02:59    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

مجموعہ سیہ شب کا سمندر

3047 1 0 20




سفید دن کی ہوا

منیر نیازی کی شاعری میں واضح طور پر دو جہتیں ملتی ہیں ۔ ایک جہت معنویت کی اور دوسری فضا کی ۔ آج جب بہت اہم ناقدین معنویت پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں اور زبان و لفظ کے رشتے کو باریک بینی سے دیکھ رہے ہیں ۔ منیر نیازی کی شاعری کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کہ ان کے کلام میں الفاظ معنی سے زیادہ علامتوں سے قریبی شکل میں استعمال ہوئے جنہیں سو میز نے نشان کہا ہے ۔ چنانچہ اس کتاب کا عنوان "سفید دن کی ہوا "اس بات کی تائید کر رہا ہے اور وہ مختصر نظم بھی جس سے یہ عنوان اخذ کیا گیا ہے ۔

سیاہ شب کا سمندر

سفید دن کی ہوا

اور ان قیود کے اندر

فریب ارض و سما

منیر نیازی کے ڈکشن ( Diction ) کی یہی خوبی ہے کہ ان کی شاعری میں معنی کے ساتھ ایک فضا بھی ملتی ہے۔ ایسی فضا جو پر اسرار حسین اور ایک خوابناک ہے جیسے کوئی خواب دیکھ رہا ہویا خود اپنے آپ سے کلام کر رہا ہو۔

کوئی آئے باغ میں اس طرح

کوئی دید جس طرح بہار میں

کوئی رنگ دار سحر اڑے

کسی گوشہ شب تار میں

کوئی یاد اس میں ہو اس طرح

کوئی رنج جیسے خمار میں

کوئی زندگی کسی خواب میں

کوئی کام کوچہ یار میں

(کار اصل زیست)

خواب دیکھنا اور خود سے کلا م کرنا انسانی فطرت کا ایسا حصہ ہے جس پر تاریخ اور سماجی و سیاسی حالات اثر انداز نہیں ہوتے ۔ ازل سے ہر انسان کی زندگی کا بڑا حصہ ان دو صورتوں میں گزرتا ہے ۔ خارجی منطقیت کی ابتداء بھی اسی صورت میں ہوتی ہیں ۔ یہی وجہ شاعر وجہ شاعر کی عظمت کو تسلیم کرواتی ہے۔

شاعر خارجی اثرات لے کر داخلیت کی طرف لوٹتا ہے اور جب یہ اثرات اس کی داخلیت میں جذب ہو کر اظہار پاتے ہیں تو خارجی اور داخلی کیفیت کا وہ امتزاج سامنے لاتے ہیں جس میں اس عہد کی حسیت جھلکی ہے ۔ تکنیک کے لبادے میں پوشیدہ یہ حسیت ہی شاعر کی حسیت کو تسلیم کرواتی ہے ۔ منیر نیازی کے یہاں یہ حسیت اتنی واضح ہے کہ ہمیں یہ عہد ان کی حسیت منسوب ہوتا نظر آ رہا ہے ۔

ایک عہد کو متاثر کرنا وہ بھی اس صدی میں جو Compilationکا عہد ہے اور ہر نسل ذہنی طور پر پچھلی نسل سے کہیں زیادہ توانائی پیدا ہو رہی ہے بڑی استقامت چاہتا ہے۔ ایک مسلسل توانائی جو تاثر کو ٹوٹنے نہ دے ۔خصوصاً شاعری میں جو عمل شعوری عمل نہیں ہے اس توانائی کو برقرار رکھنا بہت مشکل ہے ۔ منیر نیازی کے پہلے مجموعے "تیز ہوا اور تنہا پھول"سے اس نئے مجموعے تک ان کا سفر دیکھیے ۔

آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول

عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو

(تیز ہوا اور تنہا پھول)

ایک دریائے فنا ہے اس کی ہستی اے منیر

خاک اڑتی ہے وہاں پر جس جگہ بہتا ہے وہ

(سفید دن کی ہوا)

جنوری ۱۹۹۵ء میں جب ان کا پہلا مجموعہ چھپا تھا اور آج جب ۱۹۹۴ء کا نصف سال گزر چکا ہے شاعری کے گرتے ہوئے بتوں میں وہ اپنے پورے قدو قامت کے ساتھ اسی منفرد لہجے کو سنبھالے ہوئے کھڑے ہیں جو ان کی پہچان ہے ۔

منیر نیازی کی غزلوں کے بہت سے اشعار یاد رہ جاتے ہیں ۔ یہ خوبی تو غزل صنف میں ہے پر نظموں کا یاد رہ جانا حیرت ناک ہے ۔ منیر نیازی کی اکثر نظمیں ذہن پر نقش ہو جاتی ہیں اور جب یاد آتی ہیں تو اپنے پورے تاثر کے ساتھ ۔ ان کی نظموں میں لفظوں کی روانی کے ساتھ ساتھ گزرتے ہوئے منظروں کی روانی ہے جیسے کوئی فلم نظروں کے سامنے سے گزر رہی ہو جیسے کوئی سفر میں ہو اور کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھ رہا ہو۔ یہ پیرا یہ اظہار منیر نیازی نے لاشعوری طور پر اختیار کیا ہے شاید یہ انداز اس آنکھ سے بیرونی دنیا کے مشاہدے کی خوبی نے پیدا کیا ہے جسے قمر جمیل نے اندرونی آنکھ کہا ہے شاعر بیک وقت چیزوں کو انداز میں دیکھ رہا ہے ۔

تھکے لوگوں کو مجبوری میں چلتا دیکھ لیتا ہوں

میں بس کی کھڑکیوں میں سے یہ تماشے دیکھ لیتا ہوں

کبھی دل میں اداسی ہو تو ان میں جا نکلتا ہوں

پرانے دوستو کو چپ سے بیٹھا دیکھ لیتا ہوں

یہ تو پیرایہ اظہار کی بات تھی ۔ اب اس مجموعے میں ایک نظم دیکھئے ۔

اس کڑی مسافت میں

رہگزار آفت میں

اک طویل کنار عادت میں

بے شمار نسلوں کی

بے وفا وراثت میں

منتظر ہیں میرے بھی

ہم سفر کے بھی

(ایک وعدہ جو مجھ سے کیا گیا ہے )

منیر نیازی کی شاعری کو ان کی نسل اور بعد کی نسل دونوں نے محسوس کیا ہے ۔ ان کے لہجے میں ایک معصوم بچے کی حیرت ہے ۔یہ حیرت بہت سے سوالات ، آئندہ کے اندیشے ، گزرے دنو ں کے افشا ہوتے راز ، جو ہو رہا ہو وہ ، جو ہو نہ سکا وہ بھی ، غم و غصہ ، پیار و نفرت ، لا حاصلی کا احساس اور کچھ حاصل ہونے کی مسرت ، یہ تمام کیفیات ہمیں منیر نیازی کی شاعری میں خوبصورتی سے سمٹی نظر آتی ہیں جبھی انہیں بڑھ کر ایک سر خوشی کا حساس ہوتا ہے ۔

