کردار:
خادم
قیوم خان
طاہرہ
پپو
رحمت اللہ خان
نرس
ڈاکٹر
منظر:(فضا میں گہرا سناٹا چھایا ہوا ہے ، ایسا معلوم ہوتا ہے پوری کائنات کی سانس رک گئی ہے۔ اسٹیج پر اندھیرا ہے۔ ہلکی سی روشنی میں ایک آدمی کا ہیولا دکھائی پڑتا ہے۔ اس گہرے سناٹے میں ایک آواز سنائی دیتی ہے جیسے کوئی جھاڑیوں میں الجھ الجھ کر چل رہا ہو۔ اسی کے ساتھ روشنی کچھ تیز ہو جاتی ہے اور اس آدمی کا چہرہ اب صاف دکھائی دیتا ہے۔ یہ خادم ہے۔ عمر ۴۵سال سے کچھ اوپر ہو گی۔ گٹھا ہوا جسم اور بھاری آواز کا مالک، جو یہاں روپوش ہے۔ جھاڑیوں میں کسی کے الجھ الجھ کر چلنے کی آواز پروہ چونکتا ہے۔۔۔)
خادم:کو ن ہے؟
(سرگوشی کا انداز، لیکن بہت تیزی لئے ہوئے)
قیوم خاں :میں ہوں۔۔۔ قیوم خاں (انداز یہاں بھی سرگوشی کا ہے۔لیکن وضاحتی لہجہ کے ساتھ)۔۔۔ کھانا لے کر آیا ہوں۔
(خادم کے چہرے کا تناؤ کم ہوتا ہے۔ روشنی اب اتنی پھیلتی ہے کہ خادم کے پاس آ کر بیٹھنے والے قیوم خان کی صورت بھی دکھائی دیتی ہے۔)
خادم:اوہ۔۔۔ کہو، شہر کا کیا حال ہے؟
قیوم خان:ایک دم سناٹا ہے۔ لگتا ہے ، کوئی وبا پھیل گئی ہے۔
خادم:تم معظم جاہی تک گئے تھے؟
قیوم خان:ہاں ، گیا تھا۔ لیکن تم دو دنوں سے بھوکے ہو، پہلے کھالو۔۔۔ باتیں ہوتی رہیں گی۔
خادم:کھالوں گا۔۔۔ مگر تم آس پاس دیکھتے رہو۔ ہم اس وقت بہت زیادہ خطرے میں گھرے ہوئے ہیں۔
(ایک ہلکا سا وقفہ قیوم خان تھیلے سے کاغذ کی پوٹلی نکالتا ہے اور خادم کی طرف بڑھاتا ہے۔)
خادم: اور۔۔۔ طاہرہ کیسی ہے؟
قیوم خان:(کھانا جو کاغذ میں لپٹا ہوا ہے ، خادم کے ہاتھ میں دے کر) اچھی ہے۔ اس نے تمہارے نام ایک خط دیا ہے۔(جیب سے خط نکالتا ہے)۔۔۔ لو پڑھ لو۔
خادم:(کھانا ایک طرف رکھ دیتا ہے۔ وہ شروع میں قیوم خاں کی آمد پر چونک کر اٹھ بیٹھا تھا۔ اب دوبارہ ایک درخت کی جڑ سے ٹیک لگا دیتا ہے)پڑھ کے سناؤ۔ لیکن اپنی آواز دھیمی رکھو۔
قیوم خان:اس نے لکھا ہے۔۔۔
(وقفہ)
۔۔۔ ڈیئر خادم، بہت دنوں کے بعد آج تمہارے بارے میں کچھ معلوم ہوا، اس سے قبل عجیب عجیب افواہیں آتی رہیں۔ ایک بار تو ایسا بھی ہوا (اب یہ خط قیوم خاں کی آواز کے بجائے ایک نسوانی آواز میں پڑھا جاتا ہے۔ اشارہ ہے خادم کی بیوی طاہرہ کی جانب)۔۔۔ کہ میں نے اپنی چوڑیاں توڑ ڈالیں (قیوم خاں کی نگاہیں خط پر لگی ہیں۔ ظاہری انداز ایسا ہے۔ گویا وہ خط پڑھ رہا ہے۔ مگر پس منظر سے نسوانی آواز کا سلسلہ جاری ہے۔ خادم کے چہرے پر بدلتی ہوئی کیفیتوں کے اثرات نمایاں ہیں) اب سوچتی ہوں تو اپنے یقین و اعتماد کی لغزشوں پرشرم آتی ہے۔ فصل کی کٹائی کب شروع ہو گی۔ تم ایسا کیوں نہیں کرتے کہ کسانوں اور مزدوروں کو سمجھا بجھا کر ایک قابل قبول سمجھوتہ ان کا کرا دو۔ آخر یہ ظلم اور صعوبتیں اپنے اوپر کب تک برداشت کرتے رہو گے۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ خون کا ایک بھی قطرہ نہ بہے اور حالات سنبھل جائیں۔ بندوق کی گولیوں سے مسئلے حل نہیں ہوتے ، یہ بات میں نہیں کہتی، کچھ دنوں پہلے تم خود کہا کرتے تھے۔ بہرحال میں تو صرف یہ چاہتی ہوں کہ ویرانوں میں زندگی گزارنے کا یہ سلسلہ اب ختم ہونا چاہئے۔ پپو دن بھر تمہارے نام کی رٹ لگایا کرتا ہے اور گئی رات تک پولیس مکان کا چکر کاٹتی رہتی ہے میں نے ان سے کہہ دیا ہے کہ تم سیر و تفریح کی غرض سے دلی کی طرف چلے گئے ہو۔ تمہارا سگریٹ ختم ہو گیا ہو گا۔ بھجوا رہی ہوں۔ قیوم بھیا جلدی میں ہیں اس لئے اب خط بند کرتی ہوں۔ اپنی صحت کا خیال رکھو گے۔ دن رات کی محنت، ذہنی پریشانیاں اور مسلسل فاقوں سے تمہارے دل پر برا اثر پڑے گا۔ سنا ہے کہ دس دنوں سے تمہیں سونے کا موقع نہیں مل سکا۔ ایسا کیوں کرتے ہو؟ کیا تم کو پپو یاد نہیں آتا؟
(ایک ہلکا سا وقفہ)
خادم:سب یاد آتے ہیں (لہجہ بھاری، آواز میں گونج جیسی کیفیت اور ٹھہراؤ ہے۔ وہ اب کھڑا ہو جاتا ہے اور انتہائی جذباتی انداز میں بولتا ہے)۔۔۔ پپو بھی یاد آتا ہے۔۔۔ اور۔۔۔ اور تم بھی۔۔۔ مگر یہ ظلم کا سلسلہ کب بند ہو گا؟اندھیری رت کے پہلو میں لیٹنے والا سورج انگڑائی کیوں نہیں لیتا؟ ہماری زندگی کی شام اتنی لمبی کیوں ہو گئی؟ہم زندہ ہیں صرف اس لئے کہ آنے والی صبح کے ہاتھوں میں چھلکتا ہوا جام دیکھنا چاہتے ہیں۔ رات کی یہ زنجیر بکھر جائے تو اجالوں کے سلام کرنے کا انداز دیکھنا۔۔۔ قیوم خان۔۔۔ تم تو جانتے ہو کہ ظالم اور مظلوم دونوں کی نگاہیں مجھ پر لگی ہیں۔ لیکن دونوں کا تیور الگ ہے۔ ایک کی زمین ہے اور دوسرے کی محنت۔ ایسے موقعوں پر مجھے کیا کرنا چاہئے میں نے اس پر بہت سوچا ہے۔ جوانوں کی سوکھتی ہوئی ہڈیاں ، بوڑھوں کے لرزتے ہوئے ہاتھ، عورتوں کے مرجھائے ہوئے چہرے اور بچوں کی بلکتی ہوئی آنکھیں ، مجھ سے بہت کچھ مانگتی ہیں ، بہت کچھ۔ میں انھیں کیسے فراموش کر دوں۔ یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا۔ واپسی ناممکن ہے۔ ناممکن ہے واپسی۔۔۔
قیوم خان:خادم۔۔۔
خادم:ہوں۔
قیوم خان:دوسرے ساتھی کہاں ہیں؟
خادم:سب ہیں۔ اپنی اپنی جگہوں پہ وہ سب کے سب لوہے کی دیوار بنے ہوئے ہیں۔ کوئی بھی آدمی ہم سے سو گز سے زیادہ دور نہیں۔
قیوم خان:(خود کلامی کا انداز۔۔۔)یہاں دھان کی بالیوں میں کیسی خوشبو ہے ، کتنی سرمستی ہے۔ کاش ہم یہاں اطمینان کی سانس لے سکتے۔ اپنی اس دھرتی کو سینے سے لگا سکتے۔۔۔
خادم:(ہلکی سی ہنسی کے ساتھ) ارے قیوم خاں ، تم تو شاعری کرنے لگے۔
قیوم خان:نہیں خادم، یہ میری شاعری نہیں ، یہ تو آزادی کے متوالوں کا ایک گیت ہے ، جسے تم نے تخلیق کیا ہے۔ میں اسے اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں دہرا رہا ہوں۔
خادم:آزادی کے متوالے۔۔۔ (خود کلامی، انداز میں تاسف بھی ہے ، اور تمنا بھی) قیوم خان، اب ایسا کرو، تھوڑا کھانا دوسرے ساتھیوں کو بھی پہنچا دو۔
قیوم خان:(کھانے کا تھیلا اٹھائے ہوئے) وہ۔۔۔ کدھر ہیں؟
خادم:بائیں جانب، پچیس تیس گز کی دوری پر چلے جاؤ۔ وہاں لوگ مل جائیں گے۔
قیوم خان:اچھی بات ہے۔
(یہ کہتے ہوئے وہ آگے بڑھتا ہے۔)
خادم: اور ہاں ، ان سے کہہ دینا، ہتھیار کا استعمال بہت سنبھل کر کریں۔ خون کسی کا بھی ہو لیکن خون، خون ہے۔ میں آج بھی بندوق کی گولیوں کو انسانیت کا سب سے بڑا دشمن سمجھتا ہوں۔
