02:45    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

ڈرامے

1646 1 0 03

تلاش - امتیاز علی تاج، قدسیہ زیدی

تلاش

تلاش

کردار:چچا، چچی، ودو، چھٹن، بنو، اماں بی، بندو، خانصاحب کا ملازم

(دالان میں ایک چارپائی، ایک تخت جس پر میلے کپڑے رکھے ہیں ، دو کرسیاں ، ایک دو چھوٹی میزیں ، صراحی وغیرہ ہیں۔ فرش پر کاغذ، چھپٹیاں  اور  رسی کے ٹکڑے پڑے ہیں۔ پچھلی دیوار میں ایک دروازہ ہے جو غسل خانہ میں کھلتا ہے۔ دائیں ہاتھ کا دروازہ باورچی خانے کو، بائیں کا باہر جاتا ہے۔ سامنے دیوار پر ایک ربڑ کی تھیلی ٹنگی ہے۔

چلّے کا جاڑا ہے۔ صبح کے تین بجے ہیں۔ چچا سر سے پاؤں تک لحاف اوڑھے سو رہے ہیں۔ کمرہ ان کے خراٹوں سے گونج رہا ہے۔ بائیں ہاتھ کا دروازہ کوئی دھڑ دھڑ پیٹ رہا ہے۔ جواب نہ ملنے پر پھر پیٹتا ہے۔)

چچا:(لحاف میں سے ہاتھ نکال کر لیمپ جلاتے ہیں۔ پھر نہایت احتیاط سے منھ لحاف میں سے نکالتے ہیں۔ گھڑی میں وقت دیکھ کر)لاحول ولاقوۃ! کون ہو جی؟(زوردار دستک)دم بھی لو گے یا پیٹے ہی جاؤ گے کواڑ؟ (لحاف میں سے نکلتے ہیں۔ کنٹوپ پہنتے ہیں ، رضائی اوڑھتے ہیں  اور  سو سو کرتے ہوئے بائیں ہاتھ کے دروازے کی طرف جاتے ہیں) یہ بھی کوئی وقت ہے بھلے آدمیوں کو جگانے کا؟(دروازہ کھول کر) ابے پاجی تو اس وقت کیا کر رہا ہے یہاں؟

ملازم:خانصاحب کے پیٹ میں بہت درد ہے۔ انھوں نے تمہاری ربڑ کی تھیلی منگوائی ہے۔

چچا:بس کھا گئے ہوں گے رات دعوت میں اناپ  شناپ۔ آخر کھانا کسی  اور  کا تھا تو پیٹ  تو خانصاحب کا اپنا تھا۔ (جمائی لے کر) کوئی یہ پوچھے کہ بھلا اناڑی کی سی توپ بھرنے کی کیا ضرورت تھی۔ آخر پٹھان جو ٹھہرے  اور  پھر یہ کہ صبح تین بجے پیٹ میں درد کر لیا۔

ملازم:خانصاحب کے پیٹ تو دو بجے سے درد ہے۔

چچا:لیجئے ذرا غور تو فرمائیے۔ شریف آدمی کچھ تو وقت کا لحاظ رکھا ہوتا۔ بے وقت کی راگنی اسی کو تو کہتے ہیں۔

ملازم:اجی کوئی یہ بھی اپنے بس کی بات ہے؟

چچا:تو پھر کیا ہمارے بس کی بات ہے۔ خیراتی ہسپتال میں داخل کیوں نہ ہو گئے۔ یہ تو گھر ہے۔ کوئی شفا خانہ توہے نہیں کہ جس کا جی چاہا سوتوں کو بے آرام کیا  اور  ربڑ کی تھیلی طلب کر لی۔

