افراد:پہلا مرد
دوسرا مرد
تیسرا مرد
ایک خاتون
منظر:(سڑک کے کنارے سے لکڑی کا ایک پیلا ستون ہے جس پر گول تختی پر Bus Stop لکھا ہے۔کھمبے سے ٹیک لگائے ایک نوجوان سیٹی بجا رہا ہے اور داہنی جانب دیکھ رہا ہے۔ داہنی جانب سے دوسرا نوجوان گنگناتا ہوا داخل ہوتا ہے۔)
پہلا مرد:(جماہی لیتا ہے۔)
دوسرا مرد: آپ شاید بس کا انتظار کر رہے ہیں۔
پہلا مرد:جی ہاں۔ آپ بھی شاید بس کا انتظار کرنے والے ہیں؟
دوسرا مرد:(ہنستا ہے ) جی ہاں۔
پہلا مرد:مجھے بس کا انتظار بڑا کھلتا ہے۔
دوسرا مرد:کھلتا ہے؟
پہلا مرد:ہاں یعنی برا لگتا ہے۔
دوسرا مرد:مگر کیا کیا جائے اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔
پہلا مرد:چارہ؟
دوسرا مرد:ہاں یعنی ہمیں بس، بس کا انتظار کرنا ہے۔
پہلا مرد:بس بس کا؟
دوسرا مرد:ہاں یعنی جس طرف ہمیں جانا ہے اس طرف کی بس تو آئی نہیں۔ دوسری طرف کی بسیں آئی ہیں۔
پہلا مرد:کسی نے کیا خوب کہا ہے۔
دوسرا مرد:کوئی شعر ہے؟
پہلا مرد:نہیں شعر نہیں مگر کسی نے کہا ہے، بس وہی ہے جو دوسری طرف کے لئے آئے۔
دوسرا مرد: آپ کتنی دیر سے بس کا انتظار کر رہے ہیں۔
پہلا مرد:بڑی دیر سے۔ بہت دیر سے۔
دوسرا مرد: آپ کو جانا کہاں ہے؟
پہلا مرد:اب تو میں بھی آپ کے ساتھ چلوں گا۔
دوسرا مرد:میرے ساتھ؟
پہلا مرد:مطلب یہ ہے کہ کہیں کی بھی بس آ جائے میں اسی میں بیٹھ جاؤں گا۔ آپ کی طرح۔
دوسرا مرد:بہت اچھی بات ہے مگر بس آ جائے تب بات ہے۔
پہلا مرد:اسی کاتو انتظار ہے۔
دوسرا مرد:(بائیں جانب دیکھ کر) شاید کوئی بس آ رہی ہے۔
پہلا مرد:نہیں کوئی دوسری گاڑی ہے۔ کوئی ٹورسٹ وین ہے۔ دیکھئے ادھر کی ادھر ہی مڑ گئی۔ ایک اور مشکل ہے۔
دوسرا مرد:مشکل ہے۔ وہ کیا؟
پہلا مرد:بعض دفعہ کوئی بس آتی ہے تو یہاں رکتی ہی نہیں۔
دوسرا مرد:(بھنویں اونچی کر کے ) رکتی ہی نہیں۔
پہلا مرد:ہاں بغیر ٹھہرے آگے بڑھ جاتی ہے۔
دوسرا آدمی:اب آنے دیجئے اسے روکیں گے۔
پہلا آدمی:کیسے۔
دوسرا آدمی:ریکویسٹ کریں گے، ہاتھ ہلائیں گے، سامنے کھڑے ہو جائیں گے۔
پہلا آدمی:نہ نہ خدا کے لیے ایسا نہ کیجئے۔
دوسرا آدمی:کیوں۔
پہلا آدمی:بھئی بس ٹھہرتی ہے تو ٹھہرنے دو ورنہ جانے دو۔
دوسرا آدمی:یہاں کوئی آٹو بھی نظر نہیں آتا۔
پہلا آدمی:یہی تو مشکل ہے۔ اسی لئے تو بس کا انتظار ہے۔
دوسرا آدمی:آ رہی ہے۔
پہلا آدمی:بس آ رہی ہے۔
دوسرا آدمی:نہیں ایک اور ہستی آ رہی ہے۔ وہ دیکھئے۔
پہلا آدمی:ہاں۔ چلتا کیسے ہے۔
(ایک اور آدمی داہنی جانب سے آتا ہے۔)
دوسرا آدمی:ایسا معلوم ہوتا ہے کھٹکوں سے چل رہا ہے۔
پہلا آدمی:آگے چلا گیا۔؟
دوسرا آدمی:پاس ہی کھڑے ہیں۔
پہلا آدمی:(تیسرے آدمی کی طرف جھک کر دیکھتا ہے ) اوہ۔ آپ کی شکل جانی پہچانی ہے، میں نے آپ کو کہیں دیکھا ہے۔
تیسرا آدمی:جی ہاں۔ میں عام آدمیوں جیسا ہوں نا، اس لیے آپ نے ضرور کہیں نہ کہیں دیکھا ہو گا۔
دوسرا آدمی: آپ کی پیدائش؟
تیسرا آدمی:جی میں اسپتال میں پیدا ہوا۔
پہلا آدمی:نہیں نہیں یہ آپ سے پوچھ رہے ہیں کہ آپ حیدرآباد کے ہیں یا باہر کے۔
تیسرا آدمی:جی میں حیدرآباد کا نہیں ہوں۔
دوسرا آدمی:ہوں یہ حیدرآباد کے نہیں ہیں۔ میں بھی تو کہوں۔
پہلا آدمی:پھر آپ کہاں کے ہیں صاحب۔ باہر کے !
