آج کی رات یہ کیوں جمع ہیں احباب بہم
بھیڑ کیا ہے نظر آتا ہے یہ کیسا عالم
نوجوانان ہنر پرور و ارباب ہمم
جوق کے جوق چلے آتے ہیں کیسے پیہم
کچھ سمجھ میں نہیں آتا جو سب سمجھے ہیں
شاید اس بزم کو یہ بزم طرب سمجھے ہیں
ہے گمان ان کو کہ آیا ہے تھئیٹر کوئی
یا کہ اس سے بھی تماشا ہے یہ بڑھ کر کوئی
اس سبھا میں بھی نظر آئے گا اندر کوئی
مسخرہ بن کے بھی آئے گا مقرر کوئی
نقل وہ ہو گی کہ دیکھی نہ سنی ہو گی کبھی
سیر وہ آج کریں گے کہ نہ کی ہو گی کبھی
کوئی کہتا ہے تھیٹر تو نہیں ہے لیکن
ساز و نغمہ بھی نہ ہو ساتھ نہیں ہے ممکن
راتیں کاٹی ہیں اسی شوق میں تارے گن گن
دیکھیں کیا سیر دکھائیں یہ بزرگان مِسن
کچھ نہ کچھ تازہ کرامات تو ہو گی آخر
بوڑھے غمزوں میں کوئی بات تو ہو گی آخر
دوستو کیا تمہیں سچ مچ ہے تھیئٹر کا یقین
کیا یہ سمجھے تھے کہ پردہ کوئی ہو گا رنگین
نظر آئے گی جو سوئی ہوئی اک زہرہ جبین
آئے گا پھول کے لینے کو ارم کا گلچین
قوم کی بزم کو یوں کھیل تماشا سمجھے
ہائے گر آپ یہ سمجھے بھی تو بیجا سمجھے
ہائے افسوس کہ ہو قوم تو یوں خستہ و زار
مرض الموت میں جس طرح سے کوئی بیمار
نہ معالج ہو کوئی پاس نہ سر پر غمخوار
نظر آتے ہوں دم نزع کے سارے آثار
واں تو یہ حال کہ مرنے بھی کچھ دیر نہیں
آپ ادھر سیر تماشے سے ابھی سیر نہیں
نوحہ غم ہے، یہاں نغمہ عشرت کیسا
ہے یہ عبر کا سماں جوش مسرت کیسا
ہے جنوں خیز یہ ہنگامہ عبرت کیسا
قوم کا حال ہے غفلت کی بدولت کیسا
ہے عجب سیر اگر دیدہ بینا دیکھے
دیکھنا ہو جسے عبرت کا تماشا دیکھے
ہائے کیا سین ہے یہ بھی کہ گر وہ شرفا
صاحب افسر و اورنگ تھے جن کے آبا
قوم کے عقدہ مشکل کے ہیں جو عقدہ کشا
ایکٹر بن کے وہ اسٹیج پر ہیں جلوہ نما
قوم کے خوابِ پریشاں کی یہ تعبیریں ہیں
ایکٹر یہ نہیں عبرت کی یہ تصویریں ہیں
بانی مدرسہ وہ سید والا گوہر
وہ مینیجنگ کمیٹی کے معزز ممبر
شبلی غمزدہ وہ شاعر اعجاز اثر
اور یہ نو بادہ اقبال کے سب برگ و ثمر
نہ تکلیف کے کچھ انداز نہ کچھ جاہ کی شان
بزم میں آئے ہیں اس حال سے اللہ کی شان
اپنے رتبوں کا نہ کچھ دھیان نہ کچھ وضع کا پاس
دوستوں سے نہ جھجک اور نہ دشمن سے ہراس
گرچہ سب کہتے ہیں حاصل نہیں کچھ بھی جز یاس
ہائے کیا دھن ہے کہ پھر بھی تو نہیں ٹوٹتی آس
غرض مطلب کی ہے تصویر سراپا ان کا
ہاتھ خود کاسہ دریوزہ ہے گویا اُن کا
ان کا ہر لفظ ہے اک مرثیہ جاں فرسا
قوم کی شان دکھا دیتی ہے ایک ایک ادا
دیکھ اے قوم جو اب تک نہ تھا تو نے دیکھا
اپنے بگڑے ہوئے انداز کا پورا خاکا
گرچہ تدبیر بھی ہم سے نہیں کچھ کی جاتی
ہائے حالت بھی تو تیری نہیں دیکھی جاتی
یوں بھلانے کو تو ہم دل سے بھلاتے ہیں مگر
یاد آ جاتے ہیں پھر بھی ترے اگلے جوہر
وہ بھی اک دن تھا کہ جس سمت سے ہوتا تھا گذر
ساتھ چلتے تھے جلو میں ترے اقبال و ظفر
تو کبھی روم میں قیصر کو مٹا کر آئی
کبھی یورپ میں نئے فتنے اٹھا کر آئی
تھے نقیبوں میں ترے دولت و اقبال و حشم
ترے حملوں سے دہل جاتا تھا سارا عالم
ایشیا کو جو کیا تو نے مرقع برہم
جا کے یورپ کے افق پر بھی اڑایا پرچم
کر دیا دفتر ِ تاتار کو ابتر تو نے
نیزہ گاڑا تھا جگر گاہ تتر پر تو نے
کون تھا جس نے فارس و یوناں تاراج
کس کی آمد میں فدا کر دیا جیپال نے راج
کس کو کسریٰ نے دیا تخت و زر وافر و تاج
کس کے دربار میں تاتار سے آتا تھا خراج
تجھ پہ اے قوم اثر کرتا ہے افسوں جن کا
یہ وہی تھے کہ رگوں میں ہے ترے خوں جن کا
ہم نے مانا بھی کہ دل سے بھلا دیں قصے
یہ سمجھ لیں کہ ہم ایسے ہی تھے اب ہیں جیسے
یہ بھی منظور ہے ہم کو کہ ہمارے بچے
دیکھنے پائیں نہ تاریخ عرب کے صفحے
کبھی نہ بھولے بھی سلف کو نہ کریں یاد اگر
یادگاروں کو زمانے سے مٹا دیں کیونکر
مردہ شیراز و صفاہان کے وہ زیبا منظر
بیت حمرا کے وہ ایوان وہ دیوار وہ در
مصر و غرناطہ و بغداد کا ایک ایک پتھر
اور وہ دہلی مرحوم کے بوسیدہ کھنڈر
ان کے ذروں میں چمکتے ہیں وہ جوہر اب تک
داستانیں انہیں سب یاد ہیں ازبر اب تک
ان سے سن کے کوئی افسانہ یارانِ وطن
یہ دکھا دیتی ہیں آنکھوں کو وہی خواب کہن
تیرے ہی نام کا اے یہ گاتے ہیں بھجن
تیرے ہی نغمہ پُر درد کے ہیں یہ ارگن
پوچھتا ہے جو کوئی ان سے نشانی تیری
یہ سنا دیتے ہیں سب رام کہانی تیری
٭٭٭
وارثِ عدل پیمبر عمر ابن الخطاب
ہیچ تھی جن کے لئے منزلت تاج و سریر
مجمع عام میں لوگوں سے انہوں نے یہ کہا
مَہر باندھو نہ زیادہ کہ ہے یہ بھی تبذیر
جس قدر تم کو ہو مقدور وہیں تک باندھو
حکم یہ عام ہے سب کو امرا ہوں کہ فقیر
ایک بڑھیا نے وہیں ٹوک کے فورا یہ کہا
تجھ کو کیا حق ہے جو کرتا ہے ایسی تقریر
صاف قرآن میں قنطار کا لفظ آیا ہے
تجھ کو کیا حق ہے کہ اس لفظ کی کر دے تغییر
لاکھ تک بھی ہو تو کہہ سکتے ہیں اس کو قنطار
تھا یہ اک وزن کہ اس وزن کی یہ ہے تعبیر
سرنگوں ہو کے کہا حضرت فاروق نے آہ
میں نہ تھا اس سے جو واقف تو یہ میری تقصیر
٭٭٭
دیکھ کر حریتِ فکر کا یہ دورِ جدید
سوچتا ہوں کہ یہ آئین خرد ہے کہ نہیں
رہنماؤں کی یہ تحقیر یہ انداز کلام
اس میں کچھ شائبہ رشک و حسد ہے کہ نہیں
اعتراضات کا انبار جو آتا ہے نظر
اس میں کچھ قابل تسلیم و سند ہے کہ نہیں
نکتہ چینی کا یہ انداز یہ آئین سخن
بزم تہذیب میں مستوجب رد ہے کہ نہیں
جس نئی راہ میں ہیں بادیہ پیما یہ لوگ
گو اس جادہ مشکل کا بلد ہے کہ نہیں
شاعروں نے جو نئی بچھائی ہے بساط
اس میں ان پر بھی کہیں سے کوئی زد ہے کہ نہیں
پہلے گر شانِ غلامی تھی تو اب خیرہ سری
اس دوراہے میں کوئی پیچ کی حد ہے کہ نہیں
فیصلہ کرنے سے پہلے میں ذرا دیکھ تو لوں
"جزر" جیسا تھا اسی زور کا "مد" ہے کہ نہیں
٭٭٭
لیگ کے عظمت و جبروت سے انکار نہیں
ملک میں غلغلہ ہے شور ہے کہرام بھی ہے
ہے گورنمنٹ کی بھی اس پہ عنایت کی نگاہ
نظر لطف رئیسانِ خوش انجام بھی ہے
کون ہے جو نہیں اس حلقہ قومی کا اسیر
اس میں زہاد بھی ہیں رند مے آشام بھی ہے
فیض ہے اس کا باندازۂ طالب یعنی
بادۂ صاف بھی ہے دزدِ تہہِ جام بھی ہے
کعبہ قوم جو کہتے ہیں بجا کہتے ہیں
مرجع خاص ہے یہ قبلہ گہ عام بھی ہے
پختہ کاروں کے لئے آلہ تسخیر ہے یہ
نوجوانوں کو صلائے طمع خام بھی ہے
رہنمایانِ نوآموز کا ہے مکتب و درس
زینہ فخر و نمائش گرمی عام بھی ہے
جن مہمات میں درکار ہے اشیاء نفوس
ان میں طرزِ عمل بوسہ و پیغام بھی ہے
صدمۂ مشہد و تبریز سے آنکھیں ہیں پر آب
دل میں غمخواری ترکانِ نکو نام بھی ہے
مختصر اس کے فضائل کوئی پوچھے تو یہ ہیں
محن قوم بھی ہے خادم حکام بھی ہے
ربط ہے اسکو گورنمنٹ سے بھی ملک سے بھی
جس طرح "صرف" میں ایک قاعدہ ادغام بھی ہے
اس کے آفس میں بھی ہر طرح کا سامان ہے درست
ورق سادہ بھی ہے کلکِ خوش اندام بھی ہے
ہیں قرینے سے سجائی ہوئی میزیں ہر سو
جا بجا دفتر پارینہ احکام بھی ہے
چند بی اے ہیں سند یافتہ علم و عمل
کچھ اسسٹنٹ ہیں کچھ حلقہ خدام بھی ہے
ہو جو تعطیل میں تفریح سیاحت مقصود
سفرِ درجہ اول کے لئے دام بھی ہے
یہ تو سب کچھ ہے مگر ایک گزارش ہے حضور
گرچہ یہ سوئے ادب بھی ہے اور ابرام بھی ہے
مجھ سے آہستہ مرے کان میں ارشاد ہو یہ
"سال بھر حضرت والا کو کوئی کام بھی ہے"
٭٭٭
اغماض چلتے وقت مروت سے دور تھا
اس وقت پاس آپ کا ہونا ضرور تھا
ہر چند لیگ کا نفسِ واپسیں ہے اب
اس دو روزہ پہ جس کو غرور تھا
وہ دن گئے کہ بتکدہ کو کہتے تھے حرم
وہ دن گئے کہ خاک کو دعوےٰ نور تھا
وہ دن گئے کہ شان غلامی کے ساتھ بھی
ہر بوالہوس خمار سیاست میں چور تھا
وہ دن گئے کہ "شارع اول" کا حرف حرف
ہم پایۂ کلام سخن گوئے طور تھا
وہ دن گئے کہ فتنہ آخر زماں کے بعد
گویا کہ اب امام زماں کا ظہور تھا
اب معترف ہیں دیدہ وران قدیم بھی
اس نقش سیمیا میں نظر کا قصور تھا
اس دست مرتعش نہ تھی قوتِ عمل
اک کاسۂ تہی یہ سر پر غرور تھا
یہ لمعۂ سراب نہ تھا چشمہ بقا
یہ تیرگی تھی جس کو سمجھتے تھے نور تھا
آئین بندگی میں تملق کی شان تھی
اخلاص و صدق شائبہ مکر و زور تھا
ان کی دکان کی وہ ہوا اب اکھڑ چلی
جن کے گھروں میں جنس وفا کا وفور تھا
اب یہ کھلا کہ واقف سر تھا اس قدر
جو جس قدر مقام تقرب سے دور تھا
ہر دم برادران وطن کی بُرائیاں
ظاہر ہوا کہ فتنہ ارباب زور تھا
سب مٹ گیا سیاست سے سالہ کا طلسم
اک ٹھیس سی لگی تھی کہ شیشہ ہی چور تھا
لے دے کے رہ گیا تھا سہارا بس آپ کا
یہ جسم مردہ منتظر نفخ صور تھا
امید بھی کہ اب کی بدل جائیں گے اصول
مٹ جائے گا نظام میں جو کچھ فتور تھا
ہو گی کچھ اب نظامِ حکومت پہ گفتگو
جس دن کا منتظر کہ ہر اک بد شعور تھا
دیں گے برادرانِ وطن کو پیامِ صلح
آویزش عبث ہے ہر اک دل نفور تھا
یہ کیا ہوا کہ آپ نے بھی بے رخی سی کی
کیا آپ کو بھی راز نہاں پر عبور تھا
یا یہ سبب ہوا کہ پراگندہ تھا مزاج
از بسکہ "آستانہ" میں شورِ نشور تھا
ممکن ہے اور بھی ہوں کچھ اسباب ناگزیر
یہ سب سہی پہ آپ کو آنا ضرور تھا
٭٭٭
لوگ کہتے ہیں کہ آمادہ اصلاح ہے لیگ
یہ اگر سچ ہے تو ہم کو بھی کوئی جنگ نہیں
صیغہ راز سے کچھ کچھ یہ بھنک آتی ہے
کہ ہم آہنگی احباب سے اب ننگ نہیں
فرق اتنا تو بظاہر نظر آتا ہے ضرور
اب خوشامد کا ہر اک بات میں وہ رنگ نہیں
عرض مطلب میں زبان کچھ تو ہے کھلتی جاتی
گرچہ اب تک بھی حریفوں سے ہم آہنگ نہیں
وہ بھی اب نقد حکومت کو پرکھتے ہیں ضرور
جن کو اب تک بھی تمیز گہر و سنگ نہیں
قوم میں پھونکتے رہتے ہیں جو افسون وفا
ان کی افسانہ طرازی کا بھی وہ ڈھنگ نہیں
وہ بھی کہتے ہیں کہ اس جنس وفا کی قیمت
جس قدر ملتی ہے ذرہ کی بھی ہم آہنگ نہیں
آگے تھے حلقہ تقلید میں جو لوگ اسیر
سست رفتار تو اب بھی ہیں مگر سنگ نہیں
٭٭٭
آپ لبرل جو نہیں ہیں تو بلا سے نہ سہی
یاں کسی کو طلب افسر و اورنگ نہیں
کام کرنے کے بہت سے ہیں جو کرنا چاہتے
اب بھی یہ دائرہ سعی و عمل تنگ نہیں
سال میں یہ جو تماشا سا ہوا کرتا ہے
کام کرنے کے یہ انداز نہیں ڈھنگ نہیں
کچھ تو نظم و نسق ملک میں بھی دیجئے دخل
شیوہ حق طلبی ہے یہ کوئی جنگ نہیں
کچھ نہ کچھ نظم حکومت میں ہے اصلاح ضرور
ہم نہ مانیں گے کہ اس آئینہ میں زنگ نہیں
کم سے کم حاکم اضلاع تو ہوں اہل وطن
کیا ہزاروں میں کوئی صاحب فرہنگ نہیں
٭٭٭
دیکھا جو لیگ نے کہ ہوا خاتمہ تمام
از بسکہ دست حق طلبی اب دراز ہے
کہنے لگے ہیں سب کہ سیاست کا یہ نظام
مقبول خاص و عام نہیں خانہ ساز ہے
تقسیم مشرقی نے عیاں کر دیا ہے سب
جو شاہ راہ حق میں نشیب و فراز ہے
مجبور ہو کے لیگ نے اُلٹا ہے یہ ورق
جو سر بسر مرقع نیرنگ ساز ہے
چہرہ پہ ہے جو سلف گورنمنٹ کا نقاب
ہر دیدہ ور اسیر طلسم مجاز ہے
سمجھے نہ یہ کہ "سوٹ بل" کہ جو شرط ہے
تمہید سجدہ ہائے جبین نیاز ہے
سمجھے نہ لوگ یہ کہ یہی لفظ پر فریب
اس ملک میں طلسم غلامی کا راز ہے
سب یہ سمجھ رہے ہیں کہ اب لیگ و کانگریس
دونوں کا ایک عرصہ گہ ترک و تاز ہے
٭٭
جب تک کہ لوگ حلقہ بگوش خواص ہیں
جب تک زبان قوم خوشامد طراز ہے
جب تک ہیں لوگ عالم بالا سے مستفیض
جب تک بہم یہ دور "قدح ہائے راز" ہے
