسی احتیاج ہے کہ ہاتھ حنا کی طرف اور منہ غازہ کی طرف پھیلائے ہوئے ہے۔
نالۂ دل نے دیے اوراق لخت دل بباد
یادگار نالا اک دیوان بے شیرازہ تھا
بباد دیے یعنی برباد کئے اس میں پارۂ دل کو اوراق سے تشبیہ دی پھر اوراق کو دیوان بے شیرازہ سے تشبیہ دی اور نالہ کو شاعر فرض کیا ہے جس نے اپنی یادگار کو آپ برباد کیا۔ بباد و ادن فارسی کا محاورہ ہے اُردو میں برباد کرنا کہتے ہیں۔
_______
دوست غم خواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا
زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جائیں گے کیا
پہلے مصرع میں ’ کیا ، تحقیر کے لئے ہے اور دوسرے مصرع میں استفہام انکاری کے لئے ، یعنی میرے ناخن کاٹنے سے کیا فائدہ ، کیا پھر بڑھ نہ آئیں گے۔
بے نیازی حد سے گذری بندہ پرور کب تلک
ہم کہیں گے حال دل اور آپ فرمائیں گے کیا ؟
کہتے ہیں تمہاری بے توجہی حد سے گذرگئی کہ میرا حال متوجہ ہوکر نہیں سنتے اور ہر بار تجاہل سے کہتے ہو کہ ’ کیا کہا ، اس شعر میں کیا ، محل حکایت میں ہے جس طرح آگے مصنف نے کہا ہے :
تجاہل پیشگی سے مدعا کیا
کہاں تک اے سراپا ناز کیا کیا
حضرتِ ناصح گر آویں ، دیدہ و دل فرشِ راہ
کوئی مجھ کو یہ تو سمجھادو کہ سمجھائیں گے کیا
صاف شعر کا کیا کہنا گو دوسرے مصرع میں سے ’ مگر ، محذوف ہے مگر خوبی یہ ہے کہ اس طرح سے اور کیا ہے کہ دیوانگی کی تصویر کھنچ گئی۔
آج وہاں تیغ و کفن باندھے ہوئے جاتا ہوں میں
عذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لائیں گے کیا ؟
یعنی اگر اس کے پاس تلوار نہ ہو گی تو میں دے دوں گا۔
گر کیا ناصح نے ہم کو قید اچھا یوں سہی
یہ جنونِ عشق کے انداز چھٹ جائیں گے کیا ؟
’ کیا ، استفہام انکاری کے لئے ہے اور قید ہونا اور چھٹ جانا دونوں کا اجتماع لطف سے خالی نہیں۔
خانہ زادِ زلف ہیں زنجیر سے بھاگیں گے کیوں
ہیں گرفتارِ وفا زنداں سے گھبرائیں گے کیا
فاعل یعنی لفظ ’ ہم ، محذوف ہے۔
ہے اب اس معمورہ میں قحط غم الفت اسدؔ
ہم نے یہ مانا کہ دلی میں رہیں کھائیں گے کیا
ہمیں تو غم کھانے کا مزہ پڑا ہوا ہے اور وہی یہاں نہیں یعنی اس شہر میں ایسے معشوق نہیں جن سے محبت کیجئے۔
_______
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
یعنی مرجانا ہی بہتر ہوا۔
ترے وعدہ پہ جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
یعنی ہم نے جو یہ کہا کہ فقط وعدہ وصل سن کے ہم مرنے سے بچ گئے تو ہم نے جھوٹ جانا دوسرا احتمال یہ ہے کہ تیرا وعدہ سن کر جو ہم جیے تو اس کا یہ سبب تھا کہ ہم نے اُسے جھوٹا وعدہ خیال کیا اور جان منادی ہے۔
تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا
’ جانا ، کا فاعل ’ ہم نے ، محذوف ہے اور نازکی بمعنی نزاکت۔
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
’ جو ، کا واؤ وزن سے ساقط ہو گیا اور یہ درست ہے بلکہ فصیح ہے لیکن اُس کے ساقط ہو جانے سے دو جس میں پیدا ہو گئیں اور عیب تنافر پیدا ہو گیا لیکن خوبی مضمون کہ ایسی باتوں کا کوئی خیال نہیں کرتا۔ تیر نیم کش وہ جسے چھوڑتے وقت کمان دار نے کمان کو پورا نہ کھینچا ہو اور اسی سبب سے وہ پار نہ ہو سکا۔
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا
دوستوں کی شکایت ہے کہ اُنھوں نے نصیحت پر کیوں کمر باندھی ہے۔
رگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا
یعنی جس طرح دل میں غم چھپا ہوا ہے اگر اسی طرح شرار بن کر پتھر میں یہ پوشیدہ ہوتا تو اُس میں سے بھی لہو ٹپکتا ، حاصل یہ کہ غم کا اثر یہ ہے کہ دل و جگر لہو کر دیتا ہے ، پتھر کا جگر بھی ہو تو وہ بھی لہو ہو جائے۔
غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غم عشق گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا
’ پہ ، بمعنی مگر اور ان معنی میں ’ پر ، فصیح ہے اور آخر مصرعہ میں ’ ہے ، تامہ ہے اور پہلا ’ ہے ، ناقصہ ہے۔
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شبِ غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
’ کیا ہے ، میں ضمیر مستقر ہے مرجع اس کا شبِ غم ہے جو دوسرے جملہ میں ہے کہ اگر اس شعر میں اضمار قبل الذکر اور ضمیر کو ستتر نہ لیں بلکہ ’ ہے ، کا فاعل شبِ غم کو کہیں تو لطف سجع جاتا ہے تاہم خوبی اس شعر کی حدِ تحسین سے باہر ہے۔
ہوئے مرکے ہم جو رُسوا ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا
نہ کبھی جنازہ اُٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
یعنی جنازہ اُٹھنے اور مزار بننے نے رُسوا کیا ڈوب مرتے تو اچھے رہتے۔
اُسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں وہ چار ہوتا
دو چار ہونے سے دکھائی دینا مراد ہے۔
یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
اس مقطع کی شرح لکھنا ضرور نہیں بہت صاف ہے لیکن یہاں یہ نکتہ ضرور سمجھنا چاہئے کہ خبر سے انشاء میں زیادہ مزہ ہوتا ہے پہلا مصرع اگر اس طرح ہوتا کہ غالب تیری زبان سے اسرارِ تصوف نکلتے ہیں الخ تو یہ شعر جملہ خبریہ ہوتا ، مصنف کی شوقی طبع نے خبر کے پہلو کو چھوڑکر اسی مضمون کو تعجب کے پیرائے میں ادا کیا اور اب یہ شعر سارا جملہ انشائیہ ہے۔
_______
ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزہ کیا
یعنی رقیب بوالہوس کی ہوس کو نشاط کا رو لطف وصل نگار حاصل ہے اب ہمارے جینے کا مزہ کیا رہا ، مصنف کی اصطلاح میں ہوس محبت رقیب کا نام ہے ، اسی غزل میں آگے کہتے ہیں :
ہوس کو پاس ناموس وفا کیا
دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ دُنیا میں انسان کو ہوا و ہوس سے رہائی نہیں ، اگر مرنا نہ ہوتا تو اس طرح کے جینے میں کچھ مزا نہ تھا یعنی حاصل زندگانی مرنا تھا۔
تجاہل پیشگی سے مدعا کیا
کہاں تک اے سراپا ناز کیا کیا
یعنی میرا حال سن کر تم کب تک ’ کیا کیا ، کہہ کر ٹالوگے ، اس تجاہل شعاری سے آخر تمہارا کیا مطلب ہے۔
نوازش ہائے بے جا دیکھتا ہوں
شکایت ہائے رنگیں کا گلا کیا
نوازش بے جا وہ جو رقیب پر ہو اور جب رقیب پر تم التفات کرو تو میری شکایت سے کیوں برا مانو اور اُس کا گلہ کیوں کرو۔
نگاہِ بے محابا چاہتا ہوں
تغافل ہائے تمکیں آزما کیا
بے تکلف و بے حجاب ہوکر مجھ سے آنکھ چار کرو اور یہ تغافل صبر آزما کیسا یعنی میرا دل دیکھنے کے لئے اور میرے ضبط آزمانے کے لئے یہ چشم پوشی کیسی۔
فروغِ شعلۂ خس اک نفس ہے
ہوس کو پاس ناموس وفا کیا
اس شعر میں رقیب پر طعن ہے کہ اُسے عشق نہیں ہے ہوس ہے اس کی محبت شعلہ خس کی طرح بے ثبات ہے اُسے ناموس وفا کا پاس بھلا کہاں ، اُس کا فروغ عشق چار دن کی چاندنی ہے۔
نفس موج محیطِ بے خودی ہے
تغافل ہائے ساقی کا گلا کیا
یعنی یہاں بے شراب پئے بے خودی ہے پھر بے التفاتی ساقی کا گلہ کرنا کیا ضرور ہے جسے اُس کی صورت دیکھ کر بے خودی ہو جائے اُسے وہ شراب نہ دے تو کیا شکایت۔
دماغِ عطر پیراہن نہیں ہے
غم آوارگی ہائے صبا کیا
صبا سے بوئے گل مراد ہے اس سبب سے کہ صبا ہی کے چلنے سے پھول کھلتے ہیں تو اُس میں بوئے گل ملی ہوئی ہوتی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ اگر صبا آوارہ و پریشان نہ ہوتی تو سب پھولوں کی خوشبو ایک ہی جگہ جمع ہو جاتی لیکن شاعر کہتا ہے کہ مجھے پیراہن کے بسانے ہی کا دماغ نہیں ہے آوارہ مزاجی صبا کی کیا پروا ہے ہوس دُنیا نہ ہو اُسے بے وفائی دُنیا کا کیا غم ہے۔
دل ہر قطرہ ہے ساز انا البحر
ہم اُس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا
یعنی ہر قطرہ کو دریا کے ساتھ اتحاد کا دعویٰ ہے اسی طرح ہم کو بھی اپنے مبدأ کے ساتھ عینیت کا دعویٰ ہے وہ دریا ہے اور ہم اسی دریا کے قطرہ ہیں اور قطرہ دریا میں مل کر دریا ہو جاتا ہے۔
محابا کیا ہے میں ضامن ادھر دیکھ
شہیدانِ نگہ کا خوں بہا کیا ؟
’ ادھر دیکھ ، دو معنی رکھتا ہے ایک تو مقام تنبیہ میں یہ کلمہ کہتے ہیں دوسرے یہ کہ تو میری طرف دیکھ تو سہی اگر میں شہید نگاہ ہو جاؤں تو ذمہ کرتا ہوں کہ تجھے خون بہا نہ دینا پڑے گا۔
سن اے غارت گر جنس وفا سن
شکست قیمت دل کی صدا کیا
یعنی تو جو یہ کہتا ہے کہ ہمیں شکست دل کی خبر نہیں تو کہیں شکست دل میں آواز ہوتی ہے جو تجھے سنائی دیتی مصنف نے شکست دل کو شکست قیمت دل سے تعبیر کیا ہے اور اسی لئے جنس و غارت اُس کے مناسبات ذکر کئے ہیں دوسرا پہلو اس بندش میں یہ نکلتا ہے کہ شکستِ دل کی صدا تجھے اچھی معلوم ہوتی ہے تو دل شکنی تو کئے جا اور سنے بھلا دل کی اور صدائے شکستِ دل کی کیا حقیقت ہے جو تو تامل کرے۔
کیا کس نے جگر داری کا دعویٰ
شکیب خاطر عاشق بھلا کیا
یعنی مجھے ہرگز یہ دعویٰ نہیں ہے کہ بے تمہارے مجھے چین نہ آئے گا۔
یہ قاتل وعدۂ صبر آزما کیوں
یہ کافر فتنۂ طاقت رہا کیا
اسی وعدۂ صبر آزما کو دوسرے مصرع میں فتنۂ طاقت ریا سے تعبیر کیا ہے اس شعر میں جس طرز کی بندش ہے مصنف کا خاص رنگ ہے اور اس میں منفرد ہیں۔
بلائے جاں ہے غالبؔ اُس کی ہر بات
عبارت کیا اشارت کیا ادا کیا
’ کیا ، اس شعر میں حرفِ عطف ہے جسے معطوف و معطوف علیہ میں بیان مساوات کے لئے لاتے ہیں۔
_______
در خور قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا
پھر غلط کیا ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہو
یعنی پھر ہمارا کہناکیا غلط ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا اور ہمسا کوئی آفت زدہ نہ ہوا۔
بندگی میں بھی وہ آزاد و خودبیں ہیں کہ ہم
اُلٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا
یعنی پھر کسی اور کی ہم کیوں اُٹھانے لگے۔
سب کو مقبول ہے دعویٰ تری یکتائی کا
روبرو کوئی بت آئینہ سیما نہ ہوا
یعنی کسی نے مقابلہ نہ کیا۔
کم نہیں نازش ہم نامی چشم خوباں
تیرا بیمار برا کیا ہے گر اچھا نہ ہوا
یعنی اگر میں بیمار رہا تو چشم معشوق بھی تو بیمار ہے یہ ہم نامی کا فخر کیا کم ہے۔
سینے کا داغ ہے وہ نالہ کہ لب تک نہ گیا
خاک کا رزق ہے وہ قطرہ کہ دریا نہ ہوا
یعنی جس طرح کہ قطرہ خاک میں جذب ہوکر ایک داغ خاک پر پیدا کرتا ہے اُسی طرح نالہ ضبط کرنے سے سینہ میں داغ پڑجاتا ہے۔
نام کا میرے ہی جو دُکھ کہ کسی کو نہ ملا
کام میں میرے ہے جو فتنہ کہ برپا نہ ہوا
صاف ہے۔
ہر بن مو سے دمِ ذکر نہ ٹپکے خوناب
حمزہ کا قصہ ہوا عشق کا چرچا نہ ہوا
یعنی یہ نہیں ممکن کہ خوناب نہ ٹپکے ، اس شعر میں استفہام انکاری ہے کہ بھلا یہ ہو سکتا ہے کہ خوناب نہ ٹپکے۔
قطرہ میں دجلہ دکھائی نہ دے جزو کل میں
کھیل لڑکوں کا ہوا دیدۂ بینا نہ ہوا
یعنی عارف کی نظر کھیل تھوڑی ہے ؟ اس شعر کو بھی استفہام انکاری کے طرز سے پڑھنا چاہئے۔
تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اُڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے یہ تماشا نہ ہوا
اپنی رُسوائی اور موردِ تعذیر ہونے کا اظہار ہے کہ لوگ اُسے تماشا سمجھے ہوئے ہیں۔
_______
اسدؔ ہم وہ جنوں جولاں گدائے بے سر و پا ہیں
کہ ہے سر پنجۂ مژگانِ آہو پشتِ خار اپنا
اسدؔ اور آہو کا تقابل تو ظاہر ہے ، جنون جولان ہونے سے یہ اشارہ کیا ہے کہ آہو بھی میرے پیچھے رہ جاتا ہے اور پشتِ خار سے پیچھے ہی کھجاتے ہیں۔ گدا کی لفظ پشتِ خار کی مناسبت کے لئے ہے ، بے سر و پا کہنے سے یہ مقصود ہے کہ پشتِ خار تک میرے پاس نہیں ہے ، اگر ہے تو مژگانِ آہو ہے پنجہ میں اور مژگان میں اور پشتِ خار میں ، وجہ شبہ جو ہے وہ ظاہر ہے یعنی شکل تینوں کی ایک ہی سی ہے ، مژگان کو پہلے پنجہ سے تشبیہ دی ، پھر پنجہ کو پشتِ خار سے تشبیہ دی۔
_______
پئے نذر کرم تحفہ ہے شرم نارسائی کا
بخوں غلطیدۂ صد رنگ دعوے پارسائی کا
یعنی کریم کو نذر دینے کے لئے میری شرم و ندامت اُس دعویٰ پرہیزگاری کا تحفہ لے کے چلی ہے جس کا سو گناہوں کے ہاتھ سے خون ہو چکاہے ’ شرم نارسائی کا تحفہ ، اسم ہے ’ہے ، کا اور دوسرا مصرع سارا خبر ہے ’ پئے نذر کرم ، تحفہ دینے کا سبب و غایت ہے ، درگاہ کریم سے تقرب نہ ہونا اور دُور رہنا نارسائی کے معنی ہیں۔
نہ ہو حسن تماشا دوست رسوا بے وفائی کا
بمہر صدِ نظر ثابت ہے دعویٰ پارسائی کا
شاعر معشوق آوارہ مزاج پر طعن کرتا ہے کہ بھلا تمہیں کون بے وفا کہہ سکتا ہے ؟ اگر سو آدمیوں کی آنکھ تم پر پڑی تو گویا سو مہریں ہو گئیں کہ تم پارسا ہو اور اس طعن کا مفہوم مخالف ہے کہ تماشا دوست ہوکر اور اغیار سے جھانک تاک کر کے پارسائی کجا اور خیانت و بے وفائی کی رُسوائی سے کہاں بچ سکتے ہو۔
زکاتِ حسن دے اے جلوۂ بینش کے مہر آسا
چراغ خانۂ درویش ہو کاسہ گدائی کا
کاسۂ گدائی دن سے استعارہ ہے کہتے ہیں : اے جلوہ گاہ بینش میرے کشکول دل کو زکات عرفان دے کر روشن کر دے کہ اس فقیر کے لئے وہ چراغ ہو جائے اور آفتاب کی طرح شبِ تار جہالت کو دن کر دے۔
نہ مارا جان کر بے جرم غافل تیری گردن پر
رہا مانند خون بے گنہ حق آشنائی کا
ملامت کرتا ہے کہ آشنائی کا حق یہ تھا کہ مجھے قتل کیا ہوتا ، تو نے بے گناہ سمجھ کر میرے قتل سے کنارہ تو کیا ، مگر یہ خبر نہیں کہ حق آشنائی اسی طرح تیری گردن پر ہے جس طرح خونِ بے گناہ ہوتا۔
تمنائے زباں محو سپاس بے زبانی ہے
مٹا جس سے تقاضا شکوۂ بے دست و پائی کا
شاعر اپنے دل کی دو باتیں بیان کرتا ہے : ایک تو زبان آوری کی تمنا ، دوسرے بے دست و پائی کا شکوہ ، شکوہ کا تقاضا یہ تھا کہ مجھے بیان کر لیکن بے زبانی کے سبب سے وہ تقاضا اُس کا مٹ گیا تو گویا بے زبانی کا یہ احسان ہوا۔ اسی احسان کی شکرگذاری میں زبان آوری کی تمنا محو ہے۔ حاصل یہ ہے کہ میرا مرتبۂ صبر ایسا بڑھا ہوا ہے کہ اپنی بے دست و پائی کا شکوہ نہیں کرتا اور بے زبانی میں یہ فائدہ دیکھ کر زبان آوری کی تمنا بھی میرے دل سے مٹ گئی۔
وہی اک بات ہے جو یاں نفس واں نکہتِ گل ہے
چمن کا جلوہ باعث ہے مری رنگیں نوائی کا
جلوۂ چمن سے فصل بہار و جوش گل مراد ہے ، یعنی یہی ایک چیز نکہتِ گل کا بھی سبب ہے اور یہی جوش بہار میرے ترانۂ سرشار کا بھی باعث ہے۔ حاصل یہ کہ میرا نفس نکہتِ گل سے کم نہیں کہ علت دونوں کی ایک ہی ہے۔
دہانِ ہر بت پیغارہ جو زنجیر رُسوائی
عدم تک بے وفا چرچاہے تیری بے وفائی کا
پیغارہ کے معنی طعن و تشنیع کہا ہے کہ جو حسین کہ طعن و طنز ڈھونڈھا کرتے ہیں اُن سب کے دہن تیرے لئے زنجیر رُسوائی ہے ، یعنی ہر ایک دہن طنز گفتار ایک ایک حلقہ ہے ، زنجیر رُسوائی کا پہلے مصرع میں سے ’ ہے ، محذوف ہے اور حسینوں کے دہن کو عدم کہتے ہیں تو جب اُن کے دہن میں تیری بے وفائی کا ذکر ہے تو گویا عدم تک پہنچ گیا اور تیری نیک نامی کے پاؤں میں زنجیر رُسوائی پڑگئی۔
نہ دے نامہ کو اتنا طول غالبؔ مختصر لکھ دے
کہ حسرت سنج ہوں عرض ستمہائے جدائی کا
سنجیدن فارسی میں وزن کرنے اور موزوں کرنے کے معنی پر ہے۔ ’ نواسنج و نغمہ سنج و زمزمہ سنج و ترانہ سنج و نکتہ سنج ، سب مانوس ترکیبیں ہیں اور فصحا کی زبان پر ہیں ، لیکن متاخرین اہل زبان اور اُن کے متبعین ’ آرزو سنج و حسرتِ سنج و شکوہ سنج ، بھی مثل بے دل وغیرہ کے بہ تکلف نظم کرنے لگے ہیں اور تصنع سے خالی نہیں ہے۔
_______
گر نہ اندوہِ شبِ فرقت بیاں ہو جائے گا
بے تکلف داغ مہ مہر دہاں ہو جائے گا
یعنی شبِ فراق کا اندوہ اگر میں بیان نہ کر سکوں تو یہ سمجھنا چاہئے کہ چاند کا داغ نہ تھا ، بلکہ میرے ہونٹوں پر مہر تھی۔
زہرہ گر ایسا ہی شام ہجر میں ہوتا ہے آب
پر تو مہتاب سیل خانماں ہو جائے گا
یعنی شام ہجر کی ہیبت ہر ایک کا زہرہ آب کرتی ہے تو کیا عجب ہے کہ چاندنی کا زہرہ بھی آب ہو جائے اور وہ میرے گھر کے لئے سیلاب ہو جائے۔
لے تو لوں سوتے میں اُس کے پاؤں کا بوسہ مگر
ایسی باتوں سے وہ کافر بدگماں ہو جائے گا
یعنی میری محبت کو پاک محبت پھر نہ سمجھے گا۔
دل کو ہم صرف وفا سمجھے تھے کیا معلوم تھا
یعنی یہ پہلے ہی نذرِ امتحاں ہو جائے گا
نذرِ امتحاں یعنی اُس کے امتحان لینے ہی میں اُس کا کام تمام ہو جائے گا یہ نہ خبر تھی۔
سب کے دل میں ہے جگہ تیری جو تو راضی ہوا
مجھ پہ گویا اک زمانہ مہرباں ہو جائے گا
تو سب کے دل میں ہے تو مجھ سے راضی ہو گا تو سب کے دل مجھ سے راضی ہو جائیں گے ’ ہوا ، ماضی کا صیغہ ہے ، حرفِ شرط کے تحت میں اُس کے معنی مستقبل کے ہو جاتے ہیں۔
گر نگاہ گرم فرماتی رہے تعلیم ضبط
شعلہ خس میں جیسے خوں رگ میں نہاں ہو جائے گا
یعنی نظر عتاب جو ضبطِ نالہ و آہ کا اشارہ کرتی ہے اُس کے ڈر سے عجب نہیں کہ شعلہ خس میں اس طرح چھپ رہے جیسے رگ میں خون۔
باغ میں مجھ کو نہ لے جا ورنہ میرے حال پر
ہر گل تر ایک چشم خوں فشاں ہو جائے گا
یعنی میرا حال ایسا ہے کہ جو دیکھتا ہے اُسے رونا آتا ہے۔
وائے گر میرا ترا انصاف محشر میں نہ ہو
اب تلک تو یہ توقع ہے کہ واں ہو جائے گا
صاف شعر ہے۔
فائدہ کیا سوچ آخر تو بھی دانا ہے اسدؔ
دوستی ناداں کی ہے جی کا زیاں ہو جائے گا
نادان کی دوستی جی کا زیان مثل ہے۔
_______
درد منت کش دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا
تکلیف یہ ہے کہ نہ اچھا ہوا نہ برا ہوا ، حسبِ لفظ دونوں باتوں کا نہ ہونا محال معلوم ہوتا ہے لیکن معنی کی راہ سے یہاں ’ اچھا ، وہ ’ اچھا ، نہیں ہے جو برے کے مقابل میں ہے بلکہ اچھا ہونا مرض کے معنی پر ہے۔
جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا گلا نہ ہوا
دستور ہے کہ چار آدمیوں کو ملتفت کر کے کسی کی شکایت کرتے ہیں تاکہ وہ انصاف کریں۔ مگر انھیں رشک کے مارے گوارا نہیں ہے کہ رقیب ہماری شکایت اُس کے منہ سے سنیں اور ہاں میں ہاں ملائیں۔
ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں
تو ہی جب خنجر آزما نہ ہوا
جب تو ہی نے قتل نہ کیا تو پھر یہ آرزو کس سے پوری ہو گی۔
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
لبِ معشوق کی شیرینی پر دلیل یہ ہے کہ حرفِ تلخ اُس کے منہ سے سن کر رقیبِ بوالہوس بھی جو کہ لذتِ عشق سے محروم ہے بے مزہ نہ ہوا۔
ہے خبر گرم اُن کے آنے کی
آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا
اس شعر سے اہتمام مدارت و بے سامانی کا اظہار مقصود ہے اور مضمون کی سستی ظاہر ہے۔
کیا وہ نمرود کی خدائی تھی
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا
’ وہ ، اشارہ ہے غرورِ حسن کی طرف۔
جان دی دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا
پہلے حق کے معنی سچ اور دوسرے حق کے معنی ذمہ۔
زخم گر دب گیا لہو نہ تھما
کام گر رُک گیا روا نہ ہوا
کام تو رُک جانے سے روا نہیں ہونا چاہئے تھا کہ زخم کے دبنے سے بھی لہو رواں نہ ہو ، لیکن میرے حق میں اُس کے برخلاف ہے ’ تھما ، کی جگہ پر ’ تھنبا ، اب متروک ہے۔
رہزنی ہے کہ دلستانی ہے
لے کے دل دلستاں روا نہ ہوا
’ روا نہ ، میں ’ روا ، قافیہ ہے اور ’ نہ ، جزوِ ردیف تھا جو یہاں لفظِ روا نہ کا جزر واقع ہوا ہے اصطلاح میں ایسے قافیہ کو قافیہ معمولہ کہتے ہیں ، قواعدِ قافیہ میں اسے عیب لکھتے ہیں لیکن اب تمام شعراء اسے صنائع لفظیہ میں جانتے ہیں اور بے تکلف استعمال کرتے ہیں۔ حق یہ ہے کہ قافیہ معمولہ سے شعر سست ہو جاتا ہے۔
کچھ تو پڑھئے کہ لوگ کہتے ہیں
آج غالبؔ غزل سرا نہ ہوا
ساری غزل پڑھنے کے بعد پھر یہ کہنا کہ ’ کچھ تو پڑھئے ، یہ مطلب رکھتا ہے شاید کہ طرح میں کچھ پڑھئے۔
_______
گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگیٔجا کا
گہر میں محو ہوا اضطراب دریا کا
یعنی شوق دل میں سما کر تنگیٔجا کے سبب سے جوش و خروش نہیں دکھا سکتا ، گویا دریا گہر میں سما گیا ، کہ اب تلاطم نہیں باقی رہا۔
یہ جانتا ہوں کہ تو اور پاسخ مکتوب
مگر ستم زدہ ہوں ذوق خامہ فرسا کا
’ تو اور پاسخ مکتوب ، یعنی تو اور جواب لکھے ممکن نہیں تقدیر اُس کی یہ ہے ’ کہاں تو اور کہاں پاسخ مکتوب ، ’ کہاں ، کی لفظ محذوف ہے اور لفظِ پاسخ سے نوشتن پاسخ یا فرستادن و دادن پاسخ مراد ہے اور قاعدہ یہ ہے کبھی فعل و فاعل میں اظہارِ استبعاد کے لئے حرفِ عطف کو فاصل کیا کرتے ہیں ، مثلاً آگ اور نہ جلائے یعنی یہ بات مستبعد ہے اور کبھی مبالغہ کے لئے عطف کرتے ہیں ، جیسے آگ اور دہکتی ہوئی ، اسی طرح اور متعلقاتِ فعل میں بھی فصل کر دیتے ہیں۔
حنائے پائے خزاں ہے بہار اگر ہے بھی
دوام کلفت خاطر ہے عیش دُنیا کا
یعنی بہار ہے بھی تو کیا ہے مہندی کی لالی ہے ، چار دن میں جاتی رہے گی پھر خزاں ہی خزاں کا قدم درمیان میں ہے۔
غم فراق میں تکلیف سیر باغ نہ دو
مجھے دماغ نہیں خندہ ہائے بے جا کا
یعنی خندۂ گل مجھ سے نہ دیکھا جائے گا۔
ہنوز محرمی حسن کو ترستا ہوں
کرئے ہے ہربن مو کام چشم بینا کا
یعنی باوجود یہ کہ اپنے ہر بن مو سے دیکھ رہا ہوں ، اس پر بھی محرمی حسن نہیں حاصل ہے یعنی کہنہ ذات تک رسائی نہیں اور ہر بن مو کو چشم بینا کہنے کی وجہ یہ ہے جب کہ ہر شئے آئینہ ظہورِ صنعت و قدرت ہے ، تو اس میں بن مو بھی داخل ہے یعنی ہر بن اس طرح حکمت و صنعت کو دکھارہی ہے جس طرح کوئی آنکھ سے دیکھ لیتا ہے۔
دل اس کو پہلے ہی ناز و ادا سے دے بیٹھے
ہمیں دماغ کہاں حسن کے تقاضا کا
یعنی ناز و ادا دل مانگنے کا تقاضا ہے ، ہم نے تقاضے کی نوبت ہی نہ آنے دی۔
نہ کہہ کہ گریہ بمقدارِ حسرتِ دل ہے
مری نگاہ میں ہے جمع و خرچ دریا کا
یعنی اس بات کو میں ہی خوب جانتا ہوں کہ اس دریا کا منبع و مجمع یعنی حسرتِ دل کس قدر ہے اور اُس کا خرچ یعنی آنسو کس قدر ہیں غرض یہ کہ حسرت بڑھی ہوئی ہے گریہ سے ، اُس کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔
فلک کو دیکھ کے کرتا ہوں اُس کو یاد اسدؔ
جفا میں اُس کی ہے انداز کارفرما کا
یعنی چرخ کو کب یہ سلیقہ ہے ستم گاری میں
کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں
_______
قطرۂ مے بسکہ حیرت سے نفس پرور ہوا
خطِ جام مے سراسر رشتۂ گوہر ہوا
’ گرفتگی و بستگی و تنگی و ضبطِ نفس ، حیرت کے لوازم میں ہیں اور جب ہر قطرۂ مے میں حیرت کے سبب سے یہ صفات پیدا ہوئے تو وہ موتی بن گیا اور پیالہ میں جو لکیر تھی وہ عقدۂ مروارید ہو گئی ، اس بیان سے فقط حیرت کی شگرف کاری کا اظہار مقصود ہے لیکن یہ حیرت حسن ساقی کو دیکھ کر پیدا ہوئی ہے ، یہ مضمون مصنف کے ذہن میں رہ گیا۔
اعتبارِ عشق کی خانہ خرابی دیکھنا
غیر نے کی آہ لیکن وہ خفا مجھ پر ہوا
یعنی میرے عشق کا جو اُسے اعتبار ہو گیا ہے تو وہی میری خانہ خرابی کا باعث ہے ، اے روشنی طبع تو برمن بلاشدی۔
_______
جب بتقریب سفر یار نے محمل باندھا
تپش شوق نے ہر ذرّہ پہ اک دل باندھا
ذرّوں کی جھلملاہٹ اور تپش دل میں وجہ شبہ ظاہر ہے جو حرکت و سکون سے مرکب ہے۔
اہل بینش نے بہ حیرت کدۂ شوخیٔناز
جوہر آئینہ کو طوطی بسمل باندھا
’ سبزۂ باغ و سبزہ خط و سبزۂ زنگار و سبزۂ جوہر ، کو طوطی سے تشبیہ دیتے ہیں اور آئینہ فولاد کے جوہروں کی سبزی ہر ایک رُخ سے قائم نہیں ہوتی ، اس سبب سے اُسے طوطی بسمل سے تشبیہ دی کہ اس میں حرکت معلوم ہوتی ہے اور متحرک کی متحرک سے تشبیہ جس میں وجہ شبہ بھی حرکت ہو نہایت لطیف و بدیع ہوتی ہے ، غرض یہ ہے کہ اُس کے آئینہ فولاد میں جوہروں کی سبزی جو بعض رُخ سے دکھائی دے جاتی ہے یہ طوطی بسمل ہے جسے شوخیٔناز سے بسمل کر دیا ہے ، اسی طرح کی تشبیہ بے تابی ذرّہ و بے قراریٔ دل سے پہلے شعر میں بھی ہے اور غنیمت کا مصرع چمن بے تاب ، چوں طاؤس ، بسمل آسی قسم کی تشبیہ رکھتا ہے۔
یاس و اُمید نے یک عربدۂ میداں مانگا
عجز ہمت نے طلسم دلِ سائل باندھا
یعنی عجز ہمت نے ایک طلسم بنایا ہے ، جس میں یاس اور اُمید میں عربدۂ بازی کا میدان گرم ہورہا ہے ، یاس چاہتی ہے میں غالب ہو جاؤں ، اُمید چاہتی ہے میں بازی لے جاؤں۔ عربدۂ میدان سے میدان عربدہ مراد ہے اور طلسم باندھنا طلسم بنانے کے معنی پر ہے ، اُس کے مقابل طلسم کھولنا یعنی طلسم بگاڑنا اور توڑنا کہیں گے ، حاصل یہ ہوا کہ ہمت جو نہیں رکھتا وہ اُمید و بیم میں مبتلا رہتا ہے۔
نہ بندھے تشنگی ذوق کے مضموں غالبؔ
گرچہ دل کھول کے دریا کو بھی ساحل باندھا
ساحل کی تشنگی مشہور ہے ، اس میں اگر اتنا مبالغہ کیا کہ سارا دریا اُس نے پی لیا اور دریا بھی ساحل بن کر خشک رہ گیا ، جب بھی تشنگیٔذوق کا مضمون نہ ادا ہوا اور دل کھول کے کوئی کام کرنا اُس کام میں مبالغہ کرنے کو کہتے ہیں۔
_______
میں اور بزم مے سے یوں تشنہ کام آؤں
گر میں نے کی تھی توبہ ساقی کو کیا ہوا تھا
یعنی تعجب کا مقام ہے کہ مجھے اور شراب نہ ملی ، میں نے خود نہیں مانگی تھی تو خود ساقی نے پلادی ہوتی
ہے ایک تیر جس میں دونوں چھدے پڑے ہیں
وہ دن گئے کہ اپنا دل سے جگر جدا تھا
یعنی وہ دن گئے کہ دل اپنی جگہ پر تھا اور جگر اپنی جگہ پر تھا۔
درماندگی میں غالبؔ کچھ بن پڑے تو جانوں
جب رشتہ بے گرہ تھا ناخن گرہ کشا تھا
مشکل کو گرہ سے استعارہ کیا ہے اور تدبیر کو ناخن سے۔
_______
گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا
بحر گر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا
یعنی گھر رونے کے سبب سے دریا ہورہا ہے نہ روتے تو صحرا ہوتا۔
تنگیٔدل کا گلہ کیا کہ وہ کافر دل ہے
کہ اگر تنگ نہ ہوتا تو پریشاں ہوتا
یعنی واشد خاطر اس قدر بڑھ جاتی کہ پریشانی کی حد تک پہنچتی۔
بعد یک عمرو رع بار تو دیتا بارے
کاش رضواں ہی درِ یار کا درباں ہوتا
یعنی رضواں میں اتنی بات تو ہے کہ عمر بھر عبادت کرنے کے بعد وہ بہشت میں جانے دیتا ہے۔
_______
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
فلسفہ میں اُصولِ مسلمہ سے یہ ہے لا شئے سے شئے نہیں بن سکتی اور عالم شئے موجود ہے تو ضرور ہے کہ کسی شئے سے یہ شئے حاصل ہوئی ہو اور جس شئے سے یہ حاصل ہوئی اُسے ظبیعین یعنی قائلین نیچر ہیولیٰ و صورت کہتے ہیں اور صوفیہ عین ذات سمجھتے ہیں اور متکلمین کا مذاق کہتا ہے یہ اصل لا شئے سے شئے نہیں ہو سکتی ، اس قدر ظاہر نہیں ہے جس قدر تصرف و تدبیر و حکمت کے آثار ظاہر و محسوس و آشکار ہیں اور اسی وجہ سے فاعل و منفعل و مؤثر و متاثر میں ہم فرق کرتے ہیں۔ مصنف نے یہ شعر صوفیہ کے مذاق میں کہا ہے ، یعنی میں جب کچھ نہ تھا تو خدا تھا اور کچھ ہوکر اپنی مبدأ سے مغائر ہو گیا اور اُس مبدأ فیض سے علاحدہ ہو جانا میرے حق میں برا ہوا۔
ہوا جب غم سے یوں بے حس تو غم کیا سر کے کٹنے کا
نہ ہوتا گر جدا تن سے تو زانو پر دھرا ہوتا
غم میں سر کا زانو پر دھرنا امر مشہور ہے اور معنی ظاہر ہیں کہ سر کٹنے کے بعد کا یہ کلام ہے۔
ہوئی مدت کہ غالبؔ مرگیا پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
’ کیا ، تحقیر کے لئے ہے ، یعنی ہر امر کی خواہ وہ باعثِ عیش و راحت ہو یا سببِ رنج و آفت ہو ، وہ تحقیر کیا کرتا تھا اور ہیچ سمجھتا تھا۔
_______
یک ذرّۂ زمیں نہیں بے کار باغ کا
یاں جادہ بھی فتیلہ ہے لالے کے داغ کا
داغ سے زخم اگر مراد لیں تو فتیلہ وہ بتی ہے جو زخم میں رکھتے ہیں اور اگر داغ سے چراغ مراد لیں تو فتیلہ اُس کے لئے بھی باعثِ فروغ ہوتا ہے ، پہلی صورت میں کثرتِ نشوونما کا اظہار ہے کہ جادہ ایسا باریک بڑھ گیا جیسی رگِ لالہ ہوتی ہے اور داغِ لالہ کی تخصیص اس لئے ہے کہ زیادتی و کثرت گلہائے رنگیں پر اور شدتِ خضرۂ سبزہ زار پر دلالت کرے اور دوسری صورت میں یہ معنی ہیں کہ جادہ کو لالہ کے ساتھ وہ مناسبت ہے جو فتیلہ و شعلہ میں پیدا ہے۔
بے مے کسے ہے طاقتِ آشوبِ آگہی
کھینچاہے عجز حوصلہ نے خط ایاغ کا
یعنی آشوب ہوشیاری کے برداشت کرنے سے حوصلہ کو عجز ہے ، اُس عجز نے ہوشیاری و آگہی پر خطِ ایاغ کھینچ دیا ہے ، یعنی صفحۂ خاطر پر سے اُسے کاٹ دیا ہے ، حاصل یہ کہ ایاغِ پیکر ہوشیاری کو محو کر دیتا ہے ، جام جمشید میں خطوط تھے اس سبب سے شعر آج تک ہر جام شراب میں خط ہونا لازم سمجھتے ہیں اور خطِ جام کے تشبیہات اور مضامین بہت کثرت سے کہے ہیں۔
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا
یعنی بلبل کو خلل دماغ سمجھ کر گل اُس پر ہنستے ہیں ، کاروبار سے مراد اُس کے حرکات ہیں مصنف نے لفظ ’ حالِ زار ، کو چھوڑکر ’ کاروبار ، اس وجہ سے کہا کہ کار بمعنی زراعت و بار بمعنی ثمر بھی ہے اور یہ گل کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں۔
تازہ نہیں ہے نشۂ فکر سخن مجھے
تر یا کئی قدیم ہوں دودِ چراغ کا
دود بمعنی فکر اور چراغ استعارہ ہے کلامِ روشن سے۔
سو بار بند عشق سے آزاد ہم ہوئے
پر کیا کریں کہ دل ہی عدو ہے فراغ کا
یعنی جب ہم آزاد ہوتے ہیں دل پھر گرفتار کروادیتا ہے۔
بے خونِ دل ہے چشم میں موجِ نگہ غبار
یہ میکدہ خراب ہے مے کے سراغ کا
چشم میکدہ اور مے خونِ دل ہے اور چشم میں خونِ دل نہ ہونے سے موج نگاہِ غبار بن گئی ہے ، گویا کہ میکدہ مے کی جستجو میں خراب و غبار آلودہ ہورہا ہے۔
باغِ شگفتہ تیرا بساطِ نشاطِ دل
ابرِ بہارِ خم کدہ کس کے دماغ کا
پہلے مصرع میں سے ’ ہے ، محذوف ہے ، مطلب یہ ہے کہ جب شگفتگی باغ سے تجھے نشاط پیدا ہوتا ہے تو خیال کرتا ہے کہ ابرِ بہار جس نے ساغر کو شراب رنگ و بو سے لبریز کر دیا ہے کس کے دماغ کا خم کدہ ہوا۔ دوسرے مصرع میں سے جو ’ ہوا ، محذوف یعنی ابرِ بہار بھی تیرے ہی دماغ میں نشہ پیدا کرنے کے لئے ایک خم کدہ ہے یہ تجنیس بساط و نشاط صنائع خطیہ میں سے ہے۔
_______
وہ میری چین جبیں سے غم پنہاں سمجھا
راز مکتوب بہ بے ربطی عنواں سمجھا
’ یہ ، بیان سبب کے لئے اور عنوان مکتوب سے پیشانی اور راز مکتوب نے غم نہانی کو تشبیہ دی ہے۔
یک الف بیش نہیں صیقل آئینہ ہنوز
چاک کرتا ہوں میں جب سے کہ گریباں سمجھا
یعنی جب سے میں گریبان کو گریبان سمجھا ، جب سے اُسے چاک کیا کرتا ہوں ، حاصل یہ ہے کہ جب سے مجھے اتنا شعور ہوا کہ تعلقات دُنیا مانع صفائے نفس ہیں جب ہی سے میں نے ترکِ دُنیا کیا ، لیکن اس پر بھی آئینۂ دل صاف نہیں ہوا ، بس ظاہر میں جو آزادوں کی سینہ پر ایک الف کھینچا ہوا ہوتا ہے وہ تو ہے صفائے باطن کچھ نہیں حاصل ہوئی اور گو بیانِ تعلقات دُنیا سے استعارہ ہے ، اس وجہ سے کہ یہ دونوں انسان کے گلوگیر ہیں۔ سینہ پر الف کھینچنا آزادوں کا طریقہ ہے اور یہ مضمون فارسی والے کہا کرتے ہیں اور ’ بیش نہیں ، بیان حصر کے لئے ہے ، مگر اُردو کی نحو اس کی متحمل نہیں ، یہ فارسی کا ترجمہ ہے۔
شرح اسبابِ گرفتاری خاطر مت پوچھ
اس قدر تنگ ہوا دل کہ میں زنداں سمجھا
شرح کے لغوی معنی کھولنے کے ہیں ، لفظ تنگ کی مناسبت سے مصنف نے یہ لفظ باندھا ہے اور تنگیٔخاطر و انشراحِ خاطر میں بھی تقابل ہے اور گرفتگیٔخاطر کے مقام پر گرفتاریٔ خاطر لفظ زنداں کی رعایت سے اختیار کی ہے۔
بدگمانی نے نہ چاہا اُسے سرگرم خرام
رُخ پہ ہر قطرۂ عرق دیدۂ حیراں سمجھا
یعنی میری بدگمانی نے اُس کا سرگرم خرام ہونا نہ گوارا کیا ، اس لئے کہ خرام میں جو پسینہ اُسے آیا تو میں ہر قطرہ کو یہ سمجھا کہ رقیب کی چشم حیراں اُس کے رُخ پر پڑی ہے ، یہاں قطرۂ عرق میں مصنف نے فک اضافہ کیا ہے۔
عجز سے اپنے یہ جانا کہ وہ بدخو ہو گا
نبض خس سے تپش شعلہ سوزاں سمجھا
عجز کو خس اور تند خوئی کو شعلہ سے تعبیر کیا ہے اور خس کو رگِ نبض سے تشبیہ دی اور تپش سے تپِ مقصود ہے ، اس شعر کو طعن و تشنیع کے لہجہ میں پڑھنا چاہئے ، شاعر اپنے اوپر آپ ملامت کرتا ہے کہ میں نے اپنی عجز و ناقابلیت سے یہ سمجھ لیا کہ وہ بدمزاج و تندخو ہو گا ، اُس سے احتراز کرنا چاہئے ، گویا نبض خس سے تپِ شعلہ کا حال معلوم کر لیا ، یہ بھی محال ہے اور وہ بھی غلط خیال۔
سفر عشق میں کی ضعف نے راحت طلبی
ہر قدم سایہ کو میں اپنے شبستاں سمجھا
جہاں رات گذرے وہ شبستاں ہے یعنی ہر قدم پر اپنے سایہ کو دیکھ کر میں یہی سمجھا کہ رات ہو گئی اور مقام آگیا۔
تھا گریزاں مژۂ یار سے دل تا دم مرگ
دفع پیکانِ قضا اس قدر آساں سمجھا
تادمِ مرگ کی لفظ سے یہ ظاہر کرنا منظور ہے کہ آخر نہ بچ سکا اور پیکانِ قضا سے مژہ کا استعارہ کیا ہے۔
دل دیا جان کے کیوں اُس کو وفادار اسدؔ
غلطی کی کہ جو کافر کو مسلماں سمجھا
بے وفا کو وفادار جان کر دل دیا یعنی غلطی سے کافر کو مسلمان سمجھا ، دل و جان کا ضلع بھی اس میں بول گئے ہیں۔
_______
پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
دل جگر تشنۂ فریاد آیا
دوسرے مصرع میں ’ آیا ، ’ ہوا ، کے معنی پر ہے ، فارسی کا محاورہ ہے ، اُردو میں اس طرح محاورہ نہیں بولتے ، حاصل یہ ہے کہ دل جگر تشنۂ فریاد ہوا تو مجھے دیدۂ تر یاد آیا کہ یہ پیاس اُسی سے بجھے گی یعنی رونا بھی فریاد کرنا ہے ، رونے سے دل و جگر کی خواہش فریاد پوری ہو جائیں گی یا دل تشنہ جگر کی پیاس اشکِ فریاد سے بجھے گی۔
دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز
پھر ترا وقتِ سفر یاد آیا
دم لینا یعنی ٹھہرنا اور سکون ہونا اور قیامت بے تابی و اضطراب سے استعارہ ہے ، یعنی اضطراب میں سکون ہونے نہ پایا تھا کہ پھر تیرا وداع ہونا اور سفر کرنا یاد آگیا۔
سادگی ہائے تمنا یعنی
پھر وہ نیرنگ نظر یاد آیا
پہلے مصرع میں سے ’ دیکھو ، محذوف ہے ، کہتے ہیں میری سادگی تمنا کو تو دیکھو یعنی جو بات کے محال ہے اور ہونے والی نہیں اُس کی خواہش و آرزو مجھے سادگی و نادانی سے پیدا ہوئی ہے ، یعنی پھر وہ نیرنگ نظر یاد آیا ’ وہ ، اشارہ ہے اس سامانِ عیش و عشرت کی طرف جسے آنکھیں دیکھ چکی ہیں اور جسے مصنف نے یہاں نیرنگ نظر سے تعبیر کیا ہے اور لفظ سادگی سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ اُس عیش کے دیکھنے کی اب اُمید بھی نہیں ہے۔
عذر و اماندگی اے حسرتِ دل
نالہ کرتا تھا جگر یاد آیا
حاصل یہ ہے کہ اے حسرتِ دل میرے عذر و اماندگی کو قبول کر ، میں چاہتا تھا کہ نالہ کروں مگر جگر کا خیال آگیا کہ شق نہ ہو جائے ، اس سبب سے نالہ نہ کیا ’ قبول کر ، پہلے مصرع میں محذوف ہے اور اس قسم کے محذوفات فارسی میں ہوتے ہیں ، اُردو کی زبان اس کی مساعد نہیں ، حذف سے شعر میں حسن پیدا ہو جاتا ہے مگر اُسی جگہ جہاں محاورہ میں حذف ہے۔
زندگی یوں بھی گذر ہی جاتی
کیوں ترا راہ گذر یاد آیا
کہتے ہیں کہ تیرا راہ گذر یاد آنے سے میری زندگی گذر گئی اور یہ بات اچھی ہوئی کہ میں زندگی سے بیزار تھا ، لیکن اُس کے یاد آنے سے ایسا اندوہ و قلق ہوا کہ کاش کہ نہ یاد آیا ہوتا ، زندگی تو کسی نہ کسی طرح کٹ ہی جاتی۔
کیا ہی رضواں سے لڑائی ہو گی
گھر ترا خلد میں گر یاد آیا
یعنی وہ خلد کو ترجیح دے گا اور میں گھر کو تیرے یا میں خلد سے نکلنا چاہوں گا اور وہ مجھے روکے گا۔
آہ وہ جرأت فریاد کہاں
دل سے تنگ آکے جگر یاد آیا
یعنی وہ جگر جو مدت ہوئی کہ خون ہو گیا دل کی بے طاقتی اور کم جرأتی دیکھ کر یاد آگیا کہ اُس مرنے والے میں جیسی جرأتِ فریاد تھی وہ اس میں نہیں ہے۔
پھر ترے کوچہ کو جاتا ہے خیال
دلِ گم گشتہ مگر یاد آیا
یعنی تیرے کوچہ ہی میں دل کے گم ہو جانے کا احتمال ہے کہ خیال اسی طرف ڈھونڈھنے چلا ہے
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
یہاں دشت کی ویرانی میں مبالغہ اس لئے کیا کہ گھر کی ویرانی میں زیادتی لازم آئی ، یعنی دشت میں ایسی ویرانی جیسے بعینہٖ میرے گھر میں تھی ، تشبیہ معکوس ہے ، مولوی الطاف حسین صاحب حالیؔ شاگردِ مصنف نے یہاں تشبیہ سے اعتراض کیا ہے ، انھوں نے یہ مطلب لیا ہے کہ دشت کو دیکھ کے ڈر لگا تو گھر یاد آیا کہ یہاں سے بھاگو یہ مطلب بھی محاورہ سے علاحدہ نہیں ہے۔
میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسدؔ
سنگ اُٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
یعنی پھر اپنے ہی سر میں مار لیا۔
_______
ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا
آپ آتے تھے مگر کوئی عناں گیر بھی تھا
یعنی رقیب روکے ہوئے تھا۔
تم سے بے جا ہے مجھے اپنی تباہی کا گلہ
اُس میں کچھ شائبۂ خوبی تقدیر بھی تھا
تقدیر کی برائی کو تشنیع کی راہ سے خوبی تقدیر کہا ہے۔
تو مجھے بھول گیا ہو تو پتہ بتلادوں
کبھی فتراک میں تیرے کوئی نخچیر بھی تھا
وہ میں ہی ہوں۔
قید میں ہے ترے وحشی کو وہی زلف کی یاد
ہاں کچھ اک رنج گرانباری زنجیر بھی تھا
یادِ زلف کے مقابلے میں قیدِ زنجیر کو بہت ہی سبک کر کے بیان کیا تاکہ یادِ زلف کی گراں باری بالتزام ظاہر ہو۔
بجلی اک کوند گئی آنکھ کے آگے تو کیا
بات کرتے کہ میں لبِ تشنۂ تقریر بھی تھا
یعنی ایک جھلک دکھا کر ہٹ گئے تو کیا بات کی ہوتی کہ مجھے اُس کی بھی تمنا ہے ’ کرتے ، مرتے وغیرہ تمنا کے لئے ہوا کرتا ہے۔
یوسف اُس کو کہوں اور کچھ نہ کہے خیر ہوئی
گر بگڑ بیٹھے تو میں لائق تعزیر بھی تھا
یعنی اس بات پر وہ اگر بگڑے کہ تم نے مجھے غلام بنایا تو جا سے ہے۔
دیکھ کر غیر کو ہو کیوں نہ کلیجہ ٹھنڈا
نالہ کرتا تھا ولے طالبِ تاثیر بھی تھا
مطلب یہ کہ غیر کو برے حالوں دیکھ کر آلخ اور دوسرے مصرع میں فاعل یعنی ’ میں ، محذوف ہے اور ’ ولے ، فارسی کا محاورہ ہے ، اب اُردو میں متروک ہے۔
پیشے میں عیب نہیں رکھئے نہ فرہاد کو نام
ہم ہی آشفتہ سروں میں وہ جواں میر بھی تھا
ہم ہی اور تم ہی اور اُس ہی اور انھیں کی جگہ پر ہمیں اور تمہیں اور اُسے اور اُنھیں اب محاورہ میں ہے اور یہ کلمات اپنی اصل سے تجاوز کرگئے ہیں۔
ہم تھے مرنے کو کھڑے یار نہ آیا نہ سہی
آخر اُس شوخ کے ترکش میں کوئی تیر بھی تھا
یعنی پاس نہ آیا تھا تو دُور سے کوئی تیر ہی مار دیا ہوتا۔
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا ؟
’ ہمارا ، کے بعد ’ بھی ، کے لانے کا محل تھا ، مگر ضرورت شعر سے اُسے آخر میں کر دیا ہے ، اس شعر میں محض ظرافت و لطیفہ گوئی کا قصد کیا ہے کہ کچھ انبساطِ نفس اس سے بھی حاصل ہوتا ہے۔
ریختی کے تمہیں اُستاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
معنی ظاہر ہیں۔
_______
لب خشک در تشنگی مردگاں کا
زیارت کدہ ہوں دل آزردگاں کا
پہلے مصرع میں سے بھی ’ ہوں ، محذوف ہے اور تشنگی استعارہ ہے ، شدت آرزو و شوق سے۔
ہمہ نا اُمیدی ہمہ بدگمانی
میں دل ہوں فریبِ وفا خوردگاں کا
پہلا مصرع بالکل فارسی ہے ، اس سبب سے کہ ہمہ ایسے مقام پر اُردو میں نہیں بولتے۔
_______
تو دوست کسی کا بھی ستمگر نہ ہوا تھا
اوروں پہ ہے وہ ظلم کہ مجھ پر نہ ہوا تھا
ستمگر منادی ہے۔
چھوڑا مہ نخشب کی طرح دستِ قضا نے
خورشید ہنوز اُس کے برابر نہ ہوا تھا
یعنی خورشید ناقص ہی رہ گیا ، جس طرح مشہور ہے کہ ماہ نخشب ابن مقنع سے ناقص رہ گیا۔
توفیق بہ اندازۂ ہمت ہے ازل سے
آنکھوں میں ہے وہ قطرہ کہ گوہر نہ ہوا تھا
یعنی اگر قطرۂ اشک بھی گوہر ہو گیا ہوتا تو یہ عزت کہاں حاصل ہوئی کہ آنکھوں میں اُس کی جگہ ہے ، قطرۂ گوہر کی ہمت قطرۂ اشک سے کم نہ تھی ، اس وجہ سے وہ کانوں ہی تک پہنچتا ہے ، آنکھوں میں جگہ نہیں پا سکتا۔
جب تک کہ نہ دیکھا تھا قد یار کا عالم
میں معتقد فتنۂ محشر نہ ہوا تھا
قیامت کو قیامت سے تشبیہ دی ہے کہتے ہیں کہ قدِ یار کو دیکھ کر وجود فتنۂ محشر کا مجھے یقین آیا۔
میں سادہ دل آزردگی یار سے خوش ہوں
یعنی سبق شوق مکرر نہ ہوا تھا
ہر اُس کی آزردگی سے جو تجدید شوق ہوئی ، اُسے تکرارِ سبق سے تعبیر کیا ہے۔
دریائے معاصی تنک آبی سے ہوا خشک
میرا سر دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا
محاورہ میں گناہ گار کو تر دامن کہتے ہیں ، مطلب یہ ہے میرے دامن نے سارا دریائے معاصی جذب کر لیا کہ وہ خشک رہ گیا اور پھر بھی گوشۂ دامن تک اچھی طرح تر نہ ہوا یعنی جتنے معاصی تھے سب میں نے کئے اُس پر بھی میرا جی نہیں بھرا۔
جاری تھی اسدؔ داغ جگر سے مرے تحصیل
آتش کدہ جاگیر سمندر نہ ہوا تھا
اس شعر میں اپنا مقابلہ سمندر سے اور داغ کا آتش کدہ سے کیا ہے اور داغ کو ترجیح دی ہے کہ اُس سے تحصیل جاری ہے یعنی اُس کے سبب سے جو آہ و نالہ پیہم نکلتا ہے وہی تحصیل ہے تو گویا داغ دل میری جاگیر ہے سمندر کو آتش کدہ سے یہ فائدہ نہیں حاصل۔
_______
شب کو وہ مجلس فروز خلوت ناموس تھا
شرشتۂ ہر شمع خار کسوتِ فانوس تھا
ناموس عصمت دراز اور لباس میں خار کا رہ جانا باعثِ بے چین ہونے کاہے ، عرض یہ کہ اُس کے سامنے شمع بے چین ہوئی جارہی تھی گویا اُس کے لباس میں خار تھا۔
مشہد عاشق سے کوسوں تک جو اُگتی ہے حنا
کس قدر یارب ہلاکِ حسرتِ پا بوس تھا
یعنی اس کی خاک سے مہندی اُگتی ہے کہ اس طرح معشوق کے قدم تک پہنچ جائے۔
حاصل اُلفت نہ دیکھا جز شکستِ آرزو
دل بدل پیوستہ گویا یک لب افسوس تھا
ایک دل عاشق کا اور ایک معشوق کا دونوں مل کر لبِ افسوس بن جاتے ہیں۔
کیا کہوں بیماری غم کی فراغت کا بیاں
جو کہ کھایا خونِ دل بے منت کیموس تھا
’ کیا کہوں ، یعنی کیا کروں ’ جو کہ ، یعنی جو کچھ اور کیموس اصطلاح طب میں ہضم جگری کو کہتے ہیں ، جس سے غذا مستحیل ہوکر خون بن جاتی ہے کہتے ہیں میں نے جو کچھ کھایا بے کیموس ہوئے وہ خون جگر ہو گیا یعنی بیماری غم میں میں نے خون جگر ہی کھایا اور خون جگر کھانا غم و غصہ کھانے کے مقام پر کہتے ہیں۔
_______
آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
صاحب کو دل نہ دینے پہ اتنا غرور تھا
یعنی کچھ غرور نہ چلا اپنے اُوپر فریفتہ ہو گئے۔
قاصد کو اپنے ہاتھ سے گردن نہ ماریے
اُس کی خطا نہیں ہے یہ میرا قصور تھا
یعنی انتہائے رشک یہ ہے کہ وہ کسی کو قتل بھی کرے تو نہیں دیکھا جاتا اور یہ آرزو ہوتی ہے کہ ہمیں قتل کرے ’ اپنے ہاتھ ، کی لفظ سے مصنف نے رشک کی طرف اشارہ کیا ہے۔
_______
عرضِ نیاز عشق کے قابل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا
یعنی بے وفائی و بے اعتنائی کے صدمے اُٹھاتے اُٹھاتے اب وہ دل ہی نہیں رہا کہ عشق سے نیازمندی کا دعویٰ کریں۔
جاتا ہوں داغِ حسرت ہستی لئے ہوئے
ہوں شمع کشتہ درخور محفل نہیں رہا
محفل استعارہ ہے ہستی سے۔
مرنے کی اے دل اور ہی تدبیر کر کہ میں
شایان دست و بازوئے قاتل نہیں رہا
ناقص و کامل دونوں کے سامنے شش جہت موجود ہے اور دونوں سرخلقت کے سمجھنے میں حیران ہیں اور اس آئینہ میں دونوں دیکھ رہے ہیں ، دونوں کی ایک صورت ہے ، ناقص و کامل میں یہاں کچھ فرق نہیں ، دوسرا احتمال یہ ہے کہ روئے شش جہت کہا ہو مصنف نے اور معنی یہ ہیں کہ جس طرح آئینہ قبول عکس میں کچھ امتیاز نہیں کرتا یہی حال ہے بہ تمثیل عارف کے دل روشن کا۔
وا کر دیے ہیں شوق نے بند نقابِ حسن
غیر از نگاہ اب کوئی حائل نہیں رہا
یعنی ناظر اور مرئی کا امتیاز جو باقی ہے یہی بس حائل ہے ، اس سبب سے کہ آنکھ اُس کو نہیں دیکھ سکتی اور اُس کے علاوہ جو حجاب تھے وہ کثرتِ شوق نے اُٹھادئیے۔
گو میں رہا رہین ستمہائے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا
یعنی کسی حال میں میں تجھے نہیں بھولا۔
دل سے ہو ائے کشت وفا مٹ گئی کہ واں
حاصل سو ائے حسرت حاصل نہیں رہا
یعنی وفا کا حوصلہ اب نہیں رہا کہ وفا کر کے حسرت کے سوا کچھ نہ پایا۔
بیداد عشق سے نہیں ڈرتا مگر اسدؔ
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا
یعنی جب دل نہیں رہا تو بیداد کون اُٹھائے گا۔
_______
رشک کہتا ہے کہ اُس کا غیر سے اخلاص حیف
عقل کہتی ہے کہ وہ بے مہر کس کا آشنا
یعنی عقل معشوق کی برائی مجھے سمجھاتی ہے تاکہ رشک کا قلق کم ہو جائے یہ سمجھ کر کہ جس طرح اُس نے ہمارے ساتھ بے وفائی کی غیر سے بھی یوں نہیں پیش آئے گا۔
ذرّہ ذرّہ ساغر میخانۂ نیرنگ ہے
گردش مجنوں بچشم کہائے لیلیٰ آشنا
یعنی عالم کا ہر ذرّہ جو گردش و انقلاب میں مبتلا ہے ، یہ نیرنگ فلک کے اشارہ سے ہے ، یہاں لفظ ساغر سے معنی گردش نے تراوش کی اور اسی رعایت سے نیرنگ کو میخانہ سے تعبیر کیا ہے ، اس کے بعد برسبیل تمثیل کہتے ہیں کہ مجنوں کی گردش لیلیٰ ہی کے اشارہ سے ہے۔
شوق ہے سامان طرز نازش ارباب عجز
ذرّہ صحرا دست گاہ و قطرہ دریا آشنا
عاجزوں کا سرمایہ ناز شوق ہے ، جس کے سبب سے ذرّہ انا البر اور قطرہ انا البحر کہنے لگتا ہے۔
میں اور اک آفت کا ٹکڑا وہ دل وحشی کہ ہے
عافیت کا دشمن اور آوارگی کا آشنا
’ ہوں ، محذوف ہے یعنی میں ہوں اور وہ دل جو دشمن عافیت ہے ، ظاہر ہے کہ آفت کوئی ایسی شئے نہیں ہے جس کا ٹکڑا بھی ہو ، مگر محاورہ میں قیاس کو دخل ہی نہیں ، اسی طرح پری کا ٹکڑا ، حور کا ٹکڑا بھی محاورہ ہے ، چاند کا ٹکڑا لبتہ معنی رکھتا ہے اور پہلے بھی محاورہ تھا ، اُس کے بعد پری کا ٹکڑا اور حور کا ٹکڑا اور آفت کا ٹکڑا اسی قیاس پر کہنے لگے اور اب سب صحیح ہیں۔
شکوہ سنج رشک ہمدیگر نہ رہنا چاہئے
میرا زانو مونس اور آئینہ تیرا آشنا
یعنی تم آئینہ میں ہر وقت مشغول رہو تو میں شکایت نہیں کرتا اور میں ہمیشہ سر بزانو رہوں تو تم برا نہ مانو ، شعرا زانو کو آئینہ سے تشبیہ دیا کرتے ہیں۔
کوہکن نقاش یک تمثال شیریں تھا اسدؔ
سنگ سے سر مارکر ہووئے نہ پیدا آشنا
یعنی فقط نقاش تھا عاشق صادق نہ تھا نہیں تو تعجب ہے کہ سنگ سے سر مارے اور اُس میں سے معشوق نکل نہ آئے۔
_______
ذکر اُس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر جو تھا رازداں اپنا
یعنی وہ بھی عاشق ہو گیا اس سبب سے ایک تو ذکر ہی دلفریب ، دوسرے اُس شخص کی زبان سے جو فریفتہ ہورہا ہے اور پھر سحر بیان بھی ہے۔
مے وہ کیوں بہت پیتے بزم غیر میں یارب
آج ہی ہوا منظور ان کو امتحاں اپنا
یعنی مے کشی میں اُن کو اپنا امتحان منظور تھا تو کاش کہ میرے ساتھ شراب پی کر بے ہوش ہوئے تھے ، شکایت خدا سے یہ ہے کہ آج ہی اُس کے دل میں یہ بات آنا تھی ، یہاں پی گئے کے مقام پر پیتے مصنف مرحوم نے باندھا ہے جس سے یہ معنی نکلتے ہیں کہ بھلا بزم غیر میں وہ کیوں بہت سی شراب پیتے ، یہ میری بدقسمتی ہے کہ آج میرے گھر میں آئے تو بہت سی شراب پی گئے۔
منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے
عرش سے ادھر ہوتا کاش کے مکاں اپنا
یعنی کاش کہ ہمارا مکاں عرش سے اس طرف ہوتا کہ ہم عرش پر منظر بنا کر اپنے مقام کو دیکھ سکتے ، لیکن مشکل یہ ہے کہ ہمارے مکان سے بلند کوئی جگہ ہی نہیں۔ یہ وجہ ہے کہ ہم اپنی حقیقت و ماہیت سے بے خبر ہیں۔
دے وہ جس قدر ذلت ہم ہنسی میں ٹالیں گے
بارے آشنا نکلا اُن کا پاسباں اپنا
یعنی اُن کا پاسباں بارے اپنا آشنا نکلا۔
درد دل لکھوں کب تک جاؤں اُن کو دکھلادوں
اُنگلیاں فگار اپنی خامہ خونچکاں اپنا
خامہ کا خونچکاں ہونا ایک تو مضمون خونچکاں کے سبب سے ہے ، دوسرے اُنگلیوں کے فگار ہونے کے سبب سے ہے۔
گھستے گھستے مٹ جاتا ہے آپ نے عبث بدلا
ننگِ سجدہ سے میرے سنگ آستاں اپنا
یعنی میں اتنے سجدے کرتا کہ پتھر گھس جاتا۔
تا کرے نہ غمازی کر لیا ہے دُشمن کو
دوست کی شکایت میں ہم نے ہم زباں اپنا
یعنی تاکہ معشوق سے جا کر یہ ذکر نہ کرے کہ میں شکایت کیا کرتا ہوں۔
ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالبؔ دُشمن آسماں اپنا
غرض یہ ہے کہ عقیل و ہنر دُشمنی فلک کا باعث ہوا کرتا ہے۔
_______
سرمۂ مفت نظر ہوں مری قیمت یہ ہے
کہ رہے چشم خریدار پہ احساں اپنا
یعنی میرے کلام کا فیض عام ہے اور اس سے انتفاع مفت ہے جیسے آنکھیں سینک لینا مفت میں ہر شخص کو حاصل ہے ، لذتِ نظر کو سرمۂ مفت سے تشبیہ دی ہے اور سرمۂ صفت کی اضافتِ نظر کی طرف تشبیہی ہے۔
رخصت نالہ مجھے دے کہ مبادا ظالم
تیرے چہرہ سے ہو ظاہر غم پنہاں اپنا
یعنی نالہ نہ کرنے سے دل ہی پر غم نہانی کا اثر پڑے گا اور میرے دل سے تیرے دل کو بھی راہ ہے
_______
غافل بہ و ہم ناز خود آرا ہے ورنہ یاں
بے شانۂ صبا نہیں طرہ گیاہ کا
یعنی لوگ سر حقیقت سے غافل ہیں ، اُن کی طبیعت میں جو ایک مادہ فخر و ناز ہے اُس نے یہ وہم پیدا کر دیا ہے کہ ہم نے یہ کیا اور ہماری تدبیر سے یہ بن پڑا ، حالاں کہ جو کچھ ہے سب اُسی طرف سے ہے ، اس شعر میں لطفِ الٰہی کو بادِ صبا سے تشبیہ دی ہے۔
بزم قدح سے عیش تمنا نہ رکھ کہ رنگ
صید زدام جستہ ہے اس دام گاہ کا
بزم قدح یعنی بزمِ شراب۔ رنگ یعنی عیش۔ دام گاہ دُنیا سے استعارہ ہے۔ عیش تمنا نہ رکھ ترجمہ فارسی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ عیش کی تمنا نہ رکھ۔
رحمت اگر قبول کرے کیا بعید ہے
شرمندگی سے عذر نہ کرنا گناہ کا
’ شرمندگی سے ، مفعول لہ ہے عذر نہ کرنے کا اور ’ عذر نہ کرنا ، مفعول یہ ہے قبول کرنے کا ’کیا بعید ہے ، جو اب شرط۔
مقتل کو کس نشاط سے جاتا ہوں میں کہ ہے
پر گل خیال زخم سے دامن نگاہ کا
یعنی ظاہر میں گل سے زخم کو تشبیہ دی ہے۔
جاں در ہوائے ایک نگہ گرم ہے اسدؔ
پروانہ ہے وکیل تیرے داد خواہ کا
معشوق سے خطاب ہے کہ تیر داد خواہ یعنی اسدؔ جاں درہو ایک نگہ گرم ہے اور اسدؔ جان در ہوا ہے ، یہ ویسی ہی ترکیب ہے جیسے کہیں فلاں سر بکف ہے یا پادر رکاب ہے ، پھر جان کو درہوائے نگہ گرم میں ہونے کی وجہ سے پروانہ سے تشبیہ دی ہے۔ حاصل یہ کہ اسدؔ کی جان ایک نگاہ گرم کی آرزو میں ہے گویا تیرے داد خواہ کا وکیل پروانہ کا سا حوصلہ رکھتا ہے کہ جل جانے کی خواہش کرتا ہے۔
_______
جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا
کہتے ہیں ہم تجھ کو منہ دکھلائیں کیا
یعنی اب شرمندگی سے منہ نہیں دکھلاتے یہ بھی میرے لئے ستم ہے۔
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
توکل کی طرف ترغیب ہے۔
لاگ ہو تو اُس کو ہم سمجھیں لگاؤ
جب نہ ہو کچھ ہی تو دھوکا کھائیں کیا
یعنی وہ عداوت بھی کرتا تو ہم لگاوٹ سمجھتے۔
ہو لئے کیوں نامہ بر کے ساتھ ساتھ
یارب اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا
یارب اس شعر میں ندا کے لئے نہیں ہے بلکہ اظہارِ استعجاب کے لئے ہے۔
موج خوں سر سے گذر ہی کیوں نہ جائے
آستانِ یار سے اُٹھ جائیں کیا
’ کیا ، دوسرے مصرعہ میں تحقیر کے لئے ہے۔
عمر بھر دیکھا کئے مرنے کی راہ
مرگئے پر دیکھئے دکھلائیں کیا
یعنی زندگی بھر تو اُنھوں نے مرنے کی راہ دکھلائی مرگئے پر جانے کیا دکھلائیں۔
پوچھتے ہیں وہ کہ غالبؔ کون ہے
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
’ ہم بتلائیں کیا ، ایسے مقام پر محاورہ میں ہے ، جہاں پوچھنے والا جان بوجھ کر جاہل بنتا ہے یعنی تعجب ہے کہ وہ غالبؔ کو ایسا بھول گئے جیسے کبھی کی شناسائی نہ تھی۔
_______
لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی
چمن زنگار ہے آئینۂ باد بہاری کا
یعنی جب آئینہ صبا میں زنگ لگا تو سبزہ زار پیدا ہوا ، یہ تمثیل ہے اس بات پر کہ بے تعلق مادہ جلوہ مجردات نہیں ہو سکتا۔
حریف جو شش دریا نہیں خودداری ساحل
جہاں ساقی ہو تو باطل ہے دعویٰ ہوشیاری کا
ساقی کو دریائے پر جوش سے تشبیہ دی ہے اور ساحل کو اپنے آغوش سے مطلب یہ ہے کہ تجھے آغوش میں لے کر اور تیرے ہاتھ سے شراب پی کر ہوش کہاں ساحل کی خودداری و پاداری دریائے پرجوش کے آگے کہیں چل سکتی ہے۔
_______
عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گذرنا ہے دوا ہو جانا
درد کا حد سے گذرنا یعنی فنا کر دینا اور فنا ہونا عین مقصود ہے۔
تجھ سے قسمت میں مری صورت قفل ابجد
تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا
’ تجھ سے جدا ہو جانے ، سے متعلق ہے اور ’ قسمت میں ، متعلق ہے ’ تھا لکھا ، سے اور جدا ہو جانے سے قفل کا کھلنا مراد ہے کہ جب حروف مرتب ہوکر وہ کلمہ بنتا ہے جو واضع نے معین کر دیا ہو تو قفل ابجد کھل جاتا ہے اور بات کا بننا تدبیر کے بن پڑنے کو کہتے ہیں۔
دل ہوا کشمکش چارۂ زحمت میں تمام
مٹ گیا گھسنے میں اس عقدہ کا وا ہو جانا
زحمت دل کے رفع کرنے کی تدبیروں سے وہ کشمکش ہوئی کہ دل ہی تمام ہو گیا ، گویا ایک گرہ تھی گھس گئی۔
اب جفا سے بھی ہیں محروم ہم اللہ اللہ
اس قدر دشمن اربابِ وفا ہو جانا
مطلب ظاہر ہے اور تعریف اس کی امکان سے باہر ہے ، معشوق کی خفگی کی تصویر ہے اور خفگی بھی خاص طرح کی اور یہ مضمون بھی خاص مصنف ہی کاہے۔
ضعف سے گریہ مبدل بہ دم سرد ہوا
باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا
یعنی مسئلہ استحالہ عناصر پہلے ہماری سمجھ میں نہ آیا تھا ، اب امتحان ہو گیا تو باور ہو گیا۔
دل سے مٹنا تری انگشتِ حنائی کا خیال
ہو گیا گوشت سے ناخن کا جدا ہو جانا
کہتے ہیں کہ گوشت سے بھی کہیں ناخن جدا ہوا ہے ، یعنی ان دونوں میں مفارقت نہیں ہو سکتی ، دل سے خیال دست حنائی نہیں نکل سکتا۔
ہے مجھے ابرِ بہاری کا برس کر کھلنا
روتے روتے غم فرقت میں فنا ہو جانا
یعنی روتے روتے مرجانا میرے لئے باعثِ مسرت ہے ، میں اُسے یہ جانتا ہوں کہ جیسے ابر برس کر کھل گیا اور باعثِ نشاط ہوا ، خوبی اس میں تازگی تشبیہ کی ہے۔
گر نہیں نکہتِ گل کو ترے کوچہ کی ہوس
کیوں ہے گردِ رِ ہ جولانِ صبا ہو جانا
یعنی پھر فعل اُس کا کیوں ہے کہ صبا گرد راہ بن جاتی ہے ، یعنی صبا کے ساتھ تیرے کوچے میں آنے کی ہوس رکھتی ہے ، ردیف محاورہ سے گری ہوئی ہے۔
تاکہ تجھ پر کھلے اعجاز ہوائے صیقل
دیکھ برسات میں سبز آئینے کا ہو جانا
برسات میں آئینۂ فولاد پر زنگ پڑجاتا ہے ، وہ گویا سبزہ ہے جسے ہوائے صیقل نے پیدا کیا ہے ، ہوا بمعنی خواہش و شوق ہے ، حاصل یہ ہے کہ شوق وہ چیز ہے کہ فولاد پر بھی اثر کرتا ہے۔
بخشے ہے جلوۂ گل ذوقِ تماشا غالبؔ
چشم کو چاہئے ہر رنگ میں وا ہو جانا
یعنی باغ میں رنگ رنگ کے پھول کھلے ہوئے دیکھ کر یہ ذوق پیدا ہوتا ہے کہ اسی طرح ہر رنگ میں آنکھ کو وا کرنا چاہئے اور ہر طرح کی سیر کرنا چاہئے۔ بخشے کا فاعل جلوۂ گل ہے اور مفعول بہ ذوق تماشا ہے اور دوسرا مصرع ذوقِ تماشا کی تفسیر ہے۔
پھر ہوا وقت کہ ہو بال کشا موجِ شراب
دے بط مے کو دل دوست شنا موجِ شراب
شراب کا شہپر موج سے پرواز کرنا استعارہ ہے جوشِ شراب سے اور وقت سے فصل بہار مراد ہے ، جس کی حرارت سے غلیان و جوش شراب میں پیدا ہوتا ہے اور ربط سے دل دست شنا دینے سے یہ مراد ہے کہ خود شراب پر جوش اُس کا دل ہو گی اور دست ساقی اس کے لئے دست شنا ہو گا ، یعنی اُس کے ہاتھ سے حلقہ زنداں میں وہ شنا کرے گی ، خود شیشے کو بھی دل سے تشبیہ دیتے ہیں۔
پوچھ مت وجہ سیہ مستیٔ اربابِ چمن
سایۂ تاک میں ہوتی ہے ہوا موجِ شراب
یعنی سایۂ تاک میں ہوا ایسی طرب انگیز ہے گویا موجِ شراب بن گئی ہے ، سیہ مستی کا لطف سایہ سے بہت مناسبت رکھتا ہے۔
جو ہوا غرقہ مے بخت رسا رکھتا ہے
سر سے گذرے پہ بھی ہے بال ہما موجِ شراب
یہ بات مشہور ہے کہ ہما کا سایہ جس کے سر پر پڑجائے وہ اقبال مند و صاحب بخت بلند ہوتا ہے اور موجِ شراب کا سر سے گذر جانا ، اُس کے نشہ کا دماغ میں چڑھ جانا مراد ہے اور غرق مے ہونے سے نشہ میں ڈوب جانا مقصود ہے ، دوسرا پہلو یہ نکلتا ہے کہ ہم سر سے گذر بھی جائیں یعنی میکشی کے پیچھے تباہ ہو جائیں تب بھی موج مے بال ہما سے کم نہیں ہے۔
ہے یہ برسات وہ موسم کہ عجب کیا ہے اگر
موجِ ہستی کو کرے فیض ہوا موجِ شراب
ہوائے بہار سے جو ایسے ایسے انقلاب ہوتے ہیں کہ جہاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چٹیل میدان تھے وہ سبزہ زار بن جاتے ہیں ، جن مقاموں میں جھاڑ جھنکاڑ اور خارزار تھا وہاں جوش لالہ و گل دکھائی دیتا ہے تو اس انقلاب و کون و فساد و جوش و نشوونما کے بیان میں شعراء ہمیشہ صنعت اغراق کو استعمال کرتے ہیں جیسے عرفی نے کہا ہے اخگر از فیض ہوا سبز شود درمنقل یعنی انگیٹھی میں دانہ اخگر سے اکھوے پھوٹتے ہیں یا سوداؔ جیسے اسی زمین میں کہتے ہیں شاخ سے گاؤز میں کے نکل آئی کوپل وجہ اس کی یہ ہے کہ شعر میں معنی صیر ورت یعنی کسی شئے کا کچھ سے کچھ ہو جانا بڑا لطف دیتا ہے۔ دوسرا سبب اس مضمون پر شعراء کے توجہ کرنے کا یہ ہے کہ جب تشبیہ میں حرکت وجہ شبہ ہو تو وہ تشبیہ ہی بہت بدیع ہوتی ہے اور یہاں چنگاری میں سے اکھوے پھوٹنا یا شاخ گاؤ میں سے کوپل نکلنا حرکت سے خالی نہیں ، غرض کہ مصنف نے بھی فیض ہوا کہ بیان میں یہاں اغراق کیا ہے کہ ہستی گذران کو موسمی تشبیہ دی اور اس موج کو فیض ہوا سے موجِ شراب بنادیا نشاط آور ہونے کی مناسبت سے۔
چار موج اُٹھتی ہیں طوفانِ طرب سے ہر سو
موجِ گل موجِ شفق موجِ صبا موجِ شراب
جوش طرب کو دریائے طوفاں خیز سے تشبیہ دی ہے ، جس کی موجیں دوسرے مصرع میں بیان کی ہیں اور اس تشبیہ میں بھی وجہ شبہ حرکت ہے۔
جس قدر روح بناتی ہے جگر تشنۂ ناز
دے ہے تسکین بہ دم آبِ بقا موجِ شراب
روح ثباتی سے فوت تامیہ مراد ہے کہ جو انسان میں بھی ہے مطلب یہ ہے کہ ہم میں شراب سے جو اُمنگ اور جوش پیدا ہوتا ہے وہ قوتِ تامیہ کی حرکت ہے ، یعنی شراب قوتِ تامیہ کے حق میں وہ کام کرتی ہے جو کام کہ بارش نباتات کے حق میں کرتی ہے اور ناز سے یہاں اینڈنا اور مٹنا مقصود ہے جو کہ لوازم فخر و ناز سے ہے اور نشوونما کے خواص سے ہے۔
بسکہ دوڑے ہے رگ تاک میں خون ہو ہوکر
شہپر رنگ سے ہے بال کشا موجِ شراب
یعنی جس طرح خون رگوں میں دوڑتا ہے ، اسی طرح بیلوں میں مادۂ شراب دوڑ رہا ہے اور اُس کے سبب سے بیلیں سر سبز و شاداب ہیں تو اُس کا دوڑنا پرواز ہے اور یہ سر سبزی اور رنگینی شہپر پرواز ہے لفظ خون میں نون کا اعلان فصیح سمجھتے ہیں اور بعض بعض شعراء بغیر اعلان اس لفظ کو استعمال بھی نہیں کرتے۔
موجۂ گل سے چراغاں ہے گذرگاہ خیال
ہے تصور میں زبس جلوہ نما موجِ شراب
اس شعر میں موجِ شراب کو پہلے موجِ گل سے تشبیہ دی ہے ، پھر چراغاں سے تشبیہ دی اور چراغاں کی مناسبت سے خیال کو گذرگاہ سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی خیال موجِ شراب کیا ہے موجِ گل ہے ، موجِ گل کیا ہے گذرگاہ تصور میں چراغاں ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ موجِ شراب کو چراغاں سے اگر تشبیہ دیں تو کوئی وجہ شبہ نہیں ہے ، ہاں موجِ شراب کو موجِ گل سے تشبیہ دیں تو وجہ شبہ رنگ دونوں میں موجود ہے اور موجِ گل کو چراغاں سے تشبیہ تام ہے ، یعنی ہر ہر گل کی افروختگی شعلہ چراغ سے مشابہ ہے۔ حاصل یہ کہ موجِ گل کو چراغاں سے مشابہت ہے اور موجِ شراب کو موجِ گل سے مشابہت ہے۔ تو تصورموجِ شراب سے گذرگاہ خیال میں چراغاں ہورہا ہے ، اس سبب سے کہ مشابہ کا مشابہ بھی مشابہ ہوتا ہے لیکن ایک مشبہ بہ سے دوسرے مشبہ بہ پر تجاوز کرنے میں وجہ شبہ کا اتحاد شرط ہے ، وہ یہاں نہیں پایا جاتا یعنی موجِ شراب و موجِ گل میں وجہ شبہ مفرد ہے اور موجِ گل و چراغاں میں وجہ شبہ مرکب ہے۔
نشے کے پردہ میں ہے محو تماشائے دماغ
بسکہ رکھتی ہے سر نشوونما موجِ شراب
یعنی شراب کو نشوونما کا جو خیال تھا تو نشہ بن کر دماغ میں چڑھ گئی اور خیال و دماغ و سر باہم الفاظ مناسب ہیں۔
ایک عالم پہ ہیں طوفانی کیفیت فصل
موجۂ سبزۂ نوخیز سے تاموج شراب
یعنی موجِ شراب و موج سبزہ نے کیفیت فصل بہار یعنی نشاط و طرب کا طوفان ایک عالم کے لئے اُٹھا رکھا ہے۔
شرح ہنگامۂ ہستی ہے زہے موسمِ گل
رہبر قطرہ بہ دریا ہے خوشا موج شراب
یعنی نشوونمائے گل دریا حین یہ کہہ رہی ہے کہ دیکھ اس طرح ہنگام ہستی گرم ہوا ہے اور یوں ہی بدو آفرینش میں موجودات کا ظہور ہوا ہے اور موجِ شراب عالم ہستی سے بے صبر و سرشار کر کے قطرہ کو دریا تک پہنچاتی ہے اور روح کو اُس کے مرجع سے ملحق کر دیتی ہے۔
ہوش اُڑتے ہیں مرے جلوۂ گل دیکھ اسدؔ
پھر ہوا وقت کہ ہو بال کشاموجِ شراب
اُڑنے کا لفظ بال کی مناسبت سے لائے ہیں دیکھ اس شعر میں دیکھ کر کے مقام پر ہے اور ممکن ہے کہ امر کا صیغہ ہو۔
افسوس کہ دید ان کا کیا رزق فلک نے
جن لوگوں کی تھی درخورِ عقد گہر انگشت
دودہ کیڑے کو کہتے ہیں ، اس کی جمع ہے دودا اور دیدان جمع الجمع ہے یعنی جو اُنگلیاں سلک گہر کے قابل تھیں انھیں کیڑے لپٹے ہوئے کھارہے ہیں سلک گہر کیڑوں سے مشابہت ہے۔
کافی ہے نشانی تری چھلے کا نہ دینا
خالی مجھے دکھلا کے بوقتِ سفر انگشت
نشانی اسی واسطے ہوتی ہے کہ نشانی دینے والے کو ہر وقت یاد دلوایا کرے ، تیرے اس التفات کو کہ چلتے چلتے نشانی نہ دینے کے عذر میں چھنگلیا مجھے دکھادی دیکھ لو خالی ہے ، میں کبھی نہ بھولوں گا بس تیرے یاد رکھنے کو یہی کافی ہے یا یوں سمجھو کہ شوخی سے اُس نے چھلا چھپا کر اُنگوٹھا دکھا دیا۔
لکھتا ہوں اسدؔ سوزشِ دل سے سخن گرم
تارکھ نہ سکے کوئی مرے حرف پر انگشت
گرمی سخن خوبی سخن کے معنی پر ہے اور انگشت رکھنا عیب نکالنے کے معنی پر ہے۔
_______
رہا گر کوئی تاقیامت سلامت
پھر اک روز مرنا ہے حضرت سلامت
’ ہے ، اس شعر میں اور ہی معنی رکھتا ہے ، یہ معنی فرض و وجوب پر دلالت کرتا ہے لیکن مصدر کے ساتھ ان معنی پر زیادہ آتا ہے کہتے ہیں مجھے ایک خط لکھنا ہے اور کئی خط لکھنے ہیں اور کتاب لکھنی ہے اور کتابیں لکھنی ہیں اور لکھنؤ کے بعض شعراء جو دعویٰ تحقیق رکھتے ہیں مصدر کو قابل تعریف نہیں سمجھتے اور اُس کے افراد اور جمع و تذکیر و تانیث کو غلط سمجھتے ہیں وہ یوں کہتے ہیں مجھے ایک خط لکھنا ہے اور کئی خط لکھنا ہیں اور کتاب لکھنا ہے اور کتابیں لکھنا ہیں ، لیکن یہ محاورے میں قیاس ہے جو قابل قبول نہیں ہے یہ کہ وہ بھی صحیح ہے اور یہ بھی صحیح دونوں طرح بولتے ہیں۔
جگر کو مرے عشق خون نابہ مشرب
لکھے ہے خداوند نعمت سلامت
یعنی عشق نے میرا خونِ جگر پی کر پرورش پائی ہے جبھی تو اس القاب سے لکھتا ہے۔
علی الرغم دُشمن شہید وفا ہوں
مبارک مبارک سلامت سلامت
مبارک اس سبب سے کہ رقیب کے خلاف مراد ہے اور سلامت اس لئے کہ شہید وفا ہوا اور شہادت زندگانی جاوید ہے۔
نہیں گر سرو برگِ ادراکِ معنی
تماشائے نیرنگ صورت سلامت
عالم معنی تک رسائی نہیں تو نہ سہی عالم صورت کا نیرنگ و انقلاب سلامت رہے کہ یہ آئینہ شاہد معنی ہے ، یعنی عالم اجسام کے انفعالات و آثار وجود فاعل و مؤثر پر دلیل تام ہیں ، مشاہدہ نہیں ہوا نہ سہی ادراک کند نہ ہوا نہ ہو ، اذعان تو ان سے بھی حاصل ہے۔
مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں غالبؔ
یار لائے مری بالیں پہ اُسے کس وقت
آنکھ بند ہو جانا موت سے کنایہ ہے اور اس زمین میں یہی ایک شعر ہے اس کو بھی نکال ڈالنا چاہئے تھا۔ آگے اسی مضمون کا ایک شعر موجود ہے :
مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں ہے ہے
خوب وقت آئے تم اس عاشق بیمار کے پاس
_______
آمد خط سے ہوا ہے سرد جو بازارِ دوست
دودِ شمع کشتہ تھا شاید خطِ رخسارِ دوست
یعنی خط کے آنے سے خریدار کم ہو گئے اور بازار عشق سرد ہو گیا تو گویا خط بجھی ہوئی شمع کا دھواں ہے کہ اُس دھوئیں کا اُٹھنا اور گرمی بازار و فروغ حسن کا زوال شمع سے ساتھ ہی ہو جاتا ہے۔
اے دل ناعاقبت اندیش ضبطِ شوق کر
کون لا سکتا ہے تاب جلوۂ دیدار دوست
ناعاقبت اندیش کے لفظ سے واقعہ طور کی طرف اشارہ کیا ہے۔
خانہ ویراں سازیِ حیرت تماشا کیجئے
صورت نقش قدم ہوں رفتۂ رفتارِ دوست
نقش قدم کے صفات میں سے حیرت شعراء میں مشہور ہے کہتے ہیں کہ جس طرح نقش قدم جس کی رفتار کو دیکھ کر چشم حیرت بن گیا ہے ، اسی طرح میں بھی وارفتہ خرام ہوں اور یہ خانہ ویرانی حیرت نے کی ہے کہ سر راہ نقش پا بن کر رہ گیا ہوں۔
عشق میں بیداد رشک غیر نے مارا مجھے
کشتۂ دُشمن ہوں آخر گرچہ تھا بیمار دوست
بیمار دوست ہونے کی وجہ عشق ہے اور کشتۂدُشمن ہونے کی وجہ یہ ہے کہ رشکِ دُشمن نے ہلاک کیا ہے۔
چشم ما روشن کہ اُس بیدرد کا دل شاد ہے
دیدۂ پرخوں ہمارا ساغر سرشار دوست
دوسرے مصرع میں سے ’ ہے ، محذوف ہے اور چشم ما روشن گوکہ فارسی ہے لیکن اس قدر مشہور ہے کہ اسے دو زبانوں کا غلط نہ رکھنا چاہئے اور اس طرح بھی کہتے ہیں کہ چشم ماروشن دل ناشاد اسی سبب سے مصنف نے کہا ہے ’ اُس بیدرد کا دل شاد ہے ، اور یہ بھی صنائع معنویہ میں سے ایک صنعت ہے گو اہل فن نے اس صنعت کا ذکر ترک کیا ہے۔ یادش بخیر میر باقر حسن صاحب ضیاؔ کہتے ہیں :
سفر میں جو حالات شملہ کے ہیں
بمقدار علم اُن کو لکھتا ہوں میں
یعنی شملہ بمقدارِ علم۔
غیریوں کرتا ہے میری پرسش اُس کے ہجر میں
بے تکلف دوست ہو جیسے کوئی غم خوارِ دوست
تاکہ میں جانوں کہ ہو اُس کی رہائی واں تلک
مجھ کو دیتا ہے پیام وعدہ دیدارِ دوست
جب کہ میں کرتا ہوں اپنا شکوۂ ضعفِ دماغ
سر کرے ہے وہ حدیث زلفِ عنبر بارِ دوست
چپکے چپکے مجھ کو روتے دیکھ پاتا ہے اگر
ہنس کے کرتا ہے بیان شوخیٔ گفتارِ دوست
مہربانی ہائے دُشمن کی شکایت کیجئے
یا بیاں کیجئے سپاسِ لذتِ آزارِ دوست
یعنی دُشمن دوست بن کر مہربانی کے پیرایہ میں میرے جی کو جلاتا ہے اور آتش رشک کو بھڑکاتا ہے ، سارے قطعہ میں اسی جمال کی تفصیل ہے۔ سر کرنا شروع کرنے کے معنی پر فارسی کا ترجمہ ہے۔
یہ غزل اپنی مجھے جی سے پسند آتی ہے آپ
ہے ردیف شعر میں غالبؔ زبس تکرارِ دوست
جو لفظ کہ آخر میں قافیہ کے بعد مکرر آئے اُسے ردیف کہتے ہیں ، قافیوں میں باہم دگر تشابہ ہوتا ہے اور ردیف تکرار ہوتی ہے اور قافیہ رُکن شعر ہے اور ردیف مستحسنات میں ہے ، عرب و فارس و ہند میں شعراء تعریف شعر میں کلام موزوں مقفیٰ کہتے ہیں اور اہل منطق کلام مخیل کو شعر کہتے ہیں خواہ وزن و قافیہ نہ ہو ، شعراء کی اصطلاح میں ہر کلام موزوں باقافیہ شعر ہے خواہ تخیل نہ ہو ، وجہ اختلاف کی یہ ہے کہ منطق یونانی سے ترجمہ ہوئی ہے اور یونانیوں میں شعر کے لئے قافیہ ضرور نہ تھا اور اگر تخیل میں وزن ہے تو اُسے شعر سمجھے اور جو وزن نہ ہو تو قضیۂ شعریہ کہتے تھے ، ہند و ایران کے شعراء وزن بے قافیہ کو نثر مرجز کہتے ہیں۔
گلشن میں بندوبست برنگ دگر ہے آج
قمری کا طوق حلقہ بیرون در ہے آج
جسے محفل میں بار نہ ہو اور باہر ہی روک دیا گیا ہو ، اُسے مجالاً حلقہ بیرون برد ر کہتے ہیں ، مطلب فقط یہ ہے کہ باغ میں آج ایسی بندا بندی ہے کہ قمری تک کا گذر نہیں اور یہ مضمون یعنی باغ میں آنے جانے کی روک ٹوک اور اس کی شکایت شعراء اکثر کیا کرتے ہیں۔
آتا ہے ایک پارۂ دل ہر فغاں کے ساتھ
تارِ نفس کمند شکار اثر ہے آج
یعنی نفس سرد نے کمند کی طرح اثر کو شکار کر لیا ہے جبھی تو ہر آہ میں ایک پارۂ دل نکل آتا ہے یعنی آہ کے اثر سے دل ٹکڑے ٹکڑے ہوا جاتا ہے اور آہ کے ساتھ کھنچا آتا ہے۔
اے عافیت کنارہ کر اے انتظام چل
سیلاب گریہ درپئے دیوار و در ہے آج
عافیت گویا کوئی عورت ہے اور انتظام کوئی مرد ہے ، ان دونوں سے شاعر کہتا ہے کہ بچ کر نکل جاؤ نہیں دب جانے کا تمہارے اندیشہ ہے۔
لو ہم مریض عشق کے بیماردار ہیں
اچھا اگر نہ ہو تو مسیحا کا کیا علاج
محاورہ میں کہتے ہیں اگر یہ بات نہ ہوئی تو تمہارا کیا علاج ، یعنی پھر تم سے کیوں کر پیش آنا چاہئے اور تمہیں کیا سزا دینا چاہئے اور اس شعر میں یہ محاورہ بہت ہی مناسب مقام پر صرف کیا ہے۔ یہ شعر کثیرالمعنی ہے یعنی ان معانی پر بھی دلالت کرتا ہے کہ تم لوگ جو یہ کہتے ہو کہ بیمارِ عشق کا کیا استعلاج مسیحا سے کرنا چاہئے تو لو ہم ایسا کرتے ہیں۔
نفس نہ انجمن آرزو سے باہر کھینچ
اگر شراب نہیں انتظار ساغر کھینچ
یعنی آرزو کا دم بھرے جا ، اُس سے علاحدہ نہ ہو اگر شراب کھینچنے کو نہیں ملتی تو اُس کا انتظار ہی کھینچ ’ کھینچ ، کی لفظ شراب اور انتظار دونوں سے تعلق رکھتی ہے لیکن انتظار کھینچنا تو اُردو کا بھی محاورہ ہے ، شراب کھینچنا فارسی کا محض ترجمہ ہے کہ مے کشیدن وہ لوگ شراب پینے کے معنی میں بولتے ہیں ، اسی طرح دو شعروں کے بعد مصنف نے کہا ہے بکوریٔ دل و چشم رقیب ساغر کھینچ اور یہ بھی محاورہ اُردو کے خلاف ساغر کشیدن کا ترجمہ ہے اور ساغر کا پینا مراد لیا ہے۔
کمالِ گرمیٔسعی تلاش دید نہ پوچھ
برنگ خار مرے آئینہ سے جوہر کھینچ
حسرت دیدار ایک آئینہ ہے جس میں جوہروں کے بدلے کانٹے ہیں اور یہ کانٹے تگاپود جستجوئے دیدار میں گڑے ہیں ، اس شعر کے پہلے مصرع میں چار معنویہ اضافتیں ہیں اور تین اضافتوں سے زیادہ ہونا عیب کلام ہے ، اس میں شک نہیں کہ اضافت ایک سے زیادہ ہوئی اور بندش میں سستی پیدا ہو گئی نہ کہ چار اضافتیں ہوں اور وہ بھی معنویہ۔
تجھے بہانۂ راحت ہے انتظار اے دل
کیا ہے کس نے اشارہ کہ ناز بستر کھینچ
یعنی بستر پر پڑے پڑے انتظار کھینچنا اور بستر کے ناز اُٹھانا راحت طلبی ہے ، ایسا نہ چاہئے اس کے مفہوم مخالف کئی ایک ہیں یعنی بادیہ گردی صحرا نوردی چاہئے یا جستجوئے معشوق کرنا چاہئے یا اس انتظار کی ایذا اُٹھانے سے مرجانا بہتر ہے۔
تری طرف ہے بہ حسرت نظارۂ نرگس
بہ کوری دل و چشم رقیب ساغر کھینچ
یعنی نرگس جو بہ حسرت تجھے دیکھ رہی ہے اُس کا مطلب یہ ہے کہ تو کیوں نہیں شراب پیتا کاہے کو رقیب کور دل و کور چشم سے ڈرتا ہے ، یہ دونوں باتیں نرگس کی دو صفتوں سے پیدا ہوئیں ایک یہ کہ اس کی آنکھ بے نور ہے ، دوسرے یہ کہ اُس ساغر سے مشابہت ہے۔
بہ نیم غمزہ ادا کر حق ودیعت ناز
نیام پردۂ زخم جگر سے خنجر کھینچ
نیام میں سے خنجر یعنی الف کے نکال ڈالنے سے نیم تو بنا مگر اس خنجر سے معنی کا بھی خون ہو گیا تاویل کا بھی ، میدان بہت وسیع ہے اگر معنی بنائیے تو یہ ہوتے ہیں کہ ناز و ادا تجھ میں خدا کی ودیعت ہے ، اُس کا حق ادا کرنے کے لئے ادا کر اور اس طرح خنجر ادا کو کھینچ کہ معلوم ہو پردہ جگر عاشق سے کھینچ کر آیا ہے یعنی ادا تیغ بے نیام ہے اگر اُس کے لئے کوئی نیام ہے تو زخم جگر عاشق ہے۔
مرے قدح میں ہے صہبائے آتش پنہاں
بروئے سفرہ کباب دل سمندر کھینچ
یعنی جب شراب آگ کی ہے تو کباب بھی سمندرکے دل کا چاہئے کہ دل بھی باطنی شئے ہے کباب نے یہاں کچھ مزہ نہ دیا ، کھینچ ترجمہ ہے۔ دسترخوان پر چن دے یا لگادے محاورۂ اُردو ہے۔
حسن غمزہ کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد
بارے آرام سے ہیں اہل جفا میرے بعد
چھٹنا اور چھوٹنا ایک ہی معنی پر ہے الف تعدیہ بڑھانے کے بعد ’ ٹ ، کا ’ ڑ ، کر دینا فصیح ہے یعنی چھڑانا فصیح ہے اور چھٹانا غیرفصیح اور چھوڑا اور چھڑانا دونوں متعدی ہیں ، چھوٹنا سے چھوڑنا متعدی بیک مفعول ہے جیسے پھوٹنا سے پھوڑنا اور ٹوٹنا سے توڑنا اور چھڑانا متعدی بد و مفعول ہے ، بعض متبعین زبان دہلی کے کلام میں چھٹوانا دیکھنے میں آیا ہے ، اہل لکھنؤ اس طرح نہیں کرتے۔
منصب شیفتگی کے کوئی قابل نہ رہا
ہوئی معزولی انداز و ادا میرے بعد
’ کے ، اس شعر میں اضافت کے لئے نہیں ہے ورنہ ’ کا ، ہوتا جیسے کہتے ہیں کوئی اس منصب کا مستحق نہ رہا بلکہ یہ ’ کے ، ویسا ہے جیسے میر انیسؔ مرحوم کے اس مصرع میں ہے ’ سرمہ دیا آنکھوں میں کبھی نور نظر کے ، اس مصرع پر لوگوں کو شبہ ہوا تھا کہ میر صاحب نے غلطی کی یعنی ’ کی ، کہنا چاہئے تھا۔ اسی طرح کہتے ہیں اُن کے مہندی لگادی جو لوگ نحوی مذاق رکھتے ہیں وہ اس بات کو سمجھیں گے کہ ایسے مقام پر ’ کے ، حرف تعدیہ ہے اور اسی بناء پر میں برقؔ کے اس مصرعہ کو غلط نہیں سمجھتا جو مرثیہ میں اُنھوں نے کہا تھا اور اعتراض ہوا تھا ’ ڈاڑھی میں لال بال تھے اُس بدنہاد کے ، اور اسی دلیل سے انیسؔ کا مصرع بھی صحیح ہے اور میرؔ کا یہ مصرع بھی ’ آنکھوں میں ہیں حقیر جس تس کے ، غلط نہیں ہے اور آتش کا یہ شعر بھی صحیح ہے :
معرفت میں اُس خدائے پاک کے
اُڑتے ہیں ہوش و حواس ادراکے
شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دُھواں اُٹھتا ہے
شعلۂ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد
یعنی دُھواں نہیں ہے بلکہ شمع کشتہ کے سوگ میں شعلہ سیاہ پوش ہوا ہے ، اسی طرح میرے غم میں شعلہ عشق سیاہ پوش ہوا ہے یعنی میں شعلۂ عشق سے مثل شمع کے سوز و گداز میں تھا۔
خون ہے دل خاک میں احوال بتاں پر یعنی
اُن کے ناخن ہوئے محتاجِ حنا میرے بعد
یعنی میرے سوگ میں مہندی ملنا چھوڑدی خاک سے خاک قبر مراد ہے۔
درخورِ عرض نہیں جوہر بیداد کو جا
نگہِ ناز ہے سرمے سے خفا میرے بعد
جوہر بیداد یعنی سرمہ کے اس کی آنکھوں میں جگہ نہیں ہے۔ ’ درخور عرض ، یعنی بیان کے قابل۔ عرض کا لفظ فقط جوہر کی مناسبت سے لائے ہیں۔
ہے جنوں اہل جنوں کے لئے آغوش وداع
چاک ہوتا ہے گریباں سے جدا میرے بعد
گریباں اہل جنوں سے چاک رخصت ہوتا ہے گویا چاک آغوش وداع ہے کہ میرے بعد اہل جنوں سے رخصت ہوتا ہے ’ ہے ، کا محل وداع کے بعد تھا ، لیکن ضرورت شعر کے سبب سے مقدم کر دیا ورنہ نحو اُردو میں فعل کو تمام متعلقات کے بعد ذکر کرتے ہیں۔ البتہ مقام استفہام میں کہتے ہیں ، ہے کوئی ایسا جو میری اعانت کرے۔
کون ہوتا ہے حریفِ مےِ مرد افگن عشق
ہے مکرر لبِ ساقی میں صلا میرے بعد
لب ساقی جو صلا کرتا ہے اُس کا بیان پہلے مصرع میں ہے ، یعنی ہے کوئی ایسا کہ شرابِ عشق کا جام پئے ’ میں ، کاتب کی غلطی معلوم ہوتی ہے ، یہاں ’ کی ، یاد یہ چاہئے اس شعر کی معنی میں لوگوں نے زیادہ تدقیق کی ہے مگر جادۂ مستقیم سے خارج ہے۔
غم سے مرتا ہوں کہ اتنا نہیں دُنیا میں کوئی
کہ کرے تعزیتِ مہر و وفا میرے بعد
یعنی اس غم سے مرتا ہوں کہ کوئی میرے بعد مہر و وفا کو میرا پرسہ بھی دینے والا نہیں ہے۔ یعنی مرنے سے پہلے یہ غم مجھے مارے ڈالتا ہے۔
آئے ہے بے کسیٔ عشق پہ رونا غالبؔ
کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد
عشق ہی کو دوسرے مصرع میں سیلابِ بلا سے تعبیر کیا ہے۔
بلا سے ہیں جو یہ پیش نظر در و دیوار
نگاہِ شوق کو ہیں بال و پر در و دیوار
یعنی گو در و دیوار نظر کے لئے مانع ہیں لیکن اُن کے حاجب و حائل ہونے سے شوق اور تیز ہوتا ہے ، گویا پرواز نگاہ شوق کے لئے بال و پر بن گئے ہیں۔
وفورِ اشک نے کاشانہ کا کیا یہ رنگ
کہ ہو گئے مرے دیوار و در ، در و دیوار
یعنی دیوار گرکر در ہو گئی اور در پھٹ کر دیوار بن گیا۔
نہیں ہے سایہ کہ سن کر نوید مقدم یار
گئے ہیں چند قدم پیشتر در و دیوار
سایہ سے در و دیوار کا سایہ مراد ہے جو مہمان کے استقبال کے لئے در سے چند قدم آگے دوڑ گیا ہے۔
ہوئی کس قدر ارزانیِ مئے جلوہ
کہ مست ہے ترے کوچہ میں ہر در و دیوار
طعن سے شاعر کہتا ہے کہ تو نے اب اپنی شراب دیدار کو ہرکس و ناکس کے لئے ارزاں کر دیا ہے۔
جو ہے تجھے سر سودائے انتظار تو آ
کہ ہیں دوکانِ متاعِ نظر در و دیوار
یعنی میری نظر در و دیوار پر عالم انتظار میں اس طرح پڑرہی ہے گویا وہ دوکان متاع نظر بن گئی ہیں ، اگر تجھے اس متاع کی خریداری و قدردانی منظور ہے تو آ۔
وہ آرہا ہے مرے ہمسائے میں تو سایہ سے
ہوئے فدا در و دیوار پر در و دیوار
یعنی میرے در و دیوار کا سایہ اُس کے در و دیوار کی بلائیں لے آیا۔
نظر میں کھٹکے ہے بن تیرے گھر کی آبادی
ہمیشہ روتے ہیں ہم دیکھ کر در و دیوار
جب آنکھ میں کوئی چیز کھٹکتی ہے تو آنسو جاری ہوتے ہیں ، یہ وجہ رونے کی ہے۔
ہجوم گریہ کا سامان کب کیا میں نے
کہ گر پڑے نہ مرے پاؤں پر در و دیوار
استفہام انکاری کے مقام پر کہتے ہیں کہ وہ بات کب کی کہ یہ بات نہیں ہوئی ، یعنی جب میں نے سامان گریہ کیا در و دیوار پاؤں پر گرپڑے۔
نہ پوچھ بے خودیٔ عیش مقدم سیلاب
کہ ناچتے ہیں پڑے سر بسر در و دیوار
یعنی خانہ ویرانی سے مجھے ایسی لذت حاصل ہوتی ہے کہ سیلاب سے جو دیواریں گرنے لگتی ہیں ، اُسے رقص سمجھ کر بے خود ہو جاتا ہوں۔
نہ کہہ کسی سے کہ غالبؔ نہیں زمانہ میں
حریف رازِ محبت مگر در و دیوار
یعنی رازِ محبت کسی اور سے نہ کہہ کہ اس راز کا محل اعتماد در و دیوار کے سوا اور کوئی زمانہ میں نہیں اور در و دیوار سے باتیں کرنا فعل عبث ہے ، حاصل یہ ہوا کہ رازِ محبت کبھی منہ سے نکالنا نہ چاہئے۔
_______
گھر جب بنالیا ترے در پر کہے بغیر
جائے گا اب بھی تو نہ مرا گھر کہے بغیر
دوسرے مصرع میں استفہام انکاری ہے۔
کہنے کی جب رہی نہ مجھے طاقتِ سخن
جانوں کسی کے دل کی میں کیوں کر کہے بغیر
شعر کا مطلب ظاہر ہے لیکن یہ نکتہ اس شعر سے خوب سمجھ میں آتا ہے کہ شاعر اکثر زبانِ حال سے گفتگو کیا کرتے ہیں ، کبھی اپنے تئیں حیوان بے زبان بلبل و قمری سمجھ کر صیاد و گلچیں کی شکایت کرتے ہیں ، کبھی نباتات بے حس فرض کر کے اپنے تئیں شاخ بریدہ یا نہال خزاں رسیدہ کہتے ہیں ، کبھی اپنے نفس کو جمادات بے نفس کی طرح فرض کر کے غبار رہ گذار یا موجِ نسیم بہار کی زبانی گفتگو کرتے ہیں ، کبھی مردہ بے جان یا کشتہ حرمان بن کر اپنے خون کا دعویٰ کرتے ہیں ، غرض کہ یہ میدان بہت وسیع ہے۔ اس شعر میں شاعر خود ہی کہتا ہے کہ مجھ میں بات کرنے کی طاقت نہیں رہی پھر شکایت بھی کرتا ہے کہ جب میں دل کا حال بیان کرنے سے مایوس ہو گیا اور طاقت گویائی نے جواب دے دیا تو تم یہ کہتے ہو کہ کہے بغیر مجھے حال کیا معلوم تو یہ شکایت زبان حال سے ہے۔
کام اُس سے آپڑا ہے کہ جس کا جہان میں
لیوے نہ کوئی نام ستم گر کہے بغیر
دلی کی زبان میں کہوے اور رہوے بہت ہے یہ بقاعدۂ صرف بھی غلط ہے اور متروک بھی ہے لیکن لیوے اور دیوے اور ہووے بھی گو قیاساً صحیح ہے مگر متروک ہوتا جاتا ہے۔
جی میں ہی کچھ نہیں ہے ہمارے وگر نہ ہم
سر جائے یار ہے نہ رہیں پر کہے بغیر
اس شعر میں ایک مضمون اخلاقی ہے کہتے ہیں میرا دل سب سے صاف ہے ، اگر کسی کی برائی دل میں ہوتی تو ظاہر کر دیتا اور اُس کے اظہار میں جو کچھ ہو جاتا سب مجھے گوارا تھا مگر شیوۂ نفاق کہ ظاہر کچھ ہو اور باطن کچھ ہو مجھے گوارا نہیں۔
چھوڑوں گا میں نہ اُس بتِ کافر کا پوجنا
چھوڑے نہ خلق گو مجھے کافر کہے بغیر
چھوڑنے کا لفظ دونوں مصرعوں میں قابل توجہ ہے کہ اس لفظ کی تکرار نے حسن کلام کو بڑھادیا ، یہ بھی ایک صنعت ہے صنائع لفظیہ میں سے گو اہل فن نے اس کا ذکر نہیں کیا۔
مقصد ہے ناز و غمزہ ولے گفتگو میں کام
چلتا نہیں ہے دشنہ و خنجر کہے بغیر
دشنہ و خنجر سے ناز و غمزہ کی تشبیہ محسوس سے معقول کی تشبیہ ہے اور معقول کا فہم ہر ایک کو نہیں ہوتا ، اس لئے اسے محسوس فرض کر کے کام نکالتے ہیں یعنی اُن کی تاثیر کو سمجھا دیتے ہیں۔
ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادۂ و ساغر کہے بغیر
اس شعر کا مطلب بھی مثل شعر سابق کے ہے اور بنتی نہیں ہے یعنی گفتگو بن نہیں پڑتی۔
بہرا ہوں میں تو چاہئے دونا ہو التفات
سنتا نہیں ہوں بات مکرر کہے بغیر
جیسے معشوق نے کسی بات پر کہا ہے کہ کیا تو بہرا ہو گیا اور آپ ہی بہرا بنایا اور آپ ہی خفا بھی ہو گیا ہے ، اس مقام پر کہتے ہیں کہ بہرا ہوں میں الخ۔
غالبؔ نہ کر حضور میں تو بار بار عرض
ظاہر ہے تیرا حال سب اُن پر کہے بغیر
اس شعر میں یہ صفت ہے کہ اس طرح اظہارِ خیال کیا ہے کہ گویا کچھ نہیں کہا اور اسے صنائع معنویہ میں شمار کرنا چاہئے۔
_______
کیوں جل گیا نہ تابِ رُخِ یار دیکھ کر
جلتا ہوں اپنی طاقتِ دیدار دیکھ کر
جس طرح بخل کا انتہائے مرتبہ مشہور ہے کہ بخیل خود بھی لذتِ نعمت سے محروم رہتا ہے اپنا تمتع آپ ہی نہیں دیکھ سکتا ، اسی طرح انتہائے غیرت کا مرتبہ مصنف نے بیان کیا ہے کہ اپنی طاقتِ دیدار سے میں خود جلتا ہوں ، اسی مطلب کو آگے ایک شعر میں بہت صاف ادا کیا ہے :
دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آجائے ہے
میں اُسے دیکھوں بھلا کب مجھ سے دیکھا جائے ہے
آتش پرست کہتے ہیں اہل جہاں مجھے
سرگرم نالہ ہائے شرر بار دیکھ کر
اپنے ذوق نالہ کشی کو ارادت آتش پرست سے تشبیہ دی ہے یعنی جس ارادت سے وہ آگ کی پرستش میں مشغول ہوتا ہے ، اُسی ذوق و شوق سے میں نالہ آتشیں کرنے میں سرگرم رہتا ہوں۔
کیا آبروئے عشق جہاں عام ہو جفا
رُکتا ہوں تم کو بے سبب آزار دیکھ کر
بے سبب آزار ترکیب فارسی ہے حکیم مومن خان صاحب نے اس قسم کی ترکیبیں بنانے میں بہت افراط کی ہے ایک جگہ فرماتے ہیں ’ رحمے بحال بندہ خدایا نگاہ تھا ،۔ البتہ تازگی لفظ اور ترکیب کلام میں بڑا حسن پیدا کرتی ہے لیکن یہ یہاں سمجھنا چاہئے کہ دوسری زبان پر جب تک اچھی طرح قدرت نہ حاصل ہو ، اُس میں تصرف و ارتجال کا ہر ایک کو حق نہیں ہے۔ یہاں جفا کے عام ہونے سے یہ مراد ہے کہ رقیب جس میں سبب جفا یعنی عشق نہیں پایا جاتا ، اُس پر بھی تم جفائے معشوقانہ میری طرح کرتے ہو۔
آتا ہے میرے قتل کو پرجوش رشک سے
مرتا ہوں اُس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر
دوسرا مصرع اس مضمون کو مانگتا ہے کہ وہ اس ادا سے میرے قتل کو آتا ہے کہ میں مرتا ہوں الخ۔ مصنف مرحوم نے معنی رشک کے اتنے پہلو نکالے ہیں کہ اُن کی تعریف حدِ امکان سے باہر ہے لیکن یہ قاعدہ ہے کہ جب ایک ہی مطلب کو بار بار کہو تو اس میں افراط و تفریط ہو جاتی ہے ، اس غزل کے دو شعر اس سبب سے سست رہے ایک تو یہ شعر کے معشوق کے ہاتھ میں تلوار کو دیکھ کر تلوار پر رشک آنا ، دوسرے عاشق کے طوطی پالنے سے معشوق کو طوطی پر رشک آنا ، دونوں امر غیرعادی ہیں اور بے لطف ہیں اور اسی سبب سے یہاں مصرع نے ربط نہیں کھایا ، اس بات کو بوجہ بصیرت سمجھنے کے لئے یہ سن لینا چاہئے کہ شعر اُلٹا کہا جاتا ہے یعنی پہلے شاعر کا یہ کام ہوتا ہے کہ قافیہ تجویز کرے جو کہ آخر شعر میں ہوتا ہے ، دوسری فکر یہ ہوتی ہے کہ جس قافیہ پر تجویز کیا ہے اُسے دیکھے کہ یہ کسی صفت کے ساتھ یا کسی مضاف کے ساتھ یا کسی اور قید کے ساتھ یا کسی اور محاورہ کے ساتھ یا اپنے کسی عامل کے ساتھ یا معمول کے ساتھ مل کر ایک مصرع ہوتا ہے یا نہیں ، اگر نہ ہوا تو کوئی لفظ گھٹا بڑھا کر یا مقدم مؤخر کر کے اُسے پورا کرے ، یہ دوسرا مصرع ہوا مثلاً اسی زمین میں جب مصنف نے دیدار دیکھ کر ، آزار دیکھ کر نظم کر لیا تو پہلے یہ تجویز کیا کہ تلوار دیکھ کر کہنا چاہئے ، دوسری فکر میں تلوار کے ساتھ یہ قید لگائی کہ اُس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر اور مصرع کے پورا کرنے کے لئے۔ مرتا ہوں بڑھایا تو پہلے یہ دوسرا مصرع موزوں ہوا ’ مرتا ہوں اُس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر ، دوسرا مصرع کہہ چکنے کے بعد تیسری فکر میں اس بات کے وجوہ سوچے کہ اُس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر کیوں مرتا ہوں یہاں مصنف نے اس توجیہ کو اختیار کیا کہ جوش رشک سے مرتا ہوں اور پہلے مصرع میں ’جوش رشک سے ، ایسا لفظ ہے کہ اگر آخر مصرع میں نہ ہوتا تو کسی طرح یہ لفظ اپنے فعل سے مرتبط نہ ہوتا ، اس سے ظاہر ہے کہ پہلے مصرع کا یہ آخری ٹکڑا پہلے معین کر کے صدر مصرع اُس پر بڑھایا اور شعر کو تمام کیا ہے اور جو شعر کی ابتداء ہے وہی فکر کا منتہی ہے اور حرکات فکر کے منازل میں سے بڑی منزل یہی ہے کہ دوسرا مصرع کہہ چکنے کے بعد اُس پر مصرع ایسا لگائے کہ وہ مرتبط ہو جائے اور دست و گریبان کا حکم پیدا کرے اور یہ ظاہر ہے کہ معشوق کے ہاتھ میں کوئی چیز دیکھ کر اُس چیز پر رشک کرنا عادت کے خلاف ہے محض تصنع ہے اور نامربوط ہے۔ اتنا لکھنا اور یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہر زمین میں دوسرے مصرع کا نظم کر لینا آسان ہے مثلاً اسی زمین میں ’ تلوار دیکھ کر ، تقریباً آدھے مصرع کے برابر ہے جو صاحبِ طبع موزوں ہے وہ کچھ الفاظ بڑھا کر اُسے پورا کر سکتا ہے اور جو الفاظ کے بڑھائے جائیں گے وہ بھی گویا کہ معین ہیں یعنی اکثر وہی پہلو شعراء اختیار کرتے ہیں اور جو اوپر بیان ہوئے۔ قافیہ کی صفت ، اضافت ، قید ، عامل یا معمول ، فعل وغیرہ مثلاً کھنچی ہوئی تلوار دیکھ کر یا اوپی ہوئی تلوار دیکھ کر ، یا ہلال سی تلوار دیکھ کر ، یا حلق پر تلوار دیکھ کر یا ترک کی تلوار دیکھ کر یا اس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر یا دانت سے تلوار دیکھ کر۔ غرض کہ دوسرا مصرع کہنے میں شاعر مجبور ہے کہ قافیہ و ردیف کے متعلقات کو پورا کرے اور اس مصرع کے کہنے میں بس یہی خوبی ہے کہ ایسے پہلو تلاش کرے کہ توارد نہ ہونے پائے اور مصرع لڑ نہ جائے ، ہاں دوسرا مصرع کہہ چکنے کے بعد اُس پر مصرع لگانا بڑے وسیع میدان کا طے کرنا ہے جس میں صدہا راہیں ہیں اور مصرع لگانے کی مشق کا بہت مفید و آسان طریقہ یہ ہے کہ کسی شاعر خوش گوار کا دیوان کھولے تو داہنے ہاتھ کی طرف سب اوپر کے مصرع ہوں گے اور بائیں طرف سب نیچے کے مصرع ہوں گے ، اوپر کے مصرعوں کو کسی کاغذ سے چھپادینا چاہئے اور نیچے کے مصرع پر یہ فکر کرے کہ اس کے ساتھ کون سا مضمون ربط کھاتا ہے ، جب مضمون ذہن میں آجائے تو کاغذ سر کا کر دیکھے کہ شاعر نے کیا کہا ہے۔ غرض کہ شعر کا سحر ہو جانا اور شاعر کا ماہر ثابت ہونا اکثر مصرع لگانے پر موقوف اور منحصر ہے۔ میر تقی میرؔ ، مصحفیؔ کو کہا کرتے تھے کہ یہ صحاف ہیں یعنی لگا کر مصرع کو چپکادیا کرتے ہیں یعنی مصرعہ اچھا لگانا نہیں جانتے۔
ثابت ہوا ہے گردنِ مینا پہ خون خلق
لرزے ہے موجِ مے تری رفتار دیکھ کر
نشہ میں تیری رفتار مستانہ دیکھ کر موج مے اس اندیشہ میں کانپ رہی ہے کہ اس رفتار سے عالم کا خون ہو جائے گا۔ اس بات سے ہم کو یہ پتہ لگ گیا کہ خون خلق کا باعث یہی شیشہ شراب ہے کہ نہ تو شراب پیتا نہ یہ رفتار مستانہ عالم کا خون کرتی۔
واحسر تاکہ یار نے کھینچا ستم سے ہاتھ
ہم کو حریص لذتِ آزار دیکھ کر
آزار و ستم و حسرت و الم و بیداد و جفا و مرگ و بلا و یاس و حرمان و آہ سوزاں و دیدۂ تر و زخم جگر و خانۂ ویرانی و بے سر و سامانی و دشت پیمائی و ہرزہ درائی و داغ جنوں و بخت و اژوں وغیرہ کو مانوس و معشوق بنانا اور اُس کی خواہش و آرزو و حسرت کرنا اور اُس کے حصول پر ناز و افتخار و مسرت کرنا ایسا مضمون ہے کہ اس میں شک نہیں اکثر مؤثر واقع فی القلب ہوا کرتا ہے۔
بک جاتے ہیں ہم آپ متاعِ سخن کے ساتھ
لیکن عیارِ طبع خریدار دیکھ کر
پہلے مصرع کا مطلب یہ ہے کہ میرے کلام کا جو خریدار ہوتا ہے اُس کے ہاتھ خود بک جاتا ہوں اور دوسرے مصرع میں یہ اشارہ ہے کہ میرے کلام کا مذاق صحیح ہونا دلیل ہے اُس شخص کے اہل کمال ہونے کی اور یہ باعث ہے میرے خود اُس کے ہاتھ بک جانے کا۔
زنار باندھ سبحۂ صددا نہ توڑ ڈال
رہرو چلے ہے راہ کو ہموار دیکھ کر
رشتۂ تسبیح و زنار دونوں راہیں ہیں مگر فرق یہی ہے کہ زنار ہموار ہے اور تسبیح وہ راہ ہے جس میں سو ٹھوکروں کا سامنا ہے۔ شعراء بت خانہ و برہمن و زنار کو خانقاہ و واعظ و شیخ و مصلیٰ و تسبیح پر ہمیشہ ترجیح دیا کرتے ہیں اور غرض اس سے طعن ہے یعنی عارف کو تسبیح و مصلیٰ سے کیا کام ہے۔
اِ ن آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں
جی خوش ہوا ہے راہ کو پرخار دیکھ کر
یعنی اس شعر میں مصنف نے آبلوں کی طرف اشارہ کر کے مخاطب کو زیادہ متوجہ کر لیا ، اگر ’ان ، کی جگہ پر ’ کیا ،ہوتا تو یہ لطف نہ حاصل ہوتا ، اشارہ نے جس شعر میں زیادہ تر لطف دیا ہے ، وہ یہ شعر ہے :
صحبت وعظ تو تادیر رہے گی واعظ
یہ ہے میخانہ ابھی پی کہ چلے آتے ہیں
کیا بدگماں ہے مجھ سے کہ آئینے میں مرے
طوطی کا عکس سمجھے ہے زنگار دیکھ کر
یعنی اسے گمان ہوتا ہے کہ اسے طوطی کا بھی شوق ہے ، آگے کہتے ہیں :
بدگماں ہوتا ہے وہ کافر نہ ہوتا کاش کے
اس قدر ذوق نوائے مرغ بستانی مجھے
لیکن یہ بدگمانی تصنع سے خالی نہیں۔
گرنی تھی ہم پہ برقِ تجلی نہ طور پر
دیتے ہیں بادہ ظرفِ قدح خوار دیکھ کر
بڑے پلے کا مصرع لگایا ہے اور تجلی کو شراب سے اور طور کو مے خوار تنگ ظرف سے تشبیہ دی ہے اور تنگ ظرف ہونا اس سے ظاہر ہے کہ وہ تجلی کا متحمل نہ ہو سکا۔
سر پھوڑنا وہ غالبؔ شوریدہ حال کا
یاد آگیا مجھے تری دیوار دیکھ کر
نیچے کا مصرع فقط مفعول بہ کو مانگ رہا ہے اور مفعول بہ عاشق کا سر پھوڑنا ہے ، مصنف نے عاشق کی جگہ غالبؔ کہا اور نکرہ کے بدلے معرفہ کو اختیار کیا اور اُس سبب سے شعر زیادہ مانوس ہو گیا اور دوسرا لطف یہ ہے کہ مصرع پورا کرنے کے لئے جو الفاظ بڑھائے ہیں وہ بہت ہی پرمعنی ہیں ، ایک تو غالبؔ کی صفت شوریدہ حال بڑھادی ، جس سے سر پھوڑنے کا سبب ظاہر ہو گیا ، دوسری لفظ ’ وہ ، بڑھادی اور اُس نے کثیرالمعنی ہونے کے سبب سے شعر کا حسن ایک سے ہزار کر دیا۔
_______
لرزتا ہے مرا دل زحمتِ مہر درخشاں پر
میں ہوں وہ قطرۂ شبنم کہ ہو خارِ بیاباں پر
یعنی زبان تشنہ خار مجھے خود جذب کر لے گی آفتاب کو میرے خشک کرنے میں زحمت کرنا کیا ضروری ہے۔ اس شعر میں دل کے لرزنے سے آفتاب شبنم کے چمکنے کو تشبیہ دی ہے اور وجہ شبہ حرکت ہے
نہ چھوڑی حضرتِ یوسف ؑنے یاں بھی خانہ آرائی
سفیدی دیدۂ یعقوب ؑکی پھرتی ہے زنداں پر
