افراد:بھولا ناتھ
پروفیسر آنند
بنواری
کملا
ایک پنجابی، ایک ہندوستانی، ایک مارواڑی
اور کچھ دوسرے لوگ
(کمرہ بہت بڑا نہیں اور نہ بہت کشادہ ہے۔ کمرے میں دو چار پائیاں بچھی ہوئی ہیں اور دو کرسیاں اور ایک چھوٹی سی میز بھی رکھی ہے۔ اس لئے اسے سونے کا کمرہ بھی کہہ سکتے ہیں اور ڈرائنگ روم بھی۔ کمرے میں سامان وہی ہے جو کسی عام کلرک، اخبارنویس یا ایسی ہی پوزیشن کے کسی شخص کے ہاں ہو سکتا ہے۔ پردہ اٹھنے پر ہم آنند کو میز کے پاس رکھی کرسی پر بیٹھے ایک اخبار کی ورق گردانی کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
پروفیسر آنند شکل صورت سے پروفیسر معلوم ہوتے ہیں ، یہ بات نہیں۔ جب سے ہندوستان میں تعلیم کا رواج زیادہ ہوا ہے اور خوراک کا کم، تب سے کالجوں میں ایسے طلبا آنے لگے ہیں جنھیں بقول پطرس آسانی سے ان کی مائیں نصف ٹکٹ لے کر اپنے ساتھ زنانے ڈبے میں بٹھا سکتی ہیں۔ طالب علمی کے زمانے میں پروفیسر آنند شاید اسی قسم کے طالب علم تھے۔ حال ہی میں ایم اے کی ڈگری لے کر انھوں نے پڑھانے کا شغل اختیار کیا ہے اس لئے اس کی عمر یا شکل میں کچھ فرق نہیں ہوا۔ پہلی نظر میں انھیں بآسانی میٹرک کا طالب علم سمجھا جا سکتا ہے۔ اس وقت تو وہ پروفیسر کی پوشاک میں بھی نہیں ہیں۔ ایک تہمد اور قمیض پہنے ہوئے شاید حجامت بنا کر بیٹھے ہیں کیوں کہ صابن کی سفیدی ابھی تک ان کے چہرے پر لگی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور میز پر پڑا ہوا حجامت کا کھلا ہوا سامان بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے۔
پردہ اٹھنے کے کچھ لمحے کے بعد بھولا ناتھ دائیں طرف کے کمرے سے داخل ہوتا ہے جدھر شاید رسوئی ہے۔ شکل و صورت سے بھی بھولا ناتھ پروفیسر صاحب سے کچھ موٹا تازہ ہے لیکن پروفیسر صاحب کے چہرے سے جو دانشمندی ٹپکتی ہے اس کا وہاں فقدان ہے۔ سیدھا سا آدمی ہے۔ کندھے جھٹکنے کی عادت ہے۔ ایسے مردوں کو بار ہا لوگ زن مرید کہہ دیا کرتے ہیں۔ اس وقت اس کے چہرے پر گھبراہٹ جھلک رہی ہے۔ آنند بدستور اخبار دیکھنے میں محو ہے۔)
بھولا ناتھ:(پریشانی سے)یہ پھر آ گیا۔ تم میری مدد کرو۔ آنند۔ خدا کے لئے۔
آنند:(اخبار میز پر رکھ کر) آخر بات کیا ہے؟گھبرائے ہوئے کیوں ہو؟
(بھولا ناتھ پریشان سا چارپائی پر بیٹھ جاتا ہے۔)
بھولا ناتھ:یہ ایک بار آ جاتا ہے تو جانے کا نام نہیں لیتا۔
آنند:آخر معلوم بھی ہو کون ہے؟
بھولا ناتھ:ارے کون کیا؟را ہوں کا بادشاہ ہے۔
آنند:را ہوں کا!پھر تو تمہارا ہم وطن ہوا۔
بھولا ناتھ:(طنز سے) اب را ہوں کے ہزاروں آدمی میرے ہم وطن ہیں اور کمرے (کندھے جھٹک کر) میرے پاس صرف یہی دو ہیں۔
(مجبور ہنسی ہنستا ہے۔)
آنند:(حیرانی سے)تو کیا ان سے جان پہچان بھی نہیں؟
(اٹھ کر کمرے میں گھومتا ہے۔)
بھولا ناتھ:بس اس بات کا گنہ گار ہوں کہ اپنے چھوٹے بھائی سے ان کے کا رہائے نمایاں سنتا رہا ہوں یا پھر اپنے شہر کے ڈاکٹر بھگوان۔۔۔
آنند:را ہوں شہر نہیں قصبہ ہے۔
بھولا ناتھ:ارے ہاں وہیں ڈاکٹر بھگوان۔۔۔
آنند:(پھر قطع کلام کر کے) لیکن تم نے کہانا کہ یہ پھر آ گیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے بھی یہ صاحب تمہیں مہمان نوازی کا شرف بخش چکے ہیں۔
بھولا ناتھ:اب میں تمہیں کیا بتاؤں تم۔۔۔ تم۔۔۔ (کندھے جھٹک کر) ذرا بیٹھو تو تفصیل سے بیان کروں۔
(آنند چارپائی پر بیٹھنا چاہتا ہے۔)
بھولا ناتھ:ارے۔۔۔ ارے۔۔۔ یہاں کیا بیٹھتے ہو۔ وہ کرسی لے لو۔
(کرسی گھسیٹتا ہے۔)
آنند:میں یہیں اچھا ہوں۔ تم کہو۔
بھولا ناتھ:(پھر ذرا ہنس کر)بات یہ ہے کہ وہ میرا چھوٹا بھائی ہے نا سری رام۔ جیسا وہ خود آوارہ ہے ویسے ہی اس کے دوست ہیں۔ انھیں میں سے ایک کا نام سوم یا موم یا کیا جانے کیا تھا۔ وہ جب کبھی آتا تھا اپنے اس بھائی کی تعریف کے پل باندھ دیا کرتا تھا۔
آنند:دیش بھگت ہیں؟
بھولا ناتھ:خاک۔
آنند:شاعر؟
بھولا ناتھ:اس کی سات پشتوں میں سے کسی نے شعر کا نام نہیں لیا۔
آنند:تو مقرر؟سدھارک؟حکیم؟وید؟ڈاکٹر؟
بھولا ناتھ:(چڑ کر) تم سنتے ہو نہیں اور لے اڑتے ہو وہ تھے نا، مشہور ایکٹر ماسٹر فطرت۔ یہ ان کے ساتھ رہ چکا ہے۔
آنند:(قہقہہ لگا کر) تویوں کہو کہ یہ صاحب ایکٹر ہیں۔
بھولا ناتھ:اب ماسٹر فطرت کے مشہور ڈراموں ’’عشق کی آگ‘‘ اور ’’درد جگر‘‘ میں اس نے کوئی کام کیا ہے یا نہیں اس بات کا مجھے کوئی علم نہیں۔ اتنا سنا تھا کہ یہ ماسٹر فطرت کا دایاں ہاتھ ہے۔
آنند:لیکن اس بات سے تمہیں کیا دلچسپی؟
بھولا ناتھ:(ہنس کر) ارے بچپن تھا اور کیا؟جب ہم میٹرک میں پڑھتے تھے تو ان کے ناٹک پڑھنے کا بہت شوق تھا۔
آنند:’’عشق کی آگ‘‘، ’’درد جگر‘‘۔
(ہنستا ہے۔)
بھولا ناتھ:ارے بھائی ان دنوں ہمارے لئے ماسٹر فطرت ہی کالی داس اور شیکسپیئر تھے۔ اگر چہ ہمیں ان کے دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا لیکن ہم ان کے ناٹکوں کو پڑھ کر محلے کے ایک لڑکے سے ان کے گانے سن کرہی ان کے آرٹ کے قائل تھے۔
آنند: اور ان کے غیبی مداحوں میں سے تھے۔
بھولا ناتھ:تم اچھی طرح جانتے ہو مشہور مصنفوں ، لیڈروں ، ایکٹروں ، ادیبوں کو لوگ عام انسانوں سے کچھ اونچا ہی سمجھتے ہیں اور ان سے تو ایک طرف ان کے ساتھ رہنے والوں تک سے بات کر کے پھولے نہیں سماتے۔ یہ تو ماسٹر فطرت کا دایاں ہاتھ تھا۔
آنند:تو ان سے تمہاری ملاقات کیسے ہوئی؟
(پھر اٹھ کر گھومنے لگتا ہے۔)
بھولا ناتھ:ملاقات؟(کندھے جھٹک کر)تم اسے ملاقات کہہ سکتے ہو؟ہمارے شہر کے ہیں نا ڈاکٹر بھگوان۔۔۔
آنند:شہر نہیں قصبہ کہو۔ را ہوں قصبہ ہے۔
بھولا ناتھ:ہاں ہاں قصبہ، قصبہ۔ تومیں نے اسے ڈاکٹر بھگوان داس کی دوکان پر بیٹھے دیکھا۔ اس کی باتیں دلچسپی سے سنیں اور شاید دو ایک باتوں کا جواب بھی دیا۔
آنند:پھر تم انھیں اپنے گھر لے آئے۔
بھولا ناتھ:ارے کہاں؟تم مجھے بات بھی کرنے دو گے۔ اس کوتو دس برس بیت گئے۔ اس کے بعد یہ صاحب گزشتہ برس ملے اور تمہیں معلوم ہے کہ ان دنوں میں میں کیسی مصیبت سے دن کاٹ رہا تھا۔ چنگڑ محلے کا وہ پیپل ویڑا اور اس میں لالہ جوالا داس کا وہ جہنمی مکان اور اس کی وہ اندھیری کوٹھریاں جن میں نہ کوئی روشن دان ہے۔ نہ کھڑکی۔ گرمیوں میں باہر گلی میں سونا پڑتا تھا۔
آنند:لیکن تم بات تو ان سے ملنے کی کر رہے تھے۔
بھولا ناتھ:ہاں ہاں انھیں دنوں جب میں وہاں رہتا تھا اور دن بھر نوکری کی تلاش میں مارا مارا پھر تا تھا یہ ایک دن پیپل ویڑا کے پاس ہی چنگڑ محلے میں مل گئے اور انھوں نے دور ہی سے نمسکار کی۔ میں جلدی میں تھا لیکن لمحہ بھر کے لئے رک گیا۔
آنند:تو کہنے کا مطلب۔۔۔
بھولا ناتھ:(بات جاری رکھتے ہوئے) انھوں نے بڑے تپاک سے ہاتھ ملایا اور کہا ڈاکٹر بھگوان داس آپ کی بڑی تعریف کرتے ہیں۔ آپ مجھے پہچان تو گئے ہیں؟میں نے کہا ’’ہاں ہاں۔۔۔ ماسٹر فطرت‘‘ کہنے لگے بیمار ہے بے چارہ درد گردہ سے۔
آنند:درد جگر سے نہیں۔
بھولا ناتھ:(آنند کے طنز کی طرف نہ دھیان کر کے)میں نے افسوس کا اظہار کیا اور پوچھا کہ سنائیے کیسے آئے۔ کہنے لگے مجھے درد گردہ کی شکایت ہے۔
آنند:(قہقہہ لگا کر) کند ہم جنس باہم جنس پرواز۔
بھولا ناتھ:میں نے بھی افسوس کا اظہار کیا۔ کہنے لگے ’’ کرنل ماتھر کو دکھانے آیا ہوں کل چلا جاؤں گا۔‘‘میں نے کہا:’’تو آئیے کچھ پانی وانی پی لیجئے۔ ہنس کر کہنے لگے لالہ سندر لال تو انتظار کر رہے ہوں گے لیکن چلئے اپنے ہم وطن کا اصرار کیسے رد کیا جا سکتا ہے۔‘‘
آنند:اپنے ہم وطن کا۔۔۔ خوب!
(ہنستا ہے۔)
بھولا ناتھ:میرے تو پاؤں تلے سے زمین کھسک گئی۔ ضروری کام سے جا رہا تھا اور میں نے رسمی طور پر ہی اسے جل پان کے لئے پوچھا تھا۔ خیر گھر لے آیا اور حفظ ماتقدم کے طور پر میں نے بیوی سے صرف ٹھنڈے پانی کا گلاس لانے کے لئے کہا۔ پانی پی کر یہ مہاشہ وہیں گلی میں بچھی ہوئی چارپائی پر لیٹ گئے۔ مجھے جلد جانا تھا۔ میں نے جھجکتے ہوئے کہا: ’’مجھے۔۔۔ آ۔۔۔ ذرا جلدی ہے۔ آپ کدھر جا رہے ہیں؟ ساتھ ساتھ ہی۔۔۔ ‘‘لیکن جناب ٹانگیں پسارتے ہوئے میری بات کاٹ کر بے پرواہی سے بولے :’’ہاں ہاں آپ شوق سے ہو آئیے۔ میں ذرا تھک گیا ہوں۔ یہیں آرام کر لوں گا۔‘‘
آنند:(ہنس کر)خوب!
بھولا ناتھ:(کندھے جھٹک کر) تم ہوتے تو میری صورت دیکھتے۔۔۔ نئی نئی شادی ہوئی تھی اور یہ ہمارا ہم وطن۔۔۔
(آنند پھر قہقہہ لگاتا ہے۔)
بھولا ناتھ:مرتا کیا نہ کرتا۔ مجھے تو جلدی تھی۔ ناچار چلا گیا۔ واپس آیا تو آپ مزے سے بستر بچھوا کر خراٹے لے رہے تھے اور بیوی بیچاری اندر گرمی میں پڑی تھی۔ داخل ہوا تو کہنے لگی آپ کا ایسا بے تکلف دوست تو کوئی دیکھا نہیں۔ آپ کے جانے کے بعد کہنے لگا:’’تم تو شاید نواں شہر کی ہو۔‘‘میں چپ رہی تو بولا:’’پھر تو ہماری بہن ہوئی۔‘‘
آنند:بہن؟!
(ہنستا ہے۔)
بھولا ناتھ:اب کملا مجھ سے پوچھنے لگی یہ کون ہے؟میں کیا بتاتا؟اتنا کہہ کر چپ ہو رہا کہ ہمارے دیس کے ہیں۔ چار پائیاں ہمارے پاس صرف دو تھیں۔آخر وہ غریب سخت گرمی میں اندر فرش پر سوئی۔ خیال تھا دوسرے دن چلے جائیں گے لیکن پورے سات دن رہے اور جب گئے تومیں نے قسم کھا کر کملا سے کہا کہ اب کبھی نہیں آئیں گے لیکن آج پھر آ دھمکے ہیں اور کملا۔۔۔
(کملا داخل ہوتی ہے۔)
کملا:میں پوچھتی ہوں آپ چپ چاپ ادھر آ کر بیٹھ گئے ہیں اور وہ مجھے اس طرح حکم دے رہے ہیں جیسے میں ان کی کوئی زر خرید لونڈی ہوں۔ ’’کملا پان لا دو۔ کملا یہ کر دو۔ کملا وہ کر دو۔‘‘ میں پوچھتی ہوں یہ ہیں کون؟آپ تو کہتے تھے میں اسے جانتا تک نہیں پھر کیوں یہ منھ اٹھائے ادھر چلے آتے ہیں؟کوئی اور ٹھور ٹھکانہ ان کے لئے نہیں کیا؟ کون ہیں یہ؟
بھولا ناتھ:(بالکل گھبرا کر کندھے جھٹکتے ہوئے) اب بتاؤ۔۔۔
(اٹھ کھڑا ہو جاتا ہے۔)
آنند:تم ٹھہرو۔بھابی۔ مجھے سوچنے دو۔
کملا:لیکن آپ سوچ کر کریں گے کیا؟یہ کوئی ان کا پرانا یار غار ہو گا مجھے اسی بات سے چڑ ہے کہ آخر یہ مجھ سے چھپاتے کیوں ہیں؟کیا میں ان کے دوستوں کو گھر سے نکال دیتی ہوں۔
(چارپائی کے کنارے بیٹھ جاتی ہے۔)
آنند:دیکھو بھابی۔
کملا:میں کچھ نہیں دیکھنا چاہتی۔ دیکھئے آپ سے کوئی پردہ نہیں۔ کمرے ہمارے پاس یہی دو ہیں جن میں دروازوں کے روشندان میں شیشے تک نہیں اور ہم کارڈ بورڈ سے کلام چلا رہے ہیں اور بستر بھی فالتو نہیں اور پھر آپ بھی یہاں ہیں۔ ان کے یہ دوست تو مزے سے بستر بچھوا کر سوئیں گے اور میں ٹھٹھرا کروں گی باہر برآمدے میں۔
آنند:دیکھو بھابی وہ ان کے دوست نہیں ہوں اس بات کا تمہیں یقین دلاتا ہوں۔
کملا:تو پھر یہ صاف جواب کیوں نہیں دیتے؟
آنند:اگر ان سے یہ ہو سکتا تب نا۔۔۔
بھولا ناتھ:(جواس دوران میں ادھر ادھر گھومتا رہتا ہے رک کر اور کندھے جھٹک کر) ہاں اب ہم وطن ہیں۔۔۔
کملا:ہم وطن ہیں تو۔۔۔
(انگارہ سی آنکھوں سے شوہر کی طرف دیکھتی ہے۔)
آنند:دیکھو جھگڑے سے کچھ نہ بنے گا۔ اس آدمی کو دھتا بتائی چاہئے۔
کملا:یہی تومیں بھی کہتی ہوں۔۔۔
آنند:لیکن یہ ان سے ہو چکا ان صاحب کی مہمان داری تو کسی دوسری طرح ہی کی جائے گی۔
(کچھ لمحے کے لئے خاموشی جس میں آنند سوچتا ہے اور بھولا ناتھ انگڑائی لیتا ہے۔)
آنند:(دھیمی آواز میں) میں پوچھتا ہوں وہ کیا کر رہا ہے۔
کملا:شاید باہر گیا ہے جاتے جاتے پوچھتا تھا کہ آج کیا سبزی پکانے کا ارادہ ہے۔ بازار سے۔۔۔
آنند:(جسے اس دوران میں تدبیر سوجھ گئی ہے)میں کہتا ہوں تم لحاف لے لو بھابی اور چپ چاپ لیٹ جاؤ اور اگر کراہ سکو تو تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد کراہتی بھی جاؤ(بھولا ناتھ سے)دیکھو بھائی کھانے کا ذکر آئے تو تم کہہ دینا کہ مجھے بھوک نہیں ہے اور میں بہانہ کروں گا کہ گرانی طبع سے میں آج فاقہ کر رہا ہوں اور بس(چٹکی بجاتا ہے۔ سیڑھیوں پر پاؤں کی چاپ سنائی دیتی ہے۔ مڑ کر) میں کہتا ہوں جلدی کرو(ایک ایک لفظ پر زور دے کر) جلدی کرو۔ انہی کپڑوں سمیت لیٹ جاؤ۔
(کملا جلدی سے بستر پر لیٹ کر لحاف اوڑھ لیتی ہے۔ ہاتھ میں دو لوکیاں لئے ہوئے بنواری لال داخل ہوتا ہے۔)
بھولا ناتھ:آئیے آئیے کدھر چلے گئے تھے آپ؟(آنند کی طرف اشارہ کر کے) یہ ہیں مسٹر بنواری لال۔ میرے ہم وطن۔ کسی زمانے میں مشہور ایکٹر ماسٹر فطرت کے ساتھ۔۔۔
آنند:(ذرا ہنستے ہوئے) آپ سے مل کربڑی خوشی ہوئی۔
بنواری لال:آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔
بھولا ناتھ:یہ آپ کیا اٹھا لائے اتنی لوکیاں؟
(کملا دھیمی سی کراہتی ہے۔)
بنواری لال:باہر بک رہی تھیں (ہنس کر) میں نے کہا۔۔۔ (کملا ذرا اور زور سے کراہتی ہے)(مڑ کر اور ذرا چونک کر) کیا بات ہے۔ کیا بات ہے؟؟
(آواز میں تشویش)
بھولا ناتھ:اسے دفعتاً دورہ پڑ گیا۔ بڑی مشکل سے ہوش آیا ہے۔۔۔ عموماً پڑ جایا کرتا ہے۔ ہسٹریا۔
بنواری لال:تو آپ علاج۔۔۔
بھولا ناتھ:علاج بہت کرایا کرنل(پھر بات کا رخ بدل کر) یہ تو بیمار پڑ گئیں اور (ذرا ہنس کر) لوکیاں آپ اتنی اٹھا لائے پھر (آنند سے) کیوں بھائی تم کیا کہتے تھے؟۔۔۔
آنند:میں تو آج فاقہ سے ہوں طبیعت بھاری ہے۔
بھولا ناتھ: اور میں خود کھانے کے موڈ میں نہیں۔
بنواری لال:(رسوئی کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے) تو بھابی جی میرا مطلب ہے کہ لوکی۔۔۔ یعنی لوکی کی کھیر ہسٹریا میں بے حد مفید ہے اور کھیر بنا بھی اچھی لیتا ہوں۔ ساتھ ہی میں اپنے لئے بھی دو روٹیاں اتار لوں گا اور بھاجی بھی لوکی ہی کی بن جائے گی۔ میرا تو خیال ہے آپ بھی کھائیں۔ لطف نہ آ جائے تو نام نہیں۔ اندر انگیٹھی تو ہو گی ہی۔ کوئلوں کی آنچ مجھے بے حد پسند ہے۔ دھوئیں سے آنکھیں نہیں نکلتیں اور پھر کوئلوں پر لوکی کی کھیر بنتی بھی ایسی ہے کہ کیا کہوں۔
(رسوئی میں چلا جاتا ہے۔)
آنند:(دھیرے سے) یہ اس طرح نہیں جائے گا۔
بنواری:(رسوئی سے) کیوں بھئی مسالہ کہاں ہے؟
کملا:(لیٹے لیٹے) کہہ دو ختم ہو گیا۔
بھولا ناتھ:(ذرا زور سے) مسالہ تو یار ختم ہو گیا۔
بنواری:(اندر سے) اور گھی کہاں ہے؟
بھولا ناتھ:(کندھے جھٹک کر) اب یہ کیسے کہہ دوں؟!
آنند:(اونچی آواز میں) ارے گھی نہیں لائے تم؟ علی الصباح بھابی نے کہا تھا کہ گھی ختم ہو گیا ہے کیسے گرہستی ہو تم؟!
(دھیرے سے شرارت کی ہنسی ہنستا ہے۔)
بنواری:(دروازے سے جھانک کر) اچھا ایک آنے کا گھی کم سے کم آج کے لئے تو لیتا آؤں۔ مسالہ بھی نہیں اور کھانڈ بھی۔ میرا خیال ہے۔۔۔ نہیں ! میں چند منٹوں میں سب کچھ لایا۔ یہ جب تک کچھ کھائیں گی نہیں کمزوری دور نہیں ہو گی۔
(چلا جاتا ہے۔)
آنند:(حیرانی سے) یہ عجیب مہمان ہے تمہارا۔ مہمان کے ساتھ میزبانی کے فرائض بھی سرانجام دے رہا ہے اور اپنی جیب سے۔
بھولا ناتھ:میں کہتا ہوں آنند۔ یہ جونک ہے جونک۔ خدا کے لئے کوئی اور ترکیب سوچو۔کیا ہوا۔ یہ آج جیب سے پانچ آنے خرچ کر دے گا۔ گذشتہ سال جاتا جاتا مجھ سے پانچ روپئے لے گیا تھا۔
کملا:(ایک دم سے زور سے اٹھ کر) دے دیئے آپ نے پانچ روپئے۔
بھولا ناتھ:(کندھے جھٹک کر)اب میں۔۔۔
کملا: اور میں پانچ پیسے مانگتی ہوں تو نہیں ملتے۔
بھولا ناتھ:اب ہم وطن۔۔۔
کملا:تو پڑے بھگتئے پانچ کیا میری طرف سے پانچ سودے آئیے۔ بس مجھے میکے چھوڑ آئیے۔
آنند: اور(خوشی سے تالی بجا کر)سپلنڈ ڈ میکے !۔۔۔ ٹھیک(بھولا ناتھ سے) جلدی کرو بھابی کولے کر کسی پڑوسی کے یہاں چلے جاؤ۔ وہ آیا تومیں کہہ دوں گا کہ بھابی کی طبیعت بہت خراب ہو گئی تھی آخر بھائی صاحب انھیں چھوڑنے میکے چلے گئے۔ کیوں؟
(داد کی خواہش سے دونوں کی طرف دیکھتا ہے اور ہنستا ہے۔)
بھولا ناتھ:بھئی تدبیر تو خوب ہے (بیوی سے)تم ذرا اندر پڑوسن سے باتیں کرنا۔ میں کچھ دیر کے لئے باہر ا ن کے شوہر کے پاس بیٹھ جاؤں گا۔ (آنند سے) لیکن یار میں کہتا ہوں اگر وہ نہ گیا؟
آنند:جائے گا کیسے نہیں۔ تمہارے جاتے ہی میں بھی تالا لگا کر سٹک جاؤں گا۔وہ کیا اس کا باپ بھی جائے گا۔
کملا:واہ تالا لگا کر آپ کھسک جائیں گے اور جو وہ برتن لے گیا ہے وہ نہیں آپ یوں کہئے گا کہ وہ چلے گئے ہیں اور میں بھی چلا جا رہا ہوں۔بس اسے نکال کر گھاس منڈی تک چھوڑ آئیے۔
آنند:ہاں ہاں تم جلدی کرو۔ وہ آ جائے گا۔
بھولا ناتھ:ہاں ہاں جلدی کرو۔(کملا کو ٹرنک کھولنے کے لئے جاتے دیکھ کر) میں کہتا ہوں نئی ساڑی پہننے کی ضرورت نہیں تم سچ مچ میکے نہیں جا رہی ہو اور ہمارے پڑوسی تمہیں اس حالت میں کئی بار دیکھ چکے ہیں۔
کملا:(ٹرنک کو زور سے بند کرتے ہوئے) میں پوچھتی ہوں۔
آنند:ہاں ہاں۔ وہیں پوچھنا۔۔۔ چلو چلو۔۔۔
(دونوں کو ڈھکیلتا ہوا لے جاتا ہے۔)
پردہ
(برآمدہ ایک طرف سے جدھر ناظرین بیٹھے ہیں کھلا ہے۔ اس طرف بڑی لمبی لمبی چقیں پڑی ہوئی ہیں جو کھول دی جاتی ہیں تو یہی برآمدہ ایک لمبا سا کمرہ بن جاتا ہے۔اس وقت چونکہ چقیں لپٹ کر چھت سے لٹک رہی ہیں اس لئے برآمدہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے حاضرین بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔ دو ہلکی ہلکی بید کی کرسیاں برآمدے میں بائیں طرف رکھی ہیں۔ دو سال سے روغن نہیں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے بید کی سفیدی نظر آنے لگی ہے۔ کرسیوں کے آگے ایک بید ہی کی تپائی رکھی ہے جس پر میلا سا کرسیوں کے رنگ کا کپڑا بچھا ہوا ہے۔
بائیں طرف ایک دروازہ ہے جو سیڑھیوں پر کھلتا ہے۔ سامنے کی دیوار میں دروازے جو بالترتیب پہلے منظر کے کمرے اور اس کے ساتھ والے کمرے میں کھلتے ہیں۔ دروازے پرانی طرز کے ہیں۔ ان کے اوپر ساتھ ہی روشندان ہیں۔ جن کے شیشے شاید ابھی تک نہیں لگے ہیں یا خستہ اور بوسیدہ ہو کر ٹوٹ گئے ہیں۔ ہاں ان کی جگہ کتے کے مستطیل ٹکڑے لگے ہوئے ہیں۔ ایک چارپائی دیوار سے لگی کھڑی ہے۔
ایک کرسی پر پروفیسر آنند بیٹھے ہوئے ، دوسری پران کے پاؤں ہیں ان کے دائیں طرف تپائی پر جھوٹے خالی برتن رکھے ہیں۔ جس وقت پردہ اٹھتا ہے وہ سگریٹ سلگانے کی فکر میں ہے۔)
آنند:(اسی دیا سلائی کو جو بجھ گئی ہے زمین پر پٹک کر)اونھ!
(بھولا ناتھ سیڑھیوں کے دروازے سے جھانکتا ہے۔)
بھولا ناتھ:میں کہتا ہوں ہمیں وہاں بیٹھے بیٹھے ایک گھنٹہ ہو گیا اور تم نے ابھی تک آواز نہیں دی۔
(چل کر پروفیسر آنند اس کے پاس جاتے ہیں۔)
آنند:ارے دھیرے بولو۔ وہ ادھر رسوئی میں بیٹھا کھانا کھا رہا ہے۔
بھولا ناتھ۔:(برتنوں کی طرف دیکھ کر) اور تم۔۔۔
آنند:میں نے بھی روزہ افطار کر لیا ہے۔ کمبخت لوکی کی کھیر بڑے مزے کی بناتا ہے۔
بھولا ناتھ:لیکن۔۔۔
آنند:لیکن کیا؟میں نے اسی کے مطابق سب کچھ کیا جو طے ہوا تھا لیکن وہ بھی ایک شیطان ہے۔
بھولا ناتھ:(سوچتے ہوئے) تو گیا نہیں۔
آنند:وہ ایسی آسانی سے نہ جائے گا۔ ایسوں کو صاف جواب۔۔۔
بھولا ناتھ:لیکن اخلاق بھی تو۔۔۔ (کندھے جھٹک کر) تم سمجھتے نہیں آنند۔
(سر کھجاتے ہوئے کمرے میں گھومنے لگتا ہے۔)
آنند:صاف جواب نہیں دے سکتے تو بھگتو۔
بھولا ناتھ:تم نے اس سے کہا نہیں کہ بھابی کی طبیعت۔۔۔
آنند:کہا کیوں نہیں۔ جب وہ سب چیزیں لے کر واپس آیا تو میں نے برا سا منھ بنا کر کہا ’’بھابی کی طبیعت بڑی خراب ہو گئی تھی۔ انھوں نے اصرار کیا کہ میں تو میکے جاؤں گی اور وہ ٹھہر ے زن مرید فوراً تیار ہو کر چلے گئے۔‘‘
بھولا ناتھ:(غضب ناک ہو کر) زن مرید۔۔۔؟!
آنند:(ہنس کر اور بھی آہستہ سے رازدارانہ انداز میں) ارے وہ تومیں نے صرف یہ کہہ کر میں قفل اٹھانے کے لئے بڑھا اور وہ اندر رسوئی میں چلے گئے۔ میں نے تالے کولے کر ہاتھ میں اچھالتے ہوئے کہا میں تو جا رہا ہوں کہنے لگے کھانا تو کھا کے جائیے گا۔ لوکی کی کھیر کا مزا۔۔۔
بھولا ناتھ: اور تمہارے منھ میں پانی بھر آیا۔
آنند:نہیں میں نے کہا میں تو جاؤں گا۔
بھولا ناتھ:پھر؟
آنند:انھوں نے بے فکری سے انگیٹھی میں کوئلے سلگاتے ہوئے کہا۔ اچھا تو ہو آئیے لیکن آ جائیے گا جلدی۔ ٹھنڈی کھیر کا مزا کیا خاک آئے گا۔
بھولا ناتھ:(غصے سے دانت پیس کر) ہوں۔
آنند:تب میں نے بھی دل میں سوچا کہ یہ اس طرح نہ جائیں گے۔ کوئی دوسری ترکیب ہی کرنی پڑے گی۔ چاہئے تو یہ تھا کہ میں قفل لگا کر باہر برآمدے ہی میں ملتا لیکن بھابی کی دو طشتریوں نے۔
بھولا ناتھ:(جلدی سے) پھر۔۔۔ پھر۔۔۔؟
آنند:پھر کیا۔ میں نے سوچا کہ انھیں یہاں چھوڑ جانا بیوقوفی ہی ہو گی نہ جانے کون سی چیز اٹھا کر چمپت ہو جائیں۔ اس لئے جھٹ بات بدل کر میں نے کہا:’’نہیں کوئی خاص جلدی تو نہیں مجھے۔ یہ آپ نے ٹھیک کہا کہ کھیر کا مزا گر م گرم ہی میں ہے۔ تو لائیے دیکھیں تو سہی آپ کیسی بناتے ہیں۔ بس انھوں نے کھیر تیار کی، لوکی کی بھاجی بنائی اور پھر ہلکی پھلکی روٹیاں پکائیں۔ ابھی ختم کر کے اٹھا ہوں۔ کمبخت غضب کی رسوئی بناتا ہے۔ میں پوچھتا ہوں یہ ماسٹر فطرت کا باورچی تو نہیں تھا۔
(دبا ہوا قہقہہ لگاتا ہے۔)
بھولا ناتھ:(مایوسی سے) اب۔۔۔
(چارپائی میں دھنس جاتا ہے۔)
آنند:تم بھی بلا تکلف کھالو۔ بھوکے پیٹ کیا خاک سوجھے گا۔ تر مال اندر آ جائے تو۔۔۔
(بنواری رومال سے ہاتھ پوچھتا ہوا رسوائی کی طرف سے داخل ہوتا ہے۔)
بنواری:ارے گئے نہیں آپ۔
بھولا ناتھ:(جیسے قبر میں سے) گاڑی مس (Miss) کر گئے۔
بنواری: اور کملا جی؟
بھولا ناتھ:(چڑچڑے پن کے ساتھ) انھیں پھر دورہ پڑ گیا تھا۔
بنواری:(نہایت سنجیدگی سے) اوہ!تو کہاں۔۔۔
بھولا ناتھ:ویٹنگ روم میں بٹھا آیا ہوں۔ دوسری گاڑی دیر سے جاتی ہے اسی لئے۔
بنواری:(افسوس کے ساتھ اندر مڑتا ہے)ایک ڈبے میں کھیر دیئے دیتا ہوں۔ یقین کیجئے لوکی کی کھیر ہسٹریا کے دورے میں بے حد مفید ہوتی ہے اور پھر وہ بھی صبح سے بھوکی ہوں گی۔
بھولا ناتھ:(غصے کو چھپاتے ہوئے) نہیں تکلیف نہ کیجئے۔ میں دوا کے ساتھ تھوڑا سا دودھ پلا آیا ہوں۔
بنواری:تو آپ ہی لیجئے۔(آنند کی طرف دیکھ کر)کیوں پروفیسر صاحب انھوں نے بھی تو صبح کا۔۔۔
بھولا ناتھ:میں کھانے کے موڈ میں نہیں ہوں۔
بنواری:(خفیف ہوئے بغیر) کیوں نہ ہو۔(ذرا ہنس کر) میں نے ایک بار ایک فقیر سے پوچھا تھا۔ کھانے کا ٹھیک وقت کون سا ہے؟ اس نے خواب دیا امیر کی جب طبیعت ہو اور غریب کو جب ملے۔ بھائی آپ ٹھہرے امیر آدمی اور ہم۔۔۔ غریب!اچھا پان تولیں گے نا۔
بھولا ناتھ:(چڑ کر) میں پان نہیں کھاتا۔
بنواری:(مسکرا کر) اور پروفیسر صاحب؟
آنند:(جس نے خوب سیر ہو کر کھایا ہے) مجھے کوئی خاص اعتراض نہیں۔
بنواری:اچھا میں ذرا نیچے پنواری سے پان لے آؤں۔
(بے پروائی سے ہنستا ہوا چلا جاتا ہے۔)
بھولا ناتھ:(کندھے جھٹک کر) میں کہتا ہوں اب۔۔۔
آنند:چپ۔
بھولا ناتھ:(بے صبری سے) میں کہتا ہوں اب کیا کیا جائے۔ وہ کب تک پڑوسی کے یہاں بیٹھی رہے گی۔ تم تو مزے سے کھانا کھا کر کرسی پر ڈٹ گئے اور ہماری آنتیں۔۔۔
آنند:بھئی کھانا کھانے کے بعد میری سوچنے اور سمجھنے کی قوتیں سلب ہو جاتی ہیں۔ میں تو ذرا سوؤں گا۔
بھولا ناتھ:لیکن تم تو کہتے تھے کہ میں اس سے نمٹوں گا۔
(اٹھتا ہے۔)
آنند:وہ تو ٹھیک ہے مگر دو چار منٹ ذرا آنکھ لگ جائے تو کچھ سوجھے۔
(خمار آلود آنکھوں سے بھولا ناتھ کی طرف دیکھتا ہے اور ہنستا ہے۔ بھولا ناتھ مایوس ہو کر ہاتھ کمر کے پیچھے رکھ کر سوچتا ہے اور گھومتا ہے۔)
بھولا ناتھ:اٹھو یہ کام ہو چکا تم سے۔ باہر تالا لگائے دیتے ہیں۔ خود ہی رو پیٹ کر چلائے گا۔ دونوں کسی ہوٹل میں کھانا کھا لیں گے۔
(پھر ٹہلنے لگتا ہے۔)
آنند:(کرسی پر پیچھے کی طرف لیٹ کر اور جمائی لے کر) تو پھر مجھے کیوں گھسیٹتے ہو۔مجھے نیند آ رہی ہے۔
(پھر کرسی سے اٹھتا ہے۔)
بھولا ناتھ:(جو بہت تیزی سے برآمدے میں گھوم رہا ہے اچانک رک کر) کیا مطلب ہے تمہارا؟
آنند:(پھر کرسی میں دھنس جاتا ہے) ارے بھائی تم باہر سے تالا لگا کر جانا چاہتے ہو تو چلے جاؤ۔ اس کمرے کو اندر سے بند کر جاؤ اور س میں باہر سے تالا لگا جاؤ۔ مجھے تین بجے پرنسپل گردھاری لال سے ملنے جانا ہے۔ تب اس کمرے سے نکل کر باہر سے تالا لگاتا جاؤں گا۔ اب جلدی کرو نہیں تو وہ آ جائے گا۔(اٹھ کر بائیں طرف کے کمرے میں چلا جاتا ہے ، اندر سے) لو میں تو لیٹ گیا۔ اب پان خواب ہی میں کھاؤں گا۔
(بھولا ناتھ کچھ لمحے تک تیز تیز گھومتا ہے پھر تیزی سے وہ بھی اندر چلا جاتا ہے۔ اس کی غصے سے بھری چڑچڑی آواز آتی ہے۔)
بھولا ناتھ:تالا کہاں ہے؟میں کہتا ہوں تالا کہاں ہے؟کمبخت تالا۔۔۔ مل گیا۔۔۔ مل گیا۔
(تالا ہاتھ میں لئے آتا ہے اور چابیوں کی زنجیر انگلی میں گھماتا ہے۔)
آنند:(اندر سے) ارے دیکھو یہ اس کا بیگ باہر رکھتے جاؤ نہیں تو اسی بہانے آ جائے گا۔
(بھولا ناتھ پھر اندر جاتا ہے اور کپڑے کا ایک پرانا پھٹا ہوا ہینڈ بیگ لے کر آتا ہے اور دروازے کے نزدیک باہر دیوار کے ساتھ ساتھ دیتا ہے اور دروازہ بند کر کے قفل چڑھانے لگتا ہے اور اندر سے پروفیسر آنند کی آواز آتی ہے۔)
آنند:ارے سنو، سنو۔
بھولا ناتھ:(پھر جلدی سے کواڑ کھول کر) کہو۔
آنند:ارے برتن تو اندر رکھتے جاؤ۔
(بھولا ناتھ جلدی سے برتن اٹھا کر دیتا ہے۔)
آنند: اور یہ تپائی اور کرسیاں بھی دے دو۔
(بھولا ناتھ جلدی جلدی کرسیاں اور تپائی دیتا ہے۔)
آنند: اور یہ چارپائی؟
بھولا ناتھ:اسے پڑا رہنے دو۔ اسے کوئی نہ اٹھا لے جائے گا۔
(جلدی جلدی تالا لگاتا ہے۔ جلدی میں چارپائی سے ٹھوکر کھاتا ہے اور بڑبڑاتا ہوا چلا جاتا ہے۔)
(کچھ لمحے خاموشی جس میں دور پر کوئی گھڑیال ٹن ٹن بارہ بجاتا ہے۔ پھر کچھ لمحوں بعد بنواری لال گال میں پان دبائے کاغذ میں لپٹی پان کی گلوری ایک ہاتھ میں تھامے داخل ہوتا ہے۔ کمرے میں قفل اور باہر اپنا بیگ پڑا ہوا دیکھ کر چونکتا ہے۔ بھولا ناتھ کا نام لے کر دو بار آواز دیتا ہے۔ ذرا گھومتا ہے پھر مسکراتا ہے اور اپنے آپ سے کہتا ہے۔)
بنواری:میں تو ابھی سوؤں گا۔
(چارپائی بچھاتا ہے جو دوسرے کمرے کے دروازے کو بالکل روک لیتی ہے۔ اس پر لیٹ کر سگریٹ سلگاتا ہے۔ ایک دو کش لگا کر کروٹ بدل لیتا ہے۔)
پردہ
(پردہ آہستہ آہستہ اٹھتا ہے۔ منظر وہی۔ بنواری لال کروٹ بدلتا ہے۔ باہر کہیں گھڑیال بجتا ہے پھر۔)
بنواری: اور تین بج گئے۔
(دروازے کے اوپر روشن دان کا گتا ہلتا ہے اور پھر کسی کا ہاتھ باہر نکلتا ہے۔)
(بنواری لال چونکتا ہے پھر کروٹ بدل لیتا ہے۔ آہستہ آہستہ بوٹ سوٹ پہنے پروفیسر آنند روشن دان کے گتے کو ہلا کر بڑی مشکل سے نیچے اترنے کی کوشش کرتے ہیں۔)
بنواری:(جیسے کسی کی آہٹ سے چونک کر) کون ہے (پھر چونک کر اور اٹھ کر) کون کون روشن دان کے اندر داخل ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔(شور مچاتا ہے) دوڑئیو۔۔۔ بھاگیو۔۔۔ چور۔۔۔ چور۔!!
آنند:میں ہوں آنند۔
(آواز گلے میں پھنسی ہوئی ہے۔)
بنواری:(بدستور گھبرائی ہوئی آواز میں) چور!چور!!۔۔۔ دوڑیو۔۔۔ بھاگیو!!
(ایک مارواڑی، ایک ہندوستانی اور دو ایک پنجابی بھاگتے ہوئے سیڑھیوں سے داخل ہوتے ہیں۔)
مارواڑی:(جس کی سانس پھول رہی ہے)کائیں مجھے بابو جی۔ کائیں چھے !!
ہندوستانی:کیا بات ہے بھیا۔ کیا بات ہے؟!
پنجابی:(ان کو پیچھے ہٹاتا ہوا) کی گل اے؟کی گل اے؟کدھر چوری ہوئی اے۔ کدھر چوری ہوئی؟
بنواری:(آنند کی طرف اشارہ کر کے) یہ دیکھئے آج کل کے جنٹلمین بیکار کوئی کام نہ ملا تو یہی پیشہ اختیار کر لیا۔ دن دہاڑے ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔ میرے دوست ہیں نا پنڈت بھولا ناتھ۔ میں ان سے ملنے کے لئے آ رہا تھا دیکھتا ہوں تو آپ اندر داخل ہو رہے ہیں۔ یہ بیگ شاید پہلی بار نکال کر رکھ چکے تھے۔(آنند کی طرف دیکھ کر طنز سے) اترئیے صاحب۔ اب ذرا چند دن بڑے گھرکی روٹیاں توڑئیے۔
ہندوستانی:(آگے بڑھ کر) یہ بیگ اٹھا رہے تھے؟
بنواری:نانا۔ اسے ہاتھ نہ لگائیے۔ اس میں سب گہنے بند ہوں گے۔ پولیس ہی آ کر کھولے گی۔
آنند:(جو بالکل گھبرا گیا ہے)میں۔ میں۔
مارواڑی:ابے شالہ میں میں کیا۔ نیچے اتر۔ مار مارکر بھوسا بنا دیں گے۔
ہندوستانی:(فلسفیانہ انداز میں) آج کل بیکاری نے نوجوانوں کو چور اور ڈاکو بنا دیا ہے۔
پنجابی:اوے۔ اتراوے۔ اوتھے ٹنگیا ایں۔ سوٹ تادیکھو جویں ناڈھوخان داملا ہوندا اے۔
(آگے بڑھ کر پروفیسر آنند کو پاؤں سے پکڑ کر گھسیٹتا ہے۔ وہ دھم سے زمین پرآ گرتے ہیں۔ وہ پنجابی نوجوان دو چار گھونسے تھپڑ ان کے رسید کر دیتا ہے۔ آنند غصے اور بے عزتی سے جل کر کہتا ہے۔)
آنند:میں پنڈت بھولا ناتھ کا دوست پروفیسر آنند۔۔۔
پنجابی:چل چل پروفیسر دا بچہ۔ جا کے تھانے والیاں نوں دسیں کہ توپروپھیسر ہیں یا ڈپٹی۔
(سب قہقہہ لگاتے ہیں۔)
بنواری:میں بھی ان کا دوست ہوں لیکن ان کی غیر حاضری میں چوری تو نہیں کرتا پھر تا۔
مارواڑی:آج کل جمانوالیوئی چھے۔ بابوجی کائی کریو جائے۔
(آج کل کا زمانہ ہی ایسا ہے بابو جی کیا کیا جائے۔)
بنواری:(گرج کر) میں ابھی پولیس کو ٹیلی فون کرتا ہوں۔ آپ اسے پکڑے رکھیں۔ (جاتے ہوئے) دیکھئے بیگ کو ہاتھ نہ لگائیے۔
(کئی اور لوگ داخل ہوتے ہیں۔)
(’’کیا ہوا۔ کیا ہوا۔‘‘ کا شور مچ جاتا ہے۔)
مارواڑی:(نو واردوں سے) یہ چور چوڑے دہاڑے چوری کر رہو چھو شاپ۔
(یہ چور دن دہاڑے چوری کر رہا تھا۔)
ہندوستانی:(طنز سے) جنٹلمین چور!
آنند:میں کہتا ہوں۔
پنجابی:(ایک اور تھپڑ رسید کر کے) تون کہنا ایں نائے چور نائے پتر۔
(بھیڑکو چیرتا ہوا بھولا ناتھ آتا ہے۔)
بھولا ناتھ:کیا بات ہے؟کیا بات ہے؟
مارواڑی:بچ گیا۔ چھے شاپ۔ تھاکے چوری کرہیوچھو۔
ہندوستانی:سمجھئے بچ گئے۔ آپ کے دوست نے عین موقع پر چوری کرتے ہوئے پکڑ لیا۔
آنند:(جس کا حوصلہ بھولا ناتھ کے آنے سے بڑھ گیا تھا) میں کہتا ہوں۔
مارواڑی:(لپک کر)توکائیں کہے چھے۔
ہندوستانی:(ادا سے) یہ کہتا ہے۔
پنجابی:ایہہ کہندا اے (چباچبا کر) نالے چورنالے چتر۔
(سب ہنستے ہیں۔ بھولا ناتھ بڑھ کر آنند کو پنجابی کی گرفت سے چھڑاتا ہے۔)
بھولا ناتھ:چھوڑئیے چھوڑئیے آپ سب جائیے۔ یہ میرے دوست ہیں۔ میں ان سے نمٹ لوں گا۔
ہندوستانی:لیکن چور۔
بھولا ناتھ:میں کہتا ہوں انھوں نے کوئی چوری نہیں کی۔ آپ جائیے میری بیوی آ رہی ہے۔ آپ سب سیڑھیاں روکے کھڑے ہیں۔
(سب بڑبڑاتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔)
پنجابی:(رک کر) پردہ بابو۔
بھولا ناتھ:(چیخ کر) وہ بدمعاش گیا نہیں۔
(پنجابی جلدی جلدی جاتا ہے۔)
آنند:وہ تو پولیس میں رپورٹ لکھوانے گیا ہے۔
بھولا ناتھ:آخر ہوا کیا؟
آنند:ہونا کیا تھا سب اس کی بدمعاشی ہے۔
بھولا ناتھ:آخر بات کیا ہوئی؟
آنند:ہوتی کیا؟تمہارے جانے کے بعد میں لیٹ گیا تو کچھ ہی دیر بعد وہ آیا۔پہلے شاید تمہیں آوازیں دیں۔ پھر تالا دیکھ کر بڑبڑایا۔ پھر چارپائی گھسیٹ کر بالکل اسی دروازے کے آگے لیٹ گیا۔ پھر میں۔۔۔
بھولا ناتھ:تمہارے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہئے تھا۔ کہا جو تھا چلو ہمارے ساتھ۔
آنند:ساڑھے تین بجے مجھے پرنسپل صاحب سے ملنا تھا۔ آخر انتظار کر کے میں تیار ہوا لیکن جاؤں کدھر سے۔ دروازے کے شگاف سے روشن دان تک چڑھا پھر دھوتی باندھ کر اترنے لگا تھا کہ۔۔۔
بھولا ناتھ: اور وہ تمہارا استاد نکلا۔ میں نے کہا تھا اول درجے کا بدمعاش ہے۔
آنند:اس نے چور، چور کا شور مچا دیا اتنے آدمی اکٹھے کر لئے اور اس پنجابی نے کئی تھپڑ مجھے رسید کئے۔
(بنواری داخل ہوتا ہے۔)
بنواری:(جیسے کچھ جانتا ہی نہیں)عجب دوست ہیں آپ کے یہ تو سب کچھ اٹھا کر ہی لے چلے تھے۔
بھولا ناتھ:آپ کو شرم نہیں آتی۔ یہ تو اندر ہی تھے۔
بنواری:لیکن مجھے کیا معلوم تھا۔ میں نے آوازیں دیں۔ یہ بولے تک نہیں۔
بھولا ناتھ:سور رہے ہوں گے۔
بنواری:تو جب بیدار ہوئے تب مجھے آواز دیتے۔ روشن دان سے اترنے کی کیا ضرورت تھی۔
بھولا ناتھ:اچھا ہٹائیے۔ اس قصے کو۔ کملا کی طبیعت خراب ہو رہی ہے۔ میں اسی گاڑی سے اسے گورداس پورلے جاؤں گا۔ چلو آنند تم بھی میرے ساتھ چلو۔ اب پرنسپل صاحب سے کل مل لینا۔
بنواری:آپ گورداس پور جا رہے ہیں۔ آپ کا سسرال تو نواں شہر ہے۔
بھولا ناتھ:(بے پروائی سے) وہاں کملا کے بڑے بھائی رہتے ہیں۔
بنواری:بھائی؟!
بھولا ناتھ:میونسپل کمیٹی میں ہیڈ کلرک ہیں۔
بنواری:میونسپل کمیٹی میں (مسرت سے ہلکی سی تالی بجا کر) یہ آپ نے اچھی خبر سنائی وہاں میونسپل کمیٹی میں مجھے کام ہے۔ میں خود پریشان تھا۔ سوچتا تھا کہاں ٹھہروں گا۔ کیسے ہیڈ کلرک سے ملاقات کروں گا۔ وہاں میرا کوئی واقف نہیں۔ اب آپ ساتھ ہوں گے تو سب کچھ بآسانی ہو جائے گا۔ ٹھہرئیے میں بیگ اٹھا لوں۔
(بڑھ کر بیگ اٹھاتا ہے۔)
پردہ گرتا ہے
***
ماخذ:’’نئے ڈرامے ‘‘
پروفیسر محمد حسن
مرتبہ :محمدقاسم صدیقی
انجمن ترقی اردو(ہند)
ایجوکیشنل بک ہاؤس ۔دلی/علی گڑھ