"احرار" سے کہو کہ نہیں کچھ امید "صلح"
مٹتا نہیں جو تفرقہ و امتیاز ہے
آزادی خیال پہ تم کو ہے گر غرور
تو لیگ کو بھی شانِ غلامی پہ ناز ہے
٭٭٭
لیگ کو جب نظر آیا کہ چلی ہاتھ سے قوم
اک نیا روپ بھرا اس نے بانداز دگر
منظر عام پہ لوگوں سے کیا اس نے خطاب
کہ نہیں سلف گورنمنٹ سے اب ہم کو مفر
اِک ذرا سی مگر اس لفظ میں تخصیص بھی ہے
جس سے ہیں متفق اللفظ سب ارباب نظر
یعنی وہ سلف گورنمنٹ کہ ہو "سوٹ ابل"
یا کہ موزوں و مناسب ہو بالفاظ دِگر
یہ مسلم کہ ہر اک ملک کی حالت ہے جدا
جسکا آئین حکومت پہ بھی پڑتا ہے اثر
جو حکومت کہ کناڈا کے لئے موزوں ہے
ہے وہی مملکتِ ہند میں سرمایہ شر
ملک میں ہم بھی ہیں ہندو بھی ہیں عیسائی بھی
جو کہ ہیں نخل حکومت کے لئے برگ و ثمر
واقعی قید "مناسب" ہے بجا اور موزوں
آپ اس قید کو کس کام میں لائیں گے مگر
پہلے بھی آپ تو اس حصن میں لیتے تھے پناہ
پہلے بھی آپ اسی دشت میں تھے راہ پر
جب کبھی کوئی بھی تحریک سیاسی ہو گی
آپ اس قید مناسب کو بنائیں گے سپر
اب بھی ہیں جادہ مقصد کے وہی نقش قدم
اب بھی اوراقِ سیاست کا وہی ہے منظر
یہ وہی لفظ ہے مجموعہ صد گو نہ فریب
یہ وہی لفظ ہے سرمایہ صد گونہ ضرر
آپ ہر بار جو بڑھ بڑھ کے پلٹ آتے ہیں
ہے اسی شیوہ تعلیم غلامی کا اثر
آپ کے فلسفہ نو کے یہ الفاظ جدید
گو بظاہر ہیں فریبندہ ارباب بصر
ہے حقیقت میں اسی متن غلامی کی بہ شرح
ہے حقیقت میں اسی نخل سیاست کا ثمر
چند جملے جو زبانوں پہ چلے آتے ہیں
آپ دہراتے ہیں ہر بار باندازِ دگر
ایک ان میں سے ہے یہ بھی کہ "ابھی وقت نہیں"
ہے اسی لفظ کی تشریح باندازِ دگر
آج یہ لفظ "مناسب" جو نیا وضع ہوا
آپ اس لفظ کر ہر بار بنائیں گے سپر
آپ کے دائرہ بحث کا مرکز تھا یہی
آپ کی گردش پیہم کا یہی تھا محور
آپ اس دام سے برسوں بھی نہ چھوٹیں گے کبھی
آپ اس کوچۂ پر خم سے نہ ہوں گے سریر
آپ اس بھول بھلیاں سے نہ نکلیں گے کبھی
دل سے جائے گا نہ تعلیم غلامی کا اثر
جب کہیں بھی کوئی پہلوئے غلامی ہو گا
ہر طرف پھر کے اسی نقطہ پہ ٹھہرے گی نظر
اس قدر سرد مزاج اور پھر اس پر تبرید
خوف یہ ہے کہ پہنچ جائے نہ فالج کا اثر
آپ کچھ گرم دوائیں جو گوارا فرمائیں
ہم دعا کو یہ سمجھتے ہیں کہ ہو گا بہتر
٭٭٭
لیگ کو سلف گورنمنٹ ہے اب پیش نظر
للہ الحمد کہ حل ہو گئی ساری مشکل
اب یہ بیجا ہے شکایت کہ وہ آزاد نہیں
اب یہ کہنا غلطی ہے کہ وہ ہے پاور گل
ملک کے جملہ مسائل کی یہی ہے بنیاد
اور جو کچھ ہے اسی چیز میں ہے سب شامل
لیگ نے حق طلبی میں جو یہ جرات کی ہے
واقعہ یہ ہے کہ مدح و ثنا کے قابل
کچھ تو ہے لیگ میں جس نے یہ کشش پیدا کی
آپ سے آپ جو کھینچتا ہے ادھر دامن دل
لیگ والوں نے جو اسٹیج پہ کی تقریریں
کر دیئے اس نے خیالات غلط سب باطل
اس دلیری سے ہر اک حرف ادا ہوتا تھا
بعض کہتے تھے کہ ہے سوئے ادب میں داخل
الغرض لیگ کے اور مجلس ملکی کے حدود
یوں ملے آ گے بہم بھر سے جیسے ساحل
ہاں تو اب عرض ہے یہ خدمت عالی میں جناب
کیجئے سلف گورنمنٹ کا مقصد حاصل
امتحانات سول کے لئے لندن کی یہ قید
ہے یہ رفتار ترقی کے لئے سخت مخل
یہ جو پیمایش اراضی کا ہے سی سالہ رواج
ملک کے حق میں ہے یہ زہر سے بڑھ کر قاتل
جو مناسب کہ ولایت کیلئے ہیں مخصوص
آج ابنائے وطن بھی تو ہیں ان کے قابل
صیغہ فوج میں تخفیفِ مصارف ہے ضرور
سینہ ملک پہ افسوس کہ بھاری ہے یہ سل
لیگ نے سُن کے یہ سب مجھ سے بآہستہ کہا
آپ سمجھے کہ اس لفظ کا کیا تھا مجمل
ہم نے گو سلف گورنمنٹ کی خواہش کی تھی
شرط یہ بھی تو لگا دی تھی کہ ہو "سوٹ ایبل"
آپ جو کہتے ہیں وہ ہے حد ادراک سے دور
ہم کو اس خواب پریشاں میں نہ کیجئے شامل
وہ یہ باتیں ہیں جو مخصوص ہیں یورپ کیلئے
آپ طے پہلے غلامی کی تو کر لیں منزل
٭٭٭
گر خامشی سے فائدہ اخفائے راز ہے
خوش ہوں کہ میری بات سمجھنی محال ہے
الحاق کی جو شرط نہ مانی جناب نے
کیا جانے کیا حضور کے دل میں خیال ہے
"مسلم" کے لفظ میں تو کوئی بات ہی نہ تھی
کیا اس میں بھی حضور کو کچھ احتمال ہے
اسباب سوئے ظن کے نئے کچھ عیاں ہوئے
یا پہلے ہی سے شیشہ خاطر میں بال ہے
ہم تو ازل سے حلقہ بگوشِ نیاز ہیں
یہ سر ہمیشہ زیر قدم پائمال ہے
ہم نے تو وہ ثنا و صفت کی حضور کی
جو خاص شیوہ صفتِ ذوالجلال ہے
آیا کبھی نہ حرف تمنا زبان پر
یاں تک تو ہم کو پاس ادب کا خیال ہے
اردو کے باب میں جو ذرا کھل گئی زبان
اب تک جبین پر عرقِ انفعال ہے
دامن غبار حق طلبی سے رہا ہے پاک
یہ فیضِ خاص رہبر دیرینہ سال ہے
آیا جو حریت کا کبھی دل میں وہم بھی
سمجھا دیا کہ جوشِ جنوں کا ابال ہے
اب تک اسی طریق پہ ہیں بندگان خاص
گو صحبتِ عوام کچھ قیل و قال ہے
گردن جھکی ہوئی ہے زبان گو ہے شکوہ سنج
باطن ہے انقیاد جو ظاہر ملال ہے
٭٭٭
الحاق سے کچھ اور نہ تھا مدعائے خاص
بس اک عموم درس وفا کا خیال ہے
یعنی کہ پھیل کر یہ زمانہ کو گھیرے
اب تک جو مختصر یہ علی گڑھ کا جال ہے
یہ پالسی ہے شاہرہ ِ عام قوم کی
اس سے کوئی الگ ہے تو وہ خال خال ہے
پھر بھی حضور کی نہ گئیں سر گرانیاں
پھر بھی گناہگار میرا بال بال ہے
اتنی سی آرزو بھی پذیرا نہ ہو سکی
اب کیا کہیں کہ اور بھی کچھ عرض حال ہے
٭٭
سنتے رہے غور سے یہ داستان غم
جب ختم ہو گئی تو یہ لب پر مقال ہے
حد سے اگر بڑھے گا تو ہو جائے گا مہ
وہ درس گاہ روئے وفا کا جو خال ہے
٭٭٭
مایوس گو ترقی قومی سے میں نہیں
لیکن ابھی تلک تو یہ سودائے خام ہے
رائیں تمام کج ہیں خیالات سب غلط
گُم کردہ نجات ہر اک خاص و عام ہے
یہ تیس لاکھ قوم نے جو کر دیئے عطا
بے شبہہ عزم و ہمتِ عالی کا کام ہے
لیکن یہ گفتگو جو نئی چھڑ گئی ہے اب
یہ باعثِ تباہی ناموس و نام ہے
الحاق کی جو شرط نامنظور ہو سکی
اک غلغلہ ہے شور ہے غوغائے عام ہے
لبریز ہے تصور باطل سے ہر دماغ
ہر سینہ عرصہ گاہ ہوسہائے خام ہے
اب اسطرح چلتی ہے اک ایک کی زبان
گویا کہ ذوالفقار علی بے نیام ہے
دو کوڑیاں بھی جس نے نہ دیں آج تک کبھی
اس کی بھی نیند جوش جنوں میں حرام ہے
٭٭٭
اک غلغلہ بپا ہے کہ الحاق جب نہیں
پھر کس بنا پہ جامعہ قوم نام ہے
اسلام کے جو نام سے بھی ملتسم نہیں
اس کو تو دور ہی سے ہمارا سلام ہے
مسلم نہیں تو جامعہ قوم بھی نہیں
پھر کیوں یہ شور غلغلہ و اہتمام ہے
چندے لئے گئے تھے اسی شرط پر تمام
یہ نقض عہد ہے کہ جو شرعاً حرام ہے
یہ درس گاہ خاص نہ تھا مدعائے عام
یہ وہ متاع ہی نہیں جس کا یہ دام ہے
٭٭٭
ان ابلہان قوم کو سمجھائے یہ کوئی
عالم کے کاروبار کا اک انتظام ہے
جس کی بنا تمام ہے تقسیم کار پر
یعنی ہر ایک شخص کا اک خاص کام ہے
عالم میں ہیں ہر اک کے فرائض جدا جدا
یہ مسئلہ مسلمہ خاص و عام ہے
ہے مقتدی کا فرض فقط امتثال امر
ارشاد و حکم منصب خاص امام ہے
تھا قوم کا جو فرض وہ تھا بس عطائے زر
آگے مقدسین علی گڈھ کا کام ہے
یہ بارگاہ خاص نہیں مجلس عوام
سمعاً و طاعتہً یہ ادب کا مقام ہے
مخصوص ہیں مناصب خاصان بارگاہ
تم کون ہو جا تم کو یہ سودائے خام ہے
٭٭٭
مجھ کو حیرت تھی کہ تعلیم غلامی کے لئے
وہ نیا کون سا پہلو ہے کہ جو باقی ہے
پہلے جو نرم گہ خاص تھی اس فن کے لئے
آج جو کچھ ہے اُسی درس کی مشاقی ہے
اس کے ہوتے ہوئے پھر لیگ کی حاجت کیا تھی
جب وہی بادہ گلگوں ہے وہی ساقی ہے
فیض ہے عالمِ بالا کا ابھی تک جاری
استفادہ میں وہی شیوہ اشراقی ہے
غلطی سے جو نئی چیز سمجھتے ہیں اسے
یہ فقط دہم غلط کار کی خلاقی ہے
٭٭٭
شیخ صاحب نے کہا مجھ سے بانداز لطیف
اس میں اک راز ہے ایک نکتہ اشراقی ہے
٭٭٭
یوں تو ہیں جامعہ درس غلامی دونوں
فرق یہ ہے کہ وہ محدود یہ الحاقی ہے
٭٭٭
تھی سفارت کی جو تجویز بظاہر موزوں
اہل مجلس بھی بظاہر نظر آتے تھے خموش
دفعتہً دائرہ صدر سے اٹھا اک شخص
جس کی آزادی تقریر تھی غارتگر ہوش
اس نے اس زور سے تجویز پہ کی رد و قد
چونک اٹھے وہ بھی جو بیٹھے ہوئے تھے پنبہ بگوش
اہل مجلس نے جو بدلا ہوا دیکھا انداز
ڈر ہوا یہ کہ کہیں اور نہ بڑھ جائے خروش
صدر محفل نے بُلا کر اُسے آہستہ کہا
کہ تو ہم شامل وفد سستی و ایں مایہ مجوش
بادہ جام سفارت مے مرد افگن تھا
ایک ہی جرعہ میں شیر جری تھا خاموش
اب نہ وہ طرز سخن تھا نہ وہ آزادی رائے
نہ وہ ہنگامہ طرازی تھی نہ وہ جوش و خروش
جس کی تقریر سے گونج اٹھتا تھا اجلاس کا ہال
اب وہ اک پیکر تصویر تھا بالکل خاموش
سخت حیرت تھی کہ اِک ذرہ خاکستر تھا
وہ شرارہ جو ابھی برق سے تھا دوش بدوش
دیکھتے ہیں تو حرارت کا کہیں نام نہیں
ہو گیا شعلہ سو زندہ بھڑک کر خس پوش
اہل ثروت سے یہ کہہ دو کہ مبارک ہو تمہیں
للہ الحمد ابھی ملک میں ہیں رائے فروش
٭٭٭
شرط الحاق پہ اصرار اور ایسا اصرار
شیوہ عقل نہیں بلکہ یہ ہے کج نگہی
درسگاہیں ہیں کہاں کیجئے جن کا الحاق
اور اگر ہیں بھی تو بیکار ہیں اطبل تہی
لوگ جس چیز کو کہتے ہیں "علی گڈھ کالج"
چشم بنیاد ہو تو ہے جامعہ قوم یہی
یہ وہی قبلہ حاجات ہے سوچیں تو ذرا
یہ وہی کعبہ مقصود ہے دیکھیں تو سہی
آج جو لوگ ہیں جمعیتِ قومی کے امام
جن کا ارشاد ہے ہمسایۂ طغرائے شہی
سب کے سب متفق اللفظ یہی کہتے ہیں
اِنَ ھٰذا لَھُوَالحقُ وَاٰمَنتُ بِہ
٭٭٭
قوم کا دیکھئے بچپن کہ سب سن کے کہا
جو کھلونا مجھے دکھلایا تھا لوں گی تو وہی
٭٭٭
یہ فیض ہے جماعت احرار کا ضرور
اب قوم کو جو شخص پرستی سے عار ہے
آزادی خیال کا جو کچھ کہ ہے اثر
یہ سب انہیں کے فیض کا منت گزار ہے
لیکن یہ دیکھنا ہے کہ یہ عزم یہ ترنگ
ہے دیرپا کہ جوشِ جنونِ بہار ہے
٭٭٭
اب کی جو لکھنؤ میں دکھایا گیا سماں
سچ پوچھئے تو مضحکہ روزگار ہے
دیکھا یہ پہلے دن کہ ہر اک گوشہ بساط
میدان رزم و عرصہ گہ گیرو دار ہے
غل ہے کہ وہ مقدمہ الجیش آ گیا
اب انتظار فوج یمین و یسار ہے
احرار کی صفوں کی صفیں ہیں جمی ہوئی
مجلس تمام عرصہ گہ کارزار ہے
اسٹیج پر ہر ایک بپھرتا ہے اس طرح
گویا حریف رسم و اسفند یار ہے
ہاتھ اٹھ رہے ہیں یا علم فتح ہے بلند
چلتی ہوئی زبان ہے یا ذوالفقار ہے
ہر نوجوان ہے نشہ آزادگی میں مست
جو ہے وہ حریت کا سر پر خمار ہے
احرار کہہ رہے ہیں نہ مانیں گے ہم کبھی
ویٹو کا ویسرائے کو کیا اختیار ہے
الحاق اگر نہیں ہے تو یہ سعی ہے عبث
مسلم کا لفظ خاص ہمارا شعار ہے
جو والیان ملک کہ تھے زیب انجمن
سب دم بخود سے تھے کہ یہ کیا خلفشار ہے
٭٭٭
یا صبح دم جو دیکھئے آ کر تو بزم میں
نے وہ خروش وہ جوش نہ وہ گیرو دار ہے
ٹوٹی ہوئی صفیں ہیں علم سرنگوں ہیں سب
بازوئے تیغ گیر جو تھا رعشہ دار ہے
سازش کا ایک جال بچھایا ہے ہر طرف
ہر شخص اس کی فکر میں مصروف کار ہے
سر مستیاں ہیں دور قدح ہائے راز کی
ہر شخص حکمت عملی کا شکار ہے
٭٭٭
جو بات کل تلک سبب ننگ و عار تھی
وہ آج مایہ شرف و افتخار ہے
جس بار پر کہ نعرہ نفرین بلند تھا
اب وہ قبولِ خاطر ہر ذی وقار ہے
کل کہہ چکے ہیں کیا؟ یہ نہیں اب کسی کو یاد
اب نکتہ ہائے زیر لبی پر مدار ہے
خود آپ اپنے ہاتھ سے کھائی ہے گو شکست
کہتے ہیں پھر یہ فتح مبین یادگار ہے
٭٭٭
حیران تھے عوام کہ کیا ماجرا ہے یہ
یہ کیسا دو رنگی چمنِ روزگار ہے
احرار کا طریق عمل ہے اگر یہی
پھر کامیابیوں کا عبث انتظار ہے
٭٭٭
وہ بھی تھا ایک دن کہ یہ وحشت سرائے دل
اک محشرِ نشاط و وفور سرور تھا
رنگینی خیال سے لبریز تھا دماغ
جو شعر تھا چراغ شبستان حور تھا
سینہ میں تھا چمن کدہ صد امید نو
آنکھوں میں کیف بادہ ناز و غرور تھا
ایک ایک تھا ورق نوبہار حسن
ذروں کے رُخ پہ صبح سعادت کا نور تھا
٭٭٭
نظر آتا نہیں اب صبر کا پہلو مجھ کو
کام دیتے نہیں کچھ قوت بازو مجھ کو
شہر ویرانہ نظر آتا ہے ہر سو مجھ کو
ہائے افسوس کہاں چھوڑ گیا تو مجھ کو
جب وہ گنجینۂ امید و تمنا نہ رہا
ایک بیکار زمانہ میں رہا یا نہ رہا
انتقالِ پدر پیر بھی دیکھا میں نے
ماتم مادر دلگیر بھی دیکھا میں نے
صدمہ رحلتِ ہمشیر بھی دیکھا میں نے
دو برادر کو جواں میر بھی دیکھا میں نے
یہ نمائش کدہ داغ عزیزاں تو نہیں
میرا سینہ ہے الٰہی یہ چراغاں تو نہیں
٭٭٭
پسر عبد عزیز اموی
عدل میں ثانی ابن الخطاب
جب ملا تخت خلافت اُن کو
ہو گیا گلشن گیتی شاداب
ایک شب گھر سے چلے بہر نماز
پڑ گیا جب رخ عالم پہ نقاب
کوئی آوارہ وطن تند مزاج
صحن مسجد میں تھا آلودہ خواب
پاؤں کا ان کے ٹہوکا جو لگا
جاگ اٹھا اور کیا ان سے خطاب
خبر ہے کیا کوئی مجنون ہے تو
یا کچھ ہے تیری آنکھوں پہ حجاب
ہنس کے فرمایا کہ مجنوں نہیں
کچھ نہیں مجھ میں جنوں کے اسباب
ہاں مگر ہو گئی مجھ سے تقصیر
آپ سے عفو کا طالب ہوں جناب
چوبدار نے کیا اس کو اسیر
چاہتے یہ تھے کہ دیں اس کو جواب
آپ نے روک دیا ان کو سہیں
پھر کیا ان سے یہ آہستہ خطاب
اس نے اک بات فقط پوچھی تھی
جو مناسب تھا دیا میں نے جواب
بات قطعی تو نہیں اس نے کی
پوچھتا کچھ نہیں شایانِ عتاب
اتنی سی بات پہ یہ جوش و غضب
اتنی سی بات پہ یہ خشم و عتاب
بیکسوں کو میں ستاؤں کیونکر
مجھکو دینا ہے قیامت میں جواب
٭٭٭
بجا ہے آج اگر اس بزم میں یہ زیب و ساماں ہیں
یہ انکی بزم ہے جو یادگار نسل عدناں ہیں
خلیل اللہ سے مہمان نوازی جن کو پہنچی ہے
ہزاروں کوس سے آ آ کے وہ اس گھر میں مہماں ہیں
فقط اک جذبہ قومی انہیں واں کھینچ لایا ہے
جہاں زور حکومت ہے، نہ حاجب ہیں نہ درباں ہیں
ہماری خدمتوں کا وہ اٹھانے آئے ہیں احسان
کہ اسلامی جماعت پر ہزاروں جن کے احساں ہیں
ہنر میں علم میں اخلاق میں مجد اور شرافت میں
یہی وہ صورتیں ہیں جن پہ ہم تم آج نازاں ہیں
خدا نے ان کو بخشی ہے حکومت اور سطوت بھی
کہ جسم سلطنت کے یہ جوارح اوور ارکاں ہیں
مگر ان کو کسی عزت پہ نازش ہے تو اس پر ہے
کہ یہ اسلام کے ہیں نام لیوا اور مسلماں ہیں
نہ عہدوں کا تفاوت ہے نہ کچھ حفظ مراتب ہے
یہاں جس سادگی سے یہ شریک بزم اخواں ہیں
معمر بھی ہیں ان میں نوجوان بھی اور کمسن بھی
مگر شان اخوت میں مدارج سب کے یکساں ہیں
یہ وہ ہیں جن میں ہے اسلام کا اب تک اثر باقی
یہ وہ ہیں جو ہر نسل عدنانی کے پنہاں ہیں
انہیں کے بازوؤں میں زور تھا کشورستانی کا
انہیں کی یادگاریں جا بجا اب تک نمایاں ہیں
یہ وہ ہیں جان و مال سے جو فدائے قوم و ملت ہیں
یہ وہ ہیں نام پر اسلام کے جو دل سے قرباں ہیں
نہ ہو گا ایک بھی دل درد قومی سے جو خالی ہو
بظاہر گرچہ سب مسرور ہیں خرم ہیں شاداں ہیں
انہیں احساس ہے آئین و ملت کی تباہی کا
یہ واقف ہیں کہ بیڑے قوم کے اب غرق طوفاں ہیں
انہیں معلوم ہے جس تاک میں ہے گردش گرداں
انہیں محسوس ہے جس گھات میں ایام دوراں ہیں
خبر ہے ان کو جس آواز میں چھوٹا بڑا ہے اب
یہ واقف ہیں کہ پہلے قوم کیا تھی اور کیا ہے اب
علاج اپنا ہم اب تک تو سمجھتے تھے کہ آسان ہے
مگر وہ درد نکلا جس کو ہم سمجھے تھے درباں ہے
دور ہر بار جب اپنا اثر الٹا ہی دکھلائے
تو بس سمجھو کہ اب بیمار کوئی دم کا مہماں ہے
جو سچ پوچھو تو ہے اسلامیوں کی بس یہی حالت
مرض دونا بڑھا دیتی ہے خود وہ شئے جو درباں ہے
سلف کا تذکرہ جو ہمت و غیر کا ہے افسوں
ہمارے حق میں وہ سرمایہ خواب پریشاں ہے
یہ افسانے بڑھاتے ہیں ہماری نیند کی شدت
یہ افسوں حق میں اپنے اور مدہوشی کا ساماں ہے
ہمیں احساس تک ہوتا نہیں اپنی تباہی کا
کہ سب پیش نظر اسلاف کی وہ شوکت و شاں ہے
ہماری کلفتیں سب دور ہو جاتی ہیں یہ سن کر
کہہ دنیا آج تک اسلام کی ممنون احساں ہے
مزے لیتے ہیں پہروں تک کسی سے جب یہ سنتے ہیں
کہ یورپ دولت عباس کا اب تک ثنا خواں ہے
نہیں سہنے کو یاں گھر تک مگر چرچے یہ رہتے ہیں
یہ اب تک قصر حمرا قبلہ گاہِ رہ نورداں ہے
ہیں خود ان پڑھ مگر اس زعم میں اتراتے پھرتے ہیں
کہ دنیا میں ہمیں سے زندہ اب تک نام یوناں ہے
نظر آتے ہیں ہم کو عیب اپنے خوبیاں بن کر
ہم اپنے جہل کو بھی یہ سمجھتے ہیں کہ عرفاں ہے
بسر ہوتی ہے گر اوقات فیاضی پہ غیروں کی
تو سمجھے ہیں کہ بس زہد اور توکل کی یہی شاں ہے
حمیت اور خود داری نہیں ہے مگر طبیعت میں
تو اچھا ہے کہ مسکینی تو اول شرط ایماں ہے
طبیعت میں اگر ہیں فتنہ پردازی کے کچھ جوہر
تو دعویٰ ہے کہ تدبیر اور سیاست فرض انساں ہے
وہ قوم اور وہ جماعت جن میں یہ اخلاق محکم ہیں
بلائیں اس پہ جو آئیں وہ کم ہیں اور بہت کم ہیں
یہ جو کچھ سن چکے ہو قوم کی تم حالت ابتر
نہ سمجھو یہ کہ ہے اس داستاں کا خاتمہ اس پر
ہماری سب سے بڑھ کر بدنصیبی جو ہے وہ یہ ہے
کہ بے پروا ہیں وہ بھی قوم کے جو آج ہیں لیڈر
گیا وہ وقت جب تھا بس اسی کا نام ہمدردی
کہ وہ آنسو بہا لیں قوم کی درماندہ حالت پر
گیا وہ وقت ہم کو ناصحوں کی جب ضرورت تھی
فلک نے کر دیا اک اک کو آپ اپنا نصیحت گر
گئے وہ دن کہ ہم محتاج تھے عبرت دلانے کے
ہمارا حال خود عبرت فزا ہے آج سر تا سر
ضرورت اب ہے گر ہم کو تو بس ہے ان بزرگوں کی
کہ جن میں خیر سے کچھ کر دکھانے کے بھی ہوں جوہر
فقط باتیں نہ ہوں کچھ کام بھی بن آئے ہاتھوں سے
کہیں جو کچھ وہ منہ سے کر دکھائیں اس سے کچھ بڑھ کر
نہیں گر یہ تو بس اک گرمی صحبت کے ساماں ہیں
یہ قومی مرثیے یہ وعظ یہ اسپیچ، یہ لکچر
طلب اور سعی سے کچھ کام بن آئے تو بن آئے
فصاحت اور بلاغت کا بس اب چلتا نہیں منتر
تمہیں جو کام ہیں درپیش گو مشکل سے مشکل ہیں
مگر کرنے پہ آ جاؤ تو آساں سے ہیں آسان تر
ابھی تک تم میں ہے اسلاف کا کچھ کچھ اثر باقی
شرر کو بجھ چکے پر گرم ہے اب تک وہ خاکستر
ابھی کچھ کچھ مہک باقی ہے ان مرجھائے پھولوں میں
ابھی کچھ کاٹ ہے، اس تیغ میں گو مٹ چکے جوہر
وہی فیاضیاں تم میں ہیں جو تھیں معن و حاتم میں
مگر بیہودہ رسموں کیلئے وہ وقف ہیں یک سر
کچھ اس کم ہوا تھا صرف تجہیز اسامہ میں
لٹا دیتے ہو تقریبوں میں جتنا تم زر و زیور
فقط آپس کے جھگڑوں میں تم اس سے کام لیتے ہو
وہ جودت اور ذہانت جس میں اب بھی ہو تم نام آور
سنبھلنا اب بھی گر چاہو تو ہے وقت اور ضرورت بھی
وگرنہ پھر نہیں رہنے کی جو کچھ ہے یہ حالت بھی
٭٭٭
اثر کے پیچھے دل حزیں نے نشان چھوڑا نہ ہر کہیں کا
گئے ہیں نالے جو سوئے گردوں تو اشک نے رخ کیا زمیں کا
بھلی تھی تقدیر یا بُری تھی یہ راز کس طرح سے عیاں ہو
بتوں کو سجدے کئے ہیں اتنے کہ مٹ گیا سب لکھا جبیں کا
وہی لڑکپن کی شوخیاں ہیں وہ اگلی ہی سی شرارتیں ہیں
سیانے ہوں گے تو ہاں بھی ہو گی ابھی تو سن ہے نہیں نہیں کا
یہ نظم آئین، یہ طرز بندش، سخنوری ہے، فسوں گری ہے
کہ ریختہ میں بھی تیرے شبلی مزہ ہے طرز علی حزیں کا
٭٭٭
تیر قاتل کا یہ احسان رہ گیا
جائے دل سینہ میں پیکاں رہ گیا
کی ذرا دست جنوں نے کوتہی
چاک آ کر تا بداماں رہ گیا
دو قدم چل کر ترے وحشی کے ساتھ
جادہ راہ بیاباں رہ گیا
قتل ہو کر بھی سبکدوشی کہاں
تیغ کا گردوں پہ احساں رہ گیا
ہم تو پہنچے بزم جاناں تک مگر
شکوہ بیداد درماں رہ گیا
کیا قیامت ہے کہ کوئے یار سے
ہم تو نکلے اور ارماں رہ گیا
دوسروں پر کیا کھلے راز دہن
جبکہ خود صانع سے پیکاں رہ گیا
جامہ ہستی بھی اب تن پر نہیں
دیکھ وحشی تیرا عریاں رہ گیا
ضعف مرنے بھی نہیں دیتا مجھے
میں اجل سے بھی تو پنہاں رہ گیا
اے جنوں تجھ سے سمجھ لوں گا اگر
ایک بھی تار گریباں رہ گیا
حسن چمکا یار کا، اب آفتاب
اک چراغ زیر داماں رہ گیا
لوگ پہنچے منزل مقصود تک
میں جرس کی طرح نالاں رہ گیا
بزم میں ہر سادہ رو تیرے حضور
صورت آئینہ حیراں رہ گیا
یاد رکھنا دوستو اس بزم میں
آ کے شبلی بھی غزل خواں رہ گیا
٭٭٭
پوچھتے کیا ہو جو حال شب تنہائی تھا
رخصت صبر تھی یا ترک شکیبائی تھا
شب فرقت میں دل غمزدہ بھی پاس نہ تھا
وہ بھی کیا رات تھی کیا عالم تنہائی تھا
میں تھا یا دیدہ خوں نابہ فشاں بھی شب ہجر
ان کو واں مشغلہ انجمن آرائی تھا
پارہ ہائے دل خونیں کی طلب تھی پہیم
شب جو آنکھوں کو مرے ذوق خود آرائی تھا
رحم تو ایک طرف پایہ شناسی دیکھو
قیس کو کہتے ہیں مجنون تھا صحرائی تھا
آنکھیں قاتل سہی پر زندہ جو کرنا ہوتا
لب میں اے جان تو اعجاز مسیحائی تھا
خون رو رو دے بس دو ہی قدم میں چھالے
یاں وہی حوصلہ بادیہ پیمائی تھا
دشمن جاں تھے ادھر ہجر میں درد غم و رنج
اور ادھر ایک اکیلا ترا شیدائی تھا
انگلیاں اٹھتی تھیں مژگاں کی اسی رخ پیہم
جس طرح بزم میں وہ کافر ترسائی تھا
کون اس راہ سے گزرا ہے کہ ہر نقش قدم
چشم عاشق کی طرح اس کا تماشائی تھا
خوب وقت آئے نکیرین جزا دے گا خدا
لحدِ تیرہ میں کیا عالم تنہائی تھا
ہم نے بھی حضرت شبلی کی زیارت کی تھی
یوں تو ظاہر میں مقدس تھا پہ شیدائی تھا
٭٭٭
تیس دن کے لئے ترک مے و ساقی کر لوں
واعظ سادہ کو روزوں میں تو راضی کر لوں
پھینک دینے کی کوئی چیز نہیں فضل و کمال
ورنہ حاسد تری خاطر سے میں یہ بھی کر لوں
اے نکیرین قیامت ہی پہ رکھو پرسش
میں ذرا عمر گذشتہ کی تلافی کر لوں
کچھ تو ہو چارہ غم بات تو یکسو ہو جائے
تم خفا ہو تو اجل ہی کو میں راضی کر لوں
اور پھر کس کو پسند آئے گا ویرانہ دل
غم سے مانا بھی کہ اس گھر کو میں خالی کر لوں
جور گردوں سے جو مرنے کی بھی فرصت مل جائے
امتحان دم جاں پرور عیسی کر لوں
دل ہی ملتا نہیں سفلوں سے وگرنہ شبلی
خوب گذرے فلک دوں سے جو یاری کر لوں
٭٭٭
ناتواں عشق نے آخر کیا ایسا ہم کو
غم اُٹھانے کا بھی باقی نہیں یارا ہم کو
درد فرقت سے ترے ضعف ہے ایسا ہو کو
خوب میں ترے دشوار ہے آنا ہم کو
جوش وحشت میں ہو کیا ہم کو بھلا فکر لباس
بس کفایت ہے جنوں دامن صحرا ہم کو
رہبری کی دہن یار کی جانب خط نے
خضر نے چشمہ حیواں یہ دکھایا ہم کو
دل گرا اس کے زنخداں میں فریب خط سے
چاہ خس پوش تھا اے وائے نہ سوجھا ہم کو
واہ کاہیدگی جسم بھی کیا کام آئی
بزم میں تھے پہ رقیبوں نے نہ دیکھا ہم کو
قالب جسم میں جان آ گئی گویا شبلی
معجزہ فکر نے اپنی یہ دکھایا ہم کو
٭٭٭
کچھ اکیلی نہیں میری قسمت
غم کو بھی ساتھ لگا لائی ہے
منتظر دیر سے تھے تم میرے
اب جو تشریف صبا لائی ہے
نگہت زلف غبار رہِ دوست
آخر اس کوچہ سے کیا لائی ہے
موت بھی روٹھ گئی تھی مجھ سے
یہ شب ہجر منا لائی ہے
مجھ کو لے جا کے مری آنکھ وہاں
اک تماشا سا دکھا لائی ہے
آہ کو سوئے اثر بھیجا تھا
واں سے کیا جانیے کیا لائی ہے
شبلی زار سے کہہ دے کوئی
مژدۂ وصل صبا لائی ہے
٭٭٭
یار کو رغبت اغیار نہ ہونے پائے
گل تر کو ہوس خار نہ ہونے پائے
