01:44    , پیر   ,   06    مئی   ,   2024

ڈرامے

2034 1 0 00

دروازہ - کرشن چندر

پہلی بار:دہلی ۱۷/اگست ۱۹۴۰ء؁

ڈرامے کے افراد  اور  اداکار

ماں :چندر کرن چھایا

کانتا:خورشید بیگم

شانتا:سرلا دیوی

مالک مکان:محمد حسین

اجنبی:تاج محمد

زمانہ :حال

                (کھڑکی زور سے کھلتی ہے۔ بادل کی گرج ہلکی سی  اور  ہوا کے فراٹے کے ساتھ بارش کی آواز کمرے کے اندر سنائی دیتی ہے۔ )

ماں        :اب تو بارش بھی شروع ہو گئی بیٹی۔ ۔ ۔ (وقفہ)۔ ۔ ۔  اور  یہ ہوا کا طوفان۔ ۔ ۔ (وقفہ)۔ ۔ ۔ اب کون آئے گا۔ اس طوفان کے اندھیارے میں۔ ۔ ۔ (وقفہ)۔ ۔ ۔  کانتا بیٹی۔ اب کیا وقت ہو گا؟

کانتا          :مجھے نہیں معلوم۔

ماں        :بتا بھی دے بیٹی(آبدیدہ ہو کر)اگر آج میری آنکھیں ہوتیں تومیں خود دیکھ لیتی۔

کانتا          :گھڑی شانتا کے میز کے اوپر پڑی ہے۔ شانتا میز پرسے ہلے تومیں وقت معلوم کروں۔

ماں        :شانتا بیٹی۔

شانتا        : (کمرے کے دوسرے کونے سے آواز) ساڑھے آٹھ بجے ہیں۔

                (وقفہ)

ماں        :ساڑھے۔ ۔ ۔ آٹھ۔ ۔ ۔ رات ہو گئی۔ رات  اور  طوفان۔ اس طوفان میں اب کون آئے گا؟

شانتا        :میں نے ونود سے کہا تھا۔

ماں        :ونود کیوں ہمارے گھر آنے لگا۔ ونود کیوں کسی غریب بہن سے راکھی بندھوائے گا۔ شانتا تم نے ونود سے کب کہا تھا؟

شانتا        :صبح ہی۔ ابھی وہ پوجا پاٹ سے فارغ ہوا تھا کہ اس کی بہن نے اس کے راکھی باندھ دی تھی  اور  اس نے اسے ایک پونڈ دیا تھا سچ مچ کا پونڈ سونے کاپونڈ۔ جب میں ونود کے گھر گئی تو اس وقت وہ ہنس ہنس کر اپنی بہن سے باتیں کر رہا تھا۔ لال چندن کا تلک اس کے ماتھے پرتھا۔ بال پانی سے بھیگے ہوئے تھے۔ ہاتھوں پر سنہری تاروں سے گندھی ہوئی راکھی۔ میں نے اس سے کہا بھیا راکھی بندھوا لو(آبدیدہ ہو کر) اس نے کہا شانتا  تم گھر چلو میں ابھی چلا آتا ہوں۔ اب ساڑھے آٹھ بجے ہیں۔ ۔ ۔ رات ہو گئی۔

ماں        :رات  اور  طوفان۔

                (شانتا سسکیاں لیتی ہے۔ )

ماں        :رو نہیں بیٹی۔ ادھر آ میرے پاس۔ اگر اس وقت تیرا بھائی ہوتا میرا پیارا چاند!ہائے برا ہو ان ڈاکوؤں کاجو میرے چاند کو اٹھا کر لے گئے۔ (کھڑکا) کون ہو؟

شانتا        :ونود!؟

                (بلی کا بولنا۔ )

کانتا          : (کمرے کا دروازہ کھول کر)نہیں بلی ہے۔ بارش سے پناہ مانگ رہی ہے۔

                (میاؤں میاؤں۔ )

ماں        :کانتا اسے اندر لے آ۔

کانتا          :لیکن ہم اسے کھلائیں گے کیا۔ گھر میں تواب کچھ بھی نہیں۔

ماں        :صبح کی ایک روٹی بچی تھی۔

شانتا        : (شرمسار ہو کر)مجھے بھوک لگی تھی ماں، میں نے کھالی۔

                (میاؤں میاؤں۔ )

