10:44    , ہفتہ   ,   18    مئی   ,   2024

ڈرامے

2497 0 0 00

بیکاری - کرشن چندر

پہلی بار:لاہور۔ اکتوبر ۱۹۳۷ء

ڈرامے کے افراد  اور  اداکار

بھیا لال:کنہیا لال

شیام سندر:کے۔ سی

اظہر:چتر بھج

سپاہی:چودھری

                (ہندو ہوسٹل میں ۴۴ نمبر کا کمرہ گندہ، خاک آلودہ، دوچار پائیوں پر میلے بستر، ایک میز پر بہت سی کتابیں، سگریٹوں کا ڈبہ، قلمدان  اور  تھوڑی سی نقدی۔ ایک چارپائی پر شیام سندر بال بکھیرے غمگین صورت بنائے بیٹھا ہے  اور  سگریٹ کے کش لگا کر دھوئیں کے مرغولے سے ہوا میں چھوڑ رہا ہے۔ یکایک دروازے سے بھیا لال داخل ہوتا ہے۔ لمبا، دبلا، پتلا، جوان ہے۔ گال اندر پچکے ہوئے، زرد رو، ایم اے پاس)

بھیا لال   : (چارپائی پر بیٹھ کر) آج وہ بدلہ لیا کہ ساری عمر یاد رکھے ہی رکھے گی۔ یہ اونچے طبقے کے لوگ نہ جانے ہمیں کیوں کیڑوں مکوڑوں سے بھی بدتر خیال کرتے ہیں۔

شیام سندر              : (ایک حزیں مسکراہٹ کے ساتھ) کیا بات ہوئی؟ کس سے بدلہ لیا؟ وہ بدقسمت کون ہے ؟

بھیا لال   :وہی توہے ڈاکٹر گھنشیام لال کی بیوی جمنا۔ اوہ مگر  تم اسے نہیں جانتے۔ موٹی سانولی سی ہے۔ دو بچے ہو جانے پربھی ایف اے میں پڑھتی ہے۔ میں آج تین مہینے سے اسے تواریخ پڑھا رہا ہوں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ عورتوں کو تواریخ کی کیا ضرورت ہے۔ انہیں تو چاہئے چولہا چاہئے۔ خیر ہمیں تو اپنے پیسوں سے کام ہے۔ دو گھنٹے پڑھاتا ہوں۔ پندرہ روپئے ملتے ہیں۔

شیام سندر              :غنیمت جانو۔

بھیا لال   : (ایک نقلی آہ بھرکر) ٹھیک ہے مگر ۔ ۔ ۔ میری شکل و صورت میں اسی بارے میں تم سے مشورہ کرنے آیا تھا کہ۔ ۔ ۔

شیام سندر              : (بات کاٹ کر)مگر  تم سے کس مسخرے نے کہہ دیا کہ میں حسن کا جراح ہوں۔

