02:50    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

ڈرامے

1712 0 0 00

محبت کی پیدائش - سعادت حسن منٹو

(تحفوں کی دوکان۔۔۔ وسیع و عریض جگہ ہے ، جہاں بے شمار الماریاں دھری ہیں بڑے بڑے شیشے کے شوکیس رکھے ہیں۔ہر ایک چیز جھلمل جھلمل کر رہی ہے۔۔۔ بہت سے گاہک جمع ہیں۔کچھ آ رہے ہیں کچھ جا رہے ہیں۔۔۔ حامد اور سعید ادھر آتے ہیں۔ حامد کے ہاتھ میں اخبار ہے وہ اس دوکان کا پتہ دیکھ رہا ہے۔۔۔ دوکان دار نئے گاہکوں کو دیکھ کر متوجہ ہوتا ہے  اور پاس آتا ہے۔)

دوکاندار:فرمائیے۔

حامد:تحفوں کی یہی دوکان ہے۔ جس کا اشتہار۔۔۔

دوکاندار:آپ اس اخبار میں ملاحظہ فرما رہے ہیں۔۔۔ آئیے۔۔۔ آئیے۔۔۔

(دوکان کے ذرا اندر چلے جاتے ہیں۔۔۔ اتنے میں چند لمحات کے بعد دو لڑکیاں آتی ہیں۔بڑی تیز بڑی طرار)

حمیدہ:(دوکان کے ملازم سے)تحفوں کی یہی دوکان ہے۔

ملازم:جی ہاں۔ یہی دوکان ہے  اور گورنمنٹ سے رجسٹرڈ۔

حمیدہ:رجسٹرڈ؟

ملازم:جی ہاں۔۔۔ اندر تشریف لے جائیے میم صاحب۔

(دونوں لڑکیاں دوکان کے اندر چلی جاتی ہیں۔ حمیدہ اس شوکیس کے پاس پہنچتی ہے۔ جہاں حامد دوکاندار کے پاس کھڑا ہے  اور جھک کر شوکیس میں رکھی ہوئی چیزوں کو دیکھ رہا ہے۔)

حامد:(دوکاندار سے)مجھے آپ کی سب چیزیں پسند آئی ہیں (اچانک حمیدہ کی طرف دیکھتا ہے)خاص طور پروہ چیز تو خوب ہے۔۔۔

(حمیدہ کے گال ایک دم سرخ ہو جاتے ہیں۔)

دوکاندار:کونسی؟

حامد:(دوکان کے ایک کونے کی طرف اشارہ کر کے)وہ پتلی جواس کے کونے کی زینت بڑھا رہی ہے۔

دوکاندار:قدر افزائی  کا شکریہ۔۔۔ فرمائیے کون سا تحفہ باندھ دوں؟میرا ذاتی خیال ہے کہ۔۔۔

حامد:فرمائیے فرمائیے۔ آپ کا ذاتی خیال کیا ہے۔

(حمیدہ کی طرف دیکھتے ہوئے۔)

دوکاندار:کس کے متعلق؟

حامد:(چونک کر)ان ہی۔۔۔ ان ہی تحفوں کے متعلق!

دوکاندار:میرا ذاتی خیال ہے۔ مگر آپ کس تقریب کے لئے تحفہ چاہتے ہیں؟

حامد:ہاں یہ بتانا واقعی ضروری ہے (آواز دیتا ہے) سعید صاحب۔۔۔  سعید صاحب!

سعید:حاضر ہوا۔

حامد:آپ انہیں بتا دیجئے کہ مجھے کس تقریب کے لئے تحفہ چاہیے۔

(حمیدہ کھل کھلا ہنستی ہے۔)

حامد:یہ کون ہنسا؟

دوکاندار:لڑکیاں ہیں۔ ہنس رہی ہیں۔

حامد:ہاں لڑکیاں ہیں ہنس رہی ہیں۔۔۔ قصہ یہ ہے کہ مجھے اپنی بیوی کے لئے۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ اس بیوی کے لئے جو میری بیوی ہونی چاہئے  اور بہت جلد ہونی چاہئے۔ مجھے ایک تحفہ خریدنا ہے۔ ہم دونوں نے یہی فیصلہ کیا ہے حالانکہ میں اپنی سالگرہ منا سکتا تھا۔

دوکاندار:اس میں کیا شک ہے۔۔۔ میرا ذاتی خیال ہے۔

(حمیدہ ہنستی ہے۔)

دوکاندار:یہ کون ہنسا؟

سعید:لڑکیاں ہیں ہنس رہی ہیں !

حامد:ہاں لڑکیاں ہیں۔ انہیں ہنسنا ہی چاہئے۔

دوکاندار:میرا ذاتی خیال ہے کہ اب، آپ کو جلدی کوئی تحفہ خرید لینا چاہئے کیوں کہ۔۔۔

حامد:میں اپنا تحفہ منتخب کر چکا ہوں۔

دوکاندار:فرمائیے۔

حامد:(شوکیس میں سے دو چوڑیاں نکالتا ہے جس پر مینا کاری  کا کام ہے) یہ وہ چوڑیاں جواس خوب صورت بکس میں دو حسین کلائیوں کو دعوت دے رہی ہیں۔

دوکاندار:(بکس لے کر)واہ واہ۔۔۔ کیا تحفہ چنا ہے آپ نے۔۔۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ۔۔۔

(تیز قدمی سے حمیدہ آتی ہے۔)

حمیدہ:(دوکاندار سے)اس تاش کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟

حامد:بہت خوب صورت ہے۔ خصوصاً۔۔۔

حمیدہ:میں نے آپ کی رائے طلب نہیں کی۔

سعیدہ:کچھ میں عرض کروں۔

حمیدہ:جی نہیں (دوکاندار سے)فرمائیے اس کے متعلق آپ کی ذاتی رائے کیا ہے؟

دوکاندار:بڑا خوب صورت ہے۔ دیرپا ہے  اور ایک تحفہ چیز ہے۔ وہ خوش نصیب ہو گا۔ جسے آپ یہ تحفہ دیں گی۔

حامد:یعنی اگر وہ فلش کھیلے گا تو خوب جیتے گا۔

حمیدہ:آپ نے کیسے جانا کہ میں یہ تاش کسی کو تحفہ دینے ہی کے لئے خرید رہی ہوں۔۔۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ تاش میں نے صرف اپنے لئے خریدا ہے۔۔۔ (دوکاندار سے)پیک کرا دیجئے اسے (بٹوہ کھول کر) یہ لیجئے اس کی قیمت۔

حامد:(چوڑیوں کا بکس دوکاندار کو دیتے ہوئے)پیک کرا دیجئے اسے (جیب سے دام نکال کر دیتے ہوئے) لیجئے قیمت!

(دوکاندار دونوں چیزیں لے کر چلا جاتا ہے۔)

حمیدہ:(اپنی سہیلی کو آواز دیتی ہے)سعیدہ!

سعید:ارشاد۔

حمیدہ:آپ کا نام سعیدہ ہے؟

سعید:جی نہیں۔۔۔ فقط سعید، ہائے ہوز کے بغیر۔۔۔

(سعیدہ آتی ہے۔)

حمیدہ:(حامد کی طرف دیکھ کر سعیدہ سے)کیوں سعیدہ، میں نے یہ تاش اپنے لئے خریدا ہے یا کسی  اور کے لئے؟

سعیدہ:اپنے لئے۔

حامد:یہ  اور بھی اچھا ہے۔

حمیدہ:کیوں؟

حامد:اس لئے کہ چوڑیاں بھی میں نے اپنے لئے خریدی ہیں۔

حمیدہ:(مسکرا کر) آپ خود پہنئے گا۔

حامد:جی ہاں فی الحال خود ہی پہنوں گا جب تک۔۔۔  آپ تاش بھی فی الحال اکیلے ہی کھیلیں گی۔

حمیدہ:فی الحال میں نے کوئی فیصلہ نہیں کیا  اور میں سمجھتی ہوں کہ فی الحال ہمیں یہ گفتگو بند  کر دینی چاہئے۔

(دوکاندار آتا ہے۔)

دوکاندار:میرا ذاتی خیال ہے کہ۔۔۔

حامد:فی الحال اپنے ذاتی خیال کو موقوف رکھئے۔۔۔ لائیے میری چوڑیاں۔

حمیدہ:لائیے میرا تاش۔

(دوکاندار دونوں کے پیکٹ دونوں کے حوالے کر دیتا ہے۔۔۔)

(سب باہر نکلتے ہیں۔)

(ہوسٹل کا وہی کمرہ جو ہم پہلے منظر میں دکھا چکے ہیں۔۔۔ حامد کرسی پر بیٹھا ہے سامنے تپائی رکھی ہے جس پر تاش کے پتے بکھرے ہوئے ہیں حامد انہیں اکٹھا کرتا ہے پھینٹتا ہے۔۔۔ اٹھ کھڑا ہوتا ہے  اور سامنے دیوار پر چغتائی کی پینٹنگ کی طرف دیکھ کر گانا شروع کر دیتا ہے۔)

گیت

نیندوں سے لبریز ہیں آنکھیں جیسے خواب رسیلے

ترچھی نظریں یوں پڑتی ہی جیسے بان کٹیلے

چال میں ایسا دم خم جیسے رک جانے کے حیلے

زہر سہی پر کون ہے جو یہ زہر نہ بڑھ کر پی لے

ہونٹوں پر ان سنے ترانے جھیل میں جیسے تارے

نانکی چتون میں وہ جھل مل جو کھیلے سو ہارے

چہرے پر لالی جیسے کلیاں ندی کنارے

حسن کے اس امڈے دھارے میں ڈھونڈے کون سہارے

حامد:(پھر کرسی پر بیٹھ جاتا ہے  اور تھوڑی دیر گیت کی دھن گنگنانے کے بعد تاش کے پتے ایک ایک کر کے پھینکتا ہے)بادشاہ۔۔۔ بیگم۔۔۔  اور یہ اکہ۔۔۔ راؤنڈ بن گئی (گنگناتا ہے)۔۔۔ حسن کے اس امڈے دھارے میں ڈھونڈے کون سہارے؟(پھر پتے پھینکتا ہے)ستا۔۔۔ اٹھّا۔۔۔   اور۔۔۔  یہ نہلا۔یہ بھی راؤنڈ بن گئی۔

(سعید اندر داخل ہوتا ہے۔)

سعید:آپ راؤنڈیں کیا بنا رہے ہیں۔۔۔ ارے۔۔۔ یہ تو اسی قسم کا تاش ہے۔

حامد:اجی نہیں۔۔۔ اسی قسم کا تاش نہیں بلکہ وہی تاش ہے۔

سعید:(حیرت سے) آپ کا مطلب؟

حامد:(اٹھ کر تاش پھینٹتے ہوئے)بالکل واضح ہے۔

سعید:(کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔) یعنی؟

حامد:دیکھئے میں آپ کو بتاتا ہوں (تاش کے پتے تپائی پر پھینکتا ہے) یہ دہلا۔۔۔ یہ بیگم۔۔۔  اور یہ غلام۔۔۔ دیکھا آپ نے۔۔۔ اب آپ خود ہی سوچ لیجئے۔ یہ کیا معاملہ ہے۔

سعید:آپ خود ہی بیان فرمائیے۔

حامد:(گاتا ہے)ہونٹوں پران سنے ترانے جھیل میں جیسے تارے۔۔۔ یہ ان سنے ترانے آپ نہیں سن سکتے۔

سعید:یہ آپ کیا پہیلیاں بجھوا رہے ہیں مجھ سے۔۔۔ میں پوچھتا ہوں یہ تاش آپ کے پاس کیسے آ گیا؟

حامد:آ گیا۔۔۔ حق بحق دار رسید۔۔۔  میں نے آج نوٹ بک کھول کر دیکھی تو معلوم ہوا کہ آج ہی میری سالگرہ ہے۔۔۔ سو اپنی سالگرہ کا تحفہ مجھے مل گیا  اور  وہ دو چوڑیاں ادھر چلی گئیں۔

سعید:کدھر؟

حامد:ادھر ہی۔ میری ہونے والی بیوی کے پاس۔

سعید:(اٹھ کھڑا ہوتا ہے) میرا ذاتی خیال ہے کہ دکاندار کی غلطی سے پیکٹ بدل گئے۔۔۔ آپ کی چوڑیاں ادھر چلی گئیں اس کا تاش  ادھر آ گیا۔

حامد:آپ کا ذاتی خیال دوکاندار کے ذاتی خیال سے بہت زیادہ درست ہے۔

سعید:اب آپ کیا کیجئے گا؟

حامد:کچھ بھی نہیں۔۔۔ تاش کھیلا کروں گا۔

سعید: اور وہ چوڑیاں پہنا کرے گی۔

حامد:کیا حرج ہے؟

(دروازے پر دستک ہوتی ہے۔)

حامد:کون ہے؟

تار والا:(باہر سے) تار والا حضور۔

(حامد تاش کو تپائی پر رکھ کر باہر نکلتا ہے۔ چند لمحات تک سعید اکیلا تاش کے پتے ایک ایک کر کے تپائی پر پھینکتا ہے۔)

سعید:راؤنڈ۔۔۔ حد ہو گئی ہے۔

(حامد  تار لئے اندر آتا ہے۔)

حامد:کیا ہوا؟

سعید:ایک راؤنڈ بن گئی تھی۔۔۔ آپ سنائیے خیریت توہے !

حامد:قبلہ والد صاحب کاتا رہے۔

سعید:کیا فرماتے ہیں۔

حامد:فرماتے ہیں فوراً چلے آؤ۔۔۔  ایک ضروری کام ہے۔

سعید:یہ ضروری کام کیا ہو سکتا ہے؟

حامد:ڈپٹی صاحب ہی جانیں۔۔۔ سوال توہے کہ اب جانا پڑے گا۔۔۔  (سعید کے ہاتھ سے تاش لیتا ہے۔) دیکھئے اگر سوئے اتفاق سے میری غیر حاضری میں آپ کی ان سے ملاقات ہو جائے  اور وہ اس تاش کے بارے میں استفسار کریں تو۔۔۔

سعید:میں اپنی لاعلمی کا اظہار کروں ، لیکن اگر وہ اسی قسم کا دوسرا سودا کرنا چاہیں۔

حامد:تو میری طرف سے آپ کو اس کی کھلی اجازت ہے۔

سعید:تو چلئے ، اپنا اسباب بند کیجئے۔

(ڈپٹی صاحب کا گھر۔۔۔ ہال کمرہ۔۔۔ پر تکلف طریقے پر سجا ہوا۔ ڈپٹی صاحب دوہرے بدن کے بزرگ ہیں آرام کرسی پر بیٹھے ایک موٹا سگار پینے میں مصروف ہیں۔ ان کے پاس حامد کھڑا ہے جیسے وہ ابھی اسٹیشن سے آ رہا ہے۔)

حامد:میں آپ کا تار ملتے ہی چل پڑا۔

ڈپٹی صاحب:تم نے بہت اچھا کیا۔ کیونکہ وقت تھوڑا رہ گیا ہے۔

حامد:کس میں؟

ڈپٹی صاحب:تمہاری شادی میں۔

حامد:(حیرت سے)میری شادی میں۔۔۔ یعنی میری شادی ہو رہی ہے۔

ڈپٹی صاحب:قطعی طور پر ہو رہی ہے۔

حامد:کس کے ساتھ؟

ڈپٹی صاحب:ایک لڑکی کے ساتھ!

حامد:جس کو میں بالکل نہیں جانتا۔

ڈپٹی صاحب:ہاں !جس کو تم بالکل نہیں جانتے۔

حامد: اور شادی میری ہو رہی ہے؟

ڈپٹی صاحب:تم کہنا کیا چاہتے ہو؟

حامد:میں کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے یہ شادی منظور نہیں۔

ڈپٹی صاحب:(غصے میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں)کیا کہا؟

حامد:اباجی یہ سراسر ظلم ہے۔ میں کیسے اپنی شادی پر رضامند ہو سکتا ہوں۔۔۔  میں لڑکی کو جانتا نہیں۔۔۔ اس کی شکل سے ناواقف ہوں۔ جانے کس مزاج کی ہے۔۔۔ کیسے خیالات رکھتی ہے۔۔۔ میری عدم موجودگی میں مجھ سے مشورہ لیے بغیر آپ نے اتنا بڑا فیصلہ صادر کر دیا۔

ڈپٹی صاحب:میں تمہارا باپ ہوں۔

حامد:درست ہے لیکن۔۔۔ لیکن۔۔۔ اباجی۔۔۔ آپ خدا کے لئے اتنا تو سوچیں۔پڑھا لکھا آدمی ہوں۔ روشن خیال ہوں۔۔۔ دل میں جانے کیا کیا امنگیں ہیں  اور پھر۔۔۔  اور پھر۔۔۔ اب میں آپ سے کیا کہوں مجھے معلوم ہوتا کہ آپ مجھے یہاں بلا کر یہ فیصلہ سنانے والے ہیں تو میں کبھی نہ آتا کہیں بھاگ جاتا۔۔۔ خود کشی کر لیتا۔

ڈپٹی صاحب:میں تمہاری یہ بکواس سننے کے لئے تیار نہیں۔

حامد:میں شادی کرنے کے لئے بھی تیار نہیں۔

ڈپٹی صاحب:دیکھوں گا تم کیسے نہیں کرتے؟

(غصے میں بھرے کمرے سے باہر چلے جاتے ہیں۔)

حامد:(اپنے آپ سے)عجیب مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔۔۔ کچھ سمجھ میں  نہیں آتا کیا کروں۔۔۔ شادی نہ ہوئی کھیل ہو گیا۔۔۔ کیا کروں کیا نہ کروں ، میری جان عجب مصیبت میں پھنس گئی ہے۔(باپ کے الفاظ دہراتا ہے۔)دیکھوں گا تم کیسے شادی نہیں کرتے۔۔۔ چلئے فیصلہ ہو گیا۔۔۔ اب چاہے میری ساری زندگی تباہ ہو جائے (جیب میں تاش کا پیکٹ نکالتا ہے۔۔۔ صوفے پر بیٹھ جاتا ہے  اور پتے پھینٹتے ہوئے کہتا ہے)یہ تاش ہی اب میری قسمت کا فیصلہ کرے گی۔۔۔ اگر تین پتوں نے راؤنڈ نہ بنائی تومیں کبھی شادی نہیں کروں گا  اور اگر  راؤنڈ بن گئی تو۔۔۔ قہر درویش برجان درویش کر لوں گا۔۔۔ جب شادی کو کھیل ہی سمجھا گیا ہے ، تویوں ہی سہی۔ میں بھی اس کا فیصلہ پتوں ہی سے کروں گا۔ (ایک ایک کر کے تین پتے پھینکتا ہے)دکی۔۔۔ تکی۔۔۔  اور۔۔۔ یہ چوکا۔۔۔ لعنت (تاش کی گڈی زمین پر پٹک دیتا ہے) آخری سہارا بھی دھوکا دے گیا۔

(حامد کی ماں جلدی جلدی کمرے میں داخل ہوتی ہے۔)

ماں :یہاں بیٹھے تاش کھیل رہے ہو۔۔۔ ماں سے نہیں ملنا تھا؟

حامد:(ماں کی طرف بڑھتے ہوئے)۔۔۔ امی جان۔۔۔ امی جان۔۔۔  میں شادی نہیں کروں گا۔

ماں :یہ کیا بے ہودہ بک رہے ہو؟

حامد:نہیں امی جان۔۔۔ مجھے ایسی شادی منظور نہیں۔ یعنی مجھ سے پوچھے بغیر میری شادی کا فیصلہ کر دیا گیا ہے۔

ماں :اس میں پوچھنے کی بات ہی کیا تھی۔ ماں باپ اندھے تو نہیں ہوتے۔

حامد:مجھے تو آپ لوگوں نے اندھا ہی سمجھا۔

ماں :ہم نے جو کچھ کیا ہے ، ٹھیک کیا ہے۔

حامد:میں مر جاؤں گا۔ لیکن اس طرح شادی کبھی نہیں کروں گا۔

ماں :کچھ ہوش کی دوا کرو۔ جو منہ میں آتا ہے بک دیتے ہو۔

حامد:آپ تو چاہتی ہیں بس گلا ہی گھونٹ دیں۔ آدمی اف تک نہ کرے۔

ماں :بڑا ظلم ہوا ہے تم پر۔

حامد:اس سے بڑھ کر اور ظلم کیا ہو گا یعنی میری ساری زندگی پر کاجل  کا لیپ کیا جا رہا ہے۔۔۔ مجھے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایک اندھیرے غار میں  دھکیلا جا رہا ہے۔۔۔  اور ابھی کچھ ظلم نہیں ہوا۔۔۔ امی جا ن !سچ کہتا ہوں اسے دھمکی نہ سمجھئے زہر کھالوں گا۔ گاڑی کے نیچے جا مروں گا  اور  ایسی شادی کبھی نہ کروں گا۔

ماں :تم پیدا ہی نہ ہوتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ آج مجھے یہ دن دیکھنا تو نصیب نہ ہوتا(گلے سے آواز رندھ جاتی ہے۔) میں نے کس چاؤ سے تمہاری نسبت ٹھہرائی تھی۔

(رونا شروع کر دیتی ہے۔)

(دور سے  ثریا کی آواز آتی ہے ، امی جان۔۔۔ امی جان۔۔۔  اس کے بعد وہ خود تیز قدمی سے اندر آتی ہے۔)

ثریا:امی جان آپ ادھر ہیں۔۔۔ اخاہ بھائی جان۔۔۔ آپ تشریف لے آئے۔۔۔ امی جان میں آپ کو ادھر دیکھ رہی تھی۔۔۔

ماں :کیا ہے؟

ثریا:ناپ لے آئی ہوں امی جان۔۔۔ لیکن کن مشکلوں سے ملا ہے۔۔۔  پر آپ خاموش کیوں ہیں؟۔۔۔ رو کیوں رہی ہیں۔ بھائی جان کیا بات ہے؟

ماں :سنار باہر بیٹھا ہے؟

ثریا:ہاں بیٹھا ہے۔

ماں :اس سے کہہ دے کہ چلا جائے۔۔۔ ہمیں کنگنیاں نہیں بنوانا ہیں۔

ثریا:یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں امی جان۔۔۔ ناپ لے آئی ہوں۔

ماں :ثریا تو اس وقت جا۔۔۔ میری طبیعت ٹھیک نہیں۔۔۔ سنار سے کہہ دے کل آئے۔

ثریا:اس کا مطلب ہے ناپ موجود ہے تو پھر وہ کل کیوں آئے آج ہی کیوں نہ کام شروع کر دے تا کہ وقت پرمل جائے۔

ماں :جو دل میں آئے،کر۔ مجھ نصیبوں جلی کونہ ستا۔

ثریا:جانے آپ کس بات پر بھری بیٹھی ہیں۔ ستائیں آپ کو حامد بھائی جان  اور  کوسا مجھے جائے۔۔۔ وہ تو خیر اب نخرے کریں ہی گے ، بات بات پر بگڑیں گے۔۔۔ شادی جوہو رہی ہے۔۔۔ اچھا خیر، اس قصے کو چھوڑئیے مجھے اس کے لئے تحفہ خریدنا ہے۔ ابھی وہاں گئی تو معلوم ہوا کل اس کی سالگرہ ہے۔۔۔ کچھ روپے دیجئے مجھے !

ماں :میں کہتی ہوں دفان ہو یہاں سے۔ مغز نہ چاٹ میرا۔

(چلی جاتی ہے۔)

ثریا:(غصے میں حامد کی طرف بڑھتی ہے)حامد بھائی جان۔۔۔ آپ کیوں منہ میں گھنگھنیاں ڈالے کھڑے ہیں۔ جیسے آپ کے منہ میں زبان ہی نہیں ایک تومیں آپ کے کام کرتی پھروں  اور پھر الٹا جھڑکیاں کھاؤں۔

حامد:میں اس وقت کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔

ثریا:تو لیجئے۔ یہ ناپ کی چوڑی آپ سنبھالئے۔ باہر سنار بیٹھا ہے اس سے جو کہنا ہو کہہ دیجئے۔

(حامد کے ہاتھ میں غصے سے چوڑی رکھ دیتی ہے۔)

حامد:(چوڑی دیکھ کر)ثریا۔ بات سنو۔۔۔ یہ چوڑی تم نے کہاں سے لی؟

ثریا:کہیں سے بھی لی ہو۔ آپ کو اس سے کیا؟

حامد:میں سمجھ گیا۔ میں سمجھ گیا۔ لیکن یہ واقعی اسی کی ہے نا۔۔۔ اسی کی؟

ثریا:نہیں بتاتی۔

حامد:میری اچھی بہن جو ہوئیں۔۔۔ بتاؤ کس کی ہے؟

ثریا:سمجھ گئے لیکن بار بار پوچھیں گے۔۔۔ مزہ آتا ہے۔۔۔ آپ کی ہونے والی بیوی کی ہے جس کی کلائی سے زبردستی اتار کے لائی ہوں۔

حامد:زبردستی۔ کیوں وہ اتارنے نہیں دیتی تھی؟

ثریا:ہاں ، کہتی تھی، نہیں میں یہ چوڑی کبھی نہیں دوں گی۔ کسی کا تحفہ ہے۔۔۔  تم کوئی  اور لے جاؤ۔

حامد:اچھا۔

ثریا:پر میں ایک  اور بہانے سے لے آئی کہ مجھے بھی ایسا ہی جوڑا منگوانا ہے۔

حامد:(خوش ہو کر)وہ مارا!

