03:15    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

بچوں کی کہانیاں

592 0 0 00

وہ ایک حادثہ

پرسوں جمعہ کا دن ہمارے خلائی مرکز کی تاریخ میں ایک بہت ہی اہم ترین دن ثابت ہو گا۔ پرسوں ہمارے خلائی مرکز میں تیار کردہ مصنوعی سیارہ البیرونی خلا میں چھوڑا جائے گا۔ پروفیسر شمشاد نے اپنے بیٹے ولید اور اس کی امی نجمہ خاتون سے کہا۔

مگر ابو جی.... روس اور امریکہ تو انسان کو خلائی سفر پر بھیج چکے ہیں ۔ ہم صرف مصنوعی سیارہ ہی خلا میں کیوں بھیج رہے ہیں اس پر کسی انسان کو کیوں نہیں .... ولید نے اپنے ابو سے سوال کیا۔

بیٹے یہ تو ہماری ابتدا ہے۔ انہوں نے بھی اسی طرح شروع شروع میں مصنوعی سیارے ہی خلا میں بھیجے تھے۔ پروفیسر شمشاد نے بڑے پیارسے ولید کو سمجھاتے ہوئے کہا۔ اس تجربے کی کامیابی کے بعد ہم دیکھیں گے کہ اس خلائی جہاز میں موجود ایک کتا ، ایک بلی اور دو خرگوشوں پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں پھر انہی تجربات کی روشنی میں خلا ئی سفر کے لیے انسان کو بھیجنے کی کوشش کریں گے فی الحال تو ہمارا یہ مصنوعی سیارہ خلا میں رہتے ہوئے ہمارے لیے خلائی معلومات فراہم کرے گا۔ ہماری سرحدوں کی خفیہ نگرانی کا فریضہ انجام دے گا اور غیر ممالک کی جاسوسی سرگرمیوں پر نظر رکھے گا۔ جمعہ کے دن صبح نو بجے اس کی روانگی کے لئے الٹی گنتی شروع ہو جائے گی۔

ابو جی.... کیا آپ البیرونی کی روانگی سے پہلے اسے مجھے دکھا سکتے ہیں ۔ ولید نے جھجکتے ہوئے پروفیسر شمشاد سے کہا۔ میں روانگی سے پہلے البیرونی کو دیکھنے کی شدید خواہش رکھتا ہوں ۔

ہے تو یہ بہت ہی مشکل کام ۔ اصل میں ان دنوں خلائی تحقیقاتی مرکز کی سیکوریٹی کا بہت سخت اور خصوصی انتظام ہے۔ بقول شخصے کسی پرندے کو پر بھی مارنے کی اجازت نہیں ۔ ہمارے دوست کم ہیں اور دشمن زیادہ۔ وہ ہماری سائنسی ترقی سے خوش نہیں ہوتے حسد کرتے اور نقصان پہنچانے کے درپے رہتے ہیں ۔ اس لیے سیکورٹی بہت ہی سخت رکھی گئی ہے اور کسی بھی بیرونی شخصیت کو مرکز میں داخلے کی اجازت نہیں ۔ پھر بھی میں اپنے ڈائریکٹر سے اپنے طور پر بات کر کے اجازت لینے کی کوشش کروں گا۔

کھانے سے فارغ ہو کر پروفیسر شمشاد خلائی تحقیقاتی مرکز چلے گئے۔ اب ولید دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا۔ اﷲ کرے ابو جی کو اپنے ڈائریکٹر سے اجازت مل جائے تو روانگی سے پہلے میں البیرونی کو اچھی طرح دیکھ سکوں گا۔

شام کے وقت پروفیسر شمشاد جب دوبارہ گھر واپس پہنچے تو انہوں نے ولید سے کہا۔ بیٹے آپ کے لیے ایک خوشخبری ہے۔تمہاری خواہش کے مطابق اﷲ تعالیٰ نے تمہاری دعا سن لی ہے اور ڈائریکٹر نے مجھے اجازت دے دی ہے ۔ اب تم اکیلے ہی نہیں اپنے دوستوں کے ساتھ البیرونی کو دیکھ سکتے ہو۔

