10:24    , ہفتہ   ,   18    مئی   ,   2024

تحقیق و تنقید شاعری

1240 0 1 01

پروفیسر سید مجاور حسین رضوی

طلسم ہوش ربا میں نسوانی معاشرہ

خدا مغفرت کرے نواب مرزا شوق کی۔ ہوسکتا ہے ان سے کچھ عورتوں کا ’’حال پوشیدہ’‘ نہ رہا ہوا اور انہیں عورت ’’آفت اور قیامت نظر آئی ہو اور اللہ معارف کرے مرزا رسوا کو! انہوں نے اتنا اچھا ناول لکھا کہ آج کے پڑھنے والے کو انیسویں صدی کے لکھنؤ میں صرف امراؤ جان، بسم اللہ جان، خورشید جان، خانم اور آبادی ہی دکھائی دیتی ہے۔ اس دور کے نسوانی معاشرے کا تشخص طوائفیت اور جسم فروشی سے ہی کیا گیا۔ لکھنؤ کی عیاشی کی کہانیاں انیسویں صدی کے لکھنؤ کی پہچان بنا دی گئیں ۔! تاریخ کا یہ کتنا بڑا المیہ اور ماہرین سماجیات کی یہ کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ ایک چھوٹے سے طبقے پر پورے معاشرہ کا قیاس کر لیا گیا۔ !

حالانکہ انیسویں صدی کا معاشرہ صرف امراؤ جان اور فریب عشق کا معاشرہ نہیں تھا۔ یہ مرثیوں کا بھی معاشرہ تھا، جس کے کرداروں کے تقدس کی خود پاکیزگی بھی قسم کھاتی ہے اور جہاں عصمت و عفت کے کبھی نہ بجھنے والے چراغ روشن ہیں !

پھر ایک اور رخ سے اس مسئلہ کو دیکھئے :

کیا تاریخ میں کبھی کوئی ایسا لمحہ آیا ہے جب معاشرہ میں جسم فروشی نہ رہی ہو؟ کسی زمانے میں بھی۔ لیکن کیا اس زمانے کی پہچان یا اس علاقے کی شناخت آوارگی یا جسم فروشی سے کی گئی؟ کیا آج کال گرلس نہیں ہیں ؟ امراؤ جان میں کسی نے کسی کو ایڈس کا تحفہ نہیں دیا اور آج نائٹ کلب ہو یا ہوٹل ہوں یا کیبرے ہو یا گلیاں ہوں شاعر کو کہنا پڑتا ہے

جسم امراض کے نکلے ہوئے تنوروں سے

تو کیا آج کے معاشرے کی یہ پہچان بنے گی۔؟

آج اسکرین پر نظر آنے والی اداکارہ آرٹسٹ ہے، فن کار ہے، آج تو اس کے جسم کی اسکرین سے لے کر معمولی کاغذ تک پر نمائش ہوتی رہتی ہے تو ہمیں کیا حق ہے کہ گزرے ہوئے کل کی رقاصہ اور مغنیہ کے فن کی نمائش کو عصمت فروشی کے تختۂ  دار پر لا کر کھڑا کر دیں ۔ اس کی پیشانی پر بد چلنی کی کیلیں ٹھونک دیں اور اس کے پورے جسم میں عیاشی کا تختہ جڑ دیں ۔ !!

شریف اور شائستہ لکھنؤ۔ تہذیب کا دلدادہ، تمدن کا رسیا، اعلیٰ ترین اقدار کا پاسبان و امین اپنی شخصیت کو قربان کر کے دوسروں کی شخصیت کو ’’پہلے آپ’‘ کہہ کر ابھارنے والا لکھنؤ۔ اور اپنی تاریخ پر کوئی آہنی پردہ نہ ڈالنے والا لکھنؤ۔ ان تمام اہل قلم سے پوچھنا چاہتا ہے جو طوائف کو لکھنؤ کی ’’زوال آمادہ تہذیب’‘ کی علامت قرار دیتے آئے ہیں کہ انہوں نے لکھنؤ دشمن انگریزوں کے زر خرید اور متعصب لکھنے والوں کی تحریریں پڑھتے ہوئے اپنے ذہن کے دریچے کیوں بند کر لیئے۔؟ صداقت فکر سے کیوں محروم ہو گئے؟

بے شک تخلیق کار کا قلم کمرے کی آنکھ ہوتا ہے لیکن انیسویں صدی کے لکھنؤ میں اگر آپ انیس و دبیر، ضمیر و تعشق کے مرثیے نہیں بھی دیکھنا چاہتے تو داستانیں ہی پڑھ لیجئے کہ ان داستانوں میں ایک مکمل سماجی نظام موجود ہے اور اس سماجی نظام میں عورت بہت اہم ہے اور یہ عورت مضبوط کردار کی مالک، با حیا، صاحب عصمت ہونے کے ساتھ بہادر، کارزار حیات میں معرکہ آرائ، منظم، اپنی کمزوریوں کے ساتھ تمام لطافتوں اور رعنائیوں کا پیکر ہے۔

اودھ کی داستانوں میں بوستان خیال کے ترجمے ، ملک محمد گیتی افروز وغیرہ سے صرف نظر کرتے ہوئے چند لمحوں کے لئے فسانہ عجائب کی ہی سیر کر لیجئے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ماہ طلعت پکی عورت ہے کج بحثی کرتی ہے، ہٹ دھرمی کرتی ہے۔ خودپسند ہے لیکن شوہر سے محبت میں اس کا کوئی ثانی نہیں ہے، با حیا ہے۔ مہر نگار تو غیرت و عفت کی دیوی ہے۔ عقل و دانش کا پیکر ہے۔ انجمن آراء خوبصورت ہے مگر بد چلن نہیں ۔ بنی اسرائیل کی عورت یعنی قاضی کی بھاوج عصمت آب ہے۔ غرض کہ ایک جادو گرنی کو چھوڑ کے ساری خواتین اپنی کمزوریوں کے ساتھ عصمت و عفت کی علامتیں ہیں ۔ کیا مجال ہے جو ان میں سے کبھی کسی کے دل میں اپنے محبوب کے علاوہ کسی دوسرے کا خیال بھی آیا ہو ۔ !

لیکن اس داسانچہ سے قطع نظر طلسم ہوش ربا کی اگر سیر کریں تو ہر گزرگاہ خیال پر محبتوں کے چراغ روشن نظر آتے ہیں ۔ اس طلسم کی عورتوں کی کچھ خصوصیات پر غور کیجئے۔ قصہ صرف اتنا ہے کہ شہزادہ اسد کو طلسم ہو شربا کو فتح کرنا ہے۔ اس میں افراسیاب سے محار بات کا تذکرہ ہے اور اسد مہ جبیں پر عاشق ہے و افراسیاب کی لڑکی ہے۔

داستانوں کے ماحول کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس سماج میں مرد حاوی نہیں ہے بلکہ مرد و عورت دونوں برابر سے ایک دوسرے کے شریک کار نظر آتے ہیں ۔ لاچین و بلقیس ثانی، افراسیاب و ملکہ حیرت، بہار و قباد، مخمور و نورالدہر، براں و ایرج، عمر و عیار و صر صر، قرآں و صبا رفتار، اسد و مہ جبیں ، غرض کہ صنفی اعتبار سے طلسم ہوش ربا میں توازن ہے۔ نہ عورت مرد کی کنیز ہے اور ہن مرد مطلق العنان ۔!

سیاسی اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو طلسم ہوش ربا میں اقتدار کی تقسیم تقریباً برابر کی ہے۔ جادوگروں میں بے شک مختار کل افراسیاب ہے لیکن اس کی ایک وزیر ملکہ صنعت سحر ساز ہے۔ اس کی نانی اور دادی یعنی آفات چہار دست اور ماہیانہ زمرد پوش محافظ سلطنت ہیں ، حجرہ ہفت بلا کی ایک بلا تاریک شکل کش ہے اور حجرہ پنجم کی یاقوت سخنداں جس کے ساتھ ہر وقت دو نہریں بہا کرتی ہیں اور پھر بے شمار جادوگرنیاں ہیں جنہیں حکومت کا کل پرزہ سمجھنا چاہئے۔ پھر مخبری اور سراغ رسی کے لئے عیار بچیاں یعنی صر صر، صبا رفتار، تیر نگاہ خنجر زن، شمیمہ نقب زن اور صنوبر ہیں ۔ لیکن ان سب سے بالا تر افراسیاب کی بیوی ملکہ حیرت ہے جو منظم اعلیٰ بھی ہے اور ’’جو سکہ خطبہ افراسیاب کا مگر عمل دخل ملکہ حیرت کا ہے’‘ ۔

ان تمام عورتوں میں کوئی بھی نہ طوائفیت رکھتی یہ نہ بد چلن ہے نہ کسی پر مرزا شوق کے مصرع صادق آتے ہیں اور نہ ہی یہ رسوا ہیں ۔

ان کے اور نقائص ہوں گے اور ہیں لیکن جو معاشرہ ان عورتوں کا ا ہے اس سے محمد حسن عسکری، عزیز احمد یا خورشید الاسلام یا ازیں قبیل صرف نادم ہوسکتے ہیں یا اپنے ذہنی تعقب پر تاسف کر سکتے ہیں ۔ غیظ سے اپنی انگلیاں کاٹ سکتے ہیں ۔ ! مگر اس معاشرہ کو طوائفیت کا نام نہیں دے سکتے۔

اور یہ جادوگروں کا معاشرہ تھا جس معاشرے سے نہ مصنف کی ہمدردیاں وابستہ ہیں نہ سننے والوں کی ۔ لیکن اس معاشرہ میں نہ کہیں عدم توازن ہے اور نہ بد چلنی ۔ نہ عورت خود جلتی ہے نہ مرد کو جلاتی ہے۔ مصور اور صورت نگار میں کبھی بھی خوش فعلی کے طور پر مار پیٹ ہو جاتی ہے چنانچہ مصور نے صورت نگار کو طمانچہ مارا تو صورت نگار نے بھی ہزاروں گالیاں دیں ۔ دو تھڑ رسید کیا۔ صر صر  عیارہ ین عمر و عیار سے محبت کے باوجود اسے ایک بار لات بھی رسید کر دی۔ یہ ایک رخ ہے۔ دوسری طرف عورتیں بڑی اچھی منظم ہیں ۔ ایک ملکہ گلزار عنبریں مو ہے۔ اس کے یہاں سب قیدیوں کو کھانا تو ملتا ہی ہے۔ آٹھویں دن مٹھائی بھی ملتی ہے چنانچہ بدیع الزماں کو بھی مٹھائی ملی تھی۔ اسی طرح ملکہ حیرت کے ایک انتظام کا نمونہ ملاحظہ ہو :

’’عمرو نے شہر نا پرساں کو خوب لوٹا۔ ملکہ حیرت نے شاہی خزانے سے سب کے نقصان کی تلافی کر دی لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ اعلان بھی کر دیا کہ آئندہ حکومت کسی نقصان کی ذمہ دار نہیں ہو گی۔ لوگ اپنی حفاظت آپ کریں ‘۔

حالت جنگ میں جب ایمرجنسی ہو، ایک اچھا انتظامیہ اس سے زیادہ اور کیا کر سکتا ہے۔؟

یہ جادو گرنیاں اپنے عہد کی سائنس (جادو) سے واقف ہیں ان میں سے ہر ایک اپنے فن کی ماہر ہے۔ بد چلنی یا بدکرداری کا کیا ذکر، کوئی آنکھ اٹھا کر دیکھے تو دیر سے پانی کی طرح بہہ جائیں ۔

ان عورتوں میں فوجی مہارت اور جنگی صلاحیت ہے۔ یہ اپنے اپنے صوبوں کی گورنر (قلعہ دارنیاں ) ہیں ۔ کوئی موقع پڑتا ہے تو فوج لے کر نکلتی ہیں ۔ ان میں نہ بزدلی ہے اور نہ زندگی کی حقیقتوں سے فرار اور ان تمام باتوں کے ساتھ یہ جس کی ہیں اس کی ہیں ۔ بستر کی چادر کی طرح مرد بدلنے کی قائل نہیں ہیں ۔ !

یہ تو ہوا جادوگروں کی مملکت کا حال جہاں عورت بڑے وقار، دبدبے اور کلے ٹھلے کے ساتھ زندگی گزارتی ہے ۔عورت کی ایک صحت مند معاشرے میں کیا حیثیت ہونی چاہئے، وہ ان جادوگروں کے دیس میں ہے۔ جو آج کے اعلیٰ ترین نسائی حسیت کے علمبردار ممالک میں نہیں ۔!

اب اس کے مقابل جو معاشرہ ہے اس کے لئے داستان گو لفظ اسلام یا خدا پرستوں کے لشکر کی ترکیب استعمال کرتا ہے۔ یہاں دو طرح کی خواتین ملتی ہیں :

۱ ۔ وہ خواتین جو امیر حمزہ کی رشتہ دار ہیں جن کی جھلک چشم فلک نہیں دیکھ سکتی، وہ خوش رہتی ہیں ، سکون سے چراغ خانہ بن کر رہتی ہیں ۔

۲۔ وہ خواتین جو جادو گرنیاں تھیں اور ہیں اور اب اسد کے لشکر میں ہیں اور افراسیاب سے لڑ رہی ہیں ، ان میں اور افراسیاب کے لشکر کی جادوگرنیوں میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ یہ کہ علوم متداولہ سے یہ دونوں واقف اور باخبر ہیں ۔ اپنے فن کی ماہر ہیں ۔ بزدل نہیں بہادر ہیں ۔ گو کہ فراسیاب کے ساتھ والی خواتین کی غالب اکثریت بد چلن نہیں ہے اور ملکہ حیرت افراسیاب کے مرنے کے بعد جس شوہر پرستی کا مظاہرہ کرتی ہے وہ ناقابل فراموش ہے۔ لیکن خدا پرستوں کے لشکر کی جادو گرنیاں یا شہزادیاں کردار کے اعتبار سے ایک روشن مینار ہیں ۔ شوہر پرست، با وفا، صاحب ایثار ہیں ، ایک کی ہو کر رہنے والی، دنیاوی عیش و آرام کو ٹھکرانے والی۔ زمرد شاہ باختری عرف خداوند لقا کی لڑکی لالان خوں قبا ثابت قدم کوئے محبت بنے کے لئے جس جگہ وارث نے بٹھایا وہیں جان دینا چاہتی ہے۔ مہ جبیں افراسیاب کی لڑکی ہے۔ افراد سیاب نے اسے ہر طرح کی لالچ دی ہے، اس پر دباؤ ڈالا ہے۔ سمجھایا ہے کہ وہ اسد کی محبت سے باز آ جائے لیکن مہ جبیں

ہم ان سے اقبال دورہ کر اگر جئے بھی تو کیا کریں گے ذرا اس کے الفاظ ملاحظہ ہوں :

’’ان کے (شہزادہ اسد) ساتھ تڑپ تڑپ کے مر جاؤں گی کہ یہی لطف زندگی ہے‘۔

بہار اور مخمور دونوں کے لئے افراسیاب نے ہر طرح کی لالچ اور طلسمی جنت کے دروازے کھول رکھتے ہیں ۔ مگر ناممکن ہے کہ ذراسی لغزش بھی ہو جائے۔

ان عورتوں کا ایک اور نفسیاتی چلو ہے جو معاشرت کا حُسن ہے یعنی ان عورتوں میں باہم ایک دوسرے کے خلاف حسد کا جذبہ نہیں ہے اس پر بہت سی عورتیں عاشق ہیں مگر یہ سب ایک دوسرے سے اس لئے محبت کرتی ہیں کہ ہم ایک ہی شمع کے پروانے ہیں ، اسی ے ساتھ وہ ایک دوسرے کے وقت پر کام بھی آتی ہیں مثلاً بہار یا مخمور یا ملکہ براں ۔ ا سب کے محبوب الگ الگ ہیں ۔ مگر یہ سب شہزادہ اسد کے لئے اور ایک دوسرے کے لئے خلوص کے خزانے رکھتی ہیں ۔ جان دینے سے گریز نہیں کرتیں ۔ انہیں میں ملکہ محبوب کا کل کشا بھی ہے جس کا کر دار ایثار و قربانی کی معراج ہے صورتحال یہ ہے کہ عفریت طلسم بڑھتا چلا آ رہا ہے اور وہ صرف ملکہ محبوب کا دل کھا کر مطیع ہوسکتا ہے۔ محبوب اپنی کوکھ پر خنجر مارتی ہے ۔ د ل نکال کر پیش کرتی ہے اور عفریت کی مصیبت سے اسد کو چھٹکارا دلاتی ہے۔

یہ عورتیں پیکر مہر و وفا ہیں ۔ یہ نہ آفت ہیں نہ قیامت بلکہ یہ ایک مثالی معاشرہ کی وہ خواتین ہیں و کسی نہ کسی شکل میں ہندوستانی تاریخ کے صفحات میں اپنا وجود رکھتی تھیں ۔ رضیہ سلطانہ، چاند بی بی، حیات بخشی بیگم، مخدومہ جہاں ، علی مردان خاں کی بیٹی، رانی درگاوتی، اہلیہ بائی۔ خواتین کا یہ زریں سلسلہ تھا جس کا منطقی نتیجہ بیگم حضرت محل تھیں اور طلسم ہوش ربا کی یہ خواتین انہیں روایات کا روشن اور تابناک عکس تھیں ۔

ایک خیال یہ ہوسکتا ہے کہ یہ ساری شہزادیاں عاشق مزاج ہیں تو حق یہ ہے کہ عورت کا عشق کرنا کوئی معیوب بات نہیں ہے۔ گر وہ ایک کی ہو کر رہے۔ یہ شہزادیاں ایک ہی بار عشق کرتی ہیں جس سے عشق کرتی ہیں اسی کی ہو کر رہ جاتی ہیں ۔ اپنی شخصیت کے اعتبار سے اپنے کفو سے عشق کرتی ہیں ۔ کمتر درجہ کے آدمی کی ان کے پاس کوئی جگہ نہیں ہے اگر کسی کمتر نے ان کے بارے میں سوچا بھی تو جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

ایسا نہیں ہے کہ طلسم ہوش ربا میں جو معاشرہ ہے اس میں خواتین صرف شہزادیاں یا پریاں ہیں بلکہ ایک طبقاتی سماج ہے س میں ہر طبقے کی عورت نظر آتی ہے اور لباس و زیورات سے پہچانی جاتی ہے۔ شہزادیاں اور ملکہ ’’انگیا گوکھرو کی یا کامدانی کی، پر زر کرتیاں سبز بادلے کی، ململ اور آب رواں کی پیشواز، زر دار پاجامے، پائینچے گلبدن کے لچھے دار شجر اور زربفت کے لہنگے۔ شبنم کے دوپٹے اور زیورات میں ٹیکہ، کنگن، چمپاکلی، کرن پھول، چاند ٹیکی، جھومر، یاقوت اور احمر کے چھپکے، جگنو کا توڑا، ناک میں نتھ، کان میں بجلیاں ، بالے ، جھمکے، مندرے، ادراج، بازو بند، نوگرہی، جوشن، دست بند، پازیب، چھڑے، جھانجھ، گھنگھرو خلخال، پیر میں زردوزی کی زیر پائی، آرام پائی‘۔

