02:56    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

حکایات سعدی و رومی

3783 15 0 04.6

حکم سلطانی - حکایات رومی

ایک دن سلطان محمود غزنوی دربا ر میں آیا۔ تمام مصاحب اور وزراء حاضرِ خدمت تھے۔ تخت پر تشریف فرما ہونے کے بعد بادشاہ نے اپنے چوغے میں سے ایک نایا ب و بیش قیمت موتی نکالا اور وزیر اعظم سے اس کی قیمت دریافت کی۔ وزیر نے کہا یہ تو بہت نایاب موتی لگتا ہے اور میرے خیال میں کچھ نہیں تو ایک من سونے کے برابر تو اس کی قیمت ہو گی۔ سلطان نے وزیر کی تعریف کی اور پھر اُسے حکم دیا کہ آپ اِس موتی کو توڑ ڈالیے۔ وزیر دست بستہ ہو کر بولا کہ جہاں پناہ! میں تو آپ کے خزانوں کا محافظ ہوں اور آپ کا خیر خواہ ہوں ۔ میں اس قیمتی موتی کو توڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ سلطان نے خوش ہو کر اُسے خلعت عطا کی اور پھر وہی موتی نائب وزیر کو دے دیا اور اُس سے بھی قیمت لگانے کو کہا۔ نائب وزیر کہنے لگا کہ حضور! یہ تو میری سوچ سے بھی زیادہ مہنگا ہے۔ سلطان نے کہا بہت خوب اور پھر نائب وزیر کو بھی موتی توڑنے کا حکم دیا۔ نائب وزیر بولا کہ عالم پناہ ! آپ ایسے لاثانی موتی کو کیوں تڑوا رہے ہیں؟ ذرا اس کی شان و شوکت اور آب و تاب تو ملاحضہ فرمائیں؟ سورج کی روشنی بھی اس کے آگے ہیچ ہوتی ہے۔ میرے ہاتھ تو اسے زک پہنچانے کا حوصلہ ہی نہیں کر سکتے۔ میں تو خزانے کا نگہبان ہوں دشمن تو نہیں۔ اللہ آپ کے مال و منال میں اضافہ کرے۔ سلطان نے نائب وزیر کو بھی انعام و اکرام سے نوازا او ر اس کی سمجھ بوجھ کی تعریف کی۔

پھر اسے امیر الامراء کے سامنے رکھا اور توڑنے کا حکم دیا تو اُس نے بھی معذرت کر لی۔ بادشاہ جیسے جیسے درباریوں کی تعریف کر کے ان کے منصب اور مرتبے میں اضافہ کرتا گیا ویسے ویسے وہ کم تر درجے کے لوگ سیدھے راستے کو نہ پہچان کر اندھے کنویں میں گرتے گئے۔ سب وزیر اعظم کی پیروی میں اپنے آپ کو بادشاہ کا بڑھ چڑھ کر خیر خواہ ثابت کر کے انعام و اکرام پاتے رہے۔ بے شک تقلید اس دُنیا کا ایک ستون ہے مگر آزمائش کے لمحات میں جو لوگ اپنی انفرادیت قائم نہیں رکھتے وہ ذلیل و رُسوا ہو جاتے ہیں۔

جب سلطان نے سب اُمراء کی آزمائش کر ڈالی تو پھر وہ موتی ایاز کو دیا اور پرکھنے کو کہا۔ ایاز نے کہا کہ عالم پناہ! میرا ہر اندازہ اس موتی کی قیمت سے کم ہو گا۔ سلطان نے کہا بہت خوب ! اب اسے توڑ دو۔ ایاز نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اس موتی کو ایک پتھر سے توڑ ڈالا۔ موتی پتھر کی چوٹ سے چورہ چورہ ہو گیا۔ وہ غلام اپنے آقا کی آزمائش کے طریقوں سے واقف تھا اس لیے کسی انعام یا لالچ کے دھوکے میں نہیں آیا۔ اپنے مالک کا حکم اس کی پہلی ترجیح تھی اس وجہ سے اس نے بلا چون و چرا اس حکم پر عمل کر ڈالا۔

