اردو میں نعتیہ شاعری کی رویت اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ اردو شاعری کی تاریخ، حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز سے منسوب ’’معراج العاشقین‘‘ اور فخر الدین نظامی کی مثنوی ’’کدم راو پدم راو‘‘سے باضابطہ اردو نعتیہ شاعری کا آغاز ہوتا ہے۔ مذکورہ دونوں کتب میں اردو کے اوّلین نعتیہ کلام حمدِ باریِ تعالیٰ کے بعد نظم کیے گئے ہیں۔ ان کے بعد کے دور میں تقریباً اردو کے ہر شاعر نے نعت کو یا تو بطورِ تبرک تحریر کیا ہے یا تو روایت کے مطابق…البتہ بعض ایسے عاشقانِ رسول(ﷺ) شعرا بھی گذرے ہیں جنہوں نے اپنی تمام تر شاعرانہ صلاحیتیں اور اور بصیرتیں نعتیہ ادب کے فروغ و ارتقا کے لیے وقف کر دیں۔ ان میں کافیؔ مرادآبادی، لطفؔ بدایونی، امام احمد رضا بریلوی، محسن کاکوروی وغیرہم کے نام آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ امام احمد رضا بریلوی اور محسنؔ کاکوروی نے نعت گوئی کوہی اپنا موضوعِ شاعری بنایا اور اس فن کو اوجِ کمال تک پہنچا دیا۔ آج اردو میں نعتیہ شاعری کے جتنے سرمایے ملتے ہیں وہ سب کے سب براہِ راست یا بالواسطہ ان حضرات کے تخیلات کے عطر مجموعہ ہیں۔ نعت اردو کی جملہ اصناف میں انتہائی مشکل ترین صنف ہے۔ اس میں زبان و بیان پر قدرت حاصل کر لینا ہی ضروری نہیں بل کہ شاعرانہ صلاحیت اور فنی محاسن کے ساتھ ساتھ قلب و ذہن کی پاکیزگی، عشقِ رسول(ﷺ) کی وارفتگی اور خلوص و للہیت نعت گوئی کے لیے ضروری ہیں۔ ان اوصاف کے بغیر نعتیہ کلام میں سوز وگدازسے مبرّہ اور کیف و سرمستی سے خالی صرف تعریفی و توصیفی اشعار کا مجموعہ ہو کر رہ جائے گا۔
حضرت محسنؔ کاکوروی ۱۲۴۲ھ میں دیارِ اردو لکھنؤ کے قصبہ کاکوری کے ایک شریف، دین دار اور تعلیم یافتہ علوی سیّد گھرانے میں پیدا ہوئے۔ فطری اعتبار سے آپ نیک، متقی، پرہیزگار اور پاکیزہ طبیعت کے حامل تھے۔ دل عشقِ رسول ﷺ سے معطر و معنبر تھا…لہٰذا ن کے قلم سے نکلا ہوا ہر شعر کیف و سرمستی اور سوز و گداز میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے۔ محسنؔ نے زیادہ تر نعتیہ کلام قصیدے کے فارم میں قلم بند کیے۔ آپ کے یہاں دیگر شعرا کی طرح خیالات کی بے راہ روی نہیں ملتی۔ آپ نے محض سولہ سال کی عمر میں ایک ایساشان دار نعتیہ قصیدہ لکھا جو خیالات کی پاکیزگی، جذبات کی صداقت، ندرتِ بیان اور تعظیم و محبت کے حدود میں قائم رہنے کی وجہ سے ایک شاہ کار قصیدہ سمجھاجاتا ہے۔ محسنؔ کا قصیدہ ’’سراپائے رسول‘‘بھی کافی مقبولیت رکھتا ہے۔ محسنؔ نے قصائد کے علاوہ کئی مذہبی مثنویاں بھی لکھیں ان کے شعری سرمایہ کی تفصیل یہ ہے :
قصائد: (۱)گلدستۂ رحمت(۲)ابیاتِ نعت(۳)مدیحِ خیر المرسلین(۴)نظمِ دل افروز(۴)انیٖسِ آخرت
مثنویات: (۱)صبحِ تجلّی(۲)چراغِ کعبہ(۳)شفاعت و نجات(۴)فغانِ محسنؔ (۵)نگارستانِ الفت
ان کے علاوہ رباعیات اور مسدس کی ہیئت میں بھی کچھ نعتیہ منظومات ملتی ہیں۔ محسنؔ کی شعری کائنات، فکری پاکیزگی، بلند نگاہی، ندرتِ بیان اور نادر تشبیہات و استعارات، پیکر اور ترکیب سازی کی وجہ سے ایک خصوصی اور انفرادی اہمیت کی حامل ہے۔
’’صبحِ تجلّی‘‘ میں رسولِ مکرم ﷺ کی ولادتِ پاک کا ذکرِ جمیل بہت ہی حسیٖن اور خوب صورت شاعرانہ انداز میں کیا ہے۔ اشعار میں منظر نگاری اور مصوری کا حسن پوری شان و شوکت کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ نت نئی تشبیہات واستعارات کیف و سرور کو دوبالا کرتے ہیں۔ چند اشعار خاطر نشین ہوں ؎
بیضاویِ صبح کا بیاں ہے
تفسیرِ کتابِ آسماں ہے
سبزہ ہے کنار آبِ جو پر
یا خضر ہے مستعد وضو پر
غنچے میں خامشی کا عالم
یا صومِ سکوت میں ہے مریم
علاوہ ازیں ’’چراغِ کعبہ ‘ ‘ میں محسنؔ نے نبیِ کریم ﷺ کا سراپا بیان کیا ہے نیز واقعۂ معراج النبی کا تذکرۂ خیر بھی کیا ہے اور’’ شفاعت و نجات‘‘ میں اُخروی سرفرازی اور کامرانی کی خواہش و تمنا کا شاعرانہ اظہار کیا ہے۔ ’’چراغِ کعبہ ‘‘میں آپ نے آقا ﷺ کی سراپابیانی میں جو انداز اختیار کیا ہے اس میں سلاست و روانی بھی ہے اور مضمون آفرینی بھی البتہ شرعی حیثیت سے چند اشعار قابلِ گرفت بھی ہیں۔ جیسے ؎
عینیت سے غیرِ رب کو رب سے
غیریتِ عین کو عرب سے
ذاتِ احمد تھی یا خدا تھا
سایا کیا میم تک جدا تھا
ان شعروں میں ’’احمد‘‘ کے ’’میم‘ ‘ کو ہٹا کر ’’اَحد‘‘ اور ’’عرب‘‘ سے ’’عین‘‘ کو لفظ سے جدا کر کے ’’رب ‘‘ بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ جس سے شرعی سقم مترشح ہوتا ہے۔
علاوہ ازیں چند لایقِ تحسین اشعار نشانِ خاطر ہوں جن سے طبیعت میں سروٗر پیدا ہوتا ہے ؎
اسرارِ دین میں وحیِ منزل
اور حاملِ وحی ریشِ مرسل
احباب میں لبِ مسیح تقریر
اعدا میں لیے کلیم شمشیر
کیا ذکرِ تبسم نبی ہے
گل کی گلشن میں جو ہنسی ہے
کانوں کی سنی ہے کیا روایت
جو سرد ہے قطب کی ولایت
جوہر کا بھرا ہوا خزینہ
آئینہ بے مثال سینہ
اسرار نہ آسمانِ نظر میں
ڈوبے ہوئے ہفت بحر و بر میں
اس گردنِ صاف کی بلندی
تکبیر فریضۂ سحر کی
محسنؔ کی تمام ہی مثنویاں ان کی فن کارانہ عظمت کی مظہرِ جمیل ہیں۔ عبدالقادر سروریؔ ، محسنؔ کاکوروی کی ان کاوشاتِ شعری پر تبصرہ کرتے ہوئے راقم ہیں :
’’مذہبی موضوعات پر لکھنے والوں میں محسنؔ غالباً سب سے زیادہ نفیس لکھنے والے ہیں۔ ان کا اسلوب نہایت دل کش اور پُر لطف ہے۔ اس میں سادگی کے باوجود حُسن اور شاعرانہ لطافتیں موجود ہیں۔ مذہبی نظموں میں یہ لطفِ گویائی کم شاعروں کے حصے میں آیا ہو گا۔ ’چراغِ کعبہ، صبحِ تجلی‘ دونوں محسن کے شاہ کار ہیں ان میں تغزل کے اشاروں کنایوں سے بڑا لطف پیدا کیا گیا ہے۔ یہ مثنویاں مختصر اور نفیس ادبی نظمیں ہیں۔ ‘‘
الغرض محسنؔ کو زندۂ جاوید اور ان کے نام کو عظمت کے بامِ عروج تک پہنچانے میں ان کے ’’قصیدۂ لامیہ‘‘ کا بڑا دخل ہے جو انتہائی مشہور اور زبان زدِ خاص و عام ہے ؎
سمت کاشی سے چلا جانبِ متھرا بادل
برق کے کاندھے پہ لائی ہے صبا گنگا جل
ابر بھی چل نہیں سکتا وہ اندھیرا گھپ ہے
برق سے رعد یہ کہتی ہے کہ لانا مشعل
جو گِیا چرخ پہ ہے یا کہ لگائے ہے بھبھوت
یا کہ بیراگی ہے پربت پہ بچھائے کمبل
کبھی ڈوبی کبھی اُچھلی مہِ نَو کی کشتی
بحرِ اخضر کے تلاطم میں پڑی ہے ہلچل
شاعرانہ لطافت، نادر تشبیہات و استعارات، علمی و ادبی اصطلاحات و تلمیحات، شاعرانہ پیکر تراشی، نئی نئی ترکیب سازی، عربیت کی آمیزش اور ہندی و ہندوستانی عناصر کے ساتھ فارسیت کے گہرے رچاو کی وجہ سے اس قصیدہ کو اردو شاعری کا شاہ کار قرار دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی نے اس قصیدہ کو محسنؔ کی شاعرانہ خوبیوں کا حامل بتایا ہے خاص طور سے اس کی تشبیب کو بہت سراہا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’ایسی نرالی تشبیب آپ کو اردو کے کسی دوسرے شاعر کے یہاں نہیں ملے گی۔ ذوقؔ و سوداؔ قصیدے کے بادشاہ ہیں لیکن ان کی تشبیب میں ایسی جدت اور زور نہیں۔ یہ مضامین، تشبیہات، استعارات اور خیالات جو خالص ہندوستانی فضا کی پیداوار ہیں محسنؔ ہی کا حصہ ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محسنؔ کی پاکیزہ طبیعت عوام کی پامال شاہ راہ سے بچ کر اپنا راستہ الگ بنانا چاہتی تھی یہی وجہ ہے کہ انھوں نے سرزمینِ نعت مین اپنی جدّت پسندی سے رنگ رنگ کے پھولوں کا ایک گل زار کھلا دیا ہے۔ ‘‘
محسنؔ نے اپنا ’’قصیدۂ لامیہ‘‘ اساتذۂ فارسی و اردو کی زمین میں تحریر کیا ہے، یہ قصیدہ لطافتِ تخیل اور ندرتِ اسلوب میں منفرد و یگانہ ہے۔ محسنؔ نے سرورِ عالم و عالمیاں ﷺ کی حیاتِ طیبہ اور آپ کے اخلاق و عادات اور فضائل و شمائل کو ہندوستانی رنگ و آہنگ میں پیش کیا ہے۔ اس قصیدہ کی تمہید محسنؔ کے شہبازِ فکر و تخیل کی بلند پروازی اور شعریت کا اعلا نمونہ ہے۔ اسی قصیدہ کی دو غزلیں جو خالص قصیدہ کی معنوی فضا سے مکمل طور پر ہم رشتہ ہیں اور اسی کا تخلیقی حصہ نظر آتی ہیں بلاشبہ مدحتِ خیرالبشر ﷺ کا ایک نورانی پیکر ہیں۔ دو شعر خاطر نشین ہوں ؎
گل خوش رنگ رسولِ مدنی العربی
زیبِ دامانِ ابد طرۂ دستارِ ازل
سب سے اعلا تری سرکار ہے سب سے افضل
میرے ایمانِ مفصل کا یہی ہے اجمل