یعنی ان کی مفارقت میں اُن کی آنکھیں سفید ہوتی جاتی ہیں کہ گویا ان کا زندان میں آنا اس کا باعث ہوا کہ ان کی آنکھیں ان کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے زندان میں پہنچیں اور آنکھوں کی سفیدی دیوار زنداں پر پھر رہی ہے اور زنداں پر سفیدی پھرنا اور آنکھوں کا سفید ہو جانا دونوں میں حرکت نے الکیف ہے اور یہاں بھی وجہ شبہ یہی حرکت ہے۔
فنا تعلیم درس بے خودی ہوں اُس زمانے سے
کہ مجنوں لام الف لکھتا تھا دیوار دبستاں پر
فنا اور تعلیم دونوں لغت تازی ہیں اور ترکیب دونوں لفظوں میں فارسی ہے یعنی فنا تعلیم اسم صفت بن گیا ہے جس کو فنا کی تعلیم ہوئی ہو وہ مراد ہے اور یہ درس جس نے دیا ہے وہ بے خودی ہے اور مصنف نے ’ الف بے ، کو چھوڑکر لام الف اس سبب سے کہا کہ دونوں حرف مل کر ’ لا ، ہو جاتے ہیں اور ’ لا ، نیستی و فنا کے مناسب ہے۔
فراغت کس قدر رہتی مجھے تشویش مرہم سے
بہم گر صلح کرتے پارہ ہائے دل نمک داں پر
یعنی پارہائے دل کو نمک چھڑکنے سے وہ لذت حاصل ہوتی ہے کہ باہم نزاع کرتے ہیں اس سبب سے میں چاہتا ہوں کہ بلا سے میں مرہم لگا لوں اور ان سب کو اس لذت سے محروم کر دوں ، دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اگر پارہائے دل نمک چھڑکنے کی ایذا پر راضی رہتے تو اس ایذا اُٹھالینے کو تشویش مرہم کرنے سے میں بہتر سمجھتا۔
نہیں اقلیم اُلفت میں کوئی طومارِ ناز ایسا
کہ پشتِ چشم سے جس کے نہ ہو وے مہر عنواں پر
ناز و ادا کو طومار کہنا تو ایک وجہ رکھتا ہے لیکن اُلفت جو ایک ادنیٰ مرتبہ عشق کاہے اُسے اقلیم و قلمرو سے تعبیر کرنا بلاوجہ ہے ، اس لئے کہ مشبہ و مشبہ بہ میں اضافت کرنے میں وجہ شبہ ظاہر ہونا شرط ہے ، نہیں تو وہ اضافت ایسی ہی ہو گی جیسے کہیں کہ آسمان رُخ کا ستارہ خال ہے یا دریائے دہن کے موتی دندان ہیں اور ان اضافتوں کا غلط ہونا اہل ادب کے مذاق میں ظاہر ہے۔
دوسرے مصرع کی بندش میں گنجلک بہت ہو گئی ہے ، مطلب مصنف کا یہ ہے کہ دیوان حسن میں کوئی طومار ناز ایسا نہیں جس کے عنوان پر پشت چشم شوق کی مہر نہ ہوئی ہو اور پشت چشم سے مہر ہونا معشوق کی آنکھ چرانے اور آنکھ پھیرلینے اور کنکھیوں دیکھنے سے اشارہ ہے اور مہر اور آنکھ میں وجہ شبہ سیاہی ہے۔ حاصل یہ کہ جس طرح ہر طومار کے لئے عنوان پر مہر ہونا ضرور ہے ، اسی طرح ناز و ادا کے لئے آنکھ چرانا اور ترچھی نظر رکھنا ضرور ہے ، اس شعر میں محض طومار اور مہر کے ذکر سے مصنف نے اُلفت کو اقلیم فرض کیا ہے اور اس اعتبار سے بھی اگر دیکھئے تو طومار و مہر کو بہ نسبت اقلیم کے لفظ دیوان کے ساتھ زیادہ مناسبت ہے ، مگر مصنف نے اس اضافت کو اور بندش کی اس گنجلک کو جس خوبی شعر کے لئے گوارا کیا ہے البتہ اُس خوبی کے مقابلہ میں بندش کا عیب کچھ بھی نہیں وہ یہ ہے کہ عنوان پر نقش بٹھا کر فوراً مہر کا پشت پھیرلینا اور عاشق سے آنکھ ملا کر فوراً معشوق کا آنکھ پھیرلینا تشبیہ بدیع ہے اور وجہ شبہ حرکت ہے اور حرکت بھی وہ حرکت جو نہایت محبوب ہے۔
مجھے اب دیکھ کر ابر شفق آلودہ یاد آیا
کہ فرقت میں تری آتش برستی تھی گلستاں پر
’ اب ، کا لفظ اس شعر میں کثیرالمعنی ہے ، یعنی یہ کہنا کہ اب یاد آیا اس سے بالتزام یہ نکلتا ہے کہ پہلے بھولا ہوا تھا اور صدمہ مفارقت کے اس طرح بھول جانے سے یہ معنی نکلتے ہیں کہ معشوق کو دیکھ کر انتہا کی محویت و مسرت غالب ہو گئی ہے اور یہ معنی نکلتے ہیں کہ جیسے شکوۂ ہجر کچھ بیان کیا تھا اور کچھ باتیں اب یاد آتی جاتی ہیں ، غرض کہ ایک لفظ میں اتنی معنی انتہائے بلاغت ہے اور پھر شفق کی ابر آتش بار سے تشبیہ نہایت بدیع ہے۔
بجز پروازِ شوقِ ناز کیا باقی رہا ہو گا
قیامت اک ہوائے تند ہے خاکِ شہیداں پر
یعنی شہیدانِ حسرت دیدار میں اب کیا باقی رہا ہے جو قیامت انھیں اُٹھائے گی ہاں جلوہ سراپا ناز کے شوق میں اُن کی خاک اُڑ رہی ہے تو اس کے لئے شور قیامت ایک ہوائے تند ہے یعنی اُس کے پرواز میں کچھ یہ بھی معین ہو جائے گی اور اس کا عکس تو یہ معنی ہیں کہ جب ہوائے تند چلی اس نے قیامت کا کام کیا یعنی خاک اُن کی شوق دیدار میں اُڑنے لگی۔
نہ لڑ ، ناصح سے غالبؔ کیا ہو اگر اُس نے شدت کی
ہمارا بھی تو آخر زور چلتا ہے گریباں پر
کیا گریبان پھاڑنے سے بھی تسکین نہ ہو گی ، کیا خوب شعر کہا ہے۔
_______
ہے بسکہ ہر اک اُن کے اشارہ میں نشاں اور
کرتے ہیں محبت تو گذرتا ہے گماں اور
یعنی وہ محبت بھی کرتے ہیں تو میں جانتا ہوں کوئی فریب ہے۔
یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل اُن کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور
یعنی سوال وصل میں کھل کے نہیں کہہ سکتا اور وہ سادہ دلی سے بے صاف صاف کہے ہوئے مطلب سمجھ نہیں سکتے۔
ابرو سے ہے کیا اُس نگہ ناز کو پیوند
ہے تیر مقرر مگر اُس کی ہے کماں اور
ابرو کو کمان اور نگہ کو تیر کہنا پرانی تشبیہ ہے ، مصنف نے فی الجملہ اسے تازہ کر کے کہا ہے یعنی نگہ کا تیر ابرو کی کمان میں اُسے نہیں آتا ہے دلفریبی حسن اسی پر تاب کرتی ہے۔
تم شہر میں ہو تو ہمیں کیا غم جب اُٹھیں گے
لے آئیں گے بازار سے جا کر دل و جاں اور
یعنی تمہاری بدولت ہر شخص کو دل و جان دوبھر ہے سستا بیچ ڈالے گا۔
ہر چند سبک دست ہوئے بت شکنی میں
ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہے سنگِ گراں اور
یعنی بت شکنی میں مشاق ہوئے تو کیا یہ ماو من بھی تو سنگِ گراں کی طرح منزل عرفان تک پہنچنے میں مانع ہے ، ہمارا یہ سمجھنا کہ ہم ہیں یہی سنگِ راہ ہے۔
ہے خون جگر جوش میں دل کھول کے روتا
ہوتے جو کئی دیدۂ خوننابہ فشاں اور
’ ہے خون جگر جوش میں ، جملہ خبریہ ہے اور اُس کے بعد آخر شعر تک تمنا ہے اور یہ تمنا مبنی ہے خبر سابق پر کہ تمنا کرنے کی وجہ جوش خون ہے ، اسی سبب سے مصنف نے یہاں انشا کے ساتھ خبر کو جمع کیا اور شعر میں بہ نسبت خبر کے انشا زیادہ لطف دیتی ہے۔
مرتا ہوں اس آواز پہ ہر چند سر اُڑ جائے
جلاد کو لیکن وہ کہے جائیں کہ ہاں اور
اُس کا یہ کہنا کہ ہاں اور تلوار لگا مجھے اس قدر پسندِ ہے کہ اپنی جان جانے کی کچھ پرواہ نہیں۔
لوگوں کو ہے خورشیدِ جہاں تاب کا دھوکا
ہر روز دکھاتا ہوں میں اک داغِ نہاں اور
میں اپنے اک داغِ نہاں کو ہر روز ظاہر کرتا ہوں ، جسے لوگ دھوکے سے طلوعِ خورشید سمجھتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ وہی ایک آفتاب ہے جو روز روز نکلا کرتا ہے۔
لیتا نہ اگر دل تمہیں دیتا کوئی دم چین
کرتا جو نہ مرتا کوئی دن آہ و فغاں اور
دونوں مصرعوں میں شرط جزا کے درمیان میں واقع ہوئی ہے اور دونوں مصرعوں کی ترکیب میں مشابہت اور معادلت ہے اور حسن بندش ہے ، مطلب یہ ہے کہ اگر دل تمہیں نہ دے دیا ہوتا تو کوئی دم چین لیتا ، اگر نہ مرجاتا تو کچھ دنوں آہ و فغاں کرتا ، نحو کے اعتبار سے پہلے مصرع میں ’ لیتا ، کا محل آخر مصرع ہے اور دوسرے مصرع میں بھی ’کرتا ، آخر میں ہونا چاہئے تھا لیکن معنی کے اعتبار سے یہاں ترکیب نحوی کی مخالفت ہی چاہئے اور ’ لیتا ، اور ’ کرتا ، کا مقدم کر دینا ہی ضروری ہے کہ ان دونوں فعلوں کے مقدم کر دینے سے معنی میں کثرت پیدا ہو گئی ، یعنی اب ترتیب الفاظ ان معنی پر دلالت کرتی ہے جیسے معشوق نے اس سے کہا ہے کہ تو کوئی دم چین نہیں لیتا اور اب تو آہ و فغاں کرنا بھی تو نے کم کر دیا ہے ، اس کے جواب میں یہ شعر ہے کہ :
ہاں لیتا میں چین اگر دل تجھے نہ دیا ہوتا
نہ کرتا کچھ دنوں اور آہ و فغاں مر نہ گیا ہوتا
اور اس میں شک نہیں کہ کثرت معنی سے کلام میں حسن پیدا ہوتا ہے اور حسن ایجاز کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ سوال کو مقدر کر کے فقط جواب ایسے الفاظ میں ادا کرے کہ اس سے ساری عبارت سوال کی مخاطب کی سمجھ میں آجائے اور اصطلاح میں اُسے دفع دخل مقدر کہتے ہیں اور یہ طریقہ ایسا شائع ہے بلکہ ایک امر فطری کہ جو روزمرہ کی بول چال میں پایا جاتا ہے۔ مثلاً جس شخص سے خلف وعدہ یا خدمت میں تخلف ہوا وہ کہتا ہے میں کل نہ آ سکا مجھے ایک کام ہو گیا اور چھوٹتے ہی یہ بات کہہ اُٹھنا ان معنی پر دلالت کرتا ہے مخاطب نے اس سے کہا ہے کہ تم نے وعدہ خلافی کی یا تساہل کیا یعنی اعتراض مقدر کا جواب دیتا ہے۔
پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رُکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور
یعنی رُکنے کے بعد جو طبیعت رواں ہوتی ہے تو زیادہ تر رواں ہوتی ہے ، جس طرح چڑھے ہوئے نالے کو جب رستہ مل جاتا ہے تو بہت ہی زور سے بہتا ہے اور معنی تفصیل کے لئے ہے ، یعنی پہلے کے بہ نسبت زیادہ تر روانی ہوتی ہے۔
ہیں اور بھی دُنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کاہے اندازِ بیاں اور
’ کہتے ہیں ، کا فاعل حذف کرنے سے یہ معنی پیدا ہوئے کہ یہ بات عام ہے اور مشہور ہے۔
_______
صفائے حیرتِ آئینہ ہے سامان زنگ آخر
تغیر آب برجا ماندہ کا پاتا ہے رنگ آخر
یعنی آبِ راکد کا رنگ تغیر پا کر کائی جم جاتی ہے تو حیرت کا حد سے بڑھ جانا بھی اچھا نہیں ، اس شعر میں آئینہ پر زنگ آنا اور پانی پر کائی کا جمنا وہ تشبیہ ہے جس میں وجہ شبہ حرکت نے الکیف ہے
نہ کی سامانِ عیش و جاہ نے تدبیر وحشت کی
ہوا جام زمرد بھی مجھے داغِ پلنگ آخر
یعنی جام زمردیں پر مجھے داغ پشت پلنگ کا شبہ ہوتا ہے اور وحشت اور بڑھتی ہے مضمون شعر کا مبتذل ہے لیکن تشبیہ نے جان ڈال دی۔
جنوں کی دستگیری کس سے ہو گر ہو نہ عریانی
گریباں چاک کا حق ہو گیا ہے میری گردن پر
اے گریباں اُس چاک کا میری گردن پر حق ہو گیا ہے کہ اُس نے مجھے عریاں کیا نہیں تو جنوں کی دستگیری مجھ سے نہیں ہو سکتی ، یہاں عریاں نہ ہوتا تو پھر جنوں کیسا۔
برنگِ کاغذِ آتش زدہ نیرنگِ بے تابی
ہزار آئینۂ دل باندھے ہے بال یک تپیدن پر
پہلے مصرع میں سے ’ ہے ، محذوف ہے ، کہتے ہیں نیرنگ بے تابی مثل کاغذِ آتش زدہ ہے کہ دل نے ایک بال تپیدن پر ہزار ہزار آئینہ باندھے ہیں ، اس شعر میں آئینہ متحرک کی تڑپ کو اُس شعلہ سے تشبیہ دی ہے جو کاغذ آتش زدہ سے بلند ہو۔
فلک سے ہم کو عیش رفتہ کا کیا کیا تقاضہ ہے
متاعِ بردہ کو سمجھے ہوئے ہیں قرض رہزن پر
حاصل یہ کہ انقلابِ آسمانی سے جو زمانہ عیش کا جاتا ہے پھر اُسکے واپس آنے کی اُمید فضول ہے
ہم اور وہ بے سبب رنج آزما دُشمن کہ رکھتا ہے
شعاعِ مہر سے تہمت نگہ کی چشم رَوزن پر
یعنی روزن سے جو شعاع آتی ہے اُسے دیکھ کر وہ مجھ سے آزردہ ہوتا ہے کہ تیری نگاہ تھی تو نے جھانکا ہو گا ایسے بدگمان سے مجھ کو سابقہ پڑا ہے۔
فنا کو سونپ گر مشتاق ہے اپنی حقیقت کا
فروغ طالع خاشاک ہے موقوف گلخن پر
یعنی فنا فی اللہ ہوکر فروغ معرفت حاصل کر اس شعر میں لفظ حقیقت میں دو عالموں کا تنازع ہے ، ایک فعل دوسری اضافت یعنی لفظ ’ سونپ ، یہ چاہتا ہے کہ حقیقت مفعول ہو اور علامت مفعول یعنی ’کو ، اس میں ہونا چاہئے اور لفظ مشتاق جو حقیقت کی طرف مضاف ہے وہ چاہتا ہے کہ ’ کا ، علامت مضاف الیہ اس میں ہو اور نحو اُردو یہ ہے کہ عامل ثانی کو عمل دینا چاہئے جیسا کہ اس شعر میں ہے۔
اسدؔ بسمل ہے کس انداز کا قاتل سے کہتا ہے
کہ مشقِ ناز کر خونِ دوعالم میری گردن پر
مطلب صاف ہے اور کس یہاں استفہام کے لئے نہیں ہے استعجاب کے لئے ہے ، اس شعر کی تعریف حد امکاں سے باہر ہے۔
_______
ستم کش مصلحت سے ہوں کہ خوباں تجھ پہ عاشق میں
تکلف برطرف ، مل جائے گا تجھ سا رقیب آخر
یعنی جو حسین تجھ پر عاشق ہیں اُن میں سے کوئی نہ کوئی میرے ہاتھ لگ جائے گا اس مصلحت سے میں تیری ناز برداری کئے جاتا ہوں کہ تو نہیں ملتا تو تجھ سا حسین کوئی رقیب تو مجھے مل جائے گا۔
_______
لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دن اور
تنہا گئے کیوں اب رہو تنہا کوئی دن اور
اس شعر میں مصنف نے عارف سے خطاب کیا ہے کہ ہمارے ساتھ تمہیں مرنا تھا تم نے جلدی کی تو اب تنہا رہو۔ اس غزل کے سب شعر عارف کے مرثیہ میں ہیں۔ عارف صاحب مرزا صاحب کی بی بی کے بھائی تھے زین العابدین خاں نام تھا خوش فکر تھے جواں مرگ ہوئے۔
مٹ جائے گا سر گر ترا پتھر نہ گھسے گا
ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور
یعنی میری ناصیہ سائی جو تیرے در پر ہے یہ بھی ہمیشہ کے لئے نہیں ہے چند دن میں یا تو پتھر ہی گھس جائے گا یا سر ہی باقی نہ رہے گا اور در سے اشارہ ہے قبر عارف کی طرف اور پتھر سے سنگ لوح مزار مراد ہے اور ناصیہ فرسائی سے سر ٹکرانا مقصود ہے۔
آئے ہو کل اور آج ہی کہتے ہو کہ جاؤں
مانا کہ ہمیشہ نہیں اچھا کوئی دن اور
کثرت غم میں یہ تصور بند گیا جیسے عارف ابھی زندہ ہے اور وداع ہوا چاہتا ہے۔
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت میں ملیں گے
کیا خوب قیامت کاہے گویا کوئی دن اور
یعنی ہم جانتے ہیں کہ آج ہی قیامت کا دن ہے۔
ہاں اے فلک پیر جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور
اس شعر میں ’ ہاں ، اپنے محل پر نہیں ہے ’ کیوں ، کا مقام ہے۔
تم ماہ شب چار دہم تھے مرے گھر کے
پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشہ کوئی دن اور
یعنی شب چار دہم کے بعد تو کچھ دنوں تک چاند رہتا ہے پھر کیوں تم یکایک چھپ گئے۔
تم کون سے تھے ایسے کھرے داد و ستد کے
کرتا ملک الموت تقاضا کوئی دن اور
مجھ سے تمہیں نفرت سہی نیر سے لڑائی
بچوں کا بھی دیکھا نہ تماشا کوئی دن اور
گذری نہ بہرحال یہ مدت خوش و ناخوش
کرنا تھا جواں مرگ گذارا کوئی دن اور
’ نہ ، استفہام انکاری کے لئے ہے اور جوان مرگ منادی ہے ، میر مصنف کے شاگرد رشید ہیں ، اس شعر سے ظاہر ہے کہ مصنف کے ساتھ اُن کی خصوصیت عارف کو ناگوار تھی۔
ناداں ہو جو کہتے ہو کہ کیوں جیتے ہیں غالب ؔ
قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور
تم لوگ تعجب کرتے ہو کہ جواں مرگی عارف کا داغ اُٹھا کر غالبؔ جیتے ہیں بڑے نادان ہو ، ابھی کچھ دنوں اور موت کی تمنا میں رہنا میری قسمت میں لکھا ہوا ہے پھر مروں تو کیوں کر مروں۔
فارغ مجھے نہ جان کہ مانند صبح و مہر
ہے داغ عشق زینت جیب کفن ہنوز
صبح استعارہ ہے شب عمر کے گذر جانے سے اور جیب کفن کو بھی گریباں صبح سے تشبیہ دی ہے ، مطلب یہ ہے کہ مرنے پر بھی عشق سے خالی نہیں ہوں۔
ہے ناز مفلسان زراز دست رفتہ پر
ہوں گل فروش شوخی داغ کہن ہنوز
یعنی داغ عشق اب نہیں ہے تو میں اُس کا تذکرہ ہی کیا کرتا ہوں۔ داغ کو اشرفی سے تشبیہ دی ہے اور زوالِ عشق کو دولت ازدست رفتہ سے۔
مے خانۂ جگر میں یہاں خاک بھی نہیں
خمیازہ کھینچے ہے بت بیداد فن ہنوز
معشوق خونخوار جو میرے جگر کو شراب سمجھ کر پیا کرتا ہے اُسے ابھی تک انگڑائیاں آرہی ہیں اور نشہ نہیں چڑھا ، لیکن یہاں شراب خانۂ جگر میں اب خاک نہیں ہے۔
_______
حریف مطلب مشکل نہیں فسونِ نیاز
دُعا قبول ہو یارب کہ عمر خضر دراز
یعنی جو مطلب و مقصد کہ شدنی نہیں ہے اُس کے مطلب میں تو دُعا و نیاز کچھ بکار آمد نہیں ہوتا تو پھر اب ہم ایسی ہی دُعا مانگیں گے جو تحصیل حاصل ہو مثلاً اپنی درازیٔ عمر کی دُعا تو قبول نہ ہو گی تو پھر ہم درازی عمر خضر کی دُعا کرتے ہیں۔ بس اسی کو قبول کرے۔
نہ ہو بہرزہ بیاباں نورد و ہم وجود
ہنوز تیرے تصور میں ہے نشیب و فراز
وجود سے وجود ماسوائے اللہ مراد ہے اور نشیب و فراز کا یہی سبب ہے کہ تو وجود کے لئے مراتب سمجھے ہوئے ہے جس کا مرتبہ اعلیٰ وجوب ہے اور مرتبۂ ادنیٰ امکان ہے اور امکان میں بھی قیام بذات و قیام لغیرہ جوہر و عرض کے لئے وجود میں پستی و بلندی رکھتا ہے یعنی جادۂ مستقیم یہ ہے کہ ہر ہر شئے کو موجود بوجود واحد سمجھ اور وجود کے لئے اقسام نہ نکال یہ راستہ بھیڑ کاہے۔
وصالِ جلوہ تماشا ہے پر دماغ کہاں
کہ دیجے آئینۂ انتظار کو پرواز
یعنی ہم نے مانا کہ وصال یار جلوہ تماشا ہے یعنی جلوۂ حسن کا تماشا دکھانے والا ہے ، لیکن ہمیں یہ دماغ کہاں کہ آئینۂ انتظار کو صیقل پرواز کریں حاصل یہ کہ جب تک تماشائے جلوۂ حسن نصیب ہو جب تک انتظار کون کرے۔
ہر ایک ذرّۂ عاشق ہے آفتاب پرست
گئی نہ خاک ہوئے پر ہوائے جلوۂ ناز
ہوا کی لفظ میں یہ ابہام ہے کہ ذرہ ہوا میں ہوتا ہے ’ ہوئے ، ماضی ہے مگر جب اس کے ساتھ حروف متصل ہوتے ہیں تو مصدر کے معنی ہو جاتے ہیں مثلاً کسی کے کہے سے کیا ہوتا ہے اُن کے آئے کو دو دن ہوئے۔ سورج نکلنے تک میں آؤں گا۔ یہ دن چڑھے کا ذکر ہے اور حروف میں سے دو حرف جو باقی رہ گئے یعنی ’ نے ، اور ’ میں ، یہ دونوں حرف اس صیغہ سے کبھی نہیں ملتے ، ’ نے ، اس سبب سے نہیں ملتا کہ یہ علامت فاعل ہے اور یہ سب صیغہ متعلقات فعل سے ہوا کرتے ہیں اور ’میں ، اس سبب سے نہیں ملحق ہوتا کہ اس قسم کے اکثر متعلقات میں خود معنی ظرفیت ہوتے ہیں جیسے کہتے ہیں رات گئے یہ بات ہوئی اور دن چڑھے یہ واقعہ ہوا لیکن یہ سب مواقع استعمال سماعی ہیں ، اس پر اور افعال کا قیاس کرنا صحیح نہ ہو گا۔
نہ پوچھ وسعت مے خانۂ جنوں غالبؔ
جہاں یہ کاسۂ گردوں ہے ایک خاک انداز
خاک انداز وہ آلہ جس سے مٹی کھود کھودکر پھینکیں ، لیکن یہاں یہ وصف نہیں مقصود ہے بلکہ آلۂ خاک انداز کا محقر ہونا وجہ شبہ ہے اور اُس کا خاک سے فقط بھرا ہونا مقصود ہے یعنی کاسہ گردوں بھی اس اعتبار سے کہ کرۂ خاک کو محیط ہے خاک انداز کی طرح خاک سے بھرا ہوا ہے غرض کہ کاسۂ گردوں کی مے خانہ جنوں میں اتنی وقعت بھی نہیں کہ کاسہائے شراب میں اُس کا شمار ہو بلکہ خاک انداز ہے ’ایک ، کا لفظ اُردو میں تنکیر کے لئے ہوتا ہے اور یہاں تنکیر سے تحقیر مقصود ہے کہ تنکیر کے ایک معنی یہ بھی ہیں۔
وسعتِ سعیٔکرم دیکھ کہ سرتا سر خاک
گذرے ہے آبلہ پا ابرِ گہر بارِ ہنوز
ابر کو آبلہ پا کہنے کی وجہ لفظ گہر بار کو اُس کی صفت ڈال کر ظاہر کی ہے اور ادعا یہ ہے کہ سعی کرم میں یہ آبلے پاؤں میں پڑگئے ہیں اور پھر بھی وہ تمام زمین پر سرتا سر افادہ کرم کے لئے دوڑ رہا ہے یعنی کریم کی یہ شان ہونا چاہئے۔
یک قلم کاغذ آتش زدہ ہے صفحۂ دست
نقش پا میں ہے تپِ گرمیٔرفتار ہنوز
یعنی میرے نقش پا میں میری گرمیٔرفتار کا اثر ابھی تک ایسا باقی ہے کہ صفحۂ دشت کاغذ آتش زدہ ہو گیا ہے۔ اس شعر میں مصنف نے یک قلم کا لفظ صفحہ کی رعایت سے استعمال کیا ہے ، اس زمانہ کی شاعری میں رعایت کو بھی صنعت سمجھتے ہیں اور رعایت اُسے کہتے ہیں کہ ایک لفظ ایسا استعمال کریں جسے کسی اور لفظ کے ساتھ کچھ تعلق اور مناسبت محض لفظی ہو جیسے اس شعر میں لفظ یک قلم معنی کے اعتبار سے سرتا سر کے معنی پر ہے لیکن لفظ کے اعتبار سے قلم کو صفحہ سے ایک تعلق ہے یا جیسے اس فقرہ میں کہ زبان تلوار کا کام کرتی ہے ، یہاں کام کے معنی فعل کے ہیں اور لفظ کے اعتبار سے کام و زبان تناسب رکھتے ہیں یا جیسے سید امانت کا یہ شعر :
عاشق کو زہر غیر کو مصری کی ہو ڈلی
اس طرح کی نہ بات زباں سے نکالئے
نہ بات نکالئے اس مطلب کے لئے ہے کہ بات نہ نکالئے اور نہ بات اور مصری کو با اعتبار لفظ باہم دگر تعلق و تناسب ہے یا جیسے میرا انیس کے کلام میں ہے موت ہنستی ہے کہ مراد تو موت کا ہنسنا ہے اور موت و ہستی باہم دگر تعلق و تضاد رکھتے ہیں۔ غرض کہ اس میں شک نہیں کہ اسے رعایت کہیں یا ضلع کہیں بعض بعض مقام میں یہ اچھا معلوم ہوتا ہے کہ اس میں اس قدر افراط و تفریط کو دخل دے دیا ہے کہ اس ضلع کے خیال سے حسن معنی و سلاست الفاظ تک کا خیال نہیں رکھتے جیسے امانتؔ نے ایک مرثیہ میں کہا ہے : ’’شامی ، کباب ہو کے پسند اجل ہوئے ‘‘۔ اس سبب سے فصحا کو اب اپنے کلام میں ضلع بولنے سے کراہیت آ گئی ہے اور بے شبہ قابل ترک ہے کہ یہ بازاریوں کی نکالی ہوئی صنعت ہے ، اہل ادب نے کہیں اس کا ذکر ہی نہیں کیا ہے ، شہر کے لونڈے جب ایک جگہ جمع ہو جاتے ہیں تو ضلع بولتے ہیں ایک کہتا ہے تمہاری چکنی چکنی باتوں نے چھالیا یعنی چکنی ڈلی اور چھالیا۔ دوسرا جواب دیتا ہے میں تیرا یار کدتھا یعنی کھتا : وہ کہتا ہے آنکھ پر پنجہ رکھ کر کیوں بات کرتے ہو یہ پنجہ کی رعایت سے جواب دیتا ہے کہ مت ٹوک رے۔ یعنی جھاڑو پنجہ اور ٹوکرا۔ انھیں لوگوں نے مشاعروں میں اور مجلسوں میں شعراء کو ایسی ایسی رعایتوں پر داد دے دے کر اپنے رنگ پر کھینچ لیا ہے ایک اور بھی صنعت یہ آج کل کہی جاتی ہے کہ ایک لفظ جو کئی معنی میں مشترک ہے اُس کے ایک معنی کو دوسرے معنی سے تشبیہ دیتے ہیں اور اسی اشتراک لفظی کو وجہ شبہ سمجھ لیتے ہیں ، مثلاً بحرؔ کہتے ہیں :
انگیا کے ستارے ٹوٹتے ہیں
پستاں کے انار چھوٹتے ہیں
یعنی انار لفظ مشترک ہے باغ میں بھی ہوتا ہے اور آتشبازی میں بھی ہوتا ہے تو انھوں نے نارپستاں کو اسی اشتراک لفظی کی وجہ سے آتش بازی کے انار سے تشبیہ دی ہے اور میر علی اوسط صاحب رشکؔ کہتے ہیں :
توڑتی ہے مرغ جاں بلی ترے دروازے کی
کاٹتا ہے رخت تن چوہا تمہاری ناک کا
یعنی بلی اور چوہا دونوں حیوان بھی ہیں اور دروازہ میں ایک قسم کا کھٹکا ہوتا ہے اُسے بھی بلی کہتے ہیں اور ناک میں سد و بلغمی جو ہوتے ہیں ، اُسے بھی چوہا کہتے ہیں اور محض اسی اشتراک لفظی کی وجہ سے ناک کے چوہے کو جاندار چوہے اور دروازہ کی بلی کو جاندار بلی سے تشبیہ دی ہے ، اُن کے ایک شاگرد ہلالؔ کہتے ہیں :
پیٹوں سر سن سن کے گانا اُس بتِ بے پیر کا
دائرہ بجنے لگے حرف خطِ تقدیر کا
یعنی دائرہ ایک باجہ ہے اور حرف کے دامن کو بھی دائرہ کہتے ہیں ، اس وجہ سے دائرہ حرف کو باجے سے تشبیہ دی ہے۔ اس رنگ کے کہنے والے جو شعراء ہیں ، اُن کی رائے یہ ہے کہ ناسخ کے دیوان بھر میں بس ایک ہی شعر نئے مضمون کاہے :
دانے ہیں انگیا کی چڑیا کو جگت کی چکیاں
ہیں چلتی ہے بالے کی مچھلی موتیوں کی آب میں
یعنی چڑیا بالاشتراک طائر کو بھی کہتے ہیں اور دونوں کٹوریوں کے درمیان کی سیون کو بھی کہتے ہیں ، اسی اشترک لفظی کے سبب سے بغیر کسی وجہ شبہ کے کٹوریوں کے سیون کو طائر سے تشبیہ دی اور اسی قسم کی تشبیہ یہ بھی ہے کہ زلف کو لیلیٰ سے اور خطِ رخسار کو خضر سے تشبیہ دیتے ہیں یعنی لیلیٰ و خضر دونوں علم بھی ہیں اور لیل و خضرت سے صفت مشتق بھی ہیں اور اشترک کو وجہ شبہ قرار دے کر یوں کہتے ہیں۔ لیلیٰ زلفِ دلِ عاشق کی محمل میں رہتی ہے یا جیسے خضر خط کا چشمۂ حیوانِ دہن معشوق ہے یعنی پہلے تو زلف و خط کو لیلیٰ و خضر معنی لغوی کے اعتبار سے کہا کہ زلف میں شب گونی اور خط میں سبزی ہوتی ہے اُس کے بعد ان معانی سے تجاوز کیا اور محمل و چشمۂ حیواں کا ذکر کر کے دونوں لفظوں میں معنی علمیت مراد لئے جس کا حاصل یہ ہوا کہ زلف و خط کو لیلیٰ محمل نشیں اور خضر ظلمات گرد سے تشبیہ دے دی ، حالاں کہ کوئی وجہ شبہ نہیں ہے اسے صنعتِ استخدام کہہ سکتے ہیں ، لیکن اتنی بات اس میں یہ بڑھی ہوئی ہے کہ دونوں معنوں میں تشبیہ بھی مقصود ہوتی ہے اور استخدام میں تشبیہ نہیں ہوتی۔
_______
کیوں کر اُس بت سے رکھوں جان عزیز
کیا نہیں ہے مجھے ایمان عزیز
یعنی مشربِ عشق میں معشوق سے جان عزیز رکھنا کفر ہے۔
دل سے نکلا پہ نہ نکلا دل سے
ہے ترے تیر کا پیکان عزیز
پیکان تیر جو دل میں اُترا ہوا تھا وہ تو نکل آیا مگر دل سے نہیں نکلا یعنی اُس کی محبت اب تک باقی ہے۔
تاب لائے ہی بنے گی غالبؔ
واقعہ سخت ہے اور جان عزیز
’ اور ، اس شعر میں رفع کے وزن پر ہے وسط میں سے واو گر گیا اور وسط میں سے کوئی حرف کبھی نہیں گرتا اور یہ حروفِ عطف ہے اور حروف جتنے ہیں اُن سب میں اختصار ہی اچھا ہوتا ہے اس سبب سے کہ وہ محض روابط اور صلات ہوتے ہیں مثلاً ’ جو ، اور ’ تو ، شرط و جزا میں اگر اس طرح سے موزوں ہو کہ واو تقطیع سے گرجائے تو زیادہ فصیح معلوم ہوتا ہے برخلاف اس کے کہ دونوں کا واو وزن میں محسوب ہو اور اشباع تام ہو کہ وہ برا معلوم ہوتا ہے لیکن ’ اور ، کی لفظ میں فصیح یہی ہے کہ فاع کے وزن پر ہو اور اختصار اُس کا بخلاف اور حروف کے برا معلوم ہوتا ہے اُس کی وجہ یہی ہے کہ وسط میں سے واو ساقط ہوتا ہے اور بعض شعراء نے اس لفظ کو ایسا مختصر کیا ہے کہ ’ و ، کو بھی گرادیا ہے اور بہ صورت عموماً آج کل سب اہل قلم غلط سمجھتے ہیں جیسے یہ مصرع ’’ دیکھ ٹک آن کر یہ دل اور جگر ‘‘ اس مصرع میں واو اور رے دونوں گرگئے اور میں سے فقط ’ آ ، رہ گیا ہے لیکن حقیقت امر یہ ہے کہ بول چال میں تینوں طرح اور کو بولتے ہیں ، ایک صورت یہ کہ تینوں حرف وزن میں داخل رہیں یعنی ملفوظ ہوں ، دوسری صورت یہ کہ واو گرجائے فقط ’ آر ، ملفوظ ہو ، تیسری صورت یہ کہ ’ر ، بھی گرجائے فقط ’ آ ، رہ جائے اور جب بول چال میں تینوں طرح ہے تو پھر غلط کہنے کی کوئی وجہ نہیں ، اسی طرح لفظ کوئی بھی چار طرح سے بولا جاتا ہے فعلن و فاع و فعل کے وزن پر فصیح اور فع کے وزن پر غیرفصیح ہے۔
_______
نہ گل نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
میں ہوں اپنی شکست کی آواز
یعنی نشاط و طرب سے مجھے کچھ تعلق نہیں ، میں سراپا درد ہوں اور اپنی ہی مصیبت میں۔
تو اور آرائش خم کاکل
میں اور اندیشہائے دور و دراز
یعنی تجھے آرائش کرتے دیکھ کر مجھے یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ دیکھئے اب کون کون عاشق ہو جائے یا کس کس عاشق کو یہ بناؤ دکھایا جائے۔
لافِ تمکیں فریبِ سادہ دلی
ہم ہیں اور رازہائے سینہ گداز
اے لاف سادہ دلی تیرا وصف تو یہ مشہور ہے کہ تو تمکین فریب ہے تو کچھ خبر لے کہ میرے دل میں ایسے راز ہیں جو سینہ گداز ہیں ، یعنی انھیں فاش کر دے کہ ان کا بوجھ میرے دل پر سے اُتر جائے حاصل یہ کہ سادہ دلی سے اپنے ضبط و تمکین کی شکایت ہے اور یہ ظاہر ہے کہ سادہ دلی کا مقتضی افشائے راز اور تمکین و وقار کی شان اخفائے راز ہے۔
ہوں گرفتار اُلفتِ صیاد
ورنہ باقی ہے طاقتِ پرواز
تعلقات دُنیا نے اپنا اسیر کر لیا ہے ، ورنہ دل پر رکھیں تو آزاد ہو سکتے ہیں۔
وہ بھی دن ہو کہ اُس ستمگر سے
ناز کھینچوں بجائے حسرتِ ناز
اس جملہ میں اس ستم گر سے ناز کھینچوں ’ سے ، اچھا نہیں معلوم ہوتا مگر ’ سے ، کا تعلق حسرت کے ساتھ ہے یعنی جس طرح اس ستم گر سے میں حسرت ناز کھینچ رہا ہوں ، وہ بھی دن آئے اسی طرح ناز کھینچتی اور ’ سے، اس شعر میں معنی سبب کے لئے ہے۔
نہیں دل میں مرے وہ قطرۂ خوں
جس سے مژگاں ہوئی نہ ہو گلباز
کہتے ہیں میرے دل میں کوئی ایسا قطرۂ خون نہیں ہے جس سے پنجۂ مژگاں نے گل بازی نہ کی ہو ، یعنی سارا جنونِ دل پلکوں سے ٹپک گیا۔
اے ترا غمزہ یک قلم انگیز
اے ترا ظلم سر بسر انداز
دو زن مصرعوں میں سے منادی محذوف ہے اور فعل بھی یعنی اے نازنین تیرا غمزہ یک قلم انگیز ہے اے ظالم تیرا ظلم سربسر انداز معشوقانہ ہے ان دونوں جملوں کی صورت خبر کی ہے مگر شاعر کو قصد انشا ہے اور منادی کا محذوف ہونا دلیل ہے اس بات پر کہ خبر نہیں ہے اس وجہ سے کہ محل انشا میں منادی کو حذف کرتے ہیں جیسے دُعا کے محل میں اے توجیے۔ کوسنے کے مقام پر اے تو مرے ، تعجب میں ، اے واہ ، اے لو ، تمنا کے لئے ، اے وہ دن خدا کرے ، امر میں ، اے یہاں آؤ ، نہی میں ، اے یہ بات نہ کرنا ، استفہام کی جگہ پر اے بتاؤ۔ قسم میں اے تمہاری جان کی قسم ، عرض کے لئے اے یہاں نہیں آتے کہ باتیں کریں۔ ترجیح میں اے شاید وہ آیا۔ لوم کے لئے اے لعنت ہے۔ تخضیض کے لئے اے تو بھی جواب نہیں دیتا۔ وجہ یہ ہے کہ اے حرفِ ندا ہے اور ندا انشا ہے ، اس سبب سے اس کا استعمال انشا ہی میں ہوتا ہے ، اس صورت سے کہ منادی محذوف ہو۔ اگر جملہ خبریہ میں حرفِ ندا واقع ہو تو منادی کا ذکر ضرور ہے کہ وہ منادی سے مل کر جملہ انشائیہ ہو جائے اور جملہ خبریہ کا جزو نہ واقع ہو۔
تو ہوا جلوہ گر مبارک ہو
ریزش سجدۂ جبین نیاز
تو آیا اب میرا سجدہ کرنا تجھے مبارک ہوا۔
مجھ کو پوچھا تو کچھ غضب نہ ہوا
میں غریب اور تو غریب نواز
اس شعر میں ’کچھ غضب نہ ہوا ، کثیرالمعنی ہے ، اگر اس جملہ کے بدلے یوں کہتے کہ ’مہربانی کی ، تو لفظ و معنی میں مساوات ہوتی ایجاز نہ ہوتا اور اگر اس کے بدلے یوں کہتے کہ ’ میرا خیال کیا ، تو مصرع میں اطناب ہوتا لطف ایجاز نہ ہوتا یعنی اس مصرع میں مجھ کو پوچھا تو کچھ غضب نہ ہوا۔ معنی زائد پر دلالت کرتا ہے اس جملہ کے تو فقط یہی معنی ہیں کہ کوئی بے جا بات نہ ہوئی ، لیکن معنی زائد اس سے یہ بھی سمجھ میں آتے ہیں کہ معشوق اس سے بات کرنا امر بے جا سمجھے ہوئے تھا یا اپنے خلاف شان جانتا تھا اور اس کے علاوہ یہ معنی بھی پیدا ہوتے ہیں کہ اس کے دل میں معشوق کی بے اعتنائی و تغافل کے شکوے بھرے ہوئے ہیں مگر اُس کے ذرا بات کر لینے سے اس کو اب اُمید التفات پیدا ہو گئی ہے اور ان شکوؤں کو اس خیال سے ظاہر نہیں کرتا کہ کہیں خفا نہ ہو جائے ، اس آخری معنی پر فقط لفظ غضب نے دلالت کی اس لفظ سے بوئے شکایت آتی ہے اور اس کے دل کے پرشکوہ ہونے کا حال کھلتا ہے بخلاف اس کے اگر یوں کہتے کہ مجھ کو پوچھا تو مہربانی کی۔ تو یہ جتنے معنی زائد بیان ہوئے ، ان میں سے کچھ بھی نہیں ظاہر ہوتے ’ فقط ، مہربانی کی ، میں جو معنی ہیں وہ البتہ نئے ہیں جیسے کہ وہ لفظ نئے ہیں اور اگر یوں کہا ہوتا کہ مجھ کو پوچھا میرا خیال کیا تو نہ تو کچھ معنی زائد ظاہر تھے نہ کوئی اور نئے معنی بڑھ گئے تھے یعنی ’میرا خیال کیا ، کے وہی معنی ہیں جو ’ مجھ کو پوچھا ، کے معنی ہیں۔ یا دونوں جملے قریب المعنی ہیں۔ غرض کہ ’ میرا خیال کیا ، لفظ نئے ہیں اور معنی نئے نہیں۔ اس کے علاوہ دونوں مصرعوں میں شرط و جزا مل کر ایک ہی جملہ ہوتا ہے اور اس مصرع میں دو جملے ہیں اس سے ظاہر ہوا کہ اس مصرع میں کثیراللفظ و قلیل المعنی ہونے کے سبب سے اطناب ہے اور مصنف کے مصرع میں قلیل اللفظ اور کثیرالمعنی ہونے کے سبب سے ایجاز ہے اور جو مصرع باقی رہا ، اس میں لفظ و معنی میں مساوات ہے اس جگہ یہ نکتہ بیان کر دینا بھی ضرور ہے کہ یہ شعر مصنف کا
مجھ کو پوچھا تو کچھ غضب نہ ہوا
میں غریب اور تو غریب نواز
مقام فہمائش میں ہے اور یہ دونوں شعر
مجھ کو پوچھا تو مہربانی کی
میں غریب اور تو غریب نواز
مجھ کو پوچھا مرا خیال کیا
میں غریب اور تو غریب نواز
مقام شکر میں ہیں یعنی اُس شعر میں معشوق کا فہمائش کرنا مقصود ہے اور ان دونوں شعروں میں اُس کا ادائے شکر مقصود ہے غرض کہ اُس کی غایت ہی اور ہے اور اُن کی غایت ہی اور ہے اور جب مقام میں اختلاف ہوا تو مقتضائے مقام بھی الگ الگ ہو گیا لیکن ان دونوں شعروں میں غایت ایک ہی ہے اور دونوں شعر مقام شکر میں ہیں اور مقام شکر کا مقتضی یہ ہے کہ ادائے شکر کرتے وقت احسان کو طول دے کر بیان کرنا حسن رکھتا ہے اور اسی سبب سے جس مصرع میں اطناب ہے وہ مقتضائے مقام سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے ، بہ نسبت اُس مصرع کے جس میں مساوات ہے یعنی اس مقام میں اطناب والا مصرع بلیغ ہے اور مساوات والا غیربلیغ ، ان دونوں شعروں کے مقابلہ سے غرض یہ ہے کہ مقام اطناب میں مساوات ہونا حسن کلام کو گھٹادیتا ہے۔
اسد اللہ خاں تمام ہوا
اے دریغا وہ رندِ شاہد باز
حرف ندا کو لانا اور منادی کو محذوف کر دینا محاورہ ہے جیسا آگے بہ تفصیل بیان ہوا لیکن اہل نحو ایسے مقام پر دریغ کو منادی کا قائم مقام سمجھتے ہیں۔
_______
مثردہ اے ذوقِ اسیری کہ نظر آتا ہے
دام خالی قفس مرغِ گرفتار کے پاس
شکار کرنے کا یہ طریقہ مشہور ہے کہ جال لگا کر ایک طائر کا پنجرہ وہاں رکھ دیتے ہیں کہ اُسے دیکھ کر اور اُس کی آواز پر طیور وحشی وہاں اُتریں۔
جگر تشنۂ آزار تسلی نہ ہوا
جوئے خوں ہم نے بہائی بن ہر خار کے پاس
یعنی میرا جگر جو تشنۂ آزار ہے اور آبلہ پائی و صحرا نوردی سے اُسے لطف ملتا ہے ، اب بھی اُسے تسلی نہ ہوئی ، ایک ایک کانٹے کے پاس میرے تلووں سے لہو کی ندیاں بہہ گئیں ، لیکن ایذا اُٹھانے سے اُس کا جی نہ بھرا ، جگر تسلی نہ ہوا خلافِ محاورہ ہے۔
مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں ہے ہے
خوب وقت آئے تم اُس عاشق بیمار کے پاس
کھولتے ہی کھولتے حالتِ انتظار کا بیان ہے ، اسی مضمون کا ایک شعر گذر چکاہے :
مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں غالبؔ
یار لائے مرے بالیں پہ اُسے پر کس وقت
میں ہی رُک رُک کے نہ مرتا جو زباں کے بدلے
دشنہ اک تیز سا ہوتا مرے غمخوار کے پاس
یعنی شماتت و ملامت و فہمائش سے یہ بہتر تھا کہ ایک چھری ماردی ہوتی۔
دہن شیر میں جا بیٹھئے لیکن اے دل
نہ کھڑے ہو جیئے خوبان دل آزار کے پاس
بیٹھنا اور کھڑے ہونا مقابلہ کا لطف رکھتا ہے۔
دیکھ کر تجھ کو چمن بسکہ نمو کرتا ہے
خودبخود پہنچے ہے گل گوشۂ دستار کے پاس
نمو کا باعث جوش شوق ہے ، اس کا ذکر مصنف نے اس سبب سے ترک کیا کہ قرینہ اُس پر موجود ہے ، یعنی معشوق کو دیکھنا ایسی بات نہیں کہ کوئی اُسے دیکھے اور دیکھ کر ولولۂ شوق نہ پیدا ہو۔
مرگیا پھوڑ کے سر غالبؔ وحشی ہے ہے
بیٹھنا اُس کا وہ آ کر تری دیوار کے پاس
اوپر یہ بیان گذر چکاہے کہ خبر سے زیادہ تر انشا میں لطف ہے یعنی انشا واقع فی القلب ہے ، اسی سبب سے جو شاعر مشاق ہے وہ خبر کو بھی انشا بنالیتا ہے۔ اس شعر میں مصنف نے خبر کے پہلو کو ترک کر کے شعر کو نہایت بلیغ کر دیا یعنی دوسرا مصرع اگر یوں ہوتا ’ بیٹھا کرتا تھا جو آ کر تری دیوار کے پاس ، یا اس طرح ہوتا ’ ابھی بیٹھا تھا جو آ کر تری دیوار کے پاس ، تو یہ دونوں صورتیں خبر کی تھیں اور ہے ہے بیٹھنا اُس کا وہ آ کر تری دیوار کے پاس جملہ انشائیہ ہے اور ’ وہ ، کا اشارہ اس مصرع میں اور ہی ایک خوبی ہے جو اُن دونوں میں نہیں ہے۔
اس شعر میں وہ کا لفظ ان معنوں کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ معشوق جس کی طرف خطاب ہے ، اس واقعہ سے ناواقف نہیں ہے جبھی تو یہ اُسے یاد دلاتا ہے اور آ کر کا لفظ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس وحشی کا یہ دستور تھا کہ جن جن وقتوں اُسے معشوق کی صورت دیکھنے کی یا آواز سن لینے کی اُمید ہوتی تھی اُن اوقات میں روز وہ آ کر بیٹھا کرتا تھا اگر ’آ کر ، اس مصرع میں نہ ہوتا تو یہ مطلب نکلتا کہ فقط اُس کے بیٹھے رہنے کو یاد دلاتا ہے اور شعر کا حسن کم ہو جاتا ، اس لئے کہ آ کر بیٹھنا ایک ادا اور ایک حرکت ہے اور بیٹھے رہنا سکون و طمانیت ہے اور دونوں کا فرق ظاہر ہے۔
_______
نہ لیوے گر خس جوہر طراوت سبزۂ خط سے
لگادے خانۂ آئینہ میں روئے نگار آتش
آئینہ میں عکس پڑنا اور آگ لگ جانا ان دونوں میں وجہ شبہ حرکت ہے اور نہایت بدیع ہے یہ تشبیہ اس سبب سے کہ وجہ شبہ بہت ہی لطیف ہے ، مطلب یہ کہ جوہر آئینہ کو معشوق کے سبزۂ خط سے طراوت پہنچ جاتی ہے نہیں تو شعلۂ رخسار کے عکس نے خانہ آئینہ میں آگ لگادی ہوتی۔
فروغِ حسن سے ہوتی ہے حل مشکل عاشق
نہ نکلے شمع کے پا سے نکالے گر نہ خار آتش
شمع کے ڈورے کو خار شمع کہتے ہیں اور اس خار کا نکالنے والا شعلۂ شمع ہے اور لفظ حل کو بتانیث باندھا ہے ، شاید مشکل کے ہم سایہ میں ہونے سے دھوکا کھایا ورنہ محاورہ یہ ہے کہ میں نے اس کتاب کو حل کیا۔
جادۂ رہ خور کو وقتِ شام ہے تارِ شعاع
چرخ وا کرتا ہے ماہِ نو سے آغوشِ وداع
یعنی آفتاب فلک پر سے سفر کرتا ہے اور فلک نے آغوش ہلال کو کھولا ہے ، اُس کے وداع کرنے کو اور جس لیک پر وہ چل رہا ہے وہ تارِ شعاع یعنی غروب کے بعد جو خطِ ابیض اُفق سے بلند دکھائی دیتا ہے وہی اُس کی لیک ہے ، یعنی آفتاب کے طلوع سے ذرا پہلے اور غروب کے بعد دو خطِ ابیض اُفق میں نمایاں ہوتے ہیں ، اہل رصد انھیں قرنی الشمس کہتے ہیں ، انھیں دو میں سے ایک کو مصنف نے جادۂ راہ کہا ہے لیکن اس مضمون میں کچھ غزلیت نہیں ہے قصیدہ کا مطلع تو ہو سکتا ہے۔
رُخِ نگار سے ہے سوزِ جاودانیٔشمع
ہوئی ہے آتش گل آبِ زندگانیٔشمع
اسے ادعائے شاعرانہ کہتے ہیں کہ پہلے یہ ٹھہرا لیا کہ شمع رُخ معشوق کو دیکھ کر جل رہی ہے ، پھر اسی بنا پر یہ مضمون پیدا کیا کہ آتش گل جو کہ چہرۂ معشوق ہے وہ شمع کے لئے آب حیات ہے اور اس سبب سے کہ محاورہ میں بجھی ہوئی شمع کو شمع کشتہ کہتے ہیں ، جلتی ہوئی شمع کو شعراء زندہ فرض کرتے ہیں۔
زبانِ اہل زباں میں ہے مرگِ خاموشی
یہ بات بزم میں روشن ہوئی زبانی شمع
شمع جو شعلہ کے اعتبار سے اہل زبان ہے جب خاموش ہو جاتی ہے تو اُسے شمع کشتہ مردہ کہتے ہیں تو اس سے یہ بات روشن ہوئی کہ جو اہل زبان ہو ، اُس کا خاموش رہنا گویا کہ مرگ ہے جو اس شعر میں زبان و اہل و مرگ و خاموشی و بزم و روشن زبانی یہ سب شمع کے ضلع کی لفظیں ہیں مگر بہت بے تکلف صرف ہوئیں۔
کرے ہے صرف بایمائے شعلہ قصہ تمام
بطرزِ اہل فنا ہے فسانہ خوانی شمع
شمع صرف شعلہ کے اشارے سے سارا قصہ تمام کرتی ہے یعنی شعلہ سے لو لگا کر سر سے پاؤں تک فنا ہو جاتی ہے ، جس طرح صوفیان اہل فنا شعلہ عشق سے لو لگا کر فنا فی الذات ہو جاتے ہیں اور اپنی ہستی سے گذر جاتے ہیں۔
غم اس کو حسرتِ پروانہ کاہے اے شعلہ
ترے لرزنے سے ظاہر ہے ناتوانی شمع
یعنی پروانے کے غم نے اسے ناتواں کر دیا ہے یہی وجہ ہے شعلہ کے تھرتھرانے کی شعلہ کی طرف خطاب کرنا یہاں بے لطفی سے خالی نہیں۔
ترے خیال سے روح اہتراز کرتی ہے
بجلوہ ریزی بادو بہ پرفشانی شمع
دوسرے مصرع میں ’ بہ ، دونوں جگہ قسم کے لئے ہے اس شعر میں مصنف نے تشبیہ کو بہ تفنن عبارت ادا کیا ہے یعنی یہ نہیں کہا کہ جس طرح ہوا سے پرفشانی شمع ہوتی ہے بلکہ مشبہ بہ کی قسم کھائی یعنی قسم ہے ، ہوا کے آنے اور شمع کے جھلملانے کی کہ ترے خیال سے روح پھڑکنے لگتی ہے اور اگر ’ بہ ، کو تشبیہ لیں تو یہ لطف نہیں رہتا اور اگر ’بہ ، کو معنی تشبیہ کے لے لیں تو بھی وہی معنی اول پیدا ہوتے ہیں۔
نشاطِ داغِ غم عشق کی بہار نہ پوچھ
شگفتگی ہے شہیدِ گل خزانیِ شمع
مطلب یہ ہے کہ جس طرح شگوفہ شعلہ بہار شمع کو خزاں کر دیتا ہے ، اسی طرح داغ عشق عاشق کا کام تمام کر دیتا ہے لیکن اس داغ میں عجب بہار ہے اور اس گل خزانی پر آشفتگی نثار ہے۔
جلے ہے دیکھ کے بالین یار پر مجھ کو
نہ کیوں ہو دل پہ مرے داغِ بدگمانی شمع
شمع کی طرف یہ بدگمانی ہے کہ مجھے بالین یار پر دیکھ کر مارے رشک کے جلی جاتی ہے ، یعنی اس جگہ کو وہ اپنے لئے خاص سمجھتی ہے۔
_______
بیم رقیب سے نہیں کرتے وداع ہوش
مجبوریاں تلک ہوئے اے اختیار حیف
ڈر کی وجہ یہ ہے کہ رقیب بے ہوش دیکھ کر رازِ عشق سے واقف ہو جائے گا اور یہ انتہا کی مجبوری ہے کہ اپنے ہوش پر بھی اختیار نہیں۔ اس میں بھی رقیب کا ڈر پڑا ہے لفظ ’ تلک ، کو آج کل کے شعراء نے اتفاق کر کے ترک کر دیا ہے اور اس کو غیرفصیح سمجھتے ہیں ، تلک کی جگہ ’تک ، کہتے ہیں ، لیکن ہر زبان میں معیار فصاحت محاورہ ہے اور محاورہ میں تلک اور تک دونوں موجود ہیں پھر اس کے ترک کرنے کی کوئی وجہ نہیں بلکہ ایک وجہ سے تلک بہ نسبت تک کے افصح ہے ، وہ یہ ہے کہ جن اہل تحقیق نے حروف کے مخارج و صفات پر نظر کی ہے ، انھوں نے چھ حرف ایسے پائے ہیں کہ جس کلمہ میں ان میں کا کوئی حرف ہو ، اُس کلمہ کو سلیس و فصیح سمجھتے ہیں ، ان حرفوں کا مجموعہ ’ مربتقیل ، مشہور ہے غرض یہ کہ تلک میں مربتقیل کا لام ہے اور تک میں اس کا کوئی حرف نہیں۔
جلتا ہے دل کہ کیوں نہ ہم اِ ک بار جل گئے
اے ناتمامی نفس شعلہ بار حیف
یعنی اس بات کے خیال سے دل جلتا ہے کہ ہر سانس اشتعالِ حرارت پیدا کرتی ہے ، لیکن ناتمام یہ کیوں نہیں ہوتا کہ ایک ہی بار جل جائیں۔ اس مسئلہ طب کو مصنف نے کتنی ہی جگہ نظم کیا ہے
_______
زخم پر چھڑکیں کہاں طفلانِ بے پروا نمک
کیا مزا ہوتا اگر پتھر میں بھی ہوتا نمک
جو لڑکے کہ دیوانہ کو پتھر مار رہے ہیں ، انھیں زخموں پر نمک چھڑکنے کا کہاں دماغ ، اگر یہ پتھر نمک کے ڈھیلے ہوتے تو بڑا مزا تھا کہ زخم بھی لگتا اور نمک بھی چھڑک جاتا۔
گردِ راہِ یار ہے سامانِ نازِ زخم دل
ورنہ ہوتا ہے جہاں میں کس قدر پیدا نمک
کہتے ہیں نمک کا زخم میں ہونا کچھ ایسا باعث نہیں ہے ، میرے زخم کو بڑا ناز اس بات پر ہے کہ اس میں گرد راہ یار بھری ہوئی ہے ورنہ نمک کی کیا کمی ہے ، دوسرا پہلو یہ ہے کہ کس قدر کے معنی یہ لیں کہ نمک اتنا کہاں دُنیا میں ممکن ہے جس پر میرا زخم جگر ناز کرے۔
مجھ کو ارزانی ہے تجھ کو مبارک ہو جیو
نالۂ بلبل کا درد اور خندۂ گل کا نمک
یعنی مجھے نالۂ بلبل کا درد ارزانی ہے اور تجھے خندۂ گل کا نمک مبارک ہو ، اس شعر میں ہو جیو بہت مکروہ لفظ ہے اور متروک ہے۔
شورِ جولاں تھا کنارِ بحر پر کس کا کہ آج
گردِ ساحل ہے بزخم موجۂِ دریا نمک
دریا کے کنارے معشوق کے گھوڑے کو جولان کرنا ایسا پرشور تھا کہ گرد ساحل کو نمک بنادیا زور و شور دریا کے صفات میں سے ہے ، یہ صفت اُن کے جولان میں دیکھ کر موج کے زخم میں نمک لگنے لگا یعنی رشک سے۔
داد دیتا ہے مرے زخم جگر کی واہ واہ
یاد کرتا ہے مجھے دیکھے ہے وہ جس جا نمک
معشوق کی شوخی کا بیان ہے کہ وہ زخموں میں نمک چھڑکتا ہے اور جہاں نمک دیکھتا ہے وہ مجھے یاد کرتا ہے یعنی بلا کر میرے زخموں میں نمک چھڑکتا ہے۔
چھوڑکر جانا تن مجروح عاشق حیف ہے
دل طلب کرتا ہے زخم اور مانگے ہیں اعضا نمک
یعنی اعضاء مجروح ہو چکے ہیں وہ نمک مانگ رہے ہیں اور دل پر بھی زخم نہیں لگا ہے ، یعنی وہ زخم چاہتا ہے ، ایسے وقت میں تو کہاں چھوڑ کے جاتا ہے۔
غیر کی منت نہ کھینچونگا پئے توقیر درد
زخم مثل خندۂ قاتل ہے سرتاپا نمک
خندۂ زخم مشہور استعارہ ہے یہاں مصنف نے یہ جدت کی کہ خندۂ معشوق سے اُسے تشبیہ دی اور وجہ شبہ اُس کے نمکین ہونے کو قرار دیا ہے اور جس زخم میں نمک ہو ، اُس کے درد کا کیا مذکور۔
یاد ہیں غالبؔ تجھے وہ دن کہ وجدِ ذوق میں
زخم سے گرتا تو میں پلکوں سے چنتا تھا نمک
یہ بات مشہور ہے کہ نمک زمین پر گرئے تو پلکوں سے اُٹھانا چاہئے ، اس شعر میں ’ میں ، کہ جگہ ’تو ، زیادہ مناسب ہے ، اس سبب سے کہ جب یہ کہتے ہیں کہ تمہیں وہ بات یاد ہے تو وہ بات اکثر ایسی ہوتی ہے جو مخاطب پر گذری ہوئی ہو ، اپنی گذری ہوئی کوئی دوسرے کو یاد نہیں دلاتا یا ’ تجھے ، کی جگہ ’ مجھے ، ہو گا کاتب نے غلطی سے ’ تجھے ، لکھ دیا لیکن پہلی صورت اس سے بہتر ہے۔
_______
آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
یہ محاورہ ہے کہ ہم اس بات کے سر ہو گئے ، یعنی سمجھ گئے ، یعنی جب تک تری زلف میرے حال سے باخبر ہو میرا کام تمام ہو جائے گا۔
دام ہر موج میں ہے حلقہ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گذرے ہے قطرہ پہ گہر ہونے تک
یہ شعر ایک تمثیل ہے کہ عالم میں ہر وقت طوفان حوادث برپا ہے کہ کسی مطلب میں وہ کامیاب ہوتے ہوتے نہ جانے کیا گذر جائے ، یہاں ہر موج دام اور حلقۂ دام و بان نہنگ ہے۔
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک
یعنی عشق کے معاملات ایسے ہیں کہ جلدی میں کام نہیں نکل سکتا اور آرزو بے تاب ہے اور جلدی کر رہی ہے غرض کہ جب تک جگر لہو اور کام تمام ہو جائے دل کا سنبھالنا بہت مشکل ہے۔
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کروگے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
مطلب یہ ہے کہ جب تمہیں خبر ہو گی تو خبر لوگے ، لیکن خبر ہوتے ہوتے یہاں کام تمام ہے۔
پرتو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تک
یعنی میری ہستی مثل شبنم کے ہے اور تیری نظر پر تو خورشید ہے تیری ایک ہی نظر میں مجھے ثبات و قیام نہیں رہ سکتا ، جس طرح آفتاب کے سامنے شبنم فنا ہو جاتی ہے۔
یک نظر بیش نہیں فرصت ہستی غافل
گرمیٔبزم ہے اک رقص شرر ہونے تک
مطلب یہ ہے کہ دُنیا کو ایک نظر دیکھ لینے سے زیادہ تیرا قیام نہیں ہے ، جس طرح شررِ محفل ایک نظر دیکھ لینے سے زیادہ قائم نہیں رہ سکتا۔
غم ہستی کا اسد ؔکس سے ہو جز مرگِ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
یعنی محفل میں کیسا ہی رنگ و نشاط ہو مگر شمع کے جلنے کا اُس سے کچھ علاج نہیں ہو سکتا ، اس کا بجھنا ہی ’ مردن ، اُس کے جلنے کا علاج ہے۔
_______
گر تجھ کو ہے یقین اجابت دُعا نہ مانگ
یعنی بغیر یک دل بے مدعا نہ مانگ
یعنی جب کوئی مدعا ہی نہ ہو تو دُعا مانگنے کی ضرورت ہی نہ ہو گی۔
آتا ہے داغِ حسرتِ دل کا شمار یاد
مجھ سے مرے گنہ کا حساب اے خدا نہ مانگ
داغ اور گنہ دونوں یہاں اسم جنس ہیں اور اس وجہ سے جمع کے حکم میں ہیں ، مطلب یہ ہے کہ ہر ایک گنہ کا باعث کوئی نہ کوئی حسرت و شوق ہے تو گناہ کے ذکر سے وہ حسرتیں یاد آتی ہیں اور صدمہ ہوتا ہے کہ جنس گناہ کثرتِ داغ کے مثل ہے۔
_______
ہے کس قدر ہلاکِ فریبِ وفائے گل
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
یعنی بلبل اس دھوکے میں مری جاتی ہے کہ رنگ محمل میں وفا و ثبات ہے ، اس کی اس نافہمی پر پھول ہنس رہے ہیں ، یہ مصرع بعینہٖ پہلے ایک جگہ گذر چکاہے
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا
آزادیٔ نسیم مبارک کہ ہر طرف
ٹوٹے پڑے ہیں حلقۂ دام ہوائے گل
ہوائے گل بمعنی گل شوق گل ہے ، گل شگفتہ کو حلقہ شکستہ دام سے تشبیہ دی ہے اور نسیم سے خوشبو مراد ہے جو گل کے حلقہ دام شوق کو توڑکر آزاد ہو جاتی ہے ، یعنی بوئے گل آزادی مبارک ہو کہ سب پھول شگفتہ ہو گئے۔
جو تھا سو موج رنگ کے دھوکے میں مرگیا
اے وائے نالۂ لبِ خونیں نوائے گل
مرجانے سے انتہائی فریفتگی مقصود ہے ، یعنی گل کے نوائے خونیں و نالۂ خونچکاں کو لوگ موج رنگ سمجھ کر مفتوں ہورہے ہیں۔
خوش حال اُس حریفِ سیہ مست کا کہ جو
رکھتا ہے مثل سایۂ گل سر بہ پائے گل
یعنی وہ مے نوش سیہ مست جو معشوق کے پاؤں پر سر رکھے ہوئے عرض تمنا کر رہا ہو ، اس کا کیا کہنا معشوق کو گل سے اور عاشق سیہ مست کو سایۂ شاخِ گل سے تشبیہ دی ہے۔
ایجاد کرتی ہے اُسے تیرے لئے بہار
میرا رقیب ہے نفس عطر سائے گل
’ تیرے لئے ، یعنی پھول تیرے گلے کا ہار ہوں اور تجھ سے ہم بستر ہوں۔
شرمندہ رکھتے ہیں مجھے بادِ بہار سے
مینائے بے شراب و دل بے ہوائے گل
یہ شعر ایک سوال مقدر کا جواب ہے ، یعنی میرا شراب پینا اور باغوں کی سیر کرنا لوگ برا سمجھتے ہیں ، مگر ایسا نہ کروں تو مجھے بادِ بہار سے شرمندگی ہوتی ہے۔
سطوت سے تیرے جلوۂ حسن غیور کی
خوں ہے مری نگاہ میں رنگِ ادائے گل
یعنی غیور ہونے کے سبب سے تو نہیں چاہتا کہ کسی اور کی ادا عاشق کو اچھی معلوم ہو ، اسی سبب سے رنگِ گل میری نگاہ میں خون ہے ، یعنی اچھا نہیں معلوم ہوتا۔
تیرئے ہی جلوئے کاہے یہ دھوکا کہ آج تک
بے اختیار دوڑے ہے گل درقفائے گل
یعنی ایک پھول کو شگفتہ دیکھ کر دوسرا پھول جو نکل آتا ہے تو اسے یہ دھوکا ہوتا ہے کہ تو جلوہ گر ہوا ہے
غالبؔ مجھے ہے اس سے ہم آغوشی آرزو
جس کا خیال ہے گل جیبِ قبائے گل
یعنی جس شاہد حقیقی کے خیال کو گل نے اپنا زینتِ گریباں بنایا ہے ، میں اس سے ہم آغوش ہونا چاہتا ہوں۔
_______
غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس
برق سے کرتے ہیں روشن شمع ماتم خانہ ہم
یعنی ہمارے ماتم خانہ میں شمع اگر ہے تو برق ہے جب دم بھر سے زیادہ ہم غم نہیں کرتے تو روشنی بھی دم بھر سے زیادہ ہونے کی ضرورت نہیں۔
محفلیں برہم کرے ہے گنجفہ بازِ خیال
ہیں ورق گردانی نیرنگِ یک بت خانہ ہم
خیال کا محفلوں کو برہم کرنا یعنی جو محفلیں برہم ہو گئی ہیں ، ان کی برہمی کو یاد دلانا حاصل یہ کہ ہمارے خیال میں حسینوں کی محفلیں جو برہم ہو گئی ہیں ، ہر وقت رہا کرتی ہیں ، ہم گویا کہ ورق گردانی نیرنگ بت خانہ ہیں ، اس شعر میں گنجفہ کی ورق گردانی سے محفل نشاط کی برہمی کو تشبیہ دی ہے اور تازہ تشبیہ ہے۔
باوجود یک جہاں ہنگامہ پیدائی نہیں
ہیں چراغاں شبستانِ دلِ پروانہ ہم
کہتے ہیں کہ پروانہ کے دل میں جس چراغ کے شوق نے روشن ہوکر اس قدر ہنگامہ آرائی کی ہے وہ ایسا چھپا ہوا ہے کہ اس کے لئے پیدائی و ظہور کچھ بھی نہیں ہے ، یہی حال ہماری ہستی کاہے کہ ہنگامہ سب کچھ ہے مگر ہستی کا کہیں پتہ نہیں ، یعنی ہستی حقیقت میں اگر ہے تو ایک ہی ہے۔
ضعف سے ہے نے قناعت سے یہ ترکِ جستجو
ہیں وبالِ تکیہ گاہِ ہمت مردانہ ہم
یعنی ہمت مردانہ کو قناعت پر تکیہ ہے اور قناعت کو سبب ہونا چاہئے ، ترکِ دُنیا کا نہ یہ کہ ترکِ دُنیا تو ہے مگر بسببِ ضعف و ہمت کے ہے اور یہی ضعف ترکِ جستجو کا سبب ہے تو ایسا ترکِ جستجو ہمتِ مردانہ کے لئے وبال ہے۔
دایم الحبس اس میں ہیں لاکھوں تمنائیں اسدؔ
جانتے ہیں سینۂ پرخوں کو زنداں خانہ ہم
جو حسرتیں کہ کبھی نکلنے ہی کی نہیں انھیں اسیر دام الحبس سے تعبیر کیا ہے۔
_______۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بہ نالہ حاصل دل بستگی فراہم کر
متاعِ خانۂ زنجیر جزِ صدا معلوم
دل بستگی و تعلق خاطر کو زنجیر سے تعبیر کیا ہے ، کہتے ہیں کہ اگر تجھے دل بستگی ہے تو نالہ کشی بھی اختیار کر کہ خانۂ زنجیر میں جو مال و دولت ہے ، وہ فقط صدائے شیون ہے ، تعلقات دُنیا کی مذمت مقصود ہے۔
_______
مجھ کو دیارِ غیر میں مارا وطن سے دُور
رکھ لی مرے خدا نے مری بیکسی کی شرم
یعنی اگر وطن میں مرتا تو بیکسی پر کیوں کر افتخار کرتا ، یعنی یہ امر بیکسی کے لئے ننگ کا باعث ہوتا۔
وہ حلقہائے زلف مکیں میں ہیں اے خدا
رکھ لیجو میرے دعویٔ وارستگی کی شرم
یعنی اگر اسیر زلف ہو گیا تو یہ آزادگی و وارستگی کا دعویٰ باقی نہ رہے گا۔
لوں دام بخت خفتہ سے یک خوابِ خوش ولے
غالب ؔیہ خوف ہے کہ کہاں سے ادا کروں
تقدیر سورہی ہے اور میں بے خواب ہوں ، اگر اپنے مقدر سے ایک خواب خوش قرض لوں تو لے سکتا ہوں ، لیکن یہ قرض کہاں سے ادا کروں گا میں تو دولتِ خواب سے محروم ہوں۔
_______
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں
اگلے زمانہ کو شاعر یاد کرتا ہے ، فراق بری چیز ہے ، لیکن اب وہ بھی یاد آتا ہے کہ وہ دل اور وہ شوق باقی نہیں رہا ، جس کے سبب سے فراق کو فراق اور وصال کو وصال سمجھتے تھے ، یہ ساری غزل ایک ہی مضمون میں ہے۔
فرصت کاروبارِ شوق کسے
ذوقِ نظارۂ جمال کہاں
دل تو دل وہ دماغ بھی نہ رہا
شورِ سودائے خط و خال کہاں
تھی وہ اک شخص کے تصور سے
اب وہ رعنائی خیال کہاں
یہاں ’ اک شخص ، کا لفظ بہت بلیغ ہے ، اگر اس کے بدلے ’اک شوخ ، کہا ہوتا تو معشوق کی تعریف نکلتی اور اُس سے یہ ظاہر ہوتا کہ ابھی تک ذوق و شوق باقی ہے جو معشوق کو ایسی لفظ سے تعبیر کیا ہے اور یہ مقتضائے مقام کے خلاف ہوتا ہے۔
ایسا آساں نہیں لہو رونا
دل میں طاقت جگر میں حال کہاں
یعنی مصائب عشق کی انتہا ہو گئی اور سب خونِ دل و جگر صرف ہو چکا۔
ہم سے چھوٹا قمار خانۂ عشق
واں جو جاویں گرہ میں مال کہاں
یعنی اب نہ نقد دل ہے نہ اشرفی داغ ہے اور نہ دولتِ صبر ہے داؤ کس مال پر لگائیں اور جوا کس برتے پر کھیلیں۔
فکر دُنیا میں سر کھپاتا ہوں
میں کہاں اور یہ وبال کہاں
یعنی ایک زمانہ وہ تھا کہ کبھی فکرِ دُنیا سے مجھے کچھ تعلق ہی نہ تھا۔
مضمحل ہو گئے قویٰ غالبؔ
وہ عناصر میں اعتدال کہاں
اعتدال عناصر سے شباب مراد ہے۔
_______
کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں
’ کی ، کا فاعل معشوق ہے۔
آج ہم اپنی پریشانیٔخاطر اُن سے
کہنے جاتے تو ہیں پر دیکھئے کیا کہتے ہیں
یعنی دیکھئے وہاں جا کر ہم کیا کہتے ہیں ، یا دیکھئے سن کر وہ کیا کہتے ہیں ، ان دونو ں صورتوں میں پہلی صورت کثیرالمعنی ہے ، اُس سے یہ معنی زائد ظاہر ہوتے ہیں کہ معشوق کے سامنے جا کر جو محویت و ازخود رفتگی پیدا ہو گی اُس میں کہوں گا کچھ اور منھ سے کچھ نکلے گا ، اس سبب سے کہ دل تو ابھی سے پریشان ہے۔
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انھیں کچھ نہ کہو
جو مے و نغمہ کو اندوہِ رُبا کہتے ہیں
اندوہِ ربا ہونے کے انکار سے یا تو اندوہِ فزا ہونا ان کا مقصود ہے ، یا مراد ہے کہ اندوہ ایسی چیز ہے کہ کسی طرح بہلائے نہیں بہلتا۔
دل میں آجائے ہے ہوتی ہے جو فرصت غش سے
اور پھر کون سے نالہ کو رسا کہتے ہیں
نالۂ رسا وہ کہ اثر تک جس کی رسائی ہو لیکن شاعر نے یہاں استفہام کر کے یہ بات ظاہر کی ہے کہ اس کے نالہ کو کبھی اثر تک رسائی نہیں ہوئی ، یہ جانتا ہی نہیں کہ نالۂ رسا اُسے کہتے ہیں جس کی پہنچ اثر تک ہو بلکہ یہ رسائی نالہ اسی کو سمجھتا ہے کہ غش سے چونکا اور دل میں نالہ آموجود ہوا۔
ہے پرے سرحدِ ادراک سے اپنا مسجود
قبلہ کو اہل نظر قبلہ نما کہتے ہیں
مصنف نے اس مسئلہ کو نظم کیا ہے کہ کعبہ کی طرف سجدہ کرنے سے کعبہ کو سجدہ کرنا نہیں مقصود ہے بلکہ جسے ہم سجدہ کرتے ہیں وہ جہات سے منزہ ہے اور سجدہ کے لئے جہت ضروری ہے اس سبب سے جہتِ کعبہ کو معین کر لیا ہے ، اگر کعبہ منہدم ہو جائے جب بھی ہم اُسی جہت میں سجدہ کریں گے کہ وہ سجدہ بمنزلہ قبلہ نما ہے۔
پائے افگار پہ جب سے تجھے رحم آیا ہے
خارِ رہ کو ترے ہم مہر گیا کہتے ہیں
ترے خار رہ سے وہ خار مراد ہے جو معشوق کی جستجو میں عاشق کے پاؤں میں گڑا ہے ، اس سے مہر گیا ، اس سبب سے کہا ہے کہ لطف و مہر معشوق کا باعث وہ ہوا نہ وہ تلووں کو زخمی کرتا نہ اُسے رحم آتا اور مہر گیا ، یعنی گیاہِ آفتاب اقسام گیاہ میں سے ایک قسم ہے۔
اک شرر دل میں ہے اس سے کوئی گھبرائے گا کیا
آگ مطلوب ہے ہم کو جو ہوا کہتے ہیں
یعنی یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ روحِ حیوانی جو کہ دل میں ہے اُس کی حرارت سے گھبرا کر انسان کو سانس لینے کی ضرورت ہوتی ہے ، بلکہ اصل یہ ہے کہ اور اس کا اشتعال مطلوب ہوتا ہے اور یہی باعث ہے کہ ہواستۂ ضروریہ میں داخل ہے تاکہ بار بار سانس لینے سے حرارتِ غریزی کا اشتعال ہوتا رہے۔ اس مضمون کو مصنف نے تو ایک قضیۂ شعریہ کی طرح نظم کر دیا ، لیکن دورانِ خون کا مسئلہ جب سے ثابت ہو ا اُس سے ظاہر ہو گیا کہ واقع میں ایسا ہی ہے کہ ہر سانس میں ہوا سے روحِ حیوانی کو اشتعال مطلوب ہے اور جو ہوا کہ نکلتی ہے یہ بعینہٖ ویسی ہی ہے ، جیسے ہوا کہ چراغ کی لو سے پیدا ہوتی ہے ، اس شعر سے مصنف کے فلسفیانہ مذاق کا اندازہ ہو سکتا ہے۔
دیکھئے لاتی ہے اُس شوخ کی نخوت کیا رنگ
اس کی ہر بات پہ ہم نامِ خدا کہتے ہیں
یعنی ہمارے اس فعل سے وہ جانتا ہے کہ میری ہر بات اچھی ہے اور اس کی نخوت اور بڑھتی جاتی ہے۔
وحشتؔو شیفتہؔ اب مرثیہ کہویں شاید
مرگیا غالبؔ آشفتہ نوا کہتے ہیں
مرنے کا مضمون بہت ہی پراثر ہے ، اسی سبب سے واعظ بھی اسی مضمون سے اپنے کلام کو رنگتے ہیں اور شاعر بھی اپنے لئے یہ فالِ بد گوارا کر لیتے ہیں ، شیفتہ صاحب تذکرۂ شعراء میں مشہور شخص ہیں۔
_______
آبرو کیا خاک اُس گل کی کہ گلشن میں نہیں
ہے گریباں ننگِ پیراہن جو دامن میں نہیں
گریبان دامن میں جبھی ہو گا جب چاک ہو جائے گا اور چاک ہوکر گل سے مشابہت پیدا کرے گا اور دامن کو صحن گلشن بنادے گا۔
ضعف سے اے گریہ کچھ باقی مرے تن میں نہیں
رنگ ہوکر اُڑگیا جو خوں کہ دامن میں نہیں
یعنی جو خون کہ آنسوؤں میں نہیں نکلا وہ رنگ بن کر اُڑگیا لفظ گریہ سے یہ مطلب نکلا کہ دامن میں جو خون ہے وہ اشکِ خونیں ہیں ، لیکن گریہ کی طرف خطاب کرنا نہایت تصنع ہے اور تکلف نامقبول ہے۔
ہو گئے ہیں جمع اجزائے نگاہِ آفتاب
ذرہ اُس کے گھر کی دیواروں کے روزن میں نہیں
یعنی آفتاب کو بھی اُسے جھانک کر دیکھنے کا شوق ہے۔
کیا کہوں تاریکیٔ زندانِ غم اندھیر ہے
پنبہ نورِ صبح سے کم جس کے روزن میں نہیں
جہاں تاریکی بہت ہو وہاں ذراسی روشنی بھی زیادہ معلوم ہوتی ہے اُس سے سمجھنا چاہئے کہ جس زنداں میں پنبۂ روزن پر سپیدۂ صبح کا گمان ہوتا ہے وہ کس قدر تاریک ہو گا۔
رونق ہستی ہے عشق خانہ ویراں ساز سے
انجمن بے شمع ہے گر برق خرمن میں نہیں
یعنی برق عشق اگر خرمن ہستی میں نہ ہو تو ہستیٔانجمن بے شمع کی طرح بے رونق ہے۔
زخم سلوانے سے مجھ پر چارہ جوئی کاہے طعن
غیر سمجھا ہے کہ لذت زخم سوزن میں نہیں
یعنی زخم میں ٹانکے دلوانا اس لئے نہیں ہے کہ اُس کا اچھا ہو جانا منظور ہو ، بلکہ زخم سوزن کی لذت اُٹھانا مقصود ہے ، مضمونِ شعر یہی ہے جو گذرا ، لیکن اس مضمون کو مصنف نے رقیب کی غلط فہمی پر تشنیع کر کے حسن میں دوچند کر دیا۔
بسکہ ہیں ہم اک بہارِ ناز کے مارے ہوئے
جلوۂ گل کے سواگرد اپنے مدفن میں نہیں
یعنی ایک بہارِ ناز کے تصور میں ہم مرگئے اور مدفن میں بھی اُسی تصور سے جلوۂ گل پیش نظر ہے۔
قطرہ قطرہ اک ہیولیٰ ہے نئے ناسور کا
خوں بھی ذوقِ درد سے فارغ مرے تن میں نہیں
یعنی لہو کا ہر قطرہ ناسور کی صورت پیدا کرنے والا ہے ، جس طرح ہیولیٰ سے ایک صورت معدوم ہوتی ہے اور دوسری طاری ہوتی ہے ، اسی طرح لہو کی ہر بوند سے قطرۂ خون کی صورت فنا ہوکر ناسور کی صورت پیدا ہو جائے گی اور جہاں جہاں بدن میں لہو کی کوئی چھینٹ ہے وہاں وہاں ناسور ہو جائے گا۔
لے گئی ساقی کی نخوت قلزم آشامی مری
موجِ مے کی آج رگِ مینا کی گردن میں نہیں
غرور کو رگِ گردن سے تعبیر کرتے ہیں اور اس تعبیر میں مجاز مرسل ہی کہتے ہیں کہ جب تک شیشے میں شراب تھی ساقی بہت اِ ترایا ہوا تھا ، مگر میری قلزم آشامی یعنی کثرت مے نوشی نے اس کی ساری نخوت مٹادی ، اب مینا کی رگِ گردن جاتی رہی یعنی کسی شیشہ میں موجِ شراب نہ رہی۔
ہو فشارِ ضعف میں کیا ناتوانی کی نمود؟
قد کے جھکنے کی بھی گنجائش مرے تن میں نہیں
مطلب یہ ہے کہ ضعف تو چاروں طرف سے پیسے ڈالتا ہے قد جھکے تو کیوں کر جھکے اور کدھر جھکے۔
تھی وطن میں شان کیا غالبؔ کہ ہو غربت میں قدر
بے تکلف ہوں وہ مشتِ خس کہ گلخن میں نہیں
ظاہر ہے کہ مشتِ خس اگر اپنے وطن میں ہے تو خارزار میں ہے اور اگر وطن سے باہر نکل کر کہیں قدم رکھا تو جاروب کشوں نے نکال باہر کیا ، وطن میں اذیت اور غربت میں ذلت کا سامنا ہے ، اس کے لئے فروغ اور شان اگر ہے تو گلخن میں ہے ، اس شعر میں مذاقِ تصوف ہے ، یعنی جس طرح ہر شئے آگ میں گرکر آگ ہو جاتی ہے ، اسی طرح عارف کو شاہدِ حقیقی کے ساتھ اتحاد حاصل ہو جاتا ہے اور نہیں تو ایک مشتِ خس ہے جس کا وطن عدم اور غربتِ امکان ہے اور امکان پر جس طرح عدم سابق ہے اسی طرح عدم لاحق بھی ہے کہ امکان وجود بین العدمین کا نام ہے جو ممکن عدم سے آیا ہے وہ عدم میں چلا بھی جائے گا ، بس حیاتِ ابدی اس میں ہے کہ واجب الوجود سے ملحق ہو جائے اور فنا فی الذات ہوکر ترانۂ انا ولاغیری بلند کرے لفظ بے تکلف اس شعر میں تکلف سے خالی نہیں۔
_______
عہدے سے مدحِ ناز کے باہر نہ آ سکا
گر اک ادا ہو تو اُسے اپنی قضا کہوں
صاف شعر ہے پہلے مصرع میں ’ میں ، محذوف ہے۔
حلقے ہیں چشم ہائے کشادہ بسوئے دل
ہر تارِ زلف کو نگہِ سرمہ سا کہوں
یعنی زلف کے حلقے گویا آنکھیں ہیں کہ دل کو گھور رہی ہیں اور جب حلقۂ زلف کو آنکھ کہا تو اُس آنکھ کے لئے نگاہ بھی ہونا چاہئے تو ہر ایک تارِ زلف کو مصنف نے نگاہِ سرمہ سا بنایا۔
میں اور صد ہزار نوائے جگر خراش
تو اور ایک وہ نہ شنیدن کہ کیا کہوں
اس شعر سے یہ دھوکا نہ کھانا چاہئے کہ غالب ؔ سا شخص اور اس طرح اُردو اور فارسی میں خلط کرے جسے ایک مبتدی سا مبتدی اور گنوارسا گنوار بھی صحیح نہیں سمجھتا۔ مقامِ طنز میں تفنن الفاظ اچھا معلوم ہوتا ہے ، یہ سمجھ کر مصنف نے یہاں نہ شنیدن کہا ہے ، لیکن یہ تاویل مستعبد ہے ، اس میں شک نہیں۔
ظالم مرے گماں سے مجھے منفعل نہ چاہ
ہے ہے خدا نہ کر دہ تجھے بے وفا کہوں
یعنی میرا گمان تو تجھے بے وفا کہتا ہے اور میں باوفا کہتا ہوں ، ایسا نہ کر کہ مجھے اپنے گمان سے منفعل ہونا پڑے ، مطلب یہ کہ بے وفائی نہ کر کہ خدانخواستہ مجھے بھی بے وفا کہنا پڑے۔
_______
مہرباں ہو کے بلالو مجھے چاہو جس وقت
میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آبھی نہ سکوں
ضعف میں طعنۂ اغیار کا شکوہ کیا ہے
بات کچھ سر تو نہیں ہے کہ اُٹھا بھی نہ سکوں
زہر ملتا ہی نہیں مجھ کو ستمگر ورنہ
کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں
ان تینوں شعروں میں یہ صنعت ہے کہ ایک فعل جو دو معنوں میں مشترک ہے ، اسے وجہ شبہ قرار دیا ہے ، لیکن خضر و سبزہ کی طرح یہاں محض اشتراکِ لفظی وجہ شبہ نہیں ہے ، اسی سبب سے یہ اشعار بہت بدیع ہیں مومن خاں بھی اس طرز پر بہت دوڑے ہیں اور ایک واسوخت میں کئی بند اسی طرح کے کہے ہیں آتش کا بھی ایک شعر اسی صنعت میں مشہور ہے :
ایسی وحشت نہیں دل کو کہ سنبھل جاؤں گا میں
صورتِ پیرہن تنگ نکل جاؤں گا میں
مجھے اپنا ایک شعر یاد آیا
راز ہی کیا گرہ زلف جو کھل جائے گا
کوئی مضمون ہیں جو بندھ جائیں گے بازو میرے
آخر کے مصرع میں غضب کا تنافر ہے ، تین کاف متحرک پے درپے جمع ہو گئے ہیں : ’کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں ،۔
_______
ہم سے کھل جاؤ بوقتِ مے پرستی ایک دن
ورنہ ہم چھیڑیں گے رکھ کر عذرِ مستی ایک دن
کھل جاؤ یعنی بے تکلف ہو جاؤ۔
غرۂ اوجِ بنائے عالم امکاں نہ ہو
اس بلندی کے نصیبوں میں ہے پستی ایک دن
اس شعر میں حسن ردیف یہ ہے کہ ایک دن سے قیامت کا دن مراد ہے۔
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
یعنی ایک دن مے فروشوں سے سر بازار تہتک ہو گا۔
نغمہ ہائے غم کو بھی اے دل غنیمت جانئے
بے صدا ہو جائے گا یہ سازِ ہستی ایک دن
’ بھی ، کے لفظ سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ ترانۂ شادی کی جس طرح خواہش ہے اسی طرح نغمہ غم کو بھی غنیمت سمجھنا چاہئے۔
دھول دھپا اُس سراپا ناز کا شیوہ نہیں
ہم ہی کر بیٹھے تھے غالب پیش دستی ایک دن
یعنی ہماری ہی گستاخی نے اسے بے باک کر دیا ، ’ ہم ہی ، اور ’ تم ہی ، کی جگہ ’ ہمیں ، اور ’تمہیں ، محاورہ ہے میرؔ کہتے ہیں کہ
آخر کو ہے خدا بھی تو اے میاں جہان میں
بندہ کے کام کچھ کیا موقوف ہیں تمہیں پر
زمین رنگین قافیہ ہے مصنف نے ضرورتِ شعر کے سبب سے ’ ہم ہی ، باندھ دیا ، نثر میں اس طرح کہنا ہرگز دُرست نہیں ، لیکن اس کے تتبع میں اکثر لوگ زبان کو خراب کر بیٹھے اور سنو محاورہ میں قیاس نہیں دُرست ، ورنہ ’ یہیں ، اور ’ وہیں ، کو بھی ’ یہاں ، اور ’ وہاں ، ہی کہا کرو۔
_______
ہم پر جفا سے ترکِ وفا کا گماں نہیں
اک چھیڑ ہے وگرنہ مرا امتحاں نہیں
یعنی ہم پر یہ گمان انھیں نہیں ہے کہ جفا کے سبب سے وفا کو ہم ترک کر دیں گے۔
کس منھ سے شکر کیجئے اُس لطفِ خاص کا
پرسش ہے اور پائے سخن درمیاں نہیں
معشوق کی ایک ادا کا بیان ہے کہ بات تو کرتا نہیں ہے مجھ سے لیکن میری خبر کا طالب رہا کرتا ہے اور ایک پہلو یہ بھی نکلتا ہے کہ مصنف نے یہ شعر حمد میں کہا ہے۔
ہم کو ستم عزیز ستمگر کو ہم عزیز
نامہرباں نہیں ہے اگر مہرباں نہیں
پہلے مصرع کا مطلب یہ ہے کہ میرا ستم سہنا اور اس کا ستم کرنا اس سبب سے ہے کہ وہ مجھ کو عزیز ہے ، میں اُس کو عزیز ہوں ، دوسری طرح سے یوں سمجھو کہ وہ مجھے عزیز ہے ، اس سبب سے اس کا ستم بھی عزیز ہے اور وہ مجھ پر ستم کرتا ہے جس کا کہ میں خواہاں ہوں تو میں بھی تو اُسے عزیز ہوں ، اب دوسرے مصرع سے اُس کو یہ ربط ہے کہ اُس کی نامہربانی یعنی ستم کرنا عین مہربانی ہے ، جس بات کا میں خواہاں ہوں وہی بات وہ کرتا ہے ، اگر مہربان نہیں ہے تو نامہربان نہیں اور نامہربان نہیں ہے اگر مہربان نہیں۔
بوسہ نہیں نہ دیجئے دشنام ہی سہی
آخر زباں تو رکھتے ہو تم گر دہاں نہیں
بوسہ سے دہن کا بوسہ مراد ہے اور جب معشوق کا دہن ہی نہیں ہوتا تو بوسہ کیوں کر لیں اور کیوں کر دیں ، لیکن گالیاں دینے کو زبان تو موجود ہے ، اُس میں کاہے کا عذر ہے۔
ہرچند جاں گدازی قہر و عتاب ہے
ہر چند پشت گرمیٔتاب و تواں نہیں
جاں مطربِ ترانۂ ہل من مزید ہے
لب پر وہ سنج زمزمۂ الاماں نہیں
ہر چند کہ اس کا قہر و عتاب جان کو گھلا رہا ہے ، ہر چند کہ تاب و تواں نے جواب دے دیا ہے ، لیکن اس پر بھی جان زار یہی کہہ رہی ہے کہ اور کوئی ظلم باقی رہ گیا ہو تو اُٹھا نہ رکھ اور اب بھی میں امن کا خواہاں نہیں ہوں۔
خنجر سے چیر سینہ اگر دل نہ ہو دونیم
دل میں چھری چبھو مژہ گر خونچکاں نہیں
ہے ننگ سینہ دل اگر آتش کدہ نہ ہو
ہے عار دل نفس اگر آتش فشاں نہیں
یعنی دل دونیم و مژہ خونچکاں وہ لذت ہے کہ اگر دشنۂ عشق نے دل کو تیرے دونیم نہ کیا ہو تو خنجر سے سینہ کو چاک کر کے دل کو دونیم کر اور چھری دل میں بھونک کر مژگان کو خونچکاں کر وہ سینہ کیا جس میں دل سوزاں نہ ہو وہ دل کیا جس کا نفس آتش فشاں نہ ہو مژہ کی ’ ہ ، کا گرانا دُرست ہے ، لیکن فارسی میں۔
نقصاں نہیں جنوں میں بلا سے ہو گر خراب
سو گز زمیں کے بدلے بیاباں گراں نہیں
یعنی دیوانگی میں اگر خراب ہو تو ہو گھر میں سوگز زمین سے زیادہ نہ ہو گی ، اُس کے بدلے اتنا بڑا بیابان ملتا ہے ، اس میں نقصان ہی کیا ہے ، گھر نہ ہو گا صحرا بہ صحرا نکل جائیں گے۔
کہتے ہو کیا لکھا ہے تری سرنوشت میں
گویا جبیں پہ سجدۂ بت کا نشاں نہیں
یعنی مجھ سے میری سرنوشت و سرگزشت کو کیا پوچھتے ہو نشان سجدہ خود میرا حال کہہ رہا ہے۔
پاتا ہوں اُس سے داد کچھ اپنے کلام کی
روح القدس اگرچہ مرا ہم زباں نہیں
یعنی روح القدس نے بھی وہ زبان نہیں پائی ہے جو میں نے پائی ہے ، لیکن میرے کلام کو اگر کچھ سمجھتا ہے تو وہی سمجھتا ہے اور داد دیتا ہے ، غرض یہ کہ میرا کلام سراسر الہام ہے۔
جاں ہے بہائے بوسہ ولے کیوں کہے ابھی
غالبؔ کو جانتا ہے کہ وہ نیم جاں نہیں
یعنی ابھی وہ کیوں کہنے لگا کہ جان دے کر بوسہ لے لو ابھی تو مجھ میں جان باقی ہے ، جب مجھ میں جان نہ رہے گی اُس وقت کہے گا جان دو تو بوسہ لو۔
_______
مانع دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں
ایک چکر ہے مرے پاؤں میں زنجیر نہیں
یعنی زنجیر ڈال دی تو کیا میں دشت نوردی سے باز رہا وہ بھی میرے پاؤں میں چکر بن کر رہ گئی۔
شوق اُس دشت میں دوڑائے ہے مجھ کو کہ جہاں
جادہ غیر از نگہ دیدۂ تصویر نہیں
یعنی شوقِ عرفاں مجھے اُس دشت کی طرف لئے جاتا ہے ، جہاں نگاہ دیدۂ تصویر کے سوا کوئی جادو نہیں ، اس وادی میں قدم رکھ کر ہر شخص کو محوِ حیرت بن جانا پڑتا ہے۔
حسرتِ لذت آزار رہی جاتی ہے
جادۂ راہِ وفا جز دمِ شمشیر نہیں
شاعر افسوس کرتا ہے کہ راہِ وفا کا جادہ تلوار کی باڑھ کے سوا کوئی اور نہیں ہے ، یعنی یہ جادہ وہ جادہ ہے جو ایک دم میں طے ہو جاتا ہے اور جی بھر کے لذتِ آزار نہیں حاصل ہوتی۔
رنج نومیدیٔ جاوید گوارا رہیو
خوش ہوں گر نالہ زبونی کش تاثیر نہیں
شاعر اپنا غم دوست ہونا ظاہر کرتا ہے کہتا ہے مجھے پاس نو اُمیدی ہی نصیب رہے میری فریاد کو یہ ذلت و ننگ خدا نہ ( دکھلائے ) کہ اُسے تاثیر ملے اور اُمید بر آئے۔
سر کھجاتا ہے جہاں زخم پھر اچھا ہو جائے
لذتِ سنگ باندازۂ تقریر نہیں
’ جہاں ، اس شعر میں ’ جس وقت ،کے معنی پر ہے اور اصل میں یہ لفظ ’ جس جگہ ، کے معنی کے لئے موضوع ہوا ہے مگر محاورہ میں معنی زبان کے لئے بھی بول جاتے ہیں۔ باندازۂ تقریر ہونا یہ معنی رکھتا ہے کہ جس قدر بیان کو وسعت ہے ، لذتِ سنگ اُس سے کہیں زیادہ ہے۔
جب کرم رخصت بے باکی گستاخی دے
کوئی تقصیر بجز خجلت تقصیر نہیں
جب کرم رخصتِ گناہ دے تو گناہوں پر نادم ہونے کے سوا کوئی گناہ گناہ نہیں۔
غالب ؔ اپنا یہ عقیدہ ہے بقولِ ناسخ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میرؔؔ نہیں
غالب ؔ اور میر ؔ دونوں بزرگ اکبر آبادی ہیں ، یعنی زبان آنے کی عمر دارالسلطنت اکبرآباد میں گذری ، نواب مصطفےٰ خاں شیفتہؔ غالبؔ مرحوم کو لکھتے ہیں :
’’ سابقا ًمستقرالخلافۃ اکبرآباد از استقرارش سرگرم کبرو ناز بودا کنوں دارالخلافۃ شاہ جہاں آباد بدیں نسبت غیرت افزائے صفاہانِ شیراز۔ ‘‘
خود غالبؔ ایک خط میں لکھتے ہیں :
’’ امجد علی شاہ کے آغازِ سلطنت میں ایک صاحبِ واردِ اکبرآباد ہوئے میرے ہاں دو ایک بار آئے تھے ، پھر وہ خدا جانے کہاں گئے میں دہلی آرہا۔ ‘‘
اور میری محمد حسین صاحب آزادؔ میر محمد تقی میر ؔ کو لکھتے ہیں :
’’ باپ کے مرنے کے بعد ( اکبر آباد سے ) دلی میں آئے اور گلشن بے خار میں ہے میرا زاہل اکبرآباد است دربدر و حال بہ شہاجہاں آمد و تمتع نیافتہ ناکام برگشتہ در لکھنوی گزرانید و مایحتاج ازسر کار نواب وزیرالمالک بہادر یافت ہم درانجا بسیر ملک عدم شتافت۔ ‘‘
اب اگر غالب ؔکو دہلوی کہو تو میرؔ کو لکھنوی کہنا ضرور ہے ، مگر ان دونوں اُستادوں کی زبان یہ کہہ رہی ہے کہ نہ وہ دہلوی ہیں نہ یہ دہلوی ہیں اور اُردو زبان کا حال ایک لفظ سے معلوم ہو جاتا ہے ، زیادہ تفحص کرنے کی ضرورت نہیں میرؔ مرحوم کے محاورہ میں سارے دیوان میں جابجا ’ اور ، کا لفظ طرف کے معنی پر ہے ، حالاں کہ دہلی کی زبان میں یہ لفظ کبھی نہ تھا ، مرزا غالبؔ مغفور فرماتے ہیں :
’’ ایک دل نس پر یہ نا اُمیدواری ہائے ہائے۔ ‘‘
ایک خط میں لکھتے ہیں :
’’ پارسلوں کا چھٹویں ساتویں دن پہنچنا خیال کر رہا ہوں۔ ‘‘
ایک جگہ لکھتے ہیں :
’’ پلنگ پر سے کھسل پڑا ، کھانا کھالیا۔ ‘‘
حالاں کہ ان کے معاصرین میں کسی کی زبان پر دہلی و لکھنو میں یہ الفاظ نہ تھے ، انصاف یہ ہے کہ یہ دونوں بزرگ زبان اکبرآباد کے لئے مایۂ فخر و ناز ہیں ، دو ایک لفظوں کے مانوس ہونے سے ان کی زبان پر حرف نہیں آ سکتا ، غرض کہ قدرشناشی فن اور محبتِ وطن دونوں امر اس بات کے مقتضی ہوئے کہ غالبؔ نے ناسخؔ کے ساتھ اس عقیدہ میں اتفاق کیا کہ ، ’ آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میر نہیں ، ، اسی طرح میرؔ کی استادی کا آتش ؔ نے بھی اعتراف کیا ہے :
آتش یہ وہ زمیں ہے کہ جس میں شفیق من
سودا ہوا ہے میرؔ سے استاد کی طرف
مرزا رفیع سوداؔ جو ان کے معاصر ہیں وہ بھی ان کی استادی مقر ہیں :
سودا تو اس زمیں کو غزل در غزل ہی کہہ
ہونا پڑا ہے میرؔ سے استاد کی طرف
معاصرین میں ایک دوسرے کو مان جاتے ، ایسا کم ہوتا ہے مگر میرؔ بھی سوداؔ کو مان گئے کہتے ہیں :
نہ ہو کیوں ریختہ بے شورش و کیفیت معنی
گیا ہو میرؔ دیوانہ رہا سوداؔ سو مستانہ
اسی طرح کا ایک شعر آزادؔ نے نقل کیا ہے :
طرف ہونا مرا مشکل ہے اس شعر کے فن میں
یوں ہی سوداؔ کبھی ہوتا ہے سو جاہل ہے کیا جانے
مشہور ہے کہ سودا ؔقصیدہ میں اور میرؔ غزل میں استاد ہیں اور اُن کی غزل سست ہوتی ہے اور ان کا قصیدہ سست ہے ، یہ بات حدِ تحقیق سے دور ہے ، سوداؔ کی غزل بھی ہرگز سست نہیں ہے ، البتہ میرؔ سے غزلیں اُنھوں نے کم کہی ہیں اور قصائد بہت کہے ہیں اور میرؔ کے قصیدہ کو سست کہنا اس اعتبار سے غلط ہے کہ میرؔ قصیدہ کہنا جانتے ہی نہیں ، دو تین قصیدہ وہ بھی مختصر انھوں نے کہے اور پھر بھی نہ کہہ سکے ، ان کے قصیدہ کا یہ ایک شعر :
جان یہ ہے ترے گھوڑے میں کہ تا روزِ جزا
گرد کو اُس کے نہ پہنچے گی کبھی اُس کی اجل
اغراق پسند طبیعتوں کو بہت بڑھا ہوا معلوم ہوتا ہے ، لیکن میرؔ کے رنگ کا یہ شعر ہی نہیں ہے ، بے شک غزل میں جو انداز میرؔ نے پایا وہ کسی کو نصیب ہی نہ ہوا۔
ایک نکتہ یہ بھی یہاں افادۂ ادب سے خالی نہیں ہے کہ میر ؔ و سوداؔ کو تمام اساتذۂ متأخرین نے مانا اور مانے جاتے ہیں اور یہ محض مضامین عالیہ کے سبب سے اور زبان کی بے تکلفی کے باعث سب کے دل پر نقش بیٹھا ہوا ہے اور اُن کی استادی میں کوئی کلام نہیں کرتا جن باتوں پر کہ اب دارو مدار استادی کا آرہا ہے ، وہ عروض سیفی اور غیاث اللغات کی صفحہ گردانی ہے ، یہ دونوں بزرگ محاورہ کے آگے نہ غلطی کی پرواہ کرتے تھے نہ قواعد کا خیال رکھتے تھے ، آزادؔ نے کچھ ایسے اشعار لکھ دئیے ہیں ، لیکن اکثر جگہ اُن کی نظر نہیں پڑی اور وہ سب غلطیاں یہ ہیں : میر ؔ مرحوم فرماتے ہیں : گذری نہ ایک دم بھی کہ قضیہ ہے انفصال۔ ۔ ۔ تحت الثریٰ کو جائے مع اپنے اژدہام۔ ۔ ۔ گر آئے شیخ پہن کے جامہ قرآن کا۔ ۔ ۔ وہ یار کے کوچہ کاہے کچھ شور غلو سا۔ ۔ ۔ حق صحبت نہ طیروں کو رہا یاد۔ ۔ ۔ وارفتہ ہے گلستاں اس رومی چمپئی کا۔ ۔ ۔ دھڑکے ہے جی قفس میں غم آشیاں سے۔ ۔ ۔ اے جدِ پاک حضرت موسیٰ رضا امام۔ ۔ ۔ یاور علی محمد علی رہنما علی ، سودا ؔ کہتے ہیں : تھا مستحق خون مرا یا بھلا حنا۔ ۔ ۔ راستی یہ ہے کہ ہے بلہ طویل القامۃ۔ ۔ ۔ کب ہمیں اس چیز کی پرواہ یہ ہو وہ ہو۔ ۔ ۔ کیجئے جو اسیری میں اگر ضبط نفس کو ، یعنی ’ جو ، اور ’ اگر ، دو دو حرفِ شرط۔ ۔ ۔ شور قلقل سے بہ از صیحہ کی اس کے آواز۔ ۔ ۔ تن پر اگر زباں ہو بجائے ہر ایک منھ (۲) ’ عین ، اور ’ ہ ، کا گرجانا۔ میرؔ :
کیوں کہ دُنیا دُنیا رُسوائی مری موقوف ہو
عالم عالم مجھ پہ اُس کے عشق میں تہمت ہے اب
عالم عالم جمع تھے خوباں جہاں صافا ہوا۔ ۔ ۔ یہی حال ہمیشہ رہا تو مال پر بھی نظر کرو۔ سوداؔ کہتے ہیں : جو نقدِ جاں پڑی قیمت تو دل بیعانہ تھا۔ اور ایک مصرع میرؔ صاحب کا صاف ناموزوں ہے :
ان درس گہوں میں ایسا آیا نہ نظر ہم کو
کیا نقل کروں خوبی اُس چہرۂ کتابی کی
اے کی ہے بہت جگہ گری ہے ، میر ؔ : تم کو جیتا رکھے خدا اے بتاں۔ (۳) غزل میں ہزل بھی اکثر ہے ، میر ؔ :
بہکے جو ہم مست آ گئے سو بار مسجد سے اُٹھا
واعظ کو مارے خوف کے کل لگ گیا جلاب سا
واعظ کو یہ جلن ہے شاید کہ فربہی سے
رہتا ہے حوض ہی میں اکثر پڑا مگرسا
باہم ہوا کرے ہیں دن رات نیچے اوپر
یہ نرم شانے لونڈے ہیں محمل دوخابا
میرؔ فقیر ہوئے تو اک دن کیا کہتے ہیں :
بیٹے سے عمر رہی ہے تھوڑی
اسے اب کیوں کر کاٹیں ہم بابا
اُڑاتا گڈی وہ باہر نہ آوے
مبادا مجھ کو بھی گڈا بنادے
وہ دھوبی کا کم ملتا ہے
میل دل ادھر ہے
بہت کوئی کہے اس سے ملنے میں
تجھ کو کیا ہم دھولیں ہیں
سوداؔ کہتے ہیں :
شیخ وہ رشتہ ہے زنار ہمارا جن نے
پھاڑ ڈالی ہے تری سبحہ کے ہر دانے کی
خونِ جگر کا کھانا دل پر نہیں گوارا
ان ترش ابروؤں کی جب تک نہ ہووے چٹنی
(۴) نحو اُردو میں دھوکا کھانا ، میر ؔ :
اک شور ہورہا ہے خوں ریزی میں ہمارے
حیرت سے ہم تو چپ ہیں کچھ تم بھی بولو پیارے
یعنی ’ ہماری ، کی جگہ ’ ہمارے ، باندھا ہے ، سوداؔ کہتے ہیں :
آہ کس طرح تری راہ میں گھیروں کہ کوئی
سد رہ ہو نہ سکے عمر چلی جاتی کا
عجیب ترکیب ہے مینھ کا لفظ اس زمانہ میں فیع کے وزن پر ہے اور یوں ہی نظم بھی کرتے ہیں ، مگر میرؔ صاحب ہمیشہ اس لفظ کو فاع کے وزن پر نظم کرتے ہیں : صبح تک جاتا نہیں ہے مینھ آیا شام کا ، ایک جگہ میرؔ صاحب نے ’ کہیں ، کے معنی پر ’ کہوں ، نظم کیا ہے :
مت کر خرام سر پہ اُٹھائے گا خلق کو
بیٹھا اگر زمیں پر ترا نقش پا کہو
’ ہیگا ، اور ’ ہیگی ، کے ساتھ تو ابھی تک ’ گی ، کو بول چال میں لگا رکھا ہے ، گوکہ شعراء نے ترک کر دیا لیکن میرؔ کے کلام میں ایک جگہ ’ گی ، عجب طرح سے آیا ہے :
تجھ سے دوچار ہو گا جو کوئی راہ جانے
پہ عمر چاہے گی اُس کو بحال آتے
(۵) میرؔ صاحب شاعر معنی بند و استاد مضمون گو تھے ، لیکن جب تناسب لفظی اور ضلع کی طرف جھکتے ہیں تو امانت ؔ لکھنوی و شاہ نصیر ؔدہلوی کو مات کر دیتے ہیں :
لوح سینہ پہ مرے سو نیزہ خطی لگے
خستگی اس دل شکستہ کی اسی بابت ہوئی
اس کے لبوں کے آگے کنھوں نے نہ بات کی
آئی ہے کسر شہد مصفا کی شان میں
شان شہد کے چھتے کو بھی کہتے ہیں ، ایک شعر میں یہ مضمون ہے کہ اُس کی آنکھوں کو دیکھ کر بادام ، پستہ ہے جیسے حافظؔ کہتے ہیں :
چوفندق پستہ اش خند و بحالم
چرا بادام من گریاں نہ باشد
(۶) ردیف میں خلل :
میر کی اُٹھ کے ہم نے تاسورت
ویسی دیکھی نہ ایک جاصورت
(۷) قافیہ کے دھوکے :
گل گئے بوٹے گئے گلشن ہوئے برہم گئے
کیسے کیسے ہائے اپنے دیکھتے موسم گئے
یعنی اختلافِ توجیہ کا عیب اس مطلع میں ہے ، ایک جگہ تربت اور صحت کے قافیہ میں کہتے ہیں : ’ بے مست ہوئے ، بے ست ہوئے ، بے خود ہوئے ، میت ہوئے ،۔ ایک غزل میں قسمیں اور رسمیں قافیہ ہے ، اس میں کہتے ہیں : دغا سے یہ بہتوں کی کھینچے ہے قسمیں۔ حالاں کہ ’ قسمیہ ، کو جمع کریں تو بغیر نون کے ’ قسمے ، جمع بنے گی ، ایسی بندش کہ اس میں کوئی رکیک پہلو نکلے شاعر کو اس سے بچنا ضرور ہے ، میرؔ کہتے ہیں :
دریا تھا مگر آگ کا دریائے غم عشق
سب آبلہ ہیں میری درونی میں صدف سے
یعنی مثل صدف کے آبلہ ہیں۔
_______
مت مرد مک دیدہ میں سمجھو یہ نگاہیں
ہیں جمع سویدائے دل چشم میں آہیں
جس طرح آنکھ میں تل ہوتا ہے ، اسی طرح دل میں ایک سیاہ نقطہ ہوتا ہے ، اُسے سویدا کہتے ہیں ، مطلب یہ ہے کہ میری آنکھ کے تل میں یہ نگاہیں نہیں ہیں بلکہ آنکھ کے دل میں آہیں ہیں ، یعنی میری آنکھ اور نگاہ حسرت آلود ہے ، اس شعر میں انتہا کا تصنع ہے اور دل یہاں بمعنی وسط ہے۔
برشگاں گریۂ عاشق ہے دیکھا چاہئے
کھل گئی مانند گل سوجا سے دیوارِ چمن
’ ہے ، کی جگہ شاید ’ یہی ، کا لفظ تھا ، کاتب نے دھوکا کھایا ، کھلنا شگافتہ ہونا۔
اُلفتِ گل سے غلط ہے دعوئے وارستگی
سر وہی باوصفِ آزادی گرفتارِ چمن
اقسام سرو میں ایک قسم سر و آزاد ہے۔
_______
عشق تاثیر سے نومید نہیں
جاں سپاری شجر بید نہیں
یعنی عاشقی و جانبازی درخت بید تھوڑی ہے کہ تاثیر و ثمرہ سے محروم رہے۔
سلطنت دست بدست آئی ہے
جامِ مے خاتم جمشید نہیں
کہتے ہیں جامِ شراب سلطنت ہے جو جمشید سے رندوں تک ہاتھوں ہاتھ پہنچی ہے یہ نگین جمشید نہیں ہے کہ اس پر اسی کا نام کھدا ہوا ہو اور اسی کے لئے خاص ہو گیا ہو۔
ہے تجلی تری سامانِ وجود
ذرہ بے پرتوِ خورشید نہیں
یعنی ذات سبحانہ تعالیٰ کی جلوہ گری باعثِ وجود عالم ہے جیسے طلوع خورشید ذروں کے لئے باعثِ ظہور ہے ، پہلا مصرع اصل میں یوں ہے کہ تیری تجلی سامانِ وجود ہے ’ ہے ، کا اس طرح سے مقدم کر دینا شعر کے لئے مخصوص ہے عبارت میں کسی فعل ناقص کو اسم و خبر پر خصوصاً اسم پر مقدم کرنا نہیں دُرست اُردو میں افعالِ ناقصہ یہ ہیں ، ’ نہیں ، ہے ، تھا ، ہوا ، رہا ، ہو گیا ، بن گیا ، اور تیرا ، اور تیری ، اور مرا ، اور مری ، میں ، ی کا حذف بھی شاعری کے لئے ہے ، کسی اور عبارت میں ہو تو غیرفصیح ہے۔
رازِ معشوق نہ رُسوا ہو جائے
ورنہ مرجانے میں کچھ بھید نہیں
یعنی مرجانے میں رازداری کی تکلیف کچھ بھی باقی نہیں رہتی ، لیکن رازِ معشوق کے فاش ہو جانے کا اندیشہ ہے ، اس لئے کہ عاشق کا جان دینا اکثر معشوق کی رُسوائی کا باعث ہوتا ہے۔
گردشِ رنگِ طرب سے ڈر ہے
غم محرومی جاوید نہیں
اس شعر سے ’ مجھ کو ، یا ’ تجھ کو ، محذوف ہے ، اگر ’ مجھ کو ، محذوف سمجھیں تو مطلب یہ ہے کہ حصولِ طرب کے بعد زوالِ طرب ہونا ایسا جانکاہ ہے کہ اس سے محرومیٔجاوید بہتر ہے اور اگر ’ تجھ کو ، محذوف لیں تو مطلب یہ کہ تجھے عیش دو روزہ جو دُنیا میں حاصل ہے ، اس کے زوال کا تو ڈر ہے اور آخرت کی محرومیٔجاوید کا کچھ خیال نہیں ، یہ شعر ایک مثال اس کی ہے کہ محتمل دو معنی پر یا زیادہ پر ہونا شعر کے لئے کوئی خوبی کا باعث نہیں ہوتا ، خوبی کثرتِ معنی سے پیدا ہوتی ہے ، نہ احتمالاتِ کثیر سے اسے سمجھو۔
کہتے ہیں جیتے ہیں اُمید پہ لوگ
ہم کو جینے کی بھی اُمید نہیں
یعنی اس طرح جینے کی بھی ہم کو اُمید نہیں ، پھر ہم کس اُمید پر جی سکتے ہیں۔
_______
جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں
یعنی ہر ایک نقش قدم ایک خیاباں ارم ہے۔
دل آشفتگاں خال کنج دہن کے
سویدا میں سیر عدم دیکھتے ہیں
دہن بے نشان کے خال پر جو لوگ دل دادہ ہیں ، وہ اپنے سویدائے دل میں عدم کی سیر کر رہے ہیں ، ’ سیر ، عربی لفظ ہے اور چلنے کے معنی پر عربی میں مستعمل ہے ، لیکن فارسی و اُردو میں تماشہ کے معنی پر مستعمل ہے ، مصنف نے یہاں اہل جھم کے مذاق کی موافق نظم کیا ہے اور اس سبب سے لفظ ’ سیر ، کی اضافت دُرست ہے۔
ترے سر و قامت سے اک قدِ آدم
قیامت کے فتنہ کو کم دیکھتے ہیں
یعنی فتنۂ قیامت سے سر و قامت ایک قد بھر بڑھا ہوا ہے ، نہایت لطیف مضمون ہے۔
تماشا کہ اے محوِ آئینہ داری
تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں
فارسی والے کہتے ہیں ’ مد دے ، یعنی مدد کر ، ’ نگا ہے ، یعنی نگاہ کر ، ’ تماشائے ، یعنی تماشا دیکھ ، ’زخمے ، یعنی زخم لگا ، ’ دستے ، یعنی ہاتھ پکڑ ، اسی مذاق کے موافق مصنف نے یہاں فعل محذوف کو کیا ہے ، مطلب یہ ہے کہ آئینہ میں اپنے جمال کو کیا دیکھ رہے ہو ، ذرا یہ تماشا تو دیکھو کہ ہم تم کو کس حسرت سے دیکھ رہے ہیں ، لیکن اُردو میں خالی تماشا کہہ دینا محاورہ نہیں ہے۔
سراغِ تفِ نالہ بے داغِ دل سے
کہ شب روکا نقش قدم دیکھتے ہیں
نالہ شبی کا وقت رات کو ہوا کرتا ہے ، نالہ کو شب رو اس وجہ سے کہا ہے ، کہتے ہیں جس طرح صبح کو نقش قدم دیکھ کر شب رو کا سراغ لگ جاتا ہے کہ ادھر سے آیا اور اُدھر گیا ، اسی طرح داغ دل سے نالۂ شب کی تاب و تب کا پتہ مل سکتا ہے۔
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
مطلب یہ ہے کہ مجھے کرم کی طرف احتیاج نہیں ہے ، لیکن اندازِ کرم پر میں فریفتہ ہوں ، اس کے دیکھنے کے لئے فقیروں کا بھیس بنایا ہے۔
_______
ملتی ہے خوئے یار سے نار التہاب میں
کافر ہوں گر نہ ملتی ہو لذت عذاب میں
یعنی مجھے جلانا اور مجھ پر آگ بھبھوکا ہو ہو جانا ، یہی خصلت تو معشوق کی بھی تھی ، پھر عذابِ نار میں کیوں کر مجھے لذت نہ ملی ، آتش ؔمرحوم کہتے ہیں :
آسمان شوق سے تلواروں کا مینھ برسادے
ماہِ نو نے کیا ابرو کا ترے خم پیدا
کب سے ہوں کیا بتاؤں جہانِ خراب میں
شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں
شاعر زندگی سے بیزار ہوکر کہتا ہے کہ کس مدت سے میں جی رہا ہوں ایک ایک رات ہزار ہزار سال کی گذر گئی اور میں زندہ رہا۔
تاپھر نہ انتظار میں نیند آئے عمر بھر
آنے کا عہد کرگئے آئے جو خواب میں
اس شعر میں معشوق کی شوخی کا بیان کیا ہے ، اس کوچہ کی طرف خوش فکر غزل گو بہت دوڑتے ہیں اور جس شعر سے کوئی شوخی معشوق کی نکلی وہی شعر غزل کا اچھا شعر ہوتا ہے ، مصنف نے یہاں ’ وہ ، کا لفظ ترک کیا اور اس ترک سے معنی لطیف یہ پیدا ہوئے کہ جیسے سب جانتے ہیں کہ اس کے سوا ہم کسی کا ذکر ہی نہیں کرتے یا یوں سمجھو کہ دل سے معشوق کی باتیں کرتے کرتے یہ بات زبان سے نکل گئی ہے اور ضمیر دل ہی میں رہ گئی کلام فصحا میں حذف و ترکِ ذکر کے بہت سے سبب ہوا کرتے ہیں ، لیکن یہاں بھی دونوں سبب ہو سکتے ہیں جو بیان ہوئے۔
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
یہ شعر بہت بلیغ ہے اپنا معاملات عشق میں صاحبِ تجربہ اور معشوق کا مزاج داں ہونا اور معشوق کا بد عہد و حیلہ جو ہونا یہ سب معنی اس سے سمجھ میں آتے ہیں ، یہاں ’آتے آتے ، کے معنی جب تک قاصد آئے آئے جیسے رندؔ نے کہا ہے :
سانس دیکھی تن بسمل میں جو آتے جاتے
اور چرکا دیا جلاد نے جاتے جاتے
یعنی جب تک ’ جائے جائے ، اور ’ چرکا لگادیا ، اور کبھی فعل کو محض تکرارِ معانی کے بیان کے لئے اس طرح مکرر بولتے ہیں جیسے کہتے ہیں ، ’ لکھتے لکھتے ہاتھ دُکھ گیا ، اور کبھی مسند الیہ کی حالت کے بیان میں مکرر لاتے ہیں ، جیسے ’ تم روتے روتے ہنسنے کیوں لگے ، اور کبھی شروع فعل کے معنی تکرار سے ظاہر ہوتے ہیں ، جیسے ’ تم دیتے دیتے رہ گئے ،۔
مجھ تک کب اُن کی بزم میں آتا تھا دورِ جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
اُن کی محفل میں جو ہے وہ رقیب ہے ، ساقی نے زہر ملا دیا ہو تو کیا عجب ہے۔
جو منکر وفا ہو فریب اُس پہ کیا چلے
کیوں بدگما ہوں دوست سے دُشمن کے باب میں
یعنی رقیب جھوٹ موٹھ اظہارِ وفا کر کے اُس کو فریب نہیں دے سکتا ، پھر اُس کے باب میں معشوق سے میں کیوں بدگمان ہوں جس کو کسی کی وفا کا یقین ہی نہیں۔
میں مضطرب ہوں وصل میں خوفِ رقیب سے
ڈالا ہے تم کو وہم نے کس پیچ و تاب میں
یعنی وصل میں مجھے تو یہ دھڑکاہے کہ کہیں رقیب نہ آجائے اور میری گھبراہٹ کو دیکھ کر تم کو وہم یہ ہوا ہے کہ یہ اپنے کسی معشوق سے چھپ کر میرے پاس آیا ہے ، اس سبب سے گھبرایا ہوا ہے۔
میں اور خطِ وصل خدا ساز بات ہے
جاں نذر دینی بھول گیا اضطراب میں
یعنی مجھ کو اور خطِ وصل حاصل ہو ایسے غیرمترقب امر پر اظہارِ تعجب میں فعل کا حذف محاورہ میں ہے اسی طرح مقام مبالغہ میں بھی فعل کو حذف کرتے ہیں ، جیسے یہ ہاتھ اور ایسی تلوار ’ دینی ، مصدر مؤنث ہے۔
ہے تیوری چڑھی ہوئی اندر نقاب کے
ہے اک شکن پڑی ہوئی طرفِ نقاب میں
لکھنؤ اور دہلی کی زبان میں جو بعض الفاظ میں فرق ہے اُن میں سے تیوری کا لفظ بھی ہے ، مصنف نے زبان دہلی کے موافق اُسے موزوں کیا ہے اور لکھنؤ میں ’ ی ، کو نہیں ظاہر کرتے ہیں ، یعنی دہلی میں تیوری فاعلن کے وزن پر ہے اور لکھنؤ کی زبان میں فعلن کے وزن پر ہے ، غرض یہ ہے کہ نقاب پر شکن دیکھ کر عاشق کو یہ دھڑکا پیدا ہوا ہے کہ شاید اس کی تیوری چڑھی ہوئی ہے ، کچھ خفا ہے۔
لاکھوں لگاؤ ایک چرانا نگاہ کا
لاکھوں بناؤ ایک بگڑنا عتاب کا
جملوں کی ترکیب میں تماثل اور لفظوں کی نشست میں حسن تقابل ہونا اس کی مثال میں یہ آیت مشہور ہے : ان الابرار لفی نعیم۔ وان الفجار لفی جحیم۔ لیکن اُردو میں یہ شعر بھی یہاں شاہد زیبا ہے۔
وہ نالۂ دل میں خس کے برابر جگہ نہ پائے
جس نالہ سے شگاف پڑے آفتاب میں
وہ سحر مدعا طلبی میں نہ کام آئے
جس سحر سے سفینہ رواں ہو سراب میں
دونوں شعر مقامِ تعجب میں ہیں اور دل سے معشوق کا دل مراد ہے اور سراب میں سفینہ رواں ہونا امر خارق عادت کا واقع ہونا مقصود ہے۔
غالب ؔ چھٹی شراب پر اب بھی کبھی کبھی
پیتا ہوں روزِ ابر و شبِ ماہتاب میں
مطلب یہ ہے کہ شراب چھٹنے پر بھی یہ حال ہے کہ ابر چاندنی دیکھ کر رہا نہیں جاتا پی ہی لیتا ہوں۔
_______
کل کے لئے کر آج نہ خست شراب میں
یہ سوءِ ظن ہے ساقی کوثر کے باب میں
شاعر کی نظر میں کل جو آنے والا ہے وہ فردائے قیامت ہے اور کل جو گذر گیا ، وہ روزِ الست ہے اور اُوپر کا لفظ جو آئے گا تو فلک الافلاک پر خیال پہنچے گا اور نیچے کے لفظ سے تحت الثریٰ کی طرف ذہن منتقل ہو گا جام کے ساتھ جمشید کا تصور کرے گا اور خم کا لفظ آتے ہی فلاطون یاد آجائے گا ، عصا اگر تھا تو موسیٰ ہی کے پاس تھا اور زرہ اگر ہے تو داؤد ہی کے لئے ہے انگوٹھی پر سلیمان ہی کا نام کھدا ہوا ہے اور آئینہ سکندر ہی کے سامنے لگا ہوا ہے ، دُنیا میں اگر کوئی دیوار ہے سدِ سکندر ہے اور طاق ہے تو طاقِ کسریٰ ہے غرض کہ شاعر کا موضوع کلام وہی ہونا چاہئے جو بہت مشہور ہے۔
ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخی فرشتہ ہماری جناب میں
اس شعر میں کل سے وہ کل مراد ہے جس دن فرشتوں نے یہ عرض کیا تھا کہ انسان پیدا ہوں گے تو فساد و خوں ریزی کریں گے اور یہ ناپسند ہوا تھا ، شاعر نے یہاں استفہام اس غرض سے نہیں کیا ہے کہ ا س کے جواب کا خواہاں ہے ، بلکہ سامع کا تنبیہ کرنا مقصود ہے ، یعنی خیال کریں کہ ذلت کا سامنا اپنے ہی ہاتھوں ہے۔
جاں کیوں نکلنے لگتی ہے تن سے دم سماع
گر وہ صدا سمائی ہے چنگ و رباب میں
یہاں بھی استفہام فقط سامع کے تنبیہ کرنے کے لئے ہے شاعر جواب نہیں چاہتا ہے ، مطلب یہ ہے کہ خیال کر کہ رباب سے جب اُس موجودِ بحق کی صدا بلند ہوتی ہے تو اربابِ سماع کی جان فنا ہونے لگتی ہے ، یعنی اس کے وجود کے سامنے سب کی ہستی ہیچ ہے اور وہ سب کا جاذب ہے اور سب مجذوب ہیں اور وہ مرجع ہے اور سب اس کی طرف راجع ہیں ، اس مضمون کو یوں ادا کیا ہے کہ اگر یہ سچ ہے کہ چنگ و رباب میں اس کی صدا سمائی ہوئی ہے تو پھر اسے سن کر جان کیوں فنا ہوتی ہے ، غرض یہ کہ سامع کو تنبیہ ہو جائے۔
رَو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھئے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
عمر تو سن ہے اور وہ تو سن جو سوار کے قابو میں نہیں دیکھئے کتنی دور جا کر اس کو پشت پر سے گراتا ہے۔
اتنا ہی مجھ کو اپنی حقیقت سے بعد ہے
جتنا کہ وہم غیر سے ہوں پیچ و تاب میں
یعنی جس قدر غیر کو غیر سمجھتا ہوں اتنا ہی اپنے سے بیگانہ ہوں ، پس عارف وہی ہے جسے غیر کے آئینۂ رخسار میں اتنا منھ نظر آئے۔
اصل شہود شاہد و مشہود ایک ہے
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں
جب تمام عالم بہ وجودِ واحد موجود ہے ، تو شاہد و مشہود ایک ہی ہوئے اور ایک کے سوا دوسرا موجود نہیں ہے اور اس کا بھی وجود و شہود کوئی شئے عارضی نہیں ہے ، بلکہ وجودِ عین ذاتِ موجود ہے ، اس لئے کہ اگر ذات میں اور وجود میں مغایرت ہو تو ذات اس کی وجود کی طرف محتاج ہو گی اور اس کا ازلی و ابدی و سرمدی ہونا ثابت نہ ہو گا غرض کہ وجود و شہود بھی عین شاہد و مشہود ہے اور مشاہدہ میں شاہد و مشہود میں مغایرت ہونا ضرور ہے اور جب مغایرت ہی یہاں نہیں ہے تو پھر مشاہدہ کیسا ؟ جس کی اُمید آخرت میں لوگ رکھتے ہیں۔