(اسی لمحہ اچانک گولی چلنے کی آواز آتی ہے اور ساتھ ہی ایک چیخ بلند ہوتی ہے ، پھر دوسرا فائر ہوتا ہے ، پھر لگاتار کئی فائر ہوتے ہیں۔ لگتا ہے دو گروہوں کے درمیان گولیوں کا تبادلہ ہو رہا ہو۔ بھاگ دوڑ کی آواز بھی سنائی دیتی ہے پھر فضا میں دھیرے دھیرے سناٹا چھا جاتا ہے اور کسی کے کراہنے کی آواز ابھرتی ہے پھر یہ آواز بھی دم توڑ دیتی ہے۔ ہلکی موسیقی کی ایک دردناک لہر کے ساتھ۔۔۔ گولی چلنے کی پہلی آواز کے ساتھ ہی اسٹیج پر اندھیرا ہو جانا چاہئے۔ ہدایت کار حسب ضرورت روشنی کے ذریعہ تبدیلی پیدا کر سکتا ہے۔ اب اسٹیج پر ڈرائنگ روم کا منظر ہے، جہاں خادم کی بیوی طاہرہ اور بچہ پپو موجود ہے۔ طاہرہ کی عمر ۳۵ کے آس پاس ہے۔ پپو دس برس کا ہو گا۔ دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز کے ساتھ ہی اسٹیج روشن ہوتا ہے۔ طاہرہ سوئیٹر بن رہی ہے۔ پپو البم کی تصویریں الٹ پلٹ کر رہا ہے۔)
طاہرہ:پپو!دیکھ تو بیٹا، اتنا سویرے کون آیا ہے؟
(پپو آگے بڑھ کر دروازہ کھولتا ہے اور وہیں سے آواز لگاتا ہے۔)
پپو:امی، امی، قیوم چا آئے ہیں۔
(وہ دونوں ونگ سے اسٹیج پر آ جاتے ہیں۔)
قیوم خان:ارے بیٹے ، ذرا آہستہ بول۔۔۔
طاہرہ:(کھڑی ہو جاتی ہے)آؤ بھیا۔۔۔ آؤ۔(آواز میں نرمی لیکن درد سے بھری ہوئی)دن رات بس تمہارا ہی انتظار تھا۔
قیوم خان:میں جانتا تھا بھابی۔۔۔ اسی لئے تو آ گیا(ایک ذرا رک کر) بیٹے پپو، ذرا دروازہ بند کر دے۔
طاہرہ:بھیا۔۔۔؟(انداز سوالیہ ہے۔ آواز میں تھرتھراہٹ پیدا ہو گئی ہے۔ پھر ایک معمولی سے وقفہ کے بعد وہ چیخ اٹھتی ہے)۔۔۔ بھیا۔۔۔
(یہ آواز دیر تک گونجتی رہتی ہے۔)
قیوم خان:ارے۔۔۔ بھابی۔۔۔ بھابی۔۔۔ ارے یہ تم کو کیا ہو گیا؟
طاہرہ:(آواز میں خوف کا جذبہ شامل ہے)۔۔۔ یہ۔۔۔ یہ۔۔۔ تمہارے کپڑوں پر۔۔۔ یہ خون کیسا ہے؟
قیوم خان:ہاں۔۔۔ ہاں بھابی یہ خون ہے۔۔۔ مگر یہ ایک دوسرے ساتھی کا ہے۔ رات کی جھڑپ میں وہ زخمی ہو گیا تھا۔ اسے اٹھا کر شہر لایا ہوں ، تم ڈرو نہیں۔ ایسا مت کرو، ورنہ سب چوپٹ ہو جائے گا۔ خادم اچھا ہے ایک دم اچھا۔۔۔ (طاہرہ کا چہرہ دھیرے دھیرے پرسکون ہوتا جا رہا ہے) رات بہت اندھیری تھی۔ چلتے وقت ملاقات نہ ہو سکی مگر وہ ٹھیک ہو گا۔ اس کو کچھ نہیں ہو سکتا۔ کچھ ہونا بھی نہیں چاہئے۔۔۔
(قیوم خان جلدی جلدی بول رہا ہے ، انداز سمجھانے کا ہے مگر لہجہ کی بے اعتمادی خود اس کی گھبراہٹ کو ظاہر کر رہی ہے۔ درمیان میں ہلکی ہلکی سسکیوں کی آواز۔ کبھی پپو کی، کبھی طاہرہ کی۔۔۔)
پپو:چاچا۔۔۔ چاچا۔۔۔ پھر آپ ڈیڈی کو کیوں نہیں لائے؟
قیوم خان:ارے بیٹے (پیار کرنے کا انداز) وہ کوئی بچہ ہیں جو میں انھیں اپنے کندھے پر بیٹھا کر لاتا۔ وہ خود ہی آ جائیں گے۔
پپو:پھر آئے کیوں نہیں؟
قیوم خان:ابھی انھیں کچھ ضروری کام ہے بیٹے ، کام ختم ہو جائے تو آ جائیں گے۔
(اس دوران طاہرہ نصف بنے ہوئے سوئیٹر اور اون کے گولے کو میز پر اٹھا کر رکھتی ہے اور پھر کرسی پر پڑے البم کو اٹھا کر کہیں پر سلیقہ سے رکھنے کے لئے آگے بڑھتی ہے۔۔۔)
پپو:یہاں بھی تو بہت کام ہے۔
قیوم خان:اچھا۔۔۔؟
(ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ)
پپو:ہاں۔۔۔ وہ دودھ والا ہے نا۔۔۔ اس نے دودھ بند کر دیا ہے۔
طاہرہ:(ہاتھ میں البم لئے ہوئے) پپو۔۔۔
(انداز ڈانٹنے کا ہے۔)
پپو: اور اس نے۔۔۔ (آواز کانپنے لگتی ہے)چاچا۔۔۔ کل اس نے ہم لوگوں کو بہت برا بھلا کہا۔
طاہرہ:(زور سے) پپو۔۔۔
قیوم خان:دیکھو بیٹے ، تم جاؤ کھیلو ، میں دودھ والے کو ماروں گا۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔؟
پپو۔:(کمرے سے باہر جاتے ہوئے)ہاں ڈیڈی کو بھی کہہ دیجئے گا۔۔۔ ضرور کہہ دیجئے گا۔
طاہرہ:(ایک کرسی پر نڈھال سی بیٹھ جاتی ہے) میں کیا کروں۔۔۔ اف، کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔
قیوم خان:سب ٹھیک ہو جائے گا بھابی۔۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ گھبراؤ مت۔۔۔ صبر سے کام لو۔
طاہرہ:بھیا، صبر تو میں نے اس دن کر لیا تھا، جب وہ اڑتالیس گھنٹے کا بھوکا تھا۔۔۔ اس نے دو روٹیاں کھائیں اور چھ گھنٹے تک سویا رہا۔۔۔ پھر اس کی آنکھیں کھلیں تومیں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا، اور آج تک اس کے ہاتھوں پر میری گرفت ڈھیلی نہیں ہو سکی۔
قیوم خان:ہاں بھابی۔۔۔ (اچانک وہ چونکتا ہے)۔۔۔ مگر یہ آواز۔۔۔
(ملی جلی آوازوں کے سہارے۔’’انقلاب زندہ باد‘‘ کا نعرہ سنائی دیتا ہے۔ یہ آواز کمزور ہے۔ دور سے آتی ہوئی معلوم ہوتی ہے ، پھر دوسری آواز ابھرتی ہے اور یہ بہت صاف سنائی دیتی ہے۔ گویا بہت قریب سے آ رہی ہو کوئی شخص دردناک آواز میں پڑھ رہا ہے ، ترنم کے ساتھ۔۔۔)
سدا میرے گاؤں پو غربت کا موسم
نہ فاقوں سے فرصت نہ دم سچ ہے دم
(اب ملی جلی آواز پھر سنائی دیتی ہے۔ بہت صاف۔۔۔)
انقلاب زندہ باد، انقلاب زندہ باد۔
(ترنم سے پڑھنے کا سلسلہ پھر ابھرتا ہے۔)
یاں لنگی بھی گت نئیں واں ان کو ریشم
ارے ناما دیشم ارے ناما دیشم
(آخیر میں ادے ناما دیشم اور انقلاب زندہ باد کی تکرار کے ساتھ دونوں آوازیں ، عروج پر پہنچ جاتی ہیں اور اسی دوران گولیوں کے چلنے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ اسٹیج پر اندھیرا چھا جاتا ہے اور کافی دیر تک گولیوں اور انسانی بھاگ دوڑ چیخ و پکار کی آواز سنائی دیتی رہتی ہے۔ اس عرصہ میں اسٹیج پر معمولی سی ترمیم کر کے ایک ایسا کمرہ تیار کرنا ہے جو شہر کے ایک بڑے تاجر رحمت اللہ خان کا ڈرائنگ روم ہے۔ روشنی آتے ہی وہ ایک کرسی پر نیم دراز دکھائی دیتا ہے۔۔۔ دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز سن کر چونکتا ہے اور وہیں سے پکارتا ہے۔)
رحمت اللہ خان:کون صاحب ہیں؟
باہر کی آواز:(یہ خادم کی آواز ہے)۔۔۔ میں ہوں بھائی، دروازہ کھولو۔
(آواز بھاری ہے ، لہجہ سے تکان کا اندازہ ہوتا ہے۔)
رحمت اللہ خان:ارے (کرسی سے اٹھتے ہوئے)یہ تو خادم معلوم ہوتا ہے۔۔۔ ہاں بھائی آ رہا ہوں۔(دروازہ کھلنے کے ساتھ وہ زور دار لہجے میں بات کرتا ہے۔ یہ شخص اپنے لہجہ سے بڑا جہاندیدہ، تیز اور کسی حد تک عیار معلوم ہوتا ہے) ارے میری جان خادم۔۔۔ افوہ۔۔۔ ظالم تم نے کتنے دنوں بعد اپنی صورت دکھائی ہے۔ خدا کی قسم جی چاہتا ہے تمہاری گردن دبوچ دوں ، کہاں تھے ، اتنے دنوں تک۔۔۔ چلو اندر آؤ۔۔۔ ارے آؤ اندر۔۔۔ آج جی بھرکے تم سے بدلہ لوں گا۔۔۔ اور یہ۔۔۔ یہ تم نے کیا صورت بنا رکھی ہے؟(خادم کے لباس بے ترتیب ہیں۔ بال الجھے ہوئے ہیں ، اور چہرے پرت کان ہے) ہونہہ۔۔۔ یہاں نہیں۔۔۔ وہاں بیٹھو۔۔۔ صوفے پر آرام سے لیٹ جاؤ۔۔۔ ہاں اب بتاؤ۔۔۔ کیسے ہو؟
خادم:کیا بتاؤں ، رحمت اللہ صاحب، ٹھیک ہوں۔
(آواز میں ٹھہراؤ اور لہجہ کی تکان برقرار ہے۔)
