کمزوری کی وجہ سے ہماری اماں کی طبیعت خراب رہتی تھی۔ اسی لیے ہم نے گھر میں کام کاج کے لئے ایک غریب خاتون نسرین بی بی کو رکھ لیا۔ نسرین بی بی صبح سات بجے سے بھی پہلے ہمارے گھر آتی پہلے وہ میرے بچوں کے لیے ناشتہ تیار کرتی پھر اماں کو کھانا وغیرہ دیتی۔ پھر ہمارے لیے صبح کا ناشتہ تیار کرتی۔ برتن وغیرہ دھوتی اور کچھ ناشتہ اپنے بچوں کے لئے لے کر چلی جاتی، شام کو بھی وہ اسی طرح آتی اور رات نو بجے سے پہلے اپنے گھر چلی جاتی۔ اس کی دو بیٹیاں اور ایک سال کا بیٹا تھا۔ اس کی بڑی بیٹی شازو بھی اکثراس کے ساتھ آ جاتی اور کام کاج میں اپنی ماں کا ہاتھ بٹاتی جبکہ اس کی چھوٹی بیٹی ناز و گھر میں اپنے بھائی کے ساتھ رہتی۔ نازو کا باپ ہیروئن کا نشہ کرتا تھا اسی لیے وہ کوئی کام نہیں کرتا تھا۔ نازو کی دادی اپنے گھر کے باہر بچوں کے لئے کھٹ مٹھے وغیرہ بیچا کرتی تھی۔ ایک روز سردیوں کی گہری صبح تھی۔ شازو خود ہی کام کے لئے چلی آئی۔ اس روز مجھے کراچی جانا تھا۔ اسی لیے جلدی اٹھ گیا تھا۔ میں نے جب اسے کام کرتے ہوئے دیکھا تو پوچھ بیٹھا۔
‘’ تیری امی کیوں نہیں آئی....؟’‘
‘’ میرے بھائی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، اسی لیے....’‘ اس نے دھیمے اور مایوس لہجے میں کہا۔
‘’تجھے ناشتہ بنانا آتا ہے....؟’‘
‘’ میں اپنے بہن بھائی کے لئے خود ہی ناشتہ بناتی ہوں ۔’‘ اس نے بڑے پن سے کہا تو میں منہ ہاتھ دھونے کے لئے واش بیسن کے پاس چلا گیا جبکہ وہ باورچی خانے میں مصروف ہو گئی۔ وہ بڑی سلیقہ شعار بچی تھی۔ پہلے اس نے مجھے ناشتہ دیا پھر میرے بچوں کو ناشتہ کرایا پھر ہماری اماں کو ناشتہ دے آئی۔ پورا ناشتہ اس نے ٹھیک بنایا تھا مگر چائے میں ذرا شکر زیادہ تھی۔ خیر ناشتہ کرتے ہی میں نے کپڑے وغیرہ تبدیل کیئے تو شازو میرے پاس آ کھڑی ہوئی۔
‘’ صاحب....’‘ اس نے آہستہ سے کہا۔
‘’ہاں بولو....’‘ میں نے کہا۔
‘’ وہ میرا بھائی بہت بیمار ہے، اماں نے کچھ پیسے منگوائے ہیں ۔’‘
‘’ میں نے پرسوں کو تیری ماں کو سو روپے دیئے تھے۔’‘ میں نے حیرت سے کہا۔
‘’ وہ تو بھائی کی دوا میں خرچ ہو گئے، اگر آپ دو گے تو مہربانی ہو گی، اماں بولتی ہے آپ ہفتے میں کاٹ لینا۔’‘ اس نے سادہ پن سے کہا۔
‘’ ابھی تو میرے پاس پیسے نہیں ہیں ، کراچی سے واپس آ کر دے دوں گا۔’‘ میں نے جان چھڑانے کے سے انداز میں کہا۔
‘’اچھا....’‘ شازو نے اداسی سے کہا اور مرے مرے قدموں سے واپس باورچی خانے میں چلی گئی جبکہ میں تیار ہو کر کراچی چلا گیا۔ رات کوئی دس بجے میں تھکا ہارا گھر میں داخل ہوا تو میری پہلی نظر نسرین بی بی پر پڑی۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی سلام کیا۔
