07:42    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

ڈرامے

1575 0 0 00

انقلاب کے بعد - سید معز الدین احمد فاروق

انقلاب کے بعد

ضروری ہدایات:

٭ڈرامے میں بار بار منظر بدلتا ہے۔ اس لیے پردہ نہ گرایا جائے۔ اسٹیج پر اندھیرا کر دینا کافی ہے۔

٭اسٹیج پر کم سے کم سامان رکھا جائے تاکہ منتقل کرنے میں سہولت ہو اور دیر تک اندھیرا نہ کرنا پڑے۔

٭ایوان کے اجلاس کے دوران اراکین کی پشت ناظرین کی جانب ہونی چاہئے تاکہ ناظرین بھی ایوان کے اراکین میں شامل ہو جائیں۔ لیکن مکالمے اسٹیج ہی سے بولے جائیں گے۔

کردار:

علامہ اجتہادی

علامہ تنگ نظری

علامہ گنجائشی

سردار

باغی

مالک

بوڑھا

منشی

پولیس

ایک شخص

دوسرا شخص

بچہ

شخص

لڑکا ، عورت مالکن ، عورت ملازمہ ،  نیا آدمی ،  انگریز

 منظر:ڈریم لینڈ میں انقلاب آ چکا ہے اور ملک کے مذہبی رہنما علامہ تنگ نظری ایوان سے مخاطب ہیں۔

علامہ:ملک میں انقلاب آ چکا ہے اور انقلابی نسل اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکی ہے۔ لیکن ہم اسے کامیابی نہیں سمجھتے۔ جب تک ہم اپنے مذہبی قانون کے نفاذ میں کامیاب ہو جائیں۔ اس قانون کے تحت ہم نے جو پالیسی وضع کی ہے اس کا مختصراً تعارف میں ضروری سمجھتا ہوں۔ وزارت داخلہ کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ملک میں نظم و ضبط قائم کریں اور باغیوں کے ساتھ سخت رویہ اختیار کریں۔ جگہ جگہ صلوٰۃ کمیٹیاں بنائی جائیں اور نماز کو ہر شخص کے لئے ضروری قرار دیا جائے۔ نہ پڑھنے کی صورت میں سزا دی جائے۔ وزارت قانون سے کہا گیا ہے کہ اخلاقی جرائم پر عبرتناک سزائیں دی جائیں۔ وزارت خارجہ کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ پڑوسی ممالک سے بہتر سے بہتر تعلقات قائم کئے جائیں اور چھوٹے چھوٹے اختلافات کو نظر انداز کیا جائے اور اختلاف کی صورت میں چشم پوشی سے کام لیا جائے۔ اب میں آپ تمام حضرات کی توجہ ملک کی معاشی اور اقتصادی پالیسی کی طرف مبذول کرتا ہوں۔ جو ہمارے نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہمارے ملک میں جو سرمایہ دار طبقہ ہے اس نے ملک بہت کچھ دیا ہے۔ ہر آزمائش کی گھڑی میں قوم کو منظم کرنے اور دشمنوں کا مقابلہ کرنے میں اس طبقہ نے ہمارا ہر لحاظ سے ساتھ دیا ہے اور ان کی جو کچھ ملکیتیں ہیں، جو کچھ کارخانے، زمینیں ہیں وہ ان کی ذاتی ملکیت ہے۔ جس سے ا نہیں بے دخل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ان کا مذہبی حق ہے کہ یہ ملکیتیں ا نہیں کے قبضہ میں رہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس سے حاصل ہونے والا سارا سرمایہ ا نہیں کا ہو گا بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ ملکیت ا نہیں کی ہو گی اور اس سے حاصل ہونے والے سرمائے کا مقررہ حصہ حکومت کا ہو گا۔ جو قومی خزانے میں جمع کیا جائے گا۔

(علامہ گنجائشی کھڑے ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں۔)

گنجائشی:مجھے آپ کی رائے سے اختلاف ہے۔

علامہ:مذہبی رہنما ہیں اور ان کی رائے سے اختلاف کرنے کی کسی کو اجازت نہیں۔

گنجائشی:وہ صحیح ہے لیکن قومی پالیسی عوام کے مفاد کے خلاف ہو گی تو اس کے خلاف آواز اٹھائی جائے گی۔

علامہ: آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔

گنجائشی:میں ذاتی ملکیتوں کو بحال کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔

علامہ:لیکن مذہبی قانون اجازت دیتا ہے۔

گنجائشی:مذہبی قانون میں اجتہاد ضروری ہو گیا ہے۔

علامہ:یہ قانون بہت واضح ہے۔ اس میں اجتہاد کی گنجائش نہیں۔

گنجائشی:گنجائش ہمیں پیدا کرنی ہو گی۔

علامہ:اس کی وجہ۔

گنجائشی:ہم دیکھ رہے ہیں کہ لوگوں میں اب وہ اخلاق نہیں رہے جو پہلے تھے۔

علامہ:اخلاق سے اس کا کیا تعلق۔ ہم اقتصادی نظام کی بات کر رہے ہیں۔ اخلاق کی نہیں۔ آپ موضوع سے ہٹ گئے ہیں۔

گنجائشی:جہاں تک ذاتی ملکیتوں کی اجازت کا سوال ہے۔اس سے انسانی اخلاق کا زبردست تعلق ہے اب وہ زمانہ نہیں رہا جب لوگ خود بھوکے رہ کر دوسرے کو کھانا کھلاتے تھے۔ اب تو آدمی سرمایہ کے پیچھے دیوانہ ہو گیا ہے۔ اب وہ دوسرے کی جان لے کر بھی سرمایہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اگر ہم نے انسان کو انسان کے سپرد کر دیا تو انسان انسان کی جان کا دشمن ہو جائے گا۔ انسان انسان کا استحصال کرے گا۔ انسان انسان پر ظلم کرے گا اور اس ظلم و استحصال سے روکنے کے لئے ہمارے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہے۔

علامہ: آپ چاہتے کیا ہیں؟ کیا اس خوف سے کہ انسان انسان کا استحصال کرے گا۔ہم ذاتی ملکیتوں کو انسان سے چھین لیں۔

گنجائشی:جی بالکل۔ میرا یہی خیال ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ صرف یہی نہیں کہ ذاتی ملکیتوں کو حکومت کی تحویل میں لئے جانے کے بعد انسان پر ہونے والے ظلم اور استحصال کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ بلکہ وہ تمام عیاشیوں اور فحاشیوں کا سلسلہ بھی ختم ہو جائے گا۔ جو یہ سرمایہ دار مذہبی قوانین کی آڑ میں کرتے ہیں۔

علامہ:گنجائشی! آپ کو یہ جرأت کیسے ہوئی کہ آپ مذہبی قانون کے خلاف لب کشائی کریں۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمارا مذہبی قانون ذاتی ملکیت کی اجازت دیتا ہے۔ اس کے بعد گنجائش ہی کہاں رہ جاتی ہے۔ اختلاف کی۔

گنجائشی:میں جانتا ہوں کہ ہمارا مذہبی قانون ذاتی ملکیتوں کی اجازت دیتا ہے۔ لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اس میں لچک ہے۔ اس میں اجتہاد کی بھی گنجائش ہے۔ حالات، رجحانات، میلانات میں زبردست تبدیلیوں کے ساتھ۔ مذہبی قانون میں لچک اور اجتہاد ضروری ہو گیا ہے۔ میں وزیر خزانہ ہونے کی حیثیت سے یہ تبدیلی لا کر رہوں گا۔ میں اس کا فیصلہ کر چکا ہوں۔

علامہ:(غضبناک ہو کر فرماتے ہیں ) میں اجلاس کو غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کرتا ہوں اور غور کرتا ہوں کہ آیا علامہ گنجائشی وزارت خزانہ کا قلم دان سنبھالنے کے قابل ہیں بھی یا نہیں۔ (اراکین سے مخاطب ہو کر) میں آپ کو مطلع کروں گا کہ آئندہ اجلاس کب ہو گا اور وزارت خزانہ کا قلم دان علامہ گنجائشی ہی کے سپرد ہو گا یا کسی اور کے۔

