01:57    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

طنز و مزاح

1800 0 0 10

یہ جو ٹینشن ہے، دشمن ہے ہمارا - ڈاکٹر نذیر مشتاق

بسیار کوشش اور تلاش کے باوجود بھی میری سمجھ میں نہیں آیا کہ انگریزی لفظ ٹینشن کا کیا ترجمہ کروں، ویسے اگر میں ’’تناؤ یا فشار‘‘ لکھ لیتا یا اپنی مرضی سے کوئی نئی اصطلاح ایجاد کر بھی لیتا تو پڑھنے والے اسے قبول نہیں کرتے کیونکہ کشمیریوں نے بعض انگریزی الفاظ کو من و عن قبول کیا ہے، ان الفاظ میں سے لفظ ٹیشن بھی ایک ہے۔ چونکہ یہاں ہر خاص و عام، مرد و زن، پیر و جوان ٹینشن کو ٹینشن ہی کہتا ہے، اس لئے میں بھلا کیوں اسے کوئی نیا نام دینے کی جسارت کروں۔ چلئے ٹینشن کو ٹینشن ہی کہیں گے، کیا فرق پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں ہر کسی کو ہر وقت کوئی نہ کوئی ٹینشن ضرور ہوتا ہے، کوئی ٹینشن ’’لیتا ہے ‘‘ اور کسی کو یہ ’’چڑھتا‘‘ ہے، کسی کو خود بخود ’’چڑھتا‘‘ ہے اور کسی کو چڑھایا جاتا ہے، کوئی اسے ’’چباتا ‘‘ ہے تو کوئی اسے دوسرے پر ’’اُتارتا‘‘ ہے، کسی کو یہ مفت میں ملتا ہے اور کوئی اسے منہ مانگے دام دے کر خرید لیتا ہے۔ بعض لوگ روزِ تولد سے لے کر روزِ مرگ تک ٹینشن کو اپنے ذہن کے قفس میں مقید رکھتے ہیں۔ ہمارے سماج میں سکولی بچے سے لیکر ریٹائرڈ ملازم تک، چپراسی سے لے کر وزیر اعظم تک، گھریلو عورت سے لے کر دفتری بابو تک، ہر کوئی ٹینشن کا اسیر ہوتا ہے، کسی منچلے نوجوان نے مجھ سے کہا ’’لگتا ہے عام کشمیری بچہ شکم مادر سے ہی سے ٹینشن کی سوغات لے کر آتا ہے اور پھر عمر بھر یہ اس کے ساتھ سائے کی طرح لگا رہتا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کشمیر میں نامساعد حالات کی وجہ سے ٹینشن شروع ہوا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ’’حالات بگڑ جانے ‘‘ سے پہلے بھی یہ مسئلہ موجود تھا، ہاں اتنا ضرور ہے کہ تلخی ایام نے اس کی شرح اور شدت میں نمایاں اضافہ کیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ پچھلے ساٹھ برسوں میں عالمی سطح پر، بنی نوع انسان کی طرزِ زندگی میں ایک نمایاں انقلاب پیدا ہوا ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی نے آج کے انسان کو ایک ایسے دورا ہے پر کھڑا کر دیا ہے جہاں وہ ایک مشین بن چکا ہے اور مشینی انداز میں زندگی گزار رہا ہے۔ وہ برسوں کا کام مہینوں میں، مہینوں کا کام دنوں میں، دنوں کا کام گھنٹوں میں اور گھنٹوں کا چند منٹوں یا سکینڈوں میں ختم کرنا چاہتا ہے۔ وہ اپنے بچپن کو بھی جلدی جلدی خیرباد کہہ کر جوانی کی وادی میں قلانچے بھرنے لگتا ہے اور بڑی سرعت کے ساتھ تعلیم مکمل کر کے ملازمت یا تجارت شروع کر کے راتوں رات ’’دولت مند‘‘ بننے کی تگ و دو میں لگ جاتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ’’کمانے ‘‘ کے لئے وہ برق رفتاری سے دوڑنے لگتا ہے۔ اسے ’’منزل مقصود ‘‘ پر پہنچنے کی اتنی جلدی ہوتی ہے کہ وہ غذا بھی جلدی جلدی پکاتا، کھاتا اور ہضم کر جاتا ہے۔ شاہراہِ زیست پر جب وہ اپنی زندگی کی گاڑی انتہائی تیز رفتاری سے چلانے لگتا ہے تو حادثات کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ جب زندگی کی گاڑی نارمل یا معین رفتار سے زیادہ تیز دوڑنے لگے تو.... انسان کی جسمانی صحت کے علاوہ ذہنی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔ جب خیالات کی رفتار حد سے زیادہ تیز ہو جائے تو انسان بے قابو ہو جاتا ہے، اس کی ذہانت اُس سے بغاوت کرنے پر آمادہ ہو جاتی ہے۔ اسکے ’’چہرے کی حالت ‘‘ بدل جاتی ہے اور اسے جس عجیب و غریب صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اسے ٹینشن کا نام دیا گیا ہے۔ ٹینشن کیا ہے ؟بعض لوگ ٹینشن کو ذہنی پریشانی سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ٹینشن ذہنی پریشانی کا ایک جز ہے اور یہ ’’مسلسل پریشانی ‘‘ کے ظہور کا ایک وقتی ذریعہ ہے جس میں نہ صرف انسان کا ذہن بلکہ اعصاب و عضلات بھی متاثر ہو جاتے ہیں۔ ٹینشن کی زد میں آ کر انسان نہ صرف ذہنی تناؤ یا کھچاؤ محسوس کرتا ہے بلکہ اس کے جسم کے عضلات بھی اثر انداز ہو جاتے ہیں۔ اسے ہر دم بے چینی، کسی انجانے خطرے کا احساس اور ایک غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہونا ہے۔ ٹینشن کی وجہ سے فرد کی شکل و صورت بھی بگڑ جاتی ہے۔ اس کے چہرے کے عضلات تن جاتے ہیں اور اس کی ہاتھوں کی انگلیاں تھرتھرانے لگتی ہیں۔ اس کے حرکات وسکنات میں عجیب قسم کی ’’جلد بازی ‘‘ نمایاں اور واضح ہوتی ہے۔ ٹینشن میں مبتلا فرد کسی مخصوص کام پر اپنی توجہ مرکوز کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے اور وہ اپنے سر میں دباؤ یا ’’کسی اور قسم کا احساس ‘‘ محسوس کرتا ہے۔ اس حالت میں وہ کبھی کبھی اپنا ذہنی توازن برقرار رکھنے میں بھی ناکام ہو جاتا ہے اور وہ جلد بازی میں کوئی ایسی حرکت یا فیصلہ کرتا ہے جس پر بعد میں اسے پشیمان ہونا پڑتا ہے۔ اسے بہت دیر تک یا عمر بھر اپنے غلط فیصلے کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ جب انسان متضاد خواہشات اور چاہتوں کے درمیان (چکّی کے دو پاٹوں میں گندم کی طرح) پسنے لگتا ہے تو ٹینشن اسے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ ٹینشن کا وجود شعوری یا لاشعوری ہو سکتا ہے۔ بسا اوقات فرد کو خود بھی یہ معلوم نہیں ہوتا ہے کہ وہ ٹینشن کی زد میں آ چکا ہے۔ شاید اسی لئے جب کسی مریض سے معالج یہ پوچھتا ہے کہ اسے کوئی ٹینشن تو نہیں تو وہ فوری جواب دیتا ہے ’’مجھے کوئی ٹینشن نہیں ہے، میرے پاس تو سب کچھ ہے ‘‘۔ ٹینشن صرف ناداروں، مفلسوں اور غریبوں کو اپنی گرفت میں نہیں لیتا ہے بلکہ یہ ’’جانی دشمن‘‘ بلا لحاظِ مذہب و ملت، عمر، جنس، رنگ و نسل اور سماجی رتبہ کسی بھی انسان پر حملہ اور ہو سکتا ہے اور اسے جسمانی، ذہنی، سماجی، اقتصادی یا روحانی طور نقصان پہنچاسکتا ہے۔ یہ زندگی کے کسی بھی موڑ پر، کسی بھی انسان کو کسی بھی وقت اپنا شکار بناسکتا ہے اور یہ انسان کی شخصیت پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح اس سے نمٹ لے۔

وجوہات :

*روزمرہ کی زندگی میں خلاف توقع معمولی یا غیر معمولی واقعات کا رونا ہونا۔

*انسان کے دل و دماغ میں حسد کے جراثیم کا موجود ہونا۔

*زندگی کا واضح تصور نہ ہونا۔

*دوسروں سے بے جا توقعات رکھنا۔

*حد سے زیادہ تگ دو کرنا۔

*مذہبی تعلیمات پر عمل پیرا نہ ہونا۔

*نشہ اور ادویات کا استعمال کرنا۔

*حد سے زیادہ سگریٹ نوشی۔

*شراب نوشی

*کسی جسمانی بیماری میں مبتلا ہونا (طویل مدت تک)

*اپنے کام سے مطمئن نہ ہونا۔

*نامساعد حالات۔

*ماحولیاتی آلودگی

*سماجی بے راہ روی

*گذرے ہوئے کل اور آنے والے کل کی فکر میں زندہ رہنا۔

*حد سے زیادہ خواہشات۔

*حرص وہوس اور لالچ

*ازدواجی زندگی میں ’’کوئی خاص کمی ‘‘

*سکولی بچوں کے معصوم کندھوں پر ’’کتابوں کا بوجھ‘‘۔

*کوئی وجہ نہیں .... (پھر بھی ٹینشن ہے )

*کوئی نفسیاتی یا دماغی بیماری۔ علامات :

*سردرد، چکّر

* غنودگی

*دل کی دھڑکنوں میں بے اعتدالی

*بدن میں تھرتھراہٹ

*ہاتھوں میں رعشہ، چہرے اور جسم کے عضلات میں تناؤ

*سینے میں درد

*بے ہوشی کے دورے

* بے چینی

*قبض

*دست

*زخمِ معدہ واثنیٰ عشر (dueodenun)

*آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جانا

* آنتوں میں زخم

* بھوک میں کمی

*نیند میں خلل

*فیصلہ کرنے میں دشواری

*کسی کام پر توجہ مرکوز کرنے میں ناکامی۔

علاوہ ازیں ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، ریح ہار، گاؤٹ اور نفسیاتی امراض میں مبتلا مریضوں کے مرض میں شدت آسکتی ہے اور کسی وقت وہ کسی پیچیدگی کے شکار ہو سکتے ہیں۔ علاج : ٹینشن سے بچنے کے لئے ابھی تک کوئی حفاظتی ٹیکہ دریافت نہیں ہوا ہے۔ نہ ہی کسی دوائی یا مشروب سے اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ سگریٹ نوشی یا شراب نوشی سے، خواب اور یا سکون اور ادویات استعمال کرنے سے، ٹینشن دور نہیں ہوتا بلکہ اس کی شدت بڑھ جاتی ہے۔ ٹینشن سے بچنے کے لئے یا اسے دور بھگانے کے لئے از خود ادویات کا استعمال نہ صرف نادانی اور حماقت ہے بلکہ بے حد ضرر رساں بھی ہے۔ ٹینشن کا علاج صرف یہ ہے کہ وہ بنیادی وجہ تلاش کی جائے جس سے ٹینشن شروع ہوتا ہو اور فرد کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہو....اگر کوئی فرد خود وہ وجہ تلاش کرنے یاسمجھنے میں ناکام ہو جائے تو کسی ماہر معالج، کونسلر یا ماہرنفسیات سے صلاح مشورہ کرنا بہتر ہے

٭٭٭

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

براہ راست 1 تبصرہ

محمد ارشد
یہ جو "ٹینشن"کو آپ نے مذکر استعمال کیا ہے اسکی دلیل کیا ہوسکتی ہے ؟محترم

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