10:44    , ہفتہ   ,   18    مئی   ,   2024

مجموعہ شبنم کا اکیلا موتی

4379 1 0 00




سرِ شاخِ گُل

وہ سایہ دار شجر

جو مجھ سے دُور ، بہت دُور ہے، مگر اُس کی

لطیف چھاؤں

سجل، نرم چاندنی کی طرح

مرے وجود،مری شخصیت پہ چھائی ہے!

وہ ماں کی بانہوں کی مانند مہرباں شاخیں

جو ہر عذاب میں مُجھ کو سمیٹ لیتی ہیں

وہ ایک مشفقِ دیرینہ کی دُعا کی طرح

شریر جھونکوں سے پتوں کی نرم سرگوشی

کلام کرنے کا لہجہ مُجھے سکھاتی ہے

وہ دوستوں کی حسیں مُسکراہٹوں کی طرح

شفق عذار،دھنک پیرہن شگوفے،جو

مُجھے زمیں سے محبت کا درس دیتے ہیں !

اُداسیوں کی کسی جاں گداز ساعت میں

میں اُس کی شاخ پہ سر رکھ کے جب بھی روئی ہوں

تو میری پلکوں نے محسوس کر لیا فوراً

بہت ہی نرم سی اِک پنکھڑی کا شیریں لمس!

(نمی تھی آنکھ میں لیکن مَیں مُسکرائی ہوں !)

کڑی دھوپ ہے

تو پھر برگ برگ ہے شبنم

تپاں ہوں لہجے

تو پھر پھُول پھُول ہے ریشم

ہرے ہوں زخم

تو سب کونپلوں کا رَس مرہم!

وہ ایک خوشبو

جو میرے وجود کے اندر

صداقتوں کی طرح زینہ زینہ اُتری ہے

کرن کرن مری سوچوں میں جگمگاتی ہے

(مُجھے قبول،کہ وجداں نہیں یہ چاند مرا یہ روشنی مجھے ادراک دے رہی ہے مگر!)

وہ ایک جھونکا

جو اُس شہرِ گُل سے آیا تھا

اَب اُس کے ساتھ بہت دُور جاچکی ہُوں میں

میں ایک ننھی سی بچی ہوں ،اور خموشی سے

بس اُس کی اُنگلیاں تھامے،اور آنکھیں بند کیے

جہاں جہاں لیے جاتا ہے،جا رہی ہوں میں !

وہ سایہ دار شجر

جو دن میں میرے لیے ماں کا نرم آنچل ہے

وہ رات میں ،مرے آنگن پہ ٹھہرنے والا

شفیق ،نرم زباں ،مہرباں بادل ہے

مرے دریچوں میں جب چاندنی نہیں آتی

جو بے چراغ کوئی شب اُترنے لگتی ہے

تو میری آنکھیں کرن کے شجر کو سوچتی ہیں

دبیز پردے نگاہوں سے ہٹنے لگتے ہیں

ہزار چاند ،سرِ شاخ گُل اُبھرتے ہیں






اُلجھن

رات ابھی تنہائی کی پہلی دہلیز پہ ہے

اور میری جانب اپنے ہاتھ بڑھاتی ہے

سوچ رہی ہوں

ان کو تھاموں

زینہ زینہ سناٹوں کے تہہ خانوں میں اُتروں

یا اپنے کمرے میں ٹھہروں

چاند مری کھڑکی پر دستک دیتا ہے






گمان

میں کچی نیند میں ہوں

اور اپنے نیم خوابیدہ تنفس میں اترتی

چاندنی کی چاپ سنتی ہوں

گماں ہے

آج بھی شاید

میرے ماتھے پہ تیرے لب

ستارے ثبت کرتے ہیں






نوید

سماعتوں کی نوید ہو ۔۔۔کہ

ہَوائیں خُوشبو کے گیت لے کر

دریچہ گُل سے آ رہی ہیں






احتیاط

سوتے میں بھی

چہرے کو آنچل سے چھُپائے رہتی ہوں

ڈر لگتا ہے

پلکوں کی ہلکی سی لرزش

ہونٹوں کی موہوم سی جنبش

گالوں پر وہ رہ رہ کے اُترنے والی دھنک

لہو میں چاند رچاتی اِس ننھی سی خوشی کا نام نہ لے لے

نیند میں آئی ہُوئی مُسکان

کِسی سے دل کی بات نہ کہہ دے






ایکسٹیسی

سبز مدّھم روشنی میں سُرخ آنچل کی دھنک

سرد کمرے میں مچلتی گرم سانسوں کی مہک

بازوؤں کے سخت حلقے میں کوئی نازک بدن

سلوٹیں ملبوس پر،آنچل بھی کُچھ ڈھلکا ہُوا

گرمی رخسار سے دہکی ہُوئی ٹھنڈی ہوا

نرم زُلفوں سے مُلائم اُنگلیوں کی چھیڑ چھاڑ

سُرخ ہونٹوں پر شرارت کے کسی لمحے کا عکس

ریشمیں باہوں میں چُوڑی کی کبھی مدّھم کھنک

شرمگیں لہجوں میں دھیرے سے کبھی چاہت کی بات

دو دلوں کی دھڑکنوں میں گونجتی اِک صدا

کانپتے ہونٹوں پہ تھی اللہ سے صرف اِک دُعا

کاش یہ لمحے ٹھہر جائیں ،ذرا






پرزم

پانی کے اِک قطرے میں

جب سُورج اُترے

رنگوں کی تصویر بنے

دھنک کی ساتوں قوسیں

اپنی بانہیں یُوں پھیلائیں

قطرے کے ننھے سے بدن میں

رنگوں کی دُنیا کھِنچ آئے!

میرا بھی اِک سورج ہے

جو میرا تَن چھُو کر مُجھ میں

قوسِ قزح کے پھُول اُگائے

ذرا بھی اُس نے زاویہ بدلا

اور مَیں ہو گئی

پانی کا اِک سادہ قطرہ

بے منظر،بے رنگ






گئے جنم کی صدا

وہ ایک لڑکی

کہ جس سے شاید میں ایک پل بھی نہیں ملی ہوں

میں اُس کے چہرے کو جانتی ہوں

کہ اُس کا چہرہ

تُمھاری نظموں ،تُمھارے گیتوں کی چلمنوں سے اُبھر رہا ہے

یقین جانو

مُجھے یہ چہرہ تُمھارے اپنے وُجود سے بھی عزیز تر ہے

کہ اُس کی آنکھوں میں

چاہتوں کے وہی سمندر چھُپے ہیں

جو میری اپنی آنکھوں میں موجزن ہیں

وہ تم کو اِک دیوتا بنا کر،مِری طرح پُوجتی رہی ہے

اُس ایک لڑکی کا جسم

خُود میرا ہی بدن ہے

وہ ایک لڑکی____

جو میرے اپنے گئے جنم کی مَدھُر صدا ہے






پہلے پہل

شِکن چُپ ہے

بدن خاموش ہے

گالوں پہ ویسی تمتماہٹ بھی نہیں ،لیکن،

میں گھر سے کیسے نکلوں گی،

ہَوا ،چنچل سہیلی کی طرح باہر کھڑی ہے

دیکھتے ہی مُسکرائے گی!

مجھے چھُو کر تری ہر بات پالے گی

تجھے مجھ سے چُرا لے گی

زمانے بھر سے کہہ دے گی،میں تجھ سے مِل کے آئی ہوں !

ہَوا کی شوخیاں یہ

اور میرا بچپنا ایسا

کہ اپنے آپ سے بھی میں

تری خوشبو چھُپاتی پھر رہی ہوں






کنگن بیلے کا

اُس نے میرے ہاتھ میں باندھا

اُجلا کنگن بیلے کا

پہلے پیار سے تھامی کلائی

بعد اُس کے ہولے ہولے پہنایا

گہنا پھُولوں کا

پھر جھُک کر ہاتھ کو چُوم لیا!

پھُول تو آخر پھُول ہی تھے

مُرجھا ہی گئے

لیکن میری راتیں ان کی خوشبو سے اب تک روشن ہیں

بانہوں پر وہ لمس ابھی تک تازہ ہے

(اک صنوبر پر اِک چاند دمکتا ہے)

پھُول کا کنگن

پیار کا بندھن

اَب تک میری یاد کے ہاتھ سے لپٹا ہُوا ہے






دھیان

ہرے لان سُرخ پھُولوں کی چھاؤں میں بیٹھی ہوئی

میں تجھے سوچتی ہوں

مری اُنگلیاں

سبز پتوں کی چھُوتی ہوئی

تیرے ہمراہ گزرے ہوئے موسموں کی مہک چُن رہی ہیں

وہ دلکش مہک

جو مرے ہونٹ پر آ کے ہلکی گلابی ہنسی بن گئی ہے!

دُور اپنے خیالوں میں گُم

شاخ در شاخ

اِک تیتری،خوشنما پَر سمیٹے ہُوئے،اُڑ رہی ہے

مُجھے ایسا محسوس ہونے لگا ہے

جیسے مجھ کو بھی پَر مل گئے ہوں






نن

وہ میری ہم سبق

زمین پر جو ایک آسمانی رُوح کی طرح سفر میں ہے

سفید پیرہن،گلے میں نقرئی صلیب

ہونٹ___مستقل دُعا!

میں اُس کو ایسے دیکھتی تھی جیسے ذرہ آفتاب کی طرف نظر اُٹھائے!پر____یہ کل کا ذکر ہے

کہ جب میں اپنے بازوؤں پہ سر رکھے

ترے لیے بہت اُداس تھی

تو وہ مرے قریب آئی

اور مجھ سے کیٹس کے لکھے ہُوئے کسی خیال تک رسائی چاہنے لگی

سو مَیں نے اُس کو شاعرِ جمال کی شریک خواب،فینی،کا پتہ دیا

مگر وہ میری بات سُن کے سادگی سے بولی:

’پیار کس کو کہتے ہیں ؟‘

میں لمحہ بھر کو گُنگ رہ گئی!

دماغ سوچنے لگا

یہ کتنی بدنصیب ہے

جو چاہتوں کی لذتوں سے بے خبر ہے

میں نے اُس کی سمت پھر نگاہ کی

اور اُس سمے

مُجھے مری محبتیں تمام تر دُکھوں کے ساتھ یاد آ گئیں

محبتوں کے دُکھ___عظیم دُکھ!

مُجھے لگا

کہ جیسے ذرہ___آفتاب کے مقابلے میں بڑھ گیا






اُس وقت

جب آنکھ میں شام اُترے

پلکوں پہ شفق پھُولے

کاجل کی طرح ،میری

آنکھوں کو دھنک چھُو لے

اُس وقت کوئی اس کو

آنکھوں سے مری دیکھے

پلکوں سے مری چُومے!






اندیشہ ہائے دُور دراز

اُداس شام دریچوں میں مُسکراتی ہے

ہَوا بھی،دھیمے سُروں میں ،کوئی اُداس گیت

مرے قریب سے گُزرے تو گنگناتی ہے

مری طرح سے شفق بھی کسی کی سوچ میں ہے

میں اپنے کمرے میں کھڑکی کے پاس بیٹھی ہوں

مری نگاہ دھندلکوں میں اُلجھی جاتی ہے

نہ رنگ ہے،نہ کرن ہے،نہ روشنی، نہ چراغ

نہ تیرا ذکر، نہ تیرا پتہ، نہ تیرا سُراغ

ہَوا سے ،خشک کتابوں کے اُڑ رہے ہیں ورق

مگر میں بھُول چُکی ہُوں تمام ان کے سبق

اُبھر رہا ہے تخیُل میں بس ترا چہرہ

میں اپنی پلکیں جھپکتی ہوں اُس کو دیکھتی ہوں

میں اس کو دیکھتی ہوں اور ڈر کے سوچتی ہوں

کہ کل یہ چہرہ کسی اور ہاتھ میں پہنچے

تو میرے ہاتھوں کی لکھی ہُوئی کوئی تحریر

جو اِن خطوط میں روشن ہے آگ کی مانند

نہ ان ذہین نگاہوں کی زد میں آ جائے!






پیش کش

اتنے اچھے موسم میں

رُوٹھنا نہیں اچھا

ہار جیت کی باتیں

کل پہ ہم اُٹھا رکھیں

آج دوستی کر لیں !






بس اِتنا یاد ہے

دُعا تو جانے کون سی تھی

ذہن میں نہیں

بس اِتنا یاد ہے

کہ دو ہتھیلیاں ملی ہُوئی تھیں

جن میں ایک میری تھی

اور اِک تمھاری!






اِتنا معلوم ہے

اپنے بستر پہ بہت دیر سے میں نیم دراز

سوچتی تھی کہ وہ اس وقت کہاں پر ہو گا

میں یہاں ہوں مگر اُس کوچہ رنگ و بُو میں

روز کی طرح سے وہ آج بھی آیا ہو گا

اور جب اُس نے وہاں مُجھ کو نہ پایا ہو گا!؟

آپ کو عِلم ہے، وہ آج نہیں آئی ہیں ؟

میری ہر دوست سے اُس نے یہی پُوچھا ہو گا

کیوں نہیں آئی وہ کیا بات ہُوئی ہے آخر

خُود سے اِس بات پہ سو بار وہ اُلجھا ہو گا

کل وہ آئے گی تو میں اُس سے نہیں بولوں گا

آپ ہی آپ کئی بار وہ رُوٹھا ہو گا

وہ نہیں ہے تو بلندی کا سفر کتنا کٹھن

سیڑھیاں چڑھتے ہُوئے اُس نے یہ سوچا ہو گا

راہداری میں ، ہرے لان میں ،پھُولوں کے قریب

اُس نے ہر سمت مُجھے آن کے ڈھونڈا ہو گا

نام بھُولے سے جو میرا کہیں آیا ہو گا

غیر محسوس طریقے سے وہ چونکا ہو گا

ایک جملے کو کئی بار سُنایا ہو گا

بات کرتے ہُوئے سو بار وہ بھُولا ہو گا

یہ جو لڑکی نئی آئی ہے،کہیں وہ تو نہیں

اُس نے ہر چہرہ یہی سوچ کے دیکھا ہو گا

جانِ محفل ہے، مگر آج، فقط میرے بغیر

ہائے کس درجہ وہی بزم میں تنہا ہو گا

کبھی سناٹوں سے وحشت جو ہُوئی ہو گی اُسے

اُس نے بے ساختہ پھر مُجھ کو پُکارا ہو گا

چلتے چلتے کوئی مانوس سی آہٹ پاکر

دوستوں کو بھی کسی عُذر سے روکا ہو گا

یاد کر کے مجھے، نَم ہو گئی ہوں گی پلکیں

’’آنکھ میں پڑ گیا کچھ‘‘ کہہ کے یہ ٹالا ہو گا

اور گھبرا کے کتابوں میں جو لی ہو گئی پناہ

ہر سطر میں مرا چہرہ اُبھر آیا ہو گا

جب ملی ہوئی اسے میری علالت کی خبر

اُس نے آہستہ سے دیوار کو تھاما ہو گا

سوچ کہ یہ، کہ بہل جائے پریشانیِ دل

یونہی بے وجہ کسی شخص کو روکا ہو گا!

اتفاقاً مجھے اُس شام مری دوست ملی

مَیں نے پُوچھا کہ سنو۔آئے تھے وہ۔کیسے تھے؟

مُجھ کو پُوچھا تھا؟مُجھے ڈھونڈا تھا چاروں جانب؟

اُس نے اِک لمحے کو دیکھا مجھے اور پھر ہنسی دی

اس ہنسی میں تو وہ تلخی تھی کہ اس سے آگے

کیا کہا اُس نے ۔۔ مُجھے یاد نہیں ہے لیکن

اِتنا معلوم ہے ،خوابوں کا بھرم ٹُوٹ گیا






جیون ساتھی سے

دھوپ میں بارش ہوتے دیکھ کے

حیرت کرنے والے

شائد تو نے میری ہنسی کو

چھو کر

کبھی نہیں‌دیکھا!






خلش

عجیب طرز ملاقات اب کے بار رہی

تمھی تھے بدلے ہوئے یا مری نگاہیں تھیں !

تُمھاری نظروں سے لگتا تھا جیسے میری بجائے

تُمھارے گھر میں کوئی اور شخص آیا ہے

تُمھارے عہدے کی دینے تمھیں مُبارکباد

سو تم نے میرا سواگت اُسی طرح سے کیا

جو افسرانِ حکومت کے ایٹی کیٹ میں ہے!

تکلفاً مرے نزدیک آ کے بیٹھ گئے

پھر اہتمام سے موسم کا ذکر چھیڑ دیا

کُچھ اس کے بعد سیاست کی بات بھی نکلی

اَدب پہ بھی کوئی دوچار تبصرے فرمائے

مگر نہ تم نے ہمیشہ کی طرح یہ پُوچھا

کہ وقت کیسا گُزرتا ہے تیرا، جانِ حیات

پہاڑ دن کی اذیت میں کِتنی شدت ہے!

اُجاڑ رات کی تنہائی کیا قیامت ہے!

شبوں کی سُست روی کا تجھے بھی شکوہ ہے؟

غمِ فراق کے قصے ،نشاطِ وصل کا ذکر

روایتاً ہی سہی، کوئی بات تو کرتے!






