04:16    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

حکایات سرفراز

1023 1 0 04

سرفراز صدیقی - 2014-جنوری-1

تین بھائی

کسی گاؤں میں تین بھائی رہا کرتے تھے۔ تینوں پیشہ کے اعتبار سے جولاہے تھے۔ والدین کا انتقال بچپن میں ہی ہوگیا تھا۔ بڑے بھائی اور اُس کی بیوی نے والدین کی جگہ دونوں چھوٹوں کو بڑی محبت اور شفقت سے پالا تھا۔ بڑی بھابھی اللہ میاں کی گائےکی بچھیا تھی۔ ہر وقت گھر گھرستی، شوہر اور دیوروں کی دیکھ بھال میں لگی رہتی ۔ بڑا اور منجھلا بھائی بہت تجربہ کار اور محنتی تھے۔ دونوں شب و روز محنت کرتے، جو کماتے اُس سے اپنی گزر اوقات کرتے اور سکون کی زندگی گزارتے۔ اِن میں سے چھوٹا سب سے تیز تھا اور قریبی شہر کے کالج میں پڑھائی کر رہا تھا۔ تینوں بھائیوں میں وہ محبت اور اتفاق تھا کہ گاؤں کے لوگ مثالیں دیا کرتے تھے۔

ایک دن چھوٹا بھائی شہر سے آیا اور اپنے بھائیوں سے کہنے لگا: بھائیو: آخر ہم کب تک یونہی روکھی سوکھی کھا کر گزارا کرتے رہیں گے؟ گاؤں کے کتنے ہی لوگ شہر جا کر مختلف کاروبار کر کے کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں مگر ہم برسوں کی محنت کے بعد آج بھی وہیں کے وہیں کھڑے ہیں ۔ بڑا بھائی بولا: تو کیا مسئلہ ہے؟ زندگی تو الحمدُ للہ سکون اور عزت سے گزر رہی ہے۔ منجھلا بھائی بولا: بڑے بھائی آپ کی بات ٹھیک ہے مگر چھوٹے کی بات بھی سن لینے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ چھوٹا بولا: ہم شہر چل کر ایک چھوٹی سی ٹیکسٹائیل مل لگاتے ہیں اور اپنے پیشہ کی مہارت اور تجربہ کی بنیاد پر اُسے ترقی دیتے ہیں۔ اگر ہم محنت کریں گے تو مجھے یقین ہے کہ ہم بہت کامیاب ہوں گے۔ بڑا بولا: مگر مل لگانے کے لیے سرمایہ کہاں سے آئے گا؟ چھوٹا بولا: حکومت آسان اقساط پر ہنر مندوں کو بذریعہ بینک قرضہ فراہم کر رہی ہے ۔ ہم اپنی زمین گروی رکھ کراس اسکیم سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ کچھ دیر کی بحث کے بعد تینوں مل لگانے پر متفق ہو گئے۔

