02:42    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

ڈرامے

3545 0 0 02

چوڑیاں - سعادت حسن منٹو

چوڑیاں

چوڑیاں

افراد:

حامد:کالج کا ایک جوان طالب علم طبیعت شاعرانہ

سعید:حامد کا دوست

ڈپٹی صاحب:حامد کے والد

ثریا:حامد کی بہن

حمیدہ:حامد کی بہن

ماں:حامد کی ماں

دوکان دار۔ حمیدہ کی ایک  اور سہیلی۔ تار والا  اور ایک ملازم

پہلا منظر

پہلا منظر

(کالج ہوسٹل کا ایک کمرہ۔ ہر چیز قرینے سے رکھی ہے بہت کم فرنیچر ہے لیکن ٹھکانے سے رکھا ہے  اور بہت خوبصورت دکھائی دیتا ہے پلنگ کی چادر اجلی ہے ، بے داغ، میز کا کپڑا بھی صاف ستھرا ہے دیواروں پر صرف دو تصویریں  نظر آتی ہیں۔ چغتائی کی جن کے فریم بہت ہی نازک ہیں۔ میز پر کچھ کتابیں رکھی ہیں جن میں سے اکثر شاعروں کے دیوان ہیں۔ حامد آرام کرسی میں پورے لباس میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا ہے  اور  اس کا دوست سعید لوہے کے پلنگ پر لیٹا دو نرم نرم تکیوں پر کہنی جمائے۔ ہاتھ ٹھوڑی کے نیچے رکھے حامد کی طرف دیکھ رہا ہے۔ جو اخبار پڑھنے میں مصروف ہے۔)

حامد:(اخبار کے پیچھے سے)اپنے عزیزوں  اور دوستوں کو تحفے دیجئے۔ ہیں بھئی۔۔۔ اشتہار کی سرخی دلچسپ ہے۔۔۔ ‘‘اپنے دوستوں  اور  عزیزوں کو تحفے دیجئے۔۔۔ ‘‘شادی بیاہ  اور سالگرہ  اور اسی قسم کی دوسری تقریبوں پر حسین تحفے ہی دینے چاہئیں۔ آپ کا دیا ہوا آئینہ، آپ کا پیش کردہ پھولدان، آپ کا بھیجا ہوا ہار۔ ذرا غور فرمائیے۔ ان حسین تحفوں میں کتنی شاعری ہے۔ ہمارے شوروم میں تشریف لائیے  اور  اپنے دوست اپنے عزیز یا اپنے۔۔۔

(سعید کھانستا ہے۔)

حامد:کوئی تحفہ دینے کے لئے اپنے دل پسند شعر انتخاب فرمائیے۔

سعید:لائیے اخبار میرے حوالے کیجئے۔۔۔ میں جنگ کی تازہ خبریں پڑھنا چاہتا ہوں۔

حامد:(اخبار چہرے پرسے ہٹاتے  اور اسے تہہ کرتے ہوئے)آپ کو جنگ سے اتنی دلچسپی کیوں ہے؟

سعید:اس لئے کہ میں بہت صلح کن آدمی ہوں۔

حامد:یہ جنگ بھی صلح کن آدمی ہی کر رہے ہیں (اخبار تہہ کرتا اٹھتا ہے)خیر ہٹائیے اس قصے کو۔۔۔ میں آپ سے یہ عرض کرنے والا تھا کہ میں ایک حسین تحفہ خریدنا چاہتا ہوں۔

سعید:(کروٹ بدل کر)کس کے لئے؟

حامد:(اخبار میز پر پھینکتے ہوئے) اس کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا؟

سعید:خوب!

 حامد:تحفہ لے آؤں تو بعد میں فیصلہ کر لیا جائے گا۔

سعید:(اٹھ کے پلنگ پر بیٹھ جاتا ہے)ٹھیک۔۔۔ لیکن آپ کا کوئی دوست۔۔۔  کوئی عزیز۔۔۔؟۔۔۔ کوئی۔۔۔؟

حامد:یہاں آپ کے سوا کوئی نہیں۔

سعید:(خوش ہو کر)تو۔۔۔

حامد:جی نہیں۔ تحفہ میں آپ کو نہیں دینا چاہتا۔

سعید:کیوں؟

حامد:(کرسی لے کر سعید کے پاس بیٹھ جاتا ہے) اس لئے کہ آپ کو اپنی تاریخ پیدائش ہی معلوم نہیں۔۔۔ فرمائیے آپ کب پیدا ہوئے تھے۔

سعید:ایسی چیزیں کون یاد رکھتا ہے۔

حامد:اب آپ کی سالگرہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

سعید:جی ہاں۔ بالکل پیدا نہیں ہوتا۔

حامد:رہی آپ کی شادی تو اس کے متعلق مجھے یقین ہے کہ کبھی ہوہی نہیں سکتی۔

سعید:یعنی اس معاملے میں آپ مجھ سے کہیں زیادہ نا امید ہو چکے ہیں۔

حامد:جی ہاں۔۔۔ اس لئے کہ آپ کبھی یہ فیصلہ نہیں کر سکیں گے کہ آپ کو پچاس برس کی عورت چاہئے جس میں سولہ برس کی الھڑ لڑکی کی خادم کاریاں ہوں یا آپ کو سولہ برس کی لڑکی چاہئے جس میں پچاس برس کی عورت کی پختہ کاریاں موجود ہوں۔۔۔ لیکن میرا نقطہ نظر بالکل جدا ہے۔

سعید:(پلنگ پرسے اٹھ کر آرام کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔ جہاں پہلے حامد بیٹھا تھا)جو مجھے اچھی طرح معلوم ہے لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ آپ تحفہ خریدنے کے بعد ہی شادی کے مسئلے پر غور کریں گے۔

حامد:غالباً ایسا ہی ہو گا۔

سعید:تو ظاہر ہے کہ آپ کوئی زنانہ تحفہ خریدیں گے۔

حامد:بالکل ظاہر ہے (پلنگ پر لیٹ جاتا ہے اسی طرح سعید لیٹا ہوا تھا۔) میں نے اگر کوئی مردانہ تحفہ خریدا تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ میں بہت خودغرض  اور کمینہ ہوں۔

سعید:کیا شک ہے۔۔۔ میرا مطلب ہے۔۔۔

حامد:آپ کا مطلب ٹھیک ہے اس لئے کہ تحفہ میری طرف سے میری طرف ہو گا لیکن ہو سکتا ہے کہ میں اپنی سالگرہ منالوں۔ کیونکہ مجھے اپنی تاریخ پیدائش اچھی طرح یاد ہے۔۔۔ میرا مطلب ہے زبانی یاد نہیں لیکن نوٹ بک میں لکھی ہوئی موجود ہے۔

سعید:اس صورت میں بھی آپ کا تحفہ آپ کی طرف سے آپ ہی کی طرف ہو گا۔

حامد:(بستر پر اٹھ کر بیٹھ جاتا ہے)ارے ہاں۔۔۔ یہ تو ہو گا۔ تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ تحفہ خریدنے کے بعد مجھے کوئی عورت۔۔۔

سعید:(اٹھ کھڑا ہوتا ہے) یا لڑکی کی تلاش کرنا پڑے گی جس کے ساتھ آپ شادی کر سکیں۔

حامد:ہاں ایسی عورت۔۔۔

سعید:یا لڑکی!

حامد:یا لڑکی۔۔۔ مجھے ہر حالت میں تلاش کرنا پڑے گا۔

سعید:ہر حالت میں کیوں؟

حامد:ہر حالت میں نہیں۔ صرف اس حالت میں جب میں نے تحفہ خرید لیا ہو گا۔

سعید:یہ حالت بہت ہی قابل رحم ہو گی۔

حامد:کچھ بھی ہو۔۔۔ میں تحفہ خریدنے کا فیصلہ کر چکا ہوں۔۔۔ اب یہ تبدیل نہیں ہو سکتا۔ آئیے چلیں۔۔۔

(حامد ٹوپی پہنتا ہے۔۔۔ سعید ذرا آئینے میں اپنے بال درست کرتا ہے۔ حامد میز پرسے اخبار اٹھاتا ہے۔)

حامد:چلئے !

سعید:چلئے !

(دونوں باہر نکل جاتے ہیں۔)

دوسرا منظر

دوسرا منظر

(تحفوں کی دوکان۔۔۔ وسیع و عریض جگہ ہے ، جہاں بے شمار الماریاں دھری ہیں بڑے بڑے شیشے کے شوکیس رکھے ہیں۔ہر ایک چیز جھلمل جھلمل کر رہی ہے۔۔۔ بہت سے گاہک جمع ہیں۔کچھ آ رہے ہیں کچھ جا رہے ہیں۔۔۔ حامد اور سعید ادھر آتے ہیں۔ حامد کے ہاتھ میں اخبار ہے وہ اس دوکان کا پتہ دیکھ رہا ہے۔۔۔ دوکان دار نئے گاہکوں کو دیکھ کر متوجہ ہوتا ہے  اور پاس آتا ہے۔)

دوکاندار:فرمائیے۔

حامد:تحفوں کی یہی دوکان ہے۔ جس کا اشتہار۔۔۔

دوکاندار:آپ اس اخبار میں ملاحظہ فرما رہے ہیں۔۔۔ آئیے۔۔۔ آئیے۔۔۔

(دوکان کے ذرا اندر چلے جاتے ہیں۔۔۔ اتنے میں چند لمحات کے بعد دو لڑکیاں آتی ہیں۔بڑی تیز بڑی طرار)

حمیدہ:(دوکان کے ملازم سے)تحفوں کی یہی دوکان ہے۔

ملازم:جی ہاں۔ یہی دوکان ہے  اور گورنمنٹ سے رجسٹرڈ۔

حمیدہ:رجسٹرڈ؟

ملازم:جی ہاں۔۔۔ اندر تشریف لے جائیے میم صاحب۔

(دونوں لڑکیاں دوکان کے اندر چلی جاتی ہیں۔ حمیدہ اس شوکیس کے پاس پہنچتی ہے۔ جہاں حامد دوکاندار کے پاس کھڑا ہے  اور جھک کر شوکیس میں رکھی ہوئی چیزوں کو دیکھ رہا ہے۔)

حامد:(دوکاندار سے)مجھے آپ کی سب چیزیں پسند آئی ہیں (اچانک حمیدہ کی طرف دیکھتا ہے)خاص طور پروہ چیز تو خوب ہے۔۔۔

(حمیدہ کے گال ایک دم سرخ ہو جاتے ہیں۔)

دوکاندار:کونسی؟

حامد:(دوکان کے ایک کونے کی طرف اشارہ کر کے)وہ پتلی جواس کے کونے کی زینت بڑھا رہی ہے۔

دوکاندار:قدر افزائی  کا شکریہ۔۔۔ فرمائیے کون سا تحفہ باندھ دوں؟میرا ذاتی خیال ہے کہ۔۔۔

حامد:فرمائیے فرمائیے۔ آپ کا ذاتی خیال کیا ہے۔

(حمیدہ کی طرف دیکھتے ہوئے۔)

دوکاندار:کس کے متعلق؟

حامد:(چونک کر)ان ہی۔۔۔ ان ہی تحفوں کے متعلق!

دوکاندار:میرا ذاتی خیال ہے۔ مگر آپ کس تقریب کے لئے تحفہ چاہتے ہیں؟

حامد:ہاں یہ بتانا واقعی ضروری ہے (آواز دیتا ہے) سعید صاحب۔۔۔  سعید صاحب!

سعید:حاضر ہوا۔

حامد:آپ انہیں بتا دیجئے کہ مجھے کس تقریب کے لئے تحفہ چاہتے۔

(حمیدہ کھل کھلا ہنستی ہے۔)

حامد:یہ کون ہنسا؟

دوکاندار:لڑکیاں ہیں۔ ہنس رہی ہیں۔

حامد:ہاں لڑکیاں ہیں ہنس رہی ہیں۔۔۔ قصہ یہ ہے کہ مجھے اپنی بیوی کے لئے۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ اس بیوی کے لئے جو میری بیوی ہونی چاہئے  اور بہت جلد ہونی چاہئے۔ مجھے ایک تحفہ خریدنا ہے۔ ہم دونوں نے یہی فیصلہ کیا ہے حالانکہ میں اپنی سالگرہ منا سکتا تھا۔

دوکاندار:اس میں کیا شک ہے۔۔۔ میرا ذاتی خیال ہے۔

(حمیدہ ہنستی ہے۔)

دوکاندار:یہ کون ہنسا؟

سعید:لڑکیاں ہیں ہنس رہی ہیں !

حامد:ہاں لڑکیاں ہیں۔ انہیں ہنسنا ہی چاہئے۔

دوکاندار:میرا ذاتی خیال ہے کہ اب، آپ کو جلدی کوئی تحفہ خرید لینا چاہئے کیوں کہ۔۔۔

حامد:میں اپنا تحفہ منتخب کر چکا ہوں۔

دوکاندار:فرمائیے۔

حامد:(شوکیس میں سے دو چوڑیاں نکالتا ہے جس پر مینا کاری  کا کام ہے) یہ وہ چوڑیاں جواس خوب صورت بکس میں دو حسین کلائیوں کو دعوت دے رہی ہیں۔

دوکاندار:(بکس لے کر)واہ واہ۔۔۔ کیا تحفہ چنا ہے آپ نے۔۔۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ۔۔۔

(تیز قدمی سے حمیدہ آتی ہے۔)

حمیدہ:(دوکاندار سے)اس تاش کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟

حامد:بہت خوب صورت ہے۔ خصوصاً۔۔۔

حمیدہ:میں نے آپ کی رائے طلب نہیں کی۔

سعیدہ:کچھ میں عرض کروں۔

حمیدہ:جی نہیں (دوکاندار سے)فرمائیے اس کے متعلق آپ کی ذاتی رائے کیا ہے؟

دوکاندار:بڑا خوب صورت ہے۔ دیرپا ہے  اور ایک تحفہ چیز ہے۔ وہ خوش نصیب ہو گا۔ جسے آپ یہ تحفہ دیں گی۔

حامد:یعنی اگر وہ فلش کھیلے گا تو خوب جیتے گا۔

حمیدہ:آپ نے کیسے جانا کہ میں یہ تاش کسی کو تحفہ دینے ہی کے لئے خرید رہی ہوں۔۔۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ تلاش میں نے صرف اپنے لئے خریدا ہے۔۔۔ (دوکاندار سے)پیک کرا دیجئے اسے (بٹوہ کھول کر) یہ لیجئے اس کی قیمت۔

حامد:(چوڑیوں کا بکس دوکاندار کو دیتے ہوئے)پیک کرا دیجئے اسے (جیب سے دام نکال کر دیتے ہوئے) لیجئے قیمت!

(دوکاندار دونوں چیزیں لے کر چلا جاتا ہے۔)

حمیدہ:(اپنی سہیلی کو آواز دیتی ہے)سعیدہ!

سعید:ارشاد۔

حمیدہ:آپ کا نام سعیدہ ہے؟

سعید:جی نہیں۔۔۔ فقط سعید، ہائے ہوز کے بغیر۔۔۔

(سعیدہ آتی ہے۔)

حمیدہ:(حامد کی طرف دیکھ کر سعیدہ سے)کیوں سعیدہ، میں نے یہ تاش اپنے لئے خریدا ہے یا کسی  اور کے لئے؟

سعیدہ:اپنے لئے۔

حامد:یہ  اور بھی اچھا ہے۔

حمیدہ:کیوں؟

حامد:اس لئے کہ چوڑیاں بھی میں نے اپنے لئے خریدی ہیں۔

حمیدہ:(مسکرا کر) آپ خود پہنئے گا۔

حامد:جی ہاں فی الحال خود ہی پہنوں گا جب تک۔۔۔  آپ تاش بھی فی الحال اکیلے ہی کھیلیں گے۔

حمیدہ:فی الحال میں نے کوئی فیصلہ نہیں کیا  اور میں سمجھتی ہوں کہ فی الحال ہمیں یہ گفتگو بند  کر دینی چاہئے۔

(دوکاندار آتا ہے۔)

دوکاندار:میرا ذاتی خیال ہے کہ۔۔۔

حامد:فی الحال اپنے ذاتی خیال کو موقوف رکھئے۔۔۔ لائیے میری چوڑیاں۔

حمیدہ:لائیے میرا تاش۔

(دوکاندار دونوں کے پیکٹ دونوں کے حوالے کر دیتا ہے۔۔۔)

(سب باہر نکلتے ہیں۔)

تیسرا منظر

تیسرا منظر

(ہوسٹل کا وہی کمرہ جو ہم پہلے منظر میں دکھا چکے ہیں۔۔۔ حامد کرسی پر بیٹھا ہے سامنے تپائی رکھی ہے جس پر تاش کے پتے بکھرے ہوئے ہیں حامد انہیں اکٹھا کرتا ہے پھینٹتا ہے۔۔۔ اٹھ کھڑا ہوتا ہے  اور سامنے دیوار پر چغتائی کی پینٹنگ کی طرف دیکھ کر گانا شروع کر دیتا ہے۔)

گیت

نیندوں سے لبریز ہیں آنکھیں جیسے خواب رسیلے

ترچھی نظریں یوں پڑتی ہی جیسے بان کٹیلے

چال میں ایسا دم خم جیسے رک جانے کے حیلے

زہر سہی پر کون ہے جو یہ زہر نہ بڑھ کر پی لے

ہونٹوں پر ان سنے ترانے جھیل میں جیسے تارے

نانکی چتون میں وہ جھل مل جو کھیلے سو ہارے

چہرے پر لالی جیسے کلیاں ندی کنارے

حسن کے اس امڈے دھارے میں ڈھونڈے کون سہارے

حامد:(پھر کرسی پر بیٹھ جاتا ہے  اور تھوڑی دیر گیت کی دھن گنگنانے کے بعد تاش کے پتے ایک ایک کر کے پھینکتا ہے)بادشاہ۔۔۔ بیگم۔۔۔  اور یہ کہ۔۔۔ راؤنڈ بن گئی (گنگناتا ہے)۔۔۔ حسن کے اس امڈے دھارے میں ڈھونڈے کون سہارے؟(پھر پتے پھینکتا ہے)ستا۔۔۔ اٹھّا۔۔۔   اور۔۔۔  یہ نہلا۔یہ بھی راؤنڈ بن گئی۔