یہ ہے وہ متمدن معاشرہ خوش حال لوگوں کا مگر اسی کے ساتھ کنیزیں ، جلیسیں ، خواصیں ، آتو جی، چھو چھو، ماما، اصیلیں، مغلانی، قلماقنی بھی نظر آتی ہیں ۔ ملکہ حیرت کے سر پر وزیر زادیاں مگس رانی کرتی ہیں ۔ تین چار سو تو صرف چتر بردار ہیں ۔ دیہات کی عورتیں البتہ غربت کا شکار ہیں ۔ ان کے ’’لہنگے پھٹے ہوئے ہیں اور پیتل کی بالیاں پہنتی ہیں ۔ گاڑھے کی کرتیاں ‘‘ ہیں ۔ شہر میں ساقنیں حصہ پلاتی ہیں ۔ ہزار بناؤ کئے دلائی سفید اودی گوٹ کی اوڑھے۔ آگے سے طوق سونے کا دکھانے کو گلا کھولے ۔ پائینچے پاجامے کے پیچھے تخت پر پڑے‘۔

ان کے آگے بڑھ کر کبڑنوں اور سنکرینوں کی بہار دیکھئے کہ :

’’لہنگے قیمت کے پہنے سامنے ٹوکروں میں ترکاریاں ، انار، امرود، شریفے، چنے تھے۔ گنڈیریوں کے لئے گنے پونڈے چھیلتی تھیں ‘۔

ساری عورتیں نفاست پسند ہیں ، ان میں شوخی ہے لیکن بدکاری نہیں ہے۔ یہ اعلیٰ ترین معیار کی زندگی گزارنا چاہتی ہیں ۔’‘ ان کے پاس عقیق کی سردانی ہے۔ دانتوں میں مستی لگاتی ہیں ۔ گگونہ، غازہ تو ہوتا ہی ہے پور پور مہندی رچی ہوتی ہے۔

’’بی گلرنگ! تم کو اپنی صورت کی قدر نہیں ۔ ابٹنا منہ پر ملا کرو، چند دنوں میں رنگت کھل جائے گی‘‘۔

یہ خواتین حقہ اور پان سے شغل کرتی ہیں ۔ ہوا اور تخت رواں ، محافہ، پالکی نالکسی جیسی سواریاں استعمال کرتی ہیں ۔ ان کے یہاں دسترخوان بھی دیبا کا ہوتا ہے، ان کے بستر جب بجھتے ہیں تو

’’چادر گھڑی دن رہے حکم دیا کہ پلنگ ہمارا بالائے بام بچھاؤ کہ چاندنی کی کیفیت دیکھیں گے اور وہیں آرام کریں گے۔ بجرد حکم پلنگ کوٹھے پر آراستہ ہوا اور اوٹ پھولوں کے کھڑے کر دئیے۔ گلاب اور کیوڑے کے قرابوں اور عطر کے شیشوں کے منہ کھول کر رکھ دئیے۔ گلدستے جا بجا چن دئیے، کنیزوں نے کہا داری خواب گاہ آپ کی درست ہے‘۔

ان کی نفاست اور ایک سحرکار ماحول کی تخلیق وہ چاہے باغ کا نقشہ ہو، جشن ہو، ساز ہوں ، موسیقی کے مختلف راگ ہوں ، جو بھی ہو ان سب میں نفاست ہے لیکن آوارگی اور بد چلنی نہیں ہے۔ بیشک شہزادیاں شراب پیتی ہیں لیکن یہ ’’ماڈرن ڈرنک’‘ نہیں ہے یہ کوئی بھی مشروب ہوسکتا ہے سج سے سرور آتا ہے اس کے نشہ میں خرمستی، بدسمتی نہیں ۔

یہ عورتیں ان تمام باتوں کے ساتھ ہمدرد بھی ہیں ، ذہین بھی ہیں ۔ ان ہی عورتوں میں ملکہ آسمان پری ہے جس نے ا میر حمزہ کو مرہم سلیمانی دیا تھا جس سے ہر زخم مندمل ہو جاتا ہے۔ ان میں جہاں طب کا یہ پہلو ہے وہاں ٹونا ٹوٹکا بھی ہے کہ ’’اگر سات جمعرات سوت کا نام لیکر نیم کی پتی اور نمک کنوئیں میں چھوڑ دیا جائے تو وہ مالزادی فوراً نکل جائے گی۔ !!‘

یہ خیال کیا جاتا ہے کہ داستان گو عوامی زندگی سے باخبر نہ تھے۔ عوامی زندگی سے اگر مراد یہ ہے کہ بیل کس طرح ہنکائے جاتے ہیں ، سیار کس طرح بھگائے ہیں ۔ ہڑتال کیسے ہوتی ہے تو یقیناً یہ معاشرہ تو داستانوں میں نہیں ہے۔ اس لئے کہ داستانوں کی فضا شرفائے شہر کی ہے مگر اس شہر میں گھسیارے، لکڑہارے، بہیلے ، چڑیمار، کپڑا بننے والے اور ان سب کے ساتھ کھاردے اور گاڑھے کی لنگیاں اور انگوچھے ملتے ہیں ۔ لیکن یہ سب ہے تھوڑے سے فرق کے ساتھ۔ عمرو ک زنبیل سے کلوا کر برآمد ہوتا ہے مگر اسی کے ساتھ کٹنی مہترانی بھی دکھائی دیتی ہے و ٹوکرا بغل میں رکھے بالیاں اور جھمکے پہنے نظر آتی ہے۔ یہ مہترانیاں مخبری بھی کرتی ہیں ۔ داروغہ ان سے گھر گھر تلاشی لینے کا بھی کام لیتے ہیں ۔

یہ ساری باتیں ہیں لیکن ان میں کہیں بھی نہ زوال آمادہ تہذیب ہے، نہ بدکار معاشرہ، بد چلن عورتیں ۔ لکھنؤ کا یہ خوددار معاشرہ، متنوع معاشرہ بہرحال طوائف سے خالی نہیں ہے۔ مگر ذرا طوائف کا تذکرہ دیکھئے :

’’کس طرف ساقتوں کی بناوٹ ہے، رنڈیاں طرحدار چکلہ چوک میں آباد، تماش بین دلشاد، عورتیں جوان، لہنگے زربفت کے، دھوتی کے انداز میں کسے’‘ کہیں کہیں اس طرح کہیں ہیں اس طرح کے فقرے مل جاتے ہیں مگر اہمیت طوائف کی ہیں ہے بلکہ عالم یہ ہے کہ اگر ملکہ نسرین عنبریں محفل میں آ گئی تو اجلال جادو اسے بے غیرت کہتا ہے۔

تخلیق کار کا قلم کیمرہ ہوتا ہے۔ اس فقرہ کی تکرار صرف اس لئے ہے کہ اگر شرر کے بیان، فریب عشق اور امراؤ جان ادا کی تصویر کشی کی بنا پر لکھنؤ کی پہچان اور اس کا تشخص کچھ یرقان زدہ اذبان نے طوائفیت سے کیا تو ا نیسویں صدی کی اس داستان کے واضح بیان سے لکھنؤ کا تشخص اور اس کی پہچان بہادر، با عفت اور ہشت پہل شخصیت کی مالک خواتین سے ہونا چاہئے۔

طلسم میں علم کی قدر ہے۔ ’’تم نے ذہانت کو ہماری صاحبزادی کی دیکھا۔ بے شک پڑھنے لکھنے سے آنکھیں چار ہو جاتی ہیں ‘۔ ملکہ ہوشنگ نے کہا۔

یہ ایک پہلو ہے۔ اب ایک رخ ملاحظہ ہو۔ طلسم میں شہزادیاں ہوں یا جادو گرنیاں یہ سب خلا میں نہیں رہتیں ۔ ان سب کے ایک دوسرے سے رشتے ہیں اور وہ ان رشتوں کے مطابق رہتی ہیں ۔ مثلاً بہار افراسیاب کی سالی ہے۔ براں کو کب کی بیٹی ہے۔ مہ رخ مہ جبیں کی نانی ہے، آفتاب چہار دست اور ماہیانہ زمرد پوش افراسیاب کی نانی اور دادی ہے۔ لعل سخن داں یاقوت سخنداں کی حقیقی بہن ہے۔ ان رشتوں میں کبھی تصادم ہوتا ہے۔ مثلاً لعل سخن داں اسد کی طرف دار ہے، یاقوت سے لڑتی ہے۔ اسد کے بازو پر اکہ باندھتی ہے۔ بہار بھی اپنی بہن حیرت سے لڑتی ہے مگر ایک لمحہ ایسا آتا ہے جب حیرت کو شہنشاہ کو کب تلار کے سائے میں لیتا ہے تو بہار بے چین بھی ہو جاتی ہے۔ ہدوستانی سماج میں جتنے امکانی رشتے ہوسکتے ہیں اور ان رشتوں کی جو نزاکتیں ہیں وہ سب اس معاشرے میں ملتی ہیں البتہ یہ حقیقت ہے کہ مہابھارت کی طرح اصول پر رشتے قربان کر دئیے جاتے ہیں ۔

محبت اور فرض کی کشمکش میں بھی فرض کی فتح ہوتی ہے۔ پانچوں عیار بچیاں مخالف کے لشکر کے عیاروں سے عشق کرتی ہیں ۔ لیکن افراسیاب کی حیات تک گان کی وفاداریاں افراسیاب کے ساتھ ہیں اور موقع پڑنے پر وہ مخالف لشکر کے بڑے سرداروں کو قید بھی کرتی ہیں اور فرض اور وفاداری کا جو تقاضا ہے اس کے مقابل اپنے عاشقوں کو بھی ڈاج دینے سے نہیں چوکتیں ۔

طلسم ہوش رہا کے سلسلے میں یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ تمام اہم شہزادیوں کے جادو دراصل عورت کے مزاج کی مختلف کیفیتیں ہیں ۔ بہار، پیکر، رنگ و بو، مخمور، نشہ و مستی، برق خنداں و گریاں رونے اور ہنسنے کی کیفیت، برآں کا اثر مروارید فضا کی بیکراں دستوں تک عورت کی پہونچ حیرت کے بال حَسین جمال مجلس کی گڑیاں ، عورت کا بھولا پن اور کھیل کی کیفیت وغیرہ۔ لیکن یہ پہلو ضمناً عرض کیا گیا۔ موضوع نسوانی معاشرہ ہے۔ یہ معاشرہ صحت مند ہے اس میں بدچلنی نہیں ہے، بدکرداری نہیں ہے۔ آزاد خیالی ہے، لطافت ہے، شوخی ہے، بذلہ سنجی ہے، عورت بہادر ہے منتظم ہے۔ اعلیٰ صلاحیتوں کی مالک ہے۔

ایک داستان کی مثالی عورت دیکھئے :

’’یہ اپنے باپ کی جانشین ہے۔ اس کی نسبت تلاش کی جا رہی ہے، ایسے سے جو رنگ سنگ ڈھنگ رکھتا ہو، رنگ علم و ہنر کا، سنگ شریفوں کا، ڈھنگ غیرت کا۔ اگرچہ یہ لائق و فائق عورت ہے مگر جے پال شاہ عورت کی اطاعت کو دل گوارا نہیں کرتا۔ ہاں ایک صورت ہے نکاح کر لے ‘۔ اور نکاح شریف زادیاں کرتی ہیں ، طوائفیں نہیں ۔ اس لئے انیسویں صدی کے لکھنؤ کی عورت کا تشخص اور پہچان فریب عشق ، عمار عشق مرتبوں کو دل و دماغ کی فرحت اور ہاضمہ کی طاقت بڑھانے کے لئے استعمال کیا جا تا تھا۔ حکیموں کے نسخوں میں سیب کے مربے کو ہمراہ ورق نقرہ یا ہمراں ورق طلا استعمال کرنے کی ہدایت عام طور پر کی جاتی تھی۔ طرح طرح کے لذیذ حلوے بھی طبی فائدوں کے پیش نظر تیار ہوتے تھے ان کو طاقت و توانائی عطا کرنے والی غذا کا درجہ حاصل تھا اس لئے ان میں بادام، پستہ اور دیگر خشک میوے، زعفران اور کبھی کبھی مشک بھی شامل کی جاتی تھی یا بعض یونانی دواؤں کو حلوے کے اجزاء میں شامل کیا جاتا تھا۔

غذائیت کے صحت اور جسم کی طاقت اور توانائی کے تعلق کا پورا لحاظ رکھا جاتا تھا۔ اس لئے ہر موسم میں پیدا ہونے والی سبزی، ترکاری بھی بڑے اہتمام سے استعمال کی جاتی تھی۔ اس میں سستی اور آسانی سے دستیاب ہونے والی ترکاریوں سے پرہیز بالکل نہیں تھا بلکہ بطور خاص ان کو استعمال میں لایا جاتا تھا۔ سبزیوں اور ترکاریوں کے پکانے میں لکھنؤ کے ماہر باورچیوں نے اپنے فن کی پوری مہارت سے کام لیا۔ ہر ایک ترکاری کو کئی کئی ڈھنگ سے پکانے کے طریقے کر کے سبزی خوری میں نئی لذت پیدا کر دی۔

حامد علی خاں بیرسٹر نے اس صدی کی پہلی دہائی میں اپنے ایک ماہر باورچی کا تذکرہ کیا ہے جو صرف بھنڈی کی ترکاری کو اسی الگ الگ طریقوں سے پکاتا تھا اور ہر ہانڈی کا ذائقہ الگ ہوتا تھا۔

لکھنوی دسترخوان کی سرسری جھلک اس کے متنوع، رنگا رنگی اور فن کارانہ وسعتوں کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ یہ بلامبالغہ سینکروں اقسام کے نمکین اور میٹھے کھانوں سے آراستہ تھا۔ مشرقی تمدن اور تہذیب کی صدیوں سے چلی آنے والی روایتوں نے سا کو ہمہ گیر بنا دیا تھا۔ داستان امیر حمزہ، طلسم ہوش ربا اور دوسری داستانوں میں کھانوں کے سینکڑوں نام ملتے ہیں ، ہر کھانے کی بے شمار اقسام کی جانب اشارہ ملتا ہے۔

یہ کہنا تو دشوار ہے کہ لکھنوی دسترخوان اس کے کھانوں اور ان کی تیاری کے ماہرانہ طریقوں ، مسالوں اور ان کے امتزاج کے ضابطوں کی پوری بازیافت آسان یا ممکن ہے لیکن کچھ نہ کچھ تو ممکن ہے اور اسی لئے اس تہذیبی سرمائیے کی بات تحریری ذخیرے کی باز خوانی لکھنؤ والوں پر فرض ہے۔

اور امراؤ جا ن نہیں ۔ کسی حد تک فسانہ آزادی بھی نہیں بلکہ داستانیں ہیں یا طلسم ہوش ربا ہے جو داستانوں کے کوہ عتیق گیان چند کے لفظوں میں :

’’داستانیں اودھ کی تہذیب کا ایک ارژنگ ہیں ، یہ اس تہذیب کے روشن اور چمکتے ہوئے نقوش ہیں ، جو آج کے دور میں بھی بہت کچھ سکھاتی ہے، وہ تہذیب جس کے پس منظر میں اس کے ماضی کی وراثت تھی۔

’’حال کی لطافت تھی اور مستقبل کی طرف خوش گوار، صحت مند اور روشن اشارے تھے‘

اب اس کے بعد بھی ساری داستان میں کسی کو یاد رہ جائے کہ ادھر لکھنؤ کی پہچان عیاشی تھی تو پھر کہنا پڑے گا

مہتاب میں دھبے ہیں گلوں میں کانٹے

مہ جبیں کو بس اتنا ہی نظر آتا ہے

استفادہ : طلسم ہوش با۔ ایک مطالعہ ۔ از ڈاکٹر راہی معصوم رضا

تدوین متن کا مثالی نمونہ : ’’باغ و بہار‘‘

تحقیق، صداقت کا اظہار و اعلان ہے، گفتار صدق مایہ آزار ہوتی ہے اور حرف حق کا بلند ہونا منزَ وار سے گزرنے کے مترادف ہے اور اس منزل سے گزرتے ہوئے سب سے بڑا خطرہ کسی دوسرے سے نہیں خود اپنی ذات سے ہوتا ہے ۔مزعومات، تشکیک، احساس تفرق، اپنی شخصیت کے حصار میں گم رہنے کی پرانی عادت، ہر لمحہ انانیت کی فریب خوردگی، یہ سب ایسے پہلو ہیں جو اظہار و اعلان صداقت کی راہ کے سنگ گراں ہیں ۔ ان اصنام کی بت شکنی کے بعد ہی نگاہ تحقیق صداقت کو بے حجاب دیکھتی ہے۔

تحقیق کا ہی بے حد اہم ذیلی رخ تدوین متن ہے اور یہ سب سے مشکل مرحلہ ہے۔ گیان چند نے تدوین متن کو ’’سیمیا کی سی نمود’‘ کہا ہے اور یہ درست ہے کہ ہر لمحہ مختلف روپ بہروپ فریب نظر کا شکار بناتے ہیں ۔ ایک رخ تو یہ ہوتا ہے کہ اگر متن پہلے مرتب کیا جا چکا ہے اور مجموعہ اغلاط ہے تو اس کی تصحیح میں آبگینوں کو ٹھیس لگنے کا خطرہ ہے اور اگر متن پہلی بار مرتب کیا جا رہا ہے تو مرتب متن سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ بہت سارے ’’واقعات کی فردوس گم شدہ’‘ کی ضرور سیر کرائے گا۔ چاہے یہ واقعات شداد کی جنت ہی کیوں نہ ہوں ۔ حالانکہ مرتب متین کی بنیادی ذمہ داری منشائے مصنف کے مطابق متن پیش کرنا ہے۔ مفروضہ واقعات کی بہشت کی تخلیق نہیں ۔!

متن کی ترتیب میں سب سے مشکل مرحلہ اس وقت آتا ہے جب مرتب کو اپنی بیش بہا معلومات کے اظہار پر پابندی عائد کرنا پڑتی ہے۔ دراصل تحقیق ریاضت کے ساتھ ضبط نفس کا بھی مطالبہ کرتی ہے اور جب تک متعین دائرے میں کام نہیں کیا جاتا غیر ضروری معلومات نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں اور طالب علم کو گوہر مراد تو نہیں ملتا۔ صحرا نوردی البتہ ہاتھ آتی ہے۔

رشید حسن خاں اردو تحقیق کی آبرو ہیں ۔ اپنی عمر عزیز کے بہترین زمانے کو انہوں نے تحقیق کے ناشکرے کام میں صرف کیا ہے۔ تحقیق میں انہوں نے اس دور بلا خیز میں کاندھے پر سچ اور صرف سچ کا پرچم رکھا اور سچ ہی لکھا۔ کچھ عرصہ قبل انہوں نے اشعار کے صحیح انتساب اور صحیح قرأت پر زور دیا تھا اور بتایا تھا کہ ’’سرہانے میر کے آہستہ بولو’‘ میں ’’آہستہ بولو’‘ غلط اور صحیح مصرعہ ہے

سرہانے میر کے کوئی نہ بو لو

اس طرح بہت سارے اشعار کا صحیح متن درج کر کے اس طرف متوجہ کیا تھا کہ متن وہ نہیں ہوتا جو ہمیں اچھا معلوم ہوتا ہے بلکہ متن وہ ہوتا ہے جو مصنف نے پیش کیا ہو انہوں نے بار بار اس پہلو کی طرف متوجہ کیا۔ سودا کا انتخاب ہو یا ’’فسانہ عجائب’‘ یا دوسری کتابیں جنہیں انہوں نے مرتب کیا ان سب میں ان کی فکر کا ایک ہی مرکز اور محور ہے۔

سچ! سچ! سچ!