آنے والی کل کا دُکھ

مِری نظر میں اُبھر رہا ہے

وہ ایک لمحہ

کہ جب کسی کی حسین زُلفوں کی نرم چھاؤں میں آنکھ مُوندے

گئے دنوں کا خیال کر کے

تم ایک لمحے کو کھو سے جاؤ گے اور شاید

نہ چاہ کر بھی اُداس ہو گے

تو کوئی شیریں نوا یہ پُوچھے گی

’’میری جاں ! تم کو کیا ہُوا ہے؟

یہ کس تصور میں کھو گئے ہو؟

تمھارے ہونٹوں پہ صبح کی اوّلیں کرن کی طرح سے اُبھرے گی مُسکراہٹ

تم اُس کے رُخسار تھپتھپا کے

کہو گے اُس سے

میں ایک لڑکی کو سوچتا تھا

عجیب لڑکی تھی۔۔۔کِتنی پاگل!‘‘

تُمھاری ساتھی کی خُوب صورت جبیں پہ کوئی شکن بنے گی

تو تم بڑے پیار سے ہنسو گے

کہو گے اُس سے

’’ارے وہ لڑکی

وہ میرے جذبات کی حماقت

وہ اس قدر بے وقوف لڑکی

مرے لیے کب کی مر چکی ہے!

پھر اپنی ساتھی کی نرم زُلفوں میں اُنگلیاں پھیرتے ہوئے تم

کہو گے اُس سے

چلو، نئے آنے والی کل میں

ہم اپنے ماضی کو دفن کریں






دعا

چاندنی،

اُس دریچے کو چھُو کر

مرے نیم روشن جھروکے میں آئے ، نہ آئے

مگر

میری پلکوں کی تقدیر سے نیند چُنتی رہے

اور اُس آنکھ کے خواب بُنتی رہے






شرط

ترا کہنا ہے

’’مجھ کو خالقِ کون و مکاں نے

کِتنی ڈھیروں نعمتیں دی ہیں

مری آنکھوں میں گہری شام کا دامن کشاں جادو

مری باتوں میں اُجلے موسموں کی گُل فشاں خوشبو

مرے لہجے کی نرمی موجۂ گل نے تراشی ہے

مرے الفاظ پر قوسِ قزح کی رنگ پاشی ہے

مرے ہونٹوں میں ڈیزی کے گلابی پھُولوں کی رنگت

مرے رُخسار پر گلنار شاموں کی جواں حِدّت

مرے ہاتھوں میں پنکھڑیوں کی شبنم لمس نرمی ہے

مرے بالوں میں برساتوں کی راتیں اپنا رستہ بھُول جاتی ہیں

میں جب دھیمے سُروں میں گیت گاتی ہوں

تو ساحل کی ہوائیں

اَدھ کھلے ہونٹوں میں ،پیاسے گیت لے کر

سایہ گُل میں سمٹ کر بیٹھ جاتی ہیں

مرا فن سوچ کو تصویر دیتا ہے

میں حرفوں کو نیا چہرہ

تو چہروں کو حروفِ نو کا رشتہ نذر کرتی ہوں

زباں تخلیق کرتی ہوں ۔‘‘

ترا کہنا مجھے تسلیم ہے

میں مانتی ہوں

اُس نے میری ذات کو بے حد نوازا ہے

خدائے برگ و گل کے سامنے

میں بھی دُعا میں ہوں ،سراپا شکر ہوں

اُس نے مجھے اِتنا بہت کُچھ دے دیا، لیکن

تجھے دے دے تو میں جانوں






تشکر

دشتِ غُربت میں جس پیڑ نے

میرے تنہا مُسافر کی خاطر گھنی چھاؤں پھیلائی ہے

اُس کی شادابیوں کے لیے

میری سب اُنگلیاں

ہَوا میں دُعا لِکھ رہی ہیں !






تشکر

دشتِ غُربت میں جس پیڑ نے

میرے تنہا مُسافر کی خاطر گھنی چھاؤں پھیلائی ہے

اُس کی شادابیوں کے لیے

میری سب اُنگلیاں

ہَوا میں دُعا لِکھ رہی ہیں !






مری دعا ترے رخشِ صبا خرام کے نام

مری دُعا ترے رخشِ صبا خرام کے نام!

کہ میں نے اپنی محبت سپرد کی ہے تجھے

سو دیکھ!میری امانت سنبھال کے رکھنا

اسے بہار کی نرماہٹوں نے پالا ہے

سو اس کو گرم ہوا سے بہت بچا رکھنا

یہ گُل عذار نہیں آشنائے سختی گل

یہ ساتھ ہو تو بہت احتیاط سے چلنا

مزاج اس کا ہَواؤں کی طرح سرکش ہے

سو اس کی جنبشِ ابرو کو دیکھتے رہنا

نہیں ، یہ سُننے کا عادی نہیں رہا ہے کبھی

سو اس کی بات ، وہ کیسی ہو، مانتے رہنا

اطاعت اس کی بہر گام اَب ہے تیرا کام!

ہَوا کے ساتھ اُسے یہ پیام بھی پہنچے

کہ خوش نصیب ہے تو اس کا ہمسفر ٹھہرا

میں تیرہ بخت تھی، اس سے بچھڑ گئی کب کی

بھٹک رہی ہوں گھنے جنگل میں اب تنہا

تو اس کے لمس سے ہر روز زندگی پائے

میں اُس کے ہجر میں ہر رات لمسِ مرگ چکھوں

ترے گلے میں وہ ہر روز باہیں ڈالتا ہے

مرے بدن کو وہ حلقہ مگر نصیب نہیں

وہ تیرے جسم سے کتنا قریب ہوتا ہے

مگر میں اُس کے بدن کی مہک کہاں ڈھونڈوں

کہ اُس کے شہر کی پاگل ہوائیں ___ میرے گھر

نجانے کون سی گلیوں سے ہوکے آتی ہے

کہ وہ مہک کہیں رستے میں چھوٹ جاتی ہے

اُسی کی یاد میں ہوتی ہے اب تو صبح و شام

ہَوا کے ہاتھ اُسے یہ پیام بھی پہنچے

کہ تیری عُمر خُدائے ازل دراز کرے

جو خواب بھی تری آنکھوں میں ہو،وہ پورا ہو

کہ تیرے ساتھ نے اُس کو بہت خوشی دی ہے

وہ اپنے سارے رفیقوں میں سربلند ہُوا!

شکستہ دل تھا مگر آج ارجمند ہُوا

غریبِ شہر کو جینے کا آسرا تو دیا

بہت اُداس تھا، تُو نے اُسے ہنسا تو دیا

(میں کس زباں میں ،بتا،تجھ کو شکریہ لکھوں )

دُعا یہ ہے کہ تجھے ہر خوشی میسر ہو!

اِسی طرح سے کبھی تو بھی سر اُٹھا کے چلے

کبھی تجھے بھی کوئی بھیجے تہنیت کا پیام!

ہَوا کے ساتھ اُسے یہ پیام بھی پہنچے

کہ اپنے آقا کے ہمراہ سیر کو نکلے

تواسپِ تازی،کسی دِن زقند ایسی بھرے

کہ اُڑ کے میرے نگر،میرے شہر آ پہنچے

تمام عُمر دعائیں رہیں گی اُس کے نام!






اس کے مسیحا کے لیے ایک نظم

اجنبی!

کبھی زندگی میں اگر اکیلا ہو

اور درد حد سے گزر جائے

آنکھیں تری

با ت بے بات رو پڑیں

تب کوئی اجنبی

تیر ی تنہائی کے چاند کا نرم ہالہ بنے

تیری قامت کا سایہ بنے

تیرے زخموں کا سایہ بنے

تیری پلکوں سے شبنم چُنے

تیرے دُکھ کا مسیحا بنے!






خُوشبو کی زباں

زباں غیر میں لِکھا ہے تُو نے خط مُجھ کو

بہت عجیب عبارت ، بڑی ادق تحریر

یہ سارے حرف مری حدِ فہم سے باہر

میں ایک لفظ بھی محسوس کر نہیں سکتی

میں ہفت خواں تو کبھی بھی نہ تھی۔مگر اس وقت

یہ صورت و رنگ، یہ آہنگ اجنبی ہی سہی

مجھے یہ لگتا ہے جیسے میں جانتی ہوں انھیں

(ازل سے میری سماعت ہے آشنا اِن سے!)

کہ تیری سوچ کی قربت نصیب ہے اِن کو

یہ وہ زباں ہے جسے تیرا لمس حاصل ہے

ترے قلم نے بڑے پیار سے لکھا ہے انھیں

رچی ہُوئی ہے ہر اک لفظ میں تری خوشبو

تری وفا کی مہک، تیرے پیار کی خوشبو

زبان کوئی بھی ہو خوشبو کی ۔وہ بھلی ہو گی






ویسٹ لینڈ

ترے بغیر سرد موسموں کے خوشگوار دن اُداس ہیں

فضا میں دُکھ رچا ہُوا ہے!

ہَوا کوئی اُداس گیت گنگنا رہی ہے

پھُول کے لبوں پہ پیاس ہے

ایسا لگتا ہے

ہَوا کی آنکھیں روتے روتے خشک ہو گئی ہوں

صبا کے دونوں ہاتھ خالی ہیں

کہ شہر میں ترا کہیں پتہ نہیں

سانس لینا کِس قدر محال ہے!

اُداسیاں ___اُداسیاں

تمام سبز سایہ دار پیڑوں نے

ترے بغیر وحشتوں میں اپنے پیرہن کو تار تار کر دیا ہے

اب کسی شجر کے جسم پر قبا نہیں

سُوکھے زرد پتے

کُو بہ کُو تری تلاش میں بھٹک رہے ہیں

اُداسیاں ____اُداسیاں

مرے دریچوں میں گلابی دھُوپ روز جھانکتی ہے

مگر اب اس کی آنکھوں

وہ جگمگاہٹیں نہیں

جو تیرے وقت میں زمین کے صبیح ماتھے پر

سُورجوں کی کہکشاں سجانے آتی تھیں

زمین بھی مری طرح ہے!

ترے بغیر اس کی کوکھ سے اب بھی

کوئی گُلاب اُگ نہ پائے گا

زمین بانجھ ہو گئی ہے

اور مری رُوح کی بہار آفریں کوکھ بھی!

میری سوچ کے صدف میں

فن کے سچے موتی کس طرح جنم لیا کریں

کہ میں سراپا تشنگی ہوں

اور دُور دُور تک____وصالِ اَبر کی خیر نہیں !

میرے اور تیرے درمیان

پانچ پانیوں کے دیس میں

(کچے گھڑے بھی تو میری دسترس سے دُور ہیں )

میں شعر کس طرح کہوں

میری سوچ کے بدن کو،تُو،نمو تو دے

میں ترے بغیر’’ویسٹ لینڈ‘‘ ہوں !






موسم کی دُعا

پھر ڈسنے لگی ہیں سانپ راتیں

برساتی ہیں آگ پھر ہوائیں

پھیلا دے کسی شکستہ تن پر

بادل کی طرح سے اپنی بانہیں






امَر

ہم میں بھی نہیں وہ روشنی اب

اور تم بھی تمام جل بُجھے ہو

دونوں سے بچھڑ گئی ہیں کرنیں

ویران ہیں شہرِ دل کی راتیں

اب خواب ہیں چاندنی کی باتیں

جنگل میں ٹھہر گئی ہیں شامیں






صرف ایک لڑکی

اپنے سر د کمرے میں

میں اُداس بیٹھی ہوں

نیم وا دریچوں سے

کاش میرے پَر ہوتے

نَم ہوائیں آتی ہیں

تیرے پاس اُڑ آتی

میرے جسم کو چھُو کر

کاش میں ہَوا ہوتی

آگ سی لگاتی ہیں

تجھ کو چھُو کے لوٹ آتی

تیرا نام لے لے کر

میں نہیں مگر کُچھ بھی

مُجھ کو گدگداتی ہیں

سنگ دِل رواجوں کے

آہنی حصاروں میں

عمر قید کی ملزم

صرف ایک لڑکی ہوں






تیری ہم رقص کے نام

رقص کرتے ہوئے

جس کے شانوں پہ تُو نے ابھی سر رکھا ہے

کبھی میں بھی اُس کی پناہوں میں تھی

فرق یہ ہے کہ میں

رات سے قبل تنہا ہُوئی

اور تُو صبح تک

اس فریبِ تحفظ میں کھوئی رہے گی






مقدر

میں وہ لڑکی ہوں

جس کو پہلی رات

کوئی گھونگھٹ اُٹھا کے یہ کہہ دے۔

میرا سب کُچھ ترا ہے ، دِل کے سوا






توقع

جب ہوا

دھیمے لہجوں میں کُچھ گنگناتی ہُوئی

خواب آسا، سماعت کو چھُو جائے ، تو

کیا تمھیں کوئی گُزری ہُوئی بات یاد آئے گی؟

ٹوٹی ہے میری نیند مگر تم کو اس سے کیا!

بجتے رہیں ہواؤں سے در، تم کو اس سے کیا!

تم موج موج مثل صبا گھومتے رہو

کٹ جائیں میری سوچ کے پر ،تُم کو اس سے کیا

اوروں کا ہاتھ تھامو ، انھیں راستہ دکھاؤ

میں بھُول جاؤں اپنا ہی گھر ، تم کو اس سے کیا

ابرِ گریز پا کو برسنے سے کیا غرض

سیپی میں بن نہ پائے گُہر،تم کو اس سے کیا!

لے جائیں مجھ کو مالِ غنیمت کے ساتھ عدو

تم نے تو ڈال دی ہے سپر، تم کو اس سے کیا!

تم نے تو تھک کے دشت میں خیمے لگا لیے

تنہا کٹے کسی کا سفر ، تم کو اس سے کیا!






چاند رات

گئے برس کی عید کا دن کیا اچھا تھا

چاند کو دیکھ کے اُس کا چہرہ دیکھا تھا!

فضا میں کیٹس کے لہجے کی نرماہٹ تھی

موسم اپنے رنگ میں فیض کا مصرعہ تھا

دُعا کے بے آواز، الوہی لمحوں میں

وہ لمحہ بھی کتنا دلکش تھا

ہاتھ اُٹھا کر جب آنکھوں ہی آنکھوں میں

اُس نے مُجھ کو اپنے رب سے مانگا تھا

پھر میرے چہرے کو ہاتھوں میں لے کر

کتنے پیار سے میرا ما تھا چُوما تھا

ہَوا! کچھ آج کی شب کا بھی احوال سُنا

کیا وہ اپنی چھت پر آج اکیلا تھا؟

یا کوئی میرے جیسی ساتھ تھی،اور اُس نے

چاند کو دیکھ کر اُس کا چہرہ دیکھا تھا!






چاند

ایک سے مُسافر ہیں

ایک سا مقدر ہے

میں زمین پر تنہا!

ور وہ آسمانوں میں






فاصلے

چند خط روز لِکھا کرتے تھے

دُوسرے تیسرے ، تم فون بھی کر لیتے تھے

اور اب یہ ، کہ تمھاری خبریں

صرف اخبار سے مل پاتی ہیں






وہی نرم لہجہ

وہی نرم لہجہ

جو اتنا ملائم ہے ، جیسے

دھنک گیت بن کر سماعت کو چھُونے لگی ہو

شفق نرم کومل سُروں میں کوئی پیار کی بات کہنے چلی ہو

کِس قدر!___رنگ و آہنگ کا کِس قدر خُوب صورت سفر!

وہی نرم لہجہ

کبھی اپنے مخصوص انداز میں مُجھ سے باتیں کرے گا

تو ایسا لگے

جیسے ریشم کے جھُولے پہ کوئی مدھر گیت ہلکورے لینے لگا ہو!

وہی نرم لہجہ

کسی شوخ لمحے میں اُس کی ہنسی بن کے بکھرے

تو ایسا لگے

جیسے قوسِ قزح نے کہیں پاس ہی اپنی پازیب چھنکائی ہو،

ہنسی کی وہ رِم جھم!

کہ جیسے بنفشی چمک دار بوندوں کے گھنگرو چھنکنے لگے ہوں !

کہ پھر

اس کی آواز کا لمس پا کے

ہواؤں کے ہاتھوں میں اَن دیکھے کنگن کھنکنے لگے ہوں !

وہی نرم لہجہ!

مُجھے چھیڑنے پر جب آئے تو ایسا لگے

جیسے ساون کی چنچل ہوا

سبز پتوں کے جھانجھن پہن

سُرخ پھُولوں کی پائل بجاتی ہُوئی

میرے رُخسار کو

گاہے گاہے شرارت سے چھُونے لگے

میں جو دیکھوں پلٹ کے، تو وہ

بھاگ جائے____مگر

دُور پیڑوں میں چھُپ کر ہنسے

اور پھر__ننھے بچوں کی مانند خوش ہوکے تالی بجانے لگے!

وہی نرم لہجہ!

کہ جس نے مرے زخمِ جاں پر ہمیشہ شگفتہ گلابوں کی شبنم رکھی ہے

بہاروں کے پہلے پرندے کی مانند ہے

جو سدا آنے والے نئے سُکھ کے موسم کا قاصد بنا ہے

اُسی نرم لہجے نے پھر مُجھ کو آواز دی ہے!






ڈیوٹی

’’جان !

مجھے افسوس ہے

تم سے ملنے،شاید اس ہفتے بھی نہ آسکوں گا

بڑی اہم مجبوری ہے!‘‘

جان!

تمھاری مجبوری کو

اب تو میں بھی سمجھنے لگی ہوں

شاید اس ہفتے بھی

تمھارے چیف کی بیوی تنہا ہو گی!






ایک نظم

اس نے اپنی ساری قیمتی چیزیں

اٹھا کر سنبھال لیں

سوائے میرے






وہ آنکھیں کیسی آنکھیں ہیں ؟

وہ آنکھیں کیسی آنکھیں ہیں

جنھیں اب تم چاہا کرتے ہو!

تم کہتے تھے

مری آنکھیں ، اِتنی اچھی، اِتنی سچی ہیں

اس حُسن اور سچائی کے سوا، دُنیا میں کوئی چیز نہیں

کیا اُن آنکھوں کو دیکھ کے بھی

تم فیض کا مصرعہ پڑھتے ہو؟

تم کہتے تھے

مری آنکھوں کی نیلاہٹ اتنی گہری ہے

’’مری روح اگر اِک بار اُتر جائے تو اس کی پور پور نیلم ہو جائے‘‘

مُجھے اتنا بتاؤ

آج تمھاری رُوح کا رنگ پیراہن کیا ہے

کیا وہ آنکھیں بھی سمندر ہیں ؟

یہ کالی بھوری آنکھیں

جن کو دیکھ کے تم کہتے تھے

’’یوں لگتا ہے شام نے رات کے ہونٹ پہ اپنے ہونٹ رکھے ہیں ‘‘

کیا اُن آنکھوں کے رنگ میں بھی،یوں دونوں وقت مِلا کرتے ہیں ؟

کیا سُورج ڈُوبنے کا لمحہ،اُن آنکھوں میں بھی ٹھہر گیا

یا وہاں فقط مہتاب ترشتے رہتے ہیں ؟

مری پلکیں

جن کو دیکھ کے تم کہتے تھے

اِن کی چھاؤں تمھارے جسم پہ اپنی شبنم پھیلا دے

تو گُزرتے خواب کے موسم لوٹ آئیں

کیا وہ پلکیں بھی ایسی ہیں

جنھیں دیکھ کے نیند آ جاتی ہو؟

تم کہتے تھے

مری آنکھیں یُونہی اچھی ہیں

’’ہاں کاجل کی دھُندلائی ہُوئی تحریر بھی ہو__تو

بات بہت دلکش ہو گی!‘‘

وہ آنکھیں بھی سنگھار تو کرتی ہوں گی

کیا اُن کا کاجل خُود ہی مِٹ جاتا ہے؟

کبھی یہ بھی ہُوا

کِسی لمحے تم سے رُوٹھ کے وہ آنکھیں رو دیں

اور تم نے اپنے ہاتھ سے اُن کے آنسو خُشک کیے

پھر جھُک کر اُن کو چُوم لیا

(کیا اُن کو بھی!!)






پکنک

سکھیاں میری

کھُلے سمندر بیچ کھڑی ہنستی ہیں

اور میں سب سے دُور،الگ ساحل پر بیٹھی

آتی جاتی لہروں کو گنتی ہوں

یا پھر

گیلی ریت پہ تیرا نام لکھے جاتی ہوں






مشورہ

ننّھی لڑکی

ساحل کے اِتنے نزدیک

ریت سے اپنے گھر نہ بنا

کوئی سرکش موج اِدھر آئی ،تو

تیرے گھر کی بنیادیں تک بہہ جائیں گی

اور پھر اُن کی یاد میں تُو

ساری عُمر اُداس رہے گی






رّدِ عمل

گئے موسم کے کسی لمحے میں

تُو نے اِس طرح پُکارا تھا مُجھے

جیسے مَدھم کا بہت میٹھاسُر

رُوح کا کوئی سِرا چھُو جائے

جیسے شبنم کا اکیلا موتی

عارض برگِ حنا چھُو جائے

جیسے اِک موجِ ہَوا کی صورت

رات کی رانی سے کُچھ رات کہے

جیسے بچپن کی سہیلی میری

شوخ لہجے میں تری بات کہے!

میں نے شرما کر جھُکا لیں پلکیں

اِک عجب نشے کے احساس سے میری آنکھیں

خُود بخود بند ہُوئی جاتی تھیں

دیر تک خواب کے عالم میں رہی!

تیر ی آواز کہ اِک گونج بنی جس کے ساتھ

رُوح اَن دیکھے جزیروں میں سفرکرتی رہی

کبھی سمٹی،کبھی بکھری،کبھی مدہوش ہُوئی

چاند میں ، دشت میں ،شبنم میں ،سمندر میں رہی

نیلمیں ،ریشمیں دُنیا میں رہی!

آج لوگوں نے بتایا کہ اُنھوں نے دیکھا

اُسی لہجے اُسی انداز کے ساتھ

تیرے ہونٹوں پہ کسی اور کا نام!

سوچتی ہوں کہ ترے لہجے کی اس نرمی پر

جانے اُس لڑکی نے کیا سوچاہو!

خواب،مہتاب،گلاب اور شبنم

نیل ،آکاش،سحاب اور پُونم

چاندنی،رنگ،کرن نکہتِ گل کا موسم

گیت،خوشبو،لبِ جُو،تیرے بدن کا ریشم

یا ترے ساتھ ہی ،شیزان سے کافی پی کر

تجھ سے اٹھلا کے کہا ہو،کہ میری جان،چلو لے آئیں

روبی جیولزر کے ہاں سے کوئی تازہ نیلم






دوست چڑیوں کے لیے کچھ حرف

(۱)

بھولی چڑیا!

میرے کمرے میں ،کیا لینے آئی ہے؟

یہاں تو صرف کتابیں ہیں !

جو تجھ کو تیرے گھر کا نقشہ تو دے سکتی ہیں

لیکن

تِنکے لانے والے ساتھی

اِن کی پہنچ سے باہر ہیں !

(۲)

چڑیا پیاری،

میرے روشندان سے اپنے تنکے لے جا!

ایسا نہ ہو کہ

میرے گھر کی ویرانی کل

تیرے گھر کی آبادی کو کھا جائے!

تجھ پر میری مانگ کا سایہ پڑ جائے!

(۳)

گوریّا!

کیوں روتی ہے؟

آج تو تیرے گھر میں سُورج ہَوا کا قاصد بنا ہُوا ہے

کرنیں تیرے سب بچوں کی اُنگلی تھامے رقصاں تھیں

ننھے پہلی بار ہَوا سے گلے ملے تھے

اور ہَوا سے جو اِک بار گلے مل جاتا ہے

وہ گھر کب واپس آتا ہے!

(۴)

سجھے سجائے گھر کی تنہا چڑیا!

تیری تارہ سی آنکھوں کی ویرانی

پچھم جابسنے والے شہزادوں کی ماں کا دُکھ ہے

تجھ کو دیکھ کے اپنی ماں کو دیکھ رہی ہوں

سوچ رہی ہوں

ساری مائیں ایک مقدر کیوں لاتی ہیں ؟

گودیں پھُولوں والی!

آنگن پھر بھی خالی!






مفاہمت

زندگی کے لیے

اب تمھارا رویہ ،اچانک بہت صلح جُو ہو گیا ہے

(سمندر کی سرکش ہواؤں کو

جُوئے شبستاں کی آہستہ گامی مبارک!)

یہ اچھا شگن ہے

ہوا کے مقابل

اگر پھُول آئے

تو پھر پنکھڑی پنکھڑی

اُجلے بادل کے خوابوں کی صُورت بِکھر جائے گی

سو ایسے میں ،جھکنے میں ہی خیر ہے!

بارشِ سنگ میں

خواب کے شیش محل کو کب تک بچائے رکھیں

اِتنے ہاتھوں میں پتھر ہیں

کوئی تو لگ جائے گا

اور پھر

گھُپ اندھیرے میں کب تک نظر کرچیاں ان کی ڈھونڈے

کیا یہ بہتر نہ ہو گا

کہ ایسی قیامت سے پہلے ہی

ان شیش محلوں کو ہم

مصلحت کی چمکتی ہوئی ریت میں دفن کر دیں

اور پھر خواب بُنتی ہُوئی آنکھ سے معذرت کر لیں !

سو تم نے بھی اب

ایک ہاری ہُوئی قوم کے رہنما کی طرح

اپنے ہتھیار دُشمن کے قدموں میں رکھ کر

نئی دوستی کا لرزتا ہُوا ہاتھ اس کی طرف پھر بڑھایا ہے

اور میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے

کہ ہتھیار دینے کی اس رسم میں

کیا کروں

تمھاری چمکدار ،متروکہ تلوار کو

بڑھ کے چُوموں

کہ اپنے گلے پر رکھوں ؟






سمندر کی بیٹی

وسعتوں سے سدا اُس کا ناتا رہا تھا

کھُلے آسمانوں

کھُلے پانیوں

اور کھُلے بازوؤں سے ہمیشہ محبت رہی تھی

ہَوا،آگ،پانی،کرن اور خوشبو

وہ سارے عناصر جو پھیلیں تو ہر دو جہاں اپنی بانہوں میں لے لیں

سد ا اُس کے ساتھی رہے تھے

وہ جنگل کی اَلھڑ ہوا کی طرح راستوں کے تعین سے آزاد تھی

وہ تو تخلیقِ فطرت تھی

پر خُوبصورت سے شوکیس میں قید کر دی گئی تھی

قفس رنگ ماحول کے حبس میں سانس روکے ہُوئے تھی

کہ اِک دم جو تازہ ہَوا کی طرح

اِک نویدِ سفر آئی۔تو

ایک لمحے کو آزاد ہونے کی وحشی تمنا میں ۔وہ

ایک بچے کی صُورت مچلنے لگی

شہر سے دُور

ماں کی محبت کی مانند

بے لوث،بے انتہا مہرباں دوست اُس کے لیے منتظر تھا

نرم موجیں کھُلے بازوؤں اس کی جانب بڑھیں

اور وہ بھی ہوا کی طرح بھاگتی ہی گئی

اور پھر چند لمحوں میں دُنیا نے دیکھا

سمندر کی بیٹی سمندر کی بانہوں میں سمٹی ہُوئی تھی!






آنچل اور بادبان

ساحل پر اِک تنہا لڑکی

سرد ہَوا کے بازو تھامے

گیلی ریت پر گھُوم رہی ہے

جانے کس کو ڈھونڈ رہی ہے

بِن کاجل، بیکل آنکھوں سے

کھلے سمندر کے سینے پر

فراٹے بھرتی کشتی کے بادبان کے لہرانے کو

کس حیرت سے دیکھ رہی ہے!

کس حسرت سے اپنا آنچل مَسل رہی ہے!






احساس

گہرے نیلم پانی میں

پھُول بدن لہریں لیتے تھے

ہَوا کے شبنم ہاتھ انھیں چھُو جاتے تو

پور پور میں خنکی تیرنے لگتی تھی

شوخ سی کوئی موج شرارت کرتی تو

نازک جسموں ،نازک احساسات کے مالک لوگ

شاخِ گلاب کی صُورت کانپ اُٹھتے تھے!

اُوپر وسط اپریل کا سُورج

انگارے برساتا تھا

ایسی تمازت!

آنکھیں پگھلی جاتی تھی!

لیکن دِل کا پھُول کھِلا تھا

جسم کے اندر رات کی رانی مہک رہی تھی

رُوح محبت کی بارش میں بھیگ رہی تھی

گیلی ریت اگرچہ دھُوپ کی حدت پاکر

جسموں کو جھلسانے لگی تھی

پھر بھی چہروں پہ لکھا تھا

ریت کے ہر ذرے کی چُبھن میں

فصلِ بہار کے پہلے گُلابوں کی ٹھنڈک ہے






خواب

کھُلے پانیوں میں گھِری لڑکیاں

نرم لہروں کے چھینٹے اُڑاتی ہُوئی

بات بے بات ہنستیہُوئی

اپنے خوابوں کے شہزادوں کا تذکرہ کر رہی تھیں

جو خاموش تھیں

اُن کی آنکھوں میں بھی مُسکراہٹ کی تحریر تھی

اُن کے ہونٹوں کو بھی اَن کہے خواب کا ذائقہ چُومتا تھا!

(آنے والے نئے موسموں کے سبھی پیرہن نیلمیں ہو چکے تھے!)

دُور ساحل پہ بیٹھی ہُوئی ایک ننھی سی بچی

ہماری ہنسی اور موجوں کے آہنگ سے بے خبر

ریت سے ایک ننھا گھروندا بنانے میں مصروف تھی

اور میں سوچتی تھی

خدایا! یہ ہم لڑکیاں

کچی عُمروں سے ہی خواب کیوں دیکھنا چاہتی ہیں

(خواب کی حکمرانی میں کِتنا تسلسل ہے!)






جان پہچان

شور مچاتی موجِ آب

ساحل سے ٹکرا کے جب واپس لوٹی تو

پاؤں کے نیچے جمی ہُوئی چمکیلی سنہری ریت

اچانک سرک گئی!

کچھ کچھ گہرے پانی میں

کھڑی ہُوئی لڑکی نے سوچا

یہ لمحہ کتنا جانا پہچانا لگتا ہے






دوست

اس اکیلی چٹان نے

سمندر کے ہمراہ

تنہائی کا زہر اِتنا پیا ہے

کہ اس کا سنہرا بدن نیلا پڑنے لگا ہے






دل کی ہنسی

وہ لڑکی

جس کے چہرے پر سدااُداسی رہتی تھی

جس کے ہونٹ کبھی اخلاقاً بھی ہنستے تو

یوں لگتا تھا

اِک لمحہ بھی اور ہنسے تو

اُس کی آنکھیں رو دیں گی!

جو ،روزانہ،

اپنے وقت پہ کالج آتی

سب سے الگ اپنی دُنیا میں گُم رہتی

اپنے کھوئے ہُوئے لوگوں کی یاد میں کھوئی رہتی

وہ خاموش،اُداس سی لڑکی

میرا کہنا مان کے پکنک پر چل دی

میں نے دیکھا

میری سکھیوں کے ہمراہ

وہ پانی میں بیٹھی ہے

لہروں سے بھی کھیل رہی ہے

جانے کون سی بات ہُوئی ہے

سب کے ساتھ وہ ہنس دی ہے

اور اس لمحے

اُس کے ہونٹوں کے ہمراہ

اُس کی آنکھیں بھی ہنستی ہیں






پسِ جاں

چاند کیا چھُپ گیا ہے

گھنے بادلوں کے کنارے

روپہلے ہُوئے جا رہے ہیں






اوتھیلو

اپنے فون پہ اپنا نمبر

بار بار ڈائل کرتی ہوں

سوچ رہی ہوں

کب تک اُس کا ٹیلی فون انگیج رہے گا

دل کُڑھتا ہے

اِتنی اِتنی دیر تلک

وہ کس سے باتیں کرتا ہے






ننھے دوست کے نام ایک نظم

گھنے درختوں کی سبز شاخوں پہ کھِلنے والے حسیں شگوفے!

سُنا ہے

تیرے گلاب چہرے کو برفباری کی رُت نے نرگس بنا دیا ہے

سوننھی کونپل!اُداس مت ہو

کہ تیرے رُخسار کی شفق کو

کبھی بھی دستِ شبِ زمستاں نہ چھُوئے پائے گا

اِس شفق میں محبتوں کا لہُو رواں ہے

عظیم گہری محبتوں کے صدف میں

اَبرِ بہار کی پہلی سانس ہے تو

جو ان جسموں کی مشترک دھڑکنوں کا پہلا جمیل نغمہ

جو ان راتوں کی کوکھ سے پھوٹتا ہُوا پہلا چاند ہے تُو

زمین اور آسماں کے سنگم پہ

زندگی کا نیا اُفق تُو

سواے مرے اَدھ کھِلے شگوفے!

تمام سچی محبتوں کے تمام گیتوں کی طرح تُو بھی اَمر رہے گا

وہ لمحہ آواز دے رہا ہے

جب ایسی ویران شاخساروں کے بے نمو جسم پر نئی کونپلیں اُگیں گی

شجر شجر کی برہنگی سبز پوش ہو گی

وہ ساعتیں راستے میں ہیں

جبکہ تیرے کم سِن بدن کی کچّی مہک کو

دستِ بہار کا لمس

وصفِ گویائی دے سکے گا،

یہ زرد رُت جلد بِیت جائے گی

سبز موسم قریب تر ہے






شہرِ چارہ گراں

پس شہرِ چارہ گراں

نرم آبی قباؤں میں ملبوس کُچھ نوجواں

اپنے اپنے فرائض کی تکمیل میں

مثلِ موجِ صبا ،پھر رہے ہیں

آنسوؤں کا مداوا

دُکھوں کی مسیحائی

زخمِ ہُنر کی پذیرائی کرتے ہُوئے

پھُول چہرہ،فرشتہ قبا،زندگی رنگ،شبنم زباں ،چاندنی لمس،عیسیٰ نفس چارہ گر مجھ کو بے طرح اچھے لگے

جی یہ چاہا کہ اُن کے لیے کُچھ لکھوں

اُن کے چہروں کی یہ مہرباں چاندنی

اُن کی آنکھوں کی یہ نرم دل روشنی

ان کے لہجوں کی غم خوار تابندگی

ان کے ہونٹوں کی دلدار پیاری ہنسی

یوں ہی روشن رہے، جگمگاتی رہے

زندگی اُن کے ہمراہ ہنستی رہے

یہ دُعا میرے ہونٹوں پہ لیکن ادھُوری رہی

دفعتاً جانے کس سمت سے

ایک انساں کا زخمی بدن ا گیا

خُوں میں ڈوبا ہُوا،کرب آلوّّد چہرہ

مرے ذہن پر اس طرح چھا گیا

میری پلکوں کی مانند لہجہ بھی نم ہو گیا

گفتگو کی قبا بھی لہُو رنگ ہونے لگی

مگر جو مسیحا مِرے سامنے تھا

کھڑا مُسکراتا رہا

سلسلہ اُس کی باتوں کا چلتا رہا

اُس کی آنکھوں میں ہلکا سا بھی دُکھ نہ تھا

بلکہ وہ

میری افسردگی دیکھ کر ہنس دیا___:

’’بی بی ! اس طرح تو روز ہوتا ہے

کوئی کہاں تک پریشان ہو

کون اوروں کے دُکھ مول لے

روز کی بات ہے

چھوڑیے بھی اسے۔آئیں باتیں کریں !‘‘

میری آنکھیں تقدس کے پیکر کو حیرت سے تکنے لگیں

میں فرشتوں کے پرسے تراشے ہُوئے

نرم آبی لبادے میں ملبوس انسان کو دیکھتی رہ گئی

مجھ کو لوگوں نے سمجھایا۔۔’’دیکھو۔۔سُنو۔۔

یہ مسیحا ہیں ،ان کے لیے موت بھی

عام سا واقعہ ہے،قیامت نہیں !‘‘

چارہ سازی کی منزل مبارک انھیں

پر یہاں تک یہ جس راہ سے آئے ہیں

اُس میں ،ہر موڑ پر

ان کے دِل کے پیروں تلے آئے ہیں

نرم حسّاس دل کے عوض،چارہ سازی خریدی گئی

اور یہ قیمت بہت ہی بڑی ہے۔۔بہت ہی بڑی

سحاب تھا کہ ستارہ، گریز پا ہی لگا

وہ اپنی ذات کے ہر رنگ میں ہَوا ہی لگا

میں ایسے شخص کی معصومیت پہ کیا لکھوں

جو مجھ کو اپنی خطاؤں میں بھی بھلا ہی لگا

زباں سے چُپ ہے مگر آنکھ بات کرتی ہے

نظر اُٹھائی ہے جب بھی تو بولتا ہی لگا

جو خواب دینے پہ قادر تھا، میری نظروں میں

عذاب دیتے ہُوئے بھی مجھے خدا ہی لگا

نہ میرے لُطف پہ حیراں نہ اپنی اُلجھن پر

مُجھے یہ شخص تو ہر شخص سے جُدا ہی لگا






زمیں پہ جب کسی نئے وجُود نے جنم لیا

(عالمی یومِ اطفال)

زمیں پہ جب کسی نئے وجود نے جنم لیا

یقین ا گیا

خدا ابھی بشر سے بدگماں نہیں

مگر نئی کلی کا رنگ دیکھ کر

یہ واہمہ بھی جاگ اُٹھا

خدا بہار سے خفا ہے کیا؟

خدا خفا ہو یا نہ ہو

ہَوا ضرور بدگمان ہے!

یہ زرد رُو،دریدہ جاں

یہ پور پور استخواں

اماوسوں کی رات میں نہ لوریاں ،نہ پالنا

خزاں کے ہاتھ بچ سکیں نہ شوخیاں نہ بچپنا

نہ ان کا ذہن آگہی کے لمس کا شریک ہے

نہ ان کی آنکھ روشنی کے ذائقے سے آشنا!

ضِدوں کا وقت اور خود کو روکنا

شرارتوں کی عُمر اور سوچنا!

یہ سراُٹھائیں کیا،انھیں کسی پہ مان ہی نہیں

کسی کا پیار ان کے حوصلوں کی جان ہی نہیں

ہَوائیں خوشبوؤں کے تحفے دلدلوں کے پار لے گئیں

گھٹائیں بارشوں کے سب سندیس ندیوں کو دے گئیں

غزال اب بھی تشنہ کام ہی رہے

ہَوا سے صرف نامہ و پیام ہی رہے

وہی ہے تشنگی،وہی رُتوں کی کم نگاہیاں

وہی اکیلا پن،وہی سمے کی کج ادائیاں

ہَوا میں طائرانِ آہنی کا وصل(اگرچہ)خُوب ہے

(خلا سے لے کر چاند تک زمیں کہاں غروب ہے؟)

مگر زمیں کے اپنے چاند،آج بھی گہن میں ہیں

جبیں کے داغ کیا دھُلیں ،سیاہیاں کرن میں ہیں

صبا نفس حیات کا جمال بے نمو رہا!

ہوا گزیدہ پھُول کا لباس بے رفو رہا

ہمکتے کھِلکھلاتے بچے اب خیال و خواب ہو گئے

ہمارے اگلے

اپنی بے بضاعتی میں کیا عذاب گئے

یہ شب نصیب

جن کو بھُوک نے جنم دیا ہے

تشنگی نے دیکھ بھال کی

یہ کھوکھلی جڑیں

نئی رُتوں میں شاخسارِجاں کو

کیسی کونپلیں عطا کریں گی؟

(کرسکیں گی؟۔۔یہ بھی سوچنے کی بات ہے)

شدید موسموں پہ پلنے والے پیڑ

کتنے اُونچے جائیں گے؟

یہ بے ثمر درخت

اپنی چھاؤں کتنی دُور لائیں گے؟

جڑوں کی بانجھ کوکھ میں نہ رنگ ہے ،نہ رُوپ ہے

نظر کی آخری حدوں تلک

فضا میں صرف دھُوپ ہے!

نوادرات ،سیم و زر،گئے زمانوں کی کہانیاں بھی

محترم ہیں

ان کو جمع کرنا نیک کام ہے

مگر یہ بچے زندگی ہیں

میوزیم کے افسران زندگی جمع کریں

اِسے پناہ دیں !

اسے نمود دیں !

اسے غرور دیں !

یہ بے اماں ۔۔یہ بے مکاں

یہ کم لباس، کم زباں

انھیں بھی راستوں میں نرم چھاؤں کی نوید ہو

ہرے بھرے لباس میں کبھی تو ان کی عید ہو






بنفشے کا پھُول

وہ پتھر پہ کھِلتے ہُوئے خُوبصورت بنفشے کا ننھا سا ایک پھُول بھی

جس کی سانسوں میں جنگل کی وحشی ہوائیں سمائی ہُوئی تھیں

اُس کے بے ساختہ حُسن کو دیکھ کر

اک مُسافر بڑے پیار سے توڑ کر،اپنے گھر لے گیا

اور پھر

اپنے دیوان خانے میں رکھے ہُوئے کانچ کے خُوبصورت سے گُل دان میں

اُس کو ایسے سجایا

کہ ہر آنے والے کی پہلی نظر اُس پہ پڑنے لگی

دادوتحسین کی بارش میں وہ بھیگتا ہی گیا

کوئی اُس سے کہے

گولڈ لیف اور شنبیل کی نرم شہری مہک سے

بنفشے کے ننھے شگوفے کا دَم گھُٹ رہا ہے

وہ جنگل کی تازہ ہَوا کو ترسنے لگا ہے






فلاور شو

پھُول ہی پھُول ہیں

تا بہ حدِ نظر

آتشی، آسمانی، گُلابی

کاسنی، چمپئی،ارغوانی

کتنے مشتاق ہاتھوں نے، کتنی،

یاسمین یاسمن اُنگلیوں نے

اِس طرح سے سجایا،سنواراانھیں

اور پھر دادِ اہلِ نظر اور تحسینِ چشمِ نگاراں ملی

یہ نہ سوچا کسی نے،کہ گُل نے

شاخ سے ٹُوٹ کر

حسن کے اس سفر میں

کِس طرح کی اذیت اُٹھائی!

ہم کہ شاعر ہیں ___نوکِ قلم سے

فِکر کے پھُول مہکا رہے ہیں ،

اپنی سوچوں کی تابندگی سے

عارضِ وقت چمکا رہے ہیں

ایک وقت ایسا بھی ا رہا ہے

جب کہ دیوان اپنے

آبنوس اور مرمر کے شیلفوں میں پتھر کی مانند سج جائیں گے

یاسمن یاسمن اُنگلیاں

شعر کے لمس سے بے خبر

ان کو ترتیب دیں گی

نرگسی نرگسی کتنی آنکھیں

حُسنِ ترتیب کی داد دیں گی

اس حقیقت سے نا آشنا___

حُسنِ تخلیق کے اس سفر میں

ہم نے کیسی اذیت اُٹھائی !






پہرے

پسِ شہرِ گُل

سُرخ پتّھر کی دیوار پر

آ کے موجِ صبا

عُمر بھر دستکیں دے تو کیا

صرف یہ ہے کہ ہاتھ اُس کے تھک جائیں گے






لڑکیاں اُداس ہیں

پھر وہی نرم ہوا

وہی آہستہ سفر موجِ صبا

گھر کے دروازے پہ ننھی سی ہتھیلی رکھے

منتظر ہے

کہ کِسی سمت سے آواز کی خوشبو آئے

سبز بیلوں کے خنک سائے سے کنگن کی کھنک

سُرخ پھُولوں کی سجل چھاؤں سے پائل کی جھنک

کوئی آواز۔۔۔بنامِ موسم!

اور پھر موجِ ہوا،موجۂ خُوشبو کی وہ البیلی سکھی

کچی عمروں کے نئے جذبوں کی سرشاری سے پاگل برکھا

دھانی آنچل میں شفق ریز،سلونا چہرہ

کاسنی چُنری،بدن بھیگا ہوا

پشت پر گیلے ،مگر آگ لگاتے گیسو

بھوری آنکھوں میں دمکتا ہُوا گہرا کجرا

رقص کرتی ہوئی، رِم جھم کے مدھُر تال کے زیرو بم پر

جھُومتی ،نقرئی پازیب بجاتی ہوئی آنگن میں اُتر آئی ہے

تھام کر ہاتھ یہ کہتی ہے

مرے ساتھ چلو!

لڑکیاں

شیشوں کے شفاف دریچوں پہ گرائے ہُوئے سب پردوں کو

اپنے کمروں میں اکیلی بیٹھی ہے

کیٹس کے ’’اوڈس‘‘پڑھاکرتی ہیں

کتنا مصروف سکوں چہروں پہ چھایا ہے۔۔مگر

جھانک کے دیکھیں

تو آنکھوں کو نظر آئے،کہ ہر مُوئے بدن

گوش برساز ہے!

ذہن بیتے ہُوئے موسم کی مہک ڈھونڈتا ہے

آنکھ کھوئے ہُوئے خوابوں کا پتہ چاہتی ہے

دل ،بڑے کرب سے

دروازوں سے ٹکراتے ہوئے نرم رِم جھم کے مدھُر گیت کے اس سُرکو بُلانے کی سعی کرتا ہے

جو گئے لمحوں کی بارش میں کہیں ڈوب گیا






رفاقت

سبز موسم کی بے حد خنک رات تھی

چنبیلی کی خوشبو سے بوجھل ہُوا

دھیمے لہجوں میں سرگوشیاں کر رہی تھی

ریشمیں اوس میں بھیگ کر

رات کا نرم آنچل بدن سے لپٹنے لگا تھا

ہارسنگھار کی نرم خوشبو کا جادو

جواں رات کی سانس میں گھُل رہا تھا

چاندنی،رات کی گود میں سر رکھے ہنس رہی تھی

اور میں سبز موسم کی گلنار ٹھنڈک میں کھوئی ہُوئی

شاخ در شاخ

ایک تیتری کی طرح اُڑ رہی تھی

کبھی اپنی پرواز میں رُک کے نیچے جو آتی تو احساس ہوتا مجھے

شبنمی گھاس کا لمس پاؤں کو کتنا سکوں دے رہا ہے!

دفعتاً

میں نے ٹی ۔وی کی خبروں پہ موسم کی بابت سُنا

ترے شہر میں لُو چلی ہے

ایک سو آٹھ سے بھی زیادہ حرارت کا درجہ رہا ہے

مجھے یوں لگا

میرے چاروں طرف آگ ہی آگ ہے

ہوائیں جہنم سے آنے لگی ہیں

تمازت سے میرا بدن پھُنک رہا ہے

میں اُس شبنمی رُوح پرور فضا کو جھٹک کر

کچھ اس طرح کمرے میں اپنے چلی آئی

جیسے کہ اک لمحہ بھی اور رک جاؤں گی تو جھلس جاؤں گی!

پھر بڑی دیر تک،

تیرے تپتے ہُوئے جسم کو

اپنے آنچل سے جھلستی رہی

تیرے چہرے سے لپٹی ہُوئی گرد کو

اپنی پلکوں سے چُنتی رہی

رات کو سونے سے پہلے

اپنی شب خوابیوں کا لبادہ جو پہنا

تو دیکھا

مرے جسم پر آبلے پڑ چکے تھے!

لمحہ لمحہ وقت کی جھیل میں ڈُوب گیا

اب پانی میں اُتریں بھی تو پائیں کیا

طوفان جب آیا تو جھیل میں کُود پڑ

اوہ لڑکا جو کشتی کھیلنے نکلا تھا

کتنی دیر تک اپنا آپ بچائے گی

ننھی سی اِک لہر کو موجوں نے گھیرا

اپنے خوابوں کی نازک پتواروں سے

تیر رہا ہے سطحِ آپ پہ اِک پتہ

ہلکی ہلکی لہریں نیلم پانی میں

دھیرے دھیرے ڈولے یاقوتی نیّا

شبنم کے رُخساروں پر سُورج کے ہونٹ

ٹھہر گیا ہے وصل کا اِک روشن لمحہ

چاند اُتر آیا ہے گہرے پانی میں

ذہن کے آئینے میں جیسے عکس ترا

کیسے ان لمحوں میں تیرے پاس آؤں

ساگر گہرا،رات اندھیری ،میں تنہا

ٹھہر کے دیکھے تو رُک جائے نبض ساعت کی

شبِ فراق کی قامت ہے کسقیامت کی

وہ رت جگے،وہ گئی رات تک سخن کاری

شبیں گزاری ہیں ہم نے بھی کُچھ ریاضت کی

وہ مجھ کو برف کے طوفاں میں کیسے چھوڑ گیا

ہَوائے سرد میں بھی جب مری حفاظت کی

سفر میں چاند کا ماتھا جہاں بھی دھُندلایا

تری نگاہ کی زیبائی نے قیادت کی!

ہَوا نے موسمِ باراں سے سازشیں کر لیں

مگر شجر کو خبر ہی نہیں شرارت کی






ڈیپارٹمنٹل اسٹور میں

پرل کا نیچرل پنک،

ریولان ہینڈ لوشن،

الزبتھ آرڈرن کا بلش آن بھی،

میڈورا میں پھر نیل پالش کا کوئی نیا شیڈ آیا؟

مرے اس بنفشی دوپٹے سے ملتی ہُوئی

رائمل میں لپ اسٹک ملے گی؟

ہاں ،وہ ٹیولپ کا شیمپو بھی دیجئے گا،

یاد آیا

کچھ روز پہلے جو ٹیوزر لیا تھا،وہ بالکل ہی بیکار نکلا،

دُوسرا دیجئے گا!

ذرا بِل بنا دیجئے!

ارے! وہ جو کونے میں اک سینٹ رکھا ہُوا ہے

دکھائیں ذرا

اِسے ٹسٹ کر کے تو دیکھوں

(خدایا! خدایا:

یہ خوشبو تو اُس کی پسندیدہ خوشبو رہی ہے

سدا سے اس کے ملبوس سے پھوٹتی تھی!)

ذرا اس کی قیمت بتا دیں !

اِس قدر!!

اچھا ،یوں کیجئے

باقی چیزیں کبھی اور لے جاؤں گی

آج تو صرف اِس سینٹ کو پیک کر دیجئے






ایک دوست کے نام

لڑکی!

یہ لمحے بادل ہیں

گزر گئے تو ہاتھ کبھی نہیں آئیں گے

ان کے لمس کو پیتی جا

قطرہ قطرہ بھیگتی جا

بھیگتی جا تُو جب تک اِن میں نم ہے

اور تیرے اندر کی مٹی پیاسی ہے

مُجھ سے پوچھ

کہ بارش کوواپس آنے کا رستہ کبھی نہ یاد ہُوا

بال سُکھانے کے موسم اَن پڑھ ہوتے ہیں






مسئلہ

’’پتھر کی زباں ‘‘ کی شاعرہ نے

اک محفلِ شعر و شاعری میں

جب نظم سُناتے مُجھ کو دیکھا

کُچھ سوچ کے دل میں ،مُسکرائی!

جب میز پر ہم مِلے تو اُس نے

بڑھ کر مرے ہاتھ ایسے تھامے

جیسے مجھے کھوجتی ہو کب سے

پھر مجھ سے کہا کہ۔۔۔۔آج،پروین!

جب شعر سناتے تم کو دیکھا

میں خود کو بہت یہ یاد آئی!

وہ وقت،کہ جب تمھاری صُورت

میں بھی یونہی شعر کہہ رہی تھی

لکھتی تھی اِس طرح کی نظمیں

پر اب تو وہ ساری نظمیں ،غزلیں

گزرے ہُوئے خواب کی ہیں باتیں !

