کردار:سریش
اوشا:سریش کی بیوی
اجیت:سریش کا دوست
رما:اجیت کی بیوی
چاچی:سریش اور اوشا کی پڑوسن
ساڑی والا:
منظر:(سریش اور اوشا کے گھر ڈرائنگ روم۔ سامان بے ترتیب پڑا ہے۔ میز پوش آدھا نیچے لٹک رہا ہے۔ میز پر بچے کا کرکٹ بیٹ پڑا ہے۔ صوفے کا ایک کشن نیچے پڑا ہے۔ اس کے پاس بچے کا بستہ کھلا رکھا ہے۔ ڈرائنگ کاپی اور پینٹنگ کا سامان رکھا ہے۔
پردہ کھلتا ہے تو ڈرائنگ روم میں کوئی نہیں ہے۔ کچھ دیر بعد سریش ہاتھ میں بریف کیس لیے اندر آتا ہے۔ تیوری پربل پڑے ہوئے ہیں۔۔۔ آ کر بریف کیس صوفے پر پٹخ دیتا ہے۔ ٹائی کی گرہ کھولتے ہوئے پنکھے کی طرف بڑھتا ہے۔ پنکھا چلا کر ادھر ادھر دیکھتا ہے۔ پیشانی کے بل اور بھی گہرے ہو جاتے ہیں۔۔۔ زور سے پکارتا ہے۔۔۔ )
سریش:اوشا!۔۔۔ اوشا!!۔۔۔ ارے اوشا!!!عجیب عورت ہے یہ بھی۔۔۔ ! کبھی جو گھر میں ملے۔ نہ جانے کیسی پتنیاں ہوتی ہیں جو پتی کے آرام کا خیال رکھتی ہیں۔ آفس سے آئے تو مسکرا کر سواگت کرتی ہیں !۔۔۔ اور ایک ہماری پتنی ہے مسکرانا اور سواگت کرنا تو دور رہا گھر ہی سے غائب ہے۔
(باہر کے دروازے سے اوشا اندر آتی ہے۔ ہاتھ میں ایک کٹوری میں کچھ لیے ہوئے ہے۔)
اوشا:ارے سریش کب آئے تم۔۔۔؟
سریش:اوہو!آ گیا گھر کا خیال تمہیں !۔۔۔ ختم ہوئی تفریح!
اوشا:تفریح۔۔۔؟میں سیر و تفریح کرنے گئی تھی؟
سریش:اور نہیں تو کہاں گئی تھیں؟۔۔۔ دروازہ چوپٹ کھلا پڑا تھا جب میں آیا!۔۔۔ اس طرح گرہستی چلتی ہے۔ ایسی ہی گرہستن ہوتی ہے؟تمہیں گھر میں کوئی کام کاج نہیں ہے کیا کہ گھر کھلا چھوڑا اور غائب ہو گئیں۔!
اوشا:کوئی میل دو میل تو گئی نہیں تھی۔۔۔ یہ سامنے کے فلیٹ میں کھڑے کھڑے گئی تھی۔ دو منٹ بھی نہیں لگے ہوں گے۔
سریش:دو منٹ۔۔۔ !ایسے ہوتے ہیں تمہارے دو منٹ؟کب سے آیا بیٹھا ہوں۔کہاں جھک مارنے گئی تھیں؟
اوشا:ذرا زبان سنبھال کر بولو۔۔۔ حدسے بڑھتے جا رہے ہو تم!
سریش:میں حد میں رہوں یا حد سے باہر۔ تم پہلے میری بات کا جواب دو۔۔۔ کہاں گئی تھیں؟
اوشا:کہا تو۔۔۔ سامنے کے فلیٹ میں گئی تھی!
سریش:کیوں؟۔۔۔ کیا ضرورت پیش آ گئی تھی؟
اوشا:چائے کی پتی ختم ہو گئی تھی دہی لینے گئی تھی۔
سریش:پھوہڑ پن کی حد ہے !کیوں ختم ہوئی پتی۔۔۔ !مہینے کا سامان منگا کر کیوں نہیں رکھتیں۔۔۔؟تمہیں ہوش بھی رہتا ہے کہ نہیں۔ کہ گھر میں کیا کیا چیز ہے کیا نہیں۔۔۔ !جب کسی چیز کی ضرورت پڑی تو کبھی اس کے دروازے پر کھڑی مانگ رہی ہو۔۔۔ کبھی اس کے دروازے پر۔۔۔ ! کچھ تو گھر کی عزت کا خیال کیا کرو۔
اوشا:گھرکی عزت کے خیال سے ہی مانگنے گئی تھی۔ اگر آتے ہی تمہیں چائے نہیں ملتی ہے توچیخ چیخ کر سارا گھر سر پر اٹھا لیتے ہو!پوری بلڈنگ کے لوگ تماشا دیکھے ہیں۔
سریش:بکواس مت کرو۔۔۔ جاؤ جا کر چائے لاؤ!