سچ ابو.... الحمد ﷲ .... یا اﷲ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ ولید نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا۔ اس کے لبوں پر شکر کے کلمات تھے۔

اگلے دن ولید اپنے تینوں قریبی دوستوں ارمغان، سلیم اور احمد کو ساتھ لیے خلائی تحقیقاتی مرکز پہنچ گیا۔ داخلہ پاس جانچنے اور جامہ تلاشی لینے کے بعد انہیں خلائی مرکز میں داخلے کی اجازت مل گئی ۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتے اس مقام تک پہنچ گئے جہاں ایک اچھے بلند پلیٹ فارم پر البیرونی کو رکھا گیا تھا۔ البیرونی ایک طویل گول پائپ کی صورت کا بنا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ راکٹ منسلک تھے۔ راکٹ کی بالائی نوک چھلی ہوئی پینسل کی صورت میں نظر آ رہی تھی۔ اس لمحے پروفیسر شمشاد بھی وہاں پہنچ گئے۔ انہوں نے کہا۔ آ و بچو.... تمہیں سیارہ قریب سے دکھا دوں ۔

ولید اور اس کے ساتھی پروفیسر کے پیچھے پیچھے سیڑھیاں طے کرتے ہوئے پلیٹ فارم کے اوپر پہنچ گئے۔ ولید اور اس کے دوست بڑی حیران کن نظروں سے البیرونی کو دیکھ رہے تھے۔ پروفیسر شمشاد نے اپنی شہادت والی انگلی کی مدد سے ایک بٹن دبایا تو البیرونی کی دائیں جانب ایک کھڑکی نما دروازہ خود کار طریقے سے کھل گیا اور پروفیسر شمشاد اس دروازے سے ولید اور اس کے دوستوں کو لیے ہوئے اندر داخل ہو گئے۔

ولید اور اس کے دوست یہ سوچ سوچ کر خوش ہو رہے تھے کہ اتنی بڑی دنیا میں شاید وہی سب سے کم عمر خوش نصیب طالب علم ہیں جو ایک مصنوعی سیارے کواس کی روانگی سے پہلے دیکھ رہے ہیں ۔ سیارے کے اندرونی حصے میں تاروں کا ایک جال سا پھیلا ہوا تھا۔ قطب نما جیسے کئی ڈائل جگہ جگہ آویزاں تھے جن کے اندر سرخ ، سبز بتیاں جل بجھ رہی تھیں ۔ پروفیسر شمشاد نے بتایا اس مصنوعی سیارے کو اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ اسے اندر ہی سے کنٹرول کیا جا سکے۔ مگر فی الحال یہ کسی انسانی پائلٹ کی مدد کے بغیر خود کار طریقے سے پرواز کرے گا۔ اس لیے اس کے کنٹرول کا سسٹم ہمارے الگ کنٹرول روم میں ہے۔

اس کی کارکردگی کی عمر میرا مطلب ہے کارکردگی کا پیریڈ کتنے عرصے کا ہے؟ ارمغان نے سوال کیا۔ ایک سو سال تک.... بشرطیکہ کوئی آسمانی حادثہ واقع ہو یا کوئی اور قدرتی رکاوٹ اس کے درمیان حائل نہ ہو۔ پروفیسر نے جواب میں کہا۔ ویسے قدرتی سیارے اپنے مقررہ نظام شمسی کے اندر رہتے ہوئے ہی اپنا سفر کرتے رہتے ہیں ۔ وہ اپنا راستہ تبدیل نہیں کرتے۔

اسی لمحے ایک آواز آئی جو پروفیسر صاحب سے کہہ رہی تھی کہ آپ کو ڈائریکٹر صاحب نے فوراً اپنے دفتر میں بلایا ہے اور یہ پیغام سنتے ہی پروفیسر البیرونی سے باہر نکل گئے۔ ولید اور اس کے دوست بھی پیچھے پیچھے تھے۔ باہر آ کر پروفیسر نے ایک نیلا بٹن دبایا اور البیرونی کا کھڑکی نما دروازہ ایک ہلکی سی سرسراہٹ کے ساتھ بند ہو گیا۔ البیرونی کی سیڑھیوں سے نیچے اترتے ہوئے پروفیسر نے ولید سے کہا۔ ٹھیک ہے بیٹے۔ آپ نے البیرونی دیکھ لیا۔ اب اپنے دوستوں کو ساتھ لے کر گھر واپس چلے جائیں اور خود بڑے بڑے قدم اٹھاتے ڈائریکٹر کے آفس کی طرف بڑھ گئے۔