ہے مشتمل نمود صور پر وجودِ بحر
یاں کیا دھرا ہے قطرۂ موج و حباب میں
یعنی قطرۂ موج و حباب کے لئے کچھ ہستی ہی نہیں ہے ، ان کی نمود بے بود وجودِ بحر کے ضمن میں ہے ، غرض اس تمثیل سے یہ ہے کہ ممکنات کی ہستی وجودِ واجب کے ضمن میں ہے ، اگر یہ غرض نہ ہو تو شعر بے معنی رہا جاتا ہے اور یہ طرزِ بیان کہ فقط تمثیل کو ذکر کریں اور ممثل کو ترک کریں ، اُس بیان سے بلیغ تر ہے ، جس میں تمثیل و ممثل دونوں مذکور ہوں ، جس طرح استعارہ بلیغ تر ہوتا ہے ، بہ نسبت تشبیہ کے لیکن جس طرح استعارہ میں یہ شرط ہے کہ مشبہ کی طرف جلد ذہن منتقل ہو جانا چاہئے ، اسی طرح تمثیل بھی ایسی ہونی چاہئے کہ اُسے سن کر ممثل کی طرف انتقال ذہن ہو جائے ، مثلاً یوں کہیں کہ ’ جیسا بیج بوؤگے ویسا ہی پھل کھاؤگے ، ، اس سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ ’ جیسا کروگے ویسا پاؤگے ، اور ممثل کا ترک کرنا اس سبب سے بہتر ہوتا ہے کہ ایسا ابہام جس کے بعد انکشاف فوراً ہو جائے ذہن سامع کو لذت بخشتا ہے اور یہ لذت اُس لذت سے بڑھی ہوئی ہے جو ذکر ممثل سے حاصل ہوتی۔
شرم اک ادائے ناز ہے اپنی ہی سے سہی
ہیں کتنے بے حجاب کہ ہیں یوں حجاب میں
اس غزل کے اکثر شعر تصوف کے مضمون کے ہیں اور یہ شعر بھی ویسا ہی ہے کہتے ہیں کہ اس کا شرمانا اور سامنے نہ آنا یہ غمزۂ معشوقانہ ہے ، یہ ہم نے مانا کہ یہاں کوئی دوسرا موجود نہیں ہے اور اپنا غمزہ اپنے ہی ساتھ ہے ، لیکن جب غمزہ و ادا خود ایک طرح کی بے حجابی ہے تو اس کا حجاب کرنا عین بے حجابی ہوا۔
آرائش جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیش نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں
نقاب استعارہ ہے حجاب قدس سے اور آئینہ اس میں علم مایکون و ماکانہے اور آرائش جمال سے فارغ نہ ہونا تفسیر کل یوم ہو فی شأن ہے۔
ہے غیب غیبِ جس کو سمجھتے ہیں سب شہود
ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں
یعنی خواب میں خواب دیکھ رہے ہیں تو یہ غیب میں غیب ہے۔
غالب ؔ ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دوست
مشغول حق ہوں بندگیٔ بوتراب میں
اس مضمون کا ایک شعر ناسخ کا بہت مشہور ہے :
بیعت خدا سے بھی مجھے بے واسطہ نہیں
دستِ خدا ہے نام مرے دستگیر کا
ناسخ نے پہلے مصرع میں ادعا کیا ہے اور دوسرے میں توجیہ اور مصنف نے دلیل کو دعوے پر مقدم کر دیا ہے ، لیکن دعوے میں ابہام ہوتا ہے اور دلیل میں انکشاف ہوتا ہے ، اس سبب سے آدابِ انشاء میں دعوے کو دلیل پر مقدم رکھنا بہتر ہے کہ ابہام کے بعد انکشاف لذیذتر ہوتا ہے۔
_______
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
یہ معنی نکلتے ہیں کہ دل و جگر دونوں ایسے صاحبِ مرتبہ و شان تھے کہ عزاداری ان کی بہرحال ضرور ہے ، خود نہ ہو سکے تو نوحہ گر رکھنا چاہئے کہ ایک کا ماتم میں کروں اور ایک کا نوحہ وہ پڑھے۔
چھوڑا نہ رشک نے کہ ترے گھر کا نام لوں
ہر اک سے پوچھتا ہوں کہ جاؤں کدھر کو میں
حالتِ اضطراب و کثرت قلق میں یہ کہتے ہیں کہ ارے کدھر جاؤں مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں غم بہلے اور تسکین ہو ، اس شعر میں جگہ یعنی نوحہ معشوق تو معین ہے ، مگر راہ چلتوں کے سامنے اس کا نام مارے رشک کے نہیں لیتے اور پتہ نہ ملنے سے اضطراب و قلق پیدا ہو گیا ہے تو یہاں ’ جاؤں کدھر کو میں ، دو معنی رکھتا ہے اور یہی لطافت شعر میں ہے۔
جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار
اے کاش جانتا نہ ترے رہ گذر کو میں
رقیب کے در پر اس لئے ان کو جانا پڑا کہ معشوق کی آمدورفت اُسی کے گھر میں تھی۔
ہے کیا جو کس کے باندھی ہے میری بلا ڈرے
کیا جانتا نہیں ہوں تمہاری کمر کو میں
کمر کسنا اور باندھنا کسی مہم پر مستعد ہونے کے معنی پر ہے اور معشوق کے لئے بڑی مہم عاشق کا قتل کرنا ہے ، کہتے ہیں ’ تمہاری کمر بھی کیا ہے جسے تم کسوگے ، ، بھلا میں تمہاری کمر کو نہیں جانتا ہوں اس شعر میں ’ میں ، کی لفظ کو ذرا لہجہ میں ممتاز رکھنا چاہئے اور اس سے معنی زائد یہ پیدا ہوں گے کہ ’ کوئی اور بھی نہیں ، اور پھر اس معنی کو ایک اور معنی پر شماتت کرنے سے مطلب یہ ظاہر کیا ہے کہ ہنر اس زمانہ میں متاع کاسد ہے ، ’ اپنے اُوپر ، محاورہ ہے اور ’ اپنے اُوپر ، تو لکھنؤ میں نہیں بولتے ، گو عموماً اہل قلم ’ تئیں اور اُوپر ، کا لفظ لکھنے میں احتیاط کرتے ہیں۔
غالب ؔ خدا کرے کہ سوار سمندِ ناز
دیکھوں علی بہادرِ عالی گہر کو میں
سمندِ ناز سے وہ سمند مراد ہے جو ناز سے چلے ، اضافت کے لئے ادنیٰ تعلق کافی ہوتا ہے۔
_______
ذکر میرا بہ بدی بھی اسے منظور نہیں
غیر کی بات بگڑ جائے تو کچھ دُور نہیں
یعنی مجھ سے اُسے ایسی نفرت ہے کہ میری بدی کرنے کو بھی اگر کوئی میرا نام اُس کے سامنے لیتا ہے تو اُسے گوارا نہیں ہوتا اور غیر کو عادت ہے کہ میری بدی کیا کرتا ہے تو کچھ دُور نہیں کہ اسی سبب سے رقیب ہے اور اُس سے بگاڑ ہو جائے۔
وعدۂ سیر گلستاں ہے خوشا طالع شوق
مژدۂ قتل مقدر ہے جو مذکور نہیں
یعنی تماشائے لالہ و گل کا اُس نے وعدہ کیا ہے ، اس سے میں سمجھ گیا کہ مجھے قتل کرے گا ، یہ نصیب کہاں ، سچ مچ میرے ساتھ سیر گلستاں کرے کچھ عجب نہیں کہ مژدۂ قتل کی جگہ مژدۂ وصل کہا ہو۔
شایدِ ہستیٔ مطلق کی کمر ہے عالم
لوگ کہتے ہیں کہ ہے پر ہمیں منظور نہیں
یعنی عالم کو ہستی کے ساتھ ایسا ہی تعلق ہے جیسا کمر کو معشوق کے ساتھ اس کا نام ہی نام سنتے ہیں اور دکھائی نہیں دیتی ، مصنف نے لفظ منظور کو یہاں مبصر و مرئی کے معنی پر استعمال کیا ہے ، محاورہ اس کے مساعد نہیں۔
قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا لیکن
ہم کو تقلید تنک ظرفی منصور نہیں
قطرہ مضاف ہے اور اپنا مضاف الیہ اور اضافت یہاں بیانیہ ہے یعنی میں بھی وہ قطرہ ہوں جو دریا میں فنا ہو ، یعنی مجھے بھی فنا فی الذات کا مرتبہ حاصل ہے ، مگر منصور کا ظرف چھوٹا تھا چھلک گیا۔
حسرت اے ذوقِ خرابی کہ وہ طاقت نہ رہی
عشق پر عربدہ کی گوں تن رنجور نہیں
’ وہ ، اشارہ ہے اگلے زمانہ کی کشتیوں کی طرف جب ان میں ایسی طاقت تھی کہ عشق سے پچپت پہلوان کے ساتھ بار بار لپٹ پڑتے تھے ، لیکن آخر کو ہار گئے اور مقابلہ کی طاقت نہ رہی اور اسی بات پر حسرت کرتے ہیں کہ تن رنجور عشق کی زور آزمائی کی گون نہ رہا۔
میں جو کہتا ہوں کہ ہم لیں گے قیامت میں تمہیں
کس رعونت سے وہ کہتے ہیں کہ ہم حور نہیں
غزل کا ایک یہ بھی بڑا مضمون ہے کہ معشوق کی حاضر جوابی کا بیان ہو ا اور اکثر یہ ایسا شعر بیت الغزل ہوا کرتا ہے۔
ظلم کر ظلم اگر لطفِ دریغ آتا ہو
تو تغافل میں کسی رنگ سے معذور نہیں
یعنی تغافل تو ناآشنائی محض ہے ، یہ مجھے کیوں کر گوارا ہو۔
صاف وردی کش پیمانہ رجم ہیں ہم لوگ
وائے وہ بادہ کہ افشردۂ انگور نہیں
یعنی سے کشی بھی ہماری بڑے رتبہ کی ہے وہ شراب نے نصیب ہے جو انگوری نہ ہو کہ ہم اسے منھ نہیں لگاتے اس لئے کہ یہ تقلید جم کے خلاف ہے ، یہاں مرزا صاحب ضلع بول گئے ہیں ، یعنی دُرو کے واسطے صاف کا لفظ شعر میں لائے ہیں ، حالاں کہ ضلع سے کمالِ نفرت رکھتے تھے ایک خط میں لکھتے ہیں : ایک صاحب نے میرے سامنے یہ مطلع پڑھا
شعر اسد ؔ اس جفا پر بتوں سے وفا کی
مرے شیر شاباش رحمت خدا کی
میں نے سن کر عرض کیا کہ صاحب جس بزرگ کا یہ مطلع ہے اُس پر بقول اس کے رحمتِ خدا کی اور اگر میرا ہو تو مجھ پر لعنتِ اسد اور شیر اور بت اور خدا اور جفا اور وفا میری طرزِ گفتار نہیں ہے اور مرزا غالب ؔ سے بہت پیشتر جو اساتذہ گذرے ہیں ، ان کا بھی یہی حال تھا کہ ضلع و رعایت کو بہت ہی مبتذل سمجھتے تھے ، مرزا رفیع سوداؔ نے جو قصیدہ امام رضا ؒکی مدح میں کہا ہے ، اس کی تشبیب میں اپنے بعض معاصرین پر اسی ضلع بولنے پر تشنیع کی ہے ، کہتے ہیں :
استاد کی اُن کے ہے اُنھوں کو یہ نصیحت
لفظی نہ تناسب ہو تو کچھ مت کرو تحریر
اتنا تو تلازم رکھو الفاظ کا ملحوظ
بے پنجہ و ناخن نہ لکھو دودھ کو تم شیر
جب تک کہ نہ منظور ہو پاسنگِ ترازو
باندھو نہ کبھی شیر میں تم لفظِ شکم سیر
ہوں ظہوری کے مقابل میں خفائی غالب ؔ
میرے دعوے پہ یہ حجت ہے کہ مشہور نہیں
یعنی میرا مشہور نہ ہونا اس بات پر دلیل ہے کہ میں خفائی ہوں اور ظہور و خفا میں تقابل ہے تو میں ظہوری کا مدِ مقابل ہوا۔
_______
نالہ جز حسن طلب اے ستم ایجاد نہیں
ہے تقاضائے جفا شکوۂ بے داد نہیں
یعنی یوں تو تمنائے جفا مقبول نہ ہو گی ، ہاں نالہ کشی پر میرے خفا ہوکر جفا کرو تو کرو غرض کہ نالہ کشی حسن و طلب ہے ، نہ شکایتِ تعب۔
عشق و مزدوری عشرت گہ خسرو کیا خوب
ہم کو تسلیم نکو نامی فرہاد نہیں
ہم کو تسلیم نہیں یعنی ہمارے نزدیک مسلم نہیں یعنی مصدر کو بمعنی مفعول استعمال کیا ہے اور عربی کے مصدر اکثر اُردو میں اس طرح لوگ استعمال کیا کرتے ہیں ، جیسے کہتے ہیں ، مطلب حصول ہوا یعنی حاصل ہوا ، راز افشاء ہوا یعنی فاش ہوا ، لیکن جو لوگ عربی داں ہیں ، وہ ایسی عبارت سے احتراز کرتے ہیں اور محاورہ بگاڑ لیتے ہیں۔
کم نہیں وہ بھی خرابی میں پہ وسعت معلوم
دشت میں ہے مجھے وہ عیش کہ گھر یاد نہیں
یعنی گھر مثل صحرا کے ویران ہے ، مگر وسعت اتنی کہاں۔
اہل بینش کو ہے طوفانِ حوادث مکتب
لطمۂ موج کم از سیلی استاد نہیں
موج سے طوفانِ حوادث کی موج مقصود ہے ، مطلب یہ ہے کہ حوادث سے عبرت کا سبق لیتے ہیں
وائے محرومیٔ تسلیم و بدا حال وفا
جانتا ہے کہ ہمیں طاقتِ فریاد نہیں
یعنی رضا و وفا کے پاس سے جو صبر کرتے ہیں تو تم جانتے ہو کہ ہمیں طاقت فریاد نہیں ہے۔
رنگ تمکین و گل و لالہ پریشاں کیوں ہو
گرچراغان سر رہ گذرِ باد نہیں
یعنی جلوۂ لالۂ و گل اگر چراغ رہ گذر باد نہیں ہے تو اس قدر بے ثبات کیوں ہے۔
سبدِ گل کے تلے بند کرے ہے گلچیں
مژدہ اے مرغ کہ گلزار میں صیاد نہیں
شعراء کو عادت ہو گئی کہ گل و بلبل و شمع و پروانہ وغیرہ کا ذکر بھی مضمون شعر سمجھتے ہیں ، انھیں کے تتبع میں مصنف نے یہ شعر کہا ہے ، ورنہ جہاں تک غور کیجئے ، کچھ حاصل اس کا نہیں معلوم ہوتا۔
نفی سے کرتی ہے اثباتِ تراوش گویا
دی ہے جائے دہن اُس کو دمِ ایجاد نہیں
یعنی اس کے دہن کا وجود اگر ہے تو التزام ہے ، محض تصور میں ہے ، ورنہ خارج میں اُسے بجائے دہن ’ نہیں ، ملی لفظ اثبات مصنف نے یہاں مؤنث باندھا ورنہ افعال کے وزن پر جتنے الفاظ ہیں سب بتذکیر مستعمل ہیں ، میر ؔ کہتے ہیں :
تابوت مرا دیر اُٹھا اس کی گلی سے
اثبات ہوا جرم محبت کا اسی سے
مصنف نے خود بتذکیر کہا ہے ، بہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہئے ، یہاں تراوش کے قرب نے دھوکا دیا جو لوگ ضلع پسند کرتے ہیں ، ان کو اس شعر میں گویا کا لفظ بہت لطف دیتا ہو گا ، مگر یہ لفظ مبتذل ہو گیا ہے۔
کم نہیں جلوہ گری میں ترے کوچہ سے بہشت
یہی نقشہ ہے ولے اس قدر آباد نہیں
یعنی یہاں عشاق کا ہجوم بہت رہتا ہے۔
کرتے کس منھ سے ہو غربت کی شکایت غالبؔ
تم کو بے مہری یارانِ وطن یاد نہیں
نحو اُردو کے دقائق میں سے ایک یہ مسئلہ ہے کہ ’ تم کو ، یہاں ترکیب میں کیا ہے اور ’ یاد ، کیا ہے ،اگر یوں کہیں کہ ’ نہیں ، فعل ناقص ہے ، اسم اس کا بے مہری یارانِ وطن ہے اور خبر اس کی یاد ہے تو اس صورت میں ’ تم ، کو مفعول نہیں کہہ سکتے اس لئے کہ فعل ناقص لازم ہوا کرتا ہے اور اگر یوں کہیں کہ ’ نہیں ، اس مقام پر تامہ ہے اور بے مہری یارانِ وطن فاعل اور ’ تم کو ، مفعول ہے تو اس صورت میں ’ یاد ، ترکیب میں کیا ہے اور ’ نہیں ، تامہ ہوا تو متعدی کیوں ہو گیا ، یہ دونوں اشکال اس طرح دفع ہو سکتے ہیں کہ یوں کہیں کہ پہلی صورت میں ’ تم کو ، کو ہم مفعول بہ نہیں کہتے بلکہ متعلق فعل ہے ، اس لئے کہ ’ کو ، مفعول بہ کے لئے خاص نہیں ہے مفعول لہٗ کے لئے بھی ہوتا ہے ، جیسے کہتے ہیں : ’ حج کو گئے ، اور مفعول فیہ کے لئے بھی ’ کو ، آتا ہے جیسے کہتے ہیں منگل کو روانہ ہوئے ’ طرف ، کے معنی پر بھی آتا ہے ، جیسے کہتے ہیں : ’ قافلہ کدھر کو گیا ، ، اس کے علاوہ جس طرح کو مفعول بہ کے لئے خاص نہیں ہے ، اُسی طرح مفعول بہ بھی ’ کو ، کے لئے خاص نہیں ہے ، کہتے ہیں کہ ’ خط پڑھا اور زید کو پڑھایا ، یعنی مفعول بہ اگر ذوی العقول میں سے ہو تو وہ ’ کو ، کے ساتھ بولا جاتا ہے اور افعالِ قلوب میں بھی یہی ضابطہ رہتا ہے ، جیسے : ’ زید کو احمق سمجھا ، اور اسی طرح جن فعلوں کے دو مفعول ہوتے ہیں وہاں بھی فقط دونوں میں جو اشرف ہے ، اسی کے ساتھ ’ کو ، استعمال کرتے ہیں ، جیسے : ’ گھوڑے کو دانہ دیا ، اور دوسری صورت میں یہ کہیں گے کہ ’ یاد ، کو ہم متعلقات میں نہیں شمار کرتے ، بلکہ جز و فعل ہے ، یعنی یاد ہونا فعل متعدی ہے اور ’ ہم کو ، مفعول بہ ہے اور اس طرح کے فعل اُردو میں بہت ہیں جن میں ایسی ترکیب واقع ہوئی ہے مثلاً : ’ دُعا قبول ہوئی ، اور کہتا ’ قبول ہوا ، کہ اس مثال میں قبول ہونا ایک فعل مرکب ہے اور قبول معمول فعل نہیں ہے ، نہیں تو مقبول ہونا چاہئے تھا ، یا راز افشا ہوا کہ اگر افشا کو معمول فعل لیں تو افشا بمعنی افشاشدہ ہونا چاہئے تھا ، اس سے ظاہر ہے کہ افشا ہونا خود فعل ہے اور افشا جزو فعل ہے یا جیسے مطلب حصول ہوا کہ اس میں حصول کو اگر جزو فعل نہ قراردیں تو حصول کی جگہ حاصل کہنے کا موقع تھا یا جیسے کہتے ہیں : ’ ہمیں یہ بات تسلیم نہیں ، یہاں ’ تسلیم ہونا ، فعل مرکب ہے ، ’ تسلیم ، فعل سے خارج اور اس کے ساتھ متعلق ہو یہ بات نہیں ورنہ ’ مسلم ، کہنا چاہئے تھا ، جب یوں کہتے ہیں کہ وہ خوش ہے تو اس میں ’ ہے ، فعل ناقص ہوا کرتا ہے اور اسم و خبر لفظ ’ وہ ، اور لفظ ’ خوش ، ہے اور جب یوں کہتے ہیں کہ اس کو خوشی ہے تو اس مثال میں ’ ہے ، تامہ ہے اور خوشی فاعل ہے اور ’ اس کو ، مفعول بہ ہے ، لیکن بہ نظر دقیق ’ اس کو ، متعلق ہے اور ’ کو ، اس میں صلہ ہے ، علامتِ مفعول یہ نہیں ہے ، اسی قیاس پر ان مثالوں کو بھی سمجھنا چاہئے ، جیسے وہ رنجیدہ ہے اور اس کو رنج ہے وہ ملول ہے اور اس کو ملال ہے ، وہ خبردار ہے اور اس کو خبر ہے ، لیکن ان مثالوں میں ’ اس کو ، کس قسم کا تعلق فعل سے رکھتا ہے ، یہ تعلق ویسا ہے جیسا محل کو مال کے ساتھ ہوتا ہے۔
_______
دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
یاں آپڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں
یعنی حیاتِ دُنیوی و نعیم اُخروی عطا کر کے وہ سمجھا کہ ہم راضی ہو گئے ، ہم نے بھی کہا کہ کیا تکرار کریں نہیں تو ہمارا دعویٰ تو یہ تھا کہ ایک اُس سے مفارقت نہ ہوتی اور یہ کچھ نہ ملتا۔
تھک تھک کے ہر مقام پہ دوچار رہ گئے
تیرا پتہ نہ پائیں تو ناچار کیا کریں
مقام سے مقاماتِ سلوک اور معرفت مراد ہیں ، اس شعر میں دوچار ناچار کے ضلع کا لفظ ہے۔
کیا شمع کے نہیں ہیں ہوا خواہ اہل بزم
ہو غم ہی جاں گداز تو غم خوار کیا کریں
شمع کا ذکر محض تمثیل ہے غرض اپنے حال سے ہے۔
_______
ہو گئی ہے غیر کی شیریں بیانی کارگر
عشق کا اس کو گماں ہم بے زبانوں پر نہیں
یعنی غیر کی شیریں بیانی اُس پر کام کرگئی اور غیر کو وہ اپنا عاشق سمجھنے لگا اور ہم بے زبان ہیں ، اسی سبب سے ہماری محبت کا اُسے یقین نہیں۔
_______
قیامت ہے کہ سن لیلیٰ کا دشتِ قیس میں آنا
تعجب سے وہ بولا یوں بھی ہوتا ہے زمانہ میں
یعنی لیلیٰ کے اس فعل پر اُس نے تعجب کیا اور تعجب کرنے کو یہ معنی لازم ہیں کہ شرم و حیا کے خلاف سمجھا اور اس فعل کو شرم و حیا کے خلاف سمجھنے سے یہ معنی لازم آئے کہ لیلیٰ پر اس نے تشنیع کی اور تشنیع کرنے سے یہ بات لازم آئی کہ عاشق کی خبر لینے میں خود اس کو شرم و حجاب مانع ہے ، غرض کہ اس شعر میں بلاغت کی وجہ یہی سلسلۂ لزوم ہے ، حاصل یہ ہوا قیامت ہے کہ عاشق کی خبرگیری میں بھی وہ حجاب کرتا ہے۔
_______
دل نازک پہ اس کے رحم آتا ہے مجھے غالب ؔ
نہ کر سرگرم اُس کافر کو اُلفت آزمانے میں
یعنی کہیں ایسا نہ ہو کہ تیری جان دے دینے کے بعد اس کا دل کڑھے۔
_______
دل لگا کر لگ گیا ان کو بھی تنہا بیٹھنا
ہائے اپنی بیکسی کی ہم نے پائی دادیاں
یعنی ہماری بیکسی و تنہائی کا صبر پڑا دُنیا میں ہم کو داد مل گئی۔
ہیں زوال آمادہ اجزا آفرینش کے تمام
مہر گردوں ہے چراغِ رہ گذارِ بادیاں
’ باد ، استعارہ ہے زمانہ کے تجدد و مرور سے غیرمحسوس کو محسوس سے تشبیہ دی اور پھر وجہ شبہ حرکت ہے ، اس سبب سے یہ استعارہ بہت ہی بدیع ہے۔
_______
یہ ہم جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں
کبھی صبا کو کبھی نامۂ بر کو دیکھتے ہیں
بادِ صبا ہر جگہ آتی جاتی ہے اور کہیں بے روک ٹوک اس کی رسائی ہے ، اس سبب سے شعراء میں صبا کی پیام بری مشہور ہے کہ اس سے بہتر قاصد نہیں ، مطلب یہ کہ ہم انتظار میں ہیں کہ دیکھئے کب در سے نمودار ہوتا ہے اور صبا کب دیوار پھاندکر آتی ہے۔
وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
اُن کو دیکھنے کی وجہ یہ ہے کہ ہر بار شبہ ہوتا ہے کہ وہ نہ آئے ہوں گے اور گھر کو دیکھنے کی وجہ یہ ہے کہ جب اُن کے آنے کا یقین ہوتا ہے تو شبہ پیدا ہوتا ہے کہ میرا گھر نہ ہو گا۔
نظر لگے نہ کہیں اس کے دست و بازو کو
یہ لوگ کیوں مرے زخم جگر کو دیکھتے ہیں
یعنی اس کی ناوک افگنی و قدر اندازی کو نظر نہ لگے اور اس شعر کی خوبی بیان سے باہر ہے ، بڑے بڑے مشاہیر شعراء کے دیوانوں میں اس کا جواب نہیں نکل سکتا۔
ترے جواہر طرف کلہ کو کیا دیکھیں
ہم اوجِ طالع لعل و گہر کو دیکھتے ہیں
معنی صاف ہیں اور بندش میں تازگی ہے۔
_______
نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں
شبِ فراق سے روزِ جزا زیاد نہیں
یعنی قیامت کے آنے کا تو میں قائل ہوں ، لیکن اس کا قائل نہیں کہ اُس دن کا ہول و ہراس اس رات کے شدائد سے بڑھا ہو گا۔
کوئی کہے کہ شب مہ میں کیا برائی ہے
بلا سے آج اگر دن کو ابر و باد نہیں
یعنی اگر دن کو ابر و ہوا نہ ہونے کے سبب سے صحبت شراب موقوف رہی تو شب کو چاندنی میں یہ جلسہ کیوں نہ ہو ، یعنی ابر کے نہ آنے سے جیسی دن کو بے لطفی رہی ویسی ہی رات کو آسمان صاف ہونے سے چاندنی بھی بہت خوب ہی چھٹکے گی۔
جو آؤں سامنے اُن کے تو مرحبا نہ کہیں
جو جاؤں واں سے کہیں کو تو خیرباد نہیں
بے التفاتی کی شکایت ہے اور ’ کو ،طرف کے معنی پر ہے اور زائد اسے نہ سمجھنا چاہئے ، اس زمانے کو اکثر شعراء اس مغالطہ میں ہیں کہ’ اِ دھر کو ، اور ’ اُدھر کو ، اور ’ کہیں کو ،میں ’ کو، زائد سمجھتے ہیں اور اس کے استعمال سے احتراز کرتے ہیں ، ’ اسی طرح ، سے ’ اس طرح ، کہنے میں ’ سے ، کو زائد کہتے ہیں اور اُس کو ترک کیا ہے اور یہ خیال بھی غلط ہے۔
کبھی جو یاد بھی آتا ہوں میں تو کہتے ہیں
کہ آج بزم میں کچھ فتنہ و فساد نہیں
بزم کا لفظ اس شعر میں مقتضائے مقام سے گرا ہوا ہے اس سبب سے کہ مصرع معشوق کی زبانی ہے اور اس کے محاورہ کی نقل ہے اور لفظ بزم اس کے محاورہ کا لفظ نہیں ہے ، لیکن اصل یہ ہے کہ محاورہ میں اس قدر احتیاط کوئی نہیں کرتا۔
علاوہ عید کے ملتی ہے اور دن بھی شراب
گدائے کوچۂ میخانہ نامراد نہیں
یعنی دُنیا میں تمام مراد و مقصود بس شراب ہی ہے نامراد وہی ہے جسے شراب نہ ملے ، پہلا مصرع فقیروں کا لہجہ ہے کہ ’ بھئی وہاں جمعرات کے سوا اور دن بھی کچھ نہ کچھ مل جاتا ہے ،۔
جہاں میں ہو غم و شادی بہم ہمیں کیا کام
دیا ہے ہم کو خدا نے وہ دل کہ شاد نہیں
دُنیا میں غم و شادی کا بہم ہونا اس مقام پر ذکر کرتے ہیں جہاں دُنیا کے سرور و خوشی سے نفرت ظاہر کرنا منظور ہو ، اس شعر میں مصنف نے تازگی یہ پیدا کی ہے کہ غم و شادی کے بہم ہونے پر حسرت ظاہر کی ہے ، کہتے ہیں : ’ ہمیں کیا کام ، یعنی ہم تو محروم ہیں ہم کو تو کبھی ایسی خوشی بھی حاصل نہیں ہوئی جو غم سے متصل ہو اور شادی مخلوط بہ غم کی حسرت کرنے سے یہ معنی نکلتے ہیں کہ شاعر کو انتہا کی غمزدگی ہے کہ ایسی ہیچ و ناکار خوشی کی تمنا رکھتا ہے اور یہی وجہ بلاغت ہے ، اس شعر میں۔
تم ان کے وعدہ کا ذکر ان سے کیوں کرو غالب ؔ
یہ کیا کہ تم کہو اور وہ کہیں کہ یاد نہیں
معشوق کی بدعہدی و وعدہ خلافی کو جو لوگ اُلٹ پلٹ کر کہا کرتے ہیں وہ اس شعر میں تامل کریں کہ اس مضمون کہنہ کو کیا آب و رنگ دیا ہے ، مطلب تو یہ ہے کہ میں جب انھیں وعدہ یاد دلاتا ہوں وہ کہتے ہیں یاد نہیں مگر اس مطلب کو مطلب گر کی زبانی ادا کیا ہے ، یعنی خبر کے پہلو کو ترک کر کے اس مضمون کو انشا کے سانچہ میں ڈھالا ہے۔
_______
تیرے توسن کو صبا باندھتے ہیں
ہم بھی مضموں کی ہوا باندھتے ہیں
یعنی تو سن کو صبا سے تشبیہ دے کر خوش بیانی کی ہوا باندھتے ہیں۔
آہ کا کس نے اثر دیکھا ہے
ہم بھی اک اپنی ہوا باندھتے ہیں
ہوا باندھنا رعب بٹھانے کے معنی پر ہے۔
تیری فرصت کے مقابل اے عمر
برق کو پابہ حنا باندھتے ہیں
یعنی فرصتِ عمر کے ساتھ اگر مقابلہ کرو تو گویا برق کے پاؤں میں مہندی لگی ہوئی ہے ، یعنی آنی و فانی ہونے میں برق سے عمر کہیں بڑھی ہوئی ہے۔
قید ہستی سے رہائی معلوم
اشک کو بے سروپا باندھتے ہیں
لطف یہ ہے کہ ممکن پر عدم سابق بھی ہے اور عدم لاحق بھی ہے تو اشک کی طرح انسان بھی بے سروپا ہے اور اشک کو باوجود بے سروپا ہونے کے باندھتے ہیں اور کسی کے باندھنے سے بندھ جانا فرع ہے ، ہستی کی غرض یہ کہ ہم ہستی کی قید میں ضرور رہیں گے اور مرتبۂ فنا جو عین آزادی ہے حاصل نہیں ہو گا۔
نشۂ رنگ سے ہے واشدِ گل
مست کب بند قبا باندھتے ہیں
یعنی نشۂ رنگ سے مست ہے ، اس سبب سے گل کے بند قبا کھلے ہوئے ہیں۔
غلطی ہائے مضامیں مت پوچھ
لوگ نالہ کو رسا باندھتے ہیں
یعنی ہم کو تجربہ حاصل ہے کہ نالہ کو کبھی رسائی نہیں ہوتی یہ تو ظاہر معنی ہیں اور ابہام ایک معنی کی طرف ہے کہ اگر رسا ہوتا تو باندھتے کسے اس کا بندھ جانا ہی دلیل و اماندگی و نارسائی ہے ، لفظ ’ غلط ، میں یائے مصدری لگانا غلط درغلط ہے ، فارسی میں کسی نے ایسا تصرف نہیں کیا ، بلکہ قدیم اُردو میں بھی ’ ی ، نہیں بڑھائی گئی تھی ، میرؔ :
غلط اپنا کہ اُس جفا جو کو
سادگی سے ہم آشنا سمجھے
ہاں اب محاورہ ہندیوں کا یہی ہے کہ ’ غلط ، کو غلطی کہتے ہیں اور ’ ی ، کا بڑھادینا تصرف ہندیوں کاہے ، اس سبب سے غلطی کا لفظ ہندی سے فارسی ترکیب میں اس کو لانا اور فارسی کی جمع بنانا اور فارسی اضافت اُس کو دینا صحیح نہیں ، خود مصنف نے لفظ انتظاری کے باندھنے کو ایک خط میں منع کیا ہے۔
اہل تدبیر کی واماندگیاں
آبلوں پر بھی حنا باندھتے ہیں
اہل عقل پر شماتت ہے کہ ان کے پاؤں میں آبلہ ہو تو اس پر حنا باندھتے ہیں ، یعنی ایک تو آبلہ ہی باعث واماندگی تھا اور اس پر پاؤں میں مہندی بھی لگالیتے ہیں اور عاجز و درماندہ بن جاتے ہیں ، اس کے مقابلہ میں اہل جنوں کی ستائش مقصود ہے کہ وہ پائے پر آبلہ سے دشت پرخار پر دوڑتے ہیں ، پہلے مصرع میں سے خبر محذوف ہے اور مقام شماتت میں خبر کا حذف محاورہ میں ہے جیسے کہتے ہیں : ’ تقدیر ، یعنی تقدیر کی برائی دیکھو ’ نافہمی ، یعنی نافہمی کا نتیجہ دیکھو۔
سادہ پرکار ہیں خوباں غالبؔ
ہم سے پیمانِ وفا باندھتے ہیں
’ ہم ، کو خالص لہجہ میں پڑھنا چاہئے ، جس سے یہ معنی نکلیں گے کہ کوئی اور بھی نہیں ’ ہم ، اور یہی وجہ ہے سادہ کہنے کی کہ وہ جانتے ہیں کہ ہم اُن کے فریب میں آجائیں گے اور پرکار اس وجہ سے کہا ہے کہ فریب دینے کا قصد رکھتے ہیں ، خوبان خوب کی جمع ہے اور آج کل کی اُردو میں الف نون کے ساتھ ہر ایک لفظ کو جمع بنالینا نہیں درست ہے ، اس باب میں درکن کے محاورہ میں بہت توسیع ہے اور یہ لوگ کلیتہً ہر لفظ کو اس طرح جمع بنالیتے ہیں ، لیکن اُردوئے معتبر جو سمجھی جاتی ہے ، اس میں جمع بنانے کا یہ ضابطہ ہے کہ اگر لفظ حروف معنویہ میں سے کسی حرف کے ساتھ جمع کریں گے اور حروفِ معنویہ سات ہیں : ’ نے ، کو ، میں ، پر ، تک ، سے ، کا ، جیسے ’ مردوں نے عورتوں کو الخ ، اور اگر منادی ہے تو فقط واؤ سے جمع بنائیں جیسے : ’ یارو ، لوگو ، لیکن بولنے میں حالت ندا میں بھی نون ہے ، کچھ رسم ایسا ہی ہو گیا ہے کہ ’ یارو ، اور ’ دیکھو ، قافیہ کرتے ہیں اور بغیر نون کے لکھتے ہیں اور اگر لفظ ’ ندا ، سے اور حروفِ معنویہ سے مجرد ہے تو یا تو مذکر ہے یا مؤنث اگر مذکر ہے اور اُس کے آخر میں ہائے مختفی یا الف تذکیر ہے تو فقط امالہ کر کے جمع بناتے ہیں ، جیسے : ’ حوصلہ اور حوصلے ، لڑکا اور لڑکے، اور اگر یہ دونوں حرف آخر میں نہیں ہیں تو مفرد و جمع میں مذکر کے کچھ امتیاز نہیں کرتے ، جیسے : ’ ایک مرد آیا ، کئی مرد آئے ، اور اگر لفظ مؤنث ہے اور آخر میں اس کے کوئی حرفِ علت یا ہائے مختفی نہیں تو ’ ی ، نون سے جمع بناتے ہیں ، جیسے : ’ راہیں ، آنکھیں ، اور اگر آخر میں الف تصغیر ہے تو نون سے جمع بنتی ہے جیسے : لٹیاں ، بڑھیا اور اگر آخر میں ہائے مختفی یا الف اصلی یا واؤ ہے تو ہمزہ ، ی ، نون بڑھا کر جمع بنائیں گے ، جیسے : خالائیں ، بیوائیں ، گھٹائیں ، آرزوئیں ، آبروئیں اور اگر آخر میں ’ ی ، ہے تو اس صورت میں البتہ الف نون کے ساتھ جمع کرتے ہیں ، جیسے : لڑکیاں ، بجلیاں۔
_______
زمانہ سخت کم آزار ہے بجانِ اسد ؔ
وگرنہ ہم تو توقع زیادہ رکھتے ہیں
قسم کھاکے کہتے ہیں کہ زمانہ کے ہاتھ سے جس قدر آزار پہنچتا ہے ، یہ بہت ہی کم ہے وگرنہ ہم اس سے زیادہ ستم سہنے کی آرزو رکھتے ہیں ، سخت کا استعمال بہت کے معنی پر فارسی کا محاورہ ہے ، اُردو میں بہت کم مستعمل ہے۔
_______
دایم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں
خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہوں میں
یعنی اس زندگی سے تو پتھر ہونا بہتر تھا کہ شاید تیرا سنگ در ہونا اور اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ ہمیشہ پتھر کی طرح پڑا تو رہتا ہوں ، لیکن دریا سے دور ہوں میں پتھر نہیں ہوں کہ اس طرح پڑا رہنا گوارا کروں۔
کیوں گردش مدام سے گھبرا نہ جائے دل
انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں
یعنی جو لوگ شراب مدام رکھتے ہیں ، ان کا ساغر ہمیشہ دور میں رہتا ہے تو وہ تباہی ہے اسی واسطے میں انسان ہوں میرے لئے یہ گردش مدام کیسی ہے۔
یارب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لئے
لوحِ جہاں پر حرفِ مکرر نہیں ہوں میں
مضمون تو یہ ہے کہ اپنے مٹنے کو حرفِ غلط کے مٹنے سے تشبیہ دی ہے ، لیکن اگر یوں کہتے کہ زمانہ مجھے حرفِ غلط کی طرح مٹائے دیتا ہے تو اس قدر بلیغ نہ ہوتا جس قدر کہ اب بلیغ ہے اور بلاغت کی وجہ زیادتی معنی ہے ، یعنی اب اتنے معنی اور بڑھے ہوئے ہیں کہ باوجود یہ کہ میں حرفِ مکرر نہیں ہوں اور کوئی وجہ میرے مٹانے کی نہیں ہے ، زمانہ مجھے مٹارہا ہے ،اس شعر سے یہ نکتہ سمجھنا چاہئے کہ ایک تشبیہ مبتذل میں زیادتی معنی پیدا کرنے کا کیا طریقہ ہے اور پھر زیادتی معنی سے کس قدر بلاغت بڑھ جاتی ہے۔
حد چاہئے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گناہ گار ہوں کافر نہیں ہوں میں
لفظ ’ کافر ، میں اہل زبان ’ ف ، کو زیر پڑھتے ہیں ، لیکن عجم کا محاورہ زبر ہے ، اسی سبب سے اس کو ساغر کے ساتھ قافیہ کرتے ہیں ، ایک یہ لفظ اور ایک لفظ ظاہر کو قاآنی نے ساغر کے ساتھ قافیہ کیا ہے اور ردی یعنی ’ رے ، متحرک ہے اور اسی طرح ایک شعر یہ مشہور ہے :
آدمی را آدمیت لازم است
عود را گر بونباشد ہیزم است
اس شعر میں بھی میم جو کہ حرف ردی متحرک ہے ، اس سے یہ استنباط نہ کرنا چاہئے کہ جہاں ردی متحرک ہو جائے وہاں اختلاف توجیہ یعنی حرکت ماقبل ردی کا اختلاف دُرست ہے اور یہ بھی خیال نہ کرنا چاہئے کہ ضرورت قافیہ کے لئے مکسور کو مفتوح کر لینا دُرست ہو گا ، بلکہ یہی الفاظ مخصوص سمجھنا چاہئے ، اس حکم کے لئے سزا و عقوبت کے معنی ایک ہی ہیں ، اس تکرار کے سبب سے پہلا مصرع سست ہو گیا ہے۔
کس واسطے عزیز نہیں جانتے مجھے
لعل و زمرد و زر و گوہر نہیں ہوں میں
حضرت ؐکی طرف خطاب ہے اور معنی یہ ہیں کہ زر و گوہر و بال دُنیا کو آپ عزیز نہیں جانتے تھے کیا اُسی طرح مجھ کو بھی سمجھتے ہیں تو میں در و گوہر نہیں ہوں۔
رکھتے ہو تم قدم مری آنکھوں سے کیوں دریغ
رتبہ میں مہر و ماہ سے کمتر نہیں ہوں میں
کرتے ہو مجھ کو منع قدم بوس کس لئے
کیا آسمان کے بھی برابر نہیں ہوں میں
ان دونوں شعروں میں بھی صاحبِ معراج کی طرف خطاب ہے۔
غالب ؔ وظیفہ خوار ہو دوشاہ کو دُعا
وہ دن گئے کہ کہتے تھے نوکر نہیں ہوں میں
دیکھو ادائے شکر کا ایک پہلو یہ بھی ہے۔
_______
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی جو پنہاں ہو گئیں
دوسرا مصرع اصل میں یوں ہے کہ کیا صورتیں ہوں گی کہ خاک میں پنہاں ہو گئیں ، ضرورتِ شعر کے لئے متعلق اور اس کے فعل میں اجنبی کو فاعل لائے ، مطلب یہ ہے کہ لالہ و گل انھیں حسینوں کی خاک ہے ، جو خاک میں مل گئے۔
یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں
لیکن اب نقش و نگارِ طاق نسیاں ہو گئیں
اس شعر میں ’ بھی ، کا لفظ دیکھنے کاہے یہ دو حرف کا لفظ اگر اس شعر سے نکال ڈالا جائے تو کس قدر معنی شعر میں کمی ہو جاتی ہے اور اس ایک لفظ سے کتنے معنی زائد کی طرف اشارہ نکلتا ہے ، وہ معنی زائد یہ ہیں کہ جس طرح تم لوگ رنگارنگ جلسہ کیا کرتے ہو ، کبھی ہم کو بھی ان صحبتوں کا شوق تھا ، لیکن اب ہمارا حال دیکھ کر تم کو عبرت کرنا چاہئے کہ شباب کو قیام نہیں ہے۔
تھیں بنات النعش گردوں دن کو پردہ میں نہاں
شب کو اُن کے جی میں کیا آئی جو عریاں ہو گئیں
تاروں کے کھلنے کی کیفیت بیان کرتے ہیں اور اس کو عریاں ہو جانے سے تعبیر کیا ہے ، بنات النعش اتر کی طرف سات ستارے ہیں ، چار ستارے اُن میں سے جنازہ ہیں اور تین جنازہ کے اُٹھانے والے ہیں بنات کی لفظ سے یہ دھوکا نہ کھانا چاہئے کہ عرب ان کو لڑکیاں سمجھتے ہیں ، بلکہ بات یہ ہے کہ جنازہ اُٹھانے والے کو عرب ابن النعش کہتے ہیں اور ابن النعش کی جمع بنات النعش اُن کے محاورہ میں ہے جس طرح ابن آدمی اور ابن العرس جب جمع کریں گے بنات آدم اور بنات العرس کہیں گے ، اسی طرح بہوٹی کو مثلاً ابن المطر کہیں گے اور اس کی جمع بنات المطر بنائیں گے اور عربی میں یہ ضابطہ کلیہ ہے ، ایسی بہت سی لفظیں ہیں اور اُن کے جمع کا بھی یہی خاص طریقہ ہے ، لیکن بدرؔ چاج نے بھی اس لفظ میں تسامح کیا ہے ، کہتے ہیں :
درسیات گاہِ قہرش برفضائے کائنات
قطب را دایم جنازہ برسرسہ دختر است
قید میں یعقوب نے لی گو نہ یوسف کی خبر
لیکن آنکھیں روزنِ دیوارِ زنداں ہو گئیں
یعنی روزن کی طرح بے نور ہو گئیں۔
سب رقیبوں سے ہوں ناخوش پر زنانِ مصر سے
ہے زلیخا خوش کہ محوِ ماہِ کنعاں ہو گئیں
’سب ، سے رقیب نہیں مراد ہیں ، بلکہ سب عشاق مراد ہے ، یعنی سب عشاق رقیبوں سے ناخوش ہوں ، لیکن زلیخا زنانِ مصر کی محویت سے خوش ہے کہ مجھ پر تو شماتت کرتی تھی ، خود کیسا حسن کنعانی پر محو ہوکر ہاتھ کاٹ کر بیٹھ رہیں۔
جوئے خوں آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شامِ فراق
میں یہ سمجھوں گا کہ شمعیں دو فروزاں ہو گئیں
یعنی شب تارِ فراق میں جو آنکھوں میں خون اُترے گا تو میں سمجھوں گا دو چراغ اندھیرے میں روشن ہو گئے اور یہ باعثِ تسکین ہو گا میرے لئے۔
ان پری زادوں سے لیں گے خلد میں ہم انتقام
قدرت حق سے یہی حوریں اگر واں ہو گئیں
اس شعر میں ’ ہو گئیں ، کا لفظ جو ہے اس کی ضمیر پری زادوں کی طرف پھرتی ہے ، اس سے ظاہر ہے کہ پری زادوں سے عورتیں مراد ہیں ، جیسا خواجہ حافظ فرماتے ہیں :
فغاں دیں لولیانِ شوخ و شیریں کار و شہر آشوب
چناں بردند صبر ازدل کہ ترکاں خوان یغمارا
حالاں کہ فارسی و اُردو میں غزل کے اُصول جو قائم ہوئے ہیں ، بموجب ان کے مرد ہی عاشق اور مرد ہی معشوق ہونا چاہئے اور معشوق کی نسبت مؤنث کے صیغوں کا استعمال کرنا بھی نہیں دُرست بلکہ وہ پری آیا اور وہ حور آیا ہے ، تکلف سب نظم کرتے ہیں۔ میرؔ نے تو اس باب میں ایسی افراط کی ہے کہ جابجا اُن دیوان میں دلی کے لونڈے بھرے ہوئے ہیں ، لکھنؤ کے شعراء جو کہ انھیں کے فیض یاب تھے ، انھوں نے بھی اس قاعدہ کو مسلم سمجھا ، لیکن کسی قدر اصلاح کی یعنی چوٹی اور افشاں اور مسی اور کاجل اور محرم اور کرتی اور دوپٹہ اور آنچل وغیرہ کے مضمون کہنا شروع کئے ، لیکن صیغے مذکر ہی کے استعمال کئے مگر جن لوگوں میں فارسی یا اُردو کے شعرائے قدما کا مذاق پیدا ہو گیا ہے ، وہ چوٹی اور آنچل وغیرہ جو جو لفظ کہ عورتوں کے ساتھ مخصوص ہیں ، ان کے استعمال کو اب بھی مکروہ سمجھتے ہیں اور پھر میرؔ صاحب نے جیسے افراط کی ہے ، اُس کو بھی پسند نہیں کرتے اور چاہتے ہیں معشوق مبہم رہے اور بے شک یہ اچھا طریقہ ہے مگر یہ خیال رکھنا چاہئے کہ حضرت ؐ کے سامنے کعب بن زہیر نے جو قصیدہ پڑھا ہے ، اس میں وہ کہتے ہیں :
ہیفاء مقبلۃ عجزاء مدبرۃ
لایشتکی منہا قصر و لاطول
یعنی سامنے سے اُسے دیکھو تو چھریری اور نازنیں ہے اور پچھادے کو اس کے دیکھو تو بزرگ سرین ہے اور اس کا قد نہ پست ہے نہ بہت دراز ہے اور سید رضی کہتے ہیں :
ہیفاء ان قال الشباب لہا انہضی
قالت روا دفہا اتعدیٰ وتمہلیٰ
وہ ایسی نازنیں ہے کہ اگر جوش شباب کہے کہ ذرا اُٹھ تو کمر کولے کہیں بیٹھ بھی کہا جائے گی۔
واذا سلت الوصل قال جمالہا
جودی وقال دلالہا لاتفعلی
اور جب سوال وصل کروں تو جمال کہے کہ مان بھی جا اور غمزہ سکھائے کہ ہرگز نہ ماننا۔ اسی قسم کا ایک شعر یہ ہے :
ابت الرواوف والنہود لقمیصہا
من ان تمس ظہورہا وبطونہا
اُس کے کولوں کے اور سینہ کے اُبھارنے قمیص کو شکم و پست سے لپٹنے نہ دیا اور نابغہ کہتا ہے :
واذا لمست لمست اجثم جاثما
متخیرا متخیرا بمکانہ بل الید
واذا طعنت طعنت نے مستہدف
رابی المحبسۃ باتعبیر مقرند
واذا نرغت نرغت عن مستحصف
نزع الخر وربالرشیاء المحصد
اور عرب کے کلام میں ایسے بہت شعر ہیں اور یہی شعر بیاض انتخاب میں گل سرسبد ہیں ، لیکن فارسی میں یہ بات نہیں اور اُردو پر فارسی کا بہت اثر پڑا ہے ، محض اس وجہ سے مصنف کے اس شعر میں اعتراض کی بے شک گنجائش ہے۔
_______
نیند اُس کی دماغ اُس کاہے راتیں اُس کی ہیں
تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئیں
زلفوں کے پریشان ہونے سے کنایہ کیا ہے جوش اختلاط و کثرت بوس و کنار کی طرف اس میں شک نہیں کہ یہ شعر بیت الغزل ہے اور کارنامہ۔
میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھل گیا
بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواہ ہو گئیں
یعنی بلبلیں غزلیں پڑھنے لگیں جس طرح مکتب میں سبق پڑھتے ہیں ، بلبل کا قاعدہ ہے کہ خوش آواز کو سن کر زمزمہ کرتی ہے۔
وہ نگاہیں کیوں ہوئی جاتی ہیں یارب دل کے پار
جو مری کوتاہی قسمت سے مژگاں ہو گئیں
مژگاں ہو جانے سے مراد یہ ہے کہ اس قدر میری طرف سے اُس کی نگاہیں کوتاہ ہیں ، گویا مژگاں ہو گئیں مگر باوجود اس کوتاہی کے دل سے پار ہوئی جاتی ہیں۔
بسکہ روکا میں نے اور سینہ میں اُبھریں پے بہ پے
میری آہیں بخیۂ چاکِ گریباں ہو گئیں
اس شعر میں آہ کے بار بار اُبھرنے کو اور بار بار ضبط کرنے کو رشتۂ بخیہ گر کی حرکت سے تشبیہ دی ہے یعنی متحرک سے تشبیہ ہے اور وجہ شبہ حرکت ہے ، لیکن آہ کے لئے ایسی حرکت محض ادعائے شاعرانہ ہے ، اس سبب سے یہ تشبیہ ویسی بدیع نہیں ہے جیسے اور شعر تشبیہ متحرک کے گذر چکے ہیں اور باعتبارِ مضمون کے شعر بے معنی ہے ، فارسی و اُردو کے شعراء آنکھ بند کر کے ایسے مضمون کہا کرتے ہیں یہاں بخیہ اور سینہ میں جو ضلع بول گئے ہیں لطف سے خالی نہیں۔
واں گیا بھی میں تو ان کی گالیوں کا کیا جواب
یاد تھیں جتنی دُعائیں صرفِ درباں ہو گئیں
یعنی جس قدر دُعائیں مجھے دینا آتا تھا وہ سب دُعائیں دربان ہی کو دے چکا۔
جاں فزا ہے بادہ جس کے ہاتھ میں جام آگیا
سب لکیریں ہاتھ کی گویا رگِ جاں ہو گئیں
گویا کا لفظ اکثر اشعار میں بھرتی کا ہوا کرتا ہے ، لیکن اس شعر میں ایسا نہیں ہے یہاں سے اگر یہ لفظ نکال ڈالا جائے تو مبالغہ حدِ امکان سے تجاوز کرجائے اور مطلب یہ ہوکہ لکیریں سچ مچ رگِ جاں بن گئیں اور قواعدِ بلاغت میں ایسا مبالغہ جو حدِ امکان سے بڑھ جائے ، اُسے غیرممدوح سمجھتے ہیں ، لیکن اکثر شعراء اس زمانہ میں بے تکلف ایسے مبالغہ اور اغراق کو کہا کرتے ہیں ، بلکہ اُسے صنعت سمجھتے ہیں ، مصنف نے یہاں مبالغہ کے گھٹانے کے لئے ’ گویا ، کا لفظ صرف کیا ہے جو کہ ظن و تخمین و اشتباہ پر دلالت کرتا ہے ، نہیں تو مصرع یوں پورا ہو سکتا تھا : سب لکیریں ہاتھ کی اس کے رگِ جاں ہو گئیں۔
ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترکِ رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں
ہم موحد ہیں ، یعنی وحدتِ مبدأ کے قائل ہیں اور اس کی ذات کو واحد سمجھتے ہیں اور واحد وہ جس میں نہ تو اجزائے مقداری ہوں جیسے طول و عرض وغیرہ اور نہ اجزائے ترکیبی ہوں جیسے ہیولیٰ و صورۃ اور نہ اجزائے ذہنی ہوں جیسے : جنس و فصل غرض کہ اس کا علم محض سلبیات کے ذریعہ سے حاصل ہے جیسے کہیں کہ اس کا شریک نہیں ہے وہ جسم نہیں ہے وہ متحیز نہیں ہے ، وہ مرئی نہیں ہے ، وہ عاجز نہیں ہے ، وہ جاہل نہیں ہے ، وہ حارث نہیں ہے ، وہ علت موجبہ نہیں ہے ، یہی سب سلبیات کہ ان کے اعتقاد سے اور سب ملتیں باطل اور محو ہو جاتی ہیں ، عین اجزائے توحید ہیں۔
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
یعنی اتنی مشکلیں مجھ پر پڑیں کہ میں خوگر ہو گیا ، پھر مشکل مجھے مشکل نہ معلوم ہوئی۔
یوں ہی گر روتا رہا غالب ؔ تو اے اہل جہاں
دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں
یا یہ سمجھو کہ رونے کی تاثیر سے ویرانی ہوئی یا یوں سمجھو کہ سیلابِ اشک نے ویران کر دیا ، لیکن یہ دوسرا پہلو روندا ہوا مضمون ہے اور مبتذل ہے۔
_______
دیوانگی سے دوش پہ زنار بھی نہیں
یعنی ہماری جیب میں اک تار بھی نہیں
کہتے ہیں طرفہ دیوانگی یہ ہے کہ ایک تار بھی گریبان میں نہ چھوڑا کہ وہ بجائے زنار ہوتا اور کیش صنم پرستی کے خلاف نہ ہوتا۔
دل کو نیاز حسرتِ دیدار کرچکے
دیکھا تو ہم میں طاقتِ دیدار بھی نہیں
یعنی حسرتِ دیدار کے پیچھے جب دل کو مٹاچکے ، اس کے بعد جو خیال کیا تو آپ میں طاقت و تابِ دیدار بھی نہ پائی ’ دیکھا ، یہاں افعالِ قلوب میں سے ہے اور دونوں معمولوں سے متعلق ہے۔
ملنا ترا اگر نہیں آساں تو سہل ہے
دُشوار تو یہی ہے کہ دُشوار بھی نہیں
اُسی شئے کے لئے آسان ہونا اور دُشوار ہونا کہتے ہیں جو ممکن الوقوع ہو ، لیکن جو آسان بھی نہ ہو اور دُشوار بھی نہ ہو وہ ممتنع اور ناممکن الوقوع ہے۔
بے عشق عمر کٹ نہیں سکتی ہے اور یہاں
طاقت بقدرِ لذتِ آزار بھی نہیں
یعنی عشق میں آزار ضرور ہے اور آزار کی لذت اُٹھانے کے لئے تاب و طاقت نہیں ہے۔
شوریدگی کے ہاتھ سے ہے سر و بال دوش
صحرا میں اے خدا کوئی دیوار بھی نہیں
دیوار ہوتی تو سر کو پھوڑکر اس وبال سے نجات پاتے۔
گنجائش عداوتِ اغیار اک طرف
ہاں دل میں ضعف سے ہوس یار بھی نہیں
یعنی دل کو ضعف سے وہ افسردگی ہے کہ گنجائش عداوتِ اغیار کا ذکر ہوس یار تک نہیں سماتی۔
ڈرنا لہائے زار سے میرے خدا کو مان
آخر نوائے مرغِ گرفتار بھی نہیں
یعنی یہ نالہ آخر نالہ ہے طیور کی یہ نوحہ گری تھوڑی ہے کہ کچھ اثر نہ ہو۔
دل میں ہے یار کی صفِ مژگاں سے روکشی
حال آں کہ طاقتِ خلش یار بھی نہیں
حال تو یہ ہے کہ خلش خار کی بھی طاقت نہیں اور پھر کاوش مژگاں سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ دل میں موجود ہے۔
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
’ اور ، اس شعر میں حالیہ ہے اور لڑنے میں اختلاط سے ہاتھا پائی کرنا مراد ہے۔
دیکھا اسد ؔکو خلوت و جلوت میں بارہا
دیوانہ گر نہیں ہے تو ہشیار بھی نہیں
مقام اس کلام کا یہ ہے جیسے مخاطب کو اس کے دیوانہ ہونے کا یقین نہیں ہے ، یہ اُس کا رد کرنا ہے۔
_______
نہیں ہے زخم کوئی بخیہ کے درخور مرے تن میں
ہوا ہے تارِ اشکِ یاس رشتہ چشم سوزن میں
یعنی زخم کے سینہ سے سوزن کو یاس ہوئی تو رشتہ اس کا تار اشک یاس بن گیا۔
ہوئی ہے مانع ذوقِ تماشا خانہ ویرانی
کفِ سیلاب باقی ہے برنگ پنبہ روزن میں
روزن میں پنبہ ہونا جھانکنے کو مانع ہوتا ہے اور یہ پنبہ اُسی سیلاب کا کف ہے ، جس سے خانہ ویرانی ہوئی ، اس سبب سے خانہ ویرانی مانع تماشہ ہے ، یعنی مسبب کو سبب قرار دیا اور فصحا ایسا بہت کرتے ہیں۔
ودیعت خانۂ بیدادِ کاوشہائے مژگاں ہوں
نگین نام شاہد ہے مرے ہر قطرۂ خوں تن میں
یعنی ہر قطرۂ خون میرے تن میں ایک نگینہ ہے جس پر سوزن مژگاں نے معشوق کا نام کھود دیا ہے اور میں ان سب نگینوں کا جواہر خانہ ہوں یا امانت خانہ ہوں ، ہر ہر قطرہ پر اُس کے نام کی مہر کی ہوئی ہے۔
بیاں کس سے ہو ظلمت گستری مرے شبستاں کی
شب مہ ہو جو رکھ دیں پنبہ دیواروں کے روزن میں
یعنی پنبۂ روزن میرے سیہ خانہ میں چاند معلوم ہو۔
نکوہش مانع بے ربطی شورِ جنوں آئی
ہوا ہے خندۂ احباب بخیہ جیب و دامن میں
ملامتِ احباب میرے جوشِ جنوں کو مانع ہوئی ، گویا خندۂ احباب بخیۂ گریاں ہو گیا ، لیکن خندہ سے خندۂ دنداں نما مقصود ہے تاکہ اُسے بخیہ سے مشابہت ہو جائے۔
ہوئے اُس مہر وش کے جلوۂ تمثال کے آگے
پر افشاں جوہر آئینہ میں مثل ذرۂ روزن میں
’ ہوئے ، کا اسم جوہر ہے اور خبر پرافشاں ہے ، غرض یہ ہے کہ جس طرح آفتاب کی شعاع پڑنے سے روزن میں ذرہ پرافشاں ہوتے ہیں ، اسی طرح اُس مہروش کے عکس رُخ سے آئینہ میں جوہر پرافشاں ہیں۔
نہ جانوں نیک ہوں باندھوں پر صحبت مخالف ہے
جو گل ہوں تو ہوں گلخن میں جو خس ہوں تو ہوں گلشن میں
یعنی گل کے لئے گلشن میں بہار ہے اور خس کے لئے گلخن میں رونق بازار ہے ، اگر گل گلخن میں ہے تو بیکار ہے اور اگر خس گلشن میں ہے تو بار ہے اور صحبتِ مخالف میں یہی میرا حال ہے۔
ہزاروں دل دئیے جوشِ جنونِ عشق نے ہم کو
سیاہ ہوکر سویدا ہو گیا ہر قطرۂ خون تن میں
ہر قطرۂ خوں سویدا بن گیا اور سویدا دل میں ہوتا ہے ، تو گویا جوشِ جنوں کی بدولت ہزاروں دل مجھے مل گئے۔
اسد ؔ زندانی تاثیر اُلفتہائے خوباں ہوں
خم دست نوازش ہو گیا ہے طوق گردن میں
یعنی معشوقوں نے نوازش مہربانی سے جو میرے گلے میں باہیں ڈالیں تو وہ میرے لئے طوق بن گئیں اور مجھے اسیر کر لیا اور اُس کی تاثیر نوازش میرے حق میں زنداں ہو گئیں ، ورنہ درحقیقت نہ زنداں ہے ، نہ طوق ہے۔
_______
مزے جہان کے اپنی نظر میں خاک نہیں
سوائے خونِ جگر سو جگر میں خاک نہیں
دُنیا کے کھانے پینے میں خاک بھی مزہ نہیں ، ہاں خونِ جگر پینے میں البتہ لذت ہے تو جگر میں خون ہی نہیں ’ سو ، کا استعمال اب ترک ہوتا جاتا ہے۔
مگر غبار ہوئے پر ہوا اُڑا لے جائے
وگرنہ تاب و تواں بال و پر میں خاک نہیں
مگر بمعنی شاید ہے ، غبار و خاک کا تناسب حسن دے رہا ہے۔
یہ کس بہشتِ شمائل کی آمد آمد ہے
کہ غیر جلوۂ گل رہ گذر میں خاک نہیں
یعنی رہ گذر میں خاک نہیں ہے جلوۂ گل ہے۔
بھلا اُسے نہ سہی کچھ مجھی کو رحم آتا
اثر مرے نفس بے اثر میں خاک نہیں
نفس کو بے اثر کہہ کر پھر کہنا کہ اثر نہیں ، باعتبار معنی کے اس کی تاویل مشکل ہے ، لیکن محاورہ میں ٹھیک ہے ، جیسے میں قتل قتیلا فلہ سلیہ اس مضمون کو مصرع لگا کر مصنف نے تازہ کر لیا۔
خیال جلوۂ گل سے خراب ہیں میکش
شراب خانہ کے دیوار و در میں خاک نہیں
یعنی نشہ کی کرامات سے آنکھوں میں سرسوں پھولی ہے وگرنہ شراب خانہ میں کیا ہے۔
ہواں ہوں عشق کی غارت گری سے شرمندہ
سوائے حسرتِ تعمیر گھر میں خاک نہیں
شرمندگی کی وجہ یہ ہے کہ جب کچھ بھی نہیں تو عشق غارت کیا کرے گا۔
ہمارے شعر ہیں اب صرف دل لگی کے اسدؔ
کھلا کہ فائدۂ عرضِ ہنر میں خاک نہیں
’ کھلا ، کے فاعل کا حذف اس نظیر کے سبب سے شاید شعر میں دُرست ہو جائے تو ہو جائے ، ورنہ محاورہ تو یہ ہے کہ یہ حال کھلا ، بولنے میں کبھی لفظ حال کو حذف نہیں کرتے۔
_______
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں
جیسے کوئی ستم زدہ ہے کہ معشوق اس سے کہتا ہے کہ ہم ظلم کریں تو اُف نہ کر اور ’ کوئی ، کا لفظ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خفگی میں اُسے قابل خطاب نہیں سمجھتے۔
دیر نہیں حرم نہیں در نہیں آستاں نہیں
بیٹھے ہیں رہ گذر پہ ہم غیر ہمیں اُٹھائے کیوں
اس شعر کی تعریف کے لئے الفاظ نہیں مل سکتے۔
جب وہ جمال دل فروز صورت مہر نیم روز
آپ ہی ہو نظارہ سوز پردہ میں منہ چھپائے کیوں
یعنی وہ پردہ میں چھپا ہوا نہیں ہے بلکہ آشکار ہے اور اس کے کثرتِ ظہور سے فکر و نظر اُس کا احاطہ نہیں کر سکتی ، جس طرح آفتاب کے کثرتِ نور سے نگاہ قاصر ہے۔
دشنہ غمزۂ جاں ستاں ناوکِ ناز بے پناہ
تیرا ہی عکس رُخ سہی سامنے تیرے آئے کیوں
سبب یہ ہے کہ تیرے سامنے ہی کسی کا آنا نہیں اچھا ، کوئی غیر آیا تو مارا پڑا خود عکس تیرا اگر آئینہ میں بھی دشنہ و ناوک لئے ہوئے تیرے سامنے آیا تو تیرا کیا حال ہو گا۔
قید حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
یعنی حیات و غم ایک ہی چیز کا نام ہے پھر حیات میں غم و الم کا زوال سلب شئے عن نفسہٖ محال ہے۔
حسن اور اس پہ حسن ظن رہ گئی بوالہوس کی شرم
اپنے پہ اعتماد ہے غیر کو آزمائے کیوں
یعنی رقیب بوالہوس نے جو اظہارِ عشق کیا تو بے امتحان کئے اُسے یقین آگیا اس سبب سے کہ ایک تو حسن ہی خدا نے دیا ہے ، دوسرے حسن ظن بھی ہے یعنی جانتا ہے کہ وہ کون ہو گا جو مجھے نہ چاہے گا غرض کہ اپنے حسن پہ اعتماد ہے پھر رقیب کو کیوں آزمانے لگا ، اُسی میں اُس کی شرم رہ گئی
واں وہ غرورِ عزو نازیاں یہ حجابِ پاس وضع
راہ میں ہم ملیں کہاں بزم میں وہ بلائے کیوں
لف و نشر مرتب ہے۔
ہاں وہ نہیں خدا پرست جادۂ بے وفا سہی
جس کو ہو دین و دل عزیز اُس کی گلی میں جائے کیوں
معشوق کی پرچک لی ہے کہ چلو اُسے خوفِ خدا نہیں نہ سہی تم بے وفا سمجھتے ہو اچھا بے وفا ہی سہی ، پھر اُس کی گلی میں کیوں جاؤ۔ یہ شعر بھی بیت الغزل ہے اس زمین میں اس معاملہ کی طرف اشارہ ہے کہ لوگ سمجھا رہے ہیں اور یہ ان کی بات کاٹ رہے ہیں۔
غالبؔ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
روئیے زار زار کیا کیجئے ہائے ہائے کیوں
شاعر مرنے کے بعد اپنے احباب کو تسکین دیتا ہے زبانِ حامل سے۔
_______
غنچۂ ناشگفتہ کو دُور سے مت دکھا کہ یوں
بوسہ کو پوچھتا ہوں میں منہ سے مجھے بتا کہ یوں
یعنی میں نے جو پوچھا کہ بوسہ کیوں کر لیتے ہیں تو تم نے غنچۂ ناشگفتہ کو دُور سے دکھادیا کہ دیکھ بوسہ لینے کی یہ صورت ہے یہ نہیں کہ پاس آ کر اپنے منہ سے لے کر بتاؤ کہ یوں لیتے ہیں۔
پرسش طرزِ دلبری کیجئے کیا کہ بن کہے
اُس کے ہر اک اشارہ سے نکلے ہے یہ ادا کہ یوں
میں اُس سے دل لینے کے طرز کو کیا پوچھوں بن پوچھے ہر اشارہ اُس کا کہہ رہا ہے کہ دیکھ دل یوں لے لیتے ہیں۔
رات کے وقت مے پئے ساتھ رقیب کو لئے
آئے وہ یاں خدا کرے پر نہ کرے خدا کہ یوں
خدا کرے کہ وہ آئے لیکن خدا نہ کرے کہ یوں آئے کہ رات کے وقت مے پئے آلخ۔ اس شعر کی بندش میں تعقید ہے مگر یہ زمین ہی ایسی ہے ’ مے پئے ، اور ’ ساتھ ، لئے حال ہے اصل میں مے پئے ہوئے اور رقیب کو ساتھ لئے ہوئے تھا ’ ہوئے ، کا لفظ اکثر ترک کرتے ہیں۔
غیر سے رات کیا بنی یہ جو کہا تو دیکھئے
سامنے آن بیٹھنا اور یہ دیکھنا کہ یوں
’ یوں ، کے لفظ میں مصنف نے دو معنی رکھے ہیں ایک تویہ کہ میرے اس سوال پر اُس کا سامنے آبیٹھنا اور غصہ کی نگاہ سے میری طرف دیکھنا دیکھئے کہ یوں تم گستاخی کرنے لگے اور دوسرے معنی یہ ہیں کہ میرے اس سوال پر ذرا دیکھنا اُس کا سامنے آبیٹھنا اور ذرا دیکھنا کہ یوں ڈھٹائی سے سامنے آن بیٹھنا۔ اکثر معتبر لوگوں نے آن کے لفظ کو ترک کر دیا ہے آن کر کے بدلے آ کر اور آن بیٹھنا کے مقام پر آ بیٹھنا فصیح سمجھتے ہیں ، دلیل اُن کی یہ ہے کہ آنا جانا ، کھانا پینا وغیرہ بہت سے الفاظ ہیں اُن میں ، نہ علامت مصدر ہے اور جب فعل اُن سے مشتق ہوتا ہے تو کہتے ہیں پا کر ، کھا کر ، جا کر اسی طرح آ کر یہی ہونا چاہئے ، اس میں نون کہاں سے آگیا نون اگر تھا تو علامت مصدر تھا وہ فعل میں کیوں باقی رہنے لگا لیکن تمام فصحا کی زبان پر آن کا لفظ ہے اور محاورہ میں قیاس نحوی کو کوئی دخل نہیں۔
بزم میں اُس کے روبرو کیوں نہ خموش بیٹھئے
اُس کی تو خاموشی میں بھی ہے یہی مدعا کہ یوں
یعنی یوں نہیں تم بھی خاموش بیٹھو۔
میں نے کہا کہ بزم ناز چاہئے غیر سے تہی
سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اُٹھادیا کہ یوں
یعنی لے اب محفل خالی ہو گئی۔
مجھ سے کہا جو یار نے جاتے ہیں ہوش کس طرح
دیکھ کے میری بے خودی چلنے لگی ہوا کہ یوں
یعنی دیکھ ہوش اس طرح اُڑتے ہیں۔
کب مجھے کوئے یار میں رہنے کی وضع یاد تھی
آئینہ دار بن گئی حیرتِ نقش پا کہ یوں
نقش پا نے مجھے دکھادیا کہ اس طرح خاک میں مل کر اور جلوہ حسن سے حیرت زدہ ہوکر کوچۂ معشوق میں رہنا چاہئے۔
گر ترے دل میں ہو خیال وصل میں شوق کا زوال
موج محیط آب میں مارے ہے دست و پا کہ یوں
یعنی اگر تجھے یہ خیال ہو کہ مبدأ حقیقی تک پہنچ کر کیوں کر زوال شوق ہو جائے گا اور کس طرح اتحاد پیدا ہو جائے گا تو موج محیط کو دیکھ وہ بتارہی ہے کہ اس طرح دست و پا مارتے مارتے آخر اتحاد ہو جاتا ہے جو کہ مرتبہ اطمینان و سکون کاہے۔
جو یہ کہے کہ ریختہ کیوں کہ ہو رشکِ فارسی
گفتہ غالبؔ ایک بار پڑھ کے اُسے سنا کہ یوں
کیوں کر کہ مقام پر کیوں کہ اب ترک ہو گیا۔
_______
حسد سے دل اگر افسردہ ہے گرم تماشا ہو
کہ چشم تنگ شاید کثرت نظارہ سے وا ہو
تنگ چشم ہونا حاسد کی صفات میں سے ہے اور ’ گرم تماشا ہو ، یعنی دُنیا کو دیکھ حاصل یہ کہ تجربہ کے بعد تجھے معلوم ہو جائے گا کہ حسد کرنا بے جا ہے ، دُنیا میں دولت کے لئے کوئی سبب نہیں درکار ہے ، ہر جگہ یہی حال ہے۔
بقدرِ حسرت دل چاہئے ذوقِ معاصی بھی
بھروں اک گوشۂ داماں گر آب ہفت دریا ہو
فارسی کی اصطلاح ہے کہ عاصی کو تر دامن کہتے ہیں اور آب ہفت دریا سے کثرت معاصی کا استعارہ ہے۔
اگر وہ سرو قد گرم خرام ناز آجائے
کفِ ہر خاکِ گلشن شکل قمری نالہ فرسا ہو
کف ہر خاک یعنی ہر کف خاک قمری بن جائے ، اس سبب سے کہ قمری کا رنگ خاکستری ہے۔
_______
کعبہ میں جارہا تو نہ دو طعنہ کیا کہیں
بھولا ہوں حق صحبت اہل کنشت کو
کعبہ گیا تو کیا ہوا کیا کہیں بت کدہ کو میں بھولنے والا ہوں۔
طاعت میں تار ہے نہ مے وانگبیں کی لاگ
دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو
یعنی بہشت میں جو شہدا اور شراب کی نہریں ہیں اُس کی طمع میں عبادت کی تو کیا ایسی جنت گئی جہنم میں۔
ہوں منحرف نہ کیوں رہ و رسم ثواب سے
ٹیڑھا لگا ہے قط قلم سر نوشت کو
یعنی اپنے مقدر ہی میں یہ ہے کہ راہِ ثواب سے منحرف رہیں۔
غالبؔ کچھ اپنی سعی سے لہنا نہیں مجھے
خرمن جلے اگر نہ ملخ کھائے کشت کو
مقام شکایت میں ریاضت کے ثمرہ کو لہنا کہتے ہیں۔
_______
وارستہ اس سے ہیں کہ محبت ہی کیوں نہ ہو
کیجئے ہمارے ساتھ عداوت ہی کیوں نہ ہو
ہم اس خیال سے آزاد ہیں کہ تم سے ضد کریں کہ محبت ہی ہم سے کرو تم اگر محبت نہیں کرتے تو عداوت ہی کرو لیکن مجھی سے کرو غیر کی شرکت عداوت میں بھی ناگوار ہے۔
چھوڑا نہ مجھ میں ضعف نے رنگ اختلاط کا
ہے دل پہ بارِ نقش محبت ہی کیوں نہ ہو
شدتِ ضعف سے تاب اختلاط مجھ میں نہ رہی کہ نقش محبت تک دل پہ بار ہے۔
رنگ کا لفظ فقط تصویر کے مناسبات سے ہے۔
ہے مجھ کو تجھ سے تذکرۂ غیر کا گلہ
ہر چند برسبیل شکایت ہی کیوں نہ ہو
کہتے ہیں تم نے ہر چند غیر کی شکایت کی لیکن اُس کا ذکر ہی کیوں کیا۔
پیدا ہوئی ہے کہتے ہیں ہر درد کی دوا
یوں ہو تو چارۂ غم اُلفت ہی کیوں نہ ہو
’ یوں ہو ، یعنی لوگوں کا یہ کہنا سچ ہو تو مرض عشق کی چارہ سازی کیوں نہ ہو ، لیکن بیماری عشق کی دوا نہیں پھر کیوں کر یقین مانئے کہ ہر درد کی دوا پیدا ہوئی ہے۔
ڈالا نہ بے کسی نے کسی سے معاملہ
اپنے سے کھینچتا ہوں خجالت ہی کیوں نہ ہو
یعنی بے کسی کا احسان ہے کہ سب کے احسان سے بچایا لوگوں سے کچھ اور نفع نہ ہوتا تو خجالت تو اُن سے ہوتی۔ اب خجالت بھی مجھے ہے تو اپنے ہی سے ہے۔
ہے آدمی بجائے خود اک محشر خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو
یعنی خلوت میں بھی تو تصور و خیالات کا ہنگامہ گرم رہتا ہے وہ کیا انجمن سے کم ہے غرض کہ تخلیہ نفس بہت مشکل ہے اور خطراتِ قلب پر قابو پانا بہت دُشوار ہے ، عارفانہ شعر ہے۔
ہنگامۂ زبونی ہمت ہے انفعال
حاصل نہ کیجئے دہر سے عبرت ہی کیوں نہ ہو
یعنی کسی سے کچھ حاصل کرنا اور احسان لینا باعثِ انفعال ہے اور انفعال زبونی ہمت ہے یہ قیاس منتج ہوتا ہے اس قضیہ کا کہ کسی سے کچھ حاصل کرنا پستیٔہمت کا باعث ہے تو زمانہ سے کچھ نہ حاصل کرنا چاہئے اور کچھ نہیں عبرت ہی کیوں نہ سہی۔
وارستگی بہانۂ بیگانگی نہیں
اپنے سے کر نہ غیر سے وحشت ہی کیوں نہ ہو
یعنی وارستگی اور آزادی اس کا نام نہیں ہے کہ بیگانگی و وحشت کا بہانہ کر لیا اور ہم سمجھے کہ دُنیا آزاد ہو گئے ارے بیگانگی و وحشت بھی کر تو اپنے نفس سے کر نہ غیر سے۔
مٹتا ہے فوت فرصت ہستی کا غم کوئی
عمر عزیز صرف عبادت ہی کیوں نہ ہو
یعنی عبادت کا جو ثمرہ ہے اُس سے اور بڑھ کر انسان حاصل کر سکتا ہے پھر محض عبادت میں اگر مہلت حیات کو صرف کر دیا تو کیوں کر اُس کا غم نہ ہو گا یہ فرصت ہستی عجب موقع ہے کہ پھر نہیں ہاتھ آنے کا۔
اُس فتنہ خو کے در سے اب اُٹھتے نہیں اسدؔ
اس میں ہمارے سر پہ قیامت ہی کیوں نہ ہو
گو قیامت میں سب کا اُٹھنا ضرور ہے لیکن ہم اب نہ اُٹھیں گے ’ اب نہ اُٹھیں گے ، اور ’اب نہیں اُٹھتے ، اس طرح کے فعلوں میں مطلب دونوں فعلوں کا ایک ہی ہوا کرتا ہے لیکن دوسرے فعل میں تاکید بھی نکلتی ہے کہ وہ پہلے میں نہیں ہے۔
_______
قفس میں ہوں اگر اچھا نہ جانیں میرے شیون کو
مرا ہونا برا کیا ہے نو اسنجانِ گلشن کو
یعنی مجھے گرفتار محن اور سرگرم نالہ و شیون دیکھ کر جو لوگ شاد کام ہیں وہ کیوں نفرت مجھ سے کرتے ہیں اُن کا میں کیا لیتا ہوں۔
نہیں گر ہمدمی آساں نہ ہو یہ رشک کیا کم ہے
نہ دی ہوتی خدایا آرزوئے دوست دُشمن کو
یعنی اگرچہ دُشمن کو میرا ہمسر یا دوست کا ہمدم ہونا مشکل ہے لیکن یہ رشک کیا کم ہے میرے لئے کہ وہ بھی آرزوئے دوست رکھتا ہے۔
نہ نکلا آنکھ سے تیری اک آنسو اُس جراحت پر
کیا سینے میں جس نے خونچکاں مژگانِ سوزن کو
سوزن سے سوزنِ غم مراد ہے جس کا مقام سینہ کے اندر ہے اور سوزن سے یہ استعارہ نہ لیں تو شعر عامیانہ ہو جائے گا جیسے نافہم شعراء غیرواقعی باتیں نظم کر دیا کرتے ہیں ہاں اگر سینہ کی جگہ سینا سمجھو تو استعارہ کی ضرورت نہیں۔
خدا شرمائے ہاتھوں کو کہ رکھتے ہیں کشاکش میں
کبھی میرے گریباں کو کبھی جاناں کے دامن کو
یعنی رخصت کے وقت تو اُس کے دامن کو اور فراق کی حالت میں میرے گریبان کو۔
ابھی ہم قتل گہ کو دیکھنا آساں سمجھتے ہیں
نہیں دیکھا شناور جوئے خوں میں میرے توسن کو
معشوق کی خون ریزی میں اغراق کیا ہے کہ حدِ عادت سے خارج ہو گیا ہے۔
ہوا چرچا جو میرے پاؤں کی زنجیر ہلنے کا
کیا بے تاب کاں میں جنبش جوہر نے آہن کو
یعنی میری دیوانگی وہ مرتبہ رکھتی ہے جو کہ آہن کو آرزو ہے کہ زنجیر بن کر مجھ سے شرف یاب ہو۔ لفظ کان میں اعلان نون نہ ہونا یہاں برا معلوم ہوتا ہے۔
خوشی کیا کھیت پر میرے اگر سو بار ابر آوے
سمجھتا ہوں کہ ڈھونڈھے ہے ابھی سے برق خرمن کو
یعنی مراد آنے سے پہلے نامرادی کا سامان ہو جاتا ہے۔
وفاداری بشرطِ استواری اصل ایماں ہے
مرے بت خانہ میں تو کعبہ میں گاڑو برہمن کو
یعنی وفاداری و پائداری ہر حال میں یہاں تک کہ کفر میں بھی قابل قدر ہے۔
شہادت تھی مری قسمت میں جو دی تھی یہ خو مجھ کو
جہاں تلوار کو دیکھا جھکادیتا تھا گردن کو
تلوار استعارہ ہے ناز و ادا جور و جفا سے اور گردن جھکانا کنایہ ہے گوارا کرنے سے اور شہادت سے خون آزاد مراد ہے اور اگر معنی حقیقی پر ان لفظوں کو لیں تو شعر کا کوئی محصل نہیں رہتا۔
نہ لٹتا دن کو تو کب رات کو یوں بے خبر سوتا
رہا کھٹکا نہ چوری کا دُعا دیتا ہوں رہزن کو
یعنی تعلقات دُنیوی تکلف و تشویش سے خالی نہیں جدائی اُس سے ناگوار تو ہوتی ہے لیکن راحت اسی میں ہے۔
سخن کیا کہہ نہیں سکتے کہ جویان جواہر کے
جگر کیا ہم نہیں رکھتے کہ کھودیں جاکے معدن کو
یعنی جگر کاوی کر کے شعر تر نکالنا معدن کو کھودکر جواہر نکالنے سے بہتر ہے۔
مرے شاہ سلیماں جاہ سے نسبت نہیں غالبؔ
فریدون و جم و کیخسرو و داراب و بہمن کو
یعنی یہ سب کفار میں سے ہیں۔
_______
دُھوتا ہوں جب میں پینے کو اُس ستمین کے پانو
رکھتا ہے ضد سے کھینچ کے باہر لگن کے پانو
اس مضمون کو مصنف نے عورتوں کے محاورہ سے نکالا ہے وہ کہتی ہیں خدا کرے تیرا شوہر تیرے تلوے دُھوکر پئے اور پانی وار وار کر پئے یعنی بہت چاہے ورنہ تلوے دُھوکر پینا حقیقت میں کوئی اندازِ محبت نہیں ہے اور اصل اس محاورہ کی یہ معلوم ہوتی ہے کہ ہندوؤں میں برہمن کے پاؤں کو پوجتے ہیں اور اعمال پرسش میں سے یہ بھی ہے کہ اُس کے پاؤں دھوکر پئیں اور اُس دھوون کو متبرک سمجھیں ، عورتیں جو دُعا میں اس محاورہ کو استعمال کرتی ہیں اُس سے غرض یہ ہوتی ہے کہ شوہر تیرا اس قدر چاہے کہ تیری پرستش کرے آج کل کے رسم خط میں پاؤں میں نون واؤ مؤخر سے لکھا جاتا ہے اور یہ غزل اس اعتبار سے نون کی ردیف میں ہونا چاہئے تھی ، لیکن بعض شعرائے دہلی کو اس میں اصرار ہے کہ پاؤں میں نون واؤ سے مقدم ہے مگر قائم کے اس شعر میں عجب طرح سے پاؤں کا لفظ موزوں ہو گیا ہے :
تو کرتا ہے پاؤں سے سر کی تمیز
ہے اپنی جگہ پاؤں سے سر عزیز
اب پہلے مصرع میں اگر پاؤں لکھیں تو موزوں نہیں رہتا۔
دی سادگی سے جان پڑوں کوہکن کے پانؤ
ہیہات کیوں نہ ٹوٹ گئے پیرزن کے پانؤ
کسی کی مصیبت پر جوش محبت میں کہتے ہیں کہ ہے ہے میں اُس کے پاؤں پڑوں اور یہ بڑے محاورہ کا لفظ ہے اور التجا کے لئے تو پاؤں پڑنا مشہور بات ہے اس شعر میں مرزا صاحب ہیہات کا لفظ ضلع کا بول گئے ہیں مگر کیا کرتے مصرع ایک رُکن کم پڑتا تھا۔
بھاگے تھے ہم بہت سو اُسی کی سزا ہے یہ
ہوکر اسیر دابتے ہیں راہزن کے پانؤ
اس شعر کے جو معنی کہ حقیقی ہیں وہ تو شاعر کا کلام نہیں معلوم ہوتے ، ہاں اگر یہ سب باتیں استعارہ سمجھو تو وہ بھی صاف نہیں ہے۔
مرہم کی جستجو میں پھرا ہوں جو دُور دُور
تن سے سوا فگار ہیں اس خستہ تن کے پانؤ
اس شعر میں اور اس سے قبل کے شعر میں مطلب یہ ہے کہ جس خیر سے بھاگتے ہیں ، اُسی کا سامنا ہوتا ہے اور جس آفت کی چارہ جوئی کرتے ہیں اُس میں پھنستے ہیں۔
اللہ رے ذوقِ دشتِ نوردی کہ بعدِ مرگ
ہلتے ہیں خودبخود مرے اندر کفن کے پانؤ
حالتِ ذوق و شوق میں خودبخود پاؤں کا ہلنا خلقتِ فطری بات ہے اور مصنف نے سب سے پہلے اسے نظم کیا ہے۔
ہے جوش گل بہار میں یاں تک کہ ہر طرف
اُڑتے ہوئے اُلجھتے ہیں مرغِ چمن کے پانؤ
یعنی اس قدر نشوونما ہے کہ فضائے جو میں طائروں کے پاؤں رگِ گل میں اُلجھتے ہیں اور پاؤں اُلجھنا کنایہ اس سے بھی ہے کہ باغ پر سے جو طائر گذرتا ہے اُس کا آگے بڑھنے کو جی نہیں چاہتا اور یہیں گر پڑتا ہے۔
شب کو کسی کے خواب میں آیا نہ ہو کہیں
دُکھتے ہیں آج اُس بتِ نازک بدن کے پانؤ
نزاکت کے بیان میں اغراق ہے کہ خواب میں جانے سے پاؤں دُکھتے ہیں۔
غالبؔ مرے کلام میں کیوں کر مزا نہ ہو
پیتا ہوں دُھو کے خسر و شیریں سخن کے پانؤ
شیریں سخن خسرو کے ضلع کا لفظ ہے۔
_______
واں اُس کو ہولِ دل ہے تو یاں میں ہوں شرمسار
یعنی یہ میری آہ کی تاثیر سے نہ ہو
وسواسی و خفقانی ہونا ادائے معشوقانہ ہے۔
اپنے کو دیکھتا نہیں ذوقِ ستم تو دیکھ
آئینہ تاکہ دیدۂ نخچیر سے نہ ہو
جب تک چشم نخچیر کا آئینہ نہ ہو وہ ستمگر آرائش نہیں کرتا اور اپنی صورت نہیں دیکھتا۔
_______
واں پہنچ کر جو غش آتا پیہم ہے ہم کو
صدرہ آہنگِ زمیں بوس قدم ہے ہم کو
یعنی پاؤں کا یہ سلوک دیکھ کر کوچۂ معشوق میں بے آئے اُن کا بوسہ لینے کے لئے مجھے پیہم غش آتا ہے اور غش آنے کی سو صورتیں ہیں ، غرض کہ سو سو طرح سے اپنے قدم کی زمین بوسی کرنے کو جی چاہتا ہے ، لفظِ پیہم باضافت و بلا اضافت دونوں طرح صحیح ہے لیکن اُردو کا محاورہ یہی ہے کہ اس لفظ کو بے اضافت بولتے ہیں ، فارسی عربی کے جتنے لفظ ذو و جہین ہیں ، اُن میں محاورہ اُردو کا اتباع کرنا ضرور ہے ورنہ مخل فصاحت ہو گا۔
دل کو میں اور مجھے دل محوِ وفا رکھتا ہے
کس قدر ذوقِ گرفتاریٔہم ہے ہم کو
یعنی مجھے دل اور میں دل کو چاہتا ہوں کہ گرفتارِ وفا رہے۔
ضعف سے نقش پے مور ہے طوقِ گردن
تیرے کوچہ سے کہاں طاقتِ رم ہے ہم کو
جس ناتواں کے گلے میں ایسا بھاری طوق پڑا ہو ، وہ اپنی جگہ سے کہاں ہل سکتا ہے۔
جان کر کیجئے تغافل کہ کچھ اُمید بھی ہو
یہ نگاہِ غلط انداز تو سم ہے ہم کو
یعنی مجھے اپنا عاشق جان کر تغافل کیجئے تو کچھ رحم آجانے کی اُمید بھی ہو ، لیکن ایسی نگاہ ناآشنا یا نہ تو میرے نئے زہر ہے۔
رشک ہم طرحی و دردِ اثرِ بانگِ حزیں
نالۂ مرغِ سحر تیغِ دو دم ہے ہم کو
ایک باڑھ اس تلوار پر رشک ہم زبانی ہے اور دوسری باڑھ خود اُس کی فریاد کا درد ہے۔
سر اُڑانے کے جو وعدہ کو مکرر چاہا
ہنس کے بولے کہ ترے سر کی قسم ہے ہم کو
یعنی تیرے سر کی قسم تیرا سر اُڑا دیں گے یا یوں سمجھو کہ تیرا سر اُڑانے کی تو قسم ہے ہم کو ، یعنی تیرا سر نہ اُڑائیں گے۔
دل کے خوں کرنے کی کیا وجہ ولیکن ناچار
پاس بے رونقی دیدہ اہم ہے ہم کو
یعنی اشکِ خونیں آنکھوں میں نہ ہونے سے آنکھیں بے رونق رہتی ہیں ، اگر یہ خیال نہ ہوتا تو دل کو خون کرنے کی اور کوئی وجہ نہ تھی۔
تم وہ نازک کہ خموشی کو فغاں ہو کہتے
ہم وہ عاجز کہ تغافل بھی ستم ہے ہم کو
یعنی میں ایسا ناتواں ہوں کہ ستم سے تم نے ہاتھ کھینچ کر تغافل کیا تو میں اسے بھی ستم سمجھا اور تم ایسے نازک ہو کہ فریاد سے میں زبان روک کر خاموش ہورہا تو تم اسے بھی فریاد سمجھے۔
لکھنؤ آنے کا باعث نہیں کھلتا یعنی
ہوس سیر و تماشا سو وہ کم ہے ہم کو
مقطع سلسلۂ شوق نہیں ہے یہ شہر
عزم سیر نجف و طوف حرم ہے ہم کو
لئے جاتی ہے کہیں ایک توقع غالبؔ
جادۂ رہ کشش کاف کرم ہے ہم کو
مصرع آخر سے اس قطعہ کا مطلب ظاہر ہے کہ کسی اُمید پر کہیں جاتے تھے ، اثنائے راہ میں لکھنؤ میں ٹھہرے اور یہ غزل کہی ، تعجب یہ ہے کہ غالبؔ سا شخص لکھنؤ سے شہر میں آئے اور کچھ اس کا ذکر کسی سے وہاں سننے میں نہ آیا کہ کب آئے اور کہاں آئے اور کیا ہوا۔
_______
تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو
مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو
تم جانو تمہارا کام جانے ہمیں کچھ دخل نہیں ، لیکن غیر کی ملاقات میں ہم سے ترکِ ملاقات کا کیا سبب ہے۔
بچتے نہیں مواخذۂ روزِ حشر سے
قاتل اگر رقیب ہے تو تم گواہ ہو
یعنی تم نہیں بچتے اور یعنی میرا قاتل مطلب یہ کہ تم گواہی میں تو پکڑے جاؤگے اگر قتل کے الزام سے بچ ہے۔
کیا وہ بھی بے گناہ کش و حق ناشناس ہیں ؟
مانا کہ تم بشر نہیں خورشید و ماہ ہو
ردیف و قافیہ شاعر کو مجبور کرتا ہے کہ پہلے نیچے کا مصرعہ کہہ لے ، اسی سبب سے ’ وہ ، کی لفظ میں اضمار قبل الذکر یہاں ہو گیا ہے ، یہ ضمیر خورشید و ماہ کی طرف راجح ہے۔
اُبھرا ہوا نقاب میں ہے اُن کے ایک تار
مرتا ہوں میں کہ یہ نہ کسی کی نگاہ ہو
یعنی معشوق پر کسی کا آنکھ ڈالنا گوارا نہیں ، تارِ نقاب پر بھی نگاہِ رقیب کا وہم گذرا ہے ، اس وہم کا بیان اور طرح سے بھی ہو سکتا تھا ، مگر مصنف نے تارِ نقاب اختیار کیا کوئی وجہ ترجیح کی نہیں معلوم ہوتی مثلاً بیٹھو شعاع ، وزن در سے ذرا الگ ، مرتا ہوں میں الخ ’ عارض پر اُن کے پڑتی ہے عقدِ گہر کی چھوٹ ، ، مرتا ہوں میں الخ۔
جب مے کدہ چھٹا تو پھر اب کیا جگہ کی قید
مسجد ہو مدرسہ ہو کوئی خانقاہ ہو
جس جگہ لطفِ زندگی تھا جب وہی جگہ چھوٹ گئی تو پھر اب کہیں جانے کا انکار نہیں رہا ، حاصل زمین یہی شعر ہے۔
سنتے ہیں جو بہشت کی تعریف سب دُرست
لیکن خدا کرے وہ ترا جلوہ گاہ ہو
سب دُرست سے یہ مطلب ہے کہ ہمیں اُس کی خوبی میں کلام نہیں ، سوا اس کے کہ اگر دیدار وہاں نہ ہوا تو پھر کچھ نہیں۔
غالبؔ بھی گر نہ ہو تو کچھ ایسا ضرر نہیں
دُنیا ہو یارب اور مرا بادشاہ ہو
یعنی میری عمر بھی بادشاہ کو ملے۔
_______
گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیوں کر ہو
کہے سے کچھ نہ ہوا پھر کہو تو کیوں کر ہو
اس غزل کے اکثر شعروں میں کیوں کر ہو لکھنؤ کے محاورہ سے الگ ہے ، یہاں کیوں کر ہو مصنف نے اہل دہلی کی طرح ’ کیا ہو ، کی جگہ پر کہا ہے ، یعنی اب وہ دن نہیں رہے جو ہم کہا کرتے تھے دیکھیں اُن سے گفتگو ہو تو کیا ہو کہہ سن چکے اور کچھ نہ ہوا اب پھر کہیں تو کیا ہو ، دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ جب کہے سے کچھ نہ ہوا تو پھر بتاؤ اب کیا ہوا اور اب کیا کریں۔
ہمارے ذہن میں اس فکر کاہے نام وصال
کہ گر نہ ہو کہاں جائیں ہو تو کیوں کر ہو
یعنی اسی فکر ہی میں ہم خوش رہتے ہیں ، وصال کبھی نصیب نہیں ہوتا۔
ادب ہے اور یہی کشمکش تو کیا کیجئے
حیا ہے اور یہی گومگو تو کیوں کر ہو
اس شعر میں کیوں کر ہو کی جگہ ’ کیوں کر بنے ، محاورہ میں ہے ، یعنی مجھے ادب کے ساتھ کشمکش روکے ہوئے ہے اور معشوق کو حیا ہے پھر بات کیوں کر بنے۔
تمہیں کہو کہ گذارا صنم پرستوں کا
بتوں کی ہو اگر ایسی ہی خو تو کیوں کر ہو
یعنی جیسی تمہاری خو ہے اگر بتوں کی ایسی ہی خو ہو تو گذار کیوں کر ہو۔
اُلجھتے ہو تم اگر دیکھتے ہو آئینہ
جو تم سے شہر میں ہوں ایک دو تو کیوں کر ہو
یعنی آئینہ میں اپنے عکس کو تو دیکھ کر تم اُلجھتے ہو ، اگر شہر میں تمہاری صورت کے دو ایک حسین ہوں تو کیوں کر بنے۔ یہاں بھی کیوں کر ہو مصنف نے کیوں کر بنے کی جگہ پر کہا ہے۔
جسے نصیب ہو روزِ سیاہ میراسا
وہ شخص دن نہ کہے رات کو تو کیوں کر ہو
کیوں کر ہو یعنی کیوں کر بنے مطلب یہ کہ پھر وہ دن کسے کہے ، اس سبب سے کہ ایسے روزِ سیاہ کو دن کہتے نہیں بن پڑتا۔
ہمیں پھر اُن سے اُمید اور انھیں ہماری قدر
ہماری بات ہی پوچھیں نہ دو تو کیوں کر ہو
یعنی ہمیں اُمید کیوں کر ہو اور اُنھیں قدر کیوں کر ہو بندش میں تعقید ہے اور وہ کی ’ ہ ، کو قافیہ کے لئے واؤ بنالیا ہے اس لئے کہ یہ ’ ہ ، تلفظ میں نہیں ہے بلکہ اظہارِ حرکت ماقبل کے لئے ہے جیسے ’ ہ ، لالہ و ژالہ و نہ و کہ وغیرہ میں ہے تو دوسرا واؤ محض اتباعِ حرکت سے پیدا ہوا ہے اور وہی یہاں حرفِ ردی ہے جس طرح دریا کا قافیہ لا کو کریں اور حرکتِ لام کی اتباع سے جو الف پیدا ہو ، وہی حرفِ ردی قرار دیں ، لیکن میرؔ کی زبان پر ’وہ ، کا لفظ بفتح واؤ تھا اور ’ ہ ، ملفوۃ تھی ، یہ شعر اُن کا شاہد ہے :
کہتا ہے کون تجھ کو یاں یہ نہ کر تو وہ کر
پر ہو سکے تو پیارے دل میں بھی ٹک جگہ کر
غلط نہ تھا ہمیں خط پر گماں تسلی کا
نہ مانے دیدۂ دیدار جو تو کیوں کر ہو
یعنی اُس کے پاس سے خط آنا باعثِ تسلی ہم سمجھتے تھے ، لیکن چشم دیدار طلب نہ مانے تو کیوں کر تسلی ہو۔
بتاؤ اُس مژہ کو دیکھ کر کہ مجھ کو قرار
یہ نیش ہو رگِ جاں میں فرو تو کیوں کر ہو
اُردو کے مذاق میں مژرہ کی ’ہ ، کا گرنا برا معلوم ہوتا ہے ، مصنف نے یہاں فارسی گویوں کا اتباع کیا ہے ، اس شعر میں نہایت تعقید ہے اس کو نثر میں یوں کہیں گے کہ اُس کی مژہ کو دیکھ کر یہ بتاؤ کہ ایسے نشتر رگِ جاں میں فرو ہوں تو قرار مجھ کو کیوں کر ہو۔
مجھے جنوں نہیں غالبؔ ولے بقولِ حضور
فراقِ یار میں تسکین ہو تو کیوں کر ہو
دوسرا مصرع حضور کاہے اور زمین فرمائشی ہے جس میں قافیہ ندارد ، مصنف نے کمال کیا کہ اس زمین میں فرمائش کو پورا کیا ، لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اُستاد کامل کے لئے سب کچھ روا ہے ، ورنہ گفتگو اور کہو اور دو اور دیدار جو اور غالیہ ہو وغیرہ قافیوں سے احتراز کرنا بہتر ہے۔
_______
کسی کو دے کے دل کوئی نواسنج فغاں کیوں ہو
نہ ہو جب دل ہی سینہ میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو
یعنی کسی پر عاشق ہوکر پھر اُس کی فریاد کرنا کیا معنی۔
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں
سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو
اس نظم نے وہ بندش پائی ہے کہ نثر میں بھی ایسی برجستہ فقرے نہیں ہو سکتے۔
کیا غم خوار نے رُسوا لگے آگ اس محبت کو
نہ لاوے تاب جو غم کی وہ میرا رازداں کیوں ہو
محبت سے غم خوار کی شفقت مراد ہے ، اس شعر میں مصنف کی انشا پردازی داد طلب ہے کیا جلد خبر سے انشا کی طرف تجاوز کیا ہے ’ کیا غم خوار نے رُسوا ، بس اتنا ہی جملہ خبریہ ہے اور باقی شعر انشا ہے یعنی ’ لگے آگ اس محبت کو ، سنا ہے اور دوسرا مصرع سارا ملامت و سرزنش ہے دوسرا امر وجودِ بلاغت میں سے مضمون سے تعلق رکھتا ہے ، یعنی اپنے غم دل کی حالت بکنا یہ ظاہر کی ہے جس کے سننے سے غم خوار ایسا بے تاب و مضطرب ہوا کہ اُس کے اضطراب سے رازِ عشق فاش ہو گیا :
جرأت و مبدم دیکھ دیکھ کر روتا ہے
مارے ڈالے ہے ہم نشیں تو ہمیں
وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو
یہ شعر رنگ و سنگ میں گوہر شاہوار ہے ایک نکتہ یہ خیال کرنا چاہئے کہ یہاں مخاطب کے لئے دو لفظوں کی گنجائش وزن میں ہے ایک تو ’ بے وفا ، دوسرے ’ سنگ دل ، اور بے وفا کا لفظ بھی مناسبت رکھتا ہے معناً اور لفظاً اس سبب سے کہ اول شعر میں وفا کا لفظ گذر چکاہے اور سنگ دل کا لفظ بھی معناً وہی مناسبت رکھتا ہے اور لفظاً بھی ویسی ہی مناسبت ہے ، اس سبب سے کہ آخر شعر میں سنگِ آستاں کا لفظ موجود ہے لیکن مصنف نے لفظ بے وفا کو ترک کیا اور سنگ دل کو اختیار کیا ، باعثِ رُجحان کیا ہوا باعثِ ترجیح یہاں نزدیکی ہے اور لفظ بے وفا کو وفا سے بہت دُوری تھی۔
قفس میں مجھ سے روداد چمن کہتے نہ ڈر ہمدم
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو
اس قدر معافی ان دونوں مصرعوں میں سما گئے ہیں کہ اس کی تفصیل یہاں تکلف سے خالی نہیں۔ ’ ایک طائرِ چمن اور نشیمن سے جدا ہوکر اسیر ہو گیا ، اس مضمون پر فقط ایک لفظ قفس اشارہ کر رہا ہے اور اس نے اپنی آنکھوں سے باغ میں بجلی گراتے ہوئے دیکھی ہے اور قفس میں متردد ہے کہ نہ جانے میرا آشیانہ بچایا جل گیا ، اس تمام معانی پر فقط کل کا لفظ دلالت کر رہا ہے۔ (۳) ایک اور طائر جو اُس کا ہم سفیر و ہمدم ہے وہ سامنے کسی درخت پر آ کر بیٹھا ہے اور اسیر قفس نے اُس سے رودادِ چمن کو دریافت کیا چاہا ہے ، مگر اس سبب سے کہ اسی کا نشیمن جل گیا ہے طائر ہم سفیر مفصل حال کہتے ہوئے پس و پیش کرتا ہے کہ اس آفتِ اسیری میں نشیمن کے جلنے کی خبر کیا سناؤں ، اس تمام مضمون پر فقط یہ جملہ دلالت کرتا ہے کہ مجھ سے رودادِ چمن کہتے نہ ڈر ہمدم۔ (۴) علاوہ اس کثرتِ معانی کے اُس مضمون نے جو دوسرے مصرع میں ہے ، تمام واقعہ کو کیسا دردناک کر دیا ہے یعنی جس گرفتار قفس پر ایک ایسی تازہ آفت و بلائے آسمانی نازل ہوئی ہے ، اُس نے کیسا اپنے دل کو سمجھا کر مطمئن کر لیا ہے کہ باغ میں ہزاروں آشیانہ ہیں کیا میری ہی نشیمن پر بجلی گری ہو گی ، یہ حالت ایسی ہے کہ دیکھنے والوں کا اور سننے والوں کا دل کڑھتا ہے اور ترس آتا ہے اور یہ ترس آجانا وہی اثر ہے جو شعر نے پیدا کیا ہے ، غرض کہ یہ شعر ایک مثال ہے۔ وہ بڑے جلیل الشان مسئلوں کی جو کہ آدابِ کاتب و شاعر میں اہم اُصول ہیں ، ایک مسئلہ تو یہ کہ خیرالکلام ماقل و دل اور دوسرا مسئلہ یہ کہ الشعر کلام ینقبض بہ النفس وینبسط اور یہاں انقباض خاطر کا اثر پیدا ہوا ہے۔
یہ کہہ سکتے ہو ہم دل میں نہیں ہیں پر یہ بتلاؤ
کہ جب دل میں تمہیں تم ہو تو آنکھوں سے نہاں کیوں ہو
پہلے مصرع میں استفہام انکاری ہے یعنی یہ تو تم نہیں کہہ سکتے کہ ہم دل میں نہیں ہیں۔
غلط ہے جذبِ دل کا شکوہ دیکھو جرم کس کاہے
نہ کھینچو گر تم اپنے کو کشاکش درمیاں کیوں ہو
یعنی جذبِ دل اِ دھر کھینچنا ہے تم اُدھر کھینچتے ہو یہ وجد ہے کشاکش کی۔
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دُشمن اُس کا آسماں کیوں ہو
یعنی تمہارا کسی پر مہربان ہونا اور دوست بننا اُس کی خانہ ویرانی کے لئے کیا کم ہے کہ فلک بھی اُس کے ساتھ دُشمنی کرے ، یہ فتنہ مراد ہے معشوق کے دوست ہونے سے۔
یہی ہے آزمانا تو ستانا کس کو کہتے ہیں
عدو کے ہولئے جب تم میرا امتحاں کیوں ہو
عدو کے معشوق بن کر میری محبت کا آزمانا ، آزمانا نہیں ہے بلکہ مجھے ستانا منظور ہے۔
کہا تم نے کہ کیوں ہو غیر کے ملنے میں رُسوائی
بجا کہتے ہو سچ کہتے ہو پھر کہیو کہ ہاں کیوں ہو
فقط خاطر سے کیوں ہو اس مقام پر مصنف نے استعمال کیا ہے ، ورنہ ایسے مقام پر یوں کہتے ہیں کہ رُسوائی کیوں ہونے لگی ، تاہم بندش اس کی سحر کے مرتبہ تک پہنچ گئی ہے۔
نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تو غالبؔ
ترے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو
یعنی تو اُسے طعنہ دے کر مانتا ہے کہ وہ تجھ سے مل جائے ایسا نہیں ہو گا۔
_______
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
اب کا لفظ یہ کہہ رہا ہے کہ جو لوگ ہمدم و ہم سخن اور ہمسایہ وطن ہیں ، اُن سے رنج پہنچاہے۔
بے در و دیوار اک گھر بنایا چاہئے
کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو
جب در نہیں تو پاسباں کیوں ہونے لگا اور دیوار نہیں تو ہمسایہ کیوں کر ہو گا۔
پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار
اور اگر مرجائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
یعنی جن سے رنج پہنچ چکا پھر اُن کے تیمارداری اور نوحہ خوانی بھی اپنے لئے گوارا نہیں۔
_______
ازمہر تابہ ذرّہ دل و دل ہے آئینہ
طوطی کوشش جہت سے مقابل ہے آئینہ
یعنی عالم میں رُخ و رُخ اور دل و دل باہم دگر آئینہ ہیں ، یعنی اُس کو اُس میں اپنی صورت دکھائی دیتی ہے اور اس کو اس میں غرض یہ ہے کہ سارا عالم متحد بوجودِ واحد ہے اور ایک کو دوسرے سے غیریت نہیں ، یہ اُس میں اپنے تئیں اس طرح دیکھتا ہے جیسے آئینہ میں کوئی دیکھے ، جب یہ حالت ہے تو طوطی جس طرف رُخ کرے آئینہ سامنے موجود ہے اور طوطی محض استعارہ ہے ، مراد اس سے وہ شخص ہے جسے یہ اتحاد دکھائی دے اور وجد و حال میں ترانۂ انا الحق بلند کرے۔
_______
ہے سبزہ زار ہر در و دیوار غم کدہ
جس کی بہار ہو پھر اُس کی خزاں نہ پوچھ
کہتے ہیں میرے غم کدہ کی فصل بہار یہ ہے کہ در و دیوار سبزہ زار بن گیا ہے ، اب یہ تصور کرنا چاہئے کہ مکان کے دیواروں پر سبزہ کس حالت میں اُگتا ہے ، مدتوں ڈھنڈھار پڑا رہے سالہا سال کی برساتوں میں چھتیں منہدم ہو جائیں ، دیواروں پر بارش کی اور دھوپ کی کچھ روک نہ رہے جب کہیں جا کر سبزہ اتنا بلند ہوکر لہلہاتا ہے پھر جب بہار اس آفت کی ہو تو خزاں میں کیا مصیبت نہ ہو گی۔
ناچار بے کسی کی بھی حسرت اُٹھائیے
دُشواریِ رہ وستم ہم رہاں نہ پوچھ
یعنی ہم رہوں کے ہاتھ سے جو ستم کہ مجھ پر ہوتا ہے اُس مصیبت کا کاٹنا راہ دُشوار ہے کہ اُس کی دُشواری کچھ نہ پوچھ حسرت ہوتی ہے کہ کاش ہم بے کس و تنہا ہوتے ، ایک نسخہ یوں ہے کہ دشواری رہ و ستم ہم رہا نہ پوچھ اور یہ اُس سے صاف ہے اور زیادہ تر قریب بہ فہم ہے۔
_______
صد جلوہ روبرو ہے جو مژگاں اُٹھائیے
طاقت کہاں کہ دید کا احساں اُٹھائیے
نازک دماغی اور نازک مزاجی شاعر کے لئے مخصوص ہے اور اس کے متعلق مضامین نازک وہ پیدا کیا کرتے ہیں ، مطلب یہ ہے کہ ہمارا دماغ نازک اس کا تحمل نہیں رکھتا کہ نظارہ کا احسان اُٹھاسکے ہمیں دُنیا کے سیر و تماشے سے آنکھ بند رکھنے ہی میں مزا ملتا ہے۔
ہے سنگ پر برات معاش جنوں عشق
یعنی ہنوز منت طفلاں اُٹھائیے
فرمان اور حکم نامہ وغیرہ کو برات کہتے ہیں ، یعنی جنون کا فرمان معاش سنگ پر ہے غرض یہ ہے کہ جنون کی معاش سنگِ طفلاں مقرر ہوئی ہے۔
دیوار بارِ منتِ مزدور سے ہے خم
اے خانماں خراب نہ احساں اُٹھائیے
اے خانہ خراب اپنی گھر کی دیوار کو دیکھ یقین مان کہ اس کے خم ہونے کی کوئی اور وجہ نہیں ہے محض بارِ احسان مزدور نے اُسے جھکادیا ہے ، اس سے عبرت کر اور کسی کا احسان نہ اُٹھا کہ یہ بار قابل برداشت نہیں ہے ، دیوار کا خم ہونا اور پھر بارِ احسان سے دونوں باتوں میں اوجائے شاعرانہ ہے۔
یا میرے زخم رشک کو رُسوا نہ کیجئے
یا پردۂ تبسم پنہاں اُٹھائیے
یعنی یا تو ایسا کیجئے کہ رشک کے سبب سے جو میرے دل میں زخم خنداں پڑے ہیں ، ان کو رُسوا نہ کیجئے یا رقیب کے ساتھ پردہ میں چھپ چھپ کر ہنسنا چھوڑ دیجئے۔
_______
مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہئے
بھوں پاس آنکھ قبلۂ حاجات چاہئے
آنکھ کی میخانہ سے اور بھوں کی محراب سے مسجد سے تشبیہ مشہور ہے ، مصنف نے یہاں جدت یہ کی ہے کہ اُس تشبیہ کا عکس لیا ہے ، قبلۂ حاجات مسجد کے ضلع کا لفظ ہے لیکن بڑے محاورہ کا لفظ ہے اور بات یہ ہے کہ جہاں محض ضلع بولنے کے لئے محاورہ میں تصرف کرتے ہیں ، وہاں ضلع برا معلوم ہوتا ہے اور جب محاورہ پورا اُترے تو یہی ضلع بولنا حسن دیتا ہے اور ہر صنعتِ لفظی کا یہی حال ہے۔
عاشق ہوئے ہیں آپ بھی اک اور شخص پر
آخر ستم کی کچھ تو مکافات چاہئے
لکھنؤ کے شعراء معشوق دوسرے پر عاشق ہونا نہیں باندھتے اور یہ مضمون بھی ان کے متروکات میں سے ہے اور اُن کی نظر میں پھیکاہے۔
دے داد اے فلک دلِ حسرت پرست کی
ہاں کچھ نہ کچھ تلافیٔ مافات چاہئے
یعنی بہت سی حسرتیں تو نہ نکلیں کوئی آرزو تو اب پوری کر۔
سیکھے ہیں مہ رُخوں کے لئے ہم مصوری
تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہئے
مصوری کنایہ ہے شاعری سے ، مگر عاشق مزاجوں کے فنوں میں مصوری بھی ہے ، شاعری بھی ہے ، داستان گوئی بھی ہے ، بذلہ سنجی بھی ہے ، موسیقی بھی ہے ، یعنی دھر پدگانا یا بین بجانا اس کے علاوہ چوسر اور گنجیفہ ایک فن جداگانہ ہے ، پھر اہل خرابات میں سے ہونا بھی شرط ہے جب اس دیوار سے آراستہ ہوئے تو حسینوں کی صحبت میں پہنچنے کے سب ذریعہ حاصل ہو گئے ، ایک بڑا فن یہاں سے شروع ہوا جس کے ابواب یہ ہیں ، حسن خطاب ، ردِ جواب ، اظہارِ فخر و ناز ، نشست و برخاست کا اندازِ چشم و ابرو کو پہچاننا ، چہرہ سے دل کا جاننا ، حال مرا جدائی کی باتیں کرنا ، نازک مزاجی سے ڈرنا ، جس پر چاہنا اُس پر جوڑ مارنا ، جسے چاہنا اُسے دل سے اُتارنا ، عرض حال میں رو دینا ، تعریفِ حسن میں غش کھانا ، ملاپ میں خوش اختلاطی اور دل لگی بگاڑ میں ، ضد اور جلی کٹی چھیڑ چھیڑکر زبان کھلوانا ، ستا ستا کر طرزِ ستم سکھانا ، لبھا لینے کی باتیں ، منا لینے کی گھاتیں نعوذ باﷲ من الخبر والخراف۔
مے سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کو
اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہئے
یعنی بے ہوشی و بے خودی میں غم بہلا رہتا ہے۔
نشوونما ہے اصل سے غالبؔ فروع کو
خاموشی ہی سے نکلے ہے جو بات چاہئے
ہے رنگ لالہ و گل نسریں جدا جدا
ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہئے
سر پائے خم پہ چاہئے ہنگام بے خودی
روسوئے قبلہ وقتِ مناجات چاہئے
یعنی بحسبِ گردش پیمانۂ صفات
عارف ہمیشہ مستِ مے ذات چاہئے
اس قطعہ کا مطلب یہ ہے کہ تمام عالم اجسام کا مبدأ جسم و جسمانیہ سے منزہ ہے اور اس عالم سے ماہر ہے جیسے درخت کی شاخیں سب جڑ سے پھوٹ کر نکلی ہیں لیکن جڑ چھپی ہوئی ہے۔ دوسری تمثیل یہ ہے کہ جو بات ہے وہ خاموشی ہی سے نکلی ہے یعنی پہلے معنی اُس کے ذہن میں آئے ، کہیں اُس کے بعد اُس سے بات پیدا ہوئی ہے اور خود معنی پوشیدہ ہیں۔ تیسری تمثیل یہ ہے کہ باغ میں رنگ رنگ کے پھول ہیں اور ہر رنگ میں وجودِ بہار کا اثبات ہوتا ہے اور خود بہار آنکھوں سے اُوجھل ہے اُس کے بعد کہتے ہیں کہ گلہائے رنگا رنگ سے یہ سبق لینا چاہئے کہ ہر رنگ میں انسان اپنے مبدأ کو ثابت کرے ، کبھی نشہ مے میں سرشار رہے ، کبھی زاہد شبِ زندہ دار رہے یعنی یہ سب رنگ ذات کے صفات میں سے ہیں اور ہر ہر صفت اپنے اپنے وقت پر ظہور کرتی ہے اور وجودِ ذات کی گواہی دیتی ہے ، خاموشی کی ی وزن میں نہیں سماتی اس سے مصنف کا یہ مذہب ظاہر ہوتا ہے کہ فارسی لفظ کے بھی آخر میں سے نظم اُردو میں حروفِ علت کا گرجانا وہ جائز سمجھتے تھے مگر سارے دیوان بھر میں الف کو یا واؤ کو مصنف نے لفظ فارسی سے نہیں گرنے دیا ہے ، اس مسئلہ میں لکھنؤ کے شعراء اختلاف کرتے ہیں اور فارسی گویوں کی طرح ی کا گرانا بھی جائز نہیں سمجھتے اور ناسخ کے زمانہ سے یہ امر متروک ہے ، قول فیصل اس باب میں یہ ہے کہ جب بروقت محاورہ اور اثنائے گفتگو میں بہت جگہ حروفِ علت کا تلفظ میں سے گرادینا ہم لوگوں کی عادت میں ہے اور اس میں لفظ فارسی و ہندی کا امتیاز نہیں کرتے تو وزن شعر میں گرانے کو کون مانع ہے اور ہر زبان شعر کا مدار محاورہ پر ہے ناسخؔ مرحوم نے محض فارسی پر قیاس کر کے اس کے ترک کا حکم دیا تھا لیکن یہ قیاس صحیح نہیں ، یہ کیا ضرور ہے کہ جو امر فارسی والوں کی زبان پر ثقیل ہے وہ اُردو میں بھی ثقیل ہو ، یہی وجہ ہے کہ خواجہ حیدر علی آتشؔ مرحوم اور میر انیسؔ مغفور نے اس کی پابندی نہیں کی اور حروفِ علت کے گرانے میں لفظ فارسی و اُردو کا امتیاز نہیں کیا مگر یہ امر البتہ عجیب ہے کہ مصنف نے الف اور واؤ میں تو پابندی کی اور ’ ی ، کو گرادیا حالاں کہ یائے معروف کا اور اسی طرح واؤ معروف کا خواہ لفظ فارسی میں ہو خواہ کلمۂ ہندی میں ہو وزن سے گرجانا زبان اُردو پر ثقیل ہے اور واؤ اور یائے مجہول کا گرانا ثقیل نہیں ہے بلکہ روابط میں سے گرانا تو فصیح ہے اور الف کے گرانے نہ گرانے کا مدار محاورہ پر ہے ، جو ’ ی ، اور واؤ کہ ماقبل مفتوع ہیں ، اُن کا گرانا بشہادت محاورہ اُردو میں ثقیل ہے جیسا کہ فارسی میں ثقیل ہے واؤ مجہول کو فارسی والے بھی اکثر لفظوں سے گراتے ہیں لیکن یائے مجہول کو وہ اس سبب سے نہیں گراتے کہ ’ ی ، کے گرنے سے اور زیر کے باقی رہ جانے سے اضافت کے ساتھ التباس ہو جاتا ہے اور ہماری زبان میں ویسی اضافت نہیں ہے اس سبب سے یائے مجہول کا گرانا ہماری زبان میں ثقیل نہیں ہے البتہ اگر منادی میں یائے مجہول ہو اور حروفِ ندا محذوف ہو ، تو اسی ’ ی ، کا گرنا برا معلوم ہوتا ہے مثلاً جرأتؔ کے اس شعر میں سے :
کس مزہ سے یہ باظہار وفا اُس نے کہا
مت بنا بات نہیں اب تری جھوٹی وہ آنکھ
اگر ’ ی ، کو گرادیں اور مصرع کو یوں کر دیں :
’ مت بنا بات نہیں ہے اب تری جھوٹی وہ آنکھ ، تو دیکھو کیسا برا معلوم ہوتا ہے۔
_______
بساط عجز میں تھا ایک دل یک قطرۂ خوں وہ بھی
سو رہتا ہے بہ انداز چکیدن سرنگوں وہ بھی
اُردو کی زبان متحمل نہیں ہے کہ چکیدن کا لفظ اس میں لائیں ، مگر مصنف پر فارسیت غالب تھی اس سبب سے وہ نامانوس نہ سمجھے۔
رہے اُس شوخ سے آزردہ ہم چندے تکلف سے
تکلف برطرف تھا ایک اندازِ جنوں وہ بھی
پہلے تکلف کے معنی بناوٹ اور تصنع اور دوسرے تکلف سے مراد لحاظ و پاس خاطر جو دل سے نہ ہو اور بتصنع ہو یعنی اگر اُسے جنوں نہ کہوں تو گویا اپنے سے آپ تکلف کیا۔
خیال مرگ کب تسکیں دل آزردہ کو بخشے
مرے دام تمنا میں ہے اک صید زبوں وہ بھی
بخشیدن فارسی مصدر ہے اُس سے اُردو میں بخشنا بنالیا ہے جیسے بخشنا اور تجویزنا اور خریدنا ، مگر ایسے لفظ کے استعمال کو کسی قدر غیرفصیح سمجھتے ہیں ، اس شعر میں تمنا کی تشبیہ حال سے اور خیال مرگ کی تشبیہ ایک مریل شکار سے محسوس کی غیرمحسوس سے تشبیہ ہے اور پھر وجہ شبہ مرکب اس سبب سے تشبیہ بدیع ہے۔
نہ کرتا کاش نالہ مجھ کو کیا معلوم تھا ہمدم
کہ ہو گا باعثِ افزائش دردِ دُروں وہ بھی
پہلا مصرع محاورہ میں ڈھلا ہوا ہے لیکن دوسرے مصرع پر فارسیت بے طرح غالب آتی ہے ، ہمدم کا لفظ نالہ کے مناسب ہے ، ورنہ یہاں ’ پہلے ، کا لفظ یا ’ ناصح ، کا لفظ بھی کھپ سکتا ہے۔
نہ اتنا برشِ تیغ جفا پر ناز فرماؤ
مرے دریائے بے تابی میں ہے اک موجِ خوں وہ بھی
قتل ہوتے وقت تڑپنے کے عالم میں یہ خطاب ہے اور تیغ جفا سے خود وہ تلوار مراد ہے جس سے قتل ہورہا ہے اور جس سے جفا ہورہی ہے مگر موج کی تشبیہ تلوار سے مبتذل ہے ، اُسی دریائے بے تابی کی موج خون کہہ کر جدت پیدا کی ہے۔ حاصل یہ کہ تمہاری ایک تلوار کیا چیز ہے میرا دریائے بے تابی جو موجزن ہورہا ہے تو سینکڑوں ایسی تلواریں مجھ پر چل رہی ہیں۔
مے عشرت کی خواہش ساقیٔگردوں سے کیا کیجئے
لئے بیٹھا اک دوچار جام و اژگوں وہ بھی
ایک دو چار سات آسمان ہوئے۔
مرے دل میں ہے غالبؔ شوق وصل و شکوۂ ہجراں
خدا وہ دن کرے جو اُس سے میں یہ بھی کہوں وہ بھی
لفظ غالب یہاں دونوں معنی رکھتا ہے۔
_______
ہے بزم بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے
تنگ آئے ہیں ہم ایسے خوشامد طلبوں سے
سخن کو خوشامد طلب کہا ہے یعنی محفل معشوق میں سخن میرے لب سے روٹھ گیا ہے ، چاہتا ہے خوشامد کروں تو لب تک آئے ، غرض یہ ہے کہ معشوق کے سامنے بات منہ سے نہیں نکلتی یا معشوقوں کو خوشامد طلب کہا ہے کہ ان کی خوشامد کرتے کرتے سخن لبوں سے بیزار ہو گیا ہے۔
ہے دورِ قدح وجہ پریشانی صہبا
یک بار لگادو خم مے میرے لبوں سے
دور میں پریشانی صہبا ہونا ظاہر ہے کہ جو جو شریک دور ہے وہ پئے گا اور شراب تقسیم ہو جائے گی اور تقسیم کو پریشانی لازم ہے اور جب ایک ہی شخص سب شراب پی لے تو شراب پریشانی سے بچ جائے گی ، جس طرح خم میں ایک جگہ تھی اُسی طرح اب دماغ میں ایک ہی جگہ رہے گی۔ کثرتِ مے خواری میں مبالغہ کرنا شعراء کی عادتِ قدیم سے چلی آتی ہے۔ مصنف نے بھی تقلیداً کہہ دیا ، ورنہ یہ مضمون کوئی لطف نہیں رکھتا۔
رندانِ درِ میکدۂ گستاخ ہیں زاہد
زنہار نہ ہونا طرف ان بے ادبوں سے
اے زاہد یہ رند جو میخانہ کے دروازہ پر بھیڑ لگائے ہوئے ہیں ، بہت گستاخ ہیں ، زنہاران کے منہ نہ لگنا یعنی کہیں شراب کی حرمت ان کے سامنے بیان نہ کرنا کسی سے طرف ہونا اب متروک ہے ، میرؔ کے زمانہ کا محاورہ ہے۔
بیداد وفا دیکھ کے جاتی رہی آخر
ہر چند مری جان کو تھا ربط لبوں سے
ہر چند کہ میری جان لبوں سے بہت مانوس تھی یعنی ہمیشہ ہونٹوں ہی پر جان رہا کرتی تھی ، لیکن وفا کے چلتے آخر جاتی رہی اور ایسے مانوس اور محبوب رفیقوں کو یعنی لبوں کو اُس نے چھوڑ دیا اور اس طرح کہ ایک روح دو قالب رفیقوں میں جدائی غم وفا کے ظلم سے ہو گئی۔
_______
تاہم کو شکایت کی باقی نہ رہے جا
سن لیتے ہیں گو ذکر ہمارا نہیں کرتے
یعنی اگر کوئی میرا ذکر خود سے اُن کے سامنے چھیڑتا ہے تو اُسے منع بھی نہیں کرتے کہ وہ تو صاف صاف بے مروتی اور بگاڑ ہے اور شکایت کا موقع مل جائے گا ، یعنی چاہتے ہیں کہ مجھے اُن سے بات کرنے کا موقع ہی نہ ملے ، اس شعر میں مصنف نے معشوق کے مزاج کی اس حالت کو نظم کیا ہے جو انتہائی درجہ کے بگاڑ میں ہوتی ہے بمعنی خفگی بھی نہیں ظاہر کرتا کہ معذرت کریں ، نفرت بھی نہیں ظاہر کرتا کہ شکایت کریں ، اظہارِ ملال بھی نہیں کہ منالیں ، گویا کہ ہمارے اُس کے کبھی کی ملاقات ہی نہ تھی اس قسم کی حالتوں کا نظم کرنا ادقع فی النفس ہوا کرتا ہے اور یہ بڑی مرتبہ کی شاعری ہے گو کہ بیان اور بدیع کی کوئی خوبی اس میں نہیں ہے شیخ الرئیس نے شفا میں شعر کے لذیذ ہونے کا سبب وزن کے علاوہ محاکات یعنی شاعر کے نقشہ کھینچ دینے کو لکھا ہے کہتا ہے ( والدلیل علیٰ فوجھم بالمحاکاۃ انھم یسیرون بتامل الصور المنقوشۃ للحیوانات الکریھۃ متنفرۃ منھا ولو شاھد وھا انفسھا لتنطسوا عنھا فیکون المفرح لیس نفس تلک الصورۃ ولا المنقوش بل کونہ محاکاتہ ) یعنی محاکات سے لذت پانے کی دلیل یہ ہے کہ جو جانور کریہ المنظر اور قابل نفرت ہیں اُن کی تصویر دیکھ کر لوگ خوش ہوتے ہیں ، اگر خود ان کو دیکھیں تو ادھر سے آنکھ پھیرلیں تو معلوم ہوا کہ نہ اُس صورت میں لذت ہے نہ تصویر میں ہے ، بلکہ تصویر من حیث المحاکات لذیذ ہے ، غرض یہ ہے کہ تصویر کے لذیذ ہونے کا بھی وہی باعث ہے یعنی شاعری وہی اچھی جس میں مصوری کی شان نکلے بہت بڑھا ہوا وہی شعر ہے جس میں معشوق کے کسی انداز یا کسی ادا کی تصویر کھینچی ہوئی ہو بلکہ معشوق کی کیا تخصیص ہے دیکھو وحیدؔ مرحوم نے طیور کا نقشہ دکھایا ہے :
