12:40    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

ڈرامے

1197 0 0 00

کچلا ہوا پھول - ڈاکٹر محمد حسن

زور دار بارش

(زور دار بارش)

ایک:لا الہٰ الا اللہ محمد الرسول اللہ۔

دوسرا :اللہ بس باقی ہوس۔ قبر تیا رہے۔ صاحبو مٹی دیجئے  اور مرحوم کے لئے فاتحہ۔

(سسکیوں کی آواز)

چچا:نہ روؤ بھائی، صبر سے کام لو، مرحوم کی روح کو تکلیف ہو گی، اب ان کے لئے دعائے مغفرت کرو، یہی سب کا آخری انجام ہے اللہ بس باقی ہوس۔

(بجلی کی کڑک جملہ کو کاٹ دیتی ہے۔)

ایک:بس تو یہاں قریب کہیں سے ملتی ہو گی۔

دوسرا :بارش ہے کہ آج تھمنے کا نام نہیں لیتی۔

تیسرا:قبر کی مٹی برابر کر دو بھائی  اور یہ ہار پھول سرہانے سجا دو۔

چوتھا:آؤ اس چھتری کے نیچے آ جاؤ۔ بس اسٹینڈ تک چلے چلتے ہیں۔

(بجلی کی کڑک جملے کو کاٹ دیتی ہے۔)

پہلا :اللہ بس باقی ہوس۔ اللہ باقی من کل فانی۔

دوسرا :بس یہیں قریب سے ملتی ہے۔ یہ سامنے سڑک چل رہی ہے جس پر وہ سائیکل سوار چھتری لگائے گاتا چلا رہا ہے۔(گانے کی آواز) یہ زندگی کے میلے۔ یہ زندگی کے میلے  اور۔۔۔ افسوس ہم نہ ہوں گے۔

چچا:چلو بھائی چلیں۔

 بھائی جان:شبو بھائی کو تیری گود میں سونپ چلا ہوں۔ مٹی کی چادر تجھے میں نے اپنا سب سے بڑا ساتھی سونپا ہے۔شبو بھائی، الوداع شبو بھائی۔

(رونے لگتا ہے۔)

چچا:چلو۔ عزیز من اب چلو۔ اندھیرا بڑھتا جا رہا ہے۔ سب چلے گئے۔

(بارش  اور بڑھ جاتی ہے  اور بجلی کڑک کر یکبارگی خاموش ہو جاتی ہے)

آواز:تو آخر تم آ ہی گئے۔

شبو:کون ہو تم؟

وہی آواز:(ہلکی سی ہنسی)مجھے نہیں پہچانتے۔ ہاں میں بھول گئی ابھی تو تمہارا کفن بھی میلا نہیں ہوا ہے۔ ابھی تو تم جاتی دنیا کے غلام ہو۔

شبو:غلام، میں؟

وہی:ہاں ابھی تو جسم کے بندھنوں میں جکڑے ہوئے ہو۔ جس میں تمہاری دنیا حسن  اور بدصورتی کے جلوے دیکھتی ہے۔ جس میں تم کمزور  اور  مضبوط، اعلیٰ  اور  ادنیٰ، مرد اور عورت، گورے  اور کالے کا بٹوارہ کرتے ہو۔(ہلکی سی ہنسی) مگر اب آزادی میں بس تھوڑی ہی دیر اور ہے۔

شبو:آزادی!کیسی آزادی؟

آواز:تمہارا بے داغ کفن زمین کے لاکھوں کروڑوں ان جانے مہمان چاٹ ڈالیں گے پھر وہ آئیں گے جنھیں تم نے کبھی مہمان نہیں بنایا وہ کیڑے مکوڑے ، سانپ، بچھو، کاکروچ، سنپولئے یہ سب کب سے تمہارے جسم کے بھوکے ہیں۔

شبو:تم کیسی ڈراؤنی باتیں کرتی ہو؟

آواز:(پھر ہلکی سی ہنسی) یہی تو کہتی ہوں ابھی ڈرتے ہو، سارے جسم ڈرتے ہیں ، ان پر گوشت نہیں خوف کا ماس ہے۔

شبو:تم نہیں ڈرتیں؟

آواز:کبھی ڈرتی تھی جب میرے ہونٹ جن پر شاعروں نے نظمیں لکھیں۔ چیونٹیوں کی خوراک بن گئے۔ جب میری سیاہ زلفیں جن کو کالی ناگن کہا گیا تھا مٹی میں مل کر راکھ ہو گئیں۔ میرے رخسار جن پر چاندنی ناچا کرتی تھی کیڑوں کی نذر ہو گئے۔ میرا گداز سینہ، میری نرم  اور  شفاف رانیں کاکروچ  اور جھینگر کھا گئے  اور دھیرے دھیرے  میں جسم  اور  ڈر سے آزاد ہو گئی۔

شبو:تم کون ہو؟

آواز:میں صرف چند بچی کچی ہڈیاں  اور ایک آواز، گھبراؤ نہیں موت بڑی مسیحا ہے تھوڑی دیر میں تم بھی آزاد  اور بے خوف ہو جاؤ گے۔ پھر تمہیں سانپ بچھو بھی ڈرا نہیں پائیں گے۔ موت آزادی دیتی ہے۔

شبو:آزادی  اور صورت۔

آواز:ہاں موت آزادی دیتی ہے۔ ہر قید اور بند سے آزادی۔ جب تمہاری آنکھیں مٹی میں مل چکی ہوں گی۔ تم دیکھو گے کہ انسانی جسم کیا تھا جس سے چند لمحے کی لذت لینے کو تم نے جرم قرار دیے رکھا تھا  اور  اس کے اصول مقرر کر رکھے تھے وہ فرق کیا تھا جو تم نے عورت  اور  مرد کے درمیان قائم کر رکھا تھا کیا ہم تم برابر نہیں ہیں۔

شبو:ہم تم!!!کون ہم تم؟

آواز:تم مرد اور میں عورت۔ کیا دونوں برابر نہیں ہیں؟

شبو:اس لمحے سب برابر ہیں۔ سب مٹی کے کھلونے مٹی میں۔

آواز:بارش زوردار ہو رہی ہے۔ کیڑے جلد ہی نکل کر تمہیں کھا جائیں گے پھر میری ہڈیاں تمہاری ہڈیاں بھی نکال لے جائے یا کوئی بھوکا کتا اسے سڑک کے کنارے لے جا کر بھنبھوڑنے لگے۔

شبو:چپ ہو جاؤ، خدا کے لئے چپ ہو جاؤ۔

آواز:خاموشی کس کس سچائی چھپا سکے گی۔ قبرستان والی سڑک کے کنارے بارش میں بھیگے جسم اب ملنا چاہ رہے ہیں۔ ایک لمحے کی لذت کی خاطر  اور  دیکھتے ہو آج بھی وہ لڑکی کن کن خطروں کو دل میں لئے سمٹی جا رہی ہے لذت سے دور بھاگتی جا رہی ہے۔ شاید اس لئے کہ وہ اس لڑکے کے ساتھ گھر نہ بسا سکے گی شادی، عصمت، خاندان یہ سب جسم سے آزاد ہونے کے بعد کیسی عجیب سی چیزیں لگتی ہیں۔

(ہنسی۔ طنز سے بھرپور ہنسی)

(بارش کا شور، بجلی کی کڑک)

شبو:موت کتنی عجیب ہے۔

آواز:یوں ہی کہہ لو۔ مگر زندگی عجیب تر ہے۔ وہ دن تمہیں یاد ہے جب میں بمبئی سے تعلیم پوری کر کے گھر لوٹی تھی۔

