02:50    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

فکاہیاتِ سرفراز

1203 1 0 05

سرفراز صدیقی - 2013-اگست-03

مرد ایک صنف عام

کل جب سے ہم نے اپنا کالم “عورت ایک منفرد تخلیق” لکھا ہے اُس وقت سے گویا ہم پر انتہا سے زیادہ دباؤ ہے کہ اب اِسی قسم کی تحریر مردوں پر بھی لکھی جائے۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق اس وقت کمپیوٹر کے آگے بیٹھا مردذات پر طبع آزمائی کرنے جا رہا ہوں۔ اس مذموم جسارت کے لیے ہم اپنے تمام درد شریک بھائیوں سے پیشگی معذرت خواہ ہیں لیکن یہ کالم لکھنا ہمارے لیے گویا مرگ و زیست کا معاملہ ہو چکا ہے۔ اور چونکہ ہماری تحریروں کی پروف ریڈنگ کا کام بیگم نے سنبھالا ہوا ہے اس لیے اگر یہ نہ لکھا تو سمجھ لیں 'جرس' کے دن پورے ہو چکے۔

مرد عورت کی بنسبت ایک بہت ہی عام سی صِنف ہے ۔ تقریباً ہر مرد کی زندگی ایک سی ہی ہوتی ہے۔ اپنے بچپن کے دور میں یہ آپ کو کھیلتے کودتے، اپنے بڑوں سے لاڈ کرواتے اور خاص طور پر ماں سے بے جا ضدّیں پوری کرواتے ملیں گے۔ لڑکپن میں یہ آپ کو پڑھتے یا آوارہ گردی کرتے نظر آئیں گے اور ساتھ ہی بڑوں کی جھڑکیا ں کھاتے ملیں گے اوراِس کے بعد کے دور میں یہ تمام گھروالوں اور اُستادوں کے اثر رسوخ سے کہیں دور نکل کر اپنی نو جوانی کے منہ زور گھوڑے کو دوڑانا شروع کر دیتے ہیں۔ اس دور کو ہم ہنی مون پیریڈ سے تشبیہ دیتے ہیں۔ یہ ہنی مون پیریڈ شادی سے پہلے کا ہوتا ہے جس میں ایک مرد کسی بھی بیرونی اثر اور غم و فکر سے دور اپنی من مانی کر رہا ہوتا ہے اور خوشی سے بغلیں بجا رہا ہوتا ہے۔ لیکن جس طرح کسی بھی ہنی مون کا دورانیہ محض چند روز ہوتا ہے اُس طرح مرد کی زندگی کا یہ دور بھی بس پتنگے کے پروں کی مانند، آزادیِ پرواز کی چندگھڑیوں بعد ہی ختم شد ہو جاتا ہے۔ اور اُس کے بعد ایک مرد پرانے زمانے میں
PTV کی اختتامی نشریات کی طرح قومی ترانہ سننا شروع کردیتا ہے۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ PTV سے نشر کیے جانے والا ترانہ دو منٹ بعد ختم ہوجاتا تھا مگر مرد اپنی تمام عمرایک ہی طرح کا ترانہ دن رات لگاتار سنتا ہے یہاں تک کہ اُس کی زندگی کی تمام نشریات اِختتام پزیر ہوجاتی ہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں ایک آئیڈیل جوڑا وہ ہوتا ہے جس میں بیوی اَندھی اور شوہر بہرا ہو۔

اپنی آزادانہ پرواز والے مختصر دور میں مرد کی صنف آپ کو اپنے اسکول و کالج سے دور لڑکیوں کے اسکولوں اور کالجوں کے ارد گرد بکثرت ٹہلتی دکھائی دے گی۔ لیکن اس کے بعد سن شعور (یا لا شعور) تک پہنچنے پر یہ اپنے صحیح اور واحد منصب پر فائز ہوجاتے ہیں اور اپنی تخلیق کی تکمیل کے لیے شادی خانہ آبادی یعنی افزائش نسل اور پھر تا عمر محنت مزدوری کے ذریعے اپنے اہل خانہ کے واسطے روزی کمانے میں گزار دیتے ہیں۔ مزدوری اور مشقت کے لیے چونکہ جسمانی مضبوطی ضروری ہے اسی لیے خالق نے مرد کو گدھے کی مانند قد کاٹھ اور قویٰ کا مضبوط بنایا ہے ۔ مگر گدھے کے برعکس بچپن سے جوانی تک اس کو برتنے اور مستفید ہونے کے لیے عقل بھی دی ہے جس کا استعمال وہ اپنی اس دور کی متلون مزاجی کے باعث ٹھیک سے کر نہیں پاتا۔ اور جب یہ عقل استعمال کرنے کی عمر کو پہنچتا ہے تورشتہ ازدواج میں منسلک ہوجا تا ہے۔ اور یوں اُس کی استعمال کے لیے تیار عقل پر ایک بڑا سا پتھر پڑ جاتا ہے۔ذہن پر جب ازدواجی دباؤ پڑتا ہے تو نظر میں دھندلاہٹ آجا تی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی آنکھوں پر حماقت کا چشمہ بھی ڈال لیتا ہے۔ اِس کے بعد اس کو لب گور پہنچنے تک کوئی ایک چیز بھی نہ تو ڈھنگ سے سمجھ آتی ہے اور نہ دکھائی نہیں دیتی۔ اپنے آپ کواحمقوں کی جنت کا حاکم تصور کرنے والا یہ مرد درحقیقت محکومیت کے سب سے نچلے درجے میں اپنی تمام عمر گزار دیتا ہے اور جاہل کو کچھ پتا بھی نہیں چلتا۔ زندگی کےآوائل میں ماں کے آگے اور بعد ازاں بیوی کے آگے اور بعض مسکین تو دونوں کے آگے سربسجود رہتے ہیں۔ شادی کے بعد ان کی تمام عمر ایک سراب کی سی ہوتی ہے جس میں جھوٹ، منافقت، خوشامد اور چاپلوسی کا عنصر جا بجا پایا جاتا ہے۔

ہمارے نزدیک تمام مرد شجاعت کا پیکر ہوتے ہیں ۔ اِس بات کا اِس سے بڑا ثبوت کیا ہو گا کہ ایک مرتبہ چوٹ کھانے کےبعد تمام مرد تا عمر دوبارہ وہی کام کرنے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں۔ اکثر خوش نصیب اپنی اس جستجو میں ناکام ہوتے ہیں مگر بعض لوگوں پر بد نصیبی کے بادل کچھ اتنے گہرے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے ارادے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ خیر پرانے دور کی بات اور وجوہات کچھ اورتھیں مگر آج کے اِس پر آشوب دور میں جو لوگ کسی خاص وجہ سے ایک سے زیادہ شادیاں کرتے ہیں اُن کو دیکھ کر ہمیں در حقیقت رشک آتا ہے۔ یہ رشک اِس لیے نہیں کے اُن کے پاس بیوی ایک سے زائد ہوتی ہے بلکہ رشک اس لیےآتا ہے کہ اِن مردوں میں عقل نام کی چیز سرے سے موجود ہی نہیں ہوتی اور یہ تو سب جانتے ہیں کہ جس میں عقل نہ ہو وہ انسان سوچتا بھی نہیں ہے اور جو شخص سوچتا نہیں ہے وہ کسی بات سے پریشان بھی نہیں ہوتا اور یوں اُس کی زندگی بغیر کسی غم و فکر کے اپنے منطقی انجام کو پہنچ جاتی ہے۔

اس وقت باہر اَبر رحمت برس رہا ہے اور تمام عالم جل تھل ہو رہا ہے مگر ہم اپنی بیگم کی خواہش کے احترام میں یہ کالم لکھ رہے ہیں۔ اس بات پر ایک لطیفہ یاد آیا کہ روز حشر عرش پر مردوں کے لیے دو کاؤنٹرز بنے ہوئے تھے۔ ایک پر جلی حروف میں لکھا تھا: اُن شوہروں کے لیے جن پر اُن کی بیویاں حکومت کرتی رہیں۔ دوسرے پر لکھا تھا: اٰن شوہروں کے لیے جو اپنی بیگمات پر حکمرانی کرتے رہے۔ پہلی قطار میں تا حد نگا ہ لوگ ہی لوگ نظر آرہے تھے مگر دوسرے کاؤنٹر پر صرف ایک حمید صاحب ہی کھڑے تھے۔ فرشتے نے جب کھاتا کھولا تو حمید صاحب کا نام بھی اُن لوگوں میں شامل تھا جن پر تمام عمر اُن کی بیویاں حکومت کرتی رہیں تھیں۔ اس لیے فرشتے نے حمید صاحب کے پاس جا کر پوچھا: حمید صاحب آپ اس لائن میں کیوں کھڑے ہیں آپ کو تو دوسری قطار میں ہونا چاہیے تھا؟ حمید صاحب گویا ہوئے: مجھے معلوم ہے مگر بیگم نے یہیں کھڑا ہونے کے لیے کہا تھا!!

کہا جاتا ہے کہ مرد فطری طور پر ہر جائی ہوتا ہے۔ کسی ایک عورت پر اکتفا نہیں کرتا۔ بچے اپنے اور بیوی کسی اور کی پسند کرتا ہے۔ خیر یہ الزام تو بہت زمانے سے اِس پر لگایا جاتا ہے مگر “جو لوگ” بھی مرد کو مُوردِ اِلزام ٹھہراتے ہیں اُن سے ہمارا سوال صرف اتنا ہے کہ اس میں مرد کا آخر کیا قصور ہے؟ (یہ سوال ہم نے بیگم کی پروف ریڈنگ کے بعد ڈالا ہے)۔ اب اس سوال کے جواب میں آپ اپنے دلائل کمنٹس کے ذریعے دیں۔

ہمیں معلوم ہے کہ ہم بیگم کی خواہش کی تکمیل میں حسب معمول ناکام ہو چکے ہیں۔ بہتر ہوتا کہ یہ سب لکھنے کے بجائے اگر ہم یوں لکھتے : مرد ایک انتہائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شخص ہوتا ہے۔ اور ڈیش کی جگہ دو چار صفحات پر اُس کی شان میں وہ القابات لکھتے جو بیگم سننا پسند کرتی ہیں۔ مگر ہم کیا کریں ہم بھی آخر وہی ہیں جو سرورق کی تصویر میں ہیں!

5.0 "1"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