ملازم:تو پھر۔۔۔

چچا:تو پھر کیا۔ اب آیا ہے تو لیتا ہی جا تھیلی۔ رک۔ ہم ابھی لائے دیتے ہیں (دیوار پرسے تھیلی اتار کر دیتے ہیں  اور دروازہ بند کر لیتے ہیں) نامعقول انسان۔ (کنٹوپ  اور  رضائی اتار کر رکھ دیتے ہیں  اور لحاف میں گھس جاتے ہیں۔ لیمپ بڑھا کر منھ لحاف سے ڈھانپ لیتے ہیں۔ کروٹ لے کر سونے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایک بار پھر کوئی دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔ لحاف میں سے منھ نکال کر)اب یہ کہلوایا ہو گا کہ انتقال فرما گئے ہیں۔ آ کر تجہیز و تکفین کا انتظام کر دو۔ مردود!

(لیمپ جلاتے ہیں۔ جا کر دروازہ کھولتے ہیں تو خانصاحب کا نوکر تھیلی لئے کھڑا ہے۔)

ملازم۔:خانصاحب نے کہا ہے کہ اسے اپنے پاس انڈے دینے دیجئے۔ ہم بوتل سے کام چلا لیں گے  اور اب کبھی ہم سے پالش کی شیشی منگا کر دیکھئے گا۔

چچا:(تھیلی ہاتھ میں لئے دم بخود کھڑے ہیں) ارے کمبخت صبح صبح پرائیویٹ بات جا کر خانصاحب سے بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ توہم نے۔۔۔

ملازم: اور خانصاحب نے یہ بھی کہا ہے کہ آپ جب بیمار ہوں تو خیراتی ہسپتال میں چلے جائیے گا۔