شبو:مارویلیس، ونڈر فل

شبو:مارویلیس، ونڈر فل۔ آپ نے تو کمال ہی کر دیا۔ گھرکو واللہ ایسا سجایا ہے کہ بالکل اشوکا ہوٹل معلوم پڑ رہا ہے۔

بھابھی:آؤ شبو۔

شبو:آ رہا ہوں بھابی۔ آسمان سے زمین پر آ رہا ہوں۔ مگر یہ تو بتائیے کہ آپ کی جان کی قسم یہ دو دن میں کیا ماجرا ہو گیا۔ قصہ کیا ہے۔ کیا کسی فلم کی شوٹنگ کا پروگرام ہے۔

بھابھی:ہماری ساس کو جانتے ہو تم۔ ان کے آگے کسی کی چلتی ہے بھلا۔

شبو:پھر وہی کراس ورڈ پزل میں گفتگو شروع کر دی۔ اگر اتنا بھیجا اپنے پاس ہوتا تو کروڑ پتی ہوتے ، چار چھ کاریں زوں سے دائیں طرف سے نکلتیں ، آٹھ دس بائیں طرف سے ، یا اس وقت یہ بندۂ ناچیز چاند کی سطح پر چاند بگھی میں بیٹھا حوروں کو رجھا رہا ہوتا۔ سیدھی سادی اردو زبان میں بتائیے۔ واقعہ کیا ہے؟

بھابھی:ہماری ساس کے ایک اکلوتی بیٹی ہے ناہید۔

شبو:ہے۔

بھابھی:وہ پڑھ لکھ کر ایم اے پاس ہو کر بمبئی سے لوٹ رہی ہے۔

شبو:لوٹ رہی ہے تو پھر۔

بھابھی:تو پھر اس کا استقبال۔

شبو:واللہ اتنی سی بات جسے افسانہ کر دیا۔

بھابھی:نہیں شبو!افسانہ نہیں بالکل حقیقت ہے۔

شبو:آداب!اماں حضور۔

بیگم:جیتے رہو بیٹے۔ میں نے تمہیں اسی لئے بلایا تھا۔ ناہید کا ہاتھ بچپن ہی میں ہم تمہارے ہاتھ میں دے چکے ہیں۔ آج ہم چاہتے ہیں کہ منگنی کی رسم بھی ادا ہو جائے۔

شبو:کمال کر دیا اماں حضور آپ نے ایسا(شہنائی کی آواز پس منظر سے ابھرتی ہے)S.O.S.   طریقے پر بلایا کہ میں سمجھا مرمت نہ سہی گو شمالی تو ضرور ہو گی  اور  یہ معاملہ نکلا منگنی کا۔

چچا:جی ہاں برخوردار یہ بھی گوشمالی کی ایک نئی قسم ہے۔

شبو:آداب چچا جان!آپ کی منگنی نہیں ہوئی تو آپ نے اسے گوشمالی قرار دے دیا ہے معاف کیجئے گایہ رتبہ بلند  ملا جس کومل گیا، سمجھے چچا جان صاحب۔

چچا:خوب سمجھا۔ مگر سنو شبو۔ جس کے پاس آنے والی نسلوں کے لئے اولاد کے سوا  اور کچھ دینے کونہ ہو اس کے لئے یہی منگنی بیاہ کا مشغلہ ٹھیک ہے۔

شبو:آپ ٹھہرے آرٹسٹ۔ آپ کے پاس تو دنیا کو دینے کے لئے فن  اور  بصیرت کا خزانہ تھا خزانہ۔ لہٰذا آپ نے شادی نہیں کی ہے نا یہی بات! اب تو ہو جائیے قائل۔ قسم خدا کی چہرہ پڑھ کر پورے Dialogue   منہ زبانی سنا دئیے۔

چچا:عورت، شادی، خاندان، بچے۔ دوسروں کے لئے یہ زندگی ہے میرے لئے یہ رنگ ہیں جن سے میں زندگی کی تصویر بناتا ہوں۔ انسان ان جھمیلوں کے لئے نہیں یہ کھلونے البتہ انسان کے لئے ہیں۔ ان سے کبھی کبھی تسکین پائے  اور  کے ذریعے اپنی پوری طاقت کو ظاہر کر دے۔ ان سے کھیلے ان کا کھیل نہ بنے۔

بھابھی:اے ہے شبو میاں !تم کہاں الجھ پڑے۔ گاڑی آنے کا وقت ہو رہا جاؤ اپنی پھول دار شیروانی  اور چوڑیدار پاجامہ پہن آؤ۔ دلہن کا ٹھاٹھ دار استقبال ہونا چاہئے۔ برات کے ہونے والے دولہا تو تمہیں ہو۔

شبو:بھابھی!واللہ آپ تو شرمندہ کرتی ہیں۔ اپن تویوں ہی اتنا جچ رہے ہیں پھولدار شیروانی پہن لی تو پوری عورت جاتی غش کھا کر گر پڑے گی۔

(گھنٹہ چار بجاتا ہے۔)

بیگم:برجیس دلہن۔

بھابی:جی اماں حضور۔

بیگم:ذرا اسٹیشن ٹیلی فون کرو۔ یہ لوگ ابھی تک نہیں آئے گاڑی لیٹ ہے کیا؟

 بھائی جان:گاڑی لیٹ نہیں تھی امی جان۔

بیگم:تمہیں ناہید کو لینے اسٹیشن بھیجا تھا۔

 بھائی جان:وہ نہیں آئی۔

بیگم:یہ ناممکن ہے ایسا ہو نہیں سکتا۔

 بھائی جان:امی جان!پوری گاڑی چھان ماری، ایک ایک ڈبہ کو دس دس بار دیکھا اس کا کہیں پتہ نشان نہیں ملا۔ ہو سکتا ہے دوسری گاڑی سے۔

بیگم:نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ میری بچی سے ایسا نہیں ہو سکتا۔ میرے گھر میں کوئی بے قاعدہ بات نہیں ہو سکتی۔

شبو:واللہ اماں حضور۔ آپ خوامخواہ۔

بیگم:(بات کاٹ کر) شبو!

شبو:میرا مطلب ہے سب ٹھیک ہو جائے گا دیر سویر سو ہی جاتی ہے۔

بھابھی:میں کہتی ہوں تم نے ٹھیک سے دیکھا بھی تھا۔ (ASIDE)   اماں حضور کو تو جانتے ہو وہ زمین آسمان ایک کر ڈالیں گی۔

 بھائی جان:میرا  اعتبار کرو۔ میں نے انھیں دو آنکھوں سے ایک ایک ڈبہ دیکھ ڈالا جن سے تمہیں دیکھ رہا ہوں جان من۔

بھابھی:چلو ہٹو۔ تمہیں ہر وقت چونچلے سوجھتے ہیں۔

(موٹرسائیکل کی پھٹ پھٹ سنائی دیتی ہے۔)

چچا:ناہید۔

بیگم:کہاں۔

(موٹرسائیکل کی پھٹ پھٹ  اور قریب آ جاتی ہے۔)

چچا:موٹرسائیکل پراس اجنبی کی کمر میں ہاتھ ڈالے ہوئے؟

ناہید:ہیلو۔ اویری باڈی(Every Body)   امی حضور آپ نے اسٹیشن پر کسی کو نہیں بھیجا۔ اوہو گھر کو ایسا سجایا ہوا ہے کہ بس! بھائی جان، بھابی، اوہ چچا جان(سب سے ملتی ہے۔) امی حضور۔

بیگم:(کوئی جواب نہیں دیتی۔)

ناہید:اوہ میں بھول گئی یہ ہیں میرے دوست۔ ملک کے مشہور باکسنگ چمپئن ملک۔  دراصل بارش بہت زور کی ہو رہی تھی۔ ٹیکسی والے نخرے دکھا رہے تھے۔ مسٹر ملک نے مجھے لفٹ (Lift)   دے دیا میں انھیں کی موٹر سائیکل پر چلی آئی۔

شبو :ارے بھئی بہت اچھا ہوا تم نے بتا دیا ورنہ ہمیں تو ان کی موٹرسائیکل پر چاند گاڑی کا شبہ ہونے لگا تھا۔

ناہید:شبو ڈیر۔ تم!

شبو:جی ہاں یہ خاکسار بالکل فلمی ہیرو کے روپ میں !شیروانی پھول دار۔ پاجامہ چست، ٹوپی اصلی نکے دار۔

بیگم:ناہید تمہارے کپڑے بھیگ گئے ہیں اندر آ جاؤ  اور سب لوگ بھی دیوان خانے میں چل کر بیٹھیں۔

ناہید:اس برآمدے میں بھی تو کتنا  اچھا لگ رہا ہے امی حضور!بارش کے ہلکے ہلکے چھینٹے۔

ملک:اچھا اجازت دیجئے۔

شبو:اتنی جلدی۔

ملک:جلدی ہے۔

شبو:واللہ بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔ امید ہے آئندہ بھی ملاقات ہو گی مگر باکسنگ(Boxing)   والے دستانوں کے بغیر۔بات یہ ہے ملک صاحب کہ مجھے اپنی جان بہت عزیز ہے  اور باکسنگ سے میری جان جاتی ہے۔

ملک:مردوں کا کھیل ہے۔

شبو:او۔ کے باس!!او۔ کے !

ملک:او۔کے۔

(موٹرسائیکل اسٹارٹ کرتا ہے  اور چلا جاتا ہے۔)

بیگم:آپ لوگ اس طرح کب تک کھڑے رہیں گے۔

شبو:(تالیاں بجا کر) تخلیہ، تخلیہ، تخلیہ۔

بیگم:ہم نے تمہیں اپنا خون پسینہ ایک کر کے پروان چڑھایا ہے۔ راتوں کی نیند  اور دن کا آرام نہیں جانا۔ ہم جان دے سکتے ہیں۔ آبرو سے نہیں کھیل سکتے۔ تم اتنے بڑے خاندان کی چشم و چراغ ہو۔ تم اس گھرانے کی آبرو ہو۔ زندگی بھرکے ہمارے خواب تمہاری امانت ہیں  اور تم ان سے کھلونوں کی طرح کھیلنا چاہتی ہو۔ نادان لڑکی۔ ہم اس کھیل کو برداشت نہیں کر سکیں گے۔

ناہید:(خاموش رہتی ہے۔)

بیگم:ہم جاننا چاہتے ہیں (خاموشی) بولو۔

ناہید:مجھے کچھ نہیں کہنا ہے۔

بیگم:یہ ناممکن ہے۔ تم خاموش رہ کر ہمارا مذاق اڑانا چاہتی ہو۔

ناہید:نہیں۔

بیگم:ہم نے بڑے ارمانوں سے تمہاری واپسی کا  انتظار کیا۔ اس گھر کے ایک ایک کونے کو سجایا۔ آج ہماری زندگی کا سب سے بڑا خواب پورا ہونے والا تھا۔ ہم اپنے سارے قول و قرار پورے کرنے والے تھے۔ شبو کو ہم تمہارا ہاتھ سونپ چکے ہیں آج اس سے تمہاری منگنی  اور  پھر شادی۔

ناہید:مجھے منظور نہیں۔ امی حضور!

بیگم:گستاخ، بدتمیز۔

ناہید:مجھے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا۔

بیگم:تمہیں کہنا ہو۔ بہت کچھ کہنا ہو گا۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ تمہارے فیصلے کس طرح کئے گئے ہیں۔ ہمیں یہ جاننے کا پورا پورا حق ہے۔

ناہید:ممی ویری ساری (Very Sorry)   ممی ڈیر۔ خاموشی میرا بھی حق ہے کم سے کم یہ حق تو مجھے ملنا ہی چاہئے۔

تیسرا سین

بھابھی:اے ہے باجی اماں کو خواہ مخواہ ضد ہو گئی ہے۔آخر کون سی عمر نکلی جا رہی ہے بچہ ہی توہے۔ اس وقت چپ کھینچ جائیں کچھ دنوں میں اپنے آپ ٹھیک ہو جائے گی وہ تو ہاتھ دھوکر لڑکی کے پیچھے پڑ گئی ہیں۔

 بھائی جان:اماں حضور کی بات اس گھر میں کسی نے ٹالی ہے کبھی۔

بھابی:مگر اب زمانہ  اور ہے میرے سرتاج۔

 بھائی جان:کہتی تو تم ٹھیک ہو۔ میرا دماغ تو کچھ کام نہیں کرتا۔اچھا لاؤ ایک پیالی گرم گرم چائے تو ادھر بڑھاؤ۔

بھابی:میری تو جیسے بھوک پیاس اڑ گئی ہے۔

 بھائی جان:فکر کرنے سے کیا ہو گا۔ چائے آج اچھی بنائی ہے تم نے۔

بھابی:تم باجی اماں کو نہیں سمجھاتے۔ ضد دلا کروہ لڑکی کو ہاتھ سے گنوا دیں گی۔

 بھائی جان:نا بابا۔ میرے بس کی بات نہیں ہے۔ مجھے تو آج بھی ان سے ڈر لگتا ہے۔

بھابی:لڑکپن میں کون شادی سے انکار نہیں کرتا۔ تم نے جلدی ہامی بھر لی ہو گی تو میں نہیں جانتی۔ پہلے پہل سبھی دون کی لیتے ہیں۔ رفتہ رفتہ سب ٹھیک راستے پر آ جاتے ہیں۔

 بھائی جان:میں تو پہلے ہی کہتا تھا کہ لڑکیوں کا زیادہ  پڑھنا لکھنا اچھا نہیں اب اس معاملے میں سوائے چچا جان کے  اور کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔

چوتھا سین

چچا:اس طرح چپکے سے الٹے پیر مت لوٹ جاؤ۔ تصویر بناتے وقت میری آنکھیں پیچھے بھی دیکھ سکتی ہیں۔ خاموش کیوں کھڑی ہو۔ بیٹھ جاؤ۔ مجھے سب کچھ معلوم ہو گیا ہے۔

ناہید:پھر تو کہنے کو کچھ نہیں رہ گیا ہے۔

چچا:خاموشی سے زیادہ کوئی آواز نہیں گونجتی۔ میری اس تصویر کو دیکھا تم نے۔ اس کا عنوان ہو گا ’’خاموشی‘‘ کیا خیال ہے؟

ناہید:(کچھ جواب نہیں دیتی۔)

چچا:چلو یہ خیال بھی خاموشی سے ادا ہو گیا۔

ناہید:چچا جان۔

چچا:بیٹا۔

ناہید:میں سمجھتی تھی آپ کے سوا اس گھرکو اور کوئی میری بات نہ سمجھ پائے گا۔ آپ نے شادی نہیں کی۔ اپنا الگ کنبہ، الگ خاندان نہیں بنایا۔

چچا:درست۔

ناہید:تا کہ آپ فرد کی طرح آزادی کے ساتھ زندہ رہ سکیں۔

چچا:ہیں۔

ناہید:ان دوستوں میں عورتیں بھی ہیں جو آپ کی محبوبائیں نہیں ، صرف دوست ہیں۔

چچا:درست۔

ناہید:زہرہ جان ہیں۔

چچا:تا کہ میری زندگی ویران نہ رہ جائے۔ بیٹا! زندگی کی بڑی سچائیوں کے لئے چھوٹی آسودگیوں کی قربانی ضروری ہے۔