‘’ اطہر بھائی میرے منے کا بخار نہیں اتر رہا ہے اسے اسپتال میں داخل کرانا پڑے گا کچھ پیسے دے دو بڑی مہربانی ہو گی۔’‘
‘’ میں نے شازو کو کہہ تو دیا تھا کہ ابھی پیسے نہیں ہیں .... تو پھر آ گئی....’‘
‘’ میں بہت مجبور ہوں اطہر بھائی، میں اپنے بچوں کے لئے ہی تو سب کچھ کر رہی ہوں اب تو میرے پاس بیچنے کے لئے کوئی چیز بھی نہیں ہے، مہربانی کرو اظہر بھائی....’‘ نسرین بی بی نے ہاتھ جوڑ کر عاجزی سے کہا تو مجھے غصہ آ گیا۔
‘’ کہہ تو دیا ہے کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں تو کیوں میرا دماغ خراب کر رہی ہے۔’‘ میری بات سنتے ہی وہ آنکھوں میں آنسو لیے اکھڑے ہوئے قدموں کے ساتھ واپس جانے لگی، واپسی پر اس نے مڑ کر بھی دیکھا مگر میں کمرے میں جا چکا تھا۔ اسی لیے وہ رنجیدہ رنجیدہ سی زینے اتر گئی۔ میرا خیال تھا کہ وہ اب نہیں آئے گی مگر دوسری صبح ہی اس کی شازو کام کرنے چلی آئی مجھے اس کے آنے پر حیرت ہو رہی تھی۔ جب وہ میرے لیے گرم گرم چائے لے کر آئی تو میں نے دبی دبی آواز میں اس سے پوچھ ہی لیا۔
‘’شازو، اب تیرے بھائی کی طبیعت کیسی ہے....؟’‘
‘’جی وہ اماں اسے اسپتال لے گئی تھی وہاں اسے داخل کر لیا ہے۔’‘
‘’ پیسے کہاں سے آئے....؟’‘ میں نے پھر پوچھا۔
‘’ جی معلوم نہیں ....’‘ اس نے مختصر کہا اور اپنے کام میں جا لگی اور میں اپنے بچوں کی ہمراہ ٹی وی پر کارٹون دیکھنے لگا۔ اچانک ہی باورچی خانے سے شازو کی چیخ و پکار سنائی دی آواز سنتے ہی میں اپنی بیگم اور بچوں کے ساتھ دیوانہ وار باورچی خانے کی طرف بھاگے، ہم نے دیکھا کہ شازو بجلی کی سی تیزی سے باورچی خانے سے نکلی ۔ اس کے جسم پر موجود تمام کپڑوں میں آگ لگی ہوئی تھی اور وہ دیوانہ وار مدد کے لئے پکار رہی تھی۔ اتنا خوف ناک منظر دیکھ کر میرا دل ہی شق ہو گیا تھا۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں ؟ میری بیگم دوڑتی ہوئی بیڈ شیڈ اٹھا لائیں پھر ہم نے اسے زبردستی پکڑا اور اس پر بیڈ شیٹ ڈال دی اس عمل سے آگ تو بجھ گئی مگر اس کی چیخوں سے زمین و آسمان کو ہلا دیا تھا۔ آوازیں سنتے ہی نیچے سے بڑے بھائی صاحب ، بھائی جان اماں اور بچوں سمیت سب آ گئے تھے۔
‘’ اوہ مائی گاڈ.... یہ سب کیسے ہو گیا....؟ ‘‘ بھائی صاحب نے آتے ہی خوف کی کیفیت میں کہا۔
‘’ بھائی جان بس بالکل اچانک .... اب.... اب کیا کریں ، کہیں یہ مر ہی نہ جائے۔’‘ میں نے خوف زدہ ہوتے ہوئے کہا۔
‘’ میں نے تمہیں پہلے ہی کہا تھا کہ اتنے چھوٹے بچوں کو کام پر نہیں لگاؤ اب دیکھ لیا نا اس کا انجام.... یہ تو سیدھا پولیس کیس ہے۔’‘ بھائی جان نے شازو کی چیخیں سنتے ہوئے کہا۔
‘’ ارے اسے اٹھاؤ فوراً اسپتال لے کر پہنچو....’‘ اماں جی نے ڈانٹتے ہوئے کہا۔
‘’ اماں جی یہ پولیس کیس ہے، اسپتال والے اس کے متعلق پوچھیں گے تو کیا کہیں گے؟....’‘ میں نے اس کی بگڑی ہوئی حالت دیکھتے ہوئے کہا۔
‘’ ارے تو کیا اسے مرنے دیں ، یہ بھی تمہارے بچوں کی طرح ہے۔ ناصر فوراً رکشہ یا ٹیکسی لے کر آنا....’‘ اماں کی بات سنتے ہی بھائی صاحب فوراً زینہ اترتے ہی نیچے کی طرف دوڑ گئے۔ ٹیکسی آتے ہی ہم نے شازو کو اس میں سوار کیا۔ اس وقت مجھ پر بے انتہا خوف سوار تھا اس لئے خود اسپتال نہ گیا بلکہ بھائی جان اور اماں اسے اسپتال لے کر روانہ ہو گئے۔ ان کے جاتے ہی میرے اوسان بحال ہوئے تو میرا خوف قدرے کم ہو گیا۔ اتنا خطرناک منظر کسی بھی ذی شعور انسان کے ہوش اڑا دینے کے لئے کافی تھا۔ بھائی صاحب شازو کے گھر بھی اس حادثے کی خبر پہنچا دی تھی۔ بس پھر کیا تھا اس کا پورا خاندان روتا پیٹتا چلا آیا۔ ذرا دیر بعد بھی بھائی جان کا اسپتال سے فون آیا۔ انہوں نے کہا کہ شازو کو کراچی سول اسپتال لے کر جانا پڑے گا تم اس کی دادی کو کچھ اور رقم لے کر اسپتال پہنچو۔ ایسے موقع پر میں اپنی جان چھڑوانا چاہ رہا تھا جبکہ مصیبت تھی کہ گلے آ رہی تھی۔ بہت مجبور تھا کیا کرتا، اسپتال پہنچنا بھی ضروری تھا اور نہ پہنچے بغیر بھی بات نہیں بن رہی تھی۔ اسپتال جاتے ہوئے تمام راستے شازو کی دادی اپنی بچی کی سلامتی کے لئے دعائیں مانگتی رہی۔ مگر جب بیڈ پر بے سدھ اور جلی ہوئی اپنی شازو کو اس نے دیکھا تو اس کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے اور وہ زار و قطار روتے ہوئے اپنی پوتی کا ما تھا چومنے لگی۔ ایسے میں شازو بھی تکلیف کی وجہ سے آنسو بہائے جا رہی تھی۔ شازو کے دونوں ہاتھ اور چہرے معمولی سے زخمی ہوئی تھے۔ جبکہ اس کا پیٹ اور ٹانگیں جل گئی تھیں ۔ یہاں ڈاکٹروں نے اپنے طور پر اس کی مرہم پٹی کر دی تھی مگر اصل کام کراچی سول اسپتال میں ہونا تھا۔ اس حالت میں شازو کی دادی کو کراچی بھیجنا بہت ضروری تھا مگر وہ بوڑھی بیمار اور کم ہمت عورت تھی اس لیے اماں نے کہا کہ میں شازو کی ماں کو لے آؤ اس کے بچے کا ہم خیال کر لیں گے یہ رائے بالکل ٹھیک تھی۔ اسی لئے میں شازو کی ماں کو اسپتال لے آیا ۔ راستے بھر میں نے اسے اصل حقیقت نہیں بتائی تھی مگر جیسے ہی اس نے اپنی بچی کو مچلتے ہوئے دیکھا تو جیسے کہ وہ دیوانی ہو گئی۔ اماں نے کھینچ کر اپنے سینے سے لگایا، سر پر ہاتھ پھیرا، بہت سمجھایا اور پیار کرتے ہوئے بولیں ۔
‘’ نسرین صبر کر.... اﷲ نے خیر کی ہے، ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا ہے، اﷲ پر بھروسا رکھ، اسے کچھ نہیں ہو گا۔’‘
‘’ مگر.... مگر یہ سب کیسے ہو گیا....؟’‘ اس نے بے قراری سے آنسو بہاتے ہوئے پوچھا۔
‘’ناشتہ بناتے ہوئے اس کے دوپٹے میں آگ لگ گئی تھی۔ نسرین تو لاکھ مجبور سہی مگر اسے باورچی خانے سے دور رکھتی ، ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے۔ اسے کراچی لے جانا پڑے گا، تو ہمت کر ہم سب تیرے ساتھ ہیں ۔’‘ اماں نے سمجھانے پراسے صبر آ گیا تھا۔ اس وقت ہم سب ہی اﷲ کی رضا کے آگے مجبور تھے ۔
‘’ مگر میرا منا....’‘ نسرین بی بی نے فکر سے کہا۔
‘’تیری ماں وہاں رہ لے گی، سب کا اﷲ والی ہے بس تو چلنے کی تیاری کر....‘ ‘ ہماری اماں کے کہنے پر وہ کراچی جانے کے لئے تیار ہو گئی۔ پھر اماں نے ہم سب سے کہا۔
‘’ قصوروار ہم بھی ہیں ، فی الحال ہمیں اس کا ساتھ دینا ہو گا۔
‘’اماں تمہاری طبیعت ....’‘ بھائی جان نے فکر سے کہا۔
‘’ میں بیمار نہیں ہوں ، مگر اس حالت میں ہم اسے چھوڑ بھی نہیں سکتے، اگر اس بچی کو کچھ ہو گیا تو ہم اپنے اﷲ میاں کو کیا منہ دکھائیں گے۔ ہمیں اپنی اور اپنے بچوں کی جان کی تو خوب فکر ہے مگر اس معصوم اور بے سہارا کی مدد اور فکر کون کرے گا جو کہ ہماری غلطی سے اس حالت کو پہنچی ہے۔ اگر اس وقت ہم نے ذرا سی بھی کوتاہی کی تو خدا ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔’‘ اماں کی باتوں میں سچائی تھی۔ اسی لیے ہم اماں کو نہ روک سکے اور پھر اماں شازو اور اس کی ماں کے ہمراہ کراچی چلی گئیں ۔ اسی رات شازو کے بھائی کی طبیعت بھی سنبھل گئی اور دوسرے دن ہی اس کی دادی اپنے پوتے کو اسپتال سے گھر لے آئیں ۔ کراچی پہنچتے ہی بھائی جان نے فون کر کے بتایا کہ شازو کو اسپتال میں داخل کر دیا ہے، ڈاکٹر کہہ رہے ہیں کہ اب خطرے کی کوئی بات نہیں ہے ۔ انہوں نے شازو کی مرہم پٹی کر دی ہے اور اس وقت وہ سو رہی ہے۔ کراچی میں ہماری خالہ جان کا بھی گھر ہے۔ رات ہماری اماں وہیں چلی جاتیں اور صبح اسپتال آ کر شازو کے قریب ہی رہتیں ، جب شازو کی تکلیف ذرا کم ہوئی تو بھائی جان حیدر آباد واپس چلے آئے یہاں آ کر انہوں نے بتایا کہ وہاں پولیس نے بہت پوچھ گچھ کی مگر نسرین نے انہیں یہی بتایا کہ یہ کھیلتے ہوئے چولھے پر گر گئی تھی ۔ بھائی جان کے بتانے پر میرے دل میں نسرین بی بی کی عزت و توقیر اور بڑھ گئی۔ تیسرے روز ہماری اماں بھی کراچی سے آ گئی تو میں شازو کی دادی کو کراچی لے گیا۔ اسپتال لے جاتے ہوئے ایک انجانا سا خوف میرے دل و دماغ پر ہتھوڑے برسا رہا تھا کیونکہ ان تمام واقعات میں ، میں خود کو گناہ گار سمجھ رہا تھا۔ شازو کو جھلسی ہوئی حالت میں بیڈ پر پڑے دیکھتے ہی مجھ پر خوف سوار ہو گیا۔ میں اندر ہی اندر بہت شرمندہ ہوا۔ شازو جاگی ہوئی تھی۔ تکلیف اس کے چہرے پر عیاں تھی، اس کے سر کے بال بھی کافی حد تک جھلسے ہوئے تھے، ہاتھوں ، منہ اور پیروں پر جگہ جگہ سفید رنگ کی ٹیوب لگی ہوئی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے آہستہ سے کہا ۔
‘’ بھائی صاحب، میرا بھائی کیسا ہے؟’‘
‘’ٹھی.... ٹھیک .... بالکل ٹھیک ہے۔’‘ میں نے اٹکتے ہوئے کہا۔
‘’اب تم کیسی ہو....؟’‘ میرے پوچھنے پر اس نے آہستہ سے کہا۔
‘’اب ٹھیک ہوں آپ میرے بھائی کو بھی لے آتے ناں ....’‘ اس نے گویا ضد کی تو اس کی دادی نے اسے کچھ زبان میں نجانے کیا کہا۔ یقیناً یہ کہا تھا کہ تو خود گھر چل کر دیکھ لینا۔ میں ذرا دیر شازو کے پاس ہی بیڈ پر بیٹھ گیا اور سچے دل سے اس کی دلجوئی کرنے لگا۔ پھر میں نے ایک لفافہ اس کی ماں کے ہاتھ میں دبا دیا۔ اس میں ایک بڑی رقم تھی۔ واپسی پر میں نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور واپس جانے کے لئے دروازے تک آیا تو اس نے آواز دے کر مجھے پکارا۔
‘’ بھائی صاحب.... ‘‘ میں اس کی آواز سن کر پلٹا تو اس نے اپنا سیدھا ہاتھ اٹھاتے ہوئے اشارہ کرنے کے سے انداز میں کہا۔
‘’ آپ کا بٹوہ میرے بیڈ پر رہ گیا ہے، اسے اٹھا لیں ۔ ‘‘ بٹوہ اٹھاتے ہوئے میرا دل خوشی سے بھر گیا تھا ۔ میں نے کہا۔
‘’شکریہ بیٹا.... تم جلدی سے ٹھیک ہو کر گھر چلی آ ئی۔’‘ میں نے اسے پھر ایک بار محبت بھری نظروں سے دیکھا اور کورنگی اپنی خالہ کے گھر چلا آیا۔
اس واقعے کو آج تین سال ہو گئے ہیں ، مگر میں زندگی بھر اس لمحے کو نہیں بھلا سکتا۔ اگر وقتی طور پر اماں میرے اور میرے بھائیوں کی آنکھیں نہیں کھولتیں تو اس معصوم پیاری سی شازو کے ساتھ نجانے کیا ہوتا اور اگر اس بچی کو کچھ ہو جاتا تو میرا ضمیر مجھے کبھی بھی معاف نہیں کرتا مگر اماں کے ذرا سے حوصلے اور ہمت دینے نے میرے دل کی آنکھیں کھول دی تھیں ۔ آج بھی شازو ہمارے گھر میں کام کرتی ہے۔ مگر ایک گھریلو فرد کی حیثیت سے.... میں نے ان دونوں بہنوں کو شام کے اسکول میں داخلہ بھی کرا دیا ہے۔ اس روز نسرین بی بی اگر پولیس کو سچ کہہ دیتی تو میں جیتے جی ہی مر گیا ہوتا مگر اس غریب نے اتنا بڑا احسان کر دیا کہ جسے میں کبھی بھی نہیں اتار سکتا ۔ میں نسرین بی بی اور شازو کے احسان تلے دب کر رہ گیا ہوں ۔ اب میں ان کے لیے جو کچھ بھی کر رہا ہوں اپنے دل کو مطمئن کرنے کے لئے کر رہا ہوں ۔
٭٭٭