بھیا لال   : (بات ان سنی کر کے)ا وہ!میں اپنی صورت کو کیا کہوں۔ میرا رنگ قدرتی طور پر زرد ہے۔ جس سے ہر شخص کو مجھ پر تپ دق کا مریض ہونے کا شبہ ہوتا ہے۔ اب بتاؤ میں کیا کروں۔ جس دن سنڈے ٹائمز میں اشتہار دیکھا اسی دن عرضی لے کر ڈاکٹر گھنشیام لال کے پاس چلا گیا۔ وہ تو وہاں نہیں تھا  اور  آخر پڑھنا بھی تو اس کی بیوی ہی کو تھا۔ مجھے دیکھتے ہی گھبرا گئی۔ کہنے لگی آپ کچھ بیمار تو نہیں رہتے  اور  یہ اس نے کچھ ایسے ہمدردانہ لہجہ میں پوچھا کہ مجھ سے انکار نہ ہو سکا۔ جھوٹ موٹ کہ دیا ’’جی ہاں ‘‘ وہ اس پر کچھ  گھبرا سی گئی۔ رکتے رکتے بولی ’’اوہ۔ ۔ ۔ آپ۔ ۔ ۔ آپ کو کیا بیماری تھی۔ میں نے ایک قدم اس کے قریب بڑھ کر کہا ’’تب۔ محرقہ۔ ٹائیفائیڈ‘‘ وہ یہ سن کر دو قدم پیچھے ہٹ گئی۔ کہنے لگی ’’تب محرقہ؟‘‘ گویا اسے اب بھی یقین نہیں آتا تھا کہ میرے جیسا متین صورت بھی کبھی تب محرقہ میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ میں نے سوچا بچاری نہایت ہمدرد اور   غریب نواز معلوم ہوتی ہے۔ آؤ لگے ہاتھوں اس کا فائدہ اٹھا لیں۔ چنانچہ میں نے  اور  بھی مسکین بن کر کہا جی ہاں ٹائیفائیڈ۔ پچھلے چار مہینے بستر پر پڑا رہا ہوں۔ اب کہیں جا کر افاقہ ہوا ہے۔ آپ کا اشتہار پڑھا کہ آپ کو ایک استاد کی ضرورت ہے جو دو گھنٹے روزانہ تواریخ کا درس دے سکے۔ اسی لئے حاضر ہوا ہوں۔ فیس وغیرہ طے کر لیجئے یہ رہے سرٹیفکٹ۔ باقی رہی ذہنی قابلیت تو اس کے لئے میرا صرف یہ ہی کہہ دینا مگر  وہ جلد ہی یبچ میں بول اٹھی ’’نہیں نہیں ‘‘ اس نے مجھے پریشان نگاہوں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔ اتنی جلدی کیا پڑی ہے۔ آپ کو کم از کم دو تین ہفتے آرام کرنا چاہئے۔ آپ۔ ۔ ۔  آپ دو تین ہفتوں کے بعد ضرور تشریف لائیے۔ اے یار خیال یار کیا کرنا تھا  اور  کیا کر دیا تھا۔ ۔ ۔  میں نے اپنے آپ کو بہت بہت کوسا۔ مگر  اب لکیر پیٹنے سے کیا ہوتا تھا۔ ناچار واپس چلا آیا  اور   پھر دوسرے دن ڈاکٹر گھنشیام لال کے ایک جگری دوست سے سفارش بہم پہنچائی۔

                ’’مگر  وہ تو بیمار معلوم ہوتے تھے۔ ڈاکٹر کی بیوی نے سفارش کے جواب میں کہا۔ انھوں نے مجھے خود بتایا کہ انہیں تب محرقہ تھا۔ ‘‘

                میری سفارش کرنے والے نے ہنس کر کہا۔ میں نے اسے آج تک کبھی بیما رہی نہیں دیکھا۔ اس بچارے کی شکل ہی ایسی ہے۔ ۔ ۔  اور  یہ ہے بھی ٹھیک۔ ۔ ۔  میں اسے مدت سے جانتا ہوں۔ یہ بھی ٹھیک تھا۔ ۔ ۔

                تواب تین مہینے سے اسے پڑھا رہا ہوں۔ بالکل کوڑ مغز ہے۔ دل میں مدت سے کسک تھی کہ اس سے بدلہ لوں۔ سو آج موقع مل گیا۔

شیام سندر              :کیا ہوا؟

بھیا لال   : (جیسے اس نے سوال سنا ہی نہیں) یوں تو اس میں اب مجھے بھی کچھ شک نہیں کہ صورت سے میں تپدق کا مریض دکھائی دیتا ہوں مگر  کیا تم نے وہ انگریزی ضرب المثل نہیں سنی۔ کہ صورتیں اکثر دھوکا دیتی ہیں مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں پانچویں جماعت میں تھا اس وقت بھی ایسا ہی دبلا پتلا تھا ا ور جماعت میں ہمیشہ ہر مضمون میں اول رہا کرتا تھا۔ چنانچہ حسب عادت پانچویں جماعت میں بھی اول ہی رہا۔ جب سالانہ جلسہ پر انعام تقسیم ہونے لگے تو میرے حصہ میں بہت سے انعام آئے۔ ان دنوں میں میری جماعت میں ایک  اور  لڑکا بشنداس بھی پڑھا کرتا تھا۔ نہایت ہی خوبصورت وجیہہ توانا تھا۔ نہایت اچھا گلا پایا تھا۔ کمبخت نے اسے بھی موسیقی میں اول رہنے پر تمغہ ملا۔ مجھے یاد ہے وہ مجھے تپقی کہا کرتا تھا۔ اس دن جلسہ پر اس کی خوبصورت بہنیں بھی آئی ہوئی تھیں  اور  میری دبلی پتلی بہنیں بھی  اور  جب میں بہت سے انعام سمیٹ کر لے گیا تو بشنداس کی بہنوں نے میری بہنوں کو اونچی آواز میں سنا کر کہا آہ  بچارا بھیا لال۔ یہ سب انعام اس کے کس کام کے جب کہ اس کو تپدق ہے۔ مجھے یاد ہے میری بہنوں نے بہت برا مانا تھا۔ مگر  قسمت کی ستم ظریفی ملاحظہ ہو میں ابھی تک زندہ سلامت ہوں  اور   بچارا شکیل و توانا بشنداس دو سال ہوئے تپدق سے بیمار ہو کر چل بسا۔ آہ صورتیں کس قدر دھوکا دیتی ہیں۔ وہ بہت اچھا آدمی تھا  اور  جب کبھی میں پچھلے سالوں میں اپنے گاؤں گیا ہوں۔ وہ ہمیشہ مجھ سے میری صحت، میری کھانسی، میری حرارت عزیزی کے متعلق سوال کیا کرتا تھا  اور   یہ سوال توہر الو کا پٹھا جو مجھے دیکھ لے ایک دم سے جڑ دیتا ہے۔ مثلاً اگر میں کسی ڈاکٹر کے پاس چلا جاؤں  اور  اس سے کہوں کہ مجھے خفیف سی کھانسی آتی ہے۔ تو وہ میری شکل دیکھ کر بے اختیار کہہ اٹھتا ہے :

                ’’آپ کورات کو پسینہ تو نہیں آتا؟‘‘

                ’’جی نہیں۔ البتہ دن کو ضرور آتا ہے۔ خصوصاً جبکہ ورزش کرتا ہوں۔ ‘‘

                ’’کیا آپ کو کھانسی کے ساتھ خون بھی آتا ہے ؟‘‘

                ’’نہیں جی۔ خون تو نہیں۔ مگر  بلغم ضرور نکلتا ہے۔ ‘‘

                ’’اوہ۔ ۔ ۔ بخار؟‘‘

                ’’ابھی تک تو نہیں۔ ۔ ۔ لیکن اگر آپ کے سوالوں کی یہی رفتار رہی تو عین ممکن ہے کہ جلدی۔ ۔ ۔ ‘‘

                ڈاکٹر(قطع کلام کر کے) آپ کمرے سے باہر تشریف لے جائیں۔

                بس تقریباً جس ڈاکٹر کے پاس جاؤ یہی ہوتا ہے۔ اب میں صلاح کر رہا ہوں کہ ڈاکٹر یار محمد سے اپنی چھاتی  اور  پھیپھڑوں کا ایکس رے فوٹو گراف لے کر ہمیشہ پاس رکھوں۔ تا کہ جب کوئی نیا ڈاکٹر یا پرانا حکیم سوال کرے آپ کو پسینہ تو نہیں آتا؟خون نکلتا ہے ؟ بخار کب سے ؟ تو جھٹ یہی ایکسرے فوٹو اس کے ہاتھ میں دے دوں  اور   کہوں۔ بھلے مانس کل میں نے ذرا آچار زیادہ کھا لیا تھا اس لئے صرف کھانسی کی دوا چاہئے۔

شیام سندر              :نیک خیال ہے۔

بھیا لال   :بچارے ڈاکٹر لوگ تو الگ رہے۔ خود میرے استاد۔ ۔ ۔ کیا کہوں ؟۔ ۔ ۔  بہت دنوں کی بات ہے۔ میں ان دنوں نئی نئی ورزشیں سیکھ رہا تھا۔ چاہتا تھا کہ اپنے نحیف جسم کو فربہ بنا لوں  اور  چہرے کی زرد رنگت کو گلاب کی سرخی میں تبدیل کر دوں چنانچہ خوب ڈنڈ پیلتا تھا  اور   دودھ پیتا تھا۔ تین چار مہینے یہی کیفیت رہی۔ اس کے بعد ہمارا جغرافیہ کا ٹیچر جو ساڑھے تین مہینے کی چھٹی لے کر اپنی لڑکی کا بیاہ کرنے کے لئے جنڈیالہ گیا ہوا تھا۔ واپس آ گیا  اور  مجھے دیکھتے گراؤنڈ کے قریب ملا۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگا اوہ تم بہت کمزور ہو گئے ہو۔ کیا بیمار ہو گئے تھے۔ میں نے دل میں سوچا بیمار تو نہیں رہا البتہ ورزش ضرور کرتا رہا ہوں۔ اس دن سے لے کر آج تک میں نے پھر ورزش نہیں کی۔ بھلا ورزش کا فائدہ ہی کیا ہے۔ جب یہ دوسروں کو مغالطہ میں ڈال دے  اور  پھر مفت میں اپنے جسم کو تکلیف دینا۔ قید با مشقت نہیں تو اور  کیا ہے۔