چلو ولید.... انکل تو چلے گئے ہیں ہم البیرونی کو اور اچھی طرح دیکھ لیں یہ تو قدرت نے ہمیں اچھا موقع دیا ہے۔ اس کا فائدہ اٹھانا چاہئے۔ ارمغان نے کہا ۔ نہیں قطعی نہیں !! یہ ابو کی ہدایت کے خلاف ہو گا۔ ولید نے گھبرائے ہوئے جواب دیا۔

کوئی نہیں .... بس ذرا سی دیر کی بات ہے۔ ہم زیادہ دیر اندر نہیں رکیں گے۔ بس جلد ہی دیکھ کر باہر آ جائیں گے.... سلیم اور احمد نے ایک ساتھ تائید کی اور ان کے رخ البیرونی کی طرف ہو گئے ۔ خواہش تو ولید کی بھی یہی تھی وہ بھی خاموشی سے ان کے ساتھ ہو لیا۔ وہ اندر داخل ہوئے تو انہوں نے دیکھا ۔ ایک بڑا سا بلب تیزی سے جل بجھ رہا تھا۔

احمد نے کہا.... ارے یہ کیا نئی بات .... پہلے تو یہ بلب جل بجھ نہیں رہا تھا۔ شاید کسی کا ہاتھ اس کے بٹن پر غلطی سے پڑ گیا ہے۔ میں ابھی اسے بند کر دیتا ہوں اور جیسے ہی اس نے بلب کے قریب لگا بٹن دبایا تو بجائے اس کے کہ بلب بجھتا ایک عجیب سی کھڑکھڑاہٹ کی آواز انہیں سنائے دینے لگی اور ساتھ ہی البیرونی کے ساتھ منسلک راکٹ سے دھواں خارج ہونے لگا اور دروازہ بھی خود بخود بند ہو گیا۔ چاروں دوست بری طرح گھبرا گئے۔ ولید نے نیلا بٹن دبا کر دروازہ کھولنا چاہا مگر ناکام رہا۔ اسی لمحے البیرونی میں حرکت پیدا ہوئی۔ کئی چھوٹے چھوٹے سرخ بلب ایک ساتھ روشن ہو گئے۔ پھر ایک زبردست دھماکہ ہوا اور البیرونی کے چاروں طرف آگ بھڑک اٹھی۔ ولید نے چیخ کر کہا۔ سیٹ پر پڑی بیلٹ جلدی سے باندھ لو۔ شاید البیرونی خلائی کی طرف پرواز کرنے والا ہے۔ تینوں نے اس کی ہدایت پر بیلٹیں باندھ لیں ۔ اسی لمحے شوں شوں کی سی آوازیں پیدا ہوئیں اور انہیں محسوس ہوا جیسے انہیں کسی نے ہوا میں اچھال دیا ہو۔ سب نے اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔

کچھ دیر بعد جب ولید نے اپنی آنکھیں کھولیں تو اس کے اوسان خطا ہو چکے تھے۔ البیرونی اپنے مقررہ وقت سے ایک دن پہلے ہی اپنے سفر پر روانہ ہو گیا تھا۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا۔ اب ہم چاروں کا کیا ہو گا....؟

تم نے ہی یہاں رکنے کا غلط مشورہ دیا تھا۔ ولید نے ارمغان سے کہا۔ وہ تو ٹھیک ہے مگر مجھ سے بڑی غلطی احمد کی ہے۔ جس نے جلتا بجھتا بلب بند کرنے کے لیے اس کے قریب لگا بٹن دبایا تھا۔ ارمغان نے اسی لہجے میں جواب دیا۔