اب یہ اور بات ہے کہ دانش گاہوں میں جو ادبی مہنت بیٹھے ہیں ۔ انہیں اس کی توفیق نہیں ہوتی کہ صحیح متن ہی پڑھ لیا کرتے اور اگر کسی نے پڑھ لیا تھا تو یاد بھی رکھتا اور اگر یاد رکھا تھا تو صداقت کی خاطر طالب علموں کو یہ بھی بتا دیتا کہ جس متن کو پڑھ ہا ہے وہ غلط ہے اور اگر درست ہے تو رشید حسن خاں کا فیضان ہے۔

انہوں نے بہت لکھا ہے۔ بالخصوص وہ تدوین متن کے سلسلے میں مثالی حیثیت کے مالک ہیں اور اپنے کارناموں سے انہوں نے عملی تحقیق کی اعلیٰ ترین روایت کی تشکیل کی ہے۔

’’باغ و بہار’‘ کی تدوین بلاشبہ ان کی تحقیقی غزل میں بیت الغزل ہے۔

’’باغ و بہار’‘ اسم بامسمیٰ ہے۔ اسے کسی طرح کی خزاں کا ڈر نہیں تقریباً دو صدی سے ہرج مرج کھینچتے ہوئے یہ خزاں ناآشنا داستان معجز بیان اکیسویں صدی کے دروازے پر دستک دے رہی ہے یہ داستان اردو نثر میں وہی درجہ رکھتی ہے جو غزل میں میر تقی میر یا مرثیہ میں میر انیس کا ہے۔ اس کا ڈرامائی انداز بیان، متصوفانہ پہلو اور اس کا تہذیبی رخ یادگار حیثیت کا مالک ہے۔ میر امن کا مقدمہ بھی اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ تاریخی اور تہذیبی پس منظر میں اردو زبان کے آغاز کا نظریہ پہلی بار پیش کیا گیا ہے اور پھر اس میں الفاظ کا سحر حلال تو ایسا ہے کہ جب تک گنگا جمنا میں روانی ہے اس کا اثر کم نہ ہو گا۔ جرمن فلسفی نے بیسویں صدی میں یہ بتایا کہ لفظ کے معنی نہیں ہوتے بلکہ لفظ اپنے محل استعمال سے معنی دیتا ہے۔ میر امن نے بہت پہلے الفاظ کے استعمال سے عملی طور پر یہ بات سمجھا دی۔ ان کے پاس الفاظ نہیں ہیں بلکہ کسی مصور کے سامنے بکھرے ہوئے بے شمار رنگ ہیں ۔ جہاں جس طرح کا رنگ ضروری ہے اسے وہاں لگا کر تصویر کے نقوش ابھار دیتے ہیں ۔

’’باغ و بہار’‘ پہلے بھی مرتب ہوتی رہی ہے۔ مختلف لوگوں نے اسے مرتب کیا ہے لیکن حق یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا تھا کسی کا نقطہ نظر ماخذ کی بحث ہے۔ کسی کے مقدمے نے نسوانی کرداروں پر بڑی اچھی روشنی ڈالی ہے۔ کوئی معاشرتی اور تہذیبی پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے ہندوستان کی تاریخ اور ادبی سماجیات پر گہر افشانی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ لیکن مقدمہ متن کے اسرار و غوامض پر بہت کم روشنی ڈالتا ہے۔ اس کا مختلف نسخوں سے تقابلی مطالعہ کسی نسخہ کے مرجح ہونے کی دلیل، لسانی پہلو اور فرہنگ، الفاظ کی تشریحات، اس عہد کی لسانیات اور وہ بہت سارے گوشے سامنے نہیں آتے جہاں ایک ایک لفظ کے پس منظر میں جہان معنی آباد ہے۔

رشید حسن خاں نے اس ترتیب سے نہ صرف ایک اہم ضرورت کی تکمیل کی ہے اور باغ و بہار سے صحیح معنوں میں روشناس کرایا ہے بلکہ تدوین متن کی دنیا میں عملی تحقیق کی بڑی اچھی مثال قائم کرتے ہوئے انہوں نے اپنے تحقیقی نقطہ نظر کی بھی جگہ جگہ وضاحت کی ہے لکھتے ہیں :

’’اصول تحقیق پر ایمان نے بے ایمانی کی پیدا کی ہوئی قناعت پسندی کو ذہن پر اثر نہیں ڈالنے دیا اور نشاط کار کا ایسا احساس کبھی ذہن پر حاری نہیں ہوسکا جس سے ہوس کے تقاضوں کو آب و رنگ ملتا ‘۔ ۱)

مرتب متن کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرنے کا بہت خوبصورت انداز ملتا ہے لکھتے ہیں :

’’اس اعتبار سے ہر لفظ کا تعین، مرتب کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ لفظ مجموعہ ہوتا ہے حرفوں کا یوں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہر حرف کا تعین اس کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ اس لحاظ سے دیکھئے تو معلوم ہو گا کہ الفاظ کے تعین اور ان کی صورت نگاری کی، صحت متن میں اصل حیثیت ہوتی ہے‘۔ ۲)

وہ ان تمام دشواریوں اور مسائل سے باخبر ہیں جو اختلاف نسخ اور تقابلی مطالعہ کی صورت میں پیش آتے ہیں لکھتے ہیں :

’’کسی کتاب کے مختلف اہم نسخوں کو (اگر وہ موجود ہوں ) سامنے رکھنا از بس ضروری بلکہ لازم ہے، جب بھی مختلف نسخوں کو پیش نظر رکھ کر عبارت کی تصحیح کی جائے گی تو بہت سے مسائل پیدا ہوں گے۔ یوں یہ ضروری ہو گا کہ حواشی میں ایسے ہر لفظ سے متعلق ضروری تفصیلات درج کی جائیں جو کسی بھی لحاظ سے وضاحت طلب ہوں ۔ خواہ بہ لحاظ معنی مطلب، خواہ بہ لحاظ املا اور خواہ بہ لحاظ قواعد۔ بہت سے جملوں کی ترتیب اور معنویت بھی تشریح کی محتاج نظر آئے گی۔ حواشی میں ایسی تشریحات کا شامل کرنا بھی ضروری قرار پائے گا۔

ایسے مفصل حواشی کی ضرورت ایک اور وجہ سے بھی ہوتی ہے۔ زمانے گزرنے کے ساتھ بہت سے لفظ متروک ہو جاتے ہیں یا ان کی شکل و صورت میں کسی طرح کی تبدیلی راہ پا لیتی ہے۔’‘ ۳)

انہیں اس بات کا احساس ہے کہ محقق کے لئے تنقیدی بصیرت ناگزیر ہے اور نقاد تحقیق کے بغیر ایک قدم بھی نہیں چل سکتا۔ لیکن وہ اس سے بھی باخبر ہیں کہ کوئی متن مدون ہو جانے کے بعد تنقیدی مباحث کے دروازے کھولتا ہے۔ تدوین کے مرحلے میں تنقیدی بحث غیر ضروری ہے۔ عمارت کی تعمیر کے بعد ہی اس کی تزئین اور آرائش کی فکر مناسب ہوتی ہے۔ تعمیر کے مرحلے میں اگر یہ بحث شروع ہو جائے کہ تصاویر نشست گاہ میں آویزاں کی جائیں یا خواب گاہ میں تو یقیناً یہ مضحکہ خیز ہو گا۔ یہی حال مرحلہ تحقیق میں تنقیدی مباحث کا ہے۔ بڑی تفصیل کے ساتھ انہوں نے روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’متن کی تصحیح اور متعلقات متن کی کماحقہ ترتیب کے لئے یہ بھی ضروری سمجھا گیا کہ مفصل تنقیدی اور تدوین دو الگ موضوع ہیں ۔ متضاد تو نہیں لیکن مختلف ضرور ہیں ‘۔ ۴)

آگے چل کر وہ مزید وضاحت کرتے ہیں :

’’مقدمہ کتاب میں طویل تنقیدی مباحث کو شامل کرنے سے یہ نقصان ضرور ہوتا ہے کہ دونوں کا حق ادا نہیں ہو پاتا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ متعلقات متن کی ضروری تفصیلات زیر بحث نہیں آ پاتیں ۔ مرتب کا اصل کام یہ ہے کہ وہ متن کو صحیح طور پر پیش کرے اور اس متن سے متعلق بحثوں کو مناسب تفصیل کے ساتھ لکھے جس میں قابل ذکر حصہ لسانی مباحث کا ہو گا، اس کے فرائض میں یہ شامل نہیں کہ وہ تنقیدی رائے بھی دے، اسی لئے یہ ضروری سمجھا گیا کہ اس سلسلے میں زیر ترتیب کتابوں کے مقدمے میں مفصل تنقیدی مباحث کو شامل نہ کیا جائے‘۔ ۵)

انہوں نے ہر جگہ تدوین متن کے اصولوں کی پابندی کی ہے اور یہ پابندی شعوری ہے روایتی نہیں ۔ اس لئے کہ انہوں نے جگہ جگہ اس کی طرف اشارے بھی کئے ہیں ۔ ان میں تنقیدی شعور ہے لیکن اصولوں کی پاسداری نے انہیں ایک قدم بھی تجاویز کرنے نہیں دیا ہے حالانکہ ان کا تنقیدی شعور اعلیٰ درجہ کا ہے ملاحظہ ہو :

’’میر امن کی نثر میں جو حُسن، طاقت اور چھا جانے والی کیفیت ہے، اس میں ان کے زمانے کا کوئی شخص شریک نظر نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ باغ و بہار کو جدید اردو نثر کا پہلا صحیفہ کہا گیا ہے۔ اس کتاب نے ایک نئے طاقتور اسلوب کی بنیاد ڈالی جو معیار ساز ثابت ہوا۔ باقی سب کی نثریں خوب ہیں ۔ مشکل پسندی سے محفوظ ہیں ، ا اسان ہیں مگر ان میں وہ طاقت نہیں کہ ایک نئے اسلوب کی تشکیل ہوسکے اور ایک نئے پیرایہ اظہار کے خط (کذا) د خال ۶) روشن ہوسکیں نئی روایت کی تشکیل ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ کالج کے کسی اور مصنف میں یہ جرأت اور ہمت نظر نہیں آتی۔’‘ ۷)

انہوں نے تحقیق میں ایجاد بندہ قسم کے بہت سارے التباسات کو دلائل کے ساتھ رد کیا ہے۔ تحقیق کی ایک قسم ’’خواہ مخواہی تحقیق‘‘‘ بھی ہوتی ہے۔ اس کا بہت اچھا نمونہ میر امن کی تاریخ ولادت اور تاریخ وفات کے سلسلے میں نظر آتا ہے۔ نصر اللہ خاں خورجوی اور انتظام اللہ شہابی کے سلسلے میں جو بہت سارے گوشے بغیر کسی دلیل کے سامنے آ گئے تھے اس پر مدلل بحث کرتے ہوئے اسے رد کیا گیا ہے۔ ۸)

البتہ پوری بحث پڑھنے کے بعد طالب علم کا دل یہ چاہتا ہے کہ کاش اس کی بھی تحقیق ہو گئی ہوتی کہ تاریخ ولادت و وفات کیا تھی۔ میر امن کے وطن، علاقہ اور جاگیر و منصب کے عنادین کے تحت بڑی اچھی بحث کی گئی ہے۔ خصوصاً میر امن کے اب و جد کی جاگیر کے علاقہ کا تعین بہت اہم دریافت ہے۔ انہوں نے مختلف نسخوں اور اشاعتوں کا تقابل بھی کیا ہے اور ہندی مینول کے بارے میں بے حد اہم معلومات اکٹھا کی ہیں اور اس سلسلے میں معلومات کا بیش بہا خزانہ ہاتھ آتا ہے۔ ص ۸۳ سے ص ۱۰۶ تک انہوں نے اعراب رموز و اوقاف ، حروف کی صوتیات اور بعض الفاظ کے بارے میں نتیجہ خیز مدلل بحث کی ہے۔ یہ دریافت بھی بہت اہم ہے کہ شیر علی افسوس نے نثر بے نظیر، قصہ گل بکاولی، مادھونل، طوطا کہانی، قصہ حاتم طائی کو واجبی واجبی درست کیا ہے، لیکن قصہ چہار درویش کا تو ’’محاورے میں اکثر درست عبارت نہایت چست تھی، یہ کہیں کہیں جملے بے ربط تھے سو مربوط کر دئیے ۹)

انہوں نے میر امن کے اسلوب کی خصوصیات میں الفاظ کی تکرار، توابع کا استعمال، صناعی، قافیہ بندی کی تفصیلات دی ہیں ۔ اس کے ساتھ میر امن کے یاں ’’نے’‘ اور ’’کو’‘ کے استعمال اور اسے ترک کرنے کی مثالیں بھی دی ہیں ۔ کرکر، کی، کرکراہٹ کا بھی ذکر کیا ہے۔ تذکیر و تانیث، شتر گربہ وغیرہ کے بیان سے ان کے تنقیدی نقطہ نظر کی وضاحت بھی ہوتی ہے اور ان کی تنقیدی بصیرت کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور پھر اس پر حیرت ہوتی ہے کہ کتنے ظرف کے ساتھ انہوں نے اپنے اوپر عائد کر دہ احتساب کی پابندی کی ہے حسن سے گریز احساس کمتری کا نتیجہ ہوتا ہے لیکن شعور و ارادہ کے ساتھ ہو تو پھر اسے شان یوسفی و پیغمبری کہا جاتا ہے۔

تنقیدی مباحث سے ان کا گریز شان یوسفی ہی ہے ۔ !

مقدمہ کے بعد متن ہے۔ وہ ص ۲۵۰ پر ختم ہوتا ہے اس کے بعد ضمیمہ ہے۔ ضمیمہ میں ایک ایک لفظ کی مدلل اور خوش سلیقگی کے ساتھ بحث ملتی ہے۔ ان کی دیدہ ریزی، باریک بینی اور تبحر علمی کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ کچھ مثالیں ملاحظہ ہوں :

عیسوی سال کے سلسلے میں (سال عیسوی) کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’اس عبارت میں لفظ سال اصنافت کے بغیر ہی مرجح ہے‘۔ ۱۰)

پوری تحقیق کے ساتھ دلائل سے یہ ثابت کیا ہے کہ سال کے نیچے اصنافت مناسب نہیں ہے۔ ۱۱)

ایک جگہ لکھتے ہیں :

’’میر امن کی نثر میں ایسے بہت سے جملے ملتے ہیں جن کا انداز آج بالکل اجنبی معلوم ہوتا ہے اور عام آدمی یہ خیال کر سکتا ہے کہ یہاں شاید کسی طرح کی غلطی راہ پا گئی ہے ۔ چوں کہ ایسے جملوں کی تعداد کم نہیں ہے اس لئے یہ بات تقاضائے احتیاط کے بالکل خلاف ہے (اصول تدوین کے بھی خلاف ہو گی) کہ ایسے مقام پر کسی طرح کی بھی تبدیلی کو روا رکھا جائے۔’‘ ۱۲)

آگے چل کر لکھتے ہیں :

’’وہ مقامات جہاں احتمال کی گنجائش نکلتی ہو، میں نے خاص طور پر خیال رکھا ہے کہ ایسے مقامات پر کسی طرح کی دخل اندازی نہ کی جائے۔ ۔ ۔ جب تک اس کا یقین نہ ہو جائے کہ فلاں مقام پر لازماً غلطی کتابت ہو یا غلطی طباعت ہے تب تک عبارت میں دخل نہیں دینا چاہئے اور تصحیح سے کام نہیں لینا چاہئے کیونکہ ایسی تصحیحات کو بہ آسانی تصرف کہا جاسکتا ہے۔ البتہ پڑھنے والوں کی معلومات کے لئے ایسے بھی مقامات پر وضاحتی نوٹ ضرور لکھتے ہیں ۔’‘ ۱۳)

انہوں نے تاریخ کے سلسلے میں بھی اس بات کا خیال رکھا ہے کہ کوئی دعویٰ بغیر دلیل کے نہ ہو۔ ص ۳۶۸ سے ص ۲۷۱ تک علی مرداں خاص کی نہر کا تذکرہ ہے اور یہ تذکرہ علم کی نہر علقمہ نہیں معلومات کی گنگا ہے حوالے ، تفصیلات، استدلال، غرض کہ کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جو نظر انداز کیا گیا ہو اور یہ انداز صرف نہر یا عمارتوں کے سلسلے میں نہیں ہے زندگی کا ایک اہم جز و طعام ہے۔ انہوں نے اس پر بھی میر امن کی طرح پوری توجہ دی ہے۔ ’’قلیہ’‘ کی بحث پڑھتے ہوئے منھ میں پانی بھر آتا ہے اور ہونٹوں پر زبان پھرانے کو بھی جی چاہت ہے۔ یہ عالمانہ بحث عرب سے ایران تک چلی آتی ہے۔

تلفظ و املا کی بحث کے سلسلے میں راقم الحروف کو اس کا احساس ہے کہ اس کے پاس توصیفی الفاظ بہت کم ہیں بہرحال جتنے الفاظ بھی ہیں وہ ان کی نذر ہیں ۔ محاورہ عام کیا تھا؟ اصل لفظ کیا تھا۔ ؟ لفظ کس طرح مسترد کیا گیا۔؟ تذکیر و تانیث کی کیا صورتیں ہیں ؟ محل استعمال کیا ہے؟ مختلف علاقوں میں کسی لفظ کی قرأت کیا ہے؟ ادائیگی کس طرح ہوتی ہے؟ یہ ساری تفصیلات بڑی جامعیت سے ملتی ہیں ۔ باقر اور باقر کی بحث پر نظر پڑی تو وسعت علم کے ساتھ فاضل مرتب کی حاضر دماغی اور ہر رخ سے مسائل کو پرکھنے کی لاجواب عادت نے بے اختیار ان کے لئے توصیفی کلمات صرف کروائے کوئی علامہ لسانیات قطب مینار جیسی شخصیت اور گنبدان قطب شاہی جیسی دستار فضیلت سر پر رکھنے کے باوجود اس جگہ پہونچ کر عجز سے سرنیاز خم کرنے پر مجبور ہے۔

اس سلسلے میں چھپا، چھپا۔ جمعہ جمعرات، گزری، گزرا کی بحثیں صفحہ ۴۴۶، ۴۶۰ اور ۵۵۷ پر دیکھی جاسکتی ہیں ۔

فاضلانہ انداز، عالمانہ شان اور محقق کا وقار اس کتاب میں ہر جگہ نظر آتا ہے۔ کسی سے ایک لفظ کا بھی استفادہ ہے تو اس کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ کھرے علم کی پہلی شرط ایمانداری ہے کچھ مثالیں ملاحظہ ہوں ۔

لکھتے ہیں :

’’بہرحال تقدم کا شرف مصنفہ ڈاکٹر عبیدہ بیگم کو حاصل ہے’‘ ۱۴)

یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر نفیس ۱۵) جہاں نے باغ و بہار پر تحقیقی مقالہ پیش کیا ہے۔ انہوں نے شاکر ناجی کے دیوان کی مرتبہ محترمہ ۱۶) افتخار بیگم صدیقی صاحبہ کا بھی تذکرہ کیا ہے اور ڈاکٹر جمیلہ جعفری صاحبہ کا بھی حوالہ دیا ہے۔ ان معزز اور محترم خواتین کے کارناموں سے راقم الحروف اپنی کم علمی کے سبب متعارف نہ تھا۔ عموماً ایسے لوگوں کا تذکرہ اس لئے نظرانداز کر دیا جاتا ہے کہ اس سے اپنی اہمیت کچھ کم ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ علم کی ایک شان انکسار ہے اور اسے شخصیت کا ایک جزو بننا چاہئے اس کے لئے دیانت، وسیع النظری اور ضبط و نظم نیز تحمل جیسی صفات ناگزیر ہیں ۔ رشید حسن خاں ان تمام صفات سے متصف ہیں ۔

انہوں نے جس سے بھی استفادہ کیا ہے اس کا حوالہ دیا ہے اور جس موضوع پر جس کا پایہ استناد مستحکم ہے اس سے ہی رجوع ہوئے ہیں ۔ اس کی ایک مثال ملاحظہ ہو۔ لکھتے ہیں :

’’ویزلی کو بہ سکون زا بھی سنا گیا اور اس طرح بھی سنا گیا کہ ’’ز’‘ قصر خفیف کے ساتھ تلفظ میں آتی ہے۔ میں نے اول الذکر کو ترجیح دی اور اس سلسلے میں جناب شمس الرحمان فاروقی کی تحریر پر اعتماد کیا ہے۔’‘ ۱۸)

یہ بہت بڑی بات ہے اور اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دیانت و متسانت علمی کسے کہتے ہیں ۔ وہ اگر چاہتے تو سینکڑوں باتیں اس طرح لکھ سکتے تھے جیسے یہ سب کچھ انہیں کی دریافت ہے لیکن جس وسیع القلبی اور حزم و احتیاط کے ساتھ انہوں نے ہر بحث کے سلسلے میں مستند افراد سے مشورہ کیا ہے وہ ہر طالب علم کو کبھی کبھی مبہوت و متحیر کر دیتا ہے۔ انہوں نے ابتداء میں ہی گیان چند کا حوالہ دیتے ہوئے ساری تفصیلات درج کی ہیں اور یہاں تک کہ محمد غوث زریں (صحیح) محمد عوض (غلط) کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے گیان چند کا حوالہ دیا ہے گیان چند نے ڈاکٹر رحمت یوسف زئی کے ذریعہ داستان چہل وزیر کا تذکرہ کیا تھا۔ یہ ممکن تھا کہ ڈاکٹر رحمت یوسف زئی کا نام نظرانداز کر دیا جاتا مگر وہ عملی دیانت کے خلاف ہوتا، اس لئے یہ تذکرہ بھی موجود ہے۔ ۱۹)

اگر یہ کہا جائے کہ تدوین متن کا یہ کارنامہ مثالی ہے تو غلط نہ ہو گا۔ انسانی ذہن متن کے سلسلے میں جتنی متعلق اور ضروری باتیں سوچ سکتا ہے وہ سب اس میں موجود ہیں لیکن اس خوف سے کہ اس کارنامہ کو فوق البشر کا کارنامہ نہ سمجھا جائے اور اس خیال سے بھی کہ ہر حُسن مجسم کو کالا تاگا باندھ دینا چاہئے کہ نظر نہ لگے، کچھ گوشوں کی طرف متوجہ کیا جا رہا ہے حالاں کہ یہ عمل ایسی ہی ہے جیسے گلستاں میں کانٹوں کی تلاش یا بدر کامل میں دھبے کی نشاندہی۔! بہرحال اس کا حرف آغاز محترم ڈاکٹر خلیق انجم صاحب نے لکھا ہے۔ حرف آغاز کے بعد مقدمہ شروع ہوتا ہے ص ۱۶ اور ص ۱۷ پر صدیق الرحمن قدوائی اور دلوی صاحب کے بھائی کا تذکر ہ ایک صفحہ کے بجائے تین چار سطروں میں ہوسکتا تھا۔ یہ تطویل ناگوار معلوم ہوتی ہے۔ خصوصاً جاگیردار اشرافیہ پر ’’طنز مسور‘۔

میر امن کے سلسلے میں کہ ان کا نام میسرا مان تھا یا نہیں تذکرہ شعرائے ہند کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ تذکرہ ۱۸۴۸ء میں مرتب ہوا تھا۔ میر امن اور کریم الدین کے درمیان بعد زمانی بہت کم ہے اور کریم الدین کے بیان پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو بظاہر ۴۳سال کا فاصلہ اور بھی کم ہو جائے گا۔ اس لئے کریم الدین کے بیا ن کو سرسری طور پر نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔ یہ مفروضہ نہیں بلکہ قرینہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کا تخلص امان بھی رہا ہو اور امن بھی اور لطیف بھی یا نام ہی امان رہا ہو۔

میر امن کے مذہب کے سلسلے میں لکھتے ہیں :

’’واضح طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ شیعہ تھے۔’‘ ۲۰)

لفظ ’’شیعہ’‘ کا اطلاق عام طور پر واقفیہ اور اثنا عشری دونوں پر ہوتا ہے۔ واقفیہ میں وہ لوگ شامل ہیں جنہیں دور حاضر میں سلیمانی، داؤدی، آغا خانی کہا جاتا ہے۔ واقفیہ کا سلسلہ امامت حضرت اسمعیل مکتوم بن حضرت امام جعفر صادق ؑ سے ملتا ہے۔ یہ بھی عرض کرنا ہے کہ کیسانیہ اور زیدی بھی اپنے کو شیعہ کہتے ہیں ۔ میر تقی خیال (صاحب بوستان خیال) بھی شیعہ تھے۔ ان کا مسلک خاطمیوں کا تھا جو آل بویہ کا مسلک تھا۔

احتیاط کا تقاضا یہ تھا کہ میر امن کو شیعہ اثنا عشری لکھا جاتا ہے۔ ایک جگہ حاشیے میں لکھتے ہیں :

’’بیان واقع کے اندراج کی بنیاد پر ابدالی مرجح ہے‘۔ ۲۱)

اس سلسلے میں اگر گنڈا سنگھ کی کتاب ’’احمد شاہ درانی’‘ جو نیویارک پبلشنگ ہاؤس سے ۱۹۶۹ء میں شائع ہوئی، ملاحظہ کر لی جائے تو یقیناً احمد شاہ کے ساتھ درانی کو ہی ترجیح دی جائے گی۔ یہی درست ہے۔ احتشام صاحب مرحوم نے بھی درانی کو ہی ابدالی پر ترجیح دی تھی۔

’’سامھنے’‘ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’اب، سامنے’‘ لکھتے ہیں ‘۔ اس سے مترشح ہوتا ہے کہ پہلے سامھنے لکھتے رہے ہوں گے اور سامنے بولتے رہے ہوں گے۔ ۲۲) عابد پیشاوری کا خیال ہے کہ سامھنے بولتے اور لکھتے بھی تھے، بعد کو سامنے ہو گیا۔ ۲۳)

’’جن پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو‘

اسے رباعی کا مصرعہ لکھا ہے۔ عابد پیشاوری کا خیال ہے کہ یہ رباعی کا مصرعہ نہیں ہے۔ ۲۴)

چڑھواں اڑایا۔ عابد پیشاوری کا خیال ہے کہ اڑایا ۲۵) ہونا چاہئے۔ ان کا خیال ہے کہ ایڑی میں ڈالتے والی بات مشکوک ہے اور اس مناسبت سے اڑایا درست نہیں ہے۔ ۲۶) میں نے (راقم الحروف) اپنے بچپن میں ۴۰۔۴۵ سال قبل اڑانا ہی سنا ہے بہ معنی اٹکا لینا، ڈال لینا، مراد پہننے سے ہو گی۔ فاضل مرتب نے ساری بحث کے بعد اڑانا کو ترجیح دی ہے۔ کراچی کی لغت میں اڑایا چھپا ہے۔ اڑانا اگر کہیں درج ہے تو اسے سہو قرار دینا چاہئے۔

’’رموز و اوقاف کی پابندی کے سلسلے میں ڈیڑھ سطر میں اپنی مرتبہ فانہ عجائب کا تذکرہ کیا ہے کہ اس میں بھی اسی طرح کی رموز و اوقاف کی پابندی کی گئی ہے۔ یہ عبارت حاشیہ میں ہوتی تو زیادہ بہتر تھا۔

ایک جگہ لکھتے ہیں :

’’یہ دروازہ لال بنگلے سے پہلے حضرت فاطمہ سام کے مزار کے آس پاس کہیں تھا۔‘

فاطمہ کے آگے سام دو جگہ اور بھی ہے لیکن گیارہویں سطر میں فرہنگ آصفیہ کے حوالے سے حضرت فاطمہ صائمہ کا تذکرہ ہے۔ یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ سام کیوں لکھا گیا۔ راقم الحروف اس سلسلے میں کوئی معلومات نہیں رکھتا۔ لیکن عقل کہتی ہے کہ جب یہ محترم خاتون کا مزار ہے تو صاحبہ مزار کی کوئی صفت ہونا چاہئے کہ سام تو موت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یہودی، سرکار عظیم المرتبت کو سام علیک کہا کرتے تھے البتہ صائمہ صفت ہے یعنی روزے دار۔ اغلب ہے کہ ان کے صائمہ ہونے کی وجہ ان کے وصفی نام کے ساتھ مزار معروف ہو اور فاطمہ صائمہ ہو۔ بہرحال سام اور صائمہ میں سے ایک ہی ہوسکتا ہے دونوں نہیں ۔ ۲۶)

عالی گوہر کا شاہ عالم کے لقب کے ساتھ اپنی بادشاہت کا اعلان ۱۲۰۹ میں درج ہے۔ یہ محل نظر ہے۔ اس سلسلے میں یہ عرض کرنا ہے کہ عرشی صاحب مرحوم کی ہر سطح کی گرد بھی ہم سب کے لئے سرمہ چشم بصیرت ہے۔ لیکن تاریخی واقعات اور اس کے استناد کے لئے ایشوری پرشاد اور رام پرشاد ترپاٹھی کو ترجیح دی جانی چاہئے تھی۔ نادرات شاہی کی ادبی اہمیت ہے تاریخی نہیں ۔ ۲۷)

’’چلتی چکی دیکھ کے رہا کبیرا روئے‘

شعبۂ ہندی بنارس یونیورسٹی کی ریڈر صاحبہ کی یہ اطلاع رام چندر شکل کی مرتبہ کبیر گرنتھاولی پر ہے۔ ہندی کے علماء کبیر کے بہت سے اشعار کے انتساب اور ان کی شخصیت کے زمانی تعین کے سلسلے میں مشکوک و مشتبہ ہیں ۔ اس سلسلے میں اتنی تفصیل کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ اتنا لکھ دینا کافی ہوتا کہ کبیر کے نام سے معروف ہے۔

تیسرے درویش کی سیر کے اختتامی حصے میں بہاء الدین برناوی کا مشہور شعراء درج ہے۔

ان نینن کا بس یہی بسیکھ

ہوں تج دیکھوں تو مج دیکھ

میر امن نے ستم یہ کہا کہ شعر کو نثر کی طرح لکھا۔ حواشی میں اگر صحیح انتساب، درست متن اور میر امن کی تحریف کا بھی تذکرہ ہوتا تو بہت خوب تھا۔

اب کے بھی دن بہار کے یونہی چلے گئے۔

اگر وضاحت ہو جاتی کہ یہ مصرع سودا کا ہے اور چلے گئے کے بجائے گزر گئے ہوتا تو بہت خوب تھا۔

خمس کی تشریح میں لکھا ہے: فقہ جعفری کے مطابق مال کا پانچواں حصہ جو غریبوں اور لا وارثوں کے لئے دیا جائے۔ صحیح صورتحال یہ ہے کہ بچت کا پانچواں حصہ خمس کہلاتا ہے جس کا نصف سہم امام علیہم السلام اور نصف سہم سادات زاد اللہ شرفہم۔ سہم امام میں سے حاکم شرع مذہبی فرائض کی بجا آوری کے لئے خرچ کرتا ہے۔ یعنی مساجد اور امام باڑہ وغیرہ کی تعمیر اور سہم سادات بنی فاطمہ کا حق ہے۔ ۲۸)

کچھ اور الفاظ کے سلسلے میں اپنی کم علمی کے اعتراف کے ساتھ وضاحت مقصود ہے۔ Present Version اور Preface لکھنے کا کوئی جواز سمجھ میں نہیں آسکا۔ جبکہ اردو میں اس کا مترادف موجود ہے۔ ۲۹)

کتاب میں ہر جگہ جز کو جزو کے معنی میں لکھا گیا ہے۔ میر انیس نے

جز خاک نہ تکیہ نہ بچھونا ہو گا

لکھا ہے کہ جز کے معنی سوا اور جز و بہ معنی ایک حصہ۔ کتاب میں دونوں کی املا ایک ہی ہے۔ اطائی انقلاب کے معنی اگر یہ ہیں تو بصدحسرت و یاس اس سے استفادہ دینے کو جی چاہتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ درسگاہوں میں یہ چلن عام ہو گا اور اس کی آڑ میں بیشتر الفاظ کی پا شکنی ہو گی۔ میں بے حد ادب سے درخواست کرتا ہوں کہ ان دونوں الفاظ کی حد تک املا کا اجتہاد و انقلاب کام نہ لایا جائے۔ ۳۰)

موچھ درج ہے لیکن سنسکرت کے علماء سے مونچھ سنا۔ ’’منھ چھو’‘ کی مناسبت سے مونچھ زیادہ درست معلوم ہوتا ہے۔

اسرار و اسرار کی دلچسپ بحث میں اسرار کو ترجیح دی ہے۔ اسرار بھوت، پریت، آسیب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ میر امن چوتھے درویش کی سیر میں لکھتے ہیں :

’’مدت سے یہ تماشا ہو رہا ہے

لیکن اب تک اسرار معلوم نہیں ہوتا۔‘

سیاق عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بھید ے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اسرار مرجح ہے۔ اسرار کی صوت اصرار کی طرف لے جاتی ہے۔

شیدی، سیدی اور سدی کی بحث کے سلسلے میں یہ عرض کرنا ہے کہ یہ سدی ہے بے معنی حبشی، میر امن نے جس نمکیں شخص کا سراپا بیان کیا ہے وہ حبشی ہی معلوم ہوتا ہے۔ حیدرآباد میں آج بھی سدی عنبر بازار موجود ہے۔

بھچنپا کا مطلب جھاڑ دار درخت نہیں ہوسکتا۔ میر حسن کہتے ہیں

کہے تو کہ جیسے بھیجنپا کے جھاڑ بھچنپا خود ایک جھاڑ (درخت) ہوتا ہے۔

سنگت کے ایک ہی معنی درج ہیں ۔ بے شک فرہنگ کا تقاضا یہی ہے لیکن اور معنی بھی اگر لکھ دئیے جاتے تو کیا خوب ہوتا جبکہ اور الفاظ کے دوسرے معنی بھی لکھ دئیے گئے ہیں ۔

سات سو صفحات کا ایک ایک لفظ موتیوں سے تولے جانے کا مستحق ہے۔ کسی بھی تنقیدی مقالے میں اتنی صاف ستھری سجی سنوری زبان نظر سے نہیں گزری۔ محققین کی حسابی اور جناتی زبان کی جو روایت ہے اس سے یہ بالکل الگ ہے۔ صرف دو جگہیں ایسی تھیں جہاں ذہن کو یہ احساس ہوا کہ وہ گلستاں میں جوئے نغمہ خواں نہیں بلکہ کسی جوہڑ کے بیہڑ راستے پر ڈھلک گیا ہے۔ مثلاً لکھتے ہیں :

’’مجھے صحیح معنی میں تعجب اس پر ہے’‘ ۔ ۔ ۔

تعجب صحیح معنی میں ہوتا ہے غلط معنی میں نہیں ہوتا۔ صحیح، معنی، یہ دو لفظ غیر ضروری ہیں ۔

اسی طرح تحریر فرماتے ہیں :

’’پرانے قلعے کے قریب یہ مقبرہ ہے لال کنور شاہ عالم کی مان کا۔!’‘ ۳۲)

پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ تحریر خاں صاحب کے شایان شان نہیں ہے۔ شاید وہ اس پہلوئے ذم کی طرف اپنی شرافت نفس کی بنا پر متوجہ نہ ہوسکے۔ دوسری بات یہ ہے کہ لال کنور شاہ عالم کی ماں نہیں تھیں ۔ شاہ عالم کے لئے قائم نے لکھا۔

دادا ترا جو لال کنور کا تھا مبتلا

اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاہ عالم جہاں دار شاہ کا پوتا تھا اور لال کنور جہاں دار شاہ کی داشتہ تھی۔ اس لئے وہ شاہ عالم کی ماں تو نہیں ہوسکتی تھی۔

ایک جگہ لکھتے ہیں :

’’صاف معلوم ہوتا ہے کہ چوں کہ انہوں نے فرض کر لیا۔ ۔ ۔ ‘‘ ۳۳)

’’کہ’‘ کے بعد ’’چونکہ’‘ خلاف سلاست ہے۔

ان کی وسیع القلبی اور اعلیٰ ظرفی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے جہاں محققین اور مدرسین کا شکریہ ادا کیا ہے وہیں اس خوش نویس کا بھی شکریہ ادا کیا ہے جس کی سات سو بارہ صفحات کی کتابت میں راقم الحروف کو صرف تین غلطیاں مل سکی ہیں ۔ صفحہ ۲۹۹ سطر۸ میں چ کے تینوں نقطے چھوٹ گئے ہیں اور ص ۲۷۲ پر میدان کے بعد ’’میں ‘‘ چھوٹ گیا ہے۔ ص ۲۷۳ پر ۱۲۶۱ھ ہو گیا ہے یہ ۱۲۱۶ھ ہے اور ممتاز حسن اور ممتاز حسین میں اس لئے ذہنی انتشار ہوتا ہے کہ راقم الحروف اپنی کم علمی کی بناء پر صرف ممتاز حسین (مرتب باغ و بہار) سے واقف ہے جن کا حال میں انتقال ہوا اور جو سرخ تنقید کے مسافر کہے جاتے تھے۔ ممتاز حسن نام کے ایک بزرگ پاکستان ریزرو بنک کے گورنر ہوا کرتے تھے۔ ہوسکتا ہے انہوں نے امیر خسرو پر کوئی کتاب مرتب کی ہو جو راقم الحروف کی نظر سے نہیں گزری لیکن باغ و بہار والے تو ممتاز حسین ہی ہیں ۔

ایک ایسی کتاب میں جہاں کسرہ و فتحہ ہر باب میں ہو اور رموز و  اوقاف کی پابندی کی گئی ہو، وہاں تلاش بسیار کے بعد تین غلطیوں کا ملنا اسے صحیفۂ آسمانی ہونے سے تو بچا لیتا ہے لیکن یہ اردو کی کتاب نہیں معلوم ہوتی! خوش نویس ابو جعفر زیدی کے قلم کو سلام !

تدوین متن کے اصول الہامی نہیں ہیں اور نہ ہی ان میں اضافہ یا ترمیم بدعت سیہ ہے۔ تدوین میں عموماً کتابیات کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن اتنی کتابوں کے حوالے دئیے گئے اور یہ ادعا بھی ہے کہ یہ کتاب مدرسین اور طالب علموں کے لئے ہے اور اس میں تقریباً نصف سے زائد حوالے ایسے ہیں جن سے اردو کے عام طالب علم اور مدرسین واقف نہیں ہیں ۔ اس لئے کتابیات ہوتی تو زیادہ بہتر ہوتا۔

آخری بات !

فاضل مرتب نے ماخذ کی بحث بہت سرسری کی۔ انہوں نے متصوفانہ پہلو کو قطعی طور پر نظرانداز کر دیا۔ بے شک ان کے اوپر یہ واجب نہیں تھا کہ وہ یہ بحث کریں لیکن ماخذ کی بحث اگر ہوتی تو یہ بہت بڑا استحباب ہوتا ہے۔

رشید حسن خاں نے مقدمہ میں کچھ متون کو مرتب کرنے کی تمنا کا اظہار کیا ہے ان میں ایک اضافہ اگر اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر کی کلیات کا بھی کر لیا جائے تو احسان عظیم ہو گا۔ اردو کی دعا ہے کہ وہ ہر خطہ نئے طور اور نئی برق تجلی سے روشناس کراتے رہیں اور طالب علم کی یہ آرزو ہے کہ وہ اپنی ساری تمناؤں کی تکمیل کر سکیں (آمین) اور دنیا میں انہیں جتنے بھی اعزازات و انعامات ملیں کم ہیں ۔ مگر میری چشم تخیل دیکھ رہی ہے کہ فرشتے ان کا یہ کارنامہ باغ بہشت میں لے گئے ہیں اور امتیاز علی خاں عرشی اسے میر امن کو پیش کرتے ہوئے مسعود حسن رضوی ادیب اور قاضی عبدالودود سے کہہ رہے ہیں کہ اب دنیا میں

آ کے سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد

نہ رہی دشت میں خالی مری جا، میرے بعد

گلزار نسیم : ایک بازیافت

تحقیق نتیجہ خیز حقائق کی بازیافت ہے۔ یہ ضروری ہے کہ محقق ذہنی دیانت کے ساتھ تخلیق کو اس کی اصل شکل میں دیکھنے کی تمنا اور تڑپ رکھتا ہو اور قاری کے سامنے اسی شکل میں پیش کرنا بھی چاہتا ہو۔ اس کے لئے یہ ناگزیر ہے کہ وہ منطق سے باخبر ہو، اور جن نتائج تک وہ پہونچے وہ اصول درایت پر پورے اتریں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب وہ اپنی فکر اور اپنے علم کو ترتیب دینے کی صلاحیت کے ساتھ ضبط و نظم کا پابند ہو۔ اور اپنے موضوع کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی فکر کو نقطہ تحقیق پر مرکوز کرنے کا ملکہ رکھتا ہو۔

یہ خصوصیت بھی اگر ہو تو بہتر ہے کہ محقق اپنی شخصیت کو قاری پر مسلط نہ کرنا چاہتا ہو اور موضوع کے بجائے خود اپنی ذات کو محور فکر بنانے کی کوشش میں نہ لگا رہے۔ یہ ٹھوس حقیقت ہے کہ ا نانیت، خودستائی اور ’’میں میں ‘‘ کی ممیاہٹ میں کڑھی ہوئی علمی شخصیت میں بیر ہوتا ہے۔ اسی لئے سچا محقق عموماً اپنے پیش کر دہ نتائج سے اپنی شخصیت کو الگ رکھتا ہے۔ اکثر محققین نے جب کسی شخصیت پر تحقیقی کام کیا تو اس کی آڑ میں اپنی شخصیت ابھارنے کی کوشش کی اور افسوس ناک طور پر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا، اس کے کارناموں کی صحیح تصویر بن سکی اور نہ ہی شخصیت کا حقیقی تعارف ہوسکا۔

تدوین متن کے سلسلے میں دکنیات میں ایسی مثالیں اکثر ملتی ہیں جہاں ایک ہی متن کئی بار مختلف افراد نے پیش کیا اور صاحب متن کی شخصیت کو پس پشت ڈال کر مرتب متن نے اپنے قد کو اونچا کرنا چاہا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایسے متون مجموعہ اغلاط ہی رہے۔

متن میں ذراسی غلطی بھی حد درجہ گمراہ کن ہوسکتی ہے۔ اگر متن ہی سے باخبری نہیں ہے اور صحت کے ساتھ متن کی قرأت نہیں کی جاسکتی تو نہ تخلیق کا حُسن سامنے آسکتا ہے نہ اس کے نقائص گرفت میں آسکتے ہیں نہ ہی اس کی تاریخیت کا عرفان ہوسکتا ہے۔ حقائق جمع کرنا اس میں سے منتخب کرنا تدوین متن کے لئے ناگزیر ہے اور بغیر اس کے اصلی متن تک رسائی ممکن ہی نہیں ۔

تدوین متن کا مسئلہ اس وقت اور بھی اہم ہو جاتا ہے جب داستانوں کی تحقیق کا مرحلہ ہو۔ داستانوں کے طلسم کشا اور صاحب قران گیان چند نے اپنی لوح طلسم یعنی ’’اردو کی نثری داستانیں ‘میں تقریباً تمام داستانوں کی نشاندہی کی ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ وہ کسی داستان کی تدوین کا حوصلہ نہ کر سکے۔ انہی کے الفاظ ہیں :

’’تحقیق متن کی دنیا سیمیا کی سی نمود ہے‘

اور اس ’’سیمیا’‘ کو وہ متن کی کیمیا میں نہ بدل سکے۔

دراصل داستانوں کا متن مرتب کرنے کے لئے اس کی تخیلی دنیا سے لطف اندوز ہونے کی ضرورت ہوتی ہے، مدرسہ کا قاری اس سے عاری ہوتا ہے۔ داستانیں صرف واقعات کا پلندہ یا بچوں کا قصہ نہیں ہوتیں بلکہ ان داستانوں میں بڑی حد تک ملک کا وقار، طبقات کی شدت احساس اور تہذیبی گروہوں کا جذباتی رجحان بھی چھپا ہوتا ہے۔ داستان نظم میں ہو یا نثر میں ، اس کا اسلوب، اس کا ڈرامہ اور علم معنی و بیان و بدیع کی نزاکتوں پر گہری نظر ہونی چاہئے۔ داستان ساز کی بنائی ہوئی دنیا میں سورج کی گرمی اور چاند کی خنکی سودوزیاں والی دنیا سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ وہ لفظوں کے گلدستے سے خوشبو پیدا کرتا ہے اور ایسے پیکر تراشتا ہے جو کرنوں کے بنے ہوئے ہوتے ہیں اور محقق اگر ان رموز سے بے خبر ہے تو وہ داستان کا متن ترتیب نہیں دے سکتا۔

رشید حسن خاں تحقیق کے مرد مومن ہیں ۔ ان کے عشق تحقیق کا قافلہ سخت جاں آج بھی سرگرم سفر ہے۔ وہ ان تمام صفات سے متصف ہیں جو ایک محقق میں ہونی چاہئیں ، خصوصاً داستانوں کے متون مرتب کرنے کے سلسلے میں

نہ ان کا کوئی مقابل نہ ان کا کوئی بدل۔

انہوں نے بڑی خوش سلیقگی اور نفاست کے ساتھ امتیاز علی خاں عرشی سے ملی ہوئی تحقیقی وراثت کو اپنے قلم کی پلکوں پر سجا کر اب تک محفوظ رکھا ہے اور عالمانہ انداز میں اس روایت کو آگے بڑھایا ہے۔

داستانوں کے وہ ماہر ہیں اور اس سے قبل ’’باغ و بہار’‘ اور ’’فسانہ عجائب’‘ جیسی نثری داستانوں کا متن کر چکے ہیں ’’گلزار نسیم’‘ منظوم ہے۔ حالانکہ اس کا اصل قصہ نثر میں ہے اور دیا شنکر نسیم نے جسے شعری پیکر عطا کر کے اسے ’’دو آتشہ’’‘ بنا دیا ہے۔ اس کی ادبی اہمیت پر اردو کے خدائے نثر نے یوں روشنی ڈالی ہے :

’’پنڈت صاحب نے ہر مضمون کو تشبیہ کے پردے اور استعارہ کے پیچ میں ادا کیا اور وہ ادا معشوقانہ خوش ادائی نظر آئی، اس کے پیچ، دہی بانکپن کی مروڑ ہیں جو پری زادیں بانکا دوپٹا اوڑھ کر دکھلاتی ہیں اور اکثر مطالب کو بھی اشاروں اور کنالوں کے رنگ میں دکھایا ہے باوجود اس کے زبان فصیح اور کلام شستہ اور پاک ہے۔

اختصار بھی اس مثنوی کا ایک خاص وصف ہے جس کا ذکر کرنا واجب ہے کیونکہ ہر معاملہ کو اس قدر مختصر کر کے ادا کیا ہے جس سے زیادہ ہو نہیں سکتا اور ایک شعر بیچ میں نکال دو تو داستان برہم ہو جاتی ہے‘۔ ۱)

آزاد نے مثنوی کی جس حَسین انداز میں توصیف کی ہے اس کے علاوہ بھی دور حاضر کے تناظر میں اس کے کچھ ایسے گوشے بھی ہیں جو گہری معنویت رکھتے ہیں :

(۱) اس مثنوی کا لکھنے والا ہندو ہے اور ’’ہر‘‘ سے اپنے کلام کا آغاز کرتا ہے لیکن اسلامی اصطلاحات و تلمیحات و قرآنی ترجمے نگینے کی طرح اپنے اشعار میں جڑتا چلا جاتا ہے۔

(۲) اردو کا یہ و احد قصہ ہے جس کے مصنفین یا مولفین کا سلسلہ بنگال سے کشمیر تک پھیلا ہوا ہے۔ عزت اللہ بنگالی، نہال چند لاہوری اور نیرنگ بہار باغ کشمیر دیا شنکر نسیم نے اس قصہ کو زندہ جاوید بنا دیا ہے۔

(۳) اس کا قصہ بھی کامروپ سے امر کنٹک کی پہاڑیوں تک پھیا ہوا ہے۔

(۴) اس میں علم بدیع کی وہ ساری صناعی موجود ہے جو اردو شاعری میں انیس و دبیر کے علاوہ کسی کے یہاں نہیں ملے گی۔

(۵) اس کی یہ اہم ترین خصوصیت ہے کہ اردو میں کسی شعری تخلیق پر اتنا زبردست ادبی معرکہ نہیں ہوا جتنا اس مثنوی پر ہوا یہ معرکہ اتنا اہم ہے کہ ایک عام طالب علم اگر صرف اس معرکہ کو پڑھ لے تو جملوں کی ساخت، صرفی و نحوی تراکیب، روزمرہ غرضیکہ زبان و بیان کے ہزاروں گوشے تاریکی سے روشنی میں آ جائیں ۔

اتنی اہم مثنوی کی تدوین مشکل نہ سمجھی گئی اور اس کے بہت سے متون مرتب کیے گئے۔ خود رشید حسن خاں صاحب اس کا ایک ایڈیشن مرتب کر چکے ہیں ۔ ۲) چکبست، قاضی عبدالودود اور صغر گونڈوی نے بھی اسے مرتب کیا ہے۔ دور حاضر کے بہت سارے افراد اپنی کتابوں کی فہرست کی زلف کو دراز کرنے کے لئے بہت سارے متون کو الٹا سیدھا مقدمہ لکھ کر شائع کراتے رہتے ہیں او ریونیورسٹیوں میں ماشاء اللہ لکچرر، ریڈر، پروفیسر بنے رہتے ہیں ، ایسے افراد نے بھی گلزار نسیم کو مرتب کیا ہو گا۔ اس طرح کے نسخوں سے قطع نظر، معتبر نسخوں میں اصغر گونڈوی کا مرتبہ نسخہ یادگار نسیم وقیع اور اہم تھا۔ انہوں نے اپنے عہد کے تقاضوں کے مطابق نسیم کی شخصیت اور ان کے کلام کے فنی محاسن پر بھی اپنے مقدمہ میں روشنی ڈالی تھی۔ لیکن یہ تسلی بخش نہ تھا، جس طرح نذیر احمد گلستاں کے باب پنجم میں بہت سارے اشعار پر قلم پھیر دیا کرتے تھے، مولانا اصغر گونڈوی بھی، جہاں کہیں شعر میں جنسیت دکھائی دی، اسے قلم زد کر گئے ہیں ۔ اس کے علاوہ تیسری دہائی میں تحقیق اس منزل تک نہیں پہونچی تھی کہ جس سے آج کے طالب علم کو تشفی ہو اور وہ گلزار نسیم کا مطالعہ کرتے ہوئے ہر زاویہ نظر سے باخبر ہوسکے!

اس قصے کے علاقے، اس کے محل وقوع، اس کی اساطیری اہمیت پر لکھا گیا ہے لیکن وہ منتشر صورت میں رہا۔ گیان چند نے امرکنٹک کی پہاڑیوں کی سیر کرائی۔ رام گڑھ کے جنگل میں لے گئے۔ دلدل کا منظر دکھایا اور دلدل کے بیچ میں قلعہ اور رات کو طلسماتی روشنی وغیرہ سے متعارف کرایا۔

ہندی ساہتیہ سمیلن والوں نے مانک ہندی کوشش میں لکھا کہ :

’’اگستیہ نام کا درخت و پھول بگلے کی طرح سفید ہوتا ہے۔ گل بکاؤلی کے لئے لکھا کہ ہلدی کی ذات کا پودا جو عام طور سے دلدل میں ہوتا ہے۔ لمبوترا اور خوشبودار اور آنکھوں کے امراض کے لئے مفید ہوتا ہے‘۔ اس کی اساطیری اہمیت پر بھی کافی سوشگافیاں ملتی ہیں ۔ مثلاً سون بھدر بکاؤلی پر عاشق ہوا اور پھر جوہلا پر عاشق ہو گیا۔ بکاؤلی نے لات مار کر دونوں کو پانی بنا کر بہا دیا۔ دریائے نربدا اور سون ’’سزا یافتہ کردار’’‘ ہیں ۔

محترم حیات اللہ انصار ی نے بتایا کہ جہاں سے دریائے سون و دریائے نربدا نکلتے ہیں وہاں بکاؤلی نام کا ایک پودا ہوتا ہے اس میں پھول بھی آتا ہے آج کل اس کا سوکھا پھول دو۔ دو روپیئے میں بکتا ہے اور مقامی دواساز ایک پھول لے کر گائے کا گھی اور کافور اور جانے کیا کیا ملا کر دوا بناتے ہیں ۔

گلزار نسیم کے موجودہ نسخے میں ان تمام اساطیری اور طلسماتی قصوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے محاکمہ کیا گیا ہے۔ لکھتے ہیں :

’’کسی اور علاقے میں اور اس میں ’’امرکنٹک’’‘ کا بھی علاقہ شامل ہے۔ تحریری صورت میں اس سے پہلے کوئی کہانی نہیں ملتی۔ اس سلسلے کی یہ بات بھی ہے کہ عزت اللہ نے لکھا ہے کہ دو شہر از شہر ہائے شرقستان تاجدار بود کہ اور ازین الملوک گفتندے‘۔

تاجدار کے نام سے یہاں بحث نہیں کیونکہ وہ مؤخر صورت ہو گی۔ اصل بحث شرقستان سے ہے۔ ہندوستان کا مشرقی علاقہ وہی ہے جس میں آسام و بنگال شامل ہے۔ ۔ ۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ اس کہانی کا ہیرو بنگال کے علاقے سے آیا تا اور امرکنٹک کے علاقہ سے ہیروئین کو اور پھول کو ساتھ لے گیا تو اسے قرین قیاس کہا جاسکتا ہے۔ اس صورت میں یہ بات آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ اس قصہ کی قدیم ترین تحریری شکل کیوں علاقہ بنگال سے تعلق رکھتی ہے۔ عزت اللہ کی صراحت کے مطابق یہ قصہ بہت مشہور تھا ظاہر ہے کہ ہیرو جب ہیروئن کو (اور شاید پھول) کو بھی اپنے دیس واپس لے گیا ہو گا تو اس کی محیرالعقول مہم جوئی، خطرپسندی اور بہادری اور پھر کامیابی کی داستانیں تو اسی کے دیس میں بنی ہوں گی اور انہوں نے وہیں شہرت پائی ہو گی۔ ۴)

اس اقتباس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس کہانی کا علاقہ اور محل وقوع کیا ہے اور یہ کس طرح کا روپ سے لے کر وسطی ہندوستان تک کو اپنے دائرہ میں لیئے ہوئے ہے۔

اس کا قصہ مکمل طور سے ہندوستانی اور سیکولر ہے، زین الملوک تاج الملوک، روح افزا غیرہندوستانی سے لگتے ہیں ۔ محمودہ میں ہلکی سی اسلامیت کی جھلک ہے، لیکن یہ سارے نام بالکل اسی طرح سے سیکولر ہیں جیسے آنجہانی مالک رام نے اپنے بچوں کے نام رکھے تھے یا جیسے بیسویں صدی کے آغاز تک راج بہادر، تاج بہادر اور اقبال بہادر قسم کے نام رکھے جاتے تھے۔

رشید حسن خاں نے متذکرہ پہلو کے ساتھ بڑی فراخدلی سے قصہ کے اجزاء و عناصر کے سلسلے میں گیان چند کے نتائج تحقیق کو مختصراً پیش بھی کیا ہے اور ان کا اعتراف بھی کیا ہے۔

قصہ گل بکاؤلی کی منظوم حیثیت پر بھی انہوں نے روشنی ڈالی ہے۔ اس سلسلے کا ایک دلچسپ واقعہ بھی درج ہے۔ کراچی میں ’’اردو ادب کی تاریخ مرتب کی گئی، مرتب ہیں عبدالقیوم لکچرر کراچی یونیورسٹی۔ ان کی اس تاریخ میں حبیب اللہ غضنفر صاحب لکچرر اردو کالج کراچی کا ایک مضمون ہے ’ ’دیسی زبانوں کی ترقی میں مسلمانوں کا حصہ’’‘ اس سلسلے میں انہوں نے ص ۱۴۶ پر اس عہد کے ایک بڑے شاعر نوازش خاں کا تذکرہ کیا ہے جس نے گل بکاؤلی کا قصہ پہلی بار نظم کیا۔ یہ نوازش خاں ۱۶۳۸ء میں حیا ت تھے، ۱۷۶۵ء میں انتقال ہوا۔ چٹگام کے رہنے والے تھے تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند میں بھی ان کا تذکرہ ہے۔ ۵)

رشید حسن خاں نے تفصیلی بحث کر کے یہ ثابت کیا کہ یہ قصہ عزت اللہ کے بعد کا ہے اور اس طرح گل بکاؤلی کا توقیت نامہ بھی تیار کر دیا کہ ۱۷۲۰ء اور ۱۷۳۰ء کے درمیان عزت اللہ نے لکھا پھر ریحان کی مثنوی ۱۷۹۷ء سے ۱۷۹۸ء کے درمیان، نہال چند کی ’’مذہب عشق’’‘ ۱۸۰۳ء میں اور پھر گلزار نسیم ۱۸۳۸ء میں لکھی گئی۔ انہوں نے رفعت کی مثنوی اور تلسی رام عزیز کی مثنوی قصہ گل بکاؤلی کے سلسلے میں بھی حقائق پر سے پردہ ہٹایا ہے۔ نہال چند لاہوری نے جو ترجمہ کیا تھا اس میں اصل متن سے کہیں کہیں انحراف بھی ہے۔ اس کا بھی ذکر ہے اور یہ کہ میر شیر علی افسوس نے جگہ جگہ ’’مذہب عشق’’‘ کی سست عبارت کو ’’چست و درست’’‘ کیا ہے۔

ریحان کی مثنوی یا اس سے استفا دے یا سرقے پر بھی اچھی بحث ملتی ہے۔ سنٹرل یونیورسٹی آف حیدرآباد میں عزیزی ڈاکٹر محمد کلیم الحق قریشی نے بڑی دیدہ ریزی اور کدو کاوش کے ساتھ ریحان کی مثنوی کو مرتب کیا اور مقدمہ لکھا، ان کے پیش نظر ریحان کا نسخہ حیدرآباد اور نسخہ کراچی بھی تھا۔ وہ غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل ہیں اور کسی بھی استاد کو ان پر بجا طور سے فخر ہوسکتا ہے۔ لیکن وہ ریحان کی مثنوی کی زبان اور اس کے لہجہ پر غور نہ کر سکے اور سرسری طور سے اس جہاں سے گزرے۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ریحان اور نسیم کے متحد المضامین اشعار ساڑھے سینتیس اشعار قرار پاتے ہیں ۔ جہاں تک ذاتی خیال ہے رفعت نے ریحان سے استفادہ کیا ہے، نسیم نے نہیں ۔

رشید حسن خاں نے جہاں عزیزی ڈاکٹر محمد کلیم الحق قریشی کے مقالہ پر جرح کی ہے وہیں سید خورشید علی حیدرآبادی کے اس مضمون کی بھی حلاجی کی ہے جس میں انہوں نے ریحان کی مثنوی کو متعارف کرایا تھا۔ اس مثنوی کے بارے میں رشید حسن خاں سے اتفاق کرتے ہوئے یہ لکھنا پڑتا ہے کہ :

(۱) ریحان لکھنوی نہ تھا بلکہ اردو جاننے والا بنگالی رہا ہو گا۔

(۲) موزوں طبع تھا لیکن متشاعر تھا۔ اس کے صرف تین مصرعے درج ہیں :

پوشاک لباس سب چھنا لیں

استاد جی واہ آفریں باد

جیسے ہو کوئی مٹھائی رنگیں

رشید حسن خاں نے اس کے دو شعر اور نقل کئے ہیں ۔

وہابیوں نے ہے سر اٹھایا ۔ ۔ ۔ یک خلق کو ہے غرض ستایا

جہاں تک حافظہ سات دیتا ہے، وہابی تحریک انیسویں صدی کی ہے اٹھارہویں صدی کی نہیں ، کم از کم ۱۷۹۰ء کے بعد کی ہی تھی۔ مرتب متن نے اس سلسلے میں صفحہ ۱۰۱ سے ۱۲۳ تک مدلل بحث کر کے یہ ثابت کیا کہ نسیم کے پیش نظر ریحان کی مثنوی ہونے کا امکان ہے لیکن استفا دے یا سرقے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

نسیم کے حالات زندگی بھی ممکنہ استناد کے ساتھ پیش کئے گئے اور قطعیت کے ساتھ یہ ثابت کیا گیا ہے کہ دیا شنکر نسیم اپنے آبائی مذہب پر ہی رہے۔ اس کے ساتھ چکبست کی ان روایتوں کو بھی رد کیا ہے جن سے نسیم کی شخصیت خواہ مخواہ کے لئے ایک تنک مزاج غیرمسلم کی بنتی ہے۔ وہ اشعار جن پر مبینہ طور سے نسیم کی گرہ لگانے کا ذکر ہے ان کے بارے میں کالی داس گپتا رضا پہلے ہی لکھ چکے ہیں ۔ اس بازیافت میں بھی چکبست کی اس غیر ضروری جانبداری کی تردید کی گئی ہے۔ اصغر نے نسیم کی غزلوں کا بھی ذکر کیا ہے ان کی غزلوں کے دو مصرعے ہر لمحہ ذہن میں گونجتے رہتے ہیں ۔

جان پڑی تب بار شکم تھے مر کے وبال دوش ہوئے

یہ چاند اس کے ساتھ چلا جو جدھر گیا

لیکن رشید حسن خاں نے نسیم کی غزلوں پر غالباً اس لئے روشنی نہیں ڈالی کہ وہ ان کے دائرہ کار سے باہر تھی۔ البتہ نسیم کی شخصیت پر وہ جتنی معلومات فراہم کر سکے وہ انہوں نے اکٹھا کر دیں ۔

اس بازیافت کا بے حد اہم حصہ معرکہ چکبست و شرر پر محاکمہ ہے صفحہ ایک سو ستائیس سے ایک سو چالیس تک اس معرکہ کا پس منظر بیان کیا گیا ہے صفحہ ۲۳۷ سے یعنی ضمیمۂ تشریحات سے صفحہ ۵۲۰ تک اختلاف نسخ کے ساتھ اس معرکہ کی حلاجی بھی کی گئی ہے۔ جن لوگوں نے اس معرکہ میں حصہ لیا تھا ان کے خیالات بھی اور ان کے بارے میں بہت ساری معلومات فراہم کی گئی ہیں ۔

اس ضمیمہ تشریحات میں بہت ساری ضمنی باتیں اتنی اہمیت رکھتی ہیں کہ ان کا تذکرہ ضروری معلوم ہوتا ہے مثلاً معرکہ چکبست و شرر کے مرتب کا نام تو سید محمد شفیع شیرازی تھا لیکن نقاد لکھنوی کے نام سے جو بزرگ اس معرکہ میں کود پڑے تھے ان کا اسم گرامی نوبت رائے نظر تھا۔ ۷)

’’جیب’‘ اور ’’جیب’‘ کی معلومات آفریں بحث میں پتہ چلا کہ جیب مذکر ہے اور جیب مونث ہے۔ ۸)

اس لطیف فرق سے بس گہری نظر رکھنے والے ہی باخبر ہوتے ہیں ۔ ایک لفظ ’’آشنا’‘ کا بیان ہے۔ ذہن اس طرف نہیں جاتا کہ اس لفظ کے ایک معنی پیراک کے بی ہیں ۔ ۹)

اسی طرح ریگ ماہی کی بحث پڑھئیے تو آنکھیں کھل جاتی ہیں جہاں تک ’’ریگ ماہی میں اضافت کا تعلق ہے تو یہ مرکب لازم’‘ بغیر کسرہ اضافت درست ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ اس میں اضافت مقلوب ہے۔ ماہی ریگ (ریت کی مچھلی) مقلوب ہو کر ریگ ماہی بن گیا۔ یہ مسلم ہے کہ ترکیب مقلوب میں اضافت کا زیر نہیں آسکتا۔ اضافت کا زیر مضاف کے حرف آخر کے نیچے آتا ہے۔    میں جو ’’ریگ ماہی’‘ ہے، اسی بناء پر وہ قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ مجھے زیادہ تعجب اس پر ہے کہ اردو لغت میں اسے مع کسرہ اضافت ’’ریگ ماہی’‘ لکھا گیا۔ مرتبین لغت نے اس لفظ کی ساخت پر غور ہی نہیں کیا۔ ۱۱)

معلومات کا ایک پرسکون سمندر ہے جس سے ہر سطح کا طالب علم استفادہ کر سکتا ہے۔ کچھ مثالیں درج کی جاتی ہیں :

’’حلوا’‘ الف سے ہے ۱۲)

’’اختراع’‘ کو عموماً مونث سمجھا جاتا ہے، مذکر ہے ۱۳)

ناسخ کا شعر نور اللغات میں غلط درج ہو گیا۔ گرفت کی گئی اور بتایا گیا کہ یہ شعر ناسخ کا نہیں ہے۔ ایک جگہ یہ بھی نظر سے گزرا کہ مالک دروغہ جہنم کو تو کہتے ہی ہیں ، حضرت یوسف ؑ کو جس نے خریدا تھا اس کا نام بھی مالک تھا۔ یہاں ضمناً یہ عرض کرنا ہے کہ ارم بنی عاد کا بادشاہ تھا اور شداد کا دادا تھا۔ اسی کے نام پر شداد نے اپنی ساختہ جنت کا نام ’’باغ ارم’‘ رکھا تھا۔

لغات و محاورہ پر گہری نظر رکھنے کے لئے ساتھ ضمیمہ حصہ دوئم میں جہاں صحیح قرأت کے لئے تلفظ و املا لکھا گیا ہے، وہیں روزمرہ پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ دو مثالیں پیش ہیں :

’’رضا، خوشنودی کے معنی عربی میں ۔ ۔ ۔ آصفیہ میں رضا ہے یعنی ’’ر’‘ پر ’’زبر’‘ بھی ہے زیر بھی۔ سننے میں بالعموم بالفتح اول آتا ہے‘۔

دوسری مثال لفظ ’’خوش خبر’‘ کی ہے۔

نسیم کا شعر ہے

شادی کی خبر سے خوش خوش آئی ۔ ۔ ۔ مشتاق کو خوش خبر سنائی

شرر و چکبست کے مباحثہ کے ساتھ فارسی کے اور حیرت انگیز طور پر خاور نامہ سے اور ذوق کے شعر سے مثال پیش کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ نسیم نے غلطی سے اس لفظ کو پیش نہیں کیا بلکہ وہ اسی طرح اس کا استعمال درست سمجھتے تھے۔

بے شمار الفاظ کے لئے صحیح تلفظ اور ان کی ادائیگی کے لئے اعراب بھی لگائے گئے ہیں اور روزمرہ بھی لکھ دیا ہے۔

یہ درست نہیں ہے کہ محقق اس کو کہتے ہیں جو اقلیدسی زبان لکھتا ہو اور تنقیدی صلاحیت سے بے بہرہ ہو بلکہ اگر تجزیہ اور تحلیل کے بغیر تفہیم کی کوشش کی جائے گی تو وہ بے معنی ہو گی اور تنقیدی عمل تجزیہ اور تحلیل سے ہی عبارت ہے۔

رشید حسن خاں کی تحقیق میں دریافت محض نہیں ہے کہ بلکہ اعلیٰ ترین تنقیدی بصیرت ملتی ہے۔ ایک مثال ملاحظہ ہو :

’’بولی وہ کہ ہوے کو ہوا ہے ۔ ۔ ۔ جو غنچہ کو گل کرے صبا ہے

بولا وہ یہی تو چاہتا ہوں ۔ ۔ ۔ گل پاؤں تو میں ابھی ہوا ہوں

یہ شعر بھی حسن تعبیر کا عمدہ نمونہ ہے۔ بیان وہی جنسی عمل کی تکمیل کی علامت قرار دیا ہے۔ ۔ ۔ محمودہ کا یہ کہنا کہ ہوا تو چلتی ہی رہتی ہے جس ہوا سے کلی کھل سکے اسے صحیح معنوں میں صبا کہنا چاہئے۔ اشارتاً یہ خیال ہے کہ جنسی عمل کی تکمیل نہ ہو تو پھر صبا کے وجود (یعنی مرد کے وجود) کا حاصل کیا۔ اس کے جواب میں تاج الملوک کا یہ کہنا ہے مجھے پھول مل جائے تو میں ابھی ہوا بن جاؤں ، پہلو دار انداز بیان ہے اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ مجھے پھول (گل بکاؤلی) مل جائے تو میں بھی وہی کام کروں جو باد صبا صبح کے وقت انجام دیتی ہے یعنی کلی کو کھلاتی ہے (مراد یہ ہے کہ جنسی عمل کی تکمیل ہو جائے)

ایک مفہوم یہ بھی نکلتا ہے کہ پھول مل جائے تو میں ابھی ہوا ہو جاؤں ، یعنی فوراً چل دوں ، ہوا ہو جانا محاورہ ہے’‘ ۱۴)

عملی تنقید کے اس اعلیٰ معیار کے پیش نظر جی چاہتا ہے کہ دو مثالیں اور درج کی جائیں تاکہ گلزار نسیم کی تدریس کے وقت فاضل اساتذہ کرام یہ دیکھیں کہ اشعار سمجھانے کے لئے اور طالب علم میں ادب سے دلچسپی پیدا کرنے کے لئے کیا طریقہ اختیار کیا جانا چاہئے۔

’’جو نخل تھا سوچ میں کھڑا تھا ۔ ۔ ۔ جو برگ تھا ہاتھ مل رہا تھا

اس سے پہلے شعر میں کہا گیا ہک شمشاد دم بخود کھڑا تھا۔ یعنی ساکت خاموش۔ اس شعر کا پہلا مصرعہ بھی اس مفہوم کو دہرا رہا ہے اور ہر درخت چپ چاپ دم بخود تھا۔ دم بخود ہونے اور سوچ میں کھڑے رہنے کا مضمون اس نسبت سے پیدا کیا ہے کہ ہوا سے پتیاں تک نہیں ہل رہی ہیں مگر دوسرے مصرعہ کا انداز بیان اس صورتحال کے منائی ہے، ہوا چلنے سے پتے ہلتے ہیں اور ایک دوسرے سے رگڑ بھی کھاتے ہوں ، اسے (عالم حیرت و افسوس میں ) ہاتھ ملتے سے تعبیر کیا ہے لیکن پتوں کا ہوا سے اس طرح متحرک ہونا، درختوں کے دم بخود کھڑے ہونے کے منافی ہے۔ نخل اور برگ کی رعایت نے معنوی پہلو کی طرف شاعر کی توجہ منعطف نہیں ہوے دی اور بیان کی اس خامی تک اس کی نظر نہیں پہونچ سکی۔ اس شعر کے دونوں مصرعوں میں الگ الگ انداز سے صنعت حُسن تعلیل ہے۔ درخت کے ساکن ہونے کی وجہ سے ہوا کا نہ چلنا، مگر شاعر نے ایک شاعرانہ وجہ اس کے لئے فراہم کی ہے کہ وہ حیرت و افسوس کی تصویر بن گیا تھا، ساکٹ، دم بخود، دوسرے مصرعے میں ہوا سے متحرک ہونا اصل وجہ ہے، مگر یہاں بھی شاعر نے ایک دوسری شاعرانہ وجہ بتائی ہے۔

یہاں مجھے ثاقب لکھنوی کا یہ مشہور شعر یاد آ گیا

باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے

جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

نسیم سے تقابل منظور نہیں ۔ ہو بھی نہیں سکتا۔ صرف یہ کہنا ہے کہ ہوا سے پتوں کے متحرک ہونے سے ایک دوسرے شاعر نے ایک مختلف کام لیا ہے اور حس بیان کے لحاظ سے وہ کامیاب رہا ہے‘۔

عملی تنقید کی ایک اور مثال ملاحظہ ہو

’’بیڑی تھی رخ جنوں کی کاکل ۔ ۔ ۔ پابوسی گل کو آیا سنبل

اس سے پہلے شعر میں کہا گیا ہے کہ بکاؤلی کے پیروں میں بیڑیاں ڈال دیں ۔ اس شعر میں نہایت عمدہ شاعرانہ تعبیرات کے ذریعہ اس خیال کو ادا کیا ہے کہ وہ تو محبت کی زنجیروں میں خود گرفتار تھی۔ کاکلوں کو زنجیروں سے تعبیر کیا ہے۔ کاکلیں چہرہ پر بکھرتی ہیں ۔ اس رعایت سے رخ جنوں کہا گیا ہے۔ پہلے مصرعہ میں ’’بیڑی’‘ آیا ہے بیڑیاں پیروں میں ڈالی جاتی ہیں ۔ اس نسبت سے دوسرے مصرعہ میں ’’پا’‘ کا لفظ لایا گیا ہے۔ رخ اور کاکل پا اور پیروی میں مناسبت ہے ۔ مگر ان سب رعایتوں سے بڑھ کر یہ تعبیر بے مثال ہے کہ اس کے پیروں میں بیڑیاں ڈالی گئیں ، تو ایسا معلوم ہوا کہ گل کے پیر چومنے کے لئے سنبل نے اپنی لٹیں پھیلا دی ہیں ۔ گل سے مراد بکاؤلی ہے اور سبنل (بالچھڑ) تو شعراء محبوب کی زلفوں سے اور گیسو سے تشبیہ دیتے ہیں اس نسبت سے اسے زنجیروں سے بھی تعبیر کرتے ہیں ۔ (نسیم نے خود بھی کہا ہے: ’’مشکیں کس لی نہ تو نے سنبل‘) ۔ سنبل پھیل کر پھول کی شاخوں میں (یعنی پیروں ) میں لپٹ جاتا ہے یعنی گل کے پیر چوم رہا ہے۔ بکاؤلی کے پیروں میں بیڑیاں بھی ایسی ہی معلوم ہوتی ہے جیسے اس کی قدم بوسی کے لئے آئی ہوں ۔’‘ ۱۶)

اس بازیافت میں بے شمار محاسن ہیں ۔ اس کے ماخذ کے سلسلے کے مباحث گل بکاؤلی کے قصہ اور دیگر ہندوستانی قصوں کے درمیان مماثلتوں کی تلاش، معرکہ، چکبست و شرر میں جرأت مندانہ ایمانداری کے ساتھ محاکمہ اور دونوں کی انتہاپسندی کی نشاندہی، گلزار نسیم کے مختلف نسخوں کے درمیان اختلاف نسخ کی تشریح معافی و بیان کے ساتھ علم بدیع کی روشنی میں گلزار نسیم کی صنعتوں اور دیگر محاسن کا تذکرہ۔ ۔ ۔ یہ سب مل کر اس بازیافت کو نہایت اہم بناتے ہیں لیکن ان سب سے بالاتر وصف اصل متن، یعنی شیخ عزت اللہ بنگالی کے فارسی کے متن کی پیشکش ہے۔ اس متن کا تذکرہ پڑھا اور سنا گیا مگر اسے دیکھنے کا شرف پہلی بار ملا۔

رشید حسن خاں کی عالی ظرفی قابل ستائش ہے۔ اس کتاب کا انتساب نیر مسعود کے نام ہے۔ انتساب عموماً دنیاوی فائدہ کے لئے کیا جاتا ہے۔ یہ انتساب علمی دیانت کا بھی مظاہرہ ہے اور اپنے سے کم عمر محقق کے لئے اعتراف خدمات کا درجہ رکھتا یہ۔ نیر مسعود بہت بڑے باپ کے بہت بڑے بیٹے ہیں اور بقول شخصے موتی لال نہرو کے جواہر لال نہرو ہیں ۔ حالانکہ وہ فارسی کے فارس میدان کی حیثیت سے معروف ہیں لیکن اردو ادب کو بھی انہوں نے بہت کچھ دیا ہے۔ شاید گیان پیٹھ ایوارڈ سے بھی انہیں (اور ہم سب کو) اتنی مسرت نہ ہوتی جتنی گیان چند کے توصیفی کلمات اور رشید حسن خاں کے اس انتساب سے ہوئی ہے۔ اس انتساب کے لئے رشید حس خاں کو مبارک باد!

عالی ظرفی کے ساتھ وہ اعلیٰ اخلاقی جرأت بھی رکھتے ہیں ۔ جس عربی عبارت کو وہ خود نہ پڑھ سکے تھے انہوں نے اس کے لئے بنارس کے ظفر احمد صدیقی سے مدد لی۔ ڈاکٹر ظفر احمد صدیقی نے شاعر کی نشاندہی کی اور اشعار نقل کر کے بھیجے۔ رشید حسن خاں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ اسی طرح وہ شعر نمبر ۱۳۰۔

دانا تھی جہل خانہ آئی ۔ ۔ ۔ بگڑی ہوئی کو بنانے آئی

جہل خانہ کو جیل خانہ پڑھتے تھے۔ مولانا عرشی نے متوجہ کیا کہ پرانا لفظ جہل خانہ ہے۔ انہوں نے اپنی اصلاح بھی کی اور اپنی غلطی کا اعتراف بھی۔

ایک بات۔ اسے ایک ادنیٰ سے طالب علم کی تمنا سمجھنا چاہئے، اگر موصوف نے اس کی بھی وضاحت کر دی ہوتی کہ نسیم نے ہر جگہ قلم کی اہمیت کی طرف کیوں متوجہ کیا اور حمد باری کو قلم کا ثمرہ کیوں قرار دیا اور میر حسن نے ساقی کو کیوں مخاطب کیا ہے، تو کتنا اچھا ہوتا! درسگاہوں کے لاکھوں اساتذہ انہیں دعائیں دیتے۔!

