03:10    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

مجموعہ رشکِ قمر

7257 2 0 05




باغ عالم میں رہے شادی و ماتم کی طرح

باغ عالم میں رہے شادی و ماتم کی طرح

پھول کی طرح ہنسے رو دیئے شبنم کی طرح

شکوہ کرتے ہو خوشی تم سے منائی نہ گئی

ہم سے غم بھی تو منایا نہ گیا غم کی طرح

روز محفل سے اٹھاتے ہو تو دل دکھتا ہے

اب نکلواؤ تو پھر حضرتِ آدم کی طرح

لاکھ ہم رند سہی حضرتِ واعظ لیکن

آج تک ہم نے نہ پی قبلۂ عالم کی طرح

تیرے اندازۂ جرأت کے نثار اے قاتل

خون زخموں پہ نظر آتا ہے مرہم کی طرح

خوف دل سے نہ گیا صبح کے ہونے کا قمرؔ

وصل کی رات گزاری ہے شب غم کی طرح

٭٭






حکمِ صیاد ہے تا ختم تماشائے بہار

حکمِ صیاد ہے تا ختم تماشائے بہار

ساری دنیا کہے بلبل نہ کہے ہائے بہار

صبح گلگشت کو جاتے ہو کہ شرمائے بہار

کیا یہ مطلب ہے گلستاں سے نکل جائے بہار

منہ سے کچھ بھی دمِ رخصت نہ کہا بلبل نے

حرف صیاد نے اتنا تو سنا ہائے بہار

یہ بھی کچھ بات ہوئی گل ہنسے تم روٹھ گئے

اس پہ یہ ضد کہ ابھی خاک میں مل جائے بہار

تیرے قربان قمرؔ منہ سرِ گلزار نہ کھول

صدقے اس چاند سی صورت پہ نہ ہو جائے بہار

٭٭






وہ نہ آئیں گے کبھی دیکھ کے کالے بادل

وہ نہ آئیں گے کبھی دیکھ کے کالے بادل

دو گھڑی کے لیے اللہ ہٹا لے بادل

آج یوں جھوم کے کچھ آ گئے کالے بادل

سارے میخانوں کے کھلوا گئے تالے بادل

آسماں صاف شبِ وصل سحر تک نہ ہوا

اس نے ہر چند دعا مانگ کے ٹالے بادل

بال کھولے ہوئے یوں سیر سرِ بام نہ کر

تیری زلفوں کی سیاہی نہ اڑا لے بادل

وقتِ رخصت عجب انداز سے ان کا کہنا

پھر دعا کل کی طرح مانگ بلا لے بادل

میں تو برسات میں بھی چاندنی صدقے کر دوں

اے قمرؔ کیا کروں جب مجھ کو چھپا لے بادل

٭٭






اس میں کوئی فریب تو اے آسماں نہیں

اس میں کوئی فریب تو اے آسماں نہیں

بجلی وہاں گری ہے جہاں آشیاں نہیں

صیاد میں اسیر کہوں کس سے حالِ دل

صرف ایک تو ہے وہ بھی مرا ہم زباں نہیں

تم نے دیا ہماری وفاؤں کا کیا جواب

یہ ہم وہاں بتائیں گے تم کو یہاں نہیں

سجدے جو بت کدے میں کیے میری کیا خطا

تم نے کبھی کہا یہ مرا آستاں نہیں؟

گم کردہ راہ کی کہیں مٹی نہ ہو خراب

گرد اس طرف اڑی ہے جدھر کارواں نہیں

کیوں شمع انتظار بجھاتے ہو اے قمرؔ

نالے ہیں یہ کسی کے سحر کی اذاں نہیں

٭٭






پھونک دیا بجلی نے گلشن

پھونک دیا بجلی نے گلشن

دیکھ لیا انجام نشیمن

تیری نظر اور وہ رخِ روشن

ہوش میں آ دیوانہ مت بن

فکر مجھے آباد ہو گلشن

برق کی نظریں سوئے نشیمن

بعدِ فنا او عشق کے دشمن

تیری ٹھوکر میرا مدفن

باغ میں کوئی کیسے بچائے

لاکھ بلائیں ایک نشیمن

نا سمجھی کانٹوں کی دیکھی

چھوڑ دیا گلچیں کا دامن

٭٭






لے کے قاصد خبر نہیں آتا

لے کے قاصد خبر نہیں آتا

جانے کیوں لوٹ کر نہیں آتا

دل کسی اور پر نہیں آتا

تم سے اچھا نظر نہیں آتا

شکوۂ بے وفائی گل کیا

باغباں تک نظر نہیں آتا

اف یہ تاریکیِ شبِ فرقت

کوئی اپنا نظر نہیں آتا

شب کو میں ان کے گھر گیا تو کہا

دن کو تو اے قمر نہیں آتا

نامہ بر ان کا میں غلام نہیں

جا کے کہہ دے قمر نہیں آتا

٭٭






وعدۂ وصل کے ایفا سے پشیماں ہو کر

وعدۂ وصل کے ایفا سے پشیماں ہو کر

وہ تصور میں بھی آتے ہیں تو پنہاں ہو کر

شوق دیدار شہیدوں کو ہے کون ان سے کہے

سیر کو جائیں سوئے گورِ غریباں ہو کر

فاتحہ پڑھ کے مری قبر سے قاتل جو اٹھا

خاک اڑ اڑ کے لپٹنے لگی ارماں ہو کر

میں شبِ وعدہ تصور میں انہیں لے آیا

در پہ بیٹھے ہی رہے غیر نگہباں ہو کر

شمع تربت پہ مری دیکھ کے بے مونس و یار

پھول تا صبح چڑھاتی رہی گریاں ہو کر

رات بھر ڈر ہی رہا صبح کے ہونے کا قمر

وصل کی رات کٹی ہے شبِ ہجراں ہو کر

٭٭






تجھے کیا ناصحا احباب خود سمجھائے جاتے ہیں

تجھے کیا ناصحا احباب خود سمجھائے جاتے ہیں

ادھر تو کھائے جاتا ہے ادھر وہ کھائے جاتے ہیں

چمن والوں سے جا کر اے نسیمِ صبح کہہ دینا

اسیرانِ قفس کے آج پر کٹوائے جاتے ہیں

کہیں بیڑی اٹکتی ہے کہیں زنجیر الجھتی ہے

بڑی مشکل سے دیوانے ترے دفنائے جاتے ہیں

انہیں غیروں کے گھر دیکھا ہے اور انکار ہے ان کو

میں باتیں پی رہا ہوں اور وہ قسمیں کھائے جاتے ہیں

خدا محفوظ رکھے نالہ ہائے شام فرقت سے

زمیں بھی کانپتی ہے آسماں تھرائے جاتے ہیں

کوئی دم اشک تھمتے ہی نہیں ایسا بھی کیا رونا

قمر دو چار دن کی بات ہے وہ آئے جاتے ہیں

٭٭






ابرو تو دکھا دیجیے شمشیر سے پہلے

ابرو تو دکھا دیجیے شمشیر سے پہلے

تقصیر تو کچھ ہو مری تعزیر سے پہلے

معلوم ہوا اب مری قسمت میں نہیں تم

ملنا تھا مجھے کاتبِ تقدیر سے پہلے

اے دستِ جنوں توڑ نہ دروازۂ زنداں

میں پوچھ تو لوں پاؤں کی زنجیر سے پہلے

اچھا ہوا آخر مری قسمت میں ستم تھے

تم مل گئے مجھ کو فلکِ پیر سے پہلے

بیٹھے رہو ایسی بھی مصور سے حیا کیا

کاہے کو کھنچے جاتے ہو تصویر سے پہلے

دیکھو تو قمر ان کو بلا کر شبِ وعدہ

تقدیر پہ برہم نہ ہو تدبیر سے پہلے

٭٭






نہ آئیں وہ تو کوئی موت کا پیغام آ جائے

نہ آئیں وہ تو کوئی موت کا پیغام آ جائے

وہی اپنا ہے آڑے وقت پر جو کام آ جائے

شبِ فرقت قیامت اے دلِ ناکام آ جائے

اگر جل کر بھڑکنے پر چراغِ شام آ جائے

کہیں پر بیٹھ جا کیا دیکھتا ہے بزمِ ساقی میں

خدا معلوم پہلے کس طرف سے جام آ جائے

فسانہ کہہ رہے ہیں آج وہ اپنی محبت کا

خدا ایسا کرے میرا کہیں پر نام آ جائے

خدا معلوم اس طائر کے دل پر کیا گزرتی ہے

جو پر تولے ہوئے ہو اور زیرِ دام آ جائے

قمر اک دن سفر میں خود ہلالِ عید بن جاؤں

اگر قبضے میں میرے گردشِ ایام آ جائے

٭٭






جمالِ رخ پہ ٹھہرتی نہیں نظر پھر بھی

جمالِ رخ پہ ٹھہرتی نہیں نظر پھر بھی

اُتاری جاتی ہے ان کی نظر گذر پھر بھی

کوئی ٹھکانہ ہے صیّاد بدگمانی کا

قفس میں قید ہوں کاٹے ہیں میرے پر پھر بھی

ملال کر دلِ مضطر نہ ان کے جانے کا

خدا نے چاہا تو آئیں گے وہ ادھر پھر بھی

وہ کہہ رہے ہیں کل آئیں گے ہم بتا تو دیا

لگا رکھی ہے یہ تم نے اگر مگر پھر بھی

ہزار عیش قفس میں سہی وہ بات کہاں

کہ اپنا گھر ہوا کرتا ہے اپنا گھر پھر بھی!

قمر یہ مانا کہ تم احتیاط برتو گے !

کسی کے رخ سے جو ٹکرا گئی نظر، پھر بھی؟

٭٭






آہ سن کے جلے ہوئے دل کی!

آہ سن کے جلے ہوئے دل کی!

کانپ اٹھی لَو فراخِی دل کی

بے کھلا پھول توڑنے والے

یہ تو تصویر ہے مرے دل کی

یا تو بھولا ہے نا خدا رستہ

یا حدیں ہٹ گئیں ہیں ساحل کی

وہ جو اب آئنے میں دیکھتے ہیں

خیر ہو چوٹ ہے مقابل کی

میری کشتی کا رخ بدلنے دو

موج لے لے گی پناہ ساحل کی

راہبر خود بھٹک گئے رستہ

ہو قمر خیر اب تو منزل کی

٭٭






حدیثِ عشق یہاں معتبر نہیں رہتی

حدیثِ عشق یہاں معتبر نہیں رہتی

نظر میں ہو جو خیانت نظر نہیں رہتی

مریضِ غم پہ اک ایسی بھی شام آتی ہے

کہ چارہ گر کو امیدِ سحر نہیں رہتی

مریض اُن کی صدا سن کے چونک اٹھتا ہے

پھر اس کے بعد کسی کی خبر نہیں رہتی

ہزار باغِ محبت پہ آفتیں ٹوٹیں

یہ شاخِ نخلِ وفا بے ثمر نہیں رہتی

بنائیں اب انہیں رہبر نہ قافلے والے

کہ راہ میں جنھیں اپنی خبر نہیں رہتی

تمام اہلِ گلستاں نے کوششیں کر لیں

بہار حد سے زیادہ مگر نہیں رہتی

٭٭






پھر نہ کہنا ہم کو نالوں سے پریشانی ہوئی

پھر نہ کہنا ہم کو نالوں سے پریشانی ہوئی

خواب میں سمجھا گئے جو بات سمجھانی ہوئی

شام ہی کو زلف سلجھائی جو سلجھانی ہوئی

دیکھئے وعدے کی شب کتنی پریشانی ہوئی

بات رہ جائے گی پہنچا دو جنازہ دو قدم

تم سمجھ لینا گھڑی بھر کی پریشانی ہوئی

تیر جھٹکے سے نہ کھینچو دیکھو ہم مر جائیں گے !

تم یہ کہہ کر چھوٹ جاؤ گے کہ نادانی ہوئی

جب کسی تیلی نے جنبش کی قفس بدلا گیا!

جب کوئی بازو میں پَر آیا نگہبانی ہوئی

برق جب چمکی تو در ان کا نظر آیا قمر

خیر اندھیری رات میں اتنی تو آسانی ہوئی

٭٭






ختم شب قصہ مختصر نہ ہوئی

ختم شب قصہ مختصر نہ ہوئی

شمع گُل ہو گئی سحر نہ ہوئی

روئی شبنم جلا جو گھر میرا

پھول کی کم ہنسی مگر نہ ہوئی

حشر میں بھی وہ کیا ملیں گے ہمیں

جب ملاقات عمر بھر نہ ہوئی

آئینہ دیکھ کے یہ کیجیئے شکر

آپ کو آپ کی نظر نہ ہوئی

سب تھے محفل میں ان کی محوِ جمال

ایک کو ایک کی خبر نہ ہوئی

سینکڑوں رات کے کئی وعدے

اُن کی رات آج تک قمر نہ ہوئی

٭٭






حُسن کب عشق کا ممنونِ وفا ہوتا ہے

حُسن کب عشق کا ممنونِ وفا ہوتا ہے

لاکھ پروانہ مرے شمع پہ، کیا ہوتا ہے

شغل صیّاد یہی صبح و مسا ہوتا ہے

قید ہوتا ہے کوئی، کوئی رِہا ہوتا ہے

جب پتا چلتا ہے خوشبو کی وفا داری کا

پھول جس وقت گلستاں سے جدا ہوتا ہے

ضبط کرتا ہوں تو گھٹتا ہے قفس میں مرا دم

آہ کرتا ہوں تو صیّاد خفا ہوتا ہے

خون ہوتا ہے سحر تک مرے ارمانوں کا

شامِ وعدہ جو وہ پابندِ حنا ہوتا ہے

چاندنی دیکھ کے یاد آتے ہیں کیا کیا وہ مجھے

چاند جب شب کو قمر جلوہ نما ہوتا ہے

٭٭






جا ترس آ ہی گیا حشر میں لاچار مجھے

جا ترس آ ہی گیا حشر میں لاچار مجھے

تو بھی کیا یاد کرے گا بتِ عیار مجھے

دھوپ جب سر سے زرتی ہے بیابانوں کی

یاد آتا ہے ترا سایۂ دیوار مجھے

شکوۂ جور غلط ہے تو چلو یوں ہی سہی

حشر کا دن ہے بڑھانی نہیں تکرار مجھے

دردِ دل رسمِ محبت ہے تجھے کیا معلوم

چارہ گر تو نے سمجھ رکھا ہے بیمار مجھے

ہچکی آ آ کے کسی وقت نکل جائے گا دم

آپ کیو ں یاد کیا کرتے ہیں ہر بار مجھے

اے قمر رات کی رونق بھی گئی ساتھ ان کے

تارے ہونے لگے معلوم گراں بار مجھے

٭٭






اُن پہ ظاہر مرے ارماں کسی عنواں ہوتے

اُن پہ ظاہر مرے ارماں کسی عنواں ہوتے

میں نہ کہتا بھی آنکھوں سے نمایاں ہوتے

کیوں نہ رہنے دیا سردوش عدو پر اپنا!

تیرے گیسو تو نہ تھے ہم جو پریشاں ہوتے

موت نے روک دئے اشکِ مریض شبِ غم

یہ وہ تارے تھے جو دن کو بھی نمایاں ہوتے

کون دیوانہ انہیں چین سے رہنے دیتا

پھول اگر میری طرح چاک گریباں ہوتے

رات کیوں بال بکھیرے تھے نہ پوچھا میں نے

خواب کی بات تھی سرکار پریشاں ہوتے

اے قمر ہجر کی شب کٹ گئی دھوکہ ہے تمہیں

صبح ہوتی تو ستارے نہ درخشاں ہوتے

٭٭






پھر کہو گے تم مقابل کی سزا کے واسطے

پھر کہو گے تم مقابل کی سزا کے واسطے

آئینے کو ہاتھ سے رکھ دو خدا کے واسطے

کعبۂ دل کو نہ تاکو تم جفا کے واسطے

اے بتو! یہ گھر خدا کا ہے، خدا کے واسطے

یا الٰہی کِس طرف سے پاس ہے بابِ اثر

کون سا نزدیک ہے رستہ دعا کے واسطے

کہہ گئے کیا دیکھ کر نبضوں کو کیا جانے طبیب

ہاتھ اٹھائے ہیں عزیزوں نے دُعا کے واسطے

تم ابھی نامِ خدا نو مشقِ ظلم وجود رہو

آسماں سے مشورہ کر لو جفا کے واسطے

مجھ کو اُس مٹی سے خالق نے بنایا ہے قمر

رہ گئی تھی جو ازل کے دن جفا کے واسطے

٭٭






وہاں ملو گے یہ مانا جو تم یہاں نہ ملے

وہاں ملو گے یہ مانا جو تم یہاں نہ ملے

مگر یہ اور بتا دو اگر وہاں نہ ملے

وہ خارِ دشت نظر میں کھٹک رہے ہیں ابھی

جو مجھ سے چھین کے دامن کی دھجیاں نہ ملے

نہ کی جنوں میں بھی توہینِ آبلہ پائی

وہاں پہ رُک گئے کانٹے ہمیں جہاں نہ ملے

ذرا بلا کے تم اپنے خلیل سے پوچھو

تمھارے گھر پہ بھی ڈھونڈ آئے تم وہاں نہ ملے

خزاں نے آ کے چمن میں وہ تفرقہ ڈالا

کہ مدتوں مجھے صیاد باغباں نہ ملے

مجھی غریب کے گھر کو قمر تباہ کیا

چمن میں برق کو اوروں کے آشیا ں نہ ملے

٭٭






ہو گئے ان سے ترک پیام

ہو گئے ان سے ترک پیام

اب تو ہماری صبح نہ شام

پاس مجھے دیکھا تو کہا

آپ کا مطلب آپ کا نام

آپ اور ترکِ بزمِ عُدو

خیر کبھی دیکھیں گے، سلام

جھُک گئیں محشر میں نظریں

ہو گئے اُن کے تیر تمام

قبر کی منزل بے تخصیص

شاہ و گدا کا ایک مقام

حشر کی محفل کیا کہنا

جس میں کسی کی روک نہ تھام

جب سے قمر وہ چھوٹ گئے

ہو گئ شب کی نیند حرام

٭٭






قسمت کے کب جاگے درباں

قسمت کے کب جاگے درباں

توڑ چکا جب میں درِ زنداں

اُن کے رخ پر گیسوئے پیچاں

لاکھوں کافر ایک مسلماں

ذکر ہماری کشتی کا ہے

ساحل ساحل طوفاں طوفاں

سوچو تو انسان میں کیا ہے !

ٹھیس لگے مر جائے انساں

دونوں کو بجلی نے پھونکا

میرا گھر گلہائے گلستاں

اہلِ قفس کی خیر ہو یارب

بیٹھا ہے صیاد پریشاں

کیا ہے گلشن پھول نہیں جب!