اوشا:(کمرے سے جاتی ہوئی بولتی ہے ) دیکھو۔۔۔ میں پھر کہہ رہی ہوں کہ زبان سنبھال کر بولو ورنہ۔۔۔
(اندر چلی جاتی ہے۔)
سریش:(چیخ کر)ورنہ کیا۔۔۔؟کیا کر لو گی!(اپنے آپ سے )کیا قسمت ہے ہماری!ایک مصیبت گلے پڑ گئی ہے۔ کس کام کی ایسی پتنی جو پتی کو ذرا بھی آرام نہ دے سکے۔۔۔ یہ۔۔۔ یہ گھر ہے ہمارا!جیسے کباڑخانہ ہو۔ نہ کوئی چیز سلیقے کی نہ کسی بات میں کوئی ڈھنگ۔۔۔ بس کاٹھ کباڑ جمع کیا، ایک کمرے میں الٹا سیدھا ڈھیر کیا اور اسے ڈرائنگ روم کا نام دے دیا۔۔۔ واہ!یہ ڈرائنگ روم ہے یا گدھوں کا اصطبل۔۔۔ !(میز پر اپنی انگلی پھیر کر انگلی پر لگی گرد دیکھتا ہے ) اس میز پر کتنی دھول ہے۔
(میز پوش ٹھیک کرنے لگتا ہے تو کرکٹ کا بیٹ نیچے گرتا ہے۔)
(اندر کے کمرے سے اوشا کی آواز آتی ہے۔)
اوشا:ارے کیا گرا دیا۔۔۔؟
سریش:میں کیوں گراتا۔۔۔؟یہ تمہارا بے ڈھنگا پن جو نہ کرائے کم ہے۔ میز پر اتنا کباڑ جمع ہے کبھی صاف کرنے کی توفیق نہیں ہوتی تھیں۔۔۔ ادھر ادھر مارے مارے پھرنے سے فرصت ملے تو گھرکی طرف دھیان دو۔
(اوشا ہاتھ میں چائے کی پیالی لیے آتی ہے۔)
اوشا:لو چائے پیو۔۔۔ جب سے آئے ہو میرے پھوہڑ پن کا رونا روئے جا رہے ہو۔ کان پک گئے سنتے سنتے۔۔۔ بس کرو۔۔۔ ذرا دیر کو مجھے بھی گھر میں سکون سے بیٹھنے دو۔
سریش:بس ہر وقت اپنے ہی سکون و آرام کی فکر لگی رہتی ہے تمہیں۔۔۔ !کبھی یہ بھی سوچا کہ پتی دن بھر کا تھکا ہارا گھر لوٹا ہے۔
اوشا:اور میں کیا دن بھر پھولوں کی سیج پر لیٹی آرام کرتی رہی۔ میں بھی دن بھر آفس میں کام کر کے تھکی ہاری لوٹی ہوں۔
سریش:بس ذرا سی بات ہوئی کہ تم نے آفس کے کام کا طعنہ دیا۔ ناری کا پہلا کرتویہ پتی کی سیوا ہے۔ میری سیوا تمہیں کرنی ہی ہو گی!نوکری کر رہی ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ میرے سر پر بیٹھنے کی کوشش کرو۔۔۔ کیوں کر رہی ہو نوکری۔۔۔؟چھوڑ دو!
اوشا:نوکری بھی تمہارے گھرکے لیے ہی کر رہی ہوں۔ یہ جو اوپر کی ٹیپ ٹاپ نظر آ رہی ہے وہ سب میری نوکری کی بدولت ہی توہے۔ ایک پیسہ بھی تو میں اپنے اوپر خرچ نہیں کرتی۔۔۔ جتنی تنخواہ ملتی ہے یا تو تم لے لیتے ہو یا گھر میں خرچ ہو جاتی ہے۔
سریش:اور یہ ہر مہینے میکے جو منی آرڈر جاتے ہیں وہ پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اوشا:بھگوان سے ڈرو سریش!تین سال سے نوکری کر رہی ہوں۔۔۔ ایک پیسہ بھی اپنے میکے والوں کو نہیں دیا۔ اب پہلی بار چھوٹے بھائی کی فیس دینے کے لیے پچھلے مہینے دو سو روپئے بھیج دیے تو تم اس کا طعنہ دینے بیٹھ گئے۔!