شیام سندر              :نہیں آپ ورزش سے اپنے جسم کو صحت ور بنا سکتے ہیں۔ ورزش سے جسم میں چشتی آتی ہے۔ بہت ہلکا پھلکا۔ ۔ ۔

بھیا لال   :مجھے بتاتے ہو، شیام سندر؟ تیسری جماعت کا سبق دہرا رہے ہو۔ اس میں تو اور  بھی کئی نکمی  اور  جھوٹی باتیں لکھی ہیں مثلاً ورزش نہایت اچھی ہوتی ہے، جھوٹ بولنا گناہ ہے، دیانتداری بڑی نعمت ہے، دوسرے کی چیز پر نگاہ نہ ڈالو۔ سب بکو اس، سفید جھوٹ۔

شیام سندر              :تم ڈاکٹر گھنشیام لال کی بیوی کا ذکر کر رہے تھے۔ جسے تم پڑھاتے رہے ہو۔

بھیا لال   :ہاں میں جمنا کا ذکر کر رہا تھا۔ مگر  تم نے کبھی سوچا کہ میری بدصورتی میں میرا کتنا قصور ہے۔ میرے ماں باپ بھی ایسے ہی تھے۔ قصور تو ان کا ہے کہ اپنی بدصورتی کو جانتے ہوئے بھی مجھے جنم دیا۔

شیام سندر              :یہ تو محض حسن اتفاق تھا۔

بھیا لال   :مجھے تو اس میں خاک بھی ’’حسن اتفاق‘‘ نظر نہیں آتا  اور  یوں دیکھا جائے تو اس میں قباحت ہی کیا ہے۔ ذرا خیال تو کرو۔ قدرت نے دو کان، آنکھ، ہاتھ، پاؤں، نتھنوں  اور  ہونٹوں کے مجموعہ سے انسانوں کے کتنے نمونے ایجاد کئے ہیں کہ ایک کی شکل دوسرے سے نہیں ملتی۔ بجانے اس کے قدرت کی طباعی  اور  فنکاری کی داد دی جائے۔ لوگ مجھ پر ہنستے ہیں۔ کتنی بے وقوفی ہے۔ آج انسانوں میں کوئی بڑے سے بڑا آرٹسٹ قدرت کے اس شاندار تنوع کی ایک مثال پیدا کر دے۔ تو میں جانوں۔

شیام سندر              :بے شک۔ بے شک، مگر  وہ ڈاکٹر کی بیوی۔ ۔ ۔

بھیا لال   :ارے بھائی۔ اب اس کی بیوی کی کون سی بات رہ گئی۔ میں اسے تین مہینے سے پڑھا رہا ہوں  اور  اس عرصہ میں وہ کوئی پندرہ بار بیمار پڑی ہو گی  اور  کوئی اس دس با رہی اس کے ڈاکٹر خاوند کو موسمی بخار کا شکار ہونا پڑا ہے۔ کبھی دیکھو تو سر میں درد ہے، کبھی پیٹ میں، کبھی بخار، کبھی نزلہ  اور   مجھ دیکھو تو ان تین مہینوں میں ایک چھینک بھی نہیں آئی۔ آج جب میں پڑھانے گیا تو کل کی طرح پھر کہنے لگی ’’مجھے زکام کی شکایت ہے۔ ‘‘میں نے کہا آپ کی بھی عجیب صحت ہے۔ آپ ڈاکٹر لوگ جب پرہیز نہیں کریں گے تو اور   کون کرے گا۔ مجھے دیکھئے اپنی صحت کا خیال رکھتا ہوں۔ کبھی کوئی تکلیف نہیں ہونے پاتی۔

شیام سندر              :خوب بدلہ لیا۔

                (اظہر کمرے میں داخل ہوتا ہے۔ درمیانہ قد۔ دہرے بدن کا جوان ہے۔ نیلا سوٹ پہن رکھا ہے۔ ہاتھ میں ایک تا رہے۔ )

اظہر         :ہیلو شیام! ہیلو تب دق!

شیام سندر              :ہیلو اظہر!یہ تار کیسا ہے ؟

اظہر         :امجد نے بھیجا ہے۔ لکھا ہے کہ بی ٹی کی ڈگری مل گئی ہے  اور  اب وہ الہ آباد جا رہا ہے۔ جہاں میونسپل سکول میں اسے پینتیس روپئے کی آسامی مل گئی ہے۔

شیام سندر              :مگر  ایم اے، بی ٹی  اور  صرف پینتیس۔

اظہر         :میں اسے مبارک باد کا خط لکھ رہا ہوں۔ اس دور مہاجنی میں تم  اور   کر بھی کیا سکتے ہو۔

بھیا لال   :کل مجھے کیلاش ناتھ ملا تھا۔ وہ جو بی اے میں ہمارے ساتھ پڑھا کرتا تھا  اور  فیل ہو گیا تھا۔ اب اپنے باپ کے کارخانہ میں منیجر ہو گیا ہے اپنی کار میں بیٹھا ہوا تھا۔ میری طرف ترحم آمیز نگاہوں سے دیکھ کر کہنے لگا ’’آج کل کیا کرتے ہو؟۔ ۔ ۔  اور   یہ وہی شخص ہے جو انگریزی کا جواب مضمون مجھ سے خوشامدیں کر کے ٹھیک کرایا کرتا تھا۔ ‘‘

شیام سندر              : (اداس لہجے میں) جانے دو ان باتوں کو۔ مجھے مسعود کا فکر ہو رہا ہے۔ تم جانتے ہو۔ بچارہ  دو مہینے سے میرے پاس رہتا ہے۔ مگر  ابھی تک نوکری کہیں نہیں ملی۔ کل سے واپس نہیں آیا۔

اظہر         :واپس گاؤں کو چلا گیا ہو گا۔

شیام سندر              : (رکتے ہوئے) شاید!مگر  اس کا ٹرنک  اور  بستر یہی ہیں۔

بھیا لال   :کوئی ضروری کام ہو گا(زیادہ حوصلہ افزا لہجہ میں)شاید کوئی نوکری مل گئی ہو گی  اور  آج تمہیں پتہ دینے کے لئے آ جائے۔

شیام سندر              : (رکتے ہوئے)شاید۔

اظہر         : (سر ہلاتے ہوئے) کتنی بے کاری ہے  اور  کتنی جہالت ہے ؟کل میں موتی لال میں پروفیسر روچانند کا لیکچر سننے گیا۔ فاضل مقرر جو ایک روئی کے کارخانہ میں تین سو حصوں کا مالک نہایت پر جوش لہجہ میں گریجوٹیوں کی کم عقلی کا ماتم کر رہا ہوں کہ موجودہ بے کاری اقتصادی نہیں بلکہ تعلیم یافتہ طبقہ کی آرام پسندی کا نتیجہ ہے۔ چنانچہ اس نے چند نہایت درد مندانہ تجاویز سامعین کے سامنے پیش کیں۔ مثلاً یہ کہ گریجویٹ چھوٹے موٹے کاروبار کو اپنے ہاتھوں میں لیں۔ بوٹ پالش کرنا، ایک تھوک فروش سے جوتے ادھار لے کر گلیوں میں چکر لگا کر انہیں بیچنا، گھی کی دوکان کھولنا، مونگ پھلی کی تجارت۔ ۔ ۔

شیام سندر              : (تلخ لہجہ میں) چنا جور گرم۔

بھیا لال   :بے کاری دور کرنے کے ایسے کئی گر مجھے یاد ہیں۔

اظہر         :مثلاً۔

بھیا لال   : (وا سکٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے)مثلاً تم  اور  شیام سندر انگریزی میں اچھا لکھ سکتے ہو۔ اخبار نکال لو۔

اظہر، شیام سندر     :مگر  روپیہ!

