03:13    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

طنز و مزاح

1757 0 0 00

رسومِ جوتا - وقار خان

ہمارے کلچر میں جوتوں سے متعلق بہت ساری رسومات رائج ہیں۔ ان میں سے اکثر کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے، جتنی کہ خود جوتے کی۔ تاہم قیام پاکستان کے بعد ان رسوم نے ہمارے ہاں جتنا فروغ پایا اور جو پذیرائی حاصل کی، اس پر خود جوتے بھی حیران ہیں۔ ایسی تمام رسومات میں قدر مشترک یہ ہے کہ ان میں جوتے کا کردار کلیدی ہے۔ چیدہ چیدہ ’رسومِ جوتا‘ ملاحظہ فرمائیے۔

جوتیاں سیدھی کرنا:

بنیادی طور پر رسم حامل جوتا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ادا کی جاتی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ماضی میں یہ رسم اہل علم کے جوتوں سے متعلق تھی اور لوگ صاحبانِ علم و دانش کی جوتیاں سیدھی کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے، لیکن وقت کے تقاضوں کے ساتھ یہ رسم بدلتے بدلتے اہلِ ثروت و اقتدار کے جوتوں پر آ کر ٹھہر گئی۔ آج کل اہلِ دانش و حکمت کے جوتے اس لئے بھی سیدھے نہیں کئے جاتے کہ وہ (اقتصادی وجوہ کی بنا پر) خاصے بوسید ہ ہوتے ہیں اور ان سے ہاتھ خراب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ نیز اصحابِ علم و آگہی خو د بھی اس کی اجازت نہیں دیتے مبادا کہ جوتے سیدھے کرنے والا انہیں لے کر ہوا ہو جائے۔

جوتیاں چاٹنا:

یہ رسم عام طور پراس وقت ادا کی جاتی ہے جب کسی صاحبِ اختیار یا حامل جوتا سے غرض یا مفاد وابستہ ہو۔ مطلب حاصل کرنے کے لئے جوتیاں چاٹنا یا بدونِ سینگ ایک جانور کو باپ بنا لینا، ایک ہی مفہوم کی رسوم ہیں۔ رسم ہذا دربار داری کے تقاضے پورے کرنے کے لئے بھی ادا ہوتی ہے۔

جوتے چھپانا:

یہ سب سے مقبول عوامی رسم ہے جو شادیوں سے لے کر مسجدوں تک بغیر کسی وقفے کے جاری ہے۔ تاہم اس رسم کا مستقبل زیادہ تابناک نہیں۔ دراصل جوتے اتنے مہنگے ہو گئے ہیں کہ وہ وقت دور نہیں جب لوگ ننگے پاؤں اپنی شادیوں اور مسجدوں میں جائینگے۔ شائقینِ جوتا چھپائی میں سے کسی نے کیا خوب کہا ہے

چل چلیے مسجد دی اس نکرے

جتھے جُتیاں دی لمبی قطار ہووے

اک توں چُک لے، اک میں چُک لاں

ساڈی عید بڑ ی مزے دار ہووے

جوتے گھسانا:

یہ خالصتاً عوامی رسم ہے۔ خواص کو اس سے پالا نہیں پڑتا۔ یہ رسم سرکاری دفتروں میں ادا کی جاتی ہے۔ سائلان کی درخواستیں سرکاری اداروں میں میز در میز رسو ا ہوتی ہیں اور وہ ان دفاتر کے چکر پہ چکر لگا کر اپنی جوتیاں گھساتے رہتے ہیں۔ کبھی شناختی کارڈ حاصل کرنے کے لئے، کبھی بجلی کا بل ٹھیک کرانے کے لئے اور کبھی انصاف کے حصول وغیرہ وغیرہ کے لئے۔

جوتے چھوڑ کر بھاگنا:

اس رسم کا تعلق عشاقِ عظام سے ہے۔ پیشہ ور عشاق کو نہ چاہتے ہوئے بھی یہ رسم ادا کرنا پڑتی ہے۔ رسم مذکور کو دہرانے میں کیدو کی نسل کا کلیدی کردار ہے۔ دو دلوں کے ملاپ کی تقریبِ سعید کے دوران کیدو اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں اور عاشقوں کو اپنے جوتے وہیں چھوڑ کر بھاگنا پڑتا ہے۔

جوتے کی نوک پر رکھنا:

یہ بھی ایک قدم رسم ہے۔ اگرچہ نوکدار جوتے کا رواج کم ہو گیا ہے لیکن رسم ہذا کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اس کا تعلق اربابِ اقتدار و اختیار سے ہے۔ انکے جوتون کی نوکیں اتنی مضبوط ہوتی ہیں کہ وہ کروڑوں لوگوں کے مسائل اور جذبات کا بوجھ با آسانی سہار سکتی ہیں۔

جوتے کے برابر سمجھنا:

اغراض و مقاصد اور مفہوم میں یہ رسم، رسمِ بالا (جوتے کی نوک پر رکھنا) سے مماثلت رکھتی ہے۔ یہ رسم بھی خواص ہی ادا کرتے ہیں۔ عوامی مسائل اور مطالبات چاہے پہاڑ جتنے ہوں مگر اربابِ بست و کشاد انہیں حجم میں اپنے جوتوں کے برابر ہی سمجھتے ہیں۔

جوتا بدلنا:

یہ ایک مقبول عام رسم ہے، جسے ہر خاص و عام اپنی استطاعت کے مطابق ادا کرتا ہے۔ امیر آدمی نئے ڈیزائن آنے پر جوتا بدلتا ہے جبکہ غریب جوتا پھٹ جانے پر ایسا کرتا ہے۔ بعض لوگ اس رسم کو دوسری شادی کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔

جوتے چلانا:

یہ رسم اس وقت ادا کی جاتی ہے جب مذاکرات ناکام ہو جائیں۔ جرگوں سے لے کر اسمبلیوں تک، جب مسائل گفت و شنید سے حل نہ ہو سکیں تو جوتے چل جاتے ہیں۔ مذکورہ رسم کی ادائیگی سے قبل گالی گلوچ لازمی ہے۔

جوتے سنگھانا:

مرگی کے دورے میں یہ رسم مفید تصور کی جاتی ہے۔ اکثر عامل حضرات مریضوں کو جن پڑ جانے پر جوتا سنگھاتے ہیں۔ اگر مریض کو افاقہ نہ ہو تو عامل یہ کہتے ہوئے اسی جوتے سے مریض کی مرمت شروع کر دیتے ہیں کہ ’’جن بہت طاقتور ہے ‘‘ حالانکہ جن یا بھوت کبھی بھی عاملوں سے طاقتور نہیں ہوتے۔ اگر ایسا ممکن ہو تو جن وہی جوتا لے کر عامل صاحب کی خیر خیریت دریافت کرنا نہ شروع کر دے ؟

جوتے مارنا:

اس کو عربی میں ’الوداعی بوسہ‘ کہتے ہیں۔ اس رسم نے ہمارے ہاں گذشتہ61سالوں میں جو پذیرائی حاصل کی ہے، وہ کسی دوسری رسم کے حصے میں کم ہی آئی ہے۔ قائداعظم کی ایمبولینس سڑک پر ’خراب‘ ہونے سے لیکر بھٹو کی پھانسی تک، جسدِ فاطمہ جناح کے زخموں سے رسنے والے خون سے لے کر راولپنڈی کی سڑکوں پر بہتے بے نظیر کے خون تک اور مادرِ ملت کو صدارتی الیکشن ہرانے سے لے کر ق لیگ بنوانے اور اسے انتخابات میں کامیاب کرانے تک، لا تعداد جوتے ا س قوم کے مینڈیٹ کے سر پر توڑے جا چکے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر جوتے، انصاف کے نام پرجوتے، ترقی کے نام پر جوتے، روزگار کے نام پر جوتے، سرکاری دفتروں میں جوتے، پولیس ناکوں پر جوتے، لوڈ شیڈنگ کے جوتے، آٹا بحران کے جوتے، مہنگائی کے جوتے ....جوتے ہی جوتے ....اس رسم کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ عام آدمی بھی (موقع ملنے پر) رسم ہذا کے ذریعے اپنے جذبات کے اظہار کا موقع ضائع نہیں کرتا، جیسے پچھلے سال اپریل میں کراچی اور لاہور میں لوگوں نے ارباب رحیم اور جناب شیر افگن تک اور حال ہی میں راولپنڈی ہائی کورٹ بارکے وکلاء نے جناب احمدرضاقصوری کی خدمت میں اپنے جذبات و احساسات بذریعہ جوتا پہنچائے۔ رسم مذکور کی مقبولیت اب ہماری ملکی سرحدیں پھلانگ چکی ہے اور وہ چلتے چلتے عراق اور انڈیا تک پہنچ گئی ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ بارے کہا جا سکتا ہے ’’قانون فطرت ہے کہ انسانوں کے جذبات کو جوتے کی نوک پر رکھنے والوں کا مقدر جوتے ہی ہوتے ہیں ‘‘

٭٭٭

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