سریش:سچ بات جوہے وہ تو کہی ہی جائے گی، تم اسے طعنہ کہو یا جو چاہو کہہ لو۔۔۔۔ تم اگر نوکری کر رہی ہو تو میری اجازت سے۔ تمہاری پوری تنخواہ پر میرا حق ہے۔۔۔ تمہارے مفت خورے باپ بھائی کا نہیں !
اوشا:(بے حد بگڑ کر) تم آج آپے میں نہیں ہو۔ پہلے تو آتے ہی مجھے برا بھلا کہنا شروع کیا۔ اب میرے باپ بھائی کو گالی دے رہے ہو۔۔۔ اپنا اپمان تو خیر میں زہر کا گھونٹ پی کر سہہ لوں گی۔ لیکن اپنے باپ، بھائی کا اپمان نہیں سہہ سکتی۔۔۔ بس آخری بار کہہ رہی ہوں کہ ہوش میں آؤ ورنہ میری بھی زبان کھل جائے گی۔۔۔ !
سریش:زبان کھول کر تو دیکھو۔۔۔ !گدی سے نہ کھینچ لی تو سریش نام نہیں۔
(اوشا چائے کی پیالی اٹھا کر اندر چلی جاتی ہے۔ سریش اسے سنانے کے لیے زور زور سے چیخ چیخ کر بولتا ہے۔)
سریش:مجھے سمجھا کیا ہے تم نے !۔۔۔ ایک تو بے تحاشا پیسہ لٹا رہی ہو اور منع کرو تو لڑنے آتی ہو۔
(کوئی باہر کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔)
ہونہہ۔۔۔ !کہنے لگیں زبان کھل جائے گی۔ کوئی مذاق ہے۔
(دروازہ پھر کھٹکھٹایا جاتا ہے۔ سریش بے حد چڑ کر اٹھتا ہے اور بڑبڑاتا ہوا جا کر دروازہ کھولتا ہے۔)
ارے کو ن ہے بھئی۔۔۔؟
(دروازے پر ایک آدمی بڑا سا گٹھا لیے کھڑا ہے۔)
سریش:کون ہو تم۔۔۔ کیا چاہئے؟
ساڑی والا:ہم ساڑی والا ہے ساب!۔۔۔ بائی ہم کو بولا تھا کہ ہینڈلوم کا ساڑی ہوئیں گا تو لانے کا۔ بوت اچھا ساڑی ہے ساب۔۔۔ ایک دم نیا ڈیجائن۔۔۔ !
سریش:نہیں نہیں ہمیں نہیں چاہئیں ساڑیاں واڑیاں۔۔۔ !
ساڑی والا:تم کو نئی ساب۔۔۔ !بائی کو مانگتا ہے ساڑی۔۔۔ پرسوں ہم باجو کا بلڈنگ میں آیا تھا۔ بائی ہم کو بولا ادر آنے کا۔ بلڈنگ کا ایڈریس دیا ہم کو۔۔۔ کر کے آج ہم ادر آیا۔
سریش:تم سے کہا نا کہ جاؤ یہاں سے۔ کوئی ساڑی واڑی نہیں لینی ہے۔ (دروازہ دھڑ سے بند کر دیتا ہے۔۔۔ پکارتا ہے ) اوشا!۔۔۔ اوشا!!۔۔۔
اوشا:(ساڑی کے پلو سے ہاتھ پونچھتی ہوئی آتی ہے۔ تیوری پربل ڈال کر بڑی بے زاری سے پوچھتی ہے )اب کیا آفت آ گئی۔۔۔؟
سریش:آ ہی جاتی۔ وہ تو یہ کہو کہ میں نے ٹال دی۔۔۔ یہ ہینڈلوم کی ساڑی والے کو تم نے بلایا تھا؟
اوشا:ہاں۔۔۔ کہاں ہے وہ۔۔۔؟
سریش:میں نے چلتا کر دیا!
اوشا:کیوں۔۔۔ تمہیں کیا تکلیف تھی اس سے؟بلایا میں نے تھا۔۔۔ ! کم سے کم مجھ سے پوچھ تولیا ہوتا۔
سریش:کیا کرتا پوچھ کر۔ مجھے معلوم ہے کہ تمہیں ساڑی واڑی کی کوئی ضرورت نہیں۔ پانچ سال شادی کوہو گئے۔ دو بچوں کی ماں بن گئیں۔ اب آخر کیا ضرورت سے نئے نئے سنگھار پٹار کی۔۔۔ !