بھیا لال   :اچھا کچھ  اور  سہی۔ ایک عمدہ ہوٹل کھول لو۔ نفیس کمرے، عمدہ کھانے، تھوڑا کرایہ، واجبی نرخ۔

شیام، اظہر              :مگر  روپیہ۔ ۔ ۔ ؟

بھیا لال   : (ہنس کر  اور  وا سکٹ کی جیب سے ہاتھ نکالتے ہوئے) اچھایہ بھی سہی، لو اب میں تمہیں وہ گر بتاتا ہوں جو کبھی خطا نہیں ہو سکتا۔

شیام سندر              :وہ کیا ہے ؟

بھیا لال   :عورت۔

شیام سندر              :عورت؟

بھیا لال   :ہاں۔ ہاں، عورت۔ ایک عورت کا انتخاب کر لوجو نہایت جاہل ہو۔ ایک نہایت مالدار آدمی کی اکلوتی بیٹی ہو۔

شیام سندر              :پھر؟

بھیا لال   :پھر اس سے شادی کر لو۔

اظہر         :بھئی کیا خوب۔ تم تو تواریخ جاننے کے علاوہ عقل مند بھی ہو۔

شیام سندر              : (دونوں آنکھیں میچ کر)ہوں۔ ۔ ۔ ہوں۔

اظہر،  بھیا لال         :’’ہوں۔ ہوں ‘‘ کا کیا مطلب ؟

شیام سندر              : (آنکھیں بند کئے ہوئے) ایک ایسی عورت بالکل میری نگاہ میں ہے۔

بھیا لال   : (گہری دلچسپی سے)کیا وہ ایک مالدار آدمی کی لڑکی ہے ؟

شیام سندر              : (سر ہلاتا ہے) ہاں تو۔ ۔ ۔

بھیا لال   : اور ۔ ۔ ۔  اور ۔ ۔ ۔ اکلوتی لڑکی۔

شیام سندر              :ہاں اکلوتی بیٹی۔ بالکل اکلوتی۔

بھیا لال   :ارے یار بتاؤ۔ اس کی شکل کیسی ہے ؟ خوبصورت ہو گی؟

شیام سندر              :وہ نہایت خوبصورت ہے، حسین جیسے چاند کی کرن، نازک جیسے کنول کی پتی، حیا پرور جیسے لاجونتی کی ڈالی۔ بس کائی سی صورت ہے۔ میں اس سے محبت کرتا ہوں  اور  وہ مجھ سے محبت کرتی ہے  اور  اس کا مالدار باپ اپنی ساری دولت مجھے جہیز میں دے دینا چاہتا ہے۔

بھیا لال   : (بہت دلچسپی  اور رشک و حسد کے ساتھ) ارے بتاؤ وہ کون ہے ؟ کہاں رہتی ہے ؟ اس کا نام کیا ہے ؟

شیام سندر              : (یکایک آنکھیں کھول کر) اوہ وہ کدھر چلی گئی۔ وہ کون تھی؟ اس کا نام کیا تھا؟

                (شیام سندر، اظہر، بھیا لال تینوں یکایک قہقہہ لگا کر ہنستے ہیں  اور   ایک دو منٹ تک ہنستے رہتے ہیں۔ )

                (ایک ب اور  دی پولیس کا سپاہی آتا ہے۔ )

سپاہی       :آپ میں شیام سندر کون ہے ؟

                (شیام سندر اٹھ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ )

سپاہی       : (ایک لفافہ آگے بڑھاتے ہوئے)سول ہسپتال میں چل کر ایک لاش کی شناخت کر لیجئے۔ وہ ریل گاڑی کے نیچے آ کر مرگیا ہے۔ ا س کی جیب سے آپ کا پتہ نکلا ہے۔

شیام سندر              :مسعود۔ ۔ ۔  آہ۔

                (اپنے ہاتھوں سے منہ چھپا کر کہتا ہے۔ )

                (پردہ گرتا ہے)

***

ماخذ: ’’دروازہ‘‘

آزاد بک ڈپو پال بازار، امرتسر

٭٭٭

ماخذ:  معز الدین فاروق کے ڈراموں اور پلیز کے انتخابوں سے

تشکر:   ڈاکٹر شرف الدین ساحل جن کے توسط سے وہ ان پیج فائل فراہم ہوئی جس سے یہ کتاب ترتیب دی گئی۔

ان پیج سے تبدیلی اور تدوین: اعجاز عبید

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