03:07    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

محاورات

3081 0 0 04

( 1 ) تاک لگانا، تاک میں رہنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

تاک کے معنی ہیں دیکھنا تکنا ہم بولتے ہی ہیں کہ وہ دیر تک تکتا رہا تاک جھانک اسی سے بنا ہے میر تقی میرؔ کا مصرعہ ہے۔

؂ تاکنا جھانکنا کبھو نہ گیا

یعنی جب موقع ملا دیکھ لیا نظر ڈال لی چوری چھپے دیکھنے کی کوشش کرتے رہے۔ اس سے سماجی رو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ کس طرح بعض سوالات خیالات اور  تمنائیں ہمارے دل سے الجھی رہتی ہیں اور ہم ان کے نظر بچا کر یا چوری چھُپے کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں اُردو شاعری میں حسن و عشق کے معاملات کے لئے اس طرح کی باتیں اکثر گفتگو میں آتی رہتی ہیں۔

( 2 ) تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ ایک قدرتی عمل بھی ہے لیکن ہم نے اس کو ایک سماجی عمل کے طور پر دیکھنے اور پرکھنے کی کوشش کی اور بظاہر کیا کہ کسی بات کی ذمہ داری بشرطیکہ اس میں خرابی کا کوئی پہلو ہو کسی ایک آدمی پر نہیں ہوتی وہ عمل دو طرفہ ہوتا ہے اور دوسرا کوئی شخص یا فریق بھی اس میں شریک رہتا ہے شرکت کا پیمانہ جو بھی ہو جتنا بھی ہو۔

( 3 ) تجاہلِ عارفانہ۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

جان بوجھ کر انجان بننا۔ تجاہل کے معنی ہیں لاعلمی ظاہر کرنا اور جانتے بوجھتے ہوئے ظاہر نہ کرنا جو ایک مکار رد عمل ہوتا ہے اور سماج میں اس کی بہت مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ لوگ جانتے ہیں کچھ ہیں لیکن یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ نا واقف ہیں۔

( 4 ) تعزیہ ٹھنڈا ہو جانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

تعزیہ دراصل اظہار ملال ہے بعض طبقوں میں تعزیہ اندھے کنوؤں میں پھینک دیئے جاتے ہیں بعض دریا میں بہا دیئے جاتے ہیں ایسا بھی ہوتا انہیں سفید چادروں میں لپیٹ کر کسی تنہا جگہ میں رکھ دیا جاتا ہے۔ بہرحال جب تغیر یہ دلالی کی رسمیں ختم ہو جاتی ہیں تو محاورتاً اُسے تعزیہ ٹھنڈا کرنا کہتے ہیں۔

( 5 ) تقدیر پھرنا، تقدیر کا لکھا یوں تھا، تقدیر کا بناؤ، تقدیر کا پلٹا کھانا، تقدیر کا دامن، تقدیر کا کھیل۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہمارا معاشرہ تدبیر منصوبہ بندی اور کاوش میں اتنا یقین نہیں رکھتا جتنا تقدیر کو اسے بھروسہ ہوتا ہے یہ مشرقی قوموں کا ایک عام رویہ ہے۔ اور ہندو مسلمانوں میں نسبتاً زیادہ ہے۔ کہ وہ ہر بات کو تقدیر سے منسوب کرتے ہیں چنانچہ تقدیر سے متعلق بہت محاورات ہیں جو ہماری زبان پر آتے رہتے ہیں۔ اور اس لئے آتے رہتے ہیں کہ ہم غیبی فیصلوں کو مانتے ہیں اور اُن سے باہر آ کر سوچنا سمجھنا نہیں چاہتے اوپر دیئے ہوئے محاورات کا مطالعہ اسی نقطہ نظر سے کرنا چاہیے تقدیر کا لفظ بدل کر کبھی قِسمت کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے قِسمت کا لکھا قِسمت کا کھیل قِسمت کا بننا اور بگڑنا کہا جاتا ہے۔

( 6 ) تلوار کو میان میں رکھنا، تلوار کی آنچ، تلوار گر جانا، تلوار میان سے نکلی پڑتی ہے۔ تلواروں کی چھاؤں میں۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

تلوار جسے تیغ بھی کہا جاتا ہے وسطی عہد کا ایک بہت معروف اور ممتاز ہتھیار رہا ہے قدیم زمانہ کی تلوار ایک خاص طرح کی ہوتی تھی جسے کھانڈا کہتے تھے جہاں ’’ل‘‘ کو ’’ڑ‘‘ سے بدلا جاتا ہے وہاں تلوار کا تلفظ ’’ترواڑ‘‘ ہو جاتا ہے۔ جو لوگ سپاہی پیشہ خاندانوں کے افراد ہوتے ہیں ان کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ تلواروں کی چھاؤں میں پلے بڑھے ہیں اقبالؔ کا مصرعہ ہے۔

؂ تیغوں کی چھاؤں میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں۔

تلوار چلنا، تلوار کا کسنا یعنی اس کی لچک دیکھنا تلوار کا پانی، اس کی دھار، اس کی آب و تاب اور دھار، تلوار کا میان سے نکلنا یا میان میں رکھا جانا یہ سب تلوار کے استعمال سے متعلق باتیں ہیں تو اُس زمانہ کی زندگی میں عام تھیں ان میں تلوار کے گھاٹ اتار دینا بھی تھا۔ ہمارے ہاں اردو میں محبوب کی بھوں کو تلوار سے تشبیہ دی جاتی ہے اس سے بھی تلوار سے ذہنی اور سماجی رشتوں کا پتہ چلتا ہے۔

( 7 ) تمہارے منہ میں کبھی شکر یا گھی کھانڈ۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

شکر ہویا پھر شکر وہ  مٹھاس سے تعلق رکھنے کی وجہ سے پسند یدہ اشیاء ہیں گڑ کھانڈ اور  راب بھی اسی ذیل میں آتے ہیں اسی لئے اس طرح کے محاورے بھی ہیں گڑ نہ دبے گڑ جیسی بات کہہ دیئے گڑ اور گھی کا ایک ساتھ استعمال دیہات کی سطح پر بہت پسند کیا جاتا ہے شکرانہ میں خاص طور پر گھی اور کھانڈ یا گھی اور شکر استعمال ہوتے تھے دیہات میں لال شکر اور شہروں میں گھی اور پورا خاص طور پر استعمال میں آتا تھا اور اس کے نیچے چاول ہوتے تھے۔

بہرحال جب ہم ان امور پر  غور کرتے ہیں تو گھی اور  شکر کی سماجی حیثیت اور معنویت سامنے آتی ہے اور یہ کہاوت ہے تمہارے منہ میں گھی شکر اُسی کی طرف اشارہ کرتی ہے اور اس سے مراد ہوتی ہے کہ تمہارا کہنا پورا ہوا اور مراد بر آئے اب بھی ایسے موقع پر ایسی کہاوت اور  بولی جاتی ہے اور میٹھا ئی کھلانے یا کھانے کا وعدہ کیا کہا جاتا ہے۔ مقصد اظہارِ خوشی ہے۔

( 8 ) تنکے کا احسان ماننا، تنکے کا سہارا، تنکے کو پہاڑ کر دکھانا، تِنکا تِنکا کر دیار۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

تنکا لکڑی کا چھوٹے سے چھوٹا اور کم سے کم درجہ کا حصہ ہوتا ہے اس سے جانور اپنا گھونسلا بناتے ہیں اور جب گھانس پھونس کے جھونپڑے، ٹٹیاں اور  چھپر بنتے ہیں تب بھی گویا تنکے ہی کام آتے ہیں دیہات میں اس طرح کے مکانات چھپرا اور  چھپریاں اب بھی دیکھنے کو مل جاتی ہیں سرکٹیاں بھی اسی کی مثالیں پیش کرتی ہیں اور سرکنڈے بھی تنکے کے سے وابستہ کہاوتیں اور محاورے کمزوری بے ثباتی اور کم سے کم درجہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں سوکھ کر تنکا ہونا انتہائی کمزور ہو جانا ہے تنکا تنکا بکھر جانا گھاس پھونس کی چھپری یا چھپروں کا ہوا میں اڑ جانا ہے یا باقی نہ رہنا ہے۔

اب اس کے مقابلہ میں تنکے کا احسان ماننا ہماری سماجی زندگی کا ایک دوسرا رخ ہے عام طور پر لوگ دوسرے کی ہمدردی محبت اور خلوص کا بدلہ تو دیتے ہی نہیں بلکہ احسان بھی نہیں مانتے جب کہ احسان تو چھوٹے سے چھوٹا بینک عمل میں جس کا دوسروں کو شکر گزار ہونا چاہیے ذوقؔ کا مصرعہ ہے۔

؂ ارے احسان مانوں سر سے میں تنکا اتارے کا

تنکے کا پہاڑ کر دکھانا ایک تیسری صورت ہے کہ اس کا بھی ہماری سماجی زندگی سے ایک گہرا رشتہ ہے۔ کہ بات کو کچھ اس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے کہ تنکے کا پہاڑ بنا دیا جاتا ہے۔ بات کا بتنگڑ بتانا اور بات کو بہت آگے بڑھا دینا ایک دوسری صورت ہے داڑھی میں تنکا ہونا ایک اور  صورت حال کی طرف اشارہ ہے کہ جو دراصل کسی غلطی یا نقصان پہنچانے کا مرتکب ہوتا ہے اسے احساس تو رہتا ہے کہ میں نے جرم کیا ہے میں قصور وار ہوں اس کا کوئی ایکشن یا ری ایکشن اس کی طرف اشارہ بھی کر دیتا ہے اسی کو چور کی داڑھی میں تنکا کہتے ہیں۔

ایک اور  محاورہ بھی اسی سلسلے کا ہے دوسروں کی آنکھ میں تنکا دیکھتے ہیں اور اپنی آنکھوں کا شہتیر بھی نظر نہیں آتا جس کے معنی ہیں کہ اپنی عیب داریاں کوئی نہیں دیکھتا اور دوسروں کی بات پر اعتراض کرتے ہیں اور عیب لگاتے ہیں اس طرح تنکے سے ہم رشتہ بہت سے محاورے ہماری سماجی فکر کا مختلف پہلوؤں سے اظہار کرتے ہیں اور ہماری سوچ پر روشنی ڈالتے ہیں۔

( 9 ) تن من وارنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

تن من کے معنی ہیں جسم و جان (Body and Soul)جب کسی سے اپنی مکمل وفاداری اور  ایثار و قربانی کی بات کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے ہم تن من سے تمہارے ساتھ ہیں کبھی کبھی تن من دھن بھی کہتے ہیں من ہندی لفظ ہے اس کے معنی رُوح کے ہیں اس لئے اس کا کسی عمل میں ساتھ ہونا بڑی بات ہوتی ہے جب یہ کوئی کہتا ہے کہ میں تم پرتن من وار کرتا ہوں تو گیتوں یا سب کچھ قربان کر دینا چاہتا ہے تو گویا سب کچھ قربان کر دینا چاہتا ہے گیتوں میں تن من وارنا آتا بھی ہے۔

( 10 ) تن من میں پھُولے پھُولے نہ سمانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

تن من میں پھُولا نہ سمانا بھی محاورہ ہے لیکن زیادہ تر اپنے من میں پھولا نہ سمانا بولا جاتا ہے۔ اپنے تن من کی کچھ خبر نہ رہی یعنی میں بالکل غافل ہو گیا یہ بھی ہماری زبانوں پر اکثر آتا ہے صرف تن کے ساتھ بھی بہت سے لفظ اور لفظی ترکیبیں بطورِ محاورہ آتے ہیں جیسے تن پوشی تن پرستی تن دہی تن ڈھانپنا اگر غور کیا جائے تو یہ لفظی ترکیبیں محاورے کے ذیل میں آتی ہیں اور ان سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ محاورے کیوں اور  کیسے بنتے ہیں اور لغوی معنی سے مجازی معنی تک کیسے آتے ہیں تن پرستی اپنے وجود کو یا اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ اہمیت دینا ہے اور تن دہی محنت و مشقت برداشت کر کے اگر کوئی کام کیا جاتا ہے تو اسے تن دہی کہتے ہیں۔

( 11 ) تنگ حال ہونا، تنگ وقت ہونا، تنگ ہاتھ ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ محاورات دراصل ہماری سماجی زندگی کا منظر نامہ پیش کرتے ہیں خاص طور پر اُس طبقہ کی جو کم آمدنی اور  اخلاص کے ساتھ اپنے زندگی کے دن گزارتا ہے اسی کو تنگی ترشی کہتے ہیں۔ یا ہاتھ کا تنگ ہونا بھی اسی کی طرف اشارہ ہے اور اس کا ذکر اکثر ہوتا ہے کہ اس کا ہاتھ تنگ رہتا ہے یاوہ تنگ حالی میں اپنا وقت گزارتا ہے تنگ وقت ہونا محاورے کی ایک دوسری صورت ہے یہاں پیسہ مراد نہیں ہوتا بلکہ وقت کا کم رہ جانا مراد ہوتا ہے جیسے نماز کا وقت کم ہو رہا ہے۔ تنگ ہونا تکلیف کی حالت میں ہونا ہے اور تنگ کرنا دوسروں کو پریشان کرنے کے معنی میں آتا ہے اور یہ ہماری سماجی روش ہے کہ جب ہم دوسروں سے کوئی ناچاقی یا اختلاف یا خود غرضانہ اختلاف رکھتے ہیں تو ان کو طرح طرح سے ستاتے اور  پریشان کرتے ہیں اسی کو تنگ کرنا کہا جاتا ہے کہ اس نے مجھے تنگ کر رکھا ہے۔

( 12 ) تازہ کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

نئے سرے سے کسی خیال کو زندہ کرنا ہے جیسے غم تازہ کرنا کہ جس غم کو آدمی بھول گیا تھا اسے پھر یاد دلایا ویسے ہم ’’تازہ‘‘ بہت چیزوں کے لئے بولتے ہیں جیسے تازہ کھانا’’ تازہ روٹی‘‘ ’’تازہ گوئی‘ اور  تازہ روئی (تازہ خیالی، تازہ دم ہونا (نئی بات کہنا) تازہ کاری (نیا کام کرنا) وغیرہ۔

( 13 ) تیوری بدلنا یا چڑھانا تیوری میں بل ڈالنا تیوری کا بل کھلنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

تیوری انسان کی پیشانی اور دونوں آنکھوں کے درمیان کے حصّے کو کہتے ہیں کہ وہ سب سے زیادہ ہمارے جذبات و احساسات کا آئینہ ہوتا ہے ہم گفتگو کرتے وقت آنکھ بھون چڑھاتے ہیں نا خوشی اور ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں اسی کو تیوری چڑھانا کہتے ہیں اُردو کا ایک مصرعہ ہے جس سے سماجی رو یہ کی نقش گری ہوتی ہے۔

؂ تیوری چڑھائی تم نے کہ یہاں دم نکل گیا

تیوری کو تیور بھی کہتے ہیں اور اس کے معنی Expirationمیں شامل رہتے ہیں جیسے آج کل ان کے تیور بدلے ہوئے ہیں جس کا یہ مطلب ہے کہ نظریں بدل گئیں ہیں اگر ناگواری ختم ہو گئی تو اسے تیوری کا بل کھلنا کہتے ہیں یہ تیوری کے ہر بل پڑنے کے مقابلہ میں ہوتا ہے۔

4.0 "1"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