رحمت اللہ :ارے۔۔۔؟میری تمام بکواس کا تمہارے پاس یہی جواب ہے؟ کم بخت اپنے بارے میں سب کچھ بتا۔ بہت دنوں سے تمہاری کوئی نظم نہیں سنی۔ ظالم کیوں اپنی نعمتوں سے محروم رکھتا ہے۔ واللہ سچ کہتا ہوں ، تمہاری نظموں کو سن کر خون کی گردش تیز ہو جاتی ہے ، ذہن کے دروازے کھل جاتے ہیں تاریکیوں سے پردے ہٹ جاتے ہیں ، مگر۔۔۔ مگر تم ہو ایک نمبر کے چغد۔ یہ ہڑتال وڑتال کے چکر میں کیا رہتے ہو؟جب دیکھو، ایک جھنڈا ہاتھ میں اٹھایا اور ناک کی سیدھ میں نکل گئے۔میں تو کہتا ہوں تم اپنا وقت خواہ مخواہ برباد کر رہے ہو۔ ارے میاں ملک کا کاروبار ایسے ہی چلتا ہے۔ تمہارے جیسے ہزاروں آدمی اپنی جان بھی دے دیں تو کچھ نہیں ہو گا۔ دیش کی بھلائی دوسرے لوگ کر لیں گے۔ تم اپنا گھر دیکھو۔۔۔ یہ سب چکر بہت برا ہے۔۔۔ اور ہاں ، وہ کیا شروع کر دیا ہے تم نے۔۔۔ زمین، فصل، کسان، مزدور ، مالک۔۔۔ چھی چھی چھی۔۔۔ اتنے بڑے جنیئس ہو کر جنگلوں میں مارے مارے پھر تے ہو۔۔۔ گنواروں کے ساتھ رہتے ہو۔۔۔ تمہارا فن تباہ ہو جائے گا، تمہاری شاعری دم توڑ دے گی۔ خیر چھوڑو۔۔۔ سناؤ آج کوئی پھڑکتی ہوئی چیز۔۔۔ مگر ٹھہرو۔۔۔ بیگم (زور سے پکارنے کا انداز) ذرا چائے کی دو گرم گرم پیالیاں بھیجئے۔ (پھر وہ خادم کی طرف مخاطب ہوتا ہے اور بغیر کسی وقفہ کے بولتا ہے) تو سناؤ بھائی کوئی گرما گرم نظم۔۔۔ سناؤ۔۔۔ ذہن میں دھما کہ ہو جائے۔۔۔
خادم:(جواب تک نہایت پرسکون اور پر وقار انداز میں صبر و تحمل کے ساتھ رحمت اللہ کی باتیں سن رہا تھا، پوچھتا ہے) رحمت اللہ صاحب، پہلے یہ بتائیے کہ آپ کا کاروبار، یعنی بارود کا کارخانہ کیسا چل رہا ہے؟
رحمت اللہ:(تقریباً سر پیٹنے کے انداز میں) ارے میاں ، تم نے تو میرے ذہن کا دھواں اڑا دیا۔ میں تمہاری نظم سننے کو بے تاب ہوں ، اور تم۔۔۔ یہ خرافات لے کر بیٹھ گئے۔۔۔ چل رہا ہے۔۔۔ کارخانہ مزے میں چل رہا ہے۔
خادم:مجھے کچھ سامان چاہئے۔۔۔ اور پیسے۔۔۔ پیسے بعد میں دے دیئے جائیں گے۔
رحمت اللہ:(وہ اچانک بے چین سا ہو جاتا ہے اور اسی عالم میں کرسی سے اٹھ کھڑا ہوتا ہے) یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ توبالکل غیر قانونی ہے illegal - Absolutely illegal۔
خادم:(صوفے سے اٹھتے ہوئے) وہ تومیں بھی جانتا ہوں۔۔۔ لیکن کوئی چیز ہماری تقدیر بن جائے تو جھیلنا پڑتا ہے۔۔۔ رحمت اللہ صاحب، جھیلنا پڑتا ہے۔۔۔ کم از کم آپ تو واقف ہیں کہ illegal کو Legal کیسے بنایا جاتا ہے۔
رحمت اللہ:وہ۔۔۔ وہ ٹھیک ہے۔۔۔ مگر تم بہت تھکے ہوئے ہو۔۔۔ تم آرام کرو۔۔۔ ممکن ہے تمہاری طبیعت زیادہ خراب ہو جائے۔ تمہیں مکمل آرام کی ضرورت ہے۔ شہر کی محفلوں اور گھرکے عیش و آرام کو چھوڑ کر جنگلوں میں مارے مارے پھر تے ہو۔ ویرانوں سے جی نہیں گھبراتا۔۔۔؟
خادم:بالکل نہیں۔
رحمت اللہ:حیرت ہے۔
خادم:میں کبھی تنہا نہیں رہتا۔ میری محبوبہ ہمیشہ میرے ساتھ رہتی ہے۔
رحمت اللہ:محبوبہ؟
خادم:ہاں ، میری محبوبہ۔ وہ ہر وقت میرے ساتھ رہتی ہے۔میں نے اس سے بے پناہ عشق کیا ہے۔ دنیا کی تمام مسرتیں اس کا پرتو ہیں۔ میری بیوی، میرا پپو، یہ شہر، چاند کی کرنیں ، سورج کی شعاعیں ، آپ۔۔۔ اور ہم۔۔۔ اور سب کچھ۔۔۔ آنے والی صبح کا دامن اس نے اپنی انگشت حنائی میں تھام رکھا ہے۔ رات کے پیالے میں سیاہی کی تھوڑی سی تلچھٹ اور رہ گئی ہے۔ کوئی متوالا اسے پی جائے۔۔۔ تو پھر دیکھئے گا وہی انگشت حنائی صبح کے دامن کو کس طرح لہراتی ہے۔۔۔ اجالوں کی خاطر ہم تو چنبیلی کے منڈوے تلے بھی جلتے رہے۔
رحمت اللہ:تمہاری باتیں مجھے سمجھ میں نہیں آتیں۔۔۔
خادم:اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ شام کو ہمارے ساتھی آئیں گے ، سامان تیار رہنا چاہئے۔
رحمت اللہ:نہیں ، نہیں۔
خادم:ہاں ، کہئے رحمت اللہ صاحب، ہاں۔ میں بہت تھک گیا ہوں۔۔۔ بہت زیادہ۔۔۔
(یہ کہتے ہوئے خادم وہاں سے باہر نکل آتا ہے۔ رحمت اللہ اس کے پیچھے پیچھے جاتا ہے اور پھر واپس مڑتا ہے۔ اب وہ مرے ہوئے قدموں کے ساتھ کمرے کی دوسری جانب جانے لگتا ہے۔ تاریکی اس کے قدموں سے لپٹ کرچل رہی ہے ، اور جیسے ہی وہ کمرے سے باہر ہوتا ہے۔ اسٹیج پر پھیلی روشنی پورے طورپر ختم ہو جاتی ہے۔ اس درمیان پردے اور روشنی کے ذریعہ اسٹیج تبدیل کیا جا چکا ہے۔ اسٹیج روشن ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا کمرہ ہے جسے دیکھتے ہی ایک نرسنگ ہوم کا تصور سامنے آ جاتا ہے۔ سارا انتظام وہی ہے۔ صرف صوفہ بدل کر کرسیاں ڈال دی گئی ہے۔سامنے کراس کا نشان لٹکا ہوا ہے۔ بستر پر ایک مریض اس طرح نیم بے ہوشی کے عالم میں لیٹا ہوا ہے کہ ناظرین اسے دیکھتے ہی پہچان لیتے ہیں۔ یہ خادم ہے۔ پاس ہی ایک نرس بیٹھی ہوئی ہے کہ اس دوران ڈاکٹر کمرے داخل ہوتا ہے جسے دیکھ کر نرس کھڑی ہو جاتی ہے۔۔۔)
نرس:ڈاکٹر ، یہ بہت زیادہ بکنے لگا ہے۔
ڈاکٹر :ٹھیک ہو جائے گا۔ تم نے انجکشن لگا دیا تھا۔
نرس:یس ، ڈاکٹر۔
خادم:(ہذیان بکتا ہوا)۔۔۔ میں بہت تھک گیا ہوں ، پپو، ارے او پپو۔۔۔ اچھی اچھی کتابیں پڑھا کرو بیٹے۔ تمہاری امی بہت اچھی ہے۔ ڈاکٹر۔۔۔ پپو۔۔۔ بھوک کا نشہ بہت خراب ہوتا ہے ، جس کو یہ نشہ چڑھتا ہے وہ کچھ نہیں دیکھتا۔ ٹکرا جاتا ہے۔۔۔ چور ہو جاتا ہے۔ اس کی زنبیل میں کیمیائے محبت کا کوئی نسخہ نہیں۔ تمہاری امی کتنی اچھی ہے۔ شیشے کا بدن چور۔۔۔ چور۔۔۔ ایک دم چور۔۔۔
ڈاکٹر :سسٹر، تم اسے پہچانتی ہو؟
نرس:نو سر، میں نہیں جانتی۔
ڈاکٹر :یہ بہت بڑا شاعر ہے۔ کالج میں یہ میرا ساتھی تھا، تم نے خادم کا نام سنا ہے؟
نرس:اوہ، یس ڈاکٹر۔
خادم:(ہذیان) قیوم خان۔۔۔ طاہرہ کو دیکھتے رہو۔ پہلی بار جب بھوک لگی تو اس نے پہلی روٹی کھلائی۔ پپو کا دودھ کیا ہوا۔۔۔ دھرتی کا خون ، وہ دودھ پلائے گی۔۔۔ میری دھرتی۔۔۔
نرس:ڈاکٹر۔۔۔ If you suggest ایک انجکشن اور دے دوں؟
ڈاکٹر :ہاں ، ایک اور۔۔۔ بہت کمزور ہو گیا ہے۔
نرس:اوکے سر۔
(وہ خادم کو ایک انجکشن دیتی ہے۔ خادم کی ہذیانی کیفیت اور بڑھ گئی ہے۔ ڈاکٹر اس دوران کمرے سے باہر نکل جاتا ہے۔۔۔)
خادم:رحمت اللہ صاحب(چیخ کر)۔۔۔ آپ نے بہت مایوس کیا۔ خیر آپ سلامت رہیں۔ قیوم خان۔۔۔ تم روتے کیوں ہو؟۔۔۔ کیا سوچتے ہو۔۔۔ سب مر جائیں گے۔۔۔؟نہیں۔۔۔ نہیں (چیخ کر)میں بھی نہیں مروں گا۔۔۔ کل رات بہت برا ہوا۔ کس نے گولی چلائی تھی؟خون سب کا ایک ہے۔۔۔ قیوم خان، سب کا خون ایک ہے۔۔۔ پپو، یہ کیا کر دیا تم نے۔۔۔ کھیل کود میں اپنے ہاتھ گندے کر لیتے ہو۔ اسی ہاتھ سے نقشے کو پلٹتے ہو۔۔۔ کتنا گندہ ہو رہا ہے تمہارا اٹلس۔۔۔ ایسا کھیل مت کھیلو۔۔۔ ڈاکٹر۔۔۔ قیوم خان۔۔۔
(تھوڑی دیر تک اسٹیج پر سناٹا رہتا ہے۔ نرس بہت یکسوئی کے ساتھ خادم کو دیکھ رہی ہے۔ روشنی کی گردش سے وقت گزرنے کا احساس ہوتا ہے۔۔۔ خادم دھیرے دھیرے اپنی آنکھیں کھولتا ہے۔ ادھر ادھر دیکھتا ہے۔۔۔ گویا ایک اجنبی ماحول میں اپنے آپ کو دیکھ کر حیران ہو رہا ہو۔ نرس کے چہرے پر شگفتگی اور اطمینان کی لہریں پیدا ہوتی ہیں۔۔۔)
نرس:اب آپ کی طبیعت کیسی ہے؟
خادم:اوہ۔۔۔ تو یہ کوئی نرسنگ ہوم ہے؟
(آواز میں نقاہت موجود ہے۔)
نرس:جی، آپ کی طبیعت خراب ہو گئی تھی۔ ایک صاحب آپ کو بے ہوشی کے عالم میں یہاں لائے تھے۔ لیکن اب آپ بالکل اچھے ہیں۔ کہئے آپ کو کیسا محسوس ہو رہا ہے؟
خادم:میرا ساتھی واپس چلا گیا تھا؟
نرس:جی ہاں ، وہ اس وقت واپس چلے گئے تھے۔ ڈاکٹر زیدی نے آپ کا علاج بہت توجہ سے کیا ہے۔ کالج میں وہ آپ کے ساتھی رہ چکے ہیں۔
خادم:کون زیدی؟
(نقاہت بدستور موجود ہے۔)
ڈاکٹر :(کمرے میں داخل ہوتا ہوا) جناب، اس خاکسار کا نام زیدی ہے۔
خادم:اوہ۔۔۔ تم۔۔۔ تم۔۔۔ (سوچنے کا انداز)۔۔۔ اچھا اچھا(ہنستے ہوئے) ارے تم ڈاکٹر ہو گئے۔ واہ، بہت اچھے۔۔۔ کیوں کیسے ہو؟
ڈاکٹر :تم کہو، تمہاری طبیعت کیسی ہے؟
خادم:زیدی، پرانے رشتوں کے معاملات بڑے حسین ہوتے ہیں۔ جتنی بلند عمارت بنانا چا ہو گے ، بنیاد اتنی ہی مضبوط دینی ہو گی۔ یہ بہت اچھا ہوا کہ میں تمہارے ہاتھ آ گیا۔۔۔ ورنہ دوسرے لوگ، پتہ نہیں میرا کیا استعمال کرتے۔
ڈاکٹر :ہاں خادم۔۔۔ اور جب کبھی ان رشتوں کے درمیان شگاف پڑ جاتا ہے تو اس زمین کے سینے پر کیسے خطرناک سمندر جاگ پڑتے ہیں۔ گلی گلی میں آگ کا دریابہتا ہے۔ اپنے ہی آئینے میں اپنی صورت نظر نہیں آتی۔ کیسا دھند چھا جاتا ہے۔
خادم:(آواز میں قدرے بشاشت پیدا ہو گئی ہے) ٹھیک کہتے ہو، لیکن ہماری نگاہیں دھوکا نہیں کھا سکتیں۔ تم تو جانتے ہو، یہ دونوں رشتے ایک ڈور سے بندھے ہوتے ہیں۔ ہم اگر اس کے درمیانی حصہ پر کبھی اپنی گرفت مضبوط کر دیتے ہیں تو ہمارا مقصد ان کی طاقت آزمائی نہیں ہوتا۔ ہم تو ان کے آپسی توازن اور اعتماد کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ کوئی ایسا سمجھ لے کہ ان سے طوفانی ندیاں سر اٹھاتی ہیں۔ ہم کیا کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر :خادم، تم کو یہاں آئے ہوئے ۴۸گھنٹے ہو چکے ہیں۔ تمہیں معلوم کہ اس عرصہ میں رشتوں کی آپسی ڈور درمیان سے غائب ہو چکی ہے۔
خادم:(لہجہ تیز ہو جاتا ہے) کیا کہہ رہے ہو؟
ڈاکٹر :پچھلی رات، لہلہاتی ہوئی فصلوں کے بیچ سے آگ کا ایک دریا ابل پڑا۔ آج کا اخبار دیکھ لو۔
خادم:یہ نہیں ہو سکتا۔۔۔ یہ نہیں ہو سکتا۔(لہجہ تیز ہو جاتا ہے)بہت برا ہوا۔۔۔ یہ تو بہت برا ہوا۔۔۔ میں ابھی جاؤں گا۔۔۔ ڈاکٹر میں ابھی جاؤں گا۔۔۔
(بستر سے اٹھتے ہوئے۔)
ڈاکٹر :(گھبراہٹ کے ساتھ) نہیں خادم۔۔۔ تم بہت کمزور ہو۔۔۔ تم نہیں جا سکتے۔
خادم:(لہجہ میں تیزی، لیکن ٹھہراؤ بھی موجود ہے) ڈاکٹر ! تم میری جان لے سکتے ہو، لیکن مجھے جانے سے نہیں روک سکتے۔۔۔ میں جا رہا ہوں۔
ڈاکٹر :خادم۔۔۔ اپنے آپ پر اتنا ظلم مت کرو۔۔۔
خادم:تمہارا شکریہ ڈاکٹر۔۔۔ تمہارے علاج کا شکریہ۔۔۔ بہت بہت شکریہ۔۔۔
(یہ کہتا ہوا خادم اسٹیج سے چلا جاتا ہے۔ نرس اور ڈاکٹر دم بخود ایک دوسرے کو دیکھنے رہتے ہیں الوداعی موسیقی کے ساتھ دھیرے دھیرے اسٹیج پر اندھیرا چھا جاتا ہے ، اور جب روشنی ہوتی ہے تو اسٹیج رہائشی کمرے جیسا ہو جاتا ہے۔ ایک صوفہ پر طاہرہ بیٹھی ہوئی ہے اور پپو اسٹیج کے دوسرے سرے پر اپنی کتابیں الٹ پلٹ کر رہا ہے۔ یہاں صرف اتنی تبدیلی کرنی ہے کہ کراس کا نشان اور بیڈ ہٹا دینا ہے۔ میز پر دواؤں کے بدلے کتابیں نظر آ رہی ہیں جہاں پپو کھڑا ہے ، ایک صوفہ خالی ہے۔ اگر روشنی اور آواز کی بنیاد پر بدلتے موسموں کا منظر پیش کرنا ممکن ہو تو اور بھی بہتر ہے۔ گرمی، برسات اور جاڑے کے دن آتے ہیں اور جاتے ہیں۔ اسٹیج پر اندھیرا اور کبھی اجالا ہوتا رہتا ہے۔ہر بدلے ہوئے منظر کے ساتھ طاہرہ اور پپو کی مصروفیات بھی بدلی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ مقصد اس کا صرف یہ ہے کہ خادم موسموں کی گرانی سے بے نیاز گھر سے دور اپنے آئیڈیل کی جنگ میں کہیں مصروف ہے۔ پھر وہ منظر دکھائی دیتا ہے۔ جہاں طاہرہ ایک صوفے پر بیٹھی نٹنگ میں لگی ہے اور پپو اپنی کتابوں کو الٹ پلٹ کر رہا ہے۔ اس دوران دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ پپو دروازے کی طرف لپکتا ہے۔ دوسرے ہی لمحہ وہ چیخنے کے انداز میں پکارتا ہے۔۔۔)
پپو:ممی۔۔۔ ممی۔۔۔
(طاہرہ گھبرا کر صوفے سے اٹھتی ہے اسی دوران خادم سامنے آتا ہے۔ ایک طرف قیوم خان اور دوسری طرف پپو نے سہارا دے رکھا ہے۔ وہ بیمار سا نظر آتا ہے لیکن اس کا سبب کوئی مرض نہیں ، حد درجہ تھکا دینے والی جدوجہد نے اسے جسمانی طور پر چور چور کر دیا ہے۔۔۔)
طاہرہ:میرے اللہ یہ سب کیا ہو گیا؟
(یہ کہتے ہوئے وہ بھی خادم کی طرف لپکتی ہے اور پپو کو ہٹا کر سہارا دیتے ہوئے صوفے کی طرف لاتی ہے۔)
خادم:پپو۔۔۔
(آواز میں بھاری پن اور لہجہ کا وقار موجود ہے۔)
پپو:ہاں ، ڈیڈی۔۔۔
خادم:طاہرہ۔۔۔
طاہرہ:یہ تم نے کیا کر لیا۔۔۔؟
خادم:میں۔۔۔ مجھے۔۔۔
(بہت دقتوں کے بعد ان الفاظ کی ادائیگی ہو رہی ہے۔ طاہرہ اور قیوم خان اسے بہت احتیاط سے صوفے پر بیٹھاتے ہیں۔ خادم نڈھال سا نیم بے ہوشی کی کیفیت میں گرفتار ہے۔ طاہرہ اس کے قدموں میں بیٹھ جاتی ہے۔ پپو اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھے کھڑا ہے۔ قیوم خان کی فکر مندی بھی دیکھنے کے لائق ہے۔۔۔)
خادم:طاہرہ۔۔۔
(طاہرہ جواب میں اپنے چہرے کے اتار چڑھاؤ سے جاننا چاہتی ہے کہ خادم کیا چاہتا ہے۔ کسی متوقع المیہ کے خوف نے اسے غمزدہ بنا دیا ہے۔۔۔)
خادم:میرے پاؤں کانپ رہے ہیں۔
(طاہرہ اس کے جوتے کھولتی ہے اور صوفے کے پیچھے ڈال دیتی ہے۔)
قیوم خان:بھابی، میں ڈاکٹر کولے کر آتا ہوں۔۔۔
(طاہرہ اثبات میں سر ہلاتی ہے ، لیکن خاموش ہے۔ قیوم خان کی یہ آواز گویا خادم نے سنی نہیں۔ قیوم خان باہر چلا جاتا ہے۔)
خادم:پپو کے پاس ہندوستان کا نقشہ ہے نا۔۔۔؟اسے لے آؤ، میری آنکھوں کے سامنے (یہ تمام مکالمے گویا کوئی آدمی اپنی زندگی کے آخری لمحوں میں ادا کر رہا ہو) بندوق کی گولیاں۔۔۔ طاہرہ۔۔۔ بڑی دشمن ہیں۔۔۔ تمہارا خط مل گیا تھا۔۔۔ پپو نقشہ۔۔۔ گندا مت کرو بیٹے۔۔۔ کتنا بھدا ہو گیا ہے۔۔۔ طاہرہ۔۔۔ دروازہ کھول دو۔(طاہرہ اور پپو کی سسکیاں سنائی دے رہی ہیں)۔۔۔ پپو۔۔۔ روشنی۔۔۔ روشنی۔۔۔
(خادم کی آنکھیں پتھرا جاتی ہیں۔ اس کی گردن صوفے پر ایک طرف لڑھک جاتی ہے۔ پپو، خادم کے کاندھے پرسر رکھے رو رہا ہے اور طاہرہ اس کے گھٹنے پر سرکو ٹیکے ہوئے ہے۔ غم و اندوہ سے بھرپور موسیقی ابھرتی ہے۔ دھیرے دھیرے اسٹیج پر سرخ رنگ کی روشنی پھیلتی ہے اور پورا اسٹیج سرخ ہو جاتا ہے۔ وائلن کی دھن بجتی رہتی ہے۔ پھر ہلکی سی نیلے رنگ کی روشنی کی ایک لکیر پپو کے جسم پر پڑتی ہے اور اسی روشنی کی لکیر کے ساتھ وہ آہستہ آہستہ ماں کی طرف بڑھتا ہے اور اپنے دونوں ہاتھ اس کے سرپر رکھ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔۔۔ اس منظر کے ساتھ پردہ گرتا ہے۔)
***
٭٭٭
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید