خرد بھی زیر دام ہے، جنوں بھی زیر دام ہے
ہوس کا نام عشق ہے، طلب خودی کا نام ہے
نظر اداس، دل ملول، روح تشنہ کام ہے
مگر لبوں پہ نغمۂ حیاتِ شاد کام ہے
رہین عارض حسین، اسیر زلفِ مشکبو!
نگاہ میں لیے ہوئے گھٹی گھٹی سی جستجو
بھٹک رہے ہیں وادیِ خزاں میں بہر رنگ و بو
سحر کے گیت گار ہے ہیں اور وقتِ شام ہے
نظر میں ماہ و کہکشاں ہیں عظمت بشر نہیں
قدم بڑھا رہے ہیں اور راہ معتبر نہیں
فریب خوردۂ چمن ہیں دام پر نظر نہیں
خیالِ نظمِ میکدہ نہیں ہے، فکرِ جام ہے
ملا وہ اختیار جس پہ بے بسی ہے خندہ زن
وہ روشنی ملی کہ جس پر تیرگی ہے خندہ زن
وہ زندگی ملی کہ جس پر موت بھی ہے خندہ زن
بضد ہیں پھر بھی کج نظر حیات شاد کام ہے
نمائش و نمود وننگ و نام پر نگاہ ہے!
جمالِ یار و جوئبار و جام پر نگاہ ہے
بنامِ بندگی، بتانِ بام پر نگاہ ہے
شباب و شعر و شاہد و شراب سے ہی کام ہے
اگر یہی ہے شاعری تو شاعری حرام ہے
٭٭٭
وہ برگِ خشک تھا اور دامنِ بہار میں تھا
نمودِ نو کی بشارت کے انتظار میں تھا
مری رفیقِ سفر تھیں حسد بھری نظریں
وہ آسمان تھا اور میرے اختیار میں تھا
بکھر گیا ہے تواب دل نگار خانہ ہے
غضب کا رنگ اس اک نقشِ اعتبار میں تھا
اب آگیا ہے تو ویرانیوں پر طنز نہ کر
ترا مکاں اسی اجڑے ہوئے دیار میں تھا
لکھے تھے نام مرے قتل کرنے والوں کے
عجیب بات ہے، میں بھی اسی شمار میں تھا
مجھے تھا زعم مگر میں بکھر گیا محسنؔ
وہ ریزہ ریزہ تھا اور اپنے اختیار میں تھا
٭٭٭
عظمتِ فن کے پرستار ہیں ہم
یہ خطا ہے تو خطا وار ہیں ہم
جہد کی دھوپ ہے ایمان اپنا
منکرِ سایۂ دیوار ہیں ہم
جانتے ہیں ترے غم کی قیمت
مانتے ہیں کہ گنہگار ہیں ہم
اس کو چاہا تھا کبھی خود کی طرح
آج خود اپنے طلبگار ہیں ہم
اہلِ دنیا سے شکایت نہ رہی
وہ بھی کہتے ہیں زیاں کار ہیں ہم
کوئی منزل ہے نہ جادہ محسنؔ
صورت گردش پرکار ہیں ہم
٭٭٭
جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
اس حادثۂ وقت کو کیا نام دیا جائے
مے خانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے
ہم مصلحتِ وقت کے قائل نہیں یارو
الزام جو دینا ہو سر عام دیا جائے
٭٭٭
چاہت میں کیا دنیا داری عشق میں کیسی مجبوری
لوگوں کا کیا سمجھانے دو ان کی اپنی مجبوری
میں نے دل کی بات رکھی اور تو نے دنیا والوں کی
میری عرض بھی مجبوری تھی ان کا حکم بھی مجبوری
روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکو
کچی مٹی تو مہکے گی ہے مٹی کی اپنی مجبوری
ذات کدے میں پہروں باتیں اور ملیں تو مہر بلب
جبرِ وقت نے بخشی ہم کو اب کے کیسی مجبوری
جب تک ہنستا گاتا موسم اپنا ہے سب اپنے ہیں
وقت پڑے تو یاد آ جاتی ہے مصنوعی مجبوری
مدت گزری اک وعدے پر آج بھی قائم ہیں محسنؔ
ہم نے ساری عمر نباہی اپنی پہلی مجبوری
٭٭٭
تا دیر ہم وہ بدیدۂ تر دیکھتے رہے
یادیں تھیں جس میں دفن، وہ گھر دیکھتے رہے
کیا کیا نہ اعتبار دیا اک سراب نے
ہر چند تشنہ لب تھے مگر دیکھتے رہے
سورج چڑھا تو پھر بھی وہی لوگ زد میں تھے
شب بھر جو انتظار سحر دیکھتے رہے
صحن چمن کو اپنے لہو سے سنوار کر
دست ہوس میں ہم گل تر دیکھتے رہے
یہ دل ہی جانتا ہے کہ کس حوصلے کے ساتھ
ناقدریِ متاع ہنر دیکھتے رہے
محسنؔ عروجِ کم نظراں سانحہ نہیں
یہ سانحہ ہے اہل نظر دیکھتے رہے
٭٭٭
ہے وجہ تماشائے جہاں دل شکنی بھی
منظور ہے اے دوست! یہ نیزے کی انی بھی
شاداب درختوں کے بھی سائے ہیں گریزاں
اک جرم ہوئی میری غریب الوطنی بھی
پیتے ہی رہے گردش ایام کے ہاتھوں
صہبائے ملامت بھی، غم طعنہ زنی بھی
سوچا تھا کہ اس بزم میں خاموش رہیں گے
موضوع سخن بن کے رہی کم سخنی بھی
اے سلسلہ نکہت گیسو کے اسیرو!
