02:38    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

مجموعہ حضورِ حق و رسالت

996 0 0 00




پیش لفظ

ارمغانِ حجاز کو علامہ اقبال کی تصنیفات میں ایک منفرد مقام حاصل ہے ۔یہ علامہ اقبال کی آخری کتاب ہے، یعنی ختم الکتب اس میں علامہ اقبال کا آخری فارسی اور اردو کلام یکجا ہے ۔ یعنی دو آتشہ علامہ اقبال کے دل میں حج اور زیارتِ حرم کی شدید آرزو تھی جو ان کی علالت کے سبب پوری نہ ہو سکی۔ لیکن ارمغانِ حجاز میں متصورہ سفر حج کا منظوم رپورتاژ شامل ہے۔ اس کتاب کا نام ارمغانِ حجاز رکھا ہی اسی لئے گیا حج سے واپسی پر یہ تحفہ علامہ قبال نے ملت کو دینا تھا۔

اس میں حضور رسالت کے باب کا آغاز ہی سفرِ حج کی روداد سے ہوتا ہے۔ سرور و سرشاری اور لذت عشق کے عجب دلگداز منظر ہیں۔ مثلاً

اس پیری میں میں سرور عاشقانہ سے سرشار یثرب کے سفر کو نکلا ہوں۔میں نے ناقے سے کہا آہستہ چل۔ راکب بوڑھا اور بیمار ہے اس نے ایسے مستانہ قدم اٹھائے جیسے اس صحرا کی ریت اس کے لئے ریشم ہو۔ کتنا دلکشا صحرا ہے جس میں قافلے درود پڑھتے ہوئے محملِ راں ہیں۔اے رہرو۔ اس صحرا میں قدم آہستہ رکھ۔ اس کا ہر ذرہ میری طرح درد مند ہے۔ وغیرہ وغیرہ

کلام اقبال کا سر چشمہ بنیادی اسلامی تعلیمات ہیں۔ انہوں نے ان کی روشنی میں عصر حاضر کے مسائل کا تجزیہ کر کے ان کا حل پیش کیا لیکن وعظ کی صورت میں نہیں بلکہ رندانہ شوخی سے جو نوجوانوں کی افتاد طبع سے ہم آہنگ ہے۔وہ کہتے ہیں:

من و ملا زکیش دیں دو تیریم

بفرما بر ہدف او خورد یا من

اس لئے اقبال کے پیغام کو نئی نسل تک پہنچانا بہت ضروری ہے۔علامہ اقبال کا زیادہ کلام فارسی میں ہے۔ اس میں جاوید نامہ جیسے شہکار شامل ہیں جو میرے ذاتی خیال میں دنیا کے شعری ادب میں ایک عظیم تخلیق ہے۔ فارسی زبان و ادب سے ناآشنائی کے اس دور میں علامہ اقبال کے پیغام کی عصری اہمیت اور زمان و مکاں سے ماورا اسلامی اقدار کی نشر و اشاعت اور تبلیغ کے نقطہ نظر سے علامہ اقبال کے پورے فارسی کلام کا منظوم اردو ترجمہ ہونا چاہئے (منظوم اس لئے کہ شعری اثر انگیزی قائم رہے جو تفکر کو جذبے میں ڈھالنے کے لئے ضروری ہے اور یہ مقصد نثری ترجمہ سے حاصل نہیں ہو سکتا)۔’’ارمغانِ حجاز ’’ کی انفرادیت کی وجہ سے اس کے منظوم اردو ترجمے کی خواہش میرے دل میں دیر سے تھی ۔ اب سرکاری ملازمت سے فراغت کے دور میں یہ خواہش پھر ابھری۔ ادبی تخلیق کاری کے مبلغ ممتاز مفتی اور ہمیشہ دل بڑھانے والے دوست سجاد حیدر نے اس پر اکسایا۔ اقبال اکادمی نے اشاعت کی حامی بھری اور یوں یہ شوق عمل میں ڈھل گیا۔ اس ترجمے سے پہلے میں پنجابی ابیات باھو ، فارسی غزلیات باھو اور امیر خسرو کی منتخب فارسی غزلیات کا منظوم اردو ترجمہ کر چکا ہوں جو ’’عکس باہو‘‘ ،’’نقش باہو‘‘ اور ’’خسرو شیریں زبان‘‘ کے عنوانات سے اہل شوق تک پہنچ چکا ہے۔ لیکن اس مشق سخن کے باوجود ارمغانِ حجاز کا منظوم ترجمہ ایک نیا چیلنج اور نیا تجربہ ثابت ہوا۔