پھول بنا دیتے ہیں گلستاں

٭٭






یاد رکھ دیدۂ تر اشک جو نکلا کوئی

یاد رکھ دیدۂ تر اشک جو نکلا کوئی

محفل ِ غیر میں ہو جائے گا رسوا کوئی

ہاتھ اٹھانے لگے دامن پہ قیامت والے

منہ چھپائے ہوئے، جب حشر میں آیا کوئی

کل مریضِ شبِ فرقت کی عجب حالت تھی

کوئی خاموش تھا، مصروفِ دعا تھا کوئی

پتلیاں پھر گئی تھیں چھوٹ گئی تھیں نبضیں

تم نہ آ جاتے، تو ہاتھوں سے چلا تھا کوئی

کر گئے کام قیامت کا شبِ غم نالے

رہ گیا تھام کے ہاتھوں سے کلیجا کوئی

صورتِ آئینہ تصویرِ تحیر بن کر

دیکھتا تھا تری محفل کا تماشا کوئی

اے قمر بعد میرے یہ بھی کسی سے نہ ہوا

چار پھول آ کے جو تربت پہ چڑھاتا کوئی

٭٭






دنیائے وفا نام سے آباد رہے گی

دنیائے وفا نام سے آباد رہے گی

گر میں نہ رہوں گا تو مری یاد رہے گی

یارب جو بتوں کی یہی بیداد رہے گی

کاہے کو خدائی تری آباد رہے گی

آ تو بھی مرے ساتھ لحد میں شبِ فرقت

اب کس کے یہاں خانماں برباد رہے گی

صیاد قفس میں مجھے رکھنے سے نتیجہ

میں قید رہوں گا نظر آزاد رہے گی

وہ آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں گے کسی کو

جب تک مری حسرت کی نظر یاد رہے گی

ہم سامنے اللہ کے رسوانہ کریں گے

محشر میں تجھی سے تری فریاد کریں گی

محشر پہ رکھے دیتے ہو دیدار کا وعدہ

صورت بھی قمر کی نہ تمھیں یاد رہے گی

٭٭






تربت کہاں لوحِ سرِ تربت بھی نہیں ہے

تربت کہاں لوحِ سرِ تربت بھی نہیں ہے

اب تو تمہیں پھولوں کی ضرورت بھی نہیں ہے

وعدہ تھا یہیں کا جہاں فرصت بھی نہیں ہے

اب آگے کوئی اور قیامت بھی نہیں ہے

اظہارِ محبت پہ برا مان گئے وہ

اب قابلِ اظہار محبت بھی نہیں ہے

کس سے تمہیں تشبیہ دوں یہ سوچ رہا ہوں

ایسی تو جہاں میں کوئی صورت بھی نہیں ہے

تم میری عیادت کے لیئے کیوں نہیں آتے

اب تو مجھے تم سے یہ شکایت بھی نہیں ہے

اچھا مجھے منظور قیامت کا بھی وعدہ

اچھا کوئی اب دور قیامت بھی نہیں ہے

باتیں یہ حسینوں کی سمجھتا ہے قمر خوب

نفرت وہ جسے کہتے ہیں نفرت بھی نہیں ہے

٭٭






کہاں بچ کے جائیں ٹھکانہ کہاں ہے

کہاں بچ کے جائیں ٹھکانہ کہاں ہے

سنا ہے زمیں سے بڑا آسماں ہے

بتا کون اب غیر کا مہماں ہے

یہ تیری قسم ہے یہ تیری زباں ہے

نشیمن یہ بلبل کا برق تپاں ہے

کہاں گر رہی ہے ارے بے زباں ہے

نہ کرتا رہا چاہے صیّاد لیکن

تسلی تو تھی باغ میں آشیاں ہے

خوشامد بہر حال کرنی پڑے گی

مخالف تو ہے دل مگر راز داں ہے

شبِ وصل رودادِ فرقت نہ پوچھو

کہاں تک سنو گے بڑی داستاں ہے

قمر آس کیوں توڑتے ہو ابھی سے

فلک پر سحر کا ستارہ کہاں ہے

٭٭






یہ کہہ کر دیے میری قسمت میں نالے

یہ کہہ کر دیے میری قسمت میں نالے

تمھاری امانت تمھارے حوالے

بس اتنی ہے دوری، یہ منزل، یہ میں ہوں

کہاں آ کے پھوٹے ہیں پاؤں کے چھالے

کروں ایسا سجدہ، وہ گھبرا کے کہہ دیں

خدا کے لیے اب تو سر کو اٹھا لے

مریضِ شب غم کی سانس آخری ہے

چراغِ سحر لے رہا ہے سنبھالے

کبھی مر بھی چُک اے مریضِ محبت

پریشان بیٹھے ہیں گھر جانے والے

قیامت ہیں ظالم کی نیچی نگاہیں

خدا جانے کیا ہو جو نظریں اٹھا لے

قمر میں ہوں مختار تنویر شب کا

ہیں میرے ہی بس میں اندھیرے اجالے

٭٭






کرتے بھی کیا حضور نہ جب اپنے گھر ملے

کرتے بھی کیا حضور نہ جب اپنے گھر ملے

دشمن سے ہم کبھی نہ ملے تھے مگر ملے

بلبل پہ ایسی برق گری آندھیوں کے ساتھ

گھر کا پتہ چلا نہ کہیں بال و پر ملے

اُن سے ہمیں نگاہِ کرم کی امید کیا

آنکھیں نکال لیں جو نظر سے نظر ملے

وعدہ غلط پتے بھی بتائے ہوئے غلط

تم اپنے گھر ملے نہ رقیبوں کے گھر ملے

افسوس ہے یہی مجھے فصلِ بہار میں

میرا چمن ہو اور مجھی کو نہ گھر ملے !

چاروں طرف سے شمعِ محبت کی روشنی

پروانے ڈھونڈھ ڈھونڈھ کے لائی جدھر ملے

٭٭






وہ آغازِ محبت کا زمانہ

وہ آغازِ محبت کا زمانہ

ذرا سی بات بنتی تھی فسانہ

قفس کو کیوں سمجھ لوں آشیانہ

ابھی تو کروٹیں لے گا زمانہ

قفس سے بھی نکالا جا رہا ہوں

کہاں لے جائے دیکھو آب و دانہ

غرور اتنا نہ کر تیرِ ستم پر

کہ اکثر چوک جاتا ہے نشانہ

اگر بجلی کا ڈر ہو گا تو ان کو

بلندی پر ہے جن کا آشیانہ

کہانی دردِ دل کی سن کے پوچھا

قمرؔ سچ کہہ یہ کس کا ہے فسانہ

٭٭






دریا دلی کہوں تری کیا ساقیا کہ بس

دریا دلی کہوں تری کیا ساقیا کہ بس

پیمانہ اپنے منہ سے یہ خود بول اٹھا کہ بس

ذکرِ شبِ الم پہ کلیجہ پکڑ لیا

کچھ اور بھی سنو گے مرا ماجرا کہ بس

اللہ جانے غیر سے کیا گفتگو ہوئی

اتنا تو میں بھی آیا تھا سنتا ہوا کہ بس

گو سنگ دل وہ تھے، مگر آنسو نکل پڑے

اس بے کسی سے میرا جنازہ اٹھا کہ بس

اچھا تری گلی سے میں جاتا ہوں پاسباں

کچھ اور کہنے سننے کو باقی ہے یا کہ بس

شب بھر ترے مریض کا عالم یہی رہا

نبضوں پہ جس نے ہاتھ رکھا کہہ دیا کہ بس

دن ہو کہ رات رونے سے مطلب ہمیں قمرؔ

دل دے کے ان کو ایسا نتیجہ ملا کہ بس

٭٭






بجز تمہارے کسی سے کوئی سوال نہیں

بجز تمہارے کسی سے کوئی سوال نہیں

کہ جیسے سارے زمانے سے بول چال نہیں

یہ سوچتا ہوں کہ تو کیوں نظر نہیں آتا

مری نگاہ نہیں یا ترا جمال نہیں

تجاہل اپنی جفاؤں پہ اور محشر میں

خدا کے سامنے کہتے ہو تم خیال نہیں

یہ کہہ کے جلوے سے بے ہوش ہو گئے موسیٰ

نگاہ تجھ سے ملاؤں مری مجال نہیں

میں ہر بہارِ گلستاں پہ غور کرتا ہوں

جلا نہ ہو مرا گھر ایسا کوئی سال نہیں

خطا معاف کہ سرکار منہ پہ کہتا ہوں

بغیر آئینہ کہہ لو مری مثال نہیں

میں چاندنی میں بلاتا ہوں تو وہ کہہ دیں گے

قمرؔ تمہیں مری رسوائی کا خیال نہیں

٭٭






شیخ آخر یہ صراحی ہے کوئی خم تو نہیں

شیخ آخر یہ صراحی ہے کوئی خم تو نہیں

اور بھی بیٹھے ہیں محفل میں تمہی تم تو نہیں

ناخدا ہوش میں آ ہوش ترے گم تو نہیں

یہ تو ساحل کے ہیں آثار تلاطم تو نہیں

ناز و انداز و ادا ہونٹوں پہ ہلکی سی ہنسی

تیری تصویر میں سب کچھ ہے تکلم تو نہیں

دیکھ انجام محبت کا برا ہوتا ہے

مجھ سے دنیا یہی کہتی ہے بس اک تم تو نہیں

مسکراتے ہیں سلیقے سے چمن میں غنچے

تم سے سیکھا ہوا اندازِ تبسم تو نہیں

اب یہ منصور کو دی جاتی ہے نا حق سولی

حق کی پوچھو تو وہ اندازِ تکلم تو نہیں

چاندنی رات کا کیا لطف قمرؔ کو آئے

لاکھ تاروں کی ہو بہتات مگر تم تو نہیں

٭٭






گلشن کا اعتبار نہیں اس زمانے میں

گلشن کا اعتبار نہیں اس زمانے میں

کل جانے کون آ کے رہے آشیانے میں

صیاد کیوں قفس میں رہے بجلیوں کا ڈر

لا آگ ہی لگاتے چلیں آشیانے میں

آہیں بھریں تو آندھیاں برباد کر گئیں

نالے کئے تو لگ گئی آگ آشیانے میں

اے عندلیب وقت سے ڈر کل کی بات ہے

بیٹھے تھے ہم بھی تیری طرح آشیانے میں

صیاد اپنے گھر مجھے کس شے کی تھی کمی

سب کچھ تھا اک قفس کے سوا آشیانے میں

جو کچھ کہا سنا ہو مرے باغباں معاف

شاید ملوں نہ کل تجھے میں آشیانے میں

٭٭






حسیں رخ پہ جو زلفیں ڈالی گئی ہیں

حسیں رخ پہ جو زلفیں ڈالی گئی ہیں

سحر شام دونوں ملا لی گئی ہیں

کہیں اس طرف مے کدہ تو نہیں ہے

گھٹائیں ابھی کالی کالی گئی ہیں

اب آسان سی ہو گئی ہے محبت

کہ پابندیاں سب اٹھا لی گئی ہیں

نہ کیوں روئیں قسمت پہ اہلِ گلستاں

دعائیں غریبوں کی خالی گئی ہیں

محبت کی روداد تو ایک ہی ہے

مگر داستانیں بنا لی گئی ہیں

کھلی چاندنی جگمگاتے ستارے

قمرؔ ایسی راتیں بھی خالی گئی ہیں

٭٭






کہیں فریاد بھی محتاجِ اثر ہوتی ہے

کہیں فریاد بھی محتاجِ اثر ہوتی ہے

وہ تو وہ ان کے فرشتوں کو خبر ہوتی ہے

دم الٹتا ہے قضا پیشِ نظر ہوتی ہے

اس شبِ غم کی مزاروں میں سحر ہوتی ہے

دل سنبھلتا ہے نہ تسکینِ جگر ہوتی ہے

کس بلا کی خلشِ تیرِ نظر ہوتی ہے

گہہ نظر چرخ پہ گہہ جانبِ در ہوتی ہے

رات فرقت کی بری طرح بسر ہوتی ہے

گر نہیں خواب تو کیوں پھول کھلے دیکھتا ہوں

فصل یہ تو مجھے صیاد کے گھر ہوتی ہے

فصلِ گل آتے ہی جلتا ہے نشیمن میرا

چرخ کی کوندنے والی مرے گھر ہوتی ہے

تیری فرقت میں کوئی مونس و ہم دم نہ رہا

اک شبِ غم ہے جو تنہا مرے گھر ہوتی ہے

جان دے دیں گے کسی دامنِ صحرا میں قمرؔ

مر گیا کون کہاں کس کو خبر ہوتی ہے






دل اگر ہوتا تو مل جاتا نشانِ آرزو

دل اگر ہوتا تو مل جاتا نشانِ آرزو

تم نے تو مسمار ہی کر ڈالا مکانِ آرزو

نا مکمل رہ گیا آخر بیانِ آرزو

کہتے کہتے سو گئے ہم داستانِ آرزو

دل پہ رکھ لو ہاتھ پھر سننا بیانِ آرزو

داستانِ آرزو ہے داستانِ آرزو!

حضرتِ موسیٰ یہاں لغزش نہ کر جانا کہیں

امتحانِ آرزو ہے امتحان آرزو

دل مرا دشمن سہی لیکن کہوں تو کیا کہوں

راز دانِ آرزو ہے راز دانِ آرزو

تم تو صرف اک دید کی حسرت پہ برہم ہو گئے

کم سے پوری تو سنتے داستانِ آرزو

دل نہ کیوں کر خاطر تیرِ تمنا کی کرے

میزبانِ آرزو ہے میزبانِ آرزو

اے قمرؔ کیوں کر مٹاؤں اپنے دل سے دل کا داغ

یہ نشانِ آرزو ہے یہ نشانِ آرزو

٭٭






کچھ خاک چند خارِ مغیلاں لئے ہوئے

کچھ خاک چند خارِ مغیلاں لئے ہوئے

بستی کو جا رہا ہوں بیاباں لئے ہوئے

دونوں تھے سامنے بصد ارماں لئے ہوئے

میں دل لئے ہوئے تھا وہ پیکاں لئے ہوئے

اب تک تو میں نے کی تھی وفاؤں کی آرزو

اب تم پھرو گے دل میں یہ ارماں لئے ہوئے

او مرنے والے لے کے چلا ہے بس اک کفن

ایسا سفر اور اتنا سا ساماں لئے ہوئے

وہ صبح وصل کہتے تھے رخصت کو بار بار

میں چپ کھڑا تھا ہاتھ میں داماں لئے ہوئے

رسوا کروں گا دستِ جنوں کو گلی گلی

در در پھروں گا چاک گریباں لئے ہوئے

او آئینے کے دیکھنے والے ہمیں بھی دیکھ

ہم بھی کھڑے ہیں دل میں یہ ارماں لئے ہوئے

دیکھیں گے سیر گاہ وہ تاروں کی اے قمرؔ

نکلا ہے روشنی مہ تاباں لئے ہوئے






وہ اگر بن سنور گئے ہوں گے

وہ اگر بن سنور گئے ہوں گے

دیکھنے والے مر گئے ہوں گے

شامِ وعدہ اور انتظار ان کا

جانے وہ کس کے گھر گئے ہوں گے

تم بھی دیکھ آؤ مرنے والے کو

اب تو سب چارہ گر گئے ہوں گے

جب گری ہو گی باغ پر بجلی

اہلِ گلشن کدھر گئے ہوں گے

نیند آئی نہ ہو گی رات انہیں

نالے کیا بے اثر گئے ہوں گے

او سرِ راہ منتظر ان کے

وہ تو کب کے گزر گئے ہوں گے

تم بھی اہلِ جنوں کو پوچھتے ہو

کیا خبر ہے کدھر گئے ہوں گے

چاندنی کم یکا یک اتنی کیوں

بام سے وہ اتر گئے ہوں گے

٭٭






قاتل بہار گل سے ہے گلزار دیکھیے

قاتل بہار گل سے ہے گلزار دیکھیے

ہر شاخ جھک کے بن گئی تلوار دیکھیے

ہیں شام سے کچھ اور ہی آثار دیکھیے

کیا صبح تک ہو حالتِ بیمار دیکھیے

بجلی سے لڑ گئی نگہِ یار دیکھیے

وہ آسماں پہ چل گئی تلوار دیکھیے

نکلے ہیں مدتوں میں قفس سے اسیرِ غم

ملتی ہے یا نہیں رہِ گلزار دیکھیے

کب جاگتی ہے دیکھیے قسمت شبِ وصال

ہوتے ہیں کب وہ خواب سے بیدار دیکھیے

انکار اب جو حشر میں فرما رہے ہیں آپ

اب بات بڑھنے والی ہے سرکار دیکھیے

منصور کا معاملہ آگے بڑھائے کون

کہیے جو حق کی بات تو پھر دار دیکھیے

کہتے ہیں بے وفا تو قمرؔ بے وفا سہی

اچھا کوئی اب اور وفادار دیکھیے

٭٭






خوشی بھی چھین لی محروم بھی کیا غم سے

خوشی بھی چھین لی محروم بھی کیا غم سے

یہ انتقام لیے کب کے آپ نے ہم سے

وہ منہ چھپاتے ہیں اب میرے اشکِ پیہم سے

پناہ مانگتا ہے آفتاب شبنم سے

قدم قدم پہ خوشی نے جو کی دغا ہم سے

تعلقات بڑھانے پڑے ترے غم سے

چمن میں کون ہے صیاد برق جس سے ملے

چمن میں سب کی مدارات ہیں مرے دم سے

زمانہ جان گیا حسن و عشق کی فطرت

مری دعا سے تمہاری نگاہِ برہم سے

شراب خانے کی تعریف ہم سے پوچھ اے شیخ

بس ایک جام پیا اور چھٹ گئے غم سے

نتیجہ تم سے محبت کا ہم نے دیکھا ہے

خدا کرے کہ محبت نہ ہو تمہیں ہم سے

جگر کا داغ چھپاؤ قمرؔ خدا کے لئے

ستارے ٹوٹتے ہیں ان کے دیدۂ نم سے

٭٭






وہ نکلے ہیں قیامت کی گھڑی ہے

وہ نکلے ہیں قیامت کی گھڑی ہے

جسے دیکھو اسے اپنی پڑی ہے

رہِ الفت میں یہ مشکل پڑی ہے

شکستہ پاؤں ہیں منزل کڑی ہے

ابھی سے تم نے کیوں تیروں کو روکا

ابھی تو دل میں گنجائش بڑی ہے

میں انجامِ محبت سوچتا ہوں

دلِ بے تاب کو اپنی پڑی ہے

خدا کے سامنے وہ بھی ہیں میں بھی

سرِ محشر قیامت کی گھڑی ہے

تمہیں کیوں شرم آتی ہے سرِ حشر

خدا کے سامنے دنیا کھڑی ہے

شبِ غم کی کہانی تم سنو گے

شبِ غم کی کہانی تو بڑی ہے

اٹھاتے ہی نہیں احباب میت

چلے آؤ ذرا بات آ پڑی ہے






کسی صورت سحر نہیں ہوتی

کسی صورت سحر نہیں ہوتی

رات ادھر سے ادھر نہیں ہوتی

خوفِ صیاد ہے نہ برق کا ڈر

بات یہ اپنے گھر کی نہیں ہوتی

ایک وہ ہیں کہ روز آتے ہیں

ایک ہم ہیں خبر نہیں ہوتی

اب میں سمجھا ہوں کاٹ کر شبِ غم

زندگی مختصر نہیں ہوتی

کتنی پابندِ وضع ہے شبِ غم

کبھی غیروں کے گھر نہیں ہوتی

کتنی سیدھی ہے راہِ ملکِ عدم

حاجتِ راہبر نہیں ہوتی

سن لیا ہو گا تم نے حالِ مریض

اب دوا کار گر نہیں ہوتی

عرش ہلتا ہے میری آہوں سے

لیکن ان کو خبر نہیں ہوتی






ہمارے کارواں کو پیش ایسی رہ گزر آئی

ہمارے کارواں کو پیش ایسی رہ گزر آئی

نہ رہبر سازگار آئے نہ منزل سازگار آئی

کہاں تھی اے قضا تو کیوں نہ وقتِ انتظار آئی

ہماری زندگی چاروں طرف تجھ کو پکار آئی

ہزاروں ہو گئے بے آشیانہ آشیاں والے

بہار آئی مگر بربادیاں لے کر بہار آئی

پئے ارمانِ عاشق حسن خود بے تاب رہتا ہے

تجلی طور پر موسیٰ کی خاطر بے قرار آئی

بس اب اے ناخدا طوفاں میں ہم کو ڈوب جانے دے

وہ روتے ہیں جنہیں کشتی کنارے پر اتار آئی

نظر کے سامنے ہیں گلشنِ عالم کی تاریخیں

وہیں بجلی گری ہے جس گلستاں پر بہار آئی

نشیمن چھوڑنا منظور لیکن یہ نہیں ممکن

خزاں کے دور دیکھوں اور یہ کہہ دوں بہار آئی

یہ کہتے ہیں جفا بدنام کر دے گی زمانے میں

ترے آگے وہی بات اے بتِ بے اعتبار آئی

٭٭






دیکھیے ہو گئی بدنام مسیحائی بھی

دیکھیے ہو گئی بدنام مسیحائی بھی

ہم نہ کہتے تھے کہ ٹلتی ہے کہیں آئی بھی

حسن خوددار ہو تو باعثِ شہرت ہے ضرور

لیکن ان باتوں میں ہو جاتی ہے رسوائی بھی

سینکڑوں رنج و الم درد و مصیبت شبِ غم

کتنی ہنگامہ طلب ہے مری تنہائی بھی

تم بھی دیوانے کے کہنے کا برا مان گئے

ہوش کی بات کہیں کرتے ہیں سودائی بھی

بال و پر دیکھ تو لو اپنے اسیرانِ قفس

کیا کرو گے جو گلستاں میں بہار آئی بھی

پاؤں وحشت میں کہیں رکتے ہیں دیوانوں کے

توڑ ڈالیں گے یہ زنجیر جو پہنائی بھی

اے میرے دیکھنے والے تری صورت پہ نثار

کاش ہوتی تری تصویر میں گویائی بھی

اے قمرؔ وہ نہ ہوئی دیکھیے تقدیر کی بات

چاندنی رات جو قسمت سے کبھی آئی بھی

٭٭






نشاں کیوں کر مٹا دیں یہ پریشانی نہیں جاتی

نشاں کیوں کر مٹا دیں یہ پریشانی نہیں جاتی

بگولوں سے ہماری قبر پہچانی نہیں جاتی

خدائی کی ہے ضد، اے بت، یہ نادانی نہیں جاتی

زبردستی کی منوائی ہوئی مانی نہیں جاتی

ہزاروں بار مانی حسن نے ان کی وفا داری

مگر اہلِ محبت ہیں کہ قربانی نہیں جاتی

سحر کے وقت منہ کلیوں نے کھولا ہے پئے شبنم

ہوا ٹھنڈی ہے لیکن پیاس بے پانی نہیں جاتی

قمرؔ کل ان کے ہونے سے ستارے کتنے روشن تھے

وہی یہ رات ہے جو آج پہچانی نہیں جاتی

٭٭






مسرور تھے کیا کیا روز ازل سمجھے تھے ہمیں غم کیا ہو گا

مسرور تھے کیا کیا روز ازل سمجھے تھے ہمیں غم کیا ہو گا

اب قصۂ جنت سامنے ہے اے حضرت آدم کیا ہو گا

وہ شامِ الم آنے سے رہے اب دردِ جگر کم کیا ہو گا

باقی ہیں سحر میں چار پہر اے خالقِ عالم کیا ہو گا

کیا فائدہ بلوانے سے اسے کہہ دے گا مجھے فرصت ہی نہیں

جو بزمِ طرب میں بیٹھا ہو وہ شاملِ ماتم کیا ہو گا

یہ رنج تو ہم سے پوچھ کہ ہم گلزار سے لٹ کر آئے ہیں

اللہ ترے گھر کو رکھے صیاد تجھے غم کیا ہو گا

ہم اپنا سمجھتے تھے جن کو وہ دشمن بنتے جاتے ہیں

اتنا تو زمانہ برہم ہے اب اور بھی برہم کیا ہو گا

اس وقت حقیقت سمجھے ہیں جب پیاس بجھی ہے غنچے کی

کہتے ہیں چمن والے ورنہ اک قطرۂ شبنم کیا ہو گا

جب بانیِ محفل ہو ناحق پھر محفل والے کن میں ہیں

جب شمع کے رونے والے نہیں پروانوں کا ماتم کیا ہو گا

کیسے یہ مسلمانوں سے کہوں اب ان کی زبانیں بند کرو

اسلام کے دشمن کہتے ہیں اسلام منظم کیا ہو گا

مہمان بلا کے شب کو انہیں اس وقت تو خوش بیٹھے ہو قمرؔ

جب صبح کا تارہ چمکے گا اس وقت کا عالم کیا ہو گا

٭٭






یہ راز بہارِ گلشن ہے اس راز کو کیا سمجھے کوئی

یہ راز بہارِ گلشن ہے اس راز کو کیا سمجھے کوئی

شبنم کو رلایا پھولوں نے یا رات کو شبنم خود روئی

ہم تنگ ہیں اپنے جینے سے کرتا نہیں کوئی دل جوئی

ایسے میں وہ برہم بیٹھے ہیں تلوار اٹھا لانا کوئی

برسوں گزرے روتے روتے اک مدت میں نیند آئی ہے

وہ خواب میں ملنے آئے ہیں میں جاگ اٹھا قسمت سوئی

محشر میں ثبوتِ قتل سے اب شرمانے سے کیا ہوتا ہے

جب خون کے چھینٹے باقی تھے تلوار نہ تم نے کیوں دھوئی

سب منہ دیکھے کی الفت تھی یہ حال کھلا مرنے پہ قمرؔ

جب دفن ہوئے تو تربت پر دو پھول نہیں لاتا کوئی

٭٭






کوئی آیا ہی نہیں اور پہ الزام کہاں

کوئی آیا ہی نہیں اور پہ الزام کہاں

بس تمہی تم تھے، گیا پھر دلِ ناکام کہاں

ہم جس آرام کو سمجھے تھے وہ آرام کہاں

کھینچ لائی ہے ہمیں گردشِ ایام کہاں

وہ تماشے سے بھی بیزار نظر آتے ہیں

پھر یہ دیوانگی آئے گی مرے کام کہاں

تم تو ہو میرے دل و جان کے مالک مشہور

تم پہ آئے گا مرے خون کا الزام کہاں

پی بھی لے اوک سے اے شیخ جو پینی ہے تجھے

یہ بلا نوشوں کی محفل ہے یہاں جام کہاں

ہم تو مے خانے میں غم اپنا غلط کر لیں گے

تو بتا جائے گی اے گردشِ ایام کہاں

شیخ نے مانگا ہے مجھ سے مری توبہ کا ثبوت

لا کے ٹوٹے ہوئے رکھے ہیں مرے جام کہاں

تم بھی موسیٰ مع امت کے چلے آئے ہو

جلوۂ خاص کہاں اور نگہِ عام کہاں

راستہ دیکھنا سورج تو قمرؔ چھپ جائے

شام کے آنے کا وعدہ ہے ابھی شام کہاں

٭٭






دیکھو تو تم کو کتنا غرورِ شباب ہے

دیکھو تو تم کو کتنا غرورِ شباب ہے

یہ مرا خط ہے اور یہ تمہارا جواب ہے

باقی بس اتنا عرصۂ روزِ حساب ہے

جب تک حضور آپ کے رخ پر نقاب ہے

میت پہ تم پکارتے ہو میں خموش ہوں

یہ آخری تمہارے ستم کا جواب ہے

بے آزمائے ہم تمہیں دل دے تو دیں مگر

سرکار آج کل کا زمانہ خراب ہے

اب تو قمرؔ کے سامنے آؤ گے تم ضرور

میدانِ حشر اور یہ روزِ حساب ہے

٭٭






گر نہ تھی شمع ہار ہونا تھا

گر نہ تھی شمع ہار ہونا تھا

کچھ تو بہرِ مزار ہونا تھا

گُل کو مرجھا کے خار ہونا تھا

حسن بے اعتبار ہونا تھا

تیری ٹھوکر کی کیا خطا ظالم

بے نشاں یہ مزار ہونا تھا

جتنا بے چین میں ہوں ان کو بھی

میرے پروردگار ہونا تھا

روزِ محشر تھا شکوۂ قاتل

خود تجھے شرمسار ہونا تھا

مر کے ملنی تھی رنج سے فرصت

ڈوب کر بیڑا پار ہونا تھا

جس کے اوپر نہ آسماں ہوتا

اس زمیں پر مزار ہونا تھا

ہو چکا ختم ان کے آنے کا

جس قدر انتظار ہونا تھا

بے خودی میں قمرؔ بتا بیٹھے

رازِ وصل آشکار ہونا تھا






کھلوائیے نہ مجھ سے خلش کیوں جگر میں ہے

کھلوائیے نہ مجھ سے خلش کیوں جگر میں ہے

بندہ نواز بات ابھی گھر کی گھر میں ہے

دل جل رہا ہے اشک مگر چشم تر میں ہے

ہمسایہ آگ دیکھ کے بھی اپنے گھر میں ہے

دل خون ہو کے قافلۂ اشکِ تر میں ہے

جس میں رہے تھے آپ وہ منزل سفر میں ہے

جبریل کو سنا ہے کہ آگے نہ بڑھ سکے

وہ کون سا مقام تری رہ گزر میں ہے

میں نے جو اپنا نام بتایا انہیں قمرؔ

کہنے لگے کہ داغ دکھاؤ جگر میں ہے

٭٭






کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو

کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو

نہ جانے کیسے خبر ہو گئی زمانے کو

چمن میں برق نہیں چھوڑتی کسی صورت

طرح طرح سے بناتا ہوں آشیانے کو

دعا بہار کی مانگی تو اتنے پھول کھلے

کہیں جگہ نہ رہی میرے آشیانے کو

چمن میں جانا تو صیاد دیکھ بھال آنا

اکیلا چھوڑ کے آیا ہوں آشیانے کو

مری لحد پہ پتنگوں کا خون ہوتا ہے

حضور شمع نہ لایا کریں جلانے کو

سنا ہے غیر کی محفل میں تم نہ جاؤ گے

کہو تو آج سجا لوں غریب خانے کو

دبا کے قبر میں سب چل دئیے دعا نہ سلام

ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو

اب آگے اس میں تمہارا بھی نام آئے گا

جو حکم ہو تو یہیں چھوڑ دوں فسانے کو