ہے عشق میں اک مرحلۂ کوہ کنی بھی
ویران جزیروں کی طرح خشک ہیں آنکھیں
بیکار ہے اے درد، تری نالہ زنی بھی
اے نازش صد رنگ نہ کران سے تغافل
ہے خاک نشینوں سے تیری گلبدنی بھی
٭٭٭
اپنا آپ تماشا کر کے دیکھوں گا
خود کو خود سے منہا کر کے دیکھوں گا
وہ شعلہ ہے یا چشمہ کچھ بھید کھلے
پتھر دل میں رستہ کر کے دیکھوں گا
کب بچھڑا تھا کون گھڑی کچھ یاد نہیں
لمحہ لمحہ یکجا کر کے دیکھوں گا
وعدہ کر کے لوگ بھلا کیوں دیتے ہیں
اب کے میں بھی ایسا کر کے دیکھوں گا
کتنا سچا ہے ہو میری چاہت میں
محسنؔ خود کو رسوا کر کے دیکھوں گا
٭٭٭
سروں کی فصل کاٹی جا رہی ہے
وہ دیکھو سرخ آندھی آ رہی ہے
ہٹا لو صحن سے کچے گھڑوں کو
کہیں ملہار سوہنی گا رہی ہے
مری دستار کیسے بچ سکے گی
قسم وہ میرے سر کی کھا رہی ہے
یہ برسے گی کہیں پر اور جا کر
گھٹا جو میرے سر پر چھا رہی ہے
سمجھ رکھا ہے کیا دیوانگی کو
یہ دنیا کیا ہمیں سمجھا رہی ہے
تمنا جلد مرنے کی ہے ہم کو
حیات اب تک یونہی بہلا رہی ہے
٭٭٭
جام تہی قبول نہ تھا، غم سمو لیے
پھولوں کے انتظار میں کانٹے چبھو لیے
محرومی دوام بھی کیا لطف دے گئی
یہ سوچ کر ہنسے ہیں کہ اک عمر رولیے
ہم ہیں وہ سادہ لوح کہ پاکر رضائے دوست
خود اپنے ہاتھ اپنے ہی خوں میں ڈبو لیے
جس سمت سے بھی بانگ جرس آئی دشت میں
دیوانگان شوق اسی سمت ہو لیے
پچھلا پہر ہے شب کا کہ ہے شام کا سماں
وہ کیا بتا سکیں گے جو اک نیند سو لیے
کیا جبر ہے، ثبوتِ وفا پیش کیجئے
اور ان کا نام آئے تو پھر لب نہ کھولیے
محسنؔ زبان دیجئے بزم خموش کو
مہمل ہے آج لفظ سخن، کچھ تو بولیے
٭٭٭
کیا ضروری ہے اب یہ بتانا مرا
ٹوٹتی شاخ پر تھا ٹھکانا مرا
غم نہیں اب ملی ہیں جو تنہائیاں
انجمن انجمن تھا فسانہ مرا
جو بھی آیا ہدف پر وہ کب بچ سکا
چوکتا ہی نہیں تھا نشانہ مرا
اک زمانہ کبھی تھا مرا ہم نوا
تم نے دیکھا کہاں وہ زمانہ مرا
ارضِ بھوپاؔل سے تھا تعلق کبھی
اب تو سب کچھ ہے یہ لاڑکانہؔ مرا
ناتوانی پہ میری جو ہیں خندہ زن
ان کو البم پرانا دکھانا مرا
میرے جانے سے بہتر ہے محسنؔ کبھی
بزمِ شعر و سخن میں نہ جانا مرا
٭٭٭
نظر ملا کے ذرا دیکھ مت جھکا آنکھیں
بڑھا رہی ہیں نگاہوں کا حوصلہ آنکھیں
جو دل میں عکس ہے آنکھوں سے بھی وہ چھلکے گا
دل آئینہ ہے مگر دل کا آئینہ آنکھیں
وہ اک ستارہ تھا جانے کہاں گرا ہو گا
خلا میں ڈھونڈ رہی ہیں نہ جانے کیا آنکھیں
غم حیات نے فرصت نہ دی ٹھہرنے کی
پکارتی ہی رہی ہیں مجھے سدا آنکھیں
یہ اس کا طرزِ تخاطب بھی خوب ہے محسنؔ
رکا رکا سا تبسم خفا خفا آنکھیں
٭٭٭
نگارِ صبح درخشاں ہے لو لگائے ہوئے
ہیں اپنے دوش پہ اپنی صلیب اٹھائے ہوئے
گزر رہے ہیں دبے پاؤں، وقت کی مانند
فراز دار پہ اپنی نظر جمائے ہوئے
صلہ ملے نہ ملے، خونِ دل چھڑکتے چلیں
ہر ایک خار ہے دست طلب بڑھائے ہوئے
چھلک سکا نہ کبھی جام چشم تر محسنؔ
اگرچہ عمر ہوئی ہم کو گنگنائے ہوئے
٭٭٭
چمن چمن اُسی رنگیں قبا کو دیکھتے ہیں
ہر ایک جلوے میں جلوہ نُما کو دیکھتے ہیں
تیرے مزاج سے ہم اس قدر ہوئے مانوس
کہ شاخ گُل میں بھی تیری ادا کو دیکھتے ہیں
کلی پہ تیرے لبوں کا گُماں گُزرتا ہے
گُلوں میں ہم تیرے رنگ حنا کو دیکھتے ہیں
یہ تیری جھیل سی آنکھوں میں ڈوبنے والے
تجھے خبر بھی ہے آب بقا کو دیکھتے ہیں
دمکنے لگتے ہیں ذرے جدھر سے تُو گزرے
ستارے جھُک کے تیرے نقش پا کو دیکھتے ہیں
تجھے ہو علم تو کیسے، کہ دیکھنے والے
چھُپا کے تجھ سے تیری ہر ادا کو دیکھتے ہیں
کچھ اس میں اور ہی چاہت کا لُطف ہے مُحسن
ہم اجنبی کی طرح آشنا کو دیکھتے ہیں
٭٭٭
پہلو میں دل ہو اور دہن میں زباں نہ ہو
میں کیسے مان لوں کہ حقیقت بیاں نہ ہو
میرے سکوتِ لب پر بھی الزام آ گئے
میری طرح چمن میں کوئی بے زباں نہ ہو
سوزِ دل و گدازِ جگر، معتبر نہیں
جب تک غمِ حبیبِ غمِ دو جہاں نہ ہو
ہم نے اپنے خوں سے جلائی تھیں مشعلیں
ہم سے تو اے نگارِ سحر بدگماں نہ ہو
محسن ہمارے طرزِ تکلّم کی بات ہے
ہر شخص سوچتا ہے مری داستاں نہ ہو
٭٭٭
غلط تھے وعدے مگر میں یقین رکھتا تھا
وہ شخص لہجہ بڑا دل نشین رکھتا تھا
ہے تار تار میرے اعتماد کا دامن
کسے بتاؤں میں بھی امین رکھتا تھا
اُتر گیا ہے رگوں میں میری لہُو بن کر
وہ زِہر ذائقہ بڑا انگبین رکھتا تھا
گُزرنے والے نہ یُوں سرسری گُزر دل سے
مکاں شِکستہ سہی، پر مکین رکھتا تھا
وہ عقلِ کُل تھا بھلا کس کی مانتا محسن
خیال خام پہ پُختہ یقین رکھتا تھا
٭٭٭
جو مرحلۂ زیست ہے پہلے سے کڑا ہے
کیا جُرم نجانے دِلِ وحشی نے کیا ہے
جو آنکھ جھکی ہے ترے سجدے میں گرے ہے
جو ہاتھ تری سمت اُٹھا، دستِ دُعا ہے
اُس درد کا ہمسر ہے ترا پیار نہ تُو ہے
تجھ سے کہیں پہلے جو مرا دوست ہوا ہے
آتا ہے نظر اور ہی اَب رنگِ گلستاں
خوشبُو ہے گریزاں تو خفا موجِ صبا ہے
دل ہے سو ہے وابستۂ سنگِ درِ دوراں
اور اِس کا دھڑکنا ترے قدموں کی صدا ہے
ماجد ہے کرم برق کا پھر باغ پہ جیسے
پھر پیڑ کے گوشوں سے دھواں اُٹھنے لگا ہے
٭٭٭
خبر کیا تھی نہ ملنے کے نئے اسباب کر دے گا
وہ کر کے خواب کا وعدہ مجھے بے خواب کر دے گا
کسی دن دیکھنا وہ آ کے میری کِشتِ ویراں پر
اچٹتی سی نظر ڈالے گا اور شاداب کر دے گا
وہ اپنا حق سمجھ کر بھُول جائے گا ہر احساں
پھر اس رسمِ انا کو داخل آداب کر دے گا
نہ کرنا زعم اس کا طرز استدلال ایسا ہے
کہ نقشِ سنگ کو تحریرِ موجِ آب کر دے گا
اسیر اپنے خیالوں کا بنا کر ایک دن محسن
خبر کیا تھی میرے لیے کامیاب کر دے گا
٭٭٭
اب یہ سوچوں تو بھنور ذہن میں پڑ جاتے ہیں
کیسے چہرے ہیں جو ملتے ہی بچھڑ جاتے ہیں
کیوں تیرے درد کو دیں تہمتِ ویرانیِ دل
زلزلوں میں تو بھرے شہر اُجڑ جاتے ہیں
موسمِ زرد میں ایک دل کو بچاؤں کیسے
ایسی رُت میں تو گھنے پیڑ بھی جھڑ جاتے ہیں
اب کوئی کیا میرے قدموں کے نِشاں ڈھونڈے گا
تیز آندھی میں تو خیمے بھی اُکھڑ جاتے ہیں
شغلِ اربابِ ہنر پوچھتے کیا ہو کہ یہ لوگ
پتھروں میں بھی کبھی آئینے جڑ جاتے ہیں
سوچ کا آئینہ دُھندلا ہو تو پھر وقت کے ساتھ
چاند چہروں کے خدوخال بگڑ جاتے ہیں
شِدّتِ غم میں بھی زندہ ہوں تو حیرت کیسی
کچھ دیے تُند ہواؤں میں بھی لڑ جاتے ہیں
وہ بھی کیا لوگ ہیں محسن جو وفا کی خاطر
خود تراشیدہ اُصولوں پہ بھی اَڑ جاتے ہیں
٭٭٭
ہمارے گھر تباہ ہوں، غم و ملال کچھ بھی ہو
رہیں گے ہم اِسی جگہ، ہمارا حال کچھ بھی ہو
جو سراپا خیر ہے ، اُسی کا امتی ہوں میں
مرا جواب پیار ہے، ترا سوال کچھ بھی ہو
تمام مہرے سچ کے ہیں، ہم اہلِ حق کے ہاتھ میں
ہماری جیت طے رہی، کسی کی چال کچھ بھی ہو
ہمارے بھائیوں کو بس غرض ہے اقتدار سے
وطن کا حال کچھ بھی ہو، یہاں وبال کچھ بھی ہو
یہ اندھی سوچ دے رہے ہیں نسلِ نو کو رہنما
روش روش کو روند ڈالو، پائمال کچھ بھی ہو
٭٭٭
المدد اے چاک دامانو قبا خطرے میں ہے
ڈوبنے والو بچاؤ نا خدا خطرے میں ہے
خون دل دینا ہی ہوگا اے اسیران چمن
بوئے غنچہ روئے گل دست صبا خطرے میں ہے
مصلحت کوشی ہے یا شوخی طرز بیاں
راہبر خود کہہ رہا ہے قافلہ خطرے میں ہے
چاک دامانوں پہ محسن انگلیاں اٹھتی رہی تھیں
آج لیکن کج کلا ہوں کی قبا خطرے میں ہے
٭٭٭
جو غم شناس ہو ایسی نظر تجھے بھی دے
یہ آسماں غم دیوار و در تجھے بھی دے
سخن گلاب کو کانٹوں میں تولنے والے
خدا سلیقۂ عرض ہنر تجھے بھی دے
خراشیں روز چنے اور دل گرفتہ نہ ہو
