07:22    , ہفتہ   ,   18    مئی   ,   2024

ڈرامے

1980 0 0 00

مور پنکھی - ڈاکٹر محمد حسن

کردار

(یہ ڈراما بارہ مناظر پر مشتمل ہے۔ اس میں پانچ سے سات سیٹ تک کی ضرورت ہو گی۔ اسمٰعیل کا خیمہ۔ خیمے کے باہر کا میدان۔ مور پنکھی  اور  سرفراز کے خیمے۔ نواب کا خیمہ۔ تالاب۔ بعض مناظر مختصر ہیں۔)

کردار:

مورپنکھی:ایک الہڑ خوبصورت لڑکی عمر ۱۷!سال۔

سرفراز:ٹھگوں کانو عمر سردار عمر۲۶سال۔

اسمٰعیل:ٹھگوں کا بوڑھا سابق سردار عمر۶۰سال۔

غفور:ٹھگ، عمر۳۵سال۔

بدری:ایک  اور ٹھگ عمر۳۰سے ۳۵سال تک۔

نواب سبزی بہادر:۴۰۔۴۵ سال کے ایک عیاش طبع نواب۔

خیرو:نواب سبزی بہادر کا نوکر۔

 اور دو تین سوداگر  اور دو تین ٹھگ۔

پہلا منظر

پہلا منظر

(ٹھگوں کے سردار کے خیمے میں۔ وقت ، رات ۱۸۳۵ء؁ لگ بھگ)

اسمٰعیل: سب لوگ آ گئے۔

بدری:ہاں سردار۔ سب۔

اسمٰعیل:بدری۔مشعلیں بجھا دو چاندنی رات میں ان کی ضرورت نہیں۔ اگر   اور  لوبان کچھ  اور  آگ میں ڈال دو۔

بدری:جو حکم سردار۔

اسمٰعیل:میں نے خیمے کو دلہن کی طرح سجایا  اور طرح طرح کے پھولوں سے مہکا دیا ہے۔ یہ رات ہمارے قافلے کی زندگی میں بڑی ہی مبارک ثابت ہو۔ میں نے اپنے سب ساتھیوں کو اس لئے بلایا ہے کہ میں ان سے فیصلہ چاہتا ہوں۔سرفراز خاں۔

سرفراز:سردار۔

اسمٰعیل:آؤ میرے پاس آ کر کھڑے ہو جاؤ۔ساتھیو!میں بوڑھا ہو چکا ہوں۔ ٹھگی کے پیشے میں میں نے ۴۵!سال گزارے ہیں۔ دیوی بھوانی کے ایک معمولی سیوک کی حیثیت سے میں نے اپنا کام  پورا کیا ہے۔۔۔  ٹھگ بڑا پاک لفظ ہے ہم دیوی بھوانی کے سچے بھگت ہیں۔بھوانی ہمارے ذریعے دنیا سے بدی کو ختم کرتی ہے۔ جب دیوی شگون دیتی ہے تو ہم اس کے حکم سے انسانوں کو موت کا پیغام سناتے ہیں۔ دیوی ہمارا ساتھ نہ دیتی تو ہمارے معمولی رومال میں تندرست سے تندرست انسان کی گردن مروڑنے کی طاقت کہاں سے آئی۔

سب:جے بھوانی کی!!

اسمٰعیل:ہمارے قافلے میں ہندو مسلمان سب برابر ہیں۔ سب دیوی بھوانی کے حکم سے قتل کرتے ہیں۔ اس قتل سے جو مال ملتا ہے۔ اس کا بڑا حصہ دیوی بھوانی کو چڑھاتے ہیں۔ میں بوڑھا ہو چکا ہوں۔ میں تمہاری سرداری کے لئے اپنے لئے پالک بیٹے سرفراز کو پیش کرتا ہوں۔ بھائیو کیا تم سرفراز کو اپنا سردار بنانے پر راضی ہو؟

غفور:جے بھوانی کی!

اسمٰعیل:میں سمجھ گیا غفور!ہاں اگر  بھوانی اس معمولی سیوک کو سردار بنانے پر راضی ہو تو کیا تم سرفراز کو اپنا سردار بنا لو گے؟

غفور:بے شک، مگر سرفراز کے لئے بھوانی سے شگون لینا ضروری ہے۔

اسمٰعیل:سرفراز تمہارے لئے نیا نہیں ہے۔ تم پچھلے سفر میں اس کے کارنامے دیکھ چکے ہو۔ وہ خوبصورت جوان  اور تندرست ہے۔ اس کی باتوں میں جادو ہے۔ قیمتی پوشاک میں وہ نواب زادہ لگتا ہے۔ اس نے پچھلے سفر میں کئی اچھے اسامیوں کی مضبوط گردن میں رومال ڈال کر ایک سیکنڈ میں ختم کر دیا تھا۔

کئی آوازیں :ہمیں معلوم ہے۔

اسمٰعیل:نیزہ بازی میں اس کا جواب نہیں۔ شہسواری میں اسے کمال حاصل ہے۔ پہلوانی میں میرا بیٹا رستم ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس کی سرداری میں ہمارے قافلے پر ہن برسے گا۔ ہن۔

بدری:تو پھر کیا دیر ہے سردار۔ شگون سے لیا جائے۔

اسمٰعیل:(پرارتھنا کے لب و لہجہ میں) دیوی بھوانی ہمیں ہدایت دے !ہمیں راستہ دکھا، اگر تو اپنے سیوک سرفراز کو اپنے گروہ کی سرداری کے لئے قبول کرتی ہے تو ہمیں شگون دے اجازت دے دیوی!دیوی!!

اسمٰعیل:(تھوڑی دیر کے بعد)ہم خاموشی سے تیرے اشارے کا انتظار کریں گے۔

(تھوڑی دیر خاموشی چھائی رہتی ہے پھر اچانک کہیں قریب ہی سے الو کے بولنے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ دیر تک یہ آواز آتی رہتی ہے۔)

سب لوگ:(خوشی سے مست ہو کر)جے بھوانی مائی کی!جے بھوانی مائی کی۔

اسمٰعیل:شکر ہے لاکھ لاکھ  شکر ہے بھوانی مائی نے میری لاج رکھ لی۔ سرفراز میرے بیٹے آ میرے سینے سے لگ جا۔

غفور:مبارک ہو سرفراز۔

اسمٰعیل:میرے بیٹے سرداری مبارک ہو، خدا نے آج بڑے ارمانوں کے بعد مجھے یہ دن دکھایا ہے۔

سب:مبارک، سلامت۔

اسمٰعیل:سرفراز آؤ۔ میرے سامنے آ کر کھڑے ہو جاؤ۔ خدا کے سامنے قسم کھاؤ حلف اٹھاؤ کہ تم ٹھگی کے اصول پر چلو گے۔

سرفراز:میں قسم کھاتا ہوں۔

اسمٰعیل:ماتا بھوانی کے اس مقدس نشان پر ہاتھ رکھ  کر قسم کھاؤ کہ اپنے رومال سے ہراس انسان کی جان ضرور لو گے جس کے لئے ماتا بھوانی کا اشارہ مل جائے۔

سرفراز:میں قسم کھاتا ہوں۔

اسمٰعیل:قسم کھاؤ کہ جہاں تک ہو سکے گا عورت کے قتل سے ہاتھ نہ رنگو گے بلکہ اس کی عزت کرو گے۔ دھوبی، نائی، کنجڑے وغیرہ کے قتل سے باز رہو گے  اور ٹھگی کا راز کبھی کسی کونہ بتاؤ گے۔

سرفراز:میں قسم کھاتا ہوں۔

اسمٰعیل: اور اگر تم نے کبھی یہ راز فاش کیا تو تمہاری سزا ٹھگی کے قانون کے مطابق موت ہو گی۔

سرفراز:مجھے منظور ہے۔

اسمٰعیل:قسم کھاؤ کہ اگر عورت، مرد یا سمجھدار بچہ میں سے۔۔۔ کوئی تمہارا بھید جان لے گاتو تم اسے ٹھگی کے قانون کے مطابق جان سے مارنا اپنا فرض سمجھو گے۔

سرفراز:میں خدا  اور بھوانی ماتا کے سامنے قسم کھاتا ہوں۔

اسمٰعیل:بھائیو۔ تمہارا سردار تمہیں مبارک ہو۔

سب:بھوانی ماتا کی جے۔

اسمٰعیل:اب تم سب بھی پاک نشان پر ہاتھ رکھ کر بھوانی  ماتا کے سامنے قسم کھاؤ کہ جب تک وہ ٹھگی کے اصول پر چلے گا تم سرفراز کی سرداری قبول کرو گے  اور جب وہ اس راستے سے ہٹنے کی کوشش کرے گا۔ تم اسے بھوانی کی بھینٹ چڑھا دو گے  اور اس کے خون کا تلک لگاؤ گے۔

سب:ہم سب قسم کھاتے ہیں۔ ہم سب پرتگیا کرتے ہیں۔

(اچانک ڈھول پر زور کی چوٹ پڑتی ہے  اور جھانجھ کی آواز آتی ہے۔)

اسمٰعیل:جاؤ سب جشن مناؤ۔

(جشن شروع ہوتا ہے لوگ ناچ گانے میں محو ہو جاتے ہیں یہ آوازیں پس منظر سے آتی رہتی ہیں۔ سب لوگ خیمے سے باہر چلے جاتے ہیں  اور  ناچ گانے میں مصروف ہو جاتے ہیں صرف غفور، اسمٰعیل  اور  سرفراز رہ جاتے ہیں۔)

(موسیقی فضا میں بکھر جاتی ہے ایک مردانہ آواز سرگم کی تان لیتی ہے۔ جھانجھ  اور گھنگھروؤں کی آواز سماں باندھ دیتی ہے۔ یہ کیفیت کچھ دیر جاری رہتی ہے پھر دھیرے دھیرے موسیقی کی لے مدھم ہونے لگتی ہے  اور  اسمٰعیل کی آواز ابھرتی ہے جو سرگوشی میں سرفراز سے کچھ گفتگو کر رہا ہے۔)

اسمٰعیل:سب جشن منا رہے ہیں۔ میرے بیٹے۔ کل تمہارے امتحان کا دن ہے۔

سرفراز:میں تیار ہوں۔

اسمٰعیل:غفور کل ہی نیا شکار پھانس کر لاؤ۔ قافلے والوں کو فوراً سرفراز خاں کی سرداری کا تحفہ ملنا چاہئے۔

غفور:خان غفور آپ کی سب باتیں مانے گا مگر اس بار تو سرفراز خاں کو شگون کے لئے اپنا شکار خود ہی پھانسنا چاہئے۔

سرفراز:مگر یہ تو سوٹھائی کاکا م ہے۔

غفور:ہاں میں سوٹھائی۱؂  ہوں۔ میرا یہی کام ہے مگر سردار کو سوٹھائی سے لے کر بھٹوئی۲؂  ا ورلگھائی۳؂  تک سب کے کام آنے چاہئیں۔

سرفراز:یعنی میں اپنے آپ شکار پھانسوں۔ خود انھیں موت کے گھاٹ اتاروں  اور خود ہی قبر کھود کر دفن کروں تو پھر تم کیا کرو گے؟

غفور:جو مجھے کرنا چاہئے۔

اسمٰعیل:غفور!تمہیں اپنے سردار کی مدد سے انکا رہے؟

غفور:میری کیا مجال!

