ہمارے ملک بھارت کے شمالی علاقے میں ایک خوب صورت اور صاف ستھرا گاؤں تھا۔ جس کا نام تارا پور تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب اس گاؤں میں سورج نکلنے اور ڈوبنے کا منظر، کویل کی میٹھی آواز، پپیہے کی کوک، چڑیوں کی چہچہاہٹ، عورتوں کا مٹکا لے کر کنویں پر پانی بھرنے جانا، کسانوں کا کھیتوں کھلیانوں میں کام کرنا اور چاروں طرف ہریالی ہی ہریالی یہ سب چیزیں لوگوں کا دل کا لبھاتی تھیں ایسا لگتا تھا جیسے کسی نے دور دور تک ہری چادر بچھا دی ہو۔
اُس گاؤں میں ایک لڑکی رہتی تھی جس کا نام تھا خوشی - جیسا نام ویسا ہی اس کا برتاؤ تھا۔ وہ بہت نیک، اچھی اور سیدھی سادی لڑکی تھی ہر ایک سے محبت اور نرمی سے پیش آتی، بڑوں کا کہنا مانتی، بزرگوں کا ادب اور احترام کرتی۔گھر کے کام کاج کے علاوہ پاس پڑوس کے لوگوں کا بھی کام کرواتی۔ سب ہی اس کا نام لیتے اور اس کی مثال دیتے کہ دیکھو خوشی کتنی اچھی لڑکی ہے۔ وہ اس وقت پانچویں جماعت میں پڑھ رہی تھی۔ وہ روزانہ سات بجے اسکول جاتی اور بارہ بجے گھر واپس آتی۔ لیکن آج اسے اسکول سے آنے میں دیر ہو گئی تھی اس لیے اس کے ماں باپ اور گھر کے لوگ بہت پریشان ہو گئے تھے۔
خوشی جب اسکول سے گھر واپس آ رہی تھی اس نے دیکھا کہ کچھ بد معاش آدمی ایک بوڑھے اور کم زور شخص کو بُری طرح مار پیٹ کر زخمی کر کے اس کے روپیوں اور پیسوں کی تھیلی چھین کر بھاگ رہے ہیں۔ سڑک سنسان نہیں تھی لوگ آ جا رہے تھے اور خاموش تماشائی بن کر یہ ظلم دیکھ رہے تھے کسی میں ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ وہ ان بدمعاشوں سے اس بوڑھے اور کم زور آدمی کو بچاتے۔ خوشی کو یہ سب دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔ بدمعاش تو پیسوں کی تھیلی لے کر وہاں سے فرار ہو گئے اور وہ آدمی زخمی حالت میں وہاں تڑپ رہا تھا کوئی بھی اس کی مدد کو آگے نہیں بڑھا۔ خوشی نے اس آدمی کو اسپتال پہنچایا اور پولیس اسٹیشن فون کر کے اِس حادثے کے بارے میں اطلاع دی۔ حال آں کہ ان بدمعاشوں نے جاتے وقت یہ دھمکی دی تھی کہ اگر کسی نے اس واقعہ کی خبر پولیس کو دی تو اسے جان سے مار دیا جائے گا۔ لیکن خوشی نے اس بات کی ذرّہ بھر بھی پروا نہ کرتے ہوئے ہمت سے کام لے کر پولیس کو بتا دیا۔
پولیس نے اسپتال پہنچ کر زخمی کا بیان لیا اور ان بدمعاشوں کا حلیہ پوچھا۔ اور اسپتال سے روانہ ہوئے تھوڑی ہی دیر بعد پولیس نے ان بدمعاشوں کو گرفتار کر لیا۔ خوشی ابھی تک اسپتال ہی میں تھی۔ اس کے ماں باپ کو جب اس بارے میں پتا چلا تو انھیں بہت خوشی ہوئی کہ چلو ہماری خوشی کی وجہ سے کسی کی جان بچی ہے۔
پولیس انسپکٹرنے خوشی کا شکریہ ادا کیا اور اس کے ماں باپ کی خوب تعریف کی۔اور اسے لے کر کلکٹر صاحب کے پاس گئے جہاں خوشی کو بہادر بچّی کا خطاب اور سونے کا تمغا انعام میں دیا گیا اس طرح خوشی نے بہادری اور ہمت سے ایک کم زور اور بوڑھے آدمی کی مدد بھی کی، لوگوں کا دل بھی جیتا اور اپنے ماں باپ کا نام بھی روشن کیا۔