ان تینوں منظوم تراجم میں واسطہ جذبات کی شاعری سے تھا۔ جذباتی شعری اظہار ، خصوصاً تغزل کی شعریت کو دوسری زبان میں ڈھالنے کے عمل میں کافی حد تک اصل متن سے گریز جائز ہو تا ہے کیونکہ مقصود جذباتی تاثر اور شعری فضا کو اردو جاننے والے قارئین تک منتقل کرنا ہوتا ہے۔ اس میں آزاد ترجمے کی نہ صرف اجازت ہوتی ہے بلکہ کامیاب ترجمے کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے۔ بنیادی مفہوم برقرار رکھتے ہوئے شعری فضا اور نغمگی بھی قارئین تک منتقل ہونی چاہئے اور یہ آزاد ترجمے سے ہی ممکن ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری غزل کی روایتی شاعری سے مختلف ہے ۔ انہیں تو گلہ ہے کہ

مرا یاراں غز لخوانے شمر دند یہ بنیادی طور پر فکر کی شاعری ہے اگر چہ اقبال کی شاعرانہ عظمت یہی ہے کہ انہوں نے فکر کو جذبے سے ہم آہنگ کر کے تمام فنی خوبیوں اور شعری محاسن کے ساتھ اس شعر کی صورت دی ہے۔

اس لئے اس منظوم ترجمے میں دہری دشواری آن پڑی کہ فکر بھی مکمل طور پر ترجمے میں ڈھل جائے اور شعری حسن کا لطف بھی برقرار رہے۔ اس پر مستزاد فارسی کی جامعیت اور اختصار جہاں گفتمش کا اردو ترجمہ پورے ایک جملے ’’میں نے اس سے کہا‘‘ کا طالب ہے۔علامہ اقبال کے فکر اور پیغام کی اہمیت کے پیش نظر میں نے کوشش کی ہے کہ اصل متن بلکہ الفاظ و تراکیب کے قریب ترین رہتے ہوئے ترجمہ کیا جائے۔ اس سے بعض قطعات میں شعری حسن پوری طرح ترجمے میں منتقل نہیں ہو پایا۔ لیکن اقبال کا فکر اتنا توانا اور بھر پور ہے کہ اس کا طلسم باقی سب کچھ بھلا دیتا ہے ۔ پھر اس کا منفرد انداز اور الفاظ و تراکیب کی ندرت قاری کو نیا خوشگوار تاثر عطا کرتی ہے جو تغزل کی شریعت سے بالا تر ہے۔

میں نے ان قطعات کا ترجمہ ان کی اصل بحر میں ہی کیا ہے تاکہ اس مخصوص بحر کے استعمال سے علامہ اقبال نے جو فضا تخلیق کی ہے وہ ترجمے میں قائم رہے اور ان کا مخصوص آہنگ برقرار رہے۔

بحر چھوٹی ہونے سے ان میں کچھ دشواری پیش آئی لیکن قطعہ میں صرف دو یا تین قافیے ہونے کی وجہ سے ان کی تلاش میں آسانی بھی رہی۔ بہت حد تک تو میں نے اقبال کے قوافی ہی استعمال کرنے کی کوشش کی ہے لیکن تمام قطعات میں یہ ممکن نہیں تھا۔

علامہ اقبال سے گہری عقیدت اور اس ترجمے کے عمومی افادیت کے احساس نے اس کار دشوار کی تکمیل میں مدد دی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ علامہ اقبال کے صدق عشق اور اسلام کے لئے ان کی تڑپ کے صدقے میں اسے قبولیت عامہ عطا کرے اور فکر اقبال پاکستان میں عام ہو (آمین)

مرے قافلے میں لٹا دے اسے

لٹا دے، ٹھکانے لگا دے اسے

٭٭٭






حضور حق

خوشا راہی کہ بے ساز و ساماں

دل اس کا بے نیاز پند یاراں

تو اپنا سینہ اس کی آہ پر کھول

کہن غم کو جلا دے آہ سوزاں






۱

دلوں کے چاک سی کر جا چکے ہیں

مثال شعلہ جی کر جا چکے ہیں

مل اب ہم عامیوں سے کوئی لحظہ

کہ خاصاں بادہ پی کر جا چکے ہیں

٭٭

چلیں باتیں کہ میں ہوں یا نہیں ہوں

میں خجلت سے ہوں چپ کیا ہونٹ کھولوں

تو پہچانے سجود زندہ مرداں

پرکھ سجدوں سے مجھ کو شاہ گردوں

٭٭

ہے دل میں کشمکش چون و چناں کی

نظر اس کی مہ و پرویں سے اونچی

اسے دوزخ میں ویرانہ عطا کر

ہے اس کافر کی خو خلوت پسندی

٭٭

بپا ہے آب و گل میں شور کیسا

پڑا مشکل میں دل سے عشق کیا کیا

مجھے حاصل قرار اک دم نہیں ہے

کرم کر، واسطہ دل سے ہے میرا

٭٭

جہاں خود سے بروں آوردہ کس کا

ہے فطرت جلوہ بے پردہ کس کا

مجھے کہتے ہیں شیطاں سے حذر کر

بتائیں تو، وہ ہے پروردہ کس کا






۲

یہ پیچ و تاب دل کو دم بدم ہے

مقدر میں کرم ہے یا ستم ہے

دکھا سکتا نہیں شیطاں کا دل میں

گنہ نیکی سے میرا کیسے کم ہے

٭٭

صبنت الکاس عنا ام عمرو*

و کان الکاس مجراھا الیمینا

یہی ٹھہری جو رسم دوستداری

پٹک صحن حرم پر جام و مینا

٭٭

*یہ شعر عمرو بن ابن کلثوم کا ہے جو زمانہ جاہلیت کے شعرا میں سے تھے ۔شاعر اپنی معشوقہ ام عمرو کی نا انصافی کی شکایت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تو نے ہمیں پیالہ شراب سے محروم کر دیا حالانکہ باری دائیں طرف بیٹھنے والوں کی تھی۔

اسیر دل میں ہیں پیچ و تاب والے

اسے درماں سے کیا جو درد پالے

نہ کر مجھ سے طلب سجدہ کہ سلطاں

لٹے وہ پر نہ بار باج ڈالے

٭٭

سفر میں ہوں، کوئی منزل نہیں ہے

مری کوشش کا کچھ حاصل نہیں ہے

غموں سے میں نہیں ڈرتا و لیکن

نہ دے غم دل کے جو قابل نہیں ہے

٭٭

کسی کم ظرف تک یہ مے نہ پہنچے

اسے نا اہل سے یا رب بچا لے

شرر ہے نیستاں سے دور بہتر

جو پختہ ہیں انہیں تک جام آئے

٭٭

بغیر کشمکش تیری طلب ہے

نہ درد و داغ ہے نے تاب و تب ہے

جبھی میں لا مکاں سے بھاگ نکلا

وہاں کم نالہ ہائے نیم شب ہے

٭٭

کوئی ہنگامہ دے مجھ سے جہاں کو

دگرگوں کر زمیں و آسماں کو

اٹھے مٹی سے میری آدم نو

مٹا اس بندہ سود و زیاں کو

٭٭

جہاں خورشید سے تاریک تر ہے

ہر اک خوبی برائی سے بتر ہے

نہ کر آدم کے خوں سے اس کو سیراب

یہ ویرانہ تو شاخ بے ثمر ہے

٭٭

یہ بندہ ہے رضا پر تیری راضی

ہے فرماں کے مطابق گام بازی

میں ناداں ہوں، پہ تیرے حکم پر بھی

کہوں کیسے گدھے کو اسپ تازی

٭٭






۳

مرے سینے میں دل ہے بے سرورے

نہ آتش خاک میں میری نہ نورے

اسے لے لے، ہے بار دوش مجھ پر

ثواب ایں نماز بے حضورے

٭٭

کہوں قصہ میں کیا دین و وطن کا

نہیں اظہار ممکن اس سخن کا

تری بے مہریوں سے ہو کے رنجور

میں پھر سے ہو گیا دیر و کہن کا

٭٭

غلام افرنگ کا ہے جو مسلماں

اسے قدرت نہیں ہے دل پہ حاصل

جو پیشانی جھکی غیروں کے در پر

نہیں وہ سجدہ بوذر کے قابل

٭٭

نہ چاہوں اس جہاں یا اس جہاں کو

غنیمت ہے کے جانوں رمز جاں کو

عطا کر مجھ کو وہ پر سوز سجدہ

کہ وجد آئے زمین و آسماں کو

٭٭

بہت کاہل ہے یہ مرد تن آساں

ہوا کے دوش پر ہوں میں پریشاں

سحر جاوید کو سجدے میں دیکھا

کر اس کی صبح سے شب میری رخشاں

٭٭٭






۴

کشاد اس قوم کی چاہوں میں تم سے

یقین دل سے عاری شیخ جس کے

بہت نادیدنی میں دیکھ بیٹھا

مرا اے کاشکے مادر نہ زادے*

٭٭

نظر تیری عتاب آلود کب تک

بتان حاضر و موجود کب تک

رہے آل خلیل اس بتکدے میں

نمک پروردہ نمرود کب تک

٭٭

سرور رفتہ باز آئے نہ آئے

وہ خوشبوئے حجاز آئے نہ آئے

ہے اس درویش کا اب وقت رحلت

کوئی دانائے راز آئے نہ آئے

٭٭

* یہ مصرع شیخ سعدی کا ہے۔

اگر دانائے راز آئے کوئی تو

نوائے دلگداز اس کو عطا ہو

ضمیر امت کا کرتے ہیں یہی پاک

کلیم اللہ یا دانائے خوش گو

٭٭

مری دولت دل درد آشنا ہے

نصیب اپنا فغان نارسا ہے

گل لالہ کھلے مرقد پہ میرے

وہ خاموشی میں بھی خونیں نوا ہے

٭٭٭






۵

کسی کا ہاتھ سے دل لے نہ پائے

نہ غم سینے میں اس سے پالا جائے

دم اپنا تو نے اس مٹی میں پھونکا

جسے تن پروری میں موت آئے

٭٭

میرے سینے سے دل رم کر چکا ہے

نہ دیکھی روح، صورت میں پھنسا ہے

ہے بہتر ہم سے وہ مردود درگاہ

حق اس نے دیکھا ہے ہم نے سنا ہے

٭٭

نہ جانے جبرئیل اس ہا و ہو کو

نہ پہچانے مقام جستجو کو

ہمیں سے پوچھ اس کا لطف و لذت

کہ جانیں نیش و نوش آرزو کو

٭٭

شب دنیا کو رونق میں نے بخشی

مثال مہ گھٹا گردش سے اپنی

تغافل کے تھے شکوے سب کے لب پر

مگر میں اٹھ گیا محفل سے ان کی

٭٭

فلک نے کم یہ منظر دیکھا ہو گا

دل جبریل اس سے پارا پارا

عجب یہ بتکدہ ہے کہ یہاں پر

گھڑا کافر نے بت، مومن نے پوج

٭٭٭






۶

عطا کر شوق رومی، سوز خسرو

عطا کر صدق و اخلاص سنائی

ہوا ہوں بندگی کا خوگر اتنا

نہ لوں میں تو اگر بخشے خدائی

٭٭٭






۷

مسلماں فاقہ مست و خستہ جاں ہے

اٹھی جبریل کے دل سے فغاں ہے

نئی ملت بنائیں مل کے دونوں

کہ یہ ملت تو اب بار جہاں ہے

٭٭

نئی ملت جو کام آگے بڑھائے

جو زہر تلخ کو شیریں بنائے

نہ وہ جو مطمئن بس اک جہاں پر

دو عالم اپنے کاندھوں پر اٹھائے

٭٭

نئی ملت کہ ذکر لا الہ سے

نکالے صبح شب کے دل کی تہ سے

بنیں جاروب سورج کی شعاعیں

ہٹائیں کہکشاں کی ریت رہ سے

٭٭٭






۸

جہاں تیرا ہے نا اہلوں کے بس میں

گل و لالہ دبے ہیں خار و خس میں

ہنرور کارخانوں میں شب و روز

پسے جاتے ہیں عیش بوالہوس میں

٭٭

مرید فاقہ کش نے شیخ جی سے

کہا ’’یزداں کو کب میری خبر ہے

وہ ہے نزدیک تر شہ رگ سے لاریب

شکم سے پر کہاں نزدیک تر ہے‘‘

٭٭٭






۹

دگرگوں کشور ہندوستان ہے

دگرگوں یہ زمین و آسماں ہے

پڑھیں ہم کیا نماز پنچ گانہ

غلاموں کو صف آرائی گراں ہے

٭٭

بکا خوئے غلامی سے مسلماں

طلسم چشم و گوش اس کا ہے زنداں

ہیں محکومی سے تن میں یوں رگیں سست

کہ بار شرع و آئیں سے ڈرے جاں

٭٭٭






۱۰

نظر میں رکھ ذرا سود و زیاں کو

بہشت آسا ابد کر اس جہاں کو

نہیں تجھ کو خبر ہم خاکیوں نے

سجایا کس قدر اس خاکداں کو

٭٭

تو جانے، ہے حیات جاوداں کیا

نہ جانے کہ ہے مرگ ناگہاں کیا

ترے اوقات سے دم کم نہ ہو گا

جو ہو جاؤں امر اس میں زیاں کیا

٭٭٭






۱۱

جب اپنے خاتمے پر آئے دنیا

چھپی تقدیر سے اٹھے گا پردا

بچا شرمندگی سے پیش خواجہ ﷺ

حساب ان سے چھپا کر لینا میرا

٭٭

بدن واماندہ، جاں سر مست و بیدار

چلا بطحا سے ہو کر سوئے سرکار ﷺ

اٹھا تو خاصگلاں کا لطف صحبت

مجھے ہے آرزوئے منزل یار

٭٭٭






حضور رسالتﷺ

ادب گاہیت زیرِ آسماں از عرش نازک تر

نفس گم کردہ می آید جنیدؓ و با یزیدؓ اینجا

(عزت بخاری)






حضور رسالتﷺ

۱

’’الا یا خیمگی خیمہ فروہل

کہ پیش آہنگ بیروں شد زمنزل‘‘*

خرد ہے راندن محمل میں ناکام

تھما دی باگ میں نے در کف دل

٭٭

نظر رکھتا ہوں میں جوہر پہ دل کے

سکوں اور بے کلی ہیں دل کے جلوے

کیا رم شہر و قریہ کی فضا سے

ہوائے دشت میں در دل کے کھولے

٭٭

منوچہری کا شعر ہے ۔ خیمگی ۔ خیمہ نشیں ۔ فروہل ۔ چھوڑ دے۔

پیش آہنگ ۔ وہ شخص جو راہنمائی کی غرض سے آگے آگے چلتا ہے۔

شہید جلوہ کس کا دل ہے میرا

نصیب اس کو نہیں چین ایک پل کا

ہوا افسردہ تر صحرا میں جا کر

کنارہ آبجوئے خوب رویا

٭٭

عجب ہے کاروان جلوہ مستاں

نظر میں ہیچ ان کی ساز و ساماں

ہے آواز جرس سے شور جاں میں

صبا سے وجد میں جیسے نیستاں

٭٭

میں پیری میں سوئے یثرب چلا ہوں

لبوں پر ہے سرود عاشقانہ

کہ جیسے دشت میں طائر سرِ شام

اڑے آخر بسوئے آشیانہ

٭٭٭






۲

گناہ عشق و مستی ہو گیا عام

دلیلِ پختگاں اب ہو چکی خام

حجازی لے میں ہوں نغمہ سرا میں

’’بالاخر بھر گیا مے سے مرا جام‘‘

٭٭

مقامات نوا پوچھو نہ میرے

نہ جانیں یار میں آیا کہاں سے

ہوا خلوت نشیں صحرا میں جا کر

کہ تنہائی میں گاؤں تیرے نغمے

٭٭٭






۳

کہا ناقے سے کہ آہستہ تر چل

ہے راکب پیر خستہ اور بے دم

چلی وہ چال مستانہ کہ جیسے

ہو ریگ دشت اس کو نرم ریشم

٭٭

مہار اس کو نہ دے اے سارباں تو

ہے جاں اس کی مری مانند بیدار

مجھے موج خرام اس کی پتا دے

طلسم دل میں ہے وہ بھی گرفتار

٭٭

عیاں اشکوں کا نم چشم سیہ سے

ہے دل میں سوز آہ صبح گہ سے

وہ مے جس سے ضمیر اپنا ہے روشن

ٹپکتی ہے وہی موج نگہ سے

٭٭٭






۴

خوشا صحرا کہ اس میں قافلے سب

کریں ورد درود اور چلتے جائیں

چلو سجدہ کریں اس ریت پر ہم

جبیں اپنی جلا کر داغ پائیں

٭٭

عجب صحرا ہے، شامیں صبح جیسی

بڑے ہیں دن یہاں، راتیں ہیں چھوٹیں

قدم اے راہرو آہستہ رکھنا

ہے ہر ذرے کے دل میں درد مندی

٭٭٭






۵

یہ نغمہ گر تو ہم ایسا نہیں ہے

سرود اس کا عرب جیسا نہیں ہے

مگر یہ ہے کہ اس نغمے کے نم سے

بیاباں خشک اب ویسا نہیں ہے

٭٭

مقام عشق و مستی منزل اس کی

ہے تاباں سوز سے آب و گل اس کی

دلوں کو ساز گار اس کی نوا ہے

کہ ہر سینے میں ہے قاش دل اس کی

٭٭٭






۶

غم پنہاں کہے بن ہی عیاں ہے

زباں پر آئے تو اک داستاں ہے

ہے راہ پر پیچ، راہی خستہ و زار

چراغ اس کا بجھا، شب درمیاں ہے

٭٭

ہیں لالے رقص میں مثل نگاراں

ہوئے ہیں خیمہ زن صحرا میں یاراں

مگر بھائے مجھے خلوت نشینی

کنار آبجوئے کوہساراں

٭٭

کبھی شعر عراقی سے جواں ہوں

کبھی رومی سے میں آتش بجاں ہوں

نہ جانوں گرچہ آہنگ عرب میں

شریک نغمہ ہائے سارباں ہوں

٭٭

غم راہی نشاط آمیز تر کر

فغاں اس کی جنوں انگیز تر کر

تو لابنے راستے سے سارباں چل

مرا سوز جدائی تیز تر کر

٭٭٭






۷

ذرا اے ہم نفس آ مل کے رو لیں

جمال یار کو دل میں سمو لیں

مراد دل بیاں دو حرف میں ہو

قدم خواجہ ﷺ کے ہم اشکوں سے دھولیں

٭٭

حکیموں کی نہیں وقعت یہاں پر

بہار جلوہ ناداں کو میسر

زہے قسمت، زہے یہ بخت یاور

ہے وا درویش پر سلطان کا در

٭٭

جہان چار سو بر میں سمایا

ہوائے لا مکاں کا سر میں سودا

میں تیرے بام سے گزرا ہوں جب بھی

گری پرواز پر سے گرد آسا

٭٭

ہے اس وادی میں ایک دم جاودانی

کھلیں مٹی سے بے صورت معانی

حکیموں کی کلیموں سے ہے یاری

نہیں کہتا کوئی یاں ’’لن ترانی‘‘

٭٭٭






۸

مسلماں وہ فقیر کج کلا ہے

گیا سینے سے اس کے سوز آہے

دل اس کا روئے، کیوں روئے، نہ جانے

نگاہے یا رسول اللہ نگاہے

٭٭

وہ دل کیا جس میں تیرا غم نہیں ہے

نوا کیا، جس میں تیرا دم نہیں ہے

میں نالاں ہوں کہ اب ہندوستاں میں

کوئی بندہ، ترا محرم نہیں ہے

٭٭

شب ہندی غلاماں بے سحر ہے

ادھر سورج کا بھی کم ہی گزر ہے

کرم کی اک نظر ہم پر کہ ہم سے

مسلماں کب کوئی بے چارہ تر ہے

٭٭

کہوں کیا اس فقیر بے نوا کی

ہے فطرت ارجمند اس با صفا کی

بلندی سے گرا ہے پستیوں میں

خدایا کر مدد بے آسرا کی

٭٭

میں لاؤں لب پہ کیا احوال اس کا

عیاں ہے تم پہ سارا حال اس کا

یہی روداد دو صد سال کی ہے

ہے غرق خوں دل پامال اس کا

٭٭

فلک بے مہر ہے، دشمن زمیں ہے

کہیں ہے قافلہ، منزل کہیں ہے

ہے ساری زندگی بے نظم اس کی

امام اس قوم کا کوئی نہیں ہے

٭٭

ہے خون ناب تاب و تب سے خالی

ہے ویراں کشت لالے کی سواری

نیام اس کی تہی مانند کیسہ

کتاب اک طاق ویراں پر سنبھالی

٭٭

دل مسلم اسیر رنگ و بو ہے

کہاں اب ذوق و شوق آرزو ہے

نہ پہچانے صدائے شاہبازاں

نوائے پشہ کی اس درجہ خو ہے

٭٭

در دل بند اس پر ہو چکا ہے

کہ خاک اس کی خودی نا آشنا ہے

ضمیر اس کا تہی بانگ اذاں سے

حریم ذکر اس کا ڈھے گیا ہے

٭٭

نہ اس نے چاک دامن ہی سیا ہے

نہ سوز آرزو دل کو دیا ہے

ادھوری موت ہے اس کا مقدر

مسلماں جو بن ’’اللہ ہو‘‘ جیا ہے

٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید


0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

مجموعے

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