کردار:
راجہ
وزیر
بوڑھا کسان
نوجوان طالب علم
لیڈر
حاتم طائی
سندباد جہازی
پہلا درویش
دوسرا درویش
تیسرا درویش
چوتھا درویش
دو سپاہی
ایک سنتری
کچھ حاضرین دربار
منظر:(دربار لگا ہے، درباری بیٹھے گفتگو کر رہے ہیں، راجہ کا انتظار ہے، بگل کی آواز آتی ہے اور ایک سنتری راجہ کی آمد کی اطلاع دیتا ہے۔)
سنتری:بے ادب، بے ملاحظہ، غافل رہو!راجہ راج گڈھ پرتاپ چندر پتر ہریش چندر تشریف لا رہے ہیں۔
(راجہ داخل ہوتا ہے۔ دبلا پتلا کمزور، لنگڑا کر چلتا ہوا تخت کی جانب بڑھتا ہے۔بیٹھتے وقت لڑکھڑا جاتا ہے۔ درباری مؤدبانہ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ راجہ کے بیٹھ جانے پر درباری بھی بیٹھ جاتے ہیں۔ پھر گفتگو میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ ایک وزیر راجہ کے قریب آتا ہے۔ یہ راجہ کا چہیتا وزیر ہے۔ اسے دربار کے خاص امور میں کافی خلل ہے۔ لمبا چوڑا، شکل سے کافی چالاک۔ وہ راجہ کے قریب آ کر دائیں بازو کی طرف مؤدبانہ کھڑا ہو جاتا ہے اور تالی بجا کر لوگوں سے خاموش رہنے کی اپیل کرتا ہے۔ درباری خاموش ہو جاتے ہیں۔ راجہ نہایت گمبھیر، چپ چاپ تخت پر بیٹھا ہے۔ آخر کار وزیر اس خاموشی کو توڑتے ہوئے کہتا ہے۔)
وزیر:(ہاتھ جوڑ کر)جان کی اماں پاؤں تو کچھ عرض کروں مہاراج۔
(راجہ سرکے اشارے سے اجازت دے دیتا ہے۔ اس کوشش میں اس کے سر سے تاج گرنے کو ہے۔ وزیر بڑھ کر سنبھال لیتا ہے۔)
وزیر:ہمیں آپ کی یہ خاموشی مارے ڈال رہی ہے مہاراج!آخر کیا کارن ہے کہ آپ پچھلے پندرہ دنوں سے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں، کچھ بولتے نہیں کچھ سنتے نہیں۔ آخر ایسی کون سی پریشانی ہے جسے آپ ہم لوگوں سے چھپا رہے ہیں؟ آپ پچھلے پندرہ دنوں سے راج پاٹ کے کاموں میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے ہیں، مجھے تنہا سب کچھ دیکھنا پڑ رہا ہے۔ کہیں آپ انٹیلیکچول تو نہیں ہو گئے؟
(راجہ زوروں سے نفی میں سر ہلاتا ہے۔ تاج پھر گرنے کو ہے کہ وزیر بڑھ کر سنبھالتا ہے۔)
وزیر:(گلو گیر لہجے میں )ایسا کون سا دکھ ہے جو ہمارے راجہ کو اندر ہی اندر کھائے جا رہا ہے؟ آپ نہیں جانتے آپ کے چپ سادھ لینے سے جنتا کتنی بے چین ہے، رعایا پر کیا گزر رہی ہے۔
(درباری بھی کھڑے ہو کر لبیک کہتے ہیں۔)
درباری:(ایک زبان ہو کر) ہاں، ہاں۔ ہمیں بھی بتائیے آخر بات کیا ہے؟
(راجہ بدستور خاموش ہے، آنکھوں میں آنسو تیر رہے ہیں۔)
وزیر:اے میرے آقا! آپ کی یہ دردشا ان آنکھوں سے دیکھی نہیں جاتی۔ پرائے ہم پر ہنستے ہیں، دشمن ہمارا مذاق اڑاتے ہیں، ملک کی عجیب حالت ہے۔ ہفتوں گزر گئے، نہ کوئی چوری ہوئی ہے اور نہ کہیں ڈاکہ پڑا ہے۔ مسافر ہیں کہ مزے میں سفر کر رہے ہیں، کوئی انھیں لوٹنے والا تک نہیں۔ دو ہفتے سے جنتا پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جا سکا۔ حریف پارٹیاں ہیں کہ جلسے کرا رہی ہیں، جیسے واقعی گنٹرتنترا آ گیا ہو۔ کوئی ان کے جلسوں میں ہڑبونگ کرنے والا نہیں۔ کوئی ان کو جیل میں ڈالنے والا نہیں۔ اندھیر ہے مالک اندھیر ہے !اگر آپ اس طرح کچھ دنوں اور خاموش رہ گئے تو ملک کا ستیاناس ہو جائے گا۔ اتنی شانتی ٹھیک نہیں، کچھ تو کہیے۔
راجہ:(خاموشی توڑتے ہوئے ) میں نے خاموش رہنے کی قسم کھا رکھی ہے مگر اب جبکہ ملک کی حالت خراب ہوتی جا رہی ہے اور عوام بے چین ہیں کہ میری خاموشی کا راز کیا ہے تو مجھے مجبوراً اپنی پندرہ روزہ خاموشی توڑنی پڑے گی۔
وزیر:(خوش ہو کر) دھن ہو مہاراج، دھن ہو!
(درباری بھی کھڑے ہو کر لبیک کہتے ہیں۔)
درباری:(ایک زبان ہو کر) دھن ہو مہاراج!
راجہ:(گلو گیر لہجے میں ) مجھے کئی دنوں سے یہ غم کھائے جا رہا ہے کہ میرے یہاں اب تک کوئی سنتان نہیں ہوئی۔ آخر یہ راج پاٹ، یہ سلطنت، یہ شان و شوکت، اس کا وارث کون بنے گا؟کون ہمارے بعد ہمارے باپ دادا کا نام روشن کرے گا؟آخر اس راج کا وارث کب پیدا ہو گا؟ اب جبکہ میری عمر بھی چڑھ آئی ہے، کیا یہ چنتاجنک وشئے نہیں؟
وزیر:اوہ، یہ بات ہے مہاراج!اس میں اتنی چنتا کی کیا ضرورت ہے، ابھی آپ کی عمر ہی کیا ہے، ابھی سے اتنا نراش ہونے کی ضرورت نہیں۔
راجہ:پچھلے پانچ سال سے تم ہمیں یہی دلاسہ دیتے آئے ہو۔ لیکن اب میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کو ہے، اب میں یہ تخت و تاج، یہ راج پاٹ سب کچھ چھوڑ کر کسی جنگل بیابان میں نکل جاؤں گایا کسی پہاڑ کی چوٹی پر ڈیرہ جما لوں گا۔ اب مجھ سے یہ راج پاٹ نہیں سنبھالا جاتا۔ اب میں سنیاس اختیار کر لوں گا۔
وزیر:(گھبرا کر)نہیں مہاراج، نہیں !ایسا ظلم نہ کریں، ہماری رعایا کا سوچیں ان کا کیا ہو گا، انھیں کون سنبھالے گا؟
(تمام درباری بھی کھڑے ہو کر کہتے ہیں۔)
درباری:(ایک زبان ہو کر)ہاں مہاراج، ایسا نہیں ہو سکتا۔ آپ ہمیں چھوڑ کر نہیں جا سکتے؟
وزیر:(کچھ سوچتے ہوئے ) ایک اپائے ہے مہاراج۔
راجہ:(اشتیاق سے ) وہ کیا؟
وزیر:مہاراج! میں آپ کی کئی ایسی اولاد کو جانتا ہوں جو ملک کے وبھن گھرانوں میں پل رہے ہیں، اگر آگیہ ہو تو ان میں سے ایک کولے آؤں؟
راجہ:(غصے میں کھڑے ہو کر) نہیں، ہر گز نہیں !تمہارا دماغ چل گیا ہے؟ میں جائز اولاد چاہتا ہوں جو میری مہارانیوں کی کوکھ سے پیدا ہو۔ وہی اس سلطنت کا وارث ہو سکتا ہے ورنہ اور کوئی نہیں۔ ذرا سوچو، اگر انھیں لے آئے توجنتا پر اور پھر ہمارے پرکھوں کے اس راج پرکیا اثر پڑے گا؟
وزیر:معافی چاہتا ہوں۔ آپ ایسا کریں ایک بیاہ اور کر لیں۔
راجہ:(مایوسی سے ) اس سے کیا فائدہ ہو گا؟ہم نے سترہ بیاہ کیے، کوئی اولاد نہیں ہوئی تو ایک اور بیاہ سے کیا ہو گا۔ نہیں، مجھے ایسا لگتا ہے مجھ پر کسی کا شراپ ہے۔
وزیر:(چونکتے ہوئے )شراپ؟نہیں، مہاراج!ایسا نہیں ہو سکتا۔ آپ گھبرائیے نہیں۔ میں آج ہی ملک میں اعلان کیے دیتا ہوں کہ جو کوئی ہمارے راجہ کی اولاد کے لیے کوئی اپائے، کوئی علاج یا مشورہ دے سکے اور کارآمد ہو تو اسے دس ہزار نقد انعام دیا جائے گا۔
راجہ:انعام کی رقم پانچ ہزار کر دو، کیونکہ شاہی خزانے میں روپئے کم ہیں۔
وزیر:(ہاتھ جوڑ کر) اعلان دس ہی ہزار کرتے ہیں تبھی لوگ پریتن کریں گے رہی دینے کی بات تو وہ اپنے ہاتھ میں ہے۔
راجہ:(ڈر کے لہجہ میں ) ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔ جو بہتر سمجھو کرو۔
وزیر:مہاراج! اب آپ اپنا موڈ ٹھیک کر لیں تاکہ دربار کی باقاعدہ کار روائی شروع کی جا سکے۔
راجہ:(مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے ) ٹھیک ہے، اب میرا موڈ قدرے بہتر ہے۔
وزیر:شکریہ، مہاراج۔ اب میں آپ کو یہ یاد دلانے کی کوشش کروں گا کہ آج مہاراج کا جنم دن ہے۔
درباری:(کھڑے ہو کر بیک زبان) مبارک ہو، جنم دن کی بدھائی ہو!