(اراکین سر جھکائے آہستہ آہستہ اٹھنے لگتے ہیں کہ اسٹیج پر اندھیرا ہو جاتا ہے۔ جب روشنی ہوتی ہے تو جنگل کا منظر دکھائی دیتا ہے۔ بہت مدھم روشنی میں باغی گروہ کے سپاہی جنگل میں فوجی مشقیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ دیر بعد باغی گروہ کا سردار اپنے محافظ دستے کے ساتھ داخل ہوتا ہے اور تالی پیٹتا ہے۔ تمام باغی اس کے اطراف جمع ہو جاتے ہیں۔ وہ ان سے مخاطب ہوتا ہے۔)

سردار:میرے  بہادر سپاہیو ہماری جو جنگ علامہ کی حکومت کے خلاف شروع ہوئی ہے اس کے مقصد سے تو تم واقف ہو۔ تم جانتے ہو کہ ہم نے علامہ تنگ نظری کے خلاف ہتھیار کیوں اٹھائے ہیں۔ علامہ کی حکومت ایک کٹر مذہبی حکومت ضرور ہے۔ ہمیں ان کی مذہبیت پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن ہمیں اعتراض ہے تو صرف ان کے نظریہ پراور وہ یہ کہ وہ مذہب کو سیاست سے جوڑتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ مذہب انسان کا ذاتی اور اندرونی معاملہ ہے اس کے سرے سیاست اور حکومت سے نہیں ملانے چاہئیں حالات صاف ظاہر کر رہے ہیں کہ ہماری فتح و کامیابی یقینی ہے۔ ابھی ابھی خبر آئی ہے کہ علامہ گنجائشی نے بھرے ایوان میں علامہ تنگ نظری کو للکارا ہے اور بہت کھل کر ذاتی ملکیت کی مخالفت کی ہے اور ملکیتوں کو حکومت کی تحویل میں لے لئے جانے کی کھل کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ ہمارا مقصد پورا ہو گیا ہے۔ ہم یہی تو چاہتے تھے کہ علماء میں پھوٹ ڈال کسی ایک عالم ملا لیں۔ تاکہ عالم کے خلاف عالم کو استعمال کیا جا سکے۔ میں نے اپنے بہادر سپاہیوں کو بھیجا ہے کہ وہ جس طرح بھی ممکن ہو علامہ گنجائشی کو ہمارے بیرکوں (Barracks) تک پہنچا دیں۔

(کچھ باغیوں کے ساتھ علامہ گنجائشی داخل ہوتے ہیں۔باغی سردار جھک کر سلام کرتا ہے اور بہت احترام کے ساتھ بیٹھنے کا اشارہ کرتا ہے۔)

گنجائشی:مجھے یہاں کیوں لایا گیا ہے۔

باغی سردار: آپ تو یہ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ ہم لوگ کون ہیں۔

گنجائشی:بہت اچھی طرح، پیپلز لبرشن آرمی کے باغی۔

باغی سردار:خوب پہچانا آپ نے۔

گنجائشی:مجھے یہاں کیوں لایا گیا ہے۔

باغی سردار:تاکہ علامہ تنگ نظری کے خلاف جہاد میں آپ ہمارا ساتھ دے سکیں۔

گنجائشی:یہ جنگ تم نے ان کے خلاف کیوں چھیڑ رکھی ہے۔ وہ تو ملک کے مذہبی قائد کی حیثیت رکھتے ہیں۔

باغی سردار:یہی تو وجہ ہے ہمارے جنگ چھیڑ دینے کی ہم مذہب کو سیاست سے علیحدہ ایک طاقت سمجھتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اسے سیاست جیسی غلاظت سے آلودہ نہیں کرنا چاہئے۔

گنجائشی:

جلال بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشہ ہو

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

سردار:ہمارا عقیدہ ذرا مختلف ہے۔

گنجائشی: آپ کا کیا عقیدہ ہے۔

سردار:ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ ملک کی سیاست کا تعلق ٹھوس مادی حقائق سے ہونا چاہئے۔ بے روزگاری، افلاس، بڑھتی ہوئی آبادی، طبقاتی امتیازات کا حل روحانی ذرائع سے نہیں مادی ذرائع ہی سے ممکن ہے۔

گنجائشی:اور روحانیت کے بغیر مادی ذرائع بے سود ہیں۔

سردار:وہ کیسے۔

گنجائشی:بغیر اخلاق کے آپ دنیا کا کوئی مادی مسئلہ بھی حل نہیں کر سکتے اور اخلاق کی بنیاد ہے خوف خدا۔

سردار:اخلاق کی اصلاح ذاتی اصولوں کی بنیاد پربھی ہو سکتی ہے۔

گنجائشی:یہ ایک یوٹوپیا ہے۔ جسے آج تک کسی نے دیکھا نہیں ہے۔ لیکن روحانی ذرائع سے نفس اور اخلاق کی اصلاح ہوتے ہوئے انسانوں نے مشاہدہ بھی کیا ہے اور تجربہ بھی۔

سردار:تو پھر آپ کو علامہ سے کیا بیر ہے۔ آپ نے بھرے ایوان میں ان کی مخالفت کیوں کی۔

گنجائشی:میں طبقاتی سماج پر یقین نہیں رکھتا میں تمام انسانوں کو ایک نظر سے دیکھتا ہوں۔ میرا عقیدہ ہے کہ ذاتی ملکیت انسان اور انسان میں امتیاز کی دیوار کھڑی کرتی ہے۔ میں تمام ملکیتوں کو قومی تحویل میں لینا چاہتا ہوں۔ تاکہ ان کی آمدنی تمام انسانوں کی بقا اور ترقی کے لئے ان پر مساویانہ خرچ کی جائے۔

سردار:ہم بھی تو یہی چاہتے ہیں۔

گنجائشی:لیکن تم میں اور مجھ میں فرق ہے۔ تم عقیدہ کی بنیاد ہی سے انکار کرتے ہو اور میں عقیدے میں اجتہاد کا قائل ہوں۔

سردار:اگر میں آپ کے عقیدے کو تسلیم کر لوں تو آپ ہماری مدد اور سرپرستی قبول کریں گے۔

گنجائشی:اس کے لئے مجھے سوچنے کا موقع دیجئے۔

سردار:کب تک۔

گنجائشی:کم از کم ایک ماہ تک۔

سردار:ہمیں منظور ہے۔ لیکن یاد رکھئے کہ ہماری یہ ملاقات کسی پر ظاہر نہیں ہونی چاہئے۔(باغی گروہ سے مخاطب ہو کر)ا نہیں بڑے عزت و احترام کے ساتھ لے جاؤ اور ایک ماہ تک دوسری ملاقات کا انتظار کرو۔ گنجائشی کی آنکھوں پرپٹی باندھ دی جاتی ہے اور ا نہیں باغی لیڈر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ گنجائشی کے چلے جانے کے بعد ۔

ایک باغی:سردار!یہ بھی تو قریب قریب وہی چاہتا ہے جو علامہ تنگ نظری چاہتا ہے۔ یہ بھی مذہب کو سیاست میں گھسیٹے گا۔ صرف ذاتی ملکیتوں کو قومی تحویل میں لینے سے کیا ہو گا؟ ہمارا مقصد تو سیاست کو مذہب سے مکمل طور پر آزاد کر دینا ہے۔

سردار:ارے بے وقوفو!اتنا بھی نہیں سمجھتے۔ علامہ کو انقلاب لانے تک ساتھ رکھنا ہے کیونکہ ان کے بغیر عوام کی تائید اور حمایت ممکن نہیں۔ ایک مرتبہ انقلاب آ گیا تو اسے دودھ کی مکھی کی طرح نکال پھینکیں گے۔

(اسٹیج پر اندھیرا ہو جاتا ہے۔ جب روشنی ہوتی ہے تو علامہ تنگ نظری کا حجرہ دکھائی دیتا ہے۔ علامہ تنگ نظری مذہبی سیاست سے متعلق درس دے رہے ہیں اور تمام علماء ان کے ارد گرد جمع ہے۔ کچھ دیر درس جاری رہتا ہے۔ ختم ہونے کے بعد تمام علماء آہستہ آہستہ اٹھ کر جانے لگتے ہیں۔)

علامہ تنگ نظری:اجتہادی مجھے آپ سے صرف بات کرنی ہے۔ تمام علماء چلے جاتے ہیں لیکن علامہ اجتہادی ٹھہر جاتے ہیں۔

(تمام علماء کے چلے جانے کے بعد ۔)

تنگ نظری:مجھے آپ سے ایک ضروری مشورہ کرنا ہے۔

اجتہادی:بندہ حاضر ہے۔

تنگ نظری:وزارت خزانہ کے متعلق آپ نے کچھ سوچا ہے۔

اجتہادی:اس وزارت خزانہ سے متعلق کیا سوچنا ہے ایک صاحب صلاحیت شخص کو آپ وزیر بنا چکے اب تبدیلی کی کیا ضرورت؟

تنگ نظری:بڑا تعجب ہے؟ہمارے بنیادی عقائد کو؟ٹھیس پہنچانے کے بعد بھی آپ سمجھتے ہیں کہ وہی وزیر خزانہ رہیں گے۔ بھرے ایوان میں اس شخص نے مذہبی قانون کو للکارا ہے۔

اجتہادی:میں نہیں سمجھتا کہ علامہ گنجائشی جیسا ذمہ دار عالم مذہبی قانون کی کسی زاویے سے بھی مخالفت کر سکتا ہے۔

تنگ نظری:سب کچھ ہو جانے پربھی آپ کو یقین نہیں آتا۔

اجتہادی:ہرگز نہیں۔

تنگ نظری: آپ جانتے ہیں کہ وہ عالم ہوتے ہوئے ذاتی ملکیت کی مخالفت کرتا ہے اور  آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ تمام ملکیتوں کو قومی تحویل میں لے لینے کی بات کرتا ہے۔

اجتہادی:میں جانتا ہوں۔

تنگ نظری:پھر بھی آپ اسے مذہب دشمن نہیں سمجھتے۔ آخر ہمارے باغی پیپلز لبرشن مو ومنٹ اور ان صاحب میں فرق کیا رہ گیا ہے۔ دونوں وی راگ الاپ رہے ہیں۔

اجتہادی:زمین و آسمان کا فرق ہے ان دونوں میں۔ علامہ ا نہیں سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ گنجائشی آپ کے دشمن نہیں آپ کے دوست ہیں۔

تنگ نظری:کیا فرق پایا ان میں اور باغیوں میں آپ نے؟وہ دہرئیے بھی تو یہی کہتے ہیں۔

اجتہادی:یہی فرق پایا ہے میں نے ان دونوں میں کہ باغی دہرئیے ہیں۔ وہ مذہب سے منکر ہے۔ لیکن گنجائشی نہ صرف یہ کہ مذہب پر پختہ یقین رکھتا ہے بلکہ وہ ایک جید عالم بھی ہے۔ علامہ گنجائشی نے جو کچھ کہا ہے وہ مذہب کے بنیادی عقائد سے انکار و اعتراض نہیں بلکہ مذہب میں اجتہاد ہے۔

تنگ نظری:کیا آپ بھی اس اجتہاد پر یقین رکھتے ہیں۔

اجتہادی:میرا تو لقب ہی اجتہادی ہے۔

تنگ نظری:اجتہاد کو آپ کیوں ضروری سمجھتے ہیں۔

اجتہادی:اس لئے کہ ہمارے عقائد حالات اور تقاضوں کا ساتھ دینے سے انکار کرتے ہیں۔

تنگ نظری:یہ آپ نے کیسے کہہ دیا۔ ہمارے عقائد تو عین حالات کے مطابق ہیں۔ ہمارا مذہب تو دین فطرت ہے۔

اجتہادی:صرف ایک طفلی تسلی ہے۔ جو یہ کہہ کر ہم اپنے دل کو دیتے ہیں۔ اگر ان عقائد کو قانون کی شکل میں ہم نے نافذ کیا تو مجھے ڈر ہے کہ دنیا کی نظروں میں ہم مذاق نہ بن جائیں۔ ہم عورتوں کے پردے پر یقین رکھتے ہیں۔ لیکن کبھی ہم نے یہ سوچا کہ کیسے کیسے مظالم توڑے جاتے ہیں اس صنف نازک پر ہر گز نہیں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ عورتوں کا مقام ان کا گھر ہے اور یہ ناقصات العقل ہیں۔ جب کہ عورتیں دنیا میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں۔ میرا عقیدہ ہے کہ پردہ ناگزیر ہے۔ لیکن اس پردے کے اہتمام سے ان کی تعلیم بے سہارا ہو جانے کی صورت میں یا خود داری کے ساتھ زندگی گزارنے کے لئے اس صنف نازک کے لئے روزگار بھی تو ضروری ہے۔ کیا ہمارے مذہبی قانون میں اس کی گنجائش ہے؟ہم نے مذہبی ٹیکس وصول کرنے کا شعبہ قائم کر دیا ہے۔ لیکن آمدنی کا صحیح تخمینہ لگانے کا ذریعہ ہمارے پاس کیا ہے؟ہم عورتوں کو طلاق دیئے جانے کو مرد کا مذہبی حق سمجھتے ہیں۔ لیکن کیا ہم طلاق کے ساتھ عورت کی جوانی بھی اسے لوٹا سکتے ہیں اور بغیر کسی جواز کے طلاق دے دینے کی صورت میں مرد کے لئے کون سی سزا تجویز کرتا ہے۔ ہمارا قانون ہم ذاتی ملکیتوں کی تائید کرتے ہیں۔ لیکن مظلوم طبقے کے استحصال کو روکنے کے لئے کیا کچھ کرتا ہے۔ ہمارا عقیدہ اور ہمارا مذہبی قانون؟ علامہ یہ ابھرتے ہوئے مسائل ہیں۔ جن کا حل اجتہاد کی صورت ہی میں ممکن ہے۔ مذہبی قانون، مذہبی قانون کہنے سے کام نہیں چلے گا۔

(علامہ گنجائشی داخل ہوتے ہیں۔)

گنجائشی:میں بھی تو یہی کہتا ہوں۔ میں نے کہاں اس سے اختلاف کیا ہے۔ لیکن مجھے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ میں جب بات کرتا ہوں تو آپ جذبات میں آ جاتے ہیں۔ آپ غور ہی نہیں کرتے کہ میں کہنا کیا چاہتا ہوں۔

اجتہادی:مجھے اجازت دیجئے۔

(سلام کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔)

گنجائشی:میں بھی تو یہی کہہ رہا تھا کہ ہمارا مذہبی قانون حالات کے عین مطابق ہونا چاہئے۔ ایک مرتبہ اس قانون کا نفاذ ہو گیا اور وقت کے تقاضوں کو پورا نہ کر سکا۔ یاد رکھئے کہ ہمارے ماتھے پریہ ایسا کلنک ہو گاجو کبھی دھل نہیں سکے گا۔ جب یہی بات اجتہادی کہتے ہیں تو آپ کی نظر میں قابل غور ہوتی ہے اور جب میں کہتا ہوں تو آپ کابینہ سے برطرف کر دینے کی دھمکی دیتے ہیں۔ میں اپنے نظریات کے لئے کابینہ بھی چھوڑ سکتا ہوں۔ لیکن آپ یقین مانئے کہ آپ کو کبھی نہیں چھوڑوں گا۔

تنگ نظری:اجتہادی جس اجتہاد سے متعلق کہہ رہے تھے وہ خواتین کی آزادی ان کے حقوق کے تحفظ اور ان کی تعلیم اور ملازمت میں ان کے لئے مواقع پر ختم ہو جاتا ہے۔ اس سے زیادہ اس کی حقیقت نہیں۔ لیکن آپ جو اجتہاد چاہتے ہیں۔ وہ دراصل اقتصادی نظام کے بنیادی اصولوں کی تجدید ہے۔ اقتصادی نظام بہت واضح ہے۔ اس میں مزید تجدید و اجتہاد کی گنجائش نہیں۔

گنجائشی:یہ گنجائش ہمیں پیدا کرنی ہو گی۔ ہمارے نوجوان بے روزگار ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ وہ تعلیم حاصل کریں نہ کریں لیکن ان کی روزی کا ذمہ تو حکومت کا ہونا چاہئے۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے اور اگر حکومت ان کی زندگی کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کا ذمہ لے نہیں سکتی تویہ حکومت کس کام کی۔

تنگ نظری:روزی کا دینا اللہ کے اختیار میں ہے؟

گنجائشی:تو حکومت بھی اللہ ہی کے اختیار میں رہنے دیجئے۔ اقتدار کو سنبھالنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔

تنگ نظری: آپ کی گفتگو کا انداز بہت غلط ہے۔ آپ حفظ مراتب کا لحاظ نہیں کرتے۔

گنجائشی:کرتا ہوں لیکن دن کی روشنی سے انکار نہیں کر سکتا۔

تنگ نظری:دن کی یہ کون سی روشنی ہے۔ آپ صاف صاف کہئے۔ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔

گنجائشی:انڈسٹریل انقلاب آ جانے کے بعد حالات یکسر بدل چکے ہیں۔ ہم سائنسی ذرائع سے کروڑوں روپیہ کما سکتے ہیں اور اس دولت کی منصفانہ اور مساویانہ تقسیم کر سکتے ہیں۔ ہم کارخانوں اور زمینوں کو سرکاری تحویل میں لے لیں۔ تو فرق کیا پڑتا ہے۔

تنگ نظری:فرق تو بہت پڑتا ہے۔ سرکاری تحویل میں لینے کے لئے مذہبی قانون میں بنیادی تبدیلیاں لانی ہو گی اور اس کی ضرورت ہی کیا ہے۔ ذاتی ملکیتوں کے ہوتے ہوئے بھی تو انسان پرورش پا رہا ہے۔

گنجائشی:جی ہاں پرورش توپا رہا ہے۔ لیکن بڑی ذلتوں اور تکلیفوں کے ساتھ۔ آپ نہیں جانتے علامہ کہ یہ ذاتی ملکیتیں کیسے کیسے انسان کا استحصال کر رہی ہیں اور ا نہیں کن کن صورتوں میں مظالم کا شکار بنا رہی ہیں۔ اگر آپ بھیس بدل کر چلنے کے لئے تیار ہوں تو میں آپ کو بتلاؤں گا ذاتی ملکیتوں کے سبب انسان کس حال میں زندگی گذار رہے ہیں۔

تنگ نظری:میں بالکل تیار ہوں۔

(اسٹیج پر اندھیرا ہو جاتا ہے۔ جب روشنی ہوتی ہے تو اسٹیج دو حصوں میں منقسم نظر آتا ہے۔ ایک حصہ میں روشنی بہت دھیمی ہے۔ جہاں علامہ تنگ نظری اور گنجائشی فقیروں کا لباس اوڑھے اسٹیج کی دائیں جانب دیکھتے نظر آتے ہیں اور بار بار تبدیل ہوتے ہوئے مناظر اسٹیج کی بائیں جانب نظر آ رہے ہیں۔ دائیں جانب آخر تک دھیمی روشنی میں یہ دونوں حضرات بیٹھے دکھائی دیتے ہیں اور بائیں جانب ہر منظر کے بعد اندھیرا ہو جاتا ہے اور ہر روشنی میں ایک نیا منظر ابھرتا ہے۔

دائیں جانب روشنی ہوتی ہے تو ایک کارخانہ دکھائی دیتا ہے۔ جس میں پس منظر سے مشین چلنے کی آواز ابھرتی ہے اور کچھ مزدور ہاتھ کی حرکت سے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہ مشین چلانے میں مصروف ہیں۔ ایک بوڑھا کام نہیں کر رہا ہے۔ صرف بیٹھا ہوا مشینوں کی جانب حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا ہے۔ کارخانے کا مالک راؤنڈ پر ہے۔ وہ چند ساتھیوں کے ساتھ قریب آتا ہے۔ تمام کام کا معائنہ کرتا ہے اور بوڑھے سے مخاطب ہوتا ہے۔)

مالک:کیوں تو یہاں کیسے بیٹھا ہے۔ کام نہیں کرنا ہے تجھے۔

بوڑھا:(ہاتھ جوڑ کر) مالک میرے  ہاتھ میں رعشہ ہو گیا ہے۔ کام کرنے کے قابل نہیں ہوں۔

مالک:(حقارت کے ساتھ) تو یہاں کیوں آتا ہے گھر جا کر بیٹھ۔

بوڑھا:گھر میں چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ سرکار میں بیٹھ جاؤں گا توا نہیں کھلائے گا کون۔

مالک:جب تو کام کرنے کے قابل ہی نہیں ہے تو یہاں بھی تجھے کام کیسے ملے گا۔ منشی جی!

منشی:جی سرکار!

مالک:اس کا حساب کر دو۔

منشی:جی بہتر ہے سرکار۔

مالک:اور یاد رکھو کل سے یہ بوڑھا کارخانے میں نظر نہ آنے پائے۔ خوامخواہ دوسروں کے کام میں بھی حرج ہوتا ہے۔

(بوڑھا قدموں پر گر جاتا ہے۔)

بوڑھا:سرکار۲۰سال سے میں آپ کی سیوا کر رہا ہوں۔ کچھ تو سوچئے۔ میرے  بچے چھوٹے ہیں۔ آپ اس طرح نکال باہر کریں گے تو ا نہیں کون پالے گا سرکار۔

(کارخانے کا مالک جوتے کی ٹھوکر سے اسے علاحدہ کرتا ہے اور تیز تیز قدموں سے چلا جاتا ہے۔ اسٹیج کے بائیں جانب اندھیرا ہو جاتا ہے۔ جب روشنی ہوتی ہے تو وہی بوڑھا بھیک مانگتے دکھائی دیتا ہے۔ ایک پولیس وردی میں آتا ہے۔)

پولیس:کیوں تجھے معلوم نہیں بھیک مانگنا قانون کے خلاف ہے۔

بوڑھا:(طنزیہ ہنسی کے ساتھ) یہ قانون مجھے بھیک مانگنے سے روکتا ہے۔ لیکن جب مجھے بھوک لگتی ہے تو یہ قانون مجھے روٹی نہیں دیتا۔

پولیس:(گرفتار کرتا ہے ) چلو تھانے وہاں بتاتا ہوں تم کو حساب۔

(اسٹیج پر اندھیرا ہو جاتا ہے جب روشنی ہوتی ہے تو ایک بوڑھا سامان پیٹھ پر لادے اسٹیج کے وسط میں لڑکھڑاتا ہوا آتا ہے اور بری طرح گرتا ہے۔ سامان بھی بکھر جاتا ہے۔)

سامان کا مالک:کیا ہو گیا بابا۔

بوڑھا:کچھ نہیں صاحب ذرا چکر آ گیا تھا۔ کل سے کھانا نہیں کھایا اس لئے۔

سامان کا مالک:بوڑھے بھی تو ہو گئے ہیں بابا سامان اٹھتا نہیں ہے تو یہ حمالی کیوں کرتے ہو؟

بوڑھا:حمالی نہیں کروں گا تو کھاؤں گا کیا سرکار!حمالی کر کے تو بھوکا مر رہا ہوں۔

سامان کا مالک:چلو اٹھو!

(ہاتھ پکڑ اٹھاتا ہے اور سامان جمع کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اسٹیج کے بائیں جانب اندھیرا ہو جاتا ہے۔ جب روشنی ہوتی ہے تو ایک نوجوان ہاتھ کی حرکت سے اور پس منظر کی آواز سے ہینڈلوم چلاتا دکھائی دیتا ہے اچانک کھانسی اٹھتی ہے اور اٹھتے اٹھتے یہ حال ہو جاتا ہے کہ مارے کھانسی کے لوٹنے لگتا ہے۔ اس کے قریب بیٹھا ہوا ایک شخص سہارا دے کر اسے بٹھاتا ہے۔)

ایک شخص:تم ڈاکٹر کو کیوں نہیں بتاتے اتنی کھانسی کیوں اٹھتی ہے تمہیں۔

دوسرا شخص:بتا چکا ہوں بھیا۔

ایک شخص:تو علاج نہیں ہوا تمہارا۔

دوسرا شخص:اب میں کیا بتاؤں۔ خیر تم سے چھپاؤں بھی کیسے۔(روتا ہے ) بھیا مجھے ٹی بی ہو گیا ہے۔ میرے  پھیپھڑے بیکار ہو گئے ہیں۔

ایک شخص:ارے۔۔۔ تو علاج نہیں کرواتے اس کا۔

دوسرا شخص:نہیں۔۔۔ اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ موت ہی اس کا علاج ہے۔

پہلا شخص:علاج کیوں نہیں ہے۔ کون سی بیماری ہے جس کا علاج نہیں ہے۔شفا دینا نہ دینا تو اس کے اختیار میں ہے۔(آسمان کی طرف شارہ کرتا ہے۔) لیکن علاج تو کرنا ہی چاہئے۔

دوسرا شخص:علاج۔۔۔؟(ہنستا ہے )میں مزدور آدمی میرے  پاس پیسے کہاں ہیں۔ چل! کا م شروع کر دے۔

(دونوں پھر کپڑا بننے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اسٹیج کے بائیں جانب اندھیرا ہو جاتا ہے۔ جب روشنی ہوتی ہے تو ایک لڑکا کسی سجے سجائے ڈرائنگ روم میں جوتے کو پالش کرتا دکھائی دیتا ہے۔ دوسرا بچہ ا سکول کا یونیفارم پہنے داخل ہوتا ہے۔کوئی کتاب تلاش کرتا ہے۔ کتاب مل جاتی ہے تو وہ خوشی خوشی جانے لگتا ہے۔)

دوسرا بچہ:خیرو! میں ا سکول جا رہا ہوں میرے  کپڑوں کو استری کر دینا اور ہاں تو نے ابھی تک پونچھا نہیں لگایا۔

پہلا بچہ:ہاں مالک!لگا دوں گا۔

دوسرا بچہ:کیالگا دوں گا لگا دوں گا کرتا ہے۔ کام تو ہوتا نہیں تجھ سے۔ بس کھانا خوب یاد رہتا ہے۔

(دوسرا بچہ چلا جاتا ہے۔)

پہلا بچہ:(ناظرین سے مخاطب ہو کر کہتا ہے ) یہ بھی ایک بچہ ہے اور میں بھی ایک بچہ ہوں۔ جب یہ بچہ ا سکول جاتا ہے تو میرے  بیتے ہوئے دن میرے  سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں۔ میں بھی ایسا ہی سج دھج کرا سکول جایا کرتا تھا۔ اگر میرے  والدین ریل کے حادثے میں ہلاک نہ ہوتے تو آج میں بھی اسی طرح ا سکول جاتا۔ ان لوگوں نے ہمدردی کا جھوٹا اظہار کرتے ہوئے مجھے اپنے گھر بلا لیا۔ نہیں بلا نہیں لیا بلکہ خرید لیا۔ روٹی کے چند سوکھے ٹکڑوں کے بدلے۔

(ایک شخص تیز تیز قدموں سے اندر داخل ہوتا ہے۔)

شخص:ارے ابھی تک جوتے پالش نہیں ہوئے۔ بس دل سے باتیں کرتا رہتا ہے۔ حرام خور! ایک چانٹا رسید کرتا ہے کتنی دیر لگائے گا جلدی کر۔

لڑکا:کر تو رہا ہوں بابو جی۔

(بچہ جوتے پالش کرنے لگتا ہے۔ اسٹیج کے بائیں جانب اندھیرا ہو جاتا ہے۔ جب روشنی ہوتی ہے تو ایک عورت پھٹے حال برتن مانجھتے دکھائی دیتی ہے۔ سامنے برتنوں کا ڈھیر ہے۔ دوسری عورت بہت قیمتی لباس میں داخل ہوتی ہے۔)

دوسری عورت:ارے۔ سارا کام پڑا ہے اور تو ابھی تک برتن ہی مانجھ رہی ہے۔

پہلی عورت:برتن تو بہت ہے بائی جی!ایک کام پورا ہو جائے تبھی تو دوسرا کام کروں۔

دوسری عورت:حرام زادی!زبان چلانا تو خوب جانتی ہے۔ پر کام نہیں کر سکتی۔ صبح سے برتن ہی مانجھ رہی ہے۔ مجھے پہلے ہی سے معلوم تھا تو کام نہیں کر سکتی۔

پہلی عورت:ایک کام تو پورا کر لوں بائی! دوسرے کام بھی ہو جائیں گے۔

دوسری عورت:پھر ٹرٹر شروع کر دی تو نے چل نکل یہاں سے بد تہذیب بدتمیز!(بال پکڑ کر اٹھاتی ہے اور کھینچتے ہوئے لاتی ہے اور باہر ڈھکیل دیتی ہے۔) نکل یہاں سے کم بخت آئندہ قدم مت رکھنا یہاں۔

( بائیں جانب اندھیرا ہو جاتا ہے۔ اسٹیج کی دائیں جانب جہاں دھیمی روشنی ہے۔ آخر تک اندھیرا نہیں ہوتا۔ علامہ تنگ نظری، علامہ گنجائشی فقیروں کا لباس پہنے بیٹھے ہوئے ہیں۔

گنجائشی:علامہ دیکھا آپ نے اپنے عوام کا حال کن کن شکلوں میں ان کا استحصال ہو رہا ہے اور کیا کیا مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اور یہ میرا عقیدہ ہے کہ ان تمام مظالم کی ذمہ دار خود حکومت ہے۔ میں آپ سے تین سوالات کرتا ہوں اور  آپ بھرے ایوان میں اس کا جواب دیجئے۔

۱۔کیا ہمارا مذہب ایسے اقتصادی نظام کی حمایت نہیں کرے گا۔ جس میں بلا تخصیص ہر شخص کو آبرومندانہ زندگی گزارنے کا موقع ملے؟

۲۔کیا ہمارا نظام اس کی اجازت دے گا کہ انسانوں کے ہاتھوں انسانوں کا استحصال ہوتا رہے؟

۳۔کیا ہمارا مذہب ایسے نظام کے راستے میں مانع ہو گا جس میں تمام انسانوں کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کا یکساں موقع ملے۔

 آپ اپنے عوام کا حال اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے۔ اب میں ایوان میں آپ کا جواب سننے کے لیے بے چین ہوں۔قیامت کے روز یہ مظلوم طبقے ہمارا دامن پکڑ کر ہم سے سوال کریں گے کہ تم حاکم تھے سب کچھ کر سکتے تھے تم نے ہمیں ظلم اور استحصال سے آزاد کیوں نہیں کیا تو ہمارے پاس اس سوال کا کیا جواب ہے۔؟

(اسٹیج پر اندھیرا ہو جاتا ہے۔ جب روشنی ہوتی ہے تو بہت دھیمی روشنی میں پیپلز لبریشن آرمی کے باغی فوجی مشقیں اور نشانہ بازی کی مشق کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہیلی کوپٹر کے اترنے کی آواز آتی ہے اور باغی گروہ کے سردار کے ساتھ کوئی شخص جو شکل و صورت سے کسی اور ملک کا معلوم ہوتا ہے۔ داخل ہوتا ہے۔ وہ دونوں ایک ایک باغی سپاہی کے پاس جاتے ہیں اور ان کا نشانہ دیکھتے ہیں۔ پھر ان کے ہتھیار بندوقیں وغیرہ باری باری ان سے لے کر بغور دیکھتے ہیں۔ پھر واپس آ کر کسی جگہ بیٹھ جاتے ہیں۔)

نیاآدمی:ٹمارا ٹیاری بھوت اچی۔ ٹماراڈسپیلین بھی بھوت اچا۔ پر تم کچھ نہیں کر سکٹا۔

سردار:ہم تو بغاوت کی پوری تیاری کر چکے ہیں۔ صرف وقت کا انتظار ہے۔

نیاآدمی:نہیں ایسا مسٹیکMistake  کبھی نہیں کرنا۔ ابھی ٹم بھوت کمزور ٹمارا آدمی بھوت کمزور۔

سردار:ایسی بات نہیں آپ تو نشانہ بازی بھی دیکھ چکے ہیں۔

نیاآدمی:وہ سب ٹھیک ہے۔ پر پبلک علامہ کے ساتھ ہے۔

سردار:پبلک اوپنین کے بدلنے میں کتنا ٹائم لگے گا۔

نیاآدمی:بہت ٹائم۔ وہ پبلک کاسپریچول ہیڈ ہے اس کو کچھ ہوا توپبلک ٹم کو فینش کر دے گا۔

سردار:مگر ہمارے پاس اگر آپ کے ملک سے اور ہتھیار آ گئے تو پبلک کو سپرس کرنا بہت آسان ہے۔

نیاآدمی:رانگ ایک دم رانگ بولتا ہے ٹم۔ پبلک کو سپرس کرنے کا نائیں سکٹا۔

سردار: آپ یقین مانئے ہمارے پاس اگر ہتھیار زیادہ ہوں تو انقلاب لانا بہت آسان ہے۔ ہتھیار ہمیں مل نہیں رہے ہیں۔ سرحدوں پر پہرے سخت کر دئیے گئے ہیں اور کوئی راستہ بھی نہیں ہے ہتھیار منگوانے کا۔

نیاآدمی:سیکوریٹی فورس سے کیا ہوتا ہے۔ ہم ٹم کو ہیلی کوپٹر سے ویپن بھجوائے گا۔ پر سپریمو کا حکم ہے کہ تم علامہ اجتہادی کو گولی مار ڈو۔ وہ پبلک میں بہت پاپولر ہے اس کی موت کے ساتھ علامہ کا صفایا ہو جائے گا۔

سردار: آپ کو یہ جان کر خوشی ہو گی علامہ گنجائشی کو ہم نے ملا لیا ہے۔ علامہ اجتہادی کو بھی ملا لیں گے۔

نیاآدمی:علامہ گنجائشی کو ملا لو وہ یوں بھی علامہ کے against  میں ہو گیا ہے پر علامہ اجتہادی بہت dangerous  آدمی ہائے۔ وہ ٹمارارلیجین religion کو موڈرنائز کرنے کی بات کرتا ہائے۔

سردار:تو یہ تو اچھی بات ہے۔ وہ بھی ہماری طرح سوشلیسٹ ہے۔ وہ بھی ہمارا ساتھ دے سکتا ہے۔

نیاآدمی:نائیں رلیجین کو موڈرنائز کرنے والا پرانے رلیجین پربلیوbelieve  کرنے والے سے زیادہ ڈینجرس ہوتا ہے۔ ٹم سمجھتانائیں ہائے۔ رلیجین موڈرنائز ہو گیا تو تمہارا سوشیلزم فینش ہو جائے گا۔

سردار:ہم اسے ملا لیں گے تو وہ اپنے آئیڈیلسideals  بھی بدل دے گا۔

نیاآدمی:نائیں وہ بہت ڈوگ میٹک ہائے اس کوفینش کر دو۔ سپریمو کا آرڈر ہائے۔

سردار:سپریمو کا حکم۔

(دونوں اٹھ کر چلے جاتے ہیں۔ ان دونوں کی گفتگو کے دوران باغی فوج کے سپاہی نشانہ بازی کی مشق کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ان دونوں کے اسٹیج سے چلے جانے کے بعد اسٹیج پر اندھیرا ہو جاتا ہے۔ جب روشنی ہوتی ہے توعلامہ تنگ نظری، علامہ اجتہادی، علامہ گنجائشی باتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔)

تنگ نظری:میں نے کل اپنے عوام کے حالات اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں مجھے اعتراف ہے کہ ہمارے اقتصادی نظام میں بنیادی تبدیلی ضروری ہو گئی ہے۔

اجتہادی: آپ تو اقتصادی تبدیلی کی بات کرتے ہیں۔ میں تو عرض کر چکا کہ پورے نظام ہی میں کچھ نہ کچھ تبدیلی ضروری ہے۔

گنجائشی:وہ تبدیلیاں تو حالات کے ساتھ ساتھ خودبخود ہو جائیں گی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اقتصادی نظام میں کوئی تبدیلی اس وقت تک نہیں آ سکتی جب تک ہماری مذہبی حکومت اس سے متعلق کوئی قدم نہیں اٹھاتی۔

اجتہادی:دوسری تبدیلیوں کے متعلق آپ نے کیسے فرما دیا کہ خودبخود آ جائیں گی۔ خواتین کی آزادی کا مسئلہ بہت بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔

تنگ نظری:خواتین کی آزادی کے کیا معنی؟ کیا عورتیں پردے کو ترک کر دیں؟

گنجائشی:نہیں ان کے یہ معنی نہیں ہیں۔ بلکہ پردے کی پابندی تو لازمی ہے ہی لیکن خواتین پر ہونے والے مظالم کا تدارک تو ہونا ہی چاہئے۔ ان کے لئے روزگار مہیا کرنا ہو گا اور مردوں سے علیحدہ ان کی تعلیم کا بندوبست بھی کرنا ہو گا۔ یہ سب ہماری حکومت کی ذمہ داری ہے۔

اجتہادی:خواتین ہی کی تعلیم کا کیا سوال؟ہمیں پورے ملک سے جہالت کو دور کرنا ہے۔

تنگ نظری:تعلیم کا بھی خوب ذکر چھیڑا آپ نے (ملازم چائے لاتا ہے۔ سب چائے پینے لگتے ہیں۔) تعلیم تو ہماری روایتی تعلیم ہو گی۔ ہمارا مذہب ہے ہماری مذہبی تعلیم۔

اجتہادی:جی نہیں تعلیمی پالیسی ہمیں نئے سرے سے مرتب کرنی ہو گی۔ مادی حقائق پر جو تحقیقات ہو رہی ہیں۔ بلاشبہ وہ بھی انسان کی ان بے پناہ صلاحیتوں کا اظہار ہے۔ جس کا مشاہدہ مطالعہ قومی ترقی کے لئے ضروری ہے۔

گنجائشی:مادی علوم سے محرومی ہی کاتو نتیجہ ہے جو ہم آج تک اپنے اقتصادی نظام تک کو تبدیل نہیں کر سکے۔ جو مادی زندگی میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔

اجتہادی:مادی علوم سے محرومی کا سب سے بڑا نقصان تو یہ ہوا کہ دنیا کے مظالم پر مغرب کے نظرئیے غالب آتے چلے جاتے ہیں اور ہمارے پاس اس کا کوئی علاج نہیں۔

تنگ نظری:انشاء اللہ میں ان تمام مسائل پر سنجیدگی سے غور کرتا ہوں اور ایک جامع منصوبہ تیار کر کے ایوان کے سامنے پیش کرتا ہوں۔

(اسٹیج پر اندھیرا ہو جاتا ہے۔ جب روشنی ہوتی ہے تو علامہ تنگ نظری بے چینی سے ٹہلتے دکھائی دیتے ہیں۔ جیسے کسی کے منتظر ہوں۔ کچھ دیر بعد علامہ گنجائشی داخل ہوتے ہیں۔)

تنگ نظری: آپ نے کچھ سنا؟

گنجائشی:جی؟

تنگ نظری:میں نے کہا آپ تک کچھ خبر پہنچی ہے؟

گنجائشی:میں سمجھا ہی نہیں۔

تنگ نظری:بھئی اجتہادی کے متعلق کچھ خبر ملی آپ کو۔

گنجائشی:جی نہیں؟خیریت توہے۔

تنگ نظری:اسی لئے تو آپ کا اس قدر بے چینی سے منتظر ہوں۔ خبر ملی ہے کہ اجتہادی کو باغیوں نے اغوا کر لیا ہے۔

گنجائشی:کیا یہ خبر صحیح ہے۔

تنگ نظری:بالکل۔۔۔ ان کے ملازم کے سامنے ا نہیں اغوا کیا گیا۔

گنجائشی:وہ کیسے۔

تنگ نظری:بس سنا ہے۔ فجر کی نماز سے فارغ ہوئے تھے دعا مانگ رہے تھے کہ باغیوں کے کچھ نوجوان اسٹین گن سے مسلح گھر میں داخل ہوئے اور علامہ کو اپنی موٹر میں بٹھا کر لے گئے۔ ہم اپنے نظام کو مرتب ہی کرنے میں لگے رہے اور باغیوں کو شر انگیزی کا موقع مل گیا۔ میں نے آپ کو اسی لئے زحمت دی ہے کہ پیپلز آرمی کی سرگرمیاں بہت بڑھ چکی ہیں۔ ان کی سرکوبی ضروری ہے۔ ہم نے سنا ہے ہمارے کچھ لوگ اور مختلف مقامات سے اغوا کئے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ تخریبی کاروائیاں بھی ملک میں بڑھ چکی ہیں۔ میں نے فوج کو حکم دے دیا ہے کہ سخت سے سخت قدم اٹھانے کے لئے تیار رہے۔

گنجائشی:اتنی جلد بازی سے کام مت لیجئے۔ یہ قدم بہت سوچ سمجھ کر اٹھانا ہو گا۔

تنگ نظری:میرے  پاس اتنا وقت نہیں ہے۔ باغیوں کی سرکوبی ضروری ہو گئی ہے۔

گنجائشی: آپ نے بجا فرمایا۔ لیکن ہم باغیوں پر حملہ کہاں کریں گے۔ وہ تو پورے ملک میں بکھرے پڑے ہیں اور ان کا سردار کہاں ہے ہمیں کوئی علم نہیں۔ اندھیرے میں تیر چلانے سے کیا فائدہ۔

تنگ نظری:کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہو گا۔ باغیوں کی سرگرمیاں بہت بڑھ گئی ہیں اور معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ہمارا پڑوسی ملک ان کی مدد کر رہا ہے۔ معلوم نہیں اجتہادی کس حال میں ہے۔ خدا خیر کرے۔

گنجائشی:میں ایک بڑی راز کی بات آپ کو بتلاتا ہوں۔ لیکن آپ اسے راز ہی رکھیں۔

تنگ نظری:ایسی کون سی بات ہے۔

گنجائشی:باغی مجھے بھی لے جا چکے ہیں۔

تنگ نظری:(چونک کر)کیا کہا۔؟

گنجائشی:جی ہاں۔ باغی مجھے بھی لے جا چکے ہیں۔

تنگ نظری:تو آپ نے مجھ سے کیوں چھپائے رکھا۔

گنجائشی:مجھے موقع کا انتظار تھا۔

تنگ نظری:(غصہ سے کھڑے ہو جاتے ہیں۔) یہ بہت غلط کیا آپ نے میں اسے غداری سمجھتا ہوں۔ آخر مجھ سے آپ نے چھپایا؟مجھ سے؟

گنجائشی: آپ بیٹھ تو جائیے۔ میں آپ کو بتلاتا ہوں صورت کیا ہے۔

تنگ نظری:لیکن مجھ سے چھپایا آپ نے؟

گنجائشی:جی ہاں آپ سے چھپایا۔ آپ بیٹھ جائیے میں بتلاتا ہوں۔(غصہ سے بیٹھ جاتے ہیں۔) باغیوں کو ایسے علماء کی تلاش ہے۔ جو بظاہر تو حکومت کے ساتھ ہیں۔ لیکن دل میں اس سے بد ظن ہیں۔

تنگ نظری:یعنی آپ میری حکومت سے بد ظن ہیں؟ علامہ اجتہادی بد ظن ہیں۔؟

گنجائشی: آپ مجھے بات تو کرنے دیجئے۔ ان کا خیال ہے کہ ہم بد ظن ہیں۔ اس لئے ہمیں لے جاتے ہیں۔

تنگ نظری:کیوں؟کیوں لے جاتے ہیں؟

گنجائشی:اس لئے کہ ہمیں ملا لیں اور عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لئے ہمیں استعمال کریں۔ آپ بالکل جلدبازی سے کام نہ لیجئے۔ باغیوں کو اس کا پورا یقین ہے کہ میں ا نہیں کا آدمی ہوں۔

تنگ نظری:ا نہیں یہ یقین کیسے ہو گیا۔ آپ تو میرے  مشیروں میں میری کابینہ میں شامل ہیں۔

گنجائشی:وہ یقین ا نہیں ایسے ہو گیا کہ میں نے بھرے ایوان میں آپ کی مخالفت کی تھی اور ذاتی ملکیتوں کو قومی تحویل میں لئے جانے کی درخواست کی تھی۔ وہ سمجھے کہ میں ترقی پسند ذہن رکھتا ہوں۔ اشتراکی ہوں اور موجودہ مذہبی حکومت کا مخالف ہوں۔ وہ اجتہاد کے مفہوم سے بے گانہ ہیں۔ وہ مذہب کی تجدید کو نہیں سمجھتے۔ وہ ہراس شخص کو اشتراکی سمجھتے ہیں۔ جو ذاتی ملکیتوں کی مخالفت کرے۔ علامہ!ہم علماء میں فروعی اختلافات ہوتے ہیں۔ لیکن ہم اپنے چھوٹے چھوٹے اختلافات میں چشم پوشی سے کام لینے کے بجائے ایک دوسرے کے دشمن ہو جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف گروہ بناتے ہیں اور دشمن اس سے پورا فائدہ اٹھاتے ہیں۔

تنگ نظری:جی!تو!آگے کہئے۔

گنجائشی:تو میں یہ عرض کر رہا تھا۔۔۔ دیکھئے آپ جذبات میں آ جاتے ہیں۔ پہلے مجھے کہنے دیجئے۔ جو کچھ میں کہنا چاہتا ہوں۔ پھر کہتے رہئے گا۔ جو کچھ آپ کو فرمانا ہے۔

تنگ نظری:ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔ فرمائیے۔

گنجائشی:تو مجھے وہ لوگ اغوا کر کے لے گئے تھے۔ میں ان کے سردار سے بھی مل آیا ہوں۔

تنگ نظری:یعنی۔۔۔ یعنی ان کے سردار سے یعنی۔۔۔ یعنی ان کے باغیوں کے سردار سے۔۔۔ آپ مل چکے ہیں۔ بہت خوب۔بہت خوب۔ خوب حق وفاداری نبھایا آپ نے ہمیں خبر بھی نہیں اور  آپ باغی سردار سے بھی مل آئے۔

گنجائشی:اجی مولانا! پہلے سنئے میں کیا کہتا ہوں۔ پھر گل افشانی فرمائیے۔

تنگ نظری:اجی اب کیا رہ گیا ہے سنانے کے لئے باغیوں کے سردار سے مل آئے آپ اور ہمیں خبر تک نہیں۔

گنجائشی:اچھاتو یہی ٹھیک ہے۔ میں باغی سردار سے مل آیا ہوں۔ میں غدار ہوں۔ باغیوں سے ملا ہوا ہوں اور  آپ کی حکومت کے خلاف سازش کر رہا ہوں۔ اپنی پولیس کو حکم دیجئے کہ مجھے گرفتار کرے۔

تنگ نظری:خیر۔ خیر۔ پھر آگے کہیے کیا ہوا۔

گنجائشی:جی نہیں اب میں بالکل نہیں کہوں گا۔

تنگ نظری:اجی جانے دیجئے۔ کہئے کیا ہوا۔

گنجائشی:پہلے وعدہ کیجئے آپ اخیر تک کچھ نہیں کہیں گے۔

تنگ نظری:ہاں بھئی وعدہ کیا میں نے اب تو کہئے۔

گنجائشی:تو سنیے۔ جس دن ایوان کا اجلاس ہوا اس کے تیسرے روز نہیں (کچھ سوچتا ہے۔) ہاں ہاں تیسرے ہی روز تو۔

تنگ نظری:ہاں بھئی چلئے۔ تیسرے روز آگے کہیے۔

گنجائشی:تو تیسرے روز وہ اغوا کر کے جیپ میں بٹھا کر مجھے سردار کے پاس لے گئے۔ باغی سردار بڑا خونخوار معلوم ہوتا ہے۔ بڑی گرجدار آواز ہے۔ لیکن چہرے سے بڑا منحوس معلوم ہوتا ہے۔ بڑا شقی القلب اور جاہل ہے۔ اس نے مجھ سے پوچھا کیا میں دراصل علامہ کا مخالف ہوں۔ میں نے مصلحتاً کہہ دیا حقیقت تو یہی ہے اور نہ صرف یہ کہ میں مخالف ہوں بلکہ میری دلی خواہش ہے کہ ان کی حکومت کا تختہ پلٹ دیا جائے۔ باغی سردار نے کہا بہتر ہے آپ ہمارے ساتھ شامل ہو جائیے۔ اگر انقلاب لانے میں ہم کامیاب ہو گئے تو علامہ سے چھینا ہوا اقتدار ہم دوسرے علامہ یعنی آپ ہی کو سونپیں گے۔ میں تو خوب سمجھتا تھا ان کی چالوں کو۔ میں نے یہ تو یقین دلا ویا کہ میں آپ کا سخت ترین دشمن ہوں۔ لیکن ان کے ساتھ شامل ہونے سے متعلق میں نے یہ کہہ دیا کہ یہ پیش کش زیر غور رہے گی اور ایک ماہ بعد جواب دیا جائے گا۔ اب آپ سے کہنا یہ ہے کہ ایک ماہ بعد وہ مجھے پھر سے لے جائیں گے۔ راستہ تو مجھے معلوم نہیں اور نہ وہ مقام معلوم ہے جہاں ان کا سردار رہتا ہے۔ کیونکہ وہ میری آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر لے جاتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی خفیہ طریقے سے میرا پیچھا کرے تو وہاں تک بہ آسانی پہنچ سکتے ہیں۔ ایک ماہ پورا ہونے میں چار روز باقی ہیں۔ فرمائیے کیا حکم ہے۔

تنگ نظری: آپ یہ فرمائیے کہ کیا آپ ان کا اتنا اعتماد حاصل کر چکے ہیں کہ اگر آپ کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی رہے توا نہیں وہ اپنا آدمی سمجھیں گے۔

گنجائشی:بالکل! بلکہ ان کو تو یقین ہو گا کہ اگر میں ان میں شامل ہو گیا تو صرف میں نہیں بلکہ آپ کی حکومت کی اچھی خاصی تعداد ان میں شامل ہو جائے گی۔ آخر میں بھی تو وزیر ہوں۔ آپ مجھے کیا سمجھتے ہیں۔؟

تنگ نظری:تو بہتر ہے۔ میرے  ذہن میں ایک ترکیب ہے۔ ہماری فوج کا ایک بڑا دستہ آپ کے ساتھ ہو گا۔ جو ظاہر ہے مسلح بھی ہو گا۔ آپ یہ تاثر دیں گے کہ دستہ ہتھیاروں کے ساتھ باغیوں سے جا ملے گا۔ پٹیاں تو سب کی آنکھوں پر باندھ دی جائیں گی۔ لیکن ہمارا کوئی جاسوس آپ کا پیچھا کرے گا۔ فضائی راستہ سے بھی اور بری راستہ سے بھی اس کا انتظام ہو جائے گا۔ ٹھکانہ معلوم ہو گیا تو باہر سے ہماری فوج حملہ کر دے گی اور اندر تو ایک دستہ آپ کے ساتھ موجود ہے ہی۔ مطلب تو آپ خوب سمجھ گئے ہوں گے۔ غداروں کی سرکوبی کے بعد ایوان کا اجلاس ہو گا۔ اراکین کو ایک خوش خبری کے بعد دوسری خوش خبری دی جائے گی یعنی اجتہاد کے بعد نئے نظام کا اعلان کر دیا جائے گا۔

گنجائشی:بہتر ہے۔ مقابلے کی تیاری کیجئے۔

(اسٹیج پر اندھیرا ہو جاتا ہے۔ جب روشنی ہوتی ہے تو دھیمی روشنی میں باغیوں کے سپاہی تیار کھڑے نظر آتے ہیں۔ علامہ گنجائشی کے ساتھ ان کی فوج کے نوجوان مسلح داخل ہوتے ہیں۔ پٹیاں کھول دی جاتی ہے۔ سامنے ایک ستون سے علامہ اجتہادی بندھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایک باغی ان کی طرف نشانہ لگا رہا ہے۔)

علامہ گنجائشی:ا نہیں مت مارو۔ (سپاہی رک جاتا ہے ) ا نہیں چھوڑ دو۔(باغی سردار کو ایک جانب لے جا کر) یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔ اس شخص کے پاس تو علامہ کا وہ راز پوشیدہ ہے جو میرے  پاس بھی نہیں۔ پہلے ہم اگلوا لیں گے پھر جو آپ کی مرضی۔

سردار:بہتر ہے۔(باغیوں سے )ا نہیں کھول دوکال کوٹھری میں بند کر دو۔

(باغی اجتہادی کو کھول کر اندر لے جاتے ہیں۔ اجتہادی حقارت سے گنجائشی کی طرف دیکھتا ہے اور تھوک دیتا ہے۔)

اجتہادی:علامہ نے بھی کیسے کیسے سانپ اپنی آستین میں پال رکھے ہیں۔

(باغی کھینچتے ہوئے اجتہادی کو اندر لے جاتے ہیں۔)

سردار:ہمارے مہمانوں کے اعزاز میں ضیافت کا اہتمام کرو۔

( باغی سپاہی شربت کے گلاس لئے داخل ہوتے ہیں اور باری باری سب کو پیش کرتے ہیں کہ اچانک سائرن کی آواز سنائی دیتی ہے باغی سردار سراسیمگی کے عالم میں ادھر ادھر بھاگنے لگتے ہیں کہ ڈریم لینڈ کی فوجیں داخل ہو جاتی ہیں۔ باغی ہتھیار اٹھائے بھاگتے ہیں تو گنجائشی کی آواز گونجتی ہے۔)

گنجائشی:خبردار!جو کسی نے ہلنے کی کوشش کی تم چاروں طرف سے گھر چکے ہو۔ اگر ہتھیار اٹھانے کی کوشش کی تو بھون دیئے جاؤ گے۔

(سب باری باری ہتھیار پھینک دیتے ہیں۔ فوج ا نہیں چاروں طرف سے گھیر لیتی ہے۔ اسٹیج پر اندھیرا ہو جاتا ہے۔ جب روشنی ہوتی ہے تو ایوان کا اجلاس ہو رہا ہے۔ امام علامہ تنگ نظری درمیان میں خاموش بیٹھے ہیں اور دائیں جانب علامہ اجتہادی ہیں۔ بائیں جانب علامہ گنجائشی بیٹھے ہیں۔ اس وقت علامہ اجتہادی کھڑے ہوتے ہیں اور وہ ایوان سے مخاطب ہیں۔)

اجتہادی:ملک کے باغیوں کی سرکوبی کی خبر تو آپ کو اخبارات اور ریڈیو سے مل ہی چکی ہو گی۔ دوسری خوش خبری یہ ہے کہ ہمارا قانون یا اقتصادی نظام جو ہمارے نئے نظام کی بنیاد ہو گا مرتب ہو چکا ہے۔ جس کا اعلان کرنے کے لیے میں آپ حضرات سے مخاطب ہوں پیشتر اس کے کہ میں نئے اقتصادی نظام کا اعلان کروں۔ میں یہ عرض کر دوں کہ اس اقتصادی نظام کو مرتب کرنے کے لئے امام وقت نے رات کی تاریکیوں اور دن کے اجالوں میں بنفس نفیس اپنے عوام کے حالات کا مشاہدہ کیا ہے۔ مختلف صورتوں سے ان کا استحصال ہوتے ہوئے دیکھا۔ ان پر ظلم ہوتے ہوئے دیکھا۔ جس کی ظاہر ہے بنیادی وجہ اقتصادی ہی تھی۔ ڈریم لینڈ کا کوئی شہری اپنی زندگی کی بنیادی ضرورت کے پورا کرنے میں دوسرے شہری کا محتاج ہے۔ تو میں ایک جھوٹے اقتصادی نظام ہی کو اس کا ذمہ دار سمجھتا ہوں۔ عوام زندگی کی بنیادی مادی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے امام کی اجازت سے میں نے اپنے مذہبی قانون میں کچھ اجتہادات کئے ہیں۔ امام نے خود اجتہاد کرنا مناسب نہ سمجھا۔ کیونکہ کچھ علماء کو اس سے اختلاف تھا۔ اس لئے انھوں نے یہ ذمہ داری میرے  سپرد کی۔ پہلا اجتہاد تو یہ ہے کہ تمام زمین اور کارخانے ذاتی ملکیتوں سے نکال کر قومی تحویل میں لے لئے گئے ہیں۔

(اس اعلان کے ساتھ ہی ایوان میں شور برپا ہو جاتا ہے اور بری طرح ہوٹنگ شروع ہو جاتی ہے۔ اس ہنگامے میں کچھ بھی سنائی نہیں دیتا۔ صرف چند آوازیں دبی دبی سنائی دیتی ہیں۔)

’’مذہبی قانون میں اجتہاد ممکن نہیں ہے۔‘‘

’’اپنی بکواس بند کیجئے۔‘‘

’’ہمیں آپ کے اس اجتہاد سے اتفاق نہیں ہے۔‘‘

’’مذہب میں اجتہاد کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘‘

’’یہ اجتہاد نہیں بکواس ہے۔‘‘

(علامہ تنگ نظری خاموش ہیں۔ علامہ گنجائشی بھی کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اجتہادی اور گنجائشی دونوں اس ہنگامے پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہیں۔)

اجتہادی:خاموش رہیے۔ خاموش رہیے۔

(شور برابر بڑھ رہا ہے۔)

میں کہتا ہوں خاموش ہو جائیے۔ میری آواز کو دبانے کی کوشش نہ کیجئے۔ یہ آواز نہیں دبنے والی۔

(شور بڑھ رہا ہے۔)

خاموش ہو جائیے اجتہاد ہو چکا ہے۔ امام وقت نے خود اجتہاد کی اجازت دی ہے۔ اب یہ آواز نہیں دبائی جا سکتی۔ خاموش ہو جائیے۔

(شور برابر بڑھ رہا ہے۔)

پردہ اچانک گر جاتا ہے

***

ماخذ: ’’بس اسٹاپ‘‘

٭٭٭

ان پیج سے تبدیلی اور تصحیح و تدوین: اعجاز عبید

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