چٹکی کلی تو رہ گئے پر تولتے ہوئے
پتی ہلی تو مل کے اُڑے بولتے ہوئے
اس بیت میں طیور کی ادا ہے معشوق کی بھی نہیں مگر محاکات پائی جاتی ہے اس سبب سے کس قدر لذیذ ہے۔
غالبؔ ترا احوال سنادیں گے ہم اُن کو
وہ سن کے بلالیں یہ اجارہ نہیں کرتے
شعر تو بہت صاف ہے ، لیکن اس کے وجوہ بلاغت بہت دقیق ہیں بیچ والوں کا یہ کہنا کہ ’ سنادیں گے ہم اُن کو ، اس کے معنی محاورہ کی رو سے یہ ہیں کہ کسی نہ کسی طرح کسی نہ کسی موقع پر اُن کے مزاج کو دیکھ کر باتوں باتوں میں یا ہنسی ہنسی میں تیرا حال اُن کے گوش گذار کر دیں گے اتنا ذمہ ہم کرتے ہیں یعنی صاف صاف کہنے کی جرأت نہیں رکھتے ، غرض کہ یہ سب معانی اس لفظ سے مترشح ہیں اس وجہ سے کہ اُس کا موقع استعمال یہی ہے اور بالتزام اس سے معشوق کا غرور اور تمکنت اور رعب و نازک مزاجی اور خودبینی و خودرائی بھی ظاہر ہوتی ہے فرض کرو اگر مصنف نے یوں کہا ہوتا کہ ’ کہہ دیں گے ہم اُن سے ، تو اکثر ان معانی میں سے قوت ہو گئے ہوتے اور یہ کہنا کہ ’ اجارہ نہیں کرتے ، اس کے کہنے کا موقع جب وہی ہوتا ہے جب کوئی نہایت مصر ہو اور کہے کہ جس طرح بنے میرے اُن کے ملاپ کروادو نہیں تو تم سے شکایت رہے گی ، غرض کہ اس فقرہ نے عاشق کے اصرار بے تابانہ کی تصویر کھینچی ہے ایک تو کلام کا کثیرالمعنی ہی ہوتا وجوہ بلاغت میں سے بڑی وجہ ہے پھر اُس پر یہ ترقی کہ اِ دھر معشوق کی تمکنت و ناز اُدھر عاشق کی بے تابی و اصرار کی دونوں تصویریں بھی اسی شعر میں سے جھلکی دکھلا رہی ہیں۔
_______
گھر میں تھا کیا کہ ترا غم اُسے غارت کرنا
وہ جو رکھتے تھے ہم اک حسرت تعمیر سو ہے
اس حسرت کو غم عشق نے بھی نہ غارت کیا۔
_______
غم دُنیا سے گر پائی بھی فرصت سر اُٹھانے کی
فلک کا دیکھنا تقریب تیرے یاد آنے کی
یعنی جب غم دُنیا سے اُٹھایا تو فلک کو دیکھا اور فلک کا دیکھنا تیری یاد آجانے کی تقریب ہے ’ ہے ، دوسرے مصرع میں سے محذوف ہے اور تقریب کی وجہ یہ کہ تو ہمیشہ ظلم کیا کرتا تھا کہ ہم فلک کو دیکھ کر رہ جاتے تھے اب جو اتفاق سے کبھی فلک کو دیکھ لیتے ہیں تو تو یاد آجاتا ہے حاصل یہ کہ بارِ غم سے سر اُٹھانے کی باری آئی تو فلک کو دیکھ کر معشوق یاد آیا اور پھر غم کا سامنا ہو گیا۔
کھلے گا کس طرح مضموں مرے مکتوب کا یارب
قسم کھائی ہے اس کافر نے کاغذ کے جلانے کی
یعنی خط کھولئے تو اُس سے اُمید ہی نہیں اب جلانے کی بھی اُس نے قسم کھالی ، کاش کہ جلاتا اور مکتوب سے شعلہ اُٹھتا تو مضمون مکتوب کھلتا اور حال سوزِ غم اُس پر ظاہر ہو جاتا یعنی میرے مکتوب کے کھلنے کی وہاں کوئی صورت اگر تھی تو یہی تھی کہ وہ اُسے جلادیا کرتا تھا اب وہ بھی اُمید نہ رہی۔
لپٹنا پرنیاں میں شعلۂ آتش کا آساں ہے
ولے مشکل ہے حکمتِ دل میں سوزِ غم چھپانے کی
یہ ظاہر ہے کہ حریر میں شعلہ لپٹا ہوا نہیں رہ سکتا اور بھڑک اُٹھتا ہے مگر پھر بھی دل میں سوزِ غم چھپالینے سے یہ آسان ہے آسان کہنے سے یہ معنی پیدا ہوئے کہ دل پرنیاں سے نازک تر ہے اور سوزِ غم شعلہ سے بھی زیادہ سرکش ہے۔
انھیں منظور اپنے زخمیوں کا دیکھ آنا تھا
اُٹھے تھے سیر گل کو دیکھنا شوخی بہانے کی
یعنی اُٹھے تھے اس بہانے سے کہ باغ کی سیر کو جاتے ہیں اور مطلب یہ تھا کہ اپنے زخمیوں کو دیکھ آئیں ، شوخی اس بہانہ میں یہ نکلی کہ زخمیوں کے دیکھنے کو آپ باغ کی سیر سمجھتے ہیں۔
ہماری سادگی تھی التفاتِ ناز پر مرنا
ترا آنا نہ تھا ظالم مگر تمہید جانے کی
یعنی تو اسی لئے آیا تھا کہ تھوڑی دیر میں چلا جائے اور ہم اپنی سادگی سے اُسے التفات سمجھے اور اسی التفات پر مرنے لگے۔
لکد کوبِ حوادث کا تحمل کر نہیں سکتے
مری طاقت کہ ضامن تھی بتوں کے ناز اُٹھانے کی
مطلب یہ ہے کہ اب ایسی بے طاقتی ہے کہ بارِ حوادث نہیں اُٹھ سکتا ، وہی ہم ہیں کہ بتوں کے ناز اُٹھایا کرتے تھے ، اس سے یہ معنی نکلتے ہیں کہ بتوں کے ناز شاعر کے عقیدے میں حوادث آفات سے بڑھے ہوئے ہیں۔
کہوں کیا خوبیٔ اوضاع ابنائے زماں غالبؔ
بدی کی اُس نے جس سے ہم نے کی تھی بارہا نیکی
اس غزل کے سب شعروں میں ’ کی ، جز وقائیہ تھا اور اس شعر میں جز و ردیف ہو گیا ہے قواعد قافیہ میں اس قسم کے قافیہ کو معمول کہتے ہیں اور اسے عیوبِ قافیہ شمار کیا ہے ، لیکن شعرائے تصنع اسے ایک صنعت سمجھتے ہیں ، چنانچہ اہلی شیرازی نے ساری مثنوی سحر حلال میں ہر ہر شعر میں قافیہ معمولہ کا بھی التزام کر لیا ہے اور اسی طرح مفتی میر عباس مغفور نے عربی کی مثنوی مرصع میں قافیہ معمولہ کی قید کو لازم کر لیا ہے۔
_______
حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی
دل جوش گریہ میں ہے ڈوبی ہوئی اسامی
آرزو خرامی سے مصنف کی مراد خرام حسبِ آرزو مراد ہے لیکن عبرت کرنا چاہئے نہ کہ تقلید ایسے ترکیبوں کے واہیات ہونے میں شک نہیں پھر اُسے منادی بنا کر اور بھی ستم کیا ، ڈوبی ہوئی اسامی وہ مال گذار ہے جس سے محصول وصول ہونے کی اُمید نہ ہو ، مطلب یہ ہے کہ جوش گریہ سے کوئی ایسا ثمرہ حاصل نہ ہو گا کہ حسبِ آرزو و موافق مراد خرام کر سکوں دل کو ڈوبی ہوئی اسامی سمجھنا چاہئے کہ اس کا ریاض بے ثمر رہا۔ اس شعر میں ہاتھ دھونا اور ڈوبنا جوش گریہ کے ضلع کے لفظیں ہیں اور خرام کے واسطے بیٹھ کا لفظ لائے ہیں۔
اُس شمع کی طرح سے جس کو کوئی بجھادے
میں بھی جلے ہوؤں میں ہوں داغِ ناتمامی
میں داغِ ناتمامی ہوں یعنی مجھے اپنے ناتمام رہ جانے کا داغ ہے ، جو لوگ زبان اُردو کے تنگ کرنے پر کمر باندھے ہوئے ہیں اور فن معانی سے بہرہ نہیں رکھتے اُن کی رائے میں ’ سے ، کا لفظ اس شعر میں برائے بیت ہے اور طرح کے بعد ’ سے ، کا لفظ بولنا اور لکھنا اور نظم کرنا انھوں نے چھوڑدیا ہے لیکن یہ محاورہ میں تصرف ہے یا قیاس ہے اور دونوں ناجائز ہیں۔ میرؔ کہتے ہیں :
داغ ہوں رشکِ محبت سے کہ اتنا بے تاب
کس کی تسکیں کے لئے گھر سے تو باہر نکلا
یعنی مجھے رشکِ محبت کا داغ ہے۔
_______
کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے
جس میں کہ ایک بیضۂ مور آسمان ہے
یعنی جس جہان کا آسمان بیضۂ مور ہے۔
ہے کائنات کو حرکت تیرے ذوق سے
پر تو سے آفتاب کے ذرّہ میں جان ہے
یعنی کائنات تجھ کو اپنا مبدأ واصل سمجھ کر بتقاضائے فطرت تیری طرف دوڑ رہی ہے جس طرح پرتو آفتاب سے ذرّہ میں جان پڑجاتی ہے اس شعر میں ذرّہ کے جاندار ہونے نے بڑا لطف دیا یعنی اس کو ذی روح سے تشبیہ دی اور وجہ شبہ حرکت ہے۔
حال آنکہ ہے یہ سیلی خار اسے لالہ رنگ
غافل کو میرے شیشہ پہ مے کا گمان ہے
یعنی میرا شیشہ پتھر کی چوٹ کھا کر لال ہورہا ہے اور لوگ جانتے ہیں کہ اس میں شراب بھری ہوئی ہے ، مگر پتھر کی چوٹ سے شیشہ کا ٹوٹنا سب باندھتے ہیں ، چوٹ کھا کر سرخ ہو جانا خلاف واقع ہے ، اس شعر میں صدر کلام میں لفظ حال آنکہ خبر دیتا ہے کہ مصنف نے پہلے نیچے کا مصرع کہہ لیا ہے اس کے بعد مصرع بالا بہم پہنچاہے۔
کی اُس نے گرم سینۂ اہل ہوس میں جا
آوے نہ کیوں پسند کہ ٹھنڈا مکان ہے
اہل ہوس رقیب سے مراد ہے کہ اُس کے سینہ میں سوزِ عشق نہیں ہے اور اسی سبب سے اُسے ٹھنڈا مکان کہا ہے۔
کیا خوب تم نے غیر کو بوسہ نہیں دیا
بس چپ رہو ہمارے بھی منہ میں زبان ہے
یعنی بوسۂ رقیب کے الزام پر معشوق نے لڑنا شروع کیا ہے اور یہ خفگی اور عتاب سے اُس سے زیادہ گفتگو کرنا پسند نہیں کرتے۔
بیٹھا ہے جو کہ سایۂ دیوار یار میں
فرمان روائے کشور ہندوستان ہے
ہندوستان کی تخصیص یہ ہے کہ سایہ میں تیرگی ہوتی ہے اور ہندوستان بھی کالا ملک ہے ، اس شعر میں مصنف نے ہندوستان کو باعلان نون نظم کیا ہے۔ میر انیسؔ مرحوم کے اس مصرع پر :
مسکن چھٹا ہمارا سعادت نشان سے
لکھنؤ میں اعتراض ہوا تھا کہ حرف مد کے بعد جو نون کہ آخر کلمہ میں پڑے فارسی والوں کے کلام میں کہیں باعلان نہیں پایا گیا تو جب اُردو میں ترکیب فارسی کو استعمال کیا اور کشور ہندوستان کہہ کر مرکب اضافی بنایا ، ہمارے سعادت نشان باندھ کر مرکب توصیفی بنایا تو پھر نحو فارسی کی متبعیت نہ کرنے کا کیا سبب ، اگر لفظ ہندوستان یا نشان باندھ کر مرکب توصیفی بنایا تو شاعر کو اعلان کرنے نہ کرنے کا اختیار تھا ، لیکن ترکیب فارسی میں نحو فارسی کا اتباع ضرور ہے اور اس طرح کا اعلان لکھنؤ کے غزل گویوں میں ناسخؔ کے وقت سے متروک ہے۔
ہستی کا اعتبار بھی غم نے مٹادیا
کس سے کہوں کہ داغ جگر کا نشان ہے
یعنی غم سے داغ ہوا اور داغِ جگر کو کھا گیا ، اب اگر کسی سے کہتا ہوں کہ کبھی ہم بھی جگر رکھتے تھے اور اُس کی نشانی داغ اب تک موجود ہے ، تو کسی کو میرے کہنے کا اعتبار نہیں آتا۔ یہ مضمون بہت نیا اور خاص مصنف مرحوم کا نتیجہ فکر ہے۔
ہے بار اعتماد وفاداری اس قدر
غالبؔ ہم اس میں خوش ہیں کہ نامہربان ہے
یعنی معشوق کے نامہربان ہونے سے ہم خوش ہیں کہ ہماری وفاداری پر اُس کو بھروسہ ہے ، جانتا ہے کہ بے رُخی کرنے سے بھی یہ ترکِ محبت نہ کرے گا۔
_______
درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے
کیا ہوئی ظالم تری غفلت شعاری ہائے ہائے
یہ ساری غزل معشوق کا مرثیہ ہے ، اس شعر میں یہ مطلب ہے کہ مجھ کو حالتِ نزع میں دیکھ کر جو دردمند ہورہا ہوں تو تو اُس عالم میں بھی میرا تم گوارا نہیں کرتا اور بے قرار ہورہا ہے وہ دن کدھر گئے جب ہم مرتے تھے اور تم بات نہ پوچھتے تھے۔
تیرے دل میں گر نہ تھا آشوبِ غم کا حوصلہ
تو نے پھر کیوں کی تھی میری غم گساری ہائے ہائے
یعنی اُسی طرح کاش مجھ سے ناآشنا تو رہتا تو اچھا تھا۔
کیوں مری غم خوارگی کا تجھ کو آیا تھا خیال
دُشمنی اپنی تھی میری دوست داری ہائے ہائے
یعنی میری غم خواری کر کے اپنے تئیں سوا کیا ، پھر شرم رُسوائی سے اپنی جان دے دی۔
عمر بھر کا تو نے پیمان وفا باندھا تو کیا
عمر کو بھی تو نہیں ہے پائدای ہائے ہائے
گو کہ تو نے عمر بھر نباہنے کا عہد کیا ، لیکن تیری عمر ہی نے وفا نہ کی۔
زہر لگتی ہے مجھے آب و ہوائے زندگی
یعنی تجھ سے تھی اُسے ناسازگاری ہائے ہائے
یعنی جب زندگی نے تجھ سے وفا نہ کی تو میں بھی اس زندگی سے بیزار ہوں۔
گلفشانی ہائے ناز جلوہ کو کیا ہو گیا
خاک پر ہوتی ہے تیری لالہ کاری ہائے ہائے
یا تو جلوہ افروزی کے وقت ناز و انداز سے پھول جھڑتے تھے یا اب لوحِ قبر پر گل کاری ہورہی ہے۔
شرم رُسوائی سے جا چھپنا نقابِ خاک میں
ختم ہے اُلفت کی تجھ پر پردہ داری ہائے ہائے
یعنی لوگوں سے چھپ کر عمر بھر کے لئے مجھ سے پیمان وفا باندھا مگر شرم رُسوائی سے اپنے تئیں ہلاک بھی کیا۔
خاک میں ناموسِ پیمانِ محبت مل گئی
اُٹھ گئی دُنیا سے راہ و رسم یاری ہائے ہائے
اس شعر میں شکایت ہے لیکن قصد شکایت نہیں بلکہ توجع ہے۔
ہاتھ ہی تیغ آزما کا پیار سے جاتا رہا
دل پہ اک لگنے نہ پایا زخم کاری ہائے ہائے
یعنی مجھے آرزو تھی کہ تو مجھے چھریاں مارے اور وہ آرزو پوری نہ ہوئی زخم اُٹھانے کی آرزو یہاں معنی حقیقی پر نہیں ہے بلکہ برسبیل توجع ہے۔
کس طرح کاٹے کوئی شبہائے تار برشکال
ہے نظر خو کردۂ اختر شماری ہائے ہائے
یعنی ہمیں تو عادت تھی کہ شوقِ وصال میں اور شبِ فراق تارے گن گن کر رات کاٹتے تھے ، اب یہ برسات کی اندھیری راتیں کیوں کر ہم سے کٹیں گی برشکال استعارہ ہے رونے سے اور شبہائے غم کو شبہائے تار کہا ہے۔
گوش مہجورِ پیام و چشم محرومِ جمال
ایک دل تس پر یہ نا اُمیدواری ہائے ہائے
لکھنؤ کے شعراء میں آتشؔ و ناسخؔ وغیرہ اور دلی میں ذوقؔ و مومنؔ وغیرہ مصنف کے عصر سے کسی قدر پیشتر ہی ہیں ’ تس پر ، کسی کے کلام میں نہیں ہے اور نہ لکھنؤ میں نہ دلی میں ، طرصہ سے یہ لفظ بولا جاتا ہے ، مصنف کے قلم سے اس لفظ کا نکلنا نہایت حیرت ہے اور یہ لفظ اس بات کا شاہد ہے کہ مرزا نوشہ مرحوم کی زبان دلی سے کسی قدر علاحدہ ہے۔
عشق نے پکڑا نہ تھا غالبؔ ابھی وحشت کا رنگ
رہ گیا تھا دل میں جو کچھ ذوق خواری ہائے ہائے
میری ہرزہ گردی و دشت نوردی کی نوبت نہ آئی تھی کہ شرم و رُسوائی سے معشوق نے اپنی جان دے دی اور دل میں ذوق خواری جو تھا وہ دل ہی میں رہ گیا۔
_______
سرگشتگی میں عالم ہستی سے پاس ہے
تسکیں کو دے نوید کہ مرنے کی آس ہے
یعنی سرگشتگی کے سبب سے زندگی سے یاس ہے اب تسکین کو نوید ہو کہ مرنے کے بعد سرگشتگی سے نجات ہو جائے گی۔
لیتا نہیں مرے دل آوارہ کی خبر
اب تک وہ جانتا ہے کہ میرے ہی پاس ہے
وہ ابھی تک یہی جانتا ہے کہ میرا دل میرے پاس موجود ہے اور یہاں وہ اختیار سے جاچکا۔
کیجئے بیاں سرورِ تپ و غم کہاں تلک
ہرمو مرے بدن پہ زبانِ سپاس ہے
یعنی تپ غم کے چڑھنے میں جو رونگٹا کھڑا ہوتا ہے وہ زبان سپاس ہو جاتا ہے۔ تک اور تلک کے باب میں شعرائے حال نے تلک کو متروک اور تک کو اختیار کیا ہے لیکن قدما کے کلام کو دیکھنے سے یہ پتہ لگتا ہے کہ لفظ تک اور تلک دونوں متحدث ہیں ، اگلے زمانہ میں کہاں تلک کی جگہ کہاں تئیں اور کہاں تک بولتے تھے ، اُس سے تلک بنا یعنی تئیں میں سے ’ ت ، کو لے لیا اور لگ میں گاف کو کاف کر دیا ، اس کے بعد تلک میں بھی تخفیف کر کے تک کہنے لگے لیکن تلک کا لفظ بھی ابھی تک محاورہ سے خارج نہیں ہے اس کا ترک بلاوجہ ہے۔
ہے وہ غرور حسن سے بیگانۂ وفا
ہر چند اُس کے پاس دل حق شناس ہے
یعنی میرا دل حق شناس اسی کے پاس ہے اور اُس نے حق وفا سے آگاہ کر دیا ہے ، مگر وہ غرور حسن میں کب سنتا ہے اگر دل حق شناس سے معشوق کا دل مراد لیں تو محاورہ کے خلاف ہو گا یہ کوئی نہیں کہتا کہ اس کے پاس دل روشن اور چشم بینا ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اس کا دل روشن ہے اور چشم بینا۔
پی جس قدر ملی شب مہتاب میں شراب
اس بلغمی مزاج کو گرمی ہی راس ہے
یعنی چاندنی رات ٹھنڈی ہوتی ہے اور میرا مزاج بلغمی کیوں کر شراب نہ پیتا یا یہ کہ شب ماہ کا مزاج مرطوب ہے اُس کے لئے شراب پینا مصلح ہے۔
ہر اک مکان کو ہے مکیں سے شرف اسدؔ
مجنوں جو مرگیا ہے تو جنگل اُداس ہے
یعنی جنگل کی اُداسی کا یہ سبب ہے ورنہ اُداس نہ ہوتا۔
_______
گر خامشی سے فائدہ اخفائے حال ہے
خوش ہو کہ میری بات سمجھنی محال ہے
یعنی میں وہ مجذوب ہوں کہ میری بات سمجھنی محال ہے تو خاموشی کا فائدہ بے خاموش ہوئے مجھے حاصل ہے اور حال سے واردات قلبیہ مراد ہیں۔
کس کو سناؤں حسرت اظہار کا گلہ
دل فرد جمع و خرچ زباں ہائے لال ہے
یعنی حسرت اظہار زبان کے گویا نہ ہونے سے گلہ مند ہے کس کے آگے اس گلہ کو بیان کروں اور فرد جمع و خرچ سے طومار شکایت مراد ہے یعنی اظہار شوق زبان سے نہ ہو گا تو دل میں زبان کی شکایتیں بھری ہوئی ہیں۔ مصنف نے زبان کو جمع اس اعتبار سے کہا ہے کہ بہت سے موقعوں پر زبان نے اظہار شوق میں کوتاہی کی ہے اور ممکن ہے کہ احباب کی زبانیں مراد لیں۔
کس پردہ میں ہے آئینہ پرداز اے خدا
رحمت کہ عذر خواہ لب بے سوال ہے
لب بے سوال کا بے نفس ہونا ضرور ہے اور لب کو بے سوال و بے نفس اس مناسبت سے کہا ہے کہ نفس کے پہنچنے سے آئینہ مکدر ہو جاتا ہے تو ضرور ہوا کہ آئینہ پرداز سے ملنے کی خواہش لب بے سوال سے کرنا چاہئے اور آئینہ پرداز جو آئینہ کو جلا کرے رحمت کا فعل محذوف ہے ، یعنی رحم کر۔
ہے ہے خدانخواستہ وہ اور دُشمنی
اے شوق منفعل یہ تجھے کیا خیال ہے
شوق کی صفت منفعل اچھی نہیں مطلب یہ ہے کہ اے شوق تو جو پشیمان ہورہا ہے کہ ہم سے دُشمن کو دوست سمجھ کر ربط کیا یہ خیال تیرا غلط ہے۔
مشکیں لباس کعبہ علی ؑکے قدم سے جان
نافِ زمین ہے نہ کہ ناف غزال ہے
جان اس شعر میں بلان کا ترجمہ ہے یا اعلم کا زمین ترکیب اضافی فارسی میں ہے اور اعلان نون کے ساتھ ہے۔ حالاں کہ نون فارسی کے یہ خلاف ہے ، اس لئے کہ جب زمین میں اعلان نون کیا تو وہ مہند لفظ ہو گیا ، پھر اُس کی طرف اضافت فارسی کیوں کر صحیح ہو گی ، جیسے سوداؔ کا یہ مصرع ’ تن پر اگر زبان ہو ، بجائے ہر ایک مورکہ میں ترکیب فارسی میں ایک کا لفظ آگیا ہے اور ایک مہند ہے یک کا کعبہ کو ناف زمین کہنا حدیث کا مضمون ہے اور ناف زمین وسط زمین مراد ہے لیکن اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ وسط زمین کب ہے ، خط استوار سے اکیس درجہ اور کئی دقیقہ شمال میں ہٹا ہوا ہے اس کا جواب یہ ممکن ہے کہ اول تو ایسی حدیثیں بہت کم ہیں جن کا قطعی الصدور ہونا اور محفوظ المتن ہونا ثابت ہو اور مان لینے کے بعد دیکھو اہل یورپ نے خاک چھان کر جو تاریخی حالات تحقیق کئے ہیں ان میں سے یہ امر بھی حیرت خیز ہے کہ اقصائے شمال میں جہاں برف اور سردی انتہا کی ہے ، بکثرت ایسے جانوروں کی ہڈیاں ملتی ہیں جو گرم ملکوں کے رہنے والے ہیں اور کبھی منطقہ حارہ سے باہر رہ کر زندہ نہیں رہ سکتے۔ یہ امر بڑا قرینہ ہے ، اس بات کا کہ کسی زمانہ میں یہ ملک منطقہ حارہ کے نیچے تھا اور جہاں برف پڑتی ہے ، یہاں لو چلا کرتی تھی اس سے یہ امر بخوبی نکلا کہ جب اقصائے شمال منطقہ حارہ میں تھا تو عرب کا ملک ضرور خط استواء پر ہو گا۔
وحشت پہ میری عرصۂ آفاق تنگ تھا
دریا زمین کو عرق انفعال ہے
جب میری صحرا نوردی کے لئے زمین کی وسعت ہیچ ثابت ہوئی تو زمین عرق شرم میں غرق ہو گئی یہ دریا گویا عرق انفعال ہے۔
ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسدؔ
عالم تمام حلقۂ دام خیال ہے
یعنی تمام عالم محض خیالی و اعتباری ہے ، اپنی ہستی کو ہستی نہ سمجھنا چاہئے کرۂ عالم کو حلقۂ دام خیال سے تعبیر کیا ہے۔
_______
تم اپنے شکوہ کی باتیں نہ کھود کھود کے پوچھو
حذر کرو مرے دل سے کہ اُس میں آگ دبی ہے
دل میں چھپے ہوئے شکوہ کو دبی ہوئی آگ سے تشبیہ دی ہے اس لئے کہ اظہارِ شکایت سے اکثر آتش عناد مشتعل ہو جاتی ہے۔
دلایہ درد و الم بھی تو مغتنم ہے کہ آخر
نہ گریۂ سحری ہے نہ آہ نیم شبی ہے
آخر کے معنی یہ ہیں کہ انجام اس درد و الم کا یہی ہو گا کہ نہ گریہ رہے گا نہ آہ یعنی کام کر کے تکلیف و اذیت سے نجات دے گا۔
_______
ایک جا حرف وفا لکھا تھا سو بھی مٹ گیا
ظاہرا کاغذ ترے خط کا غلط بردار ہے
یعنی حرف وفا جھوٹ موٹ لکھ دیا تھا اصل میں غلط تھا ، جبھی تو مٹ گیا اس سے یہ لطیفہ پیدا ہوا کہ تیرے خط کا کاغذ غلط بردار ہے یعنی کاغذ تیرا ایسی چیز ہے جس سے کاتب غلط لفظ کو اُٹھالیتا ہے۔
جی جلے ذوقِ فنا کی ناتمامی پر نہ کیوں
ہم نہیں جلتے نفس ہر چند آتش بار ہے
یعنی ہر نفس سینہ میں جا کر اشتعال پیدا کرتا ہے اور وہی اشتعال باعثِ حیات ہے ، حالاں کہ ہر اشتعال میں جسم کا انس اور بدن کا ہیر فنا ہوتا ہے اس سے یہ بات صاف نکلی کہ بہ حسب طبیعت و بمقتضائے فطرت ہر ذی حیات کو ذوق فنا ہے اس لئے کہ وہی اشتعال جو فنا کرتا ہے عین حیات ہے ، لیکن اس ذوق فنا کی ناتمامی پر جی جلتا ہے کہ ایک بار جلا کیوں نہیں دیتا جو لوگ مصنف کی سوانح عمری سے واقف ہیں انھیں حیرت ہو گی کہ اُن کو یہ مسئلہ دوران خون کہاں سے معلوم ہوا۔
آگ سے پانی میں بجھتے وقت اُٹھتی ہے صدا
ہر کوئی درماندگی میں نالہ سے ناچار ہے
نالہ سے ناچار ہے یعنی ازنالہ چارہ ندارد کہتے ہیں باوجود یہ کہ آگ کی صفات میں سے خاموشی مشہور ہے یہاں تک کہ لزوم ذہنی پیدا ہو گیا ہے کہ شاعر کو آگ کی تصور کے ساتھ معنی خاموشی کا تصور بھی ہو جاتا ہے ، اس خاموشی پر بھی حالت درماندگی میں وہ چیخ اُٹھتی ہے۔
ہے وہی بدمستی ہر ذرّہ کا خود عذر خواہ
جس کے جلوہ سے زمین تا آسماں سرشار ہے
یعنی ازخود رفتہ تو وہ کرے اور الزام ہم پر ہو یہ نہیں ہو سکتا ذرّہ کے رقص کو بدمستی سے تعبیر کیا ہے یہ حسن تعلیل ہے۔
مجھ سے مت کہہ تو ہمیں کہتا تھا اپنی زندگی
زندگی سے بھی مرا جی ان دنوں بیزار ہے
یہ خفا ہیں اور معشوق منارہا ہے۔
آنکھ کی تصویر سرنامہ پہ کھینچی ہے کہ تا
تجھ پہ کھل جائے کہ اس کو حسرتِ دیدار ہے
کھل جانا ایک ضلع کا لفظ ہے کہ جو سرنامہ کے بھی مناسب ہے اور آنکھ سے بھی مناسبت رکھتا ہے۔
پینس میں گذرتے ہیں وہ کوچہ سے جو میرے
کندھا بھی کہاروں کو بدلنے نہیں دیتے
کندھا اور کاندھا دونوں طرح بولتے ہیں بدلنے کے ساتھ کندھا کہتے ہیں اور دینے کے ساتھ کاندھا محاورہ میں ہے۔
_______
مری ہستی قضائے حیرت آباد تمنا ہے
جسے کہتے ہیں نالہ وہ اسی عالم کا عنقا ہے
یعنی میری ہستی کو حیرت آباد بنادیا ہے اور حیرت کے لوازم میں سے یہ ہے کہ بے حرکت اور بے صدا کردے ، جب وفور حیرت میں منہ سے آواز نہ نکل سکے تو پھر نالہ کجا لیکن تمنا کے ساتھ نالہ ہونا بھی ضرور ہے۔ غرض یہ کہ نالہ ہے مگر بے صدا ہے۔ جیسے طائرِ عنقا کہ ذکر اس کا عالم میں ہے مگر کسی نے دیکھا نہیں اپنی ہستی کو فضا سے تشبیہ زمان کے مکان سے تشبیہ ہے اور وجہ شبہ امتداد ہے جو دونوں میں پایا جاتا ہے۔
خزاں کیا فصل گل کہتے ہیں کس کو کوئی موسم ہو
وہی ہم ہیں قفس ہے اور ماتم بال و پر کاہے
اس شعر کی بندش میں یہ حسن ہے کہ چھ جملے دو مصرعوں میں آ گئے ہیں اور ادائے معانی میں یہ حسن ہے کہ بلبل کی زبانی شکایت اسیری ہے اور شکایت میں اطناب لطف دیتا ہے تو معنی قلیل کو الفاظ کثیر میں یہاں مصنف نے ادا کیا ہے اور اطناب کا زیادہ لطف اسی میں ہوتا ہے کہ چھوٹے چھوٹے جملے بہت سے ہوں نہ یہ کہ ایک طولانی جملہ ہو گویا اُس میں الفاظ زیادہ تر ہوں مگر اطناب کا لطف نہیں پیدا ہوتا۔
وفائے دلبراں ہے اتفاقی ورنہ اے ہمدم
اثر فریادِ دلہائے حزیں کا کس نے دیکھا ہے
یعنی اپنے چاہنے والوں پر حسینوں کا مہربان ہونا بخت و اتفاق سے ہے تاثیر محبت کے ہم نہیں قائل اس شعر میں دیکھا قافیہ شائگاں ہے یعنی الف اصلی نہیں ہے بلکہ علامت فعل ماضی ہے اسے مفت کا قافیہ کہتے ہیں اور سست سمجھتے ہیں۔
نہ لائی شوخی اندیشہ تاب رنج نومیدی
کف افسوس ملنا عہد تجدید تمنا ہے
نیار و شوخی اندیشہ تاب رنج نومیدی۔ یعنی شوخی اندیشہ سے نا اُمیدی اور مایوسی کا صدمہ نہیں اُٹھ سکتا اسی تمنا میں ہمیشہ رہنا یاس سے بہتر ہے اور کف افسوس یاس ہی کے عالم میں ملتے ہیں تو مصنف نے اُس کی تاویل کی کہ یہ ہاتھ ملنا پھر تمنا سے تجدید بیعت کرنا ہے یہاں مصنف نے تفنن کلام کی راہ سے ’ تجدید عہد تمنا ، کے بدلے ’ عہد تجدید تمنا ، کہا گو محاورہ سے الگ ہے لیکن معناً دُرست ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ دھوکا کھایا جیسے ( اصلاح ذات البین ) کے مقام پر ایک خط میں ( اصلاح بین الذاتین ) لکھ گئے ہیں وہ فقرہ یہ ہے اگر خدانخواستہ مجھ میں اور مولوی صاحب میں رنج پیدا ہوتا تو آپ بہت جلد اصلاح بین الذاتین کی طرف توجہ کرتے۔
_______
رحم کر ظالم کہ کیا بود چراغ کشتہ ہے
نبض بیمارِ وفا دودِ چراغِ کشتہ ہے
پہلے مصرع میں چراغ کشتہ استعارہ ہے بیمار وفا سے اور دوسرے مصرع میں مغنی حقیقی پر ہے نبض کو دود چراغ کشتہ سے تشبیہ متحرک متحرک ہے ، وجہ شبہ میں حرکت ہے یعنی سرد ہونا کمزور ہونا بتدریج کم ہوتے جانا وغیرہ جتنے یہ سب صفات بجھے ہوئے چراغ کے دھوئیں میں ہیں وہ سب دم نکلتے وقت نبض بیمار میں ہوتے ہیں انصاف یہ ہے کہ متحرک کی تشبیہ میں مصنف کو یدطولیٰ ہے اطبا اس وقت کی نبض کو دودی کہتے ہیں یعنی کیڑے کے رینگنے سے تشبیہ دیتے ہیں کہ عربی میں دود کیڑے کو کہتے ہیں ، دونوں تشبیہوں کے مقابلہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف کی تشبیہ اس سے زیادہ تر بدیع ہے۔
دل لگی کی آرزو بے چین رکھتی ہے ہمیں
ورنہ یاں بے رونقی سودِ چراغِ کشتہ ہے
یعنی رونق سوزِ عشق دل کے لئے سراسر زبان کا باعث ہے چراغ کا حال دیکھ کر عبرت کرو کہ اُس کے لئے فرو ماندگی موجب زیاں ہے اور خاموشی اور بے رونقی میں نفع ہے۔
_______
چشم خوباں خامشی میں بھی نوا پرداز ہے
سرمہ تو کہوے کہ دودِ شعلۂ آواز ہے
نواپرداز ہونے سے یہ مراد ہے کہ عشوہ اشارہ آنکھ میں ایسا ہے کہ خاموشی میں بھی باتیں کر رہی ہے گویا اس آنکھ کا کاجل شعلۂ آواز پر پارہ ہو گیا ہے تو کہوے تو گوئی کا ترجمہ ہے۔
پیکر عشاق ساز طالع ناساز ہے
نالہ گویا گردشِ سیارہ کی آواز ہے
طالع ناساز کے ہاتھ میں ساز ارغواں کی طرح پیکر عشاق ہمہ تن نالہ و فریاد ہے تو ان کا نالہ گویا گردش ستارہ کی آواز ہے اس سبب سے کہ گردش ستارہ و طالع ناساز تو باعث نالہ و فریاد ہے لفظ عشاق اس مقام پر ضلع کا لفظ ہے اہل فارس کی موسیقی میں مقام عشاق ایک راگ کا نام ہے۔
دست گاہِ دیدۂ خون بار مجنوں دیکھنا
یک بیاباں جلوۂ گل فرش یا انداز ہے
یعنی سرزمین نجدا شک خونی سے کوسوں سرخ ہورہی ہے لفظ دست گاہ اس شعر میں پائے انداز کے ضلع کا لفظ ہے اور بہ تکلف داخل کیا ہے اور پھر دونوں لفظوں میں فاصلہ بھی ہاتھ بھر کاہے۔
_______
عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
میری وحشت تری شہرت ہی سہی
یعنی تو میرے اظہارِ عشق پر کہتا ہے کہ دیوانہ ہو گیا ہے ایسی وحشت ہوئی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ عشق مجھ کو نہیں الخ۔
قطع کیجئے نہ تعلق ہم سے
کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی
معاملات عاشقانہ میں یہ مضمون بھی مصنف کے حصہ کاہے خوب خوب اسے نظم کیا ہے اور جہاں نظم کیا ہے ، نئے انداز سے باندھا ہے ایک جگہ کہتے ہیں :
اب جفا سے بھی ہیں محروم ہم اﷲ اﷲ
اس قدر دشمن اربابِ وفا ہو جانا
پھر اسی کو یوں باندھا ہے :
تاہم کو شکایت کی بھی باقی نہ رہے جا
سن لیتے ہیں گو ذکر ہمارا نہیں کرتے
میرے ہونے میں ہے کیا رُسوائی
اے وہ مجلس نہیں خلوت ہی سہی
اے وہ کا لفظ اس میں بہت رکیک ہے اہل زبان ہی اس کو سمجھیں گے۔
ہم بھی دُشمن تو نہیں ہیں اپنے
غیر کو تجھ سے محبت ہی سہی
یعنی پھر ہم تجھ سے محبت کر کے اپنے ساتھ دُشمنی کیوں کریں جب تجھے غیر کی محبت کا یقین ہو گیا۔
اپنی ہستی سے ہو جو کچھ ہو
آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی
یعنی اپنی ہستی ہے آگہی عین عرفان ہے اور یہ مضمون حدیث مشہور سے استنباط کیا ہے کہ من عرف نفسہ فقد عرف ربہ پھر کہتے ہیں کہ اگر آگاہی نہیں حاصل تو اپنی ہستی سے غفلت ہی کر لیں ، جب اپنے تئیں نیست سمجھے گا تو موجود بحق کا جلوہ دکھائی دے گا ، اس شعر کی تعریف کے لئے الفاظ نہیں ملتے ، حق یہ ہے کہ مشائخ طریقت جن کا کلام ترجمان حقیقت ہوا کرتا ہے اُن کے دیوان بھی آج اس شعر کی نظیر سے خالی ہیں۔
عمر ہر چند کہ ہے برق خرام
شدل کے خوں کرنے کی فرصت ہی سہی
وجہ مناسبت یہ کہ برق بھی تو خون رگ زبر ہے۔
ہم کوئی ترک وفا کرتے ہیں
نہ سہی عشق مصیبت ہی سہی
مصیبت سہی دونوں معنوں کے ساتھ یہاں دُرست ہے ، خواہ سہی کو فعل لو خواہ حرف۔
کچھ تو دے اے فلک نا انصاف
آہ و فریاد کی رخصت ہی سہی
یعنی یہ نہیں کہتا کہ مراد ہی دے تو رخصت فریاد ہی دے۔
ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے
بے نیازی تری عادت ہی سہی
بہ لفظ استقبال یہ کہا کہ خو ڈالیں گے اس معنی پر یہ کہنا دلالت کرتا ہے کہ ابھی طبیعت کو بے نیازی کی برداشت نہیں ہے اور عادت بگڑی ہوئی ہے یکایک طبیعت کے بدل جانے کی بھی اُمید نہیں ہے ، رفتہ رفتہ بے نیازی کو بھی انگیز لیں گے ، یہاں حرف استقبال میں تراخی و تاخبر بھی مصنف کو مقصود اور اسی سے معنی میں کثرت پیدا ہوتی ہے۔
بار سے چھیڑ چلی جائے اسدؔ
گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی
حسرت سے اظہارِ حسرت مراد لینا چاہئے کہ چھیڑنے کی صورت پیدا ہو اس لئے کہ وہ حسرت جو دل کی دل ہی میں ہو اور اُسے ظاہر نہ کرے اُس میں چھیڑ چھاڑ کیوں ہونے لگی گر کا لفظ تمام شعراء فارسی کے تتبع سے نظم میں لاتے ہیں ورنہ اُردو کے محاورہ میں گر کوئی نہیں بولنا ’ اگر ، کہتے ہیں اور اسی سبب سے نثر میں گر متروک ہے اور لکھنؤ میں بعض شعراء نے نظم سے بھی ترک کیا ہے۔
_______
ہے آرمیدگی میں نکو ہش بجا مجھے
صبح وطن ہے خندۂ دنداں نما مجھے
یعنی حالت آرمیدگی و ترک ہرزہ گردی میں نکوہش و سرزنش کا میں سزاوار ہوں کہ وطن میں صبح مجھے نہیں ہوتی بلکہ میری حالت پر خندہ دنداں نما ہوتا ہے ، خندۂ صبح مشہور استعارہ ہے۔
ڈھونڈھے ہے اُس مغنیٔآتش نفس کو جی
جس کی صدا ہو جلوۂ برقِ فنا مجھے
یعنی ایسے سماع کو جی چاہ رہا ہے جس کے سننے سے وہ حال آئے کہ فنا فی الذات ہو جاؤں آواز کی روشنی اور زمزہ کا لہرا مل کر وجہ شبہ مرکب ہوئی اور ترکیب وجہ شبہ پہلے خوبی ہے اس تشبیہ کی ، بعد اس کے یہ ترقی ہے کہ حرکت بھی وجہ میں داخل ہے پھر طرفین تشبیہ کو دیکھئے ایک مسموع ہے ، دوسرا مبصر ہے گو دونوں محسوس ہیں لیکن ایسا یوں بعید ہے کہ تشبیہ محسوس بہ معقول کا لطف پیدا ہے مگر شعر میں یہ کہنا کہ ایسا ہو ویسا ہو شعر کو سست کر دیتا ہے ، اس کے برخلاف اگر اس مضمون کو انشا میں ڈھالا ہوتا اور یوں کہتے کہ ’ تیری صدا ہے جلوۂ برقِ فنا مجھے ، تو زیادہ لطف دیتا۔
مستانہ طے کروں ہوں رۂ وادیِ خیال
تابازگشت سے نہ رہے مدعا مجھے
یعنی چاہتا ہوں کہ اپنے خیال میں ایسا غرق ہوں کہ پھر نہ آہ بھر سکوں مولوی محمد حسین آزادؔ کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ کروں ہوں اور مروں ہوں ، دہلی میں بھی عرصہ سے غیر فصیح سمجھتے ہیں پھر ایک جگہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’ اساتذۂ دہلی کے کلام میں آئے ہے ، جائے ہے اکثر ہے مگر اخیر کی غزلوں میں انھوں نے بھی بچاؤ کیا ہے ، اسی طرح کروں ہوں اور پھروں ہوں جیسا مصنف نے کہا ہے یا تم آؤ ہو ، جاؤ ہو یا ہم کھائے ہیں اور پئے ہیں یہ سب محاورے البتہ غیرفصیح ہیں اور اہل لکھنؤ تو کیا تمام ہندوستان کے کان اس کے سننے کے متحمل نہیں ، مگر دلی کی زبان پر باقی ہیں۔ تھوڑے ہی دنوں کا ذکر ہے کہ ریاض الاخبار میں ( یہ پرچہ گورکھپور سے نکلتا ہے ) دلی کی آئی ہوئی ایک غزل شائع کہ مصنف اُس کے ذوقؔ مرحوم کے نواسے ہیں ، اُس کا مطلع یہ ہے :
کہے ہے برق تجلی لٹا لٹا کے مجھے
یہی ہیں دیکھنے والے نظر اُٹھا کے مجھے
مگر بقول آزاد اکثر اب یہی ہے کہ اہل دہلی اپنے شعر کو اس سے بچاتے ہیں اور عجیب نہیں کہ اس کا سبب یہ ہے کہ اہل لکھنؤ کا کلام کثرت سے دیکھا اور سنا تو اس کا یہ اثر پڑا نواب فصیح الملک بہادر مرزا داغؔ صاحب ایک دفعہ فرماتے تھے کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا سانس اور فکر کا لفظ دلی میں مذکر ہی بولتے سنا ، مگر استاد ذوقؔ نے جب سانس کو نظم کیا مونث نظم کیا اور یہی فرمایا کہ میرؔ کی زبان پر بھی یہ لفظ مونث ہی تھا اور مرزا غالبؔ نے مجھے یہ ہدایت کی ہے کہ فکر کو بھی مونث ہی نظم کیا کرو اس سے یہ ظاہر ہے کہ قدما کے جو الفاظ لکھنؤ میں باقی رہ گئے ہیں اہل دہلی اس میں تذکیر و تانیث کا تصرف کرنے کے مجاز نہیں ہیں لکھنؤ کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے محاورہ میں بہت ہی نازک فرق ہے مثلاً ہندو کہتے ہیں ’ مالا جپی اور پوجا کی ، اور مسلمان کہتے ہیں ’ مالا پہنا اور پوجا کیا ، یہی فرق قدیم سے چلا آتا ہے۔ میر حسنؔ کہتے ہیں :
شوہ موتی کے مالے لٹکتے ہوئے
رہیں دل یہاں سر پٹکتے ہوئے
مگر اب دلی میں مالا اور پوجا مونث بولا جاتا ہے۔ مرزا غالبؔ مرحوم کی تحریروں میں میں نے محاورہ لکھنؤ کے خلاف چند الفاظ دیکھے اس کے بارہ میں نواب مرزا خاں داغؔ صاحب سے تحقیق چاہی انھوں نے لکھ دیا کہ یہ غلط ہیں مثلاً دایاں ہاتھ کہنا غلط ہے داہنا ہاتھ کہنا چاہئے ، چھٹویں تاریخ غلط چھٹی صحیح ہے۔ اُن کا اُردو غلط اُن کی اُردو کہنا چاہئے۔ کرسی پر سے کھسل پڑا خلاف محاورہ ہے۔ غیر کیا خود مجھے نفرت مری اوقات سے ہے۔ اس کو بھی غلط کہا اپنی اوقات کہنا چاہئے تھا۔ میں نے درے اور پرے کے باب میں بھی تحقیق چاہی کہا آپ لوگوں کی خاطر سے میں نے ان لفظوں کو ترک کر دیا۔ اس کے علاوہ بعض خاص محاورہ دہلی کے مثلاً ٹھیک نکل جانا ، پکہنڈ کرنا ، ٹوپی اوڑھنا ، مکان سجانا ، پترے کھولنا ، جالا پورنا وغیرہ مرزا داغؔ صاحب کے کلام میں اور قدمائے دہلی کے دیوانوں میں بھی نہیں پائے جاتے غرض کہ جو لوگ دہلی کے فصحا و نقاد و مالک زبان و قلم ہیں ، اُن کا کلام لکھنؤ کی زبان سے مطابقت رکھتا ہے۔ کس واسطے کہ جب سے میرؔ و سوداؔ لکھنؤ میں آ کر رہ پڑے اُسی زمانہ سے دلی گوش برآواز لکھنؤ ہو گئی تھی۔ پھر انشائؔ اللہ خاں و جرأتؔ کے کلام نے اُن کی توجہ کو ادھر سے پھیرنے نہ دیا اُن کے بعد آتشؔ و ناسخؔ کے مشاعروں نے متوجہ کر لیا بلکہ شاہ نصیر و ذوق نے کلام کا تو رنگ ہی بدل دیا ، آخر میں میر صاحب کے مرثیوں نے خاص اور عام سب کی زبان پر اثر ڈال دیا اسی زمانے میں نواب مرزا شوقؔ کی تینوں مثنویاں گھر گھر پڑھی جانے لگیں کہ لوگوں کو حفظ ہو گئیں امانتؔ بھی انھیں دنوں میں اندر سبھا کہہ کر اُردو میں ڈراما کے موجد ہوئے اس کے علاوہ نامہ قلق اور واسوخت امانت اور شہروں کی طرح دلی کی گلیوں میں بھی لوگ گاتے ہوئے پھرنے لگے ، زبان کی شہرت کے اسباب پر جب غور کیجئے تو یہی لوگ معلوم ہوتے ہیں جن کے نام گذرے اور اُن کے کلام کی شہرت نے اس زبان کو مانوس کر دیا ، یہاں تک کہ دلی اور لکھنؤ کی زبان تقریباً ایک ہو گئی اس دعوے پر آزاد سلمہ اللہ کی شہادت کافی ہے۔ پانچویں دور کی تمہید میں لکھتے ہیں ’ اب وہ زمانہ آتا ہے کہ انھیں یعنی اہل لکھنؤ کو خود اہل زبانی کا دعویٰ ہو گا اور زیبا ہو گا اور جب ان کے اور دلی کے محاورے میں اختلاف ہو گا تو اپنے محاورہ کی فصاحت اور دلی کے عدم فصاحت پر دلائل قائم کریں گے بلکہ اُنھیں کے بعض بعض نکتوں کو دلی کے اہل انصاف بھی تسلیم کریں گے ، ان بزرگوں نے بہت قدیمی الفاظ چھوڑ دیے جن کی کچھ تفصیل چوتھے دیباچہ میں لکھی گئی اور اب جو زبان دلی اور لکھنؤ میں بولی جاتی ہے وہ گویا انھیں کی زبان ہے اور میر مہدی کے اس مصرع پر : میاں یہ اہل دہلی کی زباں ہے۔ غالبؔ لکھتے ہیں اے میر مہدی تجھے شرم نہیں ارے اب اہل دہلی یا ہندو ہیں یا اہل حرفہ ہیں یا خاکی ہیں یا پنجابی یا گورے ہیں ، ان میں سے تو کس کی زبان کی تعریف کرتا ہے۔ لکھنؤ کی آبادی میں کچھ فرق نہیں آیا ریاست تو جاتی رہی لیکن ہر فن کے کامل لوگ موجود ہیں۔ اللہ اللہ دلی نہ رہے اور دلی والے اب تک یہاں کی زبان کو اچھا کہے جاتے ہیں۔ انتہا اب خیال کرنا چاہئے کہ مولوی محمد حسین صاحب آزاد لکھتے ہیں کہ اب جو زبان دلی اور لکھنؤ میں بولی جاتی ہے وہ گویا ایک ہی زبان ہے اصل یہ ہے کہ اہل لکھنؤ کی زبان دونوں جگہ بولی جاتی ہے جس کو دہلی کے تمام امراء و شرفاء اپنے ساتھ لے کر لکھنؤ میں آئے تھے اور دلی میں گنتی کے ایسے لوگ رہ گئے تھے جو صاحبِ زبان تھے اُن کی نسل پر بھی غیرقوموں کی زبان نے تو کم مگر لہجہ نے بہت اپنا اثر ڈالا اور اس کی کسی کو خبر بھی نہ ہوئی لیکن لکھنؤ میں وہ زبان سب آفتوں سے محفوظ رہی یعنی زوالِ سلطنت واجد علی شاہ جنت آرام گاہ تک لکھنؤ کی زبان خاص دہلی کی زبان تھی اور ترقی کر رہی تھی ، اس سبب سے کہ چاروں جانب لکھنؤ کے صدہا کوس تک شہروں میں ملکی زبان اُردو ہے اور گاؤں میں زبان شیریں بھاکا مروج ہے بخلاف دہلی کے کہ جن لوگوں سے دہلی دہلی تھی وہ لوگ تو نہ رہے اور غیرلوگ جو اطراف سے آئے اور آرہے ہیں وہ سب اہل پنجاب ہیں اسی سبب سے دیکھئے غالبؔ میر مہدی کو فہمائش کر رہے ہیں کہ دلی کی زبان کو لکھنؤ پر ترجیح نہ دو اور اس کے علاوہ ذوقؔ کے کلام میں زبان لکھنؤ کا تتبع پایا جاتا ہے مثلاً فکر بتانیث ذوقؔ نے نظم کیا ہے سانس کو بھی بتانیث باندھا ہے اس پر بھی بعض ناواقف کہہ اُٹھتے ہیں کہ دلی کی زبان لکھنؤ سے بہتر ہے اس کلمہ سے جو لوگ باہر والے ہیں اور وھوکا کھاتے ہیں اور بہک جاتے ہیں یہ علمی مسئلہ ہے اس میں انصاف و راستی سے نہ گذرنا چاہئے۔ دلی میں ’ نے ، کا استعمال عجیب طرح سے اب ہونے لگا ہے۔
آزاد طرے اعزاز کے جن لوگوں نے ہیں پائے ہوئے
بالیں گیہوں کی وہ شملہ میں ہیں لٹکائے ہوئے
ایک جگہ قصص ہند میں لکھتے ہیں ’ تم نے مجھے بادشاہ سمجھا ہوا تھا ، جو بے چارے محض تتبع کرتے ہیں اُن کی تحریروں میں تو اس طرح کا ’ نے ، بہت افراط سے دیکھنے میں آتا ہے لیکن ذوقؔ و مومنؔ و ممنونؔ کا کلام ہمارے پاس موجود ہے اس میں کہیں ایسا ’ نے ، نہیں ہے حقیقت امر یہ ہے کہ لکھنؤ کی جو زبان ہے یہ دلی ہی کی زبان ہے ۱۱۵۲ ء سے ۱۱۷۰ ء تک اٹھارہ برس کے عرصہ میں تین دفعہ دلی تاراج و برباد ہوئی وہاں کے لوگ فیض آباد و لکھنؤ میں صفدر جنگ و شجاع الدولہ کے ساتھ آبسے ، پھر اس کے بعد دلی ایک کیا تمام ہندوستان خاص مرہٹوں کا جولا نگاہ ہو گیا۔ لکھنؤ کے سوا کہیں امن نہ تھا یہاں آصف الدولہ کے عہد سے واجد علی شاہ کے زمانہ تک یہ زبان جلا پاتی رہی اور دلی میں غیرقوموں کے خلط نے یہ اثر کیا کہ لہجہ تک بدل گیا کہ اب پنجاب کے لہجہ میں اُردو بولی جاتی ہے۔
کرتا ہے بسکہ باغ میں تو بے حجابیاں
آنے لگی ہے نگہتِ گل سے حیا مجھے
یعنی میں نگہت گل کو بے حجاب سمجھتا تھا کہ ہوا سن کے اور جامہ سے باہر ہو گئی لیکن تو تو اس سے بھی زیادہ بے حجاب نکلا۔ معشوق کا بے حجاب و بے باک شوخ ہونا بھی ایک انداز ہے جس طرح شرمگیں و پردہ نشیں ہونا ایک ادا ہے۔
کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
بظاہر مطلب یہ ہے کہ لوگ سمجھ گئے کہ یہ عاشق مزاج ہے۔
_______
زندگی اپنی اس شکل سے گذرے غالبؔ
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
اس شکل سے محاورہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ برے حالوں۔
_______
اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے
بیٹھا رہا اگرچہ اشارے ہوا کیے
حیا کو غیرت کے معنی پر بھی بولتے ہیں یعنی میں بے غیرتی سے اس کی محفل میں بیٹھا رہا گو سب لوگ اشارے کیا کیے اور آوازے کستے رہے۔
دل ہی تو ہے سیاست درباں سے ڈر گیا
میں اور جاؤں در سے ترے بن صدا کیے
بن کا لفظ بھی نظم و نثر سے اب لوگوں نے ترک کر دیا ہے اور اس کا اثر پڑا کہ اب گفتگو سے بھی ترک ہوتا جاتا ہے لیکن ابھی تک سننے میں ثقیل نہیں معلوم ہوتا اور اُس کا ترک بھی بے وجہ ہے۔ بن اور بنا ہندی لفظ ہے اور بے لفظ فارسی ہے۔ ہندی لفظ چھوٹ کر فارسی لفظ اس کی جگہ پر داخل ہو گیا ہے۔
رکھتا پھروں ہوں خرقہ و سجادہ رہن سے
مدت ہوئی ہے دعوتِ آب و ہوا کیے
یعنی فصل بہار کی دعوت ہے۔
بے صرفہ ہی گذرتی ہے ہو گرچہ عمر خضر
حضرت بھی کل کہیں گے کہ ہم کیا کیا کیے
مطلب یہ ہے کہ کتنی ہی بڑی عمر ہو ، تعلقات دُنیا مہلت نہیں دیتے کہ انساں کل کے لئے کچھ کر رکھے۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اولئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
وہ کا اشارہ مبہم رہ گیا اور یہ عیب تعبیر ہے مراد وہی لوگ ہیں جو دفن ہیں۔
کس روز تہمتیں نہ تراشا کیے عدو
کس دن ہمارے سر پہ نہ آرے چلا کیے
تہمت ہونا ، تہمت کرنا ، تہمت دھرنا ، تہمت باندھنا ، تہمت بنانا ، تہمت لگانا ، یہ سب محاورہ میں ہے مگر تہمت تراشنا مصنف نے آرے کی رعایت سے کہہ دیا ہے۔
صحبتِ غیر کی نہ پڑی ہو کہیں یہ خو
دینے لگا ہے بوسہ بغیر التجا کیے
وصل میں معشوق کا التفات دیکھ کر یہ بدگمانی پیدا ہوئی کہ یہ عادت رقیب کی بگاڑی ہوئی ہے اور اس خیال سے ساری خوشی وصل کی خاک ہو گئی اس شعر میں مصنف نے یہ حالت دکھائی ہے کہ جس عاشق کو بے اعتنائی معشوق کی عادت پڑی ہوئی ہو اور اس سبب سے ہمیشہ غم زدہ رہتا ہو اور غم کا خوگر ہو گیا ہو ، التفاتِ معشوق سے بھی اُسے خوشی نہیں ہوتی اور اُس میں بھی غم کا پہلو ڈھونڈھ لیتا ہے۔
ضد کی ہے بات اور مگر خو بری نہیں
بھولے سے اُس نے سیکڑوں وعدے وفا کیے
مطلب ظاہر ہے مگر مقام اس کلام کا جب تک نہ معلوم ہو لطف نہیں مل سکتا۔ کسی ہمدرد نے سمجھایا ہے کہ اُس سے محبت نہ کرو ، وعدہ خلاف ہے ، بے وفا ہے اور انھیں محبت کی آنکھ سے اُس کا کوئی عیب دکھائی نہیں دینا اور اس کی طرف داری کر رہے ہیں ، اب دلی کی زبان میں برخلاف لکھنؤ کے سیکڑوں کی لفظ میں نون بھی داخل ہو گیا ہے۔ سیکڑوں کو سینکڑوں کہنے لگے ہیں اسی طرح پراٹھے کو پرانٹھا کہتے ہیں۔
غالبؔ تمہیں کہو کہ ملے گا جواب کیا
مانا کہ تم کہا کیے اور وہ سنا کیے
دوسرے مصرع میں طنز ہے یعنی اچھا یہی سہی تم نے کہا اور اُنھوں نے سنا مگر یہ تو سوچو کو جواب کیا ملے گا سمجھانے والے کو یقین ہے کہ غالبؔ دیوانہ ہوا ہے کہ وہاں اظہارِ عشق کرنے کو چلا ہے ، اُس جگہ گذر ہونا بھی محال ہے پوری بات کون سنتا ہے اسی سبب سے اُسے مانا کہا ہے۔
_______
رفتارِ عمر ، قطع رہِ اِ ضطراب ہے
اس سال کے حساب کو برق آفتاب ہے
یعنی جس طرح رفتار آفتاب سے سال کا حساب کرتے ہیں عمر گریزاں کا حساب آفتاب کے بدلے برق سے کرنا چاہئے اور سال کے معنی عمر کے بھی ہیں راہ اضطراب کے معنی وہ راہ جو حالتِ اضطراب میں طے ہو۔
مینائے مے ہے سر و نشاط بہار سے
بال تدرو جلوۂ موجِ شراب ہے
نشاط بہار میں مینائے سبز رنگ کشیدہ بالا سرو کا اندازہ دکھا رہا ہے اور شراب سر جوش کی لہر بال تدرو کی جھلکی دکھائی جاتی ہے حاصل یہ ہے کہ صحبت شراب میں تماشائے باغ کا مزہ آرہا ہے لیکن شعرا کی عادت ہے کہ سرو کے ساتھ قمری کا ذکر کرتے ہیں مصنف نے تدرو کو باندھا اور قمری کو چھوڑدیا۔ فقط فارسیت مصنف کو اس طرف لے گئی کہ مصطلحات فارسی میں بال تدرو مگر ابر کو بھی کہتے ہیں۔
زخمی ہوا ہے پاشنہ پائے ثبات کا
نے بھاگنے کی گوں نہ اقامت کی تاب ہے
یعنی یہ نوبت پہنچی ہے کہ اثنائے راہ میں گرکر ایڑھیاں رگڑیے گوں کا لفظ اس شعر میں اپنی نازکی دکھا رہا ہے۔
جادادِ بادہ نوشی زنداں ہے شش جہت
غافل گماں کرے ہے کہ گیتی خراب ہے
جاداد مخفف جائے داد یعنی جاگیر ہے بادہ عرفاں اور رند سے عارف مراد ہے اور عالم کے خراب اور ویران ہونے سے یہ مطلب ہے کہ کوئی صانع و مدبر اُس کے زعم میں نہیں ہے جو شخص جلوۂ حقیقت سے غافل ہے۔
نظارہ کیا حریف ہو اس برق حسن کا
جوش بہار جلوہ کو جس کی نقاب ہے
یعنی عالم اجسام کا ظہور جس شاہد حقیقی کے لئے حفاظت کا باعث ہے اُس کو نظر کیوں کر دیکھ سکتی ہے۔ نظر جب پڑے گی نقاب ہی پر پڑے گی یعنی آنکھ جب دیکھے گی اجسام ہی کو دیکھے گی جوش بہار ظہور عالم سے استعارہ ہے اور نقاب اُسے اس وجہ سے کہا کہ جس طرح نقاب چہرہ کی آڑ کر لیتی ہے ، اسی طرح تماشائے عالم اجسام صوفیہ کے نزدیک عالم لاموت تک جانے سے مانع ہے۔
میں نامراد دل کی تسلی کو کیا کروں
مانا کہ تیرے رُخ سے نگہ کامیاب ہے
’ تو ، معنی مفعولیت کے لئے نہیں ہے بلکہ واسطے کے معنی پر ہے یعنی دل نامراد کی تسلی کے لئے کیا تدبیر کروں تجھ سے سینہ بسینہ ہوئے بغیر اُس کو تسلی نہیں ہونے کی یہ سچ ہے کہ نگاہ کو دیکھنے سے تسلی ہو گئی مگر دل کو نہیں ہوئی۔
گذرا اسدؔ مسرتِ پیغام یار سے
قاصد پہ مجھ کو رشکِ سوال و جواب ہے
یعنی اے اسدؔ میں پیغام یار کی خوشی سے درگذرا مجھے یہی رشک ہے کہ قاصد اُس سے جا کر ہم کلام ہو گا۔
_______
دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آجائے ہے
میں اُسے دیکھوں بھلا کب مجھ سے دیکھا جائے ہے
انتہائے رشک یہ کہ اپنے تئیں بھی محروم رکھا جیسے بخیل انتہائے بخل میں اپنے تئیں بھی محروم رکھتا ہے مصنف کا یہ قیاس صحیح ہے اس وجہ سے کہ رشک بھی ایک طرح کا بخل ہے۔
ہاتھ دھو دل سے یہی گرمی گر اندیشہ میں ہے
آبگینہ تندئی صہبا سے پگھلا جائے ہے
گرمیٔاندیشہ سے اندیشہ کے وہ اثر مراد ہیں جو دل کا حال دگرگوں کر دیتے ہیں اور اُسی تندیٔ مے سے اور دل کو آبگینہ سے تشبیہ دی ہے۔
غیر کو یارب وہ کیوں کر منع گستاخی کرے
گر حیا اس کو بھی آتی ہے تو شرما جائے ہے
حیا کو ذی روح فرض کیا ہے جس کے آنے سے معشوق کو حیا آجاتی ہے یعنی غیر کے چھیڑنے سے اُسے حیا بھی آتی ہے تو اُس سے بھی حیا آجاتی ہے مطلب یہ کہ اس قدر شرم ہے کہ رقیب کو گستاخی کرنے سے منع نہیں کرتا۔
شوق کو یہ لت کہ ہر دم نالہ کھینچے جائے ہے
دل کی وہ حالت کہ دم لینے سے گھبرا جائے ہے
شوق کو نالہ کشی کا لپکا پڑگیا ہے اور دل کی حالت ایسی نازک ہے کہ سانس لینا بھی ناگوار ہے۔ لت کہتے ہیں بد عادت اور بری علت کو یہ لفظ فحش سے خالی نہیں ہے اور یہ اس کا محل استعمال نہ تھا مگر مصنف نے لفظ حالت کے سجع کو خیال کیا۔
دور چشم بد تری بزم طرب سے واہ واہ
نغمہ ہو جاتا ہے واں گر نالہ میرا جائے ہے
یعنی تیری محفل میں نالہ میرا نغمہ کی طرح طرب انگیز ہوتا ہے یعنی میرا نالہ کسی سے تو خوش ہوتا ہے مقصود تشنیع ہے۔
گرچہ ہے طرزِ تغافل پردہ دارِ رازِ عشق
پر ہم ایسے کھوئے جاتے ہیں کہ وہ پاجائے ہے
اس کے سامنے جا کر ہم ایسے کھوئے جاتے ہیں یعنی ازخود رفتہ ہو جاتے ہیں کہ وہ پاجاتا ہے یعنی سمجھ جاتا ہے کہ اس پر جادو چل گیا اگرچہ وہ تغافل کا انداز رکھتا ہے تاکہ میرے رازِ دل کا پردہ باقی رہ جائے یہ یاد رہے کہ کھوے جانا ’ ے ، کے ساتھ ازخود رفتگی کے معنی پر ہے اگر کھو جانا کہیں تو یہ معنی نہ پیدا ہوں گے۔
اس کی بزم آرائیاں سن کر دل رنجوریاں
مثل نقش مدعائے غیر بیٹھا جائے ہے
یعنی جس طرح بزم یار میں رقیب کا نقش بیٹھا ہے اسی طرح اس بزم آرائی کا حال سن کر میرا دل بیٹھا جاتا ہے۔
ہوکے عاشق وہ پری رُخ اور نازک بن گیا
رنگ کھلتا جائے ہے جتنا کہ اُڑتا جائے ہے
عشق میں رنگ سفید ہونے کو رنگ کے کھلنے سے تعبیر کیا ہے۔
نقش کو اُس کے مصور پر بھی کیا کیا ناز ہیں
کھینچتا ہے جس قدر اتنا ہی کھنچتا جائے ہے
یعنی مصور جس قدر اُس کی تصویر کو کھینچتا جاتا ہے اسی قدر تصویر بھی کھنچتی جاتی ہے اور یہ کھنچنا دوسرے معنی رکھتا ہے۔
سایہ میرا مجھ سے مثل دور بھاگے ہے اسدؔ
پاس مجھ آتش بجاں کے کس سے ٹھہرا جائے ہے
یعنی میری وہ حالت ہے کہ سایہ تک ساتھ نہیں دیتا یہ سارا مضمون تو محاورہ ہے لیکن مصنف نے اسی تشبیہات سے رنگا ہے اپنے تئیں آتش بجاں کہا ہے یعنی اپنے اضطراب و بیتابی کو اُس شخص کے تڑپنے سے تشبیہ دی ہے جو آگ میں گر پڑا ہو اور سایہ کو دُھوئیں سے تشبیہ دی ہے ان تشبیہوں کے علاوہ اس شعر میں اس توجیہ نے بڑا لطف دیا کہ دھوئیں کے اُٹھنے کو آگ سے بھاگنا قرار دیا۔
_______
گرم فریاد رکھا شکل نہالی نے مجھے
تب اماں ہجر میں دی برد لیالی نے مجھے
یعنی نقش فانی کو دیکھ کر میں گرم فریاد ہوا کہ ہائے یہ شکل پہلو میں ہو اور وہ شکل نہ ہو اور گرم فریاد ہونے سے شبِ ہجر کی سردی سے جان بچی۔
نسیۂ و نقد دوعالم کی حقیقت معلوم
لے لیا مجھ سے مری ہمتِ عالی نے مجھے
یعنی میری ہمت بلند دنیا و عقبیٰ کی نسیہ و نقد دونوں کو کم حقیقت سمجھی اور اُس نے مجھے دونوں سے علاحدہ کر دیا میری قیمت کے قابل نہ دُنیا ہے نہ نسیہ عقبیٰ ہے۔
کثرت آرائی وحدت ہے پرستاری وہم
کر دیا کافر اِ ن اَصنام خیالی نے مجھے
یعنی وحدت کو لباس کثرت میں آراستہ کرنا اور وحدت پر کثرت کا خیال کرنا وہم پرستی ہے اور یہی کثرت خیالی اصنام خیالی ہیں اور جس طرح اصنام کو بندۂ اصنام شریک باری سمجھتا ہے اسی طرح جو بے خبر کے وجود کثرت کے قائل ہیں وہ کثرت کو وحدت کا شریک وجود سمجھے ہوئے ہیں اور یہ شرک و کفر ہے۔
ہوس گل کا تصور میں بھی کھٹکا نہ رہا
عجب آرام دیا بے پر و بالی نے مجھے
بے پر و بال ہو جانے سے ایسی راحت ہوئی کہ تماشائے گل کا تصور بھی اب نہیں آتا۔
_______
کار گاہ ہستی میں لالہ داغ ساماں ہے
برق خرمن راحت خون گرم دہقاں ہے
مصنف مرحوم خود عود ہندی میں ان تینوں شعروں کے معنی بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں داغؔ سامان مثل انجم انجمن وہ شخص کہ داغ جس کا سرمایۂ ساماں ہو موجودیت لالہ کی منحصر نمائش داغ پر ہے ورنہ رنگ تو اور پھولوں کا بھی لال ہوتا ہے بعد اس کے یہ سمجھ لیجئے کہ پھول کے درخت یا غلہ جو کچھ بویا جاتا ہے دہقان کو جوتنے بونے پانی دینے میں مشقت کرنی پڑتی ہے اور ریاضت میں لہو گرم ہو جاتا ہے مقصود شاعر کا یہ ہے کہ وجود محض رنج و عنا ہے مزارع کا وہ لہو جو کشت کار میں گرم ہوا ہے وہی اس کی راحت کی خرمن کا برق ہے حاصل موجودیت داغ اور داغ مخالفت راحت اور صورت رنج ہے انتہٰی غرض یہ ہے کہ ہستی د اربلا ہے اگر کوئی یہاں راحت پہنچانے کا قصد کرتا ہے تو وہ راحت میں آفت ہو جاتی ہے دہقان لالہ کے لئے سرگرمی و خون گرمی کرتا ہے لیکن اس سے لالہ کو داغ حاصل ہوتا ہے۔
غنچہ تاشگفتنہا برگِ عافیت معلوم
باوجودِ دلجمعی خوابِ گل پریشاں ہے
یعنی کلی جب تک کھلے کھلے ساز برگ عافیت کا حاصل ہونا یعنی آفت سے اُس کا محفوظ رہنا کہاں سے معلوم ہے جب یہ حال ہوا تو گل کو باوجود دل جمعی پریشانی ہے اور غنچہ کو دل سے تشبیہ ہے اور جمعیت دل کی صورت بھی اُس سے ظاہر ہے اسی طرح گل شگفتہ کی پنکھڑیوں کا بکھرا ہوا ہونا پریشانی کی صورت ظاہر کر رہا ہے اور گل کی خاموشی و برجا ماندگی خواب کا عالم دکھا رہی ہے غرض کہ یہ تینوں حالتیں گل پر طاری رہتی ہیں تو باوجود دل جمعی خواب گل پریشان رہتا ہے اور سبب پریشانی کا یہ ہے کہ اس سے اندیشہ ہے کہ دیکھئے ساز و برگ عافیت اس دار بلا میں ممکن ہوتا ہے یا نہیں۔
ہم سے رنج بیتابی کس طرح اُٹھایا جائے
داغ پشتِ دستِ عجز شعلہ خسن بدنداں ہے
مطلب یہ کہ اس رنج کی تاب ہم سے نہ ہو سکے گی اور یہ ہلاک کردے گا دست عجز سے وہ ہاتھ مراد ہے جو صدمہ کے دفع کرنے سے مجر رکھتا ہے اسی سبب سے اُسے خس سے تشبیہ دی ہے اور داغ کو شعلہ سے اور پشت دست زمین پر رکھنا عاجزی کرنے کے معنی پر ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ شعلہ کی آفت کو خس نہیں اُٹھا سکتی وہ اُسے جلا کر فنا کر دیتا ہے اور خس بدنداں گرفتن بھی عجز کے معنی پر ہے یہ دوسرا پہلو اس شعر کے معنی میں نکلتا ہے یعنی میرے دست عجز کا داغ شعلۂ خس بدنداں ہے کہ میری طرف سے اظہارِ عشق کر رہا ہے کہ رنج بیتابی اس سے نہ اُٹھ سکے گا۔ ان تینوں شعروں کے معنی بیان کرنے کے بعد مصنف مرحوم لکھتے ہیں قبلہ ابتدائے فکر سخن میں بے دل و اسیر و شوکت کے طرز پر ریختہ لکھتا تھا چنانچہ ایک غزل کا مقطع یہ تھا :
طرز بے دل میں ریختہ لکھنا
اسد اللہ خاں قیامت ہے
پندرہ برس کی عمر سے پچیس برس کی عمر تک مضامین خیالی لکھا گیا دس برس میں بڑا دیوان جمع ہو گیا آخر جب تمیز آئی تو اُس دیوان کا دور کیا ، اوراق یک قلم چاک کئے دس پندرہ شعر واسطے نمونہ کے دیوان حال میں رہنے دئیے۔
_______
اُگ رہا ہے در و دیوار سے سبزہ غالبؔ
ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے
دیوانگی میں ویرانہ و خرابہ پسند ہوتا ہے جب گھر ویران نہ تھا تو اُسے چھوڑکر بیابان میں چلے آئے لیکن بیابان نوردی میں اتنی مدت گذری کہ گھر ویران ہو گیا یہاں تک کہ در و دیوار پر گھانس اُگ آئی ، اب اس خانہ باغ کے دیکھنے کے لئے جی لوٹ رہا ہے اس شعر میں بیان و بدیع کی کوئی خوبی نہیں ہے لیکن صاف صاف لفظوں میں حالت دیوانگی کی ایسی تصویر کھینچی ہے کہ جواب نہیں۔
_______
سادگی پر اُس کی مرجانے کی حسرت دل میں
بس نہیں چلتا کہ پھر خنجر کف قاتل میں ہے
سادگی سے عیاں ترک زینت و آرائش مراد ہے جو کہ بے تلوار کے قتل کرتی ہے یعنی بے تلوار باندھے ہوئے جو عالم اُس پر ہوتا ہے اُسی انداز میں گلا کاٹ کر مرجانے کی حسرت میں ہوں لیکن وہ گلا کاٹنے نہیں دیتا اور خنجر ہاتھ میں لے لیتا ہے اور خنجر اُس کے ہاتھ میں ہونے سے دو وجہوں سے حسرت نہیں نکل سکتی ایک تو یہ کہ جب خنجر اُس کے قابو میں ہے تو ہم گلا کیوں کر کاٹیں اور دوسری وجہ یہ کہ جب خنجر اُس کے ہاتھ میں ہوا تو وہ سادگی کہاں رہی جس پر ہم جان قربان کرتے تھے اور پھر ’ کی ، لفظ سے یہ معنی نکلتے ہیں کہ پہلے بھی ایسا ہو چکاہے کہ ہم گلا کاٹتے تھے مگر اُس نے خنجر ہاتھ میں لے لیا کہ پھر نہ وہ سادگی باقی رہی جس انداز پر ہم جان دیتے تھے نہ خنجر ہی پر ہم قابو پاسکے۔
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اُس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
یعنی تجھے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو بات اُس نے کہی میرے دل کی کہی۔
گرچہ ہے کس کس برائی سے ولے با اینہمہ
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اُس محفل میں ہے
مسند الیہ جو کہ عمدہ جملہ ہوتا ہے وہ یہاں بہت پیچھے رہ گیا یعنی لفظ ذکر اور اُس کا سبب وہی ہے کہ پہلے نیچے کا مصرع کہہ لیا ہے اُس کے بعد مصرع لگایا ہے۔
بس ہجومِ نا اُمیدی خاک میں مل جائے گی
یہ جو اک لذت ہماری سعی بے حاصل میں ہے
اے ہجوم یاس بس کر ایسا نہ ہو کہ مجھے اپنی سعی لاحاصل میں جو ایک لذت ملتی ہے یہ بھی پامال ہو جائے یعنی یاس و نا اُمیدی کے ہجوم میں سعی بے فائدہ ہے جو لذت ملتی ہے وہ بھی خاک میں مل جائے گی مطلب یہ کہ نا اُمیدی کی حالت بری اور سعی گو بے نیل مرام ہو مگر لذت سے خالی نہیں۔
رنج رہ کیوں کھینچئے واماندگی کو عشق ہے
اُٹھ نہیں سکتا ہمارا جو قدم منزل میں ہے
اس شعر میں معلوم ہوتا ہے ’ کا ، کی جگہ ’ کو ، کاتب کا سہو ہے اور اس صورت میں معنی صاف ہیں لیکن عجب نہیں کہ ’ کو ، ہی کہا ہو تو معنی ذرا تکلف سے پیدا ہوں گے یعنی واماندگی کو میرے قدم سے عشق ہو گیا ہے اور وہ نہیں چھوڑتے کہ میں منزل مقصود کی طرف جاؤں شعر میں مصنف نے منزل سے راہ منزل مراد لی ہے چنانچہ ’ میں ، کا لفظ اس پر دلالت کرتا ہے۔ یعنی محاورہ میں منزل کو جب ’ میں ، کے ساتھ بولیں تو راہ منزل اُس سے مراد ہوتی ہے اور جب ’ پر ، کے ساتھ کہیں تو خود منزل مقصود مراد ہوتی ہے اور فارسی والوں کے محاورہ میں عشق بمعنی سلام و نیاز بھی ہے اور اس صورت میں ’ کو ، صحیح ہے یعنی ہم واماندگی کے نیازمند ہیں کہ اس کی بدولت اُٹھ نہیں سکتا ہمارا جو قدم منزل میں ہے۔
جلوہ زار آتش دوزخ ہمارا دل سہی
فتنۂ شورِ قیامت کس کے آب و گل میں ہے
’ کس کے ، کا لفظ طنز سے کہا ہے غرض یہ ہے کہ تمہارے آب و گل میں فتنۂ قیامت ہے یعنی ہم نے مانا کہ ہمارے دل میں دوزخ کی آگ بھری ہوئی ہے تمہارا ہی کہنا سچ ہے لیکن اپنی تو خبر لو کہ تم بھی تو سراپا فتنۂ حشر بنے ہوئے ہو۔
ہے دلِ شوریدۂ غالبؔ طلسم پیچ و تاب
رحم کر اپنی تمنا پر کہ کس مشکل میں ہے
یعنی میرے دل میں پیچ و تاب بھرا ہوا ہے اس میں تیری تمنا آ کر پھنس گئی ہے اُس پر رحم کر اور اس مشکل سے اُسے چھڑالے حاصل یہ کہ میرے دل کی حسرت و تمنا کو نکال دے۔
_______
دل سے تری نگاہ جگر تک اُترگئی
دونوں کو اک ادا میں رضامند کرگئی
یعنی اس تیر کی حسرت دل و جگر دونوں کو تھی۔
شق ہو گیا ہے سینہ خوشا لذتِ فراغ
تکلیفِ پردہ داریِ زخم جگر گئی
پہلے اس واقعہ کی خبر دی کہ سینہ شق ہو گیا ، پھر اظہارِ سرور کر کے جو فائدہ چھاتی کے پھٹ جانے سے حاصل ہوا اُسے بیان کیا یعنی زخم جگر کے چھپائے رہنے سے فراغ حاصل ہو گیا۔
وہ بادئہ شبانہ کی سرمستیاں کہاں
اُٹھئے بس اب کہ لذتِ خوابِ سحر گئی
اس شعر کے الفاظ معنی حقیقی پر محمول کریں تو کچھ لطف نہیں غالباً مصنف کو استعارہ مقصود ہے ، یعنی بادۂ شبانہ سے نشۂ شباب اور سحر سے پیری کا استعارہ ہے اور ’ اُٹھئے ، کا خطاب اپنے نفس غافل کی طرف ہے۔
اُڑتی پھرے ہے خاک مری کوئے یار میں
بارے اب ائے ہوا ہوس بال و پر گئی
یہ ظاہر ہے کہ ہوا کی طرف خطاب کرنا بے مزہ ہے ، لیکن ہوس کی مناسبت سے مصنف نے صبا کو چھوڑکر ہوا کو باندھا ہے ، اسی طرح بال و پر کی مناسبت یہ چاہتی ہے کہ کوئے یار کے بدلے صحن باغِ یار میں خاک اُڑائی ہوتی ، اس کے علاوہ یہ مضمون اس قدر کہا گیا ہے کہ مبتذل ہو گیا ہے ، غرض کہ یہ شعر غالبؔ کے کلام کے مرتبہ سے بہت گرا ہوا ہے۔
دیکھو تو دل فریبی اندازِ نقش و پا
موجِ خرامِ یار کے کیا گل کتر گئی
گل کترنا اور شگوفہ چھوڑنا ایک ہی معنی کے دونوں محاورے ہیں ، یعنی کوئی ایسی بات کرنا جس سے فساد برپا ہو اور آپ الگ رہے۔
ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوۂ اہل نظر گئی
یعنی حسن پرستی تو اہل نظر کا شیوہ تھا کہ وہ تناسبِ اعضا کو پہچان کر عشق صادق کرتے تھے ، جب ایسے ویسے لوگ بھی حسن پرستی کرنے لگے تو شیوۂ اہل نظر کی خاک آبرو رہی۔
نظارہ نے بھی کام کیا واں نقاب کا
مستی سے ہر نگہ تیرے رُخ پر بکھر گئی
یعنی تیرے رُخ تک نگاہ کو پہنچ کر ایسی مستی ہوئی کہ بکھر گئی اور اُس کے تار تار الگ ہو گئے اور وہ بکھرے ہوئے تار نقاب کی طرح مانع دید ہوئے نگہ کو تار سے اور رشتہ سے تشبیہ مشہور بات ہے ، تازگی یہاں یہ ہے کہ رشتہ نگاہ کے تار تار کھل کر اُن سے نقاب بن گئی اور جس تشبیہ میں اس طرح کے معنی صیرورت ہوں جو وجہ شبہ کے گھٹانے سے یا بڑھانے سے پیدا ہو گئے ہوں ، وہ تشبیہ نہایت لذیذ ہوتی ہے اور سننے والے کے ذہن میں استعجاب کا اثر پیدا کرتی ہے ’ ہر ، کا لفظ یہاں پورا نقاب بنانے کے لئے مصنف نے صرف کیا ہے ، مطلب شعر کا یہ ہے کہ تیرا رُخ دیکھ کر ایسی از خود رفتگی ہوئی کہ لذتِ دید سے سب محروم رہے۔
فردا دوی کا تفرقہ یک بار مٹ گیا
کل تم گئے کہ ہم پہ قیامت گذر گئی
کل باوجود یہ کہ وے تھا ، لیکن فراد حشر کا سامنا ہو گیا اور فرداروی ایک ہی دن میں جمع ہو گئے کچھ تفرقہ ماضی و استقبال نہ باقی رہا۔
مارا زمانے نے اسد اللہ خاں تمہیں
وہ ولولے کہاں وہ جوانی کدھر گئی
پہلا مصرع انشائے تاسف کے لئے ہے اور دوسرا استفہام ہے ، غرض یہ کہ سارا شعر انشا ہے ، دوسری خوبی پورا نام لقب سمیت آنے سے پیدا ہوئی لفظ ’ خاں ، سے اور معنی نکلتے ہیں کسی زمانہ میں قوت و سطعت تھی ، جسے پیری نے مٹادیا۔
_______
تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوقِ نظر ملے
حورانِ خلد میں تری صورت اگر ملے
یعنی تیری صورت سے ملتی ہوئی شکل اگر حوروں کی ہو اور لذتِ نظر فقط حاصل ہو تو ہم تسکین دل کا غم نہ کریں کہ لطف نظر تو ہے ، تسکین دل نہیں نہ سہی۔
اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعد قتل
میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے
یعنی لوگ یوں پتا دیا کریں گے کہ جس گلی میں ایک قبر ہے ، وہاں فلاں شخص کا گھر ہے ، میرا رشک اسے گوارا نہیں کرتا کہ غیرلوگ میری قبر کے پتے سے تیرے گھر کو ڈھونڈھیں اور دوسرے معنی یہ کہ میری محبت اسے گوارا نہیں کرتی کہ تیرے قاتل ہونے کا حال کھل جائے اور تجھ سے میرے قتل کا مواخذہ ہو۔
ساقی گری کی شرم کرو آج ورنہ ہم
ہر شب پیا ہی کرتے ہیں مے جس قدر ملے
یعنی آج تم ساقی بنے ہو ، آج تو چھکا کر پلادو ، ساقی گری کا لفظ ویسا ہی ہے ، جیسے منشی گری اور مولوی گری اور آدمی گری ، یہاں یہ بحث ہے کہ لفظ ’ گر ، افادہ معنی فاعلیت کے لئے ہوتا ہے ، جیسے ستمگر دادگر اور جادوگر شعبدہ گر اور زرگر شیشہ گر اور لفظ ’ ساقی ، میں خود معنی فاعلیت موجود ہیں ، اس کی ترکیب ’ گر ، کے ساتھ کیوں کر صحیح ہو گی اس کا جواب میلی کے اس شعر سے ہو سکتا ہے :
گفتی زدہ لطف کہ میلی سگ ماست
شرمندہ آدمی گریہ ہائے توہم
اور ملا طغرا کہتے ہیں :
کند حق صوفی گری را ادا
بیک چشم بیند بہ شاہ و گدا
تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم
میرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے
تجھ سے تو مجھے کچھ شکایت نہیں ، لیکن نامہ بر کو میرا سلام شکایت آمیز پہنچادینا۔
تم کو بھی ہم دکھائیں گے مجنوں نے کیا کیا
فرصت کشاکش غم پنہاں سے گر ملے
یعنی غم کھینچ کھینچ کر نہ رکھے تو ہم بھی مجنوں کی طرح بیاباں میں نکل جائیں۔
لازم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں
جانا کہ اک بزرگ ہمیں ہم سفر ملے
یعنی ہمارا مرتبہ سلوک بھی خضر سے کچھ کم نہیں ہے۔
اے ساکنانِ کوچۂ دل دار دیکھنا
تم کو کہیں جو غالبؔؔآشفتہ سر ملے
عبارت تو یہ ہے کہ وہاں کہیں غالبؔ اگر مل جائے تو دیکھنا اور مطلب یہ ہے کہ خیال رکھنا شاید غالب وہاں کہیں مل جائے ، یہ مطلب اُس عبارت سے ’ جو ، کے سبب سے نہیں نکلتا ’جو ، کی لفظ نے جملہ کو شرطیہ کر دیا اور شرط مقصود نہیں ، اس لئے کہ شرط سے یہ معنی نکلتے ہیں کہ اگر غالب کہیں ملے تو دیکھنا حالاں کہ جو ملے اُس کا نہ دیکھنا کیا معنی غرض کہ شرط یہاں کچھ معنی نہیں رکھتی ، اس جملہ کی صورت شرط کی ہے ، مگر قصد شرط نہیں ہے اور ’ جو ، یا ’اگر ، اس محاورہ میں زائد ہوا کرتا ہے ، معنی مقصود یہی ہوا کرتے ہیں کہ دیکھنا یعنی خیال رکھنا شاید فلاں شخص کہیں مل جائے ، لیکن محاورہ یوں نہیں جاری ہے کہ اس معنی کو جملہ شرطیہ کی صورت میں ادا کرتے ہیں جیسا کہ مصنف نے کیا ہے اور یہ مسئلہ نحو اُردو کے نوادر میں سے ہے۔
_______
کوئی دن گر زندگانی اور ہے
اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے
بندش کی خوبی اور محاورہ کے لطف نے اس شعر کو سنبھال لیا ، ورنہ غالب سا شخص اس بات سے بے خبر نہیں ہے کہ جمع کی بات جی ہی میں رکھنا المعنی فی بطن الشاعر کہلاتا ہے ، اس شعر سے یہ سبق لینا چاہئے کہ بندش کے حسن اور زبان کے مزہ کے آگے اساتذہ ضعف معنی کو بھی گوارا کر لیتے ہیں۔
آتش دوزخ میں یہ گرمی کہاں
سوزِ غم ہائے نہانی اور ہے
کہاں کے بدلے نہیں کا لفظ بھی آ سکتا تھا ، مگر اُس صورت میں جملہ خبریہ ہوتا اور اب استفہام انکاری نے انشائیہ کر دیا اور انشا خبر سے بہتر ہے۔
بارہا دیکھی ہیں اُن کی رنجشیں
پر کچھ اب کی سرگرانی اور ہے
وفورِ محبت کے مقتضا سے یہ وہم پیدا ہوا ہے کہ اب کی سب دفعہ سے زیادہ خفگی ہے۔
دے کے خط منھ دیکھتا ہے نامہ بر
کچھ تو پیغام زبانی اور ہے
یعنی کچھ گالیاں بھی کہلا بھیجی ہیں کہ نامہ بر اُس کے دُہرانے میں حجاب کرتا ہے۔
قاطع اعمار ہیں اکثر نجوم
وہ بلائے آسمانی اور ہے
یعنی سیر نجوم سے زمانہ قطع ہوتا ہے اور زمانہ کے قطع ہونے سے عمریں قطع ہوتی جاتی ہیں ، لیکن یہ اثر بہت ضعیف ہے ، یہاں تو جس بلائے آسمانی سے معاملہ پڑا ہے ، وہ قضائے مبرم ہے۔
ہو چکیں غالب ؔبلائیں سب تمام
ایک مرگِ ناگہانی اور ہے
یہاں مرگِ ناگہانی سے مرگِ مفاجات نہیں مراد ہے ، بلکہ جو موت ہے وہ ناگہانی ہے کہ موت کہہ کر تو آتی نہیں۔
_______
کوئی اُمید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
یعنی حصول اُمید کی صورت۔
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
شبِ ہجر میں موت اگر نہیں آتی تو وہ معذور ہے ، کہ اُس کے آنے کا جو دن معین ہو چکاہے اُس میں تاخیر و تقدیم ممکن نہیں ، لیکن نیند کو کیا ہوا کہ رات رات بھر نہیں آتی۔
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
یہ وہ شعر ہے کہ میرؔ کو بھی جس پر رشک کرنا چاہئے ، افسردگی خاطر کو کس عنوان سے بیان کر دیا ہے اور کیا خوب شرح کی ہے۔
جانتا ہوں ثواب طاعتِ و زُہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
طاعت و زہد کی خوبی کا محض جان لینا کافی نہیں جب تک کہ توفیق بھی نہ ہو ادھر سے۔
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
یعنی میرا منھ نہ کھلواؤ چپ رہنا ہی بہتر ہے ، شکایت منظور ہے اور خوف رُسوائی معشوق مانع ہے
کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں
میری آواز گر نہیں آتی
یعنی معشوق کو میری نالہ کشی سے مزہ ملتا ہے ، ذرا چپ ہوتا ہوں تو چھیڑ چھیڑکر مجھے سرگرم نالہ و آہ کر دیتا ہے۔
داغِ دل گر نظر نہیں آتا
بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی
دوسرے مصرع میں استفہام انکاری ہے اور چارہ گر کی نافہمی پر تشنیع ہے۔
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
یعنی ایسی از خود رفتگی ہے کہ ہم کو اپنے حال کی کچھ خبر نہیں۔
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی
پہلا مرنا مجاز ہے ، کثرتِ شوق کے معنی پر اور دوسرا مرنا معنی حقیقی پر ہے۔
کعبہ کس منھ سے جاؤگے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی
ساری عمر تو دیر و کلیسا میں گذری اب کعبہ جا کر خدا کو کیا منھ دکھاؤگے۔
_______
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
استفہام یہاں اس غرض سے نہیں کہ سائل حال سے ناواقف ہے ، دریافت کرنا چاہتا ہے ، بلکہ استفہام سے یہاں زجر و ملاملت مقصود ہے۔
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے
دوسرا مصرع جس محاورہ میں مصنف نے کہا ہے جو شخص اس کے محل استعمال کو نہ جانتا ہو گا اس کی نظر میں شعر سست اور مصرع بے ربط معلوم ہوں گے ، محل استعمال اس کا یہ ہے کہ جب کسی کے پھیکے غمزوں پر استہزاء یا تشنیع یا اظہارِ نفرت مقصود ہوتا ہے ، جب اس طرح کہتے ہیں اور اسی مناسبت سے مصنف نے مصرع لگایا ہے اور معشوق پر استہزاء کیا ہے۔
میں بھی منھ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے
’ بھی ، کی لفظ سے یہ معنی نکلے کہ غیروں سے استفسار حال کرتے ہو تو مجھ کو بھی خدا نے زبان دی ہے ، مجھ سے بھی پوچھ کر دیکھو۔
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
غمزۂ و عشوۂ و ادا کیا ہے
شکن زلفِ عنبریں کیا ہے
نگہ چشم سرمہ سا کیا ہے
سبزۂ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے
یہ قطعہ ایک فریاد ہے کہ اس دل کش اور دل فریب ہنگامہ کے چلتے ایسا نفس مطمئنہ کہاں حاصل ہو سکتا ہے کہ انسان ان کو ہیچ سمجھ کر موجود بحق کی طرف رجوع کرے ، اس نمائش سراب نے ایسا محو کر لیا ہے کہ دریا کی طلب سے ہاتھ دھوئے بیٹھے ہیں ، فریاد اس بات کی ہے کہ ہم تو چاہتے ہیں کہ لذاتِ دُنیا کو ہیچ سمجھ کر ان کی طرف متوجہ نہ ہوں ، مگر ان کی دل فریبی پیچھا نہیں چھوڑتی۔
ہم کو اُن سے وفا کی ہے اُمید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
یعنی وہ کم سنی کی وجہ سے ایسے نادان ہیں کہ وفا ہی کو نہیں جانتے کہ کیا شئے ہے اور میں سودائے عشق کے سبب سے ایسا نادان ہوں کہ اُن سے اُمیدِ وفا رکھتا ہوں۔
ہاں بھلا کر ترا بھلا ہو گا
اور دَرویش کی صدا کیا ہے
یعنی سچ تو کہتا ہے ، کیا شک ہے ، اس بات میں جو بھلا کرے گا اُس کا بھلا ہو گا۔
جان تم پر نثار کرتا ہوں
میں نہیں جانتا دُعا کیا ہے
یعنی اوروں کی طرح خالی زبانی دُعا دینا میں نہیں جانتا۔
میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالبؔ
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے
مفت میں ایک غلام ملتا ہو تو کیوں چھوڑو میرا کیا ہے ، یعنی غلام میں کیا برائی ہے ، یا اس کام میں کیا برائی ہے۔
_______
کہتے تو ہو تم سب کہ بتِ غالیہ مو آئے
یک مرتبہ گھبرا کے کہو کوئی کہ دو آئے
انصاف تو یہ ہے کہ بادشاہ کا مطلع اس سے کہیں بڑھا ہوا ہے :
یا آئے اجل یا صنم عربدہ جو آئے
ایسا نہ ہو یارب کہ نہ یہ آئے نہ وہ آئے
ہوں کشمکش نزع میں ہاں جذبِ محبت
کچھ کہہ نہ سکوں پر وہ مرے پوچھنے کو آئے
اس قافیہ کو بھی ظفر نے خوب ہی کہا ہے :
آئے بھی تو آتے ہی لگے پھیرنے چتون
کیا آئے وہ گردن پہ چھری پھیرنے کو آئے
ہے صاعقۂ و شعلۂ و سیماب کا عالم
آنا ہی سمجھ میں مرے آتا نہیں گو آئے
یعنی گو ہم لوگ دُنیا میں آئے مگر شعلہ و سیماب کی طرح قرار نہیں ہے ، یا شعلہ و سیماب معشوق کی شوخی سے استعارہ ہے اور آنے سے اُسی کا آنا مراد ہے۔
ظاہر ہے کہ گھبرا کے نہ بھاگیں گے نکیرین
ہاں منھ سے مگر بادۂ دوشینہ کی بو آئے
استہزا کی راہ سے کہا ہے کہ بھاگیں مطلب یہ ہے کہ بھاگ جائیں گے اور بادہ دوشینہ رات والی شراب محاورہ میں واؤ مجہول کے ساتھ بدبو کے معنی پر بولتے ہیں ، منھ سے بو آنے کا مضمون نظم کرنے کے قابل نہ تھا۔
جلاد سے ڈرتے ہیں نہ واعظ سے جھگڑتے
ہم سمجھے ہوئے ہیں اُسے جس بھیس میں جو آئے
یعنی جسے ہم دیکھتے ہیں یہی جانتے ہیں کہ تو ہے ، لیکن جلاد و واعظ میں چنداں مناسبت نہیں ، اگر واعظ کی جگہ قاضی کہتے تو اچھا تھا کہ وہی انا الحق کہنے والوں کے قتل کا فتوےٰ دیا کرتا تھا۔
ہاں اہل طلب کون سنے طعنۂ نایافت
دیکھا کہ وہ ملتا نہیں اپنے ہی کو کھو آئے
یعنی سر معرفت کو نہ پایا تو اپنے ہی تئیں کھودیا یہ طعنہ کون سنے کہ ڈھونڈھا اور نہ پایا۔
اپنا نہیں وہ شیوہ کہ آرام سے بیٹھیں
اُس در پہ نہیں بار تو کعبہ ہی کو ہو آئے
یعنی یہ بھی ایک ہرزہ گردی ہے۔
کی ہم نفسوں نے اثر گریہ میں تقریر
اچھے رہے آپ اُس سے مگر مجھ کو ڈبو آئے
محاورہ یہ ہے کہ ہم کو اس امر میں کلام ہے ، یعنی ہم اسے نہیں مانتے ، مصنف نے یہ تصرف کیا کہ کلام کی جگہ تقریر کہا اور محاورہ میں تصرف کرنے سے وہ معنی باقی نہیں رہتے ، آزاد لکھتے ہیں ، ایک دن میں اوجؔ سے ملا اور استاد مرحوم کے مطلع کا ذکر آیا :
مقابل اُس رُخِ روشن کے شمع گر ہو جائے
صبا وہ دھول لگائے کہ بس سحر ہو جائے
کئی دن کے بعد جو رستے میں ملے تو دیکھتے ہی کھڑے ہو گئے اور کہا :
یاجو برگ گل خورشید کا کھڑکا ہو جائے
دھول دستار فلک پر لگے تڑکا ہو جائے
اور کہا کہ دیکھا محاورہ یوں باندھا کرتے ہیں ، میں سمجھ گیا کہ یہ طنز کرتے ہیں کہ سحر ہو جائے جو استاد نے باندھا ہے ، یہ جائز نہیں مگر تجاہل کر کے میں نے کہا حقیقت میں باپ کے کھڑکے کا آپ نے خوب ترجمہ کیا اور استعارہ میں لا کر میری طرف دیکھ کر ہنسے اور کہا بھئی واہ آخر شاگرد تھے ، ہماری بات ہی بگاڑدی ، اس نقل سے ایک بات یہ بھی معلوم ہو گئی کہ لکھنؤ میں جس معنی پر صبح ہو جانا بولتے ہیں ، دلی میں تڑکا ہو جانا محاورہ ہے اور سحر ہو جانا دونوں جگہ خلافِ محاورہ ہے
اُس انجمن ناز کی کیا بات ہے غالبؔ
ہم بھی گئے واں اور تری تقدیر کو رو آئے
یعنی تیرے صدمۂ دوری کا حال اُن سے جا کر بیان کر آئے ’ رو آئے ، کو ظفر نے بھی اچھی طرح باندھا ہے :
خوش ہونا کہاں جب کہ نصیبوں میں ہو رونا
ہم شمع صفت محفل شادی میں بھی رو آئے
_______
پھر کچھ اک دل کو بے قراری ہے
سینہ جو یائے زخم کاری ہے
یعنی دل بے چین ہورہا ہے اور عشق کا زخم کھانے کی خواہش پھر پیدا ہوئی ہے۔
پھر جگر کھودنے لگا ناخن
آمدِ فصل لالہ کاری ہے
ناخن سے ناخن غم مراد ہے ، مگر ناخن سے کریدنا محاورہ ہے ، ناخن سے جگر کھودنا محاورہ سے گرا ہوا ہے۔
قبلۂ مقصد نگاہِ نیاز
پھر وہی پردۂ عماری ہے
پردۂ عماری کو پردۂ کعبہ سمجھ لیا ہے۔
چشم دلالِ جنس رُسوائی
دل خریدار ذوقِ خواری ہے
دوہی صد رنگ نالہ فرسائی
دوہی صد گونہ اشکباری ہے
یعنی آنکھ ’ لالی کر کے ، دل کو مبتلائے سودا کرتی ہے ، ان کی تفصیل دوسرے شعر میں بیان کی ہے کہ آنکھ سو سو طرح اشکباری کرتی ہے جو باعثِ رُسوائی ہے اور دل سو سو طرح نالہ کرتا ہے جس کا انجام خواری ہے۔
دل ہوائے خرامِ ناز سے پھر
محشر ستان بے قراری ہے
وجہ مناسبت یہ ہے کہ خرام کو محشر سے تشبیہ دیتے ہیں۔
جلوہ پھر عرض ناز کرتا ہے
روز بازارِ جاں سپاری ہے
یعنی جاں سپاری عاشق کا روز بازار ہے کہ جلوۂ معشوق متاعِ ناز کو عرض کر رہا ہے کہ کون اس کا خریدار ہوتا ہے۔
پھر اُسی بے وفا پہ مرتے ہیں
پھر وہی زندگی ہماری ہے
یعنی جس پر مرتے اُسی کو دیکھ کر جیتے ہیں۔
پھر کھلا ہے درِ عدالتِ ناز
گرم بازار فوج داری ہے
بازار اس شعر میں بہت ہی ٹھنڈا لفظ ہے۔
ہورہا ہے جہان میں اندھیر
زلف کی پھر سرشتہ داری ہے
پھر دیا پارۂ جگر نے سوال
ایک فریاد آہ و زاری ہے
پھر ہوئے ہیں گواہِ عشق طلب
اشک باری کا حکم جاری ہے
دل و مژگاں کا جو مقدمہ تھا
آج پھر اُس کی روبکاری ہے
اس قطعہ میں عدالت و فوج داری و سرشتہ داری اور سوال دینا اور مقدمہ اور روبکاری یہ سب اصطلاحیں ابھی تک فصحا کی زبان پر مکروہ ہیں کراہت کی وجہ یہ ہے کہ اہل زبان کی بنائی ہوئی اصطلاحیں یہ نہیں گو بہ مجبوری یہ لفظ سبھی کو بولنا پڑتی ہے ، لیکن ابھی تک ان کا قوامِ درست نہیں ہوا اور زبان اُردو نے انھیں قبول نہیں کیا اور اگر زبان میں انھیں داخل بھی سمجھو تو ان معنی خاص پر یہ سب لفظ ہندی ہیں ترکیب فارسی میں ان کا لانا صحیح نہ ہو گا مثلاً عدالت دارالقضا کے معنی پر اور فوج داری احتساب کے معنی پر اگر ہیں تو ہندی لفظ ہیں ، پھر درِ عدالتِ ناز اور بازار فوج داری کہنا بترکیب فارسی کیوں کر درست ہو گا ، آتش کے اس شعر پر اعتراض چلا آتا ہے :
کسی کی محرمِ آبِ رواں وہ یاد آئی
حباب کے جو برابر کوئی حباب آیا
یعنی گو لفظ محرمِ ہندی نہیں ہے ، لیکن انگیا کے معنی پر ہندی ہے ، پھر اسے اضافت فارسی کیوں دی حالاں کہ محرم کے لئے فارسی و عربی میں کوئی لفظ نہیں ہے ، شاما کچھ دورع و مجول اور وضع کے لباس ہیں کہ اُس کی وضع میں اور محرم میں ضرور فرق ہے اور محرم فصحا کا بنایا ہوا لفظ ہے ، برخلاف عدالت اور فوج داری کے کہ ان معنی کے لئے دارالقضا و احتساب موجود ہے اور فصحا کے بنائے ہوئے یہ الفاظ نہیں ہیں ، بلکہ یہ الفاظ ایسے خرف لوگوں کے بنائے ہوئے ہیں جو کہ جائیدادِ مقروقہ ، اسامی مفرور مثل مقدمہ جائیداد متدعویہ وغیرہ بے تکلف لکھتے پڑھتے ہیں ، دوسرے شعر میں مصنف نے زلف کے سر رشتہ کی مناسبت سے سر رشتہ داری دی ہے ، لیکن عامیانہ لہجہ کے بموجب رشتہ کاری حذف کر دیا ہے ، جس طرح فردوسی نے ’ سپید دیو ، میں سے ’ دیو ، کی دال کو حذف کر کے ’سپیدیو ، باندھا ہے ، مگر اس سے حکم کلی کسی نے نہیں نکالا ہے ، سوال نالش کے معنی میں اور مقدمہ خصوصیت کے معنی میں ہندی لفظ ہیں ، ان کو بھی ترکیب فارسی میں کوئی باندھے تو غلط ہو گا ، یہ مصرع ایک فریاد و آہ و زاری ہے ، اس میں ایک نہ عدد کے لئے بلکہ یہاں ایک سے معنی کثرت کا افادہ ہوتا ہے ، یہ بڑے محاورہ کا لفظ مصنف نے باندھا ہے اور گواہِ عشق سے آنسو مقصود ہے۔
بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
یعنی بے خودی رازِ عشق کے چھپانے کے لئے ہے۔
_______
جنوں تہمت کش تسکیں نہ ہو گر شادمانی کی
نمک پاشِ خراشِ دل ہے لذت زندگانی کی
لذت کا لفظ محض تشنیع کی راہ سے ہے ، کہتے ہیں اے جنوں تو تہمت کش تسکین نہ ہو یعنی اگر میں نے شادمانی کی تو اُس سے تجھ پر تسکین کی تہمت نہیں ہو سکتی بلکہ میری شادمانی نمک پاشی زخم دل کے سبب سے ہے نہ یہ کہ تسکین کے سبب سے ہو اور لذتِ زندگانی کا نمک پاش ہونا یہ مطلب رکھتا ہے کہ ان برے حالوں جیتے رہنا زخم دل پر نمک چھڑکنا ہے اور زخم پر نمک چھڑکنے سے اور سوزش زیادہ ہوتی ہے ، تسکین کجا۔
کشاکش ہائے ہستی سے کرے کیا سعی آزادی
ہوئی زنجیر موج آب کو فرصت روانی کی
یعنی کشش ہستی سے کوشش آزادی کا بس نہیں چل سکتا ، موجِ آب کی روانی جو ہے وہی اس کے لئے زنجیر گرفتاری ہے ، یعنی علائق ہستی کی کشش سے آزاد ہونے کی جتنی کوشش کرو اتنی ہی گرفتاری بڑھتی جاتی ہے اور کوشش کشش سے مغلوب ہوتی جاتی ہے۔
پس از مردن بھی دیوانہ زیارت گاہِ طفلاں ہے
شرارِ سنگ نے تربت پہ میری گل فشانی کی
یعنی مرنے پر بھی لڑکوں نے آ کر پتھر مارے اور شرار سنگ نے قبر پر پھول چڑھائے۔
نکوہش ہے سزا فریادی بیدادِ دلبر کی
مبادا خندۂ دنداں نما ہو صبح محشر کی
یعنی بیداد معشوق کی جو فریاد کرے وہ سزاوار نکوہش و ملامت ہے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ صبح محشر بھی اس کے حق میں خندۂ دنداں نما ہو جائے۔
رگِ لیلیٰ کو خاکِ دشتِ مجنون ریشگی بخشے
اگر بووے بجائے دانۂ دہقاں نوکِ نشتر کی
اس شعر میں لیلیٰ کے فصد کھلنے کا اور مجنوں کے رگِ دست سے خون جاری ہونے کا جو قصہ مشہور ہے اس کی طرف تلمیح ہے اور احتمال غالب یہ ہے کہ مصنف نے خاکِ ’ دست ، مجنوں کہا ہے ، کاتب نے نقطے دے کر ’ دشت ، بنادیا ، بہرحال حاصل یہ ہے کہ اگر دستِ مجنوں میں دانہ کے بدلے نوکِ نشتر بوئیں تو وہاں سے رگِ لیلیٰ اُگے ، اس قدر اتحادِ عشق نے عاشق و معشوق میں اور نشتر و رگ میں پیدا کر دیا ہے۔
پر پروانہ شاید بادبانِ کشتی مے تھا
ہوئی مجلس کی گرمی سے روانی دورِ ساغر کی
جہاں مجلس گرم ہو وہاں پروانہ کا ہونا ضرور ہے اور جب گرمی مجلس روانی ساغر کا سبب ہے تو کشی لے کا بادبان شاید پر پروانہ ہے کہ پروانہ ہی کے سبب سے گرمی مجلس ہوتی ہے۔
کروں بیداد ذوق پرفشانی عرض کیا قدرت
کہ طاقت اُڑگئی اُڑنے سے پہلے میرے شہ پر کی
یہ قدرت مجھ میں نہیں کہ ذوق پرفشانی کی بیداد کو عرض کر سکوں ، یعنی پھڑک نہیں سکتا ، اس سبب سے شہ پر میں طاقت نہیں ، یہ شعر برسبیل تمثیل ہے۔
کہاں تک روؤں اُس کے خیمے کے پیچھے قیامت ہے
مری قسمت میں یارب کیا نہ تھی دیوارِ پتھر کی
سر پھوڑکر جھگڑا چکاتا۔
بے اعتدالیوں سے سبک سب میں ہم ہوئے
جتنے زیادہ ہو گئے اتنے ہی کم ہوئے
جتنا ہم اپنی حد سے بڑھے اتنا ہی لوگوں کی نظر میں گھٹ گئے۔
پنہاں تھا دام سخت فریب آشیاں کے
اُڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
سخت قریب محاورہ فارسی میں بہت قریب کے معنی پر ہے۔
ہستی ہماری اپنی فنا پر دلیل ہے
شیاں تک مٹے کہ آپ ہی اپنی قسم ہوئے
محاورہ ہے کہ ہمارے پاس فلاں شئے قسم کھانے کو بھی نہیں یا نام کو بھی نہیں ، بنا اس محاورہ کی اس بات پر ہے کہ اگر وہ شئے نام کو بھی ہوتی تو ثبوتِ قسم کے لئے کافی تھی اور یہ ظاہر ہے کہ اس طرح کی ہستی جو قسم کھانے کے لئے ہو اور برائے نام ہو وہ فنا و نیستی کی دلیل ہے اور یہ بھی محاورہ ہے کہ ہمیں فلاں شئے کی قسم ہے ، یعنی اُس سے کچھ تعلق نہیں۔
سختی کشانِ عشق کی پوچھی ہے کیا خبر
وہ لوگ رفتہ رفتہ سراپا الم ہوئے
الم جس طرح ظاہر و محسوس نہیں ہے ، یہی حال اُن کا ہوا یعنی وہ لوگ فنا ہو گئے گھلتے ہی گھلتے۔
تیری وفا سے کیا ہو تلافی کہ دہر میں
تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے
غرض یہ ہے کہ تیری ہی جفا کی تلافی تیری وفا سے ہو سکتی ہے اور تیرے سوا جو ستم ہوئے ہیں اُس کی تلافی کہاں ہو سکتی ہے ، یہاں اپنے ستم زندگی کا اظہار اس لئے ہے کہ معشوق کو تلافی ستم کرنے پر آمادہ پایا ہے ، چاہتا ہے کہ اُسے اور زیادہ ترس آئے۔
لکھتے رہے جنوں کے حکایاتِ خونچکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
کسی امر کی سزا میں ہاتھ قلم ہونا یہ مضمون دوسرے مصرع کاہے اور پہلے مصرع میں شاعر کے ذمہ یہ بات ہے کہ اُسے بیان کرے جس سبب سے ہاتھ قلم ہوئے ، لیکن ایسی باتیں بہت سی ہو سکتی ہیں جس کے سبب سے ہاتھ قلم ہوں ’ مرتا ہوں اُس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر ، ( اس شعر کی شرح اسی ردیف میں دیکھو ) اس مقام پر غزل کہنے والے کو یہ مشکل آتی ہے کہ اتنے پہلوؤں میں سے کسی پہلو کو اختیار کرے ، اس لئے کہ قصیدہ و مثنوی وغیرہ میں غرض شاعر کی معین ہوتی ہے اور جو پہلو اُس غرض کے مناسب ہوتا ہے ، ایسے مقام پر وہ اسی کو اختیار کرتے ہیں ، غزل میں کچھ تعین نہیں ، ایک شعر کو دوسرے شعر سے تعلق نہیں ، ہر شعر خود جملہ تامہ ہے اور ایک کلام مفید ہے ، غزل کی وضع اس واسطے ہے کہ ہر ہر قافیہ ردیف کے ساتھ جس طرح ربط کھائے ، اُسی طرح اُسے ربط دو یعنی قافیہ و ردیف جس مضمون کی طرف لے جائے اُس طرف جاؤ ، کسی شعر میں معاملہ عاشقانہ ہے ، کسی میں مضمون صوفیانہ ، کہیں ترانۂ رندانہ ، اس میں ذکر صراحی و قلقل اُس میں سوزِ پروانہ و شورِ بلبل ، پھر ایک شعر میں خبر ہے ، دوسرے میں انشا غرض کہ اس صورت میں شاعر نے یہ قصد کیا کہ ’ قلم ہوئے ، باندھنا چاہئے ، یعنی قافیہ ’ قلم کو ہوئے ، کے ساتھ کیوں کر ربط ہو اور ’ قلم ہوئے ، کا فاعل کسے بنائیں ، محاورہ کو خیال کیا تو ’ درخت قلم ہوئے ، ہاتھ قلم ہوئے ، بولتے ہیں ، یہاں مصنف نے دوسرا پہلو اختیار کیا اور یہ مصرع کہا : ’’ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے ‘‘ اب جو دیکھا تو ہاتھ سے صدہا فعل سرزد ہوتے ہیں ، اُن میں سے مصنف نے لکھنے کو اختیار کیا ، اس لئے کہ قلم کا ضلع نہ جانے پائے اور ایسے مقام پر جہاں بہت سے مضمون ربط کھاتے ہوں شاعر ضلع بولنے پر مجبور ہوتا ہے کہ جب دوسرے مضمونوں میں کوئی معنی حسن کا بڑھا ہوا نہیں ہے تو جس مضمون میں لفظی مناسبت ہو اُسے کیوں چھوڑے اس سبب سے کہ شاعر کی طبیعت میں تناسبِ موسیقی فطری ہوتا ہے اُس سے ترجیح بلامرجح ہونا محال ہے اور اتنا ہی ضلع خیال رکھنا حسن کلام ہے کہ دو مصرعوں یا فقروں میں ربط پیدا ہو جائے اس سے زیادہ حرص کرنا معنی کو خراب کرتا ہے ، علمائے ادب کی ایک وصیت مشہور چلی آتی ہے کہ معنی شاہد کلام کی جان ہے اور محاورہ اس کا جسم نازنین ہے اور گہنا اُس کا بیان و بدیع ہے تو جو شاعر کہ معنی کو خلق نہیں کر سکتا ، فقط بیان و بدیع کے گڑھنے کی مشق کیا کرتا ہے ، وہ بازارِ ادب میں سنار کا کام سیکھتا ہے ، اگر کہیں صنائع و بدائع و مناسبات کے پیچھے محاورہ بگڑ گیا تو گہنا کر یہ منظر و بدصورت عورت کے گلے میں ہے اور اگر ان تکلفات کے چلتے معنی ہی گئے گذرے تو وہ زیور جسم بے جان میں ہے ، برخلاف اس کے معانی لطیف محاورہ سلیس میں اگر ادا ہو گئے گو تشبیہ و استعارہ صنعت لفظی و معنوی کچھ بھی نہ ہو تو وہ ایک حسین نازنین ہے ، جس کی سادگی میں بھی ہزاروں بناؤ نکلتے ہیں اور یہ شخص محشرستان معانی کا خدا ہے اس شعر میں مصنف نے کسی قدر اپنے طرز کے خلاف کیا کہ ضلع کے پہلو کو اختیار کیا اس لئے کہ یہاں بعض معانی ایسے چسپاں ہیں کہ لفظ کے لئے تناسبِ لفظی ڈھونڈھنے کی ضرورت نہ تھی اس لئے ہاتھ کا اشارہ شاخ کے ساتھ سامنے کا مضمون تھا اور ضلع کے پہلو سے جو لوگ کراہیت رکھتے ہیں اور اُسے صنعت مبتذل سمجھتے ہیں ، وہ اکثر ضلع کو چھوڑکر ایسے مقام پر استعارہ و تشبیہ کے پہلو کو اختیار کرتے ہیں کہ یہ اُس سے بہتر ہے ، مگر مصنف نے خلافِ عادت یہاں اس پہلو کو بھی ترک کیا ہے اور ضلع کو بھی اگر دیکھئے تو لکھنے کا بھی قلم ہوتا ہے مہندی کی بھی قلم ہوتی ہے ، گلاب کی قلم اور شراب کی قلم اور رُخسار کی قلمیں اور پھر ہاتھ قلم ہونا دو معنی رکھتا ہے ، ایک قطع ہونا ، دوسرے یہ کہ دیوانہ وار اُنگلی سے خاک پر جو کوئی کچھ لکھے ، اس کے ہاتھ بھی قلم ہوئے ان سب پہلوؤں کا مصرع مصنف کے ساتھ دیکھا۔
چھوڑا نہ در کو یار کے کیا کیا ستم ہوئے
ہرچند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
پردہ اُٹھاکے ہم نے تمہیں دیکھ تو لیا
ہرچند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
دُشمن کے آڑے آ گئے تیغوں میں جاکے ہم
ہرچند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
طالب رہے عروج کے ہم نخل کی طرح
ہرچند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
فانوس کی طرح سے لیا دل پہ داغِ عشق
ہرچند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
کوتہ کیا نہ دست ہوس کو شجر کی طرح
ہرچند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
قاضی کے گھر سے شیشۂ صہبا نکال لائے
ہرچند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
لکھی شکایت آنکھ چرانے کی یار نے
ہرچند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
لے لیں بلائیں سبزۂ خطِ نگار کی
ہرچند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
غنچوں کی طرح چاکِ گریباں کیا کئے
ہرچند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
لپٹے رہے قدم سے ہم ان کے حنا کی طرح
ہرچند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
سب دل کا شوق خاک درِ یار پر لکھا
ہرچند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
ثابت قدم رہے ہیں سدا نخل کی طرح
ہرچند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
ہم نے تو جب کبھی لکھی حق بات ہی لکھی
ہرچند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
ہم نے حنا کی طرح کیا دل کو اپنے خوں
ہرچند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
چوری سے بوسۂ خطِ رخسار لے لیا
ہرچند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
کھانے دیا نہ ہم نے کسی نخل کو تبر
ہرچند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
لکھتے رہے جنوں کی حکایات خونچکاں
ہرچند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
ابتدائے مشق کا ذکر ہے کہ سید باقر صاحب ایک شخص تھے ، انھوں نے یہ مصرع کہ پانچ اُنگلیوں میں دس ہلال رہتے ہیں ، طرح کا دیا پھر خود ہی اس پر مصرع لگایا :
حنا نے کھٹ کے کیا ناخنوں کا دونا حسن
کہ پانچ اُنگلیوں میں دس ہلال رہتے ہیں
مائل نے ان کا مصرع اور ادعائے تفرد کا ذکر سن کر یہ مصرع لگایا :
بلائیں رات کو پیہم جو لی ہیں ابرو کی
تو پانچ اُنگلیوں میں دس ہلال رہتے ہیں
ایک دوست نے مجھ سے بھی فرمائش کی اور میں نے یہ مصرع لگایا :
لکھا جو کرتا ہوں میں اُن کے ناخنوں کی ثنا
تو پانچ اُنگلیوں میں دس ہلال رہتے ہیں
لکھنؤ میں ایک دفعہ یہ مصرع اس لئے تصویر جاناں ہم نے کھنچوائی نہیں ، شعراء کے مطرح نظر تھا
ایک صاحب نے یہ مصرع لگایا :
ایک سے جب دو ہوئے پھر لطف یکتائی نہیں
اس لئے تصویر جاناں ہم نے کھنچوائی نہیں
کسی نے یہ مصرع لگایا :
میں ہوں مشاقِ سخن اور اس میں گویائی نہیں
اس لئے تصویر جاناں ہم نے کھنچوائی نہیں
میں نے بھی یہ مصرعے لگائے تھے :
اس میں وہ انداز وہ شوخی وہ رعنائی نہیں
اس لئے تصویر جاناں ہم نے کھنچوائی نہیں
اُس کی خاموشی ہمارے دل کو جب بھائی نہیں
اس لئے تصویر جاناں ہم نے کھنچوائی نہیں
اصل کی خوبی جو ہے وہ نقل میں پائی نہیں
اس لئے تصویر جاناں ہم نے کھنچوائی نہیں
یہ اجازت ہم نے اپنے رشک سے پائی نہیں
اس لئے تصویر جاناں ہم نے کھنچوائی نہیں
روتے روتے رات دن آنکھوں میں بینائی نہیں
اس لئے تصویر جاناں ہم نے کھنچوائی نہیں
پیکر شیریں بنا کر کیا ملا فرہاد کو
اس لئے تصویر جاناں ہم نے کھنچوائی نہیں
دیکھتا اُس کو تو ہو جاتا زمانہ بت پرست
اس لئے تصویر جاناں ہم نے کھنچوائی نہیں
نورِ عارض سے اندھیروں کو بنانا تھا محال
اس لئے تصویر جاناں ہم نے کھنچوائی نہیں
جان اپنی ڈال دیتے یہ نہ تھی قدرت ہمیں
اس لئے تصویر جاناں ہم نے کھنچوائی نہیں
چاہیے کاغذ کے بدلے مہرتاباں کا ورق
اس لئے تصویر جاناں ہم نے کھنچوائی نہیں
منھ نزاکت سے اُترجائے گا اُن کا تھا یہ خوف
اس لئے تصویر جاناں ہم نے کھنچوائی نہیں
چاہنے والوں میں ہو جاتا مصور دیکھ کر
اس لئے تصویر جاناں ہم نے کھنچوائی نہیں
جان ہے وہ جان کی صورت بنانا ہے محال
اس لئے تصویر جاناں ہم نے کھنچوائی نہیں
وصل آئینہ سے اُن کا ہم کو ہوتا ناگوار
اس لئے تصویر جاناں ہم نے کھنچوائی نہیں
دیکھنے سے اُس کے ہر دم ہوتی بیتابی سوا
اس لئے تصویر جاناں ہم نے کھنچوائی نہیں
کھینچ لایا ہے ہمارا جذبۂ دل خود اُسے
اس لئے تصویر جاناں ہم نے کھنچوائی نہیں
حسن کے جلوے کی تھی برداشت کب قرطاس کو
اس لئے تصویر جاناں ہم نے کھنچوائی نہیں
صورت اُس کی پھرتی ہے آنکھوں میں اپنی رات دن
اس لئے تصویر جاناں ہم نے کھنچوائی نہیں
خوبی قسمت سے اپنی خود وہ ہیں زیبِ کنار
اس لئے تصویر جاناں ہم نے کھنچوائی نہیں
بت پرستی کا کہیں حاسد نہ کر دیں اتہام
اس لئے تصویر جاناں ہم نے کھنچوائی نہیں
دل میں صورت اُس کی آنکھوں میں تصور اُس کاہے
اس لئے تصویر جاناں ہم نے کھنچوائی نہیں
میر ؔ انیس مرحوم کے سامنے ایک صاحب نے یہ مصرع پڑھا ، چیختے چیختے بلبل کی زباں سوکھ گئی ، میر ؔ صاحب نے یہ مصرع لگایا :
عرقِ گل ہے مناسب اُسے دینا صیاد
چیختے چیختے بلبل کی زباں سوکھ گئی
اس کا چرچا لکھنؤ میں ہوا اکثر لوگوں نے طبع آزمائی کی ، مجھے اپنا مصرع یاد آیا :
خار کو گل کے قریں دیکھ کے میں یہ سمجھا
چیختے چیختے بلبل کی زباں سوکھ گئی
مٹیا برج میں ایک دفعہ صحبتِ احباب میں میرا گذر ہوا ، ایک صاحب نے فرمائش کی کہ اس پر مصرع لگاؤ : ’’ جھومتی قبلہ سے گھنگھور گھٹا آتی ہے ‘‘ اس کے بعد میں نے فکر کی تو ایک مصرع اور ذہن میں آگیا :
کیا عجب ہے کہ صراحی بھی کرے سجدۂ شکر
جھومتی قبلہ سے گھنگھور گھٹا آتی ہے
ایک صاحب سلام کی فکر میں تھے ، مجھ سے کہنے لگے میں نے ایک مصرع کہا ہے : ’’ وہ اک زمانہ کی آنکھوں میں ہیں سمائے ہوئے ‘‘ میں نے یہ مصرع لگادیا :
نہیں ضریح کے محتاج بیکسوں کے مزار
وہ اک زمانے کی آنکھوں میں ہیں سمائے ہوئے
کہنے لگے تم نے میرا مصرع چھین لیا ، یہاں حیدرآباد میں بندگانِ عالی خلد اﷲ ملکہ کا ایک مصرع ’’ ہزار بار بلایا تو ایک بار آیا ‘‘ ایک دوست نے میرے سامنے پڑھا ، میں نے یہ مصرع لگایا :
یہ ناز تھا ملک الموت کو بھی ہجر کی رات
ہزار بار بلایا تو ایک بار آیا