اوشا:(بے زاری سے سر ہلا کر، گہرا سانس لیتی ہے۔ ایک کرسی پر گر جاتی ہے )سنگھار کی ضرورت نہیں۔ تن ڈھانکنے کی توہے۔!ان پانچ برسوں میں ایک پیسے کی چیز تم نے لا کر نہیں دی۔ اپنے میکے سے جو کپڑے ساتھ لائی تھی اب تک پہنتی رہی۔ آخر کب تک ایسے کام چلے گا۔۔۔ گھر میں بیٹھی ہوتی تو خیر پیوند لگا کر گزارا کر لیتی۔ لیکن آفس یہ دھجیاں لپٹ کر کیسے جاؤں۔۔۔؟
سریش:تم تو مجھے برباد کرنے پر تلی ہو۔۔۔ کبھی میکے منی آرڈر جا رہا ہے۔ کبھی ساڑیاں خریدی جا رہی ہیں۔
اوشا:(بے حد غصے میں چلا کر) بس بس۔۔۔ بہت ہو گیا۔۔۔ اب میں برداشت نہیں کر سکتی۔ کان کھول کر سن لو۔ میں اپنی تنخواہ کا جو چا ہوں کروں۔ تمہیں اعتراض کا کوئی حق نہیں۔۔۔ سن لو!۔۔۔ آج کے بعد تم نے اس سلسلے میں کچھ کہا تو اچھا نہیں ہو گا۔ میرا پیسہ ہے۔میرا۔۔۔ میرا۔
(رونا شروع کر دیتی ہے۔)
(دروازہ دھڑدھڑایا جاتا ہے۔)
ایک آواز:ارے بھئی شریمان سریش جی ہیں گھر میں؟۔۔۔ ہم لوگ آئیں؟
(سریش اوشا کو اندر کی طرف دھکا دیتا ہے۔ دانت کچکچا کر دبی آواز میں بولتا ہے۔)
سریش:اندر جاؤ۔۔۔ کالا منہ کرو۔۔۔ جاؤ۔۔۔ !(زور سے ) آ رہا ہوں بھائی۔۔۔ ابھی آیا۔
(جا کر دروازہ کھولتا ہے۔)
سریش:آئیے آئیے اجیت صاحب۔۔۔ پدھاریے۔۔۔ اوہو! رما بھابھی بھی ہیں۔۔۔ نمستے۔۔۔ آج کدھر سے چاند نکل آیا۔ ہم غریبوں کی کیسے یاد آ گئی۔۔۔ !
اجیت:ارے بھئی ایک جگہ سے چار ٹکٹ مل گئے ہیں۔ پکچر کے۔!سوچا تم دونوں کو ساتھ لے لیں۔۔۔ بولو چل رہے ہو؟
سریش:اچھا بیٹھو تو سہی۔۔۔ !بیٹھے بھابھی جی۔ ابھی تو بہت وقت ہے۔ سوچتے ہیں جائیں کہ نہ جائیں۔۔۔ کیوں ڈارلنگ کیا خیال ہے؟ ارے کہاں چلی گئیں بھئی! اوشا۔۔۔ اوشا۔۔۔ ابھی تو یہیں تھی۔ آپ لوگوں کے آنے کا سن کر چائے لانے چلی گئی ہو گی۔جواب نہیں ہے صاحب ہماری اوشا کا۔۔۔ !
اجیت:ارے ارے چائے وائے کی ضرورت نہیں ہے بھئی۔ چائے توہم پی پلا کر آ رہے ہیں۔۔۔ بلا لو بھابھی کو۔(پکارتا ہے ) بھابھی جی۔۔۔ اوشا بھابھی!
اوشا:(اندر سے جواب دیتی ہے ) آ رہی ہوں بھائی صاحب!
سریش:اور سناؤ۔ کہاں سے مار لائے یہ ٹکٹ؟
اجیت:وہ جیوتی تھیٹر کا مالک ہے نا۔ اس کا ایک کام میں نے کروا دیا۔ بس آ گیا صبح گھر پر ٹکٹ لیے۔
(اوشا ناشتے کی ٹرے لیے آتی ہے۔)
اوشا:نمستے بھائی صاحب۔۔۔ نمستے رما بھابھی۔۔۔ فرمائیے بھائی صاحب کیا کہہ رہے تھے آپ؟
اجیت:لیجئے۔ اب کہنے کو رہا ہی کیا ہے؟ہم تو چائے تک کو منع کر رہے تھے اور آپ ناشتے کی ٹرے سجائے لیے چلی آ رہی ہیں۔۔۔ !
