02:49    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

محاورات

2685 0 0 00

( 1 ) خار رکھنا، خار گزرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

خار کانٹے کو کہتے ہیں اور کانٹے کی خصوصیت چُبھنا اور  شدید اذیت کا احساس پیدا کرنا ہے۔ یہ اُس کی فِطری خوبی ہے لیکن اُسی سے محاورے کے معنی پیدا ہو گئے اور خار کھانا خار کی طرح کھٹکنا اور خار گزرنا محاورات بن گئے کہ یہ صُورت ناگواری کا باعث ہوتی ہے وہ آدمی بُرا لگتا ہے اور اِس معنی میں وہ خار کی طرح کھٹکتا ہے اور اُس کا موجود ہونا خار گزرتا ہے یہ ہماری سماجی نفسیات کا حصّہ ہے اور  یہ احساس دلاتا ہے کہ لفظ اپنے معنی کے اعتبار سے لغت کا حصّہ ہوتا ہے۔

لیکن جب تک اُس کے مُرادی معنی نہ ہوں وہ محاورہ نہیں بنتا، محاورہ ایک طرح کا ذہنی مفہوم رکھتا ہے جو لغوی معنی سے الگ ہوتا ہے اور  تہذیب و سماج سے اُس کا رشتہ نسبتاً گہرا ہوتا ہے۔

( 2 ) خاص خاص،خاص محل،خاص اور خاصہ وغیرہ۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اس کے معنی ہوتے ہیں ’’مختص‘‘ لیکن یہ لفظ کچھ خاص معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ’’دیوانِ خاص‘‘ (لال قلعہ) اِس کے علاوہ مغل دور میں بادشاہوں کاجو شخص خط بناتا تھا اور بال کاٹتا تھا وہ خاصہ تراش کہلاتا تھا علاوہ بریں بادشاہ کے اپنے لئے یا کسی امیر کے لئے جو خاص کھانا تیار ہوتا تھا وہ خاصہ کہلاتا تھا۔ بیگمات شاہی کو جو خطابات عطا ہوتے تھے اُن میں زینت محل،ممتاز محل جیسے خطابات کے ساتھ خاص محل بھی ہوتا تھا۔ یہ سب محاورات کے ذیل میں نہیں آتے اس لئے کہ اِن کے جو بھی معنی ہیں وہ لغت کے اعتبار سے ہیں محاورے کے اعتبار سے نہیں۔

( 3 ) خاطر میں رکھنا،خاطر میں لانا، یا نہ لانا وغیرہ۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

خاطر طبیعت کو کہتے ہیں جو باتیں طبیعت کے لئے ناگواری کا باعث ہوتی ہیں وہ ناگوارِ خاطر کہلاتی ہیں کچھ باتیں طبیعت کے لئے ایک گُونہ پریشانی کا باعث ہوتی ہیں وہ غبار خاطر کہلاتی ہیں ابوالکلام آزاد کے ایک مجموعہ خطوط کا نام ’’غبارِ خاطر‘‘ ہے ہم جب دوسرے کو خوش آمدید کہتے ہیں تو وہ اس کی خاطر و مدارات کرتے ہیں تو وہ خاطر داری کہلاتی ہے۔ اس کے معنی خیال خاطر کے بھی ہیں بقولِ میر انیسؔ

؂ خیالِ خاطرِ احباب چاہیئے ہر دم

انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو

خاطر نشان ہونا دل میں بیٹھ جانا ہے۔ اسی کو دل نشیں ہونا بھی کہتے ہیں۔ خاطر خواہ کے معنی ہوتے ہیں حسبِ پسند ہونا ہم کسی کو جب توجہ اور تحسین کے لایق سمجھتے ہیں تو گویا اُس کو خاطر میں لاتے ہیں۔ اور جب قابلِ اعتناء نہیں سمجھتے تو گویا خاطر میں نہیں لاتے۔

( 4 ) خاک اڑانا،خاک ڈالنا، خاک چھاننا، خاک چاٹنا، خاک ہو جانا، خاک پھاکنا، خاک میں ملنا وغیرہ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

خاک ہمارے یہاں مٹی کو کہتے ہیں جو ہماری زمین کا بہت بڑا مادی عنصر ہے۔ زمین میں جو چیز گِر پڑ جاتی ہے وہ زمین ہی کا حصّہ بن جاتی ہے۔ خاک ہو جاتی ہے یا خاک میں بدل جاتی ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ اب اُس کا اپنا وجود باقی نہیں رہا وہ خاک کے برابر ہو گئے۔ ۔

خاک دھول اڑنا ایک طرح سے ویرانی کی علامت ہے جو سرسبزی اور شادابی کی مخالف ایک صورت ہے سرسبزی اگر ہو گی تو آبادی بھی ہو گی رونق اور تازگی ہو گی۔ اگر خاک دھُول اور مٹی کے سوا کچھ نہیں تو ویرانی کے تصوّر کے سوا اُس کے بارے میں اور کیا سوچا جا سکتا ہے اسی لئے جب کوئی خاندان کوئی ادارہ کوئی بستی یا کوئی مُلک  اُجڑ جاتا ہے تو  یہ کہتے ہیں کہ وہاں تو دیکھتے دیکھتے خاک اُڑنے لگی یا انہوں نے اپنی نالائقی سے خاک اُڑا دی۔

اِسی طرح سے خاک ڈالنا بھی ایک محاورہ ہے اور سماج کے عمل اور  ردِّ عمل کو پیش کرتا ہے کہ وہ اس لایق بھی نہیں ہے کہ اُس کا ذکر کیا جائے کہ خاک ڈالو کے معنی ہیں لعنت بھیجو خاک چٹکی بہت کم حیثیت دوا کو کہتے ہیں۔ جب خدا کا حکم ہوتا ہے اور  شِفاء مقدّر میں ہوتی ہے تو خاک کی چٹکی سے آرام ہو جاتا ہے یا خاک کی چٹکی بھی اکسیر ثابت ہوتی ہے اس کے مقابلہ میں خاک پھانکنا، پریشان پھرنا باد ہوائی پھرنا ہے جب کہیں کسی کا کہیں ٹھور ٹھکانہ نہ ہو تو اُسے باد ہوائی پھرنا کہتے ہیں۔ خاک پڑنا بے رونق بے سہارا اور  بے عزت ہو جانا ہے کہ ہمارا وہ منصوبہ تو خاک میں مل گیا یا دشمن کے ارادوں پر خاک پڑ گئی۔

( 5 ) خاک و خون میں ملنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

قتل و غارت گری کے نتیجہ میں بربادی پھیلنا موت کا منظر سامنے ہونا وغیرہ اس سے ہم اپنے محاوروں میں سماجی حالات اور سماج کے ذہنی رویوں اور اُن پر گفتگو یا Commentکو بہتر صورت میں سمجھ سکتے ہیں۔

( 6 ) خام پارہ۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اصل میں نادان یا بیوقوف لڑکی کو کہتے ہیں اور ایک مفہوم اِس کا کسی کم عمر لڑکی کا آوارہ ہونا ہے گلزارِ نسیم میں یہ محاورہ اسی معنی میں آیا ہے خام کار نہ تجربہ کار کو کہتے ہیں جو غلط باتیں کرتا ہے غلط کام کرتا ہے۔ غلط فیصلہ کرتا ہے۔ تو اُسے خام کاری کہتے ہیں۔ خام کے معنی کچّے کے ہیں اور اسی سے نا تجربہ کاری کے معنی محاورتاً اخذ کئے گئے ہیں۔

( 7 ) خانہ خراب ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

برباد ہونا، خانہ ویران ہونا بھی ہے اور کوسنے کے طور پر بھی کہا جاتا ہے کہ تیرا خانہ خراب ہو، تیرا گھر برباد ہو جائے ہم نے محاورات کا مطالعہ تبصرہ کے طور پر تو کیا لیکن گالی، کوسنے یا بُرے خیالات کے اظہار کے طور پر اس کی طرف بہت کم توجہ دی ہے۔ خانہ خراب ہونا ایک صورتِ حال بھی ہے۔ مگر تیرا خانہ خراب ہویا اُس کا خانہ خراب ہو، یہ ایک کوسنا ہے۔

( 8 ) خُدا خُدا کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بڑی کوشش خواہش اور کاوش سے کوئی کام کرنا اور نتیجہ کا انتظار کرنا۔ جیسے۔ ’’کفر ٹوٹا،خدا خُدا کر کے ‘‘یا خُدا خُدا کر کے وہ مانے یہ وقت گُزارے بھئی خُدا خُدا کر یہاں کون کسی کی سُنتا ہے۔

( 9 ) خُدا رکھے۔ خُدا سمجھے، خُدا سے لو لگنا،خُدا کا گھر، خدا کی پناہ، خدا ماری (اللہ ماری)، خُدا بخش(اللہ بخشی، الہٰی بخش،مولابخش) وغیرہ۔ (خُدا کی اگر نہںی چوری تو بندہ کی کیا چوری) خُدا کی سنوار( اللہ کی سنوار)خدا کے گھر سے پھرنا۔ خدائی خوار، خدائی خراب، خدائی دعویٰ کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

مسلمان تہذیب پر مذہب کا بہت گہرا  اثر ہے چاہے عمل پر نہ ہو مگر قول پر ہے اسی لئے بات بات میں وہ اللہ کا نام لیتے ہیں اور  خُدا خُدا کرتے ہیں اُن کے ہاں نام بھی خدا پر رکھے جاتے ہیں جیسا کہ اوپر لکھے گئے محاوروں سے ہم پتہ چلا سکتے ہیں محاورے حصہ بن جاتا ہے۔ اس کا اندازہ ہم اِس سے بھی کر سکتے ہیں۔

خدا لگتی بات کہو خدا نہ کردہ یا خدا نہ کرے خدا کا چاہا ہوتا ہے بندے کا چاہا نہیں جب کوئی کام نہیں ہوتا تو کہتے ہیں کہ اللہ کا حکم نہیں ہوا۔ یا خدا کی مرضی اگر یہی ہے تو بندہ کیا کر سکتا ہے۔ یا اگر خدا کی چوری نہیں تو بندہ کی چوری کیا یا بندہ خدا (کوئی آدمی ) بالکل بدل گیا یا بالکل مکر گیا خدا ماری کو محبت میں کہتے ہیں اللہ سنواری کسی بچے یا بچی کے لئے کہتے ہیں۔ خدا سمجھے یعنی خدا ہی اس بات کو جانتا ہے وہی سمجھ سکتا ہے جو ذوق ؔ کا مصرعہ ہے۔

؂ جو اس پر بھی نہ وہ سمجھے تو اُس بت سے خدا سمجھے

مسجد کو خدا کا گھر کہا جاتا ہے اور کعبۃ اللہ کوتو خدا کا گھر کہا ہی جاتا ہے اقبالؔ کا مشہور شعر ہے۔

؂ دنیا کے بُت کدے میں پہلا یہ گھر خدا کا

ہم اِس کے پاسباں ہیں یہ پاسباں ہمارا

(اقبالؔ)

خدا کے گھر جانے کے یہ معنی ہیں کہ آدمی موت کی منزل سے گزر گیا خدا کو پیارا ہوا اور ایسے ہی اس منزل تک پہنچ گیا جہاں سب کو جانا ہے لیکن جب آدمی شدید بیماری سے شِفایاب ہوتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ وہ خدا کے گھر سے لوٹ آیا۔ اُس کو دوبارہ زندگی نصیب ہوئی۔ جب آدمی کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ کیا ہوا اور کیوں ہوا تو وہ اکثر یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ خدا کی باتیں خدا ہی جانیں۔ غرض کہ خدا پہلے یا اللہ ہماری تہذیبی نفسیات میں داخل ہے اسی لئے ہم توبہ کرتے وقت بھی ایسی توبہ کرتے ہیں اور قسم کھاتے وقت اللہ کی قسم یا قسم بخدا کہتے ہیں قرآن کو اللہ کا کلام کہتے ہیں۔ اور کلام اللہ کہہ کر یاد کرتے ہیں۔

’’خدا رسیدہ‘‘ ایسے بزرگ کو کہتے ہیں جو رُوحانی طور پر بہت بلند مرتبہ کا انسان ہوتا ہے لیکن اس کا ترجمہ نہیں کرتے اور اللہ کو پہنچا ہوا نہیں کہتے۔ صرف پہنچا ہوا کہتے ہیں۔

( 10 ) خلوت و جلوت،خلوت اختیار کرنا،خلوت میسر آنا، خلوت پسند ہونا، خلوت نشیں ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

خلوت کے معنی تنہائی، تنہا نشینی، جلوت اُس کے مقابلہ کا لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں دوسروں کے درمیان ہونا، انجمن یا محفل میں ہونا جو آدمی کسی جلوت کا ساتھی کہتے ہیں اس کے مقابلہ میں پسند کرنا ہے جو بعض لوگوں کی اور خاص طور پر صوفیوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنا زیادہ وقت تنہائی میں گزار دیتے ہیں اور اللہ سے لو لگائے رکھتے ہیں جو (خود ایک محاورہ ہے)۔

’’خلوت کدہ ‘‘’’خلوت خانہ‘‘ ایسے کمرہ کو بھی کہتے ہیں جہاں آدمی تنہائی کے لمحات گزارتا ہے یا کوئی شوہر اپنی بیوی یا محبوبہ کے ساتھ ہوتا ہے۔

( 11 ) خون پینا،خونِ جگر پینا،خون سر چڑھنا،خون سفید ہونا، خون کا پیاسا، خون کا دشمن ہونا، خون اترنا، خون سوار ہونا، خون کے بدلے خون۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

خون زندگی کا ایک بہت اہم حصہ ہوتا ہے اُس کے بغیر بہت سے حیوانات میں زندگی باقی نہیں رہتی۔ اسی لئے خون کا ذکر ایسے موقعوں پر ہوتا ہے جہاں زندگی کا سوال ہوتا ہے اور موت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔ جیسے خون گرانا،خون کرنا، قتل کرنا،خون پینا،کسی کے ساتھ انتہائی دشمنی کا اظہار کرنا ہے۔

اسی کی طرف اس محاورے میں اشارہ ہے کہ وہ اس کے خون کا پیاسا ہے اور جہاں کسی کے لئے قربانی دینے کا سوال ہوتا ہے یا وہاں بھی ایک چلّو خون گرانا کہتے ہیں یا یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ جہاں تمہارا پسینہ گرے گا وہاں ہم اپنا خون بہا دیں گے۔ خون کے بدلے خون کا مقصد بھی یہ ہوتا ہے کہ خون کا بدلہ خون سے لیا جائے گا۔ جہاں خون کے بدلہ میں قیمت لے لی جاتی ہے وہاں خون بہا کہتے ہیں۔

خون کی ندیاں بہنا یا  بہا دینا بے حد خون خرابہ کو کہتے ہیں قتلِ عام کی صورت میں یہی تو ہوتا تھا۔ جس گھر میں جوان لڑکی بیٹھی ہوتی ہے وہاں یہ کہا جاتا ہے کہ خون کی بارش ہوتی ہے۔ لہو رونا بھی ایک طرح سے آنسوؤں کی صورت میں خون بہانا ہے۔ خون پینا اور  خون کے گھونٹ پینا دو الگ الگ محاورے ہیں پہلے محاورے کے معنی ہیں دشمنی میں کسی کو قتل کرنا یا اُس کی شہ رگ کاٹ کر اس کا خون پینا۔ قدیم دورِ وحشت میں یہ ہوتا بھی تھا اور ترک و تاتاری سپاہی تو گھوڑے کا خون پیتے تھے۔ خون پلانا انتہائی محبت کا اظہار کرنا یا ایثار و قربانی کرنا ہے۔

جب کسی آدمی کا کوئی عزیز قتل کر دیا جاتا ہے تو اس کے سرپر گویا خون سوار ہو جاتا ہے اور  وہ یہ چاہتا ہے کہ خون کے بدلے میں اس کا’’ خون‘‘ کر دے اسی کو خون سوار کہتے ہیں اس کے علاوہ جب کوئی آدمی انتہائی جوش و جذبہ کے عالم میں کسی کا خون کر دیتا ہے تو اس پر جنون کی سی ایک کیفیت طاری ہو جاتی ہے تو خون سوار کہتے ہیں۔

خون پسینہ ایک کرنا انتہائی کوشش کرنے کو کہتے ہیں کہ اس مہم کو سر کرنے یا اس کام کو انجام دینے کے لئے اس نے خون پسینہ ایک کر دیا۔ خون سے خون اور خون کا پانی کر دینا بھی اسی معنی میں آتا ہے۔ ’’ خون جگر پینا ‘‘بھی خلوصِ خاطر کے ساتھ کسی بات کو نبھانا ہے مثلاً عشق کرنے کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس میں لخت جگر کھانا اور  خون دل پینا پڑتا ہے۔

اس سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہم محاوروں کے ذریعہ کس طرح اپنے احساسات جذبات، سماجی رویوں، محبتوں اور نفرتوں کا اظہار کرتے ہیں اور ہمارے جذبات کی نرمی و گرمی کس طرح ہمارے اظہار میں شریک رہتی ہے۔

( 12 ) خیالی پلاؤ پکانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

پلاؤ ہمارے یہاں چاول،گوشت، یا گوشت کی یخنی سے تیار کیا ہوا ایک خاص کھانا ہوتا ہے۔ اسی لئے پلاؤ کھانا بھی ایک محاورہ بن گیا ہے۔ اکبر الہ آبادی کا شعر ہے۔

؂ بتائیں ہم تمہیں مرنے کے بعد کیا ہو گا

پلاؤ کھائیں گے احباب فاتحہ ہو گا

یہاں پلاؤ کھانے کے محاوراتی معنی لئے گئے ہیں یعنی لوگ مرنے والے کا غم نہیں مناتے بلکہ پلاؤ پکاتے اور کھاتے ہیں۔

خیالی پلاؤ دوسری بات ہے یعنی اپنے طور پر سوچنا کہ یوں نہیں تویوں ہو جائے گا ہم یہ کر دیں گے وہ کر لیں گے یہ سب خیالی پلاؤ ہے۔ جس کو انگریزی میں Wosjfi; tjomlomgکہتے ہیں۔

یہ انسان کی عجیب سی حالت ہوتی ہے اور اس کی اچھی بری نفسیات اس میں شریک ہوتی ہے۔ انہیں معنی میں یہ فرد کا یا پھر سوسائیٹی کا ایک معاشرتی رو یہ ہوتا ہے۔ جو لوگ صحیح وقت پر قدم نہیں اٹھاتے وہ صحیح فیصلہ نہیں کر پاتے وہی زیادہ تر خیالی پلاؤ پکاتے رہتے ہیں۔

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