تیسرا آدمی:جی، میں سکندر آباد کا ہوں !میں سکندر آباد کے اسپتال میں پیدا ہوا تھا۔
دوسرا آدمی:تاریخ بھی یاد ہو گی آپ کو۔
تیسرا آدمی:جی ہاں دو اپریل۔
پہلا آدمی:اوہو۔۔۔ ایک دن کی دیر ہو گئی۔
تیسرا آدمی: آپ کس دن پیدا ہوئے؟
پہلا آدمی:کیسی باتیں پوچھ رہے ہیں آپ، میں بھلا، کیسے بتا سکتا ہوں۔
تیسرا آدمی:کیوں۔
پہلا آدمی:میں تو بہت چھوٹا تھا نا، مجھے ہوش ہی کہاں تھا۔
دوسرا آدمی:ہاں ہاں صحیح ہے۔
تیسرا آدمی: آپ کی پیدائش؟
دوسرا آدمی:میں بھی بہت چھوٹا تھا مگر والدہ کہتی ہیں جس دن وہ اسپتال گئیں اس کے۔۔۔
تیسرا آدمی:اس کے؟
دوسرا آدمی:اس کے دوسرے دن پیدا ہوا میں۔
پہلا آدمی:خوب، اور آپ کی والدہ اسپتال کس دن گئیں۔
دوسرا آدمی:جی ایک دن پہلے۔
تیسرا آدمی:خوب۔ کیا عمر ہو گی آپ کی۔
دوسرا آدمی:کچھ زیادہ نہیں ہے۔
تیسرا آدمی: آپ کی عمر؟
دوسرا آدمی:ان کی عمر بھی کچھ زیادہ نہیں ہے۔
پہلا آدمی:ہاں زیادہ نہیں ہے۔
تیسرا آدمی:بہت کم ہے۔
پہلا آدمی:کس سن میں پیدا ہوئے تھے آپ۔ ویسے یہ سوال تو نہیں کرنا چاہئے۔ مگر۔۔۔
دوسرا آدمی:ہاں وقت گزاری کے لیے۔
پہلا آدمی:ہاں وقت گزاری کے لیے کیا برا ہے۔ ویسے میرا خیال ہے آپ بھی بس کاہی انتظار کر رہے ہیں۔
تیسرا آدمی:جی ہاں بس کا بھی انتظار کر رہا ہوں اور ایک اور ۔
پہلا آدمی:کسی اور کا بھی؟
تیسرا آدمی:جی ہاں۔
دوسرا آدمی:کس کا؟
پہلا آدمی:بھئی اتنی نجی باتیں نہیں پوچھنی چاہئیں، وہ کسی کا بھی انتظار کریں، ہمیں کیا۔
تیسرا آدمی:نہیں نہیں کوئی نجی بات نہیں۔ میں
دوسرا آدمی:جی؟
تیسرا آدمی: آپ خود دیکھ لیں گے جب وہ آئے گی۔
پہلا آدمی:آئے گی؟
دوسرا آدمی:آئے گی؟
تیسرا آدمی:جی ہاں جب وہ آئے گی آپ دیکھ لیجئے گا۔ اسے میرے ساتھ جانا ہے۔
پہلا آدمی:جی ہاں، جی ہاں ضرور جانا ہو گا۔
دوسرا آدمی: آپ بڑے خوش قسمت ہیں جناب،
تیسرا آدمی:کیوں۔
دوسرا آدمی:نہیں یعنی ویسے ہی۔ میرا مطلب ہے محبوبہ کے ساتھ سفر کرنا خوش قسمتی ہی توہے۔
پہلا آدمی:(بلند آواز سے شعر پڑھتا ہے )
گزاری ہیں خوشی کی چند گھڑیاں
انھیں کی یاد میری زندگی ہے
ہے۔۔۔ ہا۔۔۔
تیسرا آدمی:معاف فرمائیے۔ وہ محبوبہ نہیں ہے۔
دوسرا آدمی:(پہلے آدمی سے ) محبوبہ نہیں ہے جناب بیوی ہے۔
پہلا آدمی:اچھا اچھا۔
تیسرا آدمی:جی آپ دونوں حضرات کو غلط فہمی ہو رہی ہے۔وہ مجھے جس کا انتظار ہے، بیوی نہیں ہے۔
دوسرا آدمی:اچھا کوئی غیر ہے۔
تیسرا آدمی:جی ہاں میری بوڑھی نوکرانی ہے، ابھی آتی ہی ہو گی۔
پہلا آدمی:اوہ۔
تیسرا آدمی: آپ پوچھ رہے تھے ناکہ میں کب پیدا ہوا؟
پہلا آدمی:جی ہاں۔
تیسرا آدمی:دیکھئے تیسری جنگ عظیم چل رہی تھی۔
دوسرا آدمی:تیسری جنگ عظیم؟ دو عظیم جنگوں کے بارے میں توہم سن چکے ہیں۔
پہلا آدمی:جی ہاں ۱۹۱۴ء کی پہلی جنگ عظیم۔
دوسرا آدمی:۱۹۴۲ء کی دوسری جنگ عظیم۔
تیسرا آدمی:یہ تیسری جنگ عظیم میرے والدین کے درمیان جاری تھی، انہی دنوں میں پیدا ہوا۔
دوسرا آدمی:اوہ۔
تیسرا آدمی:اور اگلے ماہ نومبر میں میری سالگرہ ہے۔۲۷ نومبر کو آپ دونوں حضرات تشریف لائیے۔
پہلا آدمی:نومبر میں آپ کی سالگرہ ہے۔
تیسرا آدمی:ہاں ۲۷ نومبر کو ضرور تشریف لائیے۔
دوسرا آدمی:تو نومبر میں آپ پیدا ہوئے تھے۔
تیسرا آدمی:نہیں پیدا تو میں فروری میں ہوا تھا مگر سالگرہ ہمیشہ نومبر میں مناتا ہوں۔
پہلا آدمی:بہت اچھی عادت ہے۔
تیسرا آدمی:میرا ایک دوست بہت پریشان ہے۔
دوسرا آدمی:کیوں؟
تیسرا آدمی:بات تو بہت چھوٹی سی ہے، وہ اپنی بیوی کو بہت چاہتا ہے، ایک دن لڑائی کے دوران اس کی بیوی نے اس سے کہہ دیا کہ اگر تم مجھ سے پھر کبھی لڑو گے تو میں بیوہ ہو جاؤں گی۔
پہلا آدمی:تو آپ کے دوست نے اس دن سے لڑنا چھوڑ دیا۔
تیسرا آدمی:ہاں لڑنا تو چھوڑ دیا مگر وہ آج کل دن رات یہی سوچتا رہتا ہے کہ اگر اس کی بیوی بیوہ ہو گئی تو کیا ہو گا وہ کیا کرے گا۔
دوسرا آدمی:ہاں بھئی یہ تو تشویش کی بات ضرور ہے۔
پہلا آدمی: آپ شاید اس وقت اسی کے پاس جا رہے ہیں۔
تیسرا آدمی:جی ہاں آپ نے ٹھیک پہچانا، میں اسی کے پاس جا رہا ہوں۔
پہلا آدمی:دوست کے پاس یا بیوی کے پاس۔
تیسرا آدمی:جی دوست کے پاس۔
دوسرا آدمی:میرے دوست بہت عمدہ ہیں۔
پہلا آدمی:اچھا۔۔۔؟
دوسرا آدمی:جی ہاں۔ جب کبھی میں پریشان ہوتا ہوں وہ میری پریشانی اور بدحالی نہیں دیکھ سکتے۔
تیسرا آدمی:کیا کرتے ہیں وہ۔
دوسرا آدمی:جب بھی مجھ سے بات کرتے ہیں تو آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔
تیسرا آدمی:صاحب دوست پر ایک قصہ مجھے یاد آیا۔
پہلا آدمی:قصہ ہے تو ضرور سنائیے۔ (جیب سے سگریٹ کی ڈبیا نکالتا ہے ) لیجئے سگریٹ۔
تیسرا آدمی:شکریہ۔ قصہ کیا صاحب واقعہ ہے۔
پہلا آدمی: آپ؟
دوسرا آدمی:شکریہ۔(جیب سے ماچس نکال کر دونوں کے سگریٹ سلگاتا پھر اپنا سگریٹ سلگاتا ہے ) واقعہ تو پھر ضرور سنائیے۔
تیسرا آدمی:(کش لے کر) ایک آدمی جب اپنے گھر سے دو دن تک غائب رہا تو اس کی بیوی نے اپنے شوہر کے پانچ دوستوں کو تار بھیجا کہ کیا میرے شوہر نے منگل چہار شنبہ یہ دو دن آپ کے ساتھ گزارے ہیں۔؟
پہلا آدمی:تو پھر کیا ہوا۔
(کش لیتا ہے۔)
تیسرا آدمی:پانچوں دوستوں کے پاس سے جواب آیا کہ آپ فکر مت کیجئے محترمہ آپ کے شوہر نے یہ دو دن ہمارے ساتھ گزارے ہیں۔
دوسرا آدمی:واہ۔ واہ، دوست ہوں تو ایسے ہوں۔
پہلا آدمی:دوستوں کا جب بھی ذکر آتا ہے میں بے حد اداس ہو جاتا ہوں۔
دوسرا آدمی:کیوں آپ کا کوئی دوست نہیں ہے۔
پہلا آدمی:دوست تو ہیں۔
تیسرا آدمی:پھر؟
پہلا آدمی:میرا ایک بڑا عزیز دوست تھا اور وہ بے چارہ ٹرین کے نیچے آ گیا۔
دوسرا آدمی:ارے رے رے۔
پہلا آدمی:ہاں اس وقت وہ میرا سب سے قیمتی کوٹ پہنے تھا، مجھے وہ اپنا کوٹ بہت یاد آتا ہے۔
تیسرا آدمی:ضرور یاد آتا ہو گا صاحب، ہاہا۔
دوسرا آدمی:میرا ایک دوست ہے۔
تیسرا آدمی:جی۔
دوسرا آدمی: آپ جب پہلی مرتبہ اس سے ملیں گے تو اسے پسند نہیں کریں گے۔
پہلا آدمی:جی۔
دوسرا آدمی:جب آپ اس سے دوسری مرتبہ ملیں گے تب بھی آپ اسے پسند نہیں کریں گے۔
پہلا آدمی:اچھا۔
دوسرا آدمی:جب تیسری مرتبہ آپ اس سے ملیں گے تو۔
تیسرا آدمی:تو۔
دوسرا آدمی: آپ اس سے نفرت کرنے لگیں گے۔
تیسرا آدمی:میرے ساتھ بھی ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔
دوسرا آدمی:اچھا آپ کے ساتھ بھی ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا ہے؟
پہلا آدمی:سب کچھ ہو رہا ہے مگر بس نہیں آ رہی ہے۔
دوسرا آدمی:یہ کون صاحب آ رہے ہیں۔
تیسرا آدمی:کوئی خاتون آ رہی ہے۔
پہلا آدمی:شاید آپ کی بوڑھی نوکرانی ہے۔
تیسرا آدمی:جی نہیں یہ ہماری نوکرانی نہیں ہے۔
پہلا آدمی:شاید آپ کی محبوبہ ہے۔
تیسرا آدمی:جی نہیں کوئی اور شریف خاتون ہے۔
خاتون:(داہنی جانب سے آتی ہوئی) آپ یہاں بس کے لیے کھڑے ہیں۔
پہلا آدمی:جی ہاں۔
خاتون: آپ کو بھی بس کا انتظار ہے۔
دوسرا آدمی:جی ہاں، بہت دیر سے بس نہیں آئی ہے۔
خاتون: آپ سب لوگ بس کے لئے کھڑے ہیں۔
تیسرا آدمی:جی ہاں۔
خاتون:بس ادھر نہیں آئے گی۔
پہلا آدمی:نہیں آئے گی۔ وہ کیوں؟
خاتون:بس اسٹینڈ یہاں سے شفٹ ہو چکا ہے، آپ لوگ ادھر جائیے، ادھر
(ایک طرف خاتون چلنے لگتی ہے۔ سب اس کے پیچھے ہو جاتے ہیں۔)
(پردہ گرتا ہے۔)
***
’’شگوفہ‘‘(ڈرامہ نمبر)۱۹۷۹ء، ۳۱!مجردگاہ، معظم جاہی مارکیٹ
حیدرآباد۔۵۰۰۰۰۱(اے پی)