اوشا: آپ لوگوں کے آنے سے بس تھوڑی ہی دیر پہلے سریش آفس سے آئے ہیں۔ ان کے لیے ناشتہ تیا رہی تھا۔ بس اسی میں اور تھوڑا سا بڑھا کر لے آئی۔ لیجئے آپ لوگ ناشتہ کیجئے۔ میں بس ابھی چائے بنا کر لائی۔
سریش:ارے نہیں نہیں ڈارلنگ۔۔۔ کیا غضب کرتی ہو۔۔۔ بس تم یہاں آرام سے بیٹھو۔ اجیت اور رما بھابھی کی خاطر مدارت کرو۔ چائے میں بنا کر لاتا ہوں۔
رما: آپ۔۔۔؟بھائی صاحب آپ چائے بنائیں گے ! آپ کو آتی ہے چائے بنانی؟
سریش:کیوں نہیں۔۔۔ آج کل کا زمانہ ہی ایسا ہے کہ عورت اور مرد دونوں کو ہر کام آنا چاہئے۔ پھر اوشا بے چاری بھی تو آفس سے تھکی ہاری آئی ہے۔۔۔ لیجئے آپ لوگ ان سموسوں سے انصاف کیجئے۔ میں دو منٹ میں چائے لایا۔
رما:(ٹھنڈا سانس بھرکر) کتنی خوش قسمت ہو اوشا تم! کاش دنیا کے سارے پرش ایسے ہی سمجھدار اور پتنی کا خیال کرنے والے ہوتے۔۔۔ جیون کتنا سکھی۔ کتنا مدھر ہو جاتا۔!
اجیت:کر لو۔۔۔ کر لو۔۔۔ سریش کی تعریف کے پردے میں جی بھرکے ہماری برائی کر لو۔ لیکن بھئی ہم پر کوئی اثر ہونے والا نہیں ہے۔ ہم نے تو شادی ہوتے ہی تمہیں بتا دیا تھا کہ گھر کا کام دھندا نہ ہم نے کبھی کیا نہ اب کرنے کا پروگرام ہے۔۔۔ سوچ سمجھ کر نوکری کرنے گھر سے نکلنا۔۔۔ !
رما:میں نہ تو شکایت کر رہی ہوں اور نہ تمہاری برائی۔۔۔ صرف اوشا کی قسمت پر رشک کر رہی ہوں۔۔۔ سچ مچ اوشا کتنا اچھا لگتا ہو گا تمہیں۔۔۔ جب آفس سے آ کر پرس ایک طرف ڈال کر مزے سے پیر پھیلا کر بیٹھ جاتی ہو گی تم۔۔۔ اور بھائی صاحب چائے لا کر پلاتے ہوں گے !
اوشا:(زور سے لمبا سانس کھینچ کر) ہوں۔۔۔ یہ حلوہ تولو۔
اجیت:ادھر لائیے بھابھی جی۔۔۔ حلوے کے اصلی قدردان توہم ہیں۔ اوہو! گاجر کا حلوہ ہے۔ ارے رما تم بھی کبھی ایسی اچھی اچھی چیزیں پکا کر ہمیں کھلایا کرو۔ سریش میرا یار ہے بڑا خوش قسمت!
(سریش چائے کی ٹرے لیے داخل ہوتا ہے۔)
سریش:کیوں بھئی یہ ہمارا کیا ذکر ہونے لگا۔۔۔؟
اجیت:ارے یار تمہاری خوش قسمتی پر رشک کر رہا تھا کہ اوشا بھابھی جیسی سگھڑ پتنی تمہیں ملی ہے۔
سریش:ہاں اس میں تو شک نہیں۔۔۔ ہم بھی بھگوان کے بہت شکرگزار ہیں کہ اس نے ہمیں اوشا جیسی پتنی دی۔Come on Usha darling - give me a sweet smile!
رما:ارے اوشا!۔۔۔ بھائی صاحب تمہاری اتنی تعریف کر رہے ہیں اور تم پتھر کی مورتی کی طرح چپ چاپ بیٹھی ہو۔۔۔ !بھگوان کی قسم اگر کسی دن اجیت اس کی ایک فیصد تعریف بھی میری کر دیں تو میں اٹھ کر خوشی سے ناچنے لگوں۔۔۔ !