اسمٰعیل:پھر کیا چاہتے ہو؟

غفور:میں سرفراز کے ساتھ جانے کو تیار ہوں مگر شکار پھانسنے کا کام سردار کو کرنا ہو گا۔

سرفراز:مجھے منظور ہے غفور!زندگی میں ، میں نے کبھی ہار نہیں مانی۔ تمہارے ساتھ چلنے کی ضرورت نہیں۔ میں تمہیں دکھا دوں گا سوٹھائی کسے کہتے ہیں۔(بلند آواز میں) جاؤ۔

غفور:بہت اچھا، جب میری ضرورت ہو مجھے یاد کر لیا جائے۔

اسمٰعیل:میرے بیٹے۔۔۔ یہ تم نے کیا کیا؟

سرفراز:میں اپنی قسمت آزمانا چاہتا ہوں ابا جان۔ میں غفور کو اور سارے قافلے  والوں کو دکھا دینا چاہتا ہوں کہ سرفراز کے پاس ہمت بھی ہے  اور  قابلیت بھی۔ آج آپ دیکھیں گے ابا جان مجھے زندگی کی دوسری شاندار کامیابی ہو گی۔

اسمٰعیل:بھوانی ماتا کی یہی مرضی معلوم ہوتی ہے۔

سرفراز:آپ کا بیٹا صرف خدا  اور بھوانی پر بھروسہ کرنا جانتا ہے۔انسان تو کھلونا ہے جسے تباہ کرنا میرا فرض ہے۔

اسمٰعیل:کل اس کا فیصلہ ہو جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؂  سوٹھائی:ٹھگی کی اصطلاح میں وہ شخص ہے جو شکار پھانس کر لائے۔

۲؂  بھٹوئی:وہ شخص جو شکار کی گردن میں رومال ڈال کراس کو گلا گھونٹے۔

۳؂  لگھائی:جو قبر تیار کرے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسرا منظر

خیموں کے باہر میدان میں صبح ہونے والی ہے

(خیموں کے باہر میدان میں صبح ہونے والی ہے۔)

غفور:صبح ہو گئی۔ ابھی تک سرفراز نہیں آیا۔

بدری:سرفراز نہیں سردار کہو، غفور، سردار۔

غفور:ابھی نہیں ، آج کی سوٹھائی کے بعد دیکھنا کون کس کو سردار کہتا ہے۔

بدری:کس طرف کا ارادہ ہے؟

غفور:غفور کو نہیں جانتے بدری۔ میری پانچوں انگلیوں پرلوک کے بھید ہیں۔ وہ غلطی پر ہیں  جو غفور کو آزماتے ہیں۔

بدری:مجھے معلوم ہے۔

غفور:میں گھر پھونک کر رکھ دیتا ہوں  اور کوئی میری چنگاری کو نہیں دیکھ سکتا۔

بدری:اس کا مطلب؟!

غفور:مطلب وقت بتائے گا۔۔۔ وہ دیکھو سامنے گھوڑے پر سرفراز آ رہا ہے۔

بدری:سوداگروں کے لباس میں توباء کی مہاراجہ لگ رہا ہے۔

غفور:اونہہ مہاراجہ!؟تم سب لوگ چڑھتے سورج کے پجاری ہو تم ہر چمکتی ہوئی چیز کو سونا سمجھتے ہو۔

بدری:بندہ پروری!ذرہ نوازی!!آخر شریف ہیں ، بھلی پوشاک پہن لیں۔ تو ایک ذرا میں کچھ کی کچھ صورت نکل آتی ہے۔

سرفراز:کون کہتا ہے کہ ٹھگی جرم ہے۔ ٹھگی فن ہے۔ لباس کی تبدیلی، چہرے مہرے  اور شکل و صورت کی تبدیلی، پھر ہر قبیلے کی چال ڈھال، بول چال برتنا، کوئی ہنسی ٹھٹھا ہے۔ میں اس فن کو کمال تک پہنچاؤں گا۔۔۔  غفور گھوڑے تیا رہیں؟

غفور:جی ہاں سردار۔۔۔ ہم لوگ آپ کے ہمراہ چلنے کے لئے تیا رہیں۔

سرفراز:نہیں میں تنہا جاؤں گا۔

غفور:بے کا رہے۔ اکیلے جانے سے کام نہ بنے گا۔

سرفراز:خاموش۔ جھرنی کا انتظار کرو۔۔۔ بھوانی ماتا کے اشارہ کا انتظار کرو۔

بدری:وہ دیکھئے بگلوں کی قطار پورب سے اڑتی چلی آ رہی ہے۔

سرفراز:شگون بہت اچھا ہے بھائیو۔۔۔ اچھا خدا حافظ۔ میں قسمت آزمائی کرتا ہوں۔ آج سے ہمارے قافلے میں ہن برسے گا۔ میں بھوانی ماتا کی قسم تم سب کو مالامال کر دوں گا۔

بدری:آپ کس طرف جائیں گے سردار۔

غفور:یہاں کے راستے بڑے ٹیڑھے میڑھے ہیں۔

سرفراز:میں اکثر ٹیڑھے میڑھے راستوں سے گزرا ہوں غفور۔۔۔ میں تالاب کی طرف جا رہا ہوں۔

(چلا جاتا ہے تھوڑی دیر دونوں اس کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔)

غفور:چلا گیا، چلو ہم واپس چلیں۔

بدری:کیوں؟

غفور:آج کا دن بھی بیکار گیا۔ کیا مرغابیوں کی گردن میں رومال ڈال کر شکار کرے گا!!تالاب اونہہ!!تالاب کے کنارے اسے کون ملے گا۔ سوٹھائی بڑا مشکل کام ہے تجربہ چاہئے۔

بدری:مگر بھوانی ماتا کا شگون اچھا ہے۔

غفور:بھوانی ماتا بھی کبھی کبھی اپنی مایا دکھاتی ہے آؤ چلیں۔

تیسرا منظر

جنگل میں تالاب کے کنارے صبح کے ۸ بجے

(جنگل میں تالاب کے کنارے صبح کے ۸بجے)

نوجوان لڑکی:اے۔۔۔ اے۔۔۔ سنو۔۔۔ بات سنو۔

سرفراز:مجھ سے کچھ کہا تم نے۔

نوجوان لڑکی:ہاں ہاں تم سے کہا۔ کوئی غضب ہو گیا۔ آدمی آدمی سے بات کرتا ہے۔

سرفراز:کیا کام ہے؟

لڑکی:ارے اب میل بھر دور سے تھوڑا ہی بتاؤں گی کیا کام ہے۔ذرا پاس آؤ۔ ایک نظر دیکھوں تو، شریف آدمی ہو کہ یوں ہی چلتے پھر تے چورا چکے ہو۔

سرفراز:آپ کی تعریف؟!

لڑکی۔:میرا نام ہے مور پنکھی، شریف گھرانے کی باندی ہوں۔ نواب سبزی خاں کا نام سنا ہے۔ میری ماں کریمہ ان کی پرانی کنیز ہے۔۔۔  اور تم۔

سرفراز:میرا نام ایسا خوبصورت تو نہیں ہے۔

لڑکی:وہ تو صورت سے ظاہر ہے۔ ہو گا یہی  کلو خاں۔ حشمت بیگ وغیرہ۔

سرفراز:میرا نام ہے سرفراز مرزا۔

لڑکی:کام؟

سرفراز:بہکے ہوؤں کو راستہ دکھانا۔

لڑکی:یا راستہ چلتے ہوؤں کو ہسکانا۔

سرفراز:آپ کہئے۔ کیا ارادہ ہے؟

لڑکی:میرا ارادہ ، دیکھئے اعلیٰ حضرت۔ نواب سبزی خاں بہادر سفر پر نکلے ہیں۔ مجھے نگوڑا یہ جنگلوں میں مارے مارے پھر نا اچھا نہیں لگتا۔ نواب صاحب سال بھرمیں ایک دفعہ سسرال جاتے ہیں تو شکار کی دھت میں جنگلوں میں ٹھہرتے ہوئے جاتے ہیں ، تم بھی شکاری ہو؟

سرفراز:ہاں شکار سے مجھے شوق ہے مگر بڑے شکار سے۔

لڑکی:تم نے کبھی شکار کیا بھی ہے؟

سرفراز:شکار کرنے کا ارادہ ہے۔

لڑکی:تم نے خون کا مزہ چکھا ہے کبھی، اس جانور کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالی ہیں جس کی گردن مروڑ دی گئی ہو اور جو گھائل ہو کر پھٹی آنکھوں سے زمین  اور  آسمان کو دیکھ رہا ہوں  اور اپنے جوڑے پر حسرت کی نظر ڈال رہا ہوں۔

سرفراز:موت میں یہ سب کچھ ہوتا ہے۔

لڑکی:میرا دل پھٹتا ہے۔ نواب سبزی بہادر کا سارا قافلہ تو روانہ ہو چکا ہے۔ بس میں  اور  خیرو نواب صاحب کے ساتھ ہیں۔ تنہائی میں دم بولایا جاتا ہے۔ میں ذرا خیمے سے نکلی تو راستہ بھول گئی مجھے خیمے تک پہنچا دو گے؟

سرفراز:تمہیں یوں اکیلے نہیں پھر نا چاہئے۔

لڑکی:کیوں؟

سرفراز:تم جوان ہو۔

لڑکی:بس۔۔۔؟!

