02:56    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

ہمارے مسائل

1438 2 0 03

سرفراز صدیقی - 2013-اگست-23

چائلڈ لیبر

یہ تحریر ہم مسعو د احمد قریشی صاحب کے نام کر رہے ہیں جنہوں نے خاص طور پر ہمیں اس مسئلہ کی جانب لکھنے کی تلقین کی ہے۔

چائلڈ لیبر ہمارے مُلک کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے بلکہ یوں کہنا بہتر ہوگا کہ ایک بڑا اَلمیہ ہے! وہ معصوم بچےّ جنہیں اپنی کم عمری کے باعث اپنے ماں باپ کی محبت اور شفقت کے سائے میں رہ کر تعلیم و تربیت حاصل کرنی چاہیے اور ساتھ ہی کھیل کود کر پروان چڑھنا چاہیے وہ بچےّ کسی سماجی، نفسیاتی یا معاشی پریشانی یا دباؤ کی وجہ سے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ننھی عمر سے ہی محنت مشقت شروع کر دیتے ہیں۔ یہ مسئلہ دنیا کے غریب ممالک یعنی لاطینی امریکہ، افریقہ اور جنوبی ایشیاء کے ممالک میں کافی عام ہے۔ پاکستان میں بھی 5 سے 14 سال کی عمر تک کے 40 لاکھ سے بھی زیادہ بچےّ روزانہ روزگار کے لیے محنت مزدوری کرتے ہیں۔ ان میں سے ٪70 سے زیادہ لڑکے ہوتے ہیں اور وہ زیادہ تر زراعت کے پیشہ سے وابستہ ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بچے آپ کو شہروں میں بھی تقریباً ہر جگہ ہی کام کرتے دکھائی دیں گے۔ یہ ایک چھوٹی دکان اور ورک شاپ سے لے کر بڑی بڑی فیکٹریوں اور مِلوں میں بھی کام کرتے ملیں گے۔ ان میں زیادہ تر وہ بد قسمت بچے ہیں جو غربت کے باعث اپنا اور اپنے گھر والوں کے جسم و جاں کا رشتہ جوڑے رکھنے کے لیے ہر دن محنت مزدوری کرتے ہیں ۔ چھوٹی چھوٹی معصوم بچیاں بھی دن رات محنت کرتی ہیں۔ اور پھر ان ہی بچوں سے گداگری کا قبیح فعل بھی مجبوراًکروایا جاتا ہے۔

اِن معصوموں کو دیکھ کر انسان یہ سوچتا ہے کہ ہمارا معاشرہ کس قدر بے حس اور بے رحم ہے کہ ہم بچوں کی معصومیت محض چند روپوں کے عوض خرید لیتے ہیں؟ کسی کی مجبوری کا فائدہ کس طرح اُٹھایا جاتا ہے یہ کام کسی کو سیکھنا ہے تو ہماری قوم سے سیکھے کہ جس نے اس کام میں ید طولٰی حاصل کرلیا ہے۔ ان ننھے ہاتھوں میں کھلونوں کی جگہ اوزار دیکھ کر اور ان کی ہتھیلیوں پر پھولوں کی نرمی کی جگہ پتھریلی سختی دیکھ کر معلوم نہیں کسی کا دل پسیجتا بھی ہے کہ نہیں؟ کیا کبھی کسی کو اپنے بچے دیکھ کر یہ بد قسمت بچے بھی یاد آتے ہیں کہ نہیں؟