قمرؔ ذرا بھی نہیں تم کو خوف رسوائی

چلے ہو چاندنی شب میں انہیں منانے کو






چمن میں روتی ہے شبنم اسی کلی کے لیے

چمن میں روتی ہے شبنم اسی کلی کے لیے

خزاں نے جس کو اجازت نہ دی ہنسی کے لیے

ہر انقلاب نہیں ہے ہر آدمی کے لیے

کبھی کسی کے لیے ہے کبھی کسی کے لیے

اب انقلابِ جہاں اس سے بڑھ کے کیا ہو گا

کہ آدمی نہیں ملتا ہے آدمی کے لیے

الٰہی برق ہی آ جائے اس نشیمن تک

کوئی چراغ نہیں گھر میں روشنی کے لیے

نہ جانے کون سا ظلم اور رہ گیا ہے قمرؔ

دعا وہ مانگتے ہیں میری زندگی کے لیے

٭٭






دل میں بے گنتی بتانِ وفا کیوں ہو گئے

دل میں بے گنتی بتانِ وفا کیوں ہو گئے

اک خدا کا گھر تھا یہ اتنے خدا کیوں ہو گئے

کیا ہوا گر کہہ دیا تم بے وفا کیوں ہو گئے

یہ خفا ہونے کی باتیں ہیں خفا کیوں ہو گئے

زندگی دشوار تر کر دی خفا کیوں ہو گئے

اٹھ کے تم پہلو سے دردِ لادوا کیوں ہو گئے

بات گر کچھ تھی تو وحشت میں تمہاری بات تھی

تم خفا ہوتے نہ ہوتے اقربا کیوں ہو گئے

ہم سفر کے چھوٹنے کا ہوتا ہے کتنا ملال

رو رہے ہیں آبلے کانٹے جدا کیوں ہو گئے

اب خیال آتا ہے کشتی ڈوب کے آخر رہی

مفت میں منت گزارِ ناخدا کیوں ہو گئے

یا الٰہی کون سا وقت آ پڑا بیمار پر

یک بیک احباب مصروفِ دعا کیوں ہو گئے

ہم سے یہ سن کر کہ اس گلشن سے بہتر تھا قفس

باغباں دینے لگے طعنے رہا کیوں ہو گئے

فصلِ گلشن دیکھتے ہی دیکھتے جاتی رہی

اے قمرؔ یہ پھول دو دن میں ہوا کیوں ہو گئے






بوسۂ خال کی قیمت مری جاں ٹھہری ہے

بوسۂ خال کی قیمت مری جاں ٹھہری ہے

چیز کتنی سی ہے اور کتنی گراں ٹھہری ہے

چھیڑ کر پھر مجھے مصروف نہ کر نالوں میں

دو گھڑی کے لیے صیاد زباں ٹھہری ہے

آہِ پُر سوز کو دیکھ اے دلِ کمبخت نہ روک

آگ نکلی ہے لگا کر یہ جہاں ٹھہری ہے

صبح سے جنبشِ ابرو سے مژہ سے پیہم

نہ ترے تیر رکے ہیں نہ کماں ٹھہری ہے

دم نکلنے کو ہے ایسے میں وہ آ جائیں قمرؔ

صرف دم بھر کے لیے روحِ رواں ٹھہری ہے

٭٭






دیکھ کتنی ہے حسیں پھول پہ شبنم رہ کے

دیکھ کتنی ہے حسیں پھول پہ شبنم رہ کے

جیسے آ جائے ترے رخ پہ پسینہ بہہ کے

آشیاں دیکھ کے پھولوں میں نہ بلبل چہکے

کام کانٹوں سے بھی پڑتا ہے چمن میں رہ کے

ولولے عہدِ جوانی کے کہاں پیری میں

دن کو مرجھا گئے وہ پھول جو شب میں مہکے

وعدۂ حشر تو منظور مگر یہ تو کہو

نہ ملے تم تو پکاروں گا تمہیں کیا کہہ کے

یاد ہو گا تجھے ساقی ترا رکھا تھا بھرم

بے پیے ہم نے قدم ڈالے تھے بہکے بہکے

فکر رہبر کی رہِ ملکِ عدم میں کیا کیا

یہ وہ رستہ ہی نہیں جس میں مسافر بہکے

کیوں مرے واسطے غیروں کے برے بنتے ہو

اب پکارا نہ کرو تم مجھے اپنا کہہ کے

نزع میں ہوش تھا اتنا کہ مری بالیں سے

کوئی اٹھا تھا خدا حافظ و ناصر کہہ کے

اے قمرؔ حسن مصیبت میں بگڑ جاتا ہے

بدنما کتنا نظر آتا ہے سورج گہہ کے






حشر تو تم لے چکے وعدہ وفائی کے لیے

حشر تو تم لے چکے وعدہ وفائی کے لیے

پھر مجھے دن کون سا دو گے دُہائی کے لیے

میں وہی ہوں جس کی آہِ پر اثر مشہور تھی

اب مرے نالے ترستے ہیں رسائی کے لیے

آسماں دشمن، خلاف احباب، وہ ظالم خفا

ایک ہی میں رہ گیا ہوں کیا خدائی کے لیے

ضبط کرتا ہوں تو چبھتی ہیں قفس میں تیلیاں

قید بڑھتی ہے جو کہتا ہوں رہائی کے لیے

آپ تو کیا ہیں فرشتوں کے جگر ہل جائیں گے

جب قمرؔ محشر میں آئے گا دہائی کے لیے

٭٭






تخلیق کلام سے عیاں ہے

تخلیق کلام سے عیاں ہے

اردو مری مادری زباں ہے

اے اہلِ قفس یہ کیوں فغاں ہے

میرا بھی چمن میں آشیاں ہے

تنکے بھی رکھیں گے دیکھ تو لیں

بجلی کی نظر کہاں کہاں ہے

طے ہوتا ہے وعدۂ محبت

دونوں کی نگاہ درمیاں ہے

اللہ کا حال کس سے پوچھوں

کعبہ تو بتوں کا راز داں ہے

کیا خوش ہے رہائی پا کے بلبل

جیسے کہ سلامت آشیاں ہے

او باغ میں گھر بنانے والے

بجلی کی نظر میں آشیاں ہے

تم اور مری زیست کی دعائیں

کیا مقصدِ مرگِ ناگہاں ہے

ٹھکرا کے لحد قمرؔ وہ بولے

باقی ابھی تک ترا نشان ہے






بات بھی کرتا نہیں اب بلبلِ ناشاد سے

بات بھی کرتا نہیں اب بلبلِ ناشاد سے

فصلِ گل آتے ہی کانٹا پڑ گیا صیاد سے

ہو برا اے حسرتِ پرواز پر کٹوا دیے

اپنے دل کا حال میں کہتا نہ تھا صیاد سے

دوسری ہچکی جو بیمارِ محبت نے نہ لی

جمع ہو جائے گی اک دنیا مری فریاد سے

گر رہے ہیں ٹوٹ کر تارے جو شامِ غم قمرؔ

ہل رہا ہے آسماں شاید مری فریاد سے

٭٭






خبر جو اڑ نہ سکی آپ کے ستانے کی

خبر جو اڑ نہ سکی آپ کے ستانے کی

خطا معاف، ہوا اور تھی زمانے کی

ہے باغباں یہ سزا میرا گھر جلانے کی

چمن میں پھیل گئی آگ آشیانے کی

غلط ہو آپ کا وعدہ کوئی خدا نہ کرے

مگر حضور کو عادت ہے بھول جانے کی

یہ کہہ کے برق نے میرے قفس کو پھونک دیا

کہ تو نے شکل بدل دی ہے آشیانے کی

غرور ان کا بجا ہے بہ فیضِ جامِ شراب

کہ ان کے ہاتھ میں ہیں گردشیں زمانے کی

خوشی سے گر نہ سنو گے سنو گے مجبوراً

مری صدا نہیں آواز ہے زمانے کی

ہلالِ عید بھی نکلا تھا وہ بھی آئے تھے

مگر انہی کی طرف تھی نظر زمانے کی

یہ اور بات کہ ساقی کو اعتراف نہ ہو

مگر بہار ہمیں ہیں شراب خانے کی

نصیب دیکھیے ساحل پہ ہم پہنچ نہ سکے

خبر پہنچ گئی کشتی کے ڈوب جانے کی

ہوا سے جو بھی کبھی در ہلا شب وعدہ

میں سمجھا کھل گئی قسمت غریب خانے کی

مآل گل کی کلی کو خبر تو ہے لیکن

وہ کیا کرے جسے عادت ہو مسکرانے کی

قفس میں سن لیا تجھ کو تو اے بہارِ چمن

مگر خبر ترے آنے کی ہے نہ جانے کی

غریب ہیں مگر اتنا سمجھ لے اے ساقی

ہمارے دم سے ہے عظمت شراب خانے کی

نکالنی ہو اگر کسی سے دشمنی اے قمرؔ

اسے صلاح دیے جاؤ دوستانے کی

قمرؔ کے اشکِ شبِ غم سے آپ کو مطلب

بہار دیکھیے تاروں کے مسکرانے کی

٭٭






پیچ خم زلف کے محدود رہے شانے تک

پیچ خم زلف کے محدود رہے شانے تک

سب یہ پابندیِ زنجیر تھی دیوانے تک

اس جگہ بزم میں ساقی نے بٹھایا ہے ہمیں

ہاتھ پھیلائیں تو جاتا نہیں پیمانے تک

جو حقیقت میں وفادار کہے جاتے تھے

ان غریبوں کے تو دفنا دیے افسانے تک

باغباں لا ترا گلشن ہی لہو سے سینچیں

ہم رہیں یا نہ رہیں فصلِ بہار آنے تک

بات میں بات نکلتی رہے گی زاہد

تیری مسجد سے لگا کر مرے میخانے تک

پھر وفائیں بھی کرو گے تو نہ پوچھے گا کوئی

سب تمہارے یہ ستم ہیں مرے مر جانے تک

تھا یہاں بھی کبھی اک منتظم میخانہ

جوڑ کر رکھ گیا ٹوٹے ہوئے پیمانے تک

آج تک حیف خرد والوں کو منزل نہ ملی

راہ پر آ گئے بہکے ہوئے دیوانے تک

انقلاب اب تجھے کیا چاہیے پہنچا تو دیا

کفر کو کعبہ تک، ایمان کو میخانے تک

اے قمرؔ صبح ہوئی اب اٹھو میخانے سے

شمع گل ہو گئی، رخصت ہوئے پروانے تک

٭٭






دہائی ہے تیری تو لے خبر او لامکاں والے

دہائی ہے تیری تو لے خبر او لامکاں والے

چمن میں رو رہے ہیں آشیاں کو آشیاں والے

بھٹک سکتے نہیں اب کارواں سے کارواں والے

نشانی ہر قدم پر دیتے جاتے ہیں نشاں والے

قیامت ہے ہمارا گھر ہمارے ہی لئے زنداں

رہیں پابند ہو کر آشیاں میں آشیاں والے

میرے صیاد کا اللہ اکبر رعب کتنا ہے

قفس میں بھی زباں کو بند رکھے ہیں زباں والے

یہی کمزوریاں اپنی رہیں تو اے قمرؔ اک دن

مکانوں میں بھی اپنے رہ نہیں سکتے مکاں والے

٭٭






وحشت نے بخیہ گر کو پریشاں بنا دیا

وحشت نے بخیہ گر کو پریشاں بنا دیا

دامن سلا نہ تھا کہ گریباں بنا دیا

مایوسِ زیست اے غمِ پنہاں بنا دیا

درماں کو درد، درد کو درماں بنا دیا

پوچھا یہ تھا کہ غیر کو درباں بنا دیا

بولے پھر آپ کون ہیں جی ہاں بنا دیا

ٹکرا کے ناخدا نے مری کشتیِ حیات

ساحل کو میرے واسطے طوفاں بنا دیا

داغِ جگر نہ مٹنے پہ کھائے جگر پہ زخم

صحرا نہ بن سکا تو گلستاں بنا دیا

اچھا ہوا کہ نزع میں بالیں پہ آ گئے

مشکل کا وقت آپ نے آساں بنا دیا

آخر اڑا نہ گریۂ بے وقت کا مذاق

شبنم نے رو کے پھول کو خنداں بنا دیا

مانا کہ بن سکی نہ پتنگے کی قبر تک

کس نے مزارِ شمعِ شبستاں بنا دیا

فطرت نے دیر و کعبہ کی سو کشمکش کے بعد

کافر نہ بن سکا تو مسلماں بنا دیا

سیرِ فلک کو بام پہ آئے جو وہ قمرؔ

تاروں نے آسماں کو چراغاں بنا دیا

٭٭






رتبۂ منصور ہوتا عشق میں حاصل مجھے

رتبۂ منصور ہوتا عشق میں حاصل مجھے

اس خموشی نے نہ رکھا دار کے قابل مجھے

دشتِ وحشت میں بگولے کی طرف کی جب نظر

میں یہ سمجھا آ رہی ہے ڈھونڈنے منزل مجھے

کاش راہِ عشق میں پائے نہ تیرا نقشِ پا

حشر تک ڈھونڈا کروں منزل کو میں منزل مجھے

شکریہ تیری نگاہِ غیظ کا اچھا سلام

اب نہ دیکھے گا یہاں اے بانیِ محفل مجھے

اے قمرؔ تاروں نے پھر شاید اشارہ کر دیا

ورنہ کیا پہچان لیتا وہ مہِ کامل مجھے

٭٭






اس تیرے سر کی قسم فرق سرِ مو بھی نہیں

اس تیرے سر کی قسم فرق سرِ مو بھی نہیں

جس قدر ہم ہیں پریشاں ترے گیسو بھی نہیں

موت نے کتنا کج اخلاق بنایا ہے مجھے

لوگ روتے ہیں مری آنکھ میں آنسو بھی نہیں

رات بھر جلنا ہے آ جا ادھر اے پروانے

قابلِ رحم یہاں میں بھی نہیں، تو بھی نہیں

اب تو دامن پہ لہو ہے، کہو کیا کہتے ہو

اب تو انکارِ ستم کا کوئی پہلو بھی نہیں

جا تجھے ہم نے بس اے عمرِ رواں دیکھ لیا

ہم تجھے اپنا سمجھتے تھے مگر تو بھی نہیں

میری میت پہ یہ اظہارِ الم رہنے دے

رونے والے تری آنکھوں میں تو آنسو بھی نہیں

دلِ مایوس میں احساسِ خودی تک نہ رہا

ایسا مرجھا گیا یہ پھول کہ خوشبو بھی نہیں

سوچتا ہوں یہ کہ دنیا میں اندھیرا کیوں ہے

تیرے چہرے پہ تو بکھرے ہوئے گیسو بھی نہیں

کتنا ہمدرد ہے ہمدردیِ رہبر دیکھو

کارواں لٹ گیا اور آنکھ میں آنسو بھی نہیں

اے قمرؔ شب کے اندھیرے میں لحد ہے میری

شمعِ تربت تو بڑی چیز ہے جگنو بھی نہیں

٭٭






خیر پھر جو تیری خوشی ہوتی

خیر پھر جو تیری خوشی ہوتی

حسرتِ دل تو پوچھ لی ہوتی

شکوۂ حسن سہل تھا لیکن

کتنی توہینِ عاشقی ہوتی

اس لئے کی نہ میں نے شرحِ چمن

خار و گل میں کشیدگی ہوتی

ہم بلا نوش سیر کیا ہوتے

مے کدے میں نپی تلی ہوتی

اے قمرؔ شب کو وہ نہ ہوں تو پسند

چاند ہوتا نہ چاندنی ہوتی

٭٭






خوش باغباں نے رکھا صیاد نے صحن میں

خوش باغباں نے رکھا صیاد نے صحن میں

جتنے قفس میں روئے اتنے ہنسے چمن میں

پھولوں سے کم نہیں ہے کچھ آشیاں پھبن میں

یہ ذکر تھا کہ بجلی آ کر گری چمن میں

انجامِ صبحِ محفل اے شمع دیکھ لینا

تو بھی ہے انجمن میں ہم بھی ہیں انجمن میں

شبنم نہ رو کہ دنیا امید پر ہے قائم

زندہ رہے تو آ کر مل جائیں گے چمن میں

دیدارِ آخری کی ضد اور مسکرا کر

آنسو نکل پڑیں گے منہ دیکھ کر کفن میں

پچھلے پہر نہ جانے کون آ گیا یکا یک

گل ہوتے ہوتے شمعیں پھر جل اٹھیں چمن میں

ہم ہوں کہ ہوں پتنگے مانندِ شمعِ محفل

کاٹی ہے رات سب نے مل جل کے انجمن میں

قاصد کے علم میں ہے سوزِ ملالِ غربت

شاید یہ آگے پھیلے جا کر میرے وطن میں

اہلِ زمیں پہ روشن رتبہ قمرؔ ہے میرا

میں صدر ہوں ازل سے تاروں کی انجمن میں






یہ رستے میں کس سے ملاقات کر لی

یہ رستے میں کس سے ملاقات کر لی

کہاں رہ گئے تھے بڑی رات کر لی

شبِ غم کبھی در کو اٹھ اٹھ کے دیکھا

کبھی ان کی تصویر سے بات کر لی

ہم اہلِ جنوں کا ٹھکانہ نہ پوچھو

کہیں دن نکالا کہیں رات کر لی

چلے آئے موسیٰ کو جلوہ دکھانے

قیامت سے پہلے ملاقات کر لی

قمرؔ اپنے گھر ان کو مہماں بلا کر

بِلا چاند کے چاندنی رات کر لی

٭٭






کہیں بھی میرا ٹھکانہ نہیں زمانے میں

کہیں بھی میرا ٹھکانہ نہیں زمانے میں

نہ آشیانے کے باہر نہ آشیانے میں

رہے نہ چین سے صیاد کے زمانے میں

ہوئے اسیر لگی آگ آشیانے میں

اٹھا ہے شور اسیروں میں جا کے دیکھو تو!