سرفراز:خوبصورت ہو۔

لڑکی:بس۔۔۔

سرفراز:کم عمر ہو، حسین ہو، تجربہ کار ہو، کامنی ہو، چنبیلی کی ڈالی  اور  گلاب کے پھول کی طرح نرم و نازک ہو۔

لڑکی:اوہو سچ مچ، کیا میں سچ مچ خوبصورت ہوں؟سب یہی کہتے ہیں۔ کوئی نہیں بتاتا خوبصورتی کسے کہتے ہیں۔ تمہیں معلوم ہے؟

سرفراز:ہاں معلوم ہے۔

لڑکی:بتاؤ۔

سرفراز:خوبصورتی اس شراب کو کہتے ہیں جو ایک نظر میں مست کر دیتی ہے  اور  جس کا نشہ زندگی بھر نہیں اترتا۔

لڑکی:ارے ارے۔۔۔ تب تو چلو، میں تمہیں نواب سے ملاؤ گی وہ بھی شاعر ہیں۔ کیا کیا غزلیں لکھتے ہیں۔ غضب کرتے ہیں اماں کہتی ہیں بہت قابل آدمی ہیں ایک غزل لکھی تھی:

چھپا ہے مانگ میں دل اب بتاؤ ڈھونڈوں کدھر

کہ آدھی رات ادھر ہے  اور  آدھی رات ادھر

سرفراز:اہا ہا ہا  مزا آ گیا۔۔۔ چلو میں تمہیں خیمے کے راستے کی طرف لے چلتا ہوں۔ بتاؤ تو سہی  کدھر ہے وہ خیمہ؟

لڑکی:یہ جو سامنے شیشم کے پیڑ ہیں ان سے بائیں طرف جا کر دائیں کو مڑتے ہیں تو ڈھاک  کا جنگل آتا ہے بس وہیں۔ مگر مجھے ٹھیک راستہ نہیں آتا۔

سرفراز:میں راستہ ڈھونڈھ لوں گا۔ چلو۔

(تھوڑی دیر تک خاموش چلتے رہتے ہیں۔)

لڑکی:تمہیں گانا آتا ہے۔

سرفراز:ہاں کچھ کچھ۔

لڑکی:تم جوان ہو، خوبصورت ہو، کم عمر ہو، نا تجربہ کار ہو پھر گانا بھی آتا ہے۔ ارے تم مجھے پہلے سے کیوں نہیں ملے۔ میں تم سے پیار کرتی تمہیں چرا کر لے جاتی۔۔۔ ایک بات بتاؤں۔ سچ کہنا ٹھیک ہے نا تم سوداگر  ہو(ہنستی ہے) ہے نا یہی بات۔

سرفراز:ہاں  اور اس وقت جان  اور مال کا سودا کر رہا ہوں۔

لڑکی:لاؤ۔ ہم خریدتے ہیں۔

سرفراز:گانا آتا ہے تمہیں؟

لڑکی:ہاں ناچنا بھی آتا ہے۔ وہ کتھک ناچتی ہوں کہ کالکا  اور بندادین میرے سامنے پانی بھریں۔

سرفراز:تو کب؟

لڑکی:آج رات کو؟دیکھو وہ خیمے نظر آنے لگے۔ چلو تمہیں نواب سے ملواؤں۔

چوتھا منظر

نواب صاحب کا خیمہ۔ دن کے یہی کوئی ۹بجے

(نواب صاحب کا خیمہ۔ دن کے یہی کوئی ۹بجے)

نواب:کیا شربت ہے۔ خیرو مگر کریمہ کے ہاتھ سے ان کی لذت ہی کچھ  اور  ہو جاتی ہے۔ اہاہا۔ خدا کی قسم اگر ہم سکندر اعظم ہوتے  اور ساری دنیا پر ہماری حکومت ہوتی تو سبزی کے لئے ہم اپنی آدھی حکومت بخش دیتے۔ ایک پیالہ  اور۔۔۔  اور یہ مورپنکھی کہاں چلی گئی۔ واللہ رات اس نے کیا کتھک نا چاہے۔

مورپنکھی:یہ دیکھئے۔ سوداگروں کے بادشاہ سرفراز مرزا!

نواب:آئیے حضرت۔ یعنی جنگل میں بھی سوداگر ی۔ بھئی حد ہے۔ دنیا کام کی دیوانی ہے۔ اس کی قسمت میں عیش نہیں۔ میاں مسافر یہ مورپنکھی تمہیں کہاں سے پکڑ لائی۔

سرفراز:یہ راستہ بھول گئی تھیں۔

نواب:یہ بھی خوب ہے۔ یہ تو دوسروں کو راستہ بھلانے کے لئے کافی ہے۔ بھئی ایمان سے کہنا یہ سج دھج یہ الہڑ پن یہ قیامت کی شوخی، مستی، البیلا پن خوبصورتی، گلاب کی پنکھڑی کی سی نزاکت، کہیں دیکھی ہے تم نے۔ اس کی آنکھیں شبنم سے بھرے کنول۔ اس کے بال برسات کی کالی گھٹا۔۔۔  اور  ناچنے میں بھی قیامت ہے۔ بجلی ہے۔ طوفان ہے۔۔۔  تم نے اسے دیکھ کر خدا کی قدرت کے سامنے سجدہ کیا تھا یا نہیں؟!

سرفراز:آپ کے انتخاب کی داد دیتا ہوں۔

نواب:اچھا یہ بتاؤ کیا شغل کرو گے سبزی۱؂  پیو گے۔

سرفراز:جی نہیں۔ اس نعمت سے محروم ہوں۔

نواب:لاحول ولاقوۃ۔ اس کو زندگی اس لئے دی گئی ہے کہ عیش کرے۔ سوداگر ی تو مرنے کے  بعد بھی ہو سکتی ہے۔ عیش کر لو عیش۔

سرفراز:جی ہاں قبلہ صحیح فرمایا۔

نواب:پھر کس چیز سے شغف ہے؟

سرفراز:شکار سے۔

نواب:خوب خوب، چلو خوب  گزرے  گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو۔

سرفراز:میرے ساتھ تو کئی دیوانے ہیں۔

نواب:یعنی کہ سوداگروں کا پورا قافلہ ہے۔

سرفراز:جی ہاں۔

نواب:کوئی شکاری بھی ہے۔

سرفراز:ایک سے ایک بڑا شکاری ہے نواب صاحب۔ کیا مجال ہے کہ نشانہ خطا ہو جائے۔ بلم، بندوق، تلوار، لاٹھی، برچھی، تیر، ہر ہتھیار میں ماہر، ہر چیز میں استاد۔

۔۔۔۔۔

۱؂:سبزی۔ بمعنی بھنگ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نواب:میاں خیرو۔ بستر باندھو۔ ہم ان لوگوں کے قافلے کے ہمراہ جائیں گے۔ کچھ دن سیر شکار ہو جائے۔ کہاں روز روز گھر سے نکلنا ہوتا ہے۔

سرفراز:مگر حضور کے پاس قیمتی سامان ہے۔

نواب:ہے تو کیا ہوا۔

سرفراز:پھر اگلی منزل پر آپ کے ساتھی آپ کی راہ دیکھ رہے ہوں گے۔

نواب:وہ اپنی راہ چلے جائیں گے ہم چند دن بعد پہنچے  تو سمجھیں گے شکار چلے گئے۔

سرفراز:نہیں قبلہ میں اس کی رائے نہ دوں گا۔ سفر کا معاملہ ہے  اور وہ بھی جنگل کا۔ راستے چورا چکوں سے بھرے ہوئے ہیں۔کوئی اونچ نیچ ہو جائے تو مجھے شرمندگی ہو گی۔

نواب:(بے فکری سے ہنستا ہے) شکاری ہو کر ڈرتے ہو۔ ارے موت سے آنکھیں لڑاتے ہیں میاں خیرو سامان باندھو۔

مورپنکھی:لیجئے۔ حقہ حاضر ہے۔

نواب:لو میاں سوداگر مورپنکھی نے تمہارے لئے خود حقہ  تازہ کیا ہے پیو۔

سرفراز:میری خوش قسمتی۔

نواب:تم سچ مچ بڑے خوش قسمت ہو۔

پانچواں منظر

اسمٰعیل کا خیمہ۔ دن چڑھ آیا ہے۔ سہ پہر کا وقت

(اسمٰعیل کا خیمہ۔ دن چڑھ آیا ہے۔ سہ پہر کا وقت)

سرفراز:میری بڑی خوش قسمتی کہ آپ سے نیاز حاصل ہوا۔۔۔ یہ ہیں ہمارے خیمے۔ یہ ہمارے سوداگر بھائی ہیں۔

اسمٰعیل:نیازمند کو اسمٰعیل مرزا کہتے ہیں۔

نواب:سبحان اللہ آپ لوگوں نے تو جنگل میں منگل کر دیا ہے۔ بس صرف خواتین کی کمی ہے۔ ورنہ گھر کا مزا آتا۔

اسمٰعیل:جی ہاں مگر سوداگر بچے کہاں اپنے خاندان کو لئے لئے پھریں ہمارا کیا ہے آج یہاں ہیں کل وہاں ہیں۔

نواب:مورپنکھی۔۔۔ تم آ گئیں۔

مورپنکھی:میں نہ آتی۔ میں نے ہی تو ڈھونڈھا ہے سرفراز مرزا کو۔ ٹھگوں  اور  چوروں کے جنگل میں اکیلے بڑا ڈر لگتا تھا۔ خدا کی قسم میں تو سہم گئی تھی۔

سرفراز:ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔

نواب:سبزی  اور خوبصورت لڑکی سے موت بھی بھاگتی ہے۔۔۔ ارے بھائی اب کیا دیر ہے سب کو بلاؤ۔ بھائی برادروں کو جمع کرو۔ میاں خیرو سے کہو طبلہ لائیں سازندہ تو یہاں کوئی نہ کوئی مل ہی جائے گا۔ جم جائے محفل ہمیں سونے پن پر نفرت ہے خدا کی قسم اپنی زندگی تو رنگ رلیوں ہی میں کٹ گئی۔

سرفراز:جو ارشاد، استاد غفور خان۔ نواب صاحب کے پاس بیٹھو۔ سیٹھ بدری پرشاد۔

نواب:آئیے سیٹھ جی آپ ادھر آئیے۔ بخدا ہم بہت خوش ہیں۔ آپ لوگ مل گئے۔ سفر جنت بن گیا۔ میاں زندگی کیا ہے یہی دو گال ہنسنا بولنا۔ مور پنکھی۔ آج کوئی پھڑکتی ہوئی چیز سناؤ کہ روح جھوم اٹھے۔

(مورپنکھی کی آواز رس گھولتی ہوئی فضا میں پھیل جاتی ہے۔)

(رقص)