(بہن کو گلے لگا لیتا ہے۔)

ثریا:یہ کیا ہو گیا ہے آپ کو؟

حامد:چپ۔۔۔ اب میں ضرور شادی کروں گا۔۔۔ اب میں ضرور شادی کرونگا۔ امی جان کہاں ہیں؟

ثریا:یہ دیوانہ پن ے؟

حامد:اب میں ضرور شادی کروں گا۔ اب میں ضرور شادی کروں گا۔

ثریا:یا وحشت!

حامد:آج اس کی سالگرہ ہے نا؟

(تاش کے پتے اٹھانا شروع کرتا ہے۔)

ثریا:ہے تو سہی۔ پریہ آپ تاش کے پتے کیا اکٹھے کر رہے ہیں۔

حامد:ٹھہرو ابھی بتاتا ہوں۔(تاش کے پتے اکٹھے کر کے بکس میں ڈالتا ہے) ثریا تم اسے کوئی تحفہ دینا چاہتی ہونا؟

ثریا:جی ہاں !

حامد:تو ایسا کرو یہ تاش لے جاؤ۔

ثریا:تاش؟

حامد:ہاں۔ تم یہ پیکٹ اسے تحفے کے طور پر دے دو اور پھر دیکھو کیا ہوتا ہے میرے منہ کی طرف کیا دیکھتی ہو؟کہہ جو دیا، ا س سے بہتر  اور  تحفہ نہیں ہو سکتا۔۔۔

(گاتا ہے۔)

ہونٹوں پر ان سنے ترانے جھیل میں جیسے تارے

بانکی چتون میں وہ جھل مل جو کھیلے سو ہارے

چہرے پر لالی سی جیسے کلیاں ندی کنارے

حسن کے اس امڈے دھارے میں ڈھونڈے کون سہارے

(پردہ)                ***

(کالج ہوسٹل کا ایک کمرہ۔ ہر چیز قرینے سے رکھی ہے بہت کم فرنیچر ہے لیکن ٹھکانے سے رکھا ہے  اور بہت خوبصورت دکھائی دیتا ہے پلنگ کی چادر اجلی ہے ، بے داغ، میز کا کپڑا بھی صاف ستھرا ہے دیواروں پر صرف دو تصویریں  نظر آتی ہیں۔ چغتائی کی جن کے فریم بہت ہی نازک ہیں۔ میز پر کچھ کتابیں رکھی ہیں جن میں سے اکثر شاعروں کے دیوان ہیں۔ حامد آرام کرسی میں پورے لباس میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا ہے  اور  اس کا دوست سعید لوہے کے پلنگ پر لیٹا دو نرم نرم تکیوں پر کہنی جمائے۔ ہاتھ ٹھوڑی کے نیچے رکھے حامد کی طرف دیکھ رہا ہے۔ جو اخبار پڑھنے میں مصروف ہے۔)

حامد:(اخبار کے پیچھے سے)اپنے عزیزوں  اور دوستوں کو تحفے دیجئے۔ ہیں بھئی۔۔۔ اشتہار کی سرخی دلچسپ ہے۔۔۔ ‘‘اپنے دوستوں  اور  عزیزوں کو تحفے دیجئے۔۔۔ ‘‘شادی بیاہ  اور سالگرہ  اور اسی قسم کی دوسری تقریبوں پر حسین تحفے ہی دینے چاہئیں۔ آپ کا دیا ہوا آئینہ، آپ کا پیش کردہ پھولدان، آپ کا بھیجا ہوا ہار۔ ذرا غور فرمائیے۔ ان حسین تحفوں میں کتنی شاعری ہے۔ ہمارے شوروم میں تشریف لائیے  اور  اپنے دوست اپنے عزیز یا اپنے۔۔۔

(سعید کھانستا ہے۔)

حامد:کوئی تحفہ دینے کے لئے اپنے دل پسند شعر انتخاب فرمائیے۔

سعید:لائیے اخبار میرے حوالے کیجئے۔۔۔ میں جنگ کی تازہ خبریں پڑھنا چاہتا ہوں۔

حامد:(اخبار چہرے پرسے ہٹاتے  اور اسے تہہ کرتے ہوئے)آپ کو جنگ سے اتنی دلچسپی کیوں ہے؟

سعید:اس لئے کہ میں بہت صلح کن آدمی ہوں۔

حامد:یہ جنگ بھی صلح کن آدمی ہی کر رہے ہیں (اخبار تہہ کرتا اٹھتا ہے)خیر ہٹائیے اس قصے کو۔۔۔ میں آپ سے یہ عرض کرنے والا تھا کہ میں ایک حسین تحفہ خریدنا چاہتا ہوں۔

سعید:(کروٹ بدل کر)کس کے لئے؟

حامد:(اخبار میز پر پھینکتے ہوئے) اس کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا؟

سعید:خوب!

 حامد:تحفہ لے آؤں تو بعد میں فیصلہ کر لیا جائے گا۔

سعید:(اٹھ کے پلنگ پر بیٹھ جاتا ہے)ٹھیک۔۔۔ لیکن آپ کا کوئی دوست۔۔۔  کوئی عزیز۔۔۔؟۔۔۔ کوئی۔۔۔؟

حامد:یہاں آپ کے سوا کوئی نہیں۔

سعید:(خوش ہو کر)تو۔۔۔

حامد:جی نہیں۔ تحفہ میں آپ کو نہیں دینا چاہتا۔

سعید:کیوں؟

حامد:(کرسی لے کر سعید کے پاس بیٹھ جاتا ہے) اس لئے کہ آپ کو اپنی تاریخ پیدائش ہی معلوم نہیں۔۔۔ فرمائیے آپ کب پیدا ہوئے تھے۔

سعید:ایسی چیزیں کون یاد رکھتا ہے۔

حامد:اب آپ کی سالگرہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

سعید:جی ہاں۔ بالکل پیدا نہیں ہوتا۔

حامد:رہی آپ کی شادی تو اس کے متعلق مجھے یقین ہے کہ کبھی ہوہی نہیں سکتی۔

سعید:یعنی اس معاملے میں آپ مجھ سے کہیں زیادہ نا امید ہو چکے ہیں۔

حامد:جی ہاں۔۔۔ اس لئے کہ آپ کبھی یہ فیصلہ نہیں کر سکیں گے کہ آپ کو پچاس برس کی عورت چاہئے جس میں سولہ برس کی الھڑ لڑکی کی خادم کاریاں ہوں یا آپ کو سولہ برس کی لڑکی چاہئے جس میں پچاس برس کی عورت کی پختہ کاریاں موجود ہوں۔۔۔ لیکن میرا نقطہ نظر بالکل جدا ہے۔

سعید:(پلنگ پرسے اٹھ کر آرام کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔ جہاں پہلے حامد بیٹھا تھا)جو مجھے اچھی طرح معلوم ہے لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ آپ تحفہ خریدنے کے بعد ہی شادی کے مسئلے پر غور کریں گے۔

حامد:غالباً ایسا ہی ہو گا۔

سعید:تو ظاہر ہے کہ آپ کوئی زنانہ تحفہ خریدیں گے۔

حامد:بالکل ظاہر ہے (پلنگ پر لیٹ جاتا ہے اسی طرح سعید لیٹا ہوا تھا۔) میں نے اگر کوئی مردانہ تحفہ خریدا تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ میں بہت خودغرض  اور کمینہ ہوں۔

سعید:کیا شک ہے۔۔۔ میرا مطلب ہے۔۔۔

حامد:آپ کا مطلب ٹھیک ہے اس لئے کہ تحفہ میری طرف سے میری طرف ہو گا لیکن ہو سکتا ہے کہ میں اپنی سالگرہ منالوں۔ کیونکہ مجھے اپنی تاریخ پیدائش اچھی طرح یاد ہے۔۔۔ میرا مطلب ہے زبانی یاد نہیں لیکن نوٹ بک میں لکھی ہوئی موجود ہے۔

سعید:اس صورت میں بھی آپ کا تحفہ آپ کی طرف سے آپ ہی کی طرف ہو گا۔

حامد:(بستر پر اٹھ کر بیٹھ جاتا ہے)ارے ہاں۔۔۔ یہ تو ہو گا۔ تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ تحفہ خریدنے کے بعد مجھے کوئی عورت۔۔۔

سعید:(اٹھ کھڑا ہوتا ہے) یا لڑکی کی تلاش کرنا پڑے گی جس کے ساتھ آپ شادی کر سکیں۔

حامد:ہاں ایسی عورت۔۔۔

سعید:یا لڑکی!

حامد:یا لڑکی۔۔۔ مجھے ہر حالت میں تلاش کرنا پڑے گا۔

سعید:ہر حالت میں کیوں؟

حامد:ہر حالت میں نہیں۔ صرف اس حالت میں جب میں نے تحفہ خرید لیا ہو گا۔

سعید:یہ حالت بہت ہی قابل رحم ہو گی۔

حامد:کچھ بھی ہو۔۔۔ میں تحفہ خریدنے کا فیصلہ کر چکا ہوں۔۔۔ اب یہ تبدیل نہیں ہو سکتا۔ آئیے چلیں۔۔۔

(حامد ٹوپی پہنتا ہے۔۔۔ سعید ذرا آئینے میں اپنے بال درست کرتا ہے۔ حامد میز پرسے اخبار اٹھاتا ہے۔)

حامد:چلئے !

سعید:چلئے !

(دونوں باہر نکل جاتے ہیں۔)

(خالد سیٹی بجا رہا ہے۔ سیٹی  بجاتا بجاتا خاموش ہو جاتا ہے۔ پھر ہولے ہولے اپنے آپ سے کہتا ہے۔)

خالد:اگر محبت ہاکی یا فٹ بال میچوں میں کپ جیتنے ، تقریر کرنے  اور  امتحانوں میں پاس ہو جانے کی طرح آسان ہوتی تو کیا کہنے تھے۔۔۔  مجھے سب کچھ مل پاتا۔ سب کچھ (پھر سیٹی بجاتا ہے) نیلے آسمان میں ابابیلیں اڑ رہی ہیں اس چھوٹے سے باغیچے کی پتی پتی خوشی سے تھرا رہی ہے پر میں خوش نہیں ہوں۔ میں بالکل خوش نہیں ہوں۔

حمیدہ:(دھیمے لہجے میں) خالد صاحب!

(خالد خاموش رہتا ہے)

حمیدہ:(ذرا زور سے)خالد صاحب!

خالد:(چونک کر) کیا ہے؟کوئی مجھے بلا رہا ہے؟

حمیدہ:میں ہوں !۔۔۔ مجھے آپ سے ایک ضروری کام ہے۔

خالد:اوہ!حمیدہ۔۔۔ کہو، یہ ضروری کام کیا ہے۔۔۔ میں یہاں یونہی لیٹے لیٹے اونگھنے لگ گیا تھا۔ کیا کسی کتاب کے بارے میں کچھ کہنا ہے؟۔۔۔  مگر تم نے مجھے اتنا قابل کیوں سمجھ رکھا ہے۔۔۔ فلسفے میں میں اتنا ہوشیار نہیں جتنی کہ تم ہو۔ عورتیں فطرتاً فلسفی ہوتی ہیں۔

حمیدہ:میں آپ سے فلسفے کے بارے میں گفتگو کرنے نہیں آئی۔ افلاطون  اور  ارسطو اس معاملے میں میری مدد نہیں کر سکتے جتنی آپ کر سکتے ہیں۔

خالد:میں  حاضر ہوں۔

حمیدہ:میں بہت جرأت سے کام لے کر آپ کے پاس آئی ہوں۔ آپ یقین کیجئے کہ میں نے بہت بڑی جرأت کی ہے۔۔۔ بات یہ ہے۔۔۔  مجھے شرم محسوس ہو رہی ہے۔۔۔ مگر نہیں۔۔۔ اس میں شرم کی کونسی بات ہے۔۔۔ مجھے یہ کہنا ہے کہ پرسوں رات میں نے اباجی کو امی جان سے یہ کہتے سنا کہ وہ آپ سے میری شادی کر رہے ہیں۔

خالد:(خوش ہو کر) سچ مچ؟

حمیدہ:جی ہاں۔۔۔ میں نے یہ سنا ہے کہ بات پکی ہو گئی ہے۔۔۔   اور  اس فائنل کے بعد ہم بیاہ دیئے جائیں گے۔

خالد:(خوشی کے جذبات کو دبانے کی کوشش کرتے ہوئے) حد ہو گئی ہے۔۔۔  مجھے تو کسی نے بتایا ہی نہیں۔۔۔ یہ چپکے چپکے انھوں نے بڑا دلچسپ کھیل کھیلا۔۔۔  دراصل بات یوں ہوئی ہے کہ میں نے اپنی امی جان سے ایک دو مرتبہ۔۔۔ تمہاری تعریف کی تھی  اور  کہا تھا کہ جو شخص حمیدہ جیسی۔۔۔  حمیدہ جیسی۔۔۔ حمیدہ جیسی۔۔۔ حمیدہ جیسی پیاری لڑکی کا شوہر بنے گا۔۔۔  وہ کس قدر خوش نصیب ہو گا۔ (ہنستا ہے)حد ہو گئی ہے۔۔۔  میں یہاں اسی فکر میں گھلا جا رہا تھا کہ تم کہیں کسی  اور کی نہ ہوجاؤ (خوب ہنستا ہے)۔۔۔  دیکھو نیلے آسمان میں ابابیلیں اڑ رہی ہیں۔۔۔  اس باغیچے کی پتی پتی خوشی سے تھرا رہی ہے۔۔۔  اور  میں بھی خوش ہوں۔۔۔  کس قدر خوش (ہنستا ہے) حمیدہ اب تمہیں ہم سے پردہ کرنا چاہئے۔۔۔  ہم تمہارے ہونے والے شوہر ہیں۔

حمیدہ:مگر مجھے یہ شادی منظور نہیں۔!

خالد:شادی منظور نہیں۔۔۔  پھر تم نے یہ بات کیوں چھیڑی؟۔۔۔  میں تمہیں نا پسند ہوں کیا؟

حمیدہ:خالد صاحب!میں اس معاملے پر زیادہ گفتگو کرنا نہیں چاہتی۔ میں آپ سے صرف یہ کہنے آئی تھی کہ اگر ہماری شادی ہو گئی۔ تو یہ میری مرضی کے خلاف ہو گی۔ ہماری دونوں کی زندگی اگر ہمیشہ کے لئے تلخ ہو گئی تو اس کے ذمہ دار آپ ہوں گے۔ میں نے اپنے دل کی بات آپ سے چھپا کر نہیں رکھی، جو فرض میرے ماں باپ کو ادا کرنا چاہئے تھا۔ میں نے ادا کر دیا ہے آپ عقل مند ہیں۔ روشن خیال ہیں۔ اس لئے میں آپ کے پاس آئی۔ ورنہ یہ راز قبر تک میرے سینے میں محفوظ رہتا۔

خالد:یہ جھوٹ ہے میں تم سے محبت کرتا ہوں۔

حمیدہ:ہو گا۔ مگر میں آپ سے محبت نہیں کرتی۔

خالد:اس میں میرا کیا  قصور ہے؟

حمیدہ: اور اس میں میرا کیا قصور ہے؟

خالد:حمیدہ تم اچھی طرح جانتی ہو کہ میں جھوٹ نہیں بولا کرتا۔ میں سچ کہتا ہوں کہ میرا دل تمہاری  اور صرف تمہاری محبت سے بھرا ہے۔

حمیدہ:لیکن میرا دل بھی تو آپ کی محبت سے بھرا ہو۔۔۔  میرے اندر سے بھی تو یہ آواز پیدا ہو کہ حمیدہ آپ کو چاہتی ہے۔۔۔  میں بھی تو آپ سے جھوٹ نہیں کہہ رہی۔۔۔ آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں تو آپ کی محبت اس وقت مجھ پرکیا اثر کر سکتی ہے جب میرا دل آپ کی محبت سے خالی ہو۔

خالد:ایک دیا دوسرے دیئے کو روشن کر سکتا ہے۔

حمیدہ:صرف اس صورت میں جب دوسرے دیئے میں تیل موجود ہو۔۔۔  یہاں میرا دل  تو بالکل خشک ہے آپ کی محبت کیا کر سکے گی۔ میں نے آج تک آپ کو ان نگاہوں سے کبھی نہیں دیکھا جو محبت پیدا کر سکتی ہیں۔۔۔  اس کے علاوہ کوئی خاص بات بھی تو نہیں ہوئی جس سے یہ جذبہ پیدا ہو سکے۔۔۔ لیکن میں آپ کے بارے میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ آپ اچھے نوجوان ہیں با اخلاق ہیں۔ کالج میں سب سے زیادہ ہوشیار طالب علم ہیں۔ آپ کی صحت آپ کی علمیت، آپ کی قابلیت قابل رشک ہے۔ آپ ہمیشہ میری مدد کرتے رہے ہیں۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ میرے دل میں آپ کی محبت ذرہ بھر بھی نہیں ہے۔۔۔  میر ا خیال ہو سکتا ہے کہ درست نہ ہو۔ پریہ تمام خوبیاں جو آپ کے اندر موجود ہیں ضروری نہیں کہ وہ کسی عورت کے دل میں آپ کی محبت پیدا کر دیں۔

خالد:تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ مجھے اس کا احساس ہے۔

حمیدہ:تو کیا میں امید رکھوں کہ آپ مجھے اس بے مرضی کی شادی سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔

خالد:مجھ سے جو کچھ ہو سکے گا۔ ضرور کروں گا۔

حمیدہ:تومیں جاتی ہوں۔۔۔ بہت بہت شکریہ!