(سعید اندر داخل ہوتا ہے۔)

سعید:آپ راؤنڈیں کیا بنا رہے ہیں۔۔۔ ارے۔۔۔ یہ تو اسی قسم کا تاش ہے۔

حامد:اجی نہیں۔۔۔ اسی قسم کا تاش نہیں بلکہ وہی تاش ہے۔

سعید:(حیرت سے) آپ کا مطلب؟

حامد:(اٹھ کر تاش پھینٹتے ہوئے)بالکل واضح ہے۔

سعید:(کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔) یعنی؟

حامد:دیکھئے میں آپ کو بتاتا ہوں (تاش کے پتے تپائی پر پھینکتا ہے) یہ دہلا۔۔۔ یہ بیگم۔۔۔  اور یہ غلام۔۔۔ دیکھا آپ نے۔۔۔ اب آپ خود ہی سوچ لیجئے۔ یہ کیا معاملہ ہے۔

سعید:آپ خود ہی بیان فرمائیے۔

حامد:(گاتا ہے)ہونٹوں پران سنے ترانے جھیل میں جیسے تارے۔۔۔ یہ ان سنے ترانے آپ نہیں سن سکتے۔

سعید:یہ آپ کیا پہیلیاں بجھوا رہے ہیں مجھ سے۔۔۔ میں پوچھتا ہوں یہ تاش آپ کے پاس کیسے آ گیا؟

حامد:آ گیا۔۔۔ حق بحق وار رسید۔۔۔  میں نے آج نوٹ بک کھول کر دیکھی تو معلوم ہوا کہ آج ہی میری سالگرہ ہے۔۔۔ سو اپنی سالگرہ کا تحفہ مجھے مل گیا  اور  وہ دو چوڑیاں ادھر چلی گئیں۔

سعید:کدھر؟

حامد:ادھر ہی۔ میری ہونے والی بیوی کے پاس۔

سعید:(اٹھ کھڑا ہوتا ہے) میرا ذاتی خیال ہے کہ دکاندار کی غلطی سے پیکٹ بدل گئے۔۔۔ آپ کی چوڑیاں ادھر چلی گئیں اس کا تاش  ادھر آ گیا۔

حامد:آپ کا ذاتی خیال دوکاندار کے ذاتی خیال سے بہت زیادہ درست ہے۔

سعید:اب آپ کیا کیجئے گا؟

حامد:کچھ بھی نہیں۔۔۔ تاش کھیلا کروں گا۔

سعید: اور وہ چوڑیاں پہنا کرے گی۔

حامد:کیا حرج ہے؟

(دروازے پر دستک ہوتی ہے۔)

حامد:کون ہے؟

تار والا:(باہر سے) تار والا حضور۔

(حامد تاش کو تپائی پر رکھ کر باہر نکلتا ہے۔ چند لمحات تک سعید اکیلا تاش کے پتے ایک ایک کر کے تپائی پر پھینکتا ہے۔)

سعید:راؤنڈ۔۔۔ حد ہو گئی ہے۔

(حامد  تار لئے اندر آتا ہے۔)

حامد:کیا ہوا؟

سعید:ایک راؤنڈ بن گئی تھی۔۔۔ آپ سنائیے خیریت توہے !

حامد:قبلہ والد صاحب کاتا رہے۔

سعید:کیا فرماتے ہیں۔

حامد:فرماتے ہیں فوراً چلے آؤ۔۔۔  ایک ضروری کام ہے۔

سعید:یہ ضروری کام کیا ہو سکتا ہے؟

حامد:ڈپٹی صاحب ہی جانیں۔۔۔ سوال توہے کہ اب جانا پڑے گا۔۔۔  (سعید کے ہاتھ سے تاش لیتا ہے۔) دیکھئے اگر سوئے اتفاق سے میری غیر حاضری میں آپ کی ان سے ملاقات ہو جائے  اور وہ اس تاش کے بارے میں استفسار کریں تو۔۔۔

سعید:میں اپنی لاعلمی کا اظہار کروں ، لیکن اگر وہ اسی قسم کا دوسرا سودا کرنا چاہیں۔

حامد:تو میری طرف سے آپ کو اس کی کھلی اجازت ہے۔

سعید:تو چلئے ، اپنا اسباب بند کیجئے۔

چوتھا منظر

چوتھا منظر

(ڈپٹی صاحب کا گھر۔۔۔ ہال کمرہ۔۔۔ پر تکلف طریقے پر سجا ہوا۔ ڈپٹی صاحب دوہرے بدن کے بزرگ ہیں آرام کرسی پر بیٹھے ایک موٹا سگار پینے میں مصروف ہیں۔ ان کے پاس حامد کھڑا ہے جیسے وہ ابھی اسٹیشن سے آ رہا ہے۔)

حامد:میں آپ کا تار ملتے ہی چل پڑا۔

ڈپٹی صاحب:تم نے بہت اچھا کیا۔ کیونکہ وقت تھوڑا رہ گیا ہے۔

حامد:کس میں؟

ڈپٹی صاحب:تمہاری شادی میں۔

حامد:(حیرت سے)میری شادی میں۔۔۔ یعنی میری شادی ہو رہی ہے۔

ڈپٹی صاحب:قطعی طور پر ہو رہی ہے۔

حامد:کس کے ساتھ؟

ڈپٹی صاحب:ایک لڑکی کے ساتھ!

حامد:جس کو میں بالکل نہیں جانتا۔

ڈپٹی صاحب:ہاں !جس کو تم بالکل نہیں جانتے۔

حامد: اور شادی میری ہو رہی ہے؟

ڈپٹی صاحب:تم کہنا کیا چاہتے ہو؟

حامد:میں کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے یہ شادی منظور نہیں۔

ڈپٹی صاحب:(غصے میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں)کیا کہا؟

حامد:اباجی یہ سراسر ظلم ہے۔ میں کیسے اپنی شادی پر رضامند ہو سکتا ہوں۔۔۔  میں لڑکی کو جانتا نہیں۔۔۔ اس کی شکل سے ناواقف ہوں۔ جانے کس مزاج کی ہے۔۔۔ کیسے خیالات رکھتی ہے۔۔۔ میری عدم موجودگی میں مجھ سے مشورہ لیے بغیر آپ نے اتنا بڑا فیصلہ صادر کر دیا۔

ڈپٹی صاحب:میں تمہارا باپ ہوں۔

حامد:درست ہے لیکن۔۔۔ لیکن۔۔۔ اباجی۔۔۔ آپ خدا کے لئے اتنا تو سوچیں۔پڑھا لکھا آدمی ہوں۔ روشن خیال ہوں۔۔۔ دل میں جانے کیا کیا امنگیں ہیں  اور پھر۔۔۔  اور پھر۔۔۔ اب میں آپ سے کیا کہوں مجھے معلوم ہوتا کہ آپ مجھے یہاں بلا کر یہ فیصلہ سنانے والے ہیں تو میں کبھی نہ آتا کہیں بھاگ جاتا۔۔۔ خود کشی کر لیتا۔

ڈپٹی صاحب:میں تمہاری یہ بکواس سننے کے لئے تیار نہیں۔

حامد:میں شادی کرنے کے لئے بھی تیار نہیں۔

ڈپٹی صاحب:دیکھوں گا تم کیسے نہیں کرتے؟

(غصے میں بھرے کمرے سے باہر چلے جاتے ہیں۔)

حامد:(اپنے آپ سے)عجیب مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔۔۔ کچھ سمجھ میں  نہیں آتا کیا کروں۔۔۔ شادی نہ ہوئی کھیل ہو گیا۔۔۔ کیا کروں کیا نہ کروں ، میری جان عجب مصیبت میں پھنس گئی ہے۔(باپ کے الفاظ دہراتا ہے۔)دیکھوں گا تم کیسے شادی نہیں کرتے۔۔۔ چلئے فیصلہ ہو گیا۔۔۔ اب چاہے میری ساری زندگی تباہ ہو جائے (جیب میں تاش کا پیکٹ نکالتا ہے۔۔۔ صوفے پر بیٹھ جاتا ہے  اور پتے پھینٹتے ہوئے کہتا ہے)یہ تاش ہی اب میری قسمت کا فیصلہ کرے گی۔۔۔ اگر تین پتوں نے راؤنڈ نہ بنائی تومیں کبھی شادی نہیں کروں گا  اور اگر  راؤنڈ بن گئی تو۔۔۔ قہر درویش برجان درویش کر لوں گا۔۔۔ جب شادی کو کھیل ہی سمجھا گیا ہے ، تویوں ہی سہی۔ میں بھی اس کا فیصلہ پتوں ہی سے کروں گا۔ (ایک ایک کر کے تین پتے پھینکتا ہے)دکی۔۔۔ تکی۔۔۔  اور۔۔۔ یہ چوکا۔۔۔ لعنت (تاش کی گڈی زمین پر پٹک دیتا ہے) آخری سہارا بھی دھوکا دے گیا۔

(حامد کی ماں جلدی جلدی کمرے میں داخل ہوتی ہے۔)

ماں :یہاں بیٹھے تاش کھیل رہے ہو۔۔۔ ماں سے نہیں ملنا تھا؟

حامد:(ماں کی طرف بڑھتے ہوئے)۔۔۔ امی جان۔۔۔ امی جان۔۔۔  میں شادی نہیں کروں گا۔

ماں :یہ کیا بے ہودہ بک رہے ہو؟

حامد:نہیں امی جان۔۔۔ مجھے ایسی شادی منظور نہیں۔ یعنی مجھ سے پوچھے بغیر میری شادی کا فیصلہ کر دیا گیا ہے۔

ماں :اس میں پوچھنے کی بات ہی کیا تھی۔ ماں باپ اندھے تو نہیں ہوتے۔

حامد:مجھے تو آپ لوگوں نے اندھا ہی سمجھا۔

ماں :ہم نے جو کچھ کیا ہے ، ٹھیک کیا ہے۔

حامد:میں مر جاؤں گا۔ لیکن اس طرح شادی کبھی نہیں کروں گا۔

ماں :کچھ ہوش کی دوا کرو۔ جو منہ میں آتا ہے بک دیتے ہو۔

حامد:آپ تو چاہتی ہیں بس گلا ہی گھونٹ دیں۔ آدمی اف تک نہ کرے۔

ماں :بڑا ظلم ہوا ہے تم پر۔

حامد:اس سے بڑھ کر اور ظلم کیا ہو گا یعنی میری ساری زندگی پر کاجل  کا لیپ کیا جا رہا ہے۔۔۔ مجھے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایک اندھیرے غار میں  دھکیلا جا رہا ہے۔۔۔  اور ابھی کچھ ظلم نہیں ہوا۔۔۔ امی جا سچ کہتا ہوں اسے دھمکی نہ سمجھئے زہر کھالوں گا۔ گاڑی کے نیچے جا مروں گا  اور  ایسی شادی کبھی نہ کروں گا۔

ماں :تم پیدا ہی نہ ہوتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ آج مجھے یہ دن دیکھنا تو نصیب نہ ہوتا(گلے سے آواز رندھ جاتی ہے۔) میں نے کس چاؤ سے تمہاری نسبت ٹھہرائی تھی۔

(رونا شروع کر دیتی ہے۔)

(دور سے  ثریا کی آواز آتی ہے ، امی جان۔۔۔ امی جان۔۔۔  اس کے بعد وہ خود تیز قدمی سے اندر آتی ہے۔)

ثریا:امی جان آپ ادھر ہیں۔۔۔ اخاہ بھائی جان۔۔۔ آپ تشریف لے آئے۔۔۔ امی جان میں آپ کو ادھر دیکھ رہی تھی۔۔۔

ماں :کیا ہے؟

ثریا:ناپ لے آئی ہوں امی جان۔۔۔ لیکن کن مشکلوں سے ملا ہے۔۔۔  پر آپ خاموش کیوں ہیں؟۔۔۔ رو کیوں رہی ہیں۔ بھائی جان کیا بات ہے؟

ماں :سنار باہر بیٹھا ہے؟

ثریا:ہاں بیٹھا ہے۔

ماں :اس سے کہہ دے کہ چلا جائے۔۔۔ ہمیں کنگنیاں نہیں بنوانا ہیں۔

ثریا:یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں امی جان۔۔۔ ناپ لے آئی ہوں۔

ماں :ثریا تو اس وقت جا۔۔۔ میری طبیعت ٹھیک نہیں۔۔۔ سنار سے کہہ دے کل آئے۔

ثریا:اس کا مطلب ہے ناپ موجود ہے تو پھر وہ کل کیوں آئے آج ہی کیوں نہ کام شروع کر دے تا کہ وقت پرمل جائے۔

ماں :جو دل میں آئے۔ کر۔ مجھ نصیبوں جلی کونہ ستا۔

ثریا:جانے آپ کس بات پر بھری بیٹھی ہیں۔ ستائیں آپ کو حامد بھائی جان  اور  کوسا مجھے جائے۔۔۔ وہ تو خیر اب نخرے کریں ہی گے ، بات بات پر بگڑیں گے۔۔۔ شادی جوہو رہی ہے۔۔۔ اچھا خیر، اس قصے کو چھوڑئیے مجھے اس کے لئے تحفہ خریدنا ہے۔ ابھی وہاں گئی تو معلوم ہوا کل اس کی سالگرہ ہے۔۔۔ کچھ روپے دیجئے مجھے !