یہ نقل مشہور ہے کہ لکھنؤ کے ایک شیخ زادہ جو اُمرا میں سے تھے ، مرزا رفیع سوداؔ سے برسبیل امتحان طالب ہوئے کہ اس مصرع پر مصرع لگادیں : ’’ اے سنگِ ناز کی میں تو کامل نہ ہو سکا ‘‘ سوداؔ نے یہ مصرع لگایا :
شیشہ گداز ہو کے بنادل نہ ہو سکا
اے سنگِ ناز کی میں تو کامل نہ ہو سکا
اور یہ نقل بھی ان کی طرف منسوب ہے کہ کسی نے یہ مصرع : ’’ اک نظر دیکھنے سے ٹوٹ نہ جاتے ترے ہاتھ ‘‘ سودا کے سامنے پڑھا تو انھوں نے یہ مصرع : ’’ لیلیٰ اتنا تو نہ تھا پردۂ محمل بھاری ‘‘ لگادیا ، اس میں شک نہیں کہ مصرع لگانا بڑا فن ہے اور مشق شعراء کا بڑا ذریعہ ہے۔ خواجہ حیدر علی آتش ؔکا طرزِ سخن مصرع لگانے ہی پر منحصر ہے اور لکھنؤ کے شعراء کو انھیں نے اس امر کی طرف مائل کیا ، ورنہ اکثر لوگ موزوں طبع غزل کہہ لیا کرتے تھے ، مگر مصرعوں کے نامربوط و دولخت ہونے سے بے خبر رہتے تھے ، خدا بخشے آغا حجو شرف کو وہ ذکر کرتے تھے کہ میر وزیر علی صبا ؔایک غزل اُستاد کو دکھانے لائے ، میں بھی اُس وقت موجود تھا ، ایک شعر صبا ؔنے پڑھا :
فصل گل میں مجھے کہتا ہے کہ گلشن سے نکل
ایسی بے پر کی اُڑاتا تھا نہ صیاد کبھی
آتش نے یہ شعر سن کر کہا کہ بے پر کی اُڑانا تم نے باندھ لیا اور مصرع لگانے میں اس کا خیال نہ رکھا یوں لکھ لو :
پر کترکر مجھے کہتا ہے کہ گلشن سے نکل
ایسے بے پر کی اُڑاتا تھا نہ صیاد کبھی
لیکن تجربہ سے معلوم ہوا کہ بعض طبیعتیں جودت خداداد رکھتی ہیں وہ ایک ہی دفعہ میں سارا شعر کہہ لیتے ہیں اور دونوں مصرع مربوط و دست و گریباں ہوتے ہیں ، جن کو خدا نے یہ وصف عطا کیا ہے ، انھیں اس طرح کی مشق کرنے کی ضرورت بہت کم ہے اور جو شعر دونوں مصرعوں سمیت ایک ہی دفعہ ٹھیک پڑتا ہے اُس میں آمد کی شان اور بے تکلفی بیان ایسی ہوتی ہے کہ وہ بات ہرگز فکر کر کے مصرع لگانے میں نہیں حاصل ہوتی۔
اللہ ری تیری تندی خو جس کے بیم سے
اجزائے نالہ دل میں مرے رزق ہم ہوئے
جس طرح خوفِ لہو کو تحلیل کرتا ہے اُسی طرح اس کے بدمزاج ہونے کے ڈر سے نالہ اب تک نہ آیا ، دل میں تھا ، دل ہی میں تحلیل ہو گیا ، اس تحلیل ہونے کو مصنف نے اس عبارت میں ادا کیا ہے کہ اس کا ایک جز دوسرے جز کو کھا گیا۔
اہل ہوس کی فتح ہے ترکِ نبردِ عشق
جو پاؤں اُٹھ گئے وہی ان کے علم ہوئے
یعنی میدانِ عشق سے بھاگ جانے ہی میں رقیب کی فتح ہے ، ان لوگوں کا اس میدان سے پاؤں کیا اُٹھا ، گویا ان کے لئے علم فتح بلند ہوا اور جان بچ گئی ، پاؤں اُٹھنے کو علم اُٹھنے سے تعبیر کرنا نہایت تکلف ہے ، اس مضمون کو یوں کہنا تھا : ’’ اُٹھا وفا سے ہاتھ تو اُونچے علم ہوئے ‘‘۔
نالے عدم میں چند ہمارے سپرد تھے
جو واں نہ کھنچ سکے سو وہ یاں آکے دم ہوئے
یعنی چند نالے کرنا ازل سے ہمارے واسطے مقرر ہو چکے تھے ، وہاں تو نہ کھنچ سکے ، یہاں آ کر وہی نالے ہم کھینچ رہے ہیں اور یہ آمدورفت نفس وہی نالہ کشی ہے ، اس شعر سے اس بات کا بھی پتہ لگا کہ ناسخ کی طرح مصنف کی زبان پر ’ جو ، کے جواب میں ’ سو ، لانا ضرور ہے ، اس وجہ سے کہ اگر مصرع میں سے ’ سو ، کو نکال ڈالئے اور ’ یاں ، کی جگہ ’ یہاں ، پڑھئے اس طرح : ’’ جو واں نہ کھنچ سکے وہ یہاں آکے دم ہوئے ‘‘ جب بھی مصرع موزوں ہے اور مصنف کا مرتبہ تو بڑا ہے جو شخص نظم الفاظ میں مشق رکھتا ہے ، اُس سے فکر شعر کے وقت ایسی باتیں چھپی نہیں رہتیں ، پھر ’ واں ، اور ’ وہاں ، اور ’ یاں ، اور ’ یہاں ، گو دونوں طرح دُرست ہے ، لیکن باتفاق ’ واں ، سے ’ وہاں ، اور ’ یاں ، سے یہاں فصیح ہے ، مصنف نے اگر ’ سو ، کو ترک کیا ہوتا تو یہ فائدہ بھی تھا کہ ’ یاں ، کی جگہ ’ یہاں ، ہو جاتا ، مگر انھوں نے ’ سو ، کے ادا کرنے کے لئے ’ یاں ، کا رکھنا بھی گوارا کیا اور بندش شہادت دے رہی ہے کہ یہ امر بالعمد ہے ، اس شعر میں ’ دم ہوئے ، اچھا نہیں ہے ، لیکن مضمون شعر نہایت لطیف ہے۔
چھوڑی اسدؔ نہ ہم نے گدائی میں دل لگی
سائل ہوئے تو عاشق اہل کرم ہوئے
’ تو ، اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کے پہلے جو جملہ ہے ، اس میں سے جو یا جب یا ہے ، اگر محذوف یعنی یہ مصرع جملہ شرطیہ ہے اور حذف نے بہت لطف دیا ، نحو اُردو میں یہ قاعدۂ کلیہ سمجھنا چاہئے ، کہ جملہ شرطیہ میں حرف جزا مذکور ہو تو حرفِ شرط کا حذف کرنا حسن رکھتا ہے۔
_______
جو نہ نقدِ داغِ دل کی کرے شعلہ پاسبانی
تو فسردگی نہاں ہے بہ مکین بے زبانی
کہتے ہیں شعلہ میرے داغِ دل کی پاسبانی کر رہا ہے ، یعنی اُسے ٹھنڈا نہیں ہونے دیتا ، قابلیت نہیں تو فسردگی بے زبانی کے پردے میں چور کی طرح چھپی ہی ہوئی ہے کہ اس اشرفی کو لے بھاگے شعلہ کی تشبیہ زبان سے مشہور ہے ، تو شعلہ کا پاسبانی نہ کرنا وہی بے زبانی ہے اور اس بے زبانی کا انجام فسردگی ہے ، حاصل یہ ہے کہ شعلہ نہ پاسبانی کرے تو داغِ دل افسردہ ہو جائے اور اس اشرفی کو دزدِ افسردگی کہیں بے زبانی سے نکل کر چرالے اس شعر میں داغ کو نقد کہا یعنی روپیہ اشرفی سے اس نے تشبیہ دی ، فارسی گویوں کا یہ خیال ہے کہ داغِ دل ایک مدور شئے ہے اور اس میں چمک ہے اور سوزش ہے اور اسی سبب سے آفتابِ داغ اور درہم داغ اور شعلۂ داغ وغیرہ باندھتے ہیں ، اُردو کی شاعری میں فارسی ہی سے یہ مضمون لیا گیا ہے ، اسی طرح سمجھتے ہیں کہ آہ ایک مستطیل چیز ہے جس میں شعلہ بھی ہے اور دُھواں بھی ہے ، آرزو کوئی زندہ شئے ہے کہ کبھی دل ہی دل میں اس کا خون ہو جاتا ہے ، کبھی عشاق کے ساتھ جیتی گڑجاتی ہے ، کبھی ان کی قبر پر دھونی رماتی ہے ، غرض کہ داغِ دل جب اشرفی ہوا تو شعلہ اس وجہ سے کہ تمام رات اُس کی آنکھ کھلی رہتی ہے ، پاسبان اُس کاہے اور فسردگی کو مصنف نے گو دزد نہیں کہا ، لیکن اُس کا فعل ایسا بیان کیا جو چوروں کا ہوتا ہے ، یعنی مال چرانے کی گھات میں لگے رہنا تو گویا اُسے دزد ہی تصور کیا ہے ، جو مکین بے زبانی میں چھپا ہوا ہے ، یہ سب تشبیہیں نہایت لطیف ہیں ، لیکن حاصل شعر کا دیکھو تو کچھ بھی نہیں ’ جو نہ نقد داع ، میں دونوں متعاقب عیب تنافر رکھتی ہیں اور دو دالیں بھی جمع ہو گئی ہیں ، یہ بھی ثقل سے خالی نہیں ، اس کا معیار ائمہ ادب نے مذاق صحیح کو قرار دیا ہے ، بعض لوگوں کو تنافر نہیں محسوس ہوتا یہاں دونوں جمع ہوا تنافر رکھتا ہے اور وہ دونوں دالیں متعاقب بری نہیں معلوم ہوتیں ، اگر مصرع یوں ہوتا : ’’ کرے نقد داغِ دل کی جو نہ شعلہ پاسبانی ‘‘ تو پھر تنافر نہ تھا آتشؔکا یہ شعر :
میں موج ہوں لبِ ساحل ہیں آسمان و زمیں
کبھی جو جوش میں دریائے اضطراب آیا
پہلے مصرع میں سے ’ میں ، کا ے اور نون گرگیا اور اس سبب سے دو میم متعاقب جمع ہو گئے اور دوسرے مصرع میں ’ جو ، کا واؤ گرجانے سے دو جیمیں پے درپے آ گئیں ، لیکن دو جیموں کا اجتماع عیبِ تنافر رکھتا ہے اور پہلے مصرع میں دو میموں کا اجتماع اس قدر برا نہیں معلوم ہوتا کچھ یہ ضرور نہیں کہ جب دو حرفِ متعاقب اس طرح جمع ہو جائیں تو وہاں تنافر پایا جائے بعض جگہ اس طرح کا اجتماع متعاقب نہیں ہوتا اور پھر تنافر شدید پایا جاتا ہے ، جیسے : ’’ خواجہ توچہ تجارت می کنی ‘‘ یا جیسے لڑکے آپس میں یہ کھیل کرتے ہیں کہ اس فقرے کو جلدی جلدی کہلواتے ہیں کہ زبان بہکی اور ہنسی ہو تو پیٹھ اُونچی اُونٹ کی کچھ اُونٹ کی اُونچائی سے نہیں ہٹی پیٹھ اُونچی اُونٹ کی۔
مجھے اُس سے کیا توقع بہ زمانہ جوانی
کبھی کود کی میں جس نے نہ سنی مری کہانی
کم سنی میں کہانی سننے کا شوق بہت ہوتا ہے ، اس پر تو میری کہانی اُس نے کبھی نہ سنی ، اب اُس کے شباب میں مجھے اُس سے کیا اُمید ہو۔
یو نہیں دُکھ کسی کو دینا نہیں خوب ورنہ کہتا
کہ مرے عدو کو یارب ملے میری زندگانی
’ یو نہیں ، کا لفظ بے وجہ کے مقام پر محاورہ میں ہے۔
_______
ظلمت کدہ میں میرے شبِ غم کا جوش ہے
اک شمع ہے دلیل سحر سو خموش ہے
غالباً شمع خاموش کو علامتِ سحر اس وجہ سے کہا ہے کہ سپیدی شمع سپیدۂ مستطیل صبح سے مشابہت رکھتی ہے ، میں نے یہ معنی لکھنے کے بعد عود ہندی کو دیکھا ، مصنف نے عجیب و غریب معنی و ترکیب اس شعر کی لکھی ہے ، کہتے ہیں : یہ مصرع ایک شمع ہے ، دلیل سحر کو خموش ہے ، خبر ہے ، پہلا مصرع ظلمت کدہ میں میرے شبِ غم کا جوش ہے ، یہ مبتدا ہے شبِ غم کا جوش یعنی اندھیرا ہی اندھیرا ، ظلمت غلیظ سحر ناپید گویا خلق ہی نہیں ہوئی ، ہاں دلیل صبح کی بود پر ہے ، یعنی بجھی ہوئی شمع اس راہ سے کہ شمع و چراغ صبح کو بجھ جایا کرتے ہیں ، لطف اس مضمون کا یہ ہے کہ جس شئے کا دلیل صبح ہونا ٹھہرا ، وہ خود ایک سبب ہے ، منجملہ اسباب تاریکی کے پس دیکھنا چاہئے ، جس گھر میں علامت صبح مؤید ظلمت ہو وہ گھر کتنا تاریک ہو گا۔
نے مژدۂ وصال نہ نظارۂ جمال
مدت ہوئی کہ آشتی چشم و گوش ہے
یعنی اب وہ زمانہ گیا کہ اگر چشم کو نظارۂ جمال ہوتا تھا تو کانوں کو رشک ہوتا تھا کہ ہم کو بھی مژدۂ وصال ملے یا کبھی کان تک مژدہ وصال پہنچتا تھا ، تو آنکھوں کو یہ رشک ہوتا تھا کہ اُس نے مژدۂ وصال کو پہلے سن لیا اور ہم ابھی تک نظارۂ جمال سے کامیاب نہ ہوئے۔
مے نے کیا ہے حسن خود آرا کو بے حجاب
اے شوق ہاں اجازتِ تسلیم ہوش ہے
اجازت ہے کہ ہوش و حواس اُس کے حوالے کردے کیوں کہ مے ہوش رُبا نے بے حجاب کیا ہے۔
گوہر کو عقد گردنِ خوباں میں دیکھنا
کیا اوج پرستارۂ گوہر فروش ہے
’ دیکھنا ، دو معنی رکھتا ہے ایک تو امر کے معنی اور اس صورت میں شمع کی طرف خطاب ہے اور دوسرے مصدر کے معنی اور اس صورت میں گوہر فروش کا دیکھنا مراد ہے اور اس پر رشک کیا ہے
دیدارِ بادہ حوصلہ ساقی نگاہِ مست
بزمِ خیال میکدۂ بے خروش ہے
پہلے مصرع میں کہیں اضافت نہیں ہے بزمِ خیال کا نقشہ دکھلاتے ہیں کہ وہاں دیدارِ شراب ہے ، نگاہِ میخوار ہے حوصلہ ساقی ہے۔
اے تازہ وارادان بساطِ ہو ائے دل
زنہار اگر تمہیں ہوس ناو نوش ہے
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوشِ نصیحت نیوش ہے
ساقی بجلوہ دُشمن ایمان و آگہی
مطرب بنغمہ رہزن تمکین و ہوش ہے
تازہ واردانِ بزم ہوائے دل سے نوجوان مراد ہیں ’ ہوا ، عربی میں خواہش کے معنی پر ہے ، زنہار کلمہ تاکید ہے ناؤنوش سے ’ نے ، کا سننا اور شراب کا پینا مراد ہے ، انھیں دونوں باتوں کے متعلق بلف و نشر دوسرے شعر میں کہتے ہیں کہ شراب کی طرف کیا دیکھتے ہو میرا حال دیکھو اور عبرت کرو اور ’ نے ، کو کیا سنتے ہو میری بات کان لگا کر سنو پھر اس بات میں بھی لف و نشر کی رعایت کی ہے ، کہتے ہیں جلوۂ ساقی ایمان و آگہی کا دُشمن ہے اور نغمہ نے تمکین و ہوش کا رہزن ہے۔
یاشب کو دیکھتے تھے کہ ہر گوشۂ بساط
دامانِ باغبان و کفِ گل فروش ہے
لطفِ خرام ساقی و ذوق صدائے چنگ
یہ جنتِ نگاہ وہ فردوس گوش ہے
یا صبح دم جو دیکھئے آ کر تو بزم میں
نے وہ سرور و سوز نہ جوش و خروش ہے
داغِ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے
رات کی وہ چہل پہل اور دل لگی اور چہلیں صبح کی یہ اُداسی اور سناٹا اور ہو کا عالم دو متضاد کیفیتیں ہیں ، اس سے سننے والے کو انبساط اور اس سے انقباض ہوتا ہے ، اُس سے واشد خاطر اور اس سے گرفتگی پیدا ہوتی ہے ، اس قطعہ میں آخر کے دو شعر اسی سبب سے زیادہ بلیغ ہیں کہ ان کا اثر گرفتگیٔخاطر خاطر ہے اور وہ گرفتگی جو بعد واشد کے ہو اثر قوی رکھتی ہے۔
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالبؔ صریر خامہ نوائے سروش ہے
یعنی یہ مضامین جو تیرے قلم سے نکلتے ہیں ، غیب کے مضامین ہیں تو پھر صریر خامہ کو فرشتہ کی صدا سمجھنا چاہئے۔
_______
آکہ مری جان کو قرار نہیں ہے
طاقت بیداد انتظار نہیں ہے
اگر جلد آ کہتے تو خالی آ کہنے سے بہتر تھا ، لیکن وزن میں گنجائش نہ تھی۔
دیتے ہیں جنت حیاتِ دہر کے بدلے
نشۂ باندازہ خمار نہیں ہے
یعنی حیاتِ دُنیا میں جو تکلیفیں ہیں اس کی تلافی جنت میں جانے سے نہیں ہو سکتی ، پھر اس کی مثال دی ہے کہ جس نے خمار کی تکلیف بہت اُٹھائی ہو ، اُسے تھوڑی سی شراب ملے تو کیا نشہ ہو گا۔
گر یہ نکالے ہے تری بزم سے مجھ کو
ہائے کہ رونے پہ اختیار نہیں ہے
یہ وزن مانوس اوزان میں سے نہیں ہے ، اس وجہ سے کاتب نے اپنے وزن مانوس کی طرف پہلے مصرع کو کھینچ لیا ہے اور سب نسخوں میں ’ تری ، بغیر ’ یا ، چھپا ہوا ہے ، لیکن اس میں یہ قباحت ہے کہ دوسرا رکن فاعلات ہونا چاہئے ، اس کی جگہ پر مفقلن ہو جاتا ہے تو ضرور ہے کہ ’ تیری ، کہا ہو گا ، مصنف نے اور اس صورت میں وزن مستقیم رہتا ہے کہ ’ تیری ، میں سے آخر کی ’ ی ، کو گرادیں اور درمیان کی ’ ی ، باقی رکھیں۔
ہم سے عبث ہے گمان رنجش خاطر
خاک میں عشاق کے غبار نہیں ہے
مطلب مصنف کا یہ ہے کہ عشاق کی طینت میں غبار نہیں ہے ، لیکن طینت کی جگہ خاک کہنا محاورہ سے گرا ہوا ہے ، اس مقام پر طینت سرشت آب و گل بولتے ہیں ، خاک کا لفظ لانے سے ادائے مطلب میں خلل پیدا ہو گیا اور اب اس شعر کے یہ معنی ہیں کہ عشاق گو مرکر خاک ہو گئے ، لیکن اُن کی خاک میں بھی غبار نہیں ہے اور یہ محض ادعائے شاعرانہ ہے جس کے لئے تعلیل کی ضرورت ہے۔
دل سے اُٹھا لطف جلوہ ہائے معانی
غیر گل آئینۂ بہار نہیں ہے
وہ آئینہ جس میں بہار کا حسن و جمال دکھائی دیتا ہے ، گل ہے اسی طرح وہ آئینہ جس میں معانی کا جلوہ نظر آتا ہے ’ دل ، ہے۔
قتل کا میرے کیا ہے عہد تو بارے
وائے اگر عہدِ اُستوار نہیں ہے
یعنی معشوق نے عہد کیا ہے۔
تو نے قسم میکشی کی کھائی ہے غالبؔ
تیری قسم کا کچھ اعتبار نہیں ہے
تعجب ہے کہ تو اور مے کشی کی قسم کسی چیز کی قسم کھانا محاورہ ہے اور اس کی ترک کی قسم کھانا مراد ہے۔
_______
ہجومِ غم سے یاں تک سرنگوئی مجھ کو حاصل ہے
کہ تارِ دامن و تارِ نظر میں فرق مشکل ہے
غم کے بوجھ سے سر دامن پر جارہا اب تارِ دامن سے تارِ نظر اس طرح متصل ہے کہ دونوں میں فرق کرنا مشکل ہے۔
رفوئے غم سے مطلب ہے لذت زخم سوزن کی
سمجھیو مت کہ پاس در سے دیوانہ غافل ہے
مطلوب کے مقام پر مصنف نے مطلب کو استعمال کیا ہے بہ ضرورتِ شعر۔
وہ گل جس گلستاں میں جلوہ فرمائی کرے غالب ؔ
چٹکنا غنچۂ گل کا صدائے خندۂ دل ہے
غنچۂ گل یعنی گلاب کی کلی دل سے مشابہت رکھتی ہے ، مطلب یہ ہے کہ اُس کے آنے سے گلستاں کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے ، وہاں غنچہ چٹکے تو سمجھو کہ صدائے خندۂ دل بلند ہوئی۔
_______
پابہ دامن ہورہا ہوں بسکہ میں صحرا نورد
خارپا ہیں جوہر آئینہ زانو مجھے
یعنی پاؤں جو زانو سے متصل ہے تو صحرا نوردی میں جو کانٹے پاؤں میں چبھے تھے وہی آئینۂ زانو کا جوہر بنے ہیں ، اس شعر میں بھی تشبیہ کے سوا معانی میں کچھ لطف نہیں ہے۔
دیکھنا حالت مرے دل کی ہم آغوشی کے وقت
ہے نگاہِ آشنا تیرا سر ہر مو مجھے
فارسی اور اُردو کہنے والے شعراء میں یہ خیال مرتکز ہو گیا ہے کہ ہمیشہ دل کو زلف میں لپیٹا کرتے ہیں ، اسی سے مصنف نے یہ مضمون نکالا ہے کہ جب دل برسوں زلف میں اُلجھا رہا ہے تو زلف و دل میں آشنائی قدیم ہے اور زلف کا ہر سرمونگاہ آشنا ہے اور دل کا حال آشنا ہی کو خوب معلوم ہوتا ہے اور سر ہرمو کو عام لیں تو بھی معنی دُرست ہیں ، یعنی ہنگام آغوشی تیرا ہر سرمو میرے دل کی حالت دیکھنے کے لئے نگاہِ آشنا ہو جائے۔
ہوں سراپا ساز آہنگِ شکایت کچھ نہ پوچھ
ہے یہی بہتر کہ لوگوں میں نہ چھیڑے تو مجھے
یعنی میں وہ ارغواں ہوں جس میں شکایت کا راگ بھرا ہوا ہے ، تو نے مجھے چھیڑا اور میں نے راگ نکالا۔
_______
جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے
جاں کا لبد صورتِ دیوار میں آوے
یہ مضمون شعراء میں بہت مشہور ہے کہ معشوق کے لب و دہن میں جاں بخشی کا وصف ہے ، اسی سبب سے صورت دیوار میں اُس کے دہن کی بات سے جان پڑجائے تو عجب نہیں گفتار میں آنا بات چیت کرنے کے معنی پر اُردو کا محاورہ نہیں ہے ترجمہ ہے۔
سایہ کی طرح ساتھ پھریں سرو و صنوبر
تو اس قدِ دل کش سے جو گلزار میں آوے
’ سے ، کا لفظ اس شعر میں عجب لطف رکھتا ہے اور بڑے محاورہ کا لفظ ہے اور مصنف پہلے شخص ہیں جس نے اس مقام پر ’ سے ، کو استعمال کیا ہے اور سب شاعر اس طرح نظم کیا کرتے ہیں : ’’ اس قد کو اگر لے کے تو گلزار میں آوے ‘‘
تب نازِ گراں مایگی اشک بجا ہے
جب لختِ جگر دیدۂ خوں بار میں آوے
وہ آنسو ہی کیا جس میں لہو نہ ہو۔
دے مجھ کو شکایت کی اجازت کہ ستمگر
کچھ تجھ کو مزا بھی مرے آزار میں آوے
یعنی شکایت اور فریاد میں کروں گا تو تجھے مزہ آوے گا اور لطف اُٹھائے گا ، اس زمین کا حاصل اس شعر میں آگیا۔
اس چشم فسوں گر کا اگر پائے اشارہ
طوطی کی طرح آئینہ گفتار میں آوے
معشوق کی آنکھ کا یہ وصف مشہور ہے کہ اشارہ میں باتیں کر لے تو جب وہ اشارہ آئینہ میں دکھائی دے گا تو آئینہ بھی گویا طوطی کی طرح باتیں کرے گا ، یہاں مصنف نے لفظ ’ سخن گو ، کو ترک کر کے اس کے بدلے ’ فسوں گر ، اس وجہ سے کہا کہ آئینہ کا باتیں کرنا خرقِ عادت و افسوں ہے۔
کانٹوں کی زباں سوکھ گئی پیاس سے یارب
اک آبلہ پا وادیٔ پرخار میں آوے
آبلہ کی چھاگلیں ہوں تو اُن کی پیاس بجھے۔
مرجاؤں نہ کیوں رشک سے جب وہ تن نازک
آغوش خم حلقۂ زنار میں آوے
معشوق ہندو ہے اور اس کے گلے سے زنار کو لپٹا دیکھ کر رشک آتا ہے۔
غارت گر ناموس نہ ہو گر ہوسِ زر
کیوں شاہدِ گل باغ سے بازار میں آوے
وجہ مناسبت یہ ہے کہ گلاب میں جو زیرہ ہوتا ہے اُسے زرِ گل کہتے ہیں ، شعر کا مطلب یوں سمجھو کہ گلاب کا کھلنا اور زرِ گل کا کھلنا کیا ہے ، گویا زر کی ہوس میں ہاتھ پھیلانا ہے جس کا انجام یہ ہوا کہ سر بازار آنا پڑا ، نہیں تو بربادی ناموس کا کیوں سامنا ہوتا ، غنچہ کی طرح بند ہی مٹھی چلا گیا ہوتا جب ہاتھ پھیلا کر زر لیا تو شاہد بازاری ہو گیا اور ناموس و عزت برباد گئی۔
تب چاک گریباں کا مزہ ہے دل نالاں
جب اک نفس اُلجھا ہوا ہر تار میں آوے
چاک گریباں سے یہاں چاک زدن گریباں مراد ہے ، یعنی چاک کرنے کا لطف تو یہ ہے کہ گریباں کے ساتھ سانس بھی کھنچ آئے اور دم نکل جائے۔
آتش کدہ ہے سینہ مرا راز نہاں سے
اے وائے اگر معرضِ اظہار میں آوے
جس راز نے سینہ کو آتش کدہ بنا رکھا ہے ، وہ ظاہر ہو تو کہاں کہاں آگ نہ لگائے۔
گنجینۂ معنی کا طلسم اُس کو سمجھئے
جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آوے
گنجینہ اس سبب سے ہے کہ معانی کثیر اُس میں ہیں اور طلسم اس سبب سے ہے کہ پہلو بھی اس میں کئی نکلتے ہیں ، یہ ظاہر ہے کہ طلسم مشکل سے کھلتا ہے اور حیرت انگیز ہوتا ہے ، اسی طرح کلام میرا مشکل سے حل ہوتا ہے اور معانی سے اُس میں حیرت پیدا ہوتی ہے ، غرض لفظ کی تشبیہ طلسم سے نہایت بدیع ہے۔
_______
حسن مہ گرچہ بہ ہنگام کمال اچھا ہے
اُس سے میرا مہ خورشید جمال اچھا ہے
جس طرح خورشید اچھا ہے ماہ سے۔
بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ
جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچھا ہے
بوسہ کا لفظ دینے اور لینے کے ساتھ بولتے ہیں ، اس سبب سے بوسہ کو شعر اول کی قیمت باندھا کرتے ہیں اور دل کا بوسہ پر بکفا مبتذل مضمون ہے ، لیکن یہاں محاورہ کی خوبی اور بندش کی ادا نے اس مضمون کو تازہ کر دیا ہے۔
اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
ساغر جم سے مرا جام سفال اچھا ہے
مطلب یہ ہے کہ زیادہ تکلف باعثِ تکلیف کا ہوتا ہے۔
بے طلب دیں تو مزا اُس میں سوا ملتا ہے
وہ گدا جس کو نہ ہو خوئے سوال اچھا ہے
غزل اور قصیدہ میں اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ مطلع کے بعد پھر دونوں مصرعوں میں ایسا تشابہ نہ ہونے پائے جیسا مصنف کے اس شعر میں ہو گیا ہے کہ جس نے اور شعر نہ سنے ہوں ، وہ مطلع سمجھے اُسے بھی یعنی ’ ملتا ، اور ’ اچھا ، یہ دونوں لفظ قافیہ معلوم ہوتے ہیں اور ’ ہے ، ردیف جس کو مذاقِ صحیح ہے وہ ضرور اس نکتہ کی قدر کرے گا کہ اس شعر کی بندش میں سستی پیدا ہوتی ہے ، اس وجہ سے کہ مطلع کے بعد دونوں مصرعوں کا مبائن ہونا شرط ہے اور اس میں شک نہیں کہ زمین کے اعتبار سے اس شعر میں بھی مبائنت بقدر کافی ہے ، لیکن اگر اتنی مشابہت بھی نہ ہوتی تو اور بھی اچھا تھا ، مطلب شعر کا ظاہر ہے کہ مانگے سے ملا تو کیا رہ گئی جو قسمت میں ہے وہ ملے گا ضرور ، اگر بے سوال ملا تو کیا پوچھنا اُس ملنے سے کیسا دل خوش ہو جاتا ہے ، سوال کی مذمت کیا اچھی طرح سے کی ہے۔
اُن کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منھ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
اس شعر کی خوبی خود ایسی ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر بیان نہیں ہو سکتی ، ایک نحوی قاعدہ یہاں یہ ہے کہ مصدر کے بعد جب کوئی حروف معنوی ہو تو نون کو گرادینا بھی محاورہ ہے ’ دیکھے سے ، اصل میں ’ دیکھنے سے ، تھا ’ سے ، کے سبب سے نون گرگیا ، اسی طرح کہتے ہیں ، ان کے کہے پر عمل کیا اور اُن کے مرے کو عرصہ ہوا اور ان کے آئے تک انتظار کیا ، آنکھ کے دیکھے کا یقین ہوتا ہے ، اس کے علاوہ اور بھی بہت سے مصادر ہیں ، جس میں ایسا تصرف ہو سکتا ہے ، مگر سماعی ہیں ، ہر مصدر میں ایسا قیاس کر لینا صحیح نہ ہو گا۔
دیکھئے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
بہت صاف شعر ہے اور اچھا شعر ہے۔
ہم سخن تیشہ نے فرہاد کو شیریں سے کیا
جس طرح کا کہ کسی میں ہو کمال اچھا ہے
پہلے مصرع میں گنجلک ہے اور دوسرے میں تنافر اور دونوں مصرعوں میں ربط بھی خوب نہیں اور مضمون بھی کچھ نہیں۔
قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہو جائے
کام اچھا ہے وہ جس کا کہ مال اچھا ہے
قطرہ و دریا کی تمثیل اہل تصوف کی نکالی ہوئی ہے ، لیکن شعراء کو بھی نہایت پسند آ گئی ہے کسی نے اسے نہیں چھوڑا ، یہاں تک کہ مضمون مبتذل ہو گیا ، اب جو کوئی اسے نظم کرتا ہے تو شعر ہی بے مزہ ہو جاتا ہے ، مصنف نے بھی اس مضمون کو کئی جگہ کہا ہے اور یہ شعر :
دل ہر قطرہ ہے ساز انا البحر
ہم اُس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا
سب سے اچھا نظم ہوا ہے ، اس سبب سے کہ محاورہ کی چاشنی نے پھیکے مضمون کو چٹ پٹا کر دیا۔
خضر سلطاں کو رکھے خالق اکبر سرسبز
شاہ کے باغ میں یہ تازہ نہال اچھا ہے
شاہ زادہ خضر سلطان فرزند بہادر شاہ ظفر کی مدح میں ہے۔
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے
مطلب یہ کہ بہشت کیا ہے ، نافہموں کو ایک باغ سبز دکھایا ہے۔
_______
نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلی نہ سہی
امتحاں اور بھی باقی ہو تو یہ بھی نہ سہی
اس شعر پر اگر غالبؔ خدائے سخن ہونے کا دعویٰ کریں تو خدا گواہ ہے کہ زیبا ہے ، پھر دیکھئے تو نہ فن معانی کی کوئی خوبی ہے ، نہ فن بیان کا کچھ حسن ہے نہ فن بدیع کے تکلفات ہیں۔
خار خارِ الم حسرتِ دیدار تو ہے
شوقِ گلچینِ گلستانِ تسلی نہ سہی
گلہائے تسلی نہیں تو خار خارِ حسرت کیا کم ہے۔
مے پرستانِ خم مے منھ سے لگائے ہی بنے
ایک دن گر نہ ہوا بزم میں ساقی نہ سہی
مے پرستو چھوڑکر مے پرستاں کہنا حال کی زبان میں نہیں جائز اور ’ لگائے ہی بنے ، کے معنی یہ کہ اسی میں زیادہ لطف ہے اور جی بھر کر پینا یو نہیں بن پڑتا ہے ، ساقی ہوتا تو ایک ایک گھونٹ کر کے پلاتا۔
نفس قیس کہ ہے چشم و چراغِ صحرا
گر نہیں شمع سیہ خانۂ لیلیٰ نہ سہی
لیلیٰ کے گھر کو سیہ خانۂ نفرت کی راہ سے کہا ہے ، یعنی جب قیس کو اس میں بار نہ ہو تو وہ گھر کیسا ، اس کے علاوہ نام بھی لیلیٰ ہے اور سنتے ہیں کہ سیاہ خیمے میں رہتی بھی تھی۔
ایک ہنگامہ پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی
دُنیا کی شادی و غم دونوں ہیچ ہیں ، اپنی دل لگی سے کام رکھنا چاہئے ، عارف کی نظر میں شادی و غم دونوں کی ایک ہی صورت ہے۔
نہ ستائش کی تمنا نہ صلہ کی پروا
گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی
کوئی ناقدردان کچھ دیتا ہو نہ دے یا کوئی ناشناس تحسین کرتا ہو نہ کرے۔
عشرتِ صحبتِ خوباں ہی غنیمت سمجھو
نہ ہوئی غالبؔ اگر عمر طبیعی نہ سہی
گو عشرت و صحبت کے ایک ہی معنی ہیں ، لیکن فارسی والوں نے عشرت کو خوشی و نشاط کے معنی میں استعمال کیا ہے ، اس سبب سے یہ اضافت صحیح ہو جائے گی اور طبیعی کو طبیعت سے اسم منسوب بنالیا ہے ، لیکن قاعدہ یہ ہے کہ فعیلۃ کے وزن پر جو لفظ ہو اس کا اسم منسوب فعلی ہوتا ہے ، جیسے حنیفہ سے حنفی ہے ، اسی طرح طبیعۃ سے طبعی ہے ، مگر فارسی گوتوالی حرکات کو تفیلی سمجھ کر ’ ب ، کو ساکن کر دیتے ہیں ، غرض کہ طبعی کو بنص شعرائے لکھنؤ صحیح نہیں سمجھتے ، اس وجہ سے کہ نہ تو مضاعف ہے ، جیسے حقیقی نہ اجوف ہے ، جیسے طویلی پھر کیوں ’ ی ، کو نہ گرائیں۔
_______
عجب نشاط سے جلاد کے چلے ہیں ہم آگے
کہ اپنے سایہ سے سر پاؤں سے ہے دو قدم آگے
چلنے والے کے پشت پر آفتاب ہو تو سر کا سایہ پاؤں کے آگے آگے ہوتا ہے ، یعنی یہاں شوقِ قتل ایسا ہے کہ اپنے سایہ سے سر دو قدم آگے بڑھا ہوا ہے ، قدم سے جیسا اُوپر کہا ہے کہ در و دیوار اپنے سایہ سے فدا ہوئے۔
قضا نے تھا مجھے چاہا خراب بادۂ اُلفت
فقط خراب لکھا بس نہ چل سکا قلم آگے
یعنی خراب بادۂ اُلفت لکھنا چاہا تھا ، بادۂ اُلفت لکھنے میں قلم نہ چل سکا ، اس سبب سے میں نرا خراب ہی رہ گیا ، یہاں مضمون کے ناتمام رہ جانے نے بڑا لطف دیا اور ہر ایک حالت کی ناتمامی کا بیان ہمیشہ لطف دیتا ہے اور قلم کے نہ چل سکنے کی وجہ مستی اور مدہوشی ہے جو لفظ ’ خراب ، لکھنے سے پیدا ہوئی ہے۔
غم زمانہ نے جھاڑی نشاطِ عشق کی مستی
وگرنہ ہم بھی اُٹھاتے تھے لذتِ الم آگے
غم زمانے نے سب نشے اب اُتار دئیے نہیں تو ہم بھی غم عشق کی لذت اُٹھاتے تھے۔
خدا کے واسطے داد اس جنونِ شوق کی دینا
کہ اس کے در پہ پہنچتے ہیں نامہ بر سے ہم آگے
خط لکھ کر اس کے جواب کا ایسا شوق ہوتا ہے کہ در پر اُس کے پہنچتے ہیں نامہ بر سے ہم آگے۔
یہ عمر بھر جو پریشانیاں اُٹھائی ہیں ہم نے
تمہاری آئیو اے طرہائے خم نجم آگے
تمہارے آگے آئیو اور تمہیں آگ لگو اور تمہیں مبارک ہو جیو وغیرہ غائب کے لئے ، دلی و لکھنؤ دونوں جگہ سے متروک ہے ، لیکن خطاب میں البتہ اس کا استعمال باقی ہے مونس مرحوم کہتے ہیں :
دیجو نہ سرکشوں کو اماں اے دلاورد
اعدا سے چھین لیجو نشاں اے دلاورد
جیتے نہ پھر یو صدقے ہو ماں اے دلاورد
جانوں پہ کھیل جائیو ہاں اے دلاورد
میری تمہیں میں جان ہے گو بے حواس ہو
تم مڑکے دیکھ لو کہ میں پردہ کے پاس ہوں
دل و جگر میں پر افشاں جو ایک موجۂ خوں ہے
ہم اپنے زعم میں سمجھے ہوئے تھے اس کو دم آگے
کہتے ہیں جسے ہم سانس سمجھے ہوئے تھے وہ اک موجِ خوں کی پر افشانی ہے ، یعنی غم نے دل و جگر کو لہو کر دیا ہے ، طبیب کہیں گے کہ جگر میں سانس کہاں جاتی ہے ، دلِ دریہ کہا ہوتا اور ’ ریہ ، کو فارسی میں شش اور اُردو میں پھیپھڑا کہتے ہیں ، لیکن یہ تینوں لفظ کسی شاعر نے نہیں باندھے کہ غیر فصیح ہیں ، یہ عجب سوءِ اتفاق ہے کہ اُردو کا لفظ جب غیرفصیح معلوم ہوتا ہے تو اُس وقت میں شاعر فارسی یا عربی سے لفظ لیتا ہے ، یہاں عربی و فارسی میں بھی شش در لینے کے قابل نہیں ، دیکھو اس مصرع میں : ’ دل دریہ میں پر افشاں جو ایک موجۂ خوں ہے ، ’ ریہ ، کا لفظ کیسا رکیک اور غریب معلوم ہوتا ہے ، اسی طرح یہ مصرع دل اور شش میں پر افشاں جو ایک موجۂ خوں ہے ، کیسا واہیات ہے ، اسی طرح دیکھو : ’یہ پھیپڑے میں پر افشاں جو ایک موجۂ خوں ہے ، شاعر کی زبان نہیں معلوم ہوتی ، یہی اشکال واقع ہونے کے سبب سے مصنف نے پھیپڑے کا نام بھی جگر رکھ لیا کہ محض اندرونی شئے کو بھی جگر کہتے ہیں۔
قسم جنازہ پہ آنے کی میرے کھاتے ہیں غالبؔ
ہمیشہ کھاتے تھے جو میرے جان کی قسم آگے
یا تو یہ محبت کہ جان کی قسم کھایا کرتے تھے ، یا یہ نفرت کہ جنازہ پر آنے سے انکار ہے۔
_______
شکوہ کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے
یہ بھی مت کہہ کو جو کہئے تو گلا ہوتا ہے
یہ بات بھی یعنی ’ جو کہئے تو گلا ہوتا ہے ، منھ سے نہ نکالو گلہ نہیں تو گلہ کا نام زبان پر آگیا ، پہلے مصرع میں گلہ کا لفظ چھوڑکر شکوہ کو مصنف نے اختیار کیا ، حالاں کہ مصرع اُس صورت میں بھی موزوں تھا ، مگر ایسا ثقل بندش میں پیدا ہوتا تھا کہ اُسے شاعر ہی سمجھ سکتا ہے۔
پر ہوں میں شکوہ سے یوں راگ سے جیسے باجا
اک ذرا چھیڑئیے پھر دیکھئے کیا ہوتا ہے
’ چھیڑئیے ، کے معنی ستانا اور باجا شروع پھر کرنا اور ذکر چھیڑنا بھی محاورہ ہے ، یہ سب معنی یہاں مقصود ہیں۔
گو سمجھتا نہیں پر حسن تلافی دیکھو
شکوۂ جور سے سرگرمِ جفا ہوتا ہے
یعنی کم سن ہے اور یہ فعل اُس کا بے سمجھے ہوئے ہے۔
عشق کی راہ میں ہے چرخ مکوکب کی وہ چال
سست رَو جیسے کوئی آبلہ پا ہوتا ہے
مکوکب یعنی ستارہ دار کہہ کر چرخ کا آبلہ پا ہونا ظاہر کیا ہے اور ستاروں کو آبلوں سے تشبیہ دی ہے۔
کیوں نہ ٹھہریں ہدفِ ناوکِ بیداد کہ ہم
آپ اُٹھالیتے ہیں گر تیر خطا ہوتا ہے
یعنی تیر بیداد کا ایسا شوق ہے کہ اگر خطا ہوتا ہے تو ہم آپ اُٹھا کر تیر افگن کو دے دیتے ہیں ، کہ پھر اُس تیر کو لگائے اور ہمیں بے ہدف کئے نہ چھوڑے۔
خوب تھا پہلے سے ہوتے جو ہم اپنے بدخواہ
کہ بھلا چاہتے ہیں اور برا ہوتا ہے
یعنی خواہش کے برخلاف ہوا کرتا ہے تو اپنا برا چاہتے تو کچھ بھلا ہوتا ہے۔
نالہ جاتا تھا پرے عرش سے آگے اور اب
لب تک آتا ہے جو ایسا ہی رسا ہوتا ہے
’ میرا ، اس شعر میں بے ضرورت ہے اور بیکار ہے ، اس لفظ کی جگہ ’ پہلے ، کا لفظ ہوتا تو ’ اب ، کے ساتھ مقابلہ کا حسن شعر میں زیادہ ہو جاتا اور مصنف کو یہاں مقابلہ ہی مقصود ہے ، ایسی پہلے وہ زور شور تھا کہ نالہ عرش تک جاتا تھا اور اب یہ ضعف و ناتوانی ہے کہ بہ مشکل لب تک آتا ہے۔
خامہ میرا کہ وہ ہے باربد بزمِ سخن
شاہ کی مدح میں یوں نغمہ سرا ہوتا ہے
اے شہنشاہِ کواکب سپہ مہر علم
تیرے اکرام کا حق کس سے ادا ہوتا ہے
سات اقلیم کا حاصل جو فراہم کیجئے
تو وہ لشکر کا ترے لعل بہا ہوتا ہے
ہر مہینہ میں جو یہ بدر سے ہوتا ہے ہلال
آستاں پر ترے مہ ناصیہ سا ہوتا ہے
میں جو گستاخ ہوں آئین غزل خوانی میں
یہ بھی تیرا ہی کرم ذوق فزا ہوتا ہے
قطعہ کا مطلب ظاہر ہے ، پہلے شعر میں لفظ ’ باربد ، ایسا دلکش ہے ، جیسے تارِ رُباب پر نغمہ یہاں سامنے کے الفاظ مطرب و نواسنج وغیرہ تھے ، انھیں مصنف نے چھوڑ دیا اور باربد کو استعمال کیا ، دیکھو مجاز میں حقیقت سے زیادہ حسن ہے اور لفظ کے تازہ کرنے کا پہلو جو مصنف نے یہاں نکالا ہے یاد رکھنے کاہے ، یعنی یوں کہنا کہ ’ تو ظالم ہے ، اس سے یہ بہتر ہے کہ تو چنگیز ہے ، کسی نے سچ کہا ہے :
لفظے کہ تازہ است
بہ مضموں برابر است
یہ فارسی کا محاورہ ہے کہ ہفت اقلیم کہتے ہیں اور ہفت اقلیم ہا غلط ہے اور اُردو میں اُس کے برعکس ہے ، لیکن سات اقلیم کا لفظ محاورہ میں داخل ہو گیا ہے اور بدر کا ناصیہ سا ہوکر ہلال ہو جانا مضمون مبتذل ہے۔
رکھیو غالب ؔ مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے
یعنی میرے لواہائے تلخ کو سن کر بے مزہ نہ ہو کہ بسببِ عذر کے ہے۔
_______
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
’ تو کیا ہے ، یعنی تیری کیا حقیقت ہے اور ’ کیا ، سے یہاں پوچھنا نہیں مقصود ہے ، بلکہ توہین کرنا مقصود ہے کہ استفہام معنی توہین کے لئے بھی ہوتا ہے۔
نہ شعلہ میں یہ کرشمہ نہ برق میں یہ ادا
کوئی بتاؤ کہ وہ شوخِ تندِ خو کیا ہے
یعنی تندخوئی کے سبب سے اگر شعلہ اُسے کہوں تو شعلہ میں یہ کرشمہ کہاں ہے اور شوخی کے سبب سے اگر برق کہوں تو برق میں یہ ادا کجا۔
یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے
وگرنہ خوفِ بد آموزیٔ عدو کیا ہے
لاکھ وہ بری بری باتیں میری طرف سے لگائے مجھے پرواہ نہیں ، رشک تو اس کاہے کہ وہ تم سے بات کیوں کرتا ہے۔
چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہماری جیب کو اب حاجتِ رفو کیا ہے
اس شعر میں ایک سستی یہ ہے کہ لہو کے نکلنے کی کوئی وجہ نہیں بیان کی ، لڑکوں نے ڈھیلے مارکر لہو بہایا ہے ، یا خود سر پھوڑ ڈالا ہے ، یا خون کے آنسو بہے ہیں یا چھاتی کو پیٹتے پیٹتے زخمی کر دیا ہے ، یا گریبان پھاڑنے میں ناخون سے نوچاہے ، یہ سب احتمال ہیں ، مگر تعین نہ کرنے سے شعر میں بے لطفی پیدا ہو گئی ہے۔
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہو گا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے
اُردو والوں میں ایسے لوگ بہت کم ہیں جو کتبِ بلاغت کو دیکھ سکیں اور سمجھ سکیں ، مگر خود ہی کچھ عیوب شعر کے اپنے مذاق کے موافق ٹھہرالئے ہیں ، جن کی بنا جگت پر ہے ، مثلاً اگر کسی نے یہ نظم کیا ’ منھ تمہارا دیکھ کر ، تو یہ پہلو نکالیں گے کہ ’ موت مارا دیکھ کر ، یا اگر کسی نے یوں کہا کہ ’ میرا خط نہ پھاڑئیے ، تو اس کا مطلب یہ لیں گے کہ ’ میرا ختنہ پھاڑئیے ، میر ضامن علی جلالؔ نے کیا اچھا مطلع کہا تھا :
سب تیرے ناز ہیں گو زندہ ہی کرنے والے
ڈھونڈ لیتے ہیں بہانہ کوئی مرنے والے
اس پر اعتراض ہوا تھا گو زیدن اسم فاعل گو زندہ ہے ، یہ سن کر اُنھوں نے مصرع کو یوں بدل دیا : ’ گو تیرے ناز ہیں سب زندہ ہی کرنے والے ، یا : ’ گو ہیں سب ناز تیرے زندہ ہی کرنے والے ، ایک تہمت یہ مشہور ہے کہ مرزا دبیر مرحوم نے تلوار کے ذکر میں شاید کہا تھا : ’ جو رَو پہ چڑھا اس کا گلا تیغ سے کٹا ، اس پر انیسیوں کا مشہور اعتراض ہے کہ ’ جو رَو پہ چڑھا ، واہیات ہے ’جو منھ پہ چڑھا ، کہنا چاہئے ، غرض ایسے دقیقہ سنج جو لوگ ہیں وہ مصنف کے اس شعر میں ضرور کہیں گے ’ کیا مرغی ہے جو راکھ کریدتی ہے ، معنی شعر کے یہ ہیں کہ سوزِ غم سے میں جل کر راکھ تو ہو گیا ، دل بھی جل گیا ہو گا ، تمہیں شیوۂ دل رُبائی و دل بری نے اس وہم میں ڈالا ہے کہ اس کا دل نہ جلا ہو گا ، اُسے ڈھونڈکر جلانے کے لئے لے جانا چاہئے اور یہ اُمور سراسر غیر ہے اور اُمور حاویہ میں سے نہیں ہے ، اس سبب سے بے مزہ ہے ، شعر میں بیتی زیادہ مزہ دیتی ہے۔
رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکے تو پھر لہو کیا ہے
شعراء اپنے غم دوست ہونے کا مضمون بہت کہا کرتے ہیں ، مصنف نے اسے نئے پہلو سے کہا ہے اور حسن بندش و بے تکلفی ادا نے اور بھی تکلف معانی کا بڑھا دیا ، لکھنؤ کے لہجہ میں ’ لہو، بفتح لام ہے ، قدیم اُردو میں بہ ضم بلکہ واؤ کے ساتھ تھا۔
وہ چیز جس کے لئے ہم کو ہے بہشت عزیز
سوائے بادۂ گلفامِ مشک بو کیا ہے
یعنی شراب تمام نعمائے بہشت سے بڑھ کر ہے۔
پیوں شراب اگر خم بھی دیکھ لوں دوچار
یہ شیشہ و قدح و کوزہ و سبو کیا ہے
بیان مے نوشی میں کوئی شاعر نہ ہو گا جس نے مبالغہ نہ کیا ہو اور پھر بے لطف ، مگر اس مضمون کا کہنا نہیں چھوڑتے۔
رہے نہ طاقتِ گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس اُمید پہ کہئے کہ آرزو کیا ہے
اُف رے ضبط کہ آرزو میں کام تمام ہو گیا کہ طاقتِ گفتار تک نہ باقی رہی مگر کبھی زبان سے حرفِ شوق نہ نکالا ہائے نا اُمیدی جس نے عرض مطلب کا خون کر کے دل کی دل ہی میں رہنے دی۔
ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب ؔکی آبرو کیا ہے
ذرہ کو آفتاب اور قطرہ کو دریا کر دینا اور ادنیٰ کو اعلیٰ بنادینا ایک مبتذل مضمون ہے ، جسے جملہ خبریہ لوگ کہا کرتے ہیں ، مصنف کی انشا پردازی کا دور دیکھئے کہ اُسی پرانے مضمون کو جملہ انشائیہ میں ادا کیا ہے۔
_______
میں اُنھیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں
چل نکلتے جو مے پئے ہوتے
یعنی تعجب ہے کہ میں اُنھیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں ، چل نکلتے اگر پئے ہوتے ، یہاں لفظ مے کا حذف بہتر تھا۔
قہر ہو یا بلا ہو جو کچھ ہو
کاش کہ تم مرے لئے ہوتے
یعنی تم قہر ہو یا تم بلا ہو ، جو کچھ ہو ، کاش ! میری تقدیر کے ہوتے اور قہر و بلا اپنے لئے گوارا کر لینا نادر مضمون ہے ، اس کے علاوہ معشوق کی شوخ مزاجی اور عربدہ جوئی اور اپنا شوق و حسرت ان دونوں کی تصویر کھینچ کر اس شعر میں دکھادی ہے۔
میری قسمت میں غم اگر اتنا تھا
دل بھی یارب کئی دئیے ہوتے
کئی دل مانگنا نادر بات ہے اور اسی بات نے شعر کو نادر کر دیا ہے۔
آہی جاتا وہ راہ پر غالبؔ
کوئی دن اور بھی جئے ہوتے
راہ پر آجانا محاورہ ہے ، کہنا مان لینا اس سے مقصود ہے۔
_______
غیر لیں محفل میں بوسے جام کے
ہم رہیں یوں تشنہ لب پیغام کے
مقام حسرت میں یہ شعر ہے اور محفل سے معشوق کی محفل مراد ہے اور پیغام سے پیغام طلب مقصود ہے اور تشنہ کا لفظ جام کی رعایت سے لائے ہیں۔
خستگی کا تم سے کیا شکوہ کہ یہ
ہتھکھنڈے ہیں چرخ نیلی فام کے
یعنی تم سے گلہ نہیں اپنی تقدیر سے شکوہ ہے اور لفظ نیلی فام اس شعر میں برائے بیت ہے ، اس صفت کو معانی میں کچھ دخل نہیں ، بتاویل یہ کہہ سکتے ہیں کہ نیلا رنگ منحوس ہوتا ہے اور غم کی نشانی ہے۔
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے
مطلب کچھ نہ ہونے سے مطلب یہ ہے گو ہر خط میں اپنا مضمون لکھنے کو نہ ہو تمہارا نام تو آئے گا
رات پی زمزم پہ مے اور صبح دم
دھوئے دھبے جامۂ احرام کے
یعنی رات کو پی ’ کو ، ترک کرنا اب محاورہ میں نہیں ہے ، لیکن مصنف کے اوائل کے عہد تک دلی و لکھنؤ میں دونوں جگہ بغیر ’ کو ، بولتے تھے ، ناسخ ؔکہتے ہیں : ’ رات اہل بزم کی کثرت کا احساں ہو گیا ،۔
دل کو آنکھوں نے ستایا کیا مگر
یہ بھی حلقے ہیں تمہارے دام کے
یعنی کیا ستایا ہے دل کو آنکھوں نے ، مگر الخ مطلب یہ ہے کہ میری آنکھوں نے کیا کیا میرے طائر دل کو پھنسایا ہے ، شاید عشاق کی آنکھیں بھی تمہارے حال کے حلقے ہیں ، یہ مطلب بہ مشکل ان الفاظ سے نکلتا ہے اچھی طرح ادا نہیں ہوا۔
شاہ کے ہے غسل صحت کی خبر
دیکھئے کب دن پھریں حمام کے
دن پھرنے سے تقدیر کا موافق ہونا مقصود ہے۔
عشق نے غالب ؔنکما کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
_______
پھر اس انداز سے بہار آئی
کہ ہوئے مہر و مہ تماشائی
دیکھو اے ساکنانِ خطۂ خاک
اس کو کہتے ہیں عالم آرائی
کہ زمیں ہو گئی ہے سرتاسر
روکش سطح چرخ مینائی
سبزہ کو جب کہیں جگہ نہ ملی
بن گیا روئے آب پر کائی
سبزۂ گل کو دیکھنے کے لئے
چشم نرگس کو دی ہے بینائی
ہے ہوا میں شراب کی تاثیر
بادہ نوشی ہے بادہ پیمائی
کیوں نہ دُنیا کی ہو خوشی غالبؔ
شاہ دین دار نے شفا پائی
اس فصل میں ہوا شراب کی طرح نشہ پیدا کرتی ہے ، اب شراب پینا کار لاطائل ہے ، مقطع کے پہلے مصرع میں دُنیا کا لفظ تھا ، اس کی مناسبت سے دوسرے مصرع میں ’ دین ، کا لفظ لائے ہیں
_______
تغافل دوست ہوں میرا دماغ عجز عالی ہے
اگر پہلوتہی کیجئے تو جا میری بھی خالی ہے
یعنی عجز و انکسار میری طبیعت میں اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ اپنے حق میں بے توجہی و بے التفاتی ہی پسند ہے ، مجھ سے پہلوتہی کرنا گویا میرے لئے جگہ خالی کرنا ہے کہ اعراض کو میں اکرام سمجھتا ہوں
رہا آباد عالم اہل ہمت کے نہ ہونے سے
بھرے ہیں جس قدر جام و سبو میخانہ خالی ہے
غرض یہ ہے کہ جس قدر جام و سبو بھرے ہیں ، اسی قدر میخانہ خالی ہے ، یعنی جام و سبو کا شراب سے لبریز ہو جانا میخانہ کے خالی ہو جانے کا سبب ہے ، یہ تمثیل ہے اس بات کی کہ عالم کا آباد رہنا اہل ہمت کے نہ ہونے کی دلیل ہے اور اُن کا نہ ہونا عالم کی آبادی کا سبب ہے ، اگر وہ ہوتے تو اُن کے جود و کرم کے سبب سے عالم کا آباد رہنا دُشوار تھا ، جیسے جام و سبو کے جود و کرم سے میخانہ کا بھرا رہنا دُشوار ہے۔
_______
کب وہ سنتا ہے کہانی میری
اور پھر وہ بھی زبانی میری
’ سننے ، کے دو مرتبہ مصنف نے نکالے ، ایک تو سننا ، دوسرے میری زبانی سننا ، یہی امر خوبی شعر کا باعث ہوا ہے اور معانی میں ایسی نازک تفصیل ہمیشہ لطف دیتی ہے ، دوسرے سارے شعر کے الفاظ ایسے دست و گریباں ہیں کہ معلوم ہوتا ہے ، پہلے ہی فکر میں دونوں مصرع نکل آئے ، وہ تکلف نہیں کرنا پڑا کہ پہلے نیچے کا مصرع کہا ہو پھر فکر کر کے اُوپر کا مصرع پہنچایا ہو۔
خلش غمزۂ خوں ریز نہ پوچھ
دیکھ خون نابہ فشانی میری
یعنی خوں ریزی غمزہ نے کلیجہ میں زخم ڈال دئیے ہیں کہ لہو کے آنسو رو رہا ہوں۔
کیا بیاں کر کے مرا روئیں گے یار
مگر آشفتہ بیانی میری
یعنی کیا وصف میرا بیان کر کے روئیں گے اور ’ کیا ، کے بعد اس قسم کا حذف اکثر ہوا کرتا ہے ، جیسے کہتے ہیں : ’ میں نے تمہارا کیا کیا یعنی کیا نقصان کیا ؟ ،
ہوں زخود رفتۂ بیدائے خیال
بھول جانا ہے نشانی میری
یعنی خیال سے میں نکل جاتا ہوں اور احباب کا مجھے بھول جانا یہی میری نشانی ہے ، خیال سے احباب مراد ہے کہ اور اُسے میدان فرض کیا ہے اور اپنے تئیں اُس میدان کا ازخود رفتہ کہا ہے۔
متقابل ہے مقابل میرا
رُک گیا دیکھ روانی میری
اس شعر کے معنی مصنف مرحوم نے خود بیان کئے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ مقابل سے معشوق مراد ہے کہ اُن کی روانی طبیعت سے رُک گیا ، یعنی خفا ہو گیا ، ان کی حاضر جوابی و بذلہ سنجی اُسے ناگوار گذری اور روانی میں اور روکنے میں تقابل ہے کہ معشوق میرے مقابل و متضاد ہے اور میں وہ ضد ہمدیگر ہیں۔
قدر سنگِ سر رہ رکھتا ہوں
سخت ارزاں ہے گرانی میری
جس طرح سنگ راہ کے لئے گرانی تو ہے ، مگر نہایت ارزانی بھی ہے کہ راہ گیروں کی ٹھوکروں میں پڑا ہے ، یہی حال میری گراں قدری کاہے۔
گردِ بادِ رہِ بیتابی ہوں
صر صر شوق ہے بانی میری
میں بگولے کی طرح بے قرار ہوں اور رہ گذار بیتابی کا گردِ باد ہوں اور اس ہتھکنڈے کی بانی صر صر شوق ہے۔
دہن اُس کا جو نہ معلوم ہوا
کھل گئی ہیچ میدانی میری
دہن معشوق ہیچ ہے ، جو شخص دہن کو اُس کے نہ جانے ہیچمداں ہے۔
کر دیا ضعف نے عاجز غالبؔ
ننگِ پیری ہے جوانی میری
یعنی جوانی میں ایسا ضعف ہے کہ اگر یہ ضعف کسی کو پیری میں بھی ہو تو ننگِ پیری اُسے سمجھنا چاہئے۔
_______
نقش ناز بت طناز بہ آغوشِ رقیب
پائے طاؤس پے خامۂ مانی مانگے
یعنی رقیب سے ہم آغوش ہوکر اُس کے ناز کرنے کی تصویر یہ چاہتی ہے کہ موئے قلم کی جگہ مصور کے ہاتھ میں پائے طاؤس کا قلم ہو ، وجہ مناسبت یہ ہے کہ طاؤس کے سب اعضاء حسین و مایۂ فخر و ناز ہیں ، لیکن پاؤں اُس کے بہت بدصورت اور اُس کے حسن کے لئے باعثِ ننگ و عار ہیں۔
تو وہ بدخو کہ تحیر کو تماشا جانے
غم وہ افسانہ کہ آشفتہ بیانی مانگے
تحیر میں خاموشی ہونا ضرور ہے ، مطلب یہ ہے کہ میں متحیر و خاموش رہوں تو اُس کو تو تماشا سمجھتا ہے اور اگر حیرت و خاموشی کو دور کر کے غم دل کو زبان پر لاؤں تو آشفتہ بیانی سے تو بے مزہ ہوتا ہے۔
وہ تپِ عشق تمنا ہے کہ پھر صورتِ شمع
شعلہ تا نبض جگر ریشہ دوانی مانگے
یعنی مجھے اُس تپِ عشق کی تمنا ہے ، جس کا شعلہ شمع کی لو کی طرح جگر تک ریشہ دوانی کرے نبض کو جگر کہنا تکلف و تسامح سے خالی نہیں ، اس لئے کہ جگر میں نبض نہیں ہے ، مگر یہاں نبض کو فقط رگ کے معنی میں لیا ہے اور جگر سے اندرون سینہ مراد ہے ، اس صورت میں نبض جگر کہنے میں کوئی اشکال نہیں رہا۔
_______
گلشن کو تری صورت ازبسکہ خوش آئی ہے
ہر غنچہ کا گل ہونا آغوشِ کشائی ہے
یعنی باغ میں شگوفے نہیں کھلتے تیرے لئے آغوش کھولتے ہیں۔
واں کنگرہ استغنا ہر دم ہے بلندی پر
شیاں نالہ کو اور اُلٹا دعواے رسائی ہے
یعنی کنگرۂ بام استغنا ان کا دور ہی ہوتا چلا جاتا ہے اور نالہ کو اُلٹے رسائی کا دعویٰ ہے۔
ازبسکہ سکھاتا ہے غم ضبط کے اندازے
جو داغ نظر آیا اک چشم نمائی ہے
غم تعلیم ضبط کر رہا ہے جو نیا داغ ہوتا ہے وہ اُس استاد کی چشم نمائی ہے داغ کی وجہ شبہ آنکھ سے ظاہر ہے۔
_______
جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی
لکھ دیجیو یارب اُسے قسمت میں عدو کی
یعنی مجھے تو وہ زخم چاہئے جس میں ٹانکے نہ لگ سکیں۔
اچھا ہے سر انگشت نمائی کا تصور
دل میں نظر آتی تو ہے اک بوند لہو کی
سر انگشت کا مہندی سے لال ہوکر لہو کی بوند ہو جانا کیا اچھی تشبیہ ہے دیکھو تشبیہ سے مشبہ کی تزئین و تحسین اکثر مقصود ہوتی ہے ، یہ غرض یہاں کیسی حاصل ہوئی کہ سر انگشت کی خوبصورتی آنکھ سے دکھادی۔ دوسری خوبی اس تشبیہ میں یہ ہے کہ جس اُنگلی کی پور لہو کی بوند برابر ہو وہ اُنگلی کس قدر نازک ہو گی اور کنایہ ہمیشہ تصریح سے زیادہ بلیغ ہوتا ہے۔ پھر یہ حسن کے وجہ شبہ یہاں مرکب بھی ہے یعنی بوند کی سرخی اور بوند کی شکل ان دونوں سے مل کر وجہ شبہ کو ترکیب حاصل ہوئی ہے اور ترکیب سے تشبیہ زیادہ بدیع ہو جاتی ہے اسی طرح تشبیہ کے حذف و ترک سے تشبیہ کی قوت بڑھ جاتی ہے مصنف نے بھی حذف ہی کیا ہے سب سے بڑھ کر یہ کہ نئی تشبیہ ہے کسی نے نہیں نظم کی پھر یہ شان مشاقی دیکھئے کہ نئی چیز پا کر اُس پر اکتفا نہ کی اُسی تشبیہ میں سے ایک بات یہ نکالی کہ دل میں ایک بوند تو لہو کی دکھائی دی پھر کجا تصور کجا لہو کی بوند دونوں میں کیسا بون بعید ہے اور تباین طرفین سے تشبیہ میں حسن اور غرابت زیادہ ہو جاتی ہے ’ تو ، کی لفظ نے مقام کلام کو کیسا ظاہر کیا ہے یعنی یہ شعر اُس شخص کی زبانی ہے جس کا لہو سب خشک ہو چکاہے وہ اپنے دل کو ایک خیالی چیز سے تسکین دے رہا ہے۔
ترکیب وجہ شبہ کے متعلق یہ بات بھی غور کرنے کی ہے کہ جس طرح بوند کے معنی میں ٹپک پڑنا داخل ہے یہی حال تصور کا خیال سے اُتر جانے میں ہے یعنی حرکت وجہ شبہ میں داخل ہے گو طرفین تشبیہ متحرک نہیں ہیں غرض کہ یہ نہایت غریب و بدیع و تازہ تشبیہ ہے۔
کیوں ڈرتے ہو عشاق کی بے حوصلگی سے
یاں تو کوئی سنتا نہیں فریاد کسو کی
یعنی بے حوصلگی و بے صبری سے اگر وہ تمہاری فریاد کر بیٹھیں تو کون سنتا ہے کسو اور کبھو یہ دونوں لفظ ناسخؔ کے زمانہ سے لکھنؤ میں نہیں نظم ہوئے مگر دلی میں اب یہ ترک ہوئے :
گلہ ظفرؔ نہ کروں اُن سے آشنائی کا
کہ آشنا ہوئے وہ تو کبھو کسو کے نہیں
شکایتیں ہمیں غماز اور عدو سے نہیں
گلہ ہے دوست سے اپنے فقط کسو سے نہیں
ذوقؔ کہتے ہیں :
فلک کا رنگ جو اب تک سیاہ ہے اس پر
پڑا تھا سایۂ بخت سیاہ کبھو میرا
مزے جو موت کے عاشق بیان کبھو کرتے
مسیح و خضر بھی مرنے کی آرزو کرتے
مومنؔ :
نہ دل میں نہ اُن کی زبان پر کبھو
رضائے الٰہی سوا آرزو
جو دیوان کہ خود مصنف مرحوم کی تصحیح سے چھپا ہے اُس کے خاتمہ میں لکھتے ہیں کہ داد کا طالب غالب گذارش کرتا ہے کہ یہ دیوان اُردو تیسری بار چھاپا گیا ہے مخلص و داد آئین میر قمر الدین کی کارفرمائی اور خاں صاحب الطاف نشان محمد حسین خاں کی دانائی مقتضی اس کی ہوئی کہ دس جزو کا رسالہ ساڑھے پانچ جزو میں منطبع ہوا اگرچہ یہ انطباع میری خواہش سے نہیں لیکن ہر کاپی میری نظر سے گذرتی رہی ہے اور اغلاط کی تصحیح ہوتی رہی ہے یقین ہے کہ کسی جگہ حرف غلط نہ رہا ہو مگر ہاں ایک لفظ میری منطق کے خلاف نہ ایک جگہ بلکہ سو جگہ چھاپا گیا کہاں تک بدلتا ناچار جابجا یوں چھوڑ دیا ہے یعنی کسو بکاف مکسور و وسین مصموم و واؤ معروف میں یہ نہیں کہتا کہ یہ لفظ فقط صحیح نہیں البتہ فصیح نہیں قافیہ کی رعایت سے اگر لکھا جائے تو عیب نہیں ورنہ فصیح بلکہ افصح کسی ہے واؤ کی جگہ یائے تحتانی۔ میرے دیوان میں ایک جگہ قافیہ کسو بہ واؤ ہے اور سب جگہ بہ یائے تحتانی ہے اس کا اظہار ضرور تھا کوئی یہ نہ کہے کہ یہ کیا آشفتہ بیانی ہے اللہ بس ماسویٰ ہوس انتہیٰ جس جگہ مصنف نے اعتراف کیا ہے وہ یہی شعر ہے۔ کیوں ڈرتے ہو الخ مگر اب یہ طے ہوا سمجھو کہ قافیہ کی ضرورت سے بھی ان لفظوں کو باندھنا صحیح نہیں۔
صد حیف وہ ناکام کہ اک عمر سے غالبؔ
حسرت میں رہے ایک بت عربدہ جو کی
دشنہ نے کبھی منہ نہ لگایا ہو جگر کو
خنجر نے کبھی بات نہ پوچھی ہو گلو کی
دشنہ و خنجر سے ناز و انداز و عربدہ و بیداد معشوق مراد ہے۔
_______
سیماب پشت گرمی آئینہ دے ہے ہم
حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار کے
پشت گرمی و پشت بانی اعانت کرنے کے معنی پر ہے کہتے ہیں کہ سیماب آئینہ کی پشت بانی کرتا ہے یعنی سیماب کے سہارے آئینہ آئینہ ہوتا ہے اسی طرح دل بے تاب نے ہم کو آئینہ کی طرح سراپا حیرت بنا رکھا ہے۔
آغوش گل کشودہ برائے وداع ہے
اے عندلیب چل کہ چلے دن بہار کے
پھولوں نے اس لئے آغوش کو کھولا ہے کہ گلے مل کر رخصت ہولیں۔
_______
ہے وصل ہجر عالم تمکین و ضبط میں
معشوق شوخ و عاشق دیوانہ چاہئے
یعنی معشوق کے مزاج میں تمکین و خودداری اور عاشق کی طبیعت میں ضبط و صبر ہو تو وصل میں بھی ہجر کی سی بے لطفی ہے مزہ تو جب ہے کہ وہ شوخ و بے باک ہو اور یہ دیوانہ و گستاخ۔ دوسرے مصرع میں اگر معشوق و عاشق کی لفظ کو اضافت نہ ہوتی تو بندش بے تکلف تھی اگر اس مصرع کو دونوں اضافتیں چھوڑکر پڑھیں تو مصرع جب بھی موزوں رہے گا یعنی فاعلات مفاعیل کی جگہ فاعلاتن مفعول آجائے گا اور یہ دُرست ہے لیکن اس صورت میں شوخ کے بعد بھی ’ چاہئے ، کو مقدر لینا پڑے گا اور واؤ سے جملہ کے جملہ پر عطف ہو گا مگر جملہ دونوں ہندی کے اور حرفِ عطف فارسی کا ایسا ہی ہو جائے گا جیسے کوئی کہے میں ہوا سوار و روانہ ہوا۔ گو یہاں سوار و روانہ دونوں فارسی نظمیں ہیں لیکن واؤ ان دونوں مفردوں کے عطف کے لئے نہیں ہے بلکہ جملہ کے جملہ پر عطف دینے کے لئے ہے اور جملہ دونوں ہندی ہیں تو حرف عطف بھی ہندی ہی چاہئے غرض کہ دوسرے مصرع میں معشوق و عاشق دونوں لفظوں کو بہ اضافت پڑھنا ضرور ہے۔
اس لب سے مل ہی جائے گا بوسہ کبھی تو ہاں
شوقِ فضول و جرأتِ رندانہ چاہئے
قدما کی اُردو اس طرح کی تھی کہ کہتے تھے ’ تجھ گلی میں ، اور مطلب یہ ہوتا تھا کہ تیری گلی میں اور ’ مجھ خاک پر ، یعنی میری خاک پر اور ’ اُس زلف سے ، یعنی اُس کی زلف سے اور اب جو اُس زلف سے یا اُس لب سے کہتے ہیں تو اس کا اشارہ زلف یا لب کی طرف مقصود ہوتا ہے لیکن ایسا اشارہ بھی خلاف عادت ہونے کے سبب سے اچھا نہیں معلوم ہوتا مثلاً خواجہ آتشؔ کہتے ہیں :
کب تک وہ زلف دیتی ہے آزار دیکھئے
یہاں اُس کی زلف کہنا تھا ضرورت شعر کے سبب سے وہ زلف کہہ دیا اور یہی حال اب تمام شاعروں کاہے کہ اسے جائز سمجھ لیا ہے اور نظم کرتے ہیں لیکن تکلف سے خالی نہیں۔
چاہئے اچھوں کو جتنا چاہئے
یہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہئے
یعنی دُنیا میں اگر چاہے تو اچھوں کو چاہے اور اگر وہ خود ہی چاہیں تو مراد بس حاصل ہے پھر چاہے اور کوئی نعمت ہو چاہے نہ ہو۔
صحبت رنداں سے واجب ہے حذر
جائے مے اپنے کو کھینچا چاہئے
یعنی مے کو نہ کھینچ اپنے کو صحبت مے سے کھینچ اور مے کے کھینچنے سے پینا مراد یعنی مے کشیدن کا ترجمہ کر لیا ہے اور شاید مصنف کی رائے میں فارسی کا ترجمہ لفظی ہندی میں کر لینا دُرست ہے گو خلاف محاورہ ہو تجربہ سے ثابت ہے کہ جو شاعر دوسری زبان میں بھی شعر کہے اس کی اپنی زبان بگڑ جاتی ہے ایک انگریز شاعر جس کا نام ڈرایڈن تھا حسرت کرتا تھا کہ میں نے کیوں لاطینی پڑھی اور اس میں شعر کہا کہ میری اپنی زبان بگڑ گئی۔
چاہنے کو تیرے کیا سمجھا تھا دل
بارے اب اس سے بھی سمجھا چاہئے
دوسرے مصرع میں سمجھنا بازپرس کرنے کے معنی پر ہے یعنی معشوق کو صلاح دیتے ہیں کہ ذرا ان کا مزاج بھی پوچھو کہ کیا سمجھ کے عشق کیا تھا۔
چاک مت کر جیب بے ایام گل
کچھ اُدھر کا بھی اشارہ چاہئے
یعنی جب بہار آئے اور شگوفہ اپنی قبا کو چاک کریں تو اسے عالم غیب کا اشارہ سمجھ کر خود بھی گریبان کو پھاڑنا چاہئے کہ ان دنوں میں جامہ دری جا سے اور اشارہ قدرت کے مقتضی سے ہے اس شعر میں چاک گریباں کے منع کرنے نے بڑا لطف دیا کہ یہ بندش کا نیا انداز ہے۔
دوستی کا پردہ ہے بیگانگی
منھ چھپانا ہم سے چھوڑا چاہئے
یعنی منہ چھپا کر جو تم بیگانہ بنتے ہو تو اس پردہ میں لگاوٹ پائی جاتی ہے یہ گویا معشوق پر طعن ہے جس میں وہ پردہ کرنا چھوڑدے اور اس چال سے اپنا مطلب حاصل ہو جائے۔
دُشمنی نے میری کھویا غیر کو
کس قدر دُشمن سے دیکھا چاہئے
’ دیکھا چاہئے ، یعنی یہ بات دیکھنے کی ہے کہ میری دُشمنی میں اُس نے اپنے تئیں بھی مٹادیا۔
اپنی رُسوائی میں کیا چلتی ہے سعی
یار ہی ہنگامہ آرا چاہئے
ہم لاکھ اپنے تئیں رُسوا کرنا چاہیں مگر کچھ نہیں چلتی یہ میدان یار ہی کے ہاتھ ہے یعنی وہ جسے چاہے بے صبر و بے تاب کر کے رُسوا کردے۔
منحصر مرنے پہ ہو جس کی اُمید
نا اُمیدی اُس کی دیکھا چاہئے
یعنی مرنے پر اُمید حاصل ہوئی تو کیا : اُمید نیست کہ عمر گذشتہ باز آید۔
چاہتے ہیں خوبرویوں کو اسدؔ
آپ کی صورت تو دیکھا چاہئے
جب کوئی شخص اپنی حد سے تجاوز کرنے کا ارادہ کرے تو اس کی تنبیہ کے لئے کہتے ہیں ذرا منہ تو دیکھو یہ بھی اس قابل ہوئے۔
غافل ان مہ طلعتوں کے واسطے
چاہنے والا بھی اچھا چاہئے
بھلا اس صورت پر مہ طلعتوں کو کیا چاہتے ہو چاہئے کا لفظ اہل لکھنؤ کے محاورہ میں جمع و مفرد دونوں کے لئے بولا جاتا ہے لیکن دلی میں محاورہ اب یہ ہو گیا ہے کہ اتنی چیزیں چاہئیں۔
_______
ہم قدم دُوریِ منزل ہے نمایاں مجھ سے
میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے
یعنی بیاباں جس چال سے بھاگ رہا ہے وہ میری سی ہی چال ہے کہ جتنا میں چلتا ہوں اتنا ہی راستہ دُور ہوتا جاتا ہے اور ہر ہر قدم پر دُوری منزل بڑھتی جاتی ہے۔
درسِ عنوانِ تماشا بتغافل خوش تر
ہے نگہ رشتۂ شیرازۂ مژگاں مجھ سے
یعنی میری نگاہ شیرازہ مژگاں کا رشتہ بن گئی ہے حاصل یہ کہ تغافل پسند ہونے کے سبب سے آنکھ سے باہر نہیں نکلتی اور تماشائے دُنیا سے درس لینا بھی بتغافل ہی اچھا ہے اور عنوان کا پہلا لفظ مبالغہ پیدا کرنے کے لئے لائے ہیں یعنی سارا تماشا تو ایک طومار ہے اس کے دیکھنے کا کسے دماغ ہے یہاں عنوان تماشا کے بھی دیکھنے سے تغافل ہے۔
وحشتِ آتش دل سے شبِ تنہائی میں
دود کی طرح رہا سایہ گریزاں مجھ سے
شب تنہائی میں میرا سایہ میری آتش دل سے وحشت کھاکے اس طرح بھاگتا رہا جیسے آگ سے دُھواں بھاگتا ہے۔
غم عشاق نہ ہو سادگی آموز بتاں
کس قدر خانۂ آئینہ ہے ویراں مجھ سے
پہلے مصرع میں دُعا ہے یعنی خدا نہ کرے کہ عشاق کا غم حسینوں کو سادگی سکھائے اور ان سے زینت و آرائش چھڑوائے ایک میرے مرنے سے کس قدر خانہ آئینہ ویراں ہو گیا کہ اب اس میں جلوۂ حسن نہیں دکھائی دیتا اور میرے سوگ میں حسینوں نے آئینہ دیکھنا اور بناؤ کرنا چھوڑ دیا
اثر آبلہ سے جادۂ صحرائے جنوں
صورت رشتۂ گوہر ہے چراغاں مجھ سے
میرے پاؤں کے چھالوں سے جادۂ صحرا رشتۂ گوہر کی طرح چراغاں ہو گیا ’ اثر آبلہ ، کا لفظ اس معنی کے لئے ہے کہ آبلوں سے لہو جادۂ صحرا پر ٹپکاہے جس نے اُسے رشتۂ گوہر اور چراغاں بنادیا ہے۔
بے خودی بستر تمہید فراغت ہو جو
پر ہے سایہ کی طرح میرا شبستاں مجھ سے
کہتے ہیں بے خودی کو بستر تمہید فراغت ہونا نصیب رہے کہ اس کی بدولت میرا شبستاں اس طرح مجھ سے پر ہے جیسے سایہ اپنے حیز پر افتادہ ہوتا ہے یعنی بھلا ہو بے خودی کا جس کے سبب سے میں سایہ کی طرح بے حس پڑا ہوا ہوں۔ تمہید کے لغوی معنی بچھانے کے ہیں اور یہ بستر کے مناسبات میں سے ہے اور اصطلاح میں تمہید اُسے کہتے ہیں کہ کسی کام سے پہلے کچھ ایسی باتیں کرنا جن پر وہ کام موقوف ہے اور یہی معنی مصنف کو مقصود ہیں یعنی بے خودی حصول فراغت کی تمہید ہے ، فراغت کے لغوی معنی خالی ہونے کے ہیں اور یہ پر ہونے کے مناسبات میں سے ہیں اور اصطلاح میں راحت کے معنی پر ہے اور یہی معنی یہاں مقصود ہیں ، ’ ہو جیو ، خود ہی واہیات لفظ ہے مصنف مرحوم نے اُس پر اور طرہ کیا کہ تخفیف کر کے ’ ہو جو ، بنایا۔
شوق دیدار میں گر تو مجھے گردن مارے
ہوں نگہ مثل گل شمع پریشاں مجھ سے
گل شمع کہتے ہیں شمع کے گل کو بھی اور شعلہ شمع کو بھی یہاں دونوں معنی ربط رکھتے ہیں یعنی جس طرح گلگیر سے شمع کا گل لیتے ہیں تو اس میں سے دُھواں نکل کے پھیلتا ہے اسی طرح شوق دیدار میں اگر تو مجھے گردن مارے تو میری نگاہیں دُھوئیں کی طرح نکل کر پریشان ہوں۔ یا جس طرح شمع کا سر کاٹنے کے بعد اُس کا شعلہ زیادہ روشن ہو جاتا ہے اور اُس کی روشنی پھیل جاتی ہے اسی طرح میرا سر قلم ہونے کے بعد شوقِ دید میں میری نگاہیں چاروں طرف پھیل جائیں گی۔
بے کسی ہائے شبِ ہجر کی وحشت ہے ہے
سایہ خورشیدِ قیامت میں ہے پنہاں مجھ سے
یعنی شب غم کی بے کسی اور اُداسی سے وحشت کھا کر میرا سایہ مجھ سے بھاگا ہوا ہے اور آفتاب قیامت میں جا کر چھپ رہا حالاں کہ سایہ آفتاب سے بھاگتا ہے مگر میرا سایہ مجھ سے ایسا بھاگا کہ آفتاب میں اور آفتاب حشر میں پنہاں ہو گیا۔ ’ ہیں ہیں ، بھی کہتے ہیں خوف میں بھی اور چڑانے میں بھی۔
گردش ساغر صد جلوۂ رنگیں تجھ سے
آئینہ داری یک دیدہ حیراں مجھ سے
تیرا جلوۂ رنگیں اس محفل میں گردش ساغر کا کام کر رہا ہے اور میرا دیدہ حیران آئینہ کا جلوہ کو ساغر اس وجہ سے کہا کہ وہ بھی مثل ساغر ہوشربا ہے۔
نگہ گرم سے ایک آگ ٹپکتی ہے اسدؔ
ہے چراغاں خس و خاشاکِ گلستاں مجھ سے
یعنی میری نگاہ گرم نے باغ میں آگ لگادی ہے مگر نگاہ کے گرم ہونے کی وجہ کچھ نہ معلوم ہوئی۔
_______
نکتہ چیں ہے غم دل اُس کو سنائے نہ بنے
کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے
بات کا بننا اور بن پڑنا تدبیر بن پڑنے کے معنی پر ہے اور بات کا بنانا بات کو پھیر پھارکر اپنا مطلب نکالنے کے معنی پر ہے کہتے ہیں وہ ایسا نکتہ چیں ہے کہ لاکھ میں بات بنا کر اپنا غم دل اُس کو سنانا چاہوں وہ سمجھ جاتا ہے اور اُس کو کاٹ دیتا ہے اس مطلع کے قافیے سنانا اور بنانا کو ایطار کہتے ہیں اس وجہ سے کہ دونوں لفظوں میں الف زائد ایک ہی طرح کاہے یعنی معنی تعدیہ کے لئے ہے اور ساری غزل میں ’ سنائے نہ بنے ، اور ’ آئے نہ بنے ، اور ’ بلائے نہ بنے ، کے سوا سب قافیے شائگاں ہیں یعنی سب میں الف تعدیہ ہے حاصل یہ کہ ساری غزل بھر میں چار ہی قافیہ میں جس میں ایک شائگاں ہے جو سات جگہ بندھا ہے۔
میں بلاتا تو ہوں اُس کو مگر اے جذبۂ دل
اُس پہ بن جائے کچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے
کسی پر بن جانا اُس کا مصیبت میں مبتلا ہونا ہے۔
کھیل سمجھا ہے کہیں چھوڑ نہ دے بھول نہ جائے
کاش یوں بھی ہو کہ بن میرے ستائے نہ بنے
کاش یہی ہو کہ بن میرے ستائے اُسے چین نہ آئے۔
غیر پھرتا ہے لئے یوں ترے خط کو کہ اگر
کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چھپائے نہ بنے
اُردو کے شاعروں نے رقیب کا نام غیر رکھ لیا ہے اور اس قدر ان معنی پہ یہ لفظ مشہور ہوا ہے کہ حکم علم اس پر ہو گیا ہے اس اعتبار سے مصنف کا یہ مصرع غیر پھرتا ہے لئے الخ صحیح ہے ورنہ محاورہ میں غیراسم صفت ہے اور رقیب کے لئے بھی کچھ خاص نہیں ہے اور بول چال میں ہمیشہ صفت ہوکر بولا جاتا ہے جس طرح ’ اپنا ، اسم صفت ہے کہ بے موصوف کے نہیں بولتے۔ معشوق پر طعن کرتے ہیں کہ تو نے جو غیر کو نامۂ شوق لکھا ہے وہ اس کے چھپانے میں احتیاط نہیں کرتا تجھے رُسوا کرے گا یہ مضمون بہت نیا اور سچاہے۔
اس نزاکت کا برا ہو وہ بھلے ہیں تو کیا
ہاتھ آویں تو انھیں ہاتھ لگاتے نہ بنے
یہ شعر کہہ کر مصنف نے نزاکت کی تصویر دکھادی لفظ نزاکت کے غلط ہونے میں کوئی شبہ نہیں ، اس وجہ سے کہ نازک فارسی لفظ ہے اُس کا مصدر نزاکت عربی کے قیاس پر بنالیا ہے لیکن اساتذہ فارس کی یہ گڑھت ہے جن کی تقلید آنکھ بند کر کے اُردو والے کرتے ہیں اسی طرح اُردو میں بھی چاہنے کا اسم مصدر چاہت اور رنگ سے رنگت اور اسی طرح بادشاہت بنالیا ہے اور محاورہ نے اور اساتذہ کے استعمال نے ان سب لفظوں کو صحیح بنادیا ہے۔
کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے
پردہ چھوڑا ہے وہ اُس نے کہ اُٹھائے نہ بنے
مپردہ چھوڑنا استعارہ ہے عالم امکان سے اور اسی استعارہ نے مضمون شعر کو جلوہ دیا ہے۔
موت کی راہ نہ دیکھوں کہ بن آئے نہ رہے
تم کو چاہوں کہ نہ آؤ تو بلائے نہ بنے
کہتے ہیں میں موت کی راہ کیوں نہ دیکھو کہ وہ بغیر آئے نہیں رہے گی ، یہ مجھ سے نہیں ہو گا کہ تم سے کہوں کہ تم نہ آؤ کہ پھر مجھ سے بلاتے بھی نہ بن پڑے یعنی آپ ہی آنے کو منع کروں تو پھر کس منہ سے بلاؤں۔ اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ تمہارے نہ آنے سے موت کا آنا بہتر ہے۔
بوجھ وہ سر سے گرا ہے کہ اُٹھائے نہ اُٹھے
کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے
ایک تو مضمون بہت اچھا دوسرے دونوں مصرعوں کی ترکیب کو متشابہ کر کے اور بھی شعر کو برجستہ کر دیا۔
عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالبؔ
کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے
یعنی اگر چاہیں کہ عشق کی آگ معشوق کے دل کو بھی لگے تو یہ بھی زور نہیں چلتا اگر چاہیں کہ اپنی لگی کو بجھائیں تو یہ بھی نہیں بن پڑتا۔ ساری غزل مرصع کہی ہے اور یہی رنگ غزل خوانی کاہے
_______
چاک کی خواہش اگر وحشت بہ عریانی کرے
صبح کے مانند زخم دل گریبانی کرے
یعنی حالتِ عریانی میں اگر وحشت چاک گریبان کی خواہش کرے تو صبح کی طرح میرا زخم دل بھی گریبان بن کر چاک ہو۔
جلوہ کا تیرے وہ عالم کہ گر کیجئے خیال
دیدۂ دل کو زیارت گاہ حیرانی کرے
یعنی تیرے جلوہ کے خیال سے دل کو حیرانی ہوتی ہے۔
ہے شکستن سے بھی دل نومید یارب کب تلک
آبگینہ کوہ پر عرض گر انجانی کرے
کوہ استعارہ ہے سختی و شدت غم کا اور دل کو شیشہ سے تشبیہ دی ہے لفظ شکستن نے شعر کو کھنکھنا کر دیا ترکیب اُردو میں فارسی کے اور الفاظ لے لیتے ہیں لیکن فارسی مصدر کا استعمال سب نے مکروہ سمجھا ہے اور مصنف مرحوم کے سوا اور کسی کے کلام میں نظم ہو یا نثر ایسا نہیں دیکھا۔
میکدہ گر چشم مست ناز سے پائے شکست
موئے شیشہ دیدۂ ساغر کی مژگانی کرے
جو چشم کہ شرابِ ناز سے مست ہورہی ہے اُس کے مقابلہ میں اگر میخانہ کو شکست ہو جائے تو شیشہ میں جو بال پڑیں وہ دیدۂ ساغر کے لئے پلکیں بن جائیں اور ساغر اس آنکھ سے اُس کی چشم مست کو دیکھ کر حیران ہو جائے اس قدر تصنع اور مضمون کچھ نہیں۔
خطِ عارض سے لکھا ہے زلف کو اُلفت نے عہد
یک قلم منظور ہے جو کچھ پریشانی کرے
یعنی اُس کے رخساروں پر خط یہ نہیں ہے بلکہ میری اُلفت نے زلف کو یہ عہد نامہ لکھ دیا ہے کہ جو کچھ میرے حق میں پریشانی کو کرنا ہو کرے یک قلم مجھے منظور ہے۔ مصنف نے یک قلم کے لفظ میں دوہری رعایت رکھی ہے ایک تو رخسار پر قلمیں ہوتی ہیں ، دوسرے خط بھی قلم سے لکھتے ہیں۔ یہ شعر بھی تصنع بے مزہ سے خالی نہیں۔
_______
وہ آکے خواب میں تسکین اضطراب تو دے
ولے مجھے تپش دل مجال خواب تو دے
پہلے مصرع میں ’ تو ، امکان کے معنی رکھتا ہے یعنی اُس کا خواب میں آنا ممکن ہے اور دوسرے مصرع میں خواب کو مہتم بالشان کرنے کے لئے ’ تو ، کا لفظ ہے یعنی خواب ہی کا آنا بڑی چیز ہے
کرے ہے قتل لگاوٹ میں تیرا رو دینا
تری طرح کوئی تیغ نگہ کو آب تو دے
یعنی تیری آنکھ کا آنسو تیغ نگاہ میں وہ آبداری پیدا کرتا ہے کہ میں تو قتل ہو جاتا ہوں اس شعر میں ’ تو ، کے معنی یہ ہیں کہ چاہے اور کچھ کرشمہ کوئی نگاہ میں پیدا کر لے مگر اس طرح تلوار کو آب دینا کوئی نہیں جانتا۔
دکھا کے جنبش لب ہی تمام کر ہم کو
نہ دے جو بوسہ تو منہ سے کہیں جواب تو دے
’ کہیں ، کوئی نہ کوئی جگہ کے معنی پر ہے لیکن یہاں کوئی نہ کوئی طرح کے معنی پر ہے اور یہ بھی محاورہ ہے اس شعر میں دو جگہ ’تو ، ہے پہلی جگہ شرط و جزا میں ربط کے لئے ہے اور ردیف میں جواب میں اہتمام پیدا کرنے کے لئے ہے۔
پلادے اوک سے ساقی جو ہم سے نفرت ہے
پیالہ گر نہیں دیتا نہ دے شراب تو دے
یعنی اگر مجھے مسلمان سمجھ کر تو کچھ جانتا ہے اور اپنے پیالہ میں پلاتے ہوئے کراہت آتی ہے تو اوک سے پلادے اوک یعنی دونوں چلو ملا کر۔
اسدؔ خوشی سے مرے ہاتھ پاؤں پھول گئے
کہا جو اُس نے ذرا میرے پاؤں داب تو دے
دابنا متعدی ہے لازم اس کا دبنا ہے الف تعدیہ آخر میں اکثر ہوتا ہے جیسے دبنے سے دبانا وغیرہ اور کبھی الف کو درمیان میں لاتے ہیں جیسے دابنا یا نکلنا اور نکالنا اور سنبھلنے سے سنبھالنا اور تھمنے سے تھامنا اور گڑنا سے گاڑنا اور اسی طرح کٹنا اور کاٹنا وغیرہ اور ’ تو ، اس شعر میں زائد ہے یہ غرض نہیں ہے کہ بھرتی کاہے بلکہ اس مقام پر زائد بولنا محاورہ میں داخل ہے۔
_______
تپش سے میری وقف کشمکش ہر تار بستر ہے
مرا سر رنج بالیں ہے مرا تن بارِ بستر ہے
میرے تڑپنے سے بستر کا تار تار ایذا میں ہے ، میرا سر تکیہ کے لئے ایک عذاب ، میرا تن بستر کی جان کو آفت ہے۔
سر شکِ سر بصحرا دادہ نورالعین دامن ہے
دلِ بے دست و پا افتادہ برخوردار بستر ہے
آنسو دامن کی آنکھ کا تارا اور دل بستر مرض کا مرادوں والا ہے یعنی آنسو ہمیشہ دامن میں رہتا ہے اور دلِ بیمار کو بستر پر پڑے رہنے سے اُنس ہو گیا۔
خوشا اقبال رنجوری عیادت کو تم آئے
فروغِ شمع بالیں طالع بیدارِ بستر ہے
بیمار کے سرہانے شمع جلانے کا دستور شاعروں میں مشہور ہے اور شمع کے صفات میں سے بیداری بھی ہے تو کہتے ہیں کہ کیا اچھی یہ بیماری ہے کہ تم میرے دیکھنے کو آئے اب شمع بالیں کو میں اپنا طالع بیدار سمجھتا ہوں کہ بستر مرض پر گرنے سے نصیبا چمکا۔
بہ طوفاں گاہِ جوش اضطرابِ شامِ تنہائی
شعاعِ آفتابِ صبح محشر تارِ بستر ہے
پہلے مصرع میں چار اضافتیں پے درپے اور دوسرے میں تین ہیں اور اُردو میں اضافت خود ہی ثقل رکھتی ہے تاکہ اتنی اضافتیں متوالی تین اضافتوں سے زیادہ ہونا عیب میں داخل ہے لیکن پھر بھی یہ اضافتیں اس قدر بری نہیں معلوم ہوتیں جس قدر کہ اب بہ طوفان گاہ میں بری معلوم ہوتی ہے مگر یہ بھی اتنی بری نہیں ہے جتنا کہ فارسی مصدر اُردو کی ترکیب میں برا ہے مثلاً : ’ تو اور ایک وہ ناشنیدن کہ کیا کہوں ، اور ’ یاں زمیں سے آسماں تک سوختن کا باب تھا ، اور ’ ہے شکستن سے بھی دل نومید یارب کب تلک الخ ، مطلب شعر کا یہ ہے کہ شبِ غم میں ایسا اضطراب و تاریکی ہے کہ گویا ہر ایک تارِ بستر آفتاب روزِ حشر کی کرن ہے ہر ایک سفید تار اس اندھیرے میں چمک رہا ہے جس طرح آفتاب کی کرن چمکتی ہے لیکن یہ کرن آفتاب حشر کی ہے اس سبب سے کہ جوش اضطراب ہے۔
ابھی آتی ہے بو بالش سی اُس کی زلفِ مشکیں کی
ہماری دید کو خوابِ زلیخا عارِ بستر ہے
یعنی زلیخا کی طرح خواب میں دیدار ہونا میرے لئے ننگ اور میرے بستر کے لئے عار ہے ، اس سبب سے کہ یہ وہ بستر ہے کہ : ’ بسی ہے بو ابھی تکیوں میں اُس زلفِ معنبر کی ، یعنی کل ہی تو شبِ وصل تھی۔ ایک بات یہ بھی لحاظ کے قابل ہے کہ ’ بالش سے ، کی جگہ ’تکیوں سے ، اگر کہتے تو وزن میں کچھ خلل نہ تھا مگر مصنف مرحوم نے تکیہ چھوڑکر بالش کہا حالاں کہ تکیہ محاورہ کا لفظ ہے اس سے ان کا طرز انشا ظاہر ہوتا ہے کہ فارسی لفظ کو ہندی محاورہ پر شعر میں ترجیح دیتے ہیں۔ ایک فائدہ کی بات یہ بھی ہے کہ ’ اس کی زلفِ مشکیں کی ، یعنی دو جگہ ’ کی ، ثقل سے خالی نہیں اس کو نہ عیب کہہ سکتے ہیں نہ غلط کہہ سکتے ہیں کوئی شاعر اس سے نہیں بچا لیکن جہاں ایسی صورت ہو کہ دو لفظ مؤنث جمع ہو جائیں اور اضافت ہو جیسے یہاں ’ بو ، بھی مونث ’ زلف ، بھی مونث تو وہاں ممکن ہو تو دونوں میں سے ایک کو لفظ بدل کر مذکر کر دیں اور یہاں لفظ کا بدلنا ممکن تھا جیسے ’ ابھی آتی ہے بو بالش سے اُس گیسوئے مشکیں کی ،۔ یا بالش سے اپنے اُس کے گیسو کی دوسری صورت ثقل کے دفع کرنے کی یہ ہے کہ ادیب کو چاہئے ایسے موقع پر ایک اضافت فارسی کی لے آئے یعنی ’ اس کی زلف کی بو ، کے بدلے ’ بوئے زلف اس کی ، کہے اور شاعر کے لئے ایک صورت اور بھی ہے یعنی دو ’ کی ، جمع ہوں تو ایک ’ کی ، کو اس طرح نظم کرے کہ ’ ی ، گرجائے یہ بھی کسی قدر بہتر ہو گا اور ثقل کم ہو جائے گا اور ’ کی ، کے بہ نسبت ’ کے ، میں ثقل کم ہے اور یہ کلیہ ہے کہ تکرار ہر لفظ کی ثقیل ہے۔
کہوں کیا دل کی کیا حالت ہے ہجر یار میں غالبؔ
کہ بے تابی سے ہر یک تارِ بستر خارِ بستر ہے
_______
خطر ہے رشتۂ اُلفت رگِ گردن نہ ہو جائے
غرور دوستی آفت ہے تو دُشمن نہ ہو جائے
معشوق سے خطاب ہے کہ میری دوستی و محبت پر تجھے غضب کا غرور ہوا ہے ایسا نہ ہو کہ دُشمنی کی طرف منجر ہو جائے اور یہ رشتہ اُلفت تیرے لئے رگِ گردن ہو جائے اور رگِ گردن غرور کو کہتے ہیں یعنی ایسا نہ ہو کہ غرور میں آ کر دُشمن کی طرح ہمیشہ مجھ سے گردن ٹیڑھی ہی رہے اور ’ خطر ہے ، یعنی مجھے یہ خطر ہے ’ یہ ، کا حذف اس مصرع میں بلاشبہ برا معلوم ہوتا ہے اور پھر اُس کے بعد کاف بیان بھی محذوف ہے اور ’ یہ ، کا اشارہ بیانِ خطر کی طرف ہے وہ یہ ہے کہ ’ رشتۂ الفت رگِ گردن نہ ہو جائے ، عجب نہیں کہ مصنف نے پہلے یوں کہا ہو ’ یہ ڈر ہے رشتۂ اُلفت الخ ، مگر یہ کی’ ہ ، کا گرنا ثقیل سمجھ کر ’ یہ ڈر ، کو خطر کر دیا ہے کو اس ’ ہ ، کا گرنا دُرست ہے مگر ثقل سے خالی نہیں خصوصاً ابتدائے کلام میں۔
سمجھ اس فصل میں کوتاہی نشوونما غالبؔ
اگر گل سرو کی قامت پہ پیراہن نہ ہو جائے
کیا پوچھنا اس مبالغہ کا کہ مبالغہ کے ضمن میں ایک دلکش نقشہ بھی دکھا دیا لیکن قامت سرود پر گل کے پیراہن ہو جانے سے یہ مراد نہیں ہے کہ ایک گل اتنا بڑا ہو جائے کہ سرو کا پیرہن بنے بلکہ مصنف کی غرض یہ ہے کہ شاخ ہائے گل کو اس قدر نمو ہو کہ سرو کے گرد لپٹ کر پھولوں کی قبا اُسے پہنادیں اور اس مبالغہ میں یہی خوبی ہے کہ کوئی محال بات لازم نہیں آتی اور گل سے ایک گل مراد لیں تو مبالغہ محال کی طرف منجر ہوتا ہے اور یہ امر عیب ہے مبالغہ میں اور ہمیشہ سے اس عیب کو عیب لکھتے آتے ہیں مگر فارس و ہند کے شعرا شاید اسے صنعت سمجھے ہوئے ہیں کہ احتراز نہیں کرتے اس عیب میں سبھی سے ہوئے ہیں خود مصنف مرحوم کو بھی محال گوئی سے احتیاط نہیں ہے مثلاً یہ شعر گذر چکاہے :
ابھی ہم قتل گہ کا دیکھنا آساں سمجھتے ہیں
نہیں دیکھا شناور بحر خوں میں تیری تو سن کو
یعنی وہ ایسا خونریز ہے جس کا گھوڑا دریائے خون میں پیرتا ہے یہ محض مبالغہ محال ہے خواجہ وزیرؔ کہتے ہیں :
تو نہا کر جو پھرا غم سے سمٹ کر دریا
آگیا دیدۂ گرداب میں آنسو ہوکر
اس شعر میں مبالغہ محال ہے اور اس کے ضمن میں آنکھ اور آنسو کا نقشہ دکھایا ہے مگر یہ نقشہ ویسا دلکش نہیں ہے جیسا کہ سرو کے گل پوش ہونے کا مصنف نے دکھایا ہے اور کسی کا یہ شعر ہے :
بادیہ گردی میں فکر برہنہ پائی نہیں
بن گیا پاپوش پا اتنا پھپولا بڑھ گیا
اس شعر میں مبالغہ تو محال عادی نہیں ہے مگر پاؤں میں پاپوش ہونے کی صورت کچھ کیفیت نہیں رکھتی۔ ناسخؔ کہتے ہیں :
مرتبہ کم حرص رفعت سے ہمارا ہو گیا
آفتاب اونچا ہوا اتنا کہ تارا ہو گیا
اس شعر میں آفتاب کے بلند ہونے میں کیا ہے اور اُس کا تارا ہو جانا ایک صورت دکھاتا ہے لیکن معمولی صورت ہے اور سرو کا گلپوش ہونا مشکل بدیع ہے لیکن بات یہ ہے شیخ ناسخ نے یہاں آفتاب سے مرتبہ کو مراد لیا ہے اسے مبالغہ غیرعادی نہ سمجھنا چاہئے پھر کہتے ہیں :
ایک درہم اور داخل گنج قار دل میں ہوا
پست ایسا میرے طالع کا ستارا ہو گیا
اس شعر میں بے شک مبالغہ غیرعادی ہے اور ایک روپیہ کا بہت سے روپوں میں مل جانا بھی کوئی کیفیت نہیں لیکن گنج قاروں میں ایک درہم اور بڑھ جانا البتہ امر بدیع ہے پھر کہتے ہیں :
یہ صفائی یہ لطافت جسم میں ہوتی نہیں
تم نے جو دل میں چھپایا آشکارا ہو گیا
اس شعر میں دو وجہوں سے محال ہے ایک تو جسم میں ایسی لطافت کا ہونا کہ جو شئے دل میں ہو وہ باہر سے دکھائی دے دوسرے راز کا دکھائی دینا کہ وہ دیکھنے کی شئے نہیں ہے غرض کہ گو ائمہ فن نے مبالغہ غیرعادی کو عیوب بلاغت میں لکھا ہے مگر کوئی مانتا نہیں اور نہ کوئی عمل کرتا ہے خصوصاً قصیدہ میں تو سوائے مبالغہ غیرعادی کے اور کوئی مضمون ہی نہیں باندھتے ہیں جسے سن کر ممدوح اپنی ہجو سمجھتا ہے ادیب کو یہ بات نہ بھولنا چاہئے کہ مبالغہ کلام کا حسن ہے لیکن مبالغہ میں افراط کہ مضمون غیرعادی و محال پیدا ہو جائے باتفاق ائمہ فن عیب قبیح ہے جس کا نام انھوں نے اغراق و غلو رکھا ہے مبالغہ جبھی تک حسن رکھتا ہے جب تک واقعیت و امکان اُس میں پایا جائے مثلاً کسی زخمی کو کہنا کہ خون کا دریا بہہ گیا ، اغراق ہے اور لہو کا پرنالہ چل گیا مبالغہ مقبول ہے۔ میر انیس کے ایک اصلاحی مرثیہ میں ہے : ’ بہ کر لہو جگر کا رکابوں تک آگیا ، دیکھو مبالغہ کیسا واقع سے مطابق ہے۔ مونسؔ کہتے ہیں :
برچھوں اُڑ جاتا ہے دب دب کے فرس رانوں سے
آنکھ لڑ جاتی ہے دریا کے نگہبانوں سے
ایک مرثیہ میں تلوار کی مدح میں ہے ’ دوڑا وہ کہ چھوجائے تو الماس ترش جائے ، یا ’ کس ایسا تیغ میں کہ کمر سے لپیٹ لو ،۔ ان مبالغوں کا جواب کاہے کو ہے اور جہاں مبالغہ کرنے کے بعد کوئی نقشہ کھنچ جاتا ہے وہ مبالغہ زیادہ تر لطیف ہوتا ہے خصوصاً جہاں وہ نقشہ بھی معمولی نہ ہو بلکہ نادر و بدیع شکل میں پیدا ہو اور مصنف کے اس شعر میں دونوں خوبیاں موجود ہیں۔
_______
فریاد کی کوئی لے نہیں ہے
نالہ پابند نے نہیں ہے
یعنی جو بات کہ دل سے ہوتی ہے اثر اسی میں ہے اور اُسے صناعت اور تصنع سے کچھ لگاؤ نہیں ہے۔
کیوں بوتے ہیں باغبان تو بنے
گر باغ گدائے مے نہیں ہے
انھیں تو بنوں سے کشکول گدا اور کدو سے شراب بنتا ہے غرض کہ باغ ان تو بنوں کی کشکول بنا کر گدائی کرتا ہے اور شراب بھیک میں ملتی ہے۔
ہر چند ہر ایک شئے میں تو ہے
پر تجھ سی تو کوئی شے نہیں ہے
’ سی ، سی تشبیہ کے لئے ہے یعنی تو تشبیہ جسمانیات سے منزہ ہے۔ سی کی ’ ی ، جس جگہ واقع ہوئی ہے یہ مقام حرف متحرک کاہے یعنی مفعول مفاعلن فعولن میں مفاعلن کے میم کی جگہ ’ ی ، واقع ہوئی ہے اور ’ ی ، ساکن ہے تو گویا مفاعلن کے میم کو مصنف نے ساکن کر لیا ہے یعنی مفعول مفاعلن کے بدلے مفعولم فاعلن اب ہو گیا ہے جسے مفعولن فاعلن سمجھنا چاہئے یہ زحاف گو اُردو فارسی میں نامانوس معلوم ہوتا ہے مگر سب لایا کرتے ہیں نسیم لکھنؤی کی مثنوی اسی وزن میں ہے اور جابجا اس زحاف کو لائے ہیں :
کحال پیرو پریں
عیسیٰ کی جس نے آنکھیں دیکھیں
ہاں کھائیو مت فریب ہستی
ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے
ہاں ہاں کہیں دھوکا نہ کھانا کوئی کہے نہ ماننا نہیں تو ایسے طلسم اوہام میں پھسے گا کہ جلوۂ حقیقت سے محروم رہے گا یہ سارا شعر انشائے تحذیر کے لئے ہے۔
شادی سے گذرکہ غم نہ ہووے
اُردی جو نہ ہو تو دےؔ نہیں ہے
یعنی اگر اپنے تئیں نشاط بہار کا خوگر نہ کر تو غم خزاں بھی پھر نہ ہو۔
کیوں رد و قدح کرے ہے زاہد
مے ہے یہ مگس کی قے نہیں ہے
اے زاہد قدح شراب کو رد نہ کر یہ سارنگ مکھی کی قے نہیں ہے جسے تو بڑی نعمت سمجھتا ہے۔
ہستی ہے نہ کچھ عدم ہے غالبؔ
آخر تو کیا ہے ، ہے نہیں ہے
عجب شوخی کی ہے اس شعر میں لفظ ’ نہیں ہے ، کو نام بنالیا ہے کہتے ہیں نہ تو ہستی محض ہے مثل واجب کے نہ تو عدم بحث ہے مثل ممتنع کے یعنی تو ہے بھی ہے اور نہیں بھی ہے تو تیرا نام ’ نہیں ہے ، رکھنا چاہئے۔
_______
نہ پوچھ نسخہ مرہم جراحت دل کا
کہ اس میں ریزۂ الماس جزو اعظم ہے
اور باقی اجزا نمک ہے اور مشک ہے یعنی جن چیزوں سے زخم اور بڑھ جاوے۔
بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کی
وہ اک نگہ کہ بظاہر نگاہ سے کم ہے
بڑا حسن اس شعر کا یہ ہے کہ معشوق کے تغافل کی تصویر دکھادی ہے دوسرا لطف یہ ہے کہ ایک نگاہ میں ایسی تفصیل کہ نگاہ اور نگاہ سے کم ہونا اس کے علاوہ ایک لطیفہ بھی ہے یعنی نگہ کم ہے نگاہ سے کہ اس میں الف ہے اس میں نہیں ہے۔
_______
ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتے
مرتے ہیں ولے ان کی تمنا نہیں کرتے
یعنی جس طرح انتہائے بخل کا مرتبہ یہ ہے کہ بخیل خود بھی اپنی دولت سے محروم رہتا ہے وہی حال انتہائے رشک کاہے کہ تمنائے وصل کرتے ہوئے اپنے اُوپر آپ رشک آتا ہے۔
درپردۂ اُنھیں غیر سے ہے ربط نہانی
ظاہر کا یہ پردا ہے کہ پردہ نہیں کرتے
یعنی ان کا مجھ پر یہ ظاہر کرنا کہ فلاں شخص سے ہم پردہ نہیں کرتے یہ ظاہر کا پردہ ہے درحقیقت اُس سے ربط نہانی ہے ورنہ پردہ نہ کرنے کا کیا باعث دوسرا پہلو پردہ نہ کرنے کا یہ ہے کہ اِ خفا نہیں کرتے یعنی کسی بات کے چھپانے کی ہمیں عادت نہیں ہے۔
یہ باعث نومیدی اربابِ ہوس ہے
غالبؔ کو برا کہتے ہو اچھا نہیں کرتے
یعنی غالب تو عاشق تھا جب اس کو کہا تو رقیب بوالہوس کو پھر کیا تم سے اُمید رہے گی۔
_______
کرے ہے بادہ ترے لب سے کسب رنگ فروغ
خط پیالہ سراسر نگاہ گلچیں ہے
یعنی لب تیرا پھول ہے اور بادہ گلچیں ہے اور خط ساغر نگاہ گلچیں ہے اور لفظ سراسر براے بیت ہے۔
کبھی تو اس دل شوریدہ کی بھی داد ملے
کہ ایک عمر سے حسرت پرست بالیں ہے
ایک عمر سے حسرت پرست بالیں ہونا دو معنی رکھتا ہے ایک تو یہ کہ مدت سے بالیں پر سر رکھنے کی حسرت ہے دوسرے یہ کہ ایسی ناتوانی ہے کہ بالیں سے سر نہیں اُٹھ سکتا اور اس صورت میں عجب نہیں کہ دل کا لفظ غلط کاتب ہو اور مصنف نے سرشوریدہ کہا ہو مگر معنی شعر ہر طرح سے ظاہر ہیں۔
بجا ہے گر نہ سنے نالہائے بلبل زار
کہ گوش گل نم شبنم سے پنبہ آگیں ہے
گل کو کان سے تشبیہ دیا کرتے ہیں اور جب اُس پر شبنم ہوئی تو گویا کان میں روئی رکھ لی پھر نالہ بلبل کو کیوں کر سنے یہ شعر بھی اسی قسم کاہے جیسا شعر آگے گذر چکا :
سبد گل کے تلے بند کرے ہے گلچیں
مثردہ اے مرغ کہ گلزار میں صیاد نہیں
اور بات یہ ہے کہ گل و بلبل و شمع و پروانہ وغیرہ کا ذکر شعر میں جب ہی تک حسن دیتا ہے جب کوئی تمثیل کا پہلو اس میں صاف نکلے جیسے حزیں ؔ کہتے ہیں :
اے وائے بر اسیری کزیاد رفتہ باشد
در دام ماندہ باشد صیاد رفتہ باشد
یا جیسے یہ شعر ہے :
گھر کو چھوڑے ہوئے مدت ہوئی صیاد مجھے
کس چمن میں تھا نشیمن یہ نہیں یاد مجھے
یا جیسے :
پھونک دے برق اُجاڑ دے گلچیں
اب غرض کیا ہے آشیانہ سے
لیکن جہاں تمثیل صاف نہ نکلے اور یہ معلوم ہو کہ فقط گل و ببل ہی کا حال بیان کرنا مقصود شعر ہے وہ شعر بے مزہ ہوتا ہے جیسے :
قفس کو شام سے لٹکا کے فرش خواب کے پاس
سنا کیا مری تاصبح داستاں صیاد
اور مصنف کے یہ دونوں شعر بھی اسی قسم کے ہیں جرأتؔ کہتے ہیں :
ذرا تو اپنے اسیروں کی لے خبر صیاد
قفس میں کیسے تڑپتے ہیں آب و دانے کو
آتش کہتا ہے :
گستاخ بہت شمع سے پروانہ ہوا ہے
موت آئی ہے سر چڑھتا ہے دیوانہ ہوا ہے
لیکن اکثر کلام مصنف کا اس بے لطفی سے پاک ہے برخلاف اکثر شعرا کے کہ زیادہ تر اُن کے کلام میں ایسے ہی شعر ہوتے ہیں۔
اسدؔ ہے نزع میں چل بے وفا برائے خدا
مقام ترک حجاب و وداع تمکیں ہے
یعنی اگر حجاب آتا ہے تو ایسے وقت میں حجاب کو ترک کر اور اگر تمکین و وقار مانع ہے تو اس وقت اُسے بھی رخصت کر۔
_______
کیوں نہ ہو چشم بتاں محو تغافل کیوں نہ ہو
یعنی اس بیمار کو نظارہ سے پرہیز ہے
اس بیمار کو یعنی چشم بتاں کو ایک بات یہ بھی یہاں غور کرنے کی ہے کہ لفظ تغافل پر مطلب تمام ہو گیا تھا مگر مصرع تمام ہونے میں کچھ بڑھانے کی ضرورت تھی اور ایسی ضرورت پر جو لفظ بڑھائے جاتے ہیں وہ اکثر بھرتی کے بے مزہ ہوتے ہیں مثلاً کوئی کم مشق ہوتا وہ یہاں پر ’ ہر گھڑی ، کا لفظ یا ’ رات دن ، کا لفظ ’ ہم نشیں ، وغیرہ کہہ دیتا اور یہ لفظ گو درد کی طرح بھرے ہوئے بدنما معلوم ہوتے لیکن مصنف نے کس خوبی سے مصرع کو پورا کیا یعنی ’ کیوں نہ ہو ، کو مکرر لے آئے اور اس سے اور حسن بڑھ گیا۔
مرتے مرتے دیکھنے کی آرزو رہ جائے گی
وائے ناکامی کہ اس کافر کا خنجر تیز ہے
کاش کے میرے قتل کے لئے کند چھری ہوتی کہ جتنی دیر میں گلا کٹتا اتنی دیر تو میں اُسے دیکھ لیتا یہ کہا ہوا مضمون ہے۔
عارض گل دیکھ روئے یار یاد آیا اسدؔ
جوشش فصل بہاری اشتیاق انگیز ہے
دیکھ کر کے مقام پر دیکھ کہنا نظم میں دُرست ہے لیکن عجز شاعر معلوم ہوتا ہے۔
_______
دیا ہے دل اگر اُس کو بشر ہے کیا کہئے
ہوا رقیب تو ہو نامہ بر ہے کیا کہئے
نامہ بر نے جب معشوق کو دیکھا تو وہ بھی رقیب ہو گیا یہ حال سن کر یہ کہہ رہے ہیں دیا ہے دل اگر الخ غرض اس بیان سے معشوق کی تعریف ہے جو بالتزام نکلتی ہے یعنی ایک اپنا دل سوز و چارہ جو نامہ لے کر گیا مگر اُسے دیکھ کر دل ہاتھ سے جاتا رہا اب وہ بھی رقیب بنا اس سے حسن کی دلفریبی بالتزام نکلتی ہے۔
یہ ضد کہ آج نہ آوے اور آئے بن نہ رہے
قضا سے شکوہ ہمیں کس قدر ہے کیا کہئے
اللہ اکبر یہ ضد اجل کو کہ آئے گی ضرور مگر آج نہیں آتی پھر کیوں کر شکایت نہ کیجئے۔
رہے ہے یوں گہ و بے گہ کہ کوئی دوست کو اب
اگر نہ کہئے کہ دشمن کا گھر ہے کیا کہئے
وقت بے وقت جب دیکھو رقیب کوئے یار میں موجود ہے گویا اُس کی گلی کو اُس نے گھر بنالیا ہے
زہے کرشمہ کہ یوں دے رکھا ہے ہم کو فریب
کہ بن کہے ہی اُنھیں سب خبر ہے کیا کہئے
یعنی میرے ساتھ اُس کا کرشمہ و اشارہ ایسا ہے کہ میں دھوکے میں آگیا ہوں اور دھوکے کا بیان دوسرے مصرع میں ہے یعنی میرے دل میں یہ بات آ گئی ہے کہ بے کہے ہوئے اُنھیں میری محبت کی سب خبر ہے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔
سمجھ کے کرتے ہیں بازار میں وہ پرسش حال
کہ یہ کہے کہ سر رہ گذر ہے کیا کہئے
خوبی اس شعر میں یہ ہے کہ معشوق کے عیار و شوخ طبع ہونے پر شاید ہے۔
تمہیں نہیں ہے سر رشتۂ وفا کا خیال
ہمارے ہاتھ میں کچھ ہے مگر ہے کیا کہئے
اس شعر کا اندازِ بندش بھی نیا اور مضمون بھی تازہ ہے۔ تازگی مضمون تو یہ ہے کہ سر رشتۂ وفا کو ایک محسوس بند شئے فرض کر لیا ہے کہ معشوق سے پوچھتے ہیں کہ ہماری مٹھی میں بتاؤ کیا ہے اور بندش کی جدت یہ ہے کہ پوچھتے بھی ہیں کہ مٹھی میں کیا ہے اور پھر جو چیز مٹھی میں ہے اُس کا نام بھی لے دیا ہمارے ہاتھ میں کچھ ہے مگر کیا ہے یہ تم بتاؤ کہ تمہیں رشتۂ وفا کا خیال نہیں۔
انھیں سوال پہ زعم جنوں ہے کیوں لڑیے
ہمیں جواب سے قطع نظر ہے کیا کہئے
زعم جنوں سے یہ مراد ہے کہ میرے سوال پر وہ یہ کہتے ہیں کہ تجھے جنون ہوا ہے اور قطع نظر سے یہ مراد ہے کہ ان کی اس بات کا میں کیا جواب دوں۔ یہ مضمون خوبی شعر کا سبب نہیں ہے بلکہ دونوں مصرعوں کی بندش میں ترکیب کے متشابہ ہونے نے شعر میں حسن پیدا کیا۔
حسد سزائے کمال سخن ہے کیا کیجئے
ستم بہائے متاع ہنر ہے کیا کہئے
اس شعر میں بھی حسن فقط تشابہ ترصیح کے سبب سے ہے کیا کیجئے اور کیا کہئے عاجز آنے کے مقام پر کہتے ہیں۔
کہا ہے کس نے کہ غالبؔ برا نہیں لیکن
سوائے اس کے کہ آشفتہ سر ہے کیا کہئے
یعنی جو دیوانہ ہو اُس کا کہنا ہی کیا سوا عربی لفظ ہے اور الف مقصورہ ہے اضافت کی حالت میں فارسی والے اس میں ’ ی ، بڑھاتے ہیں اور اُردو میں لفظ سوا اور مع عامیانہ محاورہ میں اکثر باضافت بولتے ہیں اور پھر مضاف الیہ میں کے بھی لگاتے ہیں کہتے ہیں سوائے خدا کے کون ہے اور مع عیال روانہ ہوا۔ مصنف مرحوم نے یہاں عام محاورہ کے موافق لفظ سوا کو اضافت دی ہے اور پھر ہندی لفظ کی طرف اضافت دی ہے اور مضاف الیہ میں کے بھی لگایا ہے یہ پالغز قلم ہے اسی طرح ایک خط میں لکھتے ہیں۔ بیڑی کو زاویۂ زندان میں چھوڑ مع دونوں ہتھکڑیوں کے بھاگا اور اپنے نام کا خط مع ان اشعار کے یوسف علی کے حوالہ کیا۔
_______
دیکھ کر درپردہ گرم دامن افشانی مجھے
کرگئی وابستۂ تن میری عریانی مجھے
اس شعر میں مضمون تصوف ہے عریانی استعارہ ہے تجرد سے اور دامن افشانی تنفس سے یعنی میں مجرد تھا مجھے جسمانیات سے کوئی علاقہ نہ تھا لیکن مجھے سرگرم دامن افشانی دیکھ کر میرا تجرد مجھے وابستۂ جسم کر کے رخصت ہوا یعنی عالم اجسام کی نفس شماری میں مجھے محو و سرگرم دیکھ کر تجرد نے زندان بدن میں مجھے چھوڑدیا اور آپ رخصت ہو گیا یعنی جسے دامن افشانی کا شوق ہو اُسے تجرد و عریانی سے کیا واسطہ درپردہ کے لفظ میں یہ رعایت رکھی ہے کہ تنفس بھی حجاب صدر سے تعلق رکھتا ہے غرض مصنف کی یہی ہے جو بیان ہوئی لیکن اس کے معنی میں اُلجھن اور گتھی پڑگئی ہے وہ یہ کہ سرگرم دامن افشانی کے بعد عریانی کا رخصت ہونا کیا معنی۔ دامن ہی کے ساتھ عریانی جمع نہیں ہو سکتی نہ کہ دامن افشانی بھی ہو۔
بن گیا تیغِ نگاہِ یار کا سنگِ فساں
مرحبا میں کیا مبارک ہے گر انجانی مجھے
میں ایسا سخت جان ہوں کہ تیغ نگاہ کے وار ہوتے جاتے ہیں اور جی رہا ہوں جیسے سنگ فساں کہ اُس پر کتنا ہی تلوار کو رگڑو وہ نہیں کٹتا دوسرے مصرع میں طعن سے کہتے ہیں کہ آفریں ہے کہ مجھ کو میری گراں جانی بہت ہی مبارک ہے کہ اُسے تیغ نگاہ یار کا سنگ فساں تو مجھے بنادیا۔
کیوں نہ ہو بے التفاتی اس کی خاطر جمع ہے
جانتا ہے محو پرسش ہائے پنہانی مجھے
پرسش ہائے پنہانی سے مطلب مصنف کا یہ ہے کہ کبھی تصور میں آ کر اور کبھی خواب میں آ کر جو وہ صورت دکھا جاتا ہے یا اُس کی بے التفاتی سے جو حالت میری ہورہی ہے میں اُسی میں محو ہوں اور اُسی سے اُس کی خاطر جمع ہے جو التفات نہیں کرتا سچ پوچھو تو یہ ہے کہ لفظ پرسش ہائے پنہانی سے مصنف کا مطلب جو ہے وہ نہیں نکلتا۔
میرے غم خانہ کی قسمت جب رقم ہونے لگی
لکھ دیا منجملۂ اسباب ویرانی مجھے
یعنی کاتب تقدیر نے مجھے اپنے گھر کا سبب ویرانی قرار دیا۔
بدگماں ہوتا ہے وہ کافر نہ ہوتا کاش کے
اس قدر ذوق نوائے مرغ بستانی مجھے
اس کے مزاج میں اتنا رشک ہے کہ مجھے جو بلبل کا شوق ہے یہ بھی اُسے نہیں گوارا مضمون تو یہ کچھ لطف نہیں رکھتا مگر مصنف نے اسی مضمون کو مکرر کہا ہے ایک شعر اُوپر گذر چکاہے :
کیا بدگمان مجھ سے کہ آئینہ میں مرے
طوطی کا عکس سمجھے ہے زنگار دیکھ کر
وائے واں بھی شور محشر نے نہ دم لینے دیا
لے گیا تھا گور میں ذوق تن آسانی مجھے
یہ شعر اس زمین میں بیت الغزل ہے خواب لحد سے شور محشر کا جگانا تو مضمون مبتذل ہے جسے بہت لوگ بہت دفعہ کہہ چکے ہیں خوبی اس شعر میں یہ ہے کہ گور میں جانے کی توجہ بہت تازہ ہے یعنی ذوق تن پرستی اس شعر کی جان ہے جس نے مضمون مردہ کو زندہ کر دیا اور مصنف کی معجز بیانی پر ایک شاہد ہاتھ آیا تن پرستی و آسائش طلبی کی برائی کیا اچھی طرح بیان کی ہے۔
وعدہ آنے کا وفا کیجئے یہ کیا انداز ہے
تم نے کیوں سونپی ہے میرے گھر کی دربانی مجھے
یعنی تم نے آنے کا جو وعدہ کیا ہے تو میں گھر سے کہیں نکل نہیں سکتا دربان بنا ہوا بیٹھا ہوں یہاں کیوں سے کیا زیادہ اچھا معلوم ہوتا ہے کیا عجب ہے کاتب کا تصرف ہو۔
ہاں نشاطِ آمد فصلِ بہاری واہ واہ
پھر ہوا ہے تازہ سودائے غزل خوانی مجھے
ہاں اے نشاط بہار واہ تیرا کیا کہنا ذرا اور مجھے گرما دے کہ غزل سرائی کروں۔
دی مرے بھائی کو حق نے ازسرنو زندگی
میرزا یوسف ہے غالبؔ یوسف ثانی مجھے
یوسف کی زندگی دوبارہ ہوئی گویا دوسرا یوسف ملا۔
_______
یاد ہے شادی میں بھی ہنگامۂ یارب مجھے
سبحہ زاہد ہوا ہے خندہ زیر لب مجھے
یارب کے معنی فارسی محاورہ میں خدا کی دوہائی دینے کے ہیں اور سبحہ زاہد سے وہ ذکر خفی مراد ہے جو چپکے چپکے ہونٹوں میں کرتے ہیں کہتے ہیں شادی میں بھی مجھے شور یارب نہیں بھولا ہے میرا خندہ زیر لب گویا زاہد کا ذکر خفی ہے۔
ہے کشاد خاطر وابستہ در دہن سخن
تھا طلسم محفل ابجد خانۂ مکتب مجھے
کہتے ہیں میرا مکتب گویا طلسم قفل ابجد تھا یا وہ کارخانہ تھا جہاں قفل ابجد ڈھالے جاتے ہیں کہ میرے دل میں اُس مکتب کے اثر سے قفل ابجد کا خاصہ پیدا ہوا ہے کہ ہمیشہ وابستہ رہتا ہے اور واشد اگر ہوتی ہے تو سخن سے ہوتی ہے جس طرح قفل ابجد کی پھرکیاں جب گھوم کر ایسی وضع پر آتی ہیں کہ اُن پر جو حرف لکھے ہوئے ہیں وہ مرتب ہوکر بات بن جائے تو وہ قفل کھل جاتا ہے اور جب تک وہی بات نہ بنے قفل بند رہتا ہے۔ کلام شعرا کے تتبع سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ کئی چیزیں زیادہ مضمون کا ماخذ ہوا کرتی ہیں قفل ابجدؔ شیشہؔ ساعت خط ؔ ساغر کبابؔ سیخ گردبادؔ حبابؔ آسا وغیرہ اور اکثر اس سے مضمون لطیف پیدا ہوتا ہے۔ اس شعر کی بندش میں بھی فارسیت بری طرح غالب ہو گئی ہے۔ اضافتیں اتنی بری نہیں معلوم ہوتیں ایک لفظ در نے سلاست سخن میں بڑی دراندازی کی ہے مگر ایک عذر مصنف کی طرف سے معقول ہے کہ فارسیت ان پر ایسی غالب تھی کہ ان کی نظر میں اُردو فارسی میں امتیاز باقی نہ رہا تھا اس کے علاوہ بعض اساتذہ نے عربی کو اسی طرح فارسی میں آمیز کیا ہے خواجہ حافظ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ، قطعہ :
رحمان لایموت چوں آں بادشاہ را
دید آں چناں کزد عمل خیر لایفوت
جانش غریق رحمت حق کرد تاکند