(چند لمحات تک خاموشی طاری رہتی ہے۔۔۔ خالد درد ناک سروں میں سیٹی بجاتا ہے۔۔۔)

خالد:(سسکیوں میں )نیلے آسمان میں ابابیلیں اڑ رہی ہیں۔ اس چھوٹے سےباغچے کی پتی پتی خوشی سے تھرتھرا رہی ہے۔ میں خوش نہیں۔ بالکل خوش نہیں ہوں۔

(اسی روز شام کو خالد کے گھر میں)

ڈپٹی صاحب:(خالد کا باپ۔ دروازے پر آہستہ سے دستک دے کر)بھئی میں ذرا  اندر آ سکتا ہوں۔

خالد:آئیے آئیے۔ اباجی!

ڈپٹی صاحب:میں نے بہت مشکل سے تمہارے ساتھ چند باتیں کرنے کی فرصت نکالی۔ یوں کہو کہ ایسا اتفاق ہو گیا کہ تم بھی گھر میں موجود ہو اور مجھے بھی ایک، آدھ گھنٹے تک کوئی کام نہیں۔۔۔ بات یہ ہے کہ تمہاری ماں نے تمہاری شادی کی بات چیت پکی کر دی ہے لڑکی حمیدہ ہے جس کو تم اچھی طرح جانتے ہو۔ تمہاری کلاس میٹ ہے  اور میں نے سنا ہے کہ تم دل ہی دل میں اس سے ذرا۔۔۔ محبت بھی کرتے ہو چلو اچھا ہوا۔۔۔  اب تمہیں  اور کیا چاہئے۔۔۔  امتحان پاس کرو اور دلہن کولے آؤ۔

خالد:پر اباجی،  میں نے تو یہ سن رکھا تھا کہ حمیدہ کی شادی مسٹر بشیر سے ہو گی جو پچھلے برس ولایت سے ڈاکٹر ی امتحان پاس کر کے آئے ہیں۔

ڈپٹی صاحب:شادی اس سے ہونے والی تھی مگر حمیدہ کے والدین کو جب معلوم ہوا کہ وہ شرابی  اور آوارہ مزاج ہے تو انھوں نے یہ خیال موقوف کر دیا لیکن تمہیں ان باتوں سے کیا تعلق۔۔۔ حمیدہ تمہاری ہو رہی ہے۔ ہو رہی ہے کیا ہو چکی ہے۔

خالد:حمیدہ راضی ہے کیا؟

ڈپٹی صاحب:ارے راضی کیوں نہ ہو گی؟جب ڈپٹی ظہور احمد کے بیٹے خالد کی شادی کا سوال ہو، تو اس میں رضامندی کی ضرورت ہی کیا ہے۔

خالد:مجھے بنا رہے ہیں آپ؟

ڈپٹی صاحب:رہنے دواس قصے کو، مجھے  اور بہت سے کام کرنا ہے۔ اچھا تومیں چلا۔۔۔  پر ایک  اور بات بھی تو مجھے تم سے کرنا تھی۔ تمہاری ماں نے ایک لمبی چوڑی فہرست بنا کر دی تھی۔۔۔ ہاں یاد آیا۔۔۔  دیکھو بھئی نکاح کی رسم پرسوں یعنی اتوار کو ادا ہو گی۔ اس لئے کہ حمیدہ کا باپ حج کو جانے سے پہلے اس فرض سے سبکدوش ہو جانا چاہتا ہے۔۔۔  ٹھیک ہے ، ٹھیک ہے ، ایسا ہی ہونا چاہئے  اور جب تمہاری ماں کہہ دے تو پھر اس میں کسی کلام کی گنجائش نہیں رہتی۔۔۔ میں نے ان لوگوں سے کہہ دیا ہے کہ ہم سب تیا رہیں۔ تمہیں جن لوگوں کوInvite   کرنا ہو گا کر لینا۔ مجھے اس درد سری میں مبتلا نہ کرنا بھئی، میں بہت مصروف آدمی ہوں۔

خالد:بہت اچھا اباجی!

ڈپٹی صاحب:ہاں ایک  اور  بات۔۔۔ ممکن ہے کہ میں تم سے کہنا بھول جاؤں اس لئے ابھی سے کان کھول کر سن لو۔۔۔ (رازدارانہ لہجہ میں) شادی کے بعد اپنی بیوی کو سر پر نہ چڑھا لینا۔ ورنہ یاد رکھو، بڑی آفتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اپنی ماں کی طرف دیکھ لو، کس طرح مجھے نکیل ڈالے رکھتی ہے۔

خالد:(ہنستا ہے)۔۔۔ نصیحت کا شکریہ!

ڈپٹی صاحب:شکریہ وکریہ کچھ نہیں تم سے جو کچھ میں نے کہا ہے اس کا خیال رکھنا  اور  بس۔۔۔ تومیں چلا۔۔۔  نکاح کے ایک روز پہلے مجھے یاد دلا دینا۔ تا کہ میں کہیں  اور نہ چلا جاؤں۔

خالد:بہت اچھا اباجی!

(دروازہ بند کرنے کی آواز)

خالد:(ہولے ہولے گویا گہری فکر میں غرق ہے) بہت اچھا اباجی۔۔۔  بہت اچھا اباجی۔۔۔  میں نے کتنی جلدی کہہ دیا بہت اچھا اباجی۔۔۔  بہت اچھا۔۔۔ جو کچھ کہا ہوا ہے۔۔۔ اب اس کے سوا  اور چارہ ہی کیا ہے۔۔۔ نیلے آسمان میں ابابیلیں اڑتی رہیں گی باغیچوں میں پتیاں خوشی سے تھرتھراتی رہیں گی  اور یہ دل ہمیشہ کے لئے اجڑ جائے گا۔۔۔  اجڑ جائے گا!

(تیسرے روز کالج میں پرنسپل کا دفتر)

(گھنٹی بجائی جاتی ہے پھر دروازہ کھولا جاتا ہے۔)

چپراسی:جی حضور!

پرنسپل:خالد کو اندر بھیج دو۔

چپراسی:بہت اچھا حضور!

(دروازہ کھولنے  اور بند ہونے کی آواز پھر خالد کے آنے کی آواز)

پرنسپل:(کھانستا ہے) تمہیں اپنی صفائی میں کچھ کہنا ہے؟

(خالد خاموش رہتا ہے۔)

پرنسپل:(با رعب لہجے میں)تمہیں اپنی صفائی میں کچھ کہنا ہے؟

خالد:کچھ نہیں۔ میرا دل کوڑے کرکٹ سے صاف ہے۔

پرنسپل:تم گستاخ بھی ہو گئے ہو؟

خالد:کالج میں اگر کوئی گستاخ لڑکا نہ ہو تو پرنسپل اپنی قوتوں سے بے خبر رہتا ہے اگر اس کمرے کو جس میں آپ رہتے ہیں ترازو فرض کر لیا جائے تو میں اس ترازو کی وہ سوئی ہوں جو وزن بتاتی ہے۔

پرنسپل:تم مجھے اپنی اس بے ہودہ منطق سے مرعوب نہیں کر سکتے۔

خالد:یہ میں اچھی طرح جانتا ہوں۔

پرنسپل:(زور سے) تم خاک بھی نہیں جانتے۔

خالد:آپ بجا فرما رہے ہیں۔

پرنسپل:میں بجا نہیں فرما رہا۔ اگر میرا فرمانا بجا  ہوتا تو کل تم ایسی بے ہودہ حرکت کبھی نہ کرتے جس نے تمہیں سب لوگوں کی نگاہ میں ذلیل کر دیا ہے اب تم میں  اور ایک بازاری غنڈے میں کیا فرق رہا ہے۔

خالد:آپ سے عرض کروں؟

پرنسپل:کرو۔ کرو کیا عرض کرنا چاہتے ہو تمہاری یہ نئی منطق بھی سن لوں !

خالد:بازاری غنڈہ چوک میں کھڑا ہو کر جو اس کے دل میں آئے کہہ سکتا ہے مگر میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتا۔ مجھ میں اتنی قوت نہیں ہے کہ اپنے دل کا تالا کھول سکوں جو تہذیب آج سے بہت عرصہ پہلے لگا چکی ہے بازاری غنڈہ مجھ سے ہزار درجے  بہتر ہے۔

پرنسپل:جو تھوڑا بہت تم میں  اور اس میں باقی رہ گیا ہے اب پورا کر لو۔۔۔  میں تمہیں اپنے کالج سے باہر نکال رہا ہوں۔

خالد:مگر۔۔۔

پرنسپل:مگر وگر کچھ بھی نہیں۔ میں فیصلہ کر چکا ہوں میرے کالج میں ایسا لڑکا ہرگز نہیں رہ سکتا۔۔۔ جو بد چلن ہو، آوارہ ہو۔ کالج میں شراب پی کر آنا ایسا جرم نہیں کہ سزا دیئے بغیر تمہیں چھوڑ دیا جائے۔

خالد:اپنے آپ پر دوبارہ  غور فرمائیے۔ اتنی جلدی نہ کیجئے۔۔۔  آپ مجھے اپنے کالج سے ہمیشہ کے لئے باہر نہیں نکال سکتے۔

پرنسپل:(غصے میں) کیا کہا۔

خالد:میں نے یہ کہا تھا کہ مجھے اپنے کالج سے کیسے باہر نکال سکتے ہیں۔۔۔  آپ کو۔۔۔ آپ کو۔۔۔ میرے چلے جانے سے کیا آپ کو نقصان نہ ہو گا؟

پرنسپل:نقصان؟تمہارے چلے جانے سے مجھے کیا نقصان ہو سکتا ہے۔ تم جیسے دو درجن لڑکے میرے کالج سے چلے جائیں۔ خس کم جہاں پاک!

خالد:آپ میرا مطلب نہیں سمجھے پرنسپل صاحب!مجھے افسوس ہے کہ اب مجھے خود ستائی سے کام لینا پڑے گا۔ آپ کے سامنے یہ کالا بورڈ جو لٹک رہا ہے اس پر سب سے اوپر کس کا نام لکھا ہے۔ آپ بتانے کی تکلیف گوارا نہ کیجئے۔ یہ اسی آوارہ  اور بد چلن کا نام لکھا ہے ، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ بی اے میں وہ صوبے بھرمیں اول رہا۔ اس بورڈ کے ساتھ ہی ایک  اور  بورڈ لٹک رہا ہے جو آپ کو بتا سکتا ہے کہ ہندوستان کی کسی یونیورسٹی کا ہوشیار سے ہوشیار طالب علم بھی آپ کے کالج کی کالی بھیڑ خالد کا مقابلہ نہیں کر سکا۔ تقریر میں اس نے تین سال تک کسی کو آگے بڑھنے نہیں دیا۔ آپ کے پیچھے ایک  اور تختہ لٹک رہا ہے۔ اگر آپ کبھی اس پر نظر ڈالیں تو آپ  کو معلوم ہو سکتا ہے کہ خالد جب سے آپ کی ہاکی ٹیم کا کپتان بنا ہے شکست ناممکن ہو گئی ہے۔ فٹ بال کی ٹیم میں مجھ سے بہتر گول کیپر آپ کہاں سے تلاش کریں گے؟اخبار لکھتے ہیں کہ میں لوہے کا مضبوط جال ہوں ، سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوں۔۔۔  اور پچھلے برس میچ میں ہنگامہ برپا ہو گیا تھا۔ تو آپ کو بچانے کے لئے کس نے آگے بڑھ کر ڈھال کا کام دیا تھا اسی خاکسار نے۔۔۔ آپ اپنے فیصلے پر دو بارہ غور کیجئے۔

پرنسپل:کیا اب احسان جتلا کر تم مجھے رشوت دینے کی کوشش کر رہے ہو۔

خالد:پرنسپل صاحب آج کل دنیا کے سارے دھندے اسی طرح چلتے ہیں بچہ جب روئے نہیں ماں دودھ نہیں دیتی یہ تو آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ مگر آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ پڑوس میں اگر بن ماں کا یتیم بچہ رونا شروع کر دے تو میری ماں دودھ کی بوتل لے کر ادھر کبھی نہیں دوڑے گی۔۔۔ آپ نے آج تک مجھ پر اتنی مہربانیاں کی ہیں تو محض! اس لئے کہ مجھ میں خوبیاں تھیں  اور آپ مجھے پسند کرتے تھے  اور میں نے اس روز آپ کو اس لئے بچایا تھا کہ وہ میرا فرض تھا۔ میں آپ کو رشوت نہیں دے رہا۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ سزا دے کر رہیں گے۔ میں خود سزا چاہتا ہوں۔ مگر کڑی نہیں۔۔۔ رشوت تو وہاں دی جاتی ہے جہاں بالکل اجنبیت ہو۔

پرنسپل:تم تقریر کرنا خوب جانتے ہو۔

خالد:(ہنس کر)یہ کالا بورڈ بھی جو آپ کے سامنے لٹک رہا ہے یہی کہتا ہے۔

پرنسپل:خالد۔۔۔ میں حیران ہوں کہ تم نے کالج میں شراب پی کر ادھم کیوں مچایا۔۔۔ تم شریر ضرور تھے ، مگر مجھے معلوم نہ تھا۔ تم شراب بھی پیتے ہو۔ تمہارے کیریکٹر کے بارے میں مجھے کوئی شکایت نہ تھی۔ مگر کل کے واقعہ نے تمہیں بہت پیچھے ہٹا دیا ہے۔

خالد:جب کھائی پھاندنا ہو تو ہمیشہ دس بیس قدم پیچھے ہٹ کر کوشش کی جاتی ہے ہو سکتا ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں ایک گہری کھائی پھاندنے کی کوشش کی ہو۔

پرنسپل:مجھے افسوس ہے کہ تم اس کوشش میں اوندھے اس گہری کھائی میں گر پڑے ہو۔

خالد:ایسا ہی ہو گا۔ مگر مجھے افسوس نہیں۔

پرنسپل:تواب تم کیا چاہتے ہو؟

خالد:میں کیا چاہتا ہوں؟۔۔۔ کاش کہ میں کچھ چاہ سکتا۔ آپ سے میری صرف یہ  گزارش ہے کہ سزا دیتے وقت پرانے خالد کو یاد رکھئے۔ بس۔!

پرنسپل:تمہیں ایک سال کے لئے کالج سے خارج کر دینے کا حکم میں لکھ چکا ہوں یہ  سزا تمہاری ذلیل حرکت کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اس لئے تم معلوم کر سکتے ہو کہ پرانے خالد کو میں نے ابھی تک دل سے محو نہیں کیا۔

خالد:میں آپ کا بے حد ممنون ہوں۔ ایک سال کے بعد جب خالد پھر آپ کے پاس آئے گا۔ تو وہ پرانا ہی ہو گا۔

پرنسپل:اب تم چپ چاپ یہاں سے چلے جاؤ اور دیکھو۔ اس غم کو دور کرنے کے لئے کہیں شراب خانے کا رخ نہ کرنا۔

خالد:ایک بار جو میں نے پی ہے۔ وہی عمر بھر کے لئے کافی ہے آپ بے فکر رہیں۔

(دروازہ کھلنے  اور بند کرنے کی آواز)

(دروازے بند کرنے کے ساتھ ہی دس پندرہ لڑکوں کی آوازوں کا شورپیدا کیا جائے یہ لڑکے خالد سے طرح طرح کے سوال پوچھیں۔)

۱۔کیوں خالد کیا ہوا؟

۲۔سال بھرکے لئے Expel    کر دئیے گئے؟

۳۔پر میں پوچھتا ہوں۔ شراب پی کر تمہیں کالج ہی میں آ کر ادھم مچانا تھا؟

۴۔تم نے سخت غلطی کی، شراب تومیں بھی پیتا ہوں ، مگر کسی کو کانوں کان

خبر نہیں ہوتی؟

۵۔کیا جانے اس کے سر پرکیا وحشت سوار ہوئی؟

۶۔پہلی دفعہ پی  اور بری طرح پکڑے گئے میرے یار؟

۷۔اب کیا ہو گا؟

خالد:(تنگ آ کر)بکواس نہ کرو۔ جو کچھ ہو چکا ہے تمہارے سامنے ہے جو کچھ ہو گا وہ بھی تم دیکھ لو گے۔ دنیا کی نگاہوں سے کوئی چیز پوشیدہ بھی رہی ہے؟

(کالج کے گھنٹے کی آواز ٹن ٹن ٹن)

خالد:جاؤ۔ جاؤ اپنی اپنی کلاس Attend   کرو۔۔۔ مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔

(چند لمحات کے بعد خاموشی طاری ہو جاتی ہے۔)

خالد:بڑے بڑے معرکہ خیز میچوں میں حصہ لیا ہے بڑی بڑی چوٹیں کھائی ہیں مگر یہ تھکن جواس وقت محسوس ہو رہی ہے آج تک کبھی طاری نہیں ہوئی۔باغیچے کی اس جھاڑی کے پاس حمیدہ نے میرے دل کے ٹکڑے کئے تھے۔ اب یہیں تھوڑی دیر بیٹھ کران کو جوڑتا ہوں۔۔۔  دل ٹوٹا ہوا ہو مگر پہلو میں ضرور ہونا چاہئے۔۔۔  اس کے بغیر زندگی فضول ہے۔۔۔

(وقفہ)

۔۔۔ اس وقت مجھے کسی ہمدرد کی کتنی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔۔۔  مگر۔۔۔

(گیت)

کون کسی کا میت منوا

کون کسی کا میت!

راگ سبھا ہے دنیا ساری

جیون دکھ کا گیت

منوا کون کسی کا میت

رام بھروسے  کھینے والے

نیا کو منجدھار!

اپنے ہاتھوں آپ ڈبو دے

کیوں ڈھونڈے پتوار

ڈبو دی۔۔۔  اپنے ہاتھوں سے آپ ڈبو دی۔۔۔

حمیدہ:خالد صاحب۔

(خالد خاموش رہتا ہے۔)

حمیدہ:(ذرا بلند آواز سے)خالد صاحب!

خالد:(چونک کر)کیا ہے؟۔۔۔ اوہ!حمیدہ تم ہو۔۔۔ میں۔۔۔ میں۔۔۔  شاید گا رہا تھا۔

حمیدہ:میں سن رہی تھی۔

خالد:سن رہی تھیں۔۔۔ کیا سچ مچ؟۔۔۔ تو معلوم ہو گیا نا تمہیں کہ میں کتنا بے سرا ہوں۔۔۔  اور یہ گیت جو میں گا رہا تھا کتنا اوٹ پٹانگ تھا۔ ہاں تو۔۔۔  کیا تمہیں کسی بات کے بارے میں کچھ پوچھنا ہے؟

حمیدہ:میں یہ پوچھنے آئی ہوں کہ کل آپ نے میری غیر حاضری میں کیا کیا؟

خالد:اوہ۔۔۔ تم کل کی بات پوچھ رہی ہو۔ مگر جو کل کی بات ہو چکی۔۔۔  اس کے متعلق پوچھ کر کیا کرو گی؟

حمیدہ:کیا آپ نے سچ مچ کل شراب پی کر یہاں شور و غل مچایا؟

خالد:یہ تم کیوں پوچھ رہی ہو۔

حمیدہ:مجھے یقین نہیں آتا۔

خالد:کہ میں نے تمہارے کہے پر عمل کیا ہو گا؟

حمیدہ:(حیرت سے)میرے کہے پر؟میں نے آپ سے شراب پینے کو کبھی نہیں کہا۔

خالد:تو کیا زہر پینے کو کہا تھا؟

حمیدہ: اور اگر میں نے کہا ہوتا تو؟

خالد:میں کبھی نہ پیتا۔

حمیدہ:کیوں؟

خالد:اس لئے کہ میں مرنا نہیں چاہتا۔ میں تم محبت کرتا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں مگر میں اس محبت کی شکست پر خود کو ہلاک کرنے کے لئے تیار نہیں۔ پرانے عاشقوں کا فلسفہ میری نگاہوں میں فرسودہ ہو چکا ہے جب تک میں زندہ رہ سکوں گا تمہاری محبت اپنے دل میں دبائے رہوں گا۔تم میری آنکھوں کے سامنے رہو گی تو میرے زخم ہمیشہ ہرے رہیں گے۔۔۔ جب ایک روگ اپنی زندگی کو لگایا ہے تو کیوں نہ وہ عمر بھر تک ساتھ رہے۔ تم مجھ سے محبت نہیں کرتیں تو اس  کا یہ مطلب نہیں کہ میں اپنی محنت کا گلا گھونٹ دوں۔

حمیدہ:تو آپ نے صرف میری محبت کی خاطر اپنے آپ کو رسوا کیا؟

خالد:ظاہر ہے۔

حمیدہ:لیکن کیا آپ کو اس رسوائی کے علاوہ کوئی  اور  راستہ نظر نہ آیا؟

خالد:کئی راستے تھے لیکن مجھے یہی اچھا نظر آیا۔ تم خود دیکھ لو گی کہ ہینگ پھٹکری لگے بغیر رنگ چوکھا آئے۔۔۔ آج شام ہی کو جب تمہارے گھر میرے کالج سے نکال دینے کی خبر پہنچے گی تو تمہارا وہ کام فوراً ہو جائے گا۔ جس کے لئے تم نے مجھ سے امداد طلب کی تھی۔ نہ میں نے اپنے والدین کی عدول حکمی کی  اور نہ تمہیں اپنے ماں باپ کو ناراض کرنے کا موقع ملا۔ بتاؤ کیا میں نے غلط راستہ منتخب کیا۔

حمیدہ:لیکن یہ بدنامی، یہ رسوائی، جو آپ نے مول لی؟

خالد:مجھے اب شادی نہیں کرنا ہے۔۔۔ جو یہ رسوائی  اور بدنامی میرے حق میں غیر مفید ہو گی۔

حمیدہ: اور اگر آپ کو شادی کرنی پڑی تو؟

خالد:پاگل ہو گئی ہو۔۔۔ جب تم ایسے مرد سے شادی کرنے کو تیار نہیں ہو جس سے تم محبت نہیں کر سکتیں تومیں کیونکر ایسی عورت سے شادی کر سکتا ہوں جس سے میں محبت نہیں کرتا؟

حمیدہ:ممکن ہے آپ کوکسی سے محبت ہو جائے !

خالد:یہ ناممکن ہے جس طرح تمہارے دل میں میری محبت پیدا نہیں ہو سکتی اسی طرح میرے دل میں  اور کسی کی محبت پیدا نہیں ہو سکتی۔۔۔  مگر اس گفتگو سے کیا فائدہ۔۔۔ میری روح کو سخت تکلیف پہنچ رہی ہے۔

حمیدہ:آپ نے کیسے کہہ دیا کہ میرے دل میں محبت پیدا نہیں ہو سکتی؟

خالد:میں نے یہ کہا تھا کہ تمہارے دل میں میری محبت پیدا نہیں ہو سکتی؟

حمیدہ:اگر ہو جائے؟

خالد:(حیرت زدہ ہو کر)یعنی کیا؟

حمیدہ:میرے دل میں آپ کی محبت پیدا ہو جائے۔۔۔ ایکا ایکی مجھے ایسا محسوس ہونے لگے کہ میں آپ سے محبت کرتی ہوں۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا۔

خالد:اپنے دل سے پوچھو۔

حمیدہ:ایسی بات پوچھی نہیں جاتی اپنے آپ معلوم ہو جایا کرتی ہے۔۔۔  پڑوسی کے مکان میں اگر آگ لگ جائے تو کیا آپ دوڑے ہوئے اسی کے پاس جا کر پوچھیں گے۔ کیوں صاحب!کیا واقعی آپ کا مکان جل رہا ہے۔

خالد:میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا۔

حمیدہ:میں ٹھیک سمجھا نہیں سکتی پر اب سمجھنے  اور سمجھانے کی ضرورت ہی کیا ہے جو کچھ آپ چاہتے تھے  اور جس کے متعلق مجھے وہم و گمان بھی نہ تھا۔ آج ایکا ایکی ہو گیا ہے۔

خالد:کیا ہو گیا ہے۔

حمیدہ:میرے دل میں آپ کی محبت پیدا ہو گئی ہے۔۔۔ اتوار کو ہمارا نکاح ہو رہا ہے۔

خالد:محبت؟میں۔۔۔ تم۔۔۔ میں۔۔۔ میں۔۔۔ نکاح۔۔۔ کیسے؟

حمیدہ:مجھے آپ سے شادی کرنا منظور ہے جب گھر میں آپ کے کالج سے نکال دیئے جانے کی بات شروع ہو گی تومیں سارا واقعہ بیان کر دوں گی۔۔۔  اس طرح کوئی بدگمانی پیدا نہ ہو گی۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ آپ کا ایک برس ضائع ہو گیا۔

خالد:ایک برس ضائع ہو گیا۔۔۔ میں تمہیں اپنا بنانے کے لئے اپنی زندگی کے سارے برس۔۔۔ پر میں کیا سن رہا ہوں۔

حمیدہ:میں اب جاتی ہوں۔ مجھے پرنسپل صاحب سے مل کر یہ کہنا ہے کہ میں اس سال امتحان میں شریک نہیں ہو رہی اگلے برس ہم اکٹھے امتحان دیں گے۔

(چند لمحات خاموشی طاری رہتی ہے۔)

خالد:نیلے آسمان میں ابابیلیں اڑ رہی ہیں اس باغیچے کی پتی پتی خوشی سے تھر تھرا رہی ہے  اور میں کس قدر حیرت زدہ ہوں۔۔۔  کس قدر حیرت زدہ ہوں۔

فیڈ آؤٹ

***

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