ماں        :اگر تمہارے پتا اس وقت زندہ ہوتے۔ ۔ ۔

کانتا          : (طنز سے)اگر ۔

ماں        :کیا کہا؟

کانتا          :کچھ نہیں۔

ماں        :کچھ تو کہا بیٹی۔ اندھی ماں کونہ بتاؤ گی؟

کانتا          : (چڑ کر) کچھ کہا ہو تو بتاؤں۔ تمہارے کان تو جیسے ہوا میں ہر وقت کسی کی آواز کو سنتے رہتے ہیں۔

ماں        :لیکن مجھے وہ آواز کبھی نہیں سنائی دیتی۔ جب میرا پیارا چاند مجھے کہا کرتا تھا ماں۔ ماں۔ مجھے بھوک لگی ہے۔ ماں مجھے ماسٹر نے مارا ہے۔ ماں مجھے پیشہ دو۔ اس کا وہ گورا گورا ہر وقت ہنستا ہوا چہرہ۔

کانتا          : (ناراضگی سے) ماں۔

ماں        : (ان سنی کر کے)جب وہ ہنستا تھا تو اس کے داہنے گال پر ایک عجیب خم سا پڑتا تھا؟جو مجھے بہت بھلا معلوم ہوتا تھا  اور  جب ہمیں اس کے بال سنوار کر اسے ٹوپی پہناتی تھی۔ اس وقت میں اندھی نہ تھی بیٹا!

کانتا          :ماں !!

ماں        :ایک دن وہ سکول سے دوڑتا دوڑتا گھر پہنچا کہنے لگا ماں آج قصبہ میں جگہ جگہ اشتہار لگے ہوئے ہیں۔ کہ آج یہاں ڈا کہ پڑے گا۔ قصبے کے سب لوگ پریشان ہو رہے ہیں۔ ماسٹر جی نے ہمیں جلد چھٹی دے دی ہے۔ پھر کچھ دیر کے بعد چاند کے پتا جی بھی آ گئے۔ انھوں نے بھی یہی بات سنائی۔ وہ دن ہم نے جس پریشانی میں گزارا۔ ۔ ۔  تم تو اس وقت پیدا ہی نہ ہوئی تھیں۔ اچھا ہوا۔ ورنہ ڈاکو تمہیں بھی اٹھا لے جاتے  اور   پھر وہ رات۔ وہ کالی بھیانک رات۔

کانتا          :ماں !!

ماں        : (چیخ کر)میرا آٹھ سال کا بچہ۔ پلا پلایا۔ میرا لاڈلا۔ اکلوتا چاند۔ ہائے وہ سب کچھ لے گئے تھے۔ لیکن میرے بچے کو تو نہ لے جاتے۔ میں نے ان کے آگے ہاتھ جوڑے۔ اپنے بال کھول کران کے پاؤں پر دھرے لیکن انھوں نے ایک نہ سنی۔ کہتے تھے۔ کہ ایک مہینہ کے اندر پانچ ہزار روپئے ادا کر دو گے۔ تو تمہارا چاند تمہیں واپس مل جائے گا۔ میری ان آنکھوں کے سامنے وہ میرے لال کو اٹھا کر لے گئے تھے۔ تمہارے پتا رسیوں سے جکڑے ہوئے چارپائی پر پڑے تھے۔ چاند چلا رہا تھا۔ ایک ڈاکو نے اسی کے منہ پر زور سے طمانچہ مارا  اور   اس کے لبوں سے خون کی دھار پھوٹ کر بہنے لگی۔ وہ میرے سامنے میرے لال کولے گئے۔ کاش میں جنم اندھی ہی پیدا ہوتی۔ ۔ ۔ یوں کڑ کڑ کر میرے نصیبوں میں لکھا تھا۔ تمہارے پتا جی اسی سوچ میں گھل گھل کر مر گئے۔ کہ کہیں سے پانچ ہزار روپیہ اکھٹا نہ ہوا۔

                (بادل کی گرج۔ بارش کی آواز تیز ہو جاتی ہے۔ )

                کھڑی کی بند کر دو کانتا ہوا کے تیز فراٹے میرے رخساروں کو جیسے چیر رہے ہیں۔

شانتا        :شانتا بہن کھڑکی کھلی رہنے دو۔ شاید ونود بھیا آتے ہوں کھڑکی بند دیکھ کر واپس چلے جائیں گے۔

