چادر ہمارے یہاں احترام کی علامت ہے اور ہماری کئی سماجی رسمیں ہیں جو چادر کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ہمارے سماجی مسائل اور معاملات میں چادر کے کیا معنی ہیں۔ چادر اوڑھانا، چادر ڈالنا، چادر پیش کرنا۔
ہم جب بزرگانِ دین کے مزارات پر حاضر ہوتے ہیں تو مزار پوشی کے لئے چادر پیش کرتے ہیں کپڑے کی چادر کے علاوہ پھولوں کی چادر بھی پیش کی جاتی ہے خاص طور پر مزارات اولیاء کی مزار پوشی کے لئے پھولوں کی چادر بھی چڑھائی جاتی ہے۔
چادر اترنے کے معنی ہوتے ہیں عزت کے سایہ کا ختم ہو جانا خاندان کے بعض لوگ خاندانی عزت کا سبب ہوتے ہیں اُن کی وجہ سے کنبہ کا وقار بنا رہتا ہے اور جب وہ نہیں رہتے تو یہ کہا جاتا ہے کہ خاندان کی چادر اتر گئی۔ اِس کے یہ معنی ہیں کہ چادر عزت و وقار کے لئے ایک علامت ہے۔
جب آدمی ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں اور آنکھ ملا کر دیکھتے ہیں تو اس کو چار آنکھیں ہونا کہتے ہیں آنکھیں چار ہو گئیں یعنی اُن کو دیکھا اُن سے ملاقات ہوئی۔ اُس کے مقابلہ میں چار آنکھوں کی ہونا۔ ایک دوسرا محاورہ ہے۔ اور اس کے معنی ہیں اپنے آپ کو بری چیز سمجھنا کہ وہ تو چار آنکھوں کی ہو رہی ہیں ’’چار چاند لگنا‘‘،خوبصورتی آ جانا کہ اس سے تو کتاب کو اس کی شخصیت کو یا اس عمارت کو چار چاند لگ گئے۔
ایک ہی چاند ٹپکے، جھُومر یا خوبصورتی پیشانی کے باعث اگر اتنا اچھا لگتا ہے کہ اُس کو ’’نیوفون‘‘ کہتے ہیں تو چار چاند لگنے پر حُسن کتنا دوبالا ہو جاتا ہے چار ابرو کا صفایا مردوں کے لئے ہے عورتوں کے لئے نہیں جب سر کے بال، بھنویں، مونچھیں اور داڑھی سب کو اُسترے سے مونڈ دیا جاتا ہے تو اُسے چار ابرو کا صفایا کہتے ہیں۔
ہندوؤں میں موت کی رسموں کے سلسلے میں ایک رسم یہ بھی ہے کہ میت کا بڑا بیٹا اپنی چار ابروؤں کی موڑائی یا صفائی کروا دیتا ہے یہ دہلی اور لکھنؤ کے بانکوں کی ایک ادا بھی رہی ہے کہ وہ چار ابروؤں کا صفایا کروا دیں اس معنی میں چار کا عدد ایک تہذیبی اہمیت بھی رکھتا ہے اور ہمارے معاشرے کی مختلف روشوں پر اُس سے روشنی بھی پڑتی ہے۔ ’’چار چندے اگلی ‘‘ہے یعنی چار گنا اچھی ہے یہ بھی اسی سلسلے کا ایک محاورہ ہے۔ ’’چار یار بھی‘‘ محاوراتی سطر پر استعمال ہوتا ہے۔
چال چلنے سے بنا ہوا ایک محاورہ ہے چال دوکانوں اور مکانوں کے ایک خاص طرح کے سلسلہ کو بھی کہتے ہیں یہ خاص طور پر ممبئی میں استعمال ہوتا ہے۔ لیکن ’’چال‘‘ شطرنج کی ایک اصطلاح بھی ہے اور شاید وہیں سے چال چلنا اُردو کا محاورہ بنا۔ اُس کے معنی ہیں دوسروں کو شکست دینے کے لئے کوئی ترکیب استعمال کرنا۔ شکست دینے کے معنی راستہ روک دینا بھی ہے۔ مات کرنا بھی اور مات دینا بھی یعنی ہرا دینا چال میں آ جانا اسی سلسلے کا محاورہ ہے یعنی دوسرے کی مکاری اور چالاکی کے پھندے میں پھنسنا اسی کو چال میں آ جانا کہتے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو یہ دونوں محاورے ہماری سماجی زندگی میں ایک خاص کردار ادا کرتے ہیں اسی کو چال بازی کہتے ہیں۔ چال ڈھال ایک الگ صورت ہے جس سے آدمی کی شخصی یا سماجی پہچان ہوتی ہے۔