(راجہ سر خم کر کے مبارکباد قبول کرتا ہے۔)
وزیر:(باآواز بلند کہتا ہے ) حاضرین دربار، آج راجہ، راج گڈھ شری پرتاپ چندر پترہریش چندر کی ۲۸ویں سالگرہ ہم نہایت شاندار طریقے سے منائیں گے۔
راجہ:ہیں، آج پندرہ تاریخ ہے، آج میرا جنم دن ہے اور مجھ کوہی یاد نہیں ہاں، آج میرا جنم دن ہے (پھر گرج کر)لیکن یہ جنم دن ۲۸واں ہرگز نہیں بلکہ ۲۵واں ہے۔ آپ لوگ آخر میری عمر بڑھانے پرکیوں تلے ہوئے ہیں؟
درباری:(کھڑے ہو کر بیک زبان) عمر دراز ہو!ہمارے راجہ کی عمر دراز ہو!
راجہ:(غصے سے ) یہ ٹھیک ہے، لیکن ابھی میں ۲۸ویں کا نہیں ہوا، بلکہ میری عمر۲۵ویں میں داخل ہوئی ہے۔ آخر میں نے اپنے یہ کیش خضاب سے سیاہ نہیں کیے ہیں۔
(دربار میں موت کی سی خاموشی طاری ہے۔)
وزیر:(کھنکارتے ہوئے ) لیکن مہاراج، آگیہ ہو تو کچھ عرض کروں۔
(راجہ تمکنت سے سرکے اشارے سے اجازت دیتا ہے۔ پھر تاج گرنے کو ہے، وزیر بڑھ کر سنبھال لیتا ہے۔)
وزیر:مہاراج! آپ کی یادداشت کچھ کمزور ہو چلی ہے۔ پچھلے سال ہی آپ نے ۲۷ویں سالگرہ منائی تھی اور ۔۔۔
راجہ:(بات کاٹتے ہوئے ) ہرگز نہیں !میں جو کہہ رہا ہوں اسے پتھر کی لکیر سمجھئے یہ میری ۲۵ویں سالگرہ ہے۔
درباری:(کھڑے ہو کر بہ یک زبان) ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔ تین برسوں میں کیا آتا جاتا ہے۔
ایک درباری:تم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار
(راجہ خوش ہو کر سر سے موتیوں کی مالا اتار کر پھینکتا ہے۔ سب درباری اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں، مالا بکھر جاتی ہے، سب مل کر بانٹ لیتے ہیں۔)
وہی درباری:(احتجاج کرتے ہوئے ) یہ کیا مہاراج، مالا تو آپ نے مجھے خوش ہو کر دی تھی پھر یہ سب کیا؟میرے ہاتھ ایک ہی موتی لگا؟
راجہ: آپ نہیں جانتے میرے دیش میں جمہوریت کا راج ہے۔ ڈیموکریسی کا راج اس میں سبھوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں۔
(درباری برا سا منھ بنا کر اپنی جگہ بیٹھ جاتا ہے۔)
وزیر:اس شبھ گھڑی کو امر بنانے کے لیے میں نے پچھلے ہفتے شہر میں منادی کرا دی تھی کہ جو کوئی راجہ کوکسی طرح کا اپہار دینا چاہے وہ خود اپہار لے کر دربار میں حاضر ہو۔ لہٰذا میں نے آج صبح سے ہی قلعہ کے باہر لوگوں کا اژدہام دیکھا ہے۔ یہ رات ہی سے قلعے کے باہر قطاروں میں کھڑے ہیں اور حسب توفیق اپنے راجہ کے لیے کچھ نہ کچھ لے کر راجہ سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے کے لیے بے چین ہیں۔ اب اگر مہاراج اجازت دیں تو انھیں اندر آنے کو کہوں۔
راجہ:(ہاتھ اٹھا کر) ٹھیک ہے۔ ایک ایک کر کے اندر لایا جائے۔ لیکن اندر آنے سے پہلے ان کی اچھی طرح تلاشی لے لی جائے۔ تم تو جانتے ہو بھیڑ دیکھ کر میں نروس ہو جاتا ہوں۔
(وزیر سنتری کو اشارہ کرتا ہے۔ وہ چلا جاتا ہے۔ کچھ لمحے بعد اس کے ہمراہ ایک فاقہ زدہ بوڑھا داخل ہوتا ہے۔ ننگے بدن، ننگے پاؤں، جھانکتی ہوئی پسلیاں اور دھنسی ہوئی آنکھیں۔ چاروں اور دربار کی شان و شوکت دیکھ کر مبہوت ہے۔)
راجہ:(غصے میں تخت سے اٹھ کر) یہ کیا؟ اس بوڑھے فقیر کو اندر آنے کی اجازت کس نے دی؟
وزیر:(سمجھاتے ہوئے ) لیکن مہاراج، یہ فقیر نہیں، ہماری رعایا ہے اور اگلے سال ہی الیکشن ہونے والا ہے، اگر عوام کے دل نہ جیتے گئے تو حریف پارٹیاں ووٹ لے جائیں گی اور پھر یہ گدی ہاتھ سے گئی سمجھئے۔
(راجہ کچھ نہیں کہتا۔ نفرت سے بوڑھے کو دیکھتے ہوئے ناک پر رومال رکھ لیتا ہے۔)
وزیر:مہاراج! یہ شخص کل رات سے لائن میں کھڑا ہے۔ اس کا اصرار ہے کہ وہ آپ سے ضرور مل کر جائے گا۔
راجہ:(نخوت سے ) تم کیا لائے ہو میرے لیے، اور تم مجھے کیا دے سکتے ہو؟
بوڑھا:(ہاتھ جوڑ کر) مہاراج! یہ سچ ہے میں آپ کو کچھ نہیں دے سکتا۔ میں ایک بوڑھا کسان آپ کو کیا دے سکتا ہوں، جو کچھ بھی میرے پاس تھا وہ سب آپ کودے چکا ہوں، اب یہ چمڑی بچی ہے اسے اپنی جوتی کے لیے استعمال کیجئے، بس یہی میرا آخری تحفہ ہے یہی میں آج دینے آیا ہوں۔
راجہ:(غصے میں لال پیلا ہو کر) بوڑھے نابکار، تیرا دماغ چل گیا ہے، میری جوتی کو تیرے بوڑھے چمڑے کی حاجت نہیں، البتہ میں تیری کھال ادھڑوا کر اس میں بھس بھروا سکتا ہوں۔
بوڑھا:(عاجزی سے ) وہی کیجئے سرکار، بڑی مہربانی ہو گی۔ اب اور جیا نہیں جاتا، میں چاہتا ہوں کہ مر کر بھی آپ کے کام آؤں۔
(وزیر راجہ کے کان میں کچھ کہتا ہے، پھر کسان سے مخاطب ہوتا ہے۔)
وزیر:بوڑھے، تو کسان ہے، تجھے زندہ رہنا ہے۔ اگر تو زندہ نہیں رہے گا تو ہم کیسے زندہ رہیں گے؟اگر تو کھیت نہیں جوتے گا، غلہ نہیں اگائے گا تو ہم کیا کھائیں گے؟ظاہر ہے ہم تو یہ نہیں کر سکتے۔ اس لیے ہماری زندگی کی خاطر تجھے زندہ رہنا بہت ضروری ہے۔
بوڑھا:لیکن سرکار، اب میرے ہاتھ پاؤں میں اتنی طاقت نہیں کہ میں ہل جوت سکوں، بہت جلد تھک جاتا ہوں، دن بھر میں ایک چوتھائی کھیت بھی نہیں جوت سکتا تو میرا زندہ رہنا کس کام کا؟
راجہ:ہم کچھ نہیں سننا چاہتے۔ جا، وقت ضائع نہ کر، دن چڑھ آیا ہے کھیت کو جا۔
بوڑھا:کھیت جا کر کیا کروں، نہر سوکھی پڑی ہے، آب پاشی کا کوئی بندوبست نہیں، دوسرے گاؤں سے پانی لانے کے لیے الیکٹرک پمپ ضروری ہے اور اس کے لیے پیسے چاہئیں جو میرے پاس نہیں۔
راجہ:پیسے نہیں؟تو بینک کیوں نہیں جاتے۔ آخر ہم نے بینک غریب کسانوں کے لیے ہی تو Nationalise کیا ہے، تم وہاں جاؤ، روپئے ضرور ملیں گے۔
بوڑھا:میں جا چکا ہوں۔ روپئے ملنے تو درکنار، میری جیب سے پندرہ روپئے بھی چلے گئے۔
راجہ:(چونک کر) وہ کس طرح؟
بوڑھا:بینک کے کلرکوں کو دینے اور بڑے بابو تک پہنچنے میں۔
وزیر:پھر؟
بوڑھا:پھر کیا، سال بھر انھوں نے دوڑایا۔ میرا کھیت بڑے بابو نے آ کر دیکھا اور گھونس مانگا۔ اب بتائیے، میں غریب کسان سو روپئے کہاں سے لاتا، نتیجہ یہ ہوا ادھار نہیں ملا۔
وزیر:تو تم کسی جوت دار کے پاس اپنا بیل گروی کیوں نہیں رکھ دیتے؟
بوڑھا:سرکار، اگر بیل بھی گروی رکھ دوں تو ہل کیسے جوتوں اور مجھ بوڑھے میں اتنا دم نہیں کہ خود بیل کی جگہ لے لوں۔
راجہ:ٹھیک ہے، کیا تیرا کوئی لڑکا نہیں جس سے بیل کا کام لیا جا سکے؟
بوڑھا:(آنکھوں میں آنسو بھرکر) مہاراج! میرے تین جوان بیٹوں کو تو آپ نے فوج میں زبردستی بھرتی کر لیا اور ایک ایک کر کے یدھ میں مارے گئے۔
(سسکیاں بھرتا ہے۔)
وزیر:بھئی، وطن کی حفاظت کے لیے تو یہ ضروری ہے۔
بوڑھا:اور مہاراج، ان کے شہید ہونے کے بعد مجھ سے ماہانہ ۵۰روپئے وظیفہ کا وعدہ کیا تھا جو تین ماہ مل کر بند ہو گیا۔
وزیر:اوہ، وہ وظیفہ ہمیں مجبوراً بند کر دینا پڑا تھا کیونکہ شاہی خزانے میں اب اتنا روپیہ نہیں کہ دیا جا سکے اور پھر تم کسان لوگ بھی مال گذاری باقاعدگی سے ادا نہیں کرتے۔
بوڑھا:کیسے کروں، پچھلے سیلاب میں فصل برباد ہو گئی اور اس سال قحط پڑنے کو ہے۔
وزیر:ہمیں تمہارے ساتھ ہمدردی ہے۔ ہم اپنے اگلے منصوبے میں تم کسانوں پر خرچ کے لیے بڑی رقم رکھیں گے۔
راجہ:بوڑھے، تمہارا اور کوئی نہیں اس دنیا میں؟
بوڑھا:تین لڑکوں کے علاوہ میری ایک بیٹی تھی روپا۔
راجہ:(آنکھیں چمک اٹھتی ہیں ) روپا!اب وہ کہاں ہے؟
بوڑھا:سرکار، وہ تو آپ کے ہی محل میں ہے، آپ کے ہی لوگ ایک رات اسے چپکے سے سوتے میں اٹھا لائے تھے۔
راجہ:(نظریں چراتے ہوئے )اچھا، اچھا۔ وہ روپا تمہاری بیٹی ہے۔ خیر، بہت آرام سے ہے فکر کی ضرورت نہیں، اس کے علاوہ کوئی؟
بوڑھا:مہاراج!میری بیوی برسوں پہلے ہیضے میں مر گئی۔ کیونکہ ان دنوں اسپتال میں ڈاکٹروں کی ہڑتال تھی اور میری ایک نو ماہ کی بچی کو اسی اسپتال میں چوہے کھا گئے۔
وزیر:چوہے کھا گئے؟اوہاں ہمیں خبر ہے، تحقیق کی جا رہی ہے۔
بوڑھا:یہ تو برسوں پہلے کی بات ہے۔ اب تک تحقیق کی جا رہی ہے۔
راجہ:ہاں بھئی! سرکاری کام میں تو دیر ہوتی ہے، تمہارا اور کوئی نہیں؟
بوڑھا:(راجہ کے پاؤں پکڑتے ہوئے ) بس ایک آپ ہیں، آپ ہی سب کچھ ہیں، اوپر بھگوان نیچے آپ اور ہم تو آپ کوہی بھگوان سمجھتے ہیں۔ اب اگر آپ ہی ہمارے نہ ہوں گے تو اور کون ہو گا؟
راجہ:(غصے میں کھڑا ہو جاتا ہے ) نہیں، ہم صرف تمہارے نہیں، ہم پچاس کروڑ عوام کے ہیں۔ ان پچاس کروڑ عوام کے جو ہم پر آس لگائے بیٹھے ہیں کہ غریبی کب ہٹے گی، دکھ کے بادل کب چھٹیں گے، معصوم بھولے بھالے عوام!یہ آس ہم توڑنا نہیں چاہتے۔
بوڑھا:لیکن مہاراج، آخر یہ غریبی کب ہٹے گی؟
راجہ:(پر امید لہجے میں )بہت جلد، یہ آسان کام نہیں جو منٹوں میں ہو جائے اس کے لیے ہمیں صبر کرنا ہو گا، ہم پر بھروسہ رکھنا ہو گا، ایک بار اور ہمیں راجہ بنانا ہو گا، ایک بار اور اس الیکشن میں ہمیں کامیاب کرو۔ پھر دیکھنا تمہارے دکھ درد کے دن دور ہو جائیں گے۔
بوڑھا:(سرد آہ بھرکر) مہاراج! تب تک شاید میں نہ رہوں۔ خیر، آج اس مبارک دن میں میں آپ سے کچھ مانگ سکتا ہوں؟
وزیر:مانگنے کی طرح مانگ ورنہ۔۔۔
بوڑھا:مہاراج! مجھے اپنی بیٹی روپا سے ملنے کی اجازت دیں، اسے دیکھنے کو آنکھیں ترس گئی ہیں۔
راجہ:ہر گز نہیں !
بوڑھا:صرف ایک بار!
راجہ:(سنتریوں سے ) لے جاؤ اس بوڑھے کو، اس کا دماغ چل گیا ہے۔
(دو سنتری بوڑھے کو بازوؤں سے کس کر پکڑ لیتے ہیں۔ وہ اپنے کو چھڑانا چاہتا ہے۔ لیکن وہ اسے گھسیٹتے ہوئے لے جاتے ہیں۔ بوڑھا چلاتا ہے۔)
بوڑھا:مجھے اپنی بیٹی سے ملنے دو، صرف ایک بار!
راجہ:(تلملاتے ہوئے ) کم بخت نے سارا موڈ خراب کر دیا۔
(وزیر سنتری کو پھر اشارہ کرتا ہے۔ وہ چلا جاتا ہے، پھر ایک نوجوان کے ہمراہ داخل ہوتا ہے۔ کرتے پاجامے میں ملبوس کندھے سے تھیلا لٹک رہا ہے۔ نوجوان باغیانہ انداز میں داخل ہوتا ہے۔)
وزیر:نوجوان!تم راجہ کے جنم دن پر کون سا تحفہ لائے ہو؟
نوجوان:میں چند خواب لے کر آیا ہوں، چند سپنے۔
راجہ:صرف خواب؟ سپنے؟ لیکن ہم تمہارے خواب لے کر کیا کریں گے؟ ہم اپنی خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں، ہم دوسروں کے سپنے نہیں لیتے۔
نوجوان:مہاراج! یہ خواب، یہ سپنے آج ملک کا ہر نوجوان دیکھ رہا ہے۔
راجہ:(بے پروائی سے )دیکھتا ہو گا، ہم کو اس سے کیا مطلب۔
نوجوان:لیکن مہاراج، ان خوابوں کی تعبیر آپ سے وابستہ ہے۔ آج ملک کا نوجوان گریجویٹ یا ایم اے ہو جانے کے بعد بھی بے کا رہے۔ وہ جو اس نے ایک سنہرا سپنا دیکھا تھا، نوکری، خوشحالی اور ترقی کا، وہ سب اب بکھرنے کو ہے، اس کے تمام راستے بند ہیں، اس کے آگے اندھیرا ہی اندھیرا چھایا ہوا ہے، آخر وہ کیا ہے؟
راجہ:سپنا؟ہا ہا ہا! انھیں سپنے ہی دیکھنے دو۔
وزیر:(راجہ سے ) آہستہ، کہیں ان کی نیند نہ ٹوٹ جائے (پھر نوجوان سے ) ہاں نوجوان، تم لوگ خوش قسمت ہو کہ سپنے دیکھ لیتے ہو۔ یہاں ہماری تو فکر سے نیند ہی اڑ گئی ہے۔ برسوں سے سو نہیں پائے۔ آخر اس مسئلے کو کس طرح حل کیا جائے؟
نوجوان:اب اور زیادہ دن انتظار نہیں کیا جا سکتا۔ آپ ہماری بے کاری دور کریں۔ آخر یہ نوجوان پڑھ لکھ کیا کریں، فاقہ کر کے مر جائیں یا چوری ڈکیتی پرتل جائیں؟بتائیے !
راجہ:(غصے سے ) نوجوان! زبان کو لگام دو، تم بھول رہے ہو کہ کس سے مخاطب ہو؟
نوجوان:لیکن مہاراج، یہ بولنے کا ادھیکار بھی تو آپ نے ہی ہمیں انگریزوں سے دلایا ہے، گنٹرتنتر کا پتھ بھی تو آپ نے ہی دکھایا ہے۔
راجہ:ٹھیک ہے، ہم نے ایسا ضرور کیا ہے لیکن اس کی بھی ہم نے ایک سیما بنا رکھی ہے اور اس سیما کو توڑنے والوں کے لیے قوانین کا جال بچھا رکھی ہے۔
نوجوان:تلخ نوائی کی معافی چا ہوں گا مگر آج آپ سے بہت کچھ کہنا ہے۔
راجہ:تم نے شاید بہت زیادہ کتابیں پڑھ لی ہیں، اسی لیے اوٹ پٹانگ ہانک رہے ہو۔ اب ہمیں ایجوکیشن سسٹم ہی بدلنا ہو گا، کورس کی کتابیں تبدیل کرنی ہوں گی(تشویش سے ) ورنہ ہمارے نوجوان Imported لٹریچر پڑھ پڑھ کر برباد ہو جائیں گے۔
نوجوان:ہمارا ایجوکیشن سسٹم تو ویسے بھی ایک Farce ہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں امتحانات نہیں ہوتے، تین سال کا کورس چھ سال میں پورا ہوتا ہے تاکہ پڑھے لکھے نوجوانوں کی سنکھیا کم ہو، امتحان میں نقل کی کھلے عام اجازت ہے تاکہ یہ طلبہ اپنی صلاحیت کھو بیٹھیں۔ میں خوب سمجھتا ہوں ان چالوں کو، اب ہم طلبہ جاگ رہے ہیں۔
راجہ:(غصے میں کانپتے ہوئے تالی بجا کر) داروغۂ زنداں، لے جاؤ اس باغی کو اور ڈال دو کالی کوٹھری میں، دو دن میں دماغ ٹھکانے آ جائیں گے۔
(دو سنتری نوجوان کو گرفت میں لے لیتے ہیں۔ نوجوان چلا جاتا ہے۔)
نوجوان: آپ پچھتائیں گے۔ میں اسٹوڈنٹ لیڈر ہوں، الیکشن قریب ہے، ملک کے ڈیڑھ لاکھ اسٹوڈنٹ میرے ساتھ ہیں، میری نظربندی کے خلاف زبردست آندولن چلائیں گے وہ، آپ کا یہ تخت و تاج خطرے میں پڑ جائے گا۔
(وزیر راجہ کے کان میں کچھ کہتا ہے۔ راجہ ہاتھ کے اشارے سے سنتریوں کو چھوڑ دینے کو کہتا ہے۔)
راجہ:(نرم پڑتے ہوئے ) نوجوان! ہم اہنسا کے پجاری ہیں، ہم گاندھی جی کے ماننے والوں میں ہی ہیں، پھر تمہارے اندر یہ مار ڈھاڑ کے وچار کہاں سے آ گئے؟شانتی اور دھیرج سے کام لو نوجوان۔یہ وہ سمسیا ہے جس کا سمادھان اتنا آسان نہیں، دماغ گرم کر کے حل نہیں کیا جا سکتا، اس کے لیے ہمیں گمبھیرتا سے سوچنا ہو گا، ہم اس سلسلے میں بہت جلد نوجوانوں سے ملیں گے، ان کی شکایتیں سنیں گے، اس کے لیے ہمیں تمہاری مدد کی ضرورت ہے، کیا ایسے آڑے وقت میں تم ہمارا ساتھ نہیں دو گے؟
نوجوان:ہم بات چیت کے لیے تیا رہیں مگر صرف یوجنا بنانے سے کام نہیں چلے گا، اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔
راجہ:ضرور، ضرور(پھر گلے سے ہار نکال کر پھینکتے ہوئے ) لو، یہ تمہارا انعام۔
نوجوان:(پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے ) یہ انعام کس لیے مہاراج؟
وزیر:یہ انعام تمہیں اس بات کو دیا گیا ہے کہ آج تم نے ایک گمبھیر سمسیا کی اور دھیان دلایا ہے۔
راجہ:اور ہم ساتھ ہی ساتھ تمہیں پچاس بیگھہ زمین الاٹ کرتے ہیں۔
نوجوان:(آنکھیں پھاڑ کر)پچاس بیگھہ زمین وہ کس لیے مہاراج؟
وزیر:اس زمین کے ایک حصے میں بے کار نوجوانوں کے لیے ایک شاندار بلڈنگ بناؤ اور اس میں ایک کلب استھاپت کرو تا کہ بے کاری کا سمے وہ وہاں بتا سکیں، وہ ان کے سپنوں کا محل ہو گا اور بقیہ زمین تم اپنے نام کر لو، اور ہاں ہم سالانہ پچاس ہزار روپئے اس کلب کے خرچ کے لئے مقرر کرتے ہیں۔
نوجوان:(خوشی سے بے قابو ہو کر) دھن ہو مہاراج، دھن ہو(پھر کچھ یاد کر کے ) لیکن مہاراج، اگر دوسرے نوجوانوں کو یہ فیصلہ پسند نہ آیا اور انھوں نے مجھ پر غداری کا الزام لگایا تو میں کیا کروں گا، مہاراج؟
راجہ:(کمر سے خنجر نکال کر دیتے ہوئے ) لو، یہ تمہاری حفاظت کرے گا۔
نوجوان:(خنجر کو آنکھوں سے لگاتا ہے پھر تشویش سے پوچھتا ہے ) لیکن مہاراج! اگر تھانے دار۔۔۔؟
وزیر:ہم تمہارے ساتھ ہیں، جوان۔ چنتا کی کوئی بات نہیں۔
نوجوان:(خوشی سے جھوم کر) راجہ پرتاپ جگ جگ جیو!
(چلا جاتا ہے۔)
راجہ:(وزیر سے ) جنم دن منانے کا یہ خوب طریقہ نکالا ہے کہ مجھے رعایا کے سامنے جواب دہ ہونا پڑا۔
وزیر:(ہاتھ جوڑ کر) غلطی ہو گئی سرکار، مجھے پتہ نہ تھا کہ ایسے لوگ آ جائیں گے لیکن مہاراج، اس سے ایک فائدہ یہ ضرور ہوا کہ آپ کو جتنا کی بھاؤناؤں کا پتہ چل گیا۔
راجہ:(بگڑ کر) ہمیں سب پتہ ہے لیکن ہمیں ان کی بھاؤناؤں سے کوئی مطلب نہیں، اگر ہم یہ فکر کرنے لگیں تو پھر حکومت کون کرے۔
وزیر:(ڈر کر) شما کریں، مہاراج، بھول ہو گئی۔
راجہ:(تمکنت سے ) آئندہ اس کا خیال رکھا جائے ورنہ ہم یہ سمجھیں گے کہ تم بھی ہمارے وفادار نہ رہے۔
وزیر:(گڑگڑاتے ہوئے ) نہیں مہاراج، میں مرتے دم تک آپ کا وفادار رہوں گا۔
راجہ:ٹھیک ہے، اسی میں تمہاری بھلائی ہے۔
وزیر:(سنتری سے ) باہر لوگوں سے کہہ دو کہ بھینٹ سویکار کیے جا چکے ہیں لہٰذا وہ اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں۔
(سنتری چلا جاتا ہے، پھر واپس آتا ہے۔)
سنتری:مہاراج! سب چلے گئے ہیں۔ کیوں ایک شخص کا اصرار ہے کہ وہ آپ سے مل کر ہی جائے گا ورنہ قلعہ کے باہر مرن برت رکھ لے گا۔
راجہ:(غصے میں ) مرن برت رکھنے دو، مرنے دو کم بخت کو، کچھ تو غلہ بچے گا۔
(وزیر راجہ کو کچھ سمجھاتا ہے اور سنتری سے کہتا ہے۔)
وزیر:لے آؤ اسے۔
(سنتری کے ساتھ ایک شخص داخل ہوتا ہے۔)
راجہ:تم کون ہو؟ہمیں کیا دینے آئے ہو؟
نو وارد:میں مزدوروں کا لیڈر ہوں، ان مزدوروں کا جو کلوں اور کارخانوں میں اپنا خون پسینہ بہا کر بھی دو وقت کی روٹی نہیں پاتے، آج ان ہی مزدوروں کی فریاد لے کر آپ پاس آیا ہوں۔
راجہ:بکواس بند کرو، مزدور کارخانوں میں کام نہیں کرتے، پیداوار دن بدن گرتی جا رہی ہے، اسی کارن ہمیں بدیشی مدرا نہیں ملتا، حکومت کس طرح چلائیں گے بدیشی مدرا کے بنا تم ان مزدوروں کی فریاد لے کر آئے ہو!
لیڈر:اگر پروڈکشن کم ہوتا ہے تو اس کا ذمہ دار مزدور نہیں، کارخانے کا مالک ہے، حکومت ہے جو کچا مال سپلائی نہیں کرتی، اگر آپ سے حکومت نہیں چلتی تو آپ اس سے الگ کیوں نہیں ہو جاتے؟
راجہ:(بپھر کر) خاموش، یہ ہماری مرضی پر ہے چھوڑیں یا نہ چھوڑیں، تم ہمیں سبق دینے والے کون ہوتے ہو؟
وزیر:(راجہ کے کان میں کچھ کہتا ہے پھر لیڈر سے مخاطب ہوتا ہے ) ہم مزدوروں کی مانگوں پرغور کریں گے، ان کے اچھے سروس کنڈیشن کے لیے ہم کئی منصوبے بنائے ہیں، ان پر بہت جلد عمل کیا جائے گا۔
لیڈر:یہ سنتے سنتے کان پک گئے، کارخانے تالا بندی کے شکار ہوتے جا رہے ہیں، نیا کارخانہ کھلتا نہیں، جو پرانی بڑی بڑی انڈسٹریاں ہیں ان میں بدیشی انجینئر اور ماہرین کام کر رہے ہیں جب کہ ہمارے ملک میں انجینئر بے کا رہیں۔
وزیر:یہ ٹھیک ہے، مگر یہ انڈسٹری بدیشی ملکوں کی مدد سے قائم کی گئی ہے اس لیے ہمیں ان کے انجینئر اور ماہرین کو رکھنا پڑتا ہے (سمجھاتے ہوئے ) اس سمے ہمارا ملک سخت کٹھنائیوں سے دوچا رہے، قحط پڑ گیا ہے، شاہی خزانہ خالی ہے، سرحد پر دشمن کی فوج جمع ہے، ایسے مشکل وقت پر ہمیں اپنے راجہ کا ساتھ دینا چاہئے، مل جل کر ان مسئلوں پر غور کرنا چاہئے۔ جائیے مزدوروں اور ورکروں کو سمجھائیے کہ اپنے اپنے کام پر واپس جائیں اور پروڈکشن بڑھائیں جبھی ہم ترقی کر سکتے ہیں۔
لیڈر:مگر ہمارے مزدوروں کی جو جائز مانگ ہے اس کا کیا ہو گا؟
وزیر: آپ ان سے کہدیں بات چیت ہو رہی ہے۔ اس دوران ہم ملک میں ایمرجنسی لاگو کر دیتے ہیں اور ہڑتال وغیرہ غیر قانونی قرار دے دیتے ہیں۔
لیڈر:مگر یہ سراسر ظلم ہے۔
راجہ:یہ ظلم نہیں، ملک کی ضرورت کے عین مطابق ہے اور پھر تمہیں فکر کس بات کی ہم تمہیں امریکہ کا سفیر بنا دیں گے۔
لیڈر: آپ مجھے رشوت دے رہے ہیں۔
راجہ:یہ رشوت نہیں، تمہاری خدمت کا صلہ ہے، جاؤ اسٹرائک توڑ دو۔
(لیڈر نکل جاتا ہے، راجہ پیشانی سے پسینہ پونچھتا ہے، تاج ایک بار پھر گرنے کو ہے کہ وزیر سنبھال لیتا ہے۔)
وزیر:(راجہ سے ) مہاراج کی اگر آ گیا ہو توہم دربار کی کاروائی شروع کریں۔
( راجہ سر ہلا کر اجازت دیتا ہے۔)
وزیر:حسب معمول سب سے پہلے اپرادھیوں کو باری باری راجہ کے حضور میں پیش کیا جاتا ہے۔ چشم دید گواہوں کے بیان کی روشنی میں ان پر جو الزامات لگائے گئے ہیں، وہ بیان کرتا ہوں۔ آج سب سے پہلے مجرم حاتم طائی کو حاضر کیا جائے۔
(ایک سپاہی آواز لگاتا ہے کہ حاتم طائی حاضر ہو۔ حاتم طائی ایک سنتری کے ہمراہ داخل ہوتا ہے۔ عربی لباس میں لمبا چوڑا خوبصورت نوجوان ہے۔ دربار کے وسط میں آ کر کھڑا ہوتا ہے اور سر کو خم کر کے راجہ کو سلام کرتا ہے۔)
وزیر:(الزام پڑھتے ہوئے ) حاتم طائی، ساکن بغداد شریف۔ ہمارے وطن میں چھ برس ہوئے وارد ہوا۔ مہاراج کی اجازت سے یہاں قیام کیا اور اس کی شہریت اختیار کی۔ یہ شخص کہتے ہیں بڑا دریا دل بلکہ سمندر دل ہے۔ اس کے دل میں دنیا بھر کا درد سمایا ہوا ہے، اس کی صحت شہر کے اندیشے میں کافی اچھی ہو گئی ہے۔ مہاراج، یہ وہ شخص ہے جو بھوکوں کو کھلاتا ہے اور ننگوں کو پہناتا ہے، اس کی سخاوت کے چرچے بہت دور تک پھیلے ہوئے ہیں اور یہ آہستہ آہستہ اپنی چالاکی و عیاری سے عوام میں ہردلعزیز ہوتا جا رہا ہے، اگر اس کو باز نہ رکھا گیا، سزا دی نہ گئی تو یہ شخص آپ کی سلطنت الٹ دے گا اور اگلے الیکشن میں لوگ اسے اپنا راجہ بنا لیں گے۔
حاتم:(اپنا منھ پیٹتے ہوئے )توبہ توبہ، ہرگز نہیں۔ مہاراج!میری ایسی کوئی تمنا نہیں، مجھے راج پاٹ سے کوئی دلچسپی نہیں، میں تو ٹھہرا صوفی منش اور فقیر انسان، مجھے حکومت سے کیا لینا، میرے خلاف لگائے ہوئے الزامات پورے صحیح نہیں مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا ہے، اگر ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کر دینا، محتاجوں کی حاجت روائی کرنا آپ کے یہاں جرم ہے تو میں بے شک مجرم ہوں۔
راجہ:(وزیر سے ) آگے بڑھو!
وزیر:یہ وہ شخص ہے جو خود بھوکا رہ کر اوروں کو کھلاتا ہے۔
راجہ:کیوں حاتم؟کیا تمہیں بھوک نہیں لگتی؟
حاتم:(ہاتھ جوڑ کر)بھوک کیا خاک لگے مہاراج، جب ہر طرف بھوک ہی بھوک ہو، دوسروں کو بھوکا دیکھ کر مجھ سے کھایا نہیں جاتا۔
راجہ:(غصے میں کھڑے ہو کر)تم ہمیں غصہ دلا رہے ہو، یہ جنتا ازلی بھوکی ہے اس کی بھوک کبھی نہیں مٹے گی۔
حاتم:مٹے گی سرکار، اگر ہم سب اپنے نوالے بانٹ لیں۔
راجہ:خاموش! چھوٹا منھ بڑا نوالہ مجھے سبق پڑھانے کی کوشش نہ کرو۔حاتم کہیں تم کمیونسٹ تو نہیں ہو گئے؟
حاتم:(حیرت سے ) کمیونسٹ!یہ کیا ہوتا ہے؟
راجہ:تم کمیونزم نہیں سمجھتے ہو تو پھر یہ دریا دلی کیا معنی رکھتی ہے؟تمہارے من میں غریبوں کے لیے اتنا پریم کیوں؟
وزیر:(آگے بڑھتے ہوئے ) پرسوں ہی اس نے بھولا مستری کی لڑکی کی شادی کے لیے ۵۰۰روپئے دیئے جب کہ بھولا ہمارے دربار سے خالی ہاتھ لوٹا تھا۔ اس طرح مہاراج، یہ شخص آپ کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
راجہ:(غصے سے ) حاتم! تمہاری سخاوت حدسے بڑھتی جا رہی ہے، تم ہمیں رسوا اور ذلیل کر رہے ہو۔
حاتم:(ہاتھ جوڑ کر) مہاراج! اگر بھولے کو روپیہ نہ ملتے تو لڑکے والے بارات واپس لے جاتے۔ پھر کہیے سرکار، رکمنی سے کون بیاہ کرتا؟
راجہ:تمہیں اس چنتا کی کوئی ضرورت نہیں، ہم جوہیں۔ یاد رکھو، تم دوسرے ملک سے آئے ہو، تمہیں ہمارے ملک کے قانون کے مطابق چلنا پڑے گا ورنہ ہم تمہیں دی ہوئی شہریت واپس لے لیں گے۔ آئندہ خیال رہے، تمہیں جو کچھ مدد کرنی ہو ہمارے قائم کردہ ٹرسٹ میں دینا، ہم لوگوں تک پہنچا دیں گے، اب تم جا سکتے ہو۔
(حاتم چلا جاتا ہے۔)
وزیر:اور یہ دوسرا ملزم ہے سندباد جہازی۔
سپاہی:(آواز لگاتا ہے ) سندباد جہازی۔
(ایک سپاہی کے ہمراہ سندباز جہازی حاضر ہوتا ہے۔ نیوی کا کپتان معلوم ہوتا ہے۔ سفید پینٹ اور سفید قمیض، چھوٹی سی داڑھی بغل میں بڑا سا پتوار لیے سینہ تانے کھڑا ہے۔ سپاہی اسے سر جھکا کر سلام کرنے کو کہتے ہیں، مگر وہ بدستور اکڑا رہتا ہے۔ ایک سپاہی زبردستی اس کی گردن پکڑ کر جھکا دیتا ہے۔ وہ جھلا کر مارنے اٹھتا ہے۔)
وزیر:(ڈانٹتے ہوئے ) یہاں اکڑ نہیں چلے گی، تمیز سے کھڑے رہو(پھر پڑھتے ہوئے ) یہ شخص جو اپنا نام سندباد جہازی بتاتا ہے، کل رات ہگلی ندی کے کنارے مشتبہ حالت میں گرفتار کیا گیا ہے، ہمیں شبہ ہے کہ یہ کوئی سی آئی اے ایجنٹ ہے یا پھر پڑوس کے دشمن ملک کا جاسوس۔
راجہ:کیوں، تم کون ہو؟
سندباد:میں ایک سیاح ہوں، سیاحت میرا کام ہے، میں نے دنیا کے تمام ملک دیکھے ہیں، میں نے اپنی کشتی میں پوری دنیا کی سیر کی ہے۔
راجہ:کیا تم اس سے پہلے بھی کبھی ہمارے ملک آئے تھے؟
سندباد:نہیں، مگر میرا باپ آیا تھا اور اس نے اپنی ڈائری میں جو کچھ اس ملک کے بارے میں لکھا ہے۔ وہ میرا اشتیاق بھڑکانے کے لیے کافی ہے اور اسی لیے میں نے ہندوستان کے سفر کی ٹھانی۔ مگر آہ!مجھے کیا پتہ تھا میرا باپ جھوٹا ہو گا، وہ تمام باتیں غلط لکھے گا۔
راجہ:کیا لکھا تھا تمہارے باپ نے؟
سندباد:اس نے لکھا تھا ہندوستان ایک شانت وشال جگہ ہے جہاں روحانی سکون ملتا ہے، جہاں انصاف ہے، جنتا سنتوش ہے، کوئی بھوکا نہیں، ننگا نہیں اور اس نے ہرش وردھن اور اشوک کی خاص تعریف کی ہے۔
راجہ:تمہارے باپ نے پرانے ہندوستان کا ذکر کیا ہے۔ جب یہاں بادشاہت تھی لیکن آج کا ہندوستان کافی بدل گیا ہے۔ اب عوام کی حکومت ہے، ڈیموکریسی ہے۔
سندباد:(قہقہہ لگاتا ہے ) ڈیموکریسی، جمہوریت، ہا ہا ہا!یہ تو خاندانی جمہوریت ہے۔
وزیر:(غصے سے ) سندباد، یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے، تم ہمارے نجی معاملات میں دخل نہ دو(پھر پڑھتے ہوئے ) تلاشی لینے کے بعد اس کے پاس سے ہمارے خفیہ فوجی اڈے، سائنسی اداروں کی تصویریں ملی ہیں اور حکومت کے چند اہم دستاویزات کی نقل بھی ملی ہے۔
راجہ:یہ سب کیا ہے؟تم یہاں جاسوسی کر رہے ہو؟
سندباد:(لاپرواہی سے ) یہ تصویریں، یہ دستاویزات میں نے روپئے خرچ کر کے حاصل کیے ہیں، آپ کے ہی لوگوں سے منھ مانگے دام پر خریدا ہے، اس میں میرا کیا قصور۔
راجہ:لیکن یہ جرم ہے، ہم تمہیں سزا دے سکتے ہیں، جیل میں سڑا سکتے ہیں، جلا وطن کر سکتے ہیں۔
سندباد:(ہنستے ہوئے ) جلاوطن؟ہاہاہا!راجہ شاید بھول رہے ہیں کہ یہ میرا وطن نہیں۔