کانتا          : (دور سے کھڑکی کے قریب جا کر سر باہر نکالتے ہوئے) کوئی بھی نہیں آ رہا۔ گلی سنسان پڑی ہے۔ چورا ہے پر پولیس کا سپاہی جیپ کے نیچے کھڑا بارش میں بھیگ رہا ہے۔ اب کون آئے گا شانتا بہن تم نے ایک ونود سے کہا تو میں نے کتنوں سے کہا رام بھروسے سے شنکر لال سے ودیا ناتھ سے لیکن سبھی ٹال گئے سبھی کہتے تھے گھر آ کر بندھوائیں گے دیکھو کوئی اس وقت پہنچا؟کون آئے گا؟کسے ضرورت ہے کہ غریب بہنوں کا بھائی بنے۔ مفت کا خرچ  اور  پھر ہماری راکھی بھی کیا ہے ؟ کچے سوت کا لال دھاگا جس میں نہ زری کے تار نہ موتیوں کی جھلک۔ نہ ریشم کے مسکراتے ہوئے پھول۔ ہماری راکھی بھی ہماری زندگیوں کی طرح پھیکی۔ اداس  اور  بے رنگ و  بو ہے۔ اس راکھی کو کون پسند کرے گا؟ تم ونود پر آس لگائے بیٹھی رہو۔ میں کھڑکی بند کئے دیتی ہوں۔

کانتا          : (طنز سے) تو جا کر اس پولیس مین کے راکھی باندھ آؤ جو چورا ہے پر کھڑا ہے۔

ماں        :ناحق غصہ کرتی ہو کانتا بیٹی۔

شانتا        :آج تمہیں کیا ہوا ہے ؟

کانتا          :تمہارے ونود بھیا جو ابھی آ رہے ہیں۔ ہاہاہاہا۔ ونود بھیا۔

ماں        :کانتا!کانتا!!

کانتا          : (بلند آواز میں) تومیں کیا کروں ؟جیسے میں نے پنڈت بنارسی داس کے بیٹے کو کہا ہی نہیں۔ جیسے میں چترویدی جی کے لڑکے سے ہاتھ جوڑ کر التجا نہیں کی کہ آئے  اور  ہم سے راکھی بندھوا جائے لیکن کوئی آئے بھی تو۔ اس گھر میں کون آئے گا  اور  کوئی یہاں آئے بھی کیوں ؟راکھی بندھوا کر اسے کون سی دکشنا مل جاتی۔ یہی سوکھی ہوئی روٹی  اور  باسی دال  اور  اب تو یہ گھر بھی ہمارا نہ رہے گا۔ میں نے تمہیں بتایا نہیں کہ مالک مکان آج دوپہر کو مجھے  گھر سے باہر ملا تھا۔ کہہ رہا تھا آج تیسرا مہینہ شروع ہو گیا ہے۔ لیکن کرایہ ابھی تک نہیں پہنچا۔ کہتا تھا اگر ایک مہینہ تک کرایہ ادانہ کیا تو اس مکان سے باہر نکلنا ہو گا۔

ماں        :ہے بھگوان۔ ان لوگوں کا خون کس قدر سفید ہو گیا ہے لیکن سبھی لوگ تو ایسے نہیں ہوتے۔ سبھی لوگوں کے دل  تو ایسے کٹھور نہیں ہوتے۔ راکھی کی کتھا میں شرون کمار کا بھی  برنن ہے۔ شرون کمار بھی تو ایک براہمن کے بیٹے تھے۔ لیکن انھوں نے اپنے اندھے ماں باپ کی کتنی سیوا کی دن رات انہیں ڈولی میں اٹھائے کاندھوں پر اٹھائے پھرے  اور   سارے بھارت ورش کی جاترا کرا دی۔ یہی شرون کمار جینتی کا دن ہے  اور  آج کوئی غریب بہن کو راکھی بھی نہیں باندھنے دیتا کہ شاید مرجادا کا پالن کرنا پڑے۔ آج راکھی کا پوتر تہوار ہے  اور  اشنان  اور  پوجا پاٹ کے بعد وید منتروں کا اچارن  اور  ہون کے ساتھ لوگ پرانے جنیو بدلتے ہیں۔ گویا زندگی کا ایک نیا چولا، نیا روپ بدلتے ہیں  اور  میری بچی کی کوئی راکھی قبول نہیں کرتا۔

کانتا          : (تلخی سے)یہ بھی تو ایک نیا روپ ہے۔

شانتا        :ماں۔ کیوں اپنے جی کا ہلکان کرتی ہو کانتا تو بھی کیوں کچوکے پر کچو کے دئے جاتی ہے۔ ماں !!ا س جی جلانے سے کیا حاصل؟ اب سو جاؤ۔

ماں        :میں سوتی رہوں یا جاگتی رہوں۔ میرے سونے  اور  جاگنے میں فرق ہی کیا ہے۔ میرے لئے توکل دنیا اسی دن ایک کالی رات بن گئی تھی جس دن میرا لال مجھ سے چھینا گیا تھا۔ پھر جب  پتی مر گئے تو زندگی کی آخری کرن بھی غائب ہو گئی۔ میرے لئے تو اس جنم میں اندھیارا ہی اندھیارا ہے۔ یہ وہ کالی رات ہے بیٹی  جس کی کوئی صبح نہیں۔ وہ درد ہے جس کی کوئی دوا نہیں۔ وہ دکھ ساگر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں۔ (ہوا کا جھونکا روزنوں میں گزر کر ایک دردناک سیٹی پیدا کرتا ہوا گزرتا ہے) یہ کس نے آواز دی؟

شانتا        :کوئی نہیں ہے ماں۔ گلی بالکل خالی ہے۔ یہ ہوا روزنوں میں سے آواز پیدا کرتی ہوئی گزر رہی ہے۔

کانتا          :سو جاؤ ماں  اور  اپنے ان گیلے رخساروں کو پونچھ ڈالو۔ اٹھو ماں۔

ماں        :بہت اچھا بیٹی۔ بہت اچھا بیٹی۔ چلو مجھے اوپر سونے کے کمرے میں لے چلو۔

                (فرش پر لکڑی ٹیکنے کی آواز۔ قدموں کی آواز۔ )

                (کانتا گنگناتی ہے  اور  پھر آہستہ آہستہ پر سوز لے میں گاتی ہے۔ )

نیر بھرے نینن کی پنچھی

کس بدھ پیاس بجھاؤں

من کی بنسیا ٹوٹ چکی

اب کیسے اسے بجاؤں

چھوٹی سی نینن کی نیا

بیچ سمایو ساگر

پلکوں کے پتوار لگا کر

کس بدھ پار لگاؤں

پنچھی کس بدھ پیاس بجھاؤں

ہردے میں دکھ درد بہت ہے

گھاؤ بہت ہیں پیڑ بہت ہے

پھر بھی یہ سونی ہے بستی

کیسے اسے بساؤں

پنچھی کس بدھ پیاس بجھاؤں

پنچھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

شانتا        :کانتا بہن تم رو رہی ہو۔

کانتا          : (کھڑکی کھول کر) مہینہ تھم گیا ہے۔

                (دروازے پر دستک)

کانتا          :تمہارے بھیا ونود ہوں گے۔

شانتا        :نہیں پنڈت ودیا ناتھ ہوں گے۔

آواز         :دروازہ کھولو۔

                (دروازہ کھولنے کی آواز)

کانتا          :اخاہ، آپ ہیں۔ تشریف رکھئے۔ کہئے اس وقت کیسے آنا ہوا؟غالباً آپ راکھی بندھوانے کے لئے آئے ہیں۔ ذرا ٹھہرئیے میں ابھی لال رنگ کا دھاگا لائی۔

مالک مکان            :میں۔ ۔ ۔ ار۔ ۔ ۔ میں۔ ۔ ۔ راکھی۔ ۔ ۔  اور ۔ ۔ ۔ میں حاضر ہوا تھا یہ کہنے کے لئے کہ آپ نے تین ماہ کا کرایہ ادا نہیں کیا ہے۔ ۔ ۔ میں ار۔ ۔ ۔  ار۔ ۔ ۔ راکھی نہیں بندھواؤں گا میں تو کبھی کا بندھوا چکا ہوں۔ بات یہ ہے کہ اگر آپ نے پرسوں تک کرایہ ادانہ کیا تو آپ کو اس مکان سے نکلنا ہو گا۔

کانتا          :اچھا یہ بات ہے۔ آج صبح ایک ہفتہ کی میعاد ملی تھی۔ اب دو دن رہ گئے۔ شریمان جی آج راکھی کے دن بھی آپ کو ایسی بات کرتے ہوئے شرم نہیں آئی۔ ٹھہرئیے میں لائی لال سوت لاتی ہوں۔

مالک مکان            :ار۔ ار۔ نہیں نہیں میں یہی کہنے کے لئے حاضر ہوا تھا۔ اب میں چلتا ہوں۔ مجھے ضروری کام ہے۔

                (دروازہ زور سے بند ہو جاتا ہے۔ )

                (وقفہ)

شانتا        :گیا!