ابو جی نے بتایا تھا کہ البیرونی کنٹرول روم سے کنٹرول کیا جاتا ہے اور یہ مکمل طور پر آٹومیٹک سسٹم پر کام کرتا ہے۔ اگلے سال وہ انسانی مسافر کو خلا میں لے جانے والا سیارہ بنائیں گے۔ میرا تو خیال ہے کہ مرکز کے سب ہی سائنسدان البیرونی کی اس اچانک پرواز پر حیران رہ گئے ہوں گے۔ پتہ نہیں ابو جی کا حال کیا ہو گا....؟ ولید نے کہا۔

اب البیرونی کے حرکت میں آتے وقت جو ایک تیز قسم کا شور ہوا تھا اب کم محسوس ہو رہا تھا اور کچھ دیر بعد وہ شور صرف ہلکی سی سرسراہٹ کی صورت میں رہ گیا۔

احمد نے کہا۔ شاید البیرونی کو اپنی مخصوص جگہ پہنچا دینے کے بعد اس سے منسلک راکٹ الگ ہو کر گر گئے ہیں ۔ اب مصنوعی سیارہ اپنی رفتار بڑھا رہا ہے۔

چاروں دوست بالکل خاموش بیٹھے تھے۔ وہ سیارے کی اسکرین پر نظریں جمائے ہوئے تھے۔ انہوں نے خود کو حالات اور اﷲ کے حوالے کر دیا تھا۔ اسی وقت انہیں ایک جھٹکا محسوس ہوا اور سامنے لگے قطب نما کی سوئی اپنی جگہ سے آگے بڑھ گئی۔

یہ کیا ہوا ولید....؟ احمد نے گھبرا کر سوال کیا۔

شاید البیرونی کشش ثقل کی زد سے نکل کر خلا میں داخل ہو گیا ہے۔ اب زمین اسے اپنی طرف نہیں کھینچ رہی ہے۔ اسی لیے یہ سوئی اپنی جگہ سے آگے بڑھ گئی ہے۔ ولید نے سوچتے ہوئے جواب دیا۔

کچھ دیر بعد سلیم نے کہا۔ ساتھیو.... مجھے تو اب بھوک تنگ کر رہی ہے۔ ہمارے کھانے کا کیا ہو گا؟ صبح میں نے صرف ہلکا سا ناشتہ کیا تھا۔ ناشتہ تو ہم میں سے شاید کسی نے بھی بھاری نہیں کیا تھا۔ البیرونی دیکھنے کی خواہش میں صرف چائے پی کر ہی میں آ گیا تھا۔ یہاں تو کھانے کے نام پر ہوا بھی نہیں ہے۔ احمد نے کہا۔

بھائیو.... گھبراؤ نہیں .... اﷲ پر بھروسہ رکھو۔ وہ راز ق ہے پتھر میں نظر نہ آنے والے ننھے ننھے کیڑوں کو بھی خوراک پہنچاتا ہے۔ ہم تو پھر اشرف المخلوقات ہیں ۔ ولید نے ان کو اطمینان دلاتے ہوئے کہا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ اچانک اس کی نظر سامنے پڑی جہاں کچھ خلا ئی سوٹ پڑے ہوئے تھے۔ اسے فوراً ہی خیال آیا کہ وہ خلا میں داخل ہو چکے ہیں ۔ کیوں نہ یہ خلائی سوٹ زیب تن کر لیں اور یہ خیال آتے ہی ولید اپنی جگہ سے اٹھا ۔ سوٹ اٹھائے تو اتفاق کی بات کہ وہ سوٹ گنتی میں چار تھے۔ اس نے ایک سوٹ میں بنی جیب میں ہاتھ ڈالے تو وہاں کچھ گولیاں سی محسوس ہوئیں ۔ باہر نکال کر دیکھا تو وہ وٹامنز کی گولیاں تھیں ۔ اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ بھی اپنے اپنے سوٹ کی جیبوں میں دیکھیں انہیں بھی خلائی سوٹ کی جیبوں میں وٹامنز کی گولیاں رکھی مل گئیں ۔ دیکھا.... میں نے کہا تھا ناں .... کہ اﷲ رازق ہے۔ اس نے ہمارے لیے کھانے کا انتظام کر ہی دیا۔اس نے ایک گولی منہ میں ڈال لی اور ہلکے ہلکے چوسنے لگا۔ گولی ختم ہوئی تو اس کی بھوک بھی ختم ہو چکی تھی۔ یہی اس کے دوستوں نے کیا اور ان کی بھوک بھی مٹ گئی۔

اب ولید نے اپنی بیلٹ باندھ لی۔ وہ خود کو بہت ہلکا محسوس کر رہا تھا۔ یہی حال ارمغان، سلیم اور احمد کا تھا.... اسے خلا ئی سفر کے متعلق پڑھی ہوئی یہ بات یاد آئی کہ کشش ثقل سے نکل کر جب کوئی انسان خلا میں پہنچتا ہے تو وہ بے وزنی کی کیفیت سے دوچار ہو جاتا ہے۔

اچانک البیرونی کی اسکرین کے اوپر لگا ہوا بلب روشن ہو گیا اور قطب نما کی سوئی حرکت کرتے ہوئے آہستہ آہستہ ایک نقطے کی طرف بڑھنے لگی۔ ولید نے کہا شاید البیرونی کو کنٹرول روم سے کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ ابھی اس نے اپنی بات پوری ہی کی تھی کہ سامنے رکھے مائیکروفون نما آلے سے بیپ کی سی آواز آنے لگی۔ ولید نے سوچا شاید زمینی کنٹرول روم سے ہمارے لئے کوئی پیغام ہو۔ اس نے ہیڈ فون اٹھا کر اپنے سر پر فٹ کر لیا۔ ایک ہلکی سی گھرگھراہٹ کے بعد اس نے ہیلو ہیلو کی آواز سنی پھر آواز صاف ہو گئی ۔ میں پروفیسر شمشاد بات کر رہا ہوں ۔ اپنے ابو کی آواز سنتے ہی ولید بے ساختہ چیخ اٹھا ۔ ابو جی.... میں ولید بات کر رہا ہوں ۔ ہم آپ کا کہنا نہ مان کر غلطی سے اس مشکل میں پھنس گئے ہیں ۔

اﷲ پر بھروسہ رکھو، گھبراؤ نہیں بیٹے.... اور ہمت سے کام لو....جو ہونا تھا وہ اب ہو چکا۔ ہم یہاں اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں کہ البیرونی کسی حادثے سے دوچار نہ ہو۔ مگر ممکن ہے البیرونی نظام شمسی کے کسی دوسرے سیارے سے ٹکرا کر تباہ ہو جائے۔ ہم کنٹرول روم سے البیرونی کو کنٹرول کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے ہیں .... تم قطب نما کی سوئی کو 90ڈگری کے نشان تک لانے کی کوشش کرو.... اگر تم اپنی کوشش میں کامیاب ہو گئے تو یہ خطرہ ٹل جائے گا۔ ہم اپنے طور پر امریکی ، روسی سائنسدانوں سے بھی مدد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور پھر زمینی کنٹرول روم کا رابطہ ٹوٹ گیا۔ ولید کے ابو کی آواز آنی بند ہو گئی۔ ولید نے کچھ دیر انتظار کیا پھر ہیڈ فون سر پر سے اتار کر نیچے رکھ دیا اور فکر مند لہجے میں بولا.... دوستو! ہمارا زمین سے رابطہ ٹوٹ گیا ہے۔ اب خلا میں ہمیں صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ کی مدد کا ہی سہارا ہے۔

اب کیا ہو گا؟ کہتے ہوئے احمد کی آواز میں خوف نمایاں تھا اور اس کی آنکھیں نم ہو گئیں تھیں ۔

یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا.... ولید نے احمد سے کہا اگر تم بٹن نہ دباتے تو یہ سب کچھ نہ ہوا ہوتا.... پھر وہ قطب نما کی سوئی کو 90ڈگری کے مقام تک لانے کی کوشش کرنے لگا۔ اس کی نظریں اسکرین پر جمی ہوئی تھیں ۔اس نے دیکھا ایک بہت ہی بڑا چمکدار گولا تیزی سے البیرونی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ وہ چیخا نظام شمسی کا کوئی سیارہ البیرونی سے ٹکرانے والا ہے۔ بچاؤ.... بچاؤ....!! وہ حلق کے پورے زور سے چیخا۔

اسی چیخ و پکار میں اس کا ہاتھ کسی بٹن پر لگ گیا۔ جس سے قطب نما 90ڈگری پر آنے لگا تھا۔ ولید اور اس کے دوستوں نے خوشی سے ہُرررے .... کا نعرہ لگایا۔

اب سامنے لگے اسپیکر سے دوبارہ آواز آنے لگی تھی۔ ولید بیٹا بہت زبردست!! تم لوگ ہمت نہ ہارنا اب خلائی سیارہ ہمارے قابو میں آ رہا ہے۔ پروفیسر شمشاد نے اپنے بیٹے کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا۔

وہ دیکھو!! نیلا نیلا کوئی گولا نظر آ رہا ہے شاید ہماری زمین ہے ارمغان نے گویا اچھلتے ہوئے کہا۔

ہاں ہاں تم صحیح کہہ رہے ہو۔ باقی دوستوں نے ارمغان کی تائید کی۔

رفتہ رفتہ وہ گولا بڑا ہوتا جا رہا تھا کہ ایک دفعہ پھر اسپیکر سے آواز آئی۔

بچو تم لوگ زمین کے بہت قریب پہنچ چکے ہو لیکن فنی خرابیوں کے سبب ہم تمہیں پاکستان میں نہیں اتار سکیں گے۔ یہ خلائی جہاز ملائیشیا کے شہر کوالالمپور میں اترے گا جہاں سے تمہیں پاکستان پہنچا دیا جائے گا۔ کنٹرول ٹاور سے آنے والی یہ آواز کچھ اجنبی سی محسوس ہو رہی تھی۔

آپ ہیں کون؟ اور میرے ابو کہاں ہیں ؟ ولید نے خوشی کے بعد گھبراتے ہوئے سوال کیا۔

میں البیرونی کی کمانڈنگ کمیٹی کا انچارج پروفیسر رانا سہیل بات کر رہا ہوں تمہارے ابو خیریت سے ہیں لیکن تم سے فی الحال بات نہیں کرسکتے۔

ولید اور اس کے دوستوں کے دل میں عجیب عجیب وسوسے جنم لے رہے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہیں اپنے سیارے پر پہنچنے کی خوشی بھی تھی۔

ایک جھٹکے کے ساتھ انہیں ایک بار پھر بھاری پن محسوس ہونے لگا تھا۔ شاید وہ واپس زمین پر پہنچ چکے تھے۔

٭....٭

واہ! کتنا خوبصورت علاقہ ہے چلو اس بہانے ملائیشیا بھی دیکھ لیا۔ سلیم نے ولید سے کہا۔

کہتے تو تم ٹھیک ہو لیکن مجھے لگتا ہے میرے ابو کو شاید ملازمت سے نکال کر گرفتار کر لیا گیا ہے اور وطن واپس پہنچ کر شاید ہمیں بھی ....ولید نے افسردہ لہجے میں کہا۔

ملائیشیا کے خلائی ہیڈ کوارٹر پر البیرونی کے لینڈ کرتے ہی اسے چاروں طرف سے کمانڈوز نے گھیر لیا اور زبردست سیکیورٹی میں ان چاروں کو ایئرپورٹ پہنچا دیا گیا۔ پھر ایک اور طیارے کے ذریعے انہیں پاکستان روانہ کر دیا گیا۔

لیکن اس دوران وہ ایک فیصلہ کر چکے تھے کہ البیرونی کی اس اچانک اڑان سے وطن عزیز کو پہنچنے والے نقصان کا ضرور ازالہ کریں گے۔

دوسری طرف پاکستان میں ان کے استقبال کی تیاریاں عروج پر تھیں ۔ آخر وہ خلا میں جانے والے پہلے پاکستانی اور دنیا کے کمسن ترین خلائی مسافر کا ریکارڈ جو قائم کر چکے تھے۔

٭٭٭

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