ماں :میں کہتی ہوں دفان ہو یہاں سے۔ مغز نہ چاٹ میرا۔

(چلی جاتی ہے۔)

ثریا:(غصے میں حامد کی طرف بڑھتی ہے)حامد بھائی جان۔۔۔ آپ کیوں منہ میں گھنگھنیاں ڈالے کھڑے ہیں۔ جیسے آپ کے منہ میں زبان ہی نہیں ایک تومیں آپ کے کام کرتی پھروں  اور پھر الٹا جھڑکیاں کھاؤں۔

حامد:میں اس وقت کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔

ثریا:تو لیجئے۔ یہ ناپ کی چوڑی آپ سنبھالئے۔ باہر سنار بیٹھا ہے اس سے جو کہنا ہو کہہ دیجئے۔

(حامد کے ہاتھ میں غصے سے چوڑی رکھ دیتی ہے۔)

حامد:(چوڑی دیکھ کر)ثریا۔ بات سنو۔۔۔ یہ چوڑی تم نے کہاں سے لی؟

ثریا:کہیں سے بھی لی ہو۔ آپ کو اس سے کیا؟

حامد:میں سمجھ گیا۔ میں سمجھ گیا۔ لیکن یہ واقعی اسی کی ہے نا۔۔۔ اسی کی؟

ثریا:نہیں بتاتی۔

حامد:میری اچھی بہن جو ہوئیں۔۔۔ بتاؤ کس کی ہے؟

ثریا:سمجھ گئے لیکن بار بار پوچھیں گے۔۔۔ مزہ آتا ہے۔۔۔ آپ کی ہونے والی بیوی کی ہے جس کی کلائی سے زبردستی اتار کے لائی ہوں۔

حامد:زبردستی۔ کیوں وہ اتارنے نہیں دیتی تھی؟

ثریا:ہاں ، کہتی تھی، نہیں میں یہ چوڑی کبھی نہیں دوں گی۔ کسی کا تحفہ ہے۔۔۔  تم کوئی  اور لے جاؤ۔

حامد:اچھا۔

ثریا:پر میں ایک  اور بہانے سے لے آئی کہ مجھے بھی ایسا ہی جوڑا منگوانا ہے۔

حامد:(خوش ہو کر)وہ مارا!

(بہن کو گلے لگا لیتا ہے۔)

ثریا:یہ کیا ہو گیا ہے آپ کو؟

حامد:چپ۔۔۔ اب میں ضرور شادی کروں گا۔۔۔ اب میں ضرور شادی کرونگا۔ امی جان کہاں ہیں؟

ثریا:یہ دیوانہ پن ے؟

حامد:اب میں ضرور شادی کروں گا۔ اب میں ضرور شادی کروں گا۔

ثریا:یا وحشت!

حامد:آج اس کی سالگرہ ہے نا؟

(تاش کے پتے اٹھانا شروع کرتا ہے۔)

ثریا:ہے تو سہی۔ پریہ آپ تاش کے پتے کیا اکٹھے کر رہے ہیں۔

حامد:ٹھہرو ابھی بتاتا ہوں۔(تاش کے پتے اکٹھے کر کے بکس میں ڈالتا ہے) ثریا تم اسے کوئی تحفہ دینا چاہتی ہونا؟

ثریا:جی ہاں !

حامد:تو ایسا کرو یہ تاش لے جاؤ۔

ثریا:تاش؟

حامد:ہاں۔ تم یہ پیکٹ اسے تحفے کے طور پر دے دو اور پھر دیکھو کیا ہوتا ہے میرے منہ کی طرف کیا دیکھتی ہو؟کہہ جو دیا، ا س سے بہتر  اور  تحفہ نہیں ہو سکتا۔۔۔

(گاتا ہے۔)

ہونٹوں پر ان سنے ترانے جھیل میں جیسے تارے

بانکی چتون میں وہ جھل مل جو کھیلے سو ہارے

چہرے پر لالی سی جیسے کلیاں ندی کنارے

حسن کے اس امڈے دھارے میں ڈھونڈے کون سہارے

(پردہ)           ***

2.0 "1"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