میں سب کو ڈِس اون کر چکی ہوں !

’’پتھر کی زباں ‘‘کی شاعرہ کے

چنبیلی سے نرم ہاتھ تھامے

’’خوشبو‘‘ کی سفیر سوچتی تھی

در پیش ہواؤں کے سفر میں

پل پل کی رفیقِ راہ۔۔میرے

اندر کی یہ سادہ لوح ایلس

حیرت کی جمیل وادیوں سے

وحشت کے مہیب جنگلوں میں

آئے گی۔۔۔۔تو اُس کا پھُول لہجہ

کیا جب بھی صبا نفس رہے گا!؟

وہ خود کو ڈس اون کرسکے گی!؟






تنقید اور تخلیق

’’آپ کی شاعری صرف خوشبو ہے

دل میں اُترتی ہُوئی

رُوح پر شبنمی ہاتھ رکھتی ہُوئی

یہ مگر۔۔۔۔ذہن کو ہلکے سے چھُو کر گُزر جائے گی

آپ اِسے رنگ کا پیرہن دیجئے

کوئی آدرش اُونچا ،انوکھا عقیدہ،کوئی گنجلک فلسفہ

سخت ناقابلِ فہم الفاظ میں پیش کرنے کی کوشش کریں

آپ کی سوچ میں کچھ تو گہرائی ہو__!‘‘

آپ سچ کہہ رہے ہیں

مگر ۔۔دیکھیے نا۔۔۔ابھی میرا فن کچی عمروں میں ہے

(آپ اسے خواب ہی دیکھنے دیجئے

اتنی گھمبیر دانشوری میں نہ اُلجھائیے)

میں نہیں چاہتی۔۔کہ میرا فن

جواں ہونے سے قبل ہی بوڑھا ہو جائے

اور فلسفے کا عصا لے کے چلنے لگے






سُکھ کے موسم کا دُکھ

آنے والی رُتوں کے آنچل میں

کوئی ساعت سعید کیا ہو گی

رات کے وقت رنگ کیا پہنوں

روشنی کی کلید کیا ہو گی

جبکہ بادل کی اوٹ لازم ہو

جانتی ہوں ،کہ دید کیا ہو گی

زردموسم کی خشک ٹہنی سے

کونپلوں کی اُمید کیا ہو گی

چاند کے پاس بھی سُنانے کو

اب کے کوئی نوید کیا ہو گی

گُل نہ ہو گا تو جشنِ خوشبو کیا

تم نہ ہو گے تو عید کیا ہو گی






لیلۃ الصّک

عجب پُراسرار سی فضا تھی

ہَوا میں لوبان و عود عنبر کی آسمانی مہک رچی ہوئی تھی

سپید، مخروطی،مومی شمعیں

عجیب نا قابلِ بیاں مذہبی تیقن سے جل رہی تھیں

کہ جیسے آبی قباؤں میں کچھ اُداس ،معصوم لڑکیاں

دونوں ہاتھ اٹھائے

دُعا میں مصروف ہوں

اور اُن کی چنبیلی سی اُنگلیوں کی لو تھرتھرا رہی ہو!

دریچوں میں ،طاقچوں میں

ننھے چراغ یوں جھلملا رہے تھے

کہ جیسے نو زائیدہ فرشتے

زمین کو دیکھ کر

تعجب سے اپنی پلکیں جھپک رہے ہوں !

کتابِ الہام کی تلاوت

سروشِ جبریل کے تصور کی جیسے تجسیم کر رہی تھی!

میں ہلکے رنگوں کے اک دوپٹے میں اپنی زیبائشیں چھپائے

ترے بہت ہی قریب،

سر کو جھُکائے بیٹھی تھی

اور تو اپنے سادہ ملبوس میں مرے پاس تھا

مگر ہم ،ایک اور دُنیا میں کھو چکے تھے

زمین کی خواہشیں دھنک پر ہی رہ گئی تھیں

وجود،تتلی کے پَر کی صُورت،لطیف ہو کر

ہَوا میں پرواز کر رہا تھا!

ہمیں بزرگوں نے یہ بتایا،کہ آج کی رات

آسمانوں میں زندگی اور موت کے فیصلے بھی انجام پا رہے ہیں

دُعاؤں کی بار یابیوں کا یہی سمے ہے!

سو ہم نے اپنے دیے جلا کر

حیاتِ تازہ کی آرزو کی

محبتوں کی ہمیشگی کی دُعائیں مانگیں !

میں آج اپنے اکیلے گھر میں

ہَوا کے رُخ پر چراغ ہاتھوں میں لے کر بیٹھی

خدا کے اُس فیصلے کا مفہوم سوچتی ہوں

(کہ جس کی تکمیل میں یہ دیکھا

بدن تو زندہ ہے میرا اب تک

مگر مری رُوح مر چکی ہے)

میں آج جا کر سمجھ سکی ہوں

کہ آج سے ایک سال پہلے

ترا جلایا ہُوا دیا جَلد کیوں بُجھا تھا






سالگرہ

یہی وہ دن تھا

جب آج سے چار سال پہلے

اسی روش پر،بنفشی بیلوں کے نرم سائے میں ہم ملے تھے

وہ لمحہ جبکہ ہمارے جسموں کو اپنے ہونے کا

حیرت آمیز،راحت افزا،نشاطِ اثبات مل سکا تھا

ہماری رُوحوں نے اپنا اپنا ،نیا سنہری جنم لیا تھا

وہ ایک لمحہ

ہماری روحوں کو اپنے دستِ جمال سے چھُو رہا ہے اب تک نظر کو شاداب کر رہا ہے

بدن کو مہتاب کر رہا ہے

ہم اس کے مقروض ہو چکے ہیں !

سو آؤ اب اس عظیم لمحے کے نام کوئی دُعا کریں ہم

اُٹھائیں ہاتھ

اور محبتوں کی تمام تر شدتوں سے چاہیں

کہ جب بھی چھبیس جون کا آفتاب نکلے

تو ہم اُسے ایک ساتھ دیکھیں






رات کی رانی کی خوشبو سے کوئی یہ کہہ دے

رات کی رانی کی خوشبو سے کوئی یہ کہہ دے

آج کی شب نہ مرے پاس آئے

آج تسکینِ مشامِ جاں کو

دل کے زخموں کی مہک کافی ہے

یہ مہک،آج سرِشام ہی جاگ اُٹھی ہے

اب یہ بھیگی ہُوئی بوجھل پلکیں

اور نمناک ،اُداس آنکھیں لیے

رت جگا ایسے منائے گی کہ خود بھی جاگے

اور پَل بھر کے لیے،میں بھی نہ سونے پاؤں

دیو مالائی فسانوں کی کسی منتظرِ موسمِ گل راجکماری کی خزاں بخت،دُکھی رُوح کی مانند

بھٹکنے کے لیے

کُو بہ کُو ابرِ پریشاں کی طرح جائے گی

دُور افتادہ سمندر کے کنارے بیٹھی

پہروں اُس سمت تکے گی جہاں سے اکثر

اُس کے گم گشتہ جزیروں کی ہَوا آتی ہے!

گئے موسم کی شناسا خوشبو

یوں رگ و پے میں اُترتی ہے

کہ جیسے کوئی چمکیلا،رُوپہلاسیال

جسم میں ایسے سرایت کر جائے

جیسے صحراؤں کی شریانوں میں پہلی بارش!

غیر محسوس سروشِ نکہت

ذہن کے ہاتھ میں وہ اِسم ہے

جس کی دستک

یاد کے بند دریچوں کوبڑی نرمی سے

ایسے کھولے گی کہ آنگن میرا

ہر دریچے کی الگ خوشبو سے

رنگ در رنگ چھلک جائے گا

یہ دلاویز خزانے میرے

میرے پیاروں کی عطا بھی ہیں

مرے دل کی کمائی بھی ہیں

ان کے ہوتے ہُوئے اوروں کی کیا ضرورت ہے

رات کی رانی کی خوشبو سے کوئی یہ کہہ دے

آج کی شب نہ میرے پاس آئے






عیادت

پت جھڑ کے موسم میں تجھ کو

کون سے پھُول کا تحفہ بھیجوں

میر ا آنگن خالی ہے

لیکن میری آنکھوں میں

نیک دُعاؤں کی شبنم ہے

شبنم کا ہر تارہ

تیرا آنچل تھام کے کہتا ہے

خوشبو،گیت ہَوا،پانی اور رنگ کو چاہنے والی لڑکی!

جلدی سے اچھی ہو جا

صبحِ بہار کی آنکھیں کب سے

تیری نرم ہنسی کا رستہ دیکھ رہی ہیں !






دھُوپ کا موسم

میں رنگ میں دیکھتی تھی،خوشبو میں سوچتی تھی!

مجھے گماں تھا

کہ زندگی اُجلی خواہشوں کے چراغ لے کر

مرے دریچوں میں روشنی کی نوید بن کر اُتر رہی ہے

میں کُہر میں چاندنی پہن کر

بنفشی بادل کا ہاتھ تھامے

فضا میں پرواز کر رہی تھی

سماعتوں میں سحاب لہجوں کی بارشیں تھیں

بصارتوں میں گلاب چہروں کی روشنی تھی

ہوا کی ریشم رفاقتیں تھیں

صبا کی شبنم عنایتیں تھیں

حیات خوابوں کا سلسلہ تھیں !

کھُلیں جو آنکھیں توسارے منظر دھنک کے اس پار رہ گئے تھے

نہ رنگ میرے، نہ خواب میرے

ہُوئے تو بس کچھ عذاب میرے

نہ چاند راتیں ،نہ پھُول باتیں

نہ نیل صبحیں ،نہ جھیل شامیں

نہ کوئی آہٹ،نہ کوئی دستک

حرف مفہوم کھو چکے تھے

علامتیں بانجھ ہو گئی تھیں

گلابی خوابوں کے پیرہن راکھ ہو چکے تھے

حقیقتوں کی برہنگی

اپنی ساری سفاکیوں کے ہمراہ

جسم و جاں پر اُتری جا رہی تھی

وہ مہرباں ،سایہ دار بادل

عذاب کی رُت میں چھوڑ کر مجھ کو جا چُکا تھا

زمین کی تیز دھوپ آنکھوں میں چُبھ رہی تھی






اپنی زمین کے لیے ایک نظم

خواب،آنکھوں کی عبادت ہیں

گئی رات کے سناٹے میں

اپنے ہونے کا یقیں بھی ہیں

گُل و نغمہ کا اثبات بھی ہیں

خواب کے رنگ ڈھنگ سے بڑھ کر

کبھی پلکوں پہ ستارہ،کبھی آنکھوں میں سحاب

کبھی رُخسار پہ لالہ،کبھی ہونٹوں پہ گلاب

کبھی زخموں کا،کبھی خندۂ گل کا موسم

کبھی تنہائی کا چاند اور کبھی پچھلے پہر کی شبنم

خواب،جو تجزیۂ ذات ہوئے

ان کو جب فرد کی نیندوں کی نفی کر کے لکھا جائے

تو اک قوم کا ناقابل تردید تشخص بن جائیں !

وہ خزاں زاد تھا

اور بنتِ بہار

اُس کی آنکھوں کے لیے خوابِ حیات

اپنے اس خواب کی تقدیس بچانے کے لئے

وہ اماوس کی گھنی راتوں میں

رت جگا کرتا رہا

اورایسے،کہ نیا موسمِ گُل آیاتوسب نے دیکھا

جھلملاتے ہُوئے اِک تارے کی اُنگلی تھامے

چاند پرچم پہ اُتر آیا ہے

سنگریزوں میں گلاب اُگتے ہیں

شہرِ آذر میں اذاں گونجتی ہے

خوشبو آزاد ہے

جنگل کی ہَوا بن کے سفر کرتی ہے

نئی مٹی کا،نئی خواب زمینوں کا سفر

یہ سفر____رقصِ زمیں ،رقصِ ہَوا،رقصِ محبت ہے

جواَب لمحہ موجود تک آ پہنچا ہے






وحی

عجیب موسم تھا وہ بھی،جب کہ

عبادتیں کور چشم تھیں

اور عقیدتیں اپنی ساری بینائی کھو چکی تھیں

خُود اپنے ہاتھوں سے ترشے پتھر کو دیوتا کہہ کے

خیر و برکت کی نعمتیں لوگ مانگتے تھے!

مگر وہ اِک شخص

جو ابھی اپنے آپ پر بھی نہ منکشف تھا

عجیب اُلجھن میں مبتلا تھا

یہ وہ نہیں ہیں ،وہ کون ہو گا کا کربِ بے نام چکھ رہا تھا!

سواپنے ان نارسادُکھوں کی صلیب اُٹھائے

غموں کی نا یافت شہریت کو تلاش کرتے

وہ شہرِ آذر سے دُور

اپنے تمام لمحے

حرا کے غاروں کے خواب آساسکوت کو سونپنے لگا تھا

یہ سوچ کا اعتکاف بھی تھا

اور ایک اَن دیکھی رُوحِ کُل کے وجود کا اعتراف بھی تھا

وہ رات بھی ارتکاز کی ایک رات تھی

جبکہ لمحہ بھرکو

فضا پہ سناٹاچھا گیا

اور ہواؤں کی سانس رُک گئی تھی

ستارۂ شب کے دل کی دھڑکن ٹھہر گئی تھی

گریز پا ساعتیں تحیر زدہ تھیں

جیسے وجود کی نبض تھم گئی ہو!

یکایک اِک روشنی جمال و جلال کے سارے رنگ لے کر

فضا میں گونجی

’’پڑھو!‘‘

’’میں پڑھ نہیں سکوں گا!‘‘

’’پڑھو!‘‘

’’میں پڑھ نہیں سکوں گا!‘‘

’’پڑھو!‘‘

’’(مگر)میں کیا پڑھوں ؟‘‘

پڑھو___تم اپنے (عظیم)پروردگار کا نام لے کے

جو سب کو خلق کرتا ہے

جس نے انسان کو بنایا ہے منجمد خون سے

پڑھو(کہ) تمھارا پروردگار بے حد کریم ہے

(اور)جس نے تم کو قلم سے تعلیم دی

اُسی نے بتائیں انسان کو وہ باتیں

کہ جن کو وہ جانتا نہیں تھا……..‘‘

فضائے بے نطق جیسے اِقراء کا ورد کرنے لگی تھی

وہ سارے الفاظ،جو

تیرگی کے سیلاب میں کہیں بہہ چکے تھے

پھر روشنی کی لہروں میں

واپسی کے سفر کا آغاز کر رہے تھے

دریچۂ بے خیال میں

آگہی کے سُورج اُتر رہے تھے

اس ایک پل میں

وہ میرا اُمی ّ

مدینۃ العلم بن چکا تھا






آئینہ

لڑکی سرکوجھُکائے بیٹھی

کافی کے پیالے میں چمچہ ہلا رہی ہے

لڑکا،حیرت اور محبت کی شدت سے پاگل

لانبی پلکوں کے لرزیدہ سایوں کو

اپنی آنکھ سے چُوم رہا ہے

دونوں میری نظر بچا کر

اک دُوجے کو دیکھتے ہیں ہنس دیتے ہیں !

میں دونوں سے دُور

دریچے کے نزدیک

اپنی ہتھیلی پر اپنا چہرہ رکھے

کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھ رہی ہوں

سوچ رہی ہوں

گئے دنوں میں ہم بھی یونہی ہنستے تھ






تُمھارا رویہ

تُمھارا رویہ

مرے ساتھ ایسا رہا ہے

کہ جو

ایک کہنہ سیاسی مُدبر کا

کمسن صحافی کے ہمراہ ہوتا ہے ا۔

ہر حرف اپنے عواقب سے ہشیار

ہر نقط تولا ہوا

(مسئلہ فقرے بازی میں الجھا ہوا )

کوئی بات ایسی نہ ہو پائے ، جو بعد میں

اُس کے حق میں

خود اُس کی زباں سے چلایا ہُوا تیر بن جائے

(اور وہ پشیمان ہو)






خُود سے مِلنے کی فُرصت کسے تھی

اپنی پندار کی کرچیاں

چُن سکوں گی

شکستہ اُڑانوں کے ٹوٹے ہُوئے پر سیٹوں گی

تجھ کو بدن کی اجازت سے رُخصت کروں گی

کبھی اپنے بارے میں اِتنی خبر ہی نہ رکھی تھی

ورنہ بچھڑے کی یہ رسم کب کی ادا ہو چکی تھی

مرا حوصلہ

اپنے دل پر بہت قبل ہی منکشف ہو گیا ہوتا

لیکن _ یہاں

خود سے ملنے کی فرصت کسے تھی






کن رس

یہ جھکی جھکی آنکھیں

یہ رُکا رُکا لہجہ

لب پہ بار بار آ کے

ٹوٹتا ہُوا فقرہ

گرد میں اٹی پلکیں

دھُوپ سے تپا چہرہ

سر جھُکائے آیا ہے

ایک عمر کا بھُولا

دل ہزار کہتا ہے

ہاتھ تھام لُوں اس کا

چُوم لُوں یہ پیشانی

لَوٹنے نہ دُوں تنہا

کوئی دل سے کہتا ہے

سارے حرف جھُوٹے ہیں

اعتبار مت کرنا!

اعتبار مت کرنا






بے نسب ورثے کا بوجھ

گہرے پانی کی چادر پہ لیٹی ہُوئی جل پری

اپنے آئینہ تن کی عریانیوں کے تکلم سے ناآشنا

موجۂ زلفِ آب رواں سے لپٹ کر

ہواؤں کی سرگوشیاں سُنتے رہنے میں مشغول تھی!

ناگہاں

نیلگوں آسمانوں میں اُڑتے ہوئے دیوتا نے

زمیں پر جو دیکھا

تو پرواز ہی بھُول بیٹھا

نظر جیسے شل ہو گئی

اُڑنا چاہا____مگر

خواہشِ بے اماں نے بدن میں قیامت مچا دی

مگر وصل کیسے ہو ممکن

کہ وہ دیوتا___آسمانوں کا بیٹا ہُوا!

جل پری کا تعلّق زمیں سے

سو خواہش کے عفریت نے

آسماں اور زمیں کے کہیں درمیاں سرزمینوں کی مخلوق کا رُوپ دھارا

بہت کھولتی خواہشوں کے تلاطم سے سرشار نیچے اُترنے لگا






جل پری

اس قدر دودھیا خوشنما ہنس کر

اپنی جانب لپکتے ہُوئے دیکھ کر مُسکرائی

مگر اس کی یہ مسکراہٹ ہنسی بننے سے قبل ہی چیخ میں ڈھل گئی

اُس کا انکار بے سُود

وحشت ، سراسیمگی ، اجنبی پھڑپھڑاہٹ میں گُم ہو گئی

آہ و زاری کے با وصف

مضبوط پَر اُس کا سارا بدن ڈھک چکے تھے!

اُجلی گردن میں وحشت زدہ چونچ اُتری چلی جا رہی تھی

اُس کے آنسو

سمندر میں شبنم کی مانند حل ہو گئے!

سِسکیاں

تُند موجوں کی آواز میں بے صدا ہو گئیں !

ہنس اپنے لہُو کی دہکتی ہُوئی وحشتیں

نیم بے ہوش خوشبو کے رس سے بجھاتا رہا

اور پھر اپنے پیاسے بدن کے مساموں پہ

بھیگی ہُوئی لذّتوں کی تھکن اوڑھ کر اُڑ گیا!

جل پری

گہرے نیلے سمندر کی بیٹی

اپنی مفتوح و نا منتظر کوکھ میں

آسماں اور زمیں کے کہیں درمیاں رہنے والو ں کا

بے شجرہ و بے نسب ورثے کا بوجھ تھامے ہُوئے

آج تک رو رہی ہے!

کیا کیا نہ خواب ہجر کے موسم میں کھو گئے

ہم جاگتے رہے تھے مگر بخت سوگئے

اُس نے پیام بھیجے تو رستے میں رہ گئے

ہم نے جو خط لکھے تو ہَوا بُرد ہو گئے

مَیں شہرِ گل میں زخم کا چہرہ کسے دکھاؤں

شبنم بدست لوگ تو کانٹے چبھو گئے

آنچل میں پھُول لے کے کہاں جا رہی ہُوں مَیں

جو آنے والے لوگ تھے ، وہ لوگ تو گئے

کیا جانیے ، اُفق کے اُدھر کیا طلسم ہے

لَوٹے نہیں زمین پہ ، اِک بار جو گئے

جیسے بدن سے قوسِ قزح پھوٹنے لگی

بارش کے ہاتھ پھُول کے سب زخم دھو گئے

آنکھوں میں دھیرے دھیرے اُتر کے پُرانے غم

پلکوں میں ننھّے ننھّے ستارے پرو گئے

وہ بچپنے کی نیند تو اب خواب ہو گئی

کیا عُمر تھی کہ رات ہُوئی اور سوگئے!

کیا دُکھ تھے ، کون جان سکے گا، نگارِ شب !

جو میرے اور تیرے دوپٹّے بھگو گئے!

ویسے تو کج ادائی کا دُکھ نہیں سہا

آج اُس کی بے رُخی نے مگر دل دُکھا دیا

موسم مزاج تھا ، نہ زمانہ سرشت تھا

میں اب بھی سوچتی ہوں وہ کیسے بدل گیا

دُکھ سب کے مشترک تھے مگر حوصلے جُدا

کوئی بِکھر گیا تو کوئی مُسکرا دِیا

جھوٹے تھے کیا ہُوئی کہ جو آنسو نہ بن سکی

وہ درد کیا ہُوا کہ جو مصرعہ نہ بن سکا

ایسے بھی زخم تھے کہ چھپاتے پھرے ہیں ہم

درپیش تھا کسی کے کرم کا معاملہ

آلودۂ سخن بھی نہ ہونے دیا اُسے

ایسا بھی دُکھ ملا جو کسی سے نہیں کہا

تیرا خیال کر کے میں خاموش ہو گئی

ورنہ زبانِ خلق سے کیا کیا نہیں سُنا

میں جانتی ہوں ، میری بھلائی اسی میں تھی

لیکن یہ فیصلہ بھی کچھ اچھّا نہیں ہُوا

میں برگ بر گ اُس کو نمو بخشتی رہی

وہ شاخ شاخ میری جڑیں کاٹتا رہا






بائیسویں صلیب

صبح کے وقت ، اذاں سے پہلے

اب سے بائیس برس قبل اُدھر

عمر میں پہلی دفعہ روئی تھی میں

کر ب میں ڈوبی ہُوئی چیخ کو سُن کر مری ماں ہنس دی تھی

مری آواز نے اُس کو شاید

اُس کے ہونے کا یقیں بخشا تھا

دُکھ کے اک لمبے سفر اور اذیّت کی کئی راتیں بسر کرنے پر

اُس نے تخلیق کیا تھا مجھ کو

میری تخلیق کے بعد اُس نے نئی زندگی پائی تھی جسے

آنسوؤں نے مرے بپتسمہ دیا!

ہر نئے سال کے چوبیس نومبر کی سحر

دُکھ کا اِک رنگ نیا لے کے مرے گھر اُتری

اور میں ہر رنگ کے شایان سواگت کے لیے

نذر کرتی رہی

کیا کیا تحفے!

کبھی آنگن کی ہر ی بیلوں کی ٹھنڈی چھایا

کبھی دیوار پہ اُگتے ہُوئے پھُولوں کا بنفشی سایا

کبھی آنکھوں کا کوئی طفلکِ معصوم

کبھی خوابوں کا کوئی شہزادہ کہ تھا قاف کا رہنے والا

کبھی نیندوں کے مسلسل کئی موسم

تو کبھی

جاگتے رہنے کی بے انت رُتیں !

(رس بھیگی ہُوئی برسات کی کاجل راتیں

چاندنی پی کے مچلتی ہُوئی پاگل راتیں !)

وقت نے مجھ سے کئی دان لیے

اُس کی بانہیں ، مری مضبوط پناہیں لے لیں

مجھ تک آتی ہُوئی اس سوچ کی راہیں لے لیں

حد تو یہ ہے کہ وہ بے فیض نگاہیں لے لیں

رنگ تو رنگ تھے ، خوشبوئے حنا تک لے لی

سایہ ابر کا کیا ذکر ، ردا تک لے لی

کانپتے ہونٹوں سے موہوم دُعا تک لے لی

ہر نئے سال کی اِک تازہ صلیب

میرے بے رنگ دریچوں میں گڑی

قرضِ زیبائی طلب کرتی رہی

اور میں تقدیر کی مشاطہ مجبور کی مانند ادھر

اپنے خوابوں سے لہو لے لے کر

دستِ قاتل کی حنا بندی میں مصروف رہی___

اور یہاں تک___کہ صلیبیں مری قامت سے بڑی ہونے لگیں !

ہاں کبھی نرم ہَوا نے بھی دریچوں پہ مرے ، دستک دی

اور خوشبو نے مرے کان میں سرگوشی کی

رنگ نے کھیل رچانے کو کہا بھی،لیکن

میرے اندر کی یہ تنہا لڑکی

رنگ و خوشبو کی سکھی نہ بن سکی

ہر نئی سالگرہ کی شمعیں

میرے ہونٹوں کی بجائے

شام کی سَرد ہَوا نے گل کیں

اور میں جاتی ہُوئی رُت کے شجر کی مانند

تنِ تنہا و تہی دست کھڑی

اپنے ویران کواڑوں سے ٹکائے سرکو

خود کو تقسیم کے نا دیدہ عمل میں سے گُزرتے ہُوئے بس دیکھا کی !

آج اکیسویں صلیبوں کو لہو دے کے خیال آتا ہے

اپنے بائیسویں مہمان کی کِس طرح پذیرائی کروں

آج تو آنکھ میں آنسو بھی نہیں !

ماں کی خاموش نگاہیں

مرے اندر کے شجر میں کسی کونپل کی مہک ڈھونڈتی ہیں

اپنے ہونے سے مرے ہونے کی مربوط حقیقت کا سفر چاہتی ہیں

خالی سیپی سے گُہر مانگتی ہیں

میں تو موتی کے لیے گہرے سمندر میں اُترنے کو بھی راضی ہوں __مگر

ایسی برسات کہاں سے لاؤں

جو مری رُوح کو بپتسمہ دے






کرنوں کے قدم

خوش پوش مسافروں کے آگے

ننّھا سا وہ کم لباس بچہ

کِس شانِ انا سے چل رہا تھا

سُورج کی تمازت کے با وصف

سائے کی تلاش تھی نہ اس کو

درکار تھیں نقرئی پناہیں

جیبوں پہ نگاہ تھی نہ رُخ پر

سکّوں سے وہ بے نیاز آنکھیں

کُچھ اور ہی ڈھونڈنے چلی تھیں

اُس کو تو مسافروں سے بڑھ کر

سایوں سے لگاؤں ہو گیا تھا

اپنے نئے کھیل میں مگن وہ

لوگوں کے بہت قریب جا کر

میلی ، بے رنگ اُنگلیوں سے

سایوں کو مزے سے گن رہا تھا

دلدل سے اُگا ہُوا وہ بچہ

خوشبو کا حساب کر رہا تھا

کُہرے میں پلا ہُوا وہ کیڑا

کرنوں کا شمار کر رہا تھا

کس نے اُسے گنتیاں سکھائیں

جس نے کبھی زندگی میں اپنی

اسکول کی شکل تک نہ دیکھی

اُستاد کا نام تک نہ جانا

سچ یہ ہے کہ سورجوں کو چاہے

بادل کا کفن بھی دے کے رکھیں

کب روشنیاں ہوئی ہیں زنجیر!

تنویر کا ہاتھ کِس نے تھاما!

کونوں کے قدم کہاں رُکے ہیں !






لیکن

یہ جو دفعتاً اُدھر سے

گُل مہر کی شاخ کو ہٹا کر

اُبھرا ہے اُفق پہ چاند میرا

اس چاند کا حُسن تو وہی ہے






مورنی

بارش نے

جب سے مجھ کو پا زیب پہنائی ہے

میں رقص میں ہوں

اور اتنی خوش ہوں

اپنے پاؤں کی بد رنگی کو

دیکھ دیکھ کے بھول رہی ہو

پَر پھیلائے

بھیگے ہُوئے جنگل میں مسلسل ناچ رہی ہوں






موسم

چڑیا پُوری بھیگ چکی ہے

اور درخت بھی پتّہ پتّہ ٹپک رہا ہے

گھونسلا کب کا بکھر چکا ہے

چڑیا پھر بھی چہک رہی ہے

انگ انگ سے بول رہی ہے

اس موسم میں بھیگتے رہنا کتنا اچھا لگتا ہے






اِتنا دھیان رکھنا

اُجلے آج کی سّچائی کو

مَیلی کل کی دھُندلا ہٹ میں

کیا اوروں کی صُورت تم بھی پرکھو گے ؟

خیر___تمھاری مرضی

لیکن اِتنا دھیان میں رکھنا

سُور ج پر بھی رات کی ہم آغوشی کا الزام رہا ہے






مجبوری

ہوائیں

دستکوں میں میرا نام لے رہی ہیں

میں ،کواڑ کیسے کھولوں

میرے دونوں ہاتھ پُشت کی طرف بندھے ہُوئے ہیں






تعبیر

سیہ راتوں کے آگے سُرخرو ہوں

چاند سے آنکھیں ملا کر بات کرتی ہوں

کہ میں نے عمر میں دیکھا ہے پہلی بار یہ منظر

مری نیندیں مرے خوابوں کے آگے سر اُٹھا کر چل رہی ہیں






واٹر لُو

اُس کے کنول ہاتھوں کی خوشبو

کتنی سبز آنکھوں نے پینے کی خواہش کی تھی

کتنے چمکیلے بالوں نے

چھُوئے جانے کی آس میں خود کو، کیسا کیسا بکھرایا تھا

کتنے پھُول اُگانے والے پاؤں

اُس کی راہ میں اپنی آنکھیں بچھائے پھرتے تھے

لیکن وہ ہر خواب کے ہاتھ جھٹکتی ہُوئی

جنگل کی مغرور ہَوا کی صُورت

اپنی دھُن میں اُڑتی پھرتی

آج ____مگر

سُورج نے کھڑکی سے جھانکا

تو اُس کی آنکھیں ،پلکیں جھپکنا بھُول گئیں

وہ مغرور سی، تیکھی لڑکی

عام سی آنکھوں ، عام سے بالوں والے

اِک اکھّڑ پردیسی کے آگے

دو زانو بیٹھی

اُس کے بوٹ کے تسمے باندھ رہی تھی






نئی رات

گہن کو اپنے نوشتہ جان کے ، میں نے

روشنیوں سے سارے ناتے توڑ لیے تھے

رات کو اپنی سکھی مان کے

اپنے سارے دُکھ بس اُس سے کہہ کے

جی ہلکا کر لیتی تھی

شام ڈھلے ، تنہائی کے بازو پر سر رکھے سو جاتی

اور نیند کے بے آباد جزیروں میں تنہا

اک تھکی ہُوئی خوشبو کی طرح بھٹکا کرتی!

آج بھی میں تنہا ہوں سفر میں

لیکن خود سے پُوچھ رہی ہوں

میرے وجود کے گرد یہ کیسا ہالہ ہے!

یوں لگتا ہے

چادرِ شب شانوں سے سرکتی جاتی ہے

چاند مرے آنچل میں ستارے ٹانک رہا ہے






آج کی رات

نیند پلکوں کی جھالر کو چھُوتی ہوئی

اوس میں اپنا آنچل بھگو کے

مرے دُکھتے ماتھے پہ رکھنے چلی ہے

مگر__آنکھ اور ذہن کے درمیاں

آج کی شب وہ کانٹے بچھے ہیں

کہ نیندوں کے آہستہ رَو، پھول پاؤں بھی چلنے سے معذور ہیں

ہر بُنِ مو میں اِک آنکھ اُگ آئی ہے

جس کی پلکیں نکلنے سے پہلے کہیں جھڑ چکی ہیں

اور اب ، رات بھر

روشنی اور کھُلی آنکھ کے درمیاں

نیند مصلوب ہوتی رہے گی!






نیا دُکھ

یہ دُکھ جو برف کا طوفان بن کے آیا ہے

پہاڑ والوں پہ کیسے عذاب لایا ہے

یہ زندہ رہنے کی خاطر ، اجازتوں کا دُکھ

بطور قرض کے حاصل ، محبتوں کا دُکھ

یہ غم کہ رات کی دہلیز اپنا گھر ہو گی

تمام عالمِ امکاں میں جب سحر ہو گی

یہ دُکھ کہ چھوڑ گئے انتہا پہ آ کر ساتھ

سیاہ ہاتھوں پہ تقدیر لکھنے والے ہاتھ

مسافرانِ شبِ غم ، اسیرِ دار ہُوئے

جو رہنما تھے ، بِکے او ر شہر یار ہُوئے






نارسائی

تتلیاں

فصیلِ شب عبور کر کے

میری کور کوکھ کے لیے

پروں میں رنگ ، آنکھ میں کرن لیے

کلائیوں سے ہو کے اب ہتھیلیوں تک آ گئیں

مگر

مری تمام اُنگلیاں کٹی ہُوئی ہیں






بارش میں

زمین ہے

یا کہ کچّے رنگوں کی ساری پہنے

گھنے درختوں کے نیچے کوئی شریر لڑکی

شریر تر پانیوں سے اپنا بدن چُرائے___چُرا نہ پائے






مشترکہ دُشمن کی بیٹی

ننھے سے اک ریستوران کے اندر

میں اور میری نیشنلسٹ کولیگز

کیٹس کی نظموں جیسے دل آویز دھند لکے میں بیٹھی

سُوپ کے پیالے سے اُٹھتی ، خوش لمس مہک کو

تن کی سیرابی میں بدلتا دیکھ رہی تھیں

باتیں ’’ہوا نہیں پڑھ سکتی‘‘، تاج محل، میسور کے ریشم

اور بنارس کی ساری کے ذکر سے جھِلمل کرتی

پاک و ہند سیاست تک آ نکلیں

پینسٹھ__اُس کے بعد اکہتّر__جنگی قیدی

امرتسر کا ٹی وی____

پاکستان کلچر__محاذِ نو__خطرے کی گھنٹی۔۔

میری جوشیلی کولیگز

اس حملے پر بہت خفا تھیں

میں نے کُچھ کہنا چاہا تو

اُن کے منہ یوں بگڑ گئے تھے

جیسے سُوپ کے بدلے اُنھیں کونین کا رس پینے کو ملا ہو

ریستوران کے مالک کی ہنس مُکھ بیوی بھی

میری طرف شاکی نظروں سے دیکھ رہی تھی

(شاید سنہ باسٹھ کا کوئی تِیر ابھی تک اُس کے دل میں ترازو تھا!)

ریستوران کے نروز میں جیسے

ہائی بلڈ پریشر انساں کے جسم کی جیسی جھلاّہٹ در آئی تھی

یہ کیفیت کچھ لمحے رہتی

تو ہمارے ذہنوں کی شریانیں پھٹ جاتیں

لیکن اُس پل ، آرکسٹراخاموش ہُوا

اور لتا کی رس ٹپکاتی، شہد آگیں آواز ، کچھ ایسے اُبھری

جیسے حبس زدہ کمرے میں

دریا کے رُخ والی کھڑکی کھلنے لگی ہو!

میں نے دیکھا

جسموں اور چہروں کے تناؤ پر

ان دیکھے ہاتھوں کی ٹھنڈک

پیار کی شبنم چھڑک رہی تھی

مسخ شدہ چہرے جیسے پھر سنور رہے تھے

میری نیشنلسٹ کولیگز

ہاتھوں کے پیالوں میں اپنی ٹھوڑیاں رکھے

ساکت و جامد بیٹھی تھیں

گیت کا جادو بول رہا تھا!

میز کے نیچے

ریستوران کے مالک کی ہنس مُکھ بیوی کے

نرم گلابی پاؤں بھی

گیت کی ہمراہی میں تھرک رہے تھے!

مشترکہ دشمن کی بیٹی

مشترکہ محبوب کی صورت

اُجلے ریشم لہجوں کی بانہیں پھیلائے

ہمیں سمیٹے

ناچ رہی تھی!






جنم

اب کے،دیوالی !

اُس کے گھر بھی

میرے نام کا دیا جلا

جو اپنے دروازوں پر ، میری دستک کو

ہَوا کا شور سمجھتا تھا

مِلن کی رُت کو بِرہ کی بھور سمجھتا تھا

سپنے تک میں چھُو کر مُجھ کو

خود کو چور سمجھتا تھا

چور نے مور کا جنم لیا ہے

سچّی ہار کے سندر بن میں ناچ رہا ہے






ناٹک

رُت بدلی تو بھنوروں نے تتلی سے کہا

آج سے تم آزاد ہو

پروازوں کی ساری سمتیں تُمھارے نام ہُوئیں

جاؤ

جنگل کی مغرور ہوا کے ساتھ اُڑو

بادل کے ہمراہ ستارے چھُو آؤ

خوشبو کے بازو تھامو، اور رقص کرو

رقص کرو

کہ اس موسم کے سُورج کی کِرنوں کا تاج تُمھارے سر ہے

لہراؤ

کہ ان راتوں کا چاند، تمھاری پیشانی پر اپنے ہاتھ سے دُعا لکھے گا

گاؤ

ان لمحوں کی ہوائیں تم کو ، تمھارے گیتوں پر سنگیت دیں گی

پتّے کڑے بجائیں گے

اور پھُولوں کے ہاتھوں میں دف ہو گا!

تتلی ، معصومانہ حیرت سے سرشار

سیہ شاخوں کے حلقے سے نکلی

صدیوں کے جکڑے ہُوئے ریشم پَر پھیلائے __اور اُڑنے لگی

کھُلی فضا کا ذائقہ چکھا

نرم ہَوا کا گیت سُنا

اَن دیکھے کہساروں کی قامت ناپی

روشنیوں کا لمس پیا

خوشبو کے ہر رنگ کو چھُو کر دیکھا

لیکن رنگ ، ہَوا کا وجدان ادھورا تھا

کہ رقص کا موسم ٹھہر گیا

رُت بدلی

اور سُورج کی کِرنوں کا تاج پگھلنے لگا

چاند کے ہاتھ، دُعا کے حرف ہی بھُول گئے

ہَوا کے لب برفیلےسموں میں نیلے پڑ کر اپنی صدائیں کھو بیٹھے

پتّوں کی بانہوں کے سُر بے رنگ ہُوئے

اور تنہا رہ گئے پھُولوں کے ہاتھ

برف کی لہر کے ہاتھوں ، تتلی کو لَوٹ آنے کا پیغام گیا

بھنورے شبنم کی زنجیریں لے کر دوڑے

اور بے چین پَروں میں ان چکھی پروازوں کی آشفتہ پیاس جلا دی

اپنے کالے ناخونوں سے

تتلی کے پَر نوچ کے بولے___

احمق لڑکی

گھر واپس آ جاؤ

ناٹک ختم ہُوا!

(خواتین کا عالمی سال)






وہ صورت آشنا میرا

میں اُس کے سامنے

چپ رہ کے بھی یوں بات کرتی ہوں

کہ آنکھوں کا کوئی حرفِ بدن ناآشنا

آلودۂ پیکر نہیں ہوتا

خواہ موسم پہ مرا اظہار ہو

یا ٹیلی ویژن پر

وہ میرے لمحہ موجود کا دُکھ جان لیتا ہے

مجھے پہچان لیتا ہے

مری ہر بات کا چہرہ نہ چھوکر دیکھنے پر بھی

وہ صورت آشنا میرا

مرے لہجوں کے پس منظر سمجھتا ہے






بے بسی

بارش نے زمین پر پاؤں دھرا

خوشبو کھنکی ، گھنگھرو چھنکا

لہرائی ہَوا ، بہکی برکھا

کیا جانیے کیا مٹّی سے کہا

در آئی شریر میں اِک ندیا

کس اور چلی ، دیّا دیّا!

کس گھاٹ لگوں رے پرویّا

سارا جگ جل اور میں نیّا






سفر

بارش کا اِک قطرہ آ کر

میری پلک سے اُلجھا

اور آنکھوں میں ڈُوب گیا






بسنت بہار کی نرم ہنسی

بسنت بہار کی نرم ہنسی

آنگن میں چھلکی

بھیگ گئی مری ساری

پھر___پروا کی شوخی!

کیسے اپنا آپ سنبھالوں

آنچل سے تن ڈھانپوں ___تو

زُلفیں کھُل جائیں

زُلف سمیٹوں

تن چھلکے گا






خُدا سے

میں پذیرائی کے آداب سے واقف ہوں

مگر

اب کے برس ، میرے گھر

یا تو برسات آئے ،

یا مری تنہائی






اِحتساب

ہوا __جو گندم کی پہلی خوشبو کے لمس سے لے کے

کڑوے بارُود کی مہک تک

زمیں کے ہمراہ رقص میں تھی

گماں یہ ہوتا ہے

اس رفاقت سے تھک چکی ہے

اور اپنی پازیب اُتار کر

اجنبی زمینوں کی سرد بانہوں میں سورہی ہے

فضا میں سنّاٹا دم بخود ہے

ہوا کی خفگی ہی بے سبب ہے

کہ ابنِ آدم نے اپنے نیپام سے بھی بڑھ کر

کوئی نیا بم بنا لیا ہے؟






ضِد

میں کیوں اُس کو فون کروں !

اُس کے بھی تو علم میں ہو گا

کل شب

موسم کی پہلی بارش تھی






آزمائش

ڈیڑھ برس کے بعد

اچانک

وقت نے اپنا آئینہ پن دِکھلایا

بچھڑے ہوؤں کو مدِّ مقابل لے آیا

بہتی ہَوا کے عکس بنانے والا ساحر

گونگی تصویروں کو اب آواز بھی دے!






گِلہ

اے خدا

میری آواز سے ساحری چھین کر

تو نے سانپوں کی بستی میں کیوں مجھ کو پیدا کیا






آشیر باد

پھر مسیحائی دستگیر ہُوئی

چُن رہی ہے تمھارے اشکوں کو

کِس محبت سے یہ نئی لڑکی

میرے ہاتھوں کی کم سخن نرمی

دُکھ تمھارے نہ بانٹ پائی مگر

اس کے ہاتھوں کی مہربانی کو

میری کم ساز آرزو کی دُعا

اور یہ بھی کہ اس کی چارہ گری

عمر بھر ایسے سر اُٹھا کے چلے

میری صُورت کبھی نہ کہلائے

زخم پر ایک وقت کی پٹّی






پروردہ

لوگ کہتے ہیں ان دنوں چپ ہے

میرا قاتل_______

کہ اُس کے خنجر کو

دھونے والی کنیز

چھُپ چھُپ کر

اب لہُو کو زباں سے چاٹتی ہے!






بچپنا

ننّھا شگوفہ

شاخ سے ہاتھ چھُڑا کر

ہوا کی بات میں آ کر

بارش کے میلے میں گیا

اور اپنے آپ سے بچھڑ گیا






ایک ننّھی سی اُمیّد

اب تو شہر میں لَوٹ آئے ہو

اب تو سب لمحے اپنے ہیں

کیا اب بھی کم فرصت ہو؟

ہاں __لمحوں کی تیز روی نے مجھ کو بھی سمجھایا ہے

دن کے شور میں اپنی صدا گم رہتی ہے

لیکن شام کا لہجہ تو سرگوشی ہے

جِم خانے کی گہر ی رات کی انگوری بانہوں میں آنے سے پہلے

جب وہسکی آنکھوں میں ستارے بھر دے

اورسرشاری

بھُولے بھٹکے رستوں کے وہ سارے چراغ جلا دے

جو تم ہوا سے لڑ کر روشن رکھّا کرتے تھے

کیا کوئی کرن__ننھّی سی کرن___میری ہو گی؟






گوری کرت سنگھار

بال بال موتی چمکائے

روم روم مہکار

مانگ سیندور کی سندرتا سے

چمکے چندن وار

جوڑے میں جوہی کی بینی

بانہہ میں ہار سنگھار

کان میں جگ مگ بالی پتّہ

گلے میں جگنو ، ہار

صندل ایسی پیشانی پر

بندیا لائی بہار

سبز کٹارا سی آنکھوں میں

کجرے کی دو دھار

گالوں کی سُرخی میں جھلکے

ہر دے کا اقرار

ہونٹ پہ کچھ پھُولوں کی لالی

کُچھ ساجن کے کار

کَساہوا کیسری شلوکا

چُنری دھاری دار

ہاتھوں کی اِک اِک چُوڑی میں

موہن کی جھنکار

سہج چلے ، پھر بھی پائل میں

بولے پی کا پیار

اپنا آپ درپن میں دیکھے

اور شرمائے نار

نار کے رُوپ کو انگ لگائے

دھڑک رہا سنسار






ساتھ

کتنی دیر تک

املتاس کے پیڑ کے نیچے

بیٹھ کے ہم نے باتیں کیں

کچھ یاد نہیں

بس اتنا اندازہ ہے

چاند ہماری پشت سے ہو کر

آنکھوں تک آ پہنچا






پوربی پردیسی کب آؤ گے؟

نذر حضرت امیر خسرو

سُورج ڈوبا شام ہو گئی

تن میں چنبیلی پھُولی،

من میں آگ لگانے والے

میں کب تجھ کو بھُولی

کب تک آنکھ چراؤ گے؟

پردیسی ، کب آؤ گے؟

سانجھ کی چھاؤں میں تیری چھایا

ڈھونڈتی جائے داسی

بھرے ماگھ میں کھوجے تجھ کو

تن درشن کی پیاسی

جیون بھر ترساؤگے

پردیسی کب آؤ گے؟

بھیروں ٹھاٹھ نے انگ بتایا

وادی سُر___گندھار

سموا دی کو نکھاد رنگ دے

شدھ مدھم سنگھار

تم کب تلک لگاؤ گے؟

پردیسی ،کب آؤ گے؟

ہاتھ کا پھُول ، گلے کی مالا

مانگ کا سُرخ سیندور

سب کے رنگ ہیں پھیکے پرانے

ساجن جب تک دُور

روپ نہ میرا سجاؤ گے؟

پردیسی ، کب آؤ گے؟

ہر آہٹ پر کھڑکی کھولی

ہر دستک پر آنکھ

چاند نہ میرے آنگن اترا

سپنے ہو گئے راکھ

ساری عمر جلاؤ گے؟

پردیسی ، کب آؤ گے؟






رقص

آئینہ سے فرش پر

ٹوٹے بدن کا عکس،

آدھے چاند کی صورت لرزتا ہے

ہوا کے وائلن کی نرم موسیقی

خنک تاریکیوں میں

چاہنے والوں کی سرگوشی کی صورت بہہ رہی ہے

اور ہجومِ ناشناساں سے پرے

نسبتاً کم بولتی تنہائی میں

اجنبی ساتھی نے ، میرے دل کی ویرانی کا ماتھا چُوم کر

مجھ کو یوں تھاما ہُوا ہے

جیسے میرے سارے دُکھ اب اُس کے شانوں کے لیے ہیں !

دونوں آنکھیں بند کر کے

میں نے بھی اِن بازوؤں پر تھک کے سریوں رکھ دیا ہے

جیسے غربت میں اچانک چھاؤں پاکر راہ گم گشتہ مسافر پیڑ سے سر ٹیک دے!

خواب صورت روشنی

اور ساز کی دلدار لے

اُس کی سانسوں سے گُزر کر

میرے خوں کی گردشوں میں سبز تارے بو رہی ہے

رات کی آنکھوں کے ڈورے بھی گُلابی ہو رہے ہیں

اُس کے سینے سے لگی

میں کنول کے پھُول کی وارفتگی سے

سر خوشی کی جھیل پر آہستہ آہستہ قدم یوں رکھ رہی ہوں

جیسے میرے پاؤں کچّی نیندوں میں ہوں اور ذرا بھاری قدم رکھے تو پانی ٹوٹ جائے گا

شکستہ روح پر سے غم کے سارے پیرہن

ایک ایک کر کے اُترتے جا رہے ہیں

لمحہ لمحہ

میں زمیں سے دُور ہوتی جا رہی ہوں

اب ہَوا میں پاؤں ہیں

اب بادلوں پر

اب ستاروں کے قریب

اب ستاروں سے بھی اُوپر،…..

اور اُوپر…..اور اُوپر…..اور۔۔۔۔۔۔






ایک بُری عورت

ایک بُری عورت

وہ اگرچہ مطربہ ہے

لیکن اُس کے دامِ صورت سے زیادہ

شہر اُس کے جسم کا اسیر ہے

وہ آگ میں گلاب گوندھ کر کمالِ آزری سے پہلوی تراش پانے والا جسم

جس کو آفتاب کی کرن جہاں سے چُومتی ہے

رنگ کی پھوار پھوٹتی ہے!

ا س کے حسنِ بے پناہ کی چمک

کسی قدیم لوک داستان کے جمال کی طرح

تمام عُمر لاشعور کو اسیرِ رنگ رکھتی ہے!

گئے زمانوں میں کسی پری کو مُڑ کے دیکھنے سے لوگ

باقی عُمر قیدِ سنگ کاٹتے تھے

یاں ___سزائے باز دید آگ ہے!

یہ آزمائشِ شکیبِ ناصحاں و امتحانِ زُہدِ واعظاں

دریچۂ مُراد کھول کر ذرا جھُکے

تو شہرِ عاشقاں کے سارے سبز خط

خدائے تن سے،

شب عذار ہونے کی دُعا کریں

جواں لہُو کا ذکر کیا

یہ آتشہ تو

پیرِ سال خوردہ کو صبح خیز کر دے

شہر اس کی دلکشی کے بوجھ سے چٹخ رہا ہے

کیا عجیب حُسن ہے،

کہ جس سے ڈر کے مائیں اپنی کوکھ جائیوں کو،

کوڑھ صورتی کی بد دُعائیں دے رہی ہیں

کنواریاں تو کیا

کہ کھیلی کھائی عورتیں بھی جس کے سائے سے پناہ مانگتی ہیں

بیاہتا دِلوں میں اس کا حُسن خوف بن کے یوں دھڑکتا ہے

کہ گھر کے مرد شام تک نہ لوٹ آئیں تو

وفا شعار بیبیاں دُعائے نور پڑھنے لگتی ہیں !

کوئی برس نہیں گیا

کہ اس کے قرب کی سزا میں

شہر کے سبہی قدر داں

نہ قامتِ صلیب کی قبا ہُوئے

وہ نہر جس پہ ہر سحر یہ خوش جمال بال دھونے جاتی ہے

اُسے فقیہِ شہر نے نجس قرار دے دیا

تمام نیک مرد اس سے خوف کھاتے ہیں

اگر بکارِ خسروی

کبھی کسی کو اس کی راندۂ جہاں گلی سے ہوکے جانا ہو

تو سب کلاہ دار،

اپنی عصمتیں بچائے یوں نکلتے ہیں ،

کہ جیسے اس گلی کی ساری کھڑکیاں

زنانِ مصر کی طرح سے

اُن کے پچھلے دامنوں کو کھینچنے لگی ہیں

یہ گئی اماوسوں کا ذکر ہے

کہ ایک شام گھر کو لوٹتے ہُوئے میں راستہ بھٹک گئی

مری تلاش مجھ کو جنگلوں میں لا کے تھک گئی

میں راہ کھوجتی ہی رہ گئی

اس ابتلا میں چاند سبز چشم ہو چکا تھا

جگنوؤں سے اُمید باندھتی

مہیب شب ہر اس بن کے جسم و جاں پہ یوں اُتر رہی تھی

جیسے میرے روئیں روئیں میں

کسی بلا کا ہاتھ سرسرا رہا ہو

زندگی میں ۔۔۔ خامشی سے اِتنا ڈر کبھی نہیں لگا!