بعض لوگ آبادی میں بے پناہ اضافے کو اس کی ایک وجہ گردانتے ہیں جو دنیوی نقطہ نظر سے ٹھیک ہے مگر اسلام کی عینک لگاتے ہی یہ بات غلط ثابت ہوتی ہے۔ جس جان کو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں لانے کا فیصلہ کر لیا ہو اُسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی اور جو جان اس دنیا میں ایک مرتبہ آ جائے اُس کا رزق اُس کو موت تک خود اللہ کے ذمہ ہے۔ اس برائی کی اور بھی وجوہات ہیں مگر بنیادی طور پر ہمارے معاشرے میں افلاس کی بڑھتی ہوئی شرح اور ہوس زر کے باہمی اشتراک کی بدولت یہ یہاں دن بدن فروغ پاتی جا رہی ہے۔ عمومی طور پر اِن غریب و بیکس بچوں کی اُجرت شرمناک حد تک کم ہوتی ہے لیکن نا تربیت یافتہ اور اناڑی بچوں کی اکثریت تو محض بیس تیس روپے یومیہ پر کام کرتی ہے کہ جس رقم سے آج کے دور میں چار روٹی بھی خریدی نہیں جا سکتی! ظاہر ہے اس قدر کم خرچ لیبر کی وجہ سےکسی بھی کاروبار میں لاگت کافی کم آتی ہے جس سےآجر کو نفع زیادہ ہوتاہے ۔ لیکن ہمارے یہاں ان بچوں کا استحصال یہیں پر ختم نہیں ہوتا بلکہ اس قدر کم اُجرت دینے کے بعدان معصوم بچوں سے 12 گھنٹے کام لیا جاتا ہے اور پھر اُن کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا ہے وہ انسان شاید کسی جانور کے ساتھ بھی نہیں رکھتا۔ اِن بیچاروں کو کام سکھانے کے نام پر بے دریغ مارا پیٹا جاتا ہے، گالیاں دی جاتی ہیں، غیر انسانی سزائیں دی جاتی ہیں اور سب سے بڑھ کر ان کو جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نے ہمارے معاشرے میں غریب کو غریب تر اور امیر کو بے اِنتہا امیر کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہوس زر اور ناجائز خواہشات کا غلام انسان، اپنے اعلٰی مقام یعنی اللہ کی عطا کردہ خلافت کی مسند سے گر کر پاتال کی گہرائیوں میں پہنچ گیا ہے۔ اس بدبخت انسان کی بد نصیبی تو دیکھیے کہ اس کو اتنی پستی میں گرنے کے باوجود چوٹ آتی ہے اور نہ عقل۔ اُس کو معلوم ہی نہیں ہوتا کے اُس نے کیا مقام کھو کر کیا مقام پایا ہے؟ بنی نوع انسان کا ایک بنیادی المیہ یہ ہے کہ وہ کسی بھی نادیدہ ہستی یا آنے والے برے وقت سے صحیح معنوں میں نہیں ڈرتا۔ اللہ سے نہیں ڈرتا تو نا سہی (وہ روز قیامت اپنا معاملہ خود دیکھ لے گا) مگر ہمارے یہاں تو دنیوی قانون سے بھی کوئی نہیں ڈرتا کیوں کہ دراصل وہ بھی ایک نادیدہ شئے ہی ہے۔ لیکن کاش اس انسان کو ظلم کرتے وقت صرف اتنی سی بات یاد آجائے کے مظلوم کی آہ عرش تک کو ہلانے کی طاقت رکھتی ہے۔ اگر کہیں اُس رب ذوالجلال کو جلا ل آگیا تو سب کچھ آن واحد میں ختم ہو سکتا ہے۔ اور ظالم کی آنکھیں توبہ کے دروازہ سے پہلے بھی بند ہو سکتی ہیں۔

ہماری ناقص رائے میں اس معاملے کے حل کے لیے ہماری حکومت اور عوام دونوں کو مل کر کام کرنا ہوگا:
• حکومت ان غریب بچوں کے والدین کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے ہوں گے تا کہ وہ اپنے ننھے ننھے جِگر گوشوں کو روپے کمانے کے لیے بھیڑیوں کے پاس مت بھیجیں۔
• حکومت کو اِن والدین میں بچوں کی تعلیم کی اہمیت اُجاگر کرنی ہوگی۔
• دیہی علاقے کے وڈیرے، سردار یا جاگیردار کی اس سلسلے میں حمایت حاصل کی جائے۔
• یتیم بچوں کی پرورش کے لیے یتیم خانے بنائے جائیں جہاں ان کی کفالت اور تعلیم کا احسن انتظام ہو۔
• تمام نادار بچوں کے لیے مفت تعلیم کا انتظام کیا جائے۔
• جو لوگ اس بات پر عمل نہ کریں اُنہیں قرار واقعی سزا دی جائے۔
• جب تک اوپر دیے ہوئے کام نہیں ہوتے حکومت اُن آجروں کو جو اِن بچوں سے کام لیتے ہیں اس بات کا پابند بنائیں کہ وہ ان بچوں کو پورا پورا معاوضہ دیں۔
• ہمیں ان آجروں کو مجبور کرنا ہوگا کہ وہ بچوں سے نرمی اور شفقت کا برتاؤ کریں۔
• ہم ان مالکان کو مجبور کریں کہ وہ بچوں کو کام سے فارغ وقت میں آرام اور پڑھنے کے مواقع دیں۔
• ان کی جائز ضروریات کا خیال رکھیں
• اپنی ناجائز خواہشات پر کنٹرول کریں یعنی اللہ اور اس کے غضب سے ڈریں!
• باقی عوام کو ان لوگوں میں شعور پیدا کرنا ہوگا جو اس غلط کام میں ملوث ہیں۔
• اور عوام جہاں تک ممکن ہو سکے ان مظلوم بچوں کی اس طرح مدد کریں کے اُن کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔

ہمارے خیال میں جب تک اس ملک میں لوٹ کھسوٹ بند نہیں ہوگی ، دولت کی تقسیم ٹھیک طرح سے نہیں ہوگی، حکمران اور عوام ٹھیک نہیں ہوں گے اُس وقت تک اس مسئلہ کا مکمل حل ممکن نہیں۔لیکن ہمیں پھر بھی ان پھولوں کو ہر صورت مُرجھانے سے بچانا ہے۔ اس لیے ہمیں اپنا مثبت کردار ادا کرتے رہنا ہے۔

ہماری دُعا ہے کہ اللہ ہماری حالت پر رحم کرے اور لوگوں کو سیدھا راستہ دکھائے ۔ آمین!

3.0 "1"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