تینوں شہر آگئے اور انہوں نے بینک سے قرضہ لے کر مل لگائی اور پھر رات دن کام میں جٹ گئے۔ مل نے دن دونی رات چوگنی ترقی کی اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی مل ملک کی بڑی ملوں میں شمار ہونے لگی۔ دولت کی ریل پیل ہو گئی۔ باقی دو بھائیوں کی بھی شادیاں ہوگئیں۔ ایک پرانے مل مالک نے (جس کا کاروبار ان بھائیوں کی وجہ سے خراب ہورہا تھا) کسی طرح اپنی بیٹی کی شادی چھوٹے سے کروا دی اور اپنی بیٹی کو سمجھا دیا کے وہ شادی کے فوراً بعد کاروبار میں سے اپنے شوہر کا حصہ الگ کر وا لے اور اپنی الگ رہائش کر لے ۔ چھوٹے کو بیوی نے پٹی پڑھائی: دیکھو اس کاروبار کی کامیابی میں سارا دماغ تمھارا استعمال ہوا مگر منافع میں حصہ دونوں بڑے بھی برابر لے جاتے ہیں۔ یہ تمہارے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔ تم فوراً اپنا حصہ الگ کر لو۔ چھوٹا آہستہ آہستہ بیوی کی باتوں میں آگیا اورلگا بڑے بھائیوں سےاپنا حصہ مانگنے۔ یہ بات سن کر دونوں بڑے بھائی بہت پریشان ہوئے۔ چھوٹے کو بہت سمجھایا مگراُس کی عقل پر تو جورو نام کا خوبصورت پتھر پڑ چکا تھا وہ کچھ سمجھنے کے لیے تیار ہی نہ تھا۔ بات لڑائی جھگڑے اور کورٹ کچہری تک جا پہنچی۔ عدالت نے فیصلہ دے دیا کہ مل بیچ کر سب کا برابر حصہ دے دیا جائے۔ مل کو بالآخر بیچنا پڑا۔ دونوں بڑے دل برداشتہ ہو کر واپس اپنے آبائی گاؤں چلے گئے اور چھوٹے نے اپنی ایک علیحدہ مل لگالی۔ ذہین تو تھا مگر چونکہ اس کے پاس اپنے بڑے بھائیوں جیسا عملی تجربہ نہ تھا اس وجہ سے مل نقصان میں چلی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے بینک نے مل کی قرقی کر ڈالی۔ سب کچھ لُٹا کر چھوٹا پہنچا اپنے سُسر کے پاس جو ہمیشہ سے ہی ان بھائیوں کی مل بند کروانا چاہتا تھا۔ سُسر نے چھوٹے کوگھر داماد بن کر رہنے کی پیشکش کر دی اور اپنی مل میں ایک مینیجر کی پوزیشن بھی آفر کر دی۔ چھوٹے کی انا کو جو ٹھیس لگی تو پہنچا بیوی کے پاس اور اُس کوٹھیک ٹھاک سنایا۔ پھر اُسے اپنی شفیق بھائیوں کا خیال آیا۔ واپس گاؤں پہنچا۔ سالوں بعد بھائی ملے تو آپس میں خوب گلے شکوے ہوئے، ڈانٹ ڈپٹ اور معافی تلافی ہوئی، اشک بھی بہے ۔ دِلوُں کے میل جو دُھل گئے تو سب نے گلے بھی مل لیے اور دوبارہ ایک ساتھ مل کر ہنسی خوشی رہنا شروع کر دیا۔

سبق:
- اتفاق میں ہمیشہ سے برکت رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی اور اس کے برعکس نا اتفاقی ہمیشہ نقصان کا باعث ہوتی۔
- جو کام کسی بھی لالچ کے بغیر محنت اور ایمانداری سے کیا جائے اُس میں برکت ہوتی ہے۔ برکت کا مطلب روپے پیسے کی ریل پیل نہیں بلکہ انسان کی حلال کی آمدنی میں عزت اور وقار کے ساتھ اُس کی جائز ضروریات کا پورا ہونا ہوتا ہے۔
- علم کی اہمیت اپنی جگہ لیکن زندگی گزارنے کے لیے ہنر اور تجربہ کی حیثیت بھی اپنی جگہ مسلّم ہے۔ کہتے ہیں ہنرمند کبھی بھوکا نہیں مرتا۔
- اپنا آخر اپنا ہوتا ہے۔ اُس کی ہمیشہ قدر کرنی چاہیے، چاہے وہ دھتکار بھی دے تو۔
- انسان کو کسی کے بہکانے میں نہیں آنا چاہیے اور ہر معاملہ میں اپنی عقل ضرور استعمال کرنی چاہیے۔ بعض اوقات کوئی قریبی شخص بھی اپنے ذاتی مفاد کے لیے محبت اوراخوت کے رشتوں میں فساد کا بیج بو دیتا ہے۔
- جب کوئی اپنے کیے پر نادم ہوجائے تو اُسے معاف کر دینا ہی بڑائی ہے۔
- سودی کاروبار کہیں نہ کہیں، کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی شکل میں انسان کو زبردست نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ وہ اُس کو دیکھتے ہوئے بھی سمجھ نہیں پاتا۔
- انسان کو اپنے حال پر شاکر ہونا چاہیے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کے اُسے ترقی نہیں کرنی چاہیے۔ انسان کو معاشی ترقی ضرور کرنی چاہیے لیکن ساتھ ہی اپنے آپ پرقابو رکھنا چاہیے۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ دولت جہاں آتی ہے وہاں بے سکونی، رعونیت، تکبر اور لالچ اپنے دامن میں ساتھ لاتی ہے۔
- اکثر دیکھا گیا ہے کہ انسان تمام عمر شدیدمحنت کر کے دُنیوی آسائشوں کے حصول کے لیے تگ و دو کرتا ہے اور بالآخر جب کچھ حاصل ہوجاتا ہے تو اُسے پتہ چلتا ہے کہ گوہر مقصود یعنی سکون چلا گیا، صحت چلی گئی، وقت چلا گیا اور آخر میں انسان اِس دُنیا سے تہی دست چلا گیا۔

4.0 "1"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