میں اپنے خاندان کے ساتھ ایک گاؤں میں رہتی تھی۔ گاؤں کا نام سون پوری تھا، جو کہ ایک خوش حال گاؤں تھا۔ گاؤں کے سب ہی لوگ مِل جُل کر ایک ساتھ رہتے تھے۔ ہمارے گاؤں میں ایک غریب پُجاری رہتا تھا جو اپنے چھوٹے سے گھر میں بالکل اکیلا رہتا تھا۔ وہ اتنا زیادہ غریب تھا اسے ایک وقت کا کھانا بھی بہت مشکل سے مِلتا تھا۔ روزانہ پاس پڑوس سے کھانا مانگ کر کھاتا تھا۔ اُس پُجاری کے لیے اس کی زندگی ایک امتحان سے کم نہیں تھی۔ ہر پَل اُس کو مصیبتوں اور تکلیفوں کا سامنا تھا۔
ایک دن وہ کہیں جا رہا تھا، تو ایک عورت نے اُسے بھیک میں ایک مٹکا بھر آٹا دیا۔ وہ تو خوشی سے پھولا نہیں سمارہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اُسے سارا سُکھ حاصل ہو گیا ہے جو اُسے اِس سے پہلے کبھی بھی نہیں مِلا تھا۔ اب اُس پُجاری کے سامنے خوشیاں ہی خوشیاں ناچنے لگیں ۔ وہ آٹے سے بھرے اُس مٹکے کو اپنے گھر لے آیا اور دیوار سے لگا کر سوگیا۔ اس کے بعد امیر بننے کے سپنے دیکھنے لگا۔
اس نے سوتے وقت سوچا کہ وہ آٹے کو کھائے گا نہیں بل کہ بازار میں لے جا کر بیچ ڈالے گا۔ پھر اُن روپیوں اور پیسوں سے ایک بکری خریدے گا، اُسے پالے گا، پھر اُسے اچھے داموں میں بیچ دے گا اور مِٹھائی کی دکان کھولے گا۔ مِٹھائیاں خوب بکیں گی۔ اس کے بعد خوب پیسا کماؤں گا اور سُنار بنوں گا۔راجا کے محل میں جا کر راج کُماری کا ہاتھ مانگوں گا۔
اور پھر راج کُماری کے گلے میں سنہری مالا ڈالوں گا۔ جیسے ہی اُس نے راج کُماری کے گلے میں مالا ڈالی …اُس کا پاوں مٹکے سے ٹکرا گیا مٹی ٹوٹ گئی اور پُجاری کا سپنا بھی ٹوٹ گیا۔
٭٭٭