چچا:کیا کہنا چاہتی ہو؟

ناہید:فرض کر لیجئے میں بھی ایک فرد کی طرح اپنی زندگی جینا چاہوں ، فرض کر لیجئے میرے پاس بھی آنے والی نسلوں کو دینے کے لئے بصیرت  اور  نشاط کا کوئی خزانہ ہو، فرض کر لیجئے۔۔۔

چچا:(غصے سے چیخ کر) یہ ناممکن ہے ، تم عورت ہو۔

ناہید:عورت ہوں کیا اسی لئے میں انسان نہیں ہوں۔ کیا اسی لئے میری زندگی مردوں کے لئے ہے کہ وہ مجھے گڑیا کی طرح سجائیں ، بنائیں۔ زیور کا نام دے کر میرے ہاتھ پاؤں میں کڑے  اور زنجیریں ، چوڑیاں  اور پائل پہنائیں ، اپنی ہوس کی خاطر میرے چہرے پر پاؤڈر، میرے ہونٹوں پر لپ اسٹک تھوپیں۔ میرے نیم عریاں جسم کی نمائش کر کے اپنی حیوانی خواہشات کو بھڑکائیں۔ میں صرف ان کی خواب گا ہوں کی زینت، ان کے بچوں کی ماں بن کر زندہ ہوں۔ کیا میری اپنی کوئی زندگی نہیں ہو سکتی۔

چچا:نہیں۔ میری بیٹی نہیں۔

ناہید:آخر کیوں نہیں؟کیا میں انسان کی طرح اپنی خاطر اپنی پسند کی زندگی گزارنے کا حق نہیں رکھتی۔

چچا:میں مرد تھا۔ سماج سے ٹکرانا میرے لئے ممکن تھا۔ تم عورت ہو کچل جاؤ گی۔

ناہید:جانتی ہوں۔

چچا:تم خاندان کی آبرو ہو۔

ناہید:مرد کے لئے جنس کے معنی لذت  اور عورت کے جنس کے معنی اولاد کیوں؟چچا جان!آپ ایک کلی کا رس لے کر دوسری کلی پر منڈلانے لگیں  اور عورت اس ایک لمحے کی قیمت اولاد کو پالنے پوسنے میں صرف کر کے ادا کرے۔ آج تو کم سے کم عورت کے لئے جنس کو محض لذت بننے دیجئے۔ صدیوں سے وہ صرف اولاد پیدا کرنے کی مشین ہے۔

چچا:اسی لئے ماں کا رتبہ سب سے بلند ہے۔

ناہید: اور اس بلندی کو ہم نے کس قیمت پر خریدا ہے۔ کیا عورت شیکسپیئر، تان سین  اور اقبال نہیں بن سکتی تھی  اور یہ سارے جوہر خاندان کی چکی نے پیس ڈالے کیونکہ مرد کو صرف جائیداد کا وارث درکار تھا۔

چچا:زندگی بہت سفاک ہے۔ بیٹی  اور ناکامی کی سزا موت ہے۔

شبو:قسم خدا کی چچا جان۔ وہ ڈائیلاگ بولے ہیں آپ نے کہ معلوم ہوا کہ اب انارکلی کو زندہ دیواروں میں چن دیا جائے گا۔بخدا آپ تو سچ مچ مغل اعظم ہیں مغل اعظم!

چچا:(ہنستا ہے) شبو میاں آؤ آؤ۔

شبو: اور ناہید  تو سچ مچ انارکلی کی طرح سیریس ہے۔ ارے بھئی اب ریہرسل ختم زندگی شروع۔ آیا خیال شریف میں۔

ناہید:تم کب آ گئے شبو؟

شبو:لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آپ نے یہ نہیں پوچھا کہ کب جا رہے ہو۔چچا جان! ذرا معاف کیجئے گا قصہ یہ ہے کہ میں  اور ناہید ذرا باہر جا رہے ہیں ذرا۔

چچا:جاؤ، باہر گھوم آؤ

ناہید:میں کہیں نہیں جا رہی ہوں۔

شبو:اس مسئلے پر غور کریں گے۔ ذرا اپنے کمرے کی طرف تو چلو۔

پانچواں سین

شبو:بھئی واللہ حد ہو گئی کیا شاندار ستار اڑا لائی ہو۔(ستار چھیڑتا ہے) یہ آخر سلسلہ کیا ہے۔ تمہارا کمرہ تو پرستان ہو گیا ہے۔ پرستان، آرایش ، محفل ایسی کہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی Costume Play   کا سیٹ ہے ستار کی موسیقی ایسی جیسے خواب میں دور کہیں پھوار پڑ رہی ہو اور تمہارا اداس حسن ایسا جیسے میر کا شعر۔

ناہید:تم سمجھتے ہو گے شبو مجھے تم سے نفرت ہے۔

شبو:بھئی ہم تو سچ مچ کے شہزادۂ گل فام ہیں ہم سے نفرت کیسے ہو سکتی ہے کسی کے ہیرو جو ٹھہرے ہیرو۔

ناہید:تھوڑی دیر کے لئے Serious   ہو جاؤ نا۔

شبو:غضب ہے۔ یہ اداکاری!واللہ غضب ہے۔

ناہید:Please 

شبو:جلتی ہوئی شمع کے پاس جا کر کہو ’’ڈارلنگ‘‘ میرا کہنا مان لے۔ دوچار پل کے لئے جلنا چھوڑ دے Please   فرسٹ کلاس Idea   ہے نا۔میں نہ ہنسوں گا تو مر جاؤں گا ڈارلنگ۔ بالکل Dead   ایک دم Dead And Gone۔

ناہید:تمہاری آنکھوں میں آنسو۔

شبو:گلیسرین کے ہیں۔ بالکل نقلی خدا کی قسم مزا تو بڑا آیا شہزادہ گل فام پھول دار شیروانی ڈالے ، بے داغ چوڑی دار پاجامہ پہنے ، نکے دار ٹوپی لگائے کھڑے ہیں  اور زن سے آئی ہیروئن۔ ٹوپی غائب، شیروانی کے پھول بوٹے ندارد  اور چوڑی دار کی چوڑی خلاص، ہیرو اور ہیروئن دونوں ایک پل میں دو بچے بن گئے۔ See   کے تختے پر بیٹھے ہیں۔ کبھی ایک آسمان پر دوسرا زمین پر۔ کبھی ایک زمین پر تو دوسرا آسمان پر۔ بڑا مزاآ رہا ہے اپنی قسم۔

ناہید:بہت ظالم ہو تم۔ کبھی اپنے سے بھی سچ نہیں بولتے۔

شبو:آداب عرض ہے کیا تخلص عطا ہوا ہے۔ جناب شبو خاں  ظالمؔ۔

ناہید:(ہنس پڑتی ہے۔)

شبو:اب ہوئی نہ بات بھئی۔ یہ نوحے مرثیے والا معاملہ ہمیں پسند نہیں ، ہمارے لئے تو موت کو بھی مسکراتے ہوئے آنا پڑے  گا ورنہ ہم اس کے ساتھ جانے سے انکار کر دیں گے۔

ناہید:سنو شبو۔ مجھے تم سے محبت ہے بے پناہ۔

شبو:سچGreat News    

ناہید:ہاں بے پناہ محبت ہے شبو۔ اس دنیا میں اگر میں نے کسی کو چاہا تو تمہیں شاید آئندہ پوری زندگی میں بھی تمہارے سوا  اور کسی کونہ چا ہوں گی۔

شبو:آخر میرا قصور۔ میری سرکار!

ناہید:لیکن میں نے تمہیں دوست  اور محبوب بنایا ہے۔ اپنا شوہر اپنا آقا نہ بنا سکوں گی۔

شبو:تو پھر آخر وہ بدنصیب کون ہو گا؟

ناہید:کوئی نہیں !

شبو:تو کھیل بغیر ہیرو کے جاری رہے گا۔ اب ہوئی نا بات۔

ناہید:جنس میرے لئے ایک لمحہ ہو گی پوری زندگی نہیں۔ یہ خاندان کے بندھن یہ اولاد پیدا کرنے کے کارخانے  اور یہ انسانی صلاحیتوں کی بربادی۔ مجھ سے نہیں دیکھی جاتی۔

شبو:میں دیکھ لوں گا۔ میری نظر بہت تیز ہے یار۔

ناہید:تم سمجھتے کیوں نہیں۔

شبو:پہلے آدمی ٹیلی فون کے تاروں پر  باتیں کیا کرتے تھے اب وائرلیس کا زمانہ ہے۔ اب تاروں کی ضرورت نہیں لفظوں  اور آوازوں کی بھی نہیں۔ ہم تم ایک دوسرے کو  اتنی اچھی طرح جانتے ہیں کہ سب لفظ بے کار ہو گئے۔ ایک بات کہوں۔

ناہید:کہو۔

شبو:ارمان تو یہ بھی تھا ناہید ڈیر کہ اپنا ایک چھوٹا سا ماڈل چھوڑ جاتے۔ دنیا بھی کیا یاد کرتی کہ جناب شبو خاں  ظالمؔ بھی اپنے زمانے میں تھے ایک چیز۔ مگر یہ بھی کچھ براIdea   نہیں ہے کہ رہتی دنیا تک ہماری کوئی مثال ہی پیدا نہ ہو۔ بے نظیر بے مثال۔ چلو یار اچھے رہے ہم تم۔

ناہید:(رندھی ہوئی آواز میں) شبو۔ تم بڑے ظالم ہو۔ اپنے اوپر بھی ظلم کرنے سے باز نہیں رہتے۔

شبو:آنسوؤں کی نہیں ٹھہری ہے دوست!لاؤ ملاؤ پلاؤ والا ہاتھ لو اب ہنس دو۔

چھٹا سین

بھائی جان:مجھے افسوس ہے ناہید مگر میں مجبور ہوں۔

ناہید: بھائی جان آپ۔۔۔؟!

 بھائی جان:ہاں مجھے آنا ہی پڑا۔ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ اماں حضور کی بات رہ جائے۔

ناہید:نہیں۔

 بھائی جان:تم انھیں جانتی ہو۔ وہ حکم عدولی برداشت نہیں کر سکتیں۔ اس گھر میں ہمیشہ ان کا کہنا چلا ہے۔

ناہید:مجھے معلوم ہے۔

 بھائی جان:میری اکلوتی بہن! تجھے کیا یہ بھی معلوم ہے کہ تیرا بھائی تجھے کتنا چاہتا ہے۔

ناہید: بھائی جان۔

 بھائی جان:ہاں۔ ناہید میں تجھے اپنے پیار کا واسطہ دیتا ہوں۔اماں حضور کی بات مان لے۔

ناہید:مجھے قسمیں نہ دیجئے بھائی جان۔ میرے قدم پیچھے نہ ہٹ سکیں گے۔

 بھائی جان:کیا ایسی کوئی صورت نہیں؟

ناہید:نہیں۔ کوئی صورت نہیں۔

 بھائی جان:اماں حضور کا حکم ہے۔

ناہید:میں ہر ایک حکم کے لئے تیار ہوں۔

 بھائی جان:حکم ہے کہ آج  اور ابھی یہاں سے چلی جاؤ اور پھر (آواز رندھ جاتی ہے) پھر کبھی واپس نہ آنا۔ سن لیا ہے تم نے۔

ناہید:سن لیا۔ حکم کی تعمیل ہو گی۔

دروازے پر دستک

(دروازے پر دستک)

ناہید:کون ہے۔۔۔  اندر آ جاؤ۔ اوہ ملک تم؟

ملک:Is anything the matter 

ناہید:(رندھی ہوئی آواز میں۔ آنسو پی کر)نہیں۔ کچھ نہیں۔

ملک:ہمیں بولو۔ ہم سب ٹھیک کریں گا۔(چٹکی بجا کر) ایسا موافق ٹھیک کر دے گا۔

ناہید:کسی کو ٹھیک کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سنو۔

ملک:Yes 

ناہید:تمہاری موٹرسائیکل خالی ہے نا!

ملک:OK - Yes 

ناہید:چلو کہیں چلیں۔ میرا دل آج گھبرا رہا ہے۔ چلو کہیں دور چلیں۔

ملک:کدھر؟

ناہید:جوہو، سینڈس۔

(موٹرسائیکل اسٹارٹ کرتا ہے  اور دونوں روانہ ہو جاتے ہیں۔)

(یہی آواز نہایت تیز اور شہوانی قسم کی موسیقی میں مل جاتی ہے جو کہیں دورجو، ہو، کے  ریتیلے میدان میں بج رہی ہے۔ موسیقی ذرا ہلکی ہونے پر دونوں کی گرم گرم  اور لمبی لمبی سانسوں کی آواز سنائی دیتی ہے۔ دونوں ہانپ رہے ہیں۔)

ناہید:ہوا کتنی ٹھنڈی ہے۔

ملک:اوہ تمہیں تو ٹھنڈ لگی ہے قریب آ جاؤ۔

ناہید:(دور سے موسیقی کی دھن) زندہ رہنے کے لئے ایک لمحہ!یہ اندھیرا، یہ ہوا، یہ بکھرتی موسیقی۔۔۔ یہ گرم جسم۔۔۔

ملک: اور قریب آ جاؤ۔

ناہید:

ملک:

ناہید:سنو کوئی گا رہا ہے۔

ملک:

ناہید:My God

ملک:تمہارا جسم ریت کی طرح ملائم ہے۔

ناہید: اور تم پتھر کی طرح سخت۔

ملک:I Love You

ناہید:I Hate You

ملک:How Lovely

ناہید:دیکھو اور قریب نہ آؤ۔۔۔ دیکھو۔۔۔ دیکھو۔۔۔ !!!

ملک:میں نے تمہیں جیت لیا!!

ناہید:جسم، جسم، جسم۔۔۔ !!تو نے ہماری روحوں کو، ہمارے خوابوں کو کیسا غلام بنا رکھا ہے۔

(موسیقی پھر ابھرتی ہے۔)

آٹھواں سین

(دروازے پر دستک)

شبو:مطلع عرض ہے تجھے ڈھونڈ ہی لیں گے کہیں نہ کہیں۔ کہئے کچھ قائل ہوئیں اپن بھی لاجواب ہیں۔ دنیا کے آخری طبق میں بھی چھپو گی تو یار خان کی نظروں سے نہ بچو گی ہے نا یہی بات!

ناہید:شبو، حد ہو گئی۔ یہ تمہیں اس مکان کا پتہ کیسے لگ گیا؟

شبو:وہ جو ایک جیبی گھڑی ہے ہمارے سینے میں بائیں طرف، بس وہ راستہ بتاتی گئی ہم چلتے گئے  اور دیکھا تم نے۔ ایک دم تمہارے دروازے پر ٹک ٹک!

ناہید:گھر پسند آیا؟

شبو:وہ گھر تم سے بڑا تھا اس گھر سے تم بڑی ہو۔ ہے خدا  کی قسم عجائب گھر  اور  سناؤ کیا ہو رہا ہے تازہ خبر۔

ناہید:اپنی دریافت۔

شبو:واہ۔ واہ کیا مصرعہ کہا ہے۔ کولمبس نے امریکہ دریافت کیا۔ مگر اپنے کو دریافت کرنا بھول گیا تھا۔

ناہید:سچ میں اپنے کو کھوج رہی ہوں۔ جانتے ہو شبو! لوگ سب سے زیادہ کس سے ڈرتے ہیں۔ اپنے آپ سے۔ تمام زندگی وہ اپنے آپ منہ چھپائے پھر تے ہیں ، بھاگتے ہیں ، مصروفیت میں اپنے کو دفن کر دیتے ہیں  اور آخر ایک دن اپنے سے بھاگتے بھاگتے  قبر میں جا گھستے ہیں۔ موت آسان ہے۔ اپنے سے آنکھیں چار کرنا مشکل ہے۔

شبو:یہ تو ہوا مگر یہ تو کہو موہنجودارو کی کھدائی میں ملا کیا؟

ناہید:ایک بات یقینی ہے۔ یہاں آؤ کھڑکی کے پاس چاروں طرف دیکھو۔ یہاں جھگی جھونپڑیوں میں پتھر  کوٹنے والی، مٹی ڈھونے والی عورتیں آباد ہیں۔ میں ان کو کچھ سکھ  اور  کچھ غصہ دے سکوں گی۔

شبو:غصہ مردوں کے خلاف۔

ناہید:نہیں !مردوں کے خلاف غصہ عورت کو طوائف بنا دیتا ہے۔ظلم کے خلاف غصہ عورت کو انسان بنا دیتا ہے۔

شبو:نوکری مل گئی ہے کیا؟

ناہید:ان لوگوں میں رہوں گی، ان لوگوں کے لئے ہو رہوں گی تو کیا میرے جینے کا بھی  سبھیتا نہ کر پائیں گی۔ ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ، ان گھروں کی خوشحالی  اور ان کی آنکھوں میں جینے کا غرور بیدار کرنے کے لئے بغاوت کے شعلے پیدا کر سکوں گی تو کیا زندگی بھی نہیں ملے گی۔

شبو:تم سٹ گئی ہو۔ لہٰذا ہو جاؤ گی لیڈر قوم۔ لوگ تمہاری جے بولیں گے  اور  ہم جلوس کے پیچھے پیچھے چلاتے ہوں گے (چلا کر) ہم کو بھی ساتھ لے لے ہم رہ گئے اکیلے۔

ناہید:میں آزاد ہوں شبو۔ میں گیت لکھوں گی، میں تصویریں بناؤں گی، میں ناچوں گی، گاؤں گی، میں آزاد ہوں۔ شاید کبھی اپنے کو پا سکوں۔ شاید

شبو:تب تو کمال ہی ہو جائے گا یعنی انسان سے بھی آگے جا پہنچے گا۔

ناہید:میں جانتی ہوں شبو۔ میں اس سماج کونہ بدل سکوں گی۔ ایک آدمی پوری دنیا سے کیسے ٹکرائے گا مگر  وہ کم سے کم سوالیہ نشان تو لگا سکتا ہے۔ آنے والے انسانوں کے سینے میں کھٹک تو پیدا کر سکتا ہے۔ شاید پورے نظام کے بدلنے کے لئے ان سب انسانوں کی مدد چاہئے جو میرے چاروں طرف آباد ہیں۔ تپتی ہوئی دوپہر میں جلتی سڑکوں پر کنکر کوٹتی ہوئی عورتیں۔ بھاری پتھر کاٹنے والے مفلس نادار انسان جن کے پاس کھونے کے لئے کچھ نہیں ہے  اور جیتنے کے لئے پورا جہاں ہے۔

شبو:بخدا بڑی دھواں دھار تقریر فرمائی ہے۔ تم نے ایسی دھواں دھار کہ مجھے جماہیاں آنے لگیں۔ از قسم چائے وغیرہ یہاں نہیں ہوتی ہے کیا؟

ناہید:کیوں؟

شبو:کچھ پیاس ہی بجھ جاتی  اور اگر تمہارے پاس والے ڈبے میں کچھ بسکٹ وغیرہ ہوں تب تو عیش ہو جائیں عیش۔

ناہید:(ہنس دیتی ہے)تمہارے یہ جملے تو مجھے مرنے کے بعد بھی چین سے نہیں رہنے دیں گے۔

شبو:کیوں بھئی ویسے مرنے کا ٹائم ٹیبل کیا ہے؟ذرا مفصل بیان کرو۔

ناہید:مجھے زندگی کا وہ ارمان ہے کہ مرنے کی فرصت نہیں۔

شبو:دیکھا صفا صفا ٹال گئیں نا۔ ہو تم بہت وہ یعنی سخت خبیث۔

ناہید:نہیں شبو۔ بس ایک ارمان ہے کہ اپنے ارمان کی ایک چھوٹی سی چنگاری اردگرد کے بسنے والے ان مردوں، عورتوں کے سینے میں چھوڑ جاؤں جینے کی تڑپ  اور عزت سے جینے کی تڑپ۔ زمین پر سر اٹھا کر کھڑے ہونے کا حوصلہ۔ بس جس دن یہ کام ہو گیا میں موت کے لئے تیار ہو جاؤں گی۔

شبو:اچھا بھئی!خطبہ ختم۔ چائے کا  انٹرول۔

بھابی:چائے لگ گئی ہے۔

بھابی:چائے لگ گئی ہے۔

 بھائی جان:پی لو نہ جا کر۔ دیکھ نہیں رہی ہوا بھی دانت بھی نہیں مانجھے ہیں منہ بھی نہیں دھویا ہے۔

بھابی:تو کیا منہ بھی میں ہی دھلایا کروں۔

 بھائی جان:تم ٹھیک کہتی ہو۔ ہم سب کتنے چڑچڑے ہو گئے ہیں۔ ناہید تو پہلے بھی یہاں نہیں رہتی تھی مگر اس کا اس بار جانا سب کو تلملا کر رکھ گیا ہے۔

بھابی:وہ تو نادان لڑکی ہے مگر تجربہ کار بزرگوں کو کیا ہوا ہے۔ضد پر اڑے رہنے سے کبھی کچھ ہوا ہے جو آج ہو گا۔ تم بھائی ہو کر ایسا خون سفید کئے بیٹھے ہو۔ بہن نہ جانے کہاں کہاں ٹھوکریں کھا رہی ہو گی۔ ایسے میں کھانا پینا کسے اچھا لگتا ہے۔

بھائی:کاش میں کچھ کر سکتا۔

بھابی:کر کیوں نہیں سکتے۔ صاف صاف کہہ دو۔

بھائی:کیا کہہ دوں؟

بھابی:اماں حضور سے صاف صاف کہہ دوکہ اگر ناہید اس گھر میں نہیں رہے گی تو

بھائی:تو۔۔۔؟

بھابی:توہم بھی یہ گھر چھوڑ کر چلے جائیں گے۔

بھائی:مگر کہاں جائیں گے؟دفتر کا کام کروں گا کہ مکان ڈھونڈوں گا۔

بھابی:ایسا کیسے سوچتے ہو۔ اماں حضور کوئی نکال تھوڑا ہی دیں گی۔

بھائی:تم انھیں نہیں جانتیں۔

بھابی:ان کے سینے میں بھی ماں کا دل ہے۔

بھائی:ان کے سینے میں دل ہے؟ مجھے اس میں شک ہے۔

بھابی:تم کہہ کے تو دیکھو۔

بھائی:ضرور کہوں گا۔

بیگم:بیٹے !جو کچھ کہنا ہے بعد میں کہنا پہلے چائے پی لو۔

بھائی:اماں حضور!

بیگم:چلو(تحکم کے لہجے میں) تم دونوں کی وجہ سے چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے۔

بھائی:دراصل اماں حضور۔ مجھے آپ سے ایک بہت ضروری بات کہنی ہے۔

بیگم:تم بہت کاہل ہو گئے ہو، ہمیں سستی نا پسند ہے ، ایسا لگتا ہے کہ تم نے ابھی تک دانت بھی نہیں مانجھے ، منہ بھی نہیں دھویا ہے۔ دلہن، تم نے بہت نرمی برت رکھی ہے۔ غضب خدا کا ساڑھے دس بج رے ہیں  اور  ابھی تک چائے ناشتہ نہیں ہوا ہے۔

بھائی:(منہ دھونا شروع کرتا ہے  اور منہ دھونے میں بولتا جاتا ہے) اماں حضور دراصل مجھے آپ سے۔

بیگم:(بات کاٹ کر) منہ دھونے میں باتیں نہیں کیا کرتے۔ دلہن اسے تولیہ دو چلو۔۔۔  اور وہ کون سی ضروری بات تھی؟

بھائی:اوہ کوئی خاص بات نہیں تھی۔ میں کہہ رہا تھا۔۔۔

بھابی:کہئے نا۔ اب کہتے کیوں نہیں۔

بیگم:کیا کہنا چاہتے ہو؟

بھائی:میں کہہ رہا تھا کہ آج کل چچا جان کی صحت گر گئی ہے۔ وہ آج کل کچھ کھا پی نہیں رہے ہیں۔

بیگم:اوہ۔ ہاں ، تم ٹھیک کہتے ہو۔ ڈاکٹر  کو ٹیلی فون کرنا چاہئے۔ دلہن بیگم۔ مغلانی بی بی سے کہو گرم چائے کی دوسری کیتلی بھیجیں۔ تم کیک پراٹھے  اور  کباب شروع کرو۔

بھائی:بہت اچھا۔۔۔  کباب آج بہت مزے دار ہیں۔

(چچا کا داخلہ)

چچا:بزدل۔۔۔ سب بزدل ہیں۔

بھائی:چچا جان!

چچا:ہمیں ایسی نظروں سے نہ دیکھو۔ تین دن ہو گئے ہیں ہمارے اسٹوڈیو کی ساری تصویریں ، ساری مورتیاں ہمیں انھیں نظروں سے دیکھ رہی ہیں جیسے ہم انسان نہ ہوں پتھر ہوں۔ آخر ہماری بھی آبرو ہے ، آخر ہمارے بھی منہ میں زبان ہے۔

بیگم:کیا کہنا چاہتے ہو؟

بھائی:چچا جان ٹھیک کہتے ہیں۔

بیگم:تم خاموش رہو۔ ہم ان کی زبانی سب کچھ سننا چاہتے ہیں۔

چچا:وہ لڑکی غلط نہیں کہہ رہی تھی، ہم تم غلطی پر ہیں۔ تم کو یہ حق کیسے حاصل ہو گیا کہ تم ہر نئے خیال کو ٹھوکر  مار کر اپنے جہان سے نکال دو۔ سراسر ظلم ہے۔

بیگم:یہ تم کہہ رہے ہو؟

چچا:صرف میں یہ کہنے کا حق رکھتا ہوں۔ میں نے اپنی بچپن کی منگیتر کو ٹھکرا دیا۔ زندگی بھرمیں نے شادی نہیں کی، میری راتیں زہرہ جان کے گھنگھروؤں سے آباد ہیں میں نے گھر نہیں بسایا۔ میں چاہتا تھا کہ میں جو کچھ بننا چاہتا ہوں بن سکوں۔ میں نے سارے بوجھ اپنے شانوں سے جھٹک کر دور پھینک دیئے  اور تم نے مجھے اس گھر سے نکال باہر نہیں کیا۔ کیوں؟میں پوچھتا ہوں کیوں؟باجی تم سے پوچھتا ہوں ، مجھے بتاؤ مجھے کیوں برداشت کیا گیا۔

بیگم:تم نے نافرمانی نہیں کی تھی۔

چچا:یہ جھوٹ ہے۔ میں نے سب کی نافرمانی کی تھی مگر باجی!میں مرد تھا۔ اس لئے مجھے برداشت کر لیا گیا۔ میں نے اپنی تصویروں کے رنگوں کے ذریعے اپنے آپ کو پا لیا  اور  دنیا کو رنگ  اور نور سے بھر دیا۔ یہ بصیرت میری جاگیر نہیں ہے باجی۔ ہو سکتا ہے ناہید کے پاس دنیا والوں کے لئے اس سے بڑا خزانہ ہو اور اگر نہ بھی ہو تو کیا اسے یہ حق نہیں کہ وہ اپنی بھرپور زندگی گذار سکے جیسے وہ چاہے جیئے۔

بیگم:کیا تم چاہتے ہو کہ عورت کو طوائف بننے کی آزادی دے دی جائے؟

چچا:نہیں۔

بیگم:تو پھر۔

چچا:صرف اتنا کہ وہ اولاد پیدا کرنے کی مشین نہیں ہے وہ بھی مرد کی طرح آزاد ہے۔ اسے بھی مرد کی طرح جنس  اور اولاد سے لطف اٹھانے کا حق حاصل ہے وہ بھی اپنی شخصیت کے جوہر سے زندگی کو نئی رعنائی دینے کے لئے آزاد ہے۔

بیگم:تو گویا عورت کتنے بلیوں کی طرح زندگی بسر کریں۔ ہم اسے برداشت نہیں کر سکتے۔ ہمارے خاندان۔۔۔

چچا:خاندان!خاندان!!خاندان!!! خاندان کو پورا شیرازہ ٹوٹ چکا، بکھر چکا آج بیسویں صدی میں کہاں ہے خاندان؟بوڑھے ماں باپ نرسنگ ہوم میں دن کاٹتے ہیں۔ بچے گھربار سے دور نوکریاں کرتے ہیں۔ عورت دفتر کی زینت ہے۔ باپ شاہراہوں پر سرگرداں۔ آج کا خاندان اکائیوں میں بکھر چکا ہے اس کے نام پر ناہید کو پھانسی نہ دو۔

چچا:نہیں باجی۔ نہیں۔ ہم نے آپ کا ہر حکم مانا ہے۔ اس چہار دیواری میں ہمیشہ آپ کی حکومت چلی مگر آج ایسا نہیں ہو گا ابھی  اور اسی وقت آپ کو میرے ساتھ چلنا ہو گا ہم ناہید کو واپس لائیں گے وہ اسی گھر میں رہے گی۔

بیگم:ہرگز نہیں۔

چچا:باجی ضد نہ کیجئے۔ ہم نے آپ کی ہر بات مانی ہے۔ ایک بات ایک بار آپ بھی مان لیجئے ہم وعدہ کرتے ہیں کہ آئندہ پھر کبھی آپ سے کچھ نہیں کہیں گے۔

بیگم:ضد نہ کرو۔

چچا:میں آخری بار ضد کروں گا۔ دلہن جاؤ شوفر سے کہو گاڑی نکالے۔ہم لوگ ناہید کو واپس لانے کے لئے جائیں گے۔

موٹرسائیکل کی آواز۔ دروازے پر دستک

(موٹرسائیکل کی آواز۔ دروازے پر دستک)

ناہید:اندر آ جاؤ۔۔۔ اوہ تم۔

ملک:ہاں میں ہوں۔ ملک!

ناہید:تمہارے دستانے پر خون؟

ملک:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سے آ رہا ہوں۔

ناہید:تم پریشان ہو؟

ملک:نہیں۔ ہم خوش ہے تھوڑا  اور خوش ہونا چاہتا ہے۔

ناہید:کیا مطلب؟

ملک:ہم۔۔۔ ہم نے پہلی بار تم سے پیار کیا ہم تمہیں ہم تمہیں چاہتا ہے ڈارلنگ ہم تم سے شادی کرنا مانگتا ہے۔

ناہید:شادی۔

ملک:ہاں شادی۔ ڈارلنگ شادی۔

ناہید:بات سنو ملک!میں نے زندگی بھر شادی نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

ملک:جھوٹ۔۔۔

ناہید:زندگی بہت بڑی ہے  اور شادی جنسی زندگی کی صرف ایک چھوٹی سی حقیقت ہی توہے۔

ملک:ہم نہیں سمجھا ہم تم سے شادی کرنا مانگتا ہے بولوYes Or No 

ناہید:No - No - No 

ملک:تم ہمیں بہت پسند ہے ، بہت زیادہ پسند ہے ڈارلنگ۔

ناہید: اور میں تم سے نفرت کرتی ہوں سخت نفرت کرتی ہوں۔

ملک:کیا کہا؟

ناہید:I Hate You 

ملک:تم نے اس دن تو ایسا نہیں بولا ہے۔

ناہید:ہاں اس دن تم نے مجھے صرف ایک لمحہ دیا تھا۔ لذت کا ایک لمحہ  اور  آج تم وہ ایک لمحہ لے کر میری پوری زندگی کا مول کرنے آئے ہو۔

ملک:۔۔۔ ہم نہیں دیکھ سکے گا تم ہماری ڈارلنگ ہو۔

ناہید:میں ایک انسان بھی تو ہوں میری اپنی ذات ہے۔

ملک:ہم اپنی ڈارلنگ کوکسی دوسرے کے پاس نہیں دیکھ سکے گا۔ہم تمہیں اپنائے گا تم ہماری ڈارلنگ ہو صرف ہماری۔

ناہید:کیسی باتیں کرتے ہو؟

ملک:ٹھیک۔ بالکل ٹھیک موافق بولتا ہے۔ ہم نے تمہیں چاہا ہے۔

ناہید:سنو ملک!یہ ناممکن ہے۔

ملک:سنو ڈارلنگ۔

ناہید:تم سمجھتے کیوں نہیں۔ میں بکاؤ نہیں ہوں۔

ملک:مگر ہم تمہارے بغیر نہیں جئے گا۔

ناہید:مجھے سمجھنے کی کوشش کرو۔ ساتھ ساتھ رہنے کے لئے صرف جسم ہی تو نہیں چاہئے ہم دونوں کے درمیان۔۔۔ کیا ہے۔

ملک:Love 

ناہید:میں نے کب کہا مجھے تم سے محبت ہے I Hate You۔ کیا تم صرف جسم کو محبت کہتے ہو؟

ملک:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ناہید:میں نے کوئی دھوکہ نہیں دیا۔

ملک:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ناہید:میں نے تم سے شادی کا وعد ہ کب کیا تھا؟

ملک:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ناہید:یہ جھوٹ ہے !یہ سب جھوٹ ہے !!

ملک:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ناہید:بالکل جھوٹ ہے۔ میں نے کب کہا تھا مجھے چا ہو؟میں تو صرف اپنی زندگی چاہتی تھی۔

ملک:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(ریوالور چلنے کی آواز، دوسری چیخ  اور اس کے بعد موٹرسائیکل کے اسٹارٹ ہونے کی آواز، جو دیر تک گونجتی رہتی ہے  اور اس کے بعد موٹر کار کی آوازوں میں مل جاتی ہے۔)

چچا:آؤ مجھے سب راستے معلوم ہیں۔ یہ ہے ناہید بیٹا کا مکان۔ دستک دو۔ کہیں سو نہ رہی ہو۔

(دستک دیتا ہے۔)

بھائی:کوئی جواب نہیں دیتا۔

بھابی:تعجب ہے۔

بھائی:دیکھئے چچا جان!آپ اسے نہ  ڈانٹئے گا۔ اس نے بہت دکھ جھیلے ہوں گے۔

چچا:دوبارہ دستک دو۔

گیارواں سین

بھابی:کوئی آواز نہیں۔ یوں ہی چلتے ہیں۔دیکھا ہم نہ کہتے تھے سو رہی ہے بالکل غافل پڑی سو رہی ہے۔ بیٹی ناہید! بیٹی اٹھو ہم تم سے معافی مانگنے آئے ہیں۔ تم ٹھیک کہتی تھیں ہم غلطی  پر تھے۔ بیٹی ہمیں معاف کر دو۔

(چیخ پڑتی ہے۔)

چچا:خون چاروں طرف خون کیسا ہے؟

بھابی:ناہید! یہ تم نے کیا کیا؟

چچا:ناممکن ہے۔ بالکل ناممکن۔ زندگی کے ارمان سے بھرپور جوانی خودکشی نہیں کر سکتی اسے قتل کیا گیا ہے۔ آخر تمہاری بے درد دنیا ایک چھوٹے سے خیال کی تاب بھی نہ لا سکی۔

(موسیقی کی لہریں دیر تک  امڈتی رہتی ہیں۔)

(فلیش بیک:قبرستان)

ناہید:(ہنستی ہے) سنا تم نے۔

شبو:ہاں۔

ناہید:میں کب سے تمہیں یہ سب کچھ سنانے کو تڑپ رہی تھی۔ وہ ہڈیاں جن سے گولی گزری تھی مٹی میں مل گئیں۔ کیڑوں نے انھیں چاٹ ڈالا۔

شبو:ناہید! میں نے تمہیں پہچان لیا۔ زندگی میں کوئی تمہیں نہ پہچان سکا۔ مرنے کے اتنے دن بعد تمہیں پہچانا ہے کہ پھر سے جینے کی خواہش ہوتی ہے۔

ناہید:تم اپنے قہقہوں  اور چلتے ہوئے فقروں  اور ہنسی سے بھرپور جملوں میں اپنے دکھ چھپاتے رہے وہ تمہیں کب جان سکے۔ میں چلا چلا کر انھیں اپنے دل کی بات سمجھاتی رہی، وہ ہنستے رہے پھر بھی نہ سمجھ پائے  اور  ملک نے اپنی عزت  اور ناموس کی خاطر مجھے  مار ڈالا۔ وہ اپنی دنیا کا کتنا سچا، کتنا پکا غلام تھا میں اس روز سے آج تک تمہارا انتظار کر رہی تھی۔ میں تم سے پوچھنا چاہتی تھی۔

شبو:کیا؟

ناہید:یہی کہ وہ چنگاریاں ابھی زندہ ہیں یا نہیں جنھیں میں ان جھونپڑوں میں چھوڑ آئی تھیں۔ کیا اب بھی کوئی باغی جوان مرد  اور عورتیں سربلند ہو کر چلتے ہیں؟کیا جوانوں میں اب بھی خوابوں کے لئے جل جانے کا حوصلہ ہے یا نہیں۔

شبو:میں کیا جواب دوں گا ناہید!البتہ جب میرا جسم بھی تمہاری طرح کیڑے کھا جائیں گے ، میری ہڈیاں بھی تمہاری طرح سارے بندھنوں سے آزاد ہو جائیں گی تب ہم تم بارش کے پانی میں بہتے ہوئے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لئے چلیں گے۔

***

ماخذ:’’مورپنکھی اور دوسرے ڈرامے ‘‘

مکتبۂ دین و ادب

۱۰!لاٹوش روڈ، لکھنؤ

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