وہ سر خوشی جو بہت کم نصیب ہوتی ہے

فاطمہ حسن






وہ سامنے بھی آئے تو دیکھا نہ کر اسے

وہ سامنے بھی آئے تو دیکھا نہ کر اسے

گر وہ بچھڑ بھی جائے تو سوچا نہ کر اسے

اک بار جو گیا سو گیا بھول جا اسے

وہ گم شدہ خیال ہے پیدا نہ کر اسے

اب اس کی بات خالی ہے معنی سے اے منیر

کہنے دے جو وہ کہتا ہے روکا نہ کر اسے






ایک دور اُفتادہ پرانا قصبہ

اونچی اونچی دیواروں والے نیم آباد محلے

کی سنسان گلیوں ،

کم افراد والے کشادہ چوک سے نکل کر

دونوں اکٹھے چل رہی ہیں

بچہ ماں کی پناہ میں ہے

ماں بچے کی پناہ میں ہے

بچہ ماں کی طرف مسکرا کر دیکھتا ہے

ماں بچے کی طرف مسکرا کر دیکھتی ہے

اور دونوں آگے بڑھتے جاتے ہیں

سکول کی طرف ، بازار کی طرف

اور آگے کی سیر گاہوں کی طرف

ہر خوشی ہے الم کا رد عمل

ہر عمل ہے عمل کا رد عمل

ہر ستم ہے ستم کا رد عمل

میں کہ ہوں اپنے ہم کا رد عمل

اور کثرت ہے کم کا رد عمل

سود گیا ہے زیاں ہے کیا اے منیر

اک خوشی ایک غم کا رد عمل

کتاب عمر کا ایک اور باب ختم ہوا

شباب ختم ہوا اک عذاب ختم ہوا

ہوئی نجات سفر میں فریب صحرا سے

سراب ختم ہوا اضطراب ختم ہوا

برس کے کھل گیا بادل ہوائے شب کی طرح

فلک پہ برق کا وہ بیچ و تاب ختم ہوا

جو اب دہ نہ رہا میں کسی کے آگے منیر

وہ اک سوال اور اس کا جواب ختم ہوا

سپنے بھیجے اور جگہ پر

آنکھیں رکھ لیں پاس






عبادت کا ایک اور رخ

عبادت کا ایک ذریعہ ہے

برے وقتوں میں

پوشیدہ روپوش واپس اسرار رہنے کا

*






کوئی اک عمر خوشیوں کی بہت ہی دوری ہے اس کو

سراپا دشت ہے لیکن چمن مستور ہے اس کو

کوئی مخفی حقیقت ہے بظاہر ابتر عالم میں

کوئی پوشیدہ نظارہ ہے جو مجبور ہے اس میں

خواب میں دیکھو اسے اور شہر میں ڈھونڈو اسے

وقفے وقفے سے رونق میں بیٹھے دیکھنا

مختلف لوگوں ، گھروں میں چلتے پھرتے دیکھنا

اس کی آنکھوں میں محبت کو دمکتے دیکھنا

دیکھ کر اس کو بچھڑ جانا ہجوم شہر میں

اور اک منظر میں پھر اس کو گزرتے دیکھنا

**

ہم ہیں مثال ابر مگر اس ہوا سے ہم

ڈر کت سمٹ ہی جائیں گے ایسے بھی ہم نہیں






خزاں ایک بہار رنگ موسم ہے

درختوں سے پتے جھڑ رہے ہیں

کبھی ایک کر کے ہوا کے مطابق

کبھی اچانک بے شمار ہوا کے مطابق

خزاں کے بہاروں میں خوب دلکشی ہے

وسوسوں اور وہموں سے بھری ہوئی

اور آوارہ خیالی اور اکساہٹوں سے بھری ہوئی

اور بے شمار خوشیوں سے بھری ہوئی

درختوں سے پتے جھڑ رہے ہیں

کبھی ایک کر کے______






ایک وعدہ جو مجھ سے کیا گیا ہے

اس کڑی مسافت میں

راہگزار آفت میں

اک طویل نفرت کی

بے کنار عادت میں

بے شمار نسلوں کی

بے وفا وراثت میں

منتظر ہیں میرے بھی

میرے ہم سفر کے بھی

ایک دن مسرت کا

ایک شب محبت کی

اک مقام راحت کا

اک فضا حفاظت کی

اک خیال دائم کا

ایک سوچ ثابت کا

آخر میں ہر تلاش کے جو قصر بند ہے

مجھ کو اسی کے راز میں جانا پسند ہے

اک خیال خام میں مسحور کر رکھا مجھے

خود پرستی نے جہاں سے دور کر رکھا مجھے

بے سبب تھا اس جگہ پر وہ قیام سرسری

پر تھکن نے اس جگہ مجبور کر رکھا مجھے

خامشی سے دیر تک اس حسن کا تکنا مجھے

دیر تک اس یاد نے رنجور کر رکھا مجھے

تیرگی اطراف میں بیحد تھی لیکن اے منیر

سحر غم نے اس میں مثل نور کر رکھا مجھے

تِرا ہونا ضروری تھا نہ ہونا بھی ضروری تھا

کسی بھی یاد کا ہستی میں ہونا بھی ضروری تھا

کہاں تک سوچتے رہتے اسے شام غریباں میں

تھکن اتنی سفر کی کہ سونا بھی ضروری تھا






دھُند ہے اور شہر ہے اور خواب ہے

بڑھتی جاتی دھند ہے اور اس کے پیچھے شہر ہے

بڑھتی جاتی دھند ہے اور اس کے پیچھے شام ہے

بڑھتی جاتی دھند میں بازار ہیں اور خواب ہے

بڑھتی جاتی دھند ہے اور اس میں بوئے آب ہے

بڑھتی جاتی دھند ہے اور شہر دلارام ہے

دھندلے دھندلے لوگ ہیں اور باغ ہیں اور شام ہے

اور ان قیود کے اندر فریب ارض و سما

سیاہ شب کا سمندر

سفید دن کی ہوا

راحتیں جتنی بھی ہیں سب مشکلوں کے دم سے ہیں

زندگی میں جو بھی سکھ ہیں خواہشوں کے دم سے ہیں

شہر کا تبدیل ہونا ، شاد رہنا اور اداس

رونقیں جتنی یہاں ہیں عورتوں کے دم سے ہیں

منزلیں آسماں بہت تنہا سفر کرنے سے ہیں

رنج ہیں جتنے سفر میں ہم دموں کے دم سے ہیں

ایک بستی کی حفاظت خوف میں رہنے سے ہے

اور اس کے جشن دل کی وحشتوں کے دم سے ہیں

باغ ، جنگل ، خوشنما بیلیں مکانوں پر منیر

اس زمیں پر رنگ سارے پانیوں کے دم سے ہیں

کس طرف جانا ہے مجھ کو کون سا رستہ ہے وہ

کتنی سمتوں رو رہا ہے کس طرف ہنستا ہے وہ

منزل موہوم ہے اور خواب ہیں چاروں طرف

کتنے پردوں سے پرے ہے کس جگہ رہتا ہے وہ

میں سمجھ بھی پاؤں گا اس کی زباں ، گر مل گیا

کیا چھپا ہے اس کے اندر اور کیا کہتا ہے وہ

مشکلوں سے دور ہے اپنے مکان دور میں

یا ہماری ہی طرح کی مشکلیں سہتا ہے وہ

ایک دریائے فنا ہے اس کی ہستی اے منیر

خاک اڑتی ہے وہاں پر جس جگہ بہتا ہے وہ

سحر کے خواب کا مجھ پر اثر کچھ دیر رہنے دو

کسی کے حال کی مجھ کو خبر کچھ دیر رہنے دو

جڑے ہیں ان سے نادیدہ پرانے بام و دروازے

نئے شہروں میں یہ ویران گھر کچھ دیر رہنے دو

کہیں گزرے ہوئے ایام پھر واپس نہ آ جائیں

دل بے خوف میں اس کا خطر کچھ دیر رہنے دو

صبا کس رنگ سے باغوں میں چلتی سیر کرتی ہے

اسے اس اپنی دھن میں بے خبر کچھ دیر رہنے دو

منیر اس عالم روشن میں رہنا اور خوش رہنا

ابھی اس دن سے آگے کا سفر کچھ دیر رہنے دو

ہمیشہ ایک ہی عالم میں ہونا ہو نہیں سکتا

مسلسل کا کہیں آ کر بدلنا بھی ضروری تھا

شب باراں میں کھو جاتا مکان یار نظروں سے

وہ برق شب کا اس در پر چمکنا بھی ضروری تھا






اور میرے آس پاس خواب کی کیفیت ہے

سارے آسمان پر بادل چھائے ہیں

مجھے اپنا گھر بھول گیا ہے

میں گھر سے باہر ضرورت کی کوئی چیز لینے کے لیے نکلا تھا

گھر سے باہر نکلنے کے بعد مجھے اپنا گھر بھول گیا ہے

اب میں اسے تلاش کر رہا ہوں

اسے کیسے تلاش کروں

اکّا دکّا کوئی درخت ،

کبھی کبھی ، کہیں کہیں کو شناسا چہرہ،

اور دور دراز میں کہیں کوئی مانوس عمارت _______

سمجھ میں نہیں آتا

ایسے نامکمل نشانوں کی معرفت اپنے گھر تک کیسے پہنچوں گا

میرے آس پاس خواب کی کیفیت ہے

اور میرا دل گھر واپس جانے کو چاہتا ہے






بے شمار آبادیاں ہیں

کون سا مہتاب ہے یہ کس جگہ کی چاندنی

کس زمانے کی ہوا ہے کس جہاں کی زندگی

بے شمار آبادیوں میں کس کے یہ آثار ہیں

ہے رفاقت میں مری کس خواب کی آوارگی






کار اصل زیست

کوئی آئے باغ میں اس طرح

کوئی دید جیسے بہار میں

کوئی رنگ دار سحر اڑے

کسی گوشۂ شب تار میں

کوئی یاد اس میں ہو اس طرح

کوئی رنج جیسے خمار میں

کوئی زندگی کسی خواب میں

کوئی کام کوچۂ یار میں

کاسنی ریشم میں جسم یار کی یہ جگمگاہٹ دیکھ کر

خوش ہو اے دل بادلوں میں بجلیوں کی مسکراہٹ دیکھ کر






بھیروں

ایک ہی سرکی دو شکلیں ہیں

جینے کی بھی مرنے کی بھی

دکھ بھی ہو اس سر کو سن کر

خوشی سی جی کو مرنے کی بھی

ملنے کی بھی گھڑی

بین فراق میں کرنے کی بھی

حجاب حسن میں یہ بے حجابی کس طرح آئی

چمن کے رنگ و بو میں یہ خرابی کس طرح آئی

جگمگ جگمگ کرتی آنکھیں

ہنستی باتیں کرتی آنکھیں

شاید مجھ کو ڈھونڈ رہی ہیں

چاروں جانب تکتی آنکھیں

اصل میں یہ بے خوف بہت ہیں

ظاہر میں یہ ڈرتی آنکھیں

پل میں خوشی سے بھر جاتی ہیں

پل میں آہیں بھرتی آنکھیں

یار منیر چلو پھر دیکھیں

روز اک وعدہ کرتی آنکھیں






یہ ہمارا گھر

یہ ہمارا گھر ہے ساتھی یا خوشی کا باغ ہے

یہ کئی رشتوں کی باہم دوستی کا باغ ہے

شام جب آتی ہے اپنے گھر کے صحن و بام پر

جگمگا اٹھتا ہے دل قدرت کے اس انعام پر

جیسے یہ آنگن ہمارا روشنی کا باغ ہے

اک جزیرہ سا ہے یہ بحر جہاں کے درمیاں

مسکراہٹ روح کی آہ و فغاں کے درمیاں

وقت کی بے چینیوں میں پر سکوں احساس ہے

اجنبی بستی میں کوئی اپنا جیسے پاس ہے

عمر کے باغ ہر دور میں اک تازگی کا باغ ہے رات کے آخر پہ صبح زندگی کا باغ ہے

یہ منظر ایک جیسا ہے جہاں تک دیکھتے جائے

دنیا ایک جیسی ہے جہاں تک سوچتے جائے

**

جب میں اُٹھا تو ساتھ اٹھا لاجواب دن

جب میں چلا تو ساتھ چلا مرے خواب دن

آج اس کے ساتھ کیسے یہ پل میں گزر گیا

گانے سے کل جو کٹتا نہ تھا بے حساب دن

وہ جس کو میں سمجھتا رہا کامیاب دن

وہ دن تھا میری عمر کا سب سے خراب دن

دنیا کو چھوڑ دینا کسی خواب کے لیے

جس خواب سے پرے تھا کوئی اور خواب دن

روشن تھی رات اس رخ روشن سے اے منیر

پھر اس کی روشنی سے ہوا آفتاب دن






کتاب کو بھی خبر ہوتی ہے

اسے کون پڑھ رہا ہے

خراب نظروں سے وہ اپنا اصل باب چھپا جاتی ہے

عورت کو بھی خبر ہوتی ہے

اسے کون دیکھ رہا ہے

خراب نظروں سے وہ اپنا اصل آپ چھپا رہی ہے






ملتے جلتے زمانے

شام تھی اور شام کے دوران یہ سب کچھ ہوا

دائیں جانب بیٹھے میرے دوست نے مجھ سے کہا

"بائیں جانب دیکھنا ، منظر ہے کیسا دلربا "