کسی نے جان نہ دے دی ہو قید خانے میں

خدا کے واسطے دکھنے لگا ہے دل نہ سنو

ہزاروں درد بھرے ہیں مرے فسانے میں

ہزار کوششِ بادِ خلاف ہو تو کیا

بڑے ریاض کے تنکے ہیں آشیانے میں

ابھی تو آئے ہو بیٹھو ذرا تسلی سے

لگے گی دیر ذرا حالِ دل سنانے میں

ابھی بچھائے تھے تنکے کہ گر پڑی بجلی

بنا نہ تھا کہ لگی آگ آشیانے میں

تمہارا خالِ سیہ ہم نے سو دفعہ دیکھا

تمام ہو گئی تسبیح ایک دانے میں

ملیں نہ ہار تو میری لحد پہ ہنس دینا

سنا ہے پھول برستے ہیں مسکرانے میں

قمرؔ کسی سے بھی دل علاج ہو نہ سکا

ہم اپنا داغ دکھاتے رہے زمانے میں

٭٭






تمہی اپنے انصاف سے یہ بتا دو اگر ہم نہ ہوتے تو کس کو ستاتے

تمہی اپنے انصاف سے یہ بتا دو اگر ہم نہ ہوتے تو کس کو ستاتے

کوئی ناز اٹھانے کو پیدا نہ ہوتا یہ سب اپنے جود و ستم بھول جاتے

سرِ راہ یوں بے خطا عاشقوں کا تمہاری طرح سے نہیں خوں بہاتے

کم از کم تمہیں دل میں یہ سوچنا تھا کہیں گے مجھے لوگ کیا آتے جاتے

بہارِ جوانی کی تعریف سن کر ہنسی بھی گئی آ گیا بل جبیں پر

نہ توفیق دی تم کو اتنی خدا نے تم آ کر ہمارا جنازہ اٹھاتے

نتیجہ ہی کیا حالِ دل گر نہ کہتے قمرؔ دل کی حالت بہر حال کھلتی

یہ مانا کہ داغ ان پہ ظاہر نہ ہوتا ستارے ہم آنکھوں سے کیوں کر چھپاتے

٭٭






آتے ہی فصلِ گل نہ رہا اختیار میں

آتے ہی فصلِ گل نہ رہا اختیار میں

بجلی بھری ہوئی تھی دلِ بے قرار میں

دو پھول بھی چڑھائے نہ تم نے بہار میں

کانٹے تھے ایسے کون سے میرے مزار میں

مجبور جی رہے ہیں شبِ ہجرِ یار میں

اب کیا کریں کہ موت نہیں اختیار میں

پھر کہہ دو وہ ہی بات خفا ہو کے پیار میں

مر جائے تو قمرؔ تجھے رکھ دوں مزار میں

تنگ آ گیا ہوں آگ لگے ہجرِ یار میں

شعلے بھڑک رہے ہیں دلِ بے قرار میں

مرکز سے دائرے کا وہی فاصلہ رہا

سر پر تھا آسماں گئے جس دیار میں

اشکوں نے آج اور ڈبو دی رہی سہی

آنکھیں عدو سے مل نہ سکیں بزمِ یار میں

جاتے ہیں لے سلام اسیروں کا اے قفس

زندہ رہے تو آ کے ملیں گے بہار میں

اے شمع بجھنے والی میرا کوئی بھی نہیں

تنہا نہ چھوڑ مجھ کو شبِ انتظار میں

اٹھتی ہیں اے قمرؔ تیرے باعث سے انگلیاں

دھبہ لگا دیا فلکِ کج مدار میں

٭٭






ناخدا کا آسرا توہین ہے اے دل نہ دیکھ

ناخدا کا آسرا توہین ہے اے دل نہ دیکھ

آبرو سے ڈوب کر مر جا سوئے ساحل نہ دیکھ

او کماں والے بہت سی راز کی باتیں بھی ہیں

ایک اپنے تیر کی خاطر ہمارا دل نہ دیکھ

حشر میں پیش خدا کس پر ہے پرسش کا اثر

میرا منہ کیا دیکھتا ہے اپنا منہ قاتل نہ دیکھ

وہم آتا ہے یہ رہ رہ کر کہ تو رہزن نہ ہو

ہم کو مڑ کر بار بار اے رہبرِ منزل نہ دیکھ

اس سے اپنا نام یہ کہہ کر ذرا پوچھو قمرؔ

میری صورت سے ذرا پہچان میرا دل نہ دیکھ

٭٭






چمن والے بجلی سے بولے نہ چالے

چمن والے بجلی سے بولے نہ چالے

غریبوں کے گھر بے خطا پھونک ڈالے

نہ رکتے ہیں آنسو نہ تھمتے ہیں نالے

کہو کوئی کیسے محبت چھپا لے

ہنسے ہنس کے دل مانگا گیسو سنبھالے

بڑے رنگ پھینکے بڑے جال ڈالے

کہیں حشر دونوں جہاں میں نہ کر دیں

زمیں بوس آنسو فلک بوس نالے

تیرا پاس ہے ورنہ صیاد ہم نے

بہاروں میں کتنے قفس توڑ ڈالے

یہ تنظیمِ محفل ہے میں دیکھتا ہوں

یہاں سے اٹھائے وہاں سے نکالے

ٍتمہیں بندہ پرور ہمیں جانتے ہیں

بڑے سیدھے سادھے بڑے بھولے بھالے

کرے کوئی کیا گر وہ آئیں اچانک

نگاہوں کو روکے کہ دل کو سنبھالے

جفائیں کرو اور وفائیں بتاؤ

خدا تم سے پالا کسی کا نہ ڈالے

قمرؔ وہ شروعِ محبت کی راتیں

نہ دیکھے اندھیرے نہ دیکھے اجالے

٭٭






گر یہ ہے سوز کا عالم دلِ ناکام کے ساتھ

گر یہ ہے سوز کا عالم دلِ ناکام کے ساتھ

تیر ان کا نہ رہے گا کبھی آرام کے ساتھ

بے سبب آتا ہے موسیٰ کبھی جلوے کو جلال

بات تو خاص یہی تھی کہ گئے عام کے ساتھ

نورِ کعبہ نہیں تاریک صنم خانے میں

صبح ہوتی ہے نمودار کہیں شام کے ساتھ

ان کا خط پڑھتے ہی بیمار نے جنبش بھی نہ کی

نامہ بر موت بھی لے آیا تھا پیغام کے ساتھ

صبح تک رہ نہ سکی یار کے آنے کی امید

اے قمرؔ جل گیا دل شمع سرِ شام کے ساتھ

٭٭






شرف نہیں ہے کسی کو جو آدمی کے لئے

شرف نہیں ہے کسی کو جو آدمی کے لئے

فرشتے جھک گئے آدم کی بندگی کے لئے

فرشتہ راہ میں رک جائے منزلت دیکھو

جگہ وہ عرشِ معظم پہ آدمی کے لئے

جسے ازل میں فرشتے قبول کر نہ سکے

وہ بارِ عشق رکھا رب نے آدمی کے لئے

ازل سے کوئی ہمارا نہیں خدا کے سوا

مخالفت کی فرشتوں نے آدمی کے لئے

میری لحد پہ پتنگوں کا خون ہوتا ہے

حضور شمع جلائیں نہ روشنی کے لئے

چمن میں برق کی یہ بے تکلفی دیکھو

کہ جیسے میں نے بنایا تھا گھر اسی کے لئے

سنے جو ہجر کے شکوے تو ہنس کے فرمایا

نکل کے آئے تھے کیوں گھر سے عاشقی کے لئے

جب آپ بام پہ آئے ہیں پھر نقاب ہے کیوں

حضور چاند نکلتا ہے چاندنی کے لئے

نہ جانے سجدہ کس انسان کا نگاہ میں تھا

وگرنہ کم نہ فرشتے تھے بندگی کے لئے

قمرؔ یہ ہجر کا دن کس طرح گزارو گے

کہ رات کے تو ستارے تھے رات ہی کے لئے

٭٭






تم اپنی یاد سے کہہ دو نہ جائے چھوڑ کے دل

تم اپنی یاد سے کہہ دو نہ جائے چھوڑ کے دل

کہ دردِ ہجر نہ رکھ دے کہیں مروڑ کے دل

اب آپ کے میرے گھر تک قدم نہیں آتے

یہ وہ سزا ہے دیا تھا جو ہاتھ جوڑ کے دل

خدا رکھے ابھی کم سن ہو، قدر کیا جانو

ذرا سی دیر میں رکھ دو گے توڑ پھوڑ کے دل

لیا تھا جیسے اسی طرح پھیر بھی دیتے

یہ کیا کہ پھینک دیا تم نے منہ سکوڑ کے دل

ہمارے ساتھ نہ دیکھی بہار تاروں کی

قمرؔ چلے گئے وہ چاندنی میں توڑ کے دل

٭٭






غمِ بلبل چمن میں کم نہیں ہے

غمِ بلبل چمن میں کم نہیں ہے

یہ آنسو گل کے ہیں شبنم نہیں ہے

جنابِ شیخ یہ مے کم نہیں ہے

ہوس چھوڑو کہ تم میں دم نہیں ہے

لٹی ہے رات دن پھولوں کی خوشبو

مگر پھولوں کی خوشبو کم نہیں ہے

بدل دے اپنی گر صیاد فطرت

قفس بھی آشیاں سے کم نہیں ہے

کھڑے ہیں حشر میں وہ سب سے آگے

کہ جیسے کوئی نامحرم نہیں ہے

خوشی میں بھی نکل آتے ہیں آنسو

ہر اک آنسو ثبوتِ غم نہیں ہے

بجھا سکتی ہے تو آگ آشیاں کی

مگر یہ فطرتِ شبنم نہیں ہے

عجب ہے عالمِ شہرِ خموشاں

کسی کو بھی کسی کا غم نہیں ہے

جنابِ شیخ پی ہم نے بھی لیکن

جوابِ قبلۂ عالم نہیں ہے

کسی نے چھپ کے آنا روکنے کو

قمرؔ یہ چاندنی بھی کم نہیں ہے

٭٭






تم پر ہنسے تھے پھول بجا ہے ملال ہو

تم پر ہنسے تھے پھول بجا ہے ملال ہو

سبزے کا کیا قصور ہے جو پائمال ہو

در پر ترے پڑا ہوں کوئی پوچھتا نہیں

جیسے کسی غریب کی میت کا حال ہو

محشر میں خیر تم کو نہ قاتل کہیں گے ہم

یہ تو کہو جب اس کے علاوہ سوال ہو

بجلی گرے گی جس پہ وہی گھر نہ پھونک دوں

کیوں میری ضد پہ سارا چمن پائمال ہو

شاید قمرؔ یہ فیصلہ روزِ ازل کا ہے

جتنا جسے عروج ہو اتنا زوال ہو

٭٭






شیخ شغلِ شراب ہونا تھا

شیخ شغلِ شراب ہونا تھا

یہ بھی کارِ ثواب ہونا تھا

ان کو ہوتا شکست کا احساس

جب مرا کامیاب ہونا تھا

وہ سوالِ وفا نہ پھر کرتے

کوئی ایسا جواب ہونا تھا

٭٭






سوال چھوڑ کہ حالت یہ کیوں بنائی ہے

سوال چھوڑ کہ حالت یہ کیوں بنائی ہے

اسے نہ سن جو کہانی سنی سنائی ہے

پتنگا شمع پہ مرتا ہے کیا برائی ہے

اسے کسی نے بھی روکا ہے جس کی آئی ہے

ہنسے ہیں گل نہ کلی کوئی مسکرائی ہے

حضور کیسے یہ کہہ دوں بہار آئی ہے

ضرور کوئی علامت قضا کی پائی ہے

مجھے عزیزوں نے صورت تری دکھائی ہے

نہ جانے ہجر کی رات اور میری سیہ بختی

کہاں کہاں کے اندھیرے سمیٹ لائی ہے

لحد سے کب اٹھیں دیکھو مسافرانِ عمد

سفر ہے دور کا رستے میں نیند آ ئی ہے

اسیر کیا کہیں صیاد یہ تو سمجھا دے

قفس میں بوئے چمن پوچھنے کو آئی ہے

مجھے نہ چھیڑ قیامت ہے میری آہوں میں

خدا رکھے تری محفل سجی سجائی ہے

رکھا ہے آئینہ پیشِ نفس طبیبوں نے

یہ آج حالِ مریضِ غمِ جدائی ہے

انہیں ستاروں کی محفل کا صدر ہوں میں قمرؔ

کہ جن ستاروں نے میری ہنسی اڑائی ہے

٭٭






قسم دے دے کے ساقی ساغرِ مے دے نہ تو مجھ کو

قسم دے دے کے ساقی ساغرِ مے دے نہ تو مجھ کو

وہ محفل میں نہیں تو کیوں پلاتا ہے لہو مجھ کو

مجھے خاطر سے رکھ ساقی کہ میخانے کی زینت ہوں

یہ رونق پھر کہاں ہو گی اٹھا دے گا جو تو مجھ کو

دو عالم میں کسی کافر کو کچھ بھی سوجھتا ہو گا

تمہی تم اب نظر آنے لگے ہو چار سو مجھ کو

میں ہی بھولا ہوں ساقی یا بدل ڈالا ہے میخانہ

نظر آتے ہیں وہ مے کش نہ وہ جام و سبو مجھ کو

قمرؔ چھپنا مرا اک انتشارِ عالمِ شب ہے

ستارے آسماں پر ڈھوندتے ہیں چار سو مجھ کو

٭٭






کسی کا نام لو بے نام افسانے بہت سے ہیں

کسی کا نام لو بے نام افسانے بہت سے ہیں

نہ جانے کس کو تم کہتے ہو دیوانے بہت سے ہیں

جفاؤں کے گلے تم سے خدا جانے بہت سے ہیں

تری محفل میں ورنہ جانے پہچانے بہت سے ہیں

دھری رہ جائے گی پابندیِ زنداں جو اب چھیڑا

یہ دربانوں کو سمجھا دو کہ دیوانے بہت سے ہیں

بس اب سو جاؤ نیند آنکھوں میں ہے کل پھر سنائیں گے

ذرا سی رہ گئی ہے رات افسانے بہت سے ہیں

تمہیں کس نے بلایا مے کشوں سے یہ نہ کہہ ساقی

طبیعت مل گئی ہے ورنہ میخانے بہت سے ہیں

بڑی قربانیوں کے بعد رہنا باغ میں ہو گا

ابھی تو آشیاں بجلی سے جلوانے بہت سے ہیں

لکھی ہے خاک اڑانی ہی گر اپنے مقدر میں

ترے کوچے پہ کیا موقوف دیوانے بہت سے ہیں

نہ رو اے شمع موجودہ پتنگوں کی مصیبت پر

ابھی محفل سے باہر تیرے پروانے بہت سے ہیں

مرے کہنے سے ہو گی ترک رسم و راہ غیروں سے

بجا ہے آپ نے کہنے میرے مانے بہت سے ہیں

قمرؔ اللہ ساتھ ایمان کے منزل پہ پہنچا دے

حرم کی راہ میں سنتے ہیں بت خانے بہت سے ہیں

٭٭






خبر اب تو لے بے مروت کسی کی

خبر اب تو لے بے مروت کسی کی

چلی جان تیری بدولت کسی کی

مجھے حشر میں پیشِ داور جو دیکھا

ذرا سی نکل آئی صورت کسی کی

خدا کے لئے یوں نہ ٹھکرا کے چلئے

کہ پامال ہوتی ہے تربت کسی کی

ذرا روٹھ جانے پہ اتنی خوشامد

قمرؔ تم بگاڑو گے عادت کسی کی

٭٭






بہاروں میں یہ بھی ستم دیکھتے ہیں

بہاروں میں یہ بھی ستم دیکھتے ہیں

کہ جلتا ہے گھر اور ہم دیکھتے ہیں

زمانے پہ ان کے کرم دیکھتے ہیں

مگر اپنی قسمت کو ہم دیکھتے ہیں

تری زلفِ برہم کی تصویر لے کر

وہی عشق کے پیچ و خم دیکھتے ہیں

انہیں کچھ نہ کچھ میرے مرنے پہ شک ہے

وہ رہ رہ کے آنکھوں میں دم دیکھتے ہیں

ہمیں بزمِ دشمن سے مطلب نہیں ہے

ترا عہد تیری قسم دیکھتے ہیں

یہ معلوم ہوتا ہے تم سامنے ہو

تمہیں جب تصور میں ہم دیکھتے ہیں

رہِ عشق میں ہیں بڑی احتیاطیں

یہاں لوگ اک اک قدم دیکھتے ہیں

نتیجہ بھی کیا ایسی بزمِ عدو سے

نہ تم دیکھتے ہو نہ ہم دیکھتے ہیں

شباب ان پہ کچھ روز سے آ رہا ہے

بس اب دن قیامت میں کم دیکھتے ہیں

رکھے ہم نے جس شاخِ گلشن پہ تنکے

وہی شاخِ گلشن قلم دیکھتے ہیں

قمرؔ سو گئے ہیں سرِ شام شاید

تجلی ستاروں میں کم دیکھتے ہیں

٭٭






لاکھ ہوں خاموش پھر بھی قابل توقیر ہوں

لاکھ ہوں خاموش پھر بھی قابل توقیر ہوں

جس سے شہرت ہے مصور کی میں وہ تصویر ہوں

اے مصور یہ معمہ اور سمجھا دے مجھے

کیوں نظر آتا ہوں میں جب کہ تری تصویر ہوں

فرق کیا میرے لئے روزِ ازل اور حشر میں

جب بھی میں تصویر تھا اور اب بھی میں تصویر ہوں

میری فطرت پر بھلا ترکِ وطن کا کیا اثر

لاکھ آئینے بدل ڈالو وہی تصویر ہوں

٭٭






تیرے نثار نہ دیکھی کوئی خوشی میں نے

تیرے نثار نہ دیکھی کوئی خوشی میں نے

کہ اب تو موت کو سمجھا ہے زندگی میں نے

یہ دل میں سوچ کے توبہ بھی توڑ دی میں نے

نہ جانے کیا کہے ساقی اگر نہ پی میں نے

کوئی بلا میرے سر پر ضرور آئے گی

کہ تیری زلفِ پریشاں سنوار دی میں نے

سحر ہوئی شبِ وعدہ کا اضطراب کیا

ستارے چھپ گئے گل کر دی روشنی میں نے

سوائے دل مجھے دیر و حرم سے کیا مطلب

جگہ حضور کے ملنے کی ڈھونڈ لی میں نے

جہاں چلا دیا ساغر کا دور اے واعظ

وہیں پہ گردشِ ایام روک دی میں نے

بلائیں لینے پہ آپ اتنے ہو گئے برہم

حضور کون سی جاگیر چھین لی میں نے

دعائیں دو مجھے در در جنوں میں پھر پھر کر

تمہاری شہرتیں کر دیں گلی گلی میں نے

جواب اس کا تو شاید فلک بھی دے نہ سکے

وہ بندگی جو تیری رہ گزر میں کی میں نے

وہ جانے کیسے پتہ دے گئے تھے گلشن کا

نہ چھوڑا پھول نہ چھوڑی کلی کلی میں نے

قمرؔ وہ نیند میں تھے ان کو کیا خبر ہو گی

کہ ان پہ شب کو لٹائی ہے چاندنی میں نے

٭٭






بار دامن پہ ترے مجھ کو گوارا تو نہ تھا

بار دامن پہ ترے مجھ کو گوارا تو نہ تھا

لیکن آنسو تھا کوئی چرخ کا تارا تو نہ تھا

تو نے لنگر بھی نہ چھوڑا تھا کہ کشتی ڈوبی

ناخدا یہ کوئی طوفاں تھا کنارا تو نہ تھا

نالے سنتے ہی جگر تھامے ہوئے کیوں آئے

رونے والوں نے کوئی تم کو پکارا تو نہ تھا

تم پہ مر کر تمہیں بدنام کیا دنیا میں

یہ خطا عشق کی تھی کام ہمارا تو نہ تھا

٭٭






پیتے ہی سرخ آنکھیں ہیں مستِ شراب کی

پیتے ہی سرخ آنکھیں ہیں مستِ شراب کی

گرمی تو دیکھو ڈوبے ہوئے آفتاب کی

رخ سے جدا جو حشر میں تم نے نقاب کی

دنیا نہ تاب لائے گی دو آفتاب کی

ساقی یہ رقم سچ ہے جو مجھ پر حساب کی

بوتل پہ ہاتھ رکھ کے قسم کھا شراب کی

کیا کم تھا حسنِ باغ کہ اے باغبانِ حسن

اک شاخ تو نے اور لگا دی شباب کی

وہ تو رہا کلیم کے اصرار کا جواب

اور یہ جو تو نے طور کی مٹی خراب کی

پھیرو نہ آنکھیں تم میرے اشکوں کے جوش پر

طوفاں میں ڈوبتی نہیں کشتی حباب کی

اللہ اس کا کچھ بھی جوانی پہ حق نہیں

برسوں دعائیں مانگی ہیں جس نے شباب کی

رکھیے معاف شیخ جی مسجد میں ہجوِ مے

باتیں خدا کے گھر میں نہ کیجے شراب کی

باغِ جہاں میں اور بھی تم سے تو ہیں مگر

ہر پھول میں نہیں ہے نزاکت گلاب کی

جب سے گئے ہیں دیکھ کے تارے وہ اے قمرؔ

صورت بدل گئی ہے شبِ ماہتاب کی

٭٭






روز جانم ترے کوچے میں پریشاں ہونا

روز جانم ترے کوچے میں پریشاں ہونا

ہم سے آتا نہیں منت کشِ درباں ہونا

کیسے چھپ جائے گا وحشت میں نمایاں ہونا

اک نہ اک دن میرے دامن کو گریباں ہونا

بے سبب بت کدۂ دہر سے پھرنے والے

کفر جب بات نہ پوچھے تو مسلماں ہونا

تم نے گردن مرے مرنے پہ جھکائی کیا خوب

خود مجھے کوسنا اور خود ہی پشیماں ہونا

٭٭






نشیمن اہلِ چمن کو تو بار ہو نہ سکا

نشیمن اہلِ چمن کو تو بار ہو نہ سکا

مگر یہ داغ قبولِ بہار ہو نہ سکا

بشر کو زیست پہ کیوں اختیار ہو نہ سکا

یہ راز حل میرے پروردگار ہو نہ سکا

فروغِ عشق میں حاصل قرار ہو نہ سکا

چڑھا وہ نشہ کہ جس کا اتار ہو نہ سکا

قفس ہی دیکھ لیں اے باغباں جو تو کہہ دے

یہ آشیاں تو ہمیں سازگار ہو نہ سکا

تمہارے گیسو و عارض سے کوئی کام اب تک

سوائے گردشِ لیل و نہار ہو نہ سکا

وہ جن کے قصر کی شب رشکِ روزِ روشن تھی

انہیں نصیب چراغِ مزار ہو نہ سکا

تباہ ہو گئے دنیائے عشق میں لاکھوں

فریبِ حسن مگر آشکار ہو نہ سکا

یہ کوئی موت میں ہے موت ہم غریبوں کی

کفن ملا تو میسر مزار ہو نہ سکا

وہ ایک ہم کے ثبوتِ وفا میں جاں دے دی

وہ ایک تم کہ تمہیں اعتبار ہو نہ سکا

امید صبح کے طعنے ہزارہا دے گی

تمام رات اگر انتظار ہو نہ سکا

سمجھ سکی میری فطرت نہ آج تک دنیا

قمرؔ وہ راز ہوں جو آشکار ہو نہ سکا

٭٭






خیال دیر و حرم میں بدل بھی جاتے ہیں

خیال دیر و حرم میں بدل بھی جاتے ہیں

فریب ایسے مقاموں پہ چل بھی جاتے ہیں

ہمارا غم نہ کریں سوچ کر یہ اہلِ وطن

بہت سے پھول چمن سے نکل بھی جاتے ہیں

پتنگے شمع کے اوپر سبھی نہیں مرتے

پتنگے شمع سے بچ کر نکل بھی جاتے ہیں

عدو کی بزم میں وہ آج کل نہیں جاتے

عدو کی بزم میں وہ آج کل بھی جاتے ہیں

٭٭






شوقِ دید آنکھوں میں اور ملنے کی حسرت دل میں ہے

شوقِ دید آنکھوں میں اور ملنے کی حسرت دل میں ہے

جو بھی جس منزل میں رہتا ہے اسی منزل میں ہے

منزلیں آباد ہیں مہمان ہر منزل میں ہے

سر میں سودا،انتظار آنکھوں میں، حسرت دل میں ہے

ان کو وہ غم ہو تو کیوں کر ہو جو میرے دل میں ہے

فرقِ حسن و گل کی جو ترتیب آب و گل میں ہے

خوفِ طوفاں اس قدر کاہے کو تیرے دل میں ہے

ناخدا کشتی ابھی تو دامنِ ساحل میں ہے

مستقل رہتا نہیں سرکار ارمانِ وفا

کل تمہارے دل میں ہو گا آج میرے دل میں ہے

میں ہوں یا اک شمع ہے یا ایک پروانہ غریب

جلنے والا اور بھی کوئی تیری محفل میں ہے ؟

غیر سے رکھنا پڑا مجبور ہو کر واسطہ

تم ہمارے دل میں ہو دشمن تمہارے دل میں ہے

جل گیا گلشن میں گھر اور قید کی مدت بھی ختم

اب قفس سے چھوٹنے والا بڑی مشکل میں ہے

کیا کسی مظلوم کی گردن پہ خنجر رک گیا

دم بخود اب تک زمانہ کوچۂ قاتل میں ہے

غیر سے ترکِ تعلق کی قسم والے سلام

کون یہ بیٹھا ہوا اب غیر کی محفل میں ہے

جلوہ گر بزمِ حسیناں میں ہیں وہ اس شان سے

چاند جیسے اے قمرؔ تاروں بھری محفل میں ہے

٭٭






خوب حیلہ ہے کہ پیمانِ کہن یاد نہیں

خوب حیلہ ہے کہ پیمانِ کہن یاد نہیں

اپنا وعدہ تجھے او وعدہ شکن یاد نہیں

مدتیں ہو گئیں صیاد نے چھوڑا بھی تو کیا

تابِ پرواز نہیں راہِ چمن یاد نہیں

آج پھر مائلِ بیدار نظر آتا ہے

کل کے نالے تجھے اے چرخِ کہن یاد نہیں

دشتِ وحشت نے تو کچھ جسم پہ چھوڑا ہی نہ تھا

رہ گئے کیسے یہ دو تارِ کفن یاد نہیں

٭٭






تم میں جو بات ہے وہ بات نہیں آئی ہے

تم میں جو بات ہے وہ بات نہیں آئی ہے

یہ یہ تصویر کسی غیر سے کھنچوائی ہے

دیکھیں کیسا تمہیں دعوائے مسیحائی ہے

آج بیمار نے مرنے کی قسم کھائی ہے

بس یہ رودادِ محبت یہیں رہنے دیجے

آگے کہتا ہوں تو سرکار کی رسوائی ہے

کثرتِ رنج و الم یاس و تمنا کا ہجوم

کتنے ہنگاموں کی مہماں میری تنہائی ہے

کیوں سناؤں میں تجھے وعدہ خلافی تیری

کیوں کہلواؤں کہ دیوانہ ہے سودائی ہے

خوب صیاد ستا جور کر ایذا پہنچا

اب تو تقدیر ترے دام میں لے آئی ہے

گوشۂ چشم سے باہر ہوئی سرمے کی لکیر

خیر ہو میان سے تلوار نکل آئی ہے

بیکسی میں بھی مریض ان کا اکیلا نہ رہا

وہ ادھر اٹھ کے گئے اور قضا آئی ہے

محفلِ غیر میں اے اشک نہ آنکھوں سے نکل

تیرے پردے میں کسی شوخ کی رسوائی ہے

قطرۂ خوں میرے اس سوختہ دل میں ہے کہاں

کوئی حسرت تیرے پیکاں سے لپٹ آئی ہے

اے قمرؔ چھپ کے وہ آئیں بھی تو کیوں کر آئیں

چاندنی آج سرِ شام نکل آئی ہے

٭٭






کوئی دنیا میں ہے مجھ سا خانماں برباد بھی

کوئی دنیا میں ہے مجھ سا خانماں برباد بھی

آشیاں جس جا رکھا پہنچا وہاں صیاد بھی

ان کے کانوں تک پہنچ جانا کوئی دشوار تھا

کر گئی سازش رقیبوں سے مگر فریاد بھی

بند آنکھوں کو کئے یونہی چلے جاتے ہیں لوگ

کس قدر سیدھی ہے یہ راہِ عدم آباد بھی

شکوہ کرنے کے لئے جاتے تو ہو اس شوخ سے

اے قمرؔ یہ تو کہو کچھ کر لیا ہے یاد بھی

٭٭






اب یہ نوبت آ گئی ناکامیِ تقدیر سے

اب یہ نوبت آ گئی ناکامیِ تقدیر سے

حالِ دل کہنے کو بیٹھا ہوں تری تصویر سے

اک تو میں پہلے ہی دق تھا جور چرخ پیر سے

تم ملے بھی ہو تو ایسے ہی ملے تقدیر سے

تیغِ ابرو کھینچتے کیوں ہو، نظر سے کام لو

تم ابھی کم سن ہو پہلے مشق کر لو تیر سے

یاد کر کر کے ابھی بیمار نے توڑا ہے دم

آپ آئے تو سہی لیکن ذرا تاخیر سے

رات دن جاری رہِ ملکِ عدم ہے اور پھر

سامنا ہوتا نہیں رہ گیر کا رہ گیر سے

مل گیا گلشن کا صحرا سے جنوں میں سلسلہ

بیل بوٹے بن گئے کھنچتی ہوئی زنجیر سے

وہ تو یہ کہیے خیالِ زلفِ پیچاں آ گیا

ورنہ دیوانے بھی رکتے ہیں کہیں زنجیر سے

لے لیا ہے تیری خاطر سے جواب اے نامہ بر

ورنہ یہ تحریر تو ملتی نہیں تحریر سے

تم درِ زنداں پہ اپنی زلف سلجھاتے تو ہو

کوئی دیوانہ الجھ بیٹھا اگر زنجیر سے؟

بزم میں ترچھی نظر والے خبر بھی ہے تجھے

کتنے دل زخمی ہوئے ہیں ایک تیرے تیر سے

چاندنی کی سیر ان کے ساتھ! یہ حسرت فضول

اے قمرؔ نفرت ہے ان کو چاند کی تنویر سے

٭٭






سوزِ دل حد سے سوا ہو اشک افشانی نہ ہو

سوزِ دل حد سے سوا ہو اشک افشانی نہ ہو

اس سے پوچھو جس کا گھر جلتا ہو اور پانی نہ ہو

بزمِ جاناں میں کہیں اشکوں کی طغیانی نہ ہو

امتحاں ہے ضبط کا اور آبرو پانی نہ ہو

وہ تماشہ دیکھنے آئیں گے میری موت کا

یا الہٰی نزع کے عالم میں آسانی نہ ہو

نزع کے عالم میں کیوں روتے ہو گیسو کھول کر

وقتِ آخر مرنے والے کو پریشانی نہ ہو

٭٭






اب کیسے رفو پیراہن ہو اس آوارہ دیوانے کا

اب کیسے رفو پیراہن ہو اس آوارہ دیوانے کا

کیا جانے گریباں ہو گا کہاں دامن سے بڑا دیوانے کا

واعظ نہ سنے گا ساقی کی لالچ ہے اسے پیمانے کی

مجھ سے ہوں اگر ایسی باتیں میں نام نہ لوں میخانے کا

کیا جانے کہے گا کیا آ کر ہے دور یہاں پیمانے کا

اللہ کرے واعظ کو کبھی رستہ نہ ملے میخانے کا

تربت سے لگا کر تا محشر سنتے ہیں کہ ملتا کوئی نہیں

منزل ہے بڑی آبادی کی رستہ ہے بڑا ویرانے کا

جنت میں پئے گا تو کیوں کر اے شیخ یہاں گر مشق نہ کی

اب مانے نہ مانے تیری خوشی ہے کام مرا سمجھانے کا

جی چاہا جہاں پر روک دیا پاؤں میں چبھے اور ٹوٹ گئے

خاروں نے بھی دل میں سوچ لیا ہے کون یہاں دیوانے کا

ہیں تنگ تیرے میکش ساقی یہ پڑھ کے نماز آتا ہے یہاں

یا شیخ کی توبہ تڑوا دے یا وقت بدل میخانے کا

ہر صبح کو آہِ سرد سے دل شاداب جراحت رہتا ہے

گر یوں ہی رہے گی بادِ سحر یہ پھول نہیں مرجھانے کا

بہکے ہوئے واعظ سے مل کر کیوں بیٹھے ہوئے ہو مے خوارو

گر توڑ دیا سب جام و سبو کیا کر لو گے دیوانے کا

احباب یہ تم کہتے ہو بجا وہ بزمِ عدو میں بیٹھے ہیں

وہ آئیں نہ آئیں ان کی خوشی چرچا تو کرو مر جانے کا

اس وقت کھلے گا جس کو بھی احساسِ محبت ہے کہ نہیں

جب شمع سرِ محفل رو کر منہ دیکھے گی پروانے کا

بادل کے اندھیرے میں چھپ کر میخانے میں آ بیٹھا ہے

گر چاندنی ہو جائے گی قمرؔ یہ شیخ نہیں پھر جانے کا

٭٭






دل میں طاقت بھی پئے اشکِ رواں لازم ہے

دل میں طاقت بھی پئے اشکِ رواں لازم ہے

قربِ دریا ہو تو مضبوط مکاں لازم ہے

سن بھی صیاد کا کم، بات قفس کی بھی بڑی

نہ شکایت ہے مناسب نہ فغاں لازم ہے

نزع میں مجھ سے وفاؤں کی معافی کیسی

تم اسی ضد پہ رہو پاسِ زباں لازم ہے

٭٭






پھول ہنس نکلے جو الجھا دستِ گلچیں خار میں

پھول ہنس نکلے جو الجھا دستِ گلچیں خار میں

وہ بھی کیا دن تھے بہار آئی تھی جب گلزار میں

تیرا کیا لیتے ہیں اے دربان کوئے یار میں

بیٹھ جاتے ہیں گھڑی بھر سایۂ دیوار میں

مدتوں کھٹکے نگاہ برقِ شعلہ بار میں

چار تنکے رکھ لئے تھے شاخ پر گلزار نے

حشر میں انکار تو کر دوں میں اپنے قتل سے

کیا کروں دھبے لہو کے ہیں تری تلوار میں

دیکھتے ہی دیکھتے صیاد لے آیا مجھے

دیکھتے ہی دیکھتے سب رہ گئے گلزار میں

مان جاؤ وصل کی شب ذکرِ دشمن چھوڑ دو

صبح ہو جائے گی دیکھو مفت کی تکرار میں

ختم شاید ہو گئی ہے دل کی ساری کائنات

خون کی سرخی نظر آتی نہیں سوفار میں

دستِ نازک تھک گیا تو کیا ہے شرمانے کی بات

پھر میں حاضر ہوں اگر دم ہو تری تلوار میں

غرق ہو گی کشتیِ عالم نہ رلواؤ مجھے

سینکڑوں پنہاں ہیں طوفاں چشمِ دریا با ر میں

فصلِ گل میں رہ سکے گا کیا قیامت آشیاں

جب گریں گی بجلیاں آٹھوں پہر گلزار میں

صرف منہ دیکھے کی الفت سب کو اے صیاد تھی

کوئی بھی اب یاد کرتا ہے مجھے گلزار میں

ڈھونڈتا پھرتا ہوں میں بادِ سحر کو اے قمرؔ

پھول کچھ مرجھا گئے ہیں ان کے باسی ہار میں

٭٭






یہ سوچ کر وہ نظر آئیں گے کہیں نہ کہیں

یہ سوچ کر وہ نظر آئیں گے کہیں نہ کہیں

حیات و موت کا جاتا رہے یقیں نہ کہیں

یہ کہہ کے بڑھ گئے دیر و حرم سے دیوانے

جھکائیں گے تیرے در کے سوا جبیں نہ کہیں

جنوں میں چاک گریباں کو بخیہ ساز نہ چھیڑ

اب اور ہاتھ سے جائے یہ آستیں نہ کہیں

٭٭






کفن تابوت کے کچھ تختے لحد کے

کفن تابوت کے کچھ تختے لحد کے

یہ سامانِ سفر ہے اور میں ہوں

جو موت آئے گی اٹھے گی کیسے میت

کہ بس اک چارہ گر ہے اور میں ہوں

دکھا دوں گا وفائے غیر اک دن

سلامت تو اگر ہے اور میں ہوں

قسم کھا کر چلا ہوں آج گھر سے

کہ تیرا سنگِ در ہے اور میں ہوں

انہیں خط لکھ لیا ہے میں نے لیکن

تلاشِ نامہ بر ہے اور میں ہوں

شبِ غم کاٹنے والوں میں شامل

یہ اک شمعِ سحر ہے اور میں ہوں

تری خاطر یہ آ پہنچی ہے نوبت

ہزاروں کی نظر ہے اور میں ہوں

گراں ہوں جب سے میں تیری نظر سے

زمانے کی نظر ہے اور میں ہوں

شبِ فرقت قمرؔ یوں کٹ رہی ہے

ستاروں پر نظر ہے اور میں ہوں

عدو نے ڈر سے پوچھا تھا وہ بولے

جلالی کا قمرؔ ہے اور میں ہوں

٭٭






نہ جانے کتنے سرائے جہاں سے گزرے ہیں

نہ جانے کتنے سرائے جہاں سے گزرے ہیں

طرح طرح کے مسافر یہاں سے گزرے ہیں

خدا دکھائے نہ وہ وقت جب قفس کے اسیر

نظر جھکائے ہوئے گلستاں سے گزرے ہیں

جفائیں پوچھیے تنکوں پہ برق و صرصر کی

یہ حادثے نظرِ باغباں سے گزرے ہیں

٭٭






آنکھ کے آنسو پہ دل گھبرا گیا

آنکھ کے آنسو پہ دل گھبرا گیا

خیر ہو کشتی میں پانی آ گیا

سبزۂ خط دیکھ کر اترا گیا

حسن والے حسن پر حرف آ گیا

پرسشِ غم پہ جو موقع پا گیا

میں سرے سے داستاں دہرا گیا

صبح دم چہرے پہ گیسو آ گیا

دن نکلتے ہی اندھیرا چھا گیا

تیرے وعدے پر تبسم کے نثار

اب میں سمجھا ہوں کہ دھوکہ کھا گیا

واقعاتِ سوزِ شامِ غم نہ پوچھ

سرد آہوں سے پسینہ آ گیا

لائے تھے تنکے کہ بجلی گر پڑی

بے بنے ہی آشیاں کام آ گیا

اب کسے تکتے ہو اٹھ کے طور پر

تھا جو جلوہ حضرتِ موسیٰ آ گیا

خلق سے کہہ آئے جو کہنا تھا ہمیں

تم بتاؤ تم سے کیا پوچھا گیا

طور کی برباد مٹی ہو گئی

آپ کا کیا حضرتِ موسیٰ گیا

ہر طرح ٹالی گئی وعدے کی شب

بال کاڑھے آئینہ دیکھا گیا

ہجر کی شب میں نے وہ نالے کئے

آسماں تک اے قمرؔ تھرا گیا

٭٭






قطعہ

عزیز گھر سے جو میت مری اٹھا کے چلے

اشارے غیر سے اس دشمنِ وفا کے چلے

دکھا کے میرے جنازے کو مسکرا کے کہا

بتوں نے بات نہ پوچھی تو اب خدا کے چلے






آہ بھر کے یاد کرتے ہو ہر افسانے کے ساتھ

آہ بھر کے یاد کرتے ہو ہر افسانے کے ساتھ

تم نے کیوں کی تھی محبت ایسے دیوانے کے ساتھ

زلف پابندِ کشاکش کیوں ہوئی شانے کے ساتھ

ٹھوکریں زنجیر بھی کھاتی ہے دیوانے کے ساتھ

وہ ادا ساقی کی دیکھی مے چھلک جانے کے بعد

پڑ گئی چکر میں توبہ میری پیمانے کے ساتھ

آس بندھ کر ٹوٹ جاتی ہے مجھے رونا یہ ہے

آپ ہنس دیتے ہیں وعدے پر قسم کھانے کے بعد

بزمِ ساقی میں نظر نیچی کئے بیٹھا ہوں میں

تھک گئی ہے آنکھ پھرے پھرتے پیمانے کے ساتھ

یہ تو اے ظالم ہوا جاتا ہے دعوے کا ثبوت

تیرا انکارِ ستم محشر میں شرمانے کے ساتھ

حضرتِ ناصح نصیحت تو سر آنکھوں پر مگر

آپ بھی تو کچھ سمجھتے جائیں سمجھانے کے ساتھ

جب سے توبہ کی ہے ملتی ہی نہیں وہ صحبتیں

چھٹ گئے یارانِ میخانہ بھی میخانے کے ساتھ

اب زمانے میں کوئی اہلِ وفا ملتا نہیں

کیا وفا بھی دفن کر دی میرے دفنانے کے ساتھ

دشتِ محفل میں کسی کو ہم بھی دیکھ آئے ہیں کل

کچھ بگولے پھر رہے تھے تیرے دیوانے کے ساتھ

پھول پر رونق نہیں آتی بلا سبزہ قمرؔ

حسن کی فطرت ہے خوش رہتا ہے بیگانے کے ساتھ

٭٭






قطعہ

مزہ ہے حشر میں دونوں ہوں بے بلائے ہوئے

ہم ان کے ساتھ میں ہوں بے بتائے ہوئے

خدا کے آگے سوال و جواب سے پہلے

وہ پوچھیں کون ہو تم ہم کہیں ستائے ہوئے

٭٭






کس یاس سے مرے ہیں مریض انتظار کے

کس یاس سے مرے ہیں مریض انتظار کے

قاتل کو یاد کر کے قضا کو پکار کے

مقتل میں حال پوچھو نہ مجھ بے قرار کے

تم اپنے گھر جاؤ چھری پھیر پھار کے

مرجھا گئے ہیں رات کو پھول ان کے ہار کے

لانا کوئی نسیمِ سحر کو پکار کے

رکتی نہیں ہے گردشِ ایام کی ہنسی

لے آنا طاق سے مرا ساغر اتار کے

جی ہاں شراب خور ہیں ہم تو جنابِ شیخ

بندے بس ایک آپ ہیں پروردگار کے

جس جا لکھا ہوا تھا مقدر میں ڈوبنا

کشتی کو موج لائی وہیں گھیر گھار کے

صیاد تیرے حکمِ رہائی کا شکریہ

ہم تو قفس میں کاٹ چکے دن بہار کے

جیسے جفا و ظلم سے کچھ واسطہ نہیں

قربان جائیے نگہِ شرمسار کے

ہم ان سے بات کر نہ سکے بزمِ غیر میں

شوقِ کلام رہ گیا دل مار مار کے

بجلی کبھی گری کبھی صیاد آ گیا

ہم نے تو چار دن بھی نہ دیکھے بہار کے

کتنی طویل ہوتی ہے انساں کی زندگی

سمجھا ہوں آج میں شبِ فرقت گزار کے

میت قمرؔ کی دیکھ کے بولے وہ صبح ہجر

تارے گنے گئے نہ شبِ انتظار کے

٭٭






قطعہ

خوشی میں آئے تھے اہلِ وطن سے مل مل کے

کسے خبر تھی کہ یہ راستے ہیں مشکل کے

جواب دے گئے پاؤں یہ کوئی بات نہیں

سوال یہ ہے کہ گھر کے رہے نہ منزل کے

٭٭






قیدیوں کو کچھ تمہارا پاس دامن گیر ہے

قیدیوں کو کچھ تمہارا پاس دامن گیر ہے

ورنہ یہ زنجیر کچھ زنجیر میں زنجیر ہے

صرف یہ پوچھا تھا کوئی وصل کی تدبیر ہے

ہنس کے فرمانے لگے کیا موت دامن گیر ہے

یہ جواب ان کا نہیں ہے غیر کی تدبیر ہے

نامہ بر کا کچھ بیاں ہے ان کی کچھ تحریر ہے

کون آئینے کو سمجھائے کہ یہ دل گیر ہے

سر سے لے کر پاؤں تک بالکل مری تصویر ہے

او کماں والے تیری رسوائی کا ہے کتنا ڈر

چارہ گر سے میں نہیں کہتا کہ دل میں تیر ہے

جیتے جی دیوانہ گیسو سے تو چھٹنے سے رہا

عمر بھی اتنی نہیں جتنی بڑی زنجیر ہے

کل کو زنداں میں میرا جوشِ جنوں رسوا نہ ہو

آپ پہلے دیکھ لیں ٹوٹی ہوئی زنجیر ہے

اس میں دل کی کیا خطا کیوں دل سے برہم ہو گئے

کھنچتے کھنچتے ہی کھنچے گا تیر آخر تیر ہے

قبر میں رکھ کر عزیز و اقربا یہ کہہ گئے

ہم یہیں تک ساتھ تھے آگے تری تقدیر ہے

اے قمرؔ پچھتاؤ گے ان کو دکھا کر آئینہ

منہ پہ کہہ دے گا تمہاری چاند سی تصویر ہے

٭٭






قطعہ

ملا نہ مجھ سا جو اہلِ وفا تو کیا ہو گا

ترس کے رہ گیا شوقِ جفا تو کیا ہو گا

حضور کو فقط اپنے شباب پر ہے غرور

اگر شباب دغا دے گیا تو کیا ہو گا

٭٭






بڑھی جاتی ہے رسوائی جنونِ فتنہ ساماں کی

بڑھی جاتی ہے رسوائی جنونِ فتنہ ساماں کی

تمہی دامن میں رکھ لو دھجیاں میرے گریباں کی

صدائے آہ سن سن کر مریضِ سوز و پنہاں کی

سحر تک تھرتھرائی لو چراغِ شامِ ہجراں کی

یہی فطرت ہے گر دستِ جنون فتنہ ساماں کی

کرے گا اس طرح بخیہ گری کب تک گریباں کی

نوازش ہے یہ سب دست جنونِ فتنہ ساماں کی

کہ اب صورت بھی پہچانی نہیں جاتی گریباں کی

نہ جانے آج کل کس حال میں ہے ان کا دیوانہ

خبر کوئی بیاباں سے نہیں آتی بیاباں کی

ہمارے سامنے آنے کو وہ سو بار آئے تھے

مگر کیا کیجیے قسمت بری تھی چشمِ حیراں کی

نہ دیتے خیر کاندھا دو قدم کو ساتھ تو چلتے

تم اتنا ہی سمجھ لیتے کہ میت ہے مسلماں کی

چمن کو چھوڑ کر صحرا میں جا بیٹھا ہے دیوانہ

گلستاں کے نہ کام آئی کہ مٹی تھی بیاباں کی

دلِ ویراں سے کیا سوزِ نہاں جائے گا اے ہمدم

کہ مشکل سے بجھا کرتی ہے آگ اکثر بیاباں کی

سنبھل کر آئینے کو دیکھنا او دیکھنے والے

تری زلفوں میں صورت ہے مرے حالِ پریشاں کی

ہمیں اے باغباں کیوں باغ کا مالک نہیں کہتا

سروں کو بیچ کر قیمت ادا کی ہے گلستاں کی

قمرؔ محفل کبھی کی بھر گئی اور وہ نہیں آئے

ستارے راہ کب سے تک رہے ہیں ماہِ تاباں کی

٭٭






قطعہ

تم ہم سے جو کترائے ہوئے پھرتے ہو

کیا غیر کے بہکائے ہوئے پھرتے ہو

یہ حسن زیادہ سے زیادہ دو دن

جس حسن پہ اترائے ہوئے پھرتے ہو

٭٭






یہ روز حشر کا اور شکوۂ وفا کے لئے

یہ روز حشر کا اور شکوۂ وفا کے لئے

خدا کے سامنے تو چپ رہو خدا کے لئے

الہٰی وقت بدل دے میری قضا کے لئے

جو کوستے ہیں وہ بیٹھے ہیں اب دعا کے لئے

بھنور سے ناؤ بچے تیرے بس کی بات نہیں

مگر تمہیں نہ ملے گا کوئی وفا کے لئے

ہزار بار ملے وہ مگر نصیب کی بات

کبھی زباں نہ کھلی عرضِ مدعا کے لئے

کوئی ضرور ہے دیدارِ آخری میں نقاب

ہزار وقت پڑے ہیں تیری وفا کے لئے

مجھے مٹا تو رہے ہو مآل بھی سوچو

خطا معاف ترس جاؤ گے وفا کے لئے

وہ جان کر مجھے تنہا مری نہیں سنتے

کہاں سے لاؤں زمانے کو التجا کے لئے

مرے جلے ہوئے تنکوں کی گرمیاں توبہ

کھلا ہوا ہے گریباں گلِ ہوا کے لئے

مریض کتنا تھا خوددار جان تک دے دی

مگر زباں نہ کھلی عرضِ مدعا کے لئے

وہ ابتدائے محبت وہ احتیاطِ کلام

بنائے جاتے تھے الفاظ التجا کے لئے

ذرا مریضِ محبت کو تم بھی دیکھ آؤ

کہ منع کرتے ہیں اب چارہ گر دوا کے لئے

قمرؔ نہیں ہے وفادار خیر یونہی سہی

حضور اور کوئی ڈھونڈ لیں وفا کے لئے

٭٭






قطعہ

سمجھ لی ہے بہاروں میں نگاہِ آسماں میں نے

نہ ہونے دی چمن کی بات کم اے باغباں میں نے

فلک پر بجلیوں نے جتنے دن گرنے کی مشقیں کیں

بنا کر رکھ دیا اتنے دنوں میں آشیاں میں نے

٭٭






ہزاروں فریاد کر رہے ہیں مگر کسی پر نظر نہیں ہے

ہزاروں فریاد کر رہے ہیں مگر کسی پر نظر نہیں ہے

وہ محو ہیں آئینے میں ایسے کہ ان کو اپنی خبر نہیں ہے

مریضِ فرقت کا ہے یہ عالم کہ شام سے کچھ خبر نہیں ہے

وہ دیکھنے آئیں گے سحر کو یہاں امیدِ سحر نہیں ہے

خوشی تو یہ ہے جواب آیا مآل پیشِ نظر نہیں ہے

لفافہ قاصد سے لے لیا ہے لکھے ہوئے کی خبر نہیں ہے

دوا سے بیمارِ غم کو صحت کہیں ہوئی کبھی سنا ہے

یہ آخری وقت ہے دعا کا ضرورتِ چارہ گر نہیں ہے

تجلیوں کی یہ انتہا ہے کہ دیکھنے والے دم بخود ہیں

ہر اک کی آنکھوں کے سامنے ہے مگر مجالِ نظر نہیں ہے

سرہانے میت کے کہہ رہے ہیں کہا سنا تم معاف کر دو

وہ دل میں شاید سمجھ گئے ہیں یہ واپسی کا سفر نہیں ہے

تم آ کے سینے پہ ہاتھ رکھ دو مسیحا کہنے لگے گی دنیا

طبیب یہ کہہ کے جا رہے ہیں دوائے دردِ جگر نہیں ہے

نہ شاد ہو شامِ غم کے مارے کہ کاٹ لی تو نے ہجر کی شب

کسی کے رُخ کی تجلیاں ہیں یہ روشنیِ سحر نہیں ہے

میری لرزتی ہوئی زباں سے سوالِ شامِ وصال سن کر

یہ کہہ کے وہ چل دیے ادا سے تری دعا میں اثر نہیں ہے

بھلا تغافل کی انتہا ہے وہ مجھ کو غیروں سے پوچھتے ہیں

یہاں لحد ہو گئی برابر وہاں ابھی تک خبر نہیں ہے

بری گھڑی پھر بری گھڑی ہے ہزار امیدِ اقربا ہو

دل اس قدر ہے قریب لیکن شریکِ دردِ جگر نہیں ہے

مرض بھی تم نے سمجھ لیا ہے مجھے خبر ہے طبیب ہو تم

مگر اب اس کا علاج کیا ہو علاجِ دردِ جگر نہیں ہے

چھپا کے داغِ جگر کو میں نے فضول ان سے ضدیں بڑھائیں

میں کہہ رہا ہوں قمرؔ ہوں میں ہی وہ کہہ رہے ہیں مر نہیں ہے

٭٭






قطعہ

نبضیں چھوٹتی رہتی ہیں روح روانہ ہوتی ہے

خلقت میری حالت پر اشکوں سے منہ دھوتی ہے

کیا لے کر آیا تھا کیا لے کر میں جاتا ہوں

جب دنیا کیوں ہنستی تھی اب دنیا کیوں روتی ہے

٭٭






بارِ غم اے مالکِ روزِ ازل مشکل سہی

بارِ غم اے مالکِ روزِ ازل مشکل سہی

جب کوئی راضی نہیں ہوتا تو میرا دل سہی

تم کہو رسوا کیا میں یہ کہوں مشکل سہی

اس سے کیا حاصل حسابِ دوستاں در دل سہی

غیر ممکن ہے کرم تو جور اے قائل سہی

ہم سمجھ لیں گے محبت کا یہی حاصل سہی

صبر کر لیتا ہوں یہ کہہ کہہ کے ان کے عشق میں

قیس نے صدمے سہے فرہاد نے مشکل سہی

کارواں کا حشر کچھ بھی ہو انہیں منصب سے کام

نام کے رہبر تو ہیں ناواقفِ منزل سہی

یہ تیری محفل اب خیر ہم تیرے نہیں

خیر ہم تیرے نہیں اب یہ تیری محفل سہی

تم جواں ہو کر نہ روٹھو میں نے اس دن کے لئے

کتنی رسوائی اٹھائی کس قدر مشکل سہی

ہم تو یہ کہتے ہیں کیوں تصویرِ میخانہ کھینچی

ہوش میں ساقی تو تھا میخوار سب غافل سہی

کم سے کم فرصت کی شب اک شغل تنہائی تو ہے

بے اثر نالے سہی فریاد لا حاصل سہی

وہ تو چہرے سے برس پڑتے ہیں آثارِ ملال

ضبطِ اشکِ دیدۂ تر پردہ دارِ دل سہی

ناخدا برہم ہے کیوں میری ذرا سی بات پر

خیر یہ طوفاں نہ ہو گا دامنِ ساحل سہی

میں وہاں پہنچوں نہ پہنچوں یہ رہی قسمت کی بات

کوششِ منزل تو ہے ناقابلِ منزل سہی

اپنی قسمت میں تو ہے تاریکیِ شامِ الم

اے قمرؔ کیا ہم سے مطلب وہ مہِ کامل سہی

٭٭






قطعہ

امید آج بہت کم ہے زندگانی کی

دلِ حزیں کو تمنا ہے شادمانی کی

بس اتنی دیر کو منہ پھیر لے پیری

کہ ایک بار میں کھا لوں قسم جوانی کی

٭٭






کبھی جو آنکھ پہ گیسوئے یار ہوتا ہے

کبھی جو آنکھ پہ گیسوئے یار ہوتا ہے

شراب خانے پہ ابرِ بہار ہوتا ہے

کسی کا غم ہو مرے دل پہ بار ہوتا ہے

اسی کا نام غمِ روزگار ہوتا ہے

الہٰی خیر ہو ان بے زباں اسیروں کی

قفس کے سامنے ذکرِ بہار ہوتا ہے

چمن میں ایسے بھی دو چار ہیں چمن والے

کہ جن کو موسمِ گل ناگوار ہوتا ہے

سوالِ جام ترے مے کدے میں اے ساقی

جوابِ گردشِ لیل و نہار ہوتا ہے

ہمیں وفا پہ وفا آج تک نہ راس آئی

انہیں ستم پہ ستم سازگار ہوتا ہے

لبوں پہ آ گیا دم بند ہو چکی آنکھیں

چلے بھی آؤ کہ ختم انتظار ہو تا ہے

کہاں و ہ وصل کی راتیں کہاں وہ ہجر کے دن

خیالِ گردشِ لیل و نہار ہوتا ہے

جنوں تو ایک بڑی چیز ہے محبت میں

ذرا سے اشک سے راز آشکار ہوتا ہے

مرے جنازے کو دیکھا تو یاس سے بولے

یہاں پہ آدمی بے اختیار ہوتا ہے

خدا رکھے تمہیں کیا کوئی جور بھول گئے

جو اب تلاش ہمارا مزار ہوتا ہے

ہمارا زور ہے کیا باغباں اٹھا لیں گے

یہ آشیاں جو تجھے ناگوار ہوتا ہے

عجیب کشمکش ِ بحرِ غم میں دل ہے قمرؔ

نہ ڈوبتا ہے نہ بیڑا پار ہوتا ہے

٭٭






قطعہ

سمجھ کے غیر مجھے اتنے پردہ دار نہ بنو

پتے بہت سے بتا دوں جو ناگوار نہ ہو

تمہارے چاند سے رخ کی قسم میں ہی ہوں قمرؔ

جگر کا داغ دکھا دوں جو اعتبار نہ ہو

٭٭






ہم شکل کہہ دیا تھا رخِ لاجواب کا

ہم شکل کہہ دیا تھا رخِ لاجواب کا

اب آسماں پہ ہے دماغ آفتاب کا

کم کر دے نور کام نہیں ہے نقاب کا

چھپتا نہیں غبار سے منہ آفتاب کا

یہ حسن ایک منظرِ دلکش کا ہے خواب

سرکار اعتبار نہ کیجے شباب کا

آئینہ لا کے رکھ دیا آج ان کے سامنے

قائل بنا دیا نگہِ انتخاب کا

کیا حال کر دیا ہے مرا مجھ کو دیکھ لو

تم کیا کرو گے اس دلِ خانہ خراب کا

وہ کیا ہیں آج ان کے فرشتے بھی آئیں گے

وعدے کی شب نہیں ہے یہ دن ہے حساب کا

کیا خوب کم سنی میں تجھے انتظارِ حشر

اور حشر منتظر ہے تمہارے شباب کا

دنیا کھڑی ہے ان کی زیارت کے واسطے

محشر بنا ہوا ہے زمانہ شباب کا

وہ بے حجاب اور بھلا میرے سامنے

یہ کہیے بند ٹوٹ گیا ہے نقاب کا

حسرت سے دیکھتا ہے طبیبوں کا منہ مریض

شاید سمجھ گیا ہے اشارہ جواب کا

صیاد سامنے سے ہٹا لے ذرا قفس

گھر جل رہا ہے بلبلِ خانہ خراب کا

پونچھے ہیں اشک دامنِ دریا سے موج نے

دیکھا گیا نہ ٹوٹ کے رونا حباب کا

شک تھا جو کافروں کو نبوت میں اے قمرؔ

شاید میں ہی بنا تھا رسالتمآب کا

٭٭






قطعہ

جب کوئی مونس نہ ہو کیوں کر پریشانی نہ ہو

اور پھر اس وقت جب مشکل ہو آسانی نہ ہو

سوزِ دل بے آنسوؤں کے ایک قیامت ہے قمر

اس سے پوچھو جس کا گھر جلتا ہو اور پانی نہ ہو

٭٭






پھر اور کس نے لیا دل یہی تو ہے وسواس

پھر اور کس نے لیا دل یہی تو ہے وسواس

کوئی ہمارے تمہارے سوا نہ آس نہ پاس

تمہیں بتاؤ کہ جاؤں گا پھر میں کس کے پاس

تمہارے در پہ اگر ٹوٹ جائے گی میری آس

تمہارے سامنے ظاہر کوئی الم نہ کیا

جگر میں درد بھی اٹھا تو ہم ہوئے نہ اداس

کسی سے صورتِ دیدار بھی نہ پوچھ سکے

انہیں جو دیکھ کے آیا بجا رہے نہ حواس

اسیر چپ ہیں تو صیاد یہ سمجھتا ہے

قفس میں اہلِ چمن کی بدل گئی بو باس

زمانہ کم ہے کوئی دیکھنے کو حالِ جنوں

کہ تم بھی آ کے کھڑے ہو گئے ہمارے پاس

زمانہ دیکھ رہا ہے نہ جانے کیا سمجھے

میرے جنازے پہ کیوں تم کھڑے ہوئے ہو اداس

زوالِ حسن بدلتا ہے عشق کی نظریں

بجھی جو شمع پتنگے نہ آئے شمع کے پاس

میں کس امید پہ اے باغباں رکھوں تنکے

تری بہارِ چمن آئی ہے کبھی مجھے راس

اب اس مقام پہ ہوں میں ستم تو کیا شے ہے

ترے کرم کا بھی ہوتا نہیں مجھے احساس

میں کس امید پہ اب آرزوئے دید کروں

کہ مانتا نہیں تیرے مشاہدے کو قیاس

ادائے حق وفا کو لحد پہ دو آنسو

بجھانے آئے تھے شبنم سے تم زمیں کی پیاس

قمرؔ زوال میں اپنے بھی چھوٹ جاتے ہیں

چھپا نہ تھا تو شعاعیں تھیں آفتاب کے پاس

٭٭






قطعہ

رہا اس وقت تک تیرے اسیرِ غم نہیں ہوتے

کہ جب تک ایک ہی مرکز پہ دو عالم نہیں ہوتے

بگڑ بیٹھے کہ سیدھے گیسوؤں کے خم نہیں ہوتے

ذرا سی الجھنوں پہ اس قدر برہم نہیں ہوتے






رازِ دل کیوں نہ کہوں سامنے دیوانوں کے

رازِ دل کیوں نہ کہوں سامنے دیوانوں کے

یہ تو وہ لوگ ہیں اپنوں کے نہ بیگانوں کے

وہ بھی کیا دور تھے ساقی ترے مستانوں کے

راستے راہ تکا کرتے تھے میخانوں کے

بادلوں پر یہ اشارے ترے دیوانوں کے

ٹکڑے پہنچے ہیں کہاں اڑ کے گریبانوں کے

