09:42    , منگل   ,   03    دسمبر   ,   2024

محاورات

2041 0 0 00

( 1 ) لات،لاتوں کا بھوت باتوں سے نہیں مانتا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

لات مارنا ٹھوکر مارنا اور  ذلت آمیز سزا دینا ہے لاتیں کھانا ایسی سزاؤں کو برداشت کرنا ہے جو ذہنی طور پر بہت تکلیف دہ ہوتی ہیں لاتیں رسید کرنا بھی لاتیں مارنے کے مفہوم میں آتا ہے۔ اٹھتے جوتا بیٹھتے لات بھی ذلیل سے ذلیل سزا برداشت کرنے کے معنی میں آتا ہے یا سزا دینے کے مفہوم میں آتا ہے۔

اُچھل اُچھل کر لات مارنا جان جان کر بُرا سلوک کرنے کے مترادف ہے جس میں ذلت آمیز رو یہ شامل ہے لاتوں کا دیویا بھوت باتوں سے نہیں مانتا اس کے یہ معنی ہیں کہ جو بُری عادت کا انسان ہوتا ہے وہ سخت سلوک اور بری سزا کے بغیر راہِ راست پر نہیں آتا۔

( 2 ) لبوں پر جان آنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

لبِ دم ہونا، ایک ہی معنی میں آتا ہے موت سے قریب ہونا یا وہ حالت ہونا جو موت سے قریب تر ہونے کے عالم میں ہوتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اس طرح کے محاوروں میں ہمارے سماجی رویوں کی عکاسی ہوتی ہے کہ ہم کس طرح سوچتے ہیں اور کن الفاظ میں اپنی بات کو پیش کرتے ہیں۔

( 3 ) لٹک کر چلنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

چال میں ایک خاص طرح کا انداز اور  ادا پیدا کرنا جو بعض لوگوں کے یہاں قدرتاًً ہوتا ہے۔ اور بعض عورتوں اُسے انداز دکھانے کی غرض سے اپنے اندر پیدا کرتی ہیں یہ شاعرانہ انداز بھی ہوتا ہے لٹک غیر ضروری شے کو بھی کہتے ہیں جیسے اُن کا مقصد کوئی نہیں انہیں تو ایک طرح کی لٹک ہے۔ یہاں یہ شاعرانہ انداز نہیں ہے بلکہ ایک طرح کا سماجی تبصرہ ہے ہر سماجی تبصرہ ہر موقع کے لئے صحیح اور دُرست ہو یہ ضروری نہیں۔

( 4 ) لاٹھی پونگا کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

عام لوگوں کے لڑنے جھگڑنے کی عادت میں یہ بھی شامل ہوتا ہے ہو وہ ہاتھا پائی کر بیٹھتے ہیں اُن کے جھگڑوں میں جوتا پیزار ہونا بھی شامل ہے اور لاٹھی پونگا بھی یہ آخری محاورہ دہلی میں خاص طور پر استعمال ہوتا ہے۔

ان محاورات سے پتہ چلتا ہے کہ محاوروں میں ہمارے طبقاتی رو یہ بھی زیر بحث آتے ہیں۔ طبقوں کا اثر زبان پرکیا ہوتا ہے اس کا تعلق ان ذہنوں اور  زندگیوں سے ہوتا ہے جن سے ان کے رو یہ بنتے ہیں اگر ہم طبقاتی کردار شامل نہ رکھیں تو الگ الگ طبقوں کا جورو یہ ہمیں اُن کی زندگی میں ملتا ہے اور جس کا تذکرہ ان کی زبانوں پر آتا ہے اس کو سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔

( 5 ) لاٹھی مارے پانی جدا نہیں ہوتا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

جب پانی پر لاٹھی ماری جاتی ہے تو پانی پھٹ ضرو ر جاتا ہے مگر الگ الگ دو حصوں میں تقسیم نہیں ہوتا یہ بات ہمارے مشاہدہ کا حصہ بھی ہے لیکن محاورے کے طور پر یہ ہمارے طبقاتی اور  ساجی رو یہ کی ایک شناخت بھی بن جاتا ہے کہ چھوٹے طبقہ میں روز لڑائی ہوتی ہے گالی گلوچ ہوتی ہے مگر وہ ایک دوسرے سے لڑتے ضرور ہیں مگر الگ نہیں ہوتے یہ محاورہ اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ لاٹھی مارنے سے پانی دو ٹکڑے نہیں ہوتا ہے ہمیں تو ایک ساتھ مل کر رہنا ہے ایک ساتھ سفر کرنا ہے اور لڑائی جھگڑا تو بالکل اتفاقی بات ہے یہ عوامی رو یہ ہے کہ ان میں جھگڑا ہوتے دیر لگتی ہے اور نہ صلح ہوتے۔

( 6 ) لاحول بھیجنا یا پڑھنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’لاحول‘‘ عربی کا لفظ ہے اور ایک بڑا کلمہ ہے جس کی طرف یہ لفظ اشارہ کرتا ہے اس سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کے ایک پڑھے لکھے طبقہ کا محاورہ ہے جو ہماری زبان میں شامل ہو گیا ہے اس کا پس منظر ہے کہ عربی کے اس فقرہ سے جو لاحول میں موجود ہے شیطانی خیالات ذہن سے غائب ہو جاتے ہیں اسی لئے کہا جاتا ہے کہ لاحول پڑھو یا لاحول بھیجو تو ذہن کا خلفشار اور  طبیعت کا انتشار ختم ہو گا جو دراصل شیطانی وسوسوں کی وجہ سے ہے نقش لاحول تعویذ کے طور پر باندھا جاتا ہے۔

( 7 ) لال انگارا،سرخ انگارا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’لال انگارا ہونا‘‘ انگارا ہمارے یہاں صبح و شام کا مشاہدہ توہے ہی ایک طرح کا استعارہ بھی ہے سرخی سرخ روئی کا نشان بھی ہے خون کی علامت بھی ہے اور اس کے معنی میں خطرہ کی علامت بھی ہے اور انتہائی غصہ کی بھی علامت ہے اس کی آنکھیں غصّہ کے باعث لال انگارہ ہو گئیں انگارا آگ کا حصّہ بھی ہے اور اس کی علامت بھی آگ کھائے گا انگارے اگلے گا یہ کہاوت اس کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جیسا آدمی کا رو یہ ہوتا ہے اس کی سوچ ہوتی ہے ایسا ہی اس کا عمل ہوتا ہے اور ایسا ہی اس کو جواب ملتا ہے۔ اور  ردِ عمل سامنے آتا ہے اُس سلسلہ عمل و رد عمل کو یہ محاورہ خوبصورتی سے پیش کرتا ہے اور اس میں ایک طرح کا شاعرانہ مبالغہ شامل ہے۔

( 8 ) لال پیلی آنکھیں کرنا یا نکالنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

آنکھیں آدمی کے جذبات و خیالات کا وہ اظہار ہیں جس میں ظاہری سطح پر لفظ و بیان شریک نہیں ہوتے غصہ ہو یا محبت اپنائیت ہو غیریت اِس کا اظہار الفاظ سے بھی اتنا نہیں ہوتا جتنا آنکھوں کے ذریعہ ہو جا تا ہے اسی لئے غصہ ظاہر کرتے وقت آنکھوں میں سرخی آ جاتی ہے جسے آنکھیں لال پیلی کرنا کہتے ہیں یہ ایک طرح کی لفظی تصویر کشی ہے جس کے رنگ متحرک ہیں۔ اور جب ہم اِن لفظوں سے گزرتے ہیں تو پوری تصویر آنکھوں میں پھر جاتی ہے اس سے ہم یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ محاورے میں معاشرے کے جو مختلف رو یہ اور سوچ کے طریقہ ہیں ان کی بامعنی بلکہ معنی خیز تصویریں ہماری شاعر ی کی طرح ہمارے محاوروں میں بھی مل جاتی ہیں۔

( 9 ) لٹوریوں والی۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ایسی لڑکی یا عورت جس کے بال کھلے رہیں اور لٹوں کی شکل میں بکھرے رہیں اس کے لئے یہ کہا جاتا ہے۔ بعض مرد بھی لمبی لمبی لٹیں رکھتے ہیں اور کھلی چھوڑ دیتے ہیں ان کو بھی لٹوریا کہتے ہیں مگر یہ سماج کی طرف سے کوئی قابلِ تعریف بات نہیں ہوتی بلکہ اس میں ایک حد تک ناپسندیدگی کا اظہار شامل ہوتا ہے لڑکی کے لئے ناپسندیدگی اس میں نہیں ہوتی صرف اس کے لا اُبالی پن کی طرف اشارہ مقصود ہوتا ہے۔

( 10 ) لٹو ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

لٹو کی طرح گھومنا فریفتہ ہونا شدت سے تعلقِ خاطر رکھنا، لٹو اپنی بہت چھوٹی سی کیل پر گھومتا ہے اور اس زمین کو نہیں چھوڑتا۔ اب جو آدمی دلی طور پر یا ذہنی اعتبار سے کسی شخص یا بات پر بے طرح مائل ہوتا ہے جسے فریفتہ ہونا کہہ سکتے ہیں اس حالت کو عوامی محاورے میں لٹو ہونا کہا جاتا ہے کہ وہ تو اس پر بے طرح لٹو ہو رہا ہے۔ اس محاورے سے ہم عوامی ذہن کے طریقہ رسائی کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں کہ وہ شاعرانہ انداز کے جملے بھی تراشتے یا بولتے ہیں تو ان کا انداز کیا ہوتا ہے۔

( 11 ) لچھے دار باتیں کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

عام باتوں کو دلچسپ بنانے کے لئے اُن میں لطیفوں چٹکلوں شاعرانہ جملوں اور  روایتوں حکایتوں کا جب بے تکلف انداز سے گفتگو میں سہارا لیا جاتا ہے تو اسے لچھے دار باتیں کرنا کہتے ہیں۔ اور اس کے ذریعہ نکتہ میں سے نکتہ اور  بات میں سے بات پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے یہ ہمارے معاشرے ایک خاص طرح کے مہذب طبقہ کی زندگی میں داخل ہوتا ہے اور اس طرح ہماری سوسائٹی کے ایک خاص تہذیبی رُخ کو پیش کرتا ہے۔

( 12 ) لڈو بانٹنا، لڈو دینا، لڈو کھلانا،لڈو ملنا، لڈو پھوٹنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ محاورے خوشی کے موقع پر استعمال ہوتے ہیں ہمارے ہاں دستور ہے کہ جب کوئی خوشی یا مبارک باد کا موقع آتا ہے تو لڈو تقسیم کئے جاتے ہیں گھروں میں جاڑوں کا موسم آنے پر لڈو بنا کر رکھے جاتے ہیں۔ تلوں کے لڈو بور کے لڈو گوندھنی کے لڈو وغیرہ ہمارے معاشرے میں رائج رہے ہیں یہاں تک کہ جب آدمی من ہی من میں خوش ہوتا ہے تو اسے یہ کہا جاتا ہے کہ اُس کے من ہی من میں دل ہی دل میں لڈو پھوٹ رہے ہیں۔

اس سے ہم یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ مٹھائیاں تو بہت ہیں لیکن لڈو کا ہماری تہذیب سے ایک گہرا رشتہ ہے اور محاورے میں اس کے جو مختلف Shadesآئے ہیں وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ معاشرتی فکر اور سماجی سوچ کے محاوروں سے کیا رشتہ ہے۔

( 13 ) لڑائی مول لینا، لڑائی باندھنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

لڑائی جھگڑا یا لڑائی بھڑائی ہمارے عوامی سماج کے عام رو یہ ہیں وہ ذرا سی بات پر لڑ بیٹھتے ہیں۔ اب یہ الگ بات ہے کہ جلد ہی صلح بھی کر لیتے ہیں ہمارے یہاں لڑائی اور اُس سے متعلق اسی نسبت سے بہت سے محاورے بھی ہیں اس میں لڑائی کرنا تو خیر ہے ہی لڑ پڑنا  لڑ بیٹھنا بھی عام محاورہ ہے۔

لڑائی مول لینا ایک خاص طرح کا محاورہ ہے اس لئے کہ لڑائی مول نہیں لی جاتی لیکن آدمی ہر طرح لڑائی جاری رکھنے پر آمادہ ہو جائے تو اس سے جواب میں لڑائی کو بہرحال انگیز کیا جاتا ہے۔ اسی کو لڑائی مول لینا کہتے ہیں کہ ضرورت کوئی نہیں تھی بے ضرورت جھگڑے کھڑے کئے اور لڑائی مول لی گئی کبھی کبھی آدمی جھڑا لو طبیعت کا ہوتا ہے اس وقت بھی کہتے ہیں کہ یہ صاحب یا صاحبہ تو خواہ مخواہ لڑائی مول لیتے ہیں۔

( 14 ) لڑے فوج نام سردار کا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اصل میں کام کرنے والے تو کچھ اور  ہی لوگ ہوتے ہیں چاہے وہ محنت و مشقت کا کام ہویا ایثار و قربانی پیش کرنا ہو ملک فتح کرنا ہو یا میدان مارنا اس میں ساری زحمتیں تو لشکریوں کے حصّہ میں آتی ہیں مگر نام امیر سردار فوج لشکر کے سپہ سالا ر یا  پھر قوم کے لیڈر کا ہوتا ہے یہ معاشرے کی بڑی ستم ظریفی ہے مگر تاریخ اسی طرح بنی ہے اور یہ اسی پر طنز ہے ذوقؔ کا مصرعہ ہے۔

؂ سچ کہا ہے دھار کاٹے نام ہو تلوار  کا

یعنی کام کسی کا نام کسی کا

( 15 ) لال لگ جانا۔ لال لگے ہوئے ہیں۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہم اپنے لباس میں قیمتی چیزیں شامل کرنے یا  جزوِ لباس بنانے کا شوق رکھتے ہیں یہ کام صرف بڑے لوگ ہی کر سکتے ہیں لیکن سماج کا عام رو یہ یہ ہے کہ خواہ مخواہ کسی کو ترجیح دیتے ہیں۔ پسند کرتے ہیں تعریفیں کرتے ہیں اس کی طرف سے بڑائیاں مارتے ہیں اسی کے جواب میں کوئی سماجی طنز کے طور پر کہتا ہے اس میں کیا لال لگ رہے ہیں یعنی ایسی کون سی بڑائی یا تحفگی کی بات ہے۔ جس کی وجہ سے اس کو پسند کیا جا رہا ہے اور دوسرے کا انکار کیا جا رہا ہے۔

( 16 ) لفافہ کھُل جانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

خطوں کو لفافہ میں بند کر کے بھیجا جاتا ہے خاص خاص طرح کے دعوت نامہ یا پیغامات بھی لفافوں میں بند کئے جاتے ہیں اب وہ بات چھپی ہوئی بات ہو جاتی ہے اور لفافہ کھل جانا بھید کا ظاہر ہو جانا ہے کچھ تفصیلات کا معلوم ہو جانا وغیرہ۔

( 17 ) لقمان کو حکمت سِکھانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

لقمان ہمارے ہاں ایک علامتی کردار ہے اور عقل و حکمت کے لحاظ سے لقمان کی شخصیت ایک پیغمبرانہ کردار رکھتی ہے جس کا ذکر قدیم لٹریچر میں بھی آتا ہے اُردو میں لقمان کا ذکر بھی انتہائی درجے پر پہنچنے ہوئے صاحبِ علم و حکمت ہی کے شخص کی حیثیت سے آتا ہے لیکن جس طرح کہتے ہیں کہ اُلٹی گنگا پہاڑ کو  جو ناممکن بات ہے اسی طرح لقمان کو حکمت سکھانا بھی ایک ایسی ہی صورت ہے۔ سماج کی طرف سے بعض لوگوں کے عقل پر طنز ہے کہ وہ تو اپنے آپ کو اتنا عقل مند سمجھتے ہیں کہ لقمان کو بھی حکمت سکھلا دیں۔

یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ بہت سے کردار غیر قوموں اور غیرملکوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور اُن کا ذکر ہمارے محاوروں میں اس طرح آیا ہے جیسے وہ ہماری سماجی نفسیات کا حصّہ ہوں۔ اس سے اردو زبان اور اردو والوں کے دائرہ و فکر  و خیال کی وسعت کا پتہ چلتا ہے۔

( 18 ) لیک پیٹنا ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ملاحظہ ہو لکیر پیٹنا۔

( 19 ) لیکھا ڈیوڑھا برابر کرنا یا لیکھا جوکھا برابر کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اصل میں یہ بھی سماجی رو یہ ہی کو تصویر کشی ہے کہ لوگ باتیں بنا کر تھوڑا بہت کچھ کر کے معاملہ کو برابر کر دینے کی کوشش کے لئے یہ محاورہ استعمال ہوتا ہے’’ لیکھا جوکھا برابر کر دیا‘‘ محاورہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک محاورہ ایک زیادہ معنی میں استعمال ہوتا ہے اور علاقائی یا طبقاتی طور پر اس کے استعمال پر نئے پہلو ابھر آتے ہیں اِس محاورے کے ساتھ بھی یہی صورت ہے۔

( 20 ) لینے کے دینے پڑنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

جب معاملہ کچھ گڑبڑ ہو جاتا ہے تو صورتِ حال اُس کی کچھ اور  ہو جاتی ہے اور جہاں کچھ لینے اور کریڈٹ پانے کا موقع ہوتا ہے وہاں اپنے پاس سے دینے اور نقصان اٹھانے کی صورت پیش آتی ہے اسی کو لینے کے دینے پڑ جانا کہتے ہیں۔

( 21 ) لکیر پر فقیر ہونا، لکیر کا فقیر ہونا، لکیر پٹنا، لکیر کھینچنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’لکیر ‘‘خط یا لائن کو کہتے ہیں خط سیدھا بھی ہو سکتا ہے ٹیڑھا بھی مختصر بھی اور  طویل بھی اس سے ہم نے بہت سے تصورات لئے ہیں اُن میں خطوط کی آہنی (ریلوے لائن) بھی ہے اور خطوط ہوائی بھی ہے (ائرلائن) خطوط فکر بھی ہے یعنی سوچ کا انداز۔ بچے لکیریں کھینچتے ہیں انہی کو  گنتے بھی ہیں۔

اُن کے بعض کھیل بھی لکیروں سے متعلق ہیں اب انسان اگر ایک بات پر جم جاتا ہے تو اسے لکیر کا فقیر کہتے ہیں یعنی ایک مرتبہ جو کچھ سوچ لیا اس سے الگ ہو کر سوچنا گوارا ہی نہیں کیا جبکہ زندگی بدلتی ہے زمانہ بدلتا ہے حالات و خیالات بدلتے ہیں اور سوالات بدلتے ہیں اگر انسان سوچنا ہی بند کر دے اور لکیر کا فقیر ہو کر رہ جائے تو بدلتے ہوئے سماج اور ماحول میں اِس کا حشر کیا ہو گا وہ لکیر پیٹتا رہ جائے گا۔

( 22 ) للو پتو کرنا ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ دیہاتی انداز کا محاورہ ہے اور بہت عامیانہ سطح پر اس میں وہ زبان استعمال کی گئی ہے۔ جواب محاوروں میں تورہ گئی لیکن شہری زبان سے نکل گئی للو زبان کو کہتے ہیں اور للّو پٹو کے معنی ہیں خوشامدانہ زبان و لہجہ اس سے پتہ چلا کہ ہمارے محاورے زبان کی بہت نچلی سطح کو بھی چھوتے ہیں۔ اور اسے عام زبان کا حصّہ بنا دیتے ہیں۔ محاورے کی ہماری زبان کے لیے بڑی اہمیت ہے اور اُس میں ہماری زبان کے بہت سے Shades محفوظ ہو جاتے ہیں۔

( 23 ) لمبے سانس بھرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

جب ’’آدمی دکھ‘‘ کے عالم میں گہرے گہرے سانس لیتا ہے تو اسے لمبے لمبے سانس لینا کہتے ہیں اس سلسلہ کا ایک اور محاورہ لمبے پڑنا بھی ہے یعنی چلے جانا تشبیہہ استعارہ مجاز اور کنایہ کے بہت سے ایسے پہلو ہیں جو ہماری عوامی زبان میں محاورے کے وسیلے سے آ گئے ہیں اور اُن کا ہمیں احساس بھی نہیں ہوتا کہ زبان چاہے شاعری اور انشاء پردازی کی اعلیٰ سطح پر استعمال ہونا چاہئے عامیانہ محاوروں میں آئے اس کا اپنا جنس برابر کام کرتا رہتا ہے۔

( 24 ) لنگوٹی میں پھاگ کھیلنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہندوستان بہت غریب ملک رہا ہے یہاں تک کہ ان لوگوں کے پاس ستر پوشی کے لئے کپڑے بھی نہیں ہوتے تھے یہاں تک کہ لنگوٹی وہ چھوٹے سا چھوٹا کپڑا ہوتا ہے جس سے وہ اپنی ستر پوشی کرتے ہیں اس پر بھی ہمارے ملک والوں میں ایک رجحان یہ پایا جاتا ہے

کہ وہ جب بھی موقع آتا ہے اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ کرتے ہیں اسی موقع پر سماج کا یہ طنز سامنے آتا ہے کہ وہ جو لنگوٹی میں پھاگ کھیلتے ہیں ’’پھاگ کھلنا‘‘ ’’رنگ رلیاں ‘‘ مناتا ہے یعنی انتہائی غریبی میں بھی اُن کا جی چاہتا ہے وہ من چاہی رنگ رلیاں منائیں اور خرچ اخراجات کا خیال نہ کریں یہاں تک کہ قرض لے لیں۔ دوسروں سے مانگ لیں۔

( 25 ) لُولُو بنانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہمارے یہاں ناموں کو بگاڑا جاتا ہے یہ لاڈ و پیار میں بھی ہوتا ہے اور ہنسی مذاق میں بھی اور  طعنہ اور  تضحیک میں بھی ’’لولو‘‘ ایک ایسا ہی نام ہے لال سے لالو بنا اور لالو کو ’’للو ‘‘ لولو کر دیا اُس کے معنی ہیں۔ احمق بیوقوف اب کسی کو ہم مذاق اُڑانے کی غرض سے لولو بناتے ہیں یعنی ہنسی مذاق میں اس کے ساتھ وہ سلوک کرتے ہیں جو یہ ظاہر کرے کہ یہ آدمی تو بہت احمق ہے اس اعتبار سے یہ محاورہ سماج کے ایک رو یہ کا اظہار ہے اور اس میں غیر سنجیدہ اور غیر مخلصانہ طریقہ عمل کی طرف اشارہ ہے۔

( 26 ) لوہا لاٹھ ہو جانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بہت سخت ہو جانا دہلی میں لوہے کی ایک لاٹھ بھی ہے یہ ایک تاریخی حقیقت ہے ایک اس سے عوام سے اور خاص طور پر دہلی کے عوام نے ایک نئے معنی نکال لئے اور وہ سخت ہو جانے کے ہیں بہت ہی سخت جب کوئی چیز بہت ہی سخت ہو جاتی ہے تو اسے لوہا لاٹھ ہو جانا کہتے ہیں۔ لاٹھ مینار کی شکل جیسی کسی شے کو کہتے ہیں دہلی والے قطب مینار کو قطب کی لاٹھ کہتے ہیں۔

( 27 ) لوہے کے چنے چبانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بہت سخت اور مشکل کام کرنا چنے چبانا بھی ایک مشکل کام ہی ہوتا ہے جس کو کرنے میں تکلیف زیادہ ہوتی یہ اور  راحت برائے نام یہ ہمارے معاشرے کا گویا ایک عام تجربہ ہے اس کو مبالغہ کے طرز پر آگے بڑھایا بلکہ غلو کا انداز پیدا کر دیا کہ یہ تو لوہے کے چنے چبانا ہے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ یہ محاورہ اُن لوگوں میں زیادہ رائج ہونا چاہیے جو لوہے کے کام اور  اس کے ہتھیاروں  اوزاروں سے زیادہ واسطہ رکھتے تھے۔

( 28 ) لوہے کی چھاتی اور پتھر کا جگر کر لینا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بہت بڑی آزمائش سے گزرنا، چھاتی یا سینہ یہاں تک بطورِ تشبیہہ آیا ہے اُسے ہم استعاراتی انداز کہہ سکتے ہیں پتھر بھی سخت ہوتا ہے اور بے حس ہوتا ہے یہی حال لوہے کا ہے کہ وہ سخت بھی ہے۔ اور بھاری بھی جب کسی بہت بری بات کو برداشت کرنا ہوتا ہے اس کے لئے ظاہر ہے کہ ہر نیچر کا آدمی نہیں کر سکتا کوئی خاص ہی آدمی ہو گا  جو بے حد ضبط اور حدسے زیادہ صبر رکھتا ہو وہی برداشت کر سکتا ہے۔

( 29 ) لہو پانی ایک کرنا، یا لہو سینہ ایک کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ بھی ہر بھر محنت کرنا زحمت اُٹھانا اور تکلیفیں برداشت کر کے کسی کام کو انجام دینا ہے اسی لئے کہتے ہیں کہ اس نے تو لہو پسینہ ایک کر دیا۔ لہو بے حد قیمتی شے ہے اور اُس کے مقابلہ میں پانی یا پسینہ بہت کم قیمت چیز ہے مگر اس نے محنت و مشقت برداشت کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ لہو پسینہ ایک کر دیا اسی کو لہو پانی کرنا کہتے ہیں۔

( 30 ) لہو خشک ہو جانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

جب خوف و دہشت یا شدید نقصان کے خیال سے آدمی سکتہ میں آ جاتا ہے اُس حالت کو لہو خشک ہونا کہتے ہیں اور اسی کے لئے کہا جاتا ہے کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ اس کے مقابلہ میں جو ایک نفسیاتی تجربہ یا تجزیہ ہے لہو سفید ہونا خون سفید ہونا ایک سماجی رو یہ پر تبصرہ ہے اور یہ عام طور سے اپنوں کی بے مروتی اور بے تعلقی کی شکایت ہوتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ آج کل تو عزیزوں کا  لہو یا خون سفید ہو گیا ہے یعنی کسی کو کسی سے کوئی جذباتی تعلق یا خلوصِ خاطر نہیں رہا۔

یہ محاورہ شاعرانہ انداز رکھتا ہے لیکن اس میں آپسی تعلقات میں بے مروتی رو یہ کا تذکرہ ہوتا ہے اور اس پر ایک طرح کا طنزیہ تبصرہ ہے۔

( 31 ) لہُو کا پیاسا یا خون کا پیاسا ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہم تاریخ میں اس طرح کے واقعات پڑھتے ہیں کہ دشمنی میں کسی نے مقتول آدمی کا جگر چبا لیا یا مخالف کو قتل کر کے اس کا خون پی لیا۔ اسی پس منظر میں یہ محاورہ سامنے آیا کہ وہ تو اس کے خون کا پیاسا ہے جو بھی جانی دشمن ہوتا ہے اسے خون کا پیاسا کہتے ہیں ترکوں اور ’’تاتاریوں ‘‘ کی خون آشامیوں کا یہ حال تھا کہ وہ اپنے گھوڑوں کی گردن کی رگ میں شِگاف کر کے ان کا اپنی پیاس بجھانے کے لئے خون پی لیتے تھے یہ بھی خون کا پیاسا ہونے کی ایک صورت ہے محاورات میں تاریخ کے جورو یہ محفوظ ہو گئے ہیں ان میں خون کا پیاسا ہونا بھی ہے۔

( 32 ) لہو کا جوش، لہو کے سے گھونٹ پینا، لہو کا جوش مارنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

کسی سے تعلق خاطر اور اپنائیت کے جذبہ کے تحت والہانہ طور پر ملنا یا اُس کو یاد کرنا خون کا جوش مارنا ہے تمام رشتوں میں خون کا رشتہ زیادہ اہم اور مضبوط خیال کیا جاتا ہے اسی لئے خون کا جوش مارنا محاورہ بن گیا۔

اِس کے مقابلہ میں لہو کے سے گھونٹ پینا یا دینے والے رو یہ کو برداشت کرنا ہے کہ میں یہ سنتا ہوں دیکھتا ہوں اور خون کے سے گھونٹ پیتا ہوں جو ایک نہایت مجبوری کا عالم ہوتا ہے محاورے میں ہمارے جو حسیاتی اور جذباتی تجربہ شامل ہوتے ہیں اور پھر ہم ان کا تجزیہ کرتے ہیں تو عجیب عجیب صورتیں سامنے آتی ہیں یہ محاورے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

( 33 ) لہو لگا کے شہیدوں میں داخل ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ سماج کے اس رو یہ پر ایک تنقید ہے کہ عام طور سے لوگ کچھ کرنا نہیں چاہتے لیکن ایکٹنگ اِس طرح کی کرتے ہیں اور  دعویٰ دار اس امر کے بنتے ہیں کہ انہوں نے بہت کچھ کیا ہے یہی کہ انگلی کٹا کے یا  لہو لگا کے شہیدوں میں داخل ہونا محاورہ پیدا ہوا ہے کہ برائے نام کچھ کیا جائے اور اس کا پورا کریڈٹ لیا جائے۔

ہمارے سماج کی بہت سی روشیں ایسی ہیں جس کو کنڈم کیا جانا چاہے کہ اُن کے ذریعہ فریب دھوکہ اور دکھاوٹ کا رو یہ بنتا ہے اور اقلیت کمزور پڑ جاتی ہے اِس محاورے میں جو گہرا طنز ہے وہ اسی معاشرتی سچائی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