سرفراز:حضور تعریف نہیں ہو سکتی۔ چھلاوا ہے بجلی ہے کرشمہ ہے۔

نواب:مورپنکھی، ہماری سب سے بڑی دولت ہے۔ تم جانتے ہو سرفراز۔۔۔  ہم دو چیزوں سے زندہ ہیں۔ تم کہو گے پانی  اور ہوا۔ نہیں ہم وہ نہیں ہیں (گدھا رینکتا ہے) وہ گدھے  اور  ہوں گے ہم تو سبزی  اور مورپنکھی سے زندہ ہیں۔

سرفراز:غفور خاں۔ یہ کس جانور کی بولی تھی۔

غفور:جھرنی۱؂۔

نواب:یہ کون جانور  ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۱؂:ٹھگی کی اصطلاح میں کسی جانور کی آواز جو مبارک شگون مانی جاتی ہے۔

سرفراز:یہ خاص اسی جنگل کا جانور ہے۔ بڑا لذیذ ہوتا ہے  اور اس کے شکار میں وہ مزا ہے کہ حضور شیر کا شکار بھول جائیں گے۔ سچ عرض کرتا ہوں۔ عجیب و غریب چیز ہے مگر ذرا دو چار دن میں قابو میں آتا ہے۔ بڑا ہانکا کرانا پڑتا ہے۔

نواب:کوئی بات نہیں۔ مورپنکھی۔ تم یہاں رہنا۔ شام تک خیرو کو بھیجیں گے نہیں تو یہ سب شریف آدمی ہیں یہ بوڑھے باپ کے برابر اسمٰعیل مرزا ہیں۔ گھبرانا مت۔ ہم شکار سے واپس آ کر تمہیں لے چلیں گے دراصل ہم نے بڑی غلطی کی تمہیں پہلے قافلے کے ساتھی بھیج دینا چاہئے تھا۔

مورپنکھی:ہم آپ کے ساتھ شکار پر چلیں گے۔ ہم سے نہیں رہا جائیگا۔

نواب:اچھا دیکھا جائے گا تم تھوڑی دیر آرام کر لو تھک گئی ہو گی۔

سرفراز:تمہارے لئے خیمہ سجا دیا گیا ہے۔ جاؤ آرام کرو۔

مورپنکھی:دیکھئے میرے پیچھے شکار پرنہ چلے جائیے گا۔

نواب:پگلی۔ جا آرام کر لے۔

اسمٰعیل:سفر آپ کی وجہ سے بڑا اچھا کٹ رہا ہے۔

نواب:یہ آپ کیا کہتے ہیں حضرت۔ یہاں تو مستقل دم حلق میں اٹکا رہتا تھا۔ سارے ہتھیار پاس اتنے آدمی ساتھ مگر سفر میں خطرہ لگا ہی رہتا ہے۔ اب آپ ایسے لوگوں کا ساتھ ہو گیا۔ خطرہ نہیں رہا۔ کچھ سبزی کا شغل رہا۔

اسمٰعیل:حقہ ملاحظہ کیجئے۔

نواب:خوب(حقہ کا کش لگاتے ہیں) جناب سبزی بھی خوب چیز ہے۔ چلو میں الو۔ نہ غم  زرد نہ غم کالا۔ ایک دفعہ کا قصہ ہے کہ دو پیالے غٹا غٹ چڑھا کر جو شیر کے شکار کو نکلا تو ٹانڈ تک پہنچنے بھی نہ پایا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ شیر ببر ایک ایک  کلا دس دس من کا اینڈتا اکڑتا چلا آ رہا ہے۔ مجھے دیکھتے ہی چنگھاڑ ماری جست مارکر حملہ کرنا ہی چاہتا تھا کہ ڈپٹ کر جو میں نے لنگڑی ماری ہے تو دھوبی پاٹ پر کس لیا۔ چت کر کے وہ گھونسے وہ لاتیں ماریں کہ چیں بول گیا۔ میرا بھی شباب تھا۔ زمین پر ٹھوکر ماردوں تو پانی نکل آئے۔ ایسا دم دبا کر بھاگا کہ آج تک صورت نہیں دکھائی۔

سرفراز:سبحان اللہ سبحان اللہ۔ نواب صاحب آپ پان سے شوق فرمائینگے۔

اسمٰعیل:پان حاضر ہیں۔۔۔ مگر تمباکو(بلند آواز میں)ارے ہے کوئی تمباکو لاؤ۔

(تھوڑی دیر گڑبڑ اور ہلچل مچتی ہے نواب کا گلا سرفراز رومال سے گھونٹ دیتا ہے۔ نواب بے دم ہو کر گر پڑتا ہے لوگ اس کی لاش لے جاتے ہیں۔)

سرفراز:مر گیا کم بخت۔ رومال کی گرفت کافی دیر سخت کرنی پڑی۔

اسمٰعیل:مبارک ہو سرفراز مبارک ہو۔ پہلا شکار مبارک ہو۔ شاباش میرے بیٹے شاباش۔

غفور:مبارک۔

بدری:مبارک ہو

سرفراز:اگر تم دونوں نواب کے پیر اتنی اچھی طرح نہ پکڑتے تو اس قدر تیزی سے میں اس کی گردن کو رومال میں نہ جکڑ سکتا۔ میرے بھائیو۔یہ ہم سب کا حصہ ہے۔

بدری: اور اس کا نوکر خیرو؟

سرفراز:اسے دوسرے خیمے میں قتل کر دیا گیا۔

بدری:قبر؟

سرفراز:لگھائیوں نے قبریں تیار کر  رکھی ہیں ابھی ایک منٹ میں ہم ان دونوں کا نشان ختم کر دیں گے۔

غفور:مورپنکھی  کا کیا ہو گا؟

سرفراز:عورت کا قتل نہیں ہو گا۔ ہم اس سے کہہ دیں گے کہ نواب صاحب شکار چلے گئے۔

غفور: اور مال؟

سرفراز:پانچ ہزار روپیہ نقد  اور دس ہزار کا سامان۔ یہ سب ہمارا ہے۔ ہم سب کا ہے۔ یہ میری سرداری کا پہلا تحفہ ہے۔ آج یہ سب بانٹا جائے گا۔

بدری:مبارک ہو۔ سردار کی پہلی کامیابی مبارک ہو۔

سرفراز:بدری۔ میرے بھائی یہ میرا فرض تھا۔ میں بھوانی کا ادنیٰ سیوک ہوں۔۔۔ جلدی کرو۔ لگھائیوں سے کہو قبریں پاٹ کر زمین ہموار کر دیں  اور  اس پر فرش بچھا دیں۔ آج رات کو اس جگہ مورپنکھی پھر ناچے گی  اور  سنو غفور تم قافلے کے تین چار آدمیوں کو سفر پر روانہ کر دو۔ مورپنکھی سے کہہ دیں گے کہ ہمارے آدمیوں کو بھی نواب صاحب شکار پر لے گئے ہیں۔

بدری:بہت اچھا۔

سرفراز:یہ سب کام فوراً ہونا چاہئے۔

بدری:ابھی ہو جائے گا۔

سرفراز:ابا جان آپ سارا مال جمع کر کے اس کے بٹوارے کا انتظام کریں۔

اسمٰعیل:ابھی بٹوارہ ہوا جاتا ہے۔۔۔ بیٹے تو نے آج میرے بڑھاپے کی لاج رکھ لی۔ میں بھی جوانی میں اسی طرح رومال کے ایک جھٹکے سے گردن کو چٹخا دیا کرتا تھا۔ میرا سر آج غرور سے بہت اونچا ہو گیا ہے۔

سرفراز:آج میں نے پہلی بار انسانی خون کا مزا چکھا ہے۔ پہلی بار میں نے انسان کو اپنے ہاتھوں مرتے دیکھا ہے۔ یہ انسان قدرت کے ہاتھ کا کھلونا انسان۔

(قہقہہ لگاتا ہے۔)

اسمٰعیل:بھوانی تیرے دل کو سکون  اور تیرے ہاتھوں کو طاقت دے میرے بیٹے۔

سرفراز:انسان جو مغرور گھمنڈی، فرعون، خدائی کا دعویٰ کرنے والا انسان ایک معمولی سے کپڑے کی گرفت میں دم توڑ دیتا ہے۔ اس کا سارا گھمنڈ، ساری چالاکی، ساری دانشمندی  اور علمیت بس رومال کے ایک پیچ میں ختم ہو جاتی ہے۔ کیسی آنکھیں ابل آئی تھیں۔ کیسے نرخرا خرخر کرنے لگا تھا۔ کس طرح رگیں پھٹنے لگی تھیں  اور  اشرف المخلوقات کی ساری شیخی کرکری ہو گئی۔ انسان تو دنیا کا سب سے بڑا عجوبہ ہے انسان۔

(پھر قہقہہ لگاتا ہے۔)

بدری:سب ٹھیک ہو گیا ہے۔

سرفراز:زمین برابر کر دی گئی۔

غفور:جی ہاں۔ فرش بچھا کر لوبان  اور اگر سلگا دیا گیا۔

سرفراز:یہ اس قافلے کا سات  سو انیسواں شکار تھا۔

(ایک دم مورپنکھی بھاگتی ہوئی آتی ہے شام ہونے لگی ہے۔)

مورپنکھی:نواب صاحب سچی بڑا  اچھا خواب دیکھا ہے۔ میں نے بڑا اچھا سا خواب۔۔۔ ایں۔۔۔ نواب صاحب کہاں ہیں۔

سرفراز:آؤ۔ اندر آؤ مورپنکھی۔

مورپنکھی:نواب صاحب کہاں گئے۔

سرفراز:نواب صاحب۔

مورپنکھی:مجھ سے چھپا رہے ہونا!چلے گئے ہوں گے شکار پر۔ مجھ سے چوری چوری چلے گئے۔ کہہ دیا تھامیں نے کہ مجھے لے کر جائیے گا۔ بہانے بنانا تو کوئی ان سے سیکھے۔ مجھے بیٹی کی طرح پالا پوسا لاڈ کیا مگر مجھے چھوڑ کر چلے جانے کی عادت نہ گئی۔

سرفراز:گھبرانے کی کوئی بات نہیں مورپنکھی!وہ شکار سے جلد واپس آ جائینگے۔

مورپنکھی:ان کا کوئی ٹھیک نہیں۔ اگر لمبے نکل گئے تو بھلا میں  گھر کیسے پہنچوں گی۔

سرفراز:کیا سچ مچ تمہیں گھر پہنچنے کی فکر ہے؟

مورپنکھی:کسے نہیں ہوتی!

سرفراز:بہت سے لوگوں کو گھر کی فکر ہوتی ہے مگر کچھ ایسے ہوتے ہیں جو جہاں رہتے ہیں وہیں گھر بنا لیتے ہیں۔

مورپنکھی:(کھسیانی ہنسی ہنستی ہے) اچھا۔۔۔؟(پھر اس طرح ہنستی ہے) اچھا۔۔۔  نواب صاحب کہتے ہیں۔

سرفراز:کیا کہتے ہیں۔ نواب صاحب۔

مورپنکھی:کہتے ہیں۔۔۔  اچھا تم بتاؤ کیا کہتے ہیں۔

سرفراز:مجھے کیا معلوم؟!

مورپنکھی:کہتے ہیں۔ مورپنکھی کے ہاتھ تو مور جیسے خوبصورت آدمی کے ہاتھ میں تھماؤں گا۔ اس کے ہاتھ پیلے کر دوں گاتو مجھے بے فکری ہو اور نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں۔۔۔ مجھے شرم آتی ہے۔

سرفراز:تمہیں  اور شرم؟!

مورپنکھی:کیوں؟کیا میں عورت نہیں ہوں۔ کیا میں دل نہیں رکھتی۔

سرفراز:تمہارے دل بھی ہے؟

مورپنکھی:بہت بڑا۔ بہت اچھا سا دل۔ بڑا چنچل دل ہے۔ ایک بات تمہیں بتاؤں؟

سرفراز:بتاؤ۔

مورپنکھی:جب میں تالاب کے کنارے پانی میں پاؤں لٹکائے بیٹھی تھی  اور  میں نے تمہیں اس طرح آواز دی تھی ’’اے۔۔۔ اے۔۔۔ ذرا سننا‘‘ تو میں نے تمہیں تھوڑی ہی آواز دی تھی۔

سرفراز: اور کس نے آواز دی تھی؟

مورپنکھی:میرے چنچل دل نے !

سرفراز:کیوں؟

مورپنکھی:بس یوں ہی۔ ہمیں اچھے لگے۔ ہم نے بلا لیا۔ دل نے کہا اس آدمی کو لے لو۔ اسے ہتھیا لو۔ اسے اپنا لو۔

سرفراز:سچ؟

مورپنکھی:ہاں سچ؟!ہم جھوٹ نہیں بولتے۔ کبھی کبھی بولتے ہیں بہت کم۔

سرفراز:پھر تمہارا کیا فیصلہ ہے؟

مورپنکھی:ہم نے اپنا لیا۔ ہتھیا لیا۔ تم ہمارے قبضے میں ہو۔ بولو منظور۔

سرفراز:تم جلد باز ہو بہت  جلد باز ہو مورپنکھی۔ تمہیں کیا معلوم میں کون ہوں۔

مورپنکھی:اچھے نیک دل شریف آدمی ہو۔

سرفراز:تم نے میرا دل کہاں دیکھا ہے۔

مورپنکھی:تمہارے ماتھے پر۔ ہر ایک  کا دل اس کے ماتھے پر صاف دکھائی دیتا ہے۔

سرفراز:تم میرے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتیں۔

مورپنکھی:اس کی ضرورت بھی نہیں۔ میں نے انسانوں پر بھروسہ کرنا سیکھا ہے۔

سرفراز:تم میرے اوپر بھروسہ کرو گی۔ میرے اوپر؟

مورپنکھی:(ہنستی ہے)کیوں نہیں۔ اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ انسان انسان  پر بھروسہ کرتا ہے۔

سرفراز:میرے پاس دولت نہیں۔

مورپنکھی:میرے پاس ہے۔ نواب صاحب نے اپنی ساری جائداد میرے نام لکھ دی ہے۔

سرفراز:مورپنکھی!!

مورپنکھی:تمہیں کیا ہوا۔ تم گھبرائے ہوئے کیوں ہو۔ تم آرام کرو میں تمہیں پنکھا  جھلوں گی۔

سرفراز:انسان تو دنیا کا سب سے بڑا عجوبہ ہے۔

غفور:میں اندر آ سکتا ہوں۔

سرفراز:آؤ غفور۔ کہو کیا بات ہے۔

غفور:دادا نے آپ کو بلایا ہے۔

سرفراز:ابا جان نے بلایا ہے مورپنکھی ، تم یہیں ٹھہرو میں ابھی آتا ہوں۔

چھٹا منظر

اسمٰعیل کا خیمہ۔سر شام

(اسمٰعیل کا خیمہ۔سر شام)

اسمٰعیل:ہاں میں نے تمہیں بلایا تھا۔

سرفراز:جی۔

اسمٰعیل:اس لڑکی کو کیوں قتل نہیں کیا گیا۔

سرفراز:آپ نے کہا تھا عورت کا قتل جب تک ضروری نہ ہو نہ کیا جائے۔

اسمٰعیل:مگر اس کی موت ضروری ہے۔

سرفراز:کیوں؟

اسمٰعیل:یہ بھید اس سے چھپنا مشکل ہے  اور اگر بھید اس پر ظاہر ہو گیا تب بھی اس کی جان لینی ہم پر فرض ہو جائے گی۔

سرفراز:اس پر کوئی بھید ظاہر نہیں ہو گا ہم اسے قافلے کے ساتھ اس کے گھر  پہنچا دیں گے۔

اسمٰعیل:یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔ سرفراز!ایک بات بتاؤ۔

سرفراز:جی!

اسمٰعیل:تمہیں اس کے بونیج۱؂  قرار دیئے جانے پر اعتراض ہے۔ تم اس کی موت روکنا چاہتے ہو۔

۔۔۔۔۔۔

۱؂بونیج:وہ شخص ہے جسے ٹھگی کے قانون کے مطابق واجب القتل قرار دیا گیا ہو۔

سرفراز:میں؟ میں نہیں جانتا۔

اسمٰعیل:(گرج کر) صاف صاف جواب دو۔

سرفراز:میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔

اسمٰعیل:عورت زہر کا پودا ہے۔ عورت ناگن کی پھنکا رہے۔

سرفراز:مگر بھوانی ماتا خود بھی عورت کا سروپ ہے۔

اسمٰعیل:دیویوں کی باتیں نہ کرو۔

سرفراز:ہو سکتا ہے مورپنکھی بھی دیوی کا سروپ ہو۔

اسمٰعیل:تمہارا دماغ پھر گیا ہے۔۔۔  اس لڑکی کی موت ضروری ہے  اور وہ بھی تمہارے ہاتھ سے۔

سرفراز:ابا جان!!

اسمٰعیل:کیا ہوا؟ڈرتے ہو؟

سرفراز:نہیں۔

اسمٰعیل:پھر کیا عورت کے حسن کا جادو تم  پر چل گیا ہے۔

سرفراز:نہیں۔

اسمٰعیل:پھر۔۔۔ میں کہتا ہوں اس کی موت ضروری ہے  اور اسے تمہارے ہاتھ سے مرنا ہے۔ مت بھولو کہ تم نے ٹھگی کے قانون پر عمل کرنے کا حلف اٹھایا ہے  اور اس حلف سے پھر نے کی سزا موت ہے۔

سرفراز:میں سمجھتا ہوں اس کی موت ضروری نہیں۔

اسمٰعیل:بالکل ضروری ہے۔۔۔ موقع کی تاک میں رہو۔ اسے بونیج  قرار دو۔ ضروری ہدایت دو۔ سارا انتظام کر لیا جائے۔

سرفراز:ابا جان یہ ظلم ہے !

اسمٰعیل:یہ فرض ہے سرفراز!!

سرفراز:آپ نے کبھی میری بات نہیں ٹالی۔ آج میری ایک بات مان لیجئے۔

اسمٰعیل:کہو۔

سرفراز:مورپنکھی کو اس وقت تک زندہ رہنے دیجئے جب تک اسے ہمارے بھید کی خبر نہ ہو۔ جس وقت اسے ہمارا بھید معلوم ہو گیا میں قسم کھاتا ہوں میں خود اسے اپنے ہاتھ سے مار ڈالوں گا۔ میں اسے بونیج  قرار دے دوں گا۔

اسمٰعیل:بیکا رہے۔۔۔

سرفراز:صرف ایک بار موقع دیجئے۔ آئندہ کبھی آپ کے حکم سے انکار نہ کرونگا۔

اسمٰعیل:ضد کرتے ہو۔۔۔ چلو آزما دیکھو۔۔۔ مگر جس لمحے اسے راز معلوم ہو گا ا وقت سے بونیج  قرار دے کر جان دے مارنا ہو گا۔

سرفراز:مجھے منظور ہے۔

ساتواں منظر

خیموں کے باہر کا میدان وہی وقت

(خیموں کے باہر کا میدان وہی وقت)

(غفور کا قہقہہ سنائی دیتا ہے۔)

غفور:(قہقہہ لگا کر) تین دن کی سرداری۔

بدری:غفور!تم پھر الٹی سیدھی باتیں کرنے لگے۔

غفور:ایک۔ دو۔ تین۔۔۔ تین دن کی سرداری  اور پھر اندھیری رات۔ میں بھوانی کی قسم کھا کر کہتا ہوں سرفراز کی نیت صاف نہیں۔وہ ٹھگی کے قاعدوں سے ہٹ رہا ہے۔

بدری:کیا مطلب؟!

غفور:اس لڑکی کے جال میں پھنس کروہ ٹھگی کے قانون بھول رہا ہے۔ اسے لڑکی کے بھید معلوم ہونے کا خطرہ ہے۔ اسے کیوں چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس کی موت ضروری ہے۔ اس کے پاس قیمتی زیور ہیں۔ اچھی اچھی پوشاک ہے۔ پیسہ ہے۔ اس کی موت ضروری ہے۔

بدری:تم سردار پر الزام لگا رہے ہو۔

غفور:میں قانون سے ہٹنے والوں کو سردار نہیں مانتا۔ اپنے سردار سے پوچھو لڑکی قتل کیوں نہیں کی گئی۔ صرف اس لئے کہ تمہارے سردار اس کے ساتھ گلچھرے اڑا رہے ہیں۔ عیش کر رہے ہیں۔ یہ ظلم ہے۔ ہم سب کے ساتھ بے انصافی ہے۔

بدری: اور سردار  پر شک  کرنا بے انصافی نہیں؟

غفور:اگر وہ لڑکی قتل نہ کی گئی تومیں سرفراز کو سردار ماننے سے انکار کر دوں گا۔

بدری:چلو۔۔۔ مورپنکھی  کا ناچ شروع ہونے والا ہے۔

(دور سے رقص کی دھن سنائی دیتی ہے۔ جو دھیرے دھیرے قریب آتی جاتی ہے۔)

غفور:مورپنکھی  کا ناچ۔۔۔ نواب صاحب کی قبر پر(پھر اس قدر خوفناک طریقے پر قہقہہ لگاتا ہے) کل مورپنکھی کی قبر پر سرفراز کا ناچ بھی دیکھنا ہے۔

(رقص کی دھن قریب آ جاتی ہے دونوں خیمے کے اندر چلے جاتے ہیں۔)

آٹھواں منظر

(رات بھیگ چکی ہے۔ مورپنکھی  کا خیمہ)

سرفراز:تمہیں اس خیمے میں کچھ تکلیف ہے؟

مورپنکھی۔:نہیں۔ آج میرا ناچ کیسا تھا؟

سرفراز:بہت اچھا تھا۔

مورپنکھی:کیسے مرے ہوئے دل سے تعریف کر رہے ہو۔

سرفراز:ہاں میں تم سے ایک بات کہنا بھول گیا۔

مورپنکھی:کیا؟

سرفراز:نواب صاحب نے آدمی بھیجا ہے۔ ان کی طبیعت شکار میں خراب ہو گئی ہے۔ وہ گوالیار چلے گئے ہیں۔ وہیں سے گھر چلے جائیں گے۔ میری رائے میں تمہارے لئے بھی گھر جانا مناسب ہو گا۔

مورپنکھی: اور تم۔۔۔؟!

سرفراز:مجھے ابھی سوداگروں کی ٹولی کے ساتھ احمدآباد جانا ہے۔ مگر میں تمہیں واپس  پہنچوانے کا انتظام کر دوں گا۔

مورپنکھی:میرے گھر؟!

سرفراز:ہاں تمہارے گھر۔

مورپنکھی:مجھے ایک بات بتاؤ گے۔

سرفراز:ضرور۔

مورپنکھی:مگر تمہیں خدا کی قسم سچ سچ بتانا۔ جھوٹ نہ بولنا۔ دغا نہ دینا۔ نہیں تومیں سچ مچ صدمے سے مر جاؤں گی۔

سرفراز:پوچھو۔

مورپنکھی:کیا تم مجھ سے دور رہنا چاہتے ہو کیا تم مجھے پسند نہیں کرتے کیا مجھے اپنے سے ہمیشہ کے لئے دور کر دینا چاہتے ہو؟

سرفراز:مورپنکھی۔

مورپنکھی:بتاؤ۔۔۔ خدارا بتاؤ۔

سرفراز:یہ سب کیوں پوچھتی ہو؟

مورپنکھی:یہ اس لئے پوچھتی ہوں کہ میں تم سے پیار کرتی ہوں۔ تمہیں چاہتی ہوں۔ تمہارے اوپر اپنا مال، اپنی جان، اپنی عزت،  اپنی راحت، سب کچھ نچھاور کر سکتی ہوں میرے لئے تمہاری چاہت انمول ہے۔

سرفراز:مجھ سے کچھ نہ پوچھو۔ مجھ سے کچھ بھی نہ پوچھو۔

مورپنکھی:جواب دینا نہیں چاہتے۔

سرفراز:تم آخر مجھے اتنا اچھا کیوں سمجھتی ہو تم کیوں بن مانگے میرے لئے سب کچھ نچھاور کر رہی ہو۔ میں تمہاری محبت کے قابل نہیں ہوں۔ میں تمہاری پوجا کے لائق نہیں ہوں۔ مورپنکھی تم بہت اچھی ہو مگر میں دیوی کے سنگھاسن پر اپنی ناپاک پرچھائیں کیسے پڑنے دوں۔۔۔ مجھے معاف کر دو دیوی مجھے معاف کر دو۔

مورپنکھی:(ہنستی ہے)تم میری ہنسی اڑاتے ہو سرفراز مرزا(دوبارہ ہنستی ہے) بڑے بے رحم ہو تم،  میں تمہاری طرح ہوشیار نہیں ہوں۔ میں کچھ نہیں سمجھتی کچھ بھی نہیں جانتی۔ بس تم سے ایک دلاسا چاہتی ہوں۔

سرفراز:میں تمہیں کیسے دلاسا دے سکتا ہوں مورپنکھی؟!

مورپنکھی:میں تم سے صرف ایک فیصلہ چاہتی ہوں۔ اگر مجھے اپنے سے دور رکھ کر تمہارا دل خوش ہوتا ہے تو مجھے جہاں چا ہو بھیج دو میرے گھر بھجوا دو، گوالیار بھیج دو۔ کہیں بھیج دو میں  چلی جاؤں گی مگر تمہارے بغیر خوش نہ رہ سکوں گی۔ مجھے زندہ دیوار میں چن دو۔ میں زبان سے اف نہ کروں گی  اور  اگر تم مجھے پسند کرتے ہو مجھے چاہتے ہو تو مجھے کنیز کی طرح اپنے پیروں میں پڑا رہنے دو۔ ہم ایک چھوٹا سا گھر بنائیں گے۔ ہمارے بچے اس کچے آنگن میں کھیل کود کر جوان ہونگے۔ میرے لئے یہی خوشی سب سے بڑی خوشی ہے۔۔۔  میں تمہارے فیصلہ کا انتظار کروں گی۔

سرفراز:یہ سب نہ کہو۔ کچھ نہ کہو۔ مورپنکھی میرے پاس الفاظ نہیں۔ جن سے جواب دیا جاتا ہے۔ میرے پاس زبان نہیں ہے جس سے بات کہی جاتی ہے۔ خاموش کھڑی رہو۔ آج میں تمہیں جی بھرکر دیکھ لوں جب تک جتنی دیر میراجی چاہے تمہیں دیکھتا رہوں۔۔۔ دیکھتا رہوں۔

مورپنکھی:(ہنستی ہے)تم بہت عجیب ہو۔ میرا بس چلتا تو خدا سے تمہیں سمجھنے کے لئے ساری دنیا کی عقل مانگ لیتی۔

سرفراز:کاش تم پتھر کی دیوی ہوتیں تو تمہیں سنگھاسن پر بٹھا  کر تمہاری پوجا کرتا۔ تم نے انسان کا روپ کیوں لے لیا مورپنکھی۔ تم عورت کیوں بن گئیں دیوی؟!یہ تم نے کیا کیا؟!

مورپنکھی:کیسی الٹی الٹی باتیں کر رہے ہو؟

سرفراز:میری بات مانو۔ میں تم سے درخواست کرتا ہوں تم یہاں سے چلی جاؤ۔ سمجھ لو کہ سرفراز سے کبھی تمہاری ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ بھول جاؤ کہ تالاب کے کنارے تمہیں کوئی ملا تھا۔

مورپنکھی:میں تمہاری سب باتیں مانوں گی۔ میری محبت بھوکی شیرنی نہیں سرفراز۔ میری محبت تیاگ ہے۔ وہ تمہارے اوپر سب کچھ نچھاور کرنا چاہتی ہے۔ تم سے کچھ لینا نہیں چاہتی مگر مجھ سے ایسی درخواست نہ کرو۔ جو میرے قابو میں نہ ہو۔ میں نے کہا تھا میرا دل  بڑا چنچل ہے۔

سرفراز:دل وہ چیز ہے جس پر قابو پایا جاتا ہے۔

مورپنکھی:مجھے نصیحت نہ کرو سرفراز۔ میرے بس کی بات نہیں۔

سرفراز:پرسوں ایک قافلہ شمالی ہندوستان کے لئے روانہ ہو گا۔ میں تمہیں اس کے ساتھ بھیج دوں گا۔ اچھا خدا حافظ۔

مورپنکھی:جانے سے پہلے ضرور ملنا۔ نہیں تومیں کبھی معاف نہ کروں گی۔ نہیں تو میں زندگی بھر تمہارے لئے ترستی رہوں گی۔

نواں منظر

سرفراز مرزا کا خیمہ۔ رات کا پچھلا پہر

(سرفراز مرزا کا خیمہ۔ رات کا پچھلا پہر)

سرفراز:بدری۔

بدری:میرے سردار۔

سرفراز:تم میرے دوست ہو۔ میری مدد کرو۔ مجھے بتاؤ میں کیا کروں؟ کہاں جاؤں؟؟

بدری:مجھے سب معلوم ہے سردار۔

سرفراز:مجھے بتاؤ میں کیا کروں؟

بدری:آپ نے جو کچھ کیا ہے صحیح ہے۔ مگر سردار ہر  طرف سازشیں ہو رہی ہیں۔ غفور کے تیور ٹھیک نہیں ہیں۔

سرفراز:تم میری مدد کرو گے؟!

بدری:دل و جان سے۔

سرفراز:توسنو۔ آج سے پرسوں مورپنکھی کے روانہ ہونے تک اس کے خیمے کی نگرانی تمہارے سپرد ہے۔ مورپنکھی کو ہمارے بھید معلوم نہ ہونے پائیں۔ دن رات پہرہ دینا۔

بدری:میں تیار ہوں۔

سرفراز: اور پرسوں تم اپنے ساتھ مورپنکھی  کو اس کے گھر پہنچا دینا۔

بدری:جو حکم ہو دل  و جان سے بجا لاؤں گا۔۔۔ مگر غفور سے ہوشیار رہئے گا سردار۔ اس کے ارادے خطرناک ہیں۔

سرفراز:مجھے معلوم ہے۔ وہ سرداری کے خواب دیکھ رہا ہے۔

دسواں منظر

اسمٰعیل کا خیمہ۔رات کا وہی وقت

(اسمٰعیل کا خیمہ۔رات کا وہی وقت)

غفور:سب ٹھونک بجا کر دیکھ لیا ہے۔ کم سے کم دس بارہ ہزار کا مال ہے۔ چار آدمی ہیں چاروں سوداگر۔ مال لے کے دسہرہ کے بعد دکن کے لئے نکلے ہیں۔

اسمٰعیل:تمہارے اوپر پورا بھروسہ ہو گیا ہے۔ ان لوگوں کو۔

غفور:اجی سولہ آنے بھروسہ ہے سردار۔ آدھی رات کو کہئے تو آدھی رات کو بلا لاؤں۔ غفور نام ہے میرا۔ سوٹھائی ہوں کوئی مذاق ہے۔ اس میں عمر گذاری ہے حضور کے طفیل سے۔

اسمٰعیل:تو پھر کیا دیر ہے۔

غفور:حکم کی دیر ہے۔ آپ حکم کیجئے۔

اسمٰعیل:میں حکم کرنے والا کون۔ سرفراز تمہارا سردا رہے۔ اس سے حکم لو  اور  کام شروع کرو۔

غفور:اب میں اپنی زبان سے کیا کہوں۔ آپ کو تو معلوم ہے کہ وہ رنگ رلیوں میں کھوئے ہوئے ہیں۔ ان دنوں اسے اپنا ہوش ہی کہاں ہے؟!

اسمٰعیل:بڑی خطرناک بات ہے۔

غفور:جی ہاں۔

اسمٰعیل:میں نے کہا  دونوں باتیں خطرناک ہیں۔ سردار کا رنگ رلیوں میں کھویا رہنا  اور تمہارا سردار پر الزام لگانا۔ دونوں خطرناک ہیں۔ سرفراز تمہارا سردار ہے۔ تمہیں اس کا حکم ماننا چاہئے۔

غفور:میں اس کے حکم پر اپنی جان نچھاور کرنے کو تیار ہوں۔

اسمٰعیل:لو۔ وہ خود ہی آ گیا۔ سرفراز غفور کیا کہہ رہا ہے۔

سرفراز:کیا ہے غفور۔

غفور:کل چار سوداگر  ادھر سے گزر ہے ہیں حکم ہو تو چاروں کولے آؤں۔ بڑا مال اسباب ساتھ ہے۔ میں نے استاد سے ذکر کیا تھا۔

اسمٰعیل:میں نے کہا۔ سرفراز سے پوچھو۔

سرفراز:ضرور لاؤ۔ نیکی  اور  پوچھ پوچھ۔ رات کے کھانے پران سب کا تصفیہ ہو جائے گا۔

غفور:بہتر۔

سرفراز:توکل رات کو۔۔۔ غفور:ہاں کل رات کو۔

گیارہواں منظر

اسمٰعیل کا خیمہ۔دوسری رات کے ابتدائی حصے میں

(اسمٰعیل کا خیمہ۔دوسری رات کے ابتدائی حصے میں)

پہلا سوداگر :چلو اچھا ہی ہے۔ تمہارا ساتھ ہو گیا۔ نہیں تو یہ راستے سنوں ہوں بڑے کھترناک (خطرناک) ہیں۔ چلو جی۔ کس شبھ گھڑی سے کس بھاگیہ وان  کا  منہ دیکھ کر چلے تھے کہ تم لوگ مل گئے نہیں تو سوداگروں کا سفر تم جانوں بڑا جان جوکھم کا ہو وے ہے۔

غفور:سیٹھ جی۔ یہ توہمارا  سوبھاگیہ ہے کہ ہمارے ہاں آپ پدھارے۔

دوسرا سوداگر :وہ تو پرانی مثل ہے۔۔۔ جواہر کی قدر جوہری جانے یا بادشاہ۔

غفور:آپ نے بھی حضور کمال کیا۔ جوہری بچے ضرور ہیں مگر بادشاہ ہی سے بھلا کیا نسبت ہم لوگوں کو۔ آپ لوگ اونچے سوداگر  ہیں۔ آپ کی بات ہی کچھ  اور ہے۔

پہلا سوداگر :اجی ایسی بات کیوں سوچو ہو۔ سوداگر  بچہ سوداگر بچہ سب برابر ہیں۔ میں تو شگون کو بہت ہی سمجھوں ہوں۔

غفور:اس میں کیا شک ہے۔

پہلا سوداگر :اپنے منیم جی ہیں پنڈت رام لکھن۔ بھگوان سوگند۔جب بھی ان کا منہ دیکھ لیا کاروبار مندا ہی رہا کوئی نہ کوئی نکسان (نقصان) کچھ نہ کچھ گھاٹا  اور اپنا ایک رسوئیا ہے۔ نام تو اس کا ہے کلوا۔ مگر جب صبح سویرے منہ دیکھ لوں ہوں اس کا تو چاندی برسے ہے چاندی!

غفور:آئیے براجمان ہو جئے۔ یہ ہمارے استاد ہیں اسمٰعیل، یہ ہیں بڑے بازار کے جوہری سرفراز مرزا  اور یہ ہیں لالہ چپت رائے بہت بڑے بیوپاری ہیں۔

پہلا سوداگر :ا و ہو ہو ہو۔ یہاں تو مانو ساری اپنی برادری ہے۔

اسمٰعیل:ساری اپنی نگری کہئے سیٹھ جی۔

پہلا سوداگر :بڑی سجاوٹ بناوٹ کر کے رکھے ہو استاد اس جنگل میں کوئی خطرہ  دترہ نہیں۔

اسمٰعیل:اجی توبہ کیجئے۔ خطرے کا یہاں کیا کام۔

سرفراز:جی ہاں اس لئے ہم لوگ اتنا بہت انتظام کر کے نکلتے ہیں۔

غفور:سیٹھ جی۔ اپنے پاس چار چھ بندوقیں تین چار تلواریں تو ہر وقت جانو رہتی ہیں۔

پہلا سوداگر :تو اچھی سنائی۔ ہم لوگ بھی اب بے پھکر(فکر) ہو گئے۔

دوسرا سوداگر :سفر اچھا کٹے گا  اور چور ڈاکوؤں سے بھی حفاظت کا انتظام ہو جائے گا۔

غفور:اجی سیٹھ جی!چور ڈاکو تو ہماری طرف آنکھ بھر کر نہیں دیکھ سکتے۔ دیکھیں تو بھگوان سوگند آنکھیں نکال لیں۔

پہلا سوداگر :(عجب طرح ہنستے ہوئے) اچھا جی تب تو بہت ہی اچھا ہے۔

اسمٰعیل:غفور۔

غفور:جی استاد۔

اسمٰعیل:تم بھی ہو بڑے کاروباری آدمی۔ چار شریف بچے تمہارے مہمان ہیں  اور  تم نے خاطر تواضع بھی نہیں کی۔ کھانا لگواؤ۔

پہلا سوداگر :نہیں جی۔ کرپا ہے آپ کی۔ بھوجن سے نشچنت ہوکے آئے ہیں۔ اب تو سارے راستے ساتھ رہے گا۔ کیا فکر ہے ایسی باتوں کی۔

اسمٰعیل:پھر بھی کچھ حقہ پانی، کچھ جل پان۔

پہلا سوداگر :نہیں جی یہی کرپا بہت ہے آپ سب کی کہ ہمیں ساتھ لے لیا نہیں تو بھگوان سوگند آج کا زمانہ کلجگ ہے کل جگ۔ کون کس کی بھلائی سوچے ہے۔ سب اپنی اپنی پوری کچوری میں لگے ہیں بھگوان بچائے خون سفید ہو گیا ہے خون۔

اسمٰعیل:آپ نے ٹھیک کہا۔

غفور:استاد یہ کس جانور کی آواز ہے۔

(مور کی آواز سنائی دیتی ہے۔)

اسمٰعیل:مور کی آواز۔

پہلا سوداگر :بڑا اچھا شگون ہے مور کی آواز کان میں آ جائے تو مانو ہن برسنے لگے ہے۔ اس دن تومیں پھولوں نہیں سماؤں ہوں۔

سرفراز:شگون اچھا ہے۔

دوسرا سوداگر :اس شگون پرتو سیٹھ جی نے بڑے بڑے کام کئے ہیں۔

پہلا سوداگر :(ہنستا ہے)جی کچھ مت پوچھو۔ ایک دن کا قصہ کیا ہوا کہ ایک دوکان پر بیٹھا تھا لالہ مٹھن لال آئے تھے۔ ان کی لڑکی کا بیاہ تھا میں نے شگون دیکھا تو گڑبڑ۔ میں نے سوچا یہ تو برا ہوا۔ لالہ مٹھن لال کو سمجھایا تو ان کی سمجھ میں نہ آوے۔ آخر ٹھیک بیاہ کے سمے جوان کی پتری کو چھینکیں آنی شروع ہوئی ہیں تو سچ  مانیو منڈپ کی آگ مارے چھینکوں بجھ گئی۔

اسمٰعیل:(ہنستا ہے) بہت خوب۔

غفور:تو بڑے تجربے کی بات ہے۔ سیٹھ جی۔ شگون لینا بھی اب آج کل کتنوں کو آتا ہے۔

اسمٰعیل:سیٹھ جی۔ آپ تو واقعی بڑے دل چسپ آدمی ہیں۔ ارے کوئی ہے۔۔۔  پان تمباکو لاؤ۔

(سیٹھ جی  اور ان کے ساتھیوں کے گلے گھونٹ دیئے جاتے ہیں۔ وہ سب بے دم ہو کر گر پڑتے ہیں۔ ان کی لاشیں لے جائی جاتی ہیں۔)

سرفراز:سب ٹھکانے لگا دئیے گئے کم بخت۔

اسمٰعیل:شاباش۔ ساتھیو شاباش۔

سرفراز:قبریں تیا رہیں۔

مورپنکھی:(چیختی ہوئی داخل ہوتی ہے) یہ تم نے کیا کیا  ظالمو تم قاتل ہو۔تم مجرم ہو تم انسانی خون کے پیاسے ہو آہ  خدایا تو نے مجھے کن بھیڑیوں میں بھیج دیا ہے۔ تم ٹھگ ہو۔ کہو یہ جھوٹ ہے بتاؤ یہ جھوٹ ہے۔

سرفراز:(چیخ کر) بدری۔

غفور:سردار۔

سرفراز:اسے خیمے سے باہر لے جاؤ۔ یہ یہاں کیسے آ گئی؟

مورپنکھی:مجھے کسی نے آواز دی تھی خیمے میں خون ہو رہا ہے۔ میں طنابیں کاٹ کر بھاگی ہوں۔ میں نے اپنی آنکھ سے خون ہوئے دیکھا ہے۔ اپنی ان آنکھوں سے دیکھا ہے۔

سرفراز:غفور اسے خیمے میں لے جاؤ۔

مورپنکھی:(جسے گھسیٹ کر باہر لے جایا جا رہا ہے)مجھے مت گھسیٹو۔ مجھے سرفراز سے بات کر لینے دو ظالمو، خونی قاتلو میری بات سن لو۔

اسمٰعیل:میرے بیٹے تجربہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا تمہیں اپنا وعدہ یاد ہے نا؟!

سرفراز:ہاں ابا جان۔

(پس منظر میں غفور کے خوفناک قہقہہ کی آواز بلند ہوتی ہے۔)

سرفراز:یہ کون ہنس رہا ہے۔ یہ کون مجھ پر قہقہہ لگا رہا ہے خاموش ہو جاؤ (چیخ کر) سب خاموش ہو جاؤ۔

اسمٰعیل:میرے بیٹے ہمت سے کام لو۔ یہ رومال سنبھالو۔ میں نے لگھائی سے کہہ دیا ہے قبر تیار رہے گی۔

بارھواں منظر

خیمے کے باہر۔ وہی وقت

(خیمے کے باہر۔ وہی وقت)

غفور:بدری۔۔۔ آج کس مزے کی ٹھنڈ ہے۔ موسم بہار دکھا رہا ہے۔

بدری:کوئی خاص بہار تو نہیں۔

غفور:چاروں طرف بہا رہے۔ ٹھنڈک دور کرنے کی دو ترکیبیں ہیں۔ انسانی جسم کی گرمی یا انسان کی جان لینے کی خوشی۔۔۔  بھگوان سوگند جب میں موت کا سامان کرتا ہوں تو مجھے ٹھنڈ نہیں لگتی۔

بدری:آج کس کی موت کا سامان ہے۔

غفور:مورپنکھی!!تمہارے دوست کی محبوبہ۔۔۔  کوئی غفور خاں کے چنگل سے بچ کر نہیں جا سکتا۔

بدری:تم نے بڑا ظلم کیا ہے۔

غفور:میں معافی نہیں چاہا  کرتا میں کبھی معاف نہیں کرتا۔ میں نے بدلہ لے لیا ہے۔ میرا کلیجہ ٹھنڈا ہو گیا۔

بدری:اب کیا ہو گا۔

غفور:سرفراز کو اپنے ہاتھوں سے مورپنکھی  کا خون کرنا ہو گا۔ کتنی عجیب بات ہے۔مورپنکھی  کا خون سرفراز کے ہاتھوں ، جن ہاتھوں کو ہاتھ میں لے کر اس نے وفا کی قسم کھائی تھی۔ جن ہاتھوں کو اس نے پیار سے اپنی آنکھوں سے لگایا تھا۔ ان ہی ہاتھوں سے (قہقہہ لگاتا ہے) تم جانتے ہو کس نے اسے پکارا تھا۔ کون مور پنکھی کو وہاں بلا کر لایا تھا۔ سوچو بدری سوچو۔ سوچنے کو بہت کچھ باقی ہے۔

(ایک  اور قہقہہ لگاتا ہے۔)

تیرھواں منظر

مورپنکھی کا خیمہ، مورپنکھی فرش پر پڑی سسک رہی ہے

(مورپنکھی کا خیمہ، مورپنکھی فرش پر پڑی سسک رہی ہے۔)

سرفراز:مورپنکھی!

مورپنکھی:تم ہو؟!

سرفراز:ہاں۔۔۔ میں ہوں۔ تم نے میرا اصلی روپ دیکھ لیا۔

مورپنکھی:ہاں۔

سرفراز:تم نے دیکھ لیا ہم سب ٹھگ ہیں۔ ہم انسانوں کے خون کے پیاسے ہیں۔ ہم لوٹتے ہیں۔

مورپنکھی:ہاں۔مجھے معلوم ہو گیا۔

سرفراز:میں اسی لئے کہتا تھا میرا اصلی روپ دیکھو گی تو میرے منہ پر تھوک کر چلی جاؤ گی۔ مجھ سے نفرت کرنے لگو گی۔ مجھ سے ہمیشہ کے لئے منہ موڑ لو گی۔

مورپنکھی:تم ٹھگ ہو۔

سرفراز:ہاں۔ ٹھگی میرا پیشہ ہے۔

مورپنکھی:تو مجھے ٹھگ لو۔ میری گردن سے یہ زیور، ہاتھوں کے سونے کے کڑے۔ یہ پازیب، یہ گلے کا جڑاؤ ہار، یہ سب اتار لو۔ میں خوشی سے تمہیں دیتی ہوں۔ لو اسے لے جاؤ۔

سرفراز:ہم خیرات نہیں لیا کرتے۔

مورپنکھی:جاؤ ساتھیو سے کہو کہ نواب نے ساری جائیداد میرے نام لکھی ہے۔ ان کے سارے روپیہ کی وارث میں ہوں۔ میں یہ سارا روپیہ سرفراز کو دیتی ہوں۔ میں یہ سارا روپیہ تم سب میں بانٹنے کو تیار ہوں۔

سرفراز:کیا کہہ رہی ہو مورپنکھی؟

مورپنکھی:میں آج بھی تمہیں چاہتی ہوں سرفراز۔

سرفراز:مورپنکھی؟!!!

مورپنکھی:ہاں میرے ٹھگ!میرے لٹیرے دوست!!میں نے تجھے چاہا ہے۔ میں نے کہا تھا نا میں نے انسانوں پر بھروسہ کرنا سیکھا ہے ، محبت زہر نہیں ہے امرت ہے  اور اگر  میرے پاس امرت ہے تو تمہارے اندر کی سچائی ضرور ابھرے گی۔ تم اتنے پیارے ہو اتنے خوبصورت ہو، تم قاتل  اور خونی نہیں رہ سکتے۔ میرا پیار تمہیں جیت لے گا۔ میری محبت تمہیں پاک کر دے گی۔ مجھے بھروسہ ہے مجھے انسان سے پیا رہے۔

سرفراز:قاتلوں میں انسانیت ڈھونڈتی ہو؟!

مورپنکھی:ہاں۔۔۔ میرا خیال غلط ہے؟!

سرفراز:بالکل غلط، 

مورپنکھی:تو پھر میرا آخری تیاگ قبول کر لو۔ اپنے ہاتھ سے یہ جڑاؤ  ہار اتار لو  اور  میری گردن میں اپنا خونی رومال ڈال دو۔ اس کی گرہ باندھو۔’’تمباکو لاؤ‘‘ کی آواز دو۔ میں تمہاری آغوش میں ہنستے ہنستے جان دے دوں گی۔۔۔  لاؤتمہارا رومال کہاں ہے۔

سرفراز:مورپنکھی۔

مورپنکھی:مورپنکھی نے جان کی بازی لگائی تھی۔ وہ اسے ہنستے ہنستے ہار بھی سکتی ہے۔ تم جیت جاؤ گے میرے لئے یہی خوشی کیا کم ہے !!

سرفراز:مجھ سے آج تک کسی نے ایسی باتیں نہیں کیں۔ تم عجیب ہو۔

مورپنکھی:ہاں میں عجیب ہوں۔کیونکہ مجھے تم پر بھروسہ ہے کہ جب تم میری لاش کو قبر میں لٹکانے لگو گے تو تمہارے  اندر کا چھپا ہوا انسان جاگے گا  اور  تمہارا گریبان پکڑے گا۔ وہ تم سے پوچھے گا تم انسانوں کو کیوں مارتے ہو۔ ان انسانوں کاکیوں خون کرتے ہو۔ جو تمہیں پیارے ہیں۔ جو تمہیں پیار کرتے ہیں۔ جو زندگی کی ایک چھوٹی سی خوشی کے لئے اپنی جان تک نچھاور کرتے ہیں۔ میں تمہارے خوابوں کی ملکہ بنوں گی تمہارے خیالوں پرمیرا راج ہو گا میں تمہیں جیت لوں گی میں تمہیں ہمیشہ کے لئے جیت لوں گی۔۔۔ میں تم سے موت مانگتی ہوں میرے شہزادے لاؤ مجھے موت دے دو۔

سرفراز:لاؤ میں تمہارا ہار اتارتا ہوں۔

مورپنکھی:(سر جھکا دیتی ہے) اتار لو۔

سرفراز:(گردن پکڑ کر)اس خوبصورت گردن میں ایک لمحے بعد میرا رومال ڈال دیا جائے گا  اور یہ نازنین  کامنی ہمیشہ کے لئے موت کی نیند سو جائے گی۔۔۔ میرے ہاتھوں !میرے ہاتھوں !(چیختا ہے) نہیں ! نہیں !! نہیں !!! میں نہیں مار سکتا۔ میں اسے نہیں مار سکتا۔۔۔  میں اسے نہیں مار سکتا!۔

(خیمے سے دونوں ہاتھوں سے منہ چھپا کر باہر نکلنا چاہتا ہے کہ اسمٰعیل داخل ہوتا ہے  اور  اس کے پیچھے پیچھے غفور بھی ہے۔)

اسمٰعیل:سرفراز۔۔۔ خیمے سے باہر کیوں نکلتے ہو؟!

سرفراز:ابا جان میں اسے نہیں مار سکتا میں کسی انسان کو نہیں  مار سکتا۔ یہ بھلے برے سب میرے ہیں۔ سب مجھ جیسے ہیں۔ میں ٹھگ نہیں ہوں۔ میں ٹھگ نہیں ہوں۔ میں ٹھگ بننا نہیں چاہتا مجھے انسان بننے دو۔ خدا کے لئے مجھے انسان بننے دو۔

اسمٰعیل:میرے بیٹے کیا کہہ رہے ہو؟!میرے بیٹے؟!

غفور:سردار تم نے حلف اٹھایا ہے تم نے بھوانی ماتا کی سوگند کھائی ہے۔ اس کے غضب سے ڈرو۔

اسمٰعیل:تم نے قسم کھائی تھی۔

سرفراز:میں آج ساری قسمیں توڑنا چاہتا ہوں۔ یہ سب جھوٹی قسمیں ہیں۔ میں آج سے باغی ہوں۔ میں آج سے سارے قول و قرار سے پھر تا ہوں۔ مجھے جانے دو!مجھے چھوڑ دو!!

غفور:سردار تم بھول رہے ہو اس کی سزا موت ہے۔

سرفراز:اگر زندگی کی چاہت کی سزا موت ہے تو یہ مجھے قبول ہے۔میں زندہ رہنا چاہتا ہوں میں انسانوں کو نفرت کی جگہ پیار دینا چاہتا ہوں اتنا پیار اتنی محبت اتنی ہمدردی کہ یہ دنیا پیار اور خوشی سے بھر جائے۔

اسمٰعیل:اس کا دماغ پھر گیا ہے !

مورپنکھی:ایسا نہ کہو آج شاید زندگی میں پہلی بار یہ ہوش میں آئے ہیں۔

اسمٰعیل:خاموش!لڑکی، ارے کوئی ہے۔۔۔ تمباکو لاؤ۔

(سرفراز کا گلا گھونٹا جاتا ہے۔)

مورپنکھی:مار ڈالا!بزدلو!تم زندگی بھر اس کی روح کا گلا گھونٹتے رہے۔ ایک بار صرف ایک بار اس کے اندر کا انسان جاگا۔ تم نے اس کا بھی گلا گھونٹ دیا۔ مجھے بھی مار ڈالو۔ میرا بھی گلا گھونٹ دو۔ میں چلاؤں گی۔ فریاد کروں گی۔ میں چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لوں گی۔

اسمٰعیل:اس لڑکی کو بھی۔۔۔

(ڈراپ سین)

***

ماخذ: ’’مورپنکھی اور دوسرے ڈرامے ‘‘

مکتبۂ دین و ادب

لکھنؤ

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