راستے بند کئے دیتے ہو دیوانوں کے

ڈھیر لگ جائیں گے بستی میں گریبانوں کے

نہ اذاں دیتا نہ ہشیار برہمن ہوتا

در تو اس شیخ نے کھلوا دئیے بت خانوں کے

آپ دن رات سنوارا کریں گیسو تو کیا

کہیں حالات بدلتے ہیں پریشانوں کے

منع کر گرمیِ شبنم پہ نہ یہ پھول ہنسیں

لالے پڑ جائیں گے اے بادِ صبا جانوں کے

کیا زمانہ تھا ادھر شام ادھر ہاتھ میں جام

صبح تک دور چلا کرتے تھے پیمانوں کے

وہ بھی کیا دن تھے ادھر شام ادھر ہاتھ میں جام

اب تو رستےبھی رہے یاد نہ میخانوں کے

آج تک تو مری کشتی نے نہ پائی منزل

قافلے سینکڑوں گم ہو گئے طوفانوں کے

خاکِ صحرا پہ لکیریں ہیں انہیں پھر دیکھو

کہیں یہ خط نہ ہوں لکھے ہوئے دیوانوں کے

دیکھیے چرخ پہ تارے بھی ہیں کیا بے ترتیب

جیسے بکھرے ہوئے ٹکڑے مرے پیمانوں کے

ہاتھ خالی ہیں مگر ملکِ عدم کا ہے سفر

حوصلے دیکھیے ان بے سر و سامانوں کے

سر جھکائے ہوئے بیٹھے ہیں جو کعبے میں قمرؔ

ایسے ہوتے ہیں نکالے ہوئے بت خانوں کے

٭٭






قطعہ

تبسم ان کا ہے تصویر گل افشانی کی

خوشی کے روز ہیں راتیں ہیں شادمانی کی

کہیں بھی نکہتِ گل کی طرح قرار نہیں

اڑائے پھرتی ہے ان کو ہوا جوانی کی

٭٭






شمع محفل سے لو لگائی ہے

شمع محفل سے لو لگائی ہے

کیا پتنگے کی موت آئی ہے

اس لئے آرزو چھپائی ہے

منہ سے نکلی ہوئی پرائی ہے

روح آنکھوں کے در پہ آئی ہے

آخری ان کی پیشوائی ہے

فطرتِ برق اب میں سمجھا ہوں

آگ جب آشیاں تک آئی ہے

لاکھ ترکِ تعلقات سہی

بات کرنے میں کیا برائی ہے

توڑ ڈالا یہ کہہ کے آئینہ

میری تصویر کیوں بنائی ہے

جب کسی نے کیا ہے ذکرِ وطن

جانے کس کس کی یاد آئی ہے

ہنس کے کہنا شبِ وصال ان کا

آپ نے شمع کیوں جلائی ہے

سامنے دو قدم پہ ہے منزل

اور مسافر کو نیند آئی ہے

روز شبنم چمن میں آتی ہے

آتشِ گل کبھی بجھائی ہے

اے قفس والو کچھ صبا سے کہو

فصلِ گل کا پیام لائی ہے

آنکھ کے تل میں شمع ہے کہ چراغ

روشنی کس بلا کی پائی ہے

سینہ چیرا گیا ہے غنچے کا

بوئے گل جب چمن میں آئی ہے

سن کے ارمانِ دل قمرؔ سے کہا

کاہے کو تیری موت آئی ہے

٭٭






میں محبت چھوڑ دوں دیکھو یہ فرمانا ذرا

میں محبت چھوڑ دوں دیکھو یہ فرمانا ذرا

کس کو سمجھاتے ہو ناصح ان کو سمجھانا ذرا

کہہ رہے ہو کل نہ تھے ہم محفلِ اغیار میں

چاہتے ہو جن کو تم ان کی قسم کھانا ذرا

فاتحہ پڑھنے لحد پر آئیں گے کل سب عزیز

بات رہ جائے میری تم چلے آنا ذرا

تجھ کو اے واعظ نہیں ہے میری توبہ کا یقیں

وہ پڑے ہیں سامنے ساغر اٹھا لانا ذرا

یہ بہاریں چاندنی کی اور یہ تاروں کی سیر

اے قمرؔ کس سے کہوں ان کو بلا لانا ذرا

٭٭






آج دیوانے کچھ ایسے ترے در سے گزرے

آج دیوانے کچھ ایسے ترے در سے گزرے

نہ تو کانوں سے سنے تھے نہ نظر سے گزرے

بد گمانی مرے صیاد کی توبہ توبہ

سینکڑوں شک میری اک جنبشِ پر سے گزرے

ان کا کہنا کہ اب جاؤ خدا کو سونپا

ہائے وہ لمحے جو کچھ قبل سفر سے گزرے

٭٭






یہ دردِ ہجر اور اس پر سحر نہیں ہوتی

یہ دردِ ہجر اور اس پر سحر نہیں ہوتی

کہیں ادھر کی تو دنیا ادھر نہیں ہوتی

نہ ہو رہائی قفس سے اگر نہیں ہوتی

نگاہِ شوق تو بے مال و پر نہیں ہوتی

ستائے جاؤ نہیں کوئی پوچھنے والا

مٹائے جاؤ کسی کو خبر نہیں ہوتی

نگاہِ برق علاوہ مرے نشیمن کے

چمن کی اور کسی شاخ پر نہیں ہوتی

قفس میں خوف ہے صیاد کا نہ برق کا ڈر

کبھی یہ بات نصیب اپنے گھر نہیں ہوتی

صفائی رہِ ملکِ عدم کا کیا کہنا

کسی کے پاؤں پہ گردِ سفر نہیں ہوتی

منانے آئے ہو دنیا سے جب میں روٹھ گیا

یہ ایسی بات ہے جو درگزر نہیں ہوتی

پھروں گا حشر میں کس کس سے پوچھتا تم کو

وہاں کسی کو کسی کی خبر نہیں ہوتی

کسی غریب کے نالے ہیں آپ کیوں چونکے

حضور شب کو اذانِ سحر نہیں ہوتی

یہ مانا آپ قسم کھا رہے ہیں وعدوں پر

دلِ حزیں کو تسلی مگر نہیں ہوتی

جگر کو تھام کے آئے ہو تم نے دیکھ لیا

کسی کی آہ کبھی بے اثر نہیں ہوتی

تمہیں دعائیں کرو کچھ مریضِ غم کے لئے

کہ اب کسی کی دعا کار گر نہیں ہوتی

بس آج رات کو تیمار دار سو جائیں

مریض اب نہ کہے گا سحر نہیں ہوتی

قمرؔ یہ شامِ فراق اور اضطرابِ سحر

ابھی تو چار پہر تک سحر نہیں ہوتی

٭٭






قطعہ

شب کو میرا جنازہ جائے گا یوں نکل کر

رہ جائیں گے سحر کو دشمن بھی ہاتھ مل کر

روئیں گے دیکھ کر سب بستر کی ہر شکن

وہ حال لکھ چلا ہوں کروٹ بدل بدل کر

٭٭






شاید کچھ آگے آ گئے کوئے بتاں سے ہم

شاید کچھ آگے آ گئے کوئے بتاں سے ہم

اب یاد کر رہے ہیں کہ بھٹکے کہاں سے ہم

نکلے تھے جانے کیسی گھڑی گلستاں سے ہم

ایسے چھٹے کہ پھر نہ ملے آشیاں سے ہم

رودادِ حسن و عشق سنائیں کہاں سے ہم

شرمائیں گے حضور کہیں گے جہاں سے ہم

مجبور ہو کے ہاتھ میں ساغر اٹھا لیا

جب تنگ آ گئے ستمِ آسماں سے ہم

تھی اتفاقِ وقت ملاقات راہ کی

جانے وہ آ رہے تھے کہاں سے، کہاں سے ہم

کچھ اس قدر ہے ان دنوں پابندیِ قفس

ذکرِ چمن بھی کر نہیں سکتے زباں سے ہم

بس اس قدر ہیں ترکِ محبت کے واقعات

کچھ بدگماں سے وہ ہوئے کچھ بدگماں سے ہم

اچھا تو اب فسانہ سہی حسن و عشق کا

اول سے تم سناؤ کہیں درمیاں سے ہم

رودادِ حسن و عشق زمانہ غلط کہے

نام اپنا کاٹ دیں جو تری داستاں سے ہم

افسانۂ الم پہ وہ یہ کہہ کے سو گئے

اب تنگ آئے ہیں تری داستاں سے ہم

عرضِ کرم بھی جرم ہے اس کی خبر نہ تھی

سرکار کچھ بھی اب نہ کہیں گے زباں سے ہم

صیاد کچھ دن اور ہماری خطا معاف

واقف نہیں ہوئے ابھی تیری زباں سے ہم

دیر و حرم بھی ہوں گے مگر ہم کو کیا خبر

اٹھ کر کہاں گئے ہیں ترے آستاں سے ہم

بدلیں طرح طرح سے زمانے نے سرخیاں

لیکن جدا ہوئے نہ تری داستاں سے ہم

اب سوچتے ہیں مفت میں مٹی ہوئی خراب

آئے تھے کیوں زمیں پہ قمرؔ آسماں سے ہم

٭٭






نہ جاؤ گھر ابھی تو رات ہے بادل بھی کالے ہیں

نہ جاؤ گھر ابھی تو رات ہے بادل بھی کالے ہیں

اذاں سمجھے ہو تم جس کو کسی بے کس کے نالے ہیں

ہزاروں وعدۂ شب اس نے اس صورت سے ٹالے ہیں

کبھی مہندی لگا لی ہے کبھی گیسو سنبھالے ہیں

مریضِ سوز و غم اے چارہ گر کب بچنے والے ہیں

کہ ہر آنسو کی رنگت کہہ رہی ہے دل میں چھالے ہیں

نہ پوچھیں آپ دیوانوں سے شام و صبح کا عالم

یہ کیا جانیں کہ دنیا میں اندھیرے یا اجالے ہیں

تیری نیچی نظر ظالم مسیحا بھی ہے ظالم بھی

ہزاروں کو جلایا ہے ہزاروں مار ڈالے ہیں

مریضوں کا دم آنکھوں میں ہے وہ ہیں محوِ آرائش

وہاں ہونٹوں کی لالی ہے یہاں جانوں کے لالے ہیں

ہجومِ حشر کو گھبرا کے مجھ سے پوچھتے کیا ہو

ستایا ہے جنہیں تم نے یہ وہ فریاد والے ہیں

عیادت کو جو روز آتے ہو اس کا شکریہ لیکن

کبھی سوچا قضا کے وقت تم نے کتنے ٹالے ہیں

تو ہی اے ضبطِ غم ایسے میں غم کی آبرو رکھ لے

بھری محفل ہے اور آنکھوں میں آنسو آنے والے ہیں

نہ جانے حشر کیا ہو رہروِ راہِ محبت کا

ہے منزل دور، سر پر شام ہے، پاؤں میں چھالے ہیں

ہوا کچھ تم کو اپنے ظلم کا محشر میں اندازہ

خدا کے سامنے جتنے ہیں سب فریاد والے ہیں

ہمارا کارواں اب تک تو منزل پر پہنچ جاتا

مگر یہ راستے میں پیچ تو رہبر نے ڈالے ہیں

بہاروں کی خبر سن کر قفس میں رو تو دیتا ہوں

کسی سے یہ نہیں کہتا میرے پر کاٹ ڈالے ہیں

جہاں ہم آ بسے یہ پردۂ ظلمات ہے شاید

کہ تاریکی یہیں رہتی ہے دنیا میں اجالے ہیں

محبت میں نظر آتا نہیں اہلِ محبت کو

کہ دنیا میں اندھیرے چھا رہے ہیں یا اجالے ہیں

قمرؔ تسبیح پڑھتے جا رہے ہیں سوئے بت خانہ

کوئی دیکھے تو یہ سمجھے بڑے اللہ والے ہیں

٭٭






رستے میں غیر مل گئے یا رات ہو گئی

رستے میں غیر مل گئے یا رات ہو گئی

ان کے لئے کوئی نہ کوئی بات ہو گئی

ان کی طرف سے ترکِ ملاقات ہو گئی

ہم جس سے ڈر رہے تھے وہی بات ہو گئی

آنسو تھمے تو آنکھوں ہی میں بات ہو گئی

میخانے جیسے کھل گئے برسات ہو گئی

آئینہ دیکھنے میں نئی بات ہو گئی

ان سے ہی آج ان کی ملاقات ہو گئی

طے ان سے روز حشر ملاقات ہو گئی

اتنی سی بات کتنی بڑی بات ہو گئی

کم ظرفیِ حیات سے تنگ آ گیا تھا میں

اچھا ہوا قضا سے ملاقات ہو گئی

دن میں بھٹک رہے ہیں جو منزل کی راہ سے

یہ لوگ کیا کریں گے اگر رات ہو گئی

آئے ہیں وہ مریضِ محبت کو دیکھنے

آنسو بتا رہے ہیں کوئی بات ہو گئی

اچھا ہوا کہ تم مرے رونے پہ ہنس دئیے

کہنے کو عمر بھر کے لئے بات ہو گئی

اب دشمنوں کی مجھ سے ہو کرتے شکایتیں

جب دشمنوں کی مجھ سے ملاقات ہو گئی

تھا اور کون پوچھنے والا مریض کا

تم آ گئے تو پرسشِ حالات ہو گئی

اے بلبلِ بہارِ چمن اپنی خیر مانگ

صیاد و باغباں میں ملاقات ہو گئی

جب زلف یاد آ گئی یوں اشک بہہ گئے

جیسے اندھیری رات میں برسات ہو گئی

گلشن کا ہوش اہلِ جنوں کو بھلا کہاں

صحرا میں پڑ رہے تو بسر رات ہو گئی

در پردہ بزمِ غیر میں دونوں کی گفتگو

اٹھی ادھر نگاہ ادھر بات ہو گئی

کب تک قمرؔ ہو شام کے وعدے کا انتظار

سورج چھپا چراغ چلے رات ہو گئی

٭٭






یہ برق کوندی پھرتی ہے کیوں زمانے میں

یہ برق کوندی پھرتی ہے کیوں زمانے میں

کوئی کمی تو نہیں میرے آشیانے میں

تمام رات کٹی اشک ہی بہانے میں

خدا رکھے تجھے او بے وفا زمانے میں

یہ کیسے بڑھ گئیں رسوائیاں زمانے میں

کہ اب تو ہم ترے آنے میں ہیں نہ جانے میں

کسی کو اپنا بنائے نہ اس زمانے میں

کہ چاٹ کھاتا ہے انسان دوستانے میں

فریب سب نے دیا راستہ بتانے میں

حرم میں رند تھے زاہد شراب خانے میں

ہمیں تو راس اسیری ہوئی نہ آزادی

قفس سے بڑھ کے مصیبت ہے آشیانے میں

خیال آتا ہے رہ رہ کے برق گرنے کا

کہ پھول کاہے کو رکھے تھے آشیانے میں

سجا کے آیا ہوں صیاد ایک ایک تنکا

دعائیں دے گا رہے گا جو آشیانے میں

میں دشمنوں کی جفائیں تمام بھول گیا

مگر وہ چوٹ جو کھائی ہے دوستانے میں

جلی ہوئی سی جو یہ بوئے شاخ آ رہی ہے

اسی پہ تھے میرے تنکے کسی زمانے میں

ہمیں سے بڑھ گئی شہرت، دعائیں دے ساقی

وگرنہ خاک ہی اڑتی شراب خانے میں

ہمارے خواب کی تعبیر باغباں کیا ہے

قفس کی تیلیاں دیکھی ہیں آشیانے میں

مآلِ عشق سنو تو سہی نہ شرماؤ

تمہارا نام نہیں ہے میرے فسانے میں

تماشہ دیکھنے دے ناخدا تلاطم کا

ابھی تو دیر ہے کشتی کے ڈوب جانے میں

قمرؔ سا اہلِ وفا تم کو مل نہیں سکتا

چراغ لے کے بھی ڈھونڈو اگر زمانے میں

٭٭






مری فصل گل نہ ہوئی تو کیا، مرا باغباں نہ ہوا تو کیا

مری فصل گل نہ ہوئی تو کیا، مرا باغباں نہ ہوا تو کیا

مجھے اعتبارِ قفس تو ہے اگر آشیاں نہ ہوا تو کیا

مرے واقعاتِ وفا ہیں وہ کہ جہانِ عشق سمجھ گیا

میرا نام مصلحتاً اگر سرِداستاں نہ ہوا تو کیا

مجھے اب چمن سے غرض ہے کیا کہ اسیرِ کنجِ قفس ہوں میں

مرا آشیاں جو ہوا تو کیا، مرا آشیاں نہ ہوا تو کیا

یہ جگر پہ ہاتھ، یہ آنکھ نم، کہو بات کون سی چھپ گئی

جو مری زباں سے فسانۂ شبِ غم بیاں نہ ہوا تو کیا

سرِ چرخ چاند بھی چھپ گیا سرِ شام شمع بھی بجھ گئی

شبِ ہجر کٹ گئی اے قمرؔ کوئی مہرباں نہ ہوا تو کیا

٭٭






برنگِ سبزہ مجھے پائمال کر دو گے

برنگِ سبزہ مجھے پائمال کر دو گے

بعینہ میرا نرگس سا حال کر دو گے

مجھی پہ ختم سب اپنے کمال کر دو گے

یہی ستم ہیں تو کیا میرا حال کر دو گے

تمہاری کمسنی میں میں نے پا لیے کیا پھل

جوان ہو کے مجھے کیا نہال کر دو گے

بڑھا بڑھا کے جفائیں جھکا ہی دو گے کمر

گھٹا گھٹا کے قمرؔ کو ہلال کر دو گے

٭٭






نہ رو اے شمع پروانوں کا نازک دل نہیں ہوتا

نہ رو اے شمع پروانوں کا نازک دل نہیں ہوتا

یہ دیوانے ہیں مر جانا انہیں مشکل نہیں ہوتا

بس اب چپکے رہو منصور کی بابت نہ کھلواؤ

محبت اتنی بھر دیتے ہو جتنا دل نہیں ہوتا

خدا رکھے تمہارا غم تو کیا عالم سما جائے

ذرا سا دل سمجھتے ہو ذرا سا دل نہیں ہوتا

الہٰی ڈوب جانا ہی لکھا ہے کیا مقدر میں

ادھر جاتی ہے کشتی جس طرف ساحل نہیں ہوتا

ازل سے محو ہوں آئینۂ دل کی صفائی میں

ترے قابل بناتا ہوں تیرے قابل نہیں ہوتا

٭٭






آیا پیغام تباہی کا ادھر سے پہلے

آیا پیغام تباہی کا ادھر سے پہلے

واسطہ مجھ کو پڑا ان کی نظر سے پہلے

فکر سامان کی ہوتی ہے نظر سے پہلے

اٹھنا پڑتا ہے مسافر کو سحر سے پہلے

دل تڑپتا ہے تو کھل جاتا ہے دردِ فرقت

بات مشہور ہوا کرتی ہے گھر سے پہلے

دل تو حاضر ہے پسند آ بھی گیا یا کہ نہیں

آپ یہ پوچھ تو لیں اپنی نظر سے پہلے

کیا خطا ان کی جو یہ کہہ دیا حال اچھا ہے

دیکھنے آئے تھے وہ دردِ جگر سے پہلے

لاکھ تڑپا کرے بیمارِ شبِ ہجر تو کیا

صبح ہونے کی نہیں چار پہر سے پہلے

اب تو وہ دیکھ کے تاروں کو بھی شرماتے ہیں

یہ نہ تھا حال ملاقاتِ قمرؔ سے پہلے

٭٭






چمن روئے، ہنسے شبنم، بیاباں پر نکھار آئے

چمن روئے، ہنسے شبنم، بیاباں پر نکھار آئے

اک ایسا بھی نیا موسم میرے پروردگار آئے

وہ سر کھولے ہماری لاش پر دیوانہ وار آئے

اسی کو موت کہتے ہیں تو یا رب بار بار آئے

سرِ گورِ غریباں آؤ لیکن یہ گزارش ہے

وہاں منہ پھیر کے رونا جہاں میرا مزار آئے

بہا اے چشمِ تر ایسا بھی اک آنسو ندامت کا

جسے دامن پہ لینے رحمتِ پروردگار آئے

قفس کے ہو لئے ہم تو مگر اے اہلِ گلشن تم

ہمیں بھی یاد کر لینا چمن میں جب بہار آئے

نہ جانے کیا سمجھ کر چپ ہوں اے صیاد میں ورنہ

وہ قیدی ہوں گرچہ ہوں قفس میں بھی بہار آئے

٭٭٭


5.0 "1"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

مجموعے

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