اصل میں ہمارا سماج توہم پرستی کی طرف اشارہ کرتا ہے جو جوان اور خوبصورت لڑکوں اور لڑکیوں کو چاندنی میں کوٹھے یا کھلے صحن میں تنہا سونے نہیں دیتے اور یہ خیال کرتے ہیں اور چاند کی چاندنی ان پر جادو کر دے گی۔ کوئی جن، بھوت ان پر عاشق ہو جائیگا۔ کہ یہ اپنے طور پر پاگل ہو جائیں گے۔ LUNATICلیونیٹک پاگل کو کہتے ہیں اس سے مراد چاندنی مار جانا اور دیوانہ ہو جانا ہے ویسے چاندنی مار جانا گھوڑوں کی بھی ایک بیماری ہے اور انسانوں کی بھی۔
جب آدمی بہت بولتا ہے اور چڑیوں کی طرح برابر چہکنے کی کوشش کرتا ہے تو اُسے چڑھ چڑھ کے باتیں کرنا کہتے ہیں یہ گویا سماجی طور پر ایک ناپسندیدہ عمل ہے۔ چِڑھ چِڑھ کے باتیں کرنا۔ اسی نسبت سے ایک اور طریقۂ گفتگو ہے جس کو عام طور سے ناپسند کیا جاتا ہے کہ وہ بہت بڑھ بڑھ کر یا چِڑھ چِڑھ باتیں کرتا ہے۔
چِڑھ جانا بھی ایک نفسیاتی عمل ہے کہ آدمی کچھ باتوں یا کاموں کو ناپسند کرے اور جب وہ ہوتے رہیں تو اُن سے چِڑھ جائے اور بات نہ کرنا چاہے ایسے آدمی عام طور پر بدمزاج خیال کئے جاتے ہیں اور یہ کہا جاتا ہے کہ وہ ایک چڑے ہوئے آدمی ہیں۔ اور چِڑی چِڑی باتیں کرتے ہیں۔
چراغ پر ہمارے بہت سے محاورے ہیں جو اس عمل پر روشنی ڈالتے ہیں کہ چراغ ہماری زندگی میں کیا اہمیت رکھتا ہے چراغ بتی کرنا۔ گھر کا انتظام اور کام سنبھالنا ہے تاکہ شام ہو تو کوئی چراغ روشن کر دے۔ اس لئے کہ عام طور سے گھروں میں ایک ہی چراغ ہوتا تھا اور غربت کے عالم میں تو اُس ایک چراغ کے لئے بھی بتی اور تیل کا انتظام نہیں ہوتا تھا چراغ بتی کہاں سے ہوتی۔ بڑی بڑی وباؤں یا غارت گروں کے حملوں کے بعد کبھی کبھی ساری ساری بستی میں چراغ نہیں جلتا تھا۔ جس پر کہا جاتا تھا کہ بستیاں بے چراغ ہو گئیں۔
چراغ بجھنا۔ اولاد سے محروم ہو جانا ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ بیٹا گھر کا چراغ ہوتا ہے چراغ جلنا بھی محاورہ ہے اور گھر کے چراغ سے گھر کو آگ لگنا بھی۔ یہ وہ موقع ہوتا ہے جب گھر کا اپنا کوئی آدمی نقصان پہنچاتا اور تباہی و بربادی پھیلاتا ہے چراغ سے چراغ جلنا ایک شخص کی نیکی،ذہانت اور شرافت کا اثر دوسرا شخص قبول کرے وہی چراغ سے چراغ جلتا ہے۔ ایک نے دوسرے کو بڑھایا اور دوسرے نے تیسرے کو یہی گویا چراغ جلنا ہوا اور سماج کی وہ نیکی اور بھلائی کہ ایک آدمی سے دوسرا آدمی کوئی سبق سیکھے، کو ئی روشنی حاصل کرے۔
کبھی کبھی کوئی ایسا شخص بھی ہوتا ہے جو تمام کنبے،خاندان، بستی، یا شہر کے لئے شہرت یا عزت کا باعث ہوتا ہے۔ اُس کے لئے کہتے ہیں کہ وہ شہر کا چراغ ہے۔ غالبؔ کے مرثیہ میں حالیؔ نے کہا تھا۔
شہر میں ایک چراغ تھا نہ رہا
چراغ روشن مراد حاصل ایک دُعا ہے کہ چراغ روشن ہو گا تو گویا مرادیں حاصل ہوں گی۔ چراغاں ہمارے یہاں خوشی کے موقع پر بہت سے چراغ جلائے جاتے ہیں۔
اُس کو چراغاں کہتے ہیں۔ دیوالی پر یا عُرس کے موقع پر یہی چراغاں تو کیا جاتا ہے۔
ہندوانی رقص ایک وہ بھی ہوتا ہے جو چراغوں کی تھالی سر پر رکھ کر کیا جاتا ہے اُس کو رقص چراغ کہتے ہیں بعض مندروں خانقاہوں اور مزارات پر بہت سے چراغ جلانے کے لئے مینار بھی تعمیر کئے جاتے ہیں جسے چراغ مینار کہتے ہیں۔
چشم سے متعلق ہمارے ہاں بہت سے محاورے ہیں اُن میں ’’ چشم نمائی‘‘، چشم بد دُور، چشمِ بیمار جیسے ترکیبی محاورے شامل ہیں مثلاً چشمِ بیمار ایک شاعرانہ اندازِ نظر ہے خماری آنکھیں، چشمِ نیم بار یا چشمِ نیم خواب جن آنکھوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اُن کو محاورہ چشمِ بیمار بھی کہا جاتا ہے۔ غالبؔ اپنے ایک دوست اور شاگرد میرنؔ صاحب کی آنکھوں کو چشمِ بیمار کہتے تھے اس سلسلے میں یہ تشریح بھی آئی ہے کہ خمار آلود یا متوالی آنکھیں یہ عام طور پر معشوقوں کی آنکھوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اور اُس سے ہمارے معاشرے کی تہذیبی سطح کا بھی شاعرانہ اظہار ہوتا ہے۔
’’چشم نمائی کرنا‘‘۔ طنزیہ انداز سے کوئی فِقرہ کہنا اور آنکھوں کا اشارہ کرنا چشم نمائی کہلاتا ہے۔ ایسا ہی ایک ترکیبی محاورہ انگشت نمائی سے چشم پوشی تہذیبی اعتبار سے غیر معمولی محاورہ ہے جب ہم دوسروں کی طرف سے کوئی برائی دیکھتے ہیں اور اُس پر کوئی اختلاف پیدا کرنا بھی نہیں چاہتے تو اُس کو نظر انداز کرتے ہیں اور اُس کو چشم پوشی اختیار کرنے سے بھی تعبیر کرتے ہیں یہ نہایت اہم معاشرتی رو یہ ہے جو وقتاً فوقتاً اس لئے اختیار کیا جاتا ہے کہ اختلافات کو آگے بڑھنے سے روکا جائے اور اِس اَمر کی شعوری کوشش کی جائے۔ تاکہ تعلقات میں کوئی بدمزگی یا بد نمائی پیدا نہ ہو۔
چاندنی کے ساتھ روشنی اور نور کا تصور وابستہ ہے چمک دمک کا نہیں ایسی عورت جو بہت چمک دمک سے رہتی ہے اور غیر ضروری طور پر سنگار پٹار کرتی ہے وہ معاشرے میں اچھی نظر سے نہیں دیکھی جاتی بلکہ اُس کو ایک طرح پر فاحشہ عورت تصور کرتے ہیں۔ اس نسبت سے یہ محاورہ ہماری معاشرتی فِکر اور اندازِ نظر کی ترجمانی کرتا ہے۔
جو آدمی دوسروں کی نظر بہت قبول صورت اور پُر کشش ہوتا ہے اُس کو بطورِ تعریف کہتے ہیں کہ وہ چندے آفتاب و چندے ماہتاب ہے جس کہ یہ معنی ہیں کہ وہ چاند سورج کی طرح دل آویز ہے۔ اور نگاہوں کو فرحت بخشنے والا ہے۔ چاہے اُنہیں کسی وقت بھی دیکھا جائے رات کو دن کو صبح کو شام کو وہ ہر وقت اور ہر حالت میں خوش منظر ہیں، خوبصورت ہیں۔ اس سے معاشرے کی خوش ذوقی اور زبان کی خوبصورتی کا پتہ چلتا ہے۔ اور یہ بھی کہ ہمارے یہاں مبالغہ آرائی کو حُسن بیان سمجھا جاتا ہے اور اِسی سے ہماری شاعری اور دوسرے فنون لطیفہ کی مقصدیت اور Approachسامنے آتی ہے۔ چودھویں رات کا چاند ہونا اُسی کی ایک خوبصورت مثال ہے۔
چوری چکاری یا چوری جاری ہمارے بہت بڑے سماجی عیبوں میں سے ہے۔ اِس سے چوری چھُپے بہت سے بُرے لوگ اپنے ساتھیوں یا غیر ساتھیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں اور اُس طریقہ سے سماج میں ناہمواریوں اور عیب داریوں کو رواج دیتے ہیں ایسا نہیں ہے کہ یہ لوگ اسے پہچانتے یا اُسے جانتے نہ ہوں۔ اسی لئے ہمارے ہاں ایسے محاورے رائج ہوئے کہ چور چوری سے جاتا ہے ہیرا پھیری سے نہیں جاتا جس کے یہ معنی ہیں کہ چوری کا عیب اگر آدمی کی فطرت میں داخل ہو جاتا ہے تو پھر ایک سطح پر یہ اُس کی عادت بن جاتی ہے اور وہ اُسے کہیں نہ کہیں موقع پاکر اپنے حق میں استعمال کرتا ہے۔
اور لوگ قیافے اور قیاس سے یہ پتہ چلا لیتے ہیں کہ یہ کام کس کا ہے اسی وقت کہتے ہیں کہ چور کی داڑھی میں تنکا ہے جو مجرم ہوتا ہے وہی چھپاتا پھرتا ہے اور اپنی حرکات سے سچائی کو ظاہر کرتا ہے۔
چور محل امراء کے محل کا وہ حصہ ہوتا جہاں چوری چھُپے کسی کو رکھا جاتا ہے رجب علی بیگ سرورؔ نے اُس کو ایک موقع پر ’’فسانۂ عجائب ‘‘ میں استعمال بھی کیا ہے کہ اُمراء کے چور محل نہیں ہو پاتے تھے۔ چورنی دیدہ ایسی لڑکی یا لڑکا کہلاتا ہے جو چوری چھُپے دوسروں کو تاکتا جھانکتا رہتا ہے۔ چور پکڑنا بھی اِسی نوعیت کا محاورہ ہے کہ بیماری تکلیف یا رویّہ کا اگر سبب نہیں معلوم ہوتا تو کسی نہ کسی ذریعہ یا وسیلہ یا قیاس یہ اندازہ کیا جاتا ہے کہ برائی یہاں ہے اُسی کو چور پکڑنا کہتے ہیں اِن محاوروں سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ سماج کس طرح اپنے انداز پر غور کرتا ہے، کمنٹ کرتا ہے اور کسی عمل یا ردِ عمل پر اپنے تبصرہ کو محاورے یا ذہانت سے بھرنے کمینٹ کی صورت میں سامنے لاتا ہے۔
چوڑیاں ہندوستان کی عورت کا خاص زیور ہے چوڑیاں کانچ کی بھی ہوتی ہیں لاکھ کی بھی، سونے چاندی کی بھی، اور کم درجہ کے کسی میٹریل کی بھی۔
چوڑیوں کے ساتھ ہمارے محاورے بھی وابستہ ہیں مثلاً چوڑیاں بجنا، چوڑیاں پہنانا، چوڑیاں پہننا،اس کے علاوہ چوڑیاں بڑھانا، چوڑیاں ٹھنڈی کرنا۔ چوڑیاں اُتارنا، چوڑیاں توڑنا، اور اِن سب محاوروں کا رشتہ ہماری تہذیبی اور سماجی زندگی سے ہے۔ مثلاً چوڑیاں بجنا سہاگ کی اپنی زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔
چوڑیاں پہنانا شادی کرنے کی ایک رسم بھی ہے۔ جس طرح چادر ڈالنا ایک رسم ہے اسی طرح چوڑیاں پہنانا ہے یعنی جس کے نام سے جو چوڑیاں پہنائی جائیں گی لڑکیاں یا عورتیں اُس کی دولہن یا بیوی بن جائیں گی۔
چوڑیاں پہننا اسی نسبت سے بیوی بننے کے لئے کہا جاتا ہے۔ تم چوڑیاں پہن کر بیٹھ جاؤ یہ مردوں کے لئے طعنے کے طور پر کہا جاتا ہے۔ اس لئے کہ چوڑیاں پہننا عورتوں کا کام ہے مرد اگر چوڑیاں پہنتا ہے تو اُس کے معنی یہ ہیں کہ وہ بزدلی کا ثبوت دیتا ہے۔ اسی لئے ایک اور محاورہ بھی ہے کہ ’’بنگا‘‘ پہنا دوں گی گاؤں والے چوڑی بنگڑی کہتے ہیں۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ تجھے چوڑیاں پہنا دوں گی بُزدل اور شکست خوردہ بنا دوں گی وغیرہ۔
اب اِن محاوروں کے مقابلے میں چوڑیاں بڑھانا یا ٹھنڈی کرنا بیوہ ہو جانے کی ایک علامت ہے۔ جب کوئی عورت سہاگن نہیں رہتی تو اُس کی چوڑیاں اُتار دی جاتی ہیں تو اُس کو چوڑیاں بڑھانا کہتے ہیں اور اگر کانچ کی چوڑیاں توڑ دی جائیں تو اِس عمل کو چوڑیاں ٹھنڈی کرنا کہتے ہیں۔ جب چراغ اور شمع کو بجھایا جاتا ہے تو اُسے بھی چراغ ٹھنڈا کرنا یا شمع ٹھنڈی کرنا کہتے ہیں۔ بیخودؔ دہلوی کا شعر ہے۔
مجھکو ہے بیخود نہ سمجھ خوب سمجھتا ہوں تجھے
شمع میرے ہی جلانے کوتو ٹھنڈی کر دی
(بیخود دہلویؔ)
اِس سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ محاورہ ہماری معاشرتی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی کس کس طرح ترجمانی کرتا ہے۔
چولی دامن، قمیض، کُرتے یا ساڑی کے پَلّو سے متعلق دو ایسی اصطلاحیں ہیں جو ایک سے زیادہ معنی دیتی ہیں اور جب وہ دونوں ایک ساتھ استعمال ہوتی ہیں تو اُن سے بہت گہری باتوں یا رشتوں کا تعلق ظاہر کیا جاتا ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ اُن سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اور اس سے مراد مرد اور عورت کا گہرا تعلق ہوتا ہے جو سماج کی باہمی قُربتوں کو ظاہر کرتا ہے۔
عورتوں کے خاص محاورات ہیں اور اُن کا تعلق بچے کے دودھ پینے یا نہ پینے سے ہے جب پستان دُودھ سے بھر جاتے ہیں اور بچہ دُودھ نہیں پیتا اور اُنہیں چھاتیوں کا چڑھنا یا بھر جانا کہتے ہیں۔
چھَاتی یاسینہ مَرد یا عورت کے لئے شخصیت کے اظہار یا سماجی افکار و اعمال میں خاص کردار ادا کرتا ہے۔ عورتوں کی شخصیت میں اُس سے جمال کا اظہار ہوتا ہے اور مرد کی شخصیت میں جلال کا جس سے مُراد عورت پن اور مردانہ وجاہت ہے اسی لئے چوڑا سینہ یا بھرا سینہ یا بھرا بھرا سینہ قابلِ تحسین یا لائق تعریف باتیں خیال کی جاتیں ہیں۔
چھاتی سے لگانا یا چھاتی پھٹنا یا چھاتی کے سائے میں رکھنا محبت اور شفقت کی باتیں ہیں۔ چھاتی سے لگائے رکھنا بھی اسی زمرہ میں آتا ہے چھاتی ٹھنڈی ہونا سکون ملنا ہے اسی لئے دُعا دی جاتی ہے کہ اللہ پاک چھاتی ٹھنڈی رکھے۔
نفرت اور دشمنی کے جذبات بھی سینہ سے وابستہ کئے جاتے ہیں۔ جیسے چھاتی پر گھونسا مارنا یا چھاتی پر مونگ ڈالنا یا چھاتی جلنا، چھاتی کوٹنا ماتم کے لئے آتا ہے۔ چھاتی پیٹنے سے بھی یہی مُراد ہے۔
چھاتی پر بال ہونا مَرد کی خوبی سمجھی جاتی ہے کہ اُس کے خون میں آئرن ہونے کی ایک علامت ہے مگر عورت کے لئے نہیں اب عام طور پر مہذب سوسائٹی میں چھاتی پر بال ہونے کا ذکر بھی نہیں آتا۔ دیہات اور گاؤں کی بات الگ ہے۔
جب بہت زخم مل جائیں اور کسی طرف سے طعنہ و تشنیع برابر جاری رہے گویا تیروں کی بارش ہوتی رہے تو محاوروں کے طور پر زخم پڑنا یا چھاتی چھلنی ہونا استعمال کیا جاتا ہے۔ بچہ کی طرف سے دُودھ پینے کی عمل میں عورتوں کے محاورے کے لحاظ سے چھاتی دبانا بھی شامل ہے۔ جنسی اور جذباتی روش میں بھی یہ محاورہ آتا ہے چھاتی اُبھار کر یا نکال کر چلنا ایک طرح کا سماجی اور نفسیاتی طرزِ عمل ہے جس میں اپنی شخصیت کو نمایاں کرنے کارو یہ شامل ہوتا ہے۔ چھاتی چوڑی کرنے کا انداز بھی دراصل محاورتاً یہی اپنی شخصیت کا اظہار ہے۔
ہمارے یہاں بچہ کی پیدائش سے متعلق بہت سی رسمیں ہیں اُن میں سے ایک چھٹی کی رسم بھی ہے جو بچے کی پیدائش سے چھ دن بعد ادا کی جاتی ہے۔ اُس میں دُودھ دھُلائی کی رسم شامل ہے۔ جس میں بہنوں یا نندوں کو نیگ کے طور پر ادا کیا جاتا ہے۔
جب کوئی شخص مصیبت میں پڑتا ہے یا تکلیف اُٹھاتا ہے تو کہتے ہیں کہ چھٹی کا دودھ یاد آگیا یعنی اچھے دن یاد آ گئے بہت پرانی بات یاد آ گئی۔ پُرانی بات یاد آنا زیادہ اہم نہیں ہے جتنا اہم چھَٹی کا دُودھ ہے کہ اُس کا تعلق سماجی رسم سے ہے۔
اصل میں چہرہ لکھنا حیوانات سے متعلق ایک طریقہ ہے کہ جب اُن کو خریدا یا فروخت کیا جاتا ہے تو اُن کا چہرہ لکھ لیا جاتا ہے یعنی سینگ ہیں یا نہیں دُم کٹی ہوئی تو نہیں ہے دانت کیسے ہیں وغیرہ۔ اسی طرح چہرہ لکھنے کا رواج ان لوگوں کے بارے میں بھی رہا ہے۔ جو کسی کی ملازمت میں آتے ہیں۔
چہرہ بندی مرثیہ کے تمہید ی حصّے کو کہتے ہیں یہ مرثیہ نگاری ہی کی ایک اصطلاح ہے۔ بہرحال چہرہ لکھنا ایک طرح کا شناخت نامہ تیار کرنا ہے جو ہماری سماجی زندگی میں ایک نہایت ضروری کارگزاری ہے۔
چھکّا آج بھی کرکٹ کے رشتہ سے ہمارے لئے ایک خاص لفظ ہے اِس سے پہلے چھکّے چھُوٹ جانا استعمال ہوتا تھا۔ جس کے معنی ہوتے تھے کہ اُس کے پانچوں حواس اور چھٹی حِس غائب ہو گئی اوسان خطا ہو گئے ہوش حواس گم ہو گئے۔ یہ ایسے وقت کے لئے کہتے ہیں جب کسی ناقابلِ برداشت صورت حال سے آدمی دوچار ہوتا ہے۔ اور کچھ سوچ نہیں پاتا کہ وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔
چھلنی اور چھاج ہماری وہ معاشرتی زندگی کے دو اہم حوالہ رہے ہیں ایک میں چھانا جاتا ہے۔ اور ایک میں پھٹکا جاتا ہے۔ پھٹکنے کا عمل ایک طرح سے حواس اُڑانے کا عمل بھی ہے۔ اور بات اُڑانا افواہ اُڑانا مزہ اڑانا ہمارے ہاں سماجی رویوں میں شامل ہے۔ اُسی کی طرف یہ کہہ کر اشارہ کیا جاتا ہے کہ’’ چھاج‘‘ میں رہ کر اُڑا رہے ہیں اور ’’چھلنی‘‘ میں چھاَن رہے ہیں۔ ایک طرف باریکیاں نکال رہے ہیں اور دوسری طرف مذاق اُڑا رہے ہیں اور بدنامی پھیلا رہے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں خواہ مخواہ کی باتیں کرنے کا بہت رواج ہے غیر ضروری طور پربھی ہم کمینٹ کرتے رہتے ہیں اور باتوں کا چرچہ کرتے ہیں اسی کوچہ میگوئیاں کہتے ہیں کہ وہاں بہت چہ میگوئیاں ہوتی ہیں لوگ اپنی اپنی سوچ مزاج اور ماحول کے مطابق باتیں کرتے ہیں۔
ہر آدمی کو اپنی حیثیت اپنے حالات اور ماحول کے مطابق سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہیئے اگر ایسا نہیں ہوتا اور لوگ اکثر اس کا خیال نہیں کرتے تو ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو اُن کے منہ پر پھبتی نہیں ہے یا اُن جیسے کسی آدمی کی زبان سے اچھی نہیں لگتیں۔ اسی موقع پر کہتے ہیں چھوٹا مُنہ بڑی بات کرنا یعنی تمہارا مُنہ اس لائق نہیں ہے کہ تم اِس طرح کی یا اس سطح کی باتیں کرو۔
اس سے سماجی آداب و رسوم کا پتہ چلتا ہے۔ کہ کس کو کیا بات کرنی چاہیئے اور اگر معاشرے کی سوجھ بوجھ کی سطح گِر جاتی ہے تو پھر کس طرح کی باتیں ہوتی ہیں۔
ایک پودے کا نام بھی ہے جواس اعتبار سے بہت نرم و نازک پودا ہے کہ جیسے ہی اُس کو ہاتھ لگاؤ وہ مرجھایا ہوا نظر آنے لگتا ہے یہ غیر معمولی طور پر حسّاس ہونے کی ایک صورت ہے اور ایسے لوگوں کی یا ان کی طبیعتوں کی چھُوئی موئی سے نسبت دیتے ہیں اور ایسی لڑکیوں کو خاص طور پر چھوئی موئی کہا جاتا ہے۔ جو ذرا سی بات پر بُرا مان جاتی ہیں یا ذرا ہوا چلنے یا ٹھنڈ لگنے یا گرمی کا اثر ہو جانے پر بیمار ہو جاتی ہیں یہ گویا سماج کا گہرا طنز ہے جو ایسے لوگوں پر کیا جاتا ہے جو مزاج کے بہت نازک ہوتے ہیں۔
ایک سے زیادہ معنی رکھتا ہے عام طور سے جب کسی پر اعتراض کیا جاتا ہے یا چُٹکی لی جاتی ہے تو اُسے چھینٹا پھینکنا یا دینا کہتے ہیں یہ بھی ایک سماجی روش ہے۔ لیکن چھینٹا دینے کے ایک معنی ایک خاص طرح کی رسم بھی ہے جب کوئی بچّہ بیماری سے اٹھتا ہے اور صحت یاب ہوتا ہے تو اُسے غُسل صحت سے پہلے چھینٹا دیا جاتا ہے کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ نیم کی ٹہنی کو پانی میں بھگویا جاتا ہے اور پھر اُس سے بیماری سے شِفا یاب ہونے والے کو چھینٹا دیتے ہیں۔
پکانے کے سلسلے میں بھی یہ محاورہ کام میں آتا ہے اور ایک خاص وقت میں روٹی یا سالن کو پانی کا چھینٹا دیا جاتا ہے پراٹھے اور چاولوں کو بھی خاص طور پر چھینٹے اُڑانا بھی اسی سلسلہ کا ایک محاورہ ہے۔ ۔
معروف محاورات میں سے ہے ’’چیتھڑے ‘‘ایسے کپڑوں کو کہتے ہیں جو گھِس کر پھٹ گئے ہوں بالکل جھِری جھِری ہو گئے ہیں جسے مغربی یوپی میں جھیر جھیر ہونا یا لھیر لھیر ہونا بھی کہتے ہیں اور اس سے مُراد یہ ہے کہ کسی بات کو کسی پروگرام کو یا عزت آبرو کو بُری طرح خاک میں مِلا دینا۔ کسی خیال کی شدید مخالفت کرنا کہ اُس نے فلاں بات فلاں دعویٰ یا دلیل کے چیتھڑے اُڑا دیئے سماج میں اس طرح کی صورتِ حال کا پیش آنا بہت بے عزتی کی بات ہوتی ہے اور ایسے ہی موقعوں پر کہتے ہیں کہ اُس کے چیتھڑے اڑ گئے۔ اور بات بگڑ گئی۔
جب آدمی کوکسی بات کا لالچ ہوتا ہے تو وہ اس موقع کی تلاش میں رہتا ہے کہ وہ کب اور کس سے کیا جھپٹ لے۔ چیل جھپٹا بچوں کا ایک کھیل بھی ہے اور چیل کی طرح جھپٹا مارنا اور موقع سے فائدہ اُٹھانا سماج کا ایک رو یہ بھی ہے۔ اور چیل جھپٹا مارنے سے پہلے منڈلاتی ہے چکّر لگاتی ہے۔ اسی لئے چیل کووّں کی طرح منڈلانا بھی کہتے ہیں جو کسی کے لالچی طریقہ کا کپڑا ایک طرح کا طنز ہوتا ہے اور ہمارے زیادہ محاورے اگر دیکھا جائے تو طنز اور تبصرہ ہی ہوتے ہیں۔
عجیب و غریب محاورہ ہے اور جس کے معنی ہوتے ہیں دوسرے کو بے طرح دبا دینا کہ وہ پناہ مانگنے پر مجبور کر دینا یہ جانداروں کے لئے بھی بولا جاتا ہے اور غیر جانداروں کے لئے بھی جیسے ایسی مُوسلا دھار بارش ہوئی یا طوفانی مینہ برسا کہ اچھی اچھی عمارتیں چیں بول گئیں یا انہوں نے اِس بُری طرح اُن کی خبر لی کہ وہ چیں بولنے پر مجبور ہو گئے یا اُن سے چیں بُلوا دی اگر دیکھا جائے تو یہ بھی ہمارے سماجی رویوں پر بھی تبصرہ ہیں۔
کبھی اتنی زور زبردستی ہوتی ہے کہ اچھے اچھے اُس صورتِ حال کا مقابلہ نہیں کر پاتے۔
یہ محاورہ بھی بہت دلچسپ اور معنی خیز ہے۔ چیونٹی کا ذکر تو ہمارے روایتی قصوں میں آتا رہا ہے لیکن چیونٹی کے پر نکل آنا ایک بڑے طنز کا درجہ رکھتا ہے یہ کہا جاتا ہے کہ جب چیونٹی کی موت قریب آتی ہے تو اُس کے پر نکل آتے ہیں یہ ایک طرح پر خطرہ کا اعلان بھی ہے۔ لیکن اس سے ہمارے معاشرے میں ایک دوسرے ہی مفہوم کو اخذ کیا کہ اب چیونٹی کے بھی پر نکل آئے وہ بھی اُڑنے لگی اور اِس کے معنی یہ ہیں کہ وہ نا دانستہ اپنے لئے نقصان اور تباہی کے راستہ پر بڑھ رہی ہے۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے محاوروں میں کیا کچھ کیا گیا ہے اور کیسی کیسی صورت حال کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