03:07    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

محاورات

1827 0 0 00

( 1 ) پابوس ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہمارے یہاں قدموں کا بہت احترام کیا جاتا رہا ہے اس کا اندازہ اُن محاوروں سے ہوتا ہے جو قدموں سے نسبت کے ساتھ ہماری زبان میں رائج ہیں اور  رائج رہے ہیں۔ پیر دھونا پیر دھو دھوکر پینا۔ پیروں کی دھُول ہونا۔ قدموں پر نچھاور ہونا قدم چومنا قدموں کو بوسہ دینا قدم بوس ہونا قدم چھونا قدم رنجہ فرمانا یا قدومیمنت (مبارک قدم) قدموں کی برکت قدم گاہ وغیرہ اس سے معاشرے میں احترام کے تقاضوں کی نشاندہی ہوتی ہے یہ ہند ایرانی تہذیب کا ایک مشترک رو یہ سمجھا جانا چاہیے ہمارے ہاں بزرگانِ دین کے ساتھ اور خاص طور سے صوفیوں کے ساتھ یہ رو یہ آج بھی برتا جاتا ہے کہ ان کے قدموں کو چھوتے ہیں ہندوؤں میں پنڈتوں کے لئے کہتے ہیں ’’پالا گن مہاراج‘‘ یعنی ہم حضور کے قدم چھوتے ہیں اور اُن پر نچھاور ہوتے ہیں جب کسی سے دوسرے کا مقابلہ کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ وہ تو اس کے قدموں کی دھول کے برابر ہے یا میں تو آپ کے قدموں کی خاک ہوں یا خاک کے برابر بھی نہیں ہوں اس لیے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ کس طرح سوچتا سمجھتا اور کرتا رہا ہے۔ غالبؔ کاشعر یاد  آتا ہے۔

؂ کرتے ہو مجھ کو منع قدم بوس کس لئے

کیا آسمان کے بھی برابر نہیں ہوں میں

یعنی آسمان کو قدم بوسی کی اجازت ہے تو مجھے کیوں نہیں ہے

( 2 ) پاپ چڑھنا، پاپ ہونا، پاپ کرنا، پاپ سے بچنا، پاپ کاٹنا، پاپ کھانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اِن جیسے محاورے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ سماج کچھ باتوں کو گناہ قصور اور بڑی خطاؤں کے دائرے میں رکھتا ہے اور  انہیں پاپ کہتا ہے ہندوؤں میں بڑے قصور کے لئے مہا پاپ کہا جاتا ہے اور اسی نسبت سے قصور کرنے والے کو پاپی یا  مہا پاپی کہہ کر یاد کیا جاتا ہے پاپ چڑھنا پاپ کے وارد ہونے کو کہتے ہیں ایسا کرنا تو پاپ کرنا ہے۔ اور اس سے بچنا چاہیے کہ ہم سے کوئی پاپ ہو جائے پاپ کا ٹنا بھی اسی ذیل میں آتا ہے کہ اپنے دفع کرو پاپ کاٹو۔

( 3 ) پاپڑ بیلنا، پاپڑ پیٹنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

پاپڑ ہندوستان کی کھائی جانے والی اشیاء میں ایک خاص قسم کی غذا ہے جو باریک روٹی کی طرح تیار کیا جاتا ہے پھر تل کر کھایا جاتا ہے چونکہ روٹی پکانے کے مقابلہ میں پاپڑ بیلنا ایک مشکل کام ہے دیر طلب ہے۔ اور  بہت سے پاپڑ تیار کرنے میں آدمی تھک جاتا ہے۔ اسی لئے تھکا دینے والے کاموں کے سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اتنے دنوں پاپڑ بیلتا رہا کہ پاپڑ چکلہ بیلن سے تیار ہوتا ہے۔

( 4 ) پاپوش بھی نہ مارُوں، پاپوش پر مارنا،پاپوش سے یا پاپوش کی نوک سے، پاپوش کی برابر سمجھنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

پاپوش جُوتے کو کہتے ہیں اور ہمارے معاشرے میں جُوتی یا  جُوتا صرف ایک ضرورت کی چیز نہیں ہے اس کی ایک غیر معمولی سماجی حیثیت بھی ہے اسی لئے بہت سے محاورے جُوتی اور جُوتے کے نام کے ساتھ ہماری زبان میں داخل ہیں جُوتے مارنا زبان سے ذلیل کرنا جُوتے کھانا دوسروں کے درمیان ذلیل ہونا۔