موتی کا ریزہ ریزہ ہونا تھا سب درباری ششدر رہ گئے۔ پھر زور سے چلاّ اُٹھے کہ ارے نادان! تیری یہ ہمت کہ ایسا نادر و نایاب موتی توڑ کر پاش پاش کر دیا اور بادشاہ کے نقصان کی رتی برابر بھی پرواہ نہیں کی؟ یہ سن کر ایاز بولا کہ اے عقلمند صاحبو! ذرا غور کرو اور دل پر ہاتھ دھر کر بتاؤ کہ موتی کی قیمت زیادہ ہے یا حکم شاہی؟ تمہاری نظر سلطانی فرمان پر ہونی چاہیے یا اس حقیر موتی پر؟ افسوس تم نے ظاہر پر نگاہ رکھی اور باطن کو فراموش کر دیا۔ پس معلوم ہو کہ تمہارا پیر و مُرشد شیطان ہے۔ تم صراط مستقیم سے بھٹک گئے۔ میرے نزدیک سلطان کے ابرو کا اشارہ کافی ہے اور وہ روح ناپاک ہے جو ایک حقیر پتھر کو حکم شاہی سے زیادہ قابل احترام سمجھے۔

جب ایاز نے یہ راز سب کے سامنے کھول کر رکھ دیا تو سب درباری جیسے کسی گہری نیند سے جاگے اور لگے بغلیں جھانکنے۔ لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا اور بادشاہ نے کسی بات پرکان نہ دھرا اور غضب ناک ہو کر بولا: تم سب قابل تعزیر ہو اور تم میں سے ایک بھی اس دربار کے لائق نہیں۔ اس معمولی پتھر کے سامنے تم نے میرے حکم کی تذلیل کی ہے۔ اور پھر جلاد کو حکم دیا کہ ان سب ناحلف افراد کی گردنیں مار دو۔ جلاّد تلوار لہراتا ہوا آگے بڑھا تو ارکان دولت و حشمت خوف سے کانپنے لگے۔ موت سامنے کھڑی تھی۔ مفر کی کوئی راہ نہیں تھی۔ اس وقت ایاز کو وزراء کی یہ ابتر حالت دیکھ کر ترس آیا تو وہ ہاتھ باندھ کر سلطان محمود سے عرض گزار ہوا کہ اے آقا! تیری مہربانیاں ہم سب پر غالب ہیں۔ ہم ان کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ میری کیا اوقات کہ تجھے تیری مہربانیاں اور نوازشات یاد دلاؤں اور کوئی مشورہ دوں لیکن ان سب نادانوں اور مجرموں کی گردنیں بھی تیری ہی دیوار پر ٹکی ہوئی ہیں۔ بے شک یہ شکست کھا گئے مگر اتنا تو ہوا کہ اپنی غلطی اور جرم سے باخبر ہو گئے۔ اب اس گمراہی سے لوٹ کر تیری طرف آنا چاہتے ہیں تو توُ انہیں معاف کر دے۔ کیونکہ تیرا کرم ہی ان کی آخری اُمید ہے۔ یوں بادشاہ نے ایاز کی سفارش کو قبولیت بخشی اور خطا کاروں کو معافی دے دی۔

میرے دوستو! اس حکایت میں ہم سب کے لیے بہت کچھ موجود ہے۔ اس حکایت سے ہمیں یہ ہدایت ملتی ہے کہ ہماری دنیاوی آسائشیں ہمیں بہت عزیز ہیں اور جب اللہ ہمیں اپنے راستے کی طرف بلاتا ہے تو ہم طرح طرح کی توجیہات پیش کر کے اس کے حکم سے سرتابی کرتے ہیں۔ خود اپنے آپ کو اللہ کو یہ باور کراتے ہیں کہ ہم وہی کچھ کر رہے ہیں جو اللہ ہم سے چاہتا ہے۔ ہم اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ آرام وآ سائش کی یہ زندگی دینے والا بھی تو اللہ ہے تو اگر وہ چاہتا ہے کہ ہم اُس کی راہ میں اپنا مال خرچ کریں تو ہم آنا کانی کیوں کرتے ہیں اور فوراً اُس کے حکم پر عمل کیوں نہیں کرتے؟ اللہ کا حکم من و عن ماننے میں ہی ہم سب کی عافیت ہے۔ کسی لیت و لعل سے کام لینا درست نہیں۔

اس کے علاوہ مولانا جلال ‌الدین محمد بلخی رومیؒ کی اس حکایت کی روشنی میں عالم اسلام کو درپیش سب سے بڑے مسئلہ پر بھی روشنی ڈالوں گا۔ انشاء اللہ!

4.6 "9"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