اجیت:اطمینان رکھیے وہ دن کبھی نہیں آئے گا۔۔۔ !
رما:وہ تو مجھے معلوم ہے۔۔۔ اگر میرے نصیب اچھے ہوتے تو تم جیسے ناقدرے کے پلے کیوں باندھی جاتی!
اجیت:اپنے گنوں پربھی تونظر ڈالو۔۔۔ تعریف کے قابل کوئی بات بھی ہو تم میں۔
سریش:ارے۔ ارے۔۔۔ آپ لوگ توSerious ہونے لگے۔ بھابھی پلیز۔ مذاق کو مذاق کی حد تک ہی رہنے دیجئے۔ اجیت Stop it ! کچھ تو سوچو۔ لیڈیز سے ایسی سخت زبان میں بات نہیں کی جاتی۔۔۔ Oh, no no رما بھابھی، پلیز رونے کا اسٹارٹ مت لیجئے۔ لیجئے چائے پیجئے۔۔۔ میں اتنی محنت سے بنا کر لایا ہوں۔
اجیت:تو پھر چل رہے ہو نا پکچر۔۔۔؟
سریش:ہاں ہاں کیوں نہیں۔ ضرور چل رہے ہیں Come on اوشا! بس جلدی سے تیار ہو جاؤ۔۔۔ اور دیکھو وہ آسمانی رنگ والی ساڑی پہننا تاکہ اس کے بیک گراؤنڈ میں تمہارا چاند سا چہرہ اور چمک اٹھے۔
اوشا:(ناگواری سے دوسری طرف چہرہ موڑ لیتی ہے ) آپ لوگ چلے جائیے میرا موڈ نہیں ہے پکچر دیکھنے کا!
اجیت:ارے واہ، یہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔ ! آپ کو چلنا ہی پڑے گا۔رما تم سمجھاؤ نا۔۔۔ اوشا بھابھی کو۔
رما:ہاں بھئی اوشا۔۔۔ تمہارے بغیر مجھے تو بالکل مزا نہیں آئے گا۔ یہ دونوں آپس میں باتیں کریں گے۔ مجھے پکچر پر کوئی Comment کرنا ہوا تو میں کس سے کہوں گی؟
سریش:اور پھر ڈارلنگ۔۔۔ مدت سے تمہاری کوئی آؤٹنگ بھی تو نہیں ہوئی۔۔۔ بس آفس سے گھر۔ گھر سے آفس۔۔۔ انسان کو آخر سیر و تفریح کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
رما:Come on Usha be a Sport! اب سب کہہ رہے ہیں تو تمہیں ماننا ہی چاہئے۔۔۔ اٹھو تیار ہو جاؤ۔
(اوشا اٹھ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔)
رما:ہاں یہ ہوئی نا بات!
(کوئی دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔ سریش اٹھ کر دروازہ کھولتا ہے۔)
سریش:نمستے چاچی جی۔۔۔ آئیے بیٹھئے۔
چاچی:نہیں بھیا بیٹھنے نہیں آئی۔ ذرا کھڑے کھڑے اوشا سے کام تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ تمہارے گھر مہمان بیٹھے ہیں۔ معاف کرنا تم لوگوں کو ڈسٹرب کیا میں نے !
سریش:کمال کرتی ہیں آپ بھی۔!اس میں ڈسٹرب کرنے کی کیا بات ہے۔۔۔ اور پھر یہ دونوں مہمان نہیں ہیں۔ گھر ہی کے آدمی سمجھئے انھیں بھی۔ یہ میرا دوست اجیت، یہ اس کی پتنی رما۔۔۔ اور بھئی یہ ہیں ہماری چاچی۔ (اجیت اور رما نمستے کرتے ہیں ) چاچی ہماری ہی بلڈنگ میں رہتی ہیں نیچے کے فلور پر۔۔۔ کہیے چاچی کیا سیوا کروں آپ کی؟
چاچی:اوشا کہاں ہے۔۔۔؟
سریش:ہم لوگ ذرا باہر جا رہے ہیں۔ اوشا تیار ہو رہی ہے۔ مجھ سے کہیے کیا کام ہے؟
چاچی:تم لوگ باہر جانے کو تیار بیٹھے ہو۔ ایسے وقت مجھے اپنا کام بتاتے ہوئے برا تو لگ رہا ہے مگر مجبوری ہے اس لیے کہتی ہوں۔
سریش:ہاں ہاں کہیے !
چاچی:ہمارے گھر میں چائے کی پتی ختم ہو گئی ہے۔ اس وقت گھر میں کوئی ہے نہیں کہ دکان سے منگوا لوں۔۔ !
سریش:تو کیا ہوا۔۔۔ یہاں سے لے جائیے۔۔۔ اوہو!یاد آیا۔ چائے کی پتی تو ہمارے یہاں بھی ختم ہو گئی ہے۔ اوشا سامنے والے فلیٹ سے مانگ کر لائی تھی۔۔۔ دیکھتا ہوں اس میں سے بچی ہو گی تو آپ کولا دیتا ہوں۔
چاچی:نہیں بھیا رہنے دو۔ اب اس میں سے کیا بچی ہو گی۔ پتھر پڑیں میری یاد پر۔ضروری چیزیں منگوانا بھول جاتی ہوں۔۔۔ پھر اس طرح لوگوں کے دروازے پر جانا پڑتا ہے مانگنے۔
سریش:ارے ارے چاچی ایسی باتیں کیوں سوچنے لگیں آپ؟آخر پڑوسی ہوتے کس لیے ہیں۔۔۔؟وقت پر ایک دوسرے کے کام نہ آئے تو پھر زندگی کس کام کی؟اپنے لیے جیے، اپنے لیے مرے۔۔۔
چاچی:کتنے اونچے وچار ہیں تمہارے۔ تمہاری جگہ کوئی اور ہوتا تو کم سے کم دل میں ضرور کہتا کہ سامان منگا کر کیوں نہیں رکھتیں۔۔۔ پھوہڑ ہیں۔ گرہستی کا ڈھنگ نہیں آتا۔
سریش:ارے چاچی گرہستی میں تو یہ سب چلتا ہی رہتا ہے۔ کبھی کچھ ختم ہوا۔ کبھی کچھ۔ اب بے چاری گرہستن کیا کیا یاد رکھے۔
چاچی:اچھا تو میں چلوں۔۔۔ !
سریش:اچھا چاچی نمستے۔۔۔ (پکارتا ہے ) ارے بھئی اوشا۔۔۔ آ بھی چکو۔۔۔ ! تمہاری راہ دیکھتے دیکھتے تو آنکھیں پتھرا گئیں۔۔۔ کیوں رما بھابھی۔ پکچر کے بعد وہیں کسی ریسٹوران میں رات کا کھانا کیسا رہے گا۔۔۔؟
رما:اوہ بھائی صاحب! آپ نے تو میرے منہ کی بات چھین لی۔ اجیت کے ڈر سے میں کہہ نہیں رہی تھی۔ مگر دل میں میرے یہی تھا۔۔۔ اور ایک بات۔۔۔ !
اجیت:ابھی کچھ باقی ہے۔۔۔؟
رما:وہیں تھیٹر کے پاس ہینڈلوم کے کپڑوں کی نمائش ہو رہی ہے۔ پکچر کے بعد پہلے وہاں جائیں گے پھر کھانا کھائیں گے۔
سریش:ضرور ضرور۔
اجیت:مروا دیا یار بے موت!
سریش:کیوں؟۔۔۔ کیوں؟
اجیت:ارے بھیا۔ دو دو عورتیں ساتھ ہیں۔ کیا یہ نمائش سے خالی ہاتھ واپس آئیں گی۔۔۔؟اگر یہ پروگرام ہے تو میں نہیں چلتا۔۔۔ ! میری جیب اتنا بوجھ نہیں سہار سکتی۔۔۔ !
سریش:اچھے کپڑے پہننا ہر عورت کا پیدائشی حق ہے۔ اگر رما بھابھی نے ایک آدھ ساڑی خرید لی تو دیوالیہ تو نہیں نکل جائے گا۔ ارے میاں دونوں کما رہے ہوenjoy life, eat drink and be merry رما بھابھی کے ساتھ اوشا بھی ایک آدھ ساڑی خرید لے گی۔ بہت دن سے اس نے بھی شاپنگ نہیں کی ہے۔
(اوشا داخل ہوتی ہے۔ کپڑے نہیں بدلے، اسی حالت میں ہے۔)
رما:وہ آ گئی اوشا۔۔۔ اوشا!really you are lucky! تمہیں تو دن رات بھائی صاحب کی پوجا کرنی چاہئے۔ ارے تم نے ساڑی نہیں بدلی۔ اسی حال میں چلو گی؟
اوشا:سوری رما۔۔۔ !میرے سر میں بے حد درد ہو رہا ہے۔تم سب کے اصرار پر میں تیار ہونے تو لگی تھی لیکن آج میرا موڈ ایسا ہو رہا ہے کہ میں جانتی ہوں کچھ مزہ نہیں آئے گا پکچر میں۔۔۔ بلاوجہ ساتھ چل کے تم سب کا مزہ کیوں کرکرا کروں۔ میری مانو تم لوگ چلے جاؤ۔ سریش کا دل چاہے تو وہ بھی چلے جائیں۔ میں گھر پرہی آرام کرنا چاہتی ہوں۔
سریش:ارے ارے۔ کہیں ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ تمہارے سر میں درد ہو اور میں پکچر دیکھنے چلا جاؤں۔۔۔ !impossible لاؤ میں سرد با دوں۔ بام کہاں ہے۔ ذرا سا مل دوں۔
اوشا:سریش پلیز۔۔۔ مجھے تنگ نہ کرو۔ معمولی درد ہے۔ تم ان لوگوں کے ساتھ پکچر چلے جاؤ۔
رما:بھائی صاحب ایسا کیجئے کہ آپ اور اجیت پکچر چلے جائیے۔ میں اور اوشا یہاں بیٹھ کر گپ بازی کریں گے۔ پکچر کے بعد آپ لوگ یہاں آ جائیے پھر ہمیں کسی ریسٹوران میں لے چلیے اور شاندار ڈنر کھلائیے !
اجیت:ہاں یہ ٹھیک ہے۔
سریش:نہیں بھئی بالکل غلط ہے۔۔۔ ہم تو اپنی جان بہار کے بغیر پکچر تو کیا سورگ میں بھی نہیں جائیں گے۔!!
اوشا:(بے حد بے زاری سے ) سریش بھگوان کے لیے بس بھی کرو۔
سریش:او، کے۔ اوکے ڈارلنگ۔۔۔ اگر تمہارا یہی حکم ہے تو تابعدار کو انکار کی مجال نہیں۔۔۔ چلو بھئی اجیت۔۔۔ اب توجانا ہی پڑے گا۔
رما:آتے آتے ہم دونوں کے لیے میٹھے پان لیتے آئیے گا۔
اجیت:تمہاری فرمائشوں کی فہرست کبھی ختم بھی ہو گی یا نہیں؟
سریش:ضرور لائیں گے بھئی ضرور۔۔۔ اوشا تمہارے لیے کچھ ڈارلنگ؟
اوشا:No, Thanks!
سریش:اچھا تو ہم چلیں۔۔۔ بائی۔بائی۔
(سریش اور اجیت چلے جاتے ہیں۔)
رما:آؤ اوشا میں تمہارا سر دبا دوں۔
اوشا:نہیں رما۔ درد تو اتنا زیادہ نہیں ہے کہ دبانے کی ضرورت پڑے۔ اصل میں آج موڈ کچھ خراب سا ہو رہا ہے۔
رما:حد ہے بھئی! موڈ میرا بگڑنا چاہئے۔۔۔ اجیت کو دیکھو۔ بات بات میں میرے خلاف بولتے ہیں۔ کبھی جو ڈھنگ سے بات کریں۔ تمہارا موڈ بگڑنے کی تو کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔
اوشا:سمجھ میں نہ ہی آئے تو اچھا ہے۔!
رما:کیا مطلب۔۔۔؟
اوشا:کچھ نہیں۔۔۔ !
رما:بھائی صاحب کتنے اچھے ہیں۔ کتنا تمہارا خیال رکھتے ہیں۔ کتنی عزت کرتے ہیں تمہاری! تمہیں اپنے بھاگیہ کو سراہنا چاہئے۔۔۔ تمہاری جگہ میں ہوتی تو گھرکی چھت پر چڑھ کر پکار پکار کر ساری دنیا کو بتاتی کہ میرا پتی کیسا ہے۔۔۔ !
اوشا:(اداس سی مسکراہٹ کے ساتھ) کبھی کبھی میرا بھی جی چاہتا ہے۔
رما:کیا۔۔۔؟
اوشا:کہ دنیا کو بتا دوں کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ہوتے ہیں دکھانے کے اور ۔۔۔ !
(رما حیران نظروں سے اوشا کو دیکھ رہی ہے۔)
۔۔۔ پردہ۔۔۔
***
ماخذ: ’’سوچ لیجئے ‘‘
سلیقہ کتاب گھر
۱۴/۱۵۶۰، جان محمداسٹریٹ
پونہ۔