راجہ:افسوس، ہمارے ہاتھ بندھے ہیں۔ ہم تم سیاحوں کو مشینری والوں کو ساتھ نہیں دے سکتے، اس سے ہماری فارن پالیسی خراب ہو گی، ڈالر نہیں ملے گا ہم تمہیں لیکن وارننگ دیتے ہیں، اس کے بعد مسلسل دس وارننگ اور دیں گے اگر اس پربھی تم باز نہیں آئے تو تمہیں مجبوراً ہندوستان چھوڑنا پڑے گا، اب تم جا سکتے ہو۔
(سندباد لاپروائی سے نکل جاتا ہے۔)
وزیر:یہ آپ نے کیا کیا؟ اسے یوں ہی چھوڑ دیا، یہ ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔
راجہ:کیا کروں، اس کے ملک سے جھگڑا نہیں مول لے سکتا۔
وزیر:پھر بھی یہ آپ نے اچھا نہیں کیا، آپ دوسرے ملک سے مدد لے سکتے ہیں۔ دوسری بڑی طاقت سے جواس کا منھ توڑ جواب دیتی ہے۔
(راجہ کچھ جواب نہیں دیتا۔)
وزیر:اور یہ ہیں چار درویش جنھیں کل رات کے تین بجے ایک باغ سے گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ چاروں اتنی رات گئے سیکشن ۱۴۴ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پائے گئے تھے۔
سپاہی:چار درویش، چاروں حاضر ہوں۔
(ایک سپاہی چار درویشوں کو لے کر داخل ہوتا ہے۔)
راجہ: آپ لوگ کون ہیں؟ اتنی رات گئے باغ میں کیا کر رہے تھے؟
چاروں :(بہ یک زبان) ہم سب چاروں درویش ہیں۔
راجہ:تم میں سے ایک کہے۔
ایک:مہاراج، ہم سب دنیا کی چار سمتوں مغرب، مشرق، شمال اور جنوب سے آئے ہیں بلکہ بھیجے گئے ہیں۔
راجہ:(حیرت سے ) بھیجے گئے ہیں؟ وہ کس طرح؟
دوسرا :ہمیں ایک بزرگ نے یہاں بھیجا ہے۔
راجہ:کون ہیں وہ بزرگ؟
تیسرا :انھوں نے اپنا نام، وقت بتایا ہے۔
راجہ:وقت؟یعنی سمے؟
چوتھا:جی ہاں، وہ ہم چاروں سے باری باری ملے اور تلقین کی ہندوستان کا رخ کر، وہاں تجھے تیری مراد ملے گی، تیرے بے قرار دل کو قرار آئے گا چنانچہ ہم سب کل رات باغ میں جمع ہوئے، ایک دوسرے کو آپ بیتی سنا رہے تھے کہ آپ کا یہ بے وقوف، ناہنجار سپاہی ہمیں پکڑ لایا۔
راجہ:یہ تو اس کا فرض تھا، تم ہمارے ملک میں نئے نئے آئے ہو، اس لیے ہمارے ملک کے قانون سے واقفیت نہیں ہمارے یہاں رات کے ۱۲ بجے کے بعد اسمگلروں کے سوا دوسرے گھومنے والوں کو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں دفعہ ۱۴۴لگی ہے، تین سے زیادہ شخص ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔
ایک:ہمیں اس کا پتہ نہ تھا۔
راجہ:خیر، ہمیں بھی یہ کہانی سناؤ جوتم ایک دوسرے کوسنا رہے تھے، ہمیں بھی کہانی سننے کا بڑا شوق ہے، جب سے ہماری نانی مری ہیں ہمیں کوئی کہانی سنانے والا نہیں، کیا تم ہمیں کہا نی سناؤ گے؟
دوسرا :پریوں کی کہانی نہیں، یہ مشینی دور کے انسانوں کی کہانی ہے۔ حقیقی کہانی، کیا آپ یہ سننا گوارا کریں گے؟
راجہ:حقیقی کہانی؟ کہانی سے حقیقت کا کیا تعلق؟کہانی کہانی ہے کیوں میرے وزیر؟
وزیر:نہیں مہاراج۔ اب کہانی کا لہجہ بدل رہا ہے۔ اب ان میں پری، بہشت دودھ کی ندیوں کا ذکر نہیں، اب ان میں مزدوروں، کسانوں کے بہتے ہوئے پسینے کی بو ہے، ان کے کرب اور کوکھ کی داستان ہے۔
راجہ:(حیرت سے ) تمہیں بھی ایسی کہانیاں پسند ہیں؟
وزیر:پسند یا ناپسند سے کچھ نہیں ہوتا مہاراج، یہ وقت کی کہانی ہے۔
راجہ:(ضد کرتے ہوئے ) بھئی، ہمیں تو جل پریوں کی کہانی اچھی لگتی ہے، اودے بادلوں اور کھلے آسمانوں کی کہانی۔ (درویش سے ) کیا تم ایسی کہانی نہیں جانتے؟
ایک:ہم سب وہ کہانی بھول گئے ہیں۔ ہم کل بیٹھے تبصرہ کر رہے تھے۔ ایک طرح سے یوں سمجھئے انٹرنیشنل ریلیشنز پر سمینار ہو رہا تھا۔
راجہ:یہ کیا ہوتا ہے؟میں یہ سب نہیں جاننا چاہتا، مجھے کوئی ایسی کہانی سناؤ جسے سن کر نیند آ جائے۔
دوسرا : معاف کیجئے گا مہاراج، ہماری کہانیاں سلانے کے لیے نہیں، عوام کو جگانے کے لیے ہیں۔
راجہ:ہم تو جاگے ہوئے ہیں، تم ہمیں کس طرح جگاؤ گے؟
تیسرا :یہی تو مشکل ہے۔
(اتنے میں ایک سپاہی گھبرایا ہوا داخل ہوتا ہے۔)
سپاہی:(ہانپتے ہوئے )مہاراج! خبر آئی ہے کہ پورے صوبے میں قحط اور بھوک مری پھیل گئی ہے، لوگ بری طرح مر رہے ہیں اور تقریباً ہزاروں بھوکے ننگے لوگوں کا اژدہام محل کی جانب بڑھ رہا ہے۔
راجہ:(گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوتا ہے ) کیا؟(پھر بے چینی سے ٹہلنے لگتا ہے ) وزیر! آپ ہی کچھ کیجئے، اب پانی سر سے اونچا ہو رہا ہے۔
وزیر:میں، مجھے سوچنے دیجئے۔
راجہ:اور سوچنے کا وقت نہیں، اگر کہیں سے غلے کا بندوبست نہیں کیا گیا تو یہ حکومت گئی۔
وزیر:(جھلا کر) آپ کو اپنی حکومت کی پڑی ہے، عوام کا خیال نہیں !
(ایک درباری آگے بڑھ کر کہتا ہے۔)
درباری:میرے ذہن میں ایک بات آئی ہے۔
راجہ:(بے چینی سے ) وہ کیا؟جلدی بکو(پھر سپاہیوں سے، درویشوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) انھیں قید خانے میں ڈال دو۔
(سپاہی انھیں لے کر چلا جاتا ہے۔)
درباری:مہاراج! میں نے ایک ایسے چراغ کا ذکر سنا ہے جسے حاصل کرنے سے ہمارے تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
راجہ:(حیرت سے ) چراغ، کیسا چراغ؟
درباری:وہ چراغ بغداد کے ایک درزی کے لڑکے الہٰ دین نام کے شخص کے ہاتھ لگا تھا اب وہ چراغ ہندوستان میں ہے۔
راجہ:وہ چراغ ہندوستان میں ہے؟اس کی خوبی کیا ہے؟
درباری:ایک دیو اس چراغ کا غلام ہے، جس شخص کے ہاتھ یہ چراغ لگے گا وہ دیو اس کا غلام ہو جائے گا اور پھر جو چیز مانگے گا، منٹوں میں حاضر ہو جائے گی۔
راجہ:(آنکھیں چمک اٹھتی ہیں ) سچ؟ اگر ایسا ہوا تو کیا ہی اچھا ہو(پھر گرج کر) مگر یاد رکھو اگر ایسا نہ ہوا توہم تمہاری گردن اڑا دیں گے۔
درباری:(سر خم کرتے ہوئے ) بے شک مہاراج۔
راجہ:اس چراغ سے ہم شاہی خزانہ بھر سکتے ہیں، غلہ منگوا سکتے ہیں، اف وزیر جی، آپ کیا کر رہے ہیں؟جلدی کچھ کیجئے، اس چراغ کو ڈھونڈئیے۔ ملک کا کونہ کونہ چھان مارئیے، وہ چراغ ملنا چاہئے۔
وزیر:(تشویش سے ) مجھے تو سب بکواس لگتی ہے، ایسے کسی چراغ کا وجود نہیں ہو سکتا۔
درباری:(وثوق کے ساتھ) ہے اور ضرور ہے، آپ کوشش تو کیجئے۔
راجہ:ہاں، یہ اعلان کروا دیجئے کہ جس شخص کے پاس یہ چراغ ہو وہ اسے لے کر ہمارے حضور میں فوراً حاضر ہو، انعام ملے گا۔
وزیر:اگر ایسا کوئی چراغ ہے بھی تو کوئی بھلا کیوں دینے لگا، اور پھر جب اس چراغ سے سب کچھ حاصل ہو جاتا ہے تو کوئی انعام کی پرواہ کیوں کرے گا؟
راجہ:(سوچ میں پڑ جاتا ہے )ہاں، ٹھیک ہے۔ ایسا کرو کہ الہٰ دین نام کے تمام آدمیوں کو گرفتار کروا کے منگوا لو۔
وزیر:گرفتار کرنے سے کیا چراغ مل جائے گا؟
راجہ:بے شک، ہم اسے اذیت دیں گے Misa کا خوف دلائیں گے۔
وزیر:مجھے امید نہیں، ویسے اعلان کیے دیتا ہوں۔
(پھر سنتری کو بلا کر کچھ دیتا ہے، سنتری چلا جاتا ہے۔)
۔۔۔ وقفہ۔۔۔
(کچھ لمحے بعد سپاہی پانچ آدمیوں کو گرفتار کر کے لاتا ہے۔)
سپاہی:ان پانچوں کا نام الہٰ دین ہے، بس اتنے ہی الہٰ دین مل سکے ہیں۔
راجہ:(بے اختیار قہقہہ لگاتے ہوئے )ہا ہا ہا!تو تم لوگ الہٰ دین ہو؟ (پھر گرج کر) کہاں ہے وہ چراغ؟
ایک:(تعجب سے ) چراغ، کیسا چراغ، مہاراج؟
راجہ:(تھپڑ رسید کرتے ہوئے )بدتمیز، جیسے کچھ نہیں جانتا، ہمیں سب پتہ ہے بتاؤ، وہ چراغ کہاں چھپا رکھا ہے؟
دوسرا :یقین کیجئے، ہمارے پاس کوئی چراغ نہیں۔
راجہ:یوں نہیں مانو گے۔ سپاہی، اسے دس کوڑے لگاؤ۔
(سپاہی ایک کو کوڑے لگانے لگتا ہے۔ وہ کراہ اٹھتا ہے۔)
ایک:میں کچھ نہیں جانتا، مجھے چھوڑ دو، مجھے نہ مارو، میرا نام علاؤ الدین ہے میں وہ الہٰ دین نہیں، میں توعلاؤ الدین ہوں۔
راجہ:(دانت پیس کر) بتا، چراغ کہاں رکھا ہے؟
(وہ مار کھا کھا کر ادھ مرا ہو کر فرش پر گر پڑتا ہے۔)
راجہ:جھوٹ بکتا ہے۔ حرام زادے، کمینے، میں ایسی مصیبت میں پڑا ہوں اور تو ڈھٹائی سے جھوٹ بکے جا رہا ہے۔(دوسرے کو ایک تھپڑ رسید کرتا ہے ) کیا تیرے گھر میں کوئی چراغ نہیں؟
دوسرا :(روتے ہوئے ) ہے، ہمارے گھرکے طاق پر ایک چراغ دھرا ہے۔
راجہ:(خوش ہو کر) تو پھر جا، جلدی وہ چراغ لا۔
دوسرا :مگر وہ چراغ سونا پڑا ہے، اس میں روشنی نہیں، جب سے مٹی کا تیل مہنگا ہوا ہے ہم اپنی کٹیا بھی روشن نہیں کرتے۔
راجہ:(مارے ہوئے ) کمینے، اپنی غریبی دکھا رہا ہے، کھال ادھڑوا دوں گا، سپاہی، اسے پچاس کوڑے لگاؤ۔
(سپاہی مارنے لگتا ہے، اچانک آواز آتی ہے۔)
آواز:ٹھہرئیے۔
راجہ:کون؟
(سندباد سامنے نظر آتا ہے، ایک چراغ اس کے ہاتھ میں ہے۔)
راجہ:(حیرت سے ) سندباد تم؟
سندباد:ہاں میں، مصیبت کا ساتھی (چراغ دکھاتے ہوئے ) یہی وہ چراغ ہے جس کی آپ کو تلاش ہے۔
راجہ:(خوش ہو کر) ہاں، ہاں۔ مگر یہ چراغ تمہیں کیسے ملا؟یہ تو ہمارے ہندوستان میں تھا۔
سندباد:(مسکراتے ہوئے ) ہاں، مگر اب یہ ہمارے قبضے میں ہے۔
راجہ:اوہ، تو تمہارے ملک کی خوشحالی کی یہی وجہ ہے؟
سندباد:ہاں، اور اگر اب آپ چاہیں توہم آپ کی مدد کے لیے تیا رہیں۔
راجہ:وہ کس طرح؟
سندباد:ہم اس چراغ کے ذریعے ایک بار پھر ہندوستان میں خوش حالی اور کامرانی لا سکتے ہیں۔
راجہ:(بے تابی سے )تو پھر جلدی کرو۔
سندباد:ہم آپ کو غلہ دے سکتے ہیں کیونکہ آپ کا ملک قحط سے دوچا رہے۔
راجہ:(دیوانوں کی طرح) ہاں، ہاں، مجھے غلہ چاہئے۔
سندباد:(ٹھہرے ہوئے لہجے میں ) اور آپ کا شاہی خزانہ بھی خالی ہو گیا ہے؟
راجہ:ہاں، تم تو سب جانتے ہو۔
سندباد:(مسکراتے ہوئے ) ہم آپ کا شاہی خزانہ دوبارہ بھر سکتے ہیں۔
راجہ:(بے چین ہو کر) تو پھر دیر کس بات کی ہے، جلدی کرو، بھوکے لوگوں کا ہجوم محل کی طرف بڑھتا چلا آ رہا ہے۔
(بیک وقت چیخ پکار اور ہجوم کی آواز)
سندباد:مگر اس کے لیے آپ کو بھی ہماری کچھ بات ماننی ہو گی۔
راجہ:میں ہر بات ماننے کے لیے تیار ہوں، ہر معاہدہ کرنے کو تیار ہوں۔
وزیر:ٹھہرئیے مہاراج، اتنی جلد بازی سے کام نہ لیں۔
راجہ:کیا بکتے ہو؟ایسے آڑے وقت میں میرا دوست ملک کے کام آ رہا ہے اور میں پس و پیش کروں؟
وزیر:مگر یہ جان لیجئے اس کی یہ خدمت بے لوث نہیں، یہ دیو اس چراغ کے دیو سے زیادہ خطرناک ہے، پھر اگر آپ کے چنگل میں پھنس گئے تو رہائی ممکن نہیں۔
راجہ:تم خواہ مخواہ شک کر رہے ہو۔
وزیر:شک نہیں، میں یقین کے ساتھ کہہ رہا ہوں، اس کی نیت ٹھیک نہیں، اس کے چند شرائط ایسے ہوں گے جنھیں مان کر آپ ہندوستان کو ان کے ہاتھوں گروی رکھ دیں گے۔
سندباد:اس پاگل کے پاس نہ جائیں، اس کی بات نہ سنیں، یہ آپ کو غلہ نہیں دے سکتا۔
(راجہ وسط میں کھڑا ہے، ایک طرف سندباد ہے چراغ اٹھائے، دوسری طرف وزیر کا روکتا ہوا ہاتھ، راجہ پاگلوں کی طرح ایک بار سندباد کو ایک بار وزیر کو دیکھتا ہے۔)
وزیر:ہاں، میں غلہ نہیں دے سکتا، مگر میں آہنی ارادے دے سکتا ہوں حوصلے دے سکتا ہوں جن سے آپ خود غلہ پیدا کر لیں گے، آپ کی زمین خود بخود غلہ اگلے گی، مگر اس کے پاس نہ جائیں۔
سندباد:جھوٹ، اس کے کھوکھلے وعدوں میں نہ آئیے۔ غلہ، ڈالر۔
(راجہ دونوں کی طرف بے چینی سے تکتا رہتا ہے وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پاتا، لوگوں کی آواز قریب تر ہوتی جا رہی ہے۔)
(آہستہ آہستہ پردہ گرتا ہے۔)
***
ماخذ: ’’اردو ڈراموں کا انتخاب‘‘
محمد حسن
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان
نئی دہلی