تاریخ ایں معاملہ رحمان لایموت
مگر لکھنؤ میں عرصہ سے اس قسم کا خلط متروک ہے اور یہ ترک چاہئے ہے۔
یارب اس آشفتگی کی داد کس سے چاہئے
رشک آسائش پہ ہے زندانیوں کی اب مجھے
چاہئے یعنی مانگئے اور اب سے یہ معنی نکلتے ہیں کہ جب زندان میں تھا تو صحرا نوردی کا شوق تھا اب صحرا میں ہوں تو اہل زنداں پر رشک ہے۔
طبع ہے مشتاق لذت ہائے حسرت کیا کروں
آرزو سے ہے شکست آرزو مطلب مجھے
حسرت کو یہاں یاس و حرمان کے معنی پر استعمال کیا ہے کہتے ہیں مجھے حسرت و ارمان سے ایسا لطف ملتا ہے کہ میں اُمید اسی لئے کرتا ہوں کہ وہ قطع ہو جائے اور مجھے لذت حرمان حاصل ہو۔ اس شعر میں مطلب کی جگہ مطلوب محاورہ ہے یہ دونوں لفظ اُردو کے محاورہ میں اس طرح بولتے ہیں کہ ’ کو ، کے ساتھ مطلوب کہتے ہیں اور ’ کا ، کے ساتھ مطلب مثلاً اُس کو یہ مطلوب ہے اور اس کا یہ مطلب ہے اور اس شعر میں مجھے کا لفظ مجھ کو کے معنی پر ہے یعنی اس میں ی ’کو ، کے عوض کی ہے یعنی مجھ کو شکست آرزو مطلوب ہے اور مصنف نے مطلوب کی جگہ پر مطلب باندھا ہے غرض کہ ردیف ربط نہیں کھاتی یوں ہونا چاہئے تھا : ’ آرزو سے ہے شکست آرزو مطلب مرا ،
آتشؔ نے بھی ایسا کیا ہے :
دہن زخم کشتگاں سے ہے
میرے قاتل کو مرحبا مطلب
دل لگا کر آپ بھی غالبؔ مجھی سے ہو گئے
عشق سے آتے تھے مانع میرزا صاحب مجھے
آپ بھی یعنی وہ خود بھی آپ یہاں محل خطاب میں نہیں ہے میرزا صاحب نے طعن سے غالبؔ کو کہا ہے یہاں مصنف نے صاحب کو مطلب کو قافیہ عام محاورہ کی بنا پر کیا ہے کہ محاورہ میں ح کو مفتوح بول جاتے ہیں اگر کوئی کہے کہ عربی و فارسی لفظوں میں محاورہ عام کا تتبع کرنا خطا ہے نہیں تو یہ مصرع بھی دُرست ہو جائے گا : ’ سخت دل کو اپنے نرم کیجئے ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس شعر کو مصنف نے اپنا قول نہیں قرار دیا ہے بلکہ دوسرے شخص کی زبانی ہے اور شوخی یہ کی ہے کہ اُس کا کلام بعینہٖ نقل کر دیا ہے ورنہ غالب پر یہ گمان کہ لفظ صاحب کے کسرہ سے ناواقف تھے خطا ہے البتہ فارسی دیوان میں یہ شعر مصنف کا :
نامہ بناز خویش کز اثر فیض مدح
نقطہ زبس روشنی تابش نیر گرفت
اختر گرفت و اخگر گرفت کی زمین میں کوئی تاویل عیب اقویٰ سے بری ہونے کی نہیں رکھتا اس سبب سے کہ اور سب قافیوں میں حرکت توجیہ زبر ہے اور نیر میں زیر ہے اساتذہ اہل زبان جو عربی داں گذرے ہیں انھیں ایسا دھوکا ہو جائے ممکن نہیں ہاں جو زبان عربی سے ناآشنا ہیں اگر ان کے کلام میں نیر کہیں اختر کے ساتھ آ بھی گیا ہو تو قابل استناد نہیں ہو سکتا اس سبب سے کہ عربی میں لفظ عجم کا تصرف نامقبول ہے سوا چند محاورہ کے کہ وہاں حکم عجمہ پیدا ہو گیا ہے جیسے کافر ہے۔
_______
حضورِ شاہ میں اہل سخن کی آزمائش ہے
چمن میں خوش نوایانِ چمن کی آزمائش ہے
جس مشاعرے میں مصنف نے یہ غزل پڑھی ہے بادشاہ اس میں شریک تھے۔
قدو گیسو میں قیس و کوہکن کی آزمائش ہے
جہاں ہم ہیں وہاں دار و رسن کی آزمائش ہے
یعنی فرہاد و مجنوں کے لئے جو کچھ فتنہ و بلا ہے وہ لیلیٰ و شیریں کا قد و گیسو ہے ، لیکن ہمیں ایسے ظالم سے سابقہ پڑا ہے جو دار پر کھینچتا ہے ، عشق قامت کی سزا میں اور سودائے زلف کے بدلے میں پھانسی دیتا ہے۔
کریں گے کوہکن کے حوصلہ کا امتحاں آخر
ہنوز اُس خستہ کے نیروئے تن کی آزمائش ہے
یعنی ابھی تو اُس کے دست و بازو کا امتحان ہے کہ دیکھیں جوئے شیر بنا سکتا ہے کہ نہیں اُس کا دل دیکھنے کا وقت جب آئے گا جب ایک پیر زال آ کر شیریں کی خبر مرگ سنائے گی جب دیکھیں گے کہ اس غم کی برداشت کرتا یا سر پھوڑکر مرتا ہے۔ اس شعر میں کوہکن پر طعن ہے کہ کم حوصلہ تھا دل کچھ نہ رکھتا تھا صدمہ نہ اُٹھا سکا جان دے کر میدانِ عشق سے بھاگ کھڑا ہوا۔
نسیم مصر کو کیا پیر کنعاں کی ہوا خواہی
اُسے یوسف کی بوئے پیرہن کی آزمائش ہے
اس شعر میں بھی تلمیح ہے اس قصہ کی طرف جو مشہور ہے کہ یعقوب ؑنے کوسوں سے بوئے پیراہن یوسف ؑکو پہچان لیا تھا۔
وہ آیا بزم میں دیکھو نہ کہیو پھر کہ غافل تھے
شکیب و صبر اہل انجمن کی آزمائش ہے
جیسا مصرع مصنف نے یہاں لگایا ادیب کی نظر میں مردہ کو زندہ کر دینے سے یہ کم نہیں ہے مضمون اصل میں مردہ ہے فقط مصرع لگا کر اس میں جان ڈال دی ، یہ وہی مضمون ہے جو کرورہ دفع باندھا گیا ہے کہ معشوق کے دیکھنے سے شکیب و صبر نہیں باقی رہتا ہے مصرع جو لگایا اس کے تین ٹکڑے کرو ’ وہ آیا بزم میں ، جیسے کہتے ہیں وہ چاند ہوا ’ دیکھو ، یعنی ہوشیار ہو جاؤ دلوں کو سنبھال لو ’ نہ کہیو پھر کہ غافل تھے ’ یہ جملہ بھی وہی معنی رکھتا ہے جو دیکھو کی لفظ میں ہیں یعنی یہ جملہ اس جملہ کی تاکید ہے اور حسن شعر میں اسی تاکید سے بہت پیدا ہو گیا ہے اور وہ کے اشارہ سے۔
رہے دل ہی میں تیر اچھا جگر کے پار ہو بہتر
غرض شستِ بتِ ناوک فگن کی آزمائش ہے
یعنی ان دو نشانوں میں سے کوئی نہ کوئی ضرور اُڑے۔
نہیں کچھ سبحہ و زنار کے پھندے میں گہرائی
وفاداری میں شیخ و برہمن کی آزمائش ہے
شیخ کو تسبیح سے اور برہمن کو زنار سے جو تعلق ہے تو یہ نہ سمجھو کہ وہ ان پھندوں سے نکل نہیں سکتے بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ کب تک اس وضع کو نباہتے ہیں۔
پڑا رہ اے دل وابستہ بیتابی سے کیا حاصل
مگر پھر تابِ زلف پر شکن کی آزمائش ہے
شاید پھر تو زلف کے پھندوں کا مزا چکھا جاتا ہے جو تڑپ رہا ہے بس یوں ہی بندھا پڑا رہ ایسا نہ ہو کہ تیرے تڑپنے سے پھندے اور زیادہ کس جائیں۔
رگ و پے میں جب اُترے زہر غم تب دیکھئے کیا ہے
ابھی تو تلخی کام و دہن کی آزمائش ہے
یعنی آغازِ عشق ایسا سخت ہے تو انجام اس کا نہ جانے کیا ہو گا۔
وہ آئیں گے مرے گھر وعدہ کیسا دیکھنا غالبؔ
نئے فتنوں میں اب چرخِ کہن کی آزمائش ہے
’ وہ آئیں گے میرے گھر ، یعنی وہ بھلا کیا آئیں گے ’ وعدہ کیسا ، یعنی وعدہ کا انھیں کب خیال ہے اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کس کس نئی مصیبت میں فلک مبتلا کرتا ہے یعنی اُن کے نہ آنے سے اور وعدہ خلافی کرنے سے دیکھیں آسمان کیا دن ہمیں دکھاتا ہے۔
_______
کبھی نیکی بھی اُس کے جی میں گر آجائے ہے مجھ سے
جفائیں کر کے اپنی یاد شرما جائے ہے مجھ سے
یعنی میرے لئے یوں بھی خرابی ہے کہ وہ مارے ندامت کے منہ نہیں اب دکھلاتا۔
خدایا جذبۂ دل کی مگر تاثیر اُلٹی ہے
کہ جتنا کھینچتا ہوں اور کھنچتا جائے ہے مجھ سے
کھینچنے کے معنی آزردگی اور خفگی کے ہیں یعنی جتنا میں اُسے جذبِ دل سے کھینچتا ہوں اُتنا ہی وہ آزردہ ہوتا ہے۔
وہ بدخو اور میری داستان عشق طولانی
عبارت مختصر قاصد بھی گھبرا جائے ہے مجھ سے
وہ سے معشوق مراد ہے اور عبارت مختصر اور قصہ مختصر الغرض کے مقام پر بولتے ہیں یعنی جب قاصد گھبرا جاتا ہے تو معشوق بدخو بھلا یہ داستان کیا سنے گا۔
اُدھر وہ بدگمانی ہے اِ دھر یہ ناتوانی ہے
نہ پوچھا جائے ہے اُس سے نہ بولا جائے ہے مجھ سے
یعنی وہ بدگمانی سے میرے دعوی محبت کو جھوٹ سمجھتا ہے اس سے پوچھتا نہیں اور میں بیماری محبت میں ناتواں ہوں اس سے بولا نہیں جاتا اس شعر میں ترکیب کے تشابہ اور الفاظ کے تقابل سے حسن پیدا ہو گیا ہے۔
سنبھلنے دے مجھے اے نا اُمیدی کیا قیامت ہے
کہ دامانِ خیال یار چھوٹا جائے ہے مجھ سے
خیال یار کا دامن میرے دل کے ہاتھ میں تھا نا اُمیدی نے ایسا گرایا کہ وہ دامن ہاتھ سے چھوٹا جاتا ہے یعنی نا اُمیدی کے سبب سے اس کا خیال دل سے نکلا جاتا ہے۔
تکلف برطرف نظارگی میں بھی سہی لیکن
وہ دیکھا جائے کب یہ ظلم دیکھا جائے ہے مجھ سے
نظارگی کے معنی دیکھنے والے کے ہیں یعنی اُس کے دیکھنے والوں میں بھی شامل ہوا تو کیا یہ ظلم مجھ سے کب دیکھا جائے گا کہ وہ دیکھا جائے یعنی اغیار اُسے دیکھیں یہ مجھے کب گوارا ہے۔
ہوئے ہیں پاؤں ہی پہلے نبردِ عشق میں زخمی
نہ بھاگا جائے ہے مجھ سے نہ ٹھہرا جائے ہے مجھ سے
نبرد ایسی سخت کہ ٹھہرنا مشکل ہے اور پاؤں ایسے زخمی کہ بھاگنا دُشوار ہے۔
قیامت ہے کہ ہووئے مدعی کا ہم سفر غالبؔ
وہ کافر جو خدا کو بھی نہ سونپا جائے ہے مجھ سے
جس کافر کو رخصت کرتے وقت رشک کے مارے میرے منہ سے یہ نہیں نکلتا کہ تجھے خدا کو سونپا قیامت ہے کہ وہ مدعی کا ہم سفر ہے اس شعر میں جس مقام پر مصنف نے ’ نہ ، کہا ہے یہاں ’ نہیں ، کہنا چاہئے تھا یا ’ ہے ، کو ترک کیا ہوتا اس سبب سے کہ ’ نہ ، کے ساتھ فعل منفی میں ’ ہے ، بولنا خلاف محاورہ ہے اور قدیم اُردو میں بھی ایسا نہیں دیکھنے میں آیا مثلاً ’ مجھ سے مارے ضعف کے نہ بولا جاتا ہے ، غلط ہے اور ’ نہیں بولا جاتا ہے ، صحیح ہے ہاں جہاں ’ نہ ، عطف کے لئے ہو وہاں ’ ہے ، کے ساتھ جمع کرنا دُرست ہے جیسے نہ پوچھا جائے ہے اُس سے نہ بولا جائے ہے مجھ سے یا جیسے نہ بھاگا جائے ہے مجھ سے نہ ٹھہرا جائے ہے مجھ سے۔ اور عطف کے مقام پر ’ نہیں ، کہنا خلافِ محاورہ ہے مثلاً نہیں بھاگا جاتا ہے مجھ سے نہیں ٹھہرا جاتا ہے مجھ سے غلط ہے اور نہ کے ساتھ ہے کا جمع کرنا اس سبب سے غلط ہے کہ ایسے مقام پر نہیں محاورہ میں ہے اور نہیں ؔ نہ ؔاور ہےؔ فعل ناقص سے مرکب ہے اور نہیں ؔ کے ساتھ جب ہے بولتے ہیں تو وہ فعل تام ہو جاتا ہے
_______
زبسکہ مشق تماشا جنوں علامت ہے
کشاد و بست مژہ سیلی ندامت ہے
تماشائے دُنیا میں مصروف رہنا علامت جنون و امر بیہودہ ہے اسی سبب سے بروقت تماشا پلکوں کا کھلنا اور بند ہونا سیلی ندامت کا پڑنا ہے۔
نہ جانے کیوں کہ مٹے داغ طعن بد عہدی
تجھے کے آئینہ بھی ورطۂ ملامت ہے
نہ جانے بدعہدی کا دھبہ کس پانی سے چھوٹے گا تجھے تو اب آئینہ بھی ورطۂ ملامت ہے کہ آئینہ میں غیروں ہی کے دکھانے کے لئے بناؤ ہوتا ہے جو عین بد عہدی ہے ، اس شعر میں ’ کہ ، کی جگہ تو ہونا چاہئے تھا اور مطلب بھی اچھی طرح ادا نہیں ہوتا۔
بہ پیچ و تاب ہوس سلک عافیت مت توڑ
نگاہِ عجز سر رشتۂ سلامت ہے
عافیت ایک سلک ہے جس کے لئے ہوس بل ہے اور گتھی ہے جس سے سلک کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہے یعنی ہوس انسان کو ہوئی اور عافیت گئی اور نگاہِ عجز یعنی ترکِ ہوس سلامتی کا سررشتہ ہے۔
وفا مقابل و دعوائے عشق بے بنیاد
جنون ساختہ و فصل قیامت ہے
کہتے ہیں معشوق تو وفا پر آمادہ ہو اور دعویٔ عشق جھوٹا ہو یہ بڑا ستم ہے دوسرے مصرع میں اس کی تمثیل ہے کہ بہار تو سچ مچ آئی ہو اور جنون میں بناوٹ ہو یہ قیامت ہے مقصود اس سے رقیب پر طعن ہے۔
لاغر اتنا ہوں کہ گر تو بزم میں جاوے مجھے
میرا ذمہ دیکھ کر گر کوئی بتلاوے مجھے
لاغری کے سبب سے میں کسی کو دکھائی نہ دوں گا کوئی مجھے بتائے گا کیا۔
کیا تعجب ہے کہ اُس کو دیکھ کر آجائے رحم
واں تلک کوئی کسی حیلہ سے پہنچادے مجھے
اس شعر سے یہ معنی بھی نکلے کہ بہت ہی اس کا حال غیر ہے اور نہایت ہی وہاں پہنچنا مشکل ہے اور اس کو دیکھ کر آجائے رحم۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مجھے دیکھ کر اس کو آجائے رحم۔
منہ نہ دکھلاوئے نہ دکھلا پر باندازِ عتاب
کھول کر پردہ ذرا آنکھیں ہی دکھلادے مجھے
یعنی تو منہ نہیں دکھاتا نہ دکھا ذرا پردہ سرکا کر خفگی سے آنکھ تو دکھادے اور آنکھ دکھانا محاورہ ہے۔ خفا ہونے کے معنی پر مصنف نے آنکھیں دکھانا بصیغہ جمع باندھا ہے مگر فصیح وہی ہے کہ آنکھ دکھانا کہیں باقرار۔
یاں تلک میری گرفتاری سے وہ خوش ہے کہ میں
زلف گر بن جاؤں تو شانہ میں اُلجھادے مجھے
یعنی انتہائے گرفتاری یہ ہے کہ میں اس کی زلف بن جاؤں مگر وہ اس پر بھی اکتفا نہ کرے شانہ سے مجھے اُلجھادے۔
_______
بازیچۂ اطفال ہے دُنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
یعنی حادثات دُنیا کا میرے دل پر کچھ اثر نہیں ہوتا ، اسے تماشا سمجھتا ہوں۔
اک کھیل ہے اورنگِ سلیماں مرے نزدیک
اک بات ہے اعجازِ مسیحا مرے آگے
یعنی دُنیا اور اہل دُنیا کا اقبال و کمال میری نظر میں ہیچ ہے دوسرے مصرع میں ’ بات ، کی لفظ نے دوہرا لطف دیا۔
جز نام نہیں صورتِ عالم مجھے منظور
جزو ہم نہیں ہستیٔاشیا مرے آگے
یعنی عالم کا نام ہے صورت اس کی مرئی و مبصر نہیں یہ فلسفہ اور تصوف کا غریب مسئلہ ہے کہ اجسام بھی بذاتہا محسوس نہیں ہیں مفصل تقریر یہ ہے کہ اگر ذات باری تعالیٰ کے سوا کسی شئے کو موجود سمجھیں تو وہ موجودات یا تو مجردات ہیں جیسے نفوس یا ملائک وغیرہ اور یا اجسام ہیں جیسے اپنے زعم میں ہم سمجھے ہوئے ہیں کہ ہم دیکھ رہے ہیں مثلاً پہاڑ یا نقوش و اجسام کے اعراض ہیں مثلاً نفس کا علم و ارادہ اور جسم کا رنگ و شکل۔ ان سب چیزوں میں مجردات اور ان کے اعراض کا نامحسوس ہونا تو بہت ظاہر ہے اب رہے اجسام اور ان کے اعراض تو اجسام محسوس نہیں ہیں اگر محسوس ہیں تو اعراض محسوس ہیں مثلاً پہاڑ میں جس چیز کو ہم جسم کو اور ذات کوہ کہتے ہیں اور جسے بذاتہ قائم سمجھتے ہیں وہی چیز ہمیں نہیں دکھائی دیتی دکھائی کیا دیتا ہے کہ پہاڑ کا اور اسی رنگ کی چوڑان اور لمبان اور پھیلاؤ اور یہ ظاہر ہے کہ رنگ ذات سے زائد و خارج ہے رنگ بدلنے سے گرگٹ نہیں بدل جاتا اور رنگ کے لئے قیام ذاتی نہیں ہے بلکہ اس کی ہستی جسم کے ضمن میں ہے اگر جسم نہ ہو تو رنگ کا وجود ہی نہیں ہو سکتا غرض کہ آنکھ سے رنگ کے سوا کچھ دِ کھائی نہیں دیتا اور روشنی کو بھی ایک قسم رنگ کی پہلے سمجھتے تھے اور اب فلاسفہ یوروپ نے اس بات کو ثابت کر دیا کہ رنگ جسے تم سمجھتے ہو کہ دکھائی دیتا ہے یہ اصل میں ایک نوع کی روشنی ہے اور روشنی ایک قسم کا تموج و ارتعاش ہے اور کچھ بھی نہیں ، اسی طرح صدا جسے ہم سمجھتے ہیں کہ سنائی دیتی ہے وہ بھی ہوا کا ارتعاش ہے اس کی ہستی بھی ضمن غیر میں ہے اور وہ ہوا کی ذات کے علاوہ ہے یا حس لمس سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہوا محسوس ہے یہ دھوکاہے اس کی خنکی محسوس ہوتی ہے اور خنکی ہوا کی ذات سے الگ ہے اور اس کا وجود بھی غیرمستقل ہے اسی طرح چھونے سے نرمی سختی ملائمت خشونت جو کچھ محسوس ہوتی ہے یہ جسم کی ذات نہیں ہے اسی قیاس پر بو و ذائقہ کو بھی سمجھ لو حاصل یہ ہوا کہ باتفاق تمام صوفیہ و فلاسفہ عالم اجسام ہرگز محسوس نہیں ہے ہاں اس کے کچھ اعراض آثار محسوس ہیں لیکن یہاں سے فلاسفہ و صوفیہ کی راہ بدل گئی فلاسفہ یہ کہتے ہیں کہ اعراض کے لئے ہر قسم کی ہستی ہے گو وہ قائم بالغیر سہی اور صوفیہ کہتے ہیں کہ یہ محض اعتبارات و اوہام ہیں بس دریا ہی دریا ہے موج و حباب کی تفصیل ذہن کے اوہام میں سے ہے جیسے فلک کے لئے فوقیت اور ارض کے واسطے تحیت ذہن نے اختراع کر لی ہے ورنہ فلک و عرض کے سوا فوقیت و شخصیت کوئی ہستی نہیں رکھتی اور اس کے سب فلاسفہ بھی قائل ہیں کہ ذہن انتزاعات و اضافات کو بھی موجود سمجھتا ہے خلاصہ یہ کہ فلاسفہ کی رائے میں چند اعراض کے سوا محسوس مشاہد کچھ نہیں ہے اور یہ اعراض بھی بذاتہا قیام وجود سے عاری ہیں اور صوفیہ کہتے ہیں کہ ان کے لئے جس قدر ہستی کے تم قائل ہو یہ بھی محض وہم ہے اُن کے نزدیک عالم کی اصل یہ ہے کہ وحدت متحیز ہوئی نقطہ پیدا ہوا نقطہ متحرک ہوا خط پیدا ہوا خط کی حرکت سے سطح اور سطح کے تموج سے عالم اجسام ظاہر ہوا اور اس قسم کا عالم محض وہمی چیز ہے یہ معنی ہیں اس مصرع کے :
’ جزو ہم نہیں ہستی اشیاء مرے آگے ،
دوسری نظر اس شعر میں یہ ہے کہ منظور عربی لفظ ہے لیکن جس معنی پر مصنف مرحوم نے اسے باندھا ہے اس معنی پر عربی میں اس کا استعمال نہیں ہے ایک شعر نون کی ردیف میں گذر چکاہے :
شاہد ہستی مطلق کی کمر ہے عالم
لوگ کہتے ہیں کہ ہے پر ہمیں منظور نہیں
یہاں بھی منظور کو مرئی و مبصر کے معنی پر لیا ہے مگر محاورہ اس کے مساعد ہیں۔
ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتے
گھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے
یعنی میں اس قدر خاک اُڑاتا ہوں کہ صحرا گرد میں چھپ جاتا ہے اور دریا میرے آگے سر پٹکتا ہے یعنی زمین سے دریا نکل آتا ہے یا یہ کہ سیلاب اشک آنکھوں سے زمین تک پہنچ جاتا ہے۔
مت پوچھ کہ کیا حال ہے میرا تیرے پیچھے
تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے
’ تیرا مرے آگے ، کی جگہ اگر ’ میرا ترے آگے ، ہوتا تو شعر کا حسن بہت زیادہ ہو جاتا مگر زمین کے خلاف ہونے سے مصنف نے اُلٹ دیا اور اس میں بھی ایک معنی پیدا ہو گئے کہ تو اپنی بے اعتنائی یا حسن کو میری آنکھ سے دیکھ اور اسی پر قیاس کر لے کہ تیری مفارقت میں میرا کیا حال ہوتا ہو گا۔
سچ کہتے ہو خودبین و خود آرا ہوں نہ کیوں ہوں
بیٹھا ہے بتِ آئینہ سیما مرے آگے
یعنی تم سا آئینہ جبیں میرے سامنے ہو تو کیوں نہ میں خودبیں ہوں اور پھر کیوں نہ میں خودآرائی کروں۔
پھر دیکھئے اندازِ گل افشانی گفتار
رکھ دے کوئی پیمانۂ و صہبا مرے آگے
شراب سامنے آئے تو ذہن کھلے۔
نفرت کا گماں گذرے ہے میں رشک سے گذرا
کیوں کر کہوں لو نام نہ اُن کا مرے آگے
مطلب یہ ہے کہ کسی کو معشوق کا نام لیتے ہوئے سن کر رشک سے ناگوار بھی ہوتا ہے اور منع کرتے بھی نہیں بن پڑتا کہ اگر یہ کہوں کہ اس کا نام میرے آگے نہ لو تو نفرت کا شبہ لوگوں کو گذرے گا۔
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
یعنی کعبہ پیچھے پڑکے روکتا ہے کہ اُدھر نہ جا اور سامنے کلیسا کھینچ رہا ہے کہ اِ دھر چلا آ۔
عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مرا کام
مجنوں کو برا کہتی ہے لیلیٰ مرے آگے
یعنی وہ کہتی ہے کہ اس سے تو ہی اچھا ہے۔
خوش ہوتے ہیں پر وصل میں یوں مر نہیں جاتے
آئی شبِ ہجراں کی تمنا مرے آگے
یہ شعر اس زمین میں بیت الغزل ہے مطلب یہ ہے کہ شبِ ہجراں میں جو میں نے مرنے کی تمنا کی تھی آج وہ بڑا بول میرے آگے آیا کہ وصل کی خوشی میں مرگیا وصل کی خوشی میں مرجانا اور لوگ بھی باندھا کرتے ہیں مگر یہ بات ہی اور ہے اور ساری کرامات محاورہ اور زبان کی ہے جس نے مرنے کے مضمون کو زندہ کر دیا فکر غالبؔ کے کارناموں میں یہ شعر بھی شمار کرنا چاہئے
ہے موجزن اک قلزم خوں کاش یہی ہو
آتا ہے ابھی دیکھئے کیا کیا مرے آگے
اشک خونیں کا دریا جو آنکھوں کے آگے موجزن ہے کاش اسی پر اکتفا ہو مگر یہ اُمید کہاں۔ آتا ہے ابھی الخ۔
گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے
یہ شعر بھی مصنف کے جیدؔ اشعار میں مشہور ہے مگر تمنا والے شعر کو نہیں پہنچتا۔
ہم پیشہ وہم مشرب و ہم راز ہے میرا
غالبؔ کو برا کیوں کہو اچھا مرے آگے
بظاہر مصنف کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ معشوق کی طرف خطاب کیا ہے اور وہ یہ نہیں جانتا کہ غالبؔ یہی ہے۔
_______
کہوں جو حال تو کہتے ہو مدعا کہئے
تمہیں کہو کہ جو تم یوں کہو تو کیا کہئے
’ تم ، یعنی کوئی اور بھی نہیں تم جو میرے مطلب سے خوب واقف ہو اور میرا حال سن کر تجاہل سے کہتے ہو کہ مطلب اپنا تو کہئے اس بات کے جواب میں بھلا میں کیا کہوں۔
نہ کہیو طعن سے پھر تم کہ ہم ستمگر ہیں
مجھے تو خو ہے کہ جو کچھ کہو بجا کہئے
مقام اس کلام کا یہ ہے کہ معشوق نے طنز سے کہا تھا کہ ہم تو ستمگر ہیں اُنھوں نے بجا کہہ دیا اس پر اُسے غصہ آگیا کہ اللہ اکبر یہ ہم کو سچ مچ ستمگر سمجھتا ہے اُس کے عذر میں یہ بگڑکر کہہ رہے ہیں کہ نہ کہیو طعن سے الخ بڑا لطف اس شعر میں یہ ہے کہ اس کے مخاطب ہونے سے ایسی محویت ہو جاتی ہے کہ کلام و خطاب پر بے معنی سمجھے ہوئے بجا و درست کہنے لگتے ہیں اور چیتے کب کہ جب اُسے غصہ آگیا۔
وہ نیشتر سہی پر دل میں جب اُتر جاوے
نگاہ ناز کو پھر کیوں نہ آشنا کہئے
دل میں اُتر جانا اور دلنشیں ہو جانا اور دل کو لگ جانا ان سب محاوروں کے معنی یہ ہیں کہ کسی چیز کو دل نے قبول کر لیا اور اُسے مان لیا۔
نہیں ذریعۂ راحت جراحت پیکاں
وہ زخم تیغ ہے جس کو کہ دلکشا کہئے
دلکشا وہ چیز جس سے دل تنگی دفع ہو اور انشراح خاطر حاصل ہو لذت زخم کو بتفصیل بیان کرتے ہیں کہ تیرگی جراحت باعث راحت نہیں ہوتی زخم تیغ کا کیا پوچھنا کہ اس سے دل خوش ہو جاتا ہے راحت و جراحت میں جیسی تجنیس ہے یہی فن بدیع میں معتبر ہے یعنی تلفظ میں تشابہ ہو اور جس طرح کی تجنیس کہ لوگ کہا کرتے ہیں یعنی محض خط و رسم میں مشابہت ہو مثلاً جراحت و خراجت یہ نرمی خرافت ہے۔
جو مدعی بنے اُس کے نہ مدعی بنیے
جو ناسزا کہے اُس کو نہ ناسزا کہئے
گو کہ غزل میں رندی و شاہد پرستی کے مضمون بہت حسن دیتے ہیں مگر کبھی کبھی شعرا قافیہ کی طرف سے مجبور ہوکر اخلاقی مضمون بھی کہہ جایا کرتے ہیں اور وہ جب ہی تک حسن دیتا ہے جب تک ایک آدھ شعر ایسا ہو جہاں غزل میں ایسے ہی مضامین کا التزام ہوتا ہے وہ غزل غزل نہیں رہتی بلکہ قصیدہ و موعظہ کہنا چاہئے ، اس شعر میں بنیے کا نام آجانا مذاق اہل لکھنؤ میں گراں گذرتا ہو گا اور البتہ برا معلوم ہوتا ہے۔
کہیں حقیقت جاں کا ہی مرض لکھئے
کہیں مصیبت ناسازیِ دوا کہئے
کبھی شکایت رنج گراں نشیں کیجئے
کبھی حکایت صبر گریز پا کہئے
بس ہماری یوں ہی گذر رہی ہے اور ہماری تقدیر میں یہی لکھا ہے کہ ایک ایک کے آگے دُکھڑا روئیے ایک ایک سے شکایت کرتے پھرئیے کبھی غم کے ہاتھ سے دُہائی دیجئے کبھی صبر کی بے وفائی پر فریاد کیجئے۔
رہے نہ جان تو قاتل کو خوں بہا دیجئے
کٹے زبان تو خنجر کو مرحبا کہئے
خوں بہا دینے سے یہاں خوں بہا بخش دینا مراد ہے۔
نہیں نگار کو اُلفت نہ ہو نگار تو ہے
روانی روش و مستی ادا کہئے
یعنی اُس کے عیب کو کیوں دیکھئے جو خوبیاں ہیں اُس کا ذکر کیوں نہ کیجئے۔
نہیں بہار کو فرصت نہ ہو ، بہار تو ہے
طراوت چمن و خوبی ہوا کہئے
اس شعر کا مطلب بھی وہی ہے جو پہلے شعر میں گذرا اور فرصت سے فرصت قیام وفا مراد ہے۔
سفینہ جب کہ کنارے پہ آلگا غالبؔ
خدا سے کیا ستم وجور ناخدا کہئے
یعنی کسی نے برائی کی ہو اور وہ وقت گذر گیا ہو تو اُسے بھول جانا چاہئے اور دل میں نہ رکھنا چاہئے لقمان نے چار باتوں میں حکمت اخلاق کو منحصر کر دیا ہے اُن میں سے ایک بات یہ بھی ہے یعنی چار باتوں میں دو باتیں یاد رکھنے کی ہیں موت کا آنا اور خدا کا حاضر و ناظر ہونا اور دو باتیں بھول جانے کی ہیں کسی پر کچھ احسان کیا ہو یا کسی نے کچھ برائی کی ہو ان دونوں باتوں کو بھول جائے۔
_______
رونے سے اور عشق میں بے باک ہو گئے
دھوئے گئے ہم اتنے کہ بس پاک ہو گئے
شرم و حجاب سب دھو گیا پاک شہیدِ آب ہو گئے لفظ اور زیادتی کے معنی پر ہے۔
صرف بہائے مئے ہوے آلات مے کشی
تھے یہ بھی دو حساب سو یوں پاک ہو گئے
ایک حساب یہ تھا کہ شراب کہاں سے پئیں دوسرا یہ کہ آلات مے کشی کو کہاں باندھے پھریں بس یہی دو حساب ہمارے سر تھے یہ اس طرح سے پاک ہوئے کہ آلات کو بھی بیچ کر شراب پی لی تعلقات و تکلفات کے بکھیڑے سے الگ چھٹے اور شراب کی شراب پینے کو ملی رندوں کا حسن سلیقہ اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتا ہے۔
رُسوائے دہر گو ہوے آوارگی سے تم
بارے طبیعتوں کے تو چالاک ہو گئے
طعن کرتے ہیں معشوق پر طبیعتوں کا چالاک ہونا محاورہ ہے اس مقام پر جمع اور مفرد دونوں طرح بولتے ہیں لیکن مصنف پہلے شخص ہیں جنھوں نے جمع کے ساتھ نظم کیا اور تازگی لفظ اسی کو کہتے ہیں۔
کہتا ہے کون نالۂ بلبل کو بے اثر
پردہ میں گل کے لاکھ جگر چاک ہو گئے
ادعا کرتے ہیں کہ پھول نہیں کھلے ہیں بلکہ اثر فریاد سے لاکھوں جگر چاک ہو گئے ہیں۔
پوچھے ہے کیا وجود و عدم اہل شوق کا
آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہو گئے
یعنی خس و خاشاک آگ میں مل کر آگ ہو گئی اب نہ موجود اُسے کہہ سکتے ہیں نہ معدوم کہہ سکتے ہیں فنا فی الشوق ہے۔
کرنے گئے تھے اُس سے تغافل کا ہم گلہ
کی ایک ہی نگاہ کہ بس خاک ہو گئے
ادھر نگاہ میں کیا گرمی تھی ادھر تحمل کرنے میں کیا ناطاقتی تھی کہ خاک ہوکر رہ گئے کرنا اس سرے پر اور گلہ اُس سرے پر ثقل سے خالی نہیں۔
اس رنگ سے اُٹھائی کل اُس نے اسدؔ کی نعش
دُشمن بھی جس کو دیکھ کے غمناک ہو گئے
کس رنگ سے اُٹھائی آیا تشہیر کی یا نعش کی توقیر کی کہ خود کاندھا دیا یا خود سوگ رکھا ان دونوں معنوں میں کسی کی تعیین نہ ہونا یہ سبب ہے جو شعر سست معلوم ہوتا ہے شاعر کے لئے ایک فائدہ کی بات یہ بھی یہاں ہے کہ اس کو سمجھ لے ’ ی ، گرنا اُردو لفظوں میں سے جائز ہے لیکن جہاں فعل میں سے یائے معروف گرتی ہے ثقل وزن میں ضرور ہو جاتا ہے ، اگر ایک مصرع میں یائے معروف و یائے مجہول دونوں جمع ہوں اور اُن میں سے ایک کا گرانا کافی ہو تو یائے مجہول کو گرانا چاہئے اور یائے معروف کو باقی رکھنا چاہئے مثلاً مصنف کا یہ مصرع اس رنگ سے اُٹھائی کل اُس نے اسد کی نعش۔ اس کو یوں کہنا بہتر تھا : ’ اس رنگ سے کل اُس نے اُٹھائی اسدؔ کی نعش ،۔
نشہ ہا شادابِ رنگ و سازہا مستِ طرب
شیشۂ مے سر و سبز جوئبار نغمہ ہے
نشہ راگ و رنگ سے شاداب ہے اور ساز نشۂ طرب سے سرشار ہیں یعنی شراب کو نغمہ میں اور نغمہ کو شراب میں اس قدر سرایت ہے کہ مینائے شراب سر و کنار جوئبار نغمہ ہے سرو کی تشبیہ مینا سے پرانی ہے اور جوئبار کی تشبیہ نغمہ سے جدید و لذیذ۔
ہم نشیں مت کہہ کہ برہم کر نہ بزم عیش دوست
واں تو میرے نالہ کو بھی اعتبار نغمہ ہے
ہم نشیں یہ کہہ رہا ہے کہ تو نالہ کر کے عیش کی صحبت کو برہم کرے گا یہاں تو چپکا رہ اُس کا جواب یہ ہے کہ میرے نالہ اُس کی محفل میں تو نغمہ کا اعتبار رکھتے ہیں یعنی میرے نالہ سن کر وہ اور خوش ہوتا ہے اُس کا عیش کیوں برہم ہونے لگا۔
_______
عرضِ نازِ شوخیِ دنداں برائے خندہ ہے
دعویٰ جمعیتِ احباب جائے خندہ ہے
کہتے ہیں کہ دانتوں کو اپنی شوخی و خوبی پر جو ناز ہے اُس کا ظاہر کرنا ہنسی ہی کے لئے ہوا کرتا ہے۔ مطلب یہ کہ ہنسنے ہی کے وقت دانت کھلتے ہیں یہ پہلے مصرع کے معنی ہوئے دوسرے مصرع کا مطلب یہ ہے کہ جمعیت و اتفاق احباب پر بھروسہ کرنا قابل ہنسی ہی کے ہے اور ربط یہ ہے کہ دانتوں کے چوکے کو مجمع احباب سے شعرا تشبیہ دیا کرتے ہیں تو الی اضافات و رکیک تکلفات اس شعر میں بھرے ہوئے ہیں شوخی دنداں نہایت مکروہ لفظ ہے مصنف کی شوخی طبیعت نے خوبی کو سامنے کا لفظ سمجھ کر چھوڑدیا ورنہ وہ بہتر تھا۔
ہے عدم میں غنچہ محو عبرت انجام گل
یک جہاں زانو تامل در قفائے خندہ ہے
تامل و فکر سر بزانو ہونے سے تعلق ہے تو تامل کے لئے پیمانۂ مقدار مصنف نے زانو کو فرض کیا اور یہ کہا کہ غنچہ ہنسنے کے بعد اس سوچ میں ہے کہ گل کا انجام کیا ہو گا لیکن اس سوچ کی اور تامل کی مقدار زانو بھر ہے اُس کو ’’ یک جہاں زانو ‘‘ کہہ کر بیان کیا ہے اور یہ جو کہا کہ عدم میں غنچہ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ غنچہ جب ہنسا یعنی کھلا تو وہ گل ہو گیا اور غنچہ نہ رہا تو اب انجام گل پر یک جہاں زانو تامل کرنا غنچہ کا عدم میں ہے اس قسم کے شعر کو محض کلام موزوں اور چیستاں یا معمے وغیرہ کہہ سکتے ہیں اور انصاف یہ ہے کہ جادۂ مستقیم سے خارج ہے۔
کلفت افسردگی کو عیش بے تابی حرام
ورنہ دنداں در دل افشردن بنائے خندہ ہے
دل کی افسردگی و گرفتگی و تنگی و انقباض کی حالت میں بے تابی و بے صبری کرنا حرام ہے نہیں تو بے تاب ہوکر دل کو چبا ڈالیں تو ابھی ساری افسردگی نکل جائے یعنی دندان دردل افشردن و اشد دل کا باعث ہو اور واشد دل سبب خندہ ہو یا زخم دل کا باعث ہو اور زخم خنداں اس سے حاصل ہو اس شعر میں افسردہ دلی کے مقابلہ میں بے تابی کو عیش قرار دیا ہے یعنی افسردگی میں وہ کلفت ہے کہ بے تابی اس کے بہ نسبت عیش ہے۔
شورش باطن کے ہیں احباب منکر ورنہ یاں
دل محیط گریۂ و لب آشنائے خندہ ہے
یعنی گو ظاہر ہمارا رندانہ ہے لیکن باطن خضوع و خشوع سے بھرا ہے آشنا کا لفظ محیط کے مناسبات میں سے ہے آشنا پیراک کو کہتے ہیں اور محیط کو فارسی والے دریا کے معنی پر بندھا کرتے ہیں اصلی معنی اس لفظ کے گھیرنے والے کے ہیں اور سمندر کو بحر محیط اس وجہ سے کہتے ہیں کہ براعظم کو گھیرے ہوئے ہے مگر تمام فارسی والوں نے دھوکا کھایا وہ یہ سمجھے کہ محیط نام ہے جیسے بحرقلزم نام ہے اور اضافت بیانیہ ہے اسی طرح وہ سمجھے کہ بحر محیط میں بھی اضافت توصیفی ہے جو کہ قید واقع ہوئی ہے بحر کی۔ یہاں لفظ بحر کو ترک کر کے فقط محیط پر اکتفا کر لینا دُرست نہ تھا مگر اس میں مصنف کی تخصیص نہیں ہے جو فارسی والے حقیقت الفاظ عربی سے ناآشنا ہیں وہ بے تکلف لفظ محیط کو دریائے شور کے معنی پر باندھتے ہیں اور اُن کا باندھنا مصنف کے لئے سند ہے۔
_______
حسن بے پروا خریدار متاع جلوہ ہے
آئینہ زانوئے فکر اختراع جلوہ ہے
کہتے ہیں حسن باوجود یہ کہ بے نیاز و بے پروا ہے لیکن آرائش و جلوہ گری کی خواہش اُسے بھی رہتی ہے اور آئینہ اُس کے لئے زانوئے فکر ہے یعنی آرائش میں اختراع و ایجاد کی فکر آئینہ ہی میں ہوا کرتی ہے۔ حالتِ فکر میں سربزانو ہونا عادت میں داخل ہے اسی سبب سے فارسی والوں کے ادب میں زانو فکر کے مناسبات میں سے ہے اور زانو کو آئینہ کہنا ایک مشہور بات ہے یہاں مصنف نے بالعکس آئینہ کو زانو کہا ہے یعنی حسن کے فکر کرنے کا زانو آئینہ ہے اس سبب سے کہ حسینوں کو آئینہ سے تعلق رہتا ہے اور آئینہ میں وہ فکر آرائش کیا کرتے ہیں تو آئینہ زانوئے فکر اختراع جلوہ ہوا۔
تاکجا اے آگہی رنگ تماشا باختن
چشم وا گر دیدہ آغوش وداع جلوہ ہے
رنگ باختن و رنگ شکستن رنگ بدلنے کے معنی پر ہے اور تماشا سے تماشائے عالم مراد ہے اور چشم وا گردیدہ سے وہ آنکھ مراد ہے جو تماشائے عالم میں محو ہے کہتے ہیں اے معرفت و آگاہی تو کب تک رنگ تماشا کو اختیار کئے رہے گی اور کہاں تک عالم کی سیر میں محو رہے گی یہ سمجھ لے کہ عالم بے ثبات پر آنکھ کھولنا گویا اُس کے وداع کے لئے آغوش کو کھولنا ہے یعنی جلوۂ عالم کے لئے بہت ہی کم قیام و ثبات ہے۔
_______
جب تک دہان زخم نہ پیدا کرے کوئی
مشکل کہ تجھ سے راہ سخن وا کرے کوئی
یعنی جب تک کوئی زخم عشق نہ اُٹھائے مشکل ہے کہ تو اُس پر التفات کرے۔
عالم غبارِ وحشتِ مجنوں ہے سربسر
کب تک خیال طرۂ لیلیٰ کرے کوئی
یعنی عالم ایک نمائش سراب ہے کب تک اُسے موج دریا سمجھا کریں۔
افسردگی نہیں طرب انشائے التفات
ہاں درد بن کے دل میں مگر جا کرے کوئی
کہتے ہیں میری تنگ دلی ایسی نہیں ہے کہ کوئی التفات کر کے خوش ہو یعنی کسی کے التفات کرنے سے میری گرفتگی خاطر نہیں رفع ہوتی ہاں درد بن کر دل میں کوئی جگہ پیدا کرے تو کرے غرض کہ تنگی دل کی یہ حالت ہے کہ افسردگی و بوالہوسی میں طرب التفات معشوق نہیں حاصل ہوتا ہاں درد عشق کوئی پیدا کرے تو اس کے دل میں جگہ ہو۔ طرب اور نشاط دونوں لفظ عربی ہیں اور ترکیب فارسی ہے یعنی خوشی پیدا کرنے والی اس لئے کہ انشا کے معنی پیدا کرنے کے ہیں اور یہ بہت انوکھی ترکیب ہے غالبؔ سے ایسی رکاکت بعید ہے عجب نہیں کہ انھوں نے طرب افزائے التفات کہا ہو بلکہ یقین ہے کہ ایسا ہی ہو گا۔
رونے سے اے ندیم ملامت نہ کر مجھے
آخر کبھی تو عقدۂ دل وا کرے کوئی
’ سے ، اس شعر میں فارسی کا ترجمہ ہے محاورہ اُردو کے اعتبار سے یہ ’ پر ، کا مقام ہے عقدۂ دل کے وا کرنے سے دل کھول کر رونا مقصود ہے۔
چاک جگر سے جب رہ پرسش نہ وا ہوئی
کیا فائدہ کہ جیب کو رُسوا کرے کوئی
ہم نے جگر کو چاک کیا مگر پرسش کی راہ نہ کھلی یعنی کوئی پرسان حال نہ ہوا۔ اب گریبان پھاڑکر اپنے تئیں رُسوا کرنے سے کیا فائدہ۔
لختِ جگر سے ہے رگ ہر خار شاخ گل
تاچند باغبانی صحرا کرے کوئی
یعنی صحرا نوردی میں جگر کے ٹکڑے جو میرے آنسوؤں میں ملے ہوئے نکلے اُس سے ہر ایک کانٹا شاخ گل بن گیا ہے اب صحرا کی بہار میں کیا بات باقی رہی جو کوئی باغبانی کرے۔
ناکامی نگاہ ہے برق نظارہ سوز
تو وہ نہیں کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی
کہتے ہیں تو دیکھنے میں آہی نہیں سکتا طور پر جس صاعقہ نے نظارہ کو جلادیا وہ تو نہ تھا بلکہ ہماری ناکامی نگاہ بجلی بن کر گری تھی اور تجھ کو تماشا کرے یعنی تجھ کو دیکھے فارسی کا ترجمہ لفظی ہے۔
ہر سنگ و خشت ہے صدف گوہر شکست
نقصاں نہیں جنوں سے جو سودا کرے کوئی
جنون کا سودا اپنے سر لینے میں کچھ نقصان نہیں ہے اس لئے کہ جو پتھر اور ڈھیلا لڑکے سر پر مارتے ہیں وہ ایک صدف ہے جس کا موتی شکست سر ہے۔
سر بر ہوئی نہ وعدۂ صبر آزما سے عمر
فرصت کہاں کہ تیری تمنا کرے کوئی
یعنی ہم میعاد و انتظار ہی میں مرگئے تمنا کرنے کا وقت ہی نہ آنے پایا لیکن بہتر یہ تھا کہ یوں کہتے کہ حصول تمنا کا وقت ہی نہ آنے پایا اور ارمان نکالنے کا موقع ہی نہ ملا مگر زمین شعر نے اس معنی کی طرف راہ نہ دی۔
ہے وحشت طبیعت ایجاد یاس خیز
یہ درد وہ نہیں کہ نہ پیدا کرے کوئی
معنی آفرینی و اخلاقی مضامین و ایجاد و اختراع لطائف ایسا وحشی فن ہے جس سے یاس پیدا ہوتی ہے پھر بھی سب اس مرض میں مبتلا ہیں۔ ایجاد کے مناسبات سے ’ پیدا کرنا ، اور درد کو پیدا کرنا جس کے لئے پیدائی نہیں ، لطف سے خالی نہیں۔
بیکاریٔ جنوں کو ہے سر پیٹنے کا شغل
جب ہاتھ ٹوٹ جائیں تو پھر کیا کرے کوئی
اس شعر میں ’ کو ، کی جگہ ’ میں ، بہتر تھا اور ہاتھ ٹوٹ جانے سے بیکار رہنا اور بے شغل ہو جانا مراد ہے یعنی جنوں میں بیکار و بے شغل بیٹھے بیٹھے دم اُلجھتا ہے لاؤ سر ہی پیٹیں جب تک اور جو اس طرح بیکار بیٹھا ہو وہ سر نہ پیٹے تو کیا کرے قاعدہ ہے آدمی اُکتا کے سر پیٹ لینا ہے۔
حسن فروغِ شمع سخن دُور ہے اسدؔ
پہلے دلِ گداختہ پیدا کرے کوئی
یعنی شمع کی طرح پہلے دل گداختہ پیدا کرے اس کے بعد فروغ شعلہ سخن کی خواہش کرے۔
_______
ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دُکھ کی دوا کرے کوئی
یعنی کوئی عیسیٰ وقت ہے تو ہوا کرے میرے درد کی دوا کرے تو میں جانوں۔
شرع و آئین پر مدار سہی
ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی
جو بے تلوار کے قتل کرتا ہے۔ واؤ عطف پہلے مصرع میں فارسی کاہے اس سبب سے لفظ آئین ترکیب فارسی میں ہے اور پھر باعلان نون ہے مصنف مرحوم کا اس بات میں یہی مذہب معلوم ہوتا ہے کہ اُردو کلام میں ایسے مقام پر وہ اعلان نون کو دُرست جانتے ہیں اور فارسی کلام بھر میں اُن کے کہیں اس طرح اعلان نون نہیں دیکھا یعنی فارسی کلام میں اہل زبان کا اتباع کرتے ہیں اور اُردو میں نہیں کرتے۔
چال جیسے کڑی کمان کا تیر
دل میں ایسے کے جا کرے کوئی
کڑی کمان کا تیر بہت تیز پرواز ہوتا ہے معشوق کی بے اعتنائی کی چال کو اُس سے تشبیہ دی ہے اور اس شعر کا پہلا مصرع سارے کا سارا محاورہ ہے اور دوسرے مصرع میں استفہام انکاری ہے یعنی ایسے کے دل میں کہیں جگہ ہو سکتی ہے۔
بات پرواں زبان کٹتی ہے
وہ کہیں اور سنا کرے کوئی
’ کہیں ، کے معنی گالیاں دینا۔
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
کچھ نہ سمجھے الخ میں دو پہلو نکلتے ہیں ایک تو یہ کہ غرض یہی ہے کہ کوئی سمجھے اور التفات کرے مگر اپنے بکنے پر آپ ہی تشنیع کی ہے اور غالباً یہی معنی مقصود مصنف ہیں اور دوسرے یہ کہ غرض یہی ہے کہ کوئی نہ سمجھے اور راز فاش نہ ہو ، جیسے رندؔ نے کہا ہے :
جو دل کا حال ہے فر فر بیان کرتی ہے
یہ بیر لیتی ہے مجھ سے مری زباں کب کا
نہ سنو گر برا کہے کوئی
نہ کہو گر برا کرے کوئی
روک لو گر غلط چلے کوئی
بخش دو گر خطا کرے کوئی
دونوں شعروں میں تشابہ ترکیب سے بندش میں حسن پیدا ہوا ہے اور پہلے شعر میں کہنے کی لفظ میں تکرار ہونا بھی لطف سے خالی نہیں۔
کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند
کس کی حاجت روا کرے کوئی
یعنی اپنا کام نہ نکلے تو کسی کی شکایت کرنا بے جا ہے ہر شخص کو اپنی اپنی پڑی ہے دوسرا پہلو یہ ہے سبھی حاجت مند ہیں کس کس کی حاجت روائی کیجئے۔ یہ نکتہ یاد رکھنے کاہے کہ کلام میں کئی پہلو ہونا کوئی خوبی نہیں ہے بلکہ سست و ناروا ہے ہاں معانی کا بہت ہونا بڑی خوبی ہے اور ان دونوں باتوں میں بڑا فرق ہے۔
کیا کیا خضر نے سکندر سے
اب کسے رہنما کرے کوئی
’ کیا کیا ، یعنی کچھ بھی نہ کیا ’ اب کسی ، الخ یعنی اب کسی پر بھروسہ نہ کرنا چاہئے۔
جب توقع ہی اُٹھ گئی غالبؔ
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
اس کی تعریف کیا کرے کوئی نہایت عالی مضمون ہے جس کی تعریف نہیں ہو سکتی مطلب یہ ہے کہ جس شخص کی اُمید منقطع ہو گئی ہو پھر اُس کا گلہ کیوں کریں کہ فائدہ تو کچھ ہو گا نہیں اور نفرت و دُشمنی پیدا ہو گی۔
_______
باغ پا کر خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے
سایۂ شاخِ گل افعی نظر آتا ہے مجھے
یہ کا اشارہ ہے افعی کے نظر آنے کی طرف خوبی تشبیہ کے علاوہ یہ تازگی ہے کہ خفقان کو ڈرنے کی وجہ قرار دیا ، برخلاف عام شاعروں کے کہ وہ یوں کہتے۔ باغ یاد رُخ و کاکل میں ڈراتا ہے مجھے۔ جو لوگ صاحبِ تجربہ ہیں وہ سمجھ گئے ہوں گے کہ نظیری کے شعر سے اس تشبیہ کی طرف مصنف کا ذہن منتقل ہوا ہے ، وہ شعر یہ ہے :
بزیر شاخ گل افعی گزیدہ بلبل را
نوا گران نخوردہ گزندرا چہ خبر
جوہر تیغ بسر چشمۂ دیگر معلوم
ہوں میں وہ سبزہ کہ زہر اب اُگاتا ہے مجھے
زہر اب سے غم و غصہ مراد ہے یعنی میری سرشت غم غصہ سے ہے۔ پھر اسی پر افتخار کرتے ہیں کہ تلوار کا جوہر تلوار ہی میں ہوتا ہے کسی اور چشمہ پر یہ سبزہ کجا مصنف مرحوم نے غفلت کی کیوں کہ ایران میں زہر اب اہل زبان پیشاب کو بھی کہتے ہیں اس لفظ سے بچنا چاہئے تھا۔
مدعا محو تماشائے شکست دل ہے
آئینہ خانہ میں کوئی لئے جاتا ہے مجھے
حصول مدعا سے دل ٹوٹ گیا تو مدعا دل کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑوں کا تماشا دیکھ رہا ہے اور دل آئینہ تھا جب وہ ٹوٹا تو بہت سے آئینہ پیدا ہو گئے اور آئینہ خانہ بن گیا یہ طرز شعر مقبول نہیں ہے
نالہ سرمایۂ یک عالم و عالم کف خاک
آسماں بیضۂ قمری نظر آتا ہے مجھے
آسمان پر بیضۂ قمری کی پھبتی کہی ہے کہ جس میں کف خاک کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور اس مٹھی بھر خاک کی قسمت میں بھی عمر بھر کی نالہ کشی لکھی ہوئی ہے اگر یہ کہو کہ بیضۂ قمری کیوں کہا بلبل بھی ایک مشت خاک ہے کہ نالہ کشی کے لئے پیدا ہوئی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ فارسی والے قمری کو کف خاکستر باندھا کرتے ہیں اس لئے کہ اس کا رنگ خاکستری ہوتا ہے ، صائب کہتے ہیں :
گر نمی خواہد کہ دل جائے تو ریز درنگ عشق
سرو از قمری بکف چوں مشت خاکستر گرفت
اور خاک و خاکستر میں کچھ ایسا فرق نہیں ہے ہاں بنظر دقیق یہ کہہ سکتے ہیں کہ نالہ کا سرمایۂ عالم اور عالم کا مشت خاک ہونا مقام عبرت و حسرت ہے اور ایسے مقام پر پھبتی اور دل لگی بے محل ہے۔ پھبتی ایک قسم کی تشبیہ ہے جس میں مشبہ پر استہزا کرنا مقصود ہوتا ہے جیسے کسی سیاہ فام چہرہ پر چیچک کے داغ ہوں تو اُسے کوچا ہوا کریلا کہتے ہیں یا یہ کہ گوبر میں اولے پڑے۔ ائمہ فن نے تشبیہ کی ایک غرض یہ بھی لکھی ہے کہ مشبہ کو بدنما کردے لیکن ایسی تشبیہ کا انھوں نے کوئی نام نہیں رکھا ہے اور اُردو میں اس کے لئے نام موجود ہے کہ اُسی کو پھبتی کہتے ہیں ، میر ممنونؔ کہتے ہیں :
قدر کیا چرخ پر اختر کی کہ مطبخ سے ترے
چند اختر ہیں بروئے تودۂ خاکستری
اور اس قسم کی تشبیہ سہل ہے ہاں جس تشبیہ میں یہ غرض ہوکہ بدنما شئے کو خوشنما کردے وہ زیادہ مشکل ہے جیسے ایک عرب نے غلام سیاہ فام کے چہرہ کو ہرن کا چشم و چراغ کہہ کر روشن کر دیا ان دونوں تشبیہوں سے زیادہ اس تشبیہ کا استعمال ہے جس میں یہ غرض ہو کہ مشبہ کی نسبت جو دعویٰ کیا جاتا ہے وہ ممکن ہے مرزا بیدلؔ کا یہ مطلع :
نہ باصحرا سرے دارم نہ باگلزار سودائے
بہر جامی روم از خویش می جو شد تماشائے
اس میں نرا ادعائے شاعرانہ تھا مرزا رفیع سوداؔ نے اس پر مصرع لگائے اور گرہ میں تشبیہ دے کر اس ادعا کو ثابت کر دیا :
نہ بلبل ہوں کہ اس گلشن میں سیر گل مجھے بھائے
نہ طوطی ہوں کہ دل میرا فضائے باغ لے جائے
میں ہوں طاؤس آتشبار کیسی ہی بہار آئے
نہ باصحرا سرے دارم نہ باگلزار سودائے
بہ ہرجامی روم از خویش می جوشد تماشائے
بیدلؔ کا مقطع ہے :
من بیدل حریف سعی بے جا نیستم زاہد
تو وقطع منازلہا من ویک لغزش پائے
زاہد سے کہتے ہیں تو منزلیں طے کیا کر مجھے فنا فی اللہ ہونے کے لئے ایک لغزش پا کافی ہے۔ سوداؔ نے اس ادعا کو ثابت کیا ہے :
نگاہ دیدہ تحقیق تو در اشک ہم زاہد
تو وقطع منازلہا من ویک لغزش پائے
یا جیسے میر انیس کہتے ہیں :
تم جان ہو پھر جان کی رخصت تو ہے دُشوار
اُردو کی اصطلاح میں ایسی تشبیہ کو ثبوت دینا کہتے ہیں۔ اسی طرح کبھی ناممکن ہونے کا ثبوت بھی تشبیہ سے دیتے ہیں جیسے مصنف کا ایک شعر گذرا :
دل سے مٹنا تری انگشت حنائی کا خیال
ہو گیا گوشت سے ناخن کا جدا ہو جانا
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مشبہ کے لئے جو ادعا کیا ہے اس میں کچھ ایسا استبعاد نہیں ہے لیکن تشبیہ سے غرض زیادتی ثبوت ہوتی ہے جیسے میر ممنونؔ کہتے ہیں :
ابروئے کج نے کیا ملک دلوں کو تسخیر
راست ہے ملک اُسی کاہے کہ جس کی شمشیر
اور اس طرح کی تشبیہ بہت کہی جاتی ہے۔
اس سے ادنیٰ مرتبہ اس تشبیہ کاہے جس میں کوئی غرض نہ ہو محض غرابت و ندرت ہو جیسے شیخ ناسخؔ کہتے ہیں :
مسی مالیدہ لب پر رنگ پاں ہے
تماشا ہے تہِ آتش دُھواں ہے
اور یہ تشبیہ بہت سہل اور بہت مستعمل ہے۔
کبھی یہ تصنع و تکلف ایک بات بنانے کے لئے تشبیہ دیتے ہیں جیسے میر ممنونؔ کہتے ہیں :
واہ گردوں سیریاں اس رخس کی ہے آفتاب
یوں رکاب اس کی میں جیسے لعل اور انگشتری
چلبلاہٹ سے کھنچے نقشہ کب اُس کا ہاں مگر
کوند بجلی کی ہو صفحہ خامہ موج صرصری
یہ تشبیہ کسی قدر اُس تشبیہ سے بہتر ہے جس میں محض ندرت ہی ندرت ہو اور لکھنؤ کے شعرا اس طرف بہت مائل ہیں اور کبھی اس تشبیہ دینے سے وجہ شبہ کی مقدار کا بیان کرنا مقصود ہوتا ہے جیسے میر انیس کہتے ہیں :
گھوڑے پہ اس طرح سے شہ انس و جن چڑھے
جس طرح نکلے ابر سے خورشید دن چڑھے
یعنی ممدوح کو آفتاب سے تشبیہ تو دی لیکن کس آفتاب سے جو دن چڑھے دکھائی دے اس بیت میں اور بھی لطائف ہیں جو تشبیہ کے علاوہ ہیں اور جسے میر صاحب کی معجز بیانی کہنا چاہئے ورنہ بیان مقدار کے لئے جو تشبیہ ہوتی ہے وہ اس قدر بدیع نہیں ہوتی۔
کبھی تشبیہ سے یہ غرض ہوتی ہے کہ ایک نامعلوم شئے کی کیفیت دوسروں کی سمجھ میں آجائے جیسے رندؔ کہتے ہیں :
بہار تک ہم اسیروں کی زندگی معلوم
جو پچھنے دل پہ یوں نہیں موسم خزاں دے گا
اندوہ خزاں کو پچھنے لگنے سے استعارہ کیا ہے یہ تشبیہ ادائے مطلب میں بہت کام آتی ہے اور ہر ادیب کو نظم و نثر میں اس قسم کی تشبیہ کی ضرورت پڑتی ہے کبھی تشبیہ کو اُلٹ دیتے ہیں اور اس سے غرض یہ ہوتی ہے کہ مشبہ اتم و اکمل ہے جیسے رند کہتے ہیں :
چشم و ابرو بھی اگر تیرے سے ہوتے اُس کے
ہو چکا تھا رُخِ خورشید پہ دھوکا تیرا
یعنی آفتاب کو معشوق سے تشبیہ دی ہے اور مشہور ہے اُس کا عکس۔
زندگی میں تو وہ محفل سے اُٹھا دیتے تھے
دیکھو اب مرگئے پر کون اُٹھاتا ہے مجھے
اسی لئے جان دے دی کہ اب تو نہ اُٹھاسکیں گے اُٹھانے کی لفظ میں ایہام ہے کہ تجہیز ہوتی کو بھی اُٹھانا کہتے ہیں۔
_______
بہت سہی غم گیتی شراب کیا کم ہے
غلام ساقی کوثر ہوں مجھ کو غم کیا ہے
یعنی یہ مانا کہ دُنیا میں غم بہت ہے مگر بھلانے کے لئے شراب کوثر بھی تو ابد الآباد تک پینے کو موجود ہے۔
تمہاری طرز روش جانتے ہیں ہم کیا ہے
رقیب پر ہے اگر لطف تو ستم کیا ہے
یعنی رقیب پر تمہارا لطف کرنا بھی تو ستم ہے میرے حق میں۔
سخن میں خامۂ غالبؔ کی آتش افشانی
یقیں ہے ہم کو بھی لیکن اب اس میں دم کیا ہے
سخن میں یعنی فن سخن میں۔
_______
روندی ہوئی ہے کو کبۂ شہریار کی
اترائے کیوں نہ خاک سر رہ گذار کی
کوکبہ وہ لوگ جو بادشاہ کی اردلی میں رہتے ہیں۔
جب اُس کے دیکھنے کے لئے آئیں بادشاہ
لوگوں میں کیوں نمود نہ ہو لالہ زار کی
شعر میں کوئی لطف نہیں ہے لیکن اس جملہ شرطیہ سے ایک خبر بھی یہاں نکلتی ہے یعنی بادشاہ باغ کے دیکھنے کو گئے ہیں اور اُن کے وہاں جانے سے رونق ہو گئی جس پر لوگوں کو عجب ہوا ہے۔
بھوکے نہیں ہیں سیر گلستاں کے ہم ولے
کیوں کر نہ کھائیے کہ ہوا ہے بہار کی
فائدہ اس شعر سے یہ نکلتا ہے کہ لذت دُنیا کی خواہش اچھی نہیں لیکن خدا کی دی ہوئی نعمت سے انکار بھی نہ کرنا چاہئے۔
_______
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
غرض یہ ہے کہ جتنے ارمان نکلتے ہیں اس سے زیادہ پیدا ہو جاتے ہیں ، اس سے بہتر یہ ہے کہ پہلے ہی آرزو کو ترک کرے۔ اس مضمون عالی کی جھلک اس شعر میں دکھائی دیتی ہے اور یہی وجہ خوبی شعر کی ہے۔
ڈرے کیوں میرا قاتل کیا رہے گا اس کی گردن پر
وہ خوں جو چشم تر سے عمر بھر یوں دمبدم نکلے
یعنی جو خون کہ آنکھوں سے بہا جاتا ہے وہ جسم میں میرے تو رہتا نہیں قاتل کی گردن پر کیا رہے گا۔
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہوکر ترے کوچہ سے ہم نکلے
نکلے اس سبب سے کہا کہ یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ نکال دئیے گئے۔
بھرم کھل جائے ظالم تیری قامت کی درازی کا
اگر اس طرۂ پرپیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
یعنی زلف سے قد چھوٹا ہے قد کی درازی جبھی تک حسن دے رہی ہے جب تک زلف نہیں کھلی ہے
اگر لکھوائے کوئی اُس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے
گویا تمام شہر سے اُس سے نامہ و پیام ہے اور انھیں اس بات کی ٹوہ ہے کہ دیکھیں لوگ کیا کیا لکھواتے ہیں۔
ہوئی اس دور میں منسوب مجھ سے بادہ آشامی
پھر آیا وہ زمانہ جو جہاں میں جام جم نکلے
جام جم کے بہت سے افسانہ بے سر و پا شاعروں میں مشہور ہیں کہ تمام عالم کی اس سیر تھی اور خطوط تھے اور شراب و جام کا موجد سب سے پہلے جمشید ہوا ہے لیکن یہ سب باتیں بالکل غلط ہیں نہ فردوسی نے اس کا ذکر کیا ہے نہ طبری نے اور یہی دونوں کتابیں شاہان فرس کی تاریخ میں سب کا ماخذ ہیں۔
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغ ستم نکلے
ستم سے فلک کا ستم مراد ہے۔
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اُسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
یعنی جسے دیکھ کر مرنے لگے اُسی کے دیکھے سے جیتے ہیں اور مرنا اور جینا ایک ہی ہوا۔
کہاں مے خانہ کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
یعنی تعجب تو ہم کو بھی ہوتا ہے لیکن اس میں شک نہیں ہے کہ کل جب ہم لوگ پی کر نکلے اور بھیڑ چھٹی تو میدان خالی پا کر وہ بھی مے خانہ میں گیا اور ہم نے اُسے جاتے ہوئے دیکھ لیا حاصل یہ کہ شراب ایسی شئے ہے کہ واعظ بھی چھپ کر پی آتے ہیں۔
_______
کوہ کے ہوں بار خاطر گر صدا ہو جائیے
بے تکلف اے شرار جستہ کیا ہو جائیے
شرار کی ازخود رفتگی و بے تکلفی دیکھ کر کہتے ہیں کہ تیری طرح ہم بھلا کیا بے تکلف ہو جائیں اور کیوں کر ضبط کو ہاتھ سے دیں یہاں تو یہ حال ہے کہ اگر صدا کی طرح سبک و لطیف بن کر تڑپیں تو بھی کوہ ایسے سنگین و پرتمکین جسم کے بار خاطر ہو جائیں غرض یہ کہ جہاں تک ہو سکے ضبط کرنا اور پھونک پھونک کر قدم دھرنا چاہئے نہیں تو سب کے بار خاطر ہو جائے گا وجہ مناسبت اس شعر میں یہ ہے کہ شرار پتھر سے نکلتا ہے اور صدا پہاڑ سے ٹکرا کر پلٹ آتی ہے یعنی اس کی بار خاطر ہوتی ہے اور اسی سبب سے وہ اسے رد کرتا ہے۔
بیضہ آساننگ بال و پر ہے یہ کنج قفس
ازسرنو زندگی ہوکر رہا ہو جائیے
قفس سے رہا ہوکر زندگی ازسرنو ہو جانا محتاج ثبوت تھا اُسے بیضہ آسا کہہ کر مصنف نے ثابت کیا یعنی طائر کی نئی زندگی بیضہ سے نکلنے کے بعد شروع ہوتی ، اسی طرح اس کنج قفس سے یعنی بیضۂ فلک سے رہا ہونے کے بعد نئی زندگی عالم ارواح میں شروع ہو گی۔
_______
مستی بذوق غفلت ساقی ہلاک ہے
موج شراب یک مژۂ خواب ناک ہے
ساقی کی ادائے غفلت شعاری نے مستی کو بھی ہلاک کررکھا ہے اور شراب اس ذوق و شوق میں ایسی بے خود و سرشار ہورہی ہے کہ جو موج شراب ہے وہ دیدۂ ساغر کی مژۂ خواب ناک ہے۔
جز زخم تیغِ ناز نہیں دل میں آرزو
جیب خیال بھی ترے ہاتھوں سے چاک ہے
جیب خیال سے دل مراد ہے اور جب دل میں زخم تیغ ناز ہوا تو جیب خیال چاک ہوئی پھر اس میں آرزو کیوں کر رہ سکے۔
جوش جنوں سے کچھ نظر آتا نہیں اسدؔ
صحرا ہماری آنکھ میں یک مشت خاک ہے
یعنی صحرا کو دیکھ کر ایسا جوش جنوں پیدا ہوا کہ کچھ اب سوجھتا نہیں گویا صحرا میری آنکھ کے لئے مٹھی بھر خاک تھی اور جس آنکھ میں خاک جھونک دی جائے ، اُسے کیا سوجھے گا۔
_______
لب عیسیٰ کی جنبش کرتی ہے گہوارہ جنبانی
قیامت کشتۂ لعلِ بتاں کا خواب سنگیں ہے
کشتۂ لعل و لب کو کس قیامت کی نیند ہے کہ لب عیسیٰ سے زندہ ہونا تو کجا اور غفلت اس کی بڑھتی جاتی ہے گویا جنبش لب عیسیٰ اس کے لئے گہوارہ جنبانی ہے۔ وجہ مناسبت یہ ہے کہ لب معشوق کو مسیحا کہا کرتے ہیں۔
آمد سیلاب طوفان صدائے آب ہے
نقش پا جو کان میں رکھتا ہے انگلی جادہ سے
سچ پوچھو تو یہ شعر بے معنی ہے اور اس سبب سے شرح سے مستثنیٰ ہے مگر تاویل میں بڑی وسعت ہے پہلے مصنف کے ذہن میں یہ تشبیہ آئی ہے کہ جادہ پر جو پاؤں کا نشان ہے وہ جیسے کان میں اُنگلی رکھے ہوئے ہے پھر مصرع لگانے میں اُس کی وجہ بیان کرنے کا ارادہ کیا ہے کہ نقش پا جو کانوں میں انگشت جادہ رکھے ہوئے ہے اس کی وجہ کیا ہے وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ سیلاب صدا کا اُس کو خوف ہے اور صدا کاہے کی پانی کی مگر پانی کہاں سے آیا اس کا کچھ پتہ نہیں لگتا اگر سیلاب کے لفظ میں اضافت نہ بولیں تو بھی کچھ محمل صحیح نہیں نکلتا یعنی طوفان صدائے آب اُس کے حق میں آمد سیلاب ہے کہ وہ کانوں میں اُنگلیاں دئیے ہوئے ہے لیکن اب کہاں سے آیا اور اس کی صدا سے طوفان کیوں برپا ہوا اس کا کچھ ذکر نہیں تاویل یوں کر لیجئے کہ شاعر موسم بہار کا ذکر کر رہا ہے کہ آبشاروں میں جوش و خروش ہے اور مینہ کے دونگڑے پڑرہے ہیں ہر نقش پا طوفان صدائے آب کو سن کر آمد سیلاب سے ڈر رہا ہے اور ڈر اس بات کاہے کہ سیلاب جب آئے گا تو نقش پا کو فنا کردے گا اس سے مطلب یہ نکلا کہ عالم میں ہر شئے کو فنا کا کھٹکا لگا ہوا ہے مگر انصاف یہ ہے کہ یہ معنی جب ہی نکلتے جب کہ انھیں لفظوں میں بیان ہوتے۔
دوسری بحث اس شعر میں قافیہ کے اعتبار سے ہے یعنی اس مصرع میں :
نقش پا کان میں رکھتا ہے اُنگلی جادہ سے
ضرور ہے کہ دال کو زیر دیں اور ’ جادے سے ، کہیں۔ اس لئے کہ سے ، میں ، پر ، تک ، کو ، نے ، کا یہ سات حروف معنویہ زبان اُردو میں ایسے ہیں کہ جس لفظ میں ہائے مختفی ہو اُسے زیر دیتے ہیں غرض کہ اس مصرع میں تو جادہ کی دال کو زبر ہے اور اُس کے بعد کا جو شعر ہے اس میں کہتے ہیں :
شیشہ میں نبض پری پنہاں ہے
موج بادہ سے یہاں بادہ اضافت فارسی کی ترکیب میں واقع اور موج کا مضاف الیہ ہے اب اس پر ترکیب اُردو کا اعراب یعنی سے کے سبب سے زیر نہیں آ سکتا اس لئے کہ اگر ’ موج بادہ سے ، اُسے پڑھیں تو یہ قباحت ہو گی کہ لفظ بادہ میں ہندی تصرف کر کے اور اُسے ہندی لفظ بنا کر ترکیب اضافت فارسی میں داخل کیا بعینہٖ جیسے کوئی کہے ’ عشق بتوں میں یہ حال ہوا ، اور یہ کہنا صحیح نہ ہو گا کیوں کہ لفظ بت میں ہندی تصرف کیا ہے اور ہندی جمع کی علامت اس میں بڑھائی ہے اب وہ ہندی لفظ ہو گیا پھر ہندی لفظ کی طرف عشق کی اضافت کیوں کر دُرست ہو سکتی ہے اس کے علاوہ سے کا عمل اگر ہے تو لفظ موج پر ہے یعنی مطلب یہ ہے کہ موج سے بادہ کی پھر ’ سے ، کے سبب سے بادہ کی دال کو زیر کیوں ہونے لگا غرض کہ جادہ کی دال کو زیر ہے اور بادہ کی دال کو زبر ہے اور قافیے تہ و بالا میں اگر یوں کہو کہ ہم بادہ اور جادہ کی ’ ہ ، کو حرف روی لیتے ہیں تو اختلاف توجیہ کے علاوہ ایک عیب یہ پیدا ہو گا کہ شعر بے قافیہ کے رہ جائے گا اس سبب سے کہ ’ ہ ، وزن سے گرگئی ہے جیسے حکیم مومن خاں صاحب جب ایک مثنوی میں دونوں کے باہم دگر عاشق ہو جانے کے بیان میں کہتے ہیں :
اُس کا ہوش اپنے رنگ کا پیرو
اپنا صبر اُس کے رنگ کا پیرو
اس شعر میں اُس کے اور اپنے کو قافیہ کیا ہے اور حرف روی یعنی ’ ے ، وزن میں نہیں سماتی اب اوسک اور اپن قافیہ کی جگہ رہ گیا میر حسن نے بھی یہ دھوکا کھایا ہے :
گرا اس طرف سے قدم پر جو وہ
تو کہنے لگی مسکرا اس کو وہ
بزم مے وحشت کدہ ہے کس کی چشم مست کا
شیشہ میں نبض پری پنہاں ہے موجِ بادہ سے
’ کا ، کے یہ معنی ہیں کہ کس کی چشم مست نے بزم مے کو وحشت کدہ بنادیا ہے اور موجِ شراب کو نبض پری سے تشبیہ دی ہے تاکہ مطلب یہ نکلے کے پری بزم سے وحشت کر کے شیشہ میں چھپ گئی۔
_______
ہوں میں بھی تماشائے نیرنگ تمنا
مطلب نہیں کچھ اس سے کہ مطلب ہی آوے بر
یعنی تمنا اس لئے کی ہے کہ معلوم ہو اس میں کیا لذت ہے کچھ یہ تمنا نہیں ہے کہ تمنا پوری ہی ہو۔
سیاہی جیسے گرجاوے دمِ تحریر کاغذ پر
مری قسمت میں یوں تصویر ہے شبہائے ہجراں کی
قسمت سے نامۂ قسمت مراد ہے اور فرض یہ کیا ہے کہ خط تقدیر کے حروف سب تصویریں ہیں مثلاً جیسے حروف کہ قدیم مصر میں رواج رکھتے تھے اور جو لوگ کہ شانہ ہیں یا ہاتھ دیکھتے ہیں اُن کا بھی یہی خیال ہے۔
_______
ہجوم نالہ حیرت عاجز عرض یک افغاں ہے
خموشی ریشۂ صد نیستاں سے خس بدنداں ہے
میدان جنگ میں جب کوئی گروہ مغلوب ہو جاتا ہے تو اپنا اظہارِ عجز کرنے کے لئے گھانس پھونس وغیرہ منہ میں دبا کر دکھاتے ہیں کہ لڑائی موقوف کرو یہاں ہجوم نالہ نے لشکر کشی کی ہے اور حیرت ایک نالہ کرنے میں بھی عاجز ہے اور اسی عجز کا اظہار کرنے کے لئے خموشی ریشہ الخ لیکن خس بدنداں ہونے کے لئے ریشۂ نیستاں کی کیا تخصیص ہے یہ کہ وہ نالہ و فریاد کی جڑ ہے کہ ریشہ سے نے پیدا ہوتی ہے اور نے سے نالہ اور حالتِ ضبط میں نالہ چھپے ہوئے ہیں جس طرح ریشہ نیستاں میں نالہ پنہاں ہورہے ہیں حرف ندا مخذوف ہے یعنی اے ہجوم نالہ مراد ہے۔ فقط ہجوم نالہ کو مخاطب کر کے مصنف نے ریشہ صد نیستاں کہنے کا باعث بنادیا۔
تکلف برطرف ہے جاں ستاں تر لطف بد خوباں
نگاہ بے حجاب ناز تیغ تیز عریاں ہے
نگاہ تیغ ہے اور جب نگاہ بے حجاب ہوئی تو تیغ عریاں ہو گئی اور اس کا نگاہ لطف کرنا اور قاتل ہو گیا۔
ہوئی یہ کثرت غم سے تلف کیفیت شادی
کہ صبح عید مجھ کو بدتر ازچاک گریباں ہے
’ یہ ، کا لفظ اس قدر کے معنی پر تمام شعرا باندھا کرتے ہیں لیکن معلوم ہوتا ہے کہ قابل ترک ہے۔
دل و دیں نقد لا ساقی سے گر سودا کیا چاہے
کہ اس بازار میں ساغر متاع دست گرداں ہے
اور دست گرداں مال نقد غنیمت پر بکا کرتا ہے یہاں ساغر کو متاع دست گرداں کہنا ایسا لطف رکھتا ہے کہ دل و دیں نیاز مصنف کرنا چاہئے۔
غم آغوش بلا میں پرورش دیتا ہے عاشق کو
چراغِ روشن اپنا قلزم صر صر کا مرجاں ہے
چراغ کے لئے صر صر آفت و بلا ہے لیکن جس طرح چراغ مرجان تلاطم قلزم میں نہیں بجھتا اسی طرح چراغ عاشق صر صر آفت میں روشن رہتا ہے اور چراغ عاشق سے خود عاشق مراد ہے اور پرورش و تربیت کے ایک ہی معنی ہیں لیکن پرورش کرنا اور تربیت دینا محاورہ واقع ہوا ہے پرورش دینا خلاف محاورہ ہے۔
_______
خموشیوں میں تماشا ادا نکلتی ہے
نگاہ دل سے تری سرمہ سا نکلتی ہے
خموشی اور سرمہ میں شاعر کے ذہن میں ملازمت پیدا ہو گئی ہے اس سبب سے کہ سرمہ کھانے والے کو خموشی لازم ہے کہ اس کی تقریر محض حرف بے صوت ہوتی ہے آواز اس کی نکل نہیں سکتی مصنف نے اس کا عکس کہا ہے یعنی خاموشی میں تیری نگاہ تیرے دل ہی سے سرمہ آلود ہوکر نکلتی ہے یعنی تیری خاموشی ہی نگاہ کو سرمہ آلود کر دیتی ہے۔ یعنی بسبب ملازمت کے خاموشی و سرمہ ایک ہی چیز ہے۔
فشار تنگی خلوت سے بنتی ہے شبنم
صبا جو غنچہ کے پردہ میں جانکلتی ہے
بادِ بہار خلوت غنچہ کے فشار سے شبنم بن جاتی ہے گویا غنچہ اُسے کوچہ تنگ میں پا کر ایسا پہنچتا ہے کہ اُسے مارے شرم کے پسینہ آجاتا ہے۔ اس شعر میں بظاہر بے ارادہ مصنف ایک بات یہ نکل آئی کہ جائے تنگ میں جانکلی اس قسم کا ضلع مصنف کے طرز کے خلاف ہے اس سبب سے معلوم ہوتا ہے کہ بلاقصد یہ بات پیدا ہو گئی لیکن لطف سے خالی نہیں۔
نہ پوچھ سینۂ عاشق سے آب تیغ نگاہ
کہ زخم روزن در سے ہوا نکلتی ہے
یعنی جس دروازہ سے وہ جھانکتا ہے اس میں روزن نہ سمجھو بلکہ تیغ نگاہ نے زخم ڈال دیا اور زخم بھی ایسا گہرا جس میں سے ہوا نکلتی ہے پھر سینۂ عاشق کی کیا حقیقت ہے جس زخم سے ہوا نکلے اور سانس دینے لگے وہ ضرور مہلک ہوتا ہے۔
جس جانسیم شانہ کش زلف یار ہے
نافہ دماغِ آہوئے دشتِ تتار ہے
یعنی جہاں نسیم زلف کی شمیم کواڑا رہی ہو وہاں دماغ آہو بھی نافۂ مشک تتار بن جائے دوسرے مصرع میں غرض مصنف کی یہ تھی کہ دماغ آہو نافۂ مشک تتار ہے یعنی تتار کی قید نافہ کے ساتھ لگانا مقصود تھی مگر طغیان قسم اس کا باعث ہوا کہ تتار کی قید آہو میں لگادی۔
کس کا سراغ جلوہ ہے حیرت کو اے خدا
آئینہ فرش شش جہت انتظار ہے
انتظار ایک عالم ہے جس میں شش جہت ہیں اور اُس کے شش جہت میں حیرت نے آئینہ کا فرش کیا ہے کہیں تو اُس کا جلوہ دکھائی دے۔
ہے ذرہ ذرہ تنگی جا سے غبار شوق
گردام یہ ہے وسعت صحرا شکار ہے
یعنی غبار شوق کو اُڑنے کی جا نہ ملی اس سبب سے ذرہ ذرہ ہوکر رہ گیا اور ذرہ پھیل کر دام بن گئے کہ جس کا شکار فضائے صحرا ہے یعنی غبار شوق تمام صحرا پر جال کی طرح چھا گیا۔
دل مدعی و دیدہ بنا مدعا علیہ
نظارہ کا مقدمہ پھر روبکار ہے
دل نے آنکھ پر نالش کی ہے کہ نہ یہ نظارہ کرتی نہ میرا خون ہوتا۔ دیدہ آنکھ کو کہتے ہیں لیکن ہر جگہ آنکھ کے بدلے دیدہ کہنا برا ہے اس سبب سے کہ اُردو کے محاورہ میں ڈھیٹھ اور بے شرم آنکھ کو دیدہ کہتے ہیں اور دیدہ کا لفظ عورتوں کی زبان کے ساتھ خاص ہو گیا ہے جیسے دیدے پھوٹیں اور دیدوں کے آگے آئے اور غضب کا دیدہ ہے۔ لیکن فارسی میں دیدہ مطلق آنکھ کے معنی پر دیکھ کر اکثر لوگ دھوکا کھا جاتے ہیں جیسے ناسخؔ کہتے ہیں :
ہرگز مجھے نظر نہیں آتا وجود غیر
عالم تمام ایک بدن ہے میں دیدہ ہوں
اس شعر میں آنکھ کی جگہ دیدہ کہہ کر ڈھیلا کھینچ مارا ہے اُس کی خرابی اندھے کو بھی سوجھتی ہو گی مگر مضمون شعر کا بہت عالی ہے۔
دوسری بحث اس شعر میں یہ ہے کہ فارسی کا واؤ اُردو میں جب ہی استعمال کرتے ہیں جب مفرد کا مفرد پر عطف ہو اور دونوں فارسی لفظ ہوں جیسے ’ دل و دیدہ ، نہیں تو واؤ عطف فارسی کا لانا بے جا ہے مثلاً دل و آنکھ کہنا صحیح نہ ہو گا اور اسی طرح ’ آنکھ پڑتی ہے و دل آتا ہے ، ان دونوں جملوں میں واؤ سے عطف کرنا دُرست نہیں غرض کہ یہ مصرع دل مدعی و دیدہ بنا مدعا علیہ اصل میں یوں ہے کہ ’ دل مدعی بنا دیدہ مدعا علیہ بنا ، اور دو ہندی جملوں میں فارسی کا حرف عطف لائے ہیں لکھنؤ کے شعرا اس سے احتراز کرتے ہیں اور ایسا ہی چاہئے۔
چھڑکے ہے شبنم آئینۂ برگ گل پہ آب
اے عندلیب وقت وداعِ بہار ہے
ایران میں رسم ہے کہ آب بر آئینہ ریز ندقفائے سفری۔
پچ آپڑی ہے وعدۂ دل دار کی مجھے
وہ آئے یا نہ آئے پہ یاں انتظار ہے
پچ آپڑنے سے بات کا نباہنا مراد ہے جس کے خلاف میں شماتت کا اندیشہ ہو کہتے ہیں اُس نے آنے کا وعدہ کیا تو مجھے انتظار کرنا ضرور ہے گو وہ وعدہ خلاف ہے لیکن میں انتظار نہ کروں تو یہی کہے گا کہ تو میرے وعدہ کو جھوٹ سمجھا مگر کے معنی پر ’ پہ ، سے پرفصیح ہے اور یاں سے یہاں بہتر ہے یعنی دوسرا مصرع اگر یوں ہوتا : ’ وہ آئے یا نہ آئے یہاں انتظار ہے ، تو اس میں ’ پہ یاں ، کے نکل جانے سے بندش اچھی ہو جاتی اور پہ کا حذف کرنا محاورہ میں بہت ہے کچھ معنی میں خلل بھی نہ آتا مگر سچ پوچھو تو ایسی ذرا ذرا سی باتوں کا کوئی بھی خیال نہیں رکھتا۔ عود ہندی میں پچ کا لفظ مصنف کی زبان پر بتذکیر ہے مگر اس شعر میں بتانیث ہے غالباً یہ سبب ہوا کہ پہلے یہ دیوان لکھنؤ میں چھپا وہاں کاتب نے تصرف کر دیا پھر مصنف نے بھی اُسے یوں ہی رہنے دیا
بے پردہ سوئے وادیِ مجنوں گذر نہ کر
ہر ذرہ کی نقاب میں دل بے قرار ہے
ذرہ کے جگمگانے کو دل کے تلملانے سے تشبیہ تام ہے غرض یہ ہے کہ وادی مجنوں میں جو ذرہ ہے آئینہ دار بے تابی مجنوں ہے۔
اے عندلیب یک کفِ خس بہر آشیاں
طوفان آمد آمد فصلِ بہار ہے
یعنی اے عندلیب اگر بہار کا لطف اُٹھانا ہو تو ایک کف خس لا کر آشیانہ بنا رکھ ورنہ اس طوفان میں تنکا ڈھونڈے نہ ملے گا کہ فصل بہار ہر خس و خار سبز و شاداب کردے گی۔
دل مت گنوا خبر نہ سہی سیر ہی سہی
اے بے دماغ آئینہ تمثال وار ہے
جس دل میں دُنیا بھر کی حسرتیں اور آرزوئیں بھری ہوں وہ آئینہ تصویر ہے کہ اگرچہ اس میں ایسی صفائی نہیں ہے کہ جلوۂ معرفت ہو سکے لیکن یہ سیر کیا کم ہے۔ کعبہ سے اگر بت نہ نکل سکیں تو کیا ہوا ، بت خانہ کی کیفیت تو اس میں موجود ہے۔
غفلت کفیل عمرو اسدؔ ضامن نشاط
اے مرگ ناگہاں تجھے کیا انتظار ہے
اسدؔ نے نشاط کی ضمانت کر لی ہے یعنی جانتا ہے کہ ہمیشہ نشاط ہی میں گذرے گی اور غفلت نے اس کی عمر کا ٹھیکہ لے لیا ہے یعنی کبھی انجام کا خیال ہی نہیں آتا پھر اُس کو مرگ ناگہانی کیوں نہیں آجاتی گویا مصنف کو یہ عقیدہ ہے کہ جو غفلت و بے خبری میں عمر صرف کرتا ہے اور موت کو بھولا رہتا ہے اُسی کو ناگہانی موت آجاتی ہے اسی بناء پر مرگ سے کہتے ہیں کہ آخر اب تجھے کیا انتظار ہے یعنی اسباب تو تیرے آنے کے سب موجود ہیں پھر تیرے توقف کا کیا باعث ہے یہاں بھی دو ہندی جملوں میں حرف عطف فارسی کاہے یعنی ’ غفلت کفیل عمر ہے و اسدؔ ضامن نشاط ، دیکھو واؤ فارسی یہاں کیسا برا معلوم ہوتا ہے یا یوں سمجھو کہ ’ غفلت کفیل ہے و اسدؔ ضامن نشاط ہے ، یہ بھی ویسی ہی بات ہے یعنی مطلب یہی ہے کہ ’ غفلت ہی عمر کی کفیل ہے و اسدؔ نشاط کا ضامن ، بہرحال دونوں ہندی جملہ اور حرف عطف فارسی کا برا ہے اس سبب سے کہ ہے کا لفظ گو یہاں مذکور نہیں لیکن مقدر تو ہے ہاں یہ تاویل کر لو کہ پہلا مصرع فارسی ہے۔
_______
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
تیرے مقابلہ کے لئے تجھ سا حسین کہاں ملے گا مگر میں تجھے آئینہ دوں گا کہ اُسے دیکھ کر تیرا حیران ہونا لوگوں کو تماشا ہو جائے۔
حسرت نے لا رکھا تری بزم خیال میں
گلدستۂ نگاہ سویدا کہیں جسے
’ تیری بزم خیال ، یعنی میرا دل جس میں تو بسا رہتا ہے حسرت نے اس بزم میں ایک گلدستہ لا کر رکھ دیا ہے جسے لوگ سویدا کہتے ہیں حاصل یہ کہ دل میں سویدا نہیں ہے بلکہ حسرت بھری نگاہوں کا گلدستہ ہے۔
پھونکاہے کس نے گوش محبت میں اے خدا
افسونِ انتظارِ تمنا کہیں جسے
حیرت اس بات پر ہے کہ محبت ہوتے ہی تمنا کیسی پیدا ہو گئی اور انتظار کا افسوں کیوں کر چل گیا ، استفہام سے سچ مچ پوچھنا مقصود ہے بلکہ اظہارِ تعجب یا توجع منظور ہے۔
سر پر ہجوم درد غریبی سے ڈالئے
وہ ایک مشت خاک کہ صحرا کہیں جسے
غریبی بمعنی بے وطنی اور اشارہ ہے کہ یہ شخص آوارہ دشت و صحرا ہونے کا ارادہ کر رہا ہے اور درد بے وطنی درپے ہے اور خاک اُڑانے پر نہایت آمادہ ہے کہ صحرا کو ایک مشت خاک سمجھتا ہے۔
ہے چشم تر میں حسرت دیدار سے نہاں
شوق عناں گسیختہ دریا کہیں جسے
عناں گسیختہ اس شعر میں لفظ نہیں ہے الماس جڑ دیا ہے جب دوسری زبان کی لفظوں پر ایسی قدرت ہو جب کہیں اپنی زبان میں اس کا لانا حسن رکھتا ہے اور شوق عناں گسیختہ سے جوش اشک مجازاً مقصود ہے کیوں کہ شوق سبب گریہ مسبب کے محل پر سبب کو مجازاً استعمال کیا ہے۔
درکار ہے شگفتن گلہائے عیش کو
صبح بہار پنبۂ مینا کہیں جسے
طلوع صبح بہار سے پھول کھل جاتے ہیں لیکن عیش و نشاط کے پھول جس سپیدہ صبح میں کھلتے ہیں وہ سپیدی پنبۂ مینا ہے۔
غالبؔ برا نہ مان جو واعظ برا کہے
شایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے
ایک واعظ کے برا کہنے سے کیا ہوتا ہے سب رند تو تجھے اچھا کہتے ہیں۔
_______
شبنم پہ گل لالہ نہ خالی زادا ہے
داغِ دل بے درد نظر گاہ حیا ہے
گل لالہ پر اُس کی بوندیں ایک مطلب ادا کر رہی ہیں وہ یہ کہ جس دل میں درد نہ ہو اور داغ ہو وہ جائے شرم ہے یعنی لالہ کے داغ تو ہے مگر درد عشق سے خالی ہے اور یہ بات اُس کے لئے باعثِ شرم ہے اور اسی شرمندگی سے اُسے عرقِ شرم آگیا ہے پہلے مصرع میں ہے ؔ کے ساتھ نہؔ خلاف محاورہ ہے ’ نہ ہے ، کے بدلے ’ نہیں ، کہنا چاہئے۔
دل خون شدہ کشمکش حسرت دیدار
آئینہ بدستِ بتِ بدمست حنا ہے
آئینۂ دل مہندی بن گیا ہے یعنی حسرت دیدار نے اُسے پیس ڈالا اور اُس کے جگر کو لہو کر دیا دل کو آئینہ با کر پھر اُسے حنا بنادینا بہت ہی تصنع ہے اور بے لطف۔
شعلہ سے نہ ہوتی ہوس شعلہ نے جو کی
جی کس قدر افسردگی دل پہ جلا ہے
ہوس شعلہ نے جو بات کی وہ شعلہ سے بھی نہ ہوتی کہ جی کو جلا ہی ڈالا اور جی جلنا اُردو کے محاورہ میں ناگوار ہونے کے معنی پر ہے یہاں یہ معنی مقصود نہیں ہیں بلکہ جی جلنے سے کڑھنا مقصود ہے اور مصنف نے اپنی عادت کے موافق دل سوختن کا ترجمہ کر لیا ہے فارسی میں کہیں گے بر بیکسشیں دلم میسوزو لیکن اُردو میں یہ کہنا کہ اس کی بے کسی پر دل جلتا ہے اچھا نہیں ہے افسردگی دل سے اُس کا شعلہ عشق سے خالی ہونا مراد ہے۔
تمثال میں تری ہے وہ شوخی کہ بصد ذوق
آئینہ بانداز گل آغوش کشا ہے
تیرے عکس عارض کا رنگ ایسا شوخ ہے یا تمام تمثال میں ایسی شوخی بھری ہے کہ آغوش آئینہ آغوش گل بن گیا اور عکس تیرا آئینہ کو گل کی طرح شگفتہ کر کے خود نسیم کی طرح اُس کے آغوش سے نکل گیا یہاں عکس کی شوخی بیان کرنے سے خود معشوق کا بے چین اور شوخ ہونا بالتزام ظاہر ہوا۔
قمری کفِ خاکستر و بلبل قفس رنگ
اے نالہ نشانِ جگرِ سوختہ سا ہے
قمری میں بسبب نالہ کشی کے کچھ خاکستر جگر پائی جاتی ہے اور بلبل میں کچھ رنگ جگر کا ملتا ہے باقی جگر کا کچھ پتہ نہیں مطلب یہ کہ نالہ کشی ایسی چیز ہے کہ جگر کو جلا کر نابود کر دیتی ہے اور قفس بمعنی سبد بھی ہے ، وہی معنی یہاں مراد ہیں۔ قمری کو کف خاکستر فارسی والے باندھا کرتے ہیں لیکن بلبل کو سبد رنگ کہنا نئی بات ہے مگر بے لطف ہے نالہ کو مخاطب بنانا بھی بے مزہ بات اور جگر سے بظاہر بلبل و قمری کا جگر مراد ہے احتمال یہ بھی ہے کہ اپنے جگر سوختہ کا نشان شاعر پوچھ رہا ہے ، شعر میں جہاں دوسرے معنی کا احتمال پیدا ہو وہ سست ہو گیا۔
خونے تری افسردہ کیا وحشت دل کو
معشوقی و بے حوصلگی طرفہ بلا ہے
معشوق ہوکر ایسا پھیکا پن ایسی ٹھنڈی طبیعت نہ نازو ادا کا حوصلہ نہ چھیڑ چھاڑ کا مزہ یہ طرفہ بلا ہے یعنی قابل نفرت ہے ، خو سے بے دماغی و بدمزاجی مراد ہے لفظ وحشت اس شعر میں مصنف نے ذوق و شوق کی جگہ پر باندھا اور اصل میں وحشت و نفرت کے معنی قریب قریب ہیں وہ یہاں بنتے نہیں مطلب یہی ہے کہ تیری بدمزاجی سے دل کو وحشت و نفرت ہو گئی نہ یہ کہ وحشت دل افسردہ ہو گئی غرض یوں کہنا تھا کہ افسردہ کیا خواہش دل کو یا حسرت دل کو جب لفظ مطابق معنی ہوتا۔
مجبوری و دعوائے گرفتاریٔ اُلفت
دستِ تہ سنگ آمدہ پیمانِ وفا ہے
بھاری پتھر کے تلے ہاتھ دب گیا ہے نکال تو سکتے نہیں ، کہتے یوں ہیں کہ محبت کو نباہ رہے ہیں عہد و پیمان کرتے وقت ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہیں یہاں ہاتھ پر پتھر ہے۔
معلوم ہوا حال شہیدان گذشتہ
تیغِ ستم آئینۂ تصویر نما ہے
یعنی تیرے ستم کا انداز دیکھ کر ستم رسیدوں پر جو گذری ہو گی ، اُس کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے تیغ ستم نہ ہوئی آئینہ تصویر نما ہوا ، یہ شعر اُس کی زبانی ہے جو اس تلوار کا مزہ چکھ چکاہے لیکن الفاظ ادائے مطلب سے قاصر ہیں۔
اے پر توِ خورشیدِ جہاں تاب ادھر بھی
سایہ کی طرح ہم پہ عجب وقت پڑا ہے
یعنی ادھر بھی کرم کر اور وقت پڑنے کا محاورہ جس محل پر مصنف نے صرف کیا ہے اُس کی خوبی بیان نہیں ہو سکتی۔
نا کردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
یارب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے
اس شعر کی داد کون دے سکتا ہے میر تقی کو بھی حسرت ہوتی ہو گی کہ یہ مضمون مرزا نوشہ کے لئے بچ رہا۔
بے گانگی خلق سے بے دل نہ ہو غالبؔ
کوئی نہیں تیرا تو مری جان خدا ہے
یعنی خدا تیرا ہے اور فقط ’ خدا ہے ، بھی محاورہ ہے ، ہے کو تامہ لو خواہ ناقصہ۔
_______
منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی
قسمت کھلی ترے قدو رُخ سے ظہور کی
یعنی تجلی کو تیرے قدو رُخ کا انتظار تھا کہ ایسی شکل ملے تو اُس میں ظہور کروں۔
اک خونچکاں کفن میں کڑوڑوں بناؤ ہیں
پڑتی ہے آنکھ تیرے شہیدوں پہ حور کی
یہ شعر بھی ایسا کہا کہ کروڑوں میں ایک آدھ ایسا نکلتا ہے۔ آج کل کی جو زبان دلی میں ہے اس کے بموجب کروڑوں پڑھنا چاہئے۔
واعظ نہ تم پیو نہ کسی کو پلا سکو
کیا بات ہے تمہاری شرابِ طہور کی
ایک شخص سے خطاب کر کے فوراً جمع کی طرف ملتفت ہو جانا نئی صورت التفات کی ہے اور نہایت لطف دیتی ہے۔
لڑتا ہے مجھ سے حشر میں قاتل کہ کیوں اُٹھا
گویا ابھی سنی نہیں آواز صور کی
یعنی اس قدر مزاج میں تغافل ہے کہ صور پھنک گیا اور اُسے خبر نہیں۔
آمد بہار کی ہے جو بلبل ہے نغمہ سنج
اُڑتی سی اک خبر ہے زبان طیور کی
یعنی نغمہ بلبل بہار کی اُڑتی ہوئی خبر یہ ہے کہ یہ تشبیہ نہایت بدیع ہے اور انصاف یہ ہے کہ نئی ہے
گر واں نہیں پہ و اں کے نکالے ہوئے تو ہیں
کعبہ سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دُور کی
ضابطہ یہ ہے کہ بتوں کا ذکر اُسی شعر میں اچھا معلوم ہوتا ہے جہاں حسینوں سے استعارہ ہو نہیں تو کچھ بھی نہیں اس میں مصنف مرحوم کی تخصیص نہیں شاید کوئی شاعر ایسا نکلے جو بتوں کا ذکر معنی حقیقی پر نہ کرتا ہو لیکن ہمیشہ بے لطف ہوتا ہے اور بت سے استعارہ معشوق کا کئی وجہوں سے صحیح ہے حسن و تمکین و بے نیازی و خاموشی و پرستش وغیرہ۔
کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آؤ نہ ہم بھی سیر کریں کوہ طور کی
یہ کیا ضرور ہے کہ جس طرح کلیم کو صاف جواب دے دیا تھا ہم سے بھی وہی انکار ہو اس شعر میں ’ نہ ، عجب محاورہ کا لفظ مصنف نے باندھ دیا ہے بولتے سب ہیں مگر کسی نے نظم نہ کیا تھا لیکن اس ’ نہ ، کے کیا معنی ہیں اس کا جواب مشکل ہے قیاس نحوی تو یہ کہتا ہے کہ آؤ نہ اور دیکھو نہ وغیرہ کیوں نہ آؤ اور کیوں نہ دیکھو کا مخفف ہے کہ بے اس کے حرف نفی کے کچھ معنی نہیں بن پڑتے۔
گرمی سہی کلام میں لیکن نہ اس قدر
کی جس سے بات اُس نے شکایت ضرور کی
یعنی بے گالی دئیے ، بے طنز کئے ، بے پھبتی کہے بات ہی نہیں کرتے۔
غالبؔ گر اس سفر میں مجھے ساتھ لے چلیں
حج کا ثواب نذر کروں گا حضور کی
ایک عجب نحوی طلسم زبان اُردو میں یہ ہے کہ مصنف نے جہاں پر ’ کی ، کو صرف کیا ہے یہاں محاورہ میں ’ کے ، بھی کہتے ہیں مگر قیاس یہی چاہتا ہے کہ ’ کی ، کہیں اسی طرح لفظ طرف جب اپنے مضاف الیہ پر مقدم ہو تو ’ کی ، کہنا صحیح نہ ہو گا مثلاً ’ پھینکی کمند آہ طرف آسمان کے ، کسی مصرع میں ’ کی ، کہنا خلاف محاورہ ہے اور پھر لفظ طرف مؤنث ہے اگر اس لفظ کو مؤخر کہ دو تو کہیں گے آسمان کی طرف اور اگر مقدم کردو تو کہیں گے طرف آسمان کے غرض کہ ایک لفظ جب مقدوم ہو تو مذکر ہو جائے مؤخر ہو تو مؤنث ہو جائے اسی کی نظیر نذر کرنا بھی ہے۔
_______
غم کھانے میں بودا دل ناکام بہت ہے
یہ رنج کہ کم ہے مے گلفام بہت ہے
ایک ہی مصرع میں رنج اور اُس کی تفسیر پھر کم اور بحث کا تقابل جذب مضمون کے علاوہ یہ خوبی ہے۔
کہتے ہوئے ساقی سے حیا آتی ہے ورنہ
ہے یوں کہ مجھے درد تہِ جام بہت ہے
شراب کی حرص کے بیان میں شعراء نے خم خالی کئے ہیں مگر ہمیشہ یہ مضمون بے کیفیت رہا ، اس شعر کو دیکھئے کہ اس کا مضمون کیسا ہو شربا ہے کہ اس سے بڑھ کر حرص مے کا بیان نہیں ہو سکتا۔
نے تیر کماں میں ہے نہ صیاد مکیں میں
گوشہ میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے
یعنی وہ نعمت سے میں خطرہ ہو اس سے محرومی بہتر ہے۔
کیا زہد کو مانوں کہ نہ ہو گرچہ رہائی
پاداش عمل کی طمع خام بہت ہے
یعنی ثواب اعمال کی طمع کیا تھوڑا عیب ہے۔
میں اہل خرد کس روش خاص پہ نازاں
پابستگی رسم و رہِ عام بہت ہے
کیا اسی کا نام عقل مندی ہے کہ عامیانہ رسموں کے سب سے بڑھ کر پابند رہیں کیا روش خاص اسی کو کہتے ہیں کہ رسوم عام کو زیادہ مانیں جس طرز کا یہ شعر ہے اس روش خاص پر مصنف کو ناز ہو تو زیبا ہے۔
زمزم ہی پہ چھوڑو مجھے کیا طوف حرم سے
آلودہ بہ مے جامۂ احرام بہت ہے
بھلا طواف کروں یا شراب کے دھبے بیٹھ کر دھوؤں۔
ہے قہر گراب بھی نہ بنے بات کہ اُن کو
انکار نہیں اور مجھے ابرام بہت ہے
بات بننے سے وصل ہونا مراد ہے۔
خوں ہو کے جگر آنکھ سے ٹپکا نہیں اے مرگ
رہنے دے مجھے یاں کہ ابھی کام بہت ہے
موت سے شکایت کرتے ہیں کہ اب بھی نہ آئی ہوتی ابھی تو بہت سی مصیبتیں باقی ہیں۔
ہو گا کوئی ایسا بھی کہ غالبؔ کو نہ جانے
شاعر تو وہ اچھا ہے پہ بدنام بہت ہے
_______
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے
جوش قدح سے بزم چراغاں کئے ہوئے
یعنی شراب آتشیں کا ہر ایک جام ایک چراغ تھا۔
کرتا ہوں جمع پھر جگر لخت لخت کو
عرصہ ہوا ہے دعوتِ مژگاں کئے ہوئے
عرصہ ہوا کہ مژگان یار کی دعوت کی تھی جس نے جگر کے ٹکڑے اُڑا دئیے اب پھر انھیں ٹکڑوں کو جمع کر رہا ہوں اور پھر اسی دعوت کا حوصلہ ہے دعوت مژگاں نامقبول مضمون ہے اس سے زینت مژگاں بہتر ہے یعنی لخت ہائے جگر سے پھر مژگاں کو اپنی شاخ گل بنانا مقصود ہے۔
پھر وضع احتیاط سے رُکنے لگا ہے دم
برسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کئے ہوئے
وضع احتیاط سے گریبان پھاڑنے میں احتیاط کرنا مراد ہے یعنی برسوں گریبان نہیں پھاڑا ہے اس سبب سے دم اُلجھ رہا ہے۔
پھر گرم نالہ ہائے شرر بار ہے نفس
مدت ہوئی ہے سیر چراغاں کئے ہوئے
چراغان نالہ کی جو سیر آگے دیکھی تھی اب پھر وہی سیر دیکھنے کو جی چاہ رہا ہے۔
پھر پرسشِ جراحت دل کو چلا ہے عشق
سامان صد ہزار نمک داں کئے ہوئے
حاصل یہ کہ عشق پھر زخم دل پر نمک چھڑکنے چلا ہے۔
پھر بھر رہا ہوں خامۂ مژگاں بخون دل
ساز چمن طرازی داماں کئے ہوئے
یعنی طراز دامن بنانے کے لئے مژگان کے سوئے قلم کو خون دل میں ڈبو رہا ہوں۔
باہم دگر ہوئے ہیں دل و دیدہ پھر رقیب
نظارۂ و خیال کا ساماں کئے ہوئے
یعنی دل نے خیال جمال اور آنکھ نے نظارۂ خط و خال کا پھر حوصلہ کیا ہے۔
دل پھر طواف کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے
پندار و خودداری کوئے ملامت میں جانے کو مانع تھی۔ اس بت خانہ کو ویران کر کے حرم ملامت کے طواف کو جاتے ہیں۔
پھر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلب
عرض و متاع عقل و دل و جاں کئے ہوئے
کوئی معشوق خریدار ہو تو دل و ایمان اُس کے ہاتھ بیچ ڈالیں۔
دوڑے ہے پھر ہر ایک گل و لالہ پر خیال
صد گلستاں نگاہ کا ساماں کئے ہوئے
گل و لالہ حسینوں سے استعارہ ہے اور صد گلستان نگاہ میں گلستان کو پیمانہ نگاہ فرض کیا ہے اس سبب سے کہ گلستاں پر نگاہ رغبت و شوق کی پڑتی ہے۔
پھر چاہتا ہوں نامۂ دلدار کھولنا
جاں نذر دل فریبی عنواں کئے ہوئے
مانگے ہے پھر کسی کو لب بام پر ہوس
زلف سیاہ رُخ پہ پریشاں کئے ہوئے
چاہے ہے پھر کسی کو مقابل میں آرزو
سرمہ سے تیز دشنۂ مژگاں کئے ہوئے
اک نوبہار ناز کو تاکے ہے پھر نگاہ
چہرہ فروغ مے سے گلستاں کئے ہوئے
پہلے شعر کی طرح اس شعر کا بھی مطلب یہی ہے کہ یہ سب معاملہ گذرے ہوئے ہیں اب پھر دل میں ویسا ہی شوق پیدا ہوا ہے مگر ’ تا کے ہے ، مصنف مرحوم نے مے کی اور تاک کی مناسبت سے کہہ دیا ہے ورنہ معانی سے چسپاں یہ لفظ نہیں ہے ، یہاں ’ڈھونڈے ہے ، کہنا چاہئے تھا۔
پھر جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں
سر زیر بار منت درباں کئے ہوئے
یعنی بار احساں کے سبب سے اُٹھ ہی نہ سکیں۔
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصور جاناں کئے ہوئے
یعنی رات دن زُلف و رُخ کے تصور میں رہیں۔
غالبؔ ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیۂ طوفاں کئے ہوئے
مصنف نے یہاں طوفان کے معنی طوفان برپا کرنے کے لئے ہیں اس کی سند ملنا مشکل ہے۔
_______
نوید امن ہے بیداد دست و جاں کے لئے
رہی نہ طرز ستم کوئی آسماں کے لئے
معشوق کی بیداد نے بیداد فلک سے بے خوف کر دیا کوئی ستم اُٹھا ہی نہ رکھا ، اب نیا انداز ستم آسمان کو کہاں سے ملے گا آتش کہتے ہیں :
گردش چشم بتاں سے خاک میں ہم مل گئے
حوصلہ باقی فلک کو رہ گیا بیداد کا
لفظ طرز پہلے مونث تھا اور دلی میں اب بھی مونث ہے مگر لکھنؤ میں عام محاورہ اس کی تذکیر کاہے ہاں چند غزل گو جو زبان میں قیاس کیا کرتے وہ اب بھی مونث باندھتے ہیں لیکن خلاف محاورہ معلوم ہوتا ہے کانوں کو میرا شعر ہے :
طرز دکھلا دے اُس کی قامت کے
پاؤں پڑتا ہوں میں قیامت کے
بلا سے گر م۔ ژہ یار تشنۂ خوں ہے
رکھوں کچھ اپنی بھی مژگاں خونچکاں کے لئے
اگر اس کی مژہ خون خوار ہے تو میری مژہ بھی خون بار ہے اگر سب خون اُسی کو دے دوں تو اپنی مژہ کے لئے کیا رکھوں۔
وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشناس خلق ہے اخضر
نہ تم کہ چور بنے عمر جاوداں کے لئے
یعنی ایسی عمر جاوید کس کام کی کہ چور کی طرح چھبتے پھرتے ہو۔
رہا بلا میں بھی ہے مبتلائے آفت رشک
بلائے جاں ہے ادا تیری اک جہاں کے لئے
ادا بلا بھی تھی تو میرے ہی لئے ہوتی سارے جہاں کے لئے کیوں ہوئی۔
فلک نہ دُور رکھ اُس سے مجھے کہ میں ہی نہیں
دراز دستی قاتل کے امتحاں کے لئے
یہ سچ ہے کہ دراز دستی کا امتحان بھی ہو سکتا ہے جب نخچیر یا کشتنی تیغ زن سے دُور ہو لیکن کیا ایک میں ہی اس امتحان کے لئے رہ گیا ہوں اور بھی تو کشتنی ہیں اگر قاتل کی زد سے دُور رکھنا ہے تو اُن کو دُور رکھ۔
مثال یہ مری کوشش کی ہے کہ مرغ اسیر
کرے قفس میں فراہم خس آشیاں کے لئے
یعنی میری کوشش بے سود بھی ہے اور قابل رحم بھی ہے۔
گدا سمجھ کے وہ چپ تھا مری جو شامت آئی
اُٹھا اور اُٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لئے
وہ سے پاسبان مراد ہے کہ پہلے وہ سائل سمجھ کر در معشوق پر آنے سے مزاحم نہ ہوا تھا لیکن ان کی شامت جو آئی تو اُس کے پاؤں پر گر پڑے اس سے وہ مطلب سمجھ گیا اور گردن میں ہاتھ دیا اس شعر نے ایسی بندش پائی ہے کہ جواب نہیں۔
بقدر شوق نہیں ظرف تنگنائے غزل
کچھ اور چاہئے وسعت مرئے بیاں کے لئے
یعنی اس زمین میں جن مضامین کے آنے کا مجھے شوق ہے غزل میں اس کی گنجائش نہیں مجھے زیادہ وسعت چاہئے ، یعنی غزل سرائی چھوڑکر یہاں سے مدح سرائی شروع کرتا ہوں۔
دیا ہے خلق کو بھی تا اُسے نظر نہ لگے
بنا ہے عیش تجمل حسین خاں کے لئے
دیا ہے خلق کو بھی۔ اس جملہ سے فاعل یعنی خدا نے اور مفعول ثانی یعنی عیش محذوف ہے لفظ عیش میں دو فعل یعنی ’ دیا ہے اور بنا ہے ، تنازع رکھتے ہیں۔
زباں پہ بارِ خدایا یہ کس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لئے
یہاں استفہام محض اظہارِ مسرت کے لئے ہے سچ مچ پوچھنا نہیں مقصود ہے اور بارِ خدا میں ترکیب مقلوب ہے اور اصل اس کی خدائے باری یعنی مالک باغ جہاں۔
نصیر دولت و دیں اور معین ملت و ملک
بنا ہے چرغ بریں جس کے آستاں کے لئے
پہلے مصرع میں دو دو مترادف لفظ جمع کئے ہیں نصیر و معین اور دین و ملت اور ملک و دولت۔
زمانہ عہد میں اُس کے ہے محو آرائش
بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لئے
ممدوح کا نام تجمل حسین ہے اسی سبب سے زمانہ اس کے عہد میں صرف تجمل آرائش ہے مولوی حالیؔ صاحب نے جو معنی لکھے ہیں اس پر کوئی قرینہ نہیں ہے۔
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہئے اس بحر بے کراں کے لئے
سفینہ کا لفظ بحر کے مناسب ہے لیکن سفینہ سے یہاں بیاض نویوان مراد ہے۔
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا
صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لئے
سب کی صلاح کرتے ہیں کہ تم بھی غزل و مدح میں اس طرز خاص کو اختیار کرو۔
_______
قصائد
ساز یک ذرہ نہیں فیض چمن سے بیکار
سایۂ لالۂ بے داغ سویدائے بہار
غرض یہ ہے کہ چمن میں کوئی شئے حسن تناسب سے خالی نہیں ہے یہاں تک کہ لالہ کا سایہ بھی زائد و بیکار نہیں ہے وہ سویدائے دل بہار ہے لالہ کی صفت بے داغ لانے سے دو باتیں پیدا ہوئیں ایک تو رنگ بہار کی خوبی کہ لالہ میں داغ نہیں ہے ، دوسرے یہ معنی کہ داغ اگر لالہ میں ہوتا تو وہی سویدائے بہار تھا لیکن جب اُس میں داغ نہیں ہے تو اُس کے سایہ میں تناسب و حسن سویدائے بہار کا پیدا ہو گیا۔
مستی باد صبا سے ہے بعرض سبزہ
ریزۂ شیشۂ مے جوہر تیغ کہسار
پہاڑ کی چوٹی کو فارسی میں تیغ کو کہتے ہیں تیغ کے لفظ سے خیال شاعر اس طرف منتقل ہوا کہ سبزہ بلندی کوہ جوہر تیغ ہے اور سبزہ کو بوتل کی کرچوں سے رنگ و شکل میں مشابہت ہے یہ فقط مستی بادصبا کی تاثیر ہے کہ وہ سبزہ جو جوہر تیغ کہسار تھا ریزۂ مینائے مے بن گیا۔ حاصل یہ کہ سبزہ یہ بات عرض کر رہا ہے کہ مستی باد صبا سے جوہر تیغ کہسار ریزۂ مینائے شراب بن گیا یہاں بہت ہی تکلف و آورد سے عرض و جوہر کو جمع کیا ہے۔
سبز ہے جام زمرد کی طرح داغ پلنگ
تازہ ہے ریشۂ نارنج صفت روئے شرار
دونوں تشبیہیں نہایت بدیع ہیں۔
مستیِ ابر سے گلچیں طرب ہے حسرت
کہ اس آغوش میں ممکن ہے دوعالم کا فشار
ابر چاروں طرف پھیل کر عالم آغوش میں لے لیتا ہے تو حسرت مجھے ہوتی ہے کہ یہ اپنی آغوش میں دو عالم کو لئے ہوئے ہے اور میرا آغوش خالی ہے لیکن اس حسرت کے ساتھ طرب بھی ہے کہ اس سبب سے کہ ابر ہی نہایت طرب انگیز ہے۔
کوہ و صحرا ہمہ معموریٔ شوق بلبل
راہ خوابیدہ ہوئی خندۂ گل سے بیدار
معموری کی جگہ معمورہ بہتر تھا یعنی تمام کوہ و صحرا میں کثرتِ گل کے سبب سے بلبلوں کا ہجوم ہے اور جو راہیں کہ سنسان پڑی ہوئی تھیں اُس میں سے غنچوں کے چٹکنے کی صدا آرہی ہے۔
سونپے ہے فیض ہوا صورت مژگاں یتیم
سر نوشت دو جہاں ابر بیک سطر غبار
کہتے ہیں ہوا سے ہر شئے کو ایسی سیرابی پہنچ رہی ہے کہ ایک سطر کو جو بحظ غبار لکھی ہوئی ہو سرنوشت ابر بلکہ دوصد ابر حاصل ہے پھر اس کی تشبیہ میں عجب نازک خیالی کی ہے کہ وہ سطر غبار جسے سرنوشت دوصد ابر حاصل ہے اُس کو مژگاں یتیم سے تشبیہ دی ہے اس لئے کہ طفل یتیم کی مژگاں خاک آلود بھی ایک سطر بحظ غبار ہے جس کی قسمت میں برسوں کا رونا لکھا ہوا ہے دو جہاں کا لفظ محض معنی کثرت کے لئے ہے جیسے لفظ دوصد ہے اور غبار و ابر و نوشت و سطر ضلع کی لفظ ہیں۔
کاٹ کر پھینکئے ناخن تو بانداز ہلال
قوت نامیہ اُس کو بھی نہ چھوڑے بے کار
یعنی ہلال کی طرح ناخن بھی بڑھ بڑھ کر بدر ہو جائے۔
کف ہر خاک پہ گردوں شدہ قمری پرواز
دام ہر کاغذ آتش زدہ طاؤس شکار
لفظ خاک کو بکسرۂ توصیفی پڑھنا چاہئے اس لئے کہ بہ گردوں شدہ اس کی صفت ہے ، نہ خبر اور دوسرے مصرع کا مطلب یہ ہے کہ کاغذ آتش زدہ میں دو صورتیں پیدا ہیں ایک یہ کہ آگ سے مشبک ہو جاتا ہے اور دام کی شکل ظاہر کرتا ہے دوسرے یہ کہ اس سے شعلہ بلند ہوتا ہے یعنی طاؤس کو شکار کرتا ہے حاصل یہ کہ فیض بہار نے ہر شئے میں جان ڈال دی ہے کہ ہر کف خاک قمری بن گئی اور ہر شعلہ طاؤس بن گیا۔
میکدے میں ہو اگر آرزوئے گل چینی
بھول جا یک قدحِ بادہ بطاق گلزار
یعنی اگر تو ایسا میکدہ چاہتا ہے کہ شراب بھی پیتا جائے اور پھول بھی توڑتا جائے تو ایک جام شراب طاق دیوار باغ میں رکھ کر بھول جا ، پھر دیکھ کہ تاثیر نشوونما ایک قدح سے ہزار قدح پیدا کرے گی جیسے ایک تخم سے ہزاروں کٹورئے گلاب پیدا ہو جاتے ہیں اور ایک طاق سے ہزار محراب کا مے خانہ نکالے گی۔ جس طرح ایک قلم سے ہزار شاخ کا درخت پیدا ہو جاتا ہے۔
موج گل ڈھونڈھ بخلوتکدۂ غنچۂ باغ
گم کرے گوشۂ مے خانہ میں گر تو دستار
یعنی فیض ہوا گوشہ مے خانہ کو غنچہ اور دستار کو موج گل بنادے۔
کھنچے گرمانی اندیشہ چمن کی تصویر
سبز مثل خطِ نوخیز ہو خط پرکار
باغ کی تصویر اُتارنے میں یہ تاثیر ہے کہ مصور کا خط پرکار سبزۂ خط بن جاتا ہے اس شعر میں یہ نظر ہے کہ مانی کے لئے پرکار و موقلم تصویر کھینچنے میں البتہ ضرور ہے لیکن مانی اندیشہ کو تصویر اُتارنے میں پرکار کی کیا ضرورت ہے بتاویل اس کا یہ جواب ہو سکتا ہے کہ پرکار سے بھی پرکار اندیشہ مراد ہے۔
لعل سے کی پئے زمزمۂ مدحت شاہ
طوطیٔ سبزۂ کہسار نے پیدا منقار
کہسار میں لعل بھی ہے اور سبزہ زار بھی ہے گویا سبز طوطا لال چونچ کا منقبت سرائی کے لئے پیدا ہوا ہے۔
وہ شہنشاہ کہ جس کی پئے تعمیر سرا
چشمِ جبرئیل ؑہوئی قالب خشت دیوار
اس شعر کی بندش میں نہایت خامی ہے کہ مطلب ہی گیا گذرا ہوا غرض یہ تھی کہ ڈھیلے جبرئیل ؑکے آنکھوں کے ہیں خشت دیوار ، موصول کو اگر ’ پے ، کا مصاف الیہ لو تو ’ جس کے ، پڑھو اور اگر سر کی اضافت لو تو ’ جس کی ، پڑھنا چاہئے اس قسم کی ترکیبیں خاص اہل مکتب کی زبان ہے ، شعرا کو اس سے احتراز واجب ہے۔
_______
فلک العرش ہجوم خم دوش مزدور
رشتۂ فیض ازل ساز طناب معمار
یعنی اُس کے قصر کی تعمیر کے لئے عرش خم دوش مزدور ہے اور رشتۂ سلسلہ فیضان ازلی معمار کی ڈوری بٹنے کے لئے ہجوم کا لفظ کثرت خمیدگی کے بیان کے لئے ہے اور ساز بمعنی اسباب و سامان ہے۔
سبزۂ نہ چمن و یک خطِ پشت لب بام
رفعت ہمت صد عارف و یک اوج حصار
سبزہ نہ چمن استعارہ نو آسمان سے ہے اور حرف عطف دونوں مصرعوں میں معنی مساوات کے لئے ہے اور اس شعر میں بلندی قصر کی تعریف مقصود ہے یعنی سبزہ نہ فلک و سبزہ پشت لب بام برابر ہے اور بلندی ہمت عارف اور اس قصر کا اوج یکساں ہے اس طرح کا عطف معنی مساوات کے لئے حرفِ نفی سے کرتے ہیں میر انیس مرحوم فرماتے ہیں : ’گورے نہ اُن کے پاؤں نہ روئے مہ منیر ، یعنی اُن کے گورے گورے تلوے اور چاند کا منہ برابر ہے۔
واں کی خاشاک سے حاصل ہو جسے یک پرکاہ
وہ رہے مروحۂ بال پری سے بیزار
یعنی پرکاہ کے مقابلہ میں بال پری قابل نفرت ٹھہرے اور یہ مبالغہ غیرعادی ہے ، اس لئے کہ بیزار ہونے کا کوئی سبب نہیں۔
خاک صحرائے نجف جوہر سیر عرفا
چشم نقش قدم آئینہ بخت بیدار
یعنی اہل عرفان جب صحرائے نجف میں سیر دشتی کرتے ہیں تو اپنے آئینہ نقش قدم میں بخت بیدار کی صورت دیکھ لیتے ہیں اور وہاں کی خاک کو اپنا جوہر اپنا ہنر اپنے لئے فخر سمجھتے ہیں لیکن جوہر سیر عرفا انوکھی ترکیب ہے۔
ذرہ اُس گرد کا خورشید کو آئینۂ ناز
گرد اُس دشت کی اُمید کو احرام بہار
دونوں مصرعوں کی ترکیب کا متشابہ ہونا اور مصرعوں کے درمیان خورشید و اُمید کا سجع آنا باعث حسن شعر ہوا پھر لفظ گرد کی تکرار اور بھی آئینہ کو جلادے گئی آئینۂ ناز وہ آئینہ جس میں منہ نہ دیکھنا باعثِ فخر و ناز ہے اور دوسرے مصرع کا مطلب یہ ہے کہ اُمید وہاں کی گرد کو فصل بہار کا جامۂ احرام سمجھتی ہے۔
آفرینش کو ہے واں سے طلب مستی ناز
عرض خمیازۂ ایجاد ہے ہر موج غبار
موج غبار میں انگڑائی کی صورت پیدا ہے اور انگڑائیاں نشہ کی اُتار میں آتی ہیں ، غرض یہ ہے کہ جو موج غبار ہے وہ آفرنیش و ایجاد کی انگڑائی ہے کہ نشہ اُتر گیا شراب فخر و ناز کی پھر طلب ہے حاصل یہ کہ وہ سرزمین پیدا کر کے آفرینش کو بار بار فخر ناز ہوتا ہے۔
فیض سے تیرے ہے اے شمع شبستان بہار
دل پروانہ چرغان پر بلبل گلزار
پروانہ کا معشوق چراغ ہے اور بلبل کا محبوب گل۔ تیرے فیض نے اس کے دل کو چراغاں اور اس کے پر کو گلزار بنادیا ، حاصل یہ کہ تجھ سے سب کی مرادیں حاصل ہوتی ہیں۔
شکل طاؤس کرے آئینہ خانہ پرواز
ذوق میں جلوہ کے تیرے بہوائے دیدار
یعنی تیرے جلوے کے ذوق اور تیرے دیدار کے شوق میں ایک آئینہ تو کیا سارا آئینہ خانہ پرواز کرے۔ آئینہ خانہ و طاؤس کی تشبیہ بہت بدیع ہے۔
تیری اولاد کے غم سے ہے بروئے گردن
سلک اختر میں مہ نومژۂ گوہر بار
یعنی سلک اختر آنسوؤں کی لڑی ہے اور گوہر اشک غم سے استعارہ ہے اس میں یہ اشارہ ہے کہ اس غم میں آنسو کو موتی کا رتبہ ہے۔
ہم عبادت کو ترا نقش قدم مہر نماز
ہم ریاضت کو ترے حوصلہ سے استظہار
تیرا نقش پا عبادت کے لئے سجدہ گاہ اور تیرا حوصلہ ریاضت کے لئے پشت پناہ ہے۔ ہم اس شعر میں اچھا نہیں معلوم ہوتا۔
مدح میں تیری نہاں زمزمۂ نعت نبیؐ
جام سے تیرے عیاں بادۂ جوش اسرار
یعنی جس نے تیری مدح کی اُس نے نبیؐ کی مدح کی اور جس نے تیرا جام پی لیا وہ سرشار بادۂ اسرار ہو گیا۔
جوہر دستِ دُعا آئینہ یعنی تاثیر !
یک طرف نازشِ مژگاں و دگر سو غم بار
جوہر دست دُعا آئینہ کی ترکیب اُردو تو کیا فارسی میں بھی غریب ہے دست دُعائے ممدوح کو آئینہ فرض کیا ہے اور آئینہ دست دُعا کو بقلب اضافت دست دُعا آئینہ کہا ہے اور آئینہ میں جوہر ہوتا ہے تو آئینہ دست دُعا کا جوہر کیا ہے تاثیر ہے اور جوہر آئینہ کو مژگاں سے اور خار سے تشبیہ دیا کرتے ہیں ، اسی مناسبت سے لفظ مژگاں و خار کو دوسرے مصرع میں لائے ہیں ، غرض یہ ہے کہ ممدوح کے آئینہ دست دُعا کو جوہر تاثیر دو وصف رکھتا ہے ایک تو یہ کہ نازش مژگاں کا باعث ہے یعنی مژگان کا ممدوح کو اس تاثیر دُعا پر ناز ہے اس لئے کہ دُعا کے وقت مژگان سے بھی اشک ٹپکتے تھے ، اب دُعا کے قبول ہونے پر مژگان کو کیوں کر ناز نہ ہو ، دوسرے یہ کہ جوہر تاثیر خار حسرت کے لئے غم کا سبب ہے اس لئے کہ جب دُعا نے تاثیر کی اور مراد آ گئی تو پھر حسرت کجایا یہ غرض ہے کہ جوہر تاثیر روکش مژگاں خوباں و رشک افزائے خار مغیلاں ہے نہ کسی مژہ میں ایسی ناوک شکنی نہ کسی خار میں ایسی نشتر شکنی ہے بہرحال بندش کی علمی اور مضمون کی ناتمامی سے یہ شعر خالی نہیں۔
مرد مک سے ہو عزاخانہ اقبال نگاہ
خاک در کی ترے جو چشم نہ ہو آئینہ دار
آئینہ دار کے معنی یہاں خادم و فرمانبردار کے ہیں کہتے ہیں جو آنکھ تیرے خاک در کی تابع فرمان نہ ہو اُس کی نگاہ اقبال و سعادت کا عزاخانہ بن جائے اور مردمک سے سیاہ پوشی مردمک مقصود ہے جو کہ سوگ نشینوں کے لئے مناسب ہے مصنف کی غرض یہ ہے کہ جس آنکھ کی پتلی تیرے در کی بندہ فرمان نہ ہو وہ ہمیشہ اقبال و کامیابی کے سوگ میں سیہ پوش رہے۔
دُشمن آل نبیؐ کو بطرف خانۂ دہر
عرض خمیازۂ سیلاب ہو طاق دیوار
انگڑائی کو موج سے مشابہت ہے اس سبب سے خمیازہ سیلاب کو موج سیلاب کا استعارہ سمجھنا چاہئے یعنی طرب خانہ دہر کی ہر ایک محراب اور ہر ایک طاق اس کے حق میں موج سیلاب بن جائے اور یہ ظاہر ہے کہ جس طرب خانہ میں سیلاب آئے وہ ڈھے جائے گا۔
دیدہ تادل اسدؔ آئینہ یک پرتو شوق
فیض معنی سے خط ساغر راقم سرشار
آنکھ سے لے کر دل تک ایک آئینہ پرتو شوق ہے اور اسی معنی شوق سے ساغر راقم سرشار ہے ، ساغر دیدۂ و دل سے استعارہ ہے ، خط کا لفظ محض معنی کی مناسبت سے لائے ہیں اور لفظ راقم بہت ہی مبتذل لفظ ہے ان معنی پر راقم شعرا کی زبان نہیں ہے۔
_______
دہر جز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں
ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خودبیں
مسئلہ تصوف ایک یہ بھی ہے کہ حقائق ممکنات کو ذات واجب الوجود سے ایسا تعلق ہے جیسا آفتاب کو اجسام مرئیہ سے ہے کہ جیسی جس جسم کی قابلیت ہے ویسا ہی نور اُس پر آفتاب سے پہنچتا ہے مثلاً سیاہ پتھر کو بہت کم فیضان نور پہنچتا ہے اور آئینہ میں آفتاب سارا اُتر آتا ہے اسی طرح ہر ماہیت ممکنہ میں جلوہ وجود واجب تعالیٰ کچھ نہ کچھ پہنچ رہا ہے اور تمام دہر کی ہستی اُسی کا پرتو وجود ہے اگر اُسے اپنا پرتو وجود دیکھنا ہوتا تو نہ ہم ہوتے نہ تم یا یوں سمجھو کہ عالم میں ہر شئے مظہر قدرت خدا ہے اور سارا عالم اُس کی خودبینی کا آئینہ خانہ ہے۔
بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
بے کسی ہائے تمنا کہ نہ دُنیا ہے نہ دیں
یعنی افسوس ہے کہ تماشا اور اس بے دلی سے کہ جس سے نہ کچھ عبرت حاصل ہو نہ کچھ مزہ ملے اور تمنا اور بے کسی میں کہ نہ دین ہی ملا نہ دُنیا حاصل ہوئی ، تماشا سے تماشائے عالم مراد ہے اگر اس سے عبرت حاصل ہو تو دین کا نفع ہے اور اگر اُس سے کچھ لطف ملے تو دُنیا کا مزہ ہے یہاں بے دلی اور بے دماغی کے سبب سے نہ تماشائے عالم سے عبرت کا سبق لیا ، نہ اُس سے کچھ لطف ہی اُٹھایا ، افسوس ہے تمنا کی بے کسی پر کہ نہ دین کی ہوئی نہ دُنیا کی۔
ہرزہ ہے نغمۂ زیر و بم ہستی و عدم
لغو ہے آئینہ فرق جنوں میں تمکیں
یعنی ماسوائے باری کی ہستی و عدم میں گفتگو کرنا ہرزگی ہے دونوں باتیں نہیں ثابت اور جنون و ہوشیاری دیوانگی و فرزانگی میں امتیاز کرنا لغو ہے جسے ہوشیاری سمجھتے ہیں ، وہ بھی دیوانگی ہے زیر و بم اور ہستی و عدم میں لف و نشر غیرمرتب ہے ، زیر سے عدم اور بم سے ہستی مراد ہے۔
نقش معنی ہمہ خمیازۂ عرض صورت
سخن حق ہمہ پیمانۂ ذوق تحسیں
حاصل یہ کہ جو لوگ معنی شناسی کا دعوائے کرتے ہیں اُن کو محض ظاہرداری مقصود ہے اور جو لوگ حق گوئی کا دم بھرتے ہیں اُن کو محض تحسین و ستائش مطلوب ہے ، معنی شناسی وہ اچھی جس میں ظاہرداری کا لگاؤ نہ ہو اور حق گوئی وہ معتبر ہے جس میں اپنی کوئی غرض نہ ہو نقش معنی سے تحریر معنی مراد ہے جس میں خمیازہ کی صورت پیدا ہو اور خمیازہ علامت خمار کی ہے ، اس خمار کے دفع کرنے کے لئے شراب تحسین کے پیمانہ کی ضرورت ہوئی ہے سخن حق وہ پیمانہ ہے جو ذوق تحسین کے ہاتھ میں ہے یعنی اس پیمانہ کوشراب تحسین سے بھرنا مقصود ہے۔
لاف دانش غلط و نفع عبادت معلوم
دُرد یک ساغر غفلت ہے چہ دُنیا و چہ دیں
جو کوئی معاملات دُنیا میں دانش مندی کا ادعا کرتا ہے اُس کا خیال غلط ہے جو کوئی اُمور دین میں نفع عبادت کی رکھتا ہے اُس کا خیال بے جا ہے ، حال تو یہ ہے کہ دُنیا و دین دونوں غفلت کے ہاتھوں خراب ہیں ، جس طرح شراب کی تلچھٹ قابل اعتبار نہیں ہوتی اسی طرح دُنیا و دیں ساغر غفلت میں تہ نشین ہیں۔
مثل مضمونِ وفا باد بدستِ تسلیم
صورتِ نقش قدم خاک بفرق تمکیں
باد بدست ہونے سے پشیمانی و حیرانی اور خاک بسر ہونے سے ذلت و پریشانی مراد ہے یعنی وفا کی طرح تسلیم و بندگی سے کوئی فائدہ نہیں اور نقش پا کی طرح تمکین و پاداری سے ذلت ہی کا سامنا ہے یعنی دُنیا میں ان صفات حسنہ کی کچھ قدر نہیں ، دوسرا پہلو بددُعا کا بھی ہے۔
عشق بے ربطی شیرازۂ اجزائے حواس
وصل زنگارِ رُخِ آئینہ حسن یقیں
یعنی اہل ہوش کے نزدیک اس زمانہ میں بے حواسی کا نام عشق ہے اور اہل یقین کی نظر میں آئینہ یقین کا زنگار وصل ہے ، اگر آئینہ یقین پر جلا ہوتی تو جلوہ معشوق اپنے میں خود دکھائی دیتا اور اُس سے مفارقت ممکن ہی نہ ہوتی۔
کوہکن گر سنہ مزدور طرب گاہ رقیب
بستیوں آئینۂ خواب گران شیریں
فرہاد کے عشق کو ہم نہیں مانتے وہ خسرو کے محل کا نرا مزدور ہی مزدور تھا خاک بھی شیریں پر اثر نہ ہو اُس کے خواب گراں غفلت کی تصویر کوہ بے ستون کو سمجھ لو جس پر کوہکن پتھر ڈھوتے ڈھوتے سر پھاڑکر مرگیا۔
کس نے دیکھا نفس اہل وفا آتش خیز
کس نے پایا اثر نالۂ دِ لہائے حزیں
استفہام سے سچ مچ پوچھنا نہیں مقصود ہے بلکہ ازراہ انکار ہے یعنی اس زمانہ میں نہ وفاداروں کی آہ میں آنچ باقی رہی نہ درسیدوں کے نالوں میں اثر رہا۔
سامع زمزمۂ اہل جہاں ہوں لیکن
نہ سر و برگ ستائش نہ دماغِ نفریں
زمزمہ کا لفظ طعن سے کہا ہے یعنی اہل دُنیا جو کچھ ہرزہ سرائی کرتے ہیں سن لیتا ہوں لیکن یہاں نہ سرآفریں ہے نہ دماغ نفریں سر و برگ ستائش مصنف نے سر ستائش کے محل پر کہہ دیا ہے یہ تکلف سے خالی نہیں۔
کس قدر ہرزہ سرا ہوں کہ عیاذاً باللہ
یک قلم خارج آداب وقار و تمکیں
اہل دُنیا کی نافہمی و غلط انکاری پر نفریں کرتے کرتے خود تنبیہ ہوا کہ تمکین و خودداری کے خلاف یہ فعل مجھ سے سرزد ہوا تھا یہاں سے تشبیب و تمہید سے گریز کی عیاذاً باللہ اور معاذ اللہ یعنی خدا کی پناہ اُردو میں بھی محاورہ عرب کے موافق استعمال میں ہے۔
نقش لاحول لکھ اے خامۂ ہذیاں تحریر
یاعلی عرض کراے فطرت وسواس قریں
نقش بمعنی تعویذ اس شعر میں ہے یعنی وسواس کے دفع کرنے کو لاحول کا نقش لکھ اور یاعلی کا اسم پڑھ ، وسواس قرین میں دونوں لفظ عربی ہیں اور ترکیب فارسی کی ہے یعنی وہ شخص وسواس جس کے قرین ہو ایسا تصرف سراسر تکلف ہے ہذیان بحر تک ہے لیکن فارسی میں بسکون بھی نظم ہوا کرتا ہے۔ ’ سنجرز تپ سوختہ چند ایں ہمہ ہذیاں ،۔
مظہر فیض خدا جان و دل ختم رسل
قبلۂ آل نبیؐ کعبۂ ایجاد یقیں
ختم بمعنی خاتم ہے۔
ہو وہ سرمایۂ ایجاد جہاں گرم خرام
ہر کفِ خاک ہے واں گردۂ تصویر زمیں
بسکہ اُن حضرت کی ذات سرمایہ آفرینش ہے اگر کہیں سرگرم خرام ہوں تو اُس کی تاثیر سے ہر کف خاک زمین کے بنالینے کا گردہ و خاکہ بن جائے کہ اُس خاکہ سے بہت سی زمینیں ایجاد ہو سکیں ، یہ اغراق نامقبول ہے اگر یہ معنی لیں کہ اُس خاکہ سے بہت سی تصویریں زمین کی بن سکیں تو کوئی مدح نہیں نکلتی۔
جلوہ پرداز ہو نقش قدم اُس کا جس جا
وہ کف خاک ہے ناموس دو عالم کی زمیں
یعنی اُن کے قدم کی خاک سے دوعالم کو آبرو و شرف حاصل ہے۔
نسبت نام سے اُس کے ہے یہ رتبہ کہ رہے
ابداً پشت فلک خم شدۂ ناز زمیں
علی علو سے مشتق ہے تو علو فلک میں بھی ہے اور علی میں بھی ہے اور فلک کو اُن حضرات سے نام کے ساتھ نسبت ہے اور اس نسبت سے اس کو رتبہ بلند حاصل ہو گیا ہے لیکن وہ حضرات اہل زمین میں سے ہیں ، اس سبب سے زمین کا احسان فلک پر ہو اور بار احسان اور ناز زمین کا اُٹھاتے اُٹھاتے پشت فلک خم ہو گئی اور ابد تک زمین اس بات پر ناز کئے جائے گی اور احسان رکھے جائے گی اور ہمیشہ پشت فلک اس کے بوجھ سے خم رہے گی یہ بنائے ہوئے معنی ہیں جو میں نے بیان کئے ، ورنہ غرض مصنف کی یہ ہے کہ حضرت کی کنیت ابوتراب ہے اس سبب سے زمین فلک پر ناز کر رہی ہے کہ تراب زمین پر ہے لیکن جب ابوتراب کا لفظ ذہن شاعر ہی میں رہ گیا تو کیوں کر اس شعر کو بامعنی کہہ سکتے ہیں۔
فیض خلق اُس کا ہی شامل ہے کہ ہوتا ہے سدا
بوئے گل سے نفس باد صبا عطر آگیں
یعنی ممدوح کے خلق کا فیض گل کو پہنچاہے ، اسی سبب سے نفس باد صبا بوئے گل سے عطر آگین ہے۔
برش تیغ کا اس کی ہے جہاں میں چرچا
قطع ہو جائے نہ رشتۂ ایجاد کہیں
یعنی ممدوح کی تلوار موجود کو معدوم کرتے کرتے کہیں سر رشتۂ ایجاد ہی کو قطع نہ کردے اغراق مبتذل ہے۔
کفر سوز اُس کا وہ جلوہ ہے کہ جس سے ٹوٹے
رنگ عاشق کی طرح رونق بت خانہ چیں
رنگ کا ٹوٹنا اور رونق کا ٹوٹنا اُردو محاورہ نہیں ہے مصنف مرحوم نے اپنی عادت کے موافق فارسی کا ترجمہ کر لیا ہے ’ ٹوٹے ، کی جگہ ’ اُڑ جائے ، پڑھنا چاہئے ، وہ اس شعر میں ایسا کے معنی پر ہے اور بندش میں گنجلک ہو گئی ہے۔
جاں پناہا ! دل و جاں فیض رسانا ! شاہا
وصی ٔ ختم رسل تو ہے بہ فتوائے یقیں
( دل و جاں فیض رسانا ) یعنی دل و جان کو فیض پہنچانے والے اُردو تو اُردو ایسی ترکیبیں فارسی میں بھی لانا خلاف فصاحت ہے یہ ترکیب بھی حکیم مومن خاں صاحب کے اس مصرع سے کم نہیں ہے : ’ رحمی بحال بندہ خدایا نگار تھا ،۔ غرض مصنف کی یہ ہے کہ ممدوح وصی پیغمبر ؐہیں اُن سے معارف و ولایت و علوم نبوی کو اخذ کیا ہے جس کا فیض روحانی ہے یہاں مصنف مرحوم نے ان حضرت کے وصی ہونے پر یقین کا دعویٰ کیا ہے اس وجہ سے کہ وصی ہونا متواترات سے ہے اور خبر متواتر کا یقین ضروری ہے جس دن رسول اﷲ ؐکی وفات ہوئی حضرت علی کو بلا بھیجا جب تک وہ حاضر ہوں تین مرتبہ پوچھا علی آئے علی آئے علی آئے غرض کہ آفتاب نکلنے سے پہلے حضرت آ کر حاضر ہوئے اور وہاں جو جو بیبیاں تھیں سب ہٹ گئیں فکب علی فکان اٰخرالناس بہ عھد افجعل یسارہ دینا جیہ حضرت علی جھک پڑے اور سب کے آخر میں رسول اﷲ ؐسے انھیں نے ملاقات کی وہ حضرت ان سے اسرار کہنے لگے اور چپکے چپکے باتیں کرنے لگے پھر اس کے بعد جب صحابی جلیل حضرت حجر بن عدی ؓ مع اعوان و اصحاب پابہ زنجیر ہوکر شام میں پہنچے جلاء تلوار کھینچے ہوئے سر پر آکھڑا ہوا اور کہنے لگا اے ابو تراب کے دوستو اگر اس وقت بھی تم اپنے کفر سے باز نہ آؤگے اور ابو تراب پر لعنت اور تبرانہ کروگے تو مجھے تم سب کے قتل کرنے کا حکم امیرالمومنین نے دیا ہے یہ سن کر حضرت ہجرؓ اور ان کے رفقا بولے کہ جو بات تو چاہتا ہے اس کے قبول کرنے سے قتل ہو جانا ہمیں آسان تر ہے اور خدا اور اُس کے نبیؐ اور اُن کے وصی کے پاس جانا ہمارے لئے آگ میں جانے سے بہتر ہے ان الصبر علی حد السیف لایسیر علینا مما تدعونا الیہ ثم القدوم علی اﷲ وعلی نبیہ وعلی واصیہ احب الینا من دخول النار امام حسن ؑکی خبر وفات جب دشمنوں نے خوش ہوکر ابن عباسؓ کو پہنچائی تو وہ کہنے لگے لئن اصبنا بہ فقد اصبنا لسیدالمرسلین وامام المتقین ورسول رب العالمین ثم بعد بسید الاوصیاء یہی ایک مصیبت ہمارے لئے تھوڑی ہوئی ہے ہم پر تو سردار مرسلین و پیشوائے متقین و رسول رب العالمین کے مرنے کی پھر اُن کے بعد سیدالاوصیا کے گزرنے کی مصیبت بھی پڑچکی ہے پھر ایک دفعہ حضرت علی ؓ نے دو مینڈھے قربانی کئے جب اس کا سبب پوچھا گیا تو فرمایا کہ مجھے رسول اﷲ وصیت کرگئے ہیں کہ ان کی طرف سے بھی قربانی کیا کروں اور رسول اﷲ کا فرض بھی بعد اُن کے حضرت علی ؓ سے ادا کیا ہے ان سب باتوں سے بڑھ کر یہ ہے کہ ام المومنین عائشہؓ جنھوں نے حضرت علیؓ سے قتال کیا ہے اُن کے منہ پر لوگوں نے کہا کہ علی وصی میں ذا کروا عندنا عائشۃ ان علیا کان وصیا یہ سن کر انھوں نے کہا کب وصی کیا میری آغوش میں تو اُن حضرت کا دم نکلا یہ اسی زمانہ سے حضرت کا وصی ہونا ایسا مشہور تھا کہ ہزیل بن شرجیل تعجب سے کہتا ہے کہ بھلا یہ ہو سکتا ہے کہ ابوبکرؓ اور وصی رسول ؐ پر حکومت کریں ابوبکرؓ کو تو یہ آرزو تھی کہ رسالتمآب کسی کو مقرر کر دیں تو اس کی اطاعت کا حلقہ اپنے گلے میں ڈالیں۔ یہ سب باتیں تو ایسی ہیں جس کا کسی نے انکار نہیں کیا اس کے علاوہ حکیم بن جبیرسا محدث جلیل بطرق متعددہ روایت کرتا ہے کہ سلمانؓ نے پوچھا یارسول اﷲ آپ کا وصی کون ہے فرمایا میرا وصی میرا ہمراز میرے اہل میں میرا جانشین اور سب میں میرے بعد ممتاز علی ابن ابی طالب ہے ، دوسری روایت میں حضرت بریدہ سے فرمایا ہر نبی کا وصی ہوتا ہے میرا وصی اور میرا فرزند علی ہے ایک روایت ابوذرؓ سے ہے کہ فرمایا میں خاتم النبیین ہوں اور علی خاتم الاوصیاء ہیں لیکن امام احمد اور عقیلی اور ابن جوزی وغیرہ نے حکم بن جبیر سے ایسی ایسی روایتیں سن کر انھیں محدثین ضعفاء میں داخل کر دیا۔
جسم اطہر کو ترے دوش پیمبر منبر
نام نامی کو ترے ناصیۂ عرش نگیں
ممدوح سے کہتے ہیں تیرا منبر دوش پیمبرؐ ہے اور تیرے نام کا نگین پیشانی عرش انور ہے۔
کس سے ممکن ہے تری مدح بغیر ازواجب
شعلۂ شمع مگر شمع پہ باندھے آئین
واجب وہ جو خودبخود موجود ہو اصطلاح فلسفہ میں واجب خدا کو کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ممدوح کی ذات کو واجب تعالیٰ کے ساتھ ایسا ربط ہے جیسا کہ شمع کو شعلہ سے ہے یعنی وہ حضرت فنا فی اللہ ہیں ، اُن کی مدح سوائے خدا کے کسی سے نہیں ہو سکتی جیسے شمع کا فروغ شعلہ کے سوا نہیں ہو سکتا ، آئین بستن زینت دینے کے معنی پر ہے۔
آستاں پر ہے ترے جوہر آئینہ سنگ
رقم بندگی حضرت جبرئیلؑ میں
سنگ سے سنگ آستاں مراد ہے یعنی تیری چوکھٹ کا پتھر ایسا ہے جس میں حضرت جبرئیل ؑکے سجدوں کے نشان ہیں ، وہ سب نشان گویا اُس آئینہ کے لئے جوہر ہیں۔
تیرے در کے لئے اسباب نثار آمادہ
خاکیوں کو جو خدا نے دئیے جان و دل و دیں
اس شعر میں اسباب کا آمادہ کرنا محاورہ اُردو کے خلاف ہے اسباب کا مہیا کرنا محاورہ ہے اور آمادہ کرنا اُردو میں ترغیب دینے کے محل پر بولتے ہیں ، فارسی کا ترجمہ کر لینے میں مصنف مرحوم کی جرأت اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ ان کے کلام سے اُردو کے محاورات کوئی نہیں سیکھ سکتا۔
تیری مدحت کے لئے ہیں دل و جاں کام و زباں
تیری تسلیم کو ہیں لوح و قلم و دست و جبیں
یعنی تیری مدح سرائی کرنے کے لئے دل و جان دونوں مل کر کام و زبان بن گئے ہیں اور تجھے تسلیم کرنے کے لئے قلم اور لوح دونوں مل کر دست و جبین ہو گئے ہیں۔ ہندیوں میں تسلیم اسی کا نام ہے کہ ماتھے پر ہاتھ رکھیں۔
کس سے ہو سکتی ہے مداحی ممدوح خدا
کس سے ہو سکتی ہے آرائش فردوس بریں
اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ جو مدح کرتا ہے اس کے واسطے بہشت آراستہ کئے جاتے ہیں
جنس بازار معاصی اسد اللہ اسدؔ
کہ سوا تیرے کوئی اس کا خریدار نہیں
شوخیِ عرض مطالب میں ہے گستاخ طلب
ہے ترے حوصلۂ فضل پر ازبسکہ یقیں
دے دُعا کو مری وہ مرتبہ حسن قبول
کہ اجابت کہے ہر حرف پہ سو بار آمیں
اجابت کو آمین کہنے سے قبول ہو جانا مراد لیتے ہیں۔
غم شبیرؓ سے ہو سینہ یہاں تک لبریز
کہ رہیں خون جگر سے مری آنکھیں رنگیں
سینہ کا غم سے بھرجانا فارسی والوں کا محاورہ ہے اُردو میں دل کا غم سے بھر آنا بولتے ہیں اس شعر میں مصنف نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ دل جب غم سے بھر آتا ہے تو آنکھوں کی طرف سے چھلکتا ہے۔
طبع کو اُلفت دلدل میں یہ سرگرمی شوق
کہ جہاں تک چلے اُس سے قدم اور مجھ سے جبیں
یعنی اس قدر شوق ہو کہ جب وہ قدم رکھے میں اپنی جبیں کو اُس کے لئے فرش کردوں ، دوسرے مصرع کا مضمون فارسی سے ماخوذ ہے لیکن اُردو کے محاورہ میں بھی کیا پورا اُترا ہے کہ تعریف نہیں ہو سکتی یہاں فارسیت کلام کا زیور ہو گئی۔
دل اُلفت نسب و سینۂ توحید فضا
نگہ جلوہ پرست و نفس صدق گزیں
دل کی اُلفت اُلفتِ نسب اور سینہ کا وصف توحید فضاء دونوں ترکیبیں ایسی مہمل ہیں کہ خدا ہی ہے جو اُس کے معنی کچھ بن سکیں۔ دوسرا مصرع بہت خوب کہا ہے نگاہ کی صفت جلوہ پرست اور نفس کا وصف صدق گزیں خاتم و نگیں کا وصف دے رہا ہے مطلب مصنف کا یہ ہے کہ دل میں ہو جوش ولا سینہ میں نور عرفان۔
صرف اعدا اثر شعلۂ دورِ دوزخ
وقف احباب گل و سنبل فردوس بریں
رنگینیٔ گل کا شعلہ سے اور پیچ و تاب سنبل کا دھوئیں سے مقابلہ کرنا مقصود ہے صرف وقف سجع اور اعدا و احباب دوزخ و فردوس کا تقابل بھی لطف سے خالی نہیں۔
_______
ہاں مہ نو سنیں ہم اُس کا نام
جس کو تو جھک کے کر رہا ہے سلام
ہلال عید سے خطاب ہے۔
دو دن آیا ہے تو نظر دم صبح
یہی انداز اور یہی اندام
رمضان کی چھبیسویں شب پچھلے کو روزہ دار چاند کو ڈھونڈتے ہیں اگر اُس دن نہ دکھائی دیا تو گمان غالب ہوتا ہے کہ انتیس کا چاند ہو گا پھر ستائیسویں شب بھی نماز صبح کے وقت چاند کو ڈھونڈتے ہیں اگر اُس دن دکھائی دے گیا تو گمان غالب ہو جاتا ہے کہ تیس کا چاند ہے ان دونوں تاریخوں کا چاند ہلال کی طرح باریک و منحنی ہوتا ہے یہی دونوں دن مصنف نے مراد لئے ہیں۔
بارے دو دن کہاں رہا غائب
بندہ عاجز ہے گردش ایام
یعنی تحت الشعاع کے ایام جن دنوں میں چاند چھپا رہتا ہے۔
اُڑ کے جاتا کہاں کہ تاروں کا
آسماں نے بچھا رکھا تھا دام
ہلال کو مچھلی سے بھی تشبیہ دیا کرتے ہیں اور مچھلی تڑپ کر اُڑتی ہے اُڑنے کا لفظ مناسب واقع ہوا ہے۔
مرحبا اے سرور خاص خواص
حبذا اے نشاطِ عام عوام
عذر میں تین دن نہ آنے کے
لے کے آیا ہے عید کا پیغام
چاند کے چھپنے کا زمانہ دو دن سے زیادہ اور تین دن سے کم ہے اسی سبب سے مصنف نے تیسرے شعر میں کسر کو چھوڑکر دو دن کہے اور اس شعر میں کسر کو بڑھا کر تین دن کہے اور یہ بات محاورہ و عادات میں جاری ہے۔
اس کو بھولا نہ چاہئے کہنا
صبح جو جاوے اور آوے شام
کس لطف سے اس مثل کو موزوں کیا ہے کہ صبح کا بھولا شام کو آئے تو اُسے بھولا نہیں کہتے اور کس محل پر صرف کیا ہے چھبیسویں یا ستائیسویں کی صبح کو چاند نکل کر پھر انتیسویں یا تیسویں شام کو دکھائی دیتا ہے اس سے لطف کلام ظاہر ہے۔
ایک میں کیا کہ سب نے جان لیا
تیرا آغاز اور ترا انجام
اس شعر میں ’ کہ ، کی توجیہ اشکال سے خالی نہیں لیکن ’ کہ ، اس مقام پر محاورہ میں بول بھی جاتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ایک میں نے تجھ سے رازِ دل پوچھا تو کیا ہوا۔ ’ کہ ، یہ تو سبھی کو معلوم ہے کہ بدر سے گھٹتے گھٹتے فنا ہو گیا تھا ، اب پھر چمک کر نکلا آغاز سے کمال مراد ہے اور انجام سے چھپ جانا مقصود ہے اور کاف یہاں تعلیل کے معنی پر ہے۔
رازِ دل مجھ سے کیوں چھپاتا ہے
مجھ کو سمجھا ہے کیا کہیں نمام
جانتا ہوں کہ آج دُنیا میں
ایک ہی ہے اُمید گاہ انام
تو اپنی اُمیدگاہ کو لاکھ چھپائے مگر وہ چھپ کب سکتی ہے ایک ہی آستانہ تو مرجع خلق ہے اس کے سوا اور تجھے کس سے اُمید فروغ ہو سکتی ہے۔
میں نے مانا کہ تو ہے حلقہ بگوش
غالبؔ اُس کا مگر نہیں ہے غلام
جانتا ہوں کہ جانتا ہے تو
تب کہا ہے بطرز استفہام
ہلال سے کہتے ہیں کہ تو اُس در کا حلقہ بگوش ہے تو کیا میں غلام نہیں ہوں مجھے معلوم ہے کہ تجھے میری غلامی کی خبر ہے اس سبب سے بطرز استفہام انکاری تجھ سے پوچھا ہے۔
مہرتاباں کو ہو تو ہو اے ماہ
قرب ہر روزہ برسبیل دوام
تجھ کو کیا پایہ روشناسی کا
جز بتقریب عید ماہ صیام
آفتاب کو درگاہ ممدوح سے روزانہ قرب حاصل ہو تو سکتا ہے لیکن تجھ کو سوا عید کے یہ مرتبہ نہیں حاصل ہو سکتا۔
جانتا ہوں کہ اس کے فیض سے تو
پھر بنا چاہتا ہے ماہ تمام
تو تو ممدوح کا نام ہی مجھ سے چھپاتا ہے میں یہ بھی بتائے دیتا ہوں کہ پھر اس کے فیض سے تو ماہ کامل بنا چاہتا ہے یعنی تجھ سے زیادہ میری وہاں رسائی ہے۔
ماہ بن ماہتاب بن میں کون
مجھ کو کیا بانٹ دے گا تو انعام
اس سارے قصیدہ میں عموماً اور اس شعر میں خصوصاً مصنف نے اُردو کی زبان اور حسن بیان کی عجب شان دکھائی ہے ایک مصرع میں تین جملہ جس کے مضمون سے رشک ٹپک رہا ہے ، دوسرا مصرع طنز سے بھرا ہوا ہے ، چاروں جملوں میں حسن انشا پھر خوبی نظم و بے تکلفی ادا۔
میرا اپنا جدا معاملہ ہے
اور کے لین دین سے کیا کام
کہیں اس خیال میں نہ رہنا کہ تیرے ہی لئے انعام ہے اور میں محروم ہوں اس سبب سے تجھ پر رشک کرتا ہوں۔
ہے مجھے آرزوئے بخشش خاص
گر تجھے ہے اُمید رحمتِ عام
اس شعر میں لفظ آرزو کس قدر مقتضائے مقام سے الگ ہے آرزو میں اس کے پورے ہونے کا اعتقاد نہیں ہوتا اور اُمیدوار کو اپنی اُمید بر آنے کا اعتقاد ہوتا ہے ، غرض یہ ہے کہ ہے مجھے بھی اُمید بخشش خاص یعنی ایسی بخشش جو میرے لئے نافع ہے گر تجھے ہے اُمید رحمت عام یعنی ایسی رحمت جس کا فائدہ عام ہو۔
جو کہ بخشے گا تجھ کو فر فروغ
کیا نہ دے گا مجھے مے گلفام
یعنی جب تیری روشنی بطفیل ممدوح ضیا بخش عالم ہو گی تو کیا مجھے چاندنی رات میں شراب پینے کو نہ ملے گی۔
جب کہ چودہ منازل فلکی
کرچکی قطع تیری تیزیٔ گام
تیرے پرتو سے ہوں فروغ پذیر
کوئے و مشکوئے صحن و منظر و بام
دیکھنا میرے ہات میں لبریز
اپنی صورت کا اک بلوریں جام
ہلال سے کہتے ہیں کہ جب تو اپنی تیزیٔ رفتار سے چودہ منزلیں طے کر کے چودھویں کا چاند ہو جائے گا اور تیرے پرتو سے کوے و مشکوے در و بام پر چاندنی چھٹکے گی تو دیکھ لینا کہ میرے ہاتھ میں بھی چھلکتا ہوا جام بلوریں اسی انداز کا ہو گا مشکوۃ بمعنی محل سرا۔
پھر غزل کی روش پہ چل نکلا
تو سن طبع چاہتا تھا لگام
فقط جام شراب و شب ماہتاب کے ذکر سے غزل سرائی کی لہر آ گئی۔
زہر غم کرچکا تھا میرا کام
تجھ کو کس نے کہا کہ ہو بدنام
میں تو غم سے ناتمام ہو چکا تھا تو نے قتل کر کے اپنے سر کیوں الزام لیا۔
مے ہی پھر کیوں نہ میں پئے جاؤں
غم سے جب ہو گئی ہے زیست حرام
لطیفہ اس میں یہ ہے کہ مے بھی حرام ہے اور غم سے زیست بھی حرام ہے پھر مے کیوں نہ پیوں کہ اس سے غم تو غلط ہو جاتا ہے یعنی اگر مے کو حرام سمجھ کر اُس سے پرہیز کروں تو غم کے ہاتھوں زیست حرام ہوئی جاتی ہے نہایت لطیف مضمون ہے۔
بوسہ کیسا ، یہی غنیمت ہے
کہ نہ سمجھیں وہ لذتِ دشنام
اسے نہیں معلوم کہ گالیاں کھانے میں بھی مجھے مزا مل جاتا ہے نہیں تو بوسہ کیسا گالیاں دینا بھی وہ موقوف کردے۔
کعبہ میں جا بجائیں گے ناقوس
اب تو باندھا ہے دیر میں احرام
جس طرح کعبہ کے بدلے دیر میں احرام باندھ لیا ہے اسی طرح دیر کے کعبہ میں ناقوس پھونکیں گے۔
اُس قدح کاہے دور مجھ کو نقد
چرخ نے لی ہے جس سے گردش دام
یعنی مجھے وہ جام عرفان میسر ہے جس شراب معرفت سے مست ہوکر فلک رقص کر رہا ہے۔
بوسہ دینے میں اُن کو ہے انکار
دل کے لینے میں جن کو تھا ابرام
شعر میں انشائے تعجب ہے ابرام ضد کرنے کے معنی پر ہے۔
چھیڑتا ہوں کہ اُن کو غصہ آئے
کیوں رکھوں ورنہ غالب اپنا نام
یعنی اُن کے چھیڑنے کے لئے میں نے اپنا نام غالب رکھا۔
کہہ چکا میں تو سب کچھ اب تو کہہ
اے پری چہرہ پیک تیز خرام
یہاں سے پھر ماہ نو کی طرف خطاب ہے چاند کو سرعت سیر کے سبب سے شعر اپیک کہا کرتے ہیں۔
کون ہے جس کے در پہ ناصیہ سا
ہیں مہ و مہر و زہرۂ و بہرام
مریخ کا فارسی نام بہرام ہے۔
تو نہیں جانتا تو مجھ سے سن
نام شاہنشہ بلند مقام
قبلۂ چشم و دل بہادر شاہ
مظہر ذوالجلال والاکرام
اس نظر سے کہ چشم اُمید انھیں کی طرف لگی ہوئی ہے اور دل اُنھیں کی طرف رُجوع ہے قبلۂ چشم و دل کہا ہے۔
شہسوار طریقۂ انصاف
نو بہار حدیقۂ اسلام
شہسوار کا سجع نو بہار اور طریقہ کا حدیقہ سے پھر انصاف کے ہم وزن اسلام کا ہونا شعر میں لطف دے رہا ہے۔
جس کا ہر فعل صورتِ اعجاز
جس کا ہر قول معنی الہام
فعل اور قول کا اور صورت و معنی کا مقابلہ اعجاز و الہام کا تناسب پھر دونوں مصرعوں کی ترکیب کا تشابہ خوبی شعر کا باعث ہے۔
بزم میں میزبان قیصر و جم
رزم میں اوستادِ رستم و سام
میزبان کہنے سے غالباً یہ مراد ہے کہ قیصر و جم اُس کے زلہ خوار ہیں۔
اے ترا لطف زندگی افزا
اے ترا عہد فرخی فرجام
یہاں سے ممدوح کی طرف التفات ہے۔
چشم بددور خسر وانہ شکوہ
لوحش اللہ عارفانہ کلام
جاں نثاروں میں تیرے قیصر روم
جرعہ خواروں میں تیرے مرشد جام
لف و نشر مرتب ہے مرشد جام سے غالباً جامی کو مراد لیا۔ لوحش اللہ ماشاء اللہ کے محل پر فارسی والے بولتے ہیں مگر عربی میں یہ جملہ کہیں دیکھنے میں نہیں آیا نہ لوحش کوئی لفظ عربی ہے اور میں اس کا استعمال فارسی و اُردو میں غلط سمجھتا ہوں۔
وارث ملک جانتے ہیں تجھے
ایرج و تور و خسرو و بہرام
زور بازو میں جانتے ہیں تجھے
گیو گو درز بیزن و رہام
دونوں شعروں کے اُوپر کے مصرعوں میں سجع لا کر حسن پیدا کیا ہے۔
مرحبا موشگافی ناوک
آفریں آب داریٔ صمصام
تیر کو تیرے تیر غیرہدف
تیغ کو تیری تیغ خصم نیام
لف و نشر مرتب ہے یعنی تیر تیرا ایسا موشگاف ہے کہ دُشمن کا تیر اُس کا ہدف ہے اور تیغ تیری ایسی آبدار ہے کہ تیغ خصم کو نیام کی طرح کاٹ ڈالتی ہے۔
رعد کا کر رہی ہے کیا دم بند
برق کو دے رہا ہے کیا الزام
تیرے فیل گراں جسد کی صدا
تیرے رخش سبک عناں کا خرام
رعد و برق و فیل واسپ و گراں جسد و سبک عناں سب الفاظ متناسب ہیں پھر لف و نشر بھی بترتیب ہے۔
فن صورت گری میں تیرا گرز
گر نہ رکھتا ہو دست گاہ تمام
اس کے مضروب کے سر و تن سے
کیوں نمایاں ہو صورت ادغام
تیرے گرز کو مصوری و صورت گری میں عجب دستگاہ ہے کہ اپنے مضروب کے سر و تن کو ایک کر کے ادغام کی تصویر کھینچ دیتا ہے۔
جب ازل میں رقم پذیر ہوئے
صفہائے لیالی و ایام
اور ان اوراق میں بکلک قضا
مجملاً مندرج ہوئے احکام
ازل میں جو احکام مندرج ہوئے وہ مجمل تھے ابد تک اُس کی تفصیل ہوتی رہے گی۔
لکھ دیا شاہدوں کو عاشق کش
لکھ دیا عاشقوں کو دُشمن کام
شاہد عربی لفظ ہے لیکن معشوق کے معنی پر اس کا استعمال فارسی والوں کا تصرف ہے ، دُشمن کام اُس شخص کو کہتے ہیں جو دُشمنوں کے حسبِ مراد ہو یعنی تباہ و برباد ہو۔
آسماں کو کہا گیا کہ کہیں
گنبد تیز گرد نیلی فام
حکم ناطق لکھا گیا کہ لکھیں
خال کو دانہ اور زلف کو دام
کہا گیا کہ کہیں اور لکھا گیا کہ لکھیں ان دونوں فقروں کی ترکیب تازگی سے خالی نہیں۔
آتش و آب و باد و خاک نے لی
وضع سوز و نم و رم و آرام
دوسرے مصرع کی بندش سے زور قلم ٹپک رہا ہے اور مصنف کو الفاظ پر جو قدرت حاصل ہے یہ مصرع اُس کی تفصیل کر رہا ہے۔
مہر رخشاں کا نام خسروِ روز
ماہ تاباں کا اسم شحنۂ شام
یعنی آفتاب کے خسر و روز کا خطاب ملا اور ماہ کو اسم شحنگی شام کے دفتر میں لکھا گیا۔
تیری توقیع سلطنت کو بھی
دی بدستور صورت ارقام
رقم سے ترقیم آیا ہے ارقام غلط ہے بدستور سے حسبِ ضابطہ مراد ہے اور دستور وزیر کو بھی کہتے ہیں۔
کاتب حکم نے بموجب حکم
اس رقم کو دیا طراز دوام
یعنی فرمان سلطنت تیرے لئے لکھ کر اُس پر خلود و دوام کا طغرا بنادیا۔
ہے ازل سے روائے آغاز
ہو ابد تک رسائے انجام
دعائیہ شعر ہے روائی بمعنی جواز و امکان ہے یہ لفظ مصنف نے فقط رسائی کا سجع پیدا کرنے کے لئے بنالیا ، شارح کی نظر میں یہ قصیدہ خصوصاً اس کی تشبیب ایک کارنامہ ہے ، مصنف مرحوم کے کمال کا اور زیور ہے ، اُردو کی شاعری کے لئے اس زبان میں جب سے قصیدہ گوئی شروع ہوئی ہے اس طرح کی تشبیب کم کہی گئی۔
_______
صبح دم دروازۂ خاور کھلا
مہر عالم تاب کا منظر کھلا
طلوع صبح کو دروازہ مشرق کے کھلنے سے تعبیر کیا ہے یعنی صبح ہوئی اور جس منظر میں کہ جلوۂ آفتاب نظر آتا ہے وہ منظر کھل گیا۔
خسرو انجم کے آیا صرف میں
شب کو تھا گنجینۂ گوہر کھلا
آفتاب کے نور میں ستارے چھپ گئے گویا خسر و خار نے گنج گوہر کو صرف کرڈالا۔
وہ بھی تھی اک سیمیا کی سی نمود
صبح کو راز مہ و اختر کھلا
سیمیا ایک فن کا نام ہے جس کے سبب سے اشکال وہمی و غیروہمی دکھلائی دینے لگیں۔
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازیگر کھلا
یعنی ایک سے ایک تار اگر درون کوس کے فاصلہ پر ہے اور باہم متصل نظر آتے ہیں اکثر ان میں بے نور ہیں اور نورانی معلوم ہوتے ہیں جو قد کے بڑے ہیں وہ چھوٹے دکھائی دیتے ہیں جو چھوٹے ہیں وہ بڑے معلوم ہوتے ہیں متحرک ثابت دکھائی دیتے ہیں جو ساکن ہیں وہ سیار معلوم ہوتے ہیں مختلف رنگ ہیں اور اصل میں کچھ بھی نہیں ، ابھی طلوع نہیں ہوئے اور دکھائی دینے لگے اور غروب ہو چکے مگر پھر بھی نظر آرہے ہیں۔
سطح گردوں پر پڑا تھا رات کو
موتیوں کا ہر طرف زیور کھلا
غور کرنے کی بات ہے یہاں اس تشبیہ نے ستاروں کا حسن بڑھادیا حالاں کہ مشبہ بہ مشبہ سے ضعیف ہے ، لم اس کی یہ ہے کہ معشوق کا زیور ستاروں سے زیادہ محبوب و مرغوب ہے گو چمک دمک میں اُن سے کم ہے۔
صبح آیا جانب مشرق نظر
اک نگار آتشیں رُخ سر کھلا
تھی نظربندی کیا جب رد سحر
بادۂ گل رنگ کا ساغر کھلا
لاکے ساقی نے صبوحی کے لئے
رکھ دیا ہے ایک جام زر کھلا
آفتاب پر پہلے چہرۂ معشوق کا دھوکا ہوا پھر ساغر شراب کا یقین ہو گیا ، لطف یہ ہے کہ آفتاب کو آفتاب نہ سمجھے۔
بزم سلطانی ہوئی آراستہ
کعبۂ امن و اماں کا دَر کھلا
تمہید میں صبح کا بیان اسی لئے تھا کہ جب صبح ہوئی تو بزم شاہی آراستہ ہوئی۔
تاج زریں مہرتاباں سے سوا
خسروِ آفاق کا منہ پر کھلا
منہ پر کھلنا زیب دینے کے معنی پر محاورہ میں ہے اُوپر مصنف کا یہ مصرع گذرچکاہے زلف سے بڑھ کر نقاب اُس شوخ کے منہ پر کھلا۔
شاہ روشن دل بہادر شہ کاہے
راز ہستی اُس پہ سرتا سر کھلا
سر ہستی کا سر تا سر ظاہر ہونا روشن دلی کی دلیل روشن ہے۔
وہ کہ جس کی صورت تکوین میں
مقصد نہ چرخ و ہفت اختر کھلا
صورت تکوین میں فارسی ترکیب ہے اور پھر بھی اعلان نون موجود ہے۔
وہ کہ جس کے ناخن تاویل سے
عقدۂ احکام پیغمبرؐ کھلا
احکام کو عقدہ فرض کیا اس کے مناسب تاویل کو ناخن سے تعبیر کیا۔
پہلے دارا کا نکل آیا ہے نام
اُس کے سرہنگوں کا جب دفتر کھلا
روشناسوں کی جہاں فہرست ہے
واں کھلا ہے چہرۂ قیصر کھلا
پہلے شعر میں دارا کی تخصیص بے جا ہے اور دوسرے شعر میں قیصر کی۔ ایک طرح کا تناسب جو شعرا کی طبیعت میں فطری ہوتا ہے اس کا مقتضیٰ یہ تھا کہ وہاں دارا کا ذکر تھا تو یہاں قیصر کے بدلے یوں کہتے ہیں کہ : ’ واں لکھا ہے نام اسکندر کھلا ، یا اگر قیصر کو رکھنا منظور تھا تو دارا کے بدلے خاقان کہنا مناسب تھا اس سبب سے کہ دارا و اسکندر دونوں علم ہیں اور خاقان و قیصر دونوں لقب ہیں ، اس کے علاوہ دوسرے شعر میں کھلا مکرر ہونا چاہئے تھا کہتے ہیں کھلا ، کھلا کھلا ہے اور یہاں تکرار ضروری ہے۔
تو سن شہ میں ہے وہ خوبی کہ جب
تھان سے وہ غیرت صر صر کھلا
نقش پا کی صورتیں وہ دلفریب
تو کہے بت خانۂ آذر کھلا
آذر فارسی قدیم میں آگ کو کہتے ہیں بت خانہ آذر سے آتش کدہ مجوس مراد ہے لیکن آتش کدہ میں سنا ہے کہ بت نہیں ہوتے پھر اُسے بت خانہ کہتے نہیں بن پڑتا مگر اساتذہ قدما نے بھی بتان آذری باندھا ہے شاید کسی آتش کدہ میں زمانۂ قدیم کے بت بھی ہوں گے ، آذر بت تراش کی طرف نسبت نہیں ہو سکتی ، اس سبب سے کہ املا بدلا ہوا ہے تو کہے فارسی کا ترجمہ ہے۔
مجھ پہ فیض تربیت سے شاہ کے
منصب مہر و مہ محور کھلا
یعنی بادشاہ کی تربیت سے یہ علم مجھے ہوا کہ آفتاب کا کیا منصب ہے اور ماہ کا کیا عہدہ ہے یعنی علم السماء و العالم مجھے بادشاہ سے حاصل ہوا ایک احتمال یہ ہے کہ ان کا منصب مجھ پر کھلا یعنی ان کی تنخواہ میرے نام جاری ہو گئی یعنی آفتاب و ماہ کا جو عہدہ تھا میں اُس سے سرفراز ہوا ، پہلی صورت میں تربیت بمعنی تعلیم اور دوسری صورت میں بمعنی پرورش ہے ، اس شعر میں اختر کو چھوڑکر محور قافیہ لائے ہیں بے لطف و بے ربط معلوم ہوتا ہے اس سبب سے محور اجرام و اجسام میں سے کوئی شئے نہیں ہے بلکہ ایک فرضی و موہومی لکیر کا نام اہل ہئیت نے محور رکھ لیا ہے یعنی کرۂ متحرکہ کے درمیان جو ایک ساکن لکیر قطبین کے بیچ میں ہے موہوم ہوتی ہے وہ لکیر محور ہے بھلا اس کو مہر و ماہ کے ساتھ کیا ربط ہے لیکن مصنف کو مناسبت لفظی جو مہ و محور و مہر میں ہے باعث ہوئی کہ اسی کو قافیہ بنایا۔
لاکھ عقدے دل میں تھے لیکن ہر ایک
میری حد وسع سے باہر کھلا
لاکھوں مشکلیں جو میری استطاعت سے باہر تھیں وہ آسان ہو گئیں۔
تھا دل وابستہ قفل بے کلید
کس نے کھولا کب کھلا کیوں کر کھلا
دوسرے مصرع میں استفہام سے سچ مچ پوچھنا نہیں مقصود ہے بلکہ محض تعجب اور خوشی کا اظہار و اخبار استفہام کے پیرایہ میں ہے۔
باغ معنی کی دکھاؤں گا بہار
مجھ سے گر شاہ سخن گستر کھلا
کھلنے کے معنی بے تکلف ہوکر باتیں کرنے کے ہیں لیکن یہاں التفات بادشاہ مراد ہے۔
ہو جہاں گرم غزل خوانی نفس
لوگ جانیں طبلۂ عنبر کھلا
قصیدہ میں شعرا غزل بھی کہہ جاتے ہیں لیکن تشبیب و تمہید میں یہاں مصنف مرحوم نے مدح کہتے کہتے غزل شروع کر دی۔ غزل کے بعد پھر مدح گوئی شروع کی یہ ایجاد ہے۔
کنج میں بیٹھا رہوں یوں پر کھلا
کاش کے ہوتا قفس کا در کھلا
اپنے تئیں مرغ گرفتار قفس فرض کر کے پہلے مصرع میں شاعر نے اپنی حالت پر افسوس کیا ہے اور دوسرے مصرع میں اپنی حسرت کو بیان کیا ہے۔
ہم پکاریں اور کھلے یوں کون جائے
یار کا دروازہ پاویں گر کھلا
یعنی دروازہ کھلا پائیں تو بے پکارے ہی اندر چلے جائیں یہ تاب کس کو کہ ہم پکاریں اور کھلے۔
ہم کو ہے اس رازداری پر گھمنڈ
دوست کاہے راز دُشمن پر کھلا
اپنے حال پر آپ استہزا کرتے ہیں کہ ہم تو اس بات پر نازاں ہیں کہ معشوق کا راز ہم نے کسی پر فاش نہیں کیا اور معشوق کا یہ حال کہ غیروں کو اپنا رازدار اس نے بنایا ہے۔
واقعی دل پر بھلا لگتا تھا داغ
زخم لیکن داغ سے بہتر کھلا
کھلنا زیب دینے کے معنی پر ہے لیکن زخم کا کھل جانا ایک دوسرا لطف ہے جو اس لفظ سے مصنف نے پیدا کیا۔
ہاتھ سے رکھ دی کب ابرو نے کمان
کب کمر سے غمزہ کے خنجر کھلا
ابرو کو کمان سے اور غمزہ کو خنجر سے تشبیہ دیا کرتے ہیں لیکن ابرو کو کمان دار اور غمزہ کو خنجر گذار کہنا زیادہ لطف دے گیا۔ اس شعر میں ہاتھ کو ہات لکھا ہے یہ فقط اپنی بات کی پچ ہے کہ رات اور ذات کے ساتھ جو قافیہ کر دیا ہے تو محض اس کے نباہنے کے لئے رسم خط ہی بدل دیا۔ اہل لکھنؤ اور تمام اُردو زبان والے ہاتھ ہی لکھتے ہیں اور ہائے مخلوط کو تلفظ میں داخل سمجھتے ہیں اور بات اور سات کے ساتھ اس قافیہ کو غلط سمجھتے ہیں بلکہ ہاتھ کا قافیہ ساتھ لاتے ہیں۔
مفت کا کس کو برا ہے بدرقہ
رہروی میں پردۂ رہبر کھلا
یعنی جب سابقہ پڑا تو رہبر کا بھرم کھل گیا ’ کہ اوخویشتن گم ست ، لیکن مفت کا بدرقہ کیا برا ہے۔ بدرقہ راہنماؤں نگہبان گان کارواں کو کہتے ہیں۔
سوز دل کا کیا کرے بارانِ اشک
آگ بھڑ کی مینھ اگر دم بھر کھلا
مصنف مرحوم نے جس مقام میں ’ کا ، کہا ہے یہاں ’ کو ، زیادہ محاورہ میں ڈوبا ہوا ہے اور فیصلہ اہل زبان کے ہاتھ ہے۔
نامہ کے ساتھ آگیا پیغام مرگ
رہ گیا خط میری چھاتی پر کھلا
شادی مرگ ہو جانے کا مضمون کیا خوب کہا ہے یہ شعر بیت الغزل ہے۔
دیکھیو غالبؔ سے گر اُلجھا کوئی
ہے ولی پوشیدہ اور کافر کھلا
دیکھیو ڈرانے کے مقام پر بولتے ہیں۔
پھر ہوا مدحت طرازی کا خیال
پھر مہ و خورشید کا دفتر کھلا
مدح کے اشعار یا مضامین کو مہ و خورشید سے استعارہ کیا ہے۔
خامہ نے پائی طبیعت سے مدد
بادباں بھی اُٹھتے ہی لنگر کھلا
یعنی خامہ اُٹھاتے ہی طبیعت اُس کی مدد کرنے لگی جیسے لنگر اُٹھتے ہی بادبان بھی کھلا کھلنے کا لفظ طبیعت کے ساتھ بھی بولا جاتا ہے بس اتنی مناسبت طبیعت کو بادبان فرض کرنے میں کافی ہے لیکن مصرع ثانی کی بندش اچھی نہیں بادبان اس سرے پر ہے اور کھلا اُس سرے پر۔
مدح سے ممدوح کی دیکھی شکوہ
عرض سے یاں رتبۂ جوہر کھلا
جوہر کا لفظ یہاں گوہر کی طرح چمک رہا ہے دونوں معنوں کی تڑپ اُس میں دکھائی دے رہی ہے ایک تو محل عرض جو فلسفہ کی اصطلاح ہے اور دوسرے معنی حسن ذاتی و خوبی فطری کے جو عرف میں زباں زد ہیں۔
مہر کا نپا چرخ چکر کھا گیا
بادشہ کا رایت لشکر کھلا
مہر کانپنا اور فلک کا چکر کھانا تو ثابت ہے جیسا کہ بعض حکما کا خیال ہے لیکن مبالغہ اس توجیہ میں ہے کہ رایت شاہی کے رعب سے وہ کانپ اُٹھا اور اس کو چکر آگیا۔ لفظ رایت بھی باوجود تائے تانیث اُردو میں مذکر بولا جاتا ہے جس طرح شربت و خلعت۔
بادشہ کا نام لیتا ہے خطیب
اب علوئے پایۂ منبر کھلا
یعنی ممبر کے رتبہ کا یہ سبب ہے کہ خطیب اُس پر بادشاہ کا نام لیتا ہے۔
سکۂ شہ کا ہوا ہے روشناس
اب عیار آبروئے زر کھلا
زر کی آبرو کا یہ سبب ہے کہ سکہ اُس پر بادشاہ کاہے۔
شاہ کے آگے دھرا ہے آئینہ
اب مآل سعی اسکندر کھلا
یعنی سکندر نے اسی آئینہ داری کی ہوس میں آئینہ بنانے میں سعی کی تھی۔
ملک کے وارث کو دیکھا خلق نے
اب فریب طغرل و سنجر کھلا
یعنی ملک ممدوح کا حق تھا اور طغرل و سنجر غریب سے بادشاہ بن بیٹھے تھے۔
ہو سکے کیا مدح ہاں اک نام ہے
دفتر مدح جہاں داور کھلا
اس شعر کی بندش صاف نہیں اور کاف کا حذف کرنا اور برا ہوا غرض یہ ہے کہ باوجود یہ کہ میرا نام کھل گیا ہے کہ میں نے مدح میں دفتر لکھ ڈالا اس پر مدح جیسی چاہئے نہ ہو سکی۔
فکر اچھی پر ستائش ناتمام
عجز اعجاز ستائش گر کھلا
یعنی فکر تو ایسی اچھی کہ اعجاز کہنا چاہئے لیکن عجز اس میں یہ ہے کہ ستائش ناتمام رہی ندرت یہ ہے کہ اعجاز میں عجز ثابت کیا ہے۔
جانتا ہوں ہے خط لوح ازل
تم پہ اے خاقان نام آور کھلا
جس مقام پر مصنف نے یہ شعر کہا ہے یہ قصیدہ میں عرض حال کا مقام ہے لیکن فقط اتنا کہہ کر کہ تم پر لوح ازل کا حال کھلا ہوا ہے اکتفا کی غرض یہ کہ میرا حال بھی تم پر پوشیدہ نہیں ہو سکتا کہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
تم کرو صاحب قرانی جب تلک
ہے طلسم روز و شب کا در کھلا
صاحب قرآن نجوم کی اصطلاح میں اُس بادشاہ کو کہتے ہیں جو قران عظمیٰ کے وقت پیدا ہوا ہو کہ اُس کی سلطنت بہت وسیع و ممتد ہوتی ہے اور قران عظمیٰ بھی اسی فن کی اصطلاح ہے حالات کی کوئی خاص ہئیت ہے جسے قران عظمیٰ کہتے ہیں غرض کہ صاحب قرآن و سلطان فاتح جلیل الشان ہوا کرتا ہے اسی بناء پر قصہ حمزہ میں داستان گویوں نے حمزہ کا لقب صاحب قران رکھا اور اُن کے طلسم توڑنے کے بہت سے افسانہ بناکے مصنف نے صاحب قرانی کے ساتھ طلسم روز و شب کو اسی مناسبت سے جمع کیا ہے۔
_______
ہاں دل دردمند زمزمہ ساز
کیوں نہ کھولے درِ خزینۂ راز
یعنی تو کیوں نہ کھولے درخزینۂ راز۔ یہاں تو کا حذف کر دینا بہت ہی برا معلوم ہوتا ہے۔
خامہ کا صفحہ پر رواں ہونا
شاخ گل کاہے گل فشاں ہونا
یعنی قلم سے شعر نہیں ٹپکتے پھول جھڑتے ہیں۔
مجھ سے کیا پوچھتا ہے کیا لکھئے
نکتہ ہائے خرد فزا لکھئے
دل کی طرف خطاب ہے۔
بارے آموں کا کچھ بیاں ہو جائے
خامہ نخل رطب فشاں ہو جائے
یعنی ایسے شیریں مضامین لکھ جس میں رطب کا مزا آجائے۔
آم کا کون مرد میداں ہے
ثمر و شاخ گوئے چوگاں ہے
تاک کے جی میں کیوں رہے ارماں
آئے یہ گوئے اور یہ میداں
آم کے آگے پیش جاوے خاک
پھوڑتا ہے جلے پھپھولے تاک
نہ چلا جب کسی طرح مقدور
بادۂ تاب بن گیا انگور
یہ بھی ناچار جی کا کھونا ہے
شرم سے پانی پانی ہونا ہے
مطلب ظاہر ہے لفظ تاک کو مصنف مرحوم نے بتذکیر باندھا ہے اس وقت مجھے اپنا ایک شعر یاد آگیا کوئی بارہ تیرہ برس کا ذکر ہے کہ کلکتہ میں مشاعرہ ہوا تھا طرح کی غزل میں یہ شعر میں نے کہا تھا۔
تاک انگور درختوں پہ چڑھی تھی کل تک
آج تو پھاند پڑی باغ کی دیواروں پر
میں نے اس شعر میں تاک کو بتانیث باندھا ہے۔ ضابطہ یہ ہے کہ فارسی یا عربی کا جو لفظ کہ اُردو میں بولا نہ جاتا ہو ، اول اُس کے معنی پر نظر کرتے ہیں اگر معنی میں تانیث ہے تو بتانیث اور اگر تذکیر ہے تو بتذکیر اس لفظ کو استعمال کرتے ہیں ، دوسرے اُس کے ہم وزن اسما جو اُردو میں بولے جاتے ہیں اگر وہ سب مونث ہیں تو اس لفظ کو بھی مونث سمجھتے ہیں اگر اُس وزن کے سب اسما مذکر ہیں تو اس لفظ کو بھی بتذکیر بولتے ہیں ، اسی بناء پر لفظ ابرو کہ محاورۂ اُردو میں داخل نہیں ہے ، شعرا اکثر مذکر باندھا کرتے ہیں اس لئے کہ آنسوؔ اور بازوؔ اور چاقوؔ وغیرہ جس میں ایسا واؤ معروف ہے سب مذکر ہیں لیکن ابرو کے معنی کا جب خیال کیجئے تو بھنؤں مونث لفظ ہے ، اس خیال سے مونث باندھ جاتے ہیں۔ اب لفظ تاک کے معنی کا لحاظ کیجئے تو بیل مونث ہے تاک کو بھی مونث ہونا چاہئے اس سے مشابہ و ہم وزن جو اسما اُردو میں ہیں وہ بھی مونث ہیں جیسے خاک ناک ڈانک بانک راکھ آنکھ یہ قیاس بھی یہی چاہتا ہے کہ لفظ تاک کو مونث بولنا چاہئے
مجھ سے پوچھو تمہیں خبر کیا ہے
آم کے آگے نیشکر کیا ہے
نہ گل اس میں نہ شاخ و برگ و بار
جب خزاں آئے تب ہو اس کی بہار
ازروئے معنی آم کا گلے سے مقابلہ بہت ہی پھیکا سیٹھا مضمون ہے مگر اسے ترک کرتے تو دوسرے شعر کا جو مضمون فکر نے پیدا کیا ہے وہ بھی ہاتھ سے جاتا ، فقط اس مضمون کے خاطر اس مقابلہ کا پھیکا پن بھی گوارا ہو گیا اور خزاں میں بہار ہونے سے یہ مراد ہے کہ دسہرے کے دنوں میں نئے گنے نکلتے ہیں اور وہ زمانہ خزاں کا ہوتا ہے۔
اور دوڑائیے قیاس کہاں
جان شیریں میں یہ مٹھاس کہاں
جان میں ہوتی گریہ شیرینی
کوہ کن باوجود غم گیتی
جان دینے میں اُس کو یکتا جان
پر وہ یوں سہل دے نہ سکتا جان
اس قطعہ کا یہ مصرع ’ جان دینے میں اُس کو یکتا جان ،۔ معترضہ ہے یعنی کوہکن کو جان دینے میں یکتا مان لے اور بے مثل سمجھ لے پر وہ بھی سہل میں جان نہ دے سکتا کہ اُس میں شیرینی ہے مصرع آخر میں ’ وہ ، نہ لانا چاہئے تھا اس سبب سے کہ کوہکن کی خبر اسی مصرع میں نکلتی ہے یعنی کوہکن باوجود غمگینی اس طرح سہل دے نہ سکتا جان گنجلک اس قطعہ میں تین وجہوں سے واقع ہوئی ہے اول تو یہ کہ مبتدا و خبر کے درمیان میں ایک مصرع کا مصرع جملہ معترضہ آگیا دوسرے ’ یکتا جان ، ایسا جملہ ہے کہ اس میں جان کا لفظ دو معنی رکھتا ہے جس سے سامع کا خیال خصوصاً اس مقام پر بھٹک جاتا ہے تیسرے ’ وہ ، کا لفظ یہ دھوکا دیتا ہے کہ کوہکن باوجود غم گیتی ناتمام جملہ رہ گیا لیکن اُردو کے محاورہ میں یہ داخل ہے کہ جب مبتدا سے خبر کو بعد ہو جائے تو ایسے مقام پر ’ وہ ، لے آتے ہیں غرض نحو اُردو کے اعتبار سے ’ وہ ، پر یہاں اعتراض نہیں ہو سکتا۔ ابن رشیق لکھتے ہیں کہ بعض شعراء باوجود اس کے کہ طبیعت متوجہ نہیں ہے فکر شعر سے دم گھبراتا ہے طبیعت پر اس حالت میں بھی جبر کرتے ہیں اور بہ تکلف و تصنع نظم کرتے ہیں کہ جی نہ لگنے کے آثار اور دم گھبرانے کی علامتیں اُن کے اشعار میں پائی جاتی ہیں اور تعقید و تکلف سے کلام خالی نہیں ہوتا ، غرض یہ کہ جس وقت شعر کہنے میں جی نہ لگے اس وقت نہ کہنا چاہئے جبر کرنے سے بہتر یہ ہے کہ حمام کرے اور گانا سنے اور نشاط طبیعت کے انتظار میں رہے مصنف مرحوم کی اس ساری مثنوی میں اس قدر آورد و تصنع ہے کہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ آم اصل میں کچھ اچھے نہ تھے جس سے طبیعت خوش ہوتی اور مزا ملتا محض ولی عہد کی خاطر سے یا فرمائش سے جن آموں کی تعریف کرنے کو جی نہ چاہتا تھا اُن کی مدح میں مثنوی لکھنا پڑی ہے حالت نشاط میں جو بے تکلفی ادا اور آمد مضامین ہوتی ہے اور تخیل جو شعر کی جان ہے جو بے نشاط طبیعت کے نہیں پیدا ہوتی اس مثنوی میں نہیں پائی جاتی غرض کہ اس مثنوی میں شاعری نہیں ہے محض لطیفہ گوئی و بدیع گوئی ہے اس کے مضامین سے نشاط و اہتزاز نہیں پیدا ہوا استعجاب و استغراب پیدا ہوتا ہے لیکن لطیفہ کو تخیل کے ساتھ ایسی مشابہت ہے کہ لطیفہ گوئی پر بھی شاعری کا اطلاق ہوتا ہے اور اُسے جزو شاعری سمجھتے ہیں وجہ یہ کہ بدیع و لطیفہ سے استعجاب کا اثر تو نفس سامع میں پیدا ہوتا ہے الفیہ ابن مالک دار جوزہ ابن سینا تھوڑی سے ہے کہ اسے شعر نہ کہیں بلکہ اکثر ذی علم و اہل قلم جو زندہ دل نہیں ہیں اور اُن کی طبیعت میں وہ انفعالات نفسانیہ جو محرک فکر شعر ہوتے ہیں پیدا ہی نہیں ہوتے یعنی غضب و طرب ، عجب و عجب ، شوق و خوف ، رحم و شرم ، عزم و خرم ، غم و ہم ، طمع و درع ، محبت و عداوت ، رغبت و نفرت ، حکمت و عبرت ، ارادت و ندامت ، رشک و اشک وغیرہ سے اُن کی طبیعت خالی ہوتی ہے یا اس کا اظہار خلاف مصلحت سمجھتے ہیں اور اس پر بھی فکر مردہ اور خاطر افسردہ کے ساتھ شاعری کرنا چاہتے ہیں ان کو سوا بدیع گوئی کے اور کوئی چارہ نہیں ، خصوصاً وہ لوگ جو تمام اقسام نظم کو چھوڑکر فقط غزل گوئی کیا کرتے ہیں کہ مصرعوں سے زیادہ اُن کی فکر کو میدان نہیں ملتا وہ سوا اس کے کہ ہر شعر میں چھوٹے چھوٹے لطیفے اور ذرا ذرا سے چٹکلے نظم کر لیں اور کچھ نہیں کر سکتے غرض اس کے شعر ہونے میں شک نہیں لیکن ابن رشیق نے شعر کی دو قسمیں لکھی ہیں مطبوع یعنی وہ کلام جو دل سے اور طبیعت سے نکلا ہو اور دوسرے مصنع و مصنوع یعنی وہ کلام جو بناوٹ سے ہو پھر ایک جگہ لکھتے ہیں کہ کلام میں ایک آمد ہوتی ہے اور ایک آورد آمد تو وہ جو پہلے دفعہ قلم سے جیسا کہ نکل گیا نکل گیا اور آورد یہ کہ پھر اس پر تکرار نظر کی اور اس میں جو شعر یا فقرہ بے لطف و سست معلوم ہوا ، اُسے بہ تکلف بامزہ دُرست کر دیا یعنی بعض لفظ بدل دئیے الفاظ اُلٹ پلٹ کردئیے اور پھر پڑھ کر اُس کے تیور دیکھے کہ اس مطلب کو ان الفاظ میں ابتداء ً اگر ہم کہتے تو یہی نشست ہوتی یا کچھ اور لیکن اُردو اور فارسی والے اس آمد و آورد کو نہیں سمجھ سکتے وجہ یہ کہ اُردو فارسی میں کوئی شاعر ایسا نہیں گذرا کہ فی البدیہ سو پچاس شعر کا قصیدہ پڑھ دے اور عرب کے شعرائے جاہلیہ سب کے سب ایسے تھے ، اس سبب سے کہ وہ اپنی زبان کو اپنے اوزان میں کہتے تھے ہماری طرح نہ تھے کہ اپنی زبان کو پرائے اوزان میں کہا کرتے ہیں غرض کہ عرب کے تمام شعرا فی البدیہ اکثر کہتے تھے اور اسی کا نام آمد تھا ان میں سب سے پہلے زہیر نے قصائد حولبات میں یہ طریق اختیار کیا کہ ایک جلسہ میں یا ایک شب کی فکر میں قصیدہ کہہ ڈالتا تھا پھر منتظر رہتا تھا کہ طبیعت میں جوش نشاط و سرور پیدا ہو تو دوبارہ نظر ڈالے اور اسی تکرار نظر کا نام آورد تھا لیکن زہیر کی آورد کا کیا پوچھنا اس کی آورد بس اسی قدر تھی جس کی تفسیر اُوپر میں نے بیان کی ہے اور اسی آورد کے سبب سے چاہے اور کوئی نہ مانے مگر میری دانست میں وہ نابغہ و امراؤ القیس سے گوئے سبقت لے گیا کاش یہ آورد یہیں تک محدود رہتی تو خوب تھا اسی آورد کے ضمن میں بدیع گوئی شروع ہو گئی اور صنائع و بدائع کی بنا قائم ہوئی پھر بھی اس زمانے میں ایسا غضب نہیں کرتے تھے کہ تجنیس یا تقابل یا تطابق کے لئے فصیح لفظ کو چھوڑدیں اور ضلع کی رعایت سے معنی کی پسلیاں توڑیں ، یہ شعرائے مولدین نے افراط کر دی کہ صنعت و لطیفہ ہی مقصود اصلی ہو گیا معنی کی سستی و نقصان کا خیال مطلق نہ رہا۔ ابن رشیق کہتے ہیں کہ قدمائے شعرا قصیدہ بھر میں ایک دو شعر صنعت یا دیوان بھر میں ایک آدھ قصیدہ بدیعیہ ہونا پسند کرتے تھے۔ بس اس سے زیادہ صنائع و بدائع کی حرص کرنا کلام کا حسن نہیں بلکہ عیب ہے مقتضائے طبیعت و عادت فطرت کے خلاف ہے ، صنائع و بدائع طرز گفتگو میں نہیں داخل ہیں ، اسی سبب سے بناوٹ و تصنع کا کلام دل پر اثر نہیں کرتا کسی استاد نے کیا خوب یہ بات کہی ہے کہ میاں شعر ایسا کہو جو تمہارے کام کا ہو نہ ایسا کہ تم اس کے کام میں لگے رہو اور وہ تمہارے کام نہ آئے ، خدا نہ کرے کہ نظم میں یا نثر میں کسی کو تکلف و تصنع کی عادت پڑے۔ حریری کے واقعہ سے عبرت ہوتی ہے کہ مقامات لکھنے کے بعد اس کی انشاء پردازی کی ایسی ہوا بندھی کہ بغداد میں اس کے لئے منشی دیوان الخلافۃ کی خدمت تجویز ہوئی فوراً حاضر ہوا اور ایک خط لکھنے کا حکم صادر ہوا یہاں سجع و تصحیف و صنعت مہملہ و معجمہ و اقطار و رقا و جنقا و مقلوب و مستوی کے راستہ ہی نہیں چلتے تھے ایک سطر بھی نہ لکھی گئی اور خفت اُٹھانا پڑی۔ دیکھو سلسلۂ سخن کہاں سے کہاں جاپڑا کوئی یہ سمجھے کہ صنائع و بدائع مطلقاً واجب الترک ہیں معنوی صنعتوں کا کیا پوچھنا اور صنائع لفظی کا بھی کیا کہنا۔ صنائع جتنے کہ لفظی یا معنوی ہیں وہ سب اگر بے تکلفی سے ادا ہو جائیں تو البتہ لفظ و معنی کی زینت ہو جاتی ہے بے تکلفی سے مراد یہ ہے کہ محاورہ کا لفظ نہ چھوٹنے پائے بندش میں گنجلک نہ ہونے پائے معنی کے وضوح میں فرق نہ آئے ابن رشیق کہتے ہیں قدما میں سے کسی کا قول ہے جو ایسا شعر ہو کہ اس کے معنی پوچھے جائیں تو وہ بہت ہی بڑا شعر ہے صنائع ایسے بے تکلف ادا ہونا چاہئے کہ معلوم ہو محاورہ ہی میں داخل تھے یہ گمان بھی نہ گذرے کہ شاعر نے بزرو فکر و زبردستی قلم اس صنعت کو باندھ لیا ہے لیکن بہت سے صنائع ایسے ہیں کہ ان کا نافہموں نے لفظی صنائع میں شمار کر لیا ہے حالاں کہ اُنھیں تزئین و تحسین لفظ میں کچھ دخل نہیں جیسے تجنیس خطی جسے تصحیف بھی کہتے ہیں۔ حط و خط و خامہ و جامہ دوات و دواب و کتاب و کباب میں کہ کچھ خطاط لوگوں کو اس سے حظ ملتا ہو گا ورنہ ادیب کو تو اس سے کچھ تعلق نہیں یا بے نقط لکھنا لیکن عجب ہے کہ فیضی سا شخص اس صنعت میں اوقات ضائع کرگیا ساری تفسیر حروف غیرمنقوطہ میں لکھ ڈالی اور اسی طرح مواردالکلم بھی اُردو میں مرزا دبیرؔ و اخترؔ نے مرثیہ بے نقط کہے یہ صنعت بھی اسم مطابق مسمیٰ مطابق مہمل ہے ، ادیب کو اِ دھر ہرگز توجہ نہ کرنا چاہئے اس سے بڑھ کر منقوطہ کا التزام ہے۔ مرزا دبیرؔ فرماتے ہیں :
جب بخت بن قین نے زینت بخشی
زینب نے تشفی تب یہ شفقت بخشی
جنت بخشی نبی نے جنت بخشی
اس رباعی کے مصرع آخر میں اتصال حروف کی صنعت بھی موجود ہے اسی طرح انفصال حروف کا التزام بھی۔ کوہِ کندن و کاہ برآوردن ہے اور رقا یعنی ایک حرف معجم اور ایک حرف مہمل اسی کو خیفا بھی کہتے ہیں۔ واسع الشفتین یعنی ’ ب ، اور ’ پ ،اور ’ میم ، کا ترک تاکہ پڑھنے میں ہونٹ سے ہونٹ نہ ملنے پائے جامع الحروف یعنی ایک ہی شعر میں الف بے کے سب حرف آجائیں۔ اظہارالمضم یعنی ایک مصرع ایسا کہیں جس میں پورے پندرہ حروف ہوں اور مکرر کوئی حرف نہ آنے پائے ، اس کے بعد پھر چار مصرعوں کا ایک قطعہ یا رُباعی کہتے ہیں جس کے ہر ہر مصرع میں اُن پندرہ حرفوں میں سے آٹھ حرف معین لانا ضرور ہے اور باقی سات حرفوں کا لانا منع ہے ، اُن آٹھ حرفوں کی تفصیل یہ ہے :
پہلے مصرع میں ۲۱۔ ۵۔ ۷۔ ۹۔ ۱۱۔ ۱۳۔ ۱۵
دوسرے مصرع میں ۲۔ ۳۔ ۶۔ ۷۔ ۱۱۔ ۱۱۔ ۱۴۔ ۱۵
تیسرے مصرع میں ۴۔ ۵۔ ۶۔ ۷۔ ۱۲۔ ۱۳۔ ۱۴۔ ۱۵
چوتھے مصرع میں ۵۔ ۸۔ ۱۰۔ ۱۱۔ ۱۲۔ ۱۳۔ ۱۴۔
۱۵مثلاً
گلشن سبز خط عارض ہے
طوق طاقت گداز و شمس ضیا
آڑی۲ ہیکل بھی عقد مشغلہ زا
نصرت۳ سبزۂ چمن یہ ہے
یاکہ۴ ہے خط عارض حمرا
یا جیسے مقلوبؔ مستوی جس کے اُلٹنے سے وہی عبارت پھر نکل آئے یا جیسے مرزا دبیرؔ کا یہ مصرع۔ آرام ہمارا ہے یہ آرام ہمارا۔
یا انھیں مرحوم کا یہ فارسی مطلع
امید آششیاں شادی ما
اُمید آباد شد آبادی ما
معمار تاریخ کہنا بھی ازیں قبیل ہے اس میں سے کوئی صنعت معنوی ہے نہ لفظی۔ کچھ رسم خط سے متعلق ہیں۔ کچھ صفات حروف سے کچھ اعداد حروف سے ان سب صنائع کا استعمال کرنا نظم میں ہو کہ نثر میں ادیب کا کام نہیں جفار ورتال کا پیشہ ہے ان سب صنائع کی بھی تفصیل کرنے سے غرض یہ تھی کہ جو صنائع کہ قابل احتراز ہیں اور جن سے خوبی لفظ و معنی کو کچھ تعلق نہیں بلکہ ضرور نقصان ہی پہنچتا ہے وہ سب ایسے ہی صنائع ہیں ان فاذورات سے کلام کو پاک رکھنا ضرور ہے لیکن ان کے علاوہ جو معنوی و لفظی صنائع ہیں وہ کلام کا زیور ہیں اُن کی خوبی میں کوئی شک نہیں ہاں ان صنائع کا محل استعمال سمجھنا خداداد بات کچھ فارسی و اُردو پر منحصر نہیں ہے تمام دُنیا کے شاعر ہر زبان کے اور ہر زبان کے اہل قلم اُن صنعتوں کو زیورِ کلام بنایا کئے اور اب بھی یہی طریقہ جاری ہے جو شعرا کہ اپنی اپنی زبان میں خدائے سخن سمجھے گئے ہیں۔ والمیکیؔ ، ورجملؔ ، شیسکپیئرؔ ، فردوسیؔ ، انیسؔ وغیرہ ان سب کے کلام میں صنائع معنویہ و لفظیہ کثرت سے اور اُن کا اندازِ بیان اس بات کا شاہد ہے کہ انھیں ان صنعتوں کے استعمال کرنے میں اہتمام بلیغ تھا اور لفظ و معنی کی صنعت بہ نسبت اُن صنائع کے جن کی تفصیل گذری بہت آسان معلوم ہوتی ہے ان کا صرف کرنا مشکل امر ہے بلکہ سہل ممتنع ہے تجنیس خطی کا تو ذکر گذرا اب تجنیس لفظی کو خیال کرو ایک ہی مصرع اس وقت مجھے یاد ہے : ’ نقش سم سبکتگت سجدہ کہ سبکتگیں ، کون ایسا ہے جو سبکتگیں کے اشتقاق سے مزہ نہ اُٹھائے گا۔ ردالعجز عن الصدر نام تو اتنا بڑا مگر صنائع لفظیہ میں سے یہ صنعت بھی دیکھنے میں ذراسی بات معلوم ہوتی ہے کہ ایک جملہ کا آخر دوسرے کا اول ایک ہی لفظ کی تکرار سے ہو یہ کون سا مشکل کام ہے اور کون سی اس میں کاریگری ہے مگر اس مطلع میں اسی صنعت کا حسن دیکھو تو معلوم ہو اظہار المضمرو مقلوب مستوی وغیرہ کی کچھ حقیقت ہی نہیں اس کے آگے۔
کیا کہیں قابل بسر کرتے ہیں کس مشکل سے ہم
چارہ گر سے دردنالاں ، درد سے دِ ل دل سے ہم
تمام عمر یوں ہی طے کی میں نے منزل عشق
گرا تو اُٹھ نہ سکا اور اُٹھا تو چل نہ سکا
معنوی صنعتوں میں تلمیح یعنی کسی قصہ کی طرف اشارہ کر دینا کیسی سہل سی بات معلوم ہوتی ہے اور یونانی و لاطینی شعرا میں بلکہ ان کی تقلید سے انگریزی زبان کے شاعروں میں بھی یہ صنعت کس قدر مشہور ہے اس کے صرف کرنے میں کس قدر افراط کرتے ہیں جو لوگ ان زبانوں سے ماہر ہیں اُن سے پوچھو کہ فقط شعر سمجھنے کے لئے کس قدر دیوان افسانہ اُنھیں یاد کرنا پڑتے ہیں ، جن قصوں سے کہ نہایت نفرت ہوتی ہے تاریخ کی طرح اسی کو یاد رکھتے ہیں کہ شعر ہی سمجھ میں نہیں آ سکتا اگر وہ سب کہانیاں یاد نہ ہوں۔ کیا اس صنعت کی خوبی میں کوئی شک ہو سکتا ہے ، لیکن کہنا اس کا نہایت دُشوار ہے دیکھو کیا خوب کہا ہے :
زعشق زادم وعشقم بکثت زار و دریغ
خبر نہ داد بہ رستم کسے کہ سہرا بم
اسی طرح طباق ایک صنعت معنوی ہے جس میں متقابل و متنانی چیزوں کو جمع کرتے ہیں یہ کام بظاہر کیسا آسان ہے مگر کرنا بہت مشکل ہے :
یوں مر کہ نہ یاروں کو ہو بھاری ترا مردہ
یوں جی کہ طبیعت پہ نہ ہو بار کسی کی
عکس بھی ایک سہل سی صنعت معنوی معلوم ہوتی ہے مگر کہنا آسان نہیں :
اُن کو آتا ہے پیار پر غصہ
مجھ کو غصہ پہ پیار آتا ہے
قصہ کوتاہ یہ استیعاب صنائع کا مقام نہیں ہے نہ آج تک کسی سے استیعاب ہو سکا جتنا کتب بلاغت میں ہے بہت کم ہے اور جتنا چھوٹ گیا بہت زیادہ ہے وقت پسند طبیعتیں ناتجربہ کاری سے ان صنائع کو کھیل سمجھ کر اِ دھر متوجہ نہیں ہوتیں اور جو باتیں کہ واقع میں کھیل ہیں اُن کو دقیق سمجھ کر صنعت خیال کرتی ہیں یہ نہیں سمجھتے کہ اگر صنائع معنویہ و لفظیہ کو بے تکلفی سے کہہ سکیں تو اُس کے آگے معما و تاریخ وغیرہ ہیچ ہیں۔
نظر آتا ہے یوں مجھے یہ ثمر
کہ دواخانۂ ازل میں مگر
آتش گل پہ قند کاہے قوام
شیرہ کے تار کاہے ریشہ نام
لفظ ازل کچھ بے محل ہے ازل کی جگہ قدر بہتر تھا۔
یا یہ ہو گا کہ فرط رافت سے
باغبانوں نے باغ جنت سے
انگبیں کے بہ حکم رب الناس
بھر کے بھیجے ہیں سربمہر گلاس
یعنی باغبانوں نے باغ جنت سے بھر کے بھیجے ہیں سربمہر گلاس جس کے رس میں ہے انگبین کی مٹھاس۔ اس قطعہ میں رب الناس بھرتی کا لفظ ہے قافیہ کی ضرورت رفع کرنے کے لئے یہ تکلف کیا ہے۔ عربی و فارسی کے الفاظ جو محاورہ اُردو میں جاری نہیں ہیں اور غریب معلوم ہوتے ہیں اکثر فصحا کے کلام میں موجود ہیں لیکن وہاں تازگی لفظ ان کو منظور ہوتی ہے اور اس کے لئے خاص مقامات ہیں کسی کو یہ دھوکا نہ کھانا چاہئے کہ ہمیں بھی اسی طرح غریب کا لفظ باندھنا دُرست ہے یہاں ایک نکتہ باریک ہے کہ بیان نہیں ہو سکتا تاہم اتنا سمجھ لینا چاہئے کہ فصحا جہاں پر کسی ایسے لفظ کو استعمال کرتے ہیں وہ معلوم ہوتا ہے کہ نگینہ جڑ دیا ہے بات یہ ہے کہ بعض مقامات کا مقتضیٰ یہ ہوتا ہے کہ ادیب چاہتا ہے آسمان سے تارے توڑلائے اور لفظ کے بدلے اُسے یہاں لگادے مثلاً کبھی فرط محبت کے مقام پر جدت الفاظ کی ضرورت پڑتی ہے جیسے میر انیسؔ کہتے ہیں :
وہ لو ذغی کہ جس کی فصاحت دلوں کو بھائے
شعبہ جہاں میں پنکھڑیاں جیسے پھول ہیں
آتشؔ کہتے ہیں :
ان انکھڑیوں میں اگر نشہ شراب آیا
سلام جھک کے کروں گا جو پھر حجاب آیا
اظہار شان و شکوہ کے مقام پر میر انیسؔ کہتے ہیں : ’ حلہ انھیں استبرق دسندس کے ملیں گے ، مبالغہ کے مقام پر مصنف نے جدت لفظ کیا خوب کی ہے : ’ شوق عناں گسیختہ دریا کہیں جسے ، جو شخص تازگی الفاظ کے مقامات کو پہچانتا ہے اور الفاظ تازہ ڈھونڈ لیتا ہے خبر کو انشاء کی صورت میں ادا کر سکتا ہے حقیقت کی جگہ مجاز اور تصریح کے مقام پر کنایہ کے استعمال پر قدرت رکھتا ہے اور تشبیہ متحرک بمتحرک صیرورت کے ساتھ لا سکتا ہے اور محاورہ میں ڈوب کر لکھتا ہے اور مطلب دل نشین کر دیتا ہے بس اسی کا قلم سحر طراز ہے ابن رشیق کہتے ہیں جس کی طبیعت معنی آفریں نہ ہو جس کے الفاظ میں تازگی نہ ہو اور لوگ جس بات میں ادائے معانی سے قاصر رہ جاتے ہیں۔ ادیب اس میں معنی زیادہ نہ کر سکے یا یہ کہ جس بات میں غیرضروری الفاظ وہ بول جاتے ہیں شاعر و ادیب اس میں لفظ نہ کم کر سکے یا ایک بات کو پھیرکر دوسری طرف نہ لے جاسکے اُسے ادیب اور شاعر نہیں کہہ سکتے لیکن لفظ کی تازگی و ابتذال کو پہچاننا فطری امر ہے جیسے ’ ہرن ، اور چیتل کا خوش نگاہ ہونا اور گرگ و شغال کا بدنظر ہونا بحکم فطرت ہے جو شخص اس ودیعت فطری سے محروم ہے وہ یہ بات نہیں سمجھ سکتا کہ مصنف کے اس قطعہ میں انگبین کا لفظ تازہ ہے اور رب الناس غریب ہے۔ سربمہر خوبصورت ہے اور لفظ رافت کریہ کے لئے ابن اثیر لکھتے ہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو لفظ کے حسن و قبح کے منکر ہیں اور قائل ہیں کہ واضح نے جو لفظ بنایا ہے اچھا ہی بنایا ہے ان کی یہ مثال ہے جیسے نازنین سہی قد و نازک اندام میں اور ایک حبشن میں جس کے گھنڈی سے بال کملا سے بھویں پھٹی پھٹی آنکھیں مینڈکی سی ناک کلچہ سے گال گروہ سے ہونٹ پھاوڑا سے دانت ہوں کچھ فرق نہ کرے اسی طرح لفظ کا سج دینا بھی نگینوں کے جڑنے سے کم نہیں۔ ناسخ کا یہ مطلع ہے :
مرا سینہ ہے مشرق آفتاب داغ ہجراں کا
طلوع صبح محشر چاک ہے میرے گریباں کا
الفاظ بھی نہیں بلکہ محض الفاظ کے حسن سے شاندار و پرشکوہ ہو گیا۔ اگر معنی کو دیکھئے تو کچھ بھی نہیں۔ میرے سینہ میں داغ فراق ہے۔ میرا گریبان چاک ہے۔ داغ کو آفتاب اور چاک جیب کو صبح کہنا تشبیہ مبتذل ہے۔ سب ہی کہا کرتے ہیں فقط ان الفاظ کی ہئیت اجتماعی نہایت شاندار ہے شعر کا ایک لفظ دوسرے لفظ کے پہلو میں وہ حسن دے رہا ہے جیسے جواہرات کی لڑی میں زمرد پر یاقوت کا رنگ کھلتا ہے اور لالٹری کے پاس تعلیم سے جان پڑجاتی ہے۔ لیکن ہر ایک جوہری اس طرح موتی نہیں پروسکتا اس کی تمیز خداداد بات ہے ایک شخص مجھ سے کہنے لگے اگر ناسخ نے یوں کہا ہوتا : ’ میرا سینہ ہے مطلع آفتاب داغ ہجراں کا ، تو لفظ مطلع لفظ طلوع سے جو دوسرے مصرع میں ہے بہ نسبت لفظ مشرق کے زیادہ تر مناسب ہوتا۔ میں نے کہا طلوع میں بے شروق کے بھلا کیا حسن ہے بیت کا چراغ ہی گل ہو جاتا۔ پھر یہ کہ لفظ مطلع بکسر لام ہے یہاں کسر کے سبب سے مصرع میں ثقل ناگوار پیدا ہوتا ہے جسے صاحبِ ذوق سلیم سمجھ سکتا ہے یعنی کسرۂ لام کے سبب سے جمع کے ساتھ التباس ہو جاتا ہے اور جو لفظ کہ جمع کی صورت رکھتی ہو ، اس کے ساتھ ’ ہے ، کا لفظ نون کو برا معلوم ہوتا ہے مرا سینہ ’ ہے مطلع ، آفتاب داغ ہجراں کا۔
یا لگا کر خضر نے شاخ نبات
مدتوں تک دیا ہے آب حیات
تب ہوا ہے ثمر فشاں یہ نخل
ہم کہاں ورنہ اور کہاں یہ نخل
خضر کا نام دو طرح سے نظم ہے بسکونِ ضاد اور بکسر ضاد خجل و خشن کے وزن پر مصنف نے یہاں خضر باندھا ہے اور اُسے دیکھ کر اُن کے متبعین نے دھوکا کھایا ، وہ سمجھے استاد نے خضر باندھا ہے اور اس شعر کو سند قرار دے کر نظر و اثر کے قافیہ میں خضر باندھنے لگے یہ غلط ہے اور متبعین کی خطا ہے ، مصنف کا کلام اصل میں منشاء غلط تو ہوا مگر خود لحن و غلط سے پاک ہے ، نخل درخت خرما کو کہتے ہیں ، فارسی والوں نے عموماً درخت کے معنی پر باندھا ہے مگر کن فارسی والوں نے جو عربی سے بے خبر ہیں ایسے لوگوں کا تصرف قابل استناد نہیں ، غرض آم کے درخت کونخل کہنا اچھا نہیں معلوم ہوتا۔
تھا ترنج زر ایک خسرو پاس
رنگ کا زرد پرکہاں بو باس
آم کو دیکھتا اگر اک بار
پھینک دیتا طلاے دستِ افشاء
نقل ہے کہ خسرو پرویز کے پاس اس طرح کاکندن تھا کہ ہاتھ دبا کر جو چیز چاہو اس کی بنالو ، پرویز نے اُس کا ترنج بنوایا تھا ، دسترخوان پر رکھا جاتا تھا ، پھر کسریٰ نے اُسے سونے کا ساگ بنوایا اور زینتِ دسترخوان کیا ، خاقانی نے اسی مضمون کی تلمیح کی ہے :
پرویز و ترنج زر کسریٰ وترہ زریں
زریں ترہ کو برخوان رو کمتر کو ابر خواں
دستِ افشاء اسی سبب سے کہتے تھے کہ موم کی طرح ہاتھ ہی سے دب جاتا تھا طلا سونے کے معنی پر معتبرین فارس نظم کرچکے ہیں ، گو اس لفظ کی تحقیق کسی نے قابل تشفی نہیں لکھی ، لیکن اس معنی پر عربی میں قطعاً نہیں آیا ہے ’ خسرو پاس ،میں ’ کے ، کا حذف محاورہ میں ہے لیکن قریب ترک ہو جانے کے ہے شرف کہتے ہیں :
اک نگاہِ ناز میں دونوں اُڑا لے جائیں گے
دل کلیجے پاس تڑپے گا کلیجہ دل کے پاس
رونق کارگاہِ برگ و نوا
نازشِ دو دمانِ آب و ہوا
برگ و نوا سامان کے معنی پر ہے اور برگ درختان و نوا سے مرغان کا بھی ابہام ہے۔
رہرو راہِ خلد کا توشہ
طوبے و سدرہ کا جگر گوشہ
موسیٰ و عیسیٰ و طوبیٰ و دینی و عقبیٰ و ہیولیٰ و لیلیٰ کو امالہ کر کے قدمانے ’ الف ، کو ’ ی ، کر دیا ہے اور دونوں طرح نظم کیا ہے ، یہ دیکھ کر متاخرین فارس نے جو عربی سے بیگانہ تھے غضب کا دھوکا کھایا ہے ، جن الفاظ عربی میں اصلی ’ ی ، ہے اُس کو بھی الف مقصورہ سمجھے اور دونوں طرح نظم کرنے لگے ، مثلاً : تجلی و تسلی ، تماشی و تحاشی کو نسلاً و تجلا ًو تماشا و تحاشا کہنے لگے ، اس شعر کا پہلا مصرع باعتبارِ معنی بہت سست ہے ، آم کو زادِ راہِ عقبیٰ کہنا بے مزہ بات ہے۔
صاحبِ شاخ و برگ و بار ہے آم
ناز پروردۂ بہار آم
پروردہ مربی کو بھی کہتے ہیں ، یہ ضلع بولنا منظور تھا اُوپر والا مصرع برائے بیت کہنا پڑا۔
خاص وہ آم جونہ ارزاں ہو
نو برنخل باغِ سلطاں ہو
اس شعر میں نخل باغ سلطان سے ولی عہد مراد ہیں اور دوسرے عہد سے زمانہ و وقت مراد ہے۔
وہ کہ ہے والی ولایت عہد
عدل سے اُس کے ہے حمایت عہد
پہلے عہد سے عہد و پیمان سلطنت مراد ہے اور دوسرے عہد سے زمانہ و وقت مراد ہے۔
فخردیں ، عزو شان و جاہ و جلال
زینت طینت و جمال کمال
یعنی ممدوح کی ذات دین کے لئے باعثِ فخر اور کمال کے واسطے جمال ہے اور یہ دونوں اضافتیں مانوس ہیں ، باقی زینتِ طینت و عزت و شان و جاہ و جلال اضافتیں بعض صنعت کے لئے ہیں ، تکلیف و تصنیع سے خالی نہیں۔
کار فرمائے دین و دولت و تخت
چہرہ آرائے تاج و مسند و تخت
مراعاۃ النظر و ترصیع اس شعر میں ہے اور بے تکلف ہے۔
سایہ اُس کا ہما کا سایہ ہے
خلق پردہ خدا کا سایہ ہے
عنقا سے مرغ موسیقار یہ سب طائر شاعروں نے پامال رکھے ہیں پھر ہماکا سایہ پڑنے سے بادشاہی ملنا چاندنی کے کتاں کو ٹکڑے کرنا اور زخمی کو مار جانا ، زمرد کے سامنے اُفعی کا اندھا ہونا ، موسیقار و قفس کے نغموں سے جنگل میں آگ لگ جانا ، کبک کا آگ کھانا اور سمندر کا آگ میں رہنا یہ سب باتیں یقینیات میں داخل ہیں ، جمشید کا جام جہاں نما بنانا فلاطون کا خم میں بیٹھنا ، لیلےٰ کی فصد کھلنے سے مجنوں کا خوں بہنا اخبار ہے ، متواترین سے ہے ، لیکن اُردو ، فارسی کے شعر پر یہ منحصر نہیں ہے ، دُنیا کی قدیم جدید جتنی زبانیں ہیں سب میں شاعری ایسے مضامین سے خالی نہیں ہے ، دیکھو یونانی و لاطینی اور ان کے مقلدین اہل یورپ جو اس زمانہ میں ہیں کس قدر خرافات کہانیاں دیووپری کے افسانے اُمورِ مسلمہ میں سے فرض کر کے صنعتِ تلمیح میں صرف کیا کرتے ہیں۔
اے فیض وجودِ سایۂ نور
جب تک ہے نمود سایۂ نور
اے خداوند بندہ پرور کو
وارث گنج و تخت و افسر کو
شاد دل شاد و شادماں رکھیو
اور غالبؔ پہ مہرباں رکھیو
شاد و دل شاد و شادماں تینوں لفظ ایک ہی معنی کے ہیں ، مگر اس محل میں تکرار معنی کیا تکرار لفظ بھی ہوتی تو بے جا نہ تھی گویا مطلب یہ ہے کہ شاد رکھیو شاد رکھیو اور شاد رکھیو اور باوجود تکرارِ لفظ کے بھی برا نہیں معلوم ہوتا اور جب کہ لفظ میں ذرا تصرف کر دیا تو اور بھی زیادہ لطف ہو کیا رکھتا کے مقام پر رکھیو ابھی تک محاورہ میں جاری ہے بلکہ فصحا کی زبان ہے ، مونس کہتے ہیں :
دیجو نہ سرکشوں کو اماں اے دلاورو
اعدا سے چھین لیجو نشاں اے دلاورو
جینے نہ پھریو صدقہ ہو ماں اے دلاورو
جانوں پر کھیل جائیو ہاں اے دلاورو
میری تمہیں میں جان ہے گر بے حواس ہوں
تم مڑکے دیکھ لو کہ میں پردہ کے پاس ہوں
پانچویں مصرع میں ’ہے ، کے بعد ’ گر ، اور پھر ’ ی ، تقطیع میں گرگئی ، نہایت مکروہ لفظ پیدا ہوتا ہے ، مونسؔ مرحوم سے بعید ہے چوک جانے کی وجہ غالباً یہ ہوئی ہے کہ میر انیس کے طرز میں پڑھتے وقت پانچویں مصرع کے درمیان میں ضرور وقف کیا کرتے ہیں اور جب ’ہے، پر وقف کردو تو پھر نظر چوک جاتی ہے اور تقطیع میں جو قباحت ہو گئی ہے وہ چھپ جاتی ہے۔
اے شہنشاہِ فلک منظر و بے مثل و نظیر
اے جہاندار کرم شیوۂ بے شبہ عدیل
شبہ و شبیہ و مثل و تمثیل و نظیر و عدیل سب الفاظ مترادف ہیں ، ایک منظر کے یہ معنی کہ جس نے ممدوح پر نظر کی اُس نے گویا فلک پر نظر کی ، اُس کا منظر اور اُس کی رفعت فلک کی سی ہے۔
پاؤں سے تیرے ملے فرقِ ارادت اورنگ
فرق سے تیرے کرے کسبِ سعادت اکلیل
سر ارادت و جبین نیاز و دستِ دُعا و پائے طلب و چشم اُمید و لبِ سوال دندان آزو بازوئے جہد و انگشتِ حیرت و گردن طاعت و کمر خدمت و زانوئے ادب و کفِ افسوس وغیرہ میں ویسی ہی اضافت ہے جیسی ادنائے ملابست کافی ہو گئی ہے ، اگر یوں کہتے کہ ’پاؤں پر تیرے رکھے فرقِ ارادت اورنگ ، تو معنی اُلٹے ہو جاتے اس سبب سے کہ اورنگ پر پاؤں ہوتا ہے نہ کہ پاؤں پر اورنگ سر رکھے ، مصنف نے اورنگ کا پاؤں کے نیچے ہونا ملحوظ رکھا ہے۔
تیرا اندازِ سخن شانۂ زلفِ الہام
تیری رفتار قلم جنبش بالِ جبریل
جس طرح شانہ زلف کی گرہوں کو کھول دیتا ہے اُسی طرح تیرا سخن الہامی دقائق کو سلجھادیتا ہے ، شاید یہ اشارہ بھی مصنف نے کیا ہے سین سخن کے دندانے شانہ سے مشابہت رکھتے ہیں ، لیکن یہ مطلب اُلجھا ہوا رہ گیا ہے دوسرے مصرع میں جو تشبیہ بدیع پیدا کی ہے الہامی مضمون ہے۔
تجھ سے عالم پہ کھلا رابطۂ قربِ کلیم
تجھ سے دُنیا میں بچھا مائدۂ بذلِ خلیل
مطلب یہ ہے کہ جنھوں نے قربِ کلیم و بذلِ خلیل کو آنکھوں سے نہ دیکھا تھا انھوں نے تیرے سبب سے دیکھ لیا کہ تجھ میں یہ دونوں وصف موجود ہے۔
بسخن اوج دہِ مرتبہ معنی و لفظ
بکرم داغ نہِ ناصیۂ قلزم و نیل
مطلب ظاہر ہے لیکن معنیٰ و لفظ کے متعلق جو مباحث فن بلاغت میں مذکور ہیں ، اس کا ذکر یہاں لطف سے خالی نہیں ،بڑے بڑے فصحائے ماہرین و ائمۂ فن بلاغت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ معانی ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں فقط لفظ و بندش و طرزِ ادا کاتب و ادیب کا کمال ہے ، ماہیتِ انسانی سب میں ایک ہی ہے ، انفعالات سب طبیعتوں میں ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں ، پھر مضامین کہاں سے الگ الگ آئیں گے اور لفظ کا غلبہ معانی پر ظاہر ہے ،مثلاً یوں کہتے ہیں کہ ’ تو آفتاب ہے ، اور یوں نہیں کہہ سکتے کہ ’ تو سورج ہے ، اس سبب سے علماء نے معانی کے مباحث کی طرف بہت کم توجہ کی ، فقط اقسام بیان کر کے رہ گئے یعنی مدح و تشبیب ، ہجا ورثا ، اعتذار و استعطاف زجر و عتاب ، فخردِ وصف ، شکر و شکایت ، بس آگے آئی آیت اور الفاظ کے مباحث اور ادائے معانی کے طریقے بیان کرنے میں پانچ فن منضبط کئے ہیں ، صرف ، نحو ، معانی ، بدیع بلکہ فن لغت و مصطلحات بھی ان میں شامل ہیں ،ابن رشیق کہتے ہیں اکثر لوگوں کی رائے یہی ہے کہ خوبی لفظ میں معنی سے زیادہ اہتمام چاہئے ، لفظ قدر و قیمت میں معنی سے بڑھ کر ہے اس سبب سے کہ معنی خلقی طورسے سب کے ذہن میں موجود ہیں ، اس میں جاہل و ماہر دونوں برابر ہیں لیکن لفظ کی تازگی اور زبان کا اُسلوب اور بندش کی خوبی ادیب کا کمال دیکھو مدح کے مقام میں جو کوئی تشبیہ کا قصدکرے گا وہ ضرور کرم میں ابرجرأت میں ہز برحسن میں آفتاب کے ساتھ ممدوح کو تشبیہ دے گا ، لیکن اس معنی کو اگر لفظ و بندش کے اچھے پیرایہ میں نہ ادا کر سکا تو یہ معنی کوئی چیز نہیں غرض کہ یہ مسلم ہے کہ معانی میں سب کا حصہ برابر ہے اور سب کے ذہن میں معانی بحسبِ فطرت موجود ہیں اور ایک دوسرے سے معنی کوادا کرتا رہتا ہے کسی کاتب یا شاعر کومعنی آفریں یا خلاقِ مضامین جو کہتے ہیں تو اُس کا یہ مطلب ہے کہ جو معانی کسی قلم سے نہ نکلتے تھے وہ اُس نے بیان کئے اور یہ شبہ کرنا کہ ہر مضمون کے چند محدود پہلو ہوتے ہیں ، جب وہ تمام ہو چکتے ہیں تو اس مضمون میں تنوع کی گنجائش نہیں رہتی ، اب بھی اگر اس کی چتھاڑ کئے جائیں گے تو بجائے تنوع تکرار و اعادہ ہونے لگے گا صحیح نہیں ، تفنن و تنوع کی کوئی حد نہیں مثلاً دو لفظوں کا ایک مضمون ہم یہاں لیتے ہیں ’ وہ حسین ہے ،اس میں ادنیٰ درجہ کا تنوع یہ ہے کہ لفظ ’حسین ، کے بدلے اس کے مرادف جو الفاظ مل سکیں اُنھیں استعمال کریں مثلاً : ’ وہ خوب صورت ہے ، ، ’ وہ خوش جمال ہے ، ، ’ وہ خوش گلو ہے ، ، ’ وہ سندر ہے ، ، ’ اُس کے اعضا میں تناسب ہے ، ، ’ حسن اس میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے ، وغیرہ وغیرہ ، اس کے بعد بدلالت قرینہ مقام ذرا معنی میں تعمیم کر دیتے ہیں مثلاً ’ وہ آشوبِ شہر ہے کوئی اُس کا مدِ مقابل نہیں ، ، ’ اُس کا جواب نہیں ، ،’ اُس کا نظیر نہیں ، ، ’ وہ لاثانی ہے ، ، ’ وہ بے مثل ہے ، وغیرہ۔
پھر اسی مضمون میں ذرا تخصیص کر دیتے ہیں لیکن ویسی ہی تخصیص جو محاورہ میں قریب قریب مرادف کے ہوتی ہے کہتے ہیں :
’ وہ خوش چشم ہے ، ، ’ وہ خوب رو ہے ، ،’ وہ موزوں قد ہے ، ’ وہ خوش ادا ہے ، ، ’ وہ نازک اندام ہے ، ، ’ وہ شیریں کار ہے ، وغیرہ وغیرہ۔
پھر اسی مضمون کو تشبیہ میں ادا کرتے ہیں اور کہتے ہیں :
’ وہ چاند کا ٹکڑا ہے ، ، ’ اُس کا رخسارہ گلاب کی پنکھڑی ہے ، ، ’ وہ سیمین تن ہے ، ، ’ اُس کا رنگ کندن ساچمکتا ہے ، ، ’ اُس کا قد بوٹا سا ہے ، ’ شمع اُس کے سامنے شرماتی ہے ، وغیرہ وغیرہ۔
پھر اسی مضمون کو استعارہ میں ادا کرتے ہیں ، مثلاً آفتاب سے اس طرح استعارہ کرتے ہیں : ’ اُس کے دیکھنے سے آنکھوں میں چکاچوند آجاتی ہے ،۔ چاند سے استعارہ ’ وہ نقاب اُلٹے تو چاند چھٹک جائے ،۔
چراغ سے استعارہ : اندھیرے میں اُس کے چہرہ سے روشنی ہو جاتی ہے۔
شمع سے استعارہ : اُس کے گھونگھٹ پر پردۂ فانوس کا گمان ہوتا ہے۔
برقِ طور سے استعارہ : موسیٰ اُسے دیکھیں تو غش کرجائیں۔
آئینہ سے استعارہ : جدھر وہ مڑتا ہے اُدھر عکس سے بجلی چمک جاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ پھر اسی مضمون کوکنایہ میں بیان کرتے ہیں مثلاً :
رنگ کی صفائی سے کنایہ : وہ ہاتھ لگائے میلاہوتا ہے۔
تناسبِ اعضاء سے کنایہ : وہ حسن کے سانچے میں ڈھلا ہے۔ خدا نے اُسے اپنے ہاتھ سے بنایا ہے۔
رنگ کی چمک سے کنایہ : اُس کے چہرے کی چھوٹ پڑتی ہے۔
چہرہ کی روشنی سے کنایہ : اُس کے عکس سے آئینہ دریائے نور ہو جاتا ہے۔
دلفریبی حسن سے کنایہ : بشر اُسے دیکھ کر تلملا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
اس کے بعد تازگی کلام کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ خبر کو انشا کر دیں ’ اللہ رے تیرا حسن ، ، ’ تو اتنا خوب صورت کیوں ہوا ، ، ’ سچ بتا تو انسان ہے یا پری ، ، ’ کہیں تو حور تو نہیں ، ، ’حور نے یہ شوخی کہاں پائی ، ، ’ تو خدائی کا دعویٰ کیوں نہیں کرتا ، وغیرہ وغیرہ۔
پھر دیکھئے مرادفات میں کس قدر تنوع ہے اور کس قدر تازگی لفظ و محاورہ کو اس میں دخل ہے ، تعمیم کے کتنے مراتب ہیں ؟ تخصیص کے کس قدر درجہ ہیں ؟ تشبیہ کی کتنی صورتیں ہیں ؟ استعارہ کے کتنے انداز ہیں ؟ کنایہ کی کتنی قسمیں ہیں ؟ انشاء کے کس قدر اقسام ہیں ؟ پھر ان سب کے اختلاف و ترتیب کو کسی مہندس سے پوچھے تو معلوم ہوکہ ایک حسن کے مضمون میں تقریباً لاتعداد ، لاتحصیٰ پہلو نکلتے ہیں۔ یہ چند مثالیں فقط لفظ ’ حسین ، کے بعض تنوعات کی تھیں جو گذریں ، اسی پر قیاس کر لینا چاہئے کہ اگر مضمون طولانی ہو تو کس قدر اس میں تنوع کی گنجائش ہوتی ، خیال کرو ایک ماہیتِ انسانی کے کتنے افراد ہیں اور ہر شخص کی صورت الگ الگ ہے ، خط الگ الگ ہیں ، آوازیں الگ الگ ہیں ، اسی طرح ایک ہی معنی کے لئے طرزِ بیان بھی ہر شخص کا الگ الگ ہے ، پھر زمین شعر اسی طرح کی جاتی ہے کہ ادائے معانی کے لئے تازہ پہلو ہاتھ آئیں ، ہاں مضمون کی تکرار اس نہج سے کہ دوسرے میں وہی طرزِ بیان اور وہی پہلو ہو جو اول میں تھا بے شک سمع خراش ہے جیسے میر ممنونؔ مرحوم کا دیوان ہے کہ چند لطیف مضمون اور چند اغراق کے پہلو ہیں کہ کوئی غزل یا قصیدہ اس سے خالی نہیں برخلاف ان کے غنی کشمیری نے اس قدر آسیا کے مضامین اپنے دیوان میں بھرے ہیں کہ لکھنؤ میں اُس کا نام بے کار پنہاری والا مشہور ہو گیا ، لیکن ہر مضمون الگ الگ ہے کہ اسے تکرار مضمون نہیں کہہ سکتے ، مصنف کے یہ دو شعر :
مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں غالبؔ
یار لائے مرے بالیں پہ اُسے پر کس وقت
مند گئیں کھولتے کھولتے آنکھیں ہے ہے
خوب وقت آئے تم اس عاشق بیمار کے پاس
تکرار بھی مزہ سے خالی نہیں ، ہاں معشوق کے رشک و بدگمانی کا مضمون مصنف نے ایک عجیب و غریب پہلو سے ادا کیا ہے :
بدگماں ہوتا ہے وہ کافر نہ ہوتا کاش کے
اس قدر ذوق نوائے مرغِ بستانی مجھے
پھر اسی بدگمانی کے مضمون کو اسی پہلو کے ساتھ تشبیہ کا رنگ دے کر کہتے ہیں :
کیا بدگماں ہے مجھ سے کہ آئینہ میں مرے
طوطی کا عکس سمجھے ہے زنگار دیکھ کر
اب اگر ان دونوں شعروں میں مرغِ بستانی و طوطی پر رشک کرنے کو مضمون سمجھ لو اور یہ کہو کہ اس میں تکرار معنی ہو گئی ہے تو یہ نزاع لفظی ٹھہرے گی ، اصل امر یہ ہے کہ مرغِ بستانی و طوطی پر معشوق کا رشک کرنا معنی رشک ادا کرنے کا ایک پہلو ہے اور تکرار پہلو کے سبب سے بے مزگی پیدا ہوئی ہے اور پہلو بھی وہ پہلو جو مقتضائے عادت کے خلاف ہے اس میں تکرار یہ بھی ہوتی تو بھی بے مزہ تھا غرض کہ ان دونوں شعروں میں بھی تکرار معنی کے سبب سے بے مزگی پیدا نہیں ہوئی ہے ، جس پہلو سے معنی کو ادا کیا ہے وہ پہلو بے لطف ہے اور تکرار سے اُس کی اور بھی زیادہ لطفی اور بدمزگی پیدا ہوئی ، اس مثال سے یہ نکتہ سمجھ لینا چاہئے کہ ادائے معانی کا پہلو یا پیرایہ کا طرز وہ چیز ہے کہ اس کی تکرار ناگوار ہوتی ہے کہ وہ اصل میں تکرار لفظ ہے نہ تکرار معنی۔
تا ترے وقت میں ہو عیش و طرب کی توفیر
تا ترے عہد میں ہو رنج و الم کی تقلیل
ماہ نے چھوڑدیا ثور سے جانا باہر
زہرہ نے ترک کیا حوت سے کرنا تحویل
یعنی ماہ کا برج ثور میں آنا اور زہرہ کا برج حوت میں تحویل کرنا دلیل عیش و طرب ہے اور تیرے عہد میں ہمیشہ عیش و طرب قائم کرنے کے لئے ماہ نے ثور میں اور زہرہ نے حوت میں قیام کر لیا۔
تیری دانش مرے اصلاحِ مفاسد کی رہین
تیری بخشش مرے انجاحِ مقاصد کی کفیل
مصرع اول میں ’ مرے ، بھی پڑھ سکتے ہیں اس سبب سے کہ مفاسد جمع مذکر ہے اور ’مری ، بھی پڑھ سکتے ہیں اس سبب سے اصلاح جمع مونث ہے۔
تیرا اقبالِ ترحم مرے جینے کی نوید
تیرا اندازِ تغافل مرے مرنے کی نوید
یہاں اقبال کے معنی رُخ کرنے کے اور ملتفت ہونے کے ہیں۔
بختِ ناساز نے چاہا کہ نہ دے مجھ کو اماں
چرخ کج باز نے چاہا کہ کرے مجھ کو ذلیل
اس سے پہلے شعر میں بادشاہ کے تغافل کی کسی قدر شکایت نکلتی تھی ، اس شعر میں اس شکایت کو بخت و فلک کی طرف منسوب کر دیا۔
پیچھے ڈالی ہے سر رشتۂ تقدیر میں گانٹھ
پہلے ٹھونکی ہے بن ناخن تدبیر میں کیل
ہندی قافیہ کس حسن سے باندھا ہے یعنی جس کے ناخن میں کیل ٹھونکی گئی ہو وہ کیوں کر گرہ کھول سکتا ہے ، گانٹھ کا لفظ اب متروک ہے ہاں گنے کی گانٹھیں بولتے ہیں یا گرہ کے ساتھ ملا کر گانٹھ گرہ کہتے ہیں۔
تپش دل نہیں بے رابطۂ خوفِ عظیم
کشش دم نہیں بے ضابطہ جر ثقیل
یعنی دل کی تپش خوفِ عظیم سے خالی نہیں اور سانس کا لینا میرے لئے جرثقیل سے کم نہیں۔
در معنی سے مرا صفحہ لقا کی داڑھی
غم گیتی سے مرا سینہ امر کی زنبیل
جس طرح لقا کی داڑھی میں موتی پروئے گئے تھے اسی طرح میرے اشعار عقدِ گوہر ہیں لیکن فکر دُنیا کی سمائی میرے سینہ میں اس قدر ہے کہ عمرو بن اُمیہ ضمیری مہاجر کی زنبیل میرا سینہ ہو گیا ہے ، یہاں عمرو کو مصنف نے الف سے لکھا ہے اور میم کو متحرک نظم کیا دونوں باتیں غلط ہیں اصل امر یہ ہے کہ داستان گویوں نے مغازی سرور عالم ا سن سن کر خود بھی ویسے ہی قصے بنانا چاہے تو موضوع داستان انھوں نے حضرت حمزہ عم رسالت مآب ؐکو قرار دیا اور عمرو بن اُمیہ صحابی کو اُن کا عیار مقرر کیا اس سبب سے کہ حضرت حمزہ بڑے شجاع تھے اور عمرو بڑے عیار تھے اُن کو آنحضرت ؐنے جاسوسی کے لئے مشرکین مکہ میں بھیجا تھا اور مشرکین نے خبیب صحابی کو سولی پر چڑھا دیا تھا ، عمرو ان سب کی آنکھ بچا کر خبیب کو سولی پر سے چرالے گئے اس سبب سے ان بے چارہ کے لئے عیاری کا عہدہ داستان گویوں نے تجویز کیا غرض کہ حمزہ اور عمرو یہ دونوں نام مغازی میں سے لئے گئے ہیں میں نے خود سنا ہے داستان گویوں کو اس طرح کہتے ہوئے ’ عیار عیاراں عمرو بن اُمیہ ضمیری ، یعنی عمرو کے باپ کا اور خاندان تک کا نام داستان میں ذکر کرتے ہیں ، مصنف کو یہ دھوکاہوا جس طرح قصہ فرضی ہے نام بھی بے اصل ہو گا عمرو نہیں امر سہی۔
فکر میری گہر اندوز اشاراتِ کثیر
کلک میری رقم آموز عباراتِ قلیل
آموختن لازم و متعدی دونوں معنی کے لئے آتا ہے یہاں رقم آموز میں معنی لازم اچھے معلوم ہوتے ہیں ، یعنی لکھنا سیکھنے والا اور متعدی کے معنی اگر لیں تو رقم آموز کو اسم مفعول ترکیبی سمجھنا چاہئے یعنی جسے لکھنا سکھایا گیا ہے جیسے مرغ دست آموز کہتے ہیں۔ بہرحال مطلب یہ ہے کہ میں اپنی عبارات قلیل میں اشارات کثیر رکھتا ہوں یعنی گو میں نے اپنا حال صاف صاف نہیں عرض کیا ہے مگر اشاراتِ کثیر اس میں موجود ہیں جس سے سب کیفیت آپ سمجھ سکتے ہیں۔
میرے ابہام پہ ہوتی ہے تصدق توضیح
میرے اجمال سے کرتی ہے تراوش تفصیل
یعنی گو میں نے اپنا حال بابہام و اجمال کہا ہے لیکن یہ ابہام و اجمال توضیح و تفصیل سے بڑھ کر ہے یعنی قلیل اللفظ و کثیر المعنی ہے۔
نیک ہوتی مری حالت تو نہ دیتا تکلیف
جمع ہوتی مری خاطر تو نہ کرتا تعجیل
اس شعر کے بھی الفاظ مطابق عرضِ حال نہیں ، ہاں بالالتزام یہ معنی پیدا ہوتے ہیں کہ میری حالت اچھی نہیں ہے ، میری خاطر جمع نہیں ہے جیساکہ اُوپر کے اشعار سے ظاہر ہوتا ہے کہ تصریح منظور نہیں ہے۔
قبلۂ کون و مکاں خستہ نوازی میں یہ دیر
کعبۂ امن و اماں عقدہ کشائی میں یہ ڈھیل
اس قطعہ میں یہ دوسرا ہندی قافیہ کیا ہے ، عقدہ کشائی سے ڈھیل دینے کو کس قدر مناسبت ہے کہ تعریف نہیں ہو سکتی یعنی یہ سچ ہے کہ بے ڈھیل دئیے گرہ نہیں کھل سکتی لیکن اس قدر ڈھیل کوئی دیتا ہے۔
_______
گئے وہ دن کہ نادانستہ غیروں کی وفاداری
کیا کرتے تھے تم تقریر ہم خاموش رہتے تھے
بس اب بگڑے پہ کیا شرمندگی جانے دو مل جاؤ
قسم لو ہم سے گر یہ بھی کہیں کیوں ہم نہ کہتے تھے
یعنی جب غیروں سے بگاڑ ہو گیا تو مجھ سے کیوں اس قدر شرمندگی ہے کہ ملنا جلنا چھوڑدیا ، میں قسم کھاکے کہتا ہوں کہ میں اس بات کا طعنہ تمہیں نہ دوں گا ، یہ قطعہ ایسا بے تکلف نظم ہوا ہے کہ نثر بھی نہیں ہو سکتی مگر ایک تو تعقیدِ معنوی ہو گئی ہے کہ اُوپر والے شعر میں یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم خاموش رہتے تھے اور دوسرے شعرمیں کہتے ہیں کیوں ہم نہ کہتے تھے ، دوسرے یہ کہ تم غیروں کی وفاداری تقریر کیا کرتے تھے خلافِ محاورہ ہے جس جگہ لفظ ’ تقریر ، کو صرف کیا ہے محاورہ میں یہاں لفظ ’ بیان ، ہے یا ’ اظہار ،۔
کلکتہ کو جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں
اک تیر میرے سینہ میں مارا کہ ہائے ہائے
وہ سبزہ زار ہائے مطرا کہ ہے غضب
وہ نازنین بتانِ خودآرا کہ ہائے ہائے
صبر آزما وہ اُن کی نگاہیں کہ حف نظر
طاقتِ رُبا وہ اُن کا اشارہ کہ ہائے ہائے
وہ میوہ ہائے تازہ و شیریں کہ واہ واہ
وہ بادہ ہائے نابِ گوارا کہ ہائے ہائے
حف نظر چشم بدور کے معنی پر اُردو کا محاورہ ہے لیکن یہ لفظ ہندی معلوم ہوتا ہے ، فارسی میں کہیں نہیں ہے اور عربی میں بھی حف ان معنی پرنہیں ہے عرض کہ ’ ح ، سے اس کو نہ لکھنا چاہئے۔
_______
ہے جو صاحب کے کفِ دست پہ یہ چکنی ڈلی
زیب دیتا ہے اسے جس قدر اچھا کہئے
یعنی اچھی اسی سبب سے ہے کہ تمہارے ہاتھ پر رکھی ہے۔
خامہ انگشت بدنداں کہ اسے کیا لکھئے
ناطقہ سر بگریباں کہ اسے کیا کہئے
انگشت بدنداں ہونا حیرت کا نقشہ ہے ، سربگریباں ہونا فکر کی صورت ہے۔
مہرمکتوب عزیزانِ گرامی لکھئے
حرز بازوئے شگر فانِ خود آرا کہئے
یعنی کسی نامۂ شوق کی مہر ہے یا کسی معشوق کا تعویذ ہے۔
مستی آلود سرانگشتِ حسیناں لکھئے
داغِ طرف جگہ عاشق شیدا کہئے
پانچ اُنگلیوں میں ایک طرف انگوٹھا اور دوسری طرف چھنگلیا ہے ، انگوٹھے کے بعد کلمہ کی اُنگلی ہے اُس کے بعد بیچ کی اُنگلی اُس کے بعد جو اُنگلی ہے اُس کا نام عورتوں نے مسی کی اُنگلی رکھ لیا ہے اور اُسی اُنگلی سے مسی لگانے کا دستور بھی ہے ، یہاں محل مدح میں داغ سے تشبیہ کچھ بے جا نہیں ہے اس لئے کہ اگر سرانگشت مسی آلود حسینوں کے لئے باعثِ زینت ہے تو داغِ جگر عشاق کے واسطے سبب تزئین ہے۔
خاتم دستِ سلیماں کے مشابہ لکھئے
سر پستانِ پری زاد سے مانا کہئے
مانا بمعنی مشابہ ماندن سے مشتق ہے جیسے خوانا خواندان سے ، مذاق اہل اُردو میں یہ لفظ نامانوس ہے ، فارسیت مصنف کی یہاں اُردو پر غالب ہو گئی ہے کہ لفظ مانا کو اُردو میں قابل استعمال سمجھے
اختر سوختۂ قیس سے نسبت دیجئے
خالِ مشکیں رُخِ دلکش لیلیٰ کہئے
اختر سوختہ کو کہہ کر چکنی ڈلی کا رنگ اس میں پیدا کیا۔
حجر الاسود دیوارِ حرم کیجئے فرض
ناقہ آہوئے بیابانِ ختن کا کہئے
اُوپر کے اشعار میں جیسی مراعاۃ مصرعوں میں چلی آئی وہ یہاں باقی نہیں رہی مثلاً نگین سلیمان و سرپستانِ پری زاد یا اختر قیس و خالِ لیلیٰ میں مراعاۃ النظیر ہے اور حجرالاسود کو ناقۂ آہو سے یا دیوارِ حرم کو بیابانِ ختن سے کچھ مناسبت نہیں۔
وضع میں اُس کو اگر سمجھئے کافِ تریاق
رنگ میں سبزۂ نوخیز مسیحا کہئے
’ سمجھئے ، کا لفظ اس طرح نظم ہوا ہے کہ میم ساکن اور جیم متحرک ہو گیا ہے ، اس لفظ کواس طرح کسی نے نہیں موزوں کیا ، نہ یوں محاورہ میں ہے۔
صومعہ میں سے ٹھہرائیے گر مہر نماز
میکدہ میں اسے خشتِ خم صہبا کہئے
یعنی عبادت خانہ میں اسے مہر نماز کا رتبہ حاصل یہ جسے عابد سجدہ گاہ کہتے ہیں اور میخانہ میں اسے خشتِ پائے خم کا مرتبہ حاصل ہے جس پر مست سجدہ کرتے ہیں۔
کیوں اسے قفل درگنج محبت لکھئے
کیو اسے نقطئہ پرکارِ تمنا کہئے
چکنی ڈلی وہ نقطہ ہے کہ تمنا پرکار کی طرح جس کے گرد گھومتی ہے۔
کیوں اسے گوہر نایاب تصور کیجئے
کیوں اسے مردمک دیدۂ عنقا کہئے
یہ چکنی ڈلی ایسی نایاب چیز ہے کہ اسے مردمک دیدۂ عنقا کہہ سکتے ہیں۔
کیوں اسے تکمۂ پیراہن لیلیٰ لکھئے
کیوں اسے نقش پئے ناقہ و سلمیٰ کہئے
تکمہ اُردو میں غلط طور سے مستعمل ہے ، فارسی میں گھنڈی کے معنی پر بولتے ہیں جو معنی کہ مصنف نے لئے ہیں اور اس صورت میں تشبیہ کی وجہ ظاہر ہے ہم لوگ جو تکمہ گھنڈی کے حلقہ کو سمجھتے ہیں یہ غلط ہے اور پے فارسی میں بمعنی پا بھی آیا ہے اور ناقہ کے نقش پا کو ڈلی سے جو مشابہت ہے وہ ظاہر ہے۔
بندہ پرور کے کفِ دست کو دل کیجئے فرض
اور اس چکنی سپاری کو سویدا کہئے
لکھنؤ کی زبان میں ڈلی کو اب سپاری کہنا مکروہ سمجھتے ہیں۔
_______
نہ پوچھ اس کی حقیقت حضورِ والا نے
مجھے جو بھیجی ہے بیسن کی روغنی روٹی
نہ کھاتے گیہوں نکلتے نہ خلد سے باہر
جو کھاتے حضرت آدم یہ بیسنی روٹی
مطلب یہ ہے کہ ایسی روٹی بہشت میں بھی نہیں ہے اس لئے اگر ہوتی تو آدم نے بھی کھائی ہوتی ، اسے کھاتے تو پھر گیہوں کیوں کھاتے اور خلد سے نکالے ہی کیوں جاتے۔
_______
منظور ہے گذارشِ احوال واقعی
اپنا بیان طبیعت نہیں مجھے
یعنی احوالِ واقعی کی گذارش مجھے منظور ہے نہ کہ اپنی حسن طبیعت کا بیان لیکن شعر کی بندش اُلجھی ہوئی ہے۔
سو پشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری
کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے
یعنی اہل سیف اہل قلم سے زیادہ عزت رکھتے ہیں۔
آزاد رو ہوں اور مرا مسلک ہے صلح کل
ہرگز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے
عداوت نہ ہونے کو تین لفظوں سے مؤکد کیا ہے ’ ہرگز ، سے مطلق تاکید نکلتی ہے ’ کبھی ، سے ہر زمانہ کا استیعاب کر لیا ہے ’ کسی ، سے ہر شخص کا استیعاب کیا ہے اور آزاد رو سے آزاد روش مراد ہے۔
کیا کم ہے یہ شرف کہ ظفر کا غلام ہوں
مانا کہ جاہ و منصب و ثروت نہیں مجھے
مطلب یہ ہے کہ غلامی کا شرف میرے لئے کیاتھوڑا ہے جو شاعری کو ذریعہ عزت خیال کروں ، گو یہ سچ ہے کہ اور غلاموں کی طرح مجھے ثروت و منصب نہیں۔
اُستاد شہ سے ہو مجھے پر کاش کا خیال
یہ تاب یہ مجال یہ طاقت نہیں مجھے
اس قطعہ میں جس جس پہلو سے معنی استعطاف کو مصنف نے باندھا ہے قابل اس کے ہے کہ اہل قلم اس سے استفادہ کریں ، ایسے پہلو شاعر کے سوا کسی کو نہیں سوجھتے ، یہ عرش کے خزانہ سے نکلتے ہیں اور اس کی کنجی شاعروں کے سوا کسی کے پاس نہیں لیکن نثر کی سبھی کو ضرورت ہے اور جس جس مضمون پر نثار کو قلم اُٹھانا پڑتا ہے ان مضامین کی تزئین و تحسین شاعروں کی خوشہ چینی کے بغیر نہیں ہو سکتی ابن رشیق کہتے ہیں بحترمیؔ نے محمد بن عبدالملک زیات کی فصاحت و بلاغت کی مدح میں جو یہ شعر کہا ہے :
ومعان لو فصلتھا القوا فی
عطلت شعر جر دل ولبید
شاہد ہے اس بات پر کہ شعر کو نثر پر فضیلت ہے ابن اثیر کی مہارت براعت فن نثر و کتابت مینارۂ ادب و عصارۂ رطب ہے کانہ ضوفی راسہ نار مگر مقدمہ مثل السائر میں دیکھو فصل عاشر میں وہ کیا وصیت کرتے ہیں کہتے ہیں اہل قلم کو مخول شعراء کا کلام حفظ کرنا اور شعر سے استنباطِ معانی و اخذِ مضامین کی مشق کرنا شعر کو الفاظ بدل کر نثر میں لے آنے کی مہارت پیدا کرنا ضرور ہے ، اس کی مثال میں بہت دُور تک اپنے خطب و مکاتیب کے فقرے لکھے ہیں جس میں استعطاف ، مودت ، محبت آمیز شکایت ، خطوں کا جواب نہ لکھنے کی معذرت ، فتح کی تہنیت ، اموات کی تعزیت ، رفتارِ عمر کی سرعت ، مدح ، جودو سخاوت ، وصف قتال و شجاعت ، ذکر فخر و سیادت ، حزم و دوربینی کی صفت ، دُشمنوں سے مکر کرنے کی خوبی ، سفر کے فوائد ، شیریں کلامی کی توصیف ، دوست کی تعریف ، دُنیا کی مذمت ، زہد کی خوبی ، بڑھاپے کی برائی ، ابنائے وطن کی بے مروتی ، گھر کی ویرانی ، ممدوح کے حاسد کی مذمت ، صورت پر سیرت کی فضیلت کے مضامین ہیں اور ہر ہر مضمون کو جس جس شعر سے لیا ہے وہ شعر بھی لکھ دیا ہے اور شاعر کا بھی ذکر کر دیا ہے۔ فرذوقؔ ، بحتریؔ و ابوتمامؔ و ابونواسؔ و ابوالعتاہیہؔ و متنبی وؔ ابن الرومیؔ و سید رضیؔ کا کلام اکثر ان کا مآخذ ہے ، اس کے بعد لکھتے ہیں کہ شعر کو نثر بنانا اور شاعر کے کلام سے فائدہ اُٹھانا ایک مبسوط فن ہے اس کے لئے الگ ایک کتاب میں نے تصنیف کی ہے ، وشی المرقوم فی حل المنظوم لیکن نثار کو جب معانی سے سابقہ رہتا ہے وہ اکثر تہنیت و تعزیت و سفارش و گذارش و سپاس و مدح و عتاب و قدح وغیرہ ہیں اور ظاہر ہے کہ باتوں کا فائدہ دیوانِ غزل سے بہت کم حاصل ہو سکتا ہے ، ہاں مثنویاں اور مرثیہ اور قصائد میں غور کرے گا تو بہت کچھ پائے گا اسی دیوان میں دیکھ لو غزلوں میں ایسے شعر کم نکلیں گے جن کے مطالب کو نثار صرف کر سکے برخلاف اس کے مصنف کے وہ اشعار ہیں جو عارف کے مرثیہ میں کے ہیں یا میمیہ قصیدہ جو اُوپر گذرا یا معذرت کا قطعہ جس کی شرح ہورہی ہے یا وہ قطعہ جس میں تنخواہ کے ماہ بہ ماہ نہ ملنے کی شکایت آگے چل کر کی ہے ، اس طرح کا کلام البتہ مفید عام ہوتا ہے۔ غزل اگر ایسی ہو کہ مطلع سے مقطع تک ایک ہی مضمون ہوتو بھی غنیمت ہے ، ستم کی بات تو یہ ہے کہ شاعر غزل گو کسی مضمون کے کہنے کا قصد ہی نہیں کرتا جس قافیہ میں جو مضمون اچھی طرح بندھتے دیکھا اُسی کو باندھ لیا ، ایک شعر میں بت پرستی ہے ، دوسرے میں توحیدِ عرفاں ، ابھی ناقوس پھونک رہے تھے اُس کے بعد ہی نعرۂ تکبیر بلند کیا یا تو میخانہ میں مست و سرشار تھے یا وعظ و پند کرنے لگے ،ابھی شبِ وصل کے مزے لوٹ رہے تھے ابھی شبِ ہجر میں مرنے لگے ، ایک شعر میں معشوق کی پردہ نشینی و شرم و حیا کادعویٰ کیا ، دوسرے میں اُس کے ہرجائی پن کا شکوہ کیا ، ابھی جوشِ شباب و شوقِ شراب تھا ابھی پیری آ گئی اور خضاب لگارہے ہیں یا تو حشر و نشر کا انکار تھا یا محشر میں کھڑے ہوئے فریاد بھی کر رہے ہیں ، جسے حضور حضور کہہ رہے تھے اسی سے تو تکار کرنے لگے ہیں ، مسلمان مگر شعر میں زندقہ بھرا ہوا ہے مسلک اہل حدیث کاہے مگر ہمہ اوست کے مضمون سے غزل خالی نہیں جاتی ، انکار رویتِ عقیدہ میں داخل ہے مگر حشر میں دیدار ہونے کا مضمون باندھ لیا کرتے ہیں ، شراب پینا تو کیسا اس طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں مگر شعر دیکھو تو اُن سے بڑھ کر کوئی خراب و آوارہ نہیں اصل پوچھو تو فواحش کو کبھی تھوکتے بھی نہیں مگر شعر میں اُن کا اُگال مل جاتا ہے تو کھالیتے ہیں ، میں خود غزل کہتا ہوں اور رسم زمانے کے موافق ایسے ہی بے سروپا مضامین باندھ لیا کرتا ہوں مگر انصاف یہ ہے کہ جس کلام میں ایسا تناقض و تہافت پے در پے ہو اُس میں کیا اثر ہو گا، دوسری قباحت یہ ہے کہ شاعر غزل گو کو مضمون کہنے کی مشق نہیں ہوتی بلکہ قافیہ و ردیف سے مضمون پیدا کرنے کی مشق کیا کرتا ہے ، برخلاف شاعر قصیدہ گو و مثنوی گو کے کہ وہ ایک مضمون کی طرف قلم اُٹھاتا ہے اور قافیہ و ردیف کو اس مضمون کا تابع بناتا ہے ، قصیدہ گو و مثنوی گو کی سیدھی راہ ہے اور غزل گو کی اُلٹی چال ہے ، غزل گو زمین طرح کرتے ہیں اور قصیدہ ، مثنوی و مرثیہ کہنے والے مضمون طرح کرتے ہیں ، غرض کہ مضمون کہنے کی مشق غزل گو کو نہیں ہوتی ، مضمون گوئی کا خاتمہ مرثیہ گویوں پر ہو گیا اور اس میں شک نہیں کہ اُردو فارسی کی شاعری میں غزل گویوں سے وہ بازی لے گئے ، ابتداء میں مرثیہ گویوں کو الفاظ کی صحت اور قافیوں کی درستی کا زیادہ اہتمام نہ تھا ، اس سبب سے مرثیہ گو بگڑا شاعر کہلاتا تھا لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ غزل گو آدھا شاعر بلکہ ناشاعر ہے۔ مضمون پر قلم اُٹھانا مشکل کام ہے اور زمین غزل میں قافیہ و ردیف کو ربط دینا آسان امر ہے ، اسی آسانی کے سبب سے ہر کس و ناکس غزل کہہ لیتا ہے اور شعر گوئی کی ابتداء غزل سے کرتے ہیں لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ معراجِ شعر کا یہ پہلا زینہ ہے ، اسی کو ذروۂ کمال نہ سمجھ لینا چاہئے ، گو اُردو کہنے والے شعراء غزل میں زیادہ اُلجھے رہے اس پر بھی شاعر و ناشاعر کا تفرقہ بخوبی ظاہر ہو گیا ، خدا بخشے آغا حجو شرفؔ کو ایک دن کہنے لگے کہ میر علی اوسط رشکؔ نے چالیس پینتالیس لفظ شعر میں باندھنا ترک کئے ہیں اور اُس پر بڑا ناز ہے ، اپنے شاگردوں کے سوا کسی کو نہیں بتاتے اور وصیت کرگئے کہ یہ ودیعت سینہ بسینہ میرے ہی تلامذہ میں رہے کسی اور کو بے مٹھائی رکھوائے ہرگز نہ بتانا مگر تفحص سے معلوم ہوا کہ سب اس طرح کی باتیں ہیں کہ دکھلانا اور بتلانا نہ باندھا کرو ، دکھاوا اور بتانا اختیار کرو اور ’ پہ ، کی جگہ ’ پر ، اور ’ تلک ، کے مقام میں ’ تک ، ’ مرا ، کو ’ میرا ، اور ’ ترا ، کو ’ تیرا ، کہنا چاہئے ، ’ سدا، کی جگہ ’ ہمیشہ ، باندھو ، ’ پرستان ، ہندی لفظ ہے کہیں فارسی سمجھ کر اسے بے اعلان نون نہ نظم کرجانا لفظ ’ خون ، میں بھی ’ نون ، کا ظاہر کرنا ضرور ہے شمشیر میں یائے مجہول ہے اسے کبھی تیر و زنجیر کے ساتھ قافیہ نہ کرنا علیٰ ہذا القیاس کوئی کام کی بات نہیں ہے ، مگر میرے دیوان کا تفحض کرو تو معلوم ہو کہ اسی بیاسی لفظ ایسے میں نے چھوڑ دئیے ہیں جسے تمام شعراء باندھا کرتے ہیں اور کوئی غزل ان کی اس سے خالی نہیں رہتی مثلاً ’’بت و صنم و کلیسا و بت خانہ و برہمن و ناقوس و زنار و زاہد و واعظ و ناصح و شیخ و پیرمغاں و مغچہ و ساقی و رند و میخانہ و جام و ساغر و شیشہ و قلقل و شراب و صہبا ‘‘ وغیرہ کوئی شاعر چھوڑ دے تو جانیں ، میں نے پوچھا : آپ نے ان الفاظ کو کیوں چھوڑ دیا ؟ کہنے لگے : میرے رنگ کے خلاف ہیں ، جس شعر میں میں نے یہ الفاظ دیکھے کبھی اُس شعر نے مجھے مزہ نہیں دیا ہاں اُستاد کے اس شعر میں :
چپ ہو کیوں کچھ منہ سے فرماؤ خدا کے واسطے
آدمی سے بت نہ بن جاؤ خدا کے واسطے
کچھ عجیب طرح سے بت کا لفظ آگیا ہے ، اگر اس طرح مجھے ملے تو میں بھی باندھ جاؤں گا شرفؔ اس کو ترک الفاظ کہتے تھے مگر اصل میں دیکھو تو مضمون غزل کی اصلاح ہے افسوس ہے واجد علی شاہ جنت آرام گاہ کے ساتھ لکھنؤ سے جو شعرا مٹیا برج میں گئے تھے۔ شفقؔ ، قاسمؔ ، درخشاں ؔ ، ہنرؔ ، عیشؔ ، بہارؔ ، مائل ؔ، شرف ؔ ، طوبیؔ ، یاورؔ سب کے سب لغز گفتار و نازک خیال شاعر صاحبِ دیوان تھے ، تمام عمر شعرگوئی میں صرف کی اور خون تھوک تھوک کر اس فن میں جگر کاوی کرگئے ان میں سے سات شخصوں کو ’ سبعہ سیارہ ، کا خطاب تھا اب ان میں سے پادش بخیر ایک شیخ صادق علی صاحب مائلؔ سنتا ہوں کہ ابھی تک زندہ ہوں ، باقی سب کے سب مرگئے اور افسوس یہ ہے کہ سارا کلام بھی اُن کا نہیں معلوم کیا ہو گیا شرفؔ کا کچھ کلام راجہ امیرحسن خاں بہادر کے ہاتھ لگا تو اُنھوں نے چھپوادیا۔
جامِ جہاں نما ہے شہنشاہ کا ضمیر
سوگند اور گواہ کی حاجت نہیں مجھے
نحوی لوگ تو ضمیر کو مونث بولتے ہیں مگر وہ ضمیر اور معنی پر ہے ، مصنف نے یہاں ضمیر کو دل کے معنی پر لیا ہے اور دل لفظ مذکر ہے :
خدا نے تجھ کو بنایا صنم وہ مرجع کل
ہر ایک دل تیری جانب ضمیر ہوکے پھرا
میں کون اور ریختہ ہاں اس سے مدعا
جز انبساطِ خاطر حضرت نہیں مجھے
میں کون اور ریختہ یعنی مجھے ریختہ کہنے سے کیا واسطہ کہاں میں اور کہاں ریختہ گوئی مجھے ہے تو فارسی کا ذوق ہے فقط آپ کی خوشی کرتا ہوں جو اُردو کہتا ہوں۔
سہرا لکھا گیا زرہ امتثال امر
دیکھا کہ چارہ غیر اطاعت نہیں مجھے
مقطع میں آپڑی ہے سخن گسترانہ بات
مقصود اس سے قطع محبت نہیں مجھے
یعنی مقطع کا یہ مصرع ، دیکھیں اس سہرے سے کہہ دے کوئی بہتر سہرا۔ ایک سخن گسترانہ و شاعرانہ بات ہے اسے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ واقع میں میرا یہ خیال ہے اور شاعروں میں باہم دگر ایسے اُمور اکثر پیش آجاتے ہیں ، ایک دفعہ میر انیس ؔنے ایک رُباعی فرمایا :
روتے ہیں ریا سے جو کہ مجلس میں انیسؔ
اشک ان کے بھی موتی ہیں مگر جھوٹے ہیں
مرزا دبیرؔ نے اس کا جواب دیا :
یہاں اشک ریائی کا بھی ہے مولِ بہشت
موتی سچے ہیں جوہری جھوٹے ہیں
اس شعر سے صاف صاف یہ بات معلوم ہو گئی کہ اُردو فارسی کے شعر میں جو مضمون ہو اُسے شاعر کا عندیہ و مافی الضمیر نہیں سمجھتے ہیں ، لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ غزل کے اشعار میں البتہ شاعر جو چاہے کہہ جائے مرفوع القلم مگر مقطع میں جو کچھ وہ کہتا ہے اُسے اُس کا قول اور مافی الضمیراور منعقدہ اور عندیہ سب لوگ سمجھتے ہیں ، جو لوگ غیرزبانوں کی شاعری دیکھے ہوئے ہیں وہ جب اُردو و فارسی کی غزلوں کا اس سے مقابلہ کرتے ہیں تو یہ اعتراض ضرور اُن کے دل میں خطور کرتا ہے کہ یہ شاعری سراسر تصنع ہے جو دل سے نکلی ہوئی بات میں ہوتی ہے وہ اثر اس میں نہیں پایا جاتا ، اگر غزل کے ایک شعر سے کچھ اثر کسی پر پیدا ہوتا ہے تو دوسرے شعر میں اُس کی نقیض سن کر وہ بات بھی جو دل میں چبھ گئی تھی محو ہو جاتی ہے اور جب سننے والے کو خیال ہو جاتا ہے کہ اصل میں کچھ بھی نہیں سب تصنع و تکلف ہے تو شعر سے جو مزہ ملنا چاہئے وہ اُسے نہیں حاصل ہوتا بلکہ ’ اثر رکھتی ہے آتش کی غزل مجذوب کی بڑکا ، برخلاف اس کے غیرزبان والے شعراء ہیں کہ جب تک عاشق مزاج نہ ہوں عاشقانہ مضامین نہیں باندھتے اگر شراب پر رغبت نہیں رکھتے تو کبھی شراب کی تعریف نہیں کرتے اگر مذہب و ملت سے بیزار نہیں ہوتے تو اُس کا استہزاء بھی نہیں کرتے ، اکثر شاعروں کا یہ کام ہے کہ کوئی واقعہ نظم کرتے ہیں جیسے کعب بن مالک ص نے اجلائے بنی نضیر و حرق بویرہ کا حال نظم کیا ہے ، سودا ؔنے حافظ رحمت خاں کی شکست کا حال نظم کیا ہے ، فردوسی ؔنے رستم و اسفند یار کے محاربات لکھے ہیں ، والمیکی و ہومرنے بھی اسی طرح اپنی اپنی قوم کے شجاع و جنگجو لوگوں کے کارنامے لکھے ہیں ، انیسؔ نے واقعۂ لطف کو نظم کیا ہے یا یہ کرتے ہیں کہ کوئی قصہ دل سے بناتے ہیں اور اُسے نظم کرتے ہیں ، شیکسپیئر ؔیورپ میں بہت مشہور ہے میر حسن ؔکی مثنوی اور امانت کی اندر سبھا اورنواب مرزا کی تینوں مثنویاں اسی باب سے ہیں ، یہ دونوں بڑے میدان ہیں جس میں شاعر کی واقعہ نگاری کی قوت اور ادا بندی کا سلیقہ اور مصوری کا طریقہ ظاہر ہوتا ہے اور غزل اس میدان سے کوسوں دُور ہے یا یہ کرتے ہیں کہ مختصر مختصر حکایات و نوادر روایات بایجاز و اختصار نظم کرتے ہیں اور اس سے کوئی اخلاقی مضمون استنباط کر کے مفصل بحث اس مسئلہ کی لکھ دیتے ہیں ، اس میدان میں سعدی گوئے بلاغت لے گیا یا یہ ہوتا ہے کہ شاعر تصوف و معرفت میں کوئی خاص رائے اور مذہب رکھتا ہے اسی کو کبھی بہ تمثیل کبھی بہ تفصیل کبھی مبادی یقینیہ کبھی قضا یائے شعریہ سے ثابت کرتا ہے جیسے مولوی روم و حکیم سنائی کا کلام ہے ، یونانیوں کے زمانہ میں شعراء کا فلاسفہ میں شمار تھا ان کا مذہب اور ان کی رائے خاص ہوا کرتی تھی ، یہ بات نہ تھی کہ جیسا قافیہ دیکھا اس کے مطابق مضمون باندھ لیا گو اپنی رائے کے خلاف ہو گو اپنی وضع کے مناسب نہ ہو اور سچ یہ ہے کہ مقتضائے فطرت و عادت کے خلاف یہ بات ہے کہ ایسی بات منہ سے نکالنا جائز سمجھ لیں جو اپنی رائے میں ناجائز ہو ، فارسی و اُردو کی غزلوں کے سوا اور کسی زبان میں یا کسی صنفِ کلام میں ایسا نہیں کرتے۔
روئے سخن کسی کی طرف ہو تو روسیاہ
سودا نہیں جنوں نہیں وحشت نہیں مجھے
یعنی ایسا دیوانہ میں نہ تھا کہ اُستاد بادشاہ ذوقؔ سے پرخاش و قطع محبت کرتا وہ کیا کسی کی طرف روئے سخن ہوتو قلم کی طرح منہ کالا ہو۔
قسمت بری سہی پہ طبیعت بری نہیں
ہے شکر کی جگہ کہ شکایت نہیں مجھے
یہ شعرمصنف کی بلاغت کی سند اور استادی کی دستاویز ہے جو لوگ محض غزل میں قافیہ پیمائی کیا کرتے ہیں ان کی فکر کو ان مضامین عالیہ کی طرف رسائی ممکن نہیں جس راہ پر وہ لگے ہوئے ہیں وہ اس میدان سے کوسوں دُور ہے۔ شیخ الرئیس لکھتا ہے کہ شعرکبھی فقط حیرت و تعجب پیدا کرنے کے لئے کہتے ہیں ، کبھی اغراض و معاملات کے لئے کہتے ہیں ، شعرائے غزل گو کی شاعری پہلی قسم کی ہے کہ موسیقی و مصوری کی طرح اُس کی غایت بھی محض حظِ نفس و تغذیۂ روح کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی ، لیکن دوسری قسم البتہ اہتمام و اعتبار کے قابل ہے ، ہر ادیب و اہل قلم اس کامحتاج ہے اور پھر حظِ نفس و تعجب سے بھی خالی نہیں نثار و معاملہ نگار کو ایسے مضامین کی بہت حاجت ہے جو اغراض سے تعلق رکھیں ، غزل گویوں کو مضمون نگاری کی مشق نہ ہونے سے اچھی طرح نثر لکھنے کا سلیقہ نہیں ہوتا کسی مطلب کو نثر میں دل نشیں نہیں کر سکتے بلکہ ابن خلدون نے تو یہ دعویٰ کیا کہ شاعر سے نثر نہیں لکھی جاتی اور نثار سے شعر نہیں کہا جاتا ، میرے خیال میں اس کی لم یہی ہے کہ ابن خلدون کے زمانہ میں عرب کی شاعری بھی اغراق و تصنع و تکلف سے بھر گئی تھی ، اغراض پر شعر کہنا بہت کم ہو گیا تھا ، اس فن کو اہل نثر نے اختیار کر لیا تھا ، مسٹر پامر جو کیمرج میں مدرسہ شاہی کے مدرسِ عربی تھے ، بہاء الدین وزیر مصری کے دیوان کی تقریظ میں لکھتے ہیں : والظاھر ان اکثر اشعار المشرق ولا سیما اشعارالفرس لاتخلو عن الصنع فی الاستعارۃ والمبالغۃ فی المدح والذم والبھر جنسہ فی العبارۃ وھذا کلہ عند اھل اردبا غیرمرغوب فیہ بل یعدونہ من اقبح العیوب۔ وانک قلما تجد فی قصیدۃ من قصائد العرب والفرس بیتا یدل علی شوق صحیح اے عالم الحسن۔ یعنی یہ بات ظاہر ہے کہ اہل مشرق کے اکثر اشعار خصوصاً فارسی کے استعارہ کی گڑہت اور مدح و ذم کے اغراق اور عبارت کی بے عنوانی سے خالی نہیں ، یہ سب باتیں اہل یورپ کو نامرغوب بلکہ اُن کے حسابوں نہایت معیوب ہیں اور عربی فارسی کے کسی قصیدہ میں ایسا شعر کم ملے گا جس سے کسی منظر دل کش کی طرف شاعر کا دلی اشتیاق ظاہر ہوتا ہے ، بلکہ شعر میں اغراق و تکلف کرنا اور اغراض و مطالب سے خالی رکھنا یہاں تک پھیلاکہ اب عموماً ہم لوگوں کا یہ مذاق ہو گیا ہے کہ جو شعر کہ اغراض و مطالب کے لئے کہے جاتے ہیں ان کو شعر نہیں سمجھتے بلکہ جانتے ہیں شاعر نے رام کہانی باندھی یا دُکھڑا رویا۔ شعراء کے برخلاف اہل نثر نے معاملہ نگاری میں غضب کا پھیکا پن اختیار کیا ، انھوں نے تکلف میں اس قدر افراط کی کہ معانی کو رو بیٹھے ، انھوں نے اس قدر تفریط کی کہ معانی کو رو بیٹھے ، انھوں نے اس قدر تفریط کی کہ تمام محاسن کلام سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ہمارے کلام کی تقسیم اس طرح مشہور ہے کہ جس کلام میں وزن و قافیہ دونوں ہو وہ نظم ہے جس میں دونوں نہ ہو وہ نثر عاری ہے ، اس نثر کی بڑی خوبی بیان کی بے ساختگی ہے ، لیکن اس میں بھی مجاز و کنایہ و تشبیہ و استعارہ و تحویل خبر بانشا و صنائع معنویہ و لفظیہ سے بہت کچھ حسن پیدا ہو جاتا ہے مثلاً یہ فقرہ :
۱) میں نے اُسے بہت ڈھونڈا مگر نہ ملا
۲) میں نے کیسا کیسا ڈھونڈا مگر وہ کب ملتا ہے
۳) میں نے بہت خاک چھانی مگر وہ ہاتھ نہ آیا
۴) میں نے کیسی کیسی خاک چھانی مگر وہ کب ہاتھ آتا ہے
۵) میں ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھکا مگر وہ تو عنقا تھا
پہلے فقرہ میں خبرہے اور سب لفظوں سے حقیقتِ معنی مقصود ہے ، دوسرے فقرہ میں اسی خبر کو انشاء کی صورت میں ظاہر کیا ہے ، تیسرے فقرے میں خبر ہے مگر الفاظ میں مجاز ہے ، چوتھے فقرہ میں انشاء ، مجاز دونوں جمع ہیں ، پانچویں فقرہ میں مجاز کی جگہ تشبیہ ہے اور ڈھونڈنے میں مبالغہ ہے اور سب سے بڑھ کر فقروں کا متشابہ ہونا لطف دیتا ہے مثلاً جملہ فعلیہ کا عطف فعلیہ پر اور اسمیہ کا اسمیہ پر اور جیسی ایک فقرہ میں فعل کی اور اس کے متعلقات کی ترتیب ہو ویسی ہی دوسرے فقرہ میں ہو ، جس کلام میں وزن نہ ہو اور قافیہ ہو یعنی فقرہ دوسرے فقرہ کا سجع ہو اُس کا نام نثر مسجع رکھا ہے ، یہ نثر فقط زبان عربی کے ساتھ مخصوص ہے اُردو فارسی کی زبان اس کی متحمل نہیں اس سبب سے کہ اُردو فارسی میں جملہ فعل پر تمام ہوتا ہے اور فعل کا سجع بہت کم ہاتھ آتا ہے ، اسی وجہ سے عام آفت یہ پیدا ہوئی ہے کہ یہ تصنع و تکلف داد و فقرہ ایک ہی معنی کے اکثر لوگ لکھا کرتے ہیں اور اس تکرار مخل و اطناب ممل سے سجع کا لطف بھی جاتا رہتا ہے ، مثلاً یہ مضمون : ’ میں نے سب حال سنا نہایت خوشی حاصل ہوئی ،۔
اسے سجع کرنے کے لئے خواہ مخواہ اس طرح لکھنا پڑتا ہے :
میں نے سب حال سنا۔ دامن شوق میں گلہائے مضامین کو چنا نہایت خوشی حاصل ہوئی فکر و تشویش زائل ہوئی۔
پھر یہ بھی دیکھئے کہ فعل کا سجع مل بھی گیا تو اس میں وہ لطف کہاں جو اسم کے سجع میں ہوتا ہے اور وجدان صحیح اس بات کا شاہد ہے کہ افعال و روابط میں سجع کا وہ لطف نہیں جو اسم میں ہے غرض کہ اُردو ، فارسی میں عربی کی طرح نثر مسجع لکھنا غیر کا منہ چڑھا کر اپنی صورت بگاڑنا ہے ، ہاں اُردو ، فارسی میں سجع اگر اچھا معلوم ہوتا ہے تو متعلقاتِ جملہ میں جیسے ’ فضل خدا سے ، اور ’ آپ کی دُعا سے خیریت ہے ،۔
یا کہیں ایسا ہی بے تکلف محاورہ میں پورا اُتر جائے تو خیر جملہ کا سجع ہی سہی لیکن تمام عبارت میں اس کی پابندی تو عربی میں بھی مشکل سے نبھتی ہے ، ابن عرب شاہ کی تاریخ تیموری اور فاکہتہ الخلفاء دونوں کتابیں آخر زٹل قافیہ ہوکے رہ گئیں۔ جس کلام میں قافیہ نہ ہو اور وزن ہو اُس کا نام نثر مرجز مشہور ہے ، گو ائمہ فن نے اس کا ذکر کیا ہے اور نام بھی رکھ لیا ہے مگر کسی نے اس پر قلم نہیں اُٹھایا ہے ، بے تکی نثر سمجھا کئے ، سچ یہ ہے کہ میرا بھی خیال یہی رہاکہ جب وزن کے ساتھ قافیہ نہ ہو تو وہ ایسی لے ہوئی جس میں سرندارد مگر محقق نے معیار میں ذکر کیا ہے کہ کسی یونانی شاعر نے یوبہ نامہ ایک کتاب لکھی ہے جس میں وزن ہے اور قافیہ نہیں ہے اور انگریزی میں بھی اس طرح کی تالیف کا رواج بہت ہے اور بے شک اس کی برجستگی و بے ساختگی کلام مقفیٰ سے کہیں بڑھی ہوئی ہے اس قسم کے کلام کو وہ لوگ نظم کے اقسام میں داخل کرتے ہیں اور بات یہی ٹھیک ہے کہ موزوں کلام کو نظم کہنا چاہئے نہ کہ نثر۔
صادق ہوں اپنے قول میں غالبؔ خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے
’ کہ ، اس مصرع میں یا بیان کے واسطے ہے یعنی کہتا ہوں سچ بات کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے ، یا توجیہ و تعلیل کے واسطے ہے یعنی جو کچھ میں کہہ رہا ہوں سچ کہہ رہا ہوں جھوٹ کی مجھے عادت نہیں یعنی سچ بولنے کی وجہ اور علت یہ ہے کہ جھوٹ کی عادت نہیں اور دونوں معنی میں سے یہی معنی مصنف کو غالباً مطلوب ہیں ، گو حاصل دونوں صورتوں کا ایک ہی ہے لیکن اتنا فرق ہے کہ پہلی صورت میں بالالتزام مطلب حاصل ہوتا ہے اور وہ پھیر کا راستہ ہے یعنی جو بات کہ سچ میں کہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے اور جب یہ بات سچ ہوئی تو اس سے یہ بھی لازم آیا کہ جو کچھ کہہ رہے ہیں جھوٹ نہیں ہے اور جب یہ معلوم ہوا کہ جھوٹ نہیں ہے تو اس سے یہ لازم آیا کہ سچ ہے اور دوسری صورت میں بالمطابقہ مطلب حاصل ہو جاتا اور سیدھی راہ ہے یعنی جو کچھ میں کہہ رہا ہوں پھر اس کی وجہ بیان کی کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے جس سہرے کے سبب سے ذوقؔ مرحوم کو اور بہادر شاہ مغفور کو مصنف سے ملال ہوا تھا اور رفع ملال کے لئے مصنف نے یہ قطعہ کہا تھا ، میں نے اس سہرے کو بھی اس قطعہ کے بعد دیوان میں مندرج کرنا مناسب سمجھا تاکہ مصنف کا تمام اُردو کا کلام ایک ہی جگہ ہو جائے۔
_______
خوش ہو ائے بخت کہ ہے آج ترے سر سہرا
باندھ شہزادہ جواں بخت کے سر پر سہرا
مصنف نے پہلے مصرع میں جو محاورہ باندھا ہے یہی سرسہرا ذوقؔ نے بھی اپنے مطلع میں باندھا ہے :
اے جواں بخت مبارک تجھے سر پر سہرا
آج ہے یمن و سعادت کا ترے سر سہرا
مصنف سے یہ محاورہ پورا نہ بندھا اور ذوقؔ سے پورا اُترا ، محاورہ یہ ہے کہ ترے سر شاعری کا سہرا ہے ، تیرے سرفضیلت کا سہرا ہے ، تیرے سر سعادت کا سہرا ہے ، خالی سہرا کوئی نہیں کہتا جس طرح مصنف نے بخت کے سر سہرا کہا ہے جس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ سچ مچ کا سہرا مراد ہے اور ذوقؔ نے پہلے مصرع میں اصلی سہرا مراد لیا ہے اور دوسرے مصرع میں سعادت کا سہرا شہزادہ کے سر باندھا ہے ، غرض کہ سر سہرا ہونا جو محاورہ ہے وہ خالی نہیں کہا جاتا بلکہ آج کا لفظ بھی محاورہ میں داخل ہے اور محاورہ میں تصرف کرنا کسی طرح نہیں دُرست اس میں اچھے اچھے لوگ دھوکا کھاتے ہیں ، مثلاً خون ہو جانے سے قتل کا واقع ہونا ، نام ہو جانے سے مشہور ہونا ، دل آجانے سے عاشق ہو جانا جو مراد لیتے ہیں تو یہ معنی محض اصطلاح و محاورۂ اُردو کے باعث سے سمجھے جاتے ہیں یوں کہنا کہ خونِ تمنا ہو گیا یا نام قاتل ہو گیا یا دل بے تاب آگیا یعنی ترکیب فارسی کا استعمال کر کے محاورہ میں تصرف کرنا دُرست نہ ہو گا ، اس لئے کہ فارسی میں خونِ شدن سے قتل اور دل آمدن سے عشق اور نام شدن سے شہرت نہیں سمجھ میں آتی کہ یہ اُن کا محاورہ نہیں ، اسی طرح مثلاً اُردو کا محاورہ ہے ’ تمہارا طوطی بولتا ہے ، ’ سب تمہارا دم بھرتے ہیں ، برقؔ نے اس کو یوں نظم کیا ہے : ’ کیا بولتا ہے طوطی شیریں مقالِ یار ، اور مومن نے یوں باندھا ہے : ’ کون کہتا ہے دمِ عشق عدو بھرتے ہیں ، اسی طرح قباشدن لباس فارسی کا محاورہ ہے ، کپڑوں کا دھجیاں ہو جانا مراد ہے ، عشق نے اُن کو اس طرح باندھا ’ بالکل قبا لباس عروس چمن ہوا ، محاورہ میں یہ سب تصرفات نادرست ہیں اس سبب سے کہ مطلب خبط ہو جاتا ہے۔
کیا ہی اس چاند سے مکھڑے پہ بھلالگتا ہے
ہے ترے حسن دل افروز کا زیور سہرا
قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ذوقؔ مرحوم نے اس شعر کی چوٹ پر کئی شعر کہے ہیں ، مکھڑے کو اُنھوں نے بھی باندھا ہے :
وہ کہے صل علیٰ یہ کہے سبحان اللہ
دیکھے مکھڑے پہ جو تیرے مہ و اختر سہرا
سہرے کا بھلا لگنا انھوں نے اس طرح کہا ہے :
سر پہ طرہ ہے مزین تو گلے میں بدھی
کنگنا ہاتھ میں زیبا ہے تو منہ پر سہرا
پھر اس پر بھی ترقی کی :
ایک کو ایک پہ تزئین ہے دم آرائش
سر پہ دستار ہے دستار کے اُوپر سہرا
اس میں شک نہیں کہ غالب نے بے مثل شعر کہا تھا مگر ذوقؔ نے جواب دیا اور خوب جواب دیا شعر کا جواب تو ہو گیا لیکن زیور کا قافیہ غالبؔ ہی کے حصہ میں آگیا ، ذوقؔ نے استادی کی کہ اس قافیہ پر ہاتھ نہیں ڈالا ، ذوقؔ نے کنگنا اس طرح باندھا ہے کہ فاعلن کے وزن پر ہو گیا اور محاورہ یوں ہے کہ نون و گاف مخلوط ہوکر ایک حرف ہو جاتا ہے اور فعلن کے وزن پر بولتے ہیں ، اسی طرح اُردو میں اکثر الفاظ ہیں جن کے نظم کرنے میں شاعر کو تشویش پیدا ہوتی ہے ، کنگنے سے بڑھ کر رنگنے میں بکھیڑا ہے کہ یہ ایک ہندی مصدر فارسی لفظ سے بنالیا ہے فیصلہ یہ ہے کہ رنگنے میں اور اس کے مشتقات میں جہاں جہاں گاف ساکن ہو وہاں دونوں طرح بولنا اور نظم کرنا دُرست ہے ، ناسخؔ مرحوم کہتے ہیں :
میرے تن زار سے ہو زنار
رنگ لے جو وہ طفل برہمن زرد
اور جہاں گاف متحرک ہو جائے وہاں ایک ہی صورت بس دُرست ہے ، آتشؔ مرحوم کے اس مصرع میں ’ رنگریزن کے فکر نے رنگے ہزار رنگ ، رنگے کا لفظ بسبب اظہار نون کے خلاف محاورہ سمجھاجاتا ہے ، یہاں نون کا مخلوط رکھنا واجب ہے اور دوسرا اعتراض ناسخؔ والوں کا اس طرح پر یہ بھی ہے کہ رنگریز فارسی لفظ ہے ، اس میں نون کو محاورۂ عوام کی بناء پر مخلوط کر دینا خلاف ہے اسی طرح آتشؔ کے اس مصرع پر بھی ’ تو مجھ سے مست ہاتھی کی طرح جنگلی ، ہرن بگڑا یہ مشہور ایراد ہے کہ جنگلی فارسی لفظ ہے اس میں بھی نون و گاف کامخلوط کر دینا دُرست نہیں لفظ ’ رنگریز ، میں محاورہ یہی ہے کہ نون و گاف دونوں مخلوط رہیں اور خلط نہ کرنا خلاف ہے جیساکہ کسی کا یہ مصرع مشہور ہے ’ ملک انگریز میں رہنے سے تنگ ہے ، اس میں انگریز رست خیز کے وزن پر ہے اور محاورہ کے بموجب اس کا استعمال زرخیز کے وزن پر چاہئے ، اسی طرح بنگلہ اور انگیا میں بھی خلط ضرور ہے اور نون کا ظاہر کرنا خلاف محاورہ ہے اس سبب سے کہ یہ ہندی الفاظ ہیں لیکن بہت سے اور ہندی لفظ ہیں۔ اُمنگ ، النگ ، پتنگ ، ڈھنگ وغیرہ کہ اس میں نون و گاف دونوں لہجہ میں ہیں ، ان الفاظ کو اس طرح نظم کریں کہ نون و گاف ایک ہو جائے تو غلط ہو گا ، غرض ہندی لفظوں میں محاورہ و لہجہ پر مدار ہے اور کنگنا محاورہ میں فعلن کے وزن پر ہے نہ فاعلن کے وزن پر ، میر وزیر علی صبا ؔنے صیدیہ مثنوی میں یہ مصرع کہا تھا : ’ پھر آیا بہادر جنگ اس کو خطاب ، اس پر ناموزوں ہونے کا اعتراض اُن کے معاصرین نے کیا تھا کہ موزوں کر کے پڑھوں تو نون کا کچھ پتہ نہیں رہتا اور صباؔ سے کچھ جواب نہیں بن پڑا ، مگر انصاف کرنا چاہئے کہ بہادر جنگ نام ہے اور اس کا ذکر شعر میں اہم اور ضروری ہے اور جس وزن میں مثنوی ہے اُس وزن میں بہادر جنگ کا لفظ بے نون کے گرائے ہوئے کسی طرح سے آہی نہیں سکتا ، یہ وزن ہی اُس کا متحمل نہیں ہے تو ایسے وقت میں شاعر کیا کرے گا سوا اس کے کہ تصرف کرے جس طرح فردوسی نے شاہنامہ میں سپید دیو کے بدلے سپیدیو کہا ہے اور ایک دال کو گرادیا ہے ، یہ سچ ہے کہ ضرورتِ شعر کے لئے جو جو تصرف عرب کرجاتے ہیں فارسی و اُردو والوں نے وہ سب تصرفات غیرمقبول و ناجائز قرار دیئے ہیں لیکن یہاں تو ضرورتِ شعر سے بڑھی ہوئی ایک وجہ موجود ہے معترضین سے ہم کہتے ہیں کہ بہادر جنگ کو وہی موزوں کر کے دکھادیں سوا اس کے کوئی جواب پاس نہیں ہے کہ : ’ ملادو بہادر سے تم لفظِ جنگ ، بھلا اس طرح نام کو توڑ پھوڑ ڈالنا اور علم کی ترکیب میں تصرف کرنا کیوں کر جائز ہو سکتا ہے پھر اس سے ہزار درجہ وہی اچھا ہے کہ ایک ذرا سے نون کو گرادیں جیسا صبا ؔنے کیا ہے اسی طرح علم سے ’ع، ، ’ہ، ، ’ح، کا گرانا بھی بہتر ہو گا بہ نسبت تصرف کرنے کے جیسے آقا طوبائے شوستری نے یہ مصرع کہا ہے : ’ در زماں حضرت محبوب علی شاہ دکن ،۔
سر پہ چڑھنا تجھے پھبتا ہے پر ائے طرف کلاہ
مجھ کو ڈر ہے کہ نہ چھینے ترا لمبر سہرا
لمبر ہی کہنا ٹھیک ہے اور نمبر غلط ، لیکن یہ لفظ بہت ہی مکروہ ہے شاعر کی زبان پر نہ ہونا چاہئے ، ابن رشیق لکھتے ہیں : شعرا کی زبان مخصوص اور الفاظ مانوس ہوا کرتے ہیں ، اس احاطہ سے باہر قدم نہیں رکھتے ، ذوقؔ کے بھی سہرے کا ایک شعر کا اس احاطہ سے باہر ہو گیا ہے :
تانبے اور بنی میں رہے اخلاص بہم
گوندھئے سورۂ اخلاص کو پڑھ کر سہرا
دُلہا دُلہن کوبنا ، بنی کہنا اچھا نہیں معلوم ہوتا گو مرثیہ گو ابھی تک ان لفظو ں کو نظم کئے جاتے ہیں لیکن بعض محل پر انھیں ماننا پڑے گا کہ بے لطف ہیں مثلاً یہ مصرع ’ بہنیں کہاں ہیں ڈالنے آنچل بنے پہ آئیں ، فضہ کی زبانی ہو تو اچھا ہے اور خود شاعر کی زبانی بے لطف ہے اس میں شک نہیں کہ میر انیس ؔکی زبان موجِ کوثر ہے مگر چند لفظ قدیم عادت کے بموجب وہ بھی باندھ گئے ہیں جو اب ترک ہوتے جاتے ہیں ، بہونا ، بہن ، جایا ، فرزند ، بالی ، کم سن ، جاگھ ، جگہ ، جون ، جیسے ، موا ، مرگیا ، بنا ، بنی۔ ناسخؔ کہتے ہیں : ’ ہو گئے پتھروں سے صحرا کے بھی داماں خالی ، آتش کہتے ہیں :
ابروئے یار کاہے سر میں جنھوں کے سودا
رقص وہ لوگ کیا کرتے ہیں تلواروں پر
ناؤ بھر کر ہی پروئے گئے ہوں گے موتی
ورنہ کیوں لائے ہیں کشتی میں لگا کر سہرا
ذوقؔ کہتے ہیں :
آج وہ دن ہے کہ لائے درانجم سے فلک
کشتی زر میں مہ نو کی لگا کر سہرا
سات دریا کے فراہم کئے ہوں گے موتی
تب بنا ہو گا اس انداز کا گزبھر سہرا
موتیوں کا سہرا گوندھتے ہیں بناتے نہیں ، مصرع یوں بھی ہو سکتا ہے : ’ مصرع تب گندھا ہو گا اس انداز کا گز بھر سہرا ، مگر بنا ضلع کا لفظ ہے مبارک بادی دینے میں بولنا بے محل بھی نہیں ذوقؔ نے یوں کہا ہے :
اک گہر بھی نہیں صدن کا گہر میں چھوڑا
تیرا بنوایا ہے لے لے کے جو گوہر سہرا
رُخ پہ دُلہا کے جو گرمی سے پسینہ ٹپکا
ہے رگ ابر گہر بار سراسر سہرا
’ پہ ، سہوِ کاتب ہے ’دے ، یہاں چاہئے ،بے مزہ تشبیہ ہے پسینہ سے ابر گہر بار ہو جانا ، سہرے کا پسینہ کی افراط پر دلالت کرنا ہے جس میں اغراق و مبالغہ نامقبول ہے ، گرمی سے اس شعر میں گرمی حسن مراد ہے ،اگرچہ یہ شعر قابل التفات نہ تھا مگر ذوقؔ نے دو شعر اس کے جواب میں بھی کہے ہیں :
روئے فرخ پہ جو ہیں تیرے برستے انوار
تار بارش سے بنا ایک سراسر سہرا
دوسرا شعر گرمی حسن کے بیان میں کہا :
تابش حسن سے مانند شعاعِ خورشید
رُخِ پرنور پہ ہے تیرے منور سہرا
یہ بھی ایک بے ادبی تھی کہ قبا سے بڑھ جائے
رہ گیا آن کے دامن کے برابر سہرا
اس شعر کا جواب ذوقؔ کی غزل میں نہیں نکلتا ہاں وہی شعر جو گذرا :
ایک کو ایک پہ تزئیں ہے دم آرائش
سر پر دستار ہے دستار کے اُوپر سہرا
یہاں بھی پیش کر سکتے ہیں کہ اس کے مثل کا کوئی شعر غالب ؔکی غزل میں نہیں دکھائی دیتا۔
جی میں اترائیں نہ موتی کہ ہمیں ہیں اک چیز
چاہئے پھولوں کا بھی اک مقرر سہرا
اس شعر کا جواب ذوقؔ نے یہ دیا ہے :
پھرتی ہے خوشبو سے اترائی ہوئی بادِ بہار
اللہ اللہ رے پھولوں کا معطر سہرا
پھولوں کا لفظ یہی کہتا تھا کہ مقرر سے معطر کا قافیہ بہتر ہے۔
جب کہ اپنے میں سماوے نہ خوشی کے مارے
گوندھے پھولوں کا بھلا پھر کوئی کیوں کر سہرا
اس شعر کو اُوپر کے شعر سے قطعہ کا سا ربط معلوم ہوتا ہے اور علاحدہ علاحدہ بھی دونوں شعر تمام ہیں ’ کیوں کر ، کا قافیہ ذوقؔ نے اس طرح باندھا ہے :
دھوم ہے گلشن آفاق میں اس سہرے کی
گائیں مرغانِ نواسنج نہ کیوں کر سہرا
یعنی انھوں نے گلچیں و گل فروش کا پھولوں نہ سمانا ذکر کیا ، انھوں نے بلبل و قمری کا خوش ہونا نظم کیا ہے ، اپنے میں سمانا فصحا کا محاورہ نہیں ہے آپ میں سمانا اس سے زیادہ فصیح ہے۔
رُخِ روشن کی دمک گوہر غلطاں کی چمک
کیوں نہ دکھلائے فروغِ مہ و اختر سہرا
اس شعر میں روشن کی جگہ تاباں ہوتا تو جس طرح چمک اور دمک میں سجع ہے تاباں و غلطاں میں بھی سجع پیدا ہوتا ، یہ شعر بھی سہرے میں گوہر شاہوار کی طرح چمک رہا ہے ، ذوقؔ کے دو شعروں سے اس کا جواب نکلتا ہے ایک تو مہ و اختر والا شعر جو گذرا دوسرا مہ و خورشید والا شعر۔
رونمائی میں تجھے دے مہ و خورشیدِ فلک
کھول دے منہ کو جو تو منھ سے اُٹھا کر سہرا
مصنف کے شعر سے اُن کے دونوں شعر کم نہیں رہے ، دوسرے شعر میں ترقی یہ کی ہے کہ فروغ مہ و اختر کیا چیز ہے جس سے تشبیہ دیجئے درہم ماہ و دینار آفتاب تو فقط رونمائی اور نچھاور ہے۔
تار ریشم کا نہیں ہے یہ رگِ ابرِ بہار
لائے گا تاب گرانباریٔ گوہر سہرا
یعنی ریشم اُتار ہوتا تو بھلا اتنے بڑے بڑے موتیوں کو سنبھال سکتا ، یہ رگِ ابر ہے جو اس آب و تاب کے دریا کو سنبھالے ہے تار کا مضمون ذوقؔ نے اس طرح کہا ہے :
کثرتِ تارِ نظر سے ہے تماشائیوں کے
دم نظارہ ترے روئے نکو پر سہرا
ہم سخن فہم ہیں غالبؔ کے طرف دار نہیں
دیکھیں اس سہرے سے کہہ دے کوئی بڑھ کر سہرا
جواب اس کا ذوقؔ نے دو شعروں میں دیا ہے :
دُرِ خوش آب مضامیں سے بنا کر لایا
واسطے تیرے ترا ذوق ثناگر سہرا
جس کو دعویٰ ہو سخن کا یہ سنادے اُس کو
دیکھ اس طرح سے کہتے ہیں سخنور سہرا
بنانا سہرے کا اُنھوں نے بھی باندھا لیکن گوندھنا افصح ہے۔
_______
نصرۃُالملک بہادر مجھے بتلاکہ مجھے
تجھ سے جو اتنی ارادت ہے تو کس بات سے ہے
مطلب یہ ہے کہ احسان و انعام کے سبب سے یہ ارادت نہیں ہو سکتی یہ روحانی محبت قلبی ارادت ہے جو بلاسبب ہوا کرتی ہے ، یہاں استفہام و استعجاب میں نہایت بلاغت ہے جس سے ایسے معانی جلیل پیدا ہوئے۔
گرچہ تو وہ ہے کہ ہنگامہ اگر گرم کرے
رونق بزم مہ و مہر تری ذات سے ہے
اور میں وہ ہوں کہ گرجی میں کبھی غور کروں
غیر کیا خود مجھے نفرت مری اوقات سے ہے
مجھے میری اوقات سے نفرت ہے محاورہ اُردو کی رُو سے محض غلط ہے ، نہ لکھنؤ کی یہ زبان ہے ، نہ دلی کی اکبر آباد کی ہوتو ہو اصل میں محاورہ یہ ہے کہ مجھے اپنی اوقات سے نفرت ہے رہ رہ کے یہی تعجب ہوتا ہے کہ غالبؔ کی زبان سے یہ لفظ کیوں کر نکلا ، جن لوگوں کی اُردو دُرست نہیں ہے اُن کو اس طرح بولتے سنا ہے میں نے میراقلم پایا ، تم نے تمہارا قلم پایا ’ اپنے ، کے استعمال میں بس وہی لوگ دھوکا کھاتے ہیں ، اہل زبان کبھی بہک کے بھی اپنے کی جگہ مرا یا تیرا نہ کہیں گے ، ضابطۂ کلیہ یہ ہے کہ جو فاعل یا مشبہ فاعل ہو اُس کی ضمیر مضاف الیہ ہوکر متعلق نہیں ہو سکتی ایسے موقعوں پر اپنے کو استعمال کرتے ہیں مثلاً ’ زید اُس کی زندگی سے بیزار ہے ، ، ’ مجھے میری زندگی سے نفرت ہے ، ان دونوں صورتوں میں یوں کہنا چاہئے کہ ’ زید اپنی زندگی سے بیزار ہے ، مجھے اپنی زندگی سے نفرت ہے ،۔
خستگی کا ہو بھلا جس کے سبب سے سر دست
نسبت اک گونہ مرے دل کو ترے ہاتھ سے ہے
یعنی تو آفتاب کی طرح رونق افزائے عالم میں ذرہ سے بھی کم یہ مجھے تیرے ساتھ کیا نسبت ، ہاں خستہ دلوں پر نوازش کرنا تیرے دستِ عطا کا شیوہ ہے ، اس سبب سے میرے دل کو تیرے ہاتھ سے گونہ نسبت پیدا ہو گئی ہے یا شاید مطلب مصنف کا یہ ہے کہ جس طرح تیرے ہاتھ سے دُشمنوں کا خون بہا کرتا ہے اور دوستوں کو لعل و یاقوت ملا کر کرتے ہیں یہی رنگ میرے دل کا بھی ہے جس کا زخم لعل و یاقوت کی طرح خون نابہ فشانی کیا کرتا ہے اور خستگی اصل میں زخمی ہونے کے معنی پر ہے ، اُردو میں جن معنی پر بولتے ہیں وہ مجاز ہے گویا اپنے زخم دل کو عزیز سمجھتے ہیں فقط اس سبب سے کہ ممدوح کے ہاتھ کی اک گونہ مشابہت اس میں پائی جاتی ہے جیسے آتش مرؔحوم کہتے ہیں :
آسماں شوق سے تلواروں کا مینھ برسا دے
ماہِ نو نے کیا ابروں کا ترے خم پیدا
مگر کوئی صاف معنیٰ مصنف کی عبارت سے ہرگز نہیں نکلتے ، مسٹر کمیبل نے کتاب فلسفۂ بلاغت میں ایک حکایت لکھی ہے کہ لوپز ؔاندلس کا کہئے نامی شاعر تھا ، اُس کی مثنوی کے چند شعر ایک تازہ وارد مرد عالم نے اُسے دکھائے اور کہا کہ میں نے بہت دفعہ یہ شعر پڑھے مگر کبھی میری سمجھ میں نہ آئے آخر تم نے کیا معنی رکھے ہیں لوپزؔ نے وہ اشعار اپنے ہاتھ میں لے کر کئی دفعہ پڑھے اور آخر بے معنی ہونے کا اقرار کیا اُس وقت تک اسے یہ معلوم نہ تھا کہ میں بے معنیٰ بھی کہہ جاتا ہوں ، یہ کچھ شاعر پر منحصر نہیں ہے ہر فن کے اچھے اچھے نکتہ سنج و معنی آفریں جو تکرار نظر نہیں کرتے بے معنی کہہ جاتے اور لکھ جاتے ہیں کاتب و ادیب کے لئے اسلم طریقہ وہی ہے جو زہیر بن ابی سلمیٰ نے اپنے اولیات میں اختیار کیا تھا جس کا ذکر گذر چکا۔
ہاتھ میں تیرے رہے توسن دولت کی عناں
یہ دُعا شام و سحر قاضیٔحاجات سے ہے
پہلے شعر میں ہاتھ کا لفظ ضرورتِ قافیہ سے بغیر ’ ہ ، کے لکھنا پڑا اس سبب سے یہاں بھی ’ ہ ، کو ترک کیا۔
تو سکندر ہے مرا فخر ہے ملنا تیرا
گو شرفِ خضر کی بھی مجھ کو ملاقات سے ہے
خضر سے شاہزادہ حضرت سلطان پسر بہادر شاہ مغفور مراد ہیں۔
اس پہ گذرے نہ گماں ریوو ریا کا زنہار
غالبؔ ؔخاک نشیں اہل خرابات سے ہے
یعنی اہل صلاح و تقویٰ پر اگر سالوسی دریا کاری کا گمان گذرے تو جاسے ہے۔
_______
ہے چہارشنبہ آخر ماہِ صفر چلو
رکھ دے چمن میں بھر کے مے مشک بو کی ناند
تشبیب اس قطعہ میں فقط مدح کی تمہید ہے ورنہ آخری چہارشنبہ کوئی خوشی کا دن نہیں ہے۔
جو آئے جام بھر کے پئے اور ہوکے مست
سبزہ کو روندنا پھرے پھولوں کو جائے بھاند
جو فعل کے دو دو فعلوں سے مرکب ہیں جیسے پھاند جانا ، پھر آنا ، کہہ بیٹھنا ، بول اُٹھنا ، اُتارلینا ، چڑھا دینا ، وغیرہ ان میں ترتیب اتصال کا باقی رکھنا بہتر ہے ، ’ لیتاہوں اُتار ، اور ’ دیتا ہوں چڑھا ، کہنا مکروہ ہے ، لیکن یہاں اس تنگ زمین میں قافیہ پیدا کرنے کے لئے مصنف نے گوارا کر لیا ، شاعر کے سوا اور ایسا تصرف نہیں دُرست ہے۔
غالبؔ یہ کیا بیاں ہے بجز مدحِ بادشاہ
بھاتی نہیں ہے اب مجھے کوئی نوشت و خواند
نہ بھانے کی وجہ یہ ہے کہ قافیہ تنگ ہے کل چھ قافیہ ہیں اس میں سے پانچ کہہ لئے چھٹا قافیہ ’ ہر اند ، قابل ترک ہے۔
بٹتے ہیں سونے روپے کے چھلے حضور میں
ہے جن کے آگے سیم و زر و مہر و ماہ ماند
جن کے مقام پر جس بھی کہہ سکتے ہیں اس لئے کہ چھلے غیر ذوی العقول ہیں۔
یوں سمجھئے کہ بیچ سے خالی کئے ہوئے
لاکھوں ہی آفتاب ہیں اور بے شمار چاند
سمجھئے بسکونِ میم ایک جگہ اور بھی مصنف کے کلام میں گذرا ہے ، مطلب یہ ہے کہ اگر چاندی سونے کے یہ چھلے بیچ سے خالی نہ ہوتے تو پھر چاند سورج تھے۔
_______
اے شاہِ جہانگیر جہاں بخش جہاں دار
ہے غیب سے ہر دم تجھے صد گونہ بشارت
دوسرے مصرع میں ’ ہے ، سے ’ ہو ، بہتر تھا دُعائیہ مصرع ہو جاتا اور خبر سے انشاء لذیذ تر ہے ، غالباً سہوِ کاتب ہے۔
جو عقدۂ دُشوار کہ کوشش سے نہ وا ہو
تو وا کرے اُس عقدہ کو سو بھی باشارت
سو اب محاورہ سے چھوٹتا جاتا ہے اب سو کو وہ بولتے ہیں ، میرا شعر ہے :
دیا دو گز کفن گردوں نے وہ بھی
ڈھکا درون نہ جس سے تن کسی کا
ممکن ہے کرے خضر سکندر سے ترا ذکر
گر لب کو نہ دے چشمۂ حیواں سے طہارت
یعنی نہیں ممکن ہے۔
آصف کو سلیماں کی وزارت سے شرف تھا
ہے فخر سلیماں جو کرے تیری وزارت
دوسرے مصرع میں ’ جو ، کے دو پہلو ہیں یعنی جو سلیمان تیری وزارت کرے تو اُس کے لئے فخر ہے یا جو تیری وزارت کرے وہ فخر سلیماں ہے۔
ہے نقش مریدی ترا فرمانِ الٰہی
ہے داغِ غلامی ترا توقیع امارت
یعنی تیرے ساتھ ارادت رکھتے ہیں امتثال فرمانِ الٰہی ہے اور جسے تیرا داغ غلامی میسر ہو گیا اُسے سند امارت مل گئی۔
تو آب سے گر سلب کرے طاقتِ سیلاں
تو آگ سے گر دفع کرے تابِ شرارت
ڈھونڈے نہ ملے موجۂ دریا میں روانی
باقی نہ رہے آتش سوزاں میں حرارت
اس قسم کا مبالغہ قصیدہ میں ممدوح کو بھی پسندنہیں آتا۔
ہے گرچہ مجھے نکتہ سرائی میں تو غل
ہے گرچہ مجھے سحر طرازی میں مہارت
کیوں کرنہ کروں مدح کو میں ختم دُعا پر
قاصر ہے شکایت میں تری میری عبارت
باشاہ سے کسی بات کی شکایت تھی قصد کیا تھا کہ مدح کر کے شکایت کے اشعار لکھیں مگر قصورِ عبارت یعنی تنگی قافیہ سے مجبور ہوکر دُعا پر ختم کر دیا۔
نو روز ہے آج اور وہ دن ہے کہ ہوئے ہیں
نظارگی صنعت حق اہل بصارت
تجھ کو شرفِ مہرجہاں تابِ مبارک
غالبؔ کو ترے عتبۂ عالی کی زیارت
نظارگی بمعنی تماشائی اور تجھ کو شرف آفتاب مبارک دو معنی پر ہے ایک تو یہ کہ آفتاب کا شرف و مرتبہ تجھے مبارک ہو دوسرے یہ کہ تحویل آفتابِ حمل میں جس کو شرفِ آفتاب کہتے ہیں تیرے حق میں مبارک ہو لیکن نو روز کے وقت آفتاب شروع حمل میں ہوتا ہے اور شرف کا مقام حسبِ رائے منجم اُنیسویں درجہ ہے۔
_______
افطارِ صوم کی کچھ اگر دست گاہ ہو
اُس شخص کو ضرور ہے روزہ رکھا کرے
جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو
روزہ اگر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے
’ جس پاس ، میں سے ’ کے ، کا حذف محاورہ سے اب چھوٹتا جاتا ہے ، شعر میں بے تکلف باندھ جاتے ہیں ، مونس ؔکہتے ہیں : ’ گھبرا کے عمرو پاس گیا حر وفادار ، کھانے کا لفظ جس طرح دو معنی کے لئے اس قطعہ میں ہے اسی طرح ناچار کا لفظ بھی مفلس و بے نوا کے معنی پر بھی یہاں ہے اور مجبور ہوکر روزہ توڑنے کے معنی بھی مقصود ہیں۔
_______
اے شہنشاہِ آسماں اورنگ
اے جہاں دار آفتاب آثار
لفظ آفتاب آثار میں صنعت استہلال ہے آگے جاڑے کی تکلیف اور سردی کھانے کا شکوہ ہے
تھا میں اک بے نوائے گوشہ نشیں
تھا میں اک دردمند سینہ فگار
تم نے مجھ کو جو آبرو بخشی
ہوئی میری وہ گرمئے بازار
کہ ہوا مجھ سا ذرۂ ناچیز
روشناسِ ثوابت و سیار
روشناس کی ترکیب معنی اسم مفعول کے لئے ہے جس طرح خدا شناس اسم فاعل کے لئے یعنی ثوابت و سیار مجھے پہچاننے لگے اُن کی آنکھ مجھ پر پڑنے لگی۔
گرچہ ازروئے ننگ بے ہنری
ہوں خود اپنی نظر میں اتنا خوار
کہ گر اپنے کو میں کہوں خاکی
جانتا ہوں کہ آئے خاک کو غار
شاد ہوں لیکن اپنے جی میں ، کہ یوں
بادشاہ کا غلام کارگذار
پہلے لوگ کو کے مقام پر ’ تئیں ، زیادہ خرچ کیا کرتے تھے ، زید کے تئیں مارا میرے تئیں پکارا ، پھر تئیں سے کراہت پیدا ہو گئی ، اس سبب سے کہ زید کو مارا ، مجھ کو پکارا ابھی وہی بات ہے اور محاورہ بھی ہے مگر اپنے اپنے تئیں اور اپنے اُوپر آج تک زباں زد و عین محاورہ رہا اس سبب سے کہ اپنے کو اور اپنے پر صحیح ارادہ کا محاورہ نہیں ہے اہل زبان نے اسے قبول نہ کیا اور اپنے ساتھ تئیں بولے جاتے ہیں ، مگر شعراء اس قیاس پر عمل کر کے کہ تئیں اور کو ایک ہی معنی پر ہیں ’ اپنے کو ، باندھ جاتے ہیں مصنف نے بھی یہی قیاس کیا ہے ورنہ عام محاورہ اپنے تئیں ہے اور محاورہ میں قیاس کو دخل دینا بیجا ہے ، کہتے ہیں اپنے تئیں آپ خراب کیا اور یہی صحیح ہے ، اپنے کو آپ خراب کیا یا آپ کو آپ خراب کیا یا اپنے کو آپ کو خراب کیا یہ سب صورتیں خلاف محاورہ ہیں۔
خانہ زاد مرید اور مداح
تھا ہمیشہ سے یہ عریضہ نگاہ
بارے نوکر بھی ہو گیا صدِ شکر
نسبتیں ہو گئی مشخص چار
لفظ عریضہ مولدین کی گڑہت ہے عربی صحیح میں ان معنی پر نہیں آیا۔
نہ کہوں آپ سے تو کس سے کہوں
مدعائے ضروری الاظہار
ضروری الاظہاری بھی عجیب ترکیب ہے ، ایک تو مقتضائے ترکیب یہ تا کہ ’ی ، پر تشدید ہو دوسرے لفظ ضروری ان معنی پر عربی میں ہی نہیں ایسے الفاظ پر ہندی ہونے کا حکم ہے اور ترکیب عربی میں لانا منع ہے اور اہل ادب احتراز کرتے ہیں۔
پیر و مرشد اگرچہ مجھ کو نہیں
ذوقِ آرایش سرو دستار
کچھ تو جاڑے میں چاہئے آخر
تانہ دے باد زمہریر آزار
زمہریر جاڑے کے معنی پر بھی آیا ہے۔
کیوں نہ درکار ہو مجھے پوشش
جسم رکھتاہوں ہے اگرچہ نزار
یعنی گو لاغر و ناتواں ہے لیکن جسم رکھتا ہوں اور جسم میں جان ہے یہ لفظ پوشش اُردو کے محاورہ میں داخل ہے لیکن شیشہ آلات و ظروف و صندوق و میز وغیرہ کے خلاف کو پوشش کہتے ہیں انسان کے لباس کو پوشش اُردو کے محاورہ میں نہیں کہتے ، گو فارسی میں دُرست ہو یہاں پوشاک کے لفظ مصنف مرحوم نے اس لئے اعراض کیا کہ پوشاک میں امتیاز نکلتا تھا جو مقتضائے مقام کے خلاف ہے اور پوشش کا لفظ اختیار کیا جو انسان کے لئے ادنیٰ درجہ کا لباس ہے اور یہی مقتضائے مقام و عین بلاغت ہے گویا بکنا یہ اس مطلب کو ادا کیا ہے کہ جسم نزار ایک ہڈیوں کا ڈھانچہ ہے اسے پوشش درکار ہے نہ پوشاک۔
کچھ خریدا نہیں ہے اب کے سال
کچھ بنایا نہیں ہے اب کی بار
مطلب ظاہر ہے اور بار لفظ مونث ہے مثلاً کہتے ہیں ’ اس سال کپڑے بنانے کی بار نہ آئی ،۔
رات کو آگ اور دن کو دھوپ
بھاڑ میں جائیں ایسے لیل و نہار
آگ تاپے کہاں تلک انساں
دھوپ کھاوے کہاں تلک جاندار
دھوپ کی تابش آگ کی گرمی
وَقِ نَا رَبَّنَا عَذَابَ النَّار
تینوں شعروں میں آگ اور دھوپ کا لفظ ہے اور لطف سے ہے ، لیل و نہار کو مصنف نے جمع کر کے باندھا ہے مگر اکثر مفرد استعمال کرتے ہیں مثلاً اگر یہی لیل و نہار رہا تو زندگی کیوں کر ہو گی ، لب و لہجہ اچھا ہے ، شعر و سخن سیکھا ، ’ بات کا سر پیر نہ ملا ، ’ منہ ہاتھ ٹوٹ گیا ، ’لہو پانی ایک ہوا ، دونوں لفظ مؤنث ہوں تو وہ بھی اسی طرح مفرد ہی بولے جاتے ہیں ، جیسے خیر و عافیت معلوم ہوئی ، اس کی آنکھ ناک اچھی ہے ، نہایت عجیب یہ بات ہے کہ ایک لفظ مؤنث اور دوسرا مذکر اسے بھی مفرد بولتے ہیں اور اس کے فعل کی تذکیر و تانیث محاورہ پر موقوف رہتی ہے مثلاً ’ اس عورت کا کولا کمر اچھا ہے ، ، بول چال اچھی ہے ، آسمان و زمین ایک کر دیا ، زمین آسمان دوسرا ہو گیا ، اکثر ایسے بندھے ہوئے محاورہ ہیں کہ جمع بول ہی نہیں سکتے اور نحو اُردو میں غیر ذی عقل کے لئے اکثر مواقع میں جمع بولنا متروک ہے۔
میری تنخواہ جو مقرر ہے
اُس کے ملنے کاہے عجب ہنجار
رسم ہے مردہ کی چھ ماہی ایک
خلق کاہے اسی چلن پہ مدار
مجھ کو دیکھو کہ ہوں بقیدِ حیات
اور چھ ماہی ہو سال میں دو بار
اس قطعہ کے باوجود بلاغت بہت لطیف ہیں ، چھ مہینہ تنخواہ ملنے کو چھ ماہی کہا اس سے بالتزام یہ مطلب نکل آیا کہ ماہ بماہ تنخواہ نہ ملنا موت ہے اور پھر حیات کو قید کے سات تعبیر کیا جس سے یہ بات پیدا ہوئی کہ اگر یہ قید نہ ہوتی تو سچ مچ مرگیا ہوتا۔
بسکہ لیتا ہوں ہر مہینہ قرض
اور رہتی ہے سود کی تکرار
میری تنخواہ میں تہائی کا
ہو گیا ہے شریک ساہوکار
سود کی تکرار سے سود در سود ہونا مقصود ہے اُردو میں لفظ تکرار بحث کے معنی پر بھی بولتے ہیں وہ معنی یہاں نہیں مراد ہیں ورنہ تنخواہ کی تنہائی سود میں یہ نہیں لگ سکتی۔
آج مجھ سا نہیں زمانہ میں
شاعر لغز گوئے خوش گفتار
رزم کی داستان گر سنئے
ہے زباں میری تیغ جوہر دار
بزم کا التزام گرکیجئے
ہے قلم میری ابر گوہر بار
ظلم ہے گر نہ دو سخن کی داد
قہر ہے گر کرو نہ مجھ کو پیار
مصنف مرحوم کی زبان پر قلم بتانیث تھا اور ان کے تلامذہ ابھی تک اس وضع کو نباہے جاتے ہیں مگر اصل یہ ہے کہ لکھنؤ و دہلی میں تذکیر سب بولتے ہیں ، فخر شعرائے دہلی نواب مرزا خاں داغؔ کا کلام دیکھ لو تعجب یہ ہے کہ ایک جگہ خود مصنف بھی قلم کو بتذکیر باندھ چکے ہیں : ’ فقط خراب لکھا بس نہ چل سکا قلم آگے ،۔
آپ کا بندہ اور پھروں ننگا
آپ کا نوکر اور کھاؤں اُدھار
اُدھار کا لفظ اہل اعتبار کی زبان پر نہیں ہے نوکر چا کر بولا کرتے ہیں اسی لئے مصنف نے لفظ نوکر مصرع میں باندھا ، غیر لفظ کے استعمال کا یہ بہت دقیق طریقہ ہے ہاں کسی پر اُدھار کھانا البتہ محاورہ ہے :
نقد دل لے کے جان کو چھوڑا
خوب کھایا اُدھار کیا کہنا
میری تنخواہ کیجئے ماہ بہ ماہ
تا نہ ہو مجھ کو زندگی دُشوار
جو لوگ فارسی پڑھے ہوئے نہیں ہیں وہ اُردو میں ’ نا ، نہ بولیں گے بلکہ یوں کہیں گے ’ کہ نہ ہو مجھ کو زندگی دُشوار ، ہر زبان میں یہ بات ہے کہ جس طرح ادنیٰ درجہ کے لوگوں کی زبان اچھی نہیں ہوتی اسی طرح لکھے پڑھے ہوئے لوگ بھی بعض الفاظ کا خلط کرتے ہیں ، بعض محاورات کی تصحیح کرتے ہیں اور زبان کو خراب کر ڈالتے ہیں بعض اشخاص محاورہ میں نحوی یا لغوی قیاس کو دخل دے کر خرابی کرتے ہیں ، یادش بخیر میر ضامن علی صاحب جلالؔ کلکتہ میں میرے اس مصرع پر اعتراض کرتے تھے ’ ایڑیاں رگڑیں تو صیقل ہو گئی زنجیر میں ، کہتے تھے صیقل بتذکیر باندھنا چاہئے میں نے کہا میری زبان پر تو یہ لفظ بتانیث ہے اور ہیکل و کیفر و بیرق وغیرہ بھی مؤنث ہی ہیں ، کہنے لگے نہیں اب تمام اساتذۂ فن نے یہی قرار دیا ہے اور اس کا فیصلہ ہو چکاہے کہ صیقل لفظ مذکر ہے ، اسی زمانہ میں میر وحید مرحوم مٹیا برج میں آئے ہوئے تھے ان کے سننے کے لئے مجلس میں ، میں بھی گیا وہاں مرزا یاور مرحوم میرے قریب بیٹھے ہوئے تھے ، میں نے اُن سے لفظ صیقل کو پوچھا کہنے لگے مؤنث ہے میں نے کہا کوئی سند اس کی یاد ہو تو مجھے بتائیے ، اس باب میں میر ضامن علی صاحب جلالؔ کچھ اور ہی کہتے ہیں وہ سوچ کر کہنے لگے کسی اور کا تو شعر نہیں یاد آیا لیکن مجھے اپنا ایک شعر یاد آیا ہے جس میں صیقل کو میں نے بتانیث باندھا ہے اتنے میں مرثیہ شروع ہو گیا وحیدؔ نے تمہید میں چند بند مضمون مفاخرت کے پڑھے ، اس میں یہ مصرع بھی تھا ’ شمشیر فصاحت پہ ہے یہ پانچویں صیقل ، اور علماء کی زبان تو سب سے زیادہ بگڑی ہوئی ہوتی ہے کہ وہ علوم و فنون کے اصطلاحات اپنے محاورات میں داخل کرتے ہیں اپنی زبان کی نحو و ترتیب ، کلمات کو بھول جاتے ہیں لفظی ترجمہ کرتے کرتے غیرزبان کی نحو اپنی زبان میں جاری کرنے لگتے ہیں۔
اہل ادب کا اتفاق ہے اس بات پر کہ جس تقریر و تحریر میں اصطلاحات کا زیادہ خرچ ہو اس سے بڑھ کر کوئی مکروہ زبان نہیں ہو سکتی اور اہل فن کا یہ حال ہے کہ اس قدر اصطلاحات وضع کئے ہیں کہ ان کی ایک نئی زبان ہو گئی ہے ، اصطلاحات یاد کرنے میں ادب سے محروم رہ جاتے ہیں ، ’ کیجئے ، فعلن کے وزن پر جو ہے اس کے بہ نسبت ’ کیجئے ، جو فاعلن کے وزن پر ہے ، فصیح ہے بلکہ اکثر لوگ ’ کیجئے ، کو جو فاعلن کے وزن پر ہے نظم میں سے ترک کرچکے ہیں۔
ختم کرتا ہوں اب دُعا پہ کلام
شاعری سے مجھے نہیں سروکار
تم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار
دُعا دینے سے پہلے یہ کہنا کہ میں اب دُعا دیتا ہوں اکثر شعراء کی عادت ہو گئی ہے مگر مضمون بے مزہ ہے یا مدح غائب کرتے کرتے جب مدح حاضر کی طرف التفات کرتے ہیں تو پہلے یہ خبر دیتے ہیں کہ اب مدح حاضر ہم شروع کرتے ہیں یہ بھی بے لطفی سے خالی نہیں اس سبب سے کہ سلسلۂ کلام منقطع ہو جاتا ہے اور غائب سے حاضر کی طرف التفات یا مدح سے دُعا کی طرف رُجوع ایسا امر نہیں ہے کہ جب تک اس پر متنبہ نہ کریں سمجھ میں نہ آ سکے ، پھر کیا وجہ کہ سب نے اس طریقہ کو اختیار کر لیا ایک آدھ قصیدہ میں اگر کسی لطیف و بدیع پیرایہ میں یہ مضمون ہوتو مضائقہ نہیں لیکن ہر شاعر اپنے ہر قصیدہ میں اسی طرح کا التزام رکھے یہ جدت پسند طباع کو اچھا نہیں معلوم ہوتا۔
_______
سیہ گلیم ہوں لازم ہے میرا نام نہ لے
جہاں میں جو کوئی فتح و ظفر کا طالب ہے
ہوا نہ غلبہ میسر کبھی کسی پہ مجھے
کہ جو شریک ہو میرا شریکِ غالبؔ ہے
یعنی جو شریک غالب ’ بکسرہ اضافی ، ہوتا ہے وہ شریکِ غالب ’ بکسرہ توصیفی ، ہو جاتا ہے ، فتح و ظفر سے غلبہ مراد ہے اور غلبہ بہ تحریک لام ہے جس طرح کلمہ درجہ مصنف نے اسے بسکون باندھا ہے کوئی شاہد اس کا خیال میں نہیں آتا مگر باعتبار محاورہ اُردو تصرف مصنف یہ شعر خود سند ہے اس بات کی کہ غلبہ کو بسکونِ لام باندھنا چاہئے اور سیہ گلیم بمعنی سیہ بخت ہے۔
_______
سہل تھا مسہل ولے یہ سخت مشکل آپڑی
مجھ پہ کیا گذرے گی اتنے روز حاضر بن ہوئے
تین دن مسہل سے پہلے تین دل مسہل کے بعد
تین مسہل تین تبریدیں یہ سب کے دن ہوئے
تبریدوں سے وہ دوا مراد ہے جو دو مسہلوں کے درمیان میں پائی جاتی ہے ، مسہل سے دو تین دن پہلے منضج پینے کے دن ہیں اور تین مسہلوں کے درمیان میں اور تین دن تک بعد تبرید پیتے ہیں غرض بارہ دن کی رخصت مانگی ہے۔
_______
خجستہ انجمن طوئے مرزا جعفر
کہ جس کے دیکھے سے سب کا ہوا ہے جی محفوظ
ہوئی ہے ایسی ہی فرخندہ سال میں غالبؔ
نہ کیوں ہو مادۂ سال عیسوی محفوظ
طوئے کے معنی بیاہ محفوظ ۱۴۵۴ کو کہ تاریخ کہنا میری رائے میں شاعر کا کام نہیں ہے مگر اتنا کہنا ضرور ہے کہ اچھا لفظ مصنف نے نہیں نکالا ، مثلاً لفظ طوبیٰ یا اس کے مرادفات میں عدد نکل آتے تو لطف تھا۔
_______
ہوئی جب میرزا جعفر کی شادی
ہوا بزم طربِ میں رقص ناہید
کہا غالبؔ سے تاریخ اس کی کیا ہے
تو بولا انشراحِ جشن جمشید
لفظ محفوظ میں عیسوی تاریخ نکالی اور انشراح جشن جمشید میں ہجری جس کے عدد بارہ سو ستر ہوتے ہیں۔
_______
گو ایک بادشاہ کے سب خانہ زاد ہیں
دربار دار لوگ بہم آشنا نہیں
کانوں پہ ہاتھ دھرتے ہیں کرتے ہوئے سلام
اس سے ہے یہ مراد کہ ہم آشنا نہیں
جب کسی امر سے اپنے ناواقف ہونے کا اظہار کرتے ہیں تو کان پر ہاتھ رکھتے ہیں اور بادشاہوں کے سامنے غیرشخص کو سلام کرنا ہوتو ماتھے پر ہاتھ نہیں رکھتے بلکہ رخساروں اور کان کی طرف ہاتھ لے جاتے ہیں انھیں دونوں باتوں سے یہ مضمون لطیف مصنف نے پیدا کیا اور جدت کی۔
_______
رُباعیات
بعداز تمام بزم عید اطفال
ایام جوانی رہے ساغر کش حال
آپہنچے ہیں تا سواد اقلیم عدم
اے عمر گذشتہ ایک قدم استقبال
عمر گذشتہ کے پلٹ آنے کی آرزو میں یہ رُباعی کہی ہے یعنی اے عمر گذشتہ جہاں تو ہے اسی اقلیم کے سواد تک ہم بھی آپہنچے بھلا ایک قدم ہمیں لینے کو تو چلی آؤ ، دو ہی چار دن کے لئے شباب کے پلٹ آنے کی حسرت کرتے ہیں۔
_______
شبِ زُلف و رُخِ عرقِ فشاں کا غم تھا
کیا شرح کروں کہ طرفہ تر عالم تھا
رویا میں ہزار آنکھ سے صبح تلک
ہر قطرۂ اشک دیدۂ پرنم تھا
یعنی زُلف و رُخ کے تصور میں جو رویا تو زلف کی سیاہی اور رُخ کی سفیدی سے ہر قطرۂ اشک میں آنکھ کی سی سفیدی و سیاہی پیدا ہو گئی تو گویا ہزار آنکھ سے میں رویا کیا۔
_______
آتشبازی ہے جیسے شغل اطفال
ہے سوزِ جگر کا بھی اسی طور کا حال
تھا موجد عشق بھی قیامت کوئی
لڑکوں کے لئے گیا ہے کیا کھیل نکال
لڑکوں سے معشوق مراد ہیں جو عاشقوں کے جگر کو جلا کر آتشبازی کا تماشا دیکھتے ہیں :
یہ آہِ شرر بار مری اُن کو تماشا
خوش ہیں جو نکلتے ہیں شرارے مرے دل سے
_______
دل تھا کہ جو جان درد تمہید سہی
بے تابی رشک و حسرتِ دید سہی
ہم اور افسروں ائے تجلی افسوس
تکرار روا نہیں تو تجدید سہی
یعنی پہلے ہم دل رکھتے تھے جو زندگانی پر درد کو جھیل گئے بے تابیٔرشک کی برداشت کی اور حسرتِ دید سہی افسوس اب ہم ہیں اور افسردگی و بے دلی ائے تجلی طور اگر تکرار تیری محال ہے تو تجدید ہی سہی کہ میرے دل افسردہ کو پھر اسی سوزو گداز کی ہوس ہے اور تکرار ہر شے کی محال ہے کہ معدوم کا اعادہ نہیں ہو سکتا لیکن ازسر نو پیدا ہونا اس سوز و گداز کا ممکن ہے ، جان درد تمہید بہت کڈھب ترکیب ہے یعنی وہ جان جو درد کی تمہید ہے یا جس کا آغاز درد سے ہے۔
_______
ہے خلق حسد قماش لڑنے کے لئے
وحشت کدۂ تلاش لڑنے کے لئے
یعنی ہر بار کاغذ باد کی طرح
ملتے ہیں یہ بدمعاش لڑنے کے لئے
حسد قماش و حسد شعار وہ جس نے حسد کا جامہ پہن لیا ہے اور تلاش سے تلاش معاش مراد ہے لفظ بدمعاش سے یہی اشارہ کیا ہے یعنی دُنیا میں دو شخصوں کا ملنا ایسا ہ جیسے کنکوؤں کا ملنا کہ ملنے سے مقصود لڑنا ہے۔
_______
دل سخت نثر مذ ہو گیا ہے گویا
اس سے گلہ مند ہو گیا ہے گویا
پر یار کے آگے بول سکتے ہی نہیں
غالبؔ منھ بند ہو گیا ہے گویا
نثر مذ بمعنی غمگین اور چوتھے مصرع میں لفظ گویا میں ابہام کیا ہے مگر اس ابہام کی اُردو فارسی میں بہت لینے لئے گئے ہیں اور نہایت مبتذل ہو چکاہے۔
دُکھ جی کے پسند ہو گیا ہے غالبؔ
دل رُک رُک کر بند ہو گیا ہے غالبؔ
واللہ کہ شب کو نیند آتی ہی نہیں
سونا سوگند ہو گیا ہے غالبؔ
اس رُباعی کے دوسرے مصرع میں دو حرف وزن رُباعی سے زائد ہو گئے ہیں اور ناموزوں ہے مختلف چھاپہ کے سب نسخوں میں بھی اور جس نسخہ کی کاپیاں خود مصنف مرحوم کی صحیح ہوئی ہیں اُس میں بھی یہ مصرع اسی طرح ہے ، اوزانِ رُباعی میں سے جس وزن میں سبب خفیف سب سے زیادہ ہیں وہ یہ مصرع مشہور ہے : ’ یامی گویم نام تو یامی گویم، اس وزن پر اگر اس مصرع کو کھینچیں تو یوں ہونا چاہئے : ’ دل رُک رُک کر بند ہوا ہے غالبؔ ، اور اس صورت میں زمین بدل جاتی ہے ، غالباً اسی فارسی مصرع نے مصنف کو دھوکا دیا ، اب خیال کرو غالبؔ سا موزوں طبع شخص اور ناموزوں کہہ جائے بڑی دلیل ہے اس بات کی کہ جو عروض کہ فارسی و اُردو کہنے والوں نے عربی کو ماخذ علوم سمجھ کر اختیار کیا ہے یہ عروض عربی ہی زبان کے واسطے خاص ہے ، اُردو کہنے والوں کو پنگل کے اوزان میں کہنا چاہئے جو زبان ہندی کے اوزان طبعی ہیں ، جانتا ہوں میرے اس مشورہ پر شعرائے ریختہ گو ہنسیں گے اور نفرت کریں گے مگر اس بات کا انکار نہیں کر سکتے کہ وہ ہندی زبان عربی کے اوزان میں ٹھونس کر شعر کہا کرتے ہیں اور ہندی کے جو اوزان طبعی ہیں اُسے چھوڑ دیتے ہیں ، یہ ویسا ہی ہے جیسا کوئی انگریزی قصیدہ بحرطویل میں کہے کہ کوئی انگریز اُسے موزوں نہ کہے گا اسی طرح انگریزی عیسائیوں نے انگریزی اوزان اور اُردو زبان میں نماز کی کتابیں اور مناقبِ مسیح نظم کئے ہیں ہم لوگ اُسے دیکھ کر ہرگز موزوں نہ کہیں گے ، ناموزوں کلام پر بے اختیار ہنسی آجاتی ہے اس سبب سے جو کوئی ان مناقب کو دیکھتا ہے ضرور ہنستا ہے ، اس کے برخلاف پنگل کے سب اوزان ہم کو بھی موزوں معلوم ہوتے ہیں وجہ اس کی یہی ہے کہ وہ سب اوزان ہمارے اوزانِ طبعی ہیں اور جن اوزان کو ہم نے اختیار کر لیا ہے ان وزنوں میں بہ تکلف ہم شعر کہتے ہیں اور ہماری شاعری میں اس سے بڑی خرابی پیدا ہو گئی ہے جس کی ہمیں خبر نہیں ، میں نے انگریزی کا ایک فقرہ دیکھا جو ہزج میں موزوں معلوم ہوا Let us stand still on Yonder Bank لیکن جو لوگ اہل زبان ہیں اُن کو بتایا تو انھوں نے کہا اس طرح موزوں نہیں ہے بعض لوگوں نے عربی کو فارسی والوں کے اوزان میں نظم کیا ہے مثلاً یاصاحب الجمال ویا سید البشر لیکن جو لوگ عربی اشعار سے مزہ اُٹھانے والے ہیں اُن سے پوچھو اُن کے نزدیک یہ مصرع ناموزوں ہے یا یہ سمجھو کہ وزن سے جو مزہ پیدا ہو جاتا ہے وہ اس میں نہیں پیدا ہوا وجہ یہ کہ اوزان مطبوع میں شعر ہوتو اہل زبان اس شعر کو شعر سمجھیں اور اوزانِ مصنوع کی کوئی انتہا ہی نہیں ، یہی حال پنگل والوں کی نظر میں اُردو شاعری و اُردو اشعار کاہے کہ وزن سے جو مزہ آنا چاہئے وہ مزہ اُن کو ہمارے شعر سے نہیں ملتا اور مختلف زبانوں کے مختلف اوزان ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہر زبان کا خاص لہجہ ہوتا ہے اس کے اسماء و افعال کے خاص اوزان ہوتے ہیں ، وزنِ شعر بھی لامحالہ جدا ہو گا مثلاً انگریزی میں عروض کا دار و مدار لہجہ کے شدت و رخا پر ہے اعدادِ حروف و مطابقت حرکات و سکنات کو کچھ دخل نہیں ، اس کے برخلاف عربی کا عروض ہے کہ اس میں محض مطابقت حرکات و سکنات و شمار حروف پر عروض کی بنا ہے شدت اور ورخائے لہجہ سے وزن میں کچھ خلل نہیں پیدا ہوتا ہندی میں اکثر الفاظ کے آخر میں حروف علت ہوا کرتے ہیں انھیں حرفوں کے مدد قصر و حذف و وقف پر پنگل کی بنا ہے قواعد پنگل میں زبان کے لئے البتہ ایک دُشواری ہے کہ اُن لوگوں کے لہجہ میں بعض حروف مثل لام و را وغیرہ کے ایسے خفیف اور مخلوط سے ہیں کہ اُن حرفوں کا شمار حروف صحیح میں نہیں بلکہ ایک قسم کا اعراب سمجھتے ہیں برخلاف اُردو کے لہجہ کے لام یا رے کو مثلاً تقطیع شعر میں شمار نہ کریں تو وزن ہی باقی نہیں رہتا اتنا اثر عربی و فارسی کا اُردو کے لہجہ میں رہ گیا ہے میرے مزعوم پر ایک دلیل یہ ہے کہ تفحص و استقرار کے بعد الفاظ اُردو کے اجزاء چار طرح کے پائے جاتے ہیں اور خود الفاظ پندرہ قسم کے۔
۱ )
پہلا حرف متحرک اور دوسرا ساکن جیسے چل سن لے عروض کی اصطلاح میں اسے سببِ خفیف کہتے ہیں۔
۲ )
پہلا حرف متحرک اور اس کے بعد دو ساکن جیسے بات ، زور ، شور ، ایک ، نیک وغیرہ اس کو اصطلاح میں سببِ متوسط کہتے ہیں۔
۳ )
پہلے دو حرف متحرک اس کے بعد ایک حرف ساکن جیسے کہا ، سنا ، لیا وغیرہ عروضی اسے وتد مجموع کہتے ہیں۔
۴ )
پہلے دو حرف متحرک اس کے بعد وہ حرف ساکن جیسے نشان ، مکان ، امیر ، وزیر، حصول ، وصول وغیرہ شعراء اسے و مدکثرت کہتے ہیں اُردو میں جتنے کلمات جس
جس زبان کے پائے ہیں اور محاورہ میں داخل ہیں یا تو وہ انھیں چار چیزوں میں سے کسی جزو کے وزن پر ہیں جیسے تم یاد کرو مثال اور یا انھیں چاروں جزوں سے مرکب ہوئے ہیں مثلاً :
۵ )
کسی کلمہ میں دو سبب خفیف ہیں جیسے ماتھا۔
۶ )
کسی میں تین سبب خفیف ہیں جیسے پیشانی۔
۷ )
کسی میں پہلا جزو سبب خفیف ہے اور دوسرا متوسط جیسے رخسار۔
۸ )
کسی میں عکس اُس کا جیسے کالبد۔
۹ )
کسی میں دونوں سبب متوسط ہیں جیسے خاکسار۔
۱۰ )
کسی میں پہلا جزو وتد مجموع اور دوسرا سبب خفیف ہے جیسے مسرت۔
۱۱ )
کسی میں عکس اُس کا جیسے تہنیت۔
۱۲ )
کسی میں پہلا وتد مجموع اور دوسرا سبب متوسط جیسے خریدار۔
۱۳ )
کسی میں دونوں جزو وتد مجموع ہیں جیسے موافقت۔
۱۴ )
کسی میں پہلا جزو وتد کثرت ہے اور دوسرا سبب خفیف جیسے نیاریا۔
۱۵ )
کسی میں عکس اس کاہے جیسے اعتبار۔
بس کلمات اُردو کے یہی پندرہ وزن ہیں ، تم کہو گے غلبہ اور درجہ بھی تو ایک وزن ہے اور حیوان و جولان بھی تو وزن ہے نہیں ایسے الفاظ میں دوسرے متحرک کو ساکن کر کے بولتے ہیں یعنی وزن اُن کا نامانوس و ثقیل سمجھ کر مہند کر ڈالتے ہیں اور جب دوسرا حرف ساکن ہو گیا تو غلبہ و درجہ پانچویں قسم کے وزن میں اور حیوان و جولان ساتویں قسم کے وزن میں داخل ہو گیا اس وجہ سے کہ اُردو کی زبان توالی حرکات کی متحمل نہیں ہے اور اسی وجہ سے سبب ثقیل اور وتد مفروق اور فاصلہ اُردو کے الفاظ میں نہیں پایا جاتا ، یہ تینوں جزو الفاظ عربی کے لئے مخصوص ہیں جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ الفاظ اُردو کے اجزاء چار ہی طرح کے ہیں اور سبب ثقیل و وتد مفروق و فاصلہ کبھی اُردو میں جزو کلمہ نہیں واقع ہوتا اور یہ بھی تم سمجھ گئے کہ تمام زبان بھر میں الفاظ کے پندرہ ہی وزن ہیں جس میں کہیں توالی حرکات نہیں پائی جاتی تو اب اوزان عروض پر لحاظ کرو مثلاً ایک وزن ہے :
فَعِ لُنْ فَعِ لُنْ فَعِ لُنْ فَعِ لُنْ
کہ یہ سارا وزن محض نواصل سے مرکب ہے اور ایک وزن ہے :
مُتَفَاعِ لُنْ مُتَفَا عِ لُنْ مُتَفَاعِ لُنْ مُتَفَاعِ لُنْ
کہ اس کے ہر رکن میں تو الی حرکات موجود ہے ، اسی طرح اور ایک وزن ہے جس میں قصائد و غزلیات و واسوخت و مراثی بکثرت ہم لوگ کہا کرتے ہیں :
فَعِ لَاتُنْ فَعِ لَاتُنْ فَعِ لَاتُنْ فَعِ لَاتُنْ
اس کے بھی ہر رکن میں تو الی حرکات موجود ہے اب خیال کرو کہ ایسے ایسے اوزان میں جب ہم اُردو کے الفاظ باندھیں گے تو ان الفاظ کی کیا گت ہو گی اور کن کن تکلفات سے اس میں توالی حرکات پیدا کرنا پڑے گی ، یہی وجہ ہے کہ عمر بھر شعر کہو جب بھی ان اوزان میں فی البدیہہ کہنے کی قدرت نہیں حاصل ہوتی بخلاف عرب کے کہ ان کو یہ اوزانِ طبعی معلوم ہوتے ہیں اور اُن کا فی البدیہہ کہنا مشہور و معروف بات ہے غرض کہ غالبؔ سے شاعر متفرد نے عمر بھر مشق کر کے بھی ان اوزان پر قابو نہ پایا اور وزن غیرطبعی ہونے کے سبب سے دھوکا کھایا ، اس رُباعی کی شرح میں سے جو کچھ میں لکھ گیا ہوں وہ کتاب کے مختصات و سوانح و اوقات و مغتنمات میں سے ہے ، وہذا ممانفروت بہ اس مسئلہ کے متعلق ایک مفید حکایت یاد آ گئی سنئے اور سوچئے ڈیون پورٹ کی کتاب الخلافۃ کا ترجمہ بنگلہ زبان میں کرنا منظور تھا ، حیدرپور کے مسلمان بنگالی اُس کے ترجمہ کے مشتاق ہوئے تھے اور اہل مٹیا برج سے اس امر کی درخواست کی تھی اس پر کئی بنگالیوں سے ہم لوگوں نے اُجرت ترجمہ کے متعلق گفتگو کی ہر ایک نے یہی خواہش کی کہ ہمیں اجازت دو کہ نظم میں اس کا ترجمہ کریں کیوں کہ نثر سے نظم ہم کو سہل معلوم ہوتی ہے۔
_______
مشکل ہے زبس کلام میرا ائے دل
سن سن کے اُسے سخنورانِ کامل
آسان کہنے کی کرتے ہیں فرمائش
گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل
لفظ گویم میں ابہام ہے ، شعر کہنا بھی اس سے مراد اور اُن کی بات کا جواب دینا مقصود ہے۔
_______
بھیجی ہے جو مجھ کو شاہِ جم جاہ نے دال
ہے لطف و عنایاتِ شہنشاہ پہ دال
یہ شاہ پسند دال بے بحث و جدال
ہے دولت و دین و دانش و داد کی دال
چوتھا مصرع میرے عندیہ میں بے معنی ہے ، اکثر شعراء اس طرح کی باتیں بناتے ہیں اور معنی کی خبر نہیں رکھتے ہاں جہاں معنی بھی باقی رہ جائیں وہاں لطف پیداہوتا ہے جیسے نعمت خان عالی کہتے ہیں :
نقطئہ بے جا اگر افتد زباں گرد و زیاں
خامشی ہر وقت خوب ست و سخن برجا خوش است
یا عربی میں کسی بزرگ کا قول ہے کہ عزلت بے عین عبارت ذلت اور بے زائے زہد علت ہے
_______
ہیں شہ میں صفاتِ ذوالجلالی باہم
آثارِ جلالی و جمالی باہم
ہوں شاد نہ کیوں سافل و عالی باہم
ہے اب کے شب قدر و دوالی باہم
اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ دوالی کی بت پرستی مرتبۂ سافل ہے اور شبِ قدر کی عبادت درجۂ عالی ہے۔
_______
حق شہ کی بقا سے خلق کو شاد کرے
تاشاہ شیوع دانش و داد کرے
یہ دی جو گئی ہے رشتۂ عمر میں گانٹھ
ہے صفر کہ افزایش اعداد کرے
مصنف کی زبان پر گانٹھ کا لفظ تھا مگر اب متروک ہے۔
_______
اس رشتہ میں لاکھ تارہوں بلکہ سوا
اتنی ہی برس شمار ہوں بلکہ سوا
ہر سینکڑہ کو ایک گرہ فرض کریں
ایسی گرہیں ہزار ہوں بلکہ سوا
لکھنؤ کی زبان میں سیکڑہ اور سیکڑوں میں نون غنہ نہیں ہے اور دلی کے لوگ نون کے ساتھ بولتے ہیں۔
_______
کہتے ہیں کہ اب وہ مردم آزار نہیں
عشاق کی پرسش سے اُسے عار نہیں
جو ہاتھ کہ ظلم سے اُٹھایا ہو گا
کیوں کر مانوں کہ اس میں تلوار نہیں
تیسرے مصرع میں ابہام۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہاتھ اُٹھانا مارنے کے معنی پر بھی ہے اور قطع تعلق کرنے کو۔ ۔ ۔ ہاتھ اُٹھانا کہتے ہیں۔
ہم گرچہ بنے سلام کرنے والے
کرتے ہیں درنگ کام کرنے والے
کہتے ہیں کہیں خدا سے اللہ اللہ
وہ آپ ہیں صبح و شام کرنے والے
سلام کرنے والے امیدوار کام نکالنے والے اہل مقدمات یعنی ہم سے وہ کہتے ہیں کہ جاؤ اللہ اللہ کرو تو اللہ میاں خود ہی صبح و شام کرتے ہیں۔
_______
سامانِ خورد خواب کہاں سے لاؤں
آرام کے اسباب کہاں سے لاؤں
روزہ مرا ایمان ہے غالبؔ لیکن
خسخانہ و برف آب کہاں سے لاؤں
یعنی روزہ کے وجوب کا اذعان بقلب و اقرار بحرف مجھے ہے اگر سامان ہوتا تو عملاً بھی کرتا۔
ان سیم کے بیجوں کو کوئی کیا جانے
بھیجے ہیں جو ارمغاں شہ والا نے
گن کر دیویں گے ہم دُعائیں سو بار
فیروزہ کی تسبیح کے ہیں یہ دانے
بیسنی روٹی اور شاہ پسند دال بادشاہ نے خاصہ میں سے بھیجی تھی اگر سیم کے بیجوں کا بھی سالن آتا تو تسبیح نہ بن سکتی ، ڈالی میں کچے بیج آئے تھے اُس سے فیروزہ کی تسبیح گوہر شکر عطیہ شاہی میں سو بار گن کر دُعائیں دیں گے۔
_______
***
کتاب کی فائل کی حصولی تشکر: جناب سید محمد حسین محسن حیدر آبادی، بتوسط: جناب سردار علی، مدیر شعر و سخن، (http://sher-o-sukhan.com)7
ان پیج سے تبدیلی، تدوین، اور برقی کتاب کی تشکیل: اعجاز عبید