گہری ہوتی جا رہی اس شام میں اس شہر کے آغاز کا

جا بجا روشن نشانوں سے مزین اک سیہ کہسار سا

میں نے یہ پہلے بھی دیکھا تھا یہی منظر

کہیں پہلے پرانے خواب میں

منزلوں پر منزلیں آبادیوں کی،

اور ان میں

جا بجا روشن دیے

میں نے اپنے دوست سے،

اس سلسلے میں اور کچھ باتیں نہ کہیں

بس یونہی خاموش بیٹھا

اس پرانے خواب کو تکتا رہا

کتنا چلتے اور

کتنا تھکتے اور

منزل آخر مل ہی جاتی

آس اک رکھتے اور

اس بستی میں جو کچھ دیکھا

دیکھ نہ سکتے اور

ایک بھی خواب جو پورا ہوتا

خواب نہ تکتے اور

ملتے جلتے زمانے

شام تھی اور شام کے دوران یہ سب کچھ ہوا

دائیں جانب بیٹھے میرے دوست نے مجھ سے کہا

"بائیں جانب دیکھنا ، منظر ہے کیسا دلربا "

گہری ہوتی جا رہی اس شام میں اس شہر کے آغاز کا

جا بجا روشن نشانوں سے مزین اک سیہ کہسار سا

میں نے یہ پہلے بھی دیکھا تھا یہی منظر

کہیں پہلے پرانے خواب میں

منزلوں پر منزلیں آبادیوں کی،

اور ان میں

جا بجا روشن دیے

میں نے اپنے دوست سے،

اس سلسلے میں اور کچھ باتیں نہ کہیں

بس یونہی خاموش بیٹھا

اس پرانے خواب کو تکتا رہا

کتنا چلتے اور

کتنا تھکتے اور

منزل آخر مل ہی جاتی

آس اک رکھتے اور

اس بستی میں جو کچھ دیکھا

دیکھ نہ سکتے اور

ایک بھی خواب جو پورا ہوتا

خواب نہ تکتے اور

ملتے جلتے زمانے






متجسس آنکھیں ہیں

خموشی ، چپ کسی آباد سو رہے محلے میں

اور متجسس دل میں

کتنی تعمیروں کے خواب ہیں

اور پر شوق آنکھوں میں

کتنے چہروں کے خواب ہیں

مجھے پہنچا ہے منزلوں پر لگن ہے اتنی

قدم اٹھانا مجھ کو مشکل تھکن ہے اتنی

ہرے شجر تھے یہاں پہ ، میں نے جو خواب دیکھا

چمن، یہ جس کے اجاڑ بن کی چبھن ہے اتنی

ہزاروں میلوں پہ رہ گئے ہیں وہ شہر سارے

وہ جن کی یادوں کی دل کے اندر جلن ہے اتنی

منیر توبہ کی شام ہے پر بہت بے چین دل ہمارا

گھٹا کی رنگت فلک پہ توبہ شکن ہے اتنی






فجر کے وقت کی اداسی

چاند میرے گھر کی دیوار پر

اس کے آگے جامن کے پتے

اس کے پیچھے اذانوں کی صدائیں

اور وہ کوئٹے جانے والی گاڑی میں

اپنے خیالوں میں کھوئی ہوئی________






خدا سے زیادہ خدا کی مخلوق کا ڈر

ایک بات ہے دل کے اندر

جو باہر نہیں آتی

یاد نہ رکھنا چاہوں اس کو

پر بھولی نہیں جاتی

کافر کہیں نہ سمجھیں مجھ کو ، دنیا سے ہوں ڈرتا

اسی خوف سے دل کی بات نہیں دنیا سے کرتا






ایک پکی رات

گھر کی دیواروں پر دیکھوں چھینٹیں لال پھوار کی ہیں

آدھی رات کو در بجتے ہیں ڈائینیں چیخیں مارتی ہیں

سانپ کی شوکر گونجے جیسے باتیں گہرے پیار کی ہیں

ادھر ادھر چھپ چھپ کر ہنستیں شکلیں شہر سے پار کی ہیں

روحیں جیسے پاس سے گزریں ، مہکیں باسی ہار کی ہیں

گورستان کی راہ دکھاتی، کوکیں پہرے دار کی ہیں






شور عکس انگیز ہے

بغاوت دل میں ہے اور سامنے برہم خموشی ہے

بہت رنگینیاں پردے میں ہیں پر سامنے پیہم خموشی ہے

بہت بے چینیاں دنیا میں ہیں اور سامنے مہم خموشی ہے






تیری تلاش میں یوں تو کہاں کہاں نہ گئے

جہاں پہ جانا تھا ہم کو مگر وہاں نہ گئے

رفتہ رفتہ بھول گئے اسے جتنا یاد کیا






سندری ایک درخت ہے جس پر کوئی طائر نہیں بیٹھتا

سندریاں ہی سندریاں تھیں

سندر بن میں دور تک

ایک بڑے دریا سے لے کر

اک سمت مستور تک

ایک ادا جو میں نے دیکھی

سندریوں کی خاموشی کے

بہت ہرے اسرار میں

جس پر شام اتری تھی جیسے

سیاہی سرخ غبار میں

اک طائر بھی وہاں نہیں تھا

انبوہ اشجار میں

بوندا باندی میں کسی گھنے شجر تلے

زمانے کو بھول کر،

بیٹھ کر سوچنے کی گھڑی ہے

اور دروازے پر ہو رہی دستک کا جواب دینا ہے مجھے

چلو اپنی محفل سجائیں ذرا

زمانے کے غم کو بھلائیں ذرا

اکیلے بہت ہیں جو اس زیست میں

انہیں پاس اپنے بلائیں ذرا

کسی خواب میں ہے حقیقت کوئی

اس اک خواب کو دیکھ آئیں ذرا

کوئی کام ہم کو بھی در پیش ہے

جھلک اس کی پھر دیکھ آئیں ذرا

وہ جو اپنا یار تھا دیر کا کسی اور شہر میں جا بسا

کوئی شخص اس کے مکان میں کسی اور شہر کا آ بسا

یہی آنا جانا ہے زندگی ، کہیں دوستی کہیں اجنبی

یہی رشتہ کار حیات ہے کبھی قرب کا کبھی دور کا

ملے اس میں لوگ رواں دواں کوئی بے وفا کوئی با وفا

کٹی عمر یہاں وہاں کہیں دل لگا کہ نہیں لگا

کوئی خواب ایسا بھی ہے یہاں جسے دیکھ سکتے ہوں دیر تک

کسی دائمی شب وصل کا کسی مستقل غم یار کا

وہ جو اس جہاں سے گزر گئے کسی اور شہر میں زندہ ہیں

کوئی ایسا شہر ضرور ہے انہی دوستوں سے بھرا ہوا

یونہی ہم منیر پڑے رہے کسی اک مکاں کی پناہ میں

کہ نکل کے ایک پناہ سے کہیں اور جانے کا دم نہ تھا






بے رنگ زیست میں حسن اتفاقات

کسی نیم باز سے شہر میں

کسی ایسی شکل کو دیکھنا

جسے یاد کرتے تھے ہم کبھی

کبھی خود پرستوں کے درمیاں

کسی محفل شب شہر میں

کسی ایسی شکل کو دیکھنا

جسے دیکھنا تھا ہمیں کبھی

سر صبح ، ابر بہار میں

وہ جھلک سی برق بہار کی

سر بام دامن یار سی

جو میرے خیال میں تھی کہیں

کہیں ایک ایسے مقام پر

جو ہے دور سب کی نگاہ سے

کوئی زخم دل کی پکار ہے

جو سنی نہیں ہے کسی نے بھی






یہی واقعات ہیں کچھ یہاں

بڑے مختصر ، بڑے دیر پا

کہ اثر سے جن کے بھری رہی

یہ بغیر معنی کی زندگی






کسی سوچے ہوئے کو ملنا نیند میں

نیند میں چلتے ہوئے

شہروں مکانوں اور پہاڑوں اور زمانوں سے گزر کر

وسعت حیراں میں رک کر

اس کو دیکھیں

کیا ہے وہ________

دیکھنا، ملنا اسے اور دیر تک ملتے ہی رہنا

نیند میں رک کر اسے

جاگنے سے خوب ہے ملنا اسے

اور ساتھ رہنا نیند میں _________






ایک امت کے گزرنے کے بعد کا وقت عہد جو دھندلا گیا،

اک چاند جو گہنا گیا،

وہ ساتھ اپنے لے گیا،

اپنی ردائے دل کشا،

رستے دکھاتی روشنی،

گہری کشش موجود کی،

ہونے کی مستی سے بھرے،

رشتے گمان و لمس کے،

اب اصل تو باقی نہیں،

اس کا یقیں باقی نہیں،

اک نقل جیسے اس کی ہے،

بے روح جیسی کوئی شے،

یہ درمیاں کے سلسلے،

الجھے ہوئے حیرت کدے،

ٹوٹی ہوئی رنگینیاں،

بگڑی ہوئی رعنائیاں،

آنے سے پہلے خواب کے،

کھلنے سے پہلے باب کے،

بڑھتی ہوئی بے چینیاں،

بڑھتی ہوئی تنہائیاں۔۔۔

وہ دل کی باتیں زمانے بھر کو یہ یوں سناتا ، مجھے بتاتا

وہ اک دفعہ تو میری محبت کو آزماتا ، مجھے بتاتا

زبانِ خلقت سے جانے کیا کیا وہ مجھ کو باور کرا رہا ہے

کسی بہانے انا کی دیوار گراتا ، مجھے بتاتا

زمانے والوں کو کیا پڑی ہے سنیں جو حال دل شکستہ

مگر میری تو یہ آرزو تھی مجھے چلاتا ، مجھے بتاتا

مجھے خبر تھی کہ چپکے چپکے اندھیرے اس کو نگل رہے ہیں

میں اس کی راہ میں اپنے دلا کا دیا جلاتا ، مجھے بتاتا

منیر اس نے ستم کیا کہ شہر چھوڑ دیا خامشی کے ساتھ

میں اس کی خاطر یہ دنیا چھوڑ جاتا ، مجھے بتاتا






ایک پرانی ریت

جو بھی گھر سے جاتا ہے

یہ کہہ کر ہی جا تا ہے

’’ دیکھوں، مجھ کو بھول نہ جانا

میں پھر لوٹ کے آؤں گا

دل کو اچھے لگنے والے

لاکھوں تحفے لاؤں گا

نئے نئے لوگوں کی باتیں

آ کر تمھیں سناؤں گا ‘‘

لیکن آنکھیں تھک جاتی ہیں

وہ واپس نہیں آتا ہے

لوگ بہت ہیں اور وہ اکیلا

ان میں گم ہو جاتا ہے






پہلی بات ہی آخری تھی

پہلی بات ہی آخری تھی

اس سے آگے بڑھی نہیں

ڈری ہوئی کوئی بیل تھی جیسے

پورے گھر پہ چڑھی نہیں

ڈر ہی کیا تھا کہہ دینے میں

کھل کر بات جو دل میں تھی

آس پاس کوئی اور نہیں تھا

شام تھی نئی محبت کی

ایک جھجک سی ساتھ رہی کیوں

قرب کی ساعتِ حیراں میں

حد سے آگے بڑھنے کی

پھیل کے اس تک جانے کی

اس کے گھر پر چڑھنے کی

***

پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید


0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

براہ راست 2 تبصرے

ڈاکٹر بدر منیر
اپ نے جو منیر نیازی کا کلام پیش کیا ہے۔اس میں شامل غزل: وہ دل کی باتیں زمانے بھر کرو نہ یوں سناتا مجھے بتاتا مینر نیازی کی نہیں میری تخلیق ہے ۔یہ میرے شعری مجموعے "مجھے پلکیں جھپکنے دو"میں شامل ہے۔یہ ریختہ پر بھی میرے کلام میں موجود ہے۔
M Adnan
کتنا مشکل لگتا ہے نہ دن بھر کی مصروفیات کے بعد تن تنہا اپنے بستر پر لیٹ کر آنکھیں بند کرکے کسی کی تلخ باتوں کو بھلانے کی کوشش کرنا

مجموعے

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