حضرت محسنؔ نے اس قصیدہ میں اردو کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی کی لفظیات کو برتا ہے اور اس کی زیریں رَو میں ہندوستانی رنگ و آہنگ نمایاں نظر آتا ہے۔ محسنؔ نے خالص ہندوستانی تشبیہات و استعارات کا سہارا لیا ہے۔ لیکن کہیں بھی نعت کی طہارت و پاکیزگی مجروح نہیں ہوئی ہے۔ کچھ لوگوں نے اس قصیدے کو ہندوانہ تہذیب و تمدن کا آئینہ دار بتاتے ہوئے محسنؔ پر تنقید کے نشتر بھی چلائے ہیں۔ حال آں کہ حضرت حسّان و کعب رضی اللہ عنہم کے نعتیہ قصائد میں بھی تشبیب کے خالص عشقیہ اشعار شامل ہیں محسنؔ نے صرف اس روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے اس طرح کی تشبیب لکھی ہے۔ ڈاکٹر فخرالاسلام اعظمی لکھتے ہیں :
’’محسنؔ کا تعلق دبستانِ لکھنؤ سے ہے، لیکن انکی شاعری میں عام لکھنوی شعرا کا ابتذال اور نسوانیت کا رنگ نہیں ہے۔ محسنؔ نے لفظی صناعی پر توجہ کی ہے لیکن اس موقع پر بھی انھوں نے اپنی انفرادیت کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا ان کی رعایت بے ساختہ، ان کی تشبیہات و استعارات جان دار اور ان کا انداز شاعرانہ ہے۔ ‘‘
اسی طرح ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی نے محسنؔ کاکوروی کے شاعرانہ محاسن پر یوں اظہارِ خیال کیا ہے۔ موصوف راقم ہیں :
’’بندش کی چستی اور نظم کی روانی ایسی ہے کہ طبیعت اس پر رک کر نہیں رہ جاتی۔ تشبیہات میں شاعر کے اسلوبِ فرک، جدت کا اظہار، ندرتِ ادا اور مذاقِ شاعرانہ پایا جاتا ہے۔ محسنؔ خالص ہندوستانی فضا کے شاعر ہیں اور اپنے ماحول کی ترجمانی کرتے ہیں ان کے خیال، ان کی زبان، ان کی تشبیہات اور استعارات اسی ملک کی پیداوار ہیں اس لیے ان میں اثر بھی زیادہ ہے۔ ‘‘
غرضے کہ اردو کے باکمال قصیدہ گو اور مثنوی نگار شعرا میں محسنؔ کاکوروی کا نام نمایاں ہے ان کے نعتیہ قصائد روشِ عام سے جداگانہ، جدید اسلوبِ بیان کے حامل اور رعنائی و زیبائی کا حسین مجموعہ ہیں۔ ان میں جہاں عشقِ رسول ﷺ کا والہانہ جذب و کیف ہے وہیں زبان و بیان کی ندرت و جدت بھی ہے۔ محسن ؔ کاکوروی نے فنی نقطۂ نگاہ سے اردو قصیدہ گوئی کو معراجِ کمال تک پہنچا دیا ہے ان کی نعتوں میں قصیدے کا جلال و جمال، مثنوی کا رنگ و آنگ اور غزل کا کیف و سرور بدرجۂ اتم موجود ہے۔ ان کی شاعری میں نفس کی پاکیزگی، فکر و نظر کی صفائی اور ذہن و قلب کی تطہیر کا جو سامان پایا جاتا ہے یقیناً و ہ ہر ہر لحاظ سے لائقِ تحسین ہے۔
( روزنامہ’’ اردو ٹائمز ‘‘ ممبئی کے سنڈے میگزین ۱۰؍ اگست ۲۰۰۸ء بروز اتوار صفحہ ۱۲ پر راقم کے شائع شدہ مضمون میں معمولی ترمیم و اضافہ کے بعد مندرجۂ بالا مضمون پیشِ نظر کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ مُشاہدؔ )
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید