02:39    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

بچوں کی کہانیاں

915 0 0 00

موت کی وادی

تاروں بھرے آسمان سے چودھویں کا گول مٹول چاند اپنی چاندنی زمین پر برسا رہا تھا۔ جنگل کی طرف سے آنے والی ہوا کے جھونکوں میں جنگلی پھولوں کی خوشبو بسی ہوئی تھی۔ بڑی ہی سہانی اور خوبصورت رات تھی۔

آج کی رات "چولو" گاؤں کے لوگ مہمان بن کر "کھوما" گاؤں آئے ہوئے تھے۔ چودھویں رات کو ایک گاؤں کے لوگوں کا دوسرے گاؤں مہمان بن کر جانا عام بات تھی اور یہ دستور برسوں سے چلا آ رہا تھا۔

کھانے کے بعد لڑکیاں ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر جھوم جھوم کے ناچنے لگیں۔ لڑکے اچھل کود اور دوسرے کھیلوں میں مصروف ہو گے۔ عورتیں جھونپڑیوں کے سامنے بیٹھ گئیں اور مرد جھیل کے کنارے بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔

اچانک مہمان گاؤں کے سردار نے گاؤں کے دو لڑکوں جمّا اور چروا سے کہا، "میرے بچوں! تمہاری بہادری کے کارناموں کی داستانیں "چولو" تک پہنچ چکی ہیں۔ تم نے بڑے حوصلے کے کام انجام دیے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ تمھاری دلیری کا کوئی واقعہ تمہاری زبان سے سنوں۔"

"ہاں، ہاں، کوئی دلچسپ واقعہ سناؤ۔" سب لوگ ایک ساتھ بول اٹھے۔

جمّا نے الاؤ میں سے کرید کر ایک آلو نکالا اور اسے پھونکیں مار کر ٹھنڈا کرتے ہوئے بولا، " ایک بار میں اور چروا ایک ہرن کا پیچھا کر رہے تھے۔ ہرن بہت تیز رفتار جانور ہوتا ہے، مگر ہم اس کے کھروں کے نشانوں کے سہارے آگے بڑھتے رہے۔ آخر ہم ایک گاؤں پہنچے۔ وہاں کے مکھیا نے ہمارا شاندار استقبال کیا اور ہمیں کھانا کھلایا۔

عجیب بات یہ تھی کہ گاؤں والے بہت سہمے ہوئے تھے اور گاؤں پر اداسی چھائی ہوئی تھی۔ جب ہم نے اس کی وجہ پوچھی تو مکھیا نے بتایا کہ پہاڑ کے نیچے گھنے جنگلوں میں ایک بہت بڑی وادی ہے۔ گاؤں والے اس وادی میں "کاسوا" کی جڑیں ڈھونڈنے جایا کرتے ہیں۔ مگر کچھ دنوں سے اس وادی میں جانے والے واپس لوٹ کر نہیں آتے۔ گاؤں والوں کا خیال ہے کہ یا تو کوئی جنگلی درندہ انھیں کھا جاتا ہے یا پھر بھوت پریت انھیں پکڑ لیتے ہوں گے۔ اس خوف کی وجہ سے اب کوئی اس وادی کا رخ نہیں کرتا۔ وہ موت کی وادی ہے مگر مشکل یہ ہے کہ "کاسوا" کی جڑیں صرف اسی وادی میں ملتی ہیں اور وہی گاؤں والوں کی خاص غذا ہے۔ اس لیے گاؤں والے اکثر بھوکے ہی رہ جاتے ہیں۔ مکھیا نے بتایا کہ میں خود پریشان ہوں کہ کیا کروں!

میں نے مکھیا سے تو نہیں کہا کہ بھوت پریت کا کوئی وجود نہیں۔ ہاں، چروا سے کہا کہ ہم چپ چاپ موت کی وادی میں ضرور جائیں گے۔ چروا ہمیشہ کی طرح گھبرا گیا مگر جب میں نے اکیلے جانے کی دھمکی دی تو تیار ہو ہی گیا۔

اگلے دن ایک آدمی نے بھوک سے تنگ آ کر موت کی وادی میں جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ میں اور چروا بھی چپکے چپکے اس کے پیچھے چل پڑے۔

ہم نے اسے وادی میں اترتے دیکھا۔ ڈھلان پر بہت سے درخت اور پودے تھے، اس لیے نیچے اترنا زیادہ مشکل نہ تھا۔ آخر ہم اس حسین وادی پہنچ گئے۔ وہاں شفاف پانی کی ایک چھوٹی سی ندی بہہ رہی تھی۔ وہاں طرح طرح کے جانور اور پرندے تھے۔ ہم دونوں ایک درخت پر چڑھ کر اس آدمی کو دیکھنے لگے۔ وہ آدمی اس وقت جھاڑیوں کے پاس سے گزر رہا تھا کہ اچانک چار آدمی جھاڑیوں سے نکل کر اس پر ٹوٹ پڑے۔ اس نے بہت ہاتھ پیر مارے مگر حملہ آوروں نے اسے رسی سے جکڑ کر ساتھ لیا اور جھاڑیوں میں غائب ہو گئے۔ ہم دونوں نے ان کا پیچھا کرنا چاہا مگر گھنی جھاڑیوں کی وجہ سے نہ کر سکے۔ ہم، بڑی اداسی کے ساتھ گاؤں واپس آئے۔ گاؤں کا ایک اور آدمی کم ہو چکا تھا۔

اس رات مجھے نیند نہیں آئی۔ میں سوچتا رہا۔ اچانک ایک خیال میرے ذہن میں آیا۔ میں نے سوچا کہ وہ لوگ صرف غلاموں کو پکڑنے والا ہوں گے۔ ان کی تعداد کم ہو گی۔ اسی لئے گاؤں پر حملہ کرنے کے بجائے چوری چھپے لوگوں پر حملہ کر رہے ہیں۔ ان کا پتا لگانے کے لئے ہمیں ایک چال چلنی ہو گی۔ میں نے ذہن میں ایک منصوبہ بنایا اور پوری بات چروا کو بتا دی۔

اگلے دن میں نے اپنا بھالا اٹھایا، ایک رسی اور چاقو لے کر چروا کے ساتھ وادی کی طرف چل پڑا۔ گاؤں والے یہ سمجھے کہ ہم شکار کھیلنے جا رہے ہیں۔ وادی میں اترنے سے پہلے میں نے چروا کے دونوں ہاتھ رسی سے اس کی کمر کے پیچھے باندھ دیے اور اس کی پیٹھ سے بھالے کی نوک لگا کر اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔

جب ہم جھاڑیوں کے پاس سے گزرے تو وہی چاروں آدمی جھاڑیوں میں اچانک نکل کر سامنے آ گئے۔

ان میں سے ایک نے پوچھا، "کہاں لے جا رہے ہو اسے؟ کون ہو تم؟"

میں نے لاپروائی سے جواب دیا، "دیکھتے نہیں، غلام پکڑنے والا ہوں۔ میں ایک گاؤں کے بارے میں جانتا ہوں جس میں اس جیسے سینکڑوں جوان ہیں۔ وہ منڈی میں مہنگے بکیں گے، مگر چونکہ میں اکیلا ہوں اس لیے ایک وقت میں ایک ہی غلام پکڑتا ہوں۔"

انہوں نے چروا کے مضبوط جسم کو دیکھا تو ان کے منہ میں پانی بھر آیا۔ کہنے لگے، "لڑکے تیری عمر ابھی اتنی نہیں کہ تو غلام پکڑے۔ ہمارے ساتھ مل کر کام کر اور ہمیں وہ گاؤں بتا دے۔ ہم ایسے بہت سے جوان پکڑ لیں گے اور ہمارے ساتھ تو بھی امیر ہو جائے گا۔ دیکھ! ہم کل پانچ ساتھی ہیں۔ ہم میں سے چار غلام پکڑتے ہیں اور پانچواں ان کی نگرانی کرتا ہے۔ تو ہمارا چھٹا ساتھی بن جا۔"

میں راضی ہو گیا۔ وہ ہمیں لے کر اپنے خفیہ جگہ پہنچے جہاں ایک جھونپڑی میں آٹھ غلام پڑے تھے۔ ان کا پانچواں ساتھی پہرا دے رہا تھا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ جیسے ہی ہم دس غلام پکڑ لیں گے فوراً منڈی کا رخ کریں گے۔

میں نے چروا کو بھی جھونپڑی کے اندر دھکیل دیا۔

پانچوں بہت خوش تھے۔ انہوں نے بھنے ہوئے ہرن کے گوشت سے میری تواضع کی۔ پھر مجھے بتانے لگے کہ وہ وادی میں آنے والوں کو کس طرح پکڑتے ہیں۔

وہ یہ بات نہیں جانتے تھے کہ چروا کے ہاتھوں میں بندھی ہی رسی کی گانٹھیں ڈھیلی ہیں اور اس کے پاس چاقو بھی ہے۔ غلاموں کے لئے جو جھونپڑی تھی، اس کے باہر ہی وہ سب سوتے تھے۔

تھوڑی دیر بعد وہ چاروں خرّاٹے لینے لگے اور جو پہریداری کرنے والا پانچواں آدمی تھا وہ بھی سوگیا۔ میں نے سب سے پہلے ان کے بھالے اٹھائے اور انھیں لے کر دبے پاؤں جھونپڑی کے پیچھے چلا گیا۔ میں نے بھالوں کو جھونپڑی کے اندر سرکا دیا۔ اتنی دیر میں چروا اپنی رسی کھول کر وہاں بندھے ہوئے دوسروں غلاموں کو بھی آزاد کر چکا تھا۔ ان کے پاس بھالے بھی آ گئے تھے۔ وہ سب باہر نکلے اور اچانک ہی ان پانچوں پر ٹوٹ پڑے اور ذرا سی دیر میں ان سب کو رسیوں سے باندھ دیا۔

جب ہم آٹھوں گاؤں والوں اور پانچ پکڑنے والوں کو لے کر گاؤں آئے تو وہاں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ہمیں لوگوں نے کندھوں پر بٹھا کر رقص کیا اور ہماری خوب خاطر کی۔ وہ چاہتے تھے کہ ہم ان کے گاؤں ہی میں رہیں، مگر ہم وہاں چار دن ان کے ساتھ جشن منانے کے بعد واپس لوٹ آئے۔"

جمّا نے داستان ختم کی۔ لوگ پیار اور رشک بھری نظروں سے ان دونوں بہادر لڑکوں کی طرف دیکھ رہے تھے۔

چاندنی رات اور حسین ہو گئی تھی۔ دور جنگل میں درندوں کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ الاؤ کی آگ ٹھنڈی ہو چلی تھی۔

٭٭٭

ماہنامہ ہمدرد نونہال، مارچ ۱۹۸۹ء سے لیا گیا۔

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