چچا:ذرا ملاحظہ تو فرمائیے شرافت خانصاحب کی، بھلا نوکر کے ہاتھ اخلاق سے ایسی گری ہوئی بات کہلوا بھیجا کہاں کی انسانیت ہے۔(دروازہ بند کر لیتے ہیں۔ ربڑ کی تھیلی تخت پر پٹک دیتے ہیں  اور آ کر پھر لیٹ جاتے ہیں)جیسے ان کے باپ کی میراث مجھے ربڑ کی تھیلی ملی تھی۔ ہونہہ  اور مزاج تو دیکھو پٹھان کا کہ اپنے ہی پاس انڈے دینے دیجئے مرغی کا۔۔۔ دھمکی دیتا ہے کہ پالش منگا کر دیکھئے۔(اٹھ کر بیٹھ جاتے ہیں) جیسے شہر بھر میں یہی تو ایک موچی رہ گیا ہے۔(لیٹ کر لیمپ بڑھا دیتے ہیں۔ سونے کی کوشش کرتے ہیں۔ لحاف میں سے منھ نکال کر)کم بخت اجالا ہی نہیں ہو چکتا کہ امامی چلم ہی بھر لاتا۔(بیٹھ جاتے ہیں)سارا گھر  پڑا سو رہا ہے جیسے کم بختوں کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ (کھڑے ہو جاتے ہیں)افلاطون  اور آخر اس میں جھوٹ بھی کیا ہے کہ گھر ہے کوئی خیراتی ہسپتال توہے نہیں کہ جس وقت جس کا جی  چاہا سوتوں کو بے آرام کیا  اور  ربڑ کی تھیلی طلب کر لی۔ آخر کوئی چندے کی تھیلی ہے  اور  پھر یہ مزاج کہ اپنے ہی پاس انڈے دینے دیجئے۔ (دائیں ہاتھ کے دروازے سے باورچی خانے میں جاتے ہیں ، وہیں سے)گھرداری کرنے چلی ہیں۔ (اندر آتے ہیں)اتنی توفیق نہیں کہ سونے سے پہلے بھوبھل میں لکڑی دبا دیں۔(چارپائی کے پاس آتے ہوئے)  اور ہر وقت کی ضد کہ یہ کرتی ہوں میں وہ کرتی ہوں۔ میں کام سے مری جاتی ہوں۔(غصہ میں آ کر) حالت یہ ہے کہ گھر میں پالش تک منگا کر رکھنے کا ہوش نہیں۔ ضرورت ہو تو ہمسایوں کے ہاں سے پالش منگایا جاتا ہے۔ (چارپائی پر بیٹھ کر)  اور  اس کم ظرف کو دیکھو کہ پالش کیا دے دی حاتم کی گور پر لات ماردی۔ جو برابر پالش لے لی تو بدلے میں ربڑ کی تھیلی انھیں بخش دو کمینہ کہیں کا۔ (اٹھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں) اور بیوی صاحبہ کو دیکھئے کہ جنھیں اتنا خیال نہیں کہ چلم کے لئے تھوڑی سی آگ کا انتظام کر دیں۔(بڑبڑاتے ہوئے کاغذ، چھپٹیاں ، رسی وغیرہ جمع کرتے ہیں پھر باورچی خانے میں جا کر لوہے کی انگیٹھی لاتے ہیں۔ میز پر سے ماچس لے کر انگیٹھی میں آگ جلاتے ہیں۔) لیجئے اب تمباکو تلاش کیجئے (پھر باورچی خانے میں جا کر لپٹن چائے کا گندا سا ٹین زمین پر پٹخ دیتے ہیں۔)کمبخت خالی پڑا ہیں۔ تمباکو کی رمق نہیں اس میں۔ دیکھی اس کی حرکت۔ جی میں آتا ہے حرام خور کا قیمہ کر کے رکھ دوں۔(آگ ٹھیک کرتے ہیں) ہزار تاکید کرو پر ان نوکروں کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔(کھڑے ہو جاتے ہیں)  اور  اس بدمعاش کو دیکھو صبح صبح پرائیویٹ بات خانصاحب سے ٹھسکا دی۔ کوئی اس پاجی سے پوچھے میں نے خانصاحب کے خیراتی ہسپتال میں داخل ہونے کی بات اس لئے کہی تھی کہ تو جان کران کے سامنے بیان کر دے۔(ٹہل کر)تجھے ربڑ کی تھیلی دی ہے۔ تو چپ چاپ جا کران کے حوالے کر دے۔ تجھے دوسروں کے قصے سے کیا سروکار۔  اور پھر ان نواب صاحب کا مزاج کہ فرماتے ہیں تھیلی کو اپنے ہی پاس انڈے دینے دیجئے۔ بدتمیز جاہل۔ یہ کمبخت امامی آج پڑا سوتا ہی رہے گایا اٹھے گابھی۔ (دائیں دروازے سے جاتے ہیں ، باہر سے غصے میں) حرام خور، بدمعاش، ہزار دفعہ نہیں کہا کہ ایک چلم تمباکو باقی رہے تو اور تمباکو فوراً لے آیا کر، اٹھ یا سوتا ہی رہے گا۔(امامی کے رونے کی آواز) اٹھ نہیں لگاؤں ایک  اور لات، بھلا لاتوں کے بھوت کہیں باتوں سے مانتے ہیں؟

امامی:(دائیں دروازے سے اندر آتا ہے ،  چچا پیچھے پیچھے) ہائے مرگیا، ہائے مرگیا۔

(بیٹھ جاتا ہے  اور  روتا ہے۔)

چچی:(دوپٹہ سنبھالتی ہوئی بائیں سے آتی ہیں)کیا ہوا؟کیا ہوا؟کیوں صبح صبح غریب پر برس پڑے؟

چچا:بس اس معاملے میں میری رائے محفوظ رہنے دیجئے۔

چچی:آخر معلوم تو ہو کہ صبح صبح اس غریب پر نزلہ کیوں گر رہا ہے؟

چچا:لا بتا کہاں ہے تمباکو؟

امامی:(منھ بسورتے ہوئے) میاں رکھا تو ہوا ہے تمباکو۔

چچا:توہم اندھے ہیں؟

چچی:رات ہی تو اس نے تمباکو کے لئے مجھ سے چار پیسے لئے ہیں۔

(دائیں کو چلی جاتی ہیں۔)

چچا:(جھک کر امامی  کا کان پکڑتے ہیں  اور اسے اٹھاتے ہوئے) دکھا چل کر کہاں رکھا ہے تمباکو۔ تمباکو کے نام سے پیسے لے کر ریوڑیاں آتی ہیں۔

امامی :(روتا ہے) نہیں تو۔

چچا:کیوں بدمعاش رات کھا نہیں رہا تھا ریوڑیاں ، اسی وقت پیدا نہ کیا تمباکو تو میرے ہاتھوں جیتا نہ بچے گا۔

امامی:چلو میاں دکھاؤں۔

چچا:چلوں کیا۔ جا جا کر لے آ۔

امامی:(بائیں سے باہر جاتا ہے  اور ایک بھرا ہوا ٹین لے کر آتا ہے) لو یہ رہا تمباکو۔ طاق میں رکھا تھا۔ رات ہی میں نے بھرا تھا ڈبہ۔

(روتا ہے۔)

چچا:پاجی، ابے طاق میں تمباکو، تمباکو رکھنے کی جگہ طاق ہے۔ دوکان ہی میں نہ رکھ آیا حرام خور، یہ جگہ ہوتی ہے تمباکو رکھنے کی؟

امامی:(کرتے سے آنسو پونچھتے ہوئے)بیوی جی نے کہا تھا۔

چچا:(چلا کر)ابے بیوی کے بچے تجھے خود خیال نہ آیا کہ ضرورت ہو گی تو طاق میں کہاں تلاش کرتے پھر یں گے۔

امامی:(آستین سے ناک پونچھتے ہوئے) نیچے بلیاں گرا دیتی ہیں۔

چچی:(دالان میں آ کر غصے کر دباتے ہوئے) ہو چکی تفتیش۔

چچا:(جھنجھلا کر) تمہاری ہی شہ نے نوکروں کو سر پر چڑھا دیا ہے کہ تمباکو کے ڈبے طاق میں رکھنے لگے ہیں۔

چچی:تو اور کہاں رکھیں۔

چچا:ہمیں کیوں کر معلوم ہو سکتا تھا کہ ڈبا طاق میں رکھا ہے۔

چچی:عقل سے کام لے کر۔

چچا:(کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ پھر رک جاتے ہیں۔ پھر سینے میں سانس بھرکر کچھ کہنے کو ہیں رک جاتے ہیں۔)ناقص العقل۔

(بائیں ہاتھ کے دروازے سے باہر چلے جاتے ہیں۔)

چچی:(امامی)بس چپ ہو جاؤ۔ آج صبح سے ان کے سر پر بھوت سوا رہے۔ صبح ہی صبح نہ اللہ کا نام نہ رسول کا۔ غریب لڑکے پرپل پڑے۔ جا جا کر منھ ہاتھ دھو لے۔

(امامی بیچ کے دروازے سے غسل خانے میں جاتا ہے۔ چچی بستر وغیرہ ٹھیک کرتی ہیں۔ پھر دائیں سے باہر چلی جاتی ہے۔)

چچی:(باہر سے) منھ دھو چکا  ہو تو ادھر باورچی خانے میں آ جا۔

امامی:ابھی آیا۔

(غسل خانے میں سے منھ پونچھتا ہوا نکلتا ہے  اور دائیں سے باہر چلا جاتا ہے۔)

چچا:(بائیں سے اندر آتے ہیں چہرہ تمتمایا ہوا ہے بڑبڑا رہے ہیں۔) ربڑ کی تھیلی بخش دو باپ کی میراث، موچی کہیں کا۔

امامی:(کشتی میں چائے لے کر آتا ہے) بیوی نے چائے بھجوائی ہے۔

چچا:لے جا واپس  اور کہہ دے کہ اسے بھی اٹھا کر طاق میں رکھ دیں۔ (امامی چائے لے کر چلا جاتا ہے) نوکروں کے سامنے کیا ہمسایوں کے سامنے تک مجھے رسوا کر ڈالا۔ ورنہ اس پٹھان کی طاقت تھی کہ پالش کا طعنہ دے جاتا۔۔۔ آخر کوئی حد بھی ہو۔۔۔ بس اب ہو چکی۔۔۔ اب نہیں ادھر کو دنیا ادھر ہو جائے۔۔۔ مگر انکار۔۔۔ جب دیکھو نوکروں کی طرفداری۔۔۔  زندگی اجیرن کر ڈالی۔۔۔ آیا تھا بڑا طاق۔۔۔ طاق کا بچہ۔۔۔  طاق میں پالش کی شیشی منگا کر نہ رکھی گئی۔ شیشی ہوتی تومیں کیوں منگاتا اس چمار سے پالش۔ میری عقل ماری گئی تھی۔۔۔ جو برابر پالش لے کر ربڑ کی تھیلی انھیں دے ڈالو۔ بڑے آئے کہیں کے۔(دائیں ہاتھ کے دروازے کے پاس کھڑے ہو کر اندر جھانکتے ہیں پھر واپس لوٹتے ہیں۔)ہم نہیں پئیں گے چائے امامی کو پلا دیں۔

(بائیں ہاتھ کے دروازے سے باہر چلے جاتے ہیں۔)

(ودو  اور چھٹن اندر آتے ہیں۔ ودو تولیہ ہاتھ میں لئے ہے۔ غسل خانے میں چلا جاتا ہے۔ چھٹن  لٹو سے کھیلتا ہے۔ غسل خانے کا دروازہ بند ہے۔ پانی گرنے کی آواز آتی ہے۔ چھٹن لٹو چھوڑ کر جاتا ہے  اور غسل خانے کا دروازہ پیٹتا ہے۔)

چھٹن:جلدی نکلو ہم بھی نہائیں گے۔

ددو:(اندر سے)نہیں نکلتے۔ نہا لیں گے تو نکلیں گے۔

چھٹن:(دروازہ پیٹ کر) نکلو گے کیسے نہیں۔

ددو:جاؤ جا کر اماں سے کہہ دو۔

چھٹن:نکلو۔۔۔ نکلو۔۔۔

(دروازہ پیٹتا ہے۔ پھر جا کر لٹو سے کھیلنے لگتا ہے۔)

(چچا غصے میں اندر آتے ہیں  اور سیدھے غسل خانے کے دروازے کی طرف جاتے ہیں۔ دروازہ بند ہے۔ چچا کا سراس سے ٹکراتا ہے۔)

ددو:(باہر سے)نہیں مانے گا تو چھٹن میں اماں سے جا کر کہہ دوں گا چھٹن مجھے نہانے نہیں دیتا۔

(چھٹن ہنسی کے مارے بے قرار ہو جاتا ہے۔ چچا سر سہلاتے ہیں۔ پھر چھٹن کو ہنستے ہوئے دیکھ کراس کی طرف لپکتے ہیں۔ چچی دائیں سے اندر آتی ہیں۔ چھٹن  دوڑ کر چچی سے لپٹ جاتا ہے۔ چچا بے بس ہو کر لوٹتے ہیں  اور چھٹن دائیں کو چلے جاتے ہیں۔)

چچا:(غسل خانے کا دروازہ پیٹ کر)نکل باہر۔

ددو:(اندر سے)نہا تو لوں۔

چچا:نہیں ابھی نکل۔

ددو:صابن تو اتار لوں۔

چچا:کہہ جو دیا کہ ابھی نکل جیسا ہے ویسا ہی نکل۔

ددو:ابا صابن لگا ہے۔

چچا:آتا ہے باہر یا بتاؤں۔ صابن ہے تو ہوا کرے۔(ددو صابن منھ پر  اور  جسم پر ملے دھڑ سے تولیہ لپیٹے اندر آتا ہے۔)پاجی کہیں کا نکل ہی نہیں چکتا تھا۔ ابے کہا جو تھا ہم نے جیسا ہے  ویسا ہی نکل آ چیخوائے چلا جاتا ہے۔

(ایک چانٹا رسید کرتے ہیں۔)

ددو:(روتا ہے)صابن گھس گیا آنکھوں میں۔

(روتا ہے۔)

چچا:(فوراً غسل خانے میں گھس جاتے ہیں  اور اندر سے چٹخنی چڑھا لیتے ہیں۔ ددو دروازے پر کھڑا رو رہا ہے) تو نہیں چپ ہو گا(ددو روتا ہے)دیکھ میں کہتا ہوں سرک جا یہاں سے ، نہیں اچھا نہ ہو گا۔ میں دروازہ کھول کر اتنی لگاؤں گا کہ اماں ربڑ کی تھیلی سے سینک کرتی پھر یں گی۔

چچی:(دائیں سے اندر آتی ہیں)کیا ہوا لال کیوں رو رہا ہے؟ آ جا تو میرے پاس آ جا؟

ددو:(روکر)ابا نہانے نہیں دیتے۔ غسل خانے میں سے نکال دیا۔دیکھو تو اماں سارے پنڈے  پر صابن لگا ہے۔

چچی:حد کرتے ہیں بعض دفعہ تو بچوں کی سی باتیں کرنے لگتے ہیں  اور  آج صبح سے تو نہ جانے کیا آفت آ رہی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کسی سے لڑ کر آتے ہیں۔ چل میں تجھے نہلا دوں۔ پھر کوئی  اور کام کروں گی۔

(چچی ددو کو لے کر دائیں کو جاتی ہیں۔ چچا غسل خانے کا دروازہ کھول کر دیکھتے ہیں پھر بند کر لیتے ہیں۔ ددو اور چچی لوٹ کر آتے ہیں۔)

چچی:(غسل خانے کے دروازے کے باہر کھڑے ہو کر)چھٹن کے ابا دوسرا تولیہ لادوں؟تولیہ تو بچہ باندھ کر چلا آیا ہے۔

(پانی گرنے کی آواز۔)

چچی:(ددو سے)چل توتو چل۔ نہیں لیتے تولیہ تو نہ لیں۔

(دونوں چلے جاتے ہیں۔)

چچا:(دروازہ کھول کر اندر آتے ہیں۔ گیلا کرتہ پاجامہ پہن رکھا ہے) ہونہہ! (بائیں دروازے سے باہر چلے جاتے ہیں۔ پھر فوراً ہی اندر آتے ہیں جیسے کچھ ڈھونڈ رہے ہوں۔ غسل خانے میں جاتے ہیں پھر اندر آتے ہیں) نہ جانے کہاں چلی گئی۔(طاق میں تلاش کرتے ہیں) طاق سب چیزیں طاق۔۔۔ بدمعاش’’ پالش کی شیشی منگوا کر دیکھئے گا‘‘۔ بس یہی تو خرید سکتا ہے پالش  اور تو سب قلانچ ہیں۔ایک دم سے چھ شیشیاں خرید کے لاؤں گا  اور سب کو طاق۔۔۔ پاجی حرام خور تمباکو اٹھا کر طاق میں رکھ گیا مگر۔۔۔ اس پٹھان کے ہاتھوں ذلیل کرا دیا۔ (پھر اکٹروں بیٹھ نعمت خانے کے نیچے دیکھتے ہیں)لاحول ولا قوۃ۔ گئی تو کہاں گئی۔(تکیے کے نیچے دیکھتے ہیں)آخر پر تو نہیں لگ گئے اسے۔ (تخت پر رکھے ہوئے کپڑوں کو ٹٹول کر دیکھتے ہیں) یہاں بھی نہیں۔(چاروں طرف گھوم کر) اس گھر میں ہر چیز غائب ہو جاتی ہے۔ پھوہڑ پن کی حد ہو گئی۔ بھلا ان سے کوئی پوچھے کہ اگر  پالش کی شیشی منگوا کر رکھ لیتیں تو کیا حرج تھا۔ (پھر تلاش میں لگ جاتے ہیں۔ تخت پر کے میلے کپڑے اٹھا کر ایک ایک کر کے جھاڑتے ہیں) کم بخت سوئی بھی ہوتی تو الگ ہو کر گر پڑتی۔ لاحول ولاقوۃ الا با للہ۔(لوٹوں کے نیچے دیکھتے ہیں)سمجھ میں نہیں آتا کہ کہاں ہو سکتی ہے۔ (داڑھی کھجاتے ہیں) اچھا صبح سے شروع کروں۔۔۔ صبح۔۔۔  خانصاحب۔۔۔  اپنے پاس انڈے دینے دیجئے۔ بدمعاش! رات کے تین بجے پیٹ میں درد کر لیا۔ تکلیف وہ انسان  اور یہ نہیں کہ صبح تک انتظار کر لیں ، نہیں لاٹ صاحب کے بچے رات کے تین بجے جگوائیں گے شریف آدمیوں کو اور اسے دیکھو کہ صبح صبح جا کر پرائیویٹ بات خانصاحب سے کہہ دی۔ کمینہ، کم ظرف، بھلا یہ بات ان سے کہنے کی تھی۔(پھر بستہ ٹٹولتے ہیں) یعنی حد ہو گئی۔ ارے او۔(رک جاتے ہیں) بندو نامعقول۔ گدھا۔ خوب یاد آیا۔صبح باورچی خانہ میں گیا تھا انگیٹھی لینے۔ شاید وہیں رکھ دی ہو گی۔ (باورچی خانہ میں جھانکتے ہیں) دیکھی بیگم صاحبہ کی حرکت، ایسی چپ چپ  اور انجان سی بنی بیٹھی ہیں گویا کوئی بات ہی نہیں ہوئی۔ ہونہہ!اس طرف نظر ہی نہیں اٹھاتیں۔ چہرے پر کیا پارسائی  اور  شہدا پن برس رہا ہے۔ (چٹکی بجا کر) اب آیا سمجھ میں۔ بھٹیارہ ہے نمازی تو ضرور ہے۔ دغا بازی۔ انھوں نے ہی چھپا رکھی ہے۔ تبھی تو بے نیازی کا یہ عالم ہے۔۔۔  خیال ہو گا کہ آخر ہار جھک مار کر مانگنے آئے گا۔ (پھر جھانکتے ہیں) اب اس طرف دیکھا نا۔ میں پہلے ہی جانتا تھا کہ چپکے چپکے میری پریشانیوں کا تماشا دیکھ رہی ہیں۔ اس بچپن کی بھلا کوئی حد بھی ہے۔ میں نے بھی بیگم صاحبہ کا پاندان ہی غائب نہ کیا  ہو تو کہنا۔ (مو وا اندر آتا ہے) کیوں بے مو وے ! بیوی کیا کر رہی ہیں؟

مو وا:ہنڈیا بگھار  رہی ہیں۔

(چلا جاتا ہے۔ بائیں ہاتھ کے دروازے سے)

چچا:(ٹہلتے ہیں)کیا بے ہودہ مذاق ہے  اور اگر  میں ان کی اوڑھنی کو دیا سلائی دکھا دوں جب؟

بنو:(بنو اندر آتی ہے۔ ہنڈ کلیا کا سامان لئے ہوئے ہے) ابا میاں گر کے چاول کھاؤ گے؟

چچا:ادھر تو آ بنو۔ ایک کام کیجو۔ ہماری عینک کھو گئی ہے۔ باورچی خانے میں رکھی تھی۔ ڈھونڈ کر لادے۔

بنو:کون سی عینک؟

چچا:احمق کہیں کی۔ جو عینک ہم لگاتے ہیں  اور کون سی، مگر دیکھ تیری اماں کو نہ معلوم ہونے پائے۔

بنو:(مسکرا کر) اپنی عینک لگا تو رکھی ہے آپ نے۔

چچا:(چونک کر ہاتھ آنکھوں کی طرف بڑھاتے ہیں)ہیں !(اتارتے ہیں۔ ہاتھ میں لے کر گھماتے ہیں۔ سوچتے ہیں۔ پھر بنو کی طرف دیکھ کر)یہ یہیں تھی۔ کب لگائی تھی ہم نے؟

بنو:(زور سے قہقہہ لگاتی ہے)اماں !اماں !ہم تواماں کو سنائیں گے۔

(بھاگنے لگتی ہے)

چچا:(لپک کر اسے پکڑ لیتے ہیں) ہیں ہیں !کیا ہوا؟کہاں چلی؟ گلاب جامن کھائے گی۔ اری وہ بات توہم نے مذاق میں کہی تھی، پاگل کہیں کی۔ اس میں اماں کو سنانے کی کیا بات ہے۔ دیوانی ہوئی ہے۔ کیا لائیں تیرے لئے بازار سے؟

بنو:(بھاگنے کی کوشش کرتی ہے)اماں !اماں !!

چچا:تھپڑ ماروں گا میں۔

بنو:اماں !اماں !!

چچا:بدتمیز۔

(بنو کو دھکا دے دیتے ہیں۔ وہ گر کر رونے لگتی ہے۔ چچی جلدی سے بائیں ہاتھ کے دروازے سے باہر چلے جاتے ہیں)

چچی:(باورچی خانے سے)بنو۔ او بنو۔ کیوں ریں ریں کر رہی ہے۔ کیا ہوا؟ (چچی دائیں سے آتی ہیں۔بنو کر اٹھا کر پیار کرتی ہیں) کیوں رو رہی ہے۔ صبح صبح کس نے مارا؟

بنو:ابا۔۔۔ (روکر)ابا۔۔۔

چچی:کوئی شرارت کی ہو گی؟

بنو:(ناک پونچھتے ہوئے) نہیں اباکی عینک۔۔۔

چچا:(بائیں سے اندر آتے ہیں۔ بڑی سی ٹوکری میں مٹھائی کی ہاتھ میں لئے ہیں) ابے او چھٹن، او للو، چلو۔ آؤ ہم تمہارے لئے مٹھائی لائے ہیں۔لے بنو بیٹا تو بھی لے۔(سب کو مٹھائی تقسیم کرتے ہیں۔ چچی باورچی خانے میں چلی جاتی ہیں)لے ددو تو ایک  اور  حصہ لے  اور  بنو تو بھی لے۔(کاغذ پر مٹھائی رکھ کر) لے بندو یہ بیوی کودے آ۔(بندو مٹھائی کولے کر دائیں کو جاتا ہے۔ سب بچے مٹھائی کھاتے ہیں۔)

چچا:(فٹ لائٹ کے قریب آ کر)او امامی  ذرا ادھر تو آ یار۔ یہ  لو تم ایک آنہ  اور  اگر کام کرو تو چونی انعام۔ دیکھ خانصاحب نکڑ کی دوکان پر حجام کے ہاں بیٹھے خط بنوا رہے ہیں۔ بائیسکل ان کا دوکان کے باہر رکھا ہے۔ تو چپکے سے جا کران کے بائیسکل میں پنکچر کر دیجیو۔ بڑے آئے پالش کی شیشی والے۔

(پردہ)

3.0 "2"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