اصل میں جُوتا ہمارے ہاں ایک سماجی درجہ رکھتا ہے بہت نیچا درجہ اسی لئے جب کسی کو ذلیل کرنا ہوتا ہے تو جوتے کی نوک پر رکھنا کہتے ہیں۔ تو جوتا ایک طرح کی سماجی سزا ہے اور بڑے آدمی کی نسبت سے خدمت کرنا جوتیاں سیدھی کرنا ہیں کہ ہم نے فلاں کی جوتیاں سیدھی کیں یعنی اس کی ادنی سے ادنی خدمت سے کوئی گریز نہیں کیا۔

( 5 ) پاسا پڑنا، پاسا پلٹنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

پاسا چوسر کی ایک خاص طرح کی گوٹ ہوتی ہے پھینکا جاتا ہے تو اُس پر جو نشانات ہوتے ہیں اور سامنے آتے ہیں اُن کے مطابق چال چلی جاتی ہے اور اس معنی میں پانسہ پورے کھیل پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اور کھیل کا دارومدار پانسہ پڑنے پر ہوتا ہے اسی کو سماجی طور پر ہم زندگی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اگر پانسہ غلط پڑا ہے تو یہ ہماری بدقسمتی ہے اور اگر صحیح ہے تو یہ خوشی کی بات ہے اور اچھی قسمت کی علامت ہے۔

( 6 ) پال ڈالنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

آموں کو لحاف اور  گدّے کے درمیان رکھنا تاکہ وہ تیا رہو جائیں اس کو ایک سماجی محاورے کے طور پر استعمال کرنا ایک طرح سے طنز کے معنی میں آتا ہے کہ کیا ان کی پال ڈالو گے آم ڈال کا پکا بھی ہوتا ہے اور پال کا پکا اچھے اور تازہ آم کو کہتے ہیں کہ یہ ڈال کا پکا ہے اور ایسے آدمی کے لئے بھی ڈال کا پکا استعمال ہوتا ہے جو عقل مند ہو چاق چوبند ہو اور ہر طرح مُستعد ہو۔ اس سے ہمارے اس رجحان کا پتہ چلتا ہے کہ محاوروں کی صورت میں ہم اپنے عام تجربوں کو خاص معنی دیتے ہیں۔ جس سے ہماری سوچ کے سفر کا اندازہ ہوتا ہے کہ ہم نے بات کو کہاں سے اٹھایا اور کہاں پہنچایا۔

( 7 ) پانی پانی کرنا، پانی پانی ہونا، پانی پڑنا، پانی پھر جانا،(کون کتنے پانی میں ہے) پانی توڑنا پانی ڈالنا، پانی دکھانا، پانی دینا، پانی ڈھلنا (آنکھوں کا پانی ڈھل گیا ہے) پانی رکھنا یا بھرنا،پانی چھونا،پانی پی پی کر کوسنا، پانی پی کر ذات پوچھنا، پانی کا بتاسا یا بلبلا وغیرہ۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

پانی ہماری ضرورت کی چیز ہے اگر پانی نہ ہو تو زندگی بھی نہ ہو بہت محاورے پانی پر ہیں  مثلاً گہرے پانی پیٹھ،گہرے پانی میں اگر اتر کر دیکھو۔ یہیں سے یہ محاورہ آیا ہے اور اس مفہوم کے ایک رخ کو ظاہر کرتا ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے کون کتنا تجربہ کار ہے کون کتنا بھرم رکھنے والا ہے۔ کون کتنا لائق ہے یا کتنا پیسہ والا ہے پانی پلانا ثواب کا کام ہے اور پیاسے کو پانی پلانا اور بھی زیادہ ثواب کا کام ہے آنحضرتؐ کو  اسی لئے ساقی کوثر کہا جاتا ہے۔ کہ وہ میدان حشر میں پیاسوں کو آب کوثر پلائیں گے۔ پانی لگانا جانوروں کی گردن پر  چھُری چلانے سے پہلے پانی اس لئے لگایا جاتا ہے کہ چھری آسانی سے چل جائے پانی دکھانا بھی اُس جانور کے لئے ہوتا ہے جس کو ذبح کرنے سے پہلے پانی پلایا جاتا ہے۔ پانی دینا پودوں کو سینچنا پانی پی  کر کوسنا طنز کرنا ہے یعنی جس نے پانی پلایا اُسی کو کوسنے بیٹھ گئے۔ پانی پی کر ذات پوچھنا بھی اِسی طرح سے اپنی ایک روشِ فکر کا اظہار ہے کہ جس کے گھر کا پانی  پی لیا اب اس کی ذات کیوں پوچھتے ہو۔ یعنی اس سے چھوت چھات برتنے کی بات کیوں کرتے ہو پانی پانی ہونا شرمندہ ہونا یعنی ندامت کے پسینے میں ڈوب جانا ہے اور پانی پانی کرنا شرمندہ کرنا ہے کہ میں نے سارا چٹھا سنا دیا اور اسے پانی پانی کر دیا ہے آنکھوں کا پانی مر جانا یا ڈھل جانا دونوں کے معنی ایک ہی ہیں۔ یعنی لحاظ یا س نہ رہنا ہے اور کمینہ پن اختیار کرنا۔ پانی چھوڑنا عورتوں کی زبان میں اس لیے آتا ہے کہ پکانے کے عمل میں پانی کی مقدار کا کم اور زیادہ ہونا یا پکتے وقت پانی چھوڑنا پانی کا بتاسا بلبلے کو کہتے ہیں اس طرح سے پانی سے وابستہ تصورات ہماری معاشرتی فکر کا اک اہم حصہ رہے ہیں۔

( 8 ) پاؤں اُکھڑنا، پاؤں اُکھاڑنا، پاؤں جمنا یا جمانا، پاؤں پڑنا، پاؤں باہر نکالنا، پاؤں ملنا، پاؤں ٹپکنا، پاؤں پسارنا، پاؤں پر سر رکھنا پاؤں میں ٹوپی پگڑی یا ڈوپٹہ ڈالنا پاؤں پاؤں چلنا یا پیادہ ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

پاؤں کے ساتھ جہاں چلنے کے محاورات آتے ہیں جو انسان کے اہم تجربات میں سے ہیں اس کی اہم ضرورت ہے وہاں نہ چلنے کے ساتھ بھی بہت سے محاورات وابستہ ہیں مثلاً پیڑ توڑ کر بیٹھنا پیر کی کیفیات کو ظاہر کرتے ہیں ضرورت کو ظاہر کرتے ہیں بیٹھنے کے علاوہ پیروں کے جمنے اور  ٹھہرے کے بارے میں محاورات انسانی کردار اور سماجی ضرورت کی طرف نئے نئے پہلوؤں سے اشارہ کرتے ہیں مثلاً قدم جمانا، قدم جمنا جیسے ہم دوسرے لفظوں میں پیر جمنا، اور پیر جمانا، کہتے ہیں یہ مستقل مزاجی کی طرف اشارہ کرنے والے محاورے ہیں جن کے مقابلہ میں قدم اکھڑنا اور قدم اکھاڑنا آتے ہیں۔ پامردی اور بہادری کے خلاف ایک صورتِ حال ہے کہ جنت میں اُن کے پاؤں اکھڑ گئے۔ اکھڑتے ہوئے نظر آئے یا اکھاڑ  دیئے گئے سرپر پاؤں رکھ کر بھاگے۔ بھاگ کھڑے ہونے کی ایک نئی عجیب اور مبالغہ آمیز صورت ہے ان محاوروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیروں کے بارے میں کیا کیا سوچتے ہیں اور کس طرح سوچتے ہیں۔

قدم سے متعلق کچھ دوسرے محاورے بھی ہیں جیسے دو قدم کا فاصلہ یا قدم قدم آگے  بڑھنا دو قدم چل کر ٹھہر گئے یا  دو دم چل کر تو دیکھو یا پھر ہمارا آج کے دور کا محاورہ کہ انہوں نے اپنے قلم یا اور  قلم کی حرکت کو کبھی رکنے نہیں دیا مستقل طور پر کام کرتے رہے جو ایک بڑا سماجی قابلِ تحسین صورت ہے پاؤں میں سر رکھنا ڈوپٹہ رکھنا، انتہائی احترام کا اظہار کرنا مگر مقصد یہ ہوتا ہے کہ قصور معاف کر دیا جائے خطا در گزر کر دی جائے چونکہ دوپٹہ پگڑی، اور ٹوپی کسی بھی شخص کا اظہار عزت ہوتا ہے اور مقصد اس عمل سے یہ ہے کہ آپ ہمیں عزت دیں بخشیں اور ہمارے قصور کو در گزر کریں یہ ایک سماجی طریقہ رسائی ہے۔

( 9 ) پاؤں پاؤں پھونک پھونک کر رکھنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

احتیاط سے قدم اٹھانا اور  خطرات کا خیال رکھنا آج اس حد تک سمجھ میں نہیں آتا کہ کل تک جب راستہ پر خطر ے تھے قدم قدم پر خطرہ تھا دھوکہ بازی تھی ٹھگی اور ڈکیتی کا اندیشہ تھا دوستوں اور  رشتہ داروں کی طرف سے بھی آدمی مشکلات میں گھر جاتا تھا اس وقت قدم پھونک پھونک رکھنا اپنے معنی اور معنویت کے اعتبار سے انسان کے سماجی رویوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

( 10 ) پاؤں پھیرنے جانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ محاورہ خاص طور پر دہلی کی تہذیبی زندگی سے وابستہ ہے اور یہاں کی بعض رسمیں اس کی طرف اشارہ کرتی ہیں مثلاً پاؤں پھیرنے جانا، بچہ پیدا ہونے سے پہلے (نواں مہینہ) شروع ہوتے وقت لڑکی سسرال سے میکے جاتی ہے پھر ایک دو دن بعد اپنی سسرال واپس آ جاتی ہے۔ منشی چرنجی لال نے اسکے مقابلہ میں لکھا ہے کہ بچہ پیدا ہونے کے بعد چلّہ نہا کر لڑکی میکے جاتی ہے کہ یہ بات تو ضرور ہے لیکن اس کو پاؤں پھیرنا نہیں کہتے۔ چلہ نہا کر میکے یا کسی قریبی رشتہ دار کے گھر جانا وہ دہلی میں الگ معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔

( 11 ) پاؤں پیٹ پیٹ کر مرنا، پاؤں پیٹا،پاؤں پٹخنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ دوسری طرح کے محاورات ہیں اور فرد کے رو یہ سے تعلق رکھتے ہیں جب آدمی کوئی کام کرنا نہیں چاہتا اور نا خوشی کے اظہار کے لئے قدم اس طرح اٹھاتا ہے جیسے وہ پاؤں پٹخ رہا ہے پاؤں پیٹ رہا ہے اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ اظہار نا خوشی کر رہا ہے۔

نا خوشی کے ساتھ زندگی گزارنا اور ذہنی تکلیفیں اٹھاتے رہنا پاؤں پیٹ پیٹ کر مرنے یا جینے کو کہتے ہیں بات وہی ناخوشی میں مبتلا رہنے کی ہے۔

( 12 ) پاؤں میں مہندی لگا ہونا یا لگنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

عورتوں کا محاورہ ہے کہ مہندی وہی لگاتی ہیں اور پیروں میں جب مہندی لگائی جاتی ہے تو چلنا پھرنا بندہو جاتا ہے یہاں تک کہ وہ مہندی خشک ہو جائے۔

اور اُس کو اتار دی جائے اس کے بعد بھی ہاتھ پیروں کو دھویا نہیں جاتا تاکہ مہندی رچ جائے بہرحال جب مہندی لگی ہوتی ہے تو آنا جانا ممکن نہیں ہوتا اسی لئے طعنہ یا طنز کے طور پر کہا جاتا ہے کہ ایسا بھی کیا ہے کہ آپ نہیں آ سکتے کیا پیروں کو مہندی لگی ہے۔ یعنی آپسی معاملات میں آدمی اپنا حق یہ سمجھتا ہے کہ جب بھی وہ یاد کرے یا موقع ہو تو دوسرے کو آنا چاہیے اور  اگر وہ نہیں آتا تو اس سے شکایت ہوتی ہے شکوہ کیا جاتا ہے اور  اس کا اظہار مقصود ہوتا ہے کہ تم خوامخواہ کی بہانہ بازی کر رہے ہو یہ کوئی جائز بات نہیں ہے۔

( 13 ) پتھر برسنا، یا پتھراؤ کرنا، پتھر پڑنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

پتھر برسنا گاؤں والوں کی اصطلا ح میں اولے پڑنے کو بھی کہتے ہیں۔ ’’اولوں ‘‘ سے فصل کا ناس ہو جاتا ہے وہ تیار ہو تب اور نہ ہو تیار تب بھی نقصان دہ ہوتے ہیں اسی لئے جب کوئی کا م خراب ہو جاتا ہے تو یہ کہتے ہیں کیا تمہاری عقل پہ پتھراؤ پڑ گئے تھے یعنی وہ کام نہیں کر رہی تھی تم سوچ نہیں پا رہے تھے پتھر برسانا پتھراؤ کرنا ہے یہ سزا دینے جنگ کرنے اور  احتجاج کرنے کی ایک صورت ہے پتھراؤ کرنے کا رواج آج بھی ہے قدیم زمانہ میں اور خاص طور پر یہودیوں کے یہاں پتھر مارکر ہلاک کرنا ایک سخت سزا تھی بعض جرائم کے سلسلے میں دی جاتی تھی اسلام میں وہ منقطع ہو گئی۔

پتھر بے حس و ہلاکت ہونے کی علامت ہے  اس لئے کہ بیوقوف آدمی کو بھی پتھر کہتے ہیں بے حس ہونے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ آدمی کسی کے دکھ درد کو محسوس نہ کرے اس کا دل کسی کے بُرے حالات پر پسیجے بھی نہیں تو اسے بھی پتھر دل کہا جاتا ہے انتظار کرتے کرتے آنکھیں تھکن کا شکار ہو جاتی ہیں اس عمل کو بھی آنکھیں پتھرانا کہتے ہیں کہ آنکھیں پتھرا گئیں۔

( 14 ) پتھر چھاتی پر دھرنا یا دل پر پتھر رکھنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بے صبر کرنا اور ایسے معاملات میں جہاں کسی شخص کے لئے صبر و ضبط کا مظاہرہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے وہاں یہ کہتے ہیں کہ دل پر پتھر رکھ کر یہ کام کیا یا اس کا فیصلہ کرنے کے لئے دل پر پتھر رکھنا پڑا وغیرہ۔ پیٹ سے پتھر باندھنا انتہائی بھوک کے عالم میں بھی صبر و ضبط سے کام لینا اور کسی سے اظہار نہ کرنا پیٹ سے پتھر باندھنا کہلاتا ہے اور مشکلات برداشت کر کے جب کوئی کام کیا جاتا ہے تو بھی یہ کہتے ہیں کہ ہم نے پیٹ سے پتھر باندھ کر یہ کام کیا ہے۔ یہ یا ایسے کاموں کے لئے تو پیٹ سے پتھر باندھنا ہوتا ہے یعنی سختیاں جھیلنا اور  مشکلات برداشت کرنا۔

( 15 ) پُرانے مُردے اکھیڑنا ( سید ضمیر حسن دہلوی )

غیر ضروری باتوں کو بار بار دہرانا جن کا وقت بھی گزر چکا اور اُن کا ذکر بار بار زبان پر لانا گڑے مُردے اُکھیڑنا کہلاتا ہے یہ ہماری سماجی برائی کی طرف اشارہ کرتا ہے یعنی ہم کسی کی نیکی کو یاد نہیں کرتے اس کے احسانات کو بھول جاتے ہیں اور بُرائی کو بار بار دہراتے ہیں۔ بلکہ بھولی بسری باتوں کو بھی ضرور سامنے لانا چاہتے ہیں اس محاورہ میں ایک طرح کا طنز اور اس سماجی روش کی طرف اشارہ ہے کہ ہم اچھائیوں کا اعتراف کرنے میں بے حد بخیل ہیں اور کمزوریوں،عیبوں، برائیوں کو طرح طرح سے سامنے لاتے ہیں۔

( 16 ) پرائی آنکھیں کام ہیں آتیں۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

کام تو خیر پَرائی آنکھیں بھی آ جاتی ہیں اور  دوسرے لوگ اپنی آنکھوں اور اپنے ذہن کی روشنیوں اور  اپنے علم کے ذریعہ ہماری مدد کر سکتے ہیں۔ اور کچھ لوگ کرتے بھی ہیں مگر محاورہ کا مقصد یہ ہے کہ آدمی اپنی آنکھوں سے ہی کام لینے پر اکثر مجبور رہنا پڑتا ہے اور  یہی بہتر بھی ہے کہ اپنی عقل سے کام لے اپنی سُوجھ بُوجھ کی روشنی میں فیصلہ کرے اور اپنے ارادے کی مضبوطی کے ساتھ قدم اٹھائے ورنہ دوسروں کا مشورہ ان کی رہنمائی اور عقل گاہ گاہ گمراہی کا باعث بھی بن جاتی ہے کہ لوگ ہمیں دوست بن کر بھی تو فریب دیتے ہیں۔

( 17 ) پَرائے شگون کے لئے اپنی ناک کیوں کٹواتا ہے۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

آدمی کا حال کچھ عجیب ہے بہت سے کام وہ دوسروں سے حِرص کا رشتہ رکھنے کی وجہ سے محض لاگ کے طور پر کرتا ہے کہ تم ایسا کرتے ہو تو ہم ایسا کریں گے اور ایسی صورت میں یہ بھی نہیں سوچتا کہ جو کچھ میں دوسرے کی مخالفت کے طور پر کر رہا ہوں وہ خود میرے لئے نقصان کی بات ہے۔ بہت بڑے نقصان کی بات ہے اسی کی طرف اِس محاورے کی طرف اشارہ ہے کہ پرائے شگون کی وجہ سے اپنی ناک کیوں کٹواتے ہو۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ دیکھا دیکھی کام نہیں کرنا چاہیے اپنی عقل سے بھی کام لینا چاہیے اس میں ایک بات اور بھی قابل لحاظ ہے اور وہ شگون لینا ہے جو  توہم پرستی کی ایک صور ت ہے اور قابل تعریف نہیں ہے آدمی اس کی وجہ سے بے عقل اور  وہمی ہو جاتا ہے اور  اپنے بُرے بھلے اور نفع و نقصان کے بارے میں بھی نہیں سوچ پاتا۔

( 18 ) پَرچھاواں پڑنا، پرچھاویں سے بچنا یا دُور بھاگنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

پرچھاواں پڑنا بھی اسی طرح کی ایک نفسیاتی صورتِ حال کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ پرچھاواں پڑنے سے بھی آدمی کی عقل خبط ہو سکتی ہے اس کی جڑ بنیاد تو ہمارے ہاں چھوت چھات کے تصور میں ہے کہ اگر کسی آدمی پر چھائی بھی پڑ گئی تو کھانے پینے کی کوئی شئے یا پھر آدمی کا اپنا وجود ناپاک ہو گیا ہم ایسا سوچتے اور سمجھتے آئے ہیں اور یہیں سے یہ خیال پیدا ہوا کہ برے آدمی کی پرچھائیں پڑنے سے آدمی کا ا خلاق تباہ ہو جاتا ہے یعنی برے آدمی کی پرچھائیں بھی بری ہوتی ہے ہمارے معاشرتی رویوں میں موقع بہ موقع اس صورت حال کو دیکھا اور  پرکھا جا سکتا ہے کہ وہ نفسیاتی طور پر اپنے سماجی رویوں میں جائز اور نہ جائز حدود کا خیال نہیں رکھتے یہ آدمی کا عام ذہن ہے اور ہمارے معاشرے کی کمزوری ہے اسی سے پرچھاویں سے بچنا یا دُور بھاگنا بن گیا۔

( 19 ) پردہ ڈالنا یا اٹھا دینا، پردہ پوشی، پردہ داری، پردہ ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

پردہ ہمارے معاشرے میں ایک غیر معمولی رجحان ہے مسلمانوں کا ایک خاص طبقہ اپنی عورتوں کو پردہ کرواتا ہے یہاں تک کہ اس میں یہ مبالغہ برتتا ہے کہ عورت کے لئے تو آواز کا بھی پردہ ہے۔

پردہ ایک حد تک ہندوؤں میں بھی رائج رہا ہے اور  اب بھی ہے مگر اس شدت کے ساتھ نہیں ہے جو مسلمانوں میں پردہ داری کی رسم ملتی ہے اب اُس کا رواج کم ہو گیا ہے لیکن مسئلے مسائل کی صورت میں اب بھی جب گفتگو آتی ہے تو وہی تمام مبالغہ احتیاط اور شدت کی پرچھائیاں اس گفتگو میں ملتی ہیں۔ باتوں کو چھپُانا بھی داخل ہے اسی لئے کہتے ہیں کہ گھر کی بات باہر نہ نکلے یہ رجحان ہمارے قدیم معاشرے میں اور بھی زیادہ تھا کہ لوگ خواہ مخواہ کی باتیں کرتے ہیں اور  دوسروں کی کوئی کمزور ی کوئی مجبوری یا کسی شکر رنجی کا حال اُن کو معلوم ہو جاتا ہے تو وہ اس کو بری طرح اڑاتے ہیں مشہور کرتے ہیں اسی لئے وہ محاورہ آتا ہے کہ گھر سے نکلی کوٹھوں چڑھی یا منہ سے نکلی بات پرائی ہو جاتی ہے بعض باتوں کو چھُپانا بھی ضروری ہوتا ہے کہ دوسروں کی ان باتوں کا پہنچنا اچھا نہیں لگتا ہے کہ راز داری ہماری سماجی ضرورتوں کا تقاضہ ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہم کتنی بات ضرورت کے تحت کرتے ہیں اور کتنی بات غیر ضروری طور پر۔

اس طرح پردہ داری ہو پردہ نشینی ہو پردہ گیری ہو یہ سب ہمارے معاشرتی رویوں کا حصّہ ہیں۔ اور اِن سے موقع بہ موقع ہماری سوچ کا  اظہار ہوتا ہے راز درون پردہ جیسی ترکیبیں بھی اسی ذہنی رو یہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں پردہ ہے پردہ عام طور پر ہمارے گھروں میں بولا جا تا ہے۔

( 20 ) پلیتھن نکالنا یا نکلنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

گھریلو سطح کی زبان کی طرف اشارہ کرتا ہے اس کے لفظوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ محاورے چیوں کا محاورہ ہے پیلتھن نکالنا زیادہ سے زیادہ مکے یا مکیاں لگانا ہے جس سے دوسرا ادھ مرا ہو جائے میر تقی میرؔ کا مشہور شعر ہے اور بازاری زبان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

؂ ہاں پلیتھن نکل گیا واں غیر

اپنی مُکیّ لگائے جاتا ہے۔

( 21 ) پھوٹ پڑنا یا ہونا، پھُوٹ ڈالنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

پھُوٹ کے معنی ہیں ٹوٹ پھُوٹ پیدا کرنا اختلاف کو جنم دینا ہندوستان میں ہمارے معاشرے کی ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم ذرا سی بات پر خفا ہو جاتے ہیں اور اپنے تعلقات میں تلخی شکر رنجی یا اختلافات کی صورت پیدا کر لیتے ہیں اور ہمارے آپسی میل جول یا اتحاد میں فرق آ جاتا ہے اُسی کو پھُوٹ پڑنا کہتے ہیں۔ بعض لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو سکھا پڑھا کر غلط سلط مشورہ دے اختلافات پیدا کرتے ہیں اور دلوں میں پھوٹ ڈال دیتے ہیں۔ جس سے تعلقات میں اُستواری یا ہمواری باقی نہیں رہتی ہم آہنگی ختم ہو جاتی ہے۔

( 22 ) پھُول کھیلنا، پھُول کی جگہ پنکھڑی، پھُول نہیں پنکھڑی ہی سہی، پھُول کی چھڑی بھی نہیں لگائی۔ پھُولوں کا گہنا۔ پھُولوں کی چھڑی، پھُولوں کی سیج، پھولوں میں ملنا، پھول پان۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

پھول ہماری دنیا کا ایک بہت ہی خوبصورت قدرتی تحفہ ہے یہ ہماری سماجی رسموں میں بھی شریک ہے خوشی کے موقع پر خاص طور سے پھولوں کا استعمال ہوتا ہے۔ پھُولوں کا گلدستہ پیش کیا جاتا ہے ہار پہنائے جاتے ہیں پگڑی میں لگائے جاتے ہیں۔ بعض مغل بادشاہ اپنے ہاتھ میں گلاب کا پھول رکھتے تھے اکبر جہانگیر اور شاہ جہاں کی ایسی تصویریں ملتی ہیں جن میں گلاب کا پھول ان کے ہاتھ میں ہے۔ پھول دواؤں میں بھی کام آتے ہیں۔ اور فنونِ لطیفہ میں بھی اور ہماری سماجی زندگی سے ان کا ایک واسطہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنی شاعری کے علاوہ اپنے محاوروں میں پھول کو شامل رکھتے ہیں جس کا اندازہ مندرجہ بالا محاوروں سے بھی ہو سکتا ہے پھول سونگھنا  یا پھول سونگھ کر جینا انتہائی کم خوراک ہونا ہے۔ پھول چننا یا موتی چننا خوشی کے موقع پر ہوتا ہے۔

دلہن کی سیج پر پھول بچھائے جاتے ہیں پنکھڑیوں کی بارش کی جاتی ہے اور خوشی کے موقع پر پھولوں کے گہنے پہنے جاتے ہیں۔ دلی میں تو گرمی کے موسم میں پھولوں کے اس طرح کے ہار بکتے ہیں جو عورتیں اپنے جوڑے میں لگاتی ہیں۔ یا کانوں میں پہنتی ہیں۔ یا ہاتھوں میں پہنتی ہیں۔ جنوبی ہندوستان میں تو مزدور عورتیں بھی عام طور سے پھول پہنتی ہیں یہیں سے محاورے تشبیہیں استعارے اور  تمثیلیں پیدا ہوئی ہیں۔ پھول کا چھوٹے سے چھوٹا حصہ قابلِ قدر ہوتا ہے اور محاورے میں یہ کہتے ہیں پھول نہیں پنکھڑی صحیح بے حد اچھا سلوک کرنا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کبھی پھولوں کی چھڑی بھی نہیں ماری تمام تر ناز بردار یاں کیں وغیرہ پھولوں میں تکنا بے حد ہلکا پھلکا ہونا ہے پھول پان بھی اسی صورت حال کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

( 23 ) پیر پھیرنے جانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ کسی کی آمد کے سلسلے میں بطورِ تشکر اس کے ہاں جانے کے موقع پر بھی استعمال ہوتا ہے جیسے غالبؔ نے ایک موقع پر کہا تھا کہ مجھے ان کا ایک آنا دینا تھا۔ ہاں ملاقات کی غرض سے کسی کے آنے کی طرف اشارہ ہے۔ علاوہ بریں دہلی میں یہ ایک خاص رسم ہے جو کسی بچے کی پیدائش سے پہلے لڑکی سُسرال سے میکے نوے مہینے آتی ہے اسے پاؤں پھیرنا بھی بولتے ہیں اس لحاظ سے خاص طور پر اس کے محاورے کی تہذیبی اہمیت ہو جاتی ہے۔

( 24 ) پیر نابالغ۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

پیر بوڑھے کو کہتے ہیں اور جب کسی آدمی کو  بُڑھاپے تک عقل نہ آئے تو طنز کے طور پر اُسے پیرنا بالغ کہتے ہیں یہ مذاق اڑانے کا ایک طریقہ ہوتا ہے وہ بوڑھے ضرور ہیں مگر پیر نا بالغ ہیں اس سے ملتا جُلتا ایک اور  محاورہ ہے کہ بوڑھا اور بچہ برابر ہوتا ہے یہاں اُن کمزوریوں کی طرف اشارہ ہوتا ہے جو بڑھاپے میں عود کر آتی ہیں اور آدمی بچوں جیسی باتیں کرنے لگتا ہے۔

( 25 ) پیندی کا ہلکا ہونا، پیندی کے بل بیٹھ جانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

جو آدمی مستقل طور پر جم کر نہیں بیٹھتا کبھی یہاں کبھی وہاں کبھی اِدھر کبھی اُدھر رہتا ہے۔ اور اس طرح مستقل مزاجی نہیں ہوتی اُس کو پیندی  کا ہلکا ہونا کہتے ہیں پیٹ کا ہلکا ہونا ایک دوسری صورت ہے اور اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ وہ کسی بات کا ہضم نہیں کر سکتا بلکہ کہہ ڈالتا ہے۔ وہ پیٹ کا ہلکا کہلاتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ ہمارے ہاں مستقل مزاجی ایک بڑی صفت ہے اور جو آدمی مستقل مزاجی سے کام نہیں لیتا اور کسی بات پر نہیں جمتا اُسے آدمی کا ہلکا پن کہا جاتا ہے یہاں تک کہ جو بات گمبھیر نہیں ہوتی اسے بھی ہلکی بات کہا جاتا ہے۔

( 26 ) پیوند ہماری اوقات ہے۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

غریبی میں اکثر آدمی پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنتا ہے اور  کبھی کبھی تو پیوند پر پیوند لگانے کی ضرورت پیش آ جاتی ہے۔ اس میں کسی آدمی کی مالی حیثیت بھی شریک رہتی ہے۔ اور وہی اُس کا سوشل اسٹیٹس بن جاتا ہے۔ بعض پھل پھول پیوند لگا کر ہی تیار کئے جاتے ہیں۔ وہ اک الگ طریقہ ہے اور اُس کا سماجی رتبہ سے کوئی تعلق نہیں ہے جیسے پیوندی آم یا  پیوندی بیر وغیرہ۔

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