کوئی پرند پاؤں بھی بدلتا تھا تو نبض ڈوب جاتی تھی

میں ایک آسماں چشیدہ پیڑ کے سیہ تنے سے سرٹکائے

تازہ پتّے کی طرح لرز رہی تھی

ناگہاں کسی گھنیری شاخ کو ہٹا کے

روشنی کے دو الاؤ یوں دہک اُٹھے

کہ ان کی آنچ میرے ناخنوں تک آ رہی تھی

ایک جست۔۔۔

اور قریب تھا کہ ہانپتی ہُوئی بلا

مری رگ گلو میں اپنے دانت گاڑتی

کہ دفعتاً کسی درخت کے عقب میں چوڑیاں بجیں

لباس شب کی سلوٹوں میں چرمرائے زرد پتّوں کی ہری کہانیاں لیے

وصالِ تشنہ کا گلال آنکھ میں

لبوں پہ ورم ، گال پر خراش

سنبلیں کھُلے ہُوئے دراز گیسوؤں میں آنکھ مارتا ہُوا گُلاب

اور چھلی ہُوئی سپید کہنیوں میں اوس اور دھُول کی ملی جلی ہنسی لیے

وہی بلا ، وہی نجس، وہی بدن دریدہ فاحشہ

تڑپ کے آئی___اور__

میرے اور بھیڑیے کے درمیان ڈٹ گئی






کیا کیا دکھ دل نے پائے

کیا کیا دکھ دل نے پائے

ننھی سی خوشی کے بدلے

ہاں کون سے غم نہ کھائے

تھوڑی سی ہنسی کے بدلے

زخموں کا کون شمار کرے

یادوں کا کیسے حصار کرے

اور جینا پھر سے عذاب کرے

اس وقت کا کون حساب کرے

وہ وقت جو تجھ بن بیت گیا !






واہمہ

تمھارا کہنا ہے

تم مجھے بے پناہ شّدت سے چاہتے ہو

تمھاری چاہت

وصال کی آخری حدوں تک

مرے فقط میرے نام ہو گی

مجھے یقین ہے مجھے یقین ہے،

مگر قسم کھانے والے لڑکے !

تمھاری آنکھوں میں ایک تِل ہے !






اجنبی

کھوئی کھوئی آنکھیں

بکھرے بال

شکن آلود قبا

لُٹا لُٹا انسان !

سائے کی طرح سے میرے ساتھ رہا کرتا لیکن

کِسی جگہ مل جائے تو

گھبرا کر مُڑ جاتا ہے

اور پھر دور سے جا کر مجھ کو تکنے لگتا ہے

کون ہے یہ






اعتراف

جانے کب تک تری تصویر نگاہوں میں رہی

ہو گئی رات ترے عکس کو تکتے تکتے

میں نے پھر تیرے تصّور کے کسی لمحے میں

تیری تصویر پہ لب رکھ دیئے آہستہ سے !






الوداعیہ

وہ جا چکا ہے

مگر جدائی سے قبل کا

ایک نرم لمحہ

ٹھہر گیا ہے

مِری ہتھیلی کی پشت پر

زِندگی میں

پہلی کا چاند بن کر !






جیون ساتھی سے

دھُوپ میں بارش دیکھ کر

حیرت کرنے والے !

شاید تو نے میری ہنسی کو

چھُو کر

کبھی نہیں دیکھا !






نئی آنکھ کا پُرانا خواب

نئی آنکھ کا پُرانا خواب

آتش دان کے پاس

گُلابی حّدت کے ہالے میں سمٹ کر

تجھ سے باتیں کرتے ہوئے

کبھی کبھی تو ایسا لگا ہے

جیسے اُوس میں بھیگی گھاس پہ

اُس کے بازو تھامے ہوئے

میں پھر نیند میں چلنے لگی ہوں !






اِسم

بہت پیار سے

بعد مّدت کے

جب سے کسی شخص نے چاند کہ کر بُلایا

تب سے

اندھیروں کی خُوگر نگاہوں کو

ہر روشنی اچھی لگنے لگی !






کانچ کی سُرخ چوڑی

کانچ کی سُرخ چوڑی

میرے ہاتھ میں

آج ایسے کھنکنے لگی

جیسے کل رات شبنم سے لکھی ہوئی

ترے ہاتھوں کی شوخیوں کو

ہواؤں نے سَر دے دیا ہو ۔۔۔






کتھارسس

میرے شانوں پہ سر رکھ کر

آج

کسی کی یاد میں وہ جی بھر کہ رویا !!!






آج کی شب تو کسی طور گُزر جائے گی!

رات گہری ہے مگر چاند چمکتا ہے ابھی

میرے ماتھے پہ ترا پیار دمکتا ہے ابھی

میری سانسوں میں ترا لمس مہکتا ہے ابھی

میرے سینے میں ترا نام دھڑکتا ہے ابھی

زیست کرنے کو مرے پاس بہت کُچھ ہے ابھی

تیری آواز کا جادو ہے ابھی میرے لیے

تیرے ملبوس کی خوشبو ہے ابھی میرے لیے

تیری بانہیں ،ترا پہلو ہے ابھی میرے لیے

سب سے بڑھ کر، مری جاں !تو ہے ابھی میرے لیے

زیست کرنے کو مرے پاس بہت کُچھ ہے ابھی

آج کی شب تو کسی طور گُزر جائے گی!

آج کے بعد مگر رنگ وفا کیا ہو گا

عشق حیراں ہے سرِ شہرِ سبا کی ہو گا

میرے قاتل! ترا اندازِ جفا کیا ہو گا!

آج کی شب تو بہت کچھ ہے ، مگر کل کے لیے

ایک اندیشہ بے نام ہے اور کچھ بھی نہیں

دیکھنا یہ ہے کہ کل تجھ سے ملاقات کے بعد

رنگِ اُمید کھِلے گا کہ بکھر جائے گا!

وقت پرواز کرے گا کہ ٹھہر جائے گا!

جیت ہو جائے گی یا کھیل بگڑ جائے گا

خواب کا شہر رہے گا کہ اُجڑ جائے گا!






کشف

ہونٹ بے بات ہنسے

زُلف بے وجہ کھُلی

خواب دکھلا کہ مجھے

نیند کس سمت چلی

خُوشبو لہرائی میرے کان میں سرگوشی کی

اپنی شرمیلی ہنسی میں نے سُنی

اور پھر جان گئی

میری آنکھوں میں تیرے نام کا تارا چمکا !!!






نِک نیم

تم مجھے گُڑیا کہتے ہو

ٹھیک ہی کہتے ہو ۔۔۔!!!

کھیلنے والے سب ہاتھوں کو میں گڑیا ہی لگتی ہوں

جو پہنا دو، مجھ پہ سجے گا

میرا کوئی رنگ نہیں

جس بّچے کے ہاتھ تھما دو

میری کسی سے جنگ نہیں

سوچتی جاگتی آنکھیں میری

جب چاہے بینائی لے لو

کُوک بھرو اور باتیں سن لو

یاں میری گویائی لے لو

مانگ بھرو، سیندور لگاؤ

پیار کرو، آنکھوں میں بساؤ

اور جب دل بھر جائے تو

دل سے اُٹھا کہ طاق پہ رکھ دو

تم مجھ کو گڑیا کہتے ہو

ٹھیک ہی کہتے ہو






اتنے اچھے موسم میں

اتنے اچھے موسم میں

روٹھنا نہیں اچھا

ہار جیت کی باتیں

کل پہ ہم اُٹھا رکھیں

آج دوستی کر لیں !!!






کتنی دیر تک

کتنی دیر تک

املتاس کے پیڑ کے نیچے

بیٹھ کر ہم نے باتیں کیں

کچھ یاد نہیں

بس اتنا اندازہ ہے

چاند ہماری پشت سے ہو کر

آنکھوں تک آ پہنچا !!!






ایک مشکل سوال

ٹاٹ کے پردوں کے پیچھے سے

ایک بارہ تیرہ سالہ چہرہ جھانکا

وہ چہرہ

بہار کے پہلے پھول کی طرح تازہ تھا

اور آنکھیں

پہلی محبت کی طرح شفاف!

لیکن اس کے ہاتھ میں

ترکاری کاٹتے رہنے کی لکیریں تھیں

اور اُن لکیروں میں

برتن مانجھنے والی راکھ جمی تھی

اُس کے ہاتھ

اُس کے چہرے سے بیس سال بڑے تھے!






پیار

ابر بہار نے

پھول کا چہرہ

اپنے بنفشی ہاتھ میں لیکر

ایسے چوما

پھول کے سارے دکھ

خوشبو بن کر بہہ نکلے ہیں






زود پشیماں

گہری بھوری آنکھوں والا اک شہزادہ

دور دیس سے

چمکیلے مشکی گھوڑے پر ہوا سے باتیں کرتا

جَگر جَگر کرتی تلوار سے جنگل کاٹتا

دروازے سے لپٹی بیلیں پرے ہٹاتا

جنگل کی بانہوں میں جکڑے محل کے ہاتھ چھڑاتا

جب اندر آیا تو دیکھا

شہزادی کے جسم کی ساری سوئیاں زنگ آلودہ تھیں

رستہ دیکھنے والی آنکھیں سارے شکوے بھول چکی تھیں






سرشاری

ہاں ، یہ موسم تو وہ ہے

کہ جس میں نظر چُپ رہے

اور بدن بات کرتا رہے

اُس کے ہاتھوں کے شبنم پیالوں میں

چہرہ میرا

پھول کی طرح ہلکورے لیتا رہے

پنکھڑی پنکھڑی

اُس کے بوسوں کی بارش میں

پیہم نِکھرتی رہے

زندگی اس جنوں خیز بارش کے شانوں پر سر کو رکھے

رقص کرتی رہے!






مسفٹ

کبھی کبھی میں سوچتی ہوں

مجھ میں لوگوں کو خوش رکھنے کا ملکہ

اتنا کم کیوں ہے

۔کچھ لفظوں سے۔کچھ میرے لہجے سے خفا ہیں

پہلے میری ماں میری مصروفیت سے

نالاں رہتی تھی

اب یہی گلہ مجھ سے میرے بیٹے کو ہے

رزق کی اندھی دوڑ میں رشتے کتنے پیچھے رہ جاتے ہیں

جبکہ صورتِ حال تو یہ ہے

میرا گھر میرے عورت ہونے کی

مجبوری کا پورا لطف اٹھاتا ہے

ہر صبح میرے شانوں پر ذمہ داری کا بوجھا لیکن

پہلے سے بھاری ہوتا ہے

پھر بھی میری پشت پہ نا اہلی کا کوب

روز بروز نمایاں ہوتا جاتا ہے

پھر میرا دفتر ہے

جہاں تقرر کی پہلی ہی شرط کے طور پہ

خود داری کا استعفی دائر کرنا تھا

میں پتھر بنجر زمینوں میں پھول اگانے کی کوشش کرتی ہوں

کبھی ہریالی دکھ جاتی ہے

ورنہ

پتھر

بارش سے اکثر ناراض ہی رہتے ہیں

مرا قبیلہ

میرے حرف میں روشنی ڈھونڈ نکالتا ہے

لیکن مجھ کو

اچھی طرح معلوم ہے

کس کی نظریں لفظ پہ ہیں

اور کس کی خالق پر

سارے دائرے میرے پاؤوں سے چھوٹے ہیں

لیکن وقت کا وحشی ناچ

کسی مقام نہیں رکتا

رقص کی لے ہر لمحہ تیز ہوئی جاتی ہے

یا تو میں کچھ اور ہوں

یا پھر یہ میرا سیارہ نہیں ہے۔۔۔






کتبہ

یہاں پہ وہ لڑکی سو رہی ہے

کہ جسکی آنکھوں نے نیند سے خواب مول لے کر

وصال کی عمر رتجگے میں گزار دی تھی

عجیب تھا انتظار اسکا

کہ جس نے تقدیر کے تنک حوصلہ مہاجن کے ساتھ

بس اک دریچۂ نیم با ز کے سکھ پہ

شہر کا شہر رہن کروا دیا تھا

لیکن وہ ایک تارہ

کہ جس کی کرنوں کے مان پر

چاند سے حریفانہ کشمکش تھی

جب اس کے ماتھے پہ کھلنے والا ہوا

تو اس پل

سپیدۂصبح بھی نمودار ہو چکا تھا

فراق کا لمحہ آ چکا تھا۔۔۔






خود کلامی

یوں لگتا ہے

جیسے میرے گرد و پیش کے لوگ

اک اور ہی بولی بولتے ہیں

وہ ویو لنتھ

جس پر میرا اور ان کا رابطہ قائم تھا

کسی اور کرّے میں چلی گئی ہے

یا میری لغت متروک ہوئی

مرے لفظ مجھے جس رستے پر لے جاتے ہیں

ان کی فرہنگ جدا ہے

میں لفظوں کی تقدیس کی خاطر چپ ہوں

اور میری ساری گفتگو

دیوار سے یا تنہائی سے اپنے سائے سے ممکن ہے

مجھے ڈر اُس پل سے لگتا ہے

جب خود میں سکڑتے سکڑتے

میں اپنے آپ سے باتیں کرنے والی

رابطہ رکھنے والی

فریکونسی بھی بھلا دونگی

اور اک دن

مے ڈے مے ڈے کرتی رہ جاؤں گی






ایک اداس نظم

یہ حسین شام اپنی

ابھی جس میں گھل رہی ہے

ترے پیرہن کی خوشبو

ابھی جس میں کھل رہے ہیں

میرے خواب کے شگوفے

ذرا دیر کا ہے منظر!

ذرا دیر میں افق پہ

کھلے گا کوئی ستارہ

تری سمت دیکھ کر وہ

کرے گا کوئی اشارہ

ترے دل کو آئیگا پھر

کسی یاد کا بلاوا

کوئی قصۂ جدائی

کوئی کار نا مکمل

کوئی خواب نا شگفتہ

کوئی بات کہنے والی

کسی اور آدمی سے !

ہمیں چاہیے تھا ملنا

کسی عہد مہرباں میں

کسی خواب کے یقیں میں

کسی اور آسماں میں

کسی اور سر زمیں میں !






نہ کوئی عہد، نہ پیمان

نہ کوئی عہد، نہ پیمان

نہ وعدہ ایسا

نہ تیرا حُسن ہی ایسا کوئی انگشت تراش

نہ میرے ہاتھ میں تاثیرِ زلیخائی ہے

رقص گہ ہے یہ جہاں اور نہ میں سِنڈریلا ہوں

نہ تُو شہزادہ ہے

ہم تو بس رزم گہِ ہستی میں

دو مبارز دِل ہیں

اِس تعلق کا کوئی رنگ اگر ہے تو حریفانہ ہے

ایک ہی تھال سے چُننی ہے ہمیں نانِ جویں

ایک ہی سانپ کے منہ سے ہمیں من چھیننا ہے

اور اس کشمکشِ رزق میں موہوم کشائش کی کلید

جس قدر میری قناعت میں ہے

اتنی تیری فیاضی میں

میں تیری چھاؤں میں پروان چڑھوں

اپنی آنکھوں پہ تیرے ہاتھ کا سایہ کر کے

تیرے ہمراہ میں سُرج کی تمازت دیکھوں

اس سے آگے نہیں سوچا دل نے

پھر بھی احوال یہ ہے

اِک بھروسہ ہے کہ دل سبز کئے رکھتا ہے

ایک دھڑکا ہے کہ خوں سرد کئیے رہتا ہے






اسٹیل ملز کا ایک خصوصی مزدور

کالا بھوت

جیسے کوئلے کے نطفے سے جنم لیا ہو

ایک جہنمی درجۂ حرارت پر رہتے ہوئے

اُس کا کام

دہکتی بھٹی میں کوئلے جھونکتے رہنا تھا

اُس کے بدلے

اُس کو اُجرت بھی زیادہ ملتی تھی

اور خوراک بھی خصوصی

اور ایک وقت میں چار گھنٹے سے زیادہ کام نہیں لیا جاتا تھا

لیکن شاید اس کو یہ نہیں معلوم

کہ خود کشی کے اس معاہدے پر

اُس نے

بقائمی ہوش و حواس دستخط کئے ہیں

اس بھٹی کا ایندھن دَراصل وہ خود ہے!






ایک مشکل سوال

ٹاٹ کے پردوں کے پیچھے سے

ایک بارہ تیرہ سالہ چہرہ جھانکا

وہ چہرہ

بہار کے پہلے پھول کی طرح تازہ تھا

اور آنکھیں

پہلی محبت کی طرح شفاف!

لیکن اس کے ہاتھ میں

ترکاری کاٹتے رہنے کی لکیریں تھیں

اور اُن لکیروں میں

برتن مانجھنے والی راکھ جمی تھی

اُس کے ہاتھ

اُس کے چہرے سے بیس سال بڑے تھے!

***

ٹائپنگ: مختلف اردو فورمس کے مختلف ارکان

تدوین و تہذیب اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید


0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

مجموعے

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