تحقیق میں توقیت نگاری دلچسپی پیدا کرتی ہے اور اس میں تاریخ کا سا مزا آنے لگتا ہے۔ راقم الحروف کو یہ لکھنے کاحق ہے اگر سلیقہ تحریر ہے تو اس طرح کی تحقیقی کتابیں پراسرار اور تجسس سے بھری ہوئی ناولوں سے زیادہ دل کش اور دلچسپ ہوتی ہیں ۔ کیونکہ ناولوں سے معلومات نہیں فراہم ہوتیں اور یہاں ہر جہا جہاں دیگر نظر آتا ہے۔ سلیقہ، تحریر کے لئے شائستہ مگر خوبصورت زبان ضروری ہے۔ رشید حسن خاں کے دو تین جملے ملاحظہ ہوں :

’’بعض مقامات پر انداز بیان نے یہ صورت پیدا کر دی تھی کہ سخن فہمی پر طرف داری کا رنگ غالب آ گیا تھا‘۔

’’دونوں طرف سے ایسی تحریریں لکھی گئیں جنہیں پڑھ کر معقولیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے اور شائستگی آنکھیں بند کر لیتی ہے۔‘

اتنی خوبصورت زبان لکھنے والا جب ’’استعمالات’‘ لکھتا ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ذوق سلیم کا اسپ صبا رفتار سکندری کھا گیا ہو۔ کیسے ان لوگوں سے شکوہ کیا جاسکے گا جو لفظوں کی ’’سینڈوچ’‘ بناتے ہیں اور تیتر بٹیر زبان لکھتے ہیں ۔

اسی طرح صفحہ ۲۹۹ پر ’’مختارات’‘ کا لفظ ملا۔ ہوسکتا ہے کہ ’’مخترعات’‘ کی کتابت کی غلطی ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ راقم الحروف کو ناواقفیت کی بناء پر یہ لفظ کھٹکا ہوا۔ حالانکہ عبا بردوش و عمامہ برسر افراد سے بھی اس طرح یہ لفظ سننے کو نہ ملا۔

ص ۴۰۵ پر ایک مصرعہ غلط درج ہو گیا۔ لکھا ہے کہ

ہر سخن موقع و ہر نکتہ مکانے دارد

دراصل یہاں لفظ ’’مقامے’‘ ہے۔ میر انیس کا مشہور بند

’’ہے کجی عیب مگر‘۔ ۔ ۔ الخ کی بیت ہے :

داند آنکس کہ فصاحت بکلامے دارد

ہر سخن موقع و ہر نکتہ مقامے دارد

رشید حسن خاں کی مرتبہ کتابوں میں اغلاط تلاش کرنے پر بھی نہیں ملتیں لیکن ص ۱۶۰ پر شعر نمبر۱۴۸ میں ’’چکھوں ‘‘ کے بجائے ’’چھکوں ‘‘ ہو گیا ہے۔

اشعار کے متن کے سلسلے میں کہیں کہیں ان سے اختلاف ہوسکتا ہے ۔ مثلاً شعر نمبر۱۲۰ میں ’’سلطنت ہی’‘ کے بجائے ’’سلطنت ہے’‘ مرجح معلوم ہوا۔ اسی طرح شعر نمبر ۱۹۷ میں دوسرا مصرعہ ’’تارے میں اتاروں آسماں سے’‘ زیادہ اچھا لگتا ہے۔

استخارہ کے معنی (۱۲۷۰) لکھتے ہیں :

’’کام کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں غیبی اشارہ معلوم کرنا۔

(۱) عشاء کی نماز بعد دعائے استخارہ پڑھ کر اس امید میں سوجانا کہ خواب میں رہ نمائی ہو۔

۲ ۔ درود اور مقررہ دعا پڑھ کر تسبیح کا تھوڑا سا حصہ دونوں چٹکیوں سے پکڑنا اور دو دو دانے کر کے طرح دینا۔ آخر میں طاق سے اجازت اور جفت سے مخالفت کا حکم لگانا۔

۳ ۔ خاص دعا پڑھ کر قرآن کریم کھولنا اور مقررہ اصول کے مطابق حکم الٰہی دریافت کرنا۔ دیوان حافظ سے فال لینا ۱۹)

استخارہ کے اصل معنی ہیں طلب خیر۔ اس میں پہلے معنی پر القاء کا اطلاق ہو گا۔ دوسرے معنی میں دراصل استخارے کا ایک طریقہ ہے۔ تیسری شکل فالکی ہے، استخارہ کی نہیں ۔ استخارہ کی ایک قسم ذات الرقاع کہلاتی ہے۔ ایک استخارہ سجادیہ ہوتا ہے۔

یہ کچھ فقرے اس لئے بھی لکھے گئے کہ اس اہم تحقیقی کارنامے کو صحیفۂ آسمانی نہ سمجھ لیا جائے۔ ورنہ سچ تو یہ ہے کہ اس کتاب کا ایک ایک لفظ بکاؤلی کے پھول کی طرح ذوق سلیم کی آنکھوں کو ادبی بصیرت عطا کرتا ہے۔ تحقیق کی دنیا میں جو ایک طرح کا سناٹا سا ہو گیا تھا اسے رشید حسن خاں نے دور کیا ہے۔ وہ اردو تحقیق کی آبرو ہیں اور گلزار نسیم کی یہ بازیافت اردو تحقیق کا ایسا پھول ہے جن کی خوبی دلوں کو تسخیر کرتی ہے اور جس کی مہک لازوال ہے۔

اردو داستانیں

’’اور انہیں منع کیا گیا تھا کہ وہ اس درخت کے پاس نہ جائیں ’’مگر وہ بہکاوے میں آئیں گے اور جیسے ہی اس درخت کے قریب آئے دونوں کے سر کھل گئے اور وہ پتوں سے اپنے جسم کو ڈھانکنے لگے۔ انہیں ندامت ہوئی کہ وہ سا درخت کے پاس کیوں گئے؟ کھلے ہوئے صریح دشمن کی باتوں میں کیوں آ گئے؟ انہوں نے توبہ کی۔ اور پھر ا نہیں دنیا میں بھیج دیا گیا۔

لیکن وہ درخت کیسا تھا؟ کیا وہ شجر حیات تھا یا شجر شباب یا شجر حسہ؟ اس کی وجہ سے شتر کیوں کھل گیا؟ اگر اس درخت کو ہی تسخیر کلیا ہوتا تو یہ ندامت نہ ہوتی اور اس طرح سے نکالے نہ گئے ہوتے مگر اب جب یہاں آ ہی گے ہیں تواس مکار کی دلفریب باتوں میں نہ آنا چاہئے اس لئے لڑنا چاہئے تاکہ پھر ستر نہ کھل جائے۔

ارد وداستانوں کا محور خیر و شر کی یہی معرکہ آرائی اور تسخیر فطرت کی یہی کوشش ہے یعنی شجر حیات کا راز جانے کی تمنا اور تڑپ اور پلکوں پر سجے ہوئے خوابوں کی تعبیر پا لینے کی آرزو۔

اس روشنی میں کسی داستاں پر نظر ڈالئے یہ معلوم ہو گا کہ ایک طرف خیر کی طاقت شر سے نبرد آزما ہے دوسری طرف خیر کی قوتیں اس کائنات کی تسخیر کرنا چاہتی ہیں اس راز کو معلوم کرنا چاہتی ہیں جو راز نہ جانے کی وجہ سے ندامت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ راز جاننے کی یہ کوشش اپنا آئیڈیل بھی رکھتی ہے اور یہ آئیڈیل ہے۔ زندگی کو حَسین سے حَسین تر بنانا اور انسانی عظمت کا اعلان۔ یہ جو طلسمات کی معرکہ آرائیاں ہیں یہ جو پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں دریا خشک ہو جاتے ہیں ، ریگستان میں سمندر کا تموج پیدا ہو جاتا ہے درخت بولنے لگتے ہیں پھر شعلہ صفت بن جاتے ہیں ۔ افراسیاب ہزاروں میل کے فاصلے تو چشم زدنی میں طے کر لیتا ہے۔ عمر و عیار گلیم کے ڈرامہ سب کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے تخت رواں فضاء میں پروانہ کرتا ہے۔ یہ سب اور اس قبیل کے ہزارہا واقعات تسخیر فطرت وتسخیر زماں و مکاں کا عمل انجام دیتے ہیں ؤ یہ جادوگر ہوں یا عامل یا خدا پرستوں کی صف میں شامل ہونے والے جادوگر۔ یہ سب کسی نہ کسی نہج سے تسخیر کائنات یا تسخیر فطرت کے عمل میں مصروف نظر آتے ہیں ۔

نمبر ۱  و نمبر۲ پر طلسم ہوشربا کے کردار ہیں ۔

اب فرق یہ ہے کہ اس تسخیر فطرت کا کوئی مقصد ہونا چاہئے، اگر یہ تسخیر انسانی عظمت کا اعلان نہیں کرتی۔ اسے دنیا میں جھگڑنے والا۔ خودپرست خونی بہانے والا، انسان کے اقتدار کو انسان پر مسلط کرنے والا بنا دیتا ہے اور پر فریب ماحول کی تخلیق کرتی ہے تو تسخیر فطرت کی یہ کوشش شر ہے۔ لیکن یہ شر بالکل اسی طرح نظر آتا ہے جس طرح ساحری کا سنہرا بچھڑا بولتا تھا۔ با جس طرح فرعون کے جادو گروں نے لکڑی کے سانپ بنا کر اس کے اندر پارہ بھر دیا تھا اور وہ شعاع آفتاب پڑتے ہیں ذراسی گرمی کی وجہ سے متحرک ہو کر سانپ کس طرح رینگنے لگتے تھے اور فریب نظر کی کیفیت پیدا کر رہے تھے۔ اس فریب کو ٹوٹنا چاہئے، ظاہر ہے کہ جب فریب کی دنیا ٹوٹتی ہے تو طلسم ٹوٹتا ہے اور یہی کام طلسم کشا انجام دیتا ہے اور شر ہو یا فریب یا طلسم اسے توڑنے والا خیر کی غیبی طاقتوں کا نظر کر دہ ہی ہوسکتا ہے۔

اس طرح تسخیر فطرت اور خیر و شر کے تصادم کا عمل ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔ تسخیر فطرت کے جس مقصد کی بات ہو رہی تھی وہ مقصد زندگی کو خوبصورت بنانا ہے اور زندگی کو حَسین بنانے کے لئے کچھ خواب دیکھنے ضروری ہیں ۔ تو خوابوں کا ایک جزیرہ بھی ہونا چاہئے۔ رنگ برنگی تتلیوں کا ۔ اسی تتلیوں کا۔ جن کا مشاہدہ ممکن نہیں ہے اور جب مشاہدہ نہیں ہوسکتا تو پھر تجربے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ لیکن اگر ان تتلیوں تک پہونچنا ہے تو پھر جو بھی دشواریاں ہوں گی ان پر بھی قابو پانا ہو گا۔ کوئی اور مخلوق بھی ہوسکتی ہے جو ان تتلیوں کو پکڑنا چاہتی ہے لیکن وہ ہماری طرح نہیں ہوسکتی اس کے سر پر سینگ ہوسکتے ہیں وہ ہم سے کئی گنا طاقتور ہوسکتے ہیں ۔ منہ سے آگ نکل سکتی ہے وہ مختلف پیکروں میں اپنے کو ظاہر کر سکتے ہیں لیکن کچھ بھی ہو۔ ہم انسان ہیں ہمارے پاس عقل ہے ہم اس مخلوق کو تتلیاں نہیں پکڑنے دیں گے۔ یہ تتلیاں تو ہماری ہیں ۔

اب یہ نئی دنیا جس میں دیو، جن اور پریاں ہیں ، یہ دنیا بھی ہمارے خوابوں کی تعبیر کی ایک شکل ہے۔ یہ تسخیر فطرت بھی ہمارے وہ خواب ہیں جنہیں آج ہم بہت ساری اشیاء میں حقیقت کی شکل میں دیکھتے ہیں ۔

ہیگل نے کہا تھا تخلیق کا کار تخیل معمار کی تعمیر پر تفوق رکھتا ہے۔ آج مزائل، ہائیڈروجن بم، طیارے، آبدار کشتیاں ، راکٹ، خلائی جہاز، ٹیلی ویژن، یہ سب ہمارا کل کا خواب تھے۔ وہ چاہے ملکہ براں کا اختر مروارید ہو یا باغ سیب میں افراسیاب کا آئینہ جمشیدی یا فضاء میں پرواز کرنے والے جادوگر۔ ’’زمین پر تھیکی دی اور دوسرے لمحے فضاء میں بلند ہوئی اور پھر بادلوں میں غائب ہو گئی‘۔ ماضی میں یہ انسانی تخیل کے خواب آج کیا حقیقت نہیں بن گئے ہیں ؟

آج خلاء میں جو فضائی کشتیاں ہیں وہ یہی تو ہیں جو نت نئی رنگین و تباہ کن ایجادات ہیں ۔ انہیں خوابوں میں کی تو ایک لقد پر بالتعبیر سمجھنا چاہئے۔ یہی تعبیر جو مکمل خواب تھی آج سائنسی ارتقاء کے معزز لقب سے سرفراز ہے۔

لیکن داستانوں کا مطالعہ کرتے ہوئے اس پہلو کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ کہیں اگر انسان سے اس کے خواب چھن گئے ہوئے تو زندگی کتنی بے کیف بے رنگ اور بے مزہ ہوتی اور یہ ارتقاء کی کہانی آج نہ ہوتی۔ ایک بے کیف جمود، اکتا دینے والا ٹھہراؤ اور یکسانیت سے لبریز فضاء۔ انسان کا مقدر ہوئی ! لیکن خیر و شر کی کشمکش تسخیر فطرت کا جذبہ اور خواب کی تعبیر پا لینے کی تمنا۔ یہ وہ تین گوشے تھے جنہوں نے زندگی کو بچا لیا۔

ان تینوں گوشوں پر جب غور کیا جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ بہرحال ان کا تعلق تخیل سے ہے لیکن تخیل کا ملکہ انساں کے پاس ہوتا ہے اور انساں ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں ۔ ان کا اپنا ایک طرز پود و ماند ہوتا ہے ان کی تخیل بھی ان کی معاشیات اور معاشرت سے و ابستہ ہوتی ہے۔

چار ہزار پانچ سو سال قبل مسیح جب شاہ خامغرمی کی داستا لکھی گئی تو اسوقت تخیل میں اتنی ہی پرواز تھی کہ بادشاہ کی بیوی اپنے غلام سے پھنس جائے ناؤ لنگر سے ٹھہری ہوئی ہو۔ بی بی اٹکی ہوئی ہو نوکر سے اور ویدوں کے عہد میں انسانی تخیل یہاں تک آیا کہ ایک برہمن دانشور خود کو کوڑھی بنائے ہوئے ہے اور آگے بڑھے تو یہ تخیل جانوروں کیو حکایات سنانے یا حکایات السبب میں انسانوں کی طرح بولنے پر غاب کرتا رہا البتہ مہرشی ویاس نے عالمی ادب میں پہلی بار انسانی تخیل کو بے پناہ وسعت عطا کی اور یہ سمجھایا کہ ایسے قصوں کو بے معنی اور لایعنی نہ سجھو جن کی بنیاد تخیل پر ہو۔ بلکہ ان میں زندگی کے بنیادی رموز و نکات تلاش کرو۔ تمہاری سمجھ میں آ جائے گا کہ انسان اپنے کرموں کا پھل بھوگتا ہے اور ہر فرد کو اپنے دھرم کا پالن کرنا چاہئے۔ لیکن مہابھارت کی یہ تخیلی وسعت اپنائی نہیں جاسکتی تھی یہ عروج تھا۔ اعتقاد کے آئینہ میں تخیل کی صورت گری کا۔ اس لئے تخیل نے دوسرا راستہ اپنایا۔ تخیل نے ایک روح کو دوسرے کے قالب میں جاتے ہوئے دیکھا۔ کہیں کوئی درخت سے الٹا لٹک گیا اور طوطا بن کر دانشور ہو گیا۔ کہیں آدھا دھڑ انسان کا اور آدھا حیوان کا ہو گا۔ ایسا محسوس ہونے لگا جسے تخیل میں ایجاد و اختراع باقی نہ رہ گیا شاید اس کا سبب بھی تھا اور وہ یہ کہ چراگاہی دور میں انسانی فکر صرف یہی چاہتی تھی کہ اچھا آدمی بننے کے لئے اور زندگی کو حَسین سے حَسین تر بنانے کے لئے اخلاقیات کا سہارا کافی ہے۔ اس اخلاقیات میں ایجاد و اختراع اور امور فطرت کا انکشاف نہ تھا۔ مگر ان سب کا میں وہ طرز معاشرت ضرور تھا جس معاشرت میں یہ لوگ سانس لے رہے تھے۔ وہ تہذیب بھی تھی جو انہوں نے اپنائی تھی۔ فنون لطیفہ سے ان کی وابستگی کا اظہار بھی تھا۔ فن تعمیر مصوری باغبانی۔

مصر کی داستانوں میں گل گاش کا ذریعہ بہت مشہور ہے جس میں انکدو کے محاریات، سبابا کا قتل اور عشتار سے محبت ملتی ہے۔ لیکن سب سے اہم نکتہ شجر جنات کی تلاش ہے اور شجر جنات کے بجائے سجر شباب کا ملنا ہے اور وہاں بھی بیٹھا ہوا ایک سانپ۔

یہ پہلی داستاں تھی جس نے حیات انسانی کے رموز کو ظاہر کرنے کے لئے ایک لطیف سا پردہ ڈال دیا۔ یہ اس طرح کا پردہ تھا کہ دونوں تصویریں متوازی ملتی تھیں ۔ اسی کو بعد میں تمثیل کا نام دیا گیا جہاں دو معنی متوازی طور پر چلتے ہوں ۔ چونکہ انساں ازل ہی سے شجر شباب سے دھوکا کھا چکا تھا اس لئے اس نے شجر جنات کی تلاش شروع کر دی۔ وجہی نے سب اس میں اسی شجر حیات کو آب حیات کے تصور میں پیش کرتے ہوئے تمثیلی رنگ اختیار کیا اور بنیاد ہی محور حُسن اور عشق کو رکھا۔ یقیناً اس میں تصوف کے مراحل ہیں لیکن صرف یہ بات عرض کرتی ہے کہ حُسن کا یہ تصور زندگی کو خوبصورت بنانے کی تڑپ اور تمنا کا دوسرا نام ہے۔

اردو داستانوں کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ پہلو یقیناً پیش نظر رہنا چاہئے۔ عام طور پر سرسری نظر ڈالنے والے انہیں کبھی بے سروپا قصہ کہتے ہیں کبھی زوال آمادہ تہذیب کی یادگار کہتے ہیں اور کلیم الدین احمد کی طرح آگے بڑھتے ہیں تو انہیں خط و مسرت و انبساط کی شئے کہہ کر خاموش ہو جاتے ہیں ۔ گیان چند اور وقار عظیم ا سے ہماری تہذیبی وراثت قرار دیتے ہیں ممتاز حسیں خود کو تصوف کے باغ اور مشن کی بہار میں محصور کر کے باغ و بہار کی ج ادو بیانی ہی کو سب کچھ سمجھ لیتے ہیں ۔

آئیے دیکھیں کہ اردو داستانوں کی دنیا میں کتنی وسعت ہے ۔ اردو کی بنیادی داستانیں تو یہ ہیں ۔

آرائش محفل، انشائے گلشن نو بہار، مستانہ عجائب، سب اس لقمہ مہر افروز و بر، ملک محمد گیتی افروز، باغ و بہار (چہار درویش) رانی کیتکی کی کہانی گل بکاؤلی، گل صنوبر، داستان امیر حمزہ، معہ متعلقات، بوستان خیال۔

ان داستانوں میں الف لیلہ کو شامل نہیں کیا گیا کہ اس کا تعلق براہ راست ہندوستا نسے نہیں ہے۔

متذکرہ بالا داستانوں میں جو پہلو ملتے ہیں ان کی طرف صرف اشارے کئے جا رہے ہیں لیکن اس سے پہلے ایک گوشہ کی طرف متوجہ کرنا ضروری ہے ۔کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں حرکت پیدا کرنے کے لئے یا کسی کو راہ راست پر لانے کے لئے دوسروں کو واقعات سنانے پڑتے ہیں ۔ یہ واقعات آئیڈیل ہوتے ہیں ۔ ان میں مبالغہ ہوتا ہے مگر یہ مبالغہ مستحسن ہے اس لئے کہ اس کا مقصد زندگی کو بہتر بنانا ہے۔ ۱۸۵۷ء کے بعد معاشرے میں انحطاط آیا تھا اسی انحطاط پذیر دور میں داستانیں اس لئے سنائی جاتی تھیں کہ

دوڑے تو ایک بار رگوں میں تیزی سے خون محرومی

ہوسکتا ہے کہ یہ داستانیں ۔۔۔۔۔ کی چکی لے کر لکھی گئی ہوں لیکن ان میں کہیں نہ ۔۔۔۔۔ ہیں اور ان کے اثرات ایندنی بنے کی ترغیب دیتے ہیں ۔ ہر تو قوت عمل کو ابھارتی ہیں ۔ اور جو ’’’بازیاں ‘‘ اس دور میں رائج تھیں ان بازیوں سے منحرف کرنے کا گر جانتی ہیں ۔ اس لئے کہ محاریات مشکلات کا سامنا کرنا حالات سے لڑنا، منزل مراد تک پہنچنے کے لئے اپنی صلیب اپنے کانا حصولی پر اٹھائے چلنا۔ اس طرح کے واقعات اور یہ طرز تحریر کسی معاشرے کو سلاتے نہیں ۔ جگاتے ہیں اور طلسم کشاؤں کے واقعات تو صاف صاف بناتے ہیں کہ زیادہ سونا اسی طرح مدت کی علامت ہو گی جس طرح جادوگروں کی مدت واقع ہو گئی۔

ضمناً یہ پہلو عرض کیا گیا ہے اب ذرا اس پر نظر ڈالی ج ائے کہ داستان ہے کیا۔ داستاں کے لغوی معنی نغمہ کے ہیں لیکن عام طور پر اس سے مراد طویل قصہ ہوتا ہے۔

اردو میں دو اصناف ایسی ہیں جو نگارش سے بھی تعلق رکھتی ہیں ۔ مگر ’’تفنن’‘ سے جن کا تعلق زیادہ ہے۔ یہ اصناف داستان اور مرثیہ ہیں ۔ داستان گوئی ہو یا مرثیہ نگاری۔ یہ دونوں کہنے کے فن ہیں اور جب کوئی بات کہی جاتی ہے تو اس کے لئے سننے والا کا ہونا لازمی شرط ہے۔ کہنے کا فن ایسا ہونا چاہئے کہ سننے والا اپنی ذات کو بیان کی ہوئی باتوں سے الگ نہ سمجھے بلکہ خود کہنے والے کے ساتھ ساتھ رہے۔ اس کو ارسطو نے ڈرامہ کے ضمن میں خطابت سے تعبیر کیا ہے۔ داستاں گوئی بھی ڈرامہ کا فن ہے اس میں بھی خطابت ہے اور اس لئے داستاں کا امتیازی وصف اس کی ڈرامائیت ہے۔ کہیں یہ نہیں معلوم ہو گا کہ واقعات بیان کئے جا رہے ہیں بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے سب کچھ نظروں کے سامنے ہو رہا ہے۔ ہماری چشم گناہگار پر منظر تو دیکھ رہی ہے۔ یہ ملکہ بہار آئی، اس نے گلے سے ہار اتارا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چلی۔ بہار نے مخالف پر پھولوں کا ہار پھینکا اور وہ دیوانہ ہو گیا۔ اس طرح کا طرز تحریر ایک خاص طرح کے لہجہ کا مطالبہ کرتا ہے۔ ایسا لہجہ جو ادا کیا جاسکتا ہے۔ سن کر وہ غازی مرد نعرہ بھرتا ہوا چلا’‘ ۔ ’’برس دن کا ہرجے مرجے کھینچتا ہوا شیر نمبروز پہونچا۔ ‘

اس طرح کی بھارت میں رستمرار ہے۔ ماضی نہیں ۔ ’’تھا’‘ نہیں بلکہ ’’ہے’‘ اور یہ لہجہ اس طرح کے الفاظ کی نشست کا مطالبہ کرتا ہے کہ اسے پڑھا جائے تو ایسا معلوم ہو کہ بولنے والے کی آواز کانوں میں گونج رہی ہے۔ لفظوں کی نشست سے بولنے والے کے لہجہ کا یقین ہو جائے۔ اس لئے اس طرح کی عبارت لکھنے والے کو صناعی کا شعور بھی ہونا چاہئے اور یہی وجہ ہے کہ پرامن ہوں یا سرور یا جاہ و قمر یا منشی رتبہ پرشاد ان سب کے پاس منشر میں صناعی کا تصور ہے۔

داستانوں میں صناعی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ ان کے صناعی کے تصور سے اختلاف ضرور ممکن ہے۔ مثلاً جب علی بیگ سرور کی صناعی۔ کسی عروس کو اتنے قیمتی کپڑے پہنانے کے مترادف ہے کہ صرف کپڑا ہی نظر آئے۔ دل آویز خطوط جسم چھپ جائیں ۔ لیکن اس کپڑے کی قدر و قیمت کو کم نہیں کیا جاسکتا۔ بہرحال وہ کپڑا خوبصورت ہے اور سرور کی صناعی داستا کا جز و اعظم ہے۔

اس طرح داستان کے اسلوب کا امتیازی وصف اس کا لہجہ اس کی ڈرامائیت اور اس کی صناعی کی ہے۔ جس طرح اس مضمون کا آغاز۔ ایک شجر سے ہوا تھا لیکن اس میں بہت ساری شاخیں نکل آئیں بالکل اسی طرح ہر داستاں کا بنیادی حصہ ایک ہوتا ہے مگر اس میں متعدد شاخیں نکل جاتی ہیں ۔ اس لئے داستان کے لئے یہ ضروری کہ وہ قصہ در قصہ ہو۔ کیونکہ یہی قصہ در قصہ ہونا زندگی کے تنوع اور رنگا رنگی کی دلیل بن جاتی ہے۔

جیسا کہ عرض کیا گیا۔ داستاینں خوابوں کے جزیرے میں پلتی ہیں ۔ اور خواب کی بنیادیں تخیل کی جولانی ہوئی ہے۔ اسی خواب اور تخیل کی جولانی کو خون فطرت کہا جاتا ہے اور خون فطرت سے مراد کچھ جادوگری۔ کچھ سحر و ساحری، کچھ غیرانسانی مخلوق سے نبرد آزمائی بھی ہے۔ لیکن ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا۔ باغ و بہار میں پہلے درویش کی سیر میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ لیکن اس میں خواب ہیں ۔ سوداگر زا دے کو شہزادی و عشق مل جاتی ہے خواب دیکھتا ہے تو کہ فیصل سے جو صندوق اترتا چلا آتا رہا ہے اس میں دولت ہو گی لیکن نکلتی عورت ہے۔

داستان کے دو امتیازی اوصاف اخلاقیات اور جمالیات ہیں اس کی جمالیات میں حُسن اور اظہار عشق پر کوئی پابندی نہیں اور اس کی اخلاقیات میں نہ نذیر احمد کا وعظ ہو گا اور نہ راشد الظہری کا لکچر۔ بلکہ اس کی اخلاقیات کا محور انسانی اقدار کا تحفظ اور خودپرستی کے حصار کو توڑنا ہو گا۔

ان داستانوں میں صرف خیال کی کرشمہ سازیاں تھیں ان میں علوم و فنون کا ایک سجر ذخار ہے۔ بوستان خیال کے ترجمہ میں خواجہ امان نے صدانق الانظا میں داستان کی جو شرائط گنوائی ہیں ان میں اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ داستان میں تاریخ کا مزہ آ جائے اور علاوہ ازیں بے جد و ۔۔۔۔۔ مسئال جو علم نجوم سے متعلق ہیں انہیں بھی پیش کیا ہے جسے بوستان خیال میں حکیم استلینوس نے طلسم اجرام و اجسام ترتیب دیا ہے۔ حکیم قرطاس الحکمت اس طلسم کے سربراہ ہیں ۔ حکیم ابوالمحاسن اور کلیم ترشی جان اس کے نگراں ہیں ۔ پورا طلسم کا فلسفہ، عناصر کا اسقل السانلین سے احسن تقدیم تک کا سفر ہے اور عناصر اربعہ کی جگہ سات عناصر اور سات مراحل نظر آتے ہیں ۔ طب کے سینکڑوں مسائل طلسم ہوشربا میں بھی ملتے ہیں اور دوسری داستانوں میں بالخصوص باغ و بہار میں ۔ مثلاً نمرود کے قصے میں ’’سادھو کے ذکر میں ‘‘ کنکھجورا ذرا سی گرمی پا کر نکل آتا ہے۔

یہ درست ہے کہ فلسفیانہ مسائل مثلاً روح الاما دے کا ربط تبدیل قالب کے واقعات، حقیقت مطلقہ کی تلاش ان سب کا بیان سرسری ہوتا ہے لیکن جہاں تصرف کا ہے وہاں نہایت گہرائی کے ساتھ مراحل عشق کا بیان ملتا ہے۔ سب رس، تو ہے ہی، باغ و بہار میں تصور توسل ملتا ہے بغیر توسل کے مشکل کشائی ممکن نہیں اور یہ وسیلہ مشکل کشا کا ہے جس کے بغیر کوئی منزَ مراد تک نہیں پہونچتا۔ راہ عشق کے سالک جب ہلاکت میں گھر جاتے ہیں تو مشکل کشا ہی ان کی رہنمائی کرتے ہیں ۔

ان داستانوں میں اپنے ملک کی تہذیبی اقدار تو ملتی ہی ہیں کھانے کی تفصیل، زیورات کی تفصیل، پشدلی کی تفصیل وغیرہ بھی ہیں اور دوسرے ممالک کے بارے میں بھی اہم معلومات حاصل ہوتی ہیں ۔ باغ و بہار میں آذر بائجانی نوجوان کی سرگذشت میں درج ہے کہ جب اس کی بیوی مر گئی تو عورتیں برہنہ ہو کر اس کے سامنے آئیں اور اسے اور اس کی مردہ بیویوں کو کھانے پینے کے سامان کے ساتھ قبرستان نما شئے میں بھیج دیا گیا۔ ابن بطوطہ نے ۱۳۲۴ھ میں اپنے سفر نامہ میں چین اور سوڈان کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہاں مردے کے ساتھ زندہ کو بھی کھانا پانی دے کر بھیج دیتے تھے۔ یہ زندہ کو بھی مردہ بنانے کی ترکیب تھی۔ سوڈانی میں بھی عورتیں اسی طرح برہنہ ہو جاتا کرتی تھیں جیسے باغ و بہار میں نظر آتی ہیں ۔

داستانوں کی تحقیق دیتا کے حکیم قسطاس پروفیسر گیان چند سے تسامح ہوا جب انہوں نے لکھا کہ داستانوں میں صرف امراء اور جاگیرداروں کے کردار ملتے ہیں ۔ اس میں بہے لئے، چڑی مار، بونٹ اکھاڑنے والے ، کلدل، فلوارنین، سنکرنیں ، داوم مراثی، بھگتے، خیاط غرض کہ ہر پیشے کا فرد ملتا ہے۔ اور حیرت ہوئی ہے جب وہ جادوگروں کا مرکز و محور لونا چارتی دکھائی دیتی ہے، اس دور میں جب پسماندہ اقدام کی سطح بلند کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ ہماری داستانوں میں جب کسی جادو گر پر برا وقت پڑتا تھا تو وہ ابگاری دے کر اس طرح لونا چاری کو بلاتا تھا۔

ارمل، خرمل، بنتا میتا، لوٹک لوٹا، جھٹک جھوٹا بلاؤ لوٹا حجاری کو۔ جادوگری کی دنیا میں ۔۔۔۔۔۔ صرف طلسم ہوشربا میں تک محدود نہیں ہے۔

بہت سارے گوشے ترک کرتے ہوئے ایک آخری پہلو پیش کرنا ہے کہ لکھنؤ پر لکھی گئی داستانوں پر عزیز احمد اور حسن عسکری نے بہت ہی پھوہڑپن سے طوائفیت کے معاشرے کا الزام لگایا ہے۔ لکھنوی داستانوں میں سب سے اہم طلسم ہو شربا ہے اس میں کوئی عورت بھی نہ بدکار ہے اور نہ بد چلن، نہ آوارہ نہ فلرٹ کرنے والی۔ یہ سب جہاں عشق کرتی ہیں اور اپنے محبوب کے لئے اپنی جان تک دینے پر آمادہ ہیں وہیں ان میں ہندوستان کی راجپوت خواتین اور بیگم حضرت محل، اہلیا بائی، چاند بی بی، حیات بخشی بیگم، مخدومہ، جہاں کی طرح بہترین انتظامی صلاحیت بھی ہے اور اپنے ماحول کے فن سپ گری سے یہ واقف و باخبر ہی نہیں ماہر بھی ہیں ۔ انہوں نے اپنے اپنے نام کی مناسبت سے عناصر کی تسخیر کی ہے۔ ملکہ بہار رنگ و بو کا پیکر ہے۔ اسی کی تسخیر کی ہے۔ لاکھوں سے لڑتی ہے۔ ملکہ براں کا احترام وارید کون فراموش کر سکتا ہے۔ ملکہ مجلس گڑیوں سے سحر کرتی ہے۔ برق الامع کڑک کر گرتی ہے۔ مخدوم مدہوش کر دیتی ہے یا ان زمین کن زمین کے طبقات کو توڑتی ہوئی نکلتی ہے یہی نہیں افراد سیاب کی زوجہ ملکہ حیرت وہ بھی مضبوط کردار کی ہے۔ باغ و بہار کی شہزادی و عشق کے شربت ورق اطیال استعمال کرنے پر تمام داستانوں کی عورتوں پر عیاشی کا لیبل لگا دینا محض ادبی بد دیانتی ہے۔جو معاشرہ پیش کیا گیا ہے وہ متوازن ہے۔ آج ہم عورتوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کو سماج میں برابر کا درجہ دینے کی بات کر رہے ہیں ۔ انیسویں صدی کے معاشرے میں ہمارے داستان گو اس معاشرے کا خواب دیکھ چکے تھے۔

داستانوں میں تہذیبی وراثت ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتی ہے۔ داستان نے ہماری تہذیب کے روش نقوش کو تسلسل عطا کیا ہے ان فصلوں کے پیچھے ہمارا سیاسی انحطاط، ہمارا نفسیاتی اضمحلال بھی چھا ہوا ہے اور ہمارے تاریخی پس منظر کا وہ کرب بھی جسے ہمارا تخلیق کار محسوس کر رہا ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ تاریخ میں سنینن کے علاوہ سب غلط ہوتا ہے لیکن قصہ میں تاریخ کا دل دھڑکتا ہے اس میں سنیسن نہیں ہوتے زمانے کے ساتھ دل کی دھڑکنیں ہوتی ہیں اسی لئے کوئی بھی مذہب ہو۔ یہاں تک کہ دور حاضر کے غیر مذہبی تصورات کا نظریہ ہو۔ سب کی بنیاد میں قصہ ہے۔ یہ قصہ نہ ہو تو حیات سچ مچ دیوانے کا خواب ہو جائے قصہ گوئی کے اس فن میں ن اول اگر ادبی دنیا کا سفر ہے تو داستاں ادبی دنیا کا افضل، سفر میں منزل کی جہت و سخت تعین ہوتی ہے ۔ مگر اس میں بے خودی اور شرمساری و م د ہوش کن کیفیت نہیں ہوتی۔ لیکن رقص میں بس دائرہ ہوتا ہے۔ کب رقص تھم جائے گا نہیں معلوم، گھنگھروؤں کی جھنکار، سرشاری اور نشے میں ہوش کی کیفیت پیدا کرتی رہتی ہے رقص کا ہر بھاؤ کچھ نہ کچھ ضرور کہتا ہے۔ اس کے پس منظر میں کوئی نہ کوئی قدر ضرور ہوتی ہے داستاں بھی رقص ہے۔ اس کے اسلوب کے گھنگھروؤں کی جھنکار بھی محویت پیدا کرتی ہے ایک کیفیت سے سرشار کرتی ہے۔ لیکن جس طرح آپ رقص میں بھاؤ دیکھتے ہیں اسی طرح داستاں پڑھتے وقت اس کے بھاؤ یعنی اس کے پیچھے چھپے ہوئے تصورات کو بھی فراموش نہ کیجئے۔

شمس الرحمن فاروق لکھتے ہیں ۔

’’داستاں کا مطالعہ اس لئے ضروری ہے کہ یہ ہماری تہذیبی میراث اور ادبی میراث کا گراں قدر حصہ ہے کیا یہ لحاظ کیفیت، کیا یہ لحاظ کمپت۔ داستاں امیر حمزہ (نولکشوری) کی ۴۶جلدیں جو تقریباً ۵۰ ہزار صفحات پر مشتمل ہیں دنیاں کے داستانی ادب اور نشری ادب میں ممتاز مقام کی مستحق ہیں ۔ داستان کا مطالعہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس کے بغیر بیانیہ کی کوئی قابل ذکر تھیوری مرتب نہیں ہوسکتی۔ بیانیہ کے بار رسمیں سجائے جو خیالات ہیں وہ مغربی نظریات کے اس حصہ سے ماخوذ ہیں جن کا تعلق ناول کے نظریات سے ہے بھی ان نظریات سے جن کا تعلق ہنرمی جمیز اور پھر سی لیوپک کی تحریریں ہیں ظاہر کہ اپنے مختصر سرمائے سے کوئی سیر حاصل نظر یہ نہیں ہوسکتا۔

داستاں کا مطالعہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اردو کا جدید فکشن آج جس Dilemma گرفتار ہے اس سے نجات کا ایک راستہ بیانیہ کی وہ سکلین ہیں اور وہ امکانات ہیں جن کا پتہ داستاں سے لگتا ہے داستاں صرف اس چیز کا نام نہیں جس میں ’’اے عزیز’‘ اور پھر وہ گویا ہوا ’’پہلے وہ رویا پھر ہنسا’‘ وغیرہ اور مختلف Archaic فقرے سے استعمال ہوتے ہیں داستاں کی چوری شعریات ہے اور اس سے واقفیت ضروری ہے۔

داستانوں کے مطالعہ کے لئے فاروقی کے پیش کر دہ یہ پہلو بہت اہم ہیں اسی کے ساتھ داستانوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ صرف جمالیات ہی زندگی نہیں ہے بلکہ جمالیات کی بھی اخلاقیات ہوتی ہے اور اگر اخلاقیات میں جمالیات نہ ہوتی تو پھر وہ لاحاصل گفتگو بن جاتی۔

اس طرح داستانیں اخلاقی جمالیات کا اور جمالیاتی اخلاقی کا تصور پیش کرتی ہیں ۔

 

****

تشکر" پروفیسر رحمت یوسف زئی جن کے توسط سے کتاب کا مواد حاصل ہوا

ان پیج سے تبدیلی، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

1.0 "1"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