یہ ظرف آئینہ، آئینہ گر تجھے بھی دے
پرکھ چکی ہے بہت مجھ کو یہ شب وعدہ
اب انتظار زدہ چشم تر تجھے بھی دے
ہے وقت سب سے بڑا منتقم یہ دھیان میں رکھ
نہ سہہ سکے گا یہی غم اگر تجھے بھی دے
سبھی شہادتیں تیرے خلاف ہیں محسن
یہ شورہ دل خود سر مگر تجھے بھی دے
٭٭٭
شعلہ حسن مجسم گریہ شبنم بھی ہے
ایک وہ عالم بھی تھا اور ایک یہ عالم بھی ہے
اہل دل کو شکوہ بے مہری عالم سہی
دیکھنا یہ ہے کہ احساس شکست غم بھی ہے
پاہی لیں گے منزلیں دشواریاں کے باوجود
کوئی شے راہ طلب میں کوشش پہیم بھی ہے
منحصر ہے ظرف انساں پر مداوائے حیات
زرہ ناچیز ہی برہم کن عالم بھی ہے
صرف انداز بیاں طرز ادا کی بات ہے
داستان زندگی واضع بھی ہے مبہم بھی ہے
اے غم دوراں ترا ہر وار ہنس کر سہہ لیا
دل بظرف دل تو ہے کیا غم بقدر غم بھی ہے
گریہ و رقت میں بھی محسن سلیقہ چاہئے
درد کا رشتہ بہت نازک بھی ہے محکم بھی ہے
٭٭٭
ٹھوکریں کھا کے جو سنبھلتے ہیں
نظم گیتی وہی بدلتے ہیں
وہ ترستے ہیں روشنی کے لئے
جن کے خوں سے چراغ جلتے ہیں
بے سبب مسکرانا کیا معنی
بے سبب اشک بھی نکلتے ہیں
تہمت گم رہی ہے بچنے کو
راہبر راستے بدلتے پیں
گھیر لیتی ہے گردش دوراں
گیسوؤں سے جو بچ نکلتے ہیں
دوستوں فیض ہمرہی معلوم
آؤ دو گام پھر بھی چلتے ہیں
ہم نقیب بہار ہیں محسن
وقت کے رخ کو ہم بدلتے ہیں
٭٭٭
زاویہ کوئی مقرر نہیں ہونے پاتا
دائمی ایک بھی منظر نہیں ہونے پاتا
عمر مصروف، کوئی لمحۂ فرصت ہو عطا
میں کبھی خود کو میسر نہیں ہونے پاتا
آئے دن آتش و آہن سے گذرتا ہے مگر
دل وہ کافر ہے کہ پتھر نہیں ہونے پاتا
کیا اسے جبر مشیت کی عنایت سمجھوں
جو عمل میرا مقدر نہیں ہونے پایا
چشم پر آب سمو لیتی ہے آلام کی گرد
آئینہ دل کا مکدر نہیں ہونے پاتا
فن کے کچھ اور بھی ہوتے ہیں تقاضے محسن
ہر سخن گو تو سخنور نہیں ہونے پاتا
٭٭٭
تلقینِ اعتماد وہ فرما رہے ہیں آج
راہِ وفا میں خود جو کبھی معتبر نہ تھے
نیرنگیِ سیاستِ دوراں تو دیکھئے
منزل انہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے
٭٭٭
وفا پرستوں کے اپنے اصول ہوتے ہیں
روایتوں سے کبھی سرکشی نہیں ہوتی
محاذِ جنگ سے پسپائیاں تو جائز ہیں
محبتوں میں مگر واپسی نہیں ہوتی
٭٭٭
شوقِ پرواز تو ہے خوب مگر
حدِ پرواز پر نظر رکھو
جب بھی پاؤ کوئی نیا اعزاز
اپنے آغاز پر نظر رکھو
٭٭٭
ماخذ: ’دستاویز‘ اول سے اور
تدوین اور ای بک کی تشکیل‘ اعجاز عبید