کانتا          :نہیں سمجھو سر پر ایک  اور  مصیبت آئی۔

شانتا        :اب کیا ہو گا۔ ۔ ۔ (وقفہ)۔ ۔ ۔ کانتا بہن۔ ۔ ۔ وقفہ۔ ۔ ۔ کانتا بہن! یہ تم کھڑکی میں کھڑی کسے دیکھ رہی ہو؟

کانتا          :اپنے آنے والے دنوں کو۔

شانتا        :میں نے جو بستر کی چادر کاڑھ کر دی تھی اس کے مجھے صرف آٹھ آنے ملے ہیں۔

کانتا          :دو روپیہ کرایہ کے لئے میں نے بھی بچا رکھے ہیں۔

شانتا        :یہ تو اڑھائی روپئے ہوئے۔ ابھی چھ روپئے  اور  چاہئیں۔

کانتا          :ہاں چھ روپئے  اور  چاہئیں۔

شانتا        :اب کیا ہو گا!پرسوں تک چھ روپے کہاں سے آئیں گے ؟مجھے تو کوئی امید نظر نہیں آتی۔ چاروں طرف اندھیارہ ہی اندھیارہ دکھائی دیتا ہے۔

کانتا          : (طنز سے) ماں کی اندھی آنکھوں کی طرح؟

شانتا        :کانتا بہن تم مذاق کرتی ہو بے ہودہ مذاق۔ مجھے تمہاری یہ عادت مطلق پسند نہیں۔ اپنی ماں کے متعلق یہ الفاظ؟تمہیں کیا ہو گیا ہے۔ میں تو پوچھتی ہوں کہ یہ چھ روپئے ہم پرسوں تک کہاں سے لائیں گے۔

کانتا          :سوچو!دماغ پر زور دو۔

شانتا        :مجھے تو کچھ نہیں سوجھتا۔

کانتا          :جب سب دروازے بند ہو جائیں اس وقت بھی عورت کے لئے ایک دروازہ ہمیشہ کے لئے کھلا رہتا ہے۔

شانتا        :تم کیا کہہ رہی ہو؟

کانتا          :اس دنیا میں مرد مالک ہیں  اور  عورتیں غلام۔ مرد خریدار ہوتے ہیں  اور   عورتیں جنس خرید۔ مرد کتے ہیں  اور  عورتیں ہڈیاں۔ مرد راکھی بندھوانا پسند نہیں کرتے۔ وہ راکھی توڑنا پسند کرتے ہیں۔

شانتا        :کانتا بہن تمہیں کیا ہو گیا ہے۔ تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟

کانتا          :سنو۔ اس کھڑکی کے ایک دوسری کھڑکی ہے۔ اس میں سے ایک اوباش مزاج نوجوان مجھے اکثر گھورا کرتا ہے۔ وہ ایک لحاظ سے خوبصورت بھی ہے ور دولت مند بھی  اور  پھر اس مکان کے نیچے گیرج میں اس کی ایک موٹر بھی ہے۔ اس نے کئی بار مجھے پریم پتر لکھے ہیں لیکن میں نے کبھی کسی کا جواب نہیں دیا۔ مجھے اس کی کھڑکی میں سے ابھی تک روشنی نظر آ رہی ہے۔

شانتا        :کانتا بہن کھڑکی بند کر لو۔

کانتا          :تمہاری سب آشائیں پوری ہو سکتی ہیں۔ سبھی۔ ۔ ۔ چھ روپئے نہیں سینکڑوں روپئے۔ ہزاروں روپئے بولو۔

شانتا        :کانتا بہن کھڑکی بند کر دو۔ ۔ ۔ کھڑکی سے پرے ہٹ جاؤ نہیں مجھے خود ہی اسے بند  کرنا ہو گا۔

                (کھڑکی بند ہونے کی آواز)

کانتا          :تم نے کھڑکی بند کر دی۔ بھولی شانتا لیکن میں اس کھڑکی سے باہر تو نہ کود سکتی تھی۔ میں تو جب جاؤں گی سامنے کا دروازہ کھول کر جاؤں گی۔

                (فرش پر چلنے کی آواز۔ )

                (فرش پر تیز تیز قدموں سے بھاگنے کی آواز کسی جسم کے دروازے سے زور سے لگنے کی آواز۔ )

کانتا          :ہٹو مجھے جانے دو۔

شانتا        :نہیں، میں نہیں جانے دوں گی۔

کانتا          :دروازہ کھول دو۔

شانتا        :نہیں میں دروازہ کبھی نہیں کھولوں گی۔

کانتا          :میں کہتی ہوں دروازہ کھول دو، دروازہ کھول دو۔

شانتا        :نہیں، نہیں۔ کبھی میں۔

کانتا          :معلوم ہوتا ہے۔ تم ایسے نہیں ہٹو گی۔

                (کشمکش کی آواز۔ شانتا کے منہ سے ایک بلند چیخ نکلتا ہے لیکن کانتا فوراً ہی اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیتی ہے۔)

                (وقفہ)

                (دروازہ پر دستک۔ زور زور سے دستک)

                (وقفہ)

آواز         :دروازہ کھولو۔

                (وقفہ)

کانتا          : (سرگوشی سے) دروازہ کھول دو۔ اب تو۔

                (دروازہ کھلنے کی آواز)

                (ایک اجنبی اندر داخل ہوتا ہے۔ )

اجنبی       :اوہ میں سمجھا۔ کوئی خون خرابہ ہو رہا ہے۔ میں باہر سے گزر رہا تھا کہ میں نے ایک چیخ سنی۔

کانتا          :چیخ یا قہقہہ؟

اجنبی       :کچھ سمجھ لو بہن۔ لیکن مجھے تو چیخ ہی سنائی دی۔

شانتا        :بیٹھ جائیے۔ تشریف رکھئے۔

اجنبی       :شکریہ۔ (وقفہ)کیا آپ دونوں بہنیں یہاں اکیلی رہتی ہیں ؟

کانتا          :یہ آپ نے کیسے جانا کہ ہم دونوں بہنیں ہیں ؟

اجنبی       : (ہنستے ہوئے) آپ کے چہروں سے۔

شانتا        :جی ہاں ہم اپنی ماتا جی کے ساتھ یہاں رہتی ہیں۔

اجنبی       :اگر آپ برا نہ مانیں۔ پوچھوں کہ جھگڑا کس بات پر ہو رہا تھا؟

کانتا          :راکھی تیوہار پر۔

اجنبی       :اچھا آج راکھی ہے۔

کانتا          :آپ کو معلوم نہیں ؟

اجنبی       :میں بہت مدت سے سفر میں ہوں اس جگہ ابھی ابھی وارد ہوا ہوں۔ سفر میں آدمی بہت سی باتیں بھول جاتا ہے۔ ۔ ۔ اچھا تو پھر کیا ہوا؟

کانتا          :یہ کانتا کہہ رہی تھی کہ راکھی کا تیوہار اچھا ہے،  اور  میں کہہ رہی تھی کہ مجھے اتنا پسند نہیں۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہم دونوں بہنوں کو آج بہت مایوسی ہوئی ہے۔ آپ دیکھئے ہمارا کوئی بھائی نہیں۔

کانتا          : اور  میں بہن شانتا سے کہہ رہی تھی کہ دروازہ کھول دے سامنے کے مکان۔ ۔ ۔

شانتا        :خاموش کانتا!۔ ۔ ۔  تو کیسی بچوں کی سی باتیں کرتی ہے۔ (وقفہ)ہوں۔ یہ بات ہے۔

                (وقفہ)

اجنبی       :کانتا لاؤ۔ تم۔ مجھے راکھی باندھ دو اور  شانتا بہن تم بھی!

کانتا          :کیا آپ راکھی بندھوائیں گے سچ مچ؟

شانتا        :لیکن آپ تو پردیس میں ہیں۔

اجنبی       :پردیسی بھی بھائی بن سکتے ہیں۔ بہن۔

کانتا          :میں ابھی لال دھاگا لائی۔

شانتا        :آپ کا نام کیا ہے ؟

اجنبی       :مجھے اجے کمار کہتے ہیں۔

کانتا          :لیجئے ہاتھ بڑھائیے۔ شانتا تم بھی۔ ۔ ۔ دوسری کلائی پر۔

شانتا        :اجے بھیا۔

                (سیڑھیوں سے اترنے کی آواز)

شانتا        :یہ کیا؟پونڈ!سچ مچ کے پونڈ۔ ۔ ۔ سونے کے پونڈ۔

اجنبی       :غریب بھائی کی طرف سے یہ نذر قبول ہو۔

                (لکڑی ٹیکنے کی آواز قریب ہو جاتی ہے۔ )

شانتا        : (سرگوشی سے) ماں جی ہمیں۔

ماں        :کون ہے !یہ کیا جھگڑا ہو رہا ہے ؟

شانتا        : (سرگوشی سے) آپ ٹکٹکی لگائے ان کی آنکھوں کی طرف کیوں تک رہے ہیں ؟انہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا۔

کانتا          :ہم راکھی باندھ رہے تھے  اور  شانتا خوشی سے ناچ رہی تھی۔

ماں        :کیا ونود آ گئے ؟

شانتا        :نہیں ماں۔ یہ اجے بھیا ہیں (سرگوشی میں) ماتا جی کو پرنام کرو۔

اجنبی       :ماتا جی پرنام۔

ماں        :جیتے رہو بیٹا۔ تم کون ہو؟ ادھر کیسے آئے ؟

اجنبی       :جی میں باہر سے گزر رہا تھا۔ اس کمرے میں ان دونوں بہنوں کے جھگڑنے کی آواز سنی۔ دروازے پر دستک دی  اور  (ہنس کر) اندر چلا آیا۔ یہاں ان دونوں شریر لڑکیوں نے مجھے راکھی سے باندھ دیا۔

ماں        :بہنیں ہیں بیٹا یہ تمہاری بہنیں۔ اس عمر میں راکھی باندھنے کی بہت چاہ ہوتی ہے۔ اچھا بیٹا تم اس شہر میں کیسے آ رہے ہو؟

اجنبی       :یونہی ڈھونڈتا ہوا آ رہا ہوں۔ کھوج نکالنے کے لئے نکلا ہوں۔

ماں        :کسے ڈھونڈ رہے ہو بیٹا؟

اجنبی       :اپنے ماں باپ کو،  مدت ہوئی مظفر گڑھ سے مجھے ڈاکو اٹھا لے گئے تھے، بہت مدت تک ان کے ساتھ رہا۔ پھر ایک دن ان کے چنگل سے نکل بھاگا۔ بمبئی جا کر ملازمت اختیار کر لی۔ پھر ماں باپ کا پتہ لگانے نکلا۔ مظفر گڑھ گیا۔ معلوم ہوا!پتا جی کا انتقال ہو گیا ہے پھر اس شہر کا کسی نے پتہ دیا۔  اور  میں ادھر سے۔ ۔ ۔

ماں        : (اٹھ کر کھڑی ہو جاتی ہے، لکڑی زمین پر گر جاتی ہے۔ )ادھر آؤ بیٹا اجے کمار، ذرا میرے قریب آؤ۔ میں تمہیں اپنی اندھی آنکھوں سے دیکھنا چاہتی ہوں۔ (قدموں کی آواز) اور  قریب آؤ بیٹا۔ تمہارا چہرہ کہاں ہے ؟کہاں ہو تم اجے کمار بیٹا۔ یہ آنکھیں تمہیں پہچان نہیں سکتیں۔ لیکن ماں کی انگلیاں تمہیں پہچان لیں گی۔ ہاں یہ وہی ناک ہے وہی ہونٹ یہ کان کے پاس وہی تل میرے لال میرے چاند۔ میری چھاتی سے لگ جاؤ بیٹا۔ تم نے مجھے بہت دکھ دیا ہے۔

                (سسکیوں کی آواز۔ )

اجنبی       :ماں !

کانتا،  شانتا               :بھیا!

ماں        :ہاں ہاں وہی توہے تمہارا چاند۔ وہی گھنگرالے بال ہیں جن میں کنگھی کر کے تمہیں ٹوپی پہنایا کرتی تھی۔ وہی ابرو اور  یہاں زخم کا نشان، بیٹا مجھے اچھی طرح پکڑ لو۔ مجھے گرنے نہ دینا اپنے طاقتور بازوؤں کا سہارا دو۔ میرے چاند۔ میری اندھی آنکھوں کے روشن ستارے۔ میری اجڑی زندگی کے اجیارے۔ ۔ ۔

اجنبی       :ماں۔

                (پردہ)

***

ماخذ: ’’دروازہ‘‘

آزاد بک ڈپو

پالبازار، امرتسر

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