اس میں درپردہ سمجھتے ہیں وہ اپنا ہی گلہ
شکوہ چرخ بھی زنہار نہ ہونے پائے
فتنہ حشر جو آنا تو دبے پاؤں ذرا
بخت خفتہ مرا بیدار نہ ہونے پائے
ہائے دل کھول کے کچھ کہہ نہ سکے سوز دروں
آبلے ہم سخن خار نہ ہونے پائے
چپکے وہ آتے ہیں گلگشت کو اے باد صبا
سبزہ باغ بھی بیدار نہ ہونے پائے
پھر کہیں جوش میں آ جائیں نہ یہ دیدہ تر
سامنے ابر گہر بار نہ ہونے پائے
باغ کی سیر کو جاتے تو ہو پر یاد رہے
سبزہ بیگانہ ہے دو چار نہ ہونے پائے
جمع کر لیجئے غمزوں کو مگر خوبی برم
بس وہیں تک ہے کہ بازار نہ ہونے پائے
آپ جاتے ہیں اس بزم میں لیکن شبلی
حال دل دیکھئے اظہار نہ ہونے پائے
کئے تھے ہم نے بھی کچھ کام جو کچھ ہم سے بن آئے
یہ قصہ جب کا ہے باقی تھا جب عہد شباب اپنا
اور اب تو سچ یہ ہے جو کچھ امیدیں ہیں وہ ہیں تم سے
جوان ہو تم لب بام آ چکا ہے آفتاب اپنا
٭٭٭
آج دعوت میں نہ آنے کا مجھے بھی ہے ملال
لیکن اسباب کچھ ایسے ہیں کہ مجبور ہوں میں
آپ کے لطف و کرم کا مجھے انکار نہیں
حلقہ در گوش ہوں ممنون ہوں مشکور ہوں میں
لیکن اب میں وہ نہیں ہوں کہ پڑا پھرتا تھا
اب تو اللہ کے افضال سے تیمور ہوں میں
دل کے بہلانے کی باتیں ہیں یہ شبلی ورنہ
جیتے جی مردہ ہوں مرحوم ہوں مغفور ہوں میں
٭٭٭
مصارف کی طرف سے مطمئن ہوں میں بہر صورت
کہ ابر فیض سلطان جہاں بیگم زر افشاں ہے
رہی تالیف و تنقید روایت ہائے تاریخی
تو اس کے واسطے حاضر مرا دل ہے مری جاں ہے
غرض دو ہاتھ ہیں اس کام کے انجام میں شامل
کہ جس میں اک فقیر بینوا ہے ایک سلطاں ہے
٭٭٭
اک شہر میں کہ پایہ تخت قدیم ہے
پچھلے پہر سے آج عجب شور و شین ہے
دیوار و در سے تہنیت فتح ہے بلند
غل ہے کہ آج عیش ہے راحت ہے چین ہے
پرچم ہیں بیرقیں ہیں علم ہیں نشان ہیں
گویا کہ وقت برہمی مشرقین ہے
مسند نشین ہے تخت حکومت پہ جلوہ گر
دربار ہے کہ جلوہ گہ زیب و زین ہے
ہیں بے حجاب پر وہ گیان حریم قدس
جن کی زبان پہ شور ہے نوحہ ہے بین ہے
تاکید ان سے ہے کہ ادب سے کھڑی ہیں
یعنی یہ احترام شہی فرض عین ہے
٭٭٭
حکومت پر زوال آیا تو نام و نشاں کب تک
چراغ کشتہ محفل سے اُٹھے گا دھُواں کب تک
قبائے سلطنت کے گر فلک نے کر دئے پرزے
فضائے آسمانی میں اُڑیں گی دھجیاں کب تک
مراکش جا چکا، فارس گیا، اب دیکھنا یہ ہے
کہ جیتا ہے یہ ٹرکی کا مریض سخت جاں کب تک
یہ سیلاب بلا بلقان سے جو بڑھتا آتا ہے
اُسے روکے گا مظلوموں کی آہوں کا دھواں کب تک
یہ سب ہیں رقص بسمل کا تماشا دیکھنے والے
یہ سیر ان کو دکھائے گا شہید نیم جاں کب تک
یہ وہ ہیں نالہ مظلوم کی لئے جن کو بھاتی ہے
یہ رات اُن کو سُنائے گا یتیم ناتواں کب تک
٭٭٭
کوئی پوچھے کہ اے تہذیب انسانی کے استادو
یہ ظلم آرائیاں تاکے یہ حشر انگیزیاں کب تک
یہ جوشِ انگیزیِ طوفانِ بیداد و بلاتا کے
یہ لطف اندوزی ہنگامہ آہ و فغاں کب تک
یہ مانا تم کو تلواروں کی تیزی آزمانی ہے
ہماری گردنوں پر ہو گا اس کا امتحان کب تک
نگارستان خون کی سیر گر تم نے نہیں دیکھی
تو ہم دکھلائیں تم کو زخم ہائے خوں چکاں کب تک
یہ مانا گرمی محفل کے ساماں چاہئیں تم کو
دکھائیں ہم تمہیں ہنگامہ آہ و فغاں کب تک
یہ مانا قصہ غم سے تمہارا جی بہلتا ہے
سنائیں تم کو اپنے درد دل کی داستاں کب تک
یہ مانا تم کو شکوہ ہے فلک سے خشک سالی کا
ہم اپنے خون سے سینچیں تمہاری کھیتیاں کب تک
عروس بخت کی خاطر تمہیں درکار ہے افشاں
ہمارے زرہ ہائے خاک ہوں گے در افشاں کب تک
کہاں تک لو گے ہم سے انتقام فتح ایوبی
دکھاؤ گے ہمیں جنگ صلیبی کا سماں کب تک
سمجھ کر یہ کہ دھندلے سے نشان رفتگاں ہم ہیں
مٹاؤ گے ہمارا اس طرح نام و نشاں کب تک
زوال دولت عثمان زوال شرع ملت ہے
عزیزو فکر فرزند و عیال و خانماں کب تک
خدارا تم یہ سمجھے بھی کہ یہ تیاریاں کیا ہیں
نہ سمجھے اب تو پھر سمجھو گے تم یہ چتیاں کب تک
پرستاران خاکِ کعبہ دنیا سے اگر اٹھے
تو پھر یہ احترام سجدہ گاہِ قدسیاں کب تک
جو گونج اُٹھے گا عالم شور ناقوس کلیسا سے
تو پھر یہ نغمہ توحید و گلبانگ اذاں کب تک
بکھرتے جاتے ہیں شیرازہ اوراق اسلامی
چلیں گی تند باد کفر کی یہ اندھیاں کب تک
کہیں اُڑ کر نہ دامانِ حرم کو بہی یہ چھو آئے
غبار کفر کی یہ بے محابا شوخیاں کب تک
حرم کی ہمت بھی صید افگنوں کی جب نگاہیں ہیں
تو پھر سمجھو کہ مرغان حرم کی آشیاں کب تک
جو ہجرت کر کے بھی جائیں تو شبلی اب کہاں جائیں
کہ اب امن و امان و شام و نجد و قیرواں کب تک
٭٭٭
بدر میں معرکہ آرا جو ہوا لشکر کفر
عتہ ابن ربیعہ تھا امیر العسکر
سب سے پہلے وہی میدان میں بڑھا تیغ بکف
ساتھ اک بھائی تھا اور بھائی کے پہلو میں پسر
اس طرح اُس نے مبارز طلبی کی پہلے
مرد میداں کوئی تم میں ہو تو نکلے باہر
بڑھ کے یہ لشکر اسلام سے نکلے پیہم
تین جانباز کہ ایک ایک تھا اس کا ہمسر
سامنے آئے جو یہ لوگ تو عتبہ نہ کہا
کس قبیلہ سے ہو کیا ہے نسب جد و پدر
بولے ہم وہ ہیں کہ ہے نام ہمارا انصار
ہم میں شیدائی اسلام ہے ہر فرد و بشر
جاں نثاران رسول عربی ہیں ہم لوگ
اک اشارہ ہو تو ہم کاٹ کے رکھ دیتے ہیں سر
بولا عتبہ کہ بجا کہتے ہو جو کہتے ہو
مگر افسوس کہ مغرور سے اولاد مضر
تم سے لڑنا تو ہمارے لئے ہے مایہ عار
کہ نہیں تیغ قریشی کے سزاوار یہ سر
کہہ کہ یہ سرور عالم سے کیا اس نے خطاب
اے محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) یہ نہیں شیوہ ارباب ہنر
جنگ نا جنس سے معذور ہیں ہم آل قریش
بھیج ان کو جو ہوں رتبے میں ہمارے ہم سر
آپ کے حکم سے انصار پھر آئے صف میں
حمزہ و حیدر کرار نے لی تیغ و سپر
ان سے عتبہ نے جو پوچھا نسب و نام و نشان
بولے یہ لوگ کہ ہاشم کے ہیں ہم لخت جگر
بولا عتبہ کہ نہیں جنگ سے اب ہم کو گریز
آؤ اب تیغ قریشی کے دکھائیں جوہر
یا یہ حالت تھی کہ تلوار بھی تھی طالب کفو
یا مساوات کا اسلام کے پھیلا یہ اثر
بارگاہِ نبوی کے جو موذن تھے بلال
کر چکے تھے جو غلامی میں کئی سال بسر
جب یہ چاہا کہ کریں عقد مدینے میں کہیں
جا کے انصار و مہاجر سے کہا یہ کھل کر
میں غلام حبشی اور حبشی زادہ بھی ہوں
یہ بھی سن لو کہ مرے پاس نہیں دولت و زر
ان فضائل پہ مجھے خواہش تزویج بھی ہے
ہے کوئی جس کو نہ ہو میری قرابت سے حذر
گردنیں جھک کے یہ کہتی تھیں دل سے منظور
جس طرف اس حبشی زادہ کی اٹھتی تھی نظر
عہد فاروق میں جس دن کہ ہوئی انکی وفات
یہ کہا حضرت فاروق نے با دیدہ تر
اُٹھ گیا آج زمانہ سے ہمارا آقا
اُٹھ گیا آج نقیب حشم پیغمبر
٭٭٭
عام الرمادہ کہتے ہیں جس کو عرب میں لوگ
عہد خلافت عمری کا وہ سال تھا
اس سال قحط عام تھا ایسا کہ ملک میں
لوگوں کو بھوک پیاس سے جینا محال تھا
پانی کی ایک بوند نہ ٹپکی تھی ابر سے
ہر خاص و عام سخت پراگندہ حال تھا
اعراب کی بسر حشرات زمیں پہ تھی
سب اُٹھ گیا جو فرق حلال و حرام تھا
تشویش سب سے بڑھ کے جناب عمر کو تھی
ہر دم اسی کی فکر اسی کا خیال تھا
تدبیر لاکھ کی تھی مگر رک سکا نہ قحط
گو انتظام ملک میں ان کو کمال تھا
معمول تھا جناب عمر کا کہ متصل
کرتے تھے گشت رات کا سونا بحال تھا
ایک دن کا واقعہ ہے کہ پہنچے جو دشت میں
کوسوں تلک زمین پہ خیموں کا جال تھا
بچے کئی تھے ایک ضعیفہ کی گود میں
جن میں کوئی بڑا تھا کوئی خورد سال تھا
دیکھا جو اس کو یہ کہ پکاتی ہے کوئی چیز
جاتا رہا جو طبع حزیں پر ملال تھا
سمجھے کہ اب وہ ملک کی حالت نہیں رہی
کم ہو چلا ہے قحط کو جو اشتعال تھا
پوچھا خود اس سے جا کے تو رونے لگی وہ
کیا آپ کو غذا کا بھی یاں احتمال تھا
بچے یہ تین دن سے تڑپتے ہیں خاک پر
میں کیا کہوں زبان سے جو ان کا حال تھا
مجبور ہو کے ان کے بہلنے کے واسطے
پانی چڑھا دیا ہے یہ اس کا ابال تھا
ان سے یہ کہہ دیا ہے کہ اب مطمئن رہو
کھانا یہ پک رہا ہے اسی کا خیال تھا
بے اختیار رونے لگے حضرت عمر
بولے کہ یہ مرے ہی کئے کا وبال تھا
جو کچھ ہے یہ سب ہے مری شامتِ عمل
از بس گناہگار مرا بال بال تھا
بازار جا کے لائے سب اسباب آب و نان
جو زخم قحط کا سبب اندمال تھا
چولھے کے پاس بیٹھ کے خود پھونکتے تھے آگ
چہرہ تمام آگ کی گرمی سے لال تھا
بچوں نے پیٹ بھر کے کھایا تو کھل اُٹھے
ایک ایک اب تو فرط خوشی سے نہال تھا
تھی وہ زن ضعیف سراپا زبان شکر
یاں حضرت عمر کو وہی انفعال تھا
عہدہ عمر کو یہ جو ملا تجھ سے چھین کر
جو کچھ گزر رہا ہے یہ اس کا وبال تھا
٭٭٭
ایک دن حضرت فاروق نے ممبر پہ کہا
میں تمہیں حکم جو کچھ دوں تو کرو گے منظور
ایک نے اُٹھ کے کہا یہ کہ مانیں گے کبھی
کہ ترے عدل میں ہم کو نظر آتا ہے فتور
چادریں مال غنیمت میں جو اب کے آئیں
صحن مسجد میں وہ تقسیم ہوئیں سب کے حضور
ان میں ہر ایک کے حصہ میں فقط ایک آئی
تھا تمہارا بھی وہی حق کہ یہی ہے دستور
اب جو یہ جسم پہ تیرے نظر آتا ہے لباس
یہ اسی لوٹ کی چادر سے بنا ہو گا ضرور
مختصر تھی وہ ردا اور ترا قد ہے دراز
ایک چادر میں ترا جسم نہ ہو گا مستور
اپنے حصے سے زیادہ جو لیا تو نے تو اب
تو خلافت کے نہ قابل ہے نہ ہم ہیں مامور
گرچہ وہ حد مناسب سے بڑھا جاتا تھا
سب کے سب مہر بہ لب تھے چہ اناث و چہ ذکور
روک دے کوئی کسی کہ یہ نہ رکھتا تھا مجال
نشہ عدل و مساوات میں سب تھے مخمور
اپنے فرزند سے فاروق معظم نے کہا
تم کو ہے حالت اصلی کی حقیقت پہ عبور
تم ہی دے سکتے ہو اس کا مری جانب سے جواب
کہ نہ پکڑے مجھے محشر میں مرا رب غفور
بولے یہ ابن عمر سب سے مخاطب ہو کر
اس میں کچھ والد ماجد کا نہیں جرم قصور
ایک چادر میں جو پورا نہ ہوا ان کا لباس
کر سکی اس کو گوارا نہ میری طبع غیور
اپنے حصہ کی بھی میں نے انھیں چادر دے دی
واقعہ کی یہ حقیقت ہے کہ جو تھی مستور
نکتہ چیں نے یہ کہا اٹھ کے اے فاروق
حکم دے ہم کو کہ اب ہم اسے مانیں گے ضرور
٭٭٭
ہجرت کے بعد آپ نے پہلا کیا جو کام
تعمیر سجدہ گاہ خدائے انام تھا
ایک قطعہ زمین تھا کہ اس کام کے لئے
واقع میں ہر لحاظ سے موزوں مقام تھا
وہ قطعہ زمین تھا یتیموں کی ملک خاص
ہر چند قبر گاہ و گذر گاہ عام تھا
چاہا حضور نے کہ بہ قیمت خرید لیں
ان کے مربیوں سے کہا جو پیام تھا
ایتام نے حضور میں آ کر یہ عرض کی
یہ چیز ہی ہے کیا کہ جو یہ اہتمام تھا
یہ ہدیہ حقیر پذیرا کریں حضور
اللہ اس زمین کا یہ احترام تھا
لیکن حضور نے نہ گوارا کیا اسے
منت کشی سے آپ کو پرہیز تام تھا
احسان اور وہ بھی یتیمان زار کا
بالکل خلاف طبع رسول انام تھا
بارہ ہزار سکہ رائج عطا کئے
یہ تھا وہ خلق جس سے مخالف بھی رام تھا
سامان جو ضرور ہیں تعمیر کے لئے
اب ان کی فکر مشغلہ صبح و شام تھا
مزدور کی تلاش بھی تھی سنگ و گل کی بھی
از بسکہ جلد بننے کا خاص اہتمام تھا
انصار پاک اور مہاجر تھے جس قدر
مزدور بن گئے کہ خدا کا یہ کام تھا
اک روز نفس پاک بھی ان سب کا تھا شریک
جو آب و گل کے شغل میں بھی شاد کام تھا
کند ہوں پہ اپنے لاد کے لاتا تھا سنگ و خشت
سینہ غبار خاک سے سب گرد فام تھا
سمجھے کچھ آپ کون تھا ان کا شریک حال
یہ خود وجود پاک رسول انام تھا
جو وجہ آفرینش افلاک و عرش ہے
جس کا کہ جبرئیل بھی ادنیٰ غلام تھا
صلوا علی النبی و اصحابہ الکرام
اس نظم مختصر کا یہ مسک الختام تھا
٭٭٭
ہند تھی پردہ نشین حرم بو سفیاں
لقب ہند جگر خوار سے جوہے مشہور
بارگاہِ نبوی میں وہ ہوئی جب حاضر
اس ارادہ سے کہ ہو داخل ارباب حضور
عرض کی خدمت اقدس میں کہ اے ختم رسل
دین اسلام ہے مجھ کو بدل و جان منظور
آپ ہم پردہ نشینوں سے جو بیعت لیں گے
کون سے کام ہیں جن کا برتنا ہے ضرور
آپ نے لطف و عنایت سے یہ ارشاد کیا
پہلی یہ بات کہ شائبہ شرک سے دور
دوسری یہ کہ نبوت کا ہے لازم اقرار
بولی ان باتوں سے انکار نہیں مجھ کو حضور
پھر یہ ارشاد ہوا منع ہے اولاد کا قتل
اس شقاوت سے ہر اک شخص کو بچنا ہے ضرور
عرض کی اس نے کہ اے شمع شبستان رسل
یہ وہ موقع ہے کہ عاجز ہے یہاں فہم و شعور
میں نے اولاد کو پالا تھا بڑی محنت سے
میں انھیں آنکھ میں رکھتی تھی کہ تھے آنکھ کا نور
بدر میں قتل انہیں حضرت والا نے کیا
ہمسے کیا عہد اب اس بات کا لیتے ہیں حضور
اگرچہ یہ سوئے ادب تھا غلطی پر مبنی
گرچہ یہ بات تھی خود شیوہ انصاف سے دور
اس کی اولاد نے خود جنگ میں کی تھی سبقت
لڑ کے مارا جائے کوئی تو یہ کس کا ہے قصور
لیکن آزادہ افکار تھی از بسکہ پسند
آپ نے فرط کرم سے اسے رکھا معذور
٭٭٭
کبھی ہم نے بھی کی تھی حکمرانی ان ممالک پر
مگر وہ حکمرانی جس کا سکہ جان و دل پر تھا
قرابت راجگان ہند سے اکبر نے جب چاہی
کہ یہ رشتہ عروس کشور آرائی کا زیور تھا
تو خود فرماں دہ جیپور نے نسبت کی خواہش کی
اگرچہ آپ بھی وہ صاحب دیہیم و افسر تھا
ولی عہدِ حکومت اور خود شاہنشہِ اکبر
گئے انبیر تک جو تخت گاہِ ملک و کشور تھا
ادھر راجہ کو نور دیدہ گھر میں حجلہ آرا تھی
ادھر شہزادہ پر چتر عروسی سایہ گستر تھا
دلہن کو گھر سے منزل گاہ تک اس شان سے لائے
کہ کوسوں تک زمیں پر فرش دییبائے مشجر تھا
دلہن کی پالکی خود اپنے کندھوں پر جو لائے تھے
وہ شاہنشاہ اکبر اور جہانگیر ابن اکبر تھا
یہی ہیں وہ شمیم انگیزیاں عطر محبت کی
کہ جن سے بوستان ہند برسوں تک معطر تھا
تمہیں لے دے کے ساری داستاں میں یاد ہے اتنا
کہ عالمگیر ہندو کش تھا ظالم تھا ستمگر تھا
٭٭٭
لوگ کہتے ہیں کہ یہ بات ہے اب امر صریح
کہ زمانہ میں کہیں عزت اسلام نہیں
آپ چاہیں گے جہاں قوم کو پائیں گے ذلیل
اس میں تخصیص عراق و عرب و شام نہیں
یہ بھی ظاہر ہے کہ ہیں مختلف الحال یہ لوگ
کوئی چیز ان میں جو ہو مشترک عام نہیں
ایشیائی ہے اگر یہ تو وہ ہے افریقی
اور کوئی رابطہ نامہ و پیغام نہیں
لالہ رخ یہ ہے تو زنگی و سیہ فام ہے وہ
یہ نمبر ہے وہ موزون و خوش اندام نہیں
اس نے گہوارہ راحت میں بسر کی ہے عمر
وہ کبھی خوگر آسایش و آرام نہیں
وہ ازل سے ہے کمند افگن و شمشیر نواز
اس جو جز عیش کسی چیز سے کچھ کام نہیں
خوان ایوان سے بھی سیری نہیں ہوتی اسکو
اس کو گر نان جویں بھی ہو تو ابرام نہیں
اس نے یورپ کے مدارس میں جو سیکھے ہیں علوم
وہ ابھی ابجد تعلیم سے بھی رام نہیں
اس قدر فرق و تفاوت پہ بھی ہے عام یہ بات
قوم کا دفتر عزت میں کہیں نام نہیں
پس اگر غور سے دیکھو تو بجز مذہب و دین
ہم مسلمانوں میں کوئی صفت عام نہیں
ان اصولوں کی بنا پر یہ نتیجہ ہے صریح
سبب پستی اسلام جُز اسلام نہیں
ان مسائل میں ہے کچھ ژرف نگاہی درکار
یہ حقائق ہیں تماشائے لب بام نہیں
غور کرنے کے لئے فکر و تعمق ہے ضرور
منزل خاص ہے یہ راہ گزر عام نہیں
بحثِ ما فیہ میں پہلی غلطی یہ ہے کہ آپ
جس کو اسلام سمجھتے ہیں وہ اسلام نہیں
آپ کھانے کو نیا دیتے ہیں پہلے مسموم
پھر یہ کہتے ہیں غذا موجب اسقام نہیں
اعتقادات میں ہے سب سے مقدم توحید
آپ اس وصف کو ڈھونڈیں تو کہیں نام نہیں
کون ہے شائبہ کفر سے خالی اس وقت
کون ہے جس پہ فریب ہوس خام نہیں
آستانوں کی زیارت کے لئے شدِ رحال
اس میں کیا شان پرستاری اصنام نہیں
کیجئے مسئلہ شرک نبوت پہ جو غور
کفر میں بھی یہ جہانگیری اوہام نہیں
اب عمل پر جو نظر کیجئے آئے گا نظر
کہ کسی ملک میں پابندی احکام نہیں
اغنیا کی ہے یہ حالت کہ نہیں ہے وہ رئیس
جس کے چہرہ پہ فروغ مئے گلفام نہیں
نص قرآن سے مسلمان ہیں بھائی بھائی
اس اخوت میں خصوصیتِ اعمام نہیں
یاں یہ حالت ہے کہ بھائی کا ہے بھائی دشمن
کونسا گھر ہے جہاں یہ روش عام نہیں
نہ کہیں صدق و دیانت ہے نہ پابندی عہد
دل ہیں نہ صاف زبانوں میں جو دشنام نہیں
آیت فاعتبروا پڑھتے ہیں ہر روز مگر
علما کو خبر گردشِ ایام نہیں
الغرض عام ہے وہ چیز جو بے دینی ہے
صاف یہ بات ہے دھوکا نہیں ابہام نہیں
ان حقائق کی بنا پر سببِ پستیِ قوم
٭٭٭
تم کسی قوم کی تاریخ اٹھا کر دیکھو
دو ہی باتیں ہیں کہ جن پر ہے ترقی کا مدار
یہ کوئی جذبہ دینی تھا کہ جس نے دم میں
کر دیا ذرہ افسردہ کو ہمرنگ شرار
ہے یہ وہ قوتِ پر زور کہ جس کی تکرار
سنگ خارا کو بنا دیتی ہے اک مشتِ غبار
اس کی زد کھا کے لرز جاتی ہے بنیاد زمین
اس سے ٹکرا کے بکھر جاتے ہیں اوراق دیار
یہ اسی کا تھا کرشمہ کہ عرب کے بچے
کھیلنے جاتے تھے ایوان کسریٰ میں شکار
وہ الٹ دیتے تھے دنیا کا مرقع دم میں
جن کے ہاتھوں میں رہا کرتی تھی اونٹوں کی مہار
اس کی برکت تھی کہ صحرائے حجازی کی سموم
بن گئی دہر میں جا کے چمن آرائے بہار
یہ اسی کا تھا کرشمہ کہ عرب کے رہزن
فاش کرنے لگے جبریل امیں کے اسرار
یا کوئی جاذبہ ملک و وطن تھا جس نے
کر دئے دم میں قوائے عملی سب بیدار
ہے اسی مے سے یہ سرمستی احرار وطن
ہے اسی نشہ سے یہ گرمی ہنگامہ کار
آپ دونوں سے کئے دیتے ہیں ہم کو محروم
نہ سیاست ہے، نہ ناموس شریعت کا وقار
مدتوں بحث سیاست کی اجازت ہی نہ تھی
کہ وفاداری مسلم کا تھا یہ خاص وقار
اب اجازت ہے مگر دائرہ بحث یہ ہے
کہ گورنمنٹ سے اس بات کے ہوں عرض گزار
ہم کو پامال کئے دیتے ہیں ابنائے وطن
ڈر ہے پس جائے نہ یہ فرقہ اخلاص شعار
یہ بھی اک گونہ شکایت ہے غلاموں کو ضرور
کہ مناصب میں ہے کم حلقہ بگوشوں کا شمار
اب رہا جذبہ دینی تو وہ اس طرح مٹا
کہ ہمیں آپ ہی آتا ہے اب اس نام سے عار
وضع میں طرز میں اخلاق میں سیرت میں کہیں
نظر آتے نہیں کچھ حرمت دین کے آثار
آپ نے ہم کو سکھائے ہیں جو یورپ کے علوم
اس ضرورت سے نہیں قوم کو ہرگز انکار
بحث یہ ہے کہ وہ اس طرز سے بھی ممکن تھا
کہ نہ گھٹتا کبھی ناموس شریعت کا وقار
ہم نے پہلے بھی تو اغیار کے سیکھے تھے علوم
ہم نے پہلے بھی تو اس نشہ کا دیکھا ہے خمار
نام لیتے تھے ارسطو کا ادب سے ہر چند
تھے فلاطوں الٰہی کے بھی گو شکر گزار
جانتے تھے مگر اس بات کو بھی اہل نظر
کہ حریفوں کو نہیں انجمن خاص میں بار
یعنی یہ بادہ عرفان کے نہیں ذوق شناس
بزم اسرار کے یہ لوگ نہیں بادہ گسار
آج ہر بات میں ہے شان تفرج پیدا
آج ہر رنگ میں یورپ کے نمایاں ہیں شعار
ہیں شریعت کے مسائل بھی وہیں تک مقبول
کہ جہاں تک انہیں معقول بتائیں اغیار
٭٭٭
جبکہ آمادہ خوں ہو گئے کفار قریش
لاجرم سرور عالم نے کیا عزم سفر
کوئی نوکر تھا نہ خادم نہ برادر نہ عزیز
گھر سے نکلے بھی تو اس شان سے نکلے سرور
اک فقط حضرت ابوبکر تھے ہمراہ رکاب
اُنکی اخلاق شعاری تھی جو منظور نظر
رات بھر چلتے تھے دن کو کہیں چھپ رہتے تھے
کہ کہیں دیکھ نہ پائے کوئی آمادۂ شر
٭
تیرے لطف و کرم عام نے دے دی یہ ندا
کوئی مجرم ہے نہ قیدی ہے نہ زندانی ہے
تو نے اک آن میں گرتا ہوا گھر تھام لیا
بازوؤں میں یہ تیرے زور جہانبانی ہے
بات رکھ لی تری تقریر نے احکام کی بھی
گرچہ لازم انہیں اظہار پشیمانی ہے
ترے دربار میں پہنچیں گے جو اوراق سپاس
اُن میں یہ پیشکشِ شبلی نعمانی ہے
گرچہ مدحِ امراء میں نے نہیں کی ہے کبھی
شکر احسان مگر اک فطرتِ انسانی ہے
٭٭٭
جب ولی عہد ہوا تخت حکومت کا یزید
عامل یثرب و بطحا کو یہ پہنچے احکام
کہ ولی عہد کا بھی اب سے پڑھے نام ضرور
خطبہ پڑھتا ہے حریم نبوی میں جو امام
وقت آیا تو چڑھا پایہ ممبر پہ خطیب
اور کہا یہ کہ یزید اب ہے امیر اسلام
یہ نئی بات نہیں ہے کہ ابوبکر و عمر
جانشین کر گئے جب موت کا پہنچا پیغام
جھوٹ ہے یہ کہ ہے یہ سنتِ ابوبکر و عمر
سر بسر کذب ہے یہ اے خلف نسل لئام
اپنے بیٹے کو بنایا تھا خلیفہ کس نے
ایسی بدعت کا نہیں مذہب اسلام میں نام
یہ طریقہ متوارث ہے تو کفار میں ہے
ورنہ اسلام ہے اک مجلس شوریٰ کا نظام
شان اسلام ہے شخصیتِ ذاتی سے بعید
شرع میں سلطنتِ خاص ہے ممنوع و حرام
اس سے بھی قطع نظر نسل عرب ہیں ہم لوگ
وہ کوئی اور ہیں جو ہوتے ہیں شاہوں کے غلام
٭٭٭
کافروں نے یہ کیا جنگ احد میں مشہور
کہ پیمبر بھی ہوئے کشتہ شمشیر دو دم
ہو کے مشہور مدینے میں پہنچی یہ خبر
ہر گلی کوچہ تھا ماتم کدہ حسرت و غم
ہو کے بیتاب گھروں سے نکل ائے باہر
کودک و پیر و جوان و خدم و خیل و حشم
وہ بھی نکلیں کہ جو تھیں پردہ نشینان و عفاف
جن میں تھیں سیدہ پاک بھی با دیدۂ نم
ایک خاتون کہ انصار نکو نام سے تھیں
سخت مضطر تھیں نہ تھی ہوش و حواس اُن کے بہم
موقع جنگ پہ پہنچیں تو یہ لوگوں نے کہا
کیا کہیں تجھ سے کہ کہتے ہوئے شرماتے ہیں ہم
تیرے بھائی نے لڑائی میں شہادت پائی
تیرے والد بھی ہوئے کشتہ شمشیر ستم
سب سے بڑھ کر یہ کہ شوہر بھی ہوا تیرا شہید
گھر کا گھر صاف ہوا ٹوٹ پڑا کوہِ الم
اُس عفیفہ نے یہ سب سن کے کہا تو یہ کہا
یہ تو بتلاؤ کہ کیسے ہیں شہنشاہِ امم
سب نے دی اُسکو بشارت کہ سلامت ہیں حضور
گرچہ زخمی ہیں سر و سینہ و پہلے و شکم
بڑھ کے اس نے رُخ اقدس کو جو دیکھا تو کہا
تو سلامت ہے تو پھر ہیچ ہیں سب رنج و الم
میں بھی اور باپ بھی شوہر بھی برادر بھی فدا
اے شہ دیں ترے ہوتے ہوئے کیا چیز ہیں ہم
٭٭٭
معترض ہیں مجھ پہ میرے مہربانان قدیم
جرم یہ ہے میں نے کیوں چھوڑا وہ آئین کہن
میں نے کیوں لکھے مضامین سیاست پے بہ پے
کیوں نہ کی تقلید طرز رہنمایان زمن؟
کانگرس سے مجھ کو اظہار برأت کیوں نہیں
کیوں حقوق ملک میں ہوں ہندوؤں کا ہم سخن
خیر میں تو شامت اعمال سے جو ہوں وہ ہوں
آپ تو فرمائیے کیوں اپنے بدلا چلن
آپ نے شملہ میں جا کے کی تھی جو کچھ گفتگو
ماحصل اس کا فقط یہ تھا پس از تمہید فن
سعی بازو سے ملیں جب ہندوؤں کو کچھ حقوق
اس میں کچھ حصہ ملے ہم کو بھی بہر پنجتن
لیکن اب تو آپ کی بھی کھلتی جاتی ہے زبان
آپ بھی اب تو اڑاتے ہیں وہی طرز سخن
اب تو مسلم لیگ کو بھی خواب آتے ہیں نظر
اب تو ہے کچھ اور طرز نغمہ مرغ چمن
ملک پر اپنی حکومت چاہتے ہیں آپ بھی
تھا یہی تو منتہائے فکرِ یاران وطن
آپ نے بھی اب تو نصب العین رکھا ہے وہی
کانگرس کا ابتدا سے ہے جو موضوع سخن
آپ بھی تو جادہ (سید) سے اب ہیں منحرف
اب تو اوراق وفا پر آپ کے بھی ہے شکن
جب یہ حالت ہے تو پھر ہم پر ہے کیوں خشم و عتاب
منکرمی بودن و ہمرنگ مستاں زیستن
٭٭٭
یہ اعتراض آپ کا بیشک صحیح ہے
احرار قوم میں ہیں بہت خامیاں ابھی
چلتے ہیں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ
گم گشتہ طریق ہے یہ کارواں ابھی
زود اعتقادیاں ہیں تلون ہے وہم ہے
ہو جاتے ہیں ہر ایک سے یہ بدگماں ابھی
دل میں نہ عزم ہے نہ ارادوں میں ہے ثبات
جھیلے نہیں ہیں معرکہ امتحاں ابھی
بے اعتدالیاں ہیں ادائے کلام میں
باہر ہے اختیار سے اُن کے زباں ابھی
ہر دم ہیں گو مسائل ملکی زبان پر؟
ان میں سے ایک بھی تو نہیں نکتہ داں ابھی
یہ سب بجا درست مگر سچ جو پوچھئے
جو کچھ کہ ہے یہ ہے اثر رفتگاں ابھی
یہ ہے اسی سیاست پارینہ کا اثر
گو شمع بجھ چکی ہے مگر ہے دھواں ابھی
موزوں نہیں ہے جنبش اعضا تو کیا عجب
شب کے خمار ہیں یہ انگڑائیاں ابھی
چلنے میں لڑکھڑاتے ہیں اک اک قدم پہ پاؤں
چھوٹے ہیں قید سخت سے یہ سخت جاں ابھی
بیکار کر دیئے تھے جو خود بازوئے عمل
گو کھینچتے ہیں پر نہیں کھینچتی کماں ابھی
آئے کہاں سے قوتِ رفتار پاؤں میں
کچھ بیڑیاں ہیں پاؤں کی بند گراں ابھی
غوں غاں ہے کچھ مباحث ملکی نہیں ہیں یہ
اک طفل ہے سیاست ہندوستاں ابھی
٭٭٭
قصر شاہی میں کہ ممکن نہیں غیروں کا گزر
ایک دن نور جہاں بام پہ تھی جلوہ فگن
کوئی شامت زدہ رہ گیر اُدھر آ نکلا
گرچہ تھی قصر میں ہر چار طرف سے قدغن
غیرتِ حسن سے بیگم نے طمنچہ مارا
خاک پر ڈھیر تھا اک کشتہ بے گور و کفن
ساتھ ہی شاہ جہانگیر کو پہنچی جو خبر
غیظ میں آ گئے ابروئے عدالت پہ شکن
حکم بھیجا کہ کنیزان شبستان شہی
جا کے پوچھ آئیں کہ سچ یا کہ غلط ہے یہ سخن
نخوتِ حُسن سے بیگم نے بصد ناز کہا
میری جانب سے کرو عرض یہ آئین حسن
ہاں مجھے واقعہ قتل سے انکار نہیں
مجھے سے ناموس حیا نے یہ کہا تھا کہ بزن
اس کی گستاخ نگاہی نے کیا اس کو ہلاک
کشور حُسن میں جاری ہے یہی شرع کہن
مفتیِ دیں سے جہانگیر نے فتویٰ پوچھا
کہ شریعت میں کسی کو نہیں کچھ جائے سخن
مفتی دیں نے یہ بے خوف و خطر صاف کہا
شرع کہتی ہے کہ قاتل کی اڑا دو گردن
لوگ دربار میں اس حکم سے تھرا اٹھے
پر جہانگیر کی ابرو پہ نہ بل تھا نہ شکن
ترکنوں کو یہ دیا حکم کہ اندر جا کر
پہلے بیگم کو کریں بستۂ زنجیر و رسَن
پھر اسی طرح اُسے کھینچ کے باہر لائیں
اور جلاد کو دیں حکم کہ ہاں تیغ بزن
یہ وہی نور جہاں ہے کہ حقیقت میں یہی
تھی جہانگیر کے پردہ میں شہنشاہ زمن
اس کی پیشانیِ نازک پہ جو پڑتی تھی گرہ
جا کے بن جاتی تھی اوراق حکومت پہ شکن
اب نہ وہ نور جہاں ہے نہ وہ انداز و غرور
نہ وہ غمزے ہیں نہ وہ عربدہ صبر شکن
ایک مجرم ہے کہ جس کو کائی حامی نہ شفیع
ایک بیکس ہے کہ جس کا نہ کوئی گھر نہ وطن
خدمتِ شاہ میں بیگم نے یہ بھیجا پیغام
خوں بہا بھی تو شریعت میں ہے اک امر حسن
مفتی شرع سے پھر شاہ نے فتویٰ پوچھا
بولے جائز ہے رضا مند ہوں گر بچہ وزن
وارثوں کو جو دیئے لاکھ درہم بیگم نے
سب نے دربار میں کی عرض کہ اے شاہ زمن
ہم کو مقتول کا لینا نہیں منظور قصاص
قتل کا حکم جو رک جائے تو ہے مستحسن
ہو چکا جبکہ شہنشاہ کو پورا یقین
کہ نہیں اس میں کوئی شائبہ حیلہ و فن
اُٹھ کے دربار سے آہستہ چلا سوئے حرم
تھی جہاں نور جہاں معتکف بیت حزن
دفعتہً پاؤں پہ بیگم کے گرا اور یہ کہا
تو اگر کشتہ شدی آہ چہ میگروم من
٭٭٭
اک روز جرمنوں نے کہا از رہ غرور
آساں نہیں ہے فتح تو دشوار بھی نہیں
برطانیہ کی فوج ہے دس لاکھ سے بھی کم
اس پر یہ لطف ہے کہ وہ تیار بھی نہیں
باقی رہا فرانس تو وہ رند لم یزل
آئیں شناسِ شیوہ پیکار بھی نہیں
میں نے کہا غلط ہے ترا دعوائے غرور
دیوانہ تو نہیں ہے تو ہشیار بھی نہیں
ہم لوگ اہل ہند ہیں جرمن سے دس گنے
تجھ کو تمیز اندک و بسیار بھی نہیں
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
٭٭٭
ہمیں جس چیز نے کھویا وہ تفریق و تجزی تھی
یہی وہ شے ہے جو بربادی مسلم کے درپے ہے
مگر اب تو در و دیوار تک اس کا اثر پہنچا
وضو خانہ الگ اک چیز ہے مسجد الگ شے ہے
٭٭٭
کیا لطف ہے کہ حامی ندوہ ہیں اب وہ لوگ
جن کو کہ اس کے نام سے بھی اجتناب تھا
وہ لوگ جن کی رائے میں یہ ندوہ غریب
ایک بیہودہ خیال تھا یا ایک خواب تھا
وہ لوگ جن کی رائے میں تعلیم کا وہ طرز
اعلانِ جنگِ سید عالی جناب تھا
وہ لوگ جن کی رائے میں ندوہ حقیر
تعلیم مغربی کے لئے سدِ باب تھا
وہ لوگ جن رائے میں ندوہ کا وہ طلسم
سر تا قدم فریب دہِ شیخ و شاب تھا
ندوہ کا نام سنکے جو کھاتے تھے پیچ و تاب
جن کے لئے وہ موجب رنج و عذاب تھا
حیرت یہ ہے کہ مجمع دہلی میں یہ گروہ
ندوہ کے حل و عقد کا نائب مناب تھا
ندوہ پہ حرف گیر جو ہوتا تھا کوئی شخص
وہ اس گروہ پاک کا وقف عتاب تھا
ندوہ میں کوئی نقص بتاتا تھا گر کوئی
اُن کی طرف سے ایک کا سو سو جواب تھا
سیارگان چرخ علی گڈھ تھے پیش پیش
جن میں کوئی قمر تھا کوئی آفتاب تھا
حیرت میں تھے تمام تماشائیان بزم
یعنی یہ کیا طلسم تھا، کیا انقلاب تھا
ندوہ کہاں کہاں وہ علی گڈھ کی انجمن
اُس بزم قدس میں یہ کہاں باریاب تھا
کس دن کی دوستی ہے یہ کب کا ہے ارتباط
یوں کب وہ مورد کرم بے حساب تھا
شایان آفرین ہے وہی ندوہ غریب
جو مدتوں سے موردِ خشم و عتاب تھا
سرشار ہے حمایت ندوہ میں وہ گروہ
جس کو کہ اس کے ذکر سے بھی اجتناب تھا
یہ قصہ لطیف ابھی ناتمام ہے
جو کچھ بیان ہوا ہے وہ آغاز باب تھا
٭٭
آتا ہے اب معائنہ ندوہ کا وہ مشن
جو اختراع مجمع نصف شعار ہے
جن میں کچھ شریک نزاع قدیم ہیں
کچھ ابتدا سے بانی آغاز کار ہے
جن میں سے کوئی محکمہ راز کا شریک
مضمون آفتاب کا مضمون نگار ہے
خود کوزہ گر ہے خود گلِ کورہ بھی وہی
جو صلح ہے وہی روش کارزار ہے
کیا شان ایزدی ہے وہی ندوہ علوم
جو مدعیِ رہبری روزگار ہے
جو مایہ امید ہے نسل جدید کا
جو کاروانِ رفتہ کی اب یادگار ہے
جس پر یہ حسنِ ظن ہے کہ یہ مجمع کرام
جس کا کہ مصر و شام میں اب تک وقار ہے
آیا تھا جس کے شوق میں وہ فاضل عرب
جس کا مرقع ادبی المنار ہے
چلتے ہیں جس کے نقش قدم پر حریف بھی
گو اعتراف حق سے ابھی اُن کو عار ہے
جس نے خطابت عربی کو دیا رواج
جو فنِ جرح و نقد کا آمرزگار ہے
جس نے بدل دیا روش و شیوہ قدیم
جو رہبر طریقہ اصلاح کار ہے
آتے ہیں اُس کی جانچ کو ناآشنائے فن
یہ انقلاب گردش لیل و نہار ہے
تعلیم مشرقی سے نہیں جن کو کچھ غرض
وہ اب نہ اُن کا ناز کش اقتدار ہے
ارباب ریش و جبہ اقدس کا وہ گروہ
اب چند منشیوں کا اطاعت گزار ہے
یہ داستان درد یہ افسانہ الم
ندوہ کا نوحہ نفس اختصار ہے
٭٭٭
وہ برادر کہ میرا یوسف کنعانی تھا
وہ مجموعہ ہر خوبی انسانی تھا
وہ جو گہر بھر کے لئے رحمت یزدانی تھا
قوت دست و دل شبلی نعمانی تھا
بل اسی کا یہ مرے خامہ پُر زور میں تھا
جوش اسی کا تھا جو میرے سر پر شور میں تھا
ہم سے بیکاروں کو اک قوت عامل تھا وہی
مایہ عزت اجداد کا حامل تھا وہی
مسند والدِ مرحوم کے قابل تھا وہی
یوں تو سب اور بھی اعضا ہیں مگر دل تھا وہی
اب وہ مجموعہ اخلاق کہاں سے لاؤں
ہائے افسوس میں اسحٰق کہاں سے لاؤں
جب کیا والد مرحوم نے دنیا سے سفر
گھر کا گھر تھا ہدف ناوک صد گونہ خطر
بن گیا آپ اکیلا وہ ہر آفت میں سپر
تیر جو آئے گیا آپ وہ اُن کی زد پر
خود گرفتار رہا، تاکہ میں آزاد رہوں
اس نے غم اس لئے کھائے تھے کہ میں شاد رہوں
اس کا صدقہ تھا کہ ہر طرح سے تھا میں بے غم
گھر کے جھگڑوں سے نہ کچھ فکر نہ کچھ رنج و الم
امن و راحت کے جو سامان تھے ہر طرح بہم
میں تھا اور مشغلہ نامہ و قرطاس و قلم
اس کے صدقے سے تھی میری سخن آرائی بھی
اس کا ممنون تھا مرا گوشہ تنہائی بھی
تازہ تھا دل پہ مرے مہدی مرحوم کا داغ
کہ مرا قوت بازو تھا مرز چشم و چراغ
اُسکو جنت میں جو خالق نے دیا گنج فراغ
میں یہ کہتا تھا کہ اب بھی ہے تر و تازہ یہ باغ
یعنی وہ آئینہ خوبی و اخلاق تو ہے
اُٹھ گیا مہدی مرحوم تو اسحاق تو ہے
آج افسوس کہ وہ نیر تاباں بھی گیا
میری حمیت خاطر کا وہ ساماں بھی گیا
اب وہ شیرازہ اوراق پریشاں بھی گیا
عتبہ والد مرحوم کا درباں بھی گیا
گلہ خوبی تقدیر رہا جاتا ہے
نوجواں جاتے ہیں اور پیر رہا جاتا ہے
تجھ کو اے خاک لحد آج اجل نے سونپی
وہ امانت جو میرے والد مرحوم کی تھی
بس کہ فطرت میں ودیعت تھی نفاست طلبی
ناز پروردہ نعمت تھا بہ ایں سادہ وشی
دیکھنا اُڑ کے غبار آئے نہ دامن پہ کہیں
گرد پڑ جائے نہ اُس عارض روشن پہ کہیں
اس کے اخلاق کھٹک جاتے ہیں دل میں ہر بار
وہ شکر ریز تبسم وہ متانت وہ وقار
وہ وفا کیشی حباب وہ مردانہ شعار
وہ دل آویزی خو وہ نگہ الفت یار
صحبت رنج بھی اک لطف سے کٹ جاتی تھی
اُس کی ابرو پہ شکن آ کے پلٹ جاتی تھی
حق نے کی تھی کرم و لفظ سے اُس کی تخمیر
خوبی خلق و تواضع میں نہ تھا اُس کا نظیر
بات جو کہتا تھا ہوتی تھی وہ پتھر کی لکیر
اُس کی ایک ذات تھی مجموعہ اوصاف کثیر
بسکہ خوش طبع بھی تھا صاحب تدبیر بھی تھا
سچ تو یہ ہے کہ وہ نوخیز بھی تھا پیر بھی تھا
اُسکو شہرت طلبی سے کبھی کچھ کام نہ تھا
وہ گرفتار کمند ہوس خام نہ تھا
اُس کی ہر بات میں ایک لطف تھا ابرام نہ تھا
وہ کبھی مدعی رہبری عام نہ تھا
اُسکو مطلوب کبھی گرمی بازار نہ تھی
اُس کی جو بات تھی کردار تھی گفتار نہ تھی
اُسکو معلوم جو تھا وسعت تعلیم کا راز
اس نے دیکھے تھے جو منزل کے نشیب اور فراز
اُس نے یہ کام نئی طرح کیا تھا آغاز
مگر افسوس کہ تھا راہ میں خش و تگ و تاز
کوششوں کے جو نتیجے تھے اُسے مل نہ سکے
ہائے وہ پھول کہ پھولے تھے مگر کھل نہ سکے
آہ بھائی ترے مرنے کے تھے یہ بھی کوئی دن
وہ ترا جوش شباب اور وہ بچے کمسن
مسند حلقہ احباب ہے سونی تجھ بن
تو ہی تھا اب خلف صدر نشینانِ مُسِن
دن جب آئے کہ تجھے رہبر جمہور کہوں
چرخ کا مجھ سے تقاضہ ہے کہ مغفور کہوں
یہ بھی اے جان برادر کوئی جانے کا ہے طور
اپنے بچوں کی نہ کچھ فکر نہ تدبیر نہ غور
ابھی آنے بھی نہ پایا تھا ترے اوج کا دور
کیا ہوا تجھ کو کہ تو ہو گیا کچھ اور سے اور
چھوڑ کر بچوں کو بے صبر و سکوں جاتا ہے
کوئی جاتا ہے جو دنیا سے تو یوں دنیا سے جاتا ہے
آہ اے مرگ کسی شے کی نہیں تجھ کو تمیز
تیری نظروں میں برابر ہیں گہر اور پشیز
میں نے مانا ترے نزدیک نہ تھا وہ کوئی چیز
رحم کرنا تھا کہ چھوڑے ہیں کئی اس نے عزیز
لاڈلے ہیں کہ کسی اور کے بس کے بھی نہیں
اس کے بچے ابھی سات آٹھ برس کے بھی نہیں
اے خدا شبلی دلخستہ بایں موئے سفید
لے کے آیا ہے تری درگہ عالی میں امید
مرنے والے کو نجات ابدی کی ہو نوید
خوش و خرم رہے چھوٹا مرا بھائی یہ جنید
کیا لکھوں قصہ غم تاب رقم بھی تو نہیں
اب مرے خامہ پر زور میں دم بھی تو نہیں
٭٭٭
یہ جو لیڈر شکنی آپ نے کی خوب کیا
قوم اب طوق غلامی سے ہے بالکل آزاد
لوگ اب حلقہ تقلید میں ہوں گے نہ اسیر
ٹوٹ جائے گا طلسم اثر استبداد
ہاں مگر ایک گذارش بھی ہے یہ قابل غور
یہ تو فرمائے اس باب میں ہے کیا ارشاد
بتکدے آپ نے ڈھائے بہت اچھا لیکن
شرط یہ ہے کہ حرم کی بھی رکھیئے بنیاد
آبلہ قابل نشتر تھا، یہ مانا لیکن
دیکھے یہ، کہ کہیں زخم میں آنے نہ فساد
آپ کہتے ہیں کہ وہ مجمع ناجائز تھا
خیر جو کچھ تھا مگر جمع تو تھے کچھ آزاد
اب کوئی مرکزِ قومی ہے نہ توحید خیال
نہ کوئی جادہ مقصد ہے نہ کچھ توشہ و زاد
خوف یہ ہے کہ بکھر جائے نہ شیرازہ قوم
خوف یہ ہے کہ یہ ویرانہ نہ ہو پھر آباد
ذرے جس طرح سے ہو جاتے ہیں اڑ اڑ کر فنا
یوں ہی ہو جائے گی پھر قوم بھی آخر برباد
نکتہ چینی سے فقط کام نہیں چل سکتا
یہ بھی لازم ہے کہ کچھ کام بھی ہو پیش نہاد
بھاپ پُر زور ہے لیکن کوئی انجن بھی تو ہو
کام کیا آئے گا نشتر جو نہ ہو گا فصاد
٭٭٭
افلاس سے تھا سیدہ پاک کا یہ حال
گھر میں کوئی کنیز نہ کوئی غلام تھا
گھس گھس گئی تھیں ہاتھ کی دونوں ہتھیلیاں
چکی کے پیسنے کا جو دن رات کام تھا
سینہ پہ مشک بھر کے جو لاتی تھیں بار بار
گو نور سے بھرا تھا مگر نیل فام تھا
اٹ جاتا تھا لباس مبارک غبار سے
جھاڑو کا مشغلہ بھی جو ہر صبح و شام تھا
آخر گئیں جناب رسولِ خدا کے پاس
یہ بھی کچھ اتفاق کہ واں اذن عام تھا
محرم نہ تھے جو لوگ تو کچھ کر سکیں نہ عرض
واپس گئیں کہ پاس حیا کا مقام تھا
پھر جب گئیں دوبارہ تو پوچھا حضور نے
کل کس لئے تم آئی تھیں کیا خاص کام تھا
غیرت یہ تھی کہ اب بھی نہ کچھ منہ سے کہہ سکیں
حیدر نے اُن کے منہ سے کہا جو پیام تھا
ارشاد یہ ہوا کہ غریبان بے وطن
جن کا کہ صفہ نبوی میں قیام تھا
میں ان کے بندوبست سے فارغ نہیں ہنوز
ہر چند اس میں خاص مجھے اہتمام تھا
جو جو مصیبتیں کہ اب اُن پر گزرتی ہیں
میں اس کا ذمہ دار ہوں میرا یہ کام تھا
کچھ تم سے بھی زیادہ مقدم ہے انکا حق
جن کو کہ بھوک پیاس سے سونا حرام تھا
خاموش ہو کے سیدہ پاک رہ گئیں
جرأت نہ کر سکیں کہ ادب کا مقام تھا
یوں کی ہر اہل بیتِ مطہر نے زندگی
یہ ماجرائے دختر خیر الانام تھا
٭٭٭
مولانا شبلی کی وفات سے مسلمانوں میں جو کمی ہو گئی ہے اس کا پورا ہونا بہت دشوار ہے۔ ہندوستان میں بہت سے علماء و فضلاء پیدا ہوں گے بہت انگریزی کے قابل و متجر پیدا ہوں گے بہت سے شعراء بہت سے مصنف پیدا ہوں گے مگر شبلی پیدا ہوں ممکن نہیں۔ وہ اس عالم سرمدی میں گئے اور اُس جنت میں پہنچے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ کسی کی یاد میں نوحہ و بکا کرنا اسے ستانا ہے لہٰذا ہم اپنی آہ و زاری سے اُنکی وہاں کی مسرت ابدی و فارغ البالی میں فرق نہ ڈالتے اور انہیں نہ ستاتے مگر کیا کریں کہ شبلی ۔۔۔۔۔۔ نشیں نہ دنیا میں کوئی نظیر چھوڑ گئے ہیں اور نہ آپ کے سے محقق گراں پایہ کے پیدا ہونے کی امید ہے اور یہ ایسا غمِ جانکاہ ہے کہ ہمیں نہ آج ہی یہ چین سے بیٹھنے دے گا نہ کبھی آئندہ۔
مولٰنا کے علمی کارناموں کا آغاز ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا ہمارے ہی سامنے اُنھوں نے ترقی کی شہرت حاصل کی اور ہماری ہی آنکھوں کے سامنے دنیا سے سدھار گئے۔ ہم سے اُن سے طالب علمی کے زمانہ سے ملاقات تھی۔ اُن کا سنہ ولادت تو ہمیں یاد نہیں مگر اتنا جانتے ہیں کہ ہم اور وہ قریب العمر ہیں۔ مولٰنا کے ہجوم امراض قبض و بواسیر کی تکالیف اور معدہ کی کمزوری نے بہت ہی ضعیف اور ناتوان بنا دیا تھا جس کی وجہ سے اُن کی عمر اصل سے زیادہ معلوم ہوتی تھی۔ اُن کے بیان کے مطابق اُن کی عمر – سال سے زیادہ نہ تھی۔ ابتدائے عمر میں درسیات و کتب معقول انہوں نے اپنے وطن میں مولوی محمد فاروق صاحب چڑیاکوٹی سے پڑھیں۔
چند روز بحیثیت طالب علم جونپور کے مدرسہ حنفیہ میں رہے۔ غالباً مولوی ہدایت اللہ خان صاحب مرحوم سے تحصیل کی، آخر میں ادب عربی کے شائق بن کے لاہور پہونچے اور مولانا فیض الحسن صاحب سے پرائیویٹ طور پر ادب کی کتابیں پڑھیں۔ شائد اس وجہ سے پنجاب کے اخبارات میں شائع ہوا تھا کہ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی کی ڈگریاں مولوی عالم اور مولوی فاضل حاصل کیں مگر یہ بالکل بے اصل اور بے بنیاد ہے۔ یہ ہمیں نہیں معلوم کہ مولٰنا نے حدیث کی کتابیں پڑھیں یا نہ پڑھیں تو کہاں اور کس سے پڑھیں۔
تحصیل علم کے بعد مولٰنا نے ارادہ کیا کہ قانونی پیشہ اختیار کر کے مختاری و وکالت کی سندیں حاصل کریں۔ جس غرض کے لئے چند روز تک ضلع بستی میں قیام کیا مگر حالت اور رجحان طبیعت سے آشکارا ہو رہا تھا کہ جس میدان میں فروغ پانے کے لئے وہ پیدا کئے گئے تھے وہ میدان یہ نہیں ہے۔ چنانچہ اُن دنوں اگرچہ مقدمہ فہمی اور عدالتی کاروائیوں سے کام رہتا تھا مگر اُن کا مشغلہ علمی مباحث اور عالمانہ تصانیف ہی تھا۔
مولانا نے جن درسگاہوں میں تعلیم پائی تھی اور جس اساتذہ سے اُن کے صحبت نے ابتدا ہی میں اُنہیں سخت حنفی بنا دیا تھا اسی شوق میں انہوں نے اپنے نام کے ساتھ نعمانی کا لقب لکھنا شروع کیا۔ جس کی وجہ سے بعض ناواقف لوگوں نے انہیں غلطی میں پڑ کر نسباء نعمانی یعنی امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کوفی کی نسل میں خیال کر لیا مگر اس کی کوئی اصلیت و حقیقت نہیں ہے۔ وہ مشدد حنفی تھے اور حنفیت میں اپنے آپ کو اوروں سے ممتاز ثابت کرنا چاہتے تھے۔ اسی جوش کا تقاضا یہ بھی تھا کہ امام صاحب سوانح عمری اُنہوں نے سیرۃ النعمان لکھی تو امام المحدثین محمد بن اسمعیل بخاری پر جا بجا حملے کئے اور علی العموم گروہ محدثین کے اصول سے اختلاف کیا کرتے یہاں تک کہ امام ابو الحسن اشعری بھی محض اتباع حدیث کے باعث اُن کے مورد سہام بن گئے۔ اُن دنوں مولوی ابو الحسنات محمد عبد الحئی فرنگی محلی کی درسگاہ کی شہرت تھی جن کے فیض علمی سے سارا ہندوستان بلکہ ممالک دور دراز کے لوگ بھی بہرہ یاب ہو رہے تھے۔ مولٰنا عبد الحئی صاحب کی یہ شان تھی کہ بخلاف تمام موجودہ علماء کے ائمہ حنفیہ سلف میں سے جسکے قول کو اہل حدیث مذہب سے قریب تر پاتے اختیار کر لیتے۔ اور بہت سے مسائل میں اہل حدیث کے ہم خیال تھے چنانچہ نماز میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کے بارے میں انہوں نے امام محمد کا مذہب اختیار کر لیا تھا اور سورہ فاتحہ پڑہنا مستحب بتاتے تھے، یہ امر مولٰنا شبلی کو سخت ناگوار ہوا۔ چنانچہ اُن کی تردید میں ایک عربی رسالہ لکھ کر شائع کر دیا جس کا نام (اسکات المعتدی) تھا اور جیسے ہی اس کی اشاعت ہوئی اس کی تردید میں مولوی عبد الحئی صاحب مرحوم کے فاضل شاگردوں سے مولوی نور محمد صاحب ملتانی اور ملاء شعیب نے اپنے اپنے رسالے شائع کئے جن میں علاوہ نفس مسئلہ کے ادبی غلطیاں بھی نکالیں تھیں۔
مولانا انہی بحثوں میں پڑے ہوئے تھے کہ علی گڈھ کالج کو عربی کے ایک اچھے ادیب اور فاضل مدرس کی ضرورت ہوئی انہوں نے مولوی فیض الحسن صاحب کی تصدیق و سفارش سے درخواست بھیجی۔ سید صاحب نے مولانا کی درخواست کو قبول کر لیا۔ چنانچہ مولانا بستی اور وہاں کے قانونی مشاغل کو چھوڑ کر لکھنؤ ہوتے ہوئے علی گڈھ گئے۔ میں اس وقت داروغہ حیدر بخش کی مسجد میں ان سے ملا تھا اور ان کے چہرہ سے محسوس کرتا تھا کہ یہاں کے طلبہ میں ہر ایک کو وہ وحشت و بدگمانی کی نظر سے دیکھتے تھے مگر باوجود اس وحشت کے طلبہ ہی میں تھے اس لئے کہ اس وقت تک پبلک سے اُن کو سروکار نہ تھا۔
علی گڈھ میں سید صاحب نے اُنہیں اپنی کوٹھی کے احاطہ کے اندر ایک چھوٹے سے مکان میں جگہ دی جو سب سے الگ بالکل باہمہ اور بے ہمہ تھا اور ایک خاموش مقام تھا۔ ان میں جستجو و تحقیق کا سچا مذاق دیکھ کر سید صاحب نے اُن سے ربط و ضبط بڑھایا۔ اکثر کھانا ایک ساتھ کھاتے اور روزانہ بلا ناگہ مولانا اور سید صاحب میں گھنٹوں صحبت رہتی۔
سید صاحب ہمیشہ اعتقادی و کلامی مسائل اور مور خانہ تحقیق کے غور و خوض میں رہتے اور تحقیق و تدقیق کے لئے اُنہیں اکثر حدیث و فقہ و تاریخ و سیر کی کتابوں کے مطالعہ کی ضرورت پڑتی۔ اس کام کو اُنہوں نے مولانا شبلی سے لینا شروع کر دیا۔ مولانا شبلی نے اس خدمت کو ایسی خوبی اور قابلیت سے انجام دیا کہ جس قدر سید صاحب کی دقیقہ رسی اور وسعت نظر کے مولانا شبلی قائل ہوتے جاتے تھے اِس سے زیادہ سید صاحب اُن کی جستجو اور جلب روایات کے معتقد ہو گئے تھے۔ اس زمانہ میں مجھے بارہا مولانا شبلی کے پاس جا کے ٹھہرنے اور اُن کے ذریعہ سے خود سید صاحب کا مہمان بن جانے اور دونوں کے ساتھ ہفتوں کھانا کھانے اور شریک صحبت رہنے کا موقع ملا۔ مولانا سے اور مجھ سے حد درجہ کے بے تکلفی تھی اور میں اس بات کو ہر صحبت میں محسوس کرتا تھا کہ وہ اور سید صاحب دونوں کس قدر ایک دوسرے کے علمی کمالات کے معترف ہوتے جاتے ہیں۔ سید صاحب کے اعتراف کی تو یہ حالت تھی کہ کوئی کام بغیر اُن کے مشورہ کے نہ کرتے اور مولانا شبلی کے اعتراف کا یہ ثبوت ہے کہ میرے علم میں اُن کی سب سے پہلی نظم جو اُن دنوں شائع ہوئی تھی (صبح امید) ہے جس میں اُنہوں نے مسلمانوں کی غفلت اور سید صاحب کی برکت سے اُن کے بیدار ہونے کو نہایت ہی پر لطف اور موثر الفاظ میں ظاہر کیا ہے۔ اور اسی زمانہ میں علی گڈھ کے ایک طالب علمانہ تھیٹر میں انہوں نے اپنی ایک قومی نظم سنائی تھی۔ اِن چیزوں نے اُنہیں فارسی اور اردو کا ایک مقبول عام شاعر ثابت کرنا شروع کر دیا تھا۔ اور اس میں شک نہیں کہ وہ ایک دقیقہ رس شاعر تھے اور اپنی نظموں کو ایسی نغمہ خیز دھن میں سنایا کرتے تھے کہ پبلک نے بہت پسند کیا اور طلبہ نے اُسے اختیار کر کے قومی نغمہ خوانی کی۔ ایک مقبول عام دھن بنا کے سارے ہندوستان میں پھیلا دیا مگر پھر بھی میں کہوں گا کہ وہ شاعر نہ تھے اور نہ شاعری کے لئے پیدا ہوئے تھے بلکہ علم کے عالم میں اُن کی شان ایک شاعر کے درجہ سے بہت ہی ارفع و اعلیٰ تھی۔
اب سید صاحب کے توجہ دلانے سے وہ تاریخی تنقید و تحقیق میں مصروف تھے جسکا سب سے پہلا نمونہ مسلمانوں کی گذشتہ تعلیم پر اُن کا لکچر تھا جسے انہوں نے محمدن ایجوکیشنل کانفرنس کے دوسرے یا تیسرے اجلاس میں پیش کیا تھا۔ لکچر مسلمانوں کی نظر میں بالکل نئی اور بہت ہی دلچسپ چیز تھا چنانچہ جب اس پر دلگداز میں ریویو ہوا ہے تو کوئی نہ تھا جس اس کے دیکھنے کا مشتاق نہ ہو گیا ہو۔ اسی نوعیت کی اُن کی دوسری کتاب المامون تھی جو علی العموم بہت پسند کی گئی اور اسی کتاب نے پہلے پہل پبلک کو بتایا کہ مولانا شبلی کس قسم کے مصنف ہیں اور یہ کہ آیندہ کیسے ثابت ہونے والے ہیں۔
اب سید صاحب کی صحبت اور پبلک کی حوصلہ افزائی نے مولانا کو اسی کوچہ میں آگے بڑھانا شروع کیا۔ سیرۃ النعمان لکھی، الفاروق لکھی اور تاریخی جستجو کا شوق اس قدر بڑھ گیا تھا کہ کتابوں کی تلاش میں قسطنطنیہ پہنے اور واپس آ کے اپنا سفر نامہ شائع کیا جس کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شوق میں وہاں گئے تھے وہ پورا نہ ہوا اور اسی وجہ سے اُن کی یہ تصنیف بھی ایک ناکام تصنیف ہے۔
اس موقعہ پر اُن کے خیالات کے متعلق اس نازک انقلاب کا بیان کر دینا بھی لطف سے خالی نہ ہو گا کہ سر سید دراصل غیر مقلد اور اہل حدیث کے گروہ میں تھے لیکن مسائل کلامی اور انگریزی اثر نے غیر مقلد سے ایک بڑی حد تک انہیں معتزلی بنا دیا تھا۔ سید صاحب کی صحبت کا اثر مولانا شبلی پر نہ ہونا غیر ممکن تھا۔ مگر اہل حدیث کی طرف سے ان کے دل میں بھڑک تھی۔ وہ بھی ممکن نہ تھا۔ کہ انہیں نعمانیت اور حقیقت کے دائرے سے باہر نکلنے دیتی۔ لہٰذا بغیر اس کے کہ غیر مقلدی کا کچھ بھی رنگ چڑھنے پائے وہ بلا واسطہ نعمانی سے معتزلی بننے لگے۔ اور آخر میں اس بات کی کوشش شروع کی کہ خود حنفیت کو اصلی اعتزال ثابت کریں۔ اور بخلاف متاخرین حنفیہ کے جو حنفیت کو اشعری طرف کھینچنا چاہتے ہیں، انہوں نے اپنی حنفیت کو اشعریت کا سخت دشمن اور فقہ کے پردہ میں چھپی ہوئی معتزلیت ثابت کرنا چاہا جس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ انگریزی طلبہ ان کی باتوں سے خوش ہو ہو کر دینداری و خوش اعتقادی کے دھوکے میں معتزلی ہونے لگے۔ اور موجودہ علمائے حنفیہ سے انکو سخت عناد ہو گیا۔
اب ان کے ساتھ ہی ان میں ایک دوسرا تغیر شروع ہوا۔ ان میں باوجود انتہا درجہ کے اخلاق کے خود داری کا خیال بہت بڑھا ہوا تھا۔ سید صاحب کی صحبت علی گڈھ کالج کی مرجعیت اور ان کی ذاتی قابلیت نے انہیں ابتداء اس حیثیت سے پبلک میں انٹرڈیوس (متعارف) کرایا۔ کہ سید صاحب کے گروہ کے ایک نامور بزرگ اور انکی فوج کے ایک نامی پہلوان ہیں۔ خصوصاً جب وہ سید کے ہمراہ رکاب حیدر آباد گئے۔ تو مسلمانوں میں اس خیال کو اور پختگی ہو گئی۔ مگر خود مولانا شبلی کی خود داری اس حیثیت کو اپنی ان تصنیفوں اور نظموں کو تو وہ مٹا نہ سکتے جن میں خود ہی اپنی اس حیثیت کو آشکارا کر چکے تھے لیکن اس اس بات کو ناقابل برداشت دیکھ کر علی گڈھ کالج سے علیٰحدگی اختیار کر کے ندوۃ العلماء میں شرکت کی اور سمجھے کہ اس ذریعہ سے میں علماء کا سرتاج اور شیخ الکل بن کے اس درجہ پر پہنچ جاؤں گا جو سید صاحب کے درجے سے بھی مافوق ہے۔ میں نے بارہا ان کو اس خیال سے روکا اور اسی زمانہ میں کہہ دیا تھا کہ علماء بس میں آنے والے نہیں ہیں۔ ان مرحومین امت میں سے ہر ایک پریسیڈنٹ کی حیثیت رکھتا ہے اور جس زمانہ میں فقط پریسیڈنٹ ہی پریسیڈنٹ ہوں، اس پر آیہ کریمہ لو کان فیھما اٰلھۃ الا لفسدتا پوری پوری صادق آتی ہے۔ ان کے بہت سے دوستوں نے بھی روکا اور کہا کہ آپ کی ترقی کا میدان علی گڈھ کالج ہی ہے۔ مگر اُنہوں نے نہ مانا اور نتیجہ یہ ہوا کہ گو انہوں نے ندوۃ کو بیحد فائدہ پہنچایا اور ندوۃ کو ندوۃ بنا دیا، مگر آخر میں ندوے والے مرحومین امت ہی کے ہاتھ سے مار کھا گئے۔ جن کا ان کے دوستوں کو بیحد ملال ہوا۔ اور وہ خود بھی اپنی اس محنت کے اکارت جانے پر کفِ افسوس ملتے ہوئے مرے۔
دوسری طرف علی گڈھ پارٹی سے علیٰحدہ ہونے کا نتیجہ یہ ہوا کہ نئے تعلیم یافتہ گروہ میں سے بہت سے قابل لوگ ان کے خلاف ہو گئے۔ جو ظاہر میں تو ان سے موافق تھے مگر موقع پاتے ہی ان پر اعتراض کر جاتے۔ ادھر مولانا کے دل میں کچھ ایسی ضد پیدا ہو گئی کہ سید صاحب کو جو درجہ ان کے قدر شناسوں کے دل میں تھا اس سے انہیں گرانا چاہتے۔ اور بعض صحبتوں میں ایسی باتیں کہہ جاتے جو لوگوں کو اور زیادہ ناگوار گزرتیں۔ ندوۃ کا انتظام ہاتھ میں لینے کے زمانہ میں ان کی یہ حالت تھی کہ کالج میں اور مسلمانوں کے ساتھ سید صاحب کا جو طرز عمل دیکھ چکے تھے، اس کو اپنا دستور العمل قرار دے لیا تھا۔ اور ساتھ ہی سید صاحب سے اپنی علیٰحدگی اور براءت ثابت کرنے کی کوشش کرتے مگر دراصل یہ وہ باتیں تھیں جو ان سے کبھی بنائے نہ بنیں۔
اسی دوران میں انہوں نے اور کئی کتابیں لکھیں۔ ان کی سب سے زیادہ مقبول کتاب "الفاروق" علی گڈھ میں شائع ہو چکی تھی۔ اس کے بعد علم الکلام، الکلام، سوانح مولانا روم، الغزالی، اورنگ زیب پر ایک نظر لکھی۔ شاعرانہ مذاق میں تاریخی جستجو کے امتزاج نے ان سے موازنہ انیس و دبیر اور شعرالعجم کو تصنیف کرایا۔ مگر سب سے اہم تصنیف سیرۃ النبی صلعم ہے جس کو ناتمام چھوڑ کے دنیا سے گئے ہیں۔ ان کی وصیت کے موافق مولانا حمید الدین صاحب اور مولوی سلیمان صاحب ندوی نے اس کام کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے اور علیا حضرت بیگم صاحبہ بھوپال نے آخر تک مربی گری کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ کوشش ہو رہی ہے کہ یہ کام بہت جلد پورا ہو۔ اور ہمیں امید ہے کہ یہ مولانا کی اعلیٰ ترین اور مفید ترین تصنیف ثابت ہو گی۔
مولانا کا اہم کام الندوہ تھا۔ جس سے مسلمانوں کے لئے بہت سا محققانہ تاریخی سامان فراہم کر دیا اور اس کے سلسلہ میں مولانا نے بڑے اہم مسائل میں تحقیق و تدقیق سے کام لیا ہے۔ اسی رسالہ الندوہ میں سے اعلیٰ مضامین جمع کر کے مقالات شبلی تیار کی گئی ہے۔
قیام قسطنطنیہ کے زمانہ میں انہیں عثمان پاشا مرحوم کی سفارش سے سلطان المعظم نے تمغہ مجدیہ عطا کیا۔ اور گورنمنٹ سے ان کو شمس العلماء کا خطاب عطا ہوا۔
مولانا شبلی ان لوگوں میں تھے جو دنیا میں اپنی جگہ خالی چھوڑ گئے۔ اور ان کا کمال ان ہی کے ساتھ گیا۔ تاریخ اسلام میں جلب روایت اور تحقیق و تنقید کی جو شان انہوں نے دکھائی، ساری دنیا کے موجودہ علمائے اسلام میں سے کوئی نہ دکھا سکا۔
"ہائے" تم کہاں تھے؟ اور کہاں چلے گئے؟ اسلامی تاریخ کے مشجر علم ادب کے دریائے بیکراں کو کس پر چھوڑا۔ حقیقی شمس العلماء بن کر لٹریچری خدمات کے بڑے بڑے جگمگاتے ہوئے ستارے تصانیف کی صورت میں آپ نے چمکائے۔ مسلمان دیندار بادشاہوں اور خلفائے راشدین پر جو حاسدوں کے اعتراض تھے انہیں کس خوبصورتی سے اٹھایا۔ اور ایسے ڈھنگ سے مٹایا۔ کباید و شلید۔ عالمگیر بادشاہ کے دامن پاک سے ظلم تعصب کا داغ آپ نے دھویا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کتب خانہ اسکندریہ کے جلانے کا بدنما دھبہ ، اسے آپ نے بال بال بچایا۔ فارسی زبان کے دھنی تھے۔ اور عربی کے کامل ادیب۔ ندوۃ العلماء کو بار آور بنایا۔ خزاں رسیدہ شجر کو پت جھڑ سے آپ نے محفوظ رکھا۔ از سر نو پروان چڑھایا، گو بے اتفاقی نے اس پر پتھر برسائے۔ خود غرضانہ روڑوں کی بوچھاڑ کی جس کے سبب آپ لیکن افسوس کہ ندوۃ العلماء کے جھگڑوں نے اس کام کے کرنے کی مہلت نہ دی۔ ندوہ بھی تمہارے دم سے تھا۔ تمھارے ہاتھ اٹھانے سے وہ ندوہ بھی اب نہ رہا۔ اگر ہے تو نام کا ندوہ ہے۔
"شبلی" آپ نے پا برکاب ہمعصروں کا بھی ساتھ نہ دیا۔ حالی مدظلہ العالی کو کس حال میں چھوڑ چلے۔ ہم جیسے مصنفہ گوشت اپنے مداحوں کو ساتھ نہ لیں گے جو خدا سے لو لگائے دنیا سے ہاتھ اٹھائے چلنے کو تیار بیٹھے ہیں۔
"ہائے شبلی" تم اکیلے گئے۔ اعمال نیک کے سوا کوئی بھی تمھارے ساتھ نہ گیا۔ میں خود چلنے کو بیٹھا ہوں۔ سترا بہترا ہو گیا ہوں۔ اعصابی امراض ، دماغ کی کمزوری، دل کی ناتوانی، حافظہ کی بے مروتی، قلب کی رقت نے بھاڑے کا ٹٹو بنا رکھا ہے۔ کفن کاٹھی کی نوبت پہنچا دی ہے۔ کوئی میں تمھارے پاس پہنچنے والا ہوں۔
اے آیندہ نسلوں کو قدیمی اخلاق، قدیمی جوہر، تعلیمی اور اخلاقی ترقی سے برقرار رکھنے والو، دیکھو ہونہاروں کو ہاتھ سے نہ جانے دو۔ جہاں سے جواہرات کے ٹکڑے ملیں تو اٹھا لو۔ ان کی غور و پرداخت کرو۔ چھاتی سے لگا کر رکھو۔ گو زمانہ انہیں نیست و نابود اور ملیا میٹ کرنے کے درپے رہے مگر تم ان کے بچانے میں سر مو تساہل نہ کرو۔ اس ترکیب سے ہمیشہ شبلی اور حالی اور سر سید اور نذیر احمد وغیرہ کے ہم خیال رہیں گے اور تمہاری قوم کا نام بنا رہے گا۔
مصنف کو ہمیشہ دس باتوں کی ضرورت رہا کرتی ہے۔ اول اطمینان خاطر، دوم حصول امن، سوم اسٹیشنری یعنی موجودگی سامان، چہارم معیشت سے فارغ البال، پنجم پیش خدمت یعنی خدام جو بجائے عضو کام دیتے ہیں، ششم گوشہ تنہائی، ہفتم تفریح قلب، ہشتم بے فکری، نہم اس کے کام اور دماغ سوزی کی داد، دہم ذخیرہ کتب۔ پس مولانا شبلی کو دولت آصفیہ کی بدولت یہ ساری باتیں حاصل تھیں۔ وہ جو کچھ کرتے تھوڑا تھا۔ لیکن زمانہ کے حسد نے اس پر بھی چین نہ لینے دیا۔ مگر واہ رے شبلی ایسی حالت میں بھی ذاتی جوہر دکھائے بغیر دنیا سے قدم نہ اٹھایا۔
٭٭٭
آج ہر سمت ہے عالم میں الم شبلی کا
رنج شبلی کا قلق شبلی کا غم شبلی کا
اب زمانے میں نہیں کوئی مؤرخ ایسا
مغتنم تھا بخدا قوم میں دم شبلی کا
پا شکستہ تھا مگر لم کے ہر میدان میں
آگے پڑنے سے نہ رکتا تھا قدم شبلی کا
تا دم مرگ تصانیف میں مصروف رہا
نہ چھٹا ہاتھ سے شبلی کے قلم شبلی کا
خبر مرگ سے دل ہو گیا ٹکڑے ٹکڑے
بے طرح آ کے پھٹا قوم میں بم شبلی کا
داغ فرقت نہ مٹائے سے مٹے گا ہرگز
کشور دل میں چلے گا یہ ورم شبلی کا
قوم کو علم کی دولت سے کیا مالا مال
اٹھ گیا تھا جو ذرا دست کرم شبلی کا
جھک کے چلتا تھا تواضع کے سبب سے کل تک
دم کے ساتھ آج گیا آہ وہ خم شبلی کا
اس کے اک کاغذ تاریخ میں ہیں لاکھوں جام
سامنا کر نہیں سکتا کبھی جسم شبلی کا
ذکر تاریخ میں اس کا یہ ہے تاریخ نویس
جم میں بڑھ چڑھ کے ہے اجلال و خشم شبلی کا
رتبہ کس طرح سے اعظم نہ ہو اعظم گڈہ میں
جب ہوا خوبی قسمت سے جنم شبلی کا
اس کی تصنیف کا بیٹھا ہے جہاں میں سکہ
مدح گستر ہے عرب اور عجم شبلی کا
آج تک گذرے ہیں دنیا میں مؤرخ جتنے
مرتبہ ان میں کسی سے نہیں کم شبلی کا
نظر آتا نہیں تاریخ کا مرد میدان
کون پورا کرے اب کار اہم شبلی کا
قوم میں کوئی نہیں اس کا اٹھانے والا
رہ گیا بس یوں ہی قرطاس و قلم شبلی کا
قوم میں اہل کوئی ہو تو بتا دو ہم کو
کس کو تفویض کریں طبل و علم شبلی کا
کارناموں کی نہ کیا اس کے کریں گے تقلید
مرثیہ پڑھ کے چلے جائیں گے ہم شبلی کا
کہتی ہے ہمت مرداں کہ چلو اور بڑھو
رہنما سامنے ہے نقش قدم شبلی کا
٭٭٭
حضرت مولانا شبلی صاحب۔ السلام علیکم مجھے آپ سے چند سوال پوچھنے ہیں، اجازت ہو تو عرض کروں (۱) میں نے سنا ہے کہ آپ نے اپنی تصنیف الکلام میں مادہ عالم غیر مخلوق لکھا ہے۔ کیا آپ کا یہ اعتقاد صحیح ہے۔ اور آپ نے تصنیف مذکور میں یہ مسئلہ اپنے مذہب کا لکھا ہے کیا؟ (۲) کیا آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ آپ نبوت کو اکتسابی سمجھتے ہیں یعنی کیا آپ یہ مانتے ہیں کہ ہر ایک آدمی اکتساب اور محنت سے نبی ہو سکتا ہے یا اس کی اصلیت کچھ اور ہے؟ (۳) اس کے علاوہ اور بھی کوئی خیال آپ نے ایسا ظاہر کیا ہے جس کی شہادت قرآن مجید اور صحیح احادیث سے نہ مل سکے۔ آپ جو کچھ جواب دیں گے اسے میں پبلک میں شائع کروں گا۔
عاجز سید عبد السلام، مالک مطبع فاروقی دہلی۔ جمادی الاخری
جناب میر صاحب۔ و علیکم السلام و رحمۃ اللہ۔ جس کا یہ عقیدہ ہو کہ مادہ قدیم ہے۔ اور خدا کا مخلوق نہیں ہے۔ وہ ملحد اور زندیق ہے۔ میں مادہ کو نہ قدیم بالذات تسلیم کرتا ہوں نہ قدیم بازمان، البتہ میں یہ مانتا ہوں کہ خدا کے تمام اوصاف قدیم ہیں۔ الکلام میں اگر اس قسم کے اقوال مذکور ہیں تو وہ غیر مذہب والوں کے عقائد ہیں۔ اور اس غرض سے نقل کئے ہیں کہ ان کا رد کیا جائے۔ (نبوت) کے متعلق میرا ہرگز یہ اعتقاد نہیں ہے کہ وہ اکتسابی ہے اور ہر شخص نبی ہو سکتا ہے۔ میں نبوت کو عطیہ الٰہی سمجھتا ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو خاتم الانبیاء یقین کرتا ہوں۔ اور جو شخص اس بات کا قائل ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد بھی کوئی نبی ہو سکتا ہے اس کو مسلمان نہیں جانتا۔باقی میرے عقائد وہی ہیں جو قرآن شریف اور احادیث سے ثابت ہیں۔ میں عقیدۃً اور فقہاء دونوں لحاظ سے اہل سنت و جماعت ہوں۔ (شبلی نعمانی)
٭٭٭
ماخذ:
ٹائپنگ: محمد شمشاد خاں (اردو محفل)
پروف ریڈنگ، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید