غلام ربانی عزیز۱۳ جنوری۱۸۹۸ء کو میاں قاسم شاہ کے گھر کنٹ تحصیل پنڈی کھیب ضلع اٹک میں پیدا ہوئے۔ آپ کا خاندان علم و فضل کے حوالے سے معروف تھا۔ ہندو اور مسلمان بچے ان سے مسجد میں تعلیم پاتے تھے۔بسال آپ کے بزرگوار کا مسکن تھا۔ مگر بسلسلہ ملازمت آپ کے والد کنٹ میں مقیم رہے۔ آپ کے برادر اکبر مولوی نور الحق علوی اور برادر اصغر ڈاکٹر غلام جیلانی برق ہندوستان گیر شہرت کے حامل تھے۔اول الذکر شخصیت کو استاد اقبال ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔غلام ربانی عزیز پرائمری کے بعد جونیئر سپیشل کے لیے کیمبل پور (اٹک) میں داخل ہوئے مگر جلد ہی آپ کے والد محترم نے آپ کو سکول سے اٹھوا لیا اور اپنے بڑے بیٹے اور الحق علوی کے پاس چھوڑ دیا تاکہ وہ آپ کو مولوی بنا سکیں۔
دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ آپ نے دنیاوی تعلیم بھی جاری رکھی اور ایم۔اے عربی،ایم۔ اے فارسی، ایم۔او۔ایل (عربی) ایم۔او۔ایل(فارسی) اور آنرز ان اردو کے امتحانات پاس کیے۔ آپ دیو بند میں بھی ایک سال زیر تعلیم رہے جہاں آپ کو مولانا انوا شاہ اور مولانا شبیر احمد عثمانی کی شاگردی کا شرف ملا۔ تکمیل تعلیم کے بعد آپ گورنمنٹ زمیندار کالج گجرات اور ایمرسن کالج ملتان میں لیکچر اور اسلامیہ کالج قصور کے پرنسپل رہے۔ ریٹائر منٹ کے بعد آپ مستقلاً اٹک میں مقیم رہے۔آپ نے طویل عمر پائی ۷فروری۲۰۰۰ء کو انتقال فرمایا۔
غلام ربانی عزیز نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ تصنیف و تالیف میں بسر کیا۔ علامہ نیاز فتح پوری، علامہ عنایت اﷲ المثرقی اور ہندوستان کے دیگر مشاہیر کے ساتھ آپ کے مراسم تھے۔ آپ کی ایک کتاب ’’سیرت طیبہ‘‘ پر حکومت کی طرف سے آپ کو نقد انعام دیا گیا۔ آپ کی چند کتابوں کے نام یہ ہیں۔
’’دیوان واقف‘‘ (تدوین) ’’دیواندلشاد پسروری‘‘ (تدوین)
’’دیوان غنیمت‘‘ (تدوین) ’’تاریخ خوارزم شاہی‘‘ (تاریخ)
’’اسلام کا طول و عرض‘‘ (ترجمہ) ’’نظام تعلیم اور معاشرہ‘‘ (ترجمہ)
’’سیرت طیبہ‘‘ (دس جلدیں )
اختر شادانی کا اصل نام محمد اذکار الحق صدیقی ہے۔ آپ مشرقی پنجاب کے شہر رہتک میں مولانا محمد اسرار الحق المعروف بہ ’’طوطی ہند‘‘ کے گہر پیدا ہوئے آپ کی تاریخ ولادت ۳ مارچ۱۹۱۵ء ہے آپ نے عربی فارسی کی تعلیم اپنے دادا حاجی انصار الحق سے حاصل کی۔ بعد از آن جامعہ پنجاب سے منشی فاضل ،ادیب فاضل اور میٹرک کے امتحانات پاس کیے۔ اس کے بعد میوسکو آپ آرٹس لاہور سے کارپینٹری اور ڈرائنگ کا ڈپلومہ اور محکمہ تعلیم پنجاب سے او۔ ٹی کی سند حاصل کی۔پبلک ہا ئی سکول احمد گڑھ خالصہ ہائی سکول جالندھر، گورنمنٹ ہائی سکول کہوٹہ، گورنمنٹ ہائی سکول حسن ابدال اور گورنمنٹ پائلٹ سکینڈری سکول اٹک میں تدریس کے فرائض انجام ادا کیے اور ۱۹۷۵ء میں سبکدوش ہوئے
مولانا اختر شادانی نے ۱۹۳۵ء میں شاعری کا آغاز کیا۔ حضرت اولاد حسین شاداں بلگرامی آپ کے استاد ہیں۔ کچھ عرصہ آپ حضرت احسان دانش سے بھی اصلاح لیتے رہے۔ آپ نے بے شمار غزلیں ،نعتیں اور قصیدے لکھے مگر ہنوز آپ کا کوئی مجموعہ کلام شائع نہیں ہو سکا۔ آپ مجلس ادارات علمیہ اور محفل شعرو ادب کے اساسی رکن ہیں۔
نذر صابری کا اصلی نام غلام محمد ہے۔ آپ یکم نومبر۱۹۲۳ء کو مولوی علی بخش کے گھر ملتان میں پیدا ہوئے۔جالندھر آپ کے آباء و اجداد کا وطن اور آپ کا منشا ہے۔آپ گورنمنٹ ہائی سکول جالندھر سے میٹرک ،اسلامیہ کالج جالندھر سے بی۔اے آنرز اور پنجاب یونیورسٹی سے ڈپلومہ ان لائبریرین شپ کا امتحان پاس کیا۔ آپ کے اساتذہ میں مولوی عبد اﷲ اور سید فیضی کے اسماء شامل ہیں۔ آپ نے قرات و تجوید کے چند رسائل اپنے والد گرامی سے پڑھے۔تقسیم ہندوستان سے قبل آپ اسلامیہ کالج جالندھر میں کتاب دار رہے۔ پاکستان کے قیام کے بعد پنجاب پبلک لائبریری میں اسسٹنٹ کیٹلاگر مقرر ہوئے بعد از آں آپ گورنمنٹ کالج اٹک میں کتاب دار مقرر ہوئے یہاں آپ پروفیسر مرزا محمد رشید پرنسپل گورنمنٹ کالج اٹک کی دعوت پر آئے۔آپ ریٹائر منٹ تک اسی ادارے سے وابستہ رہے۔آپ نے دوران ملازمت ایم۔اے فارسی کا امتحان بھی پاس کر لیا۔
نذر صابری نے ۱۹۳۸ء میں مشق سخن آغاز کی۔ شاعری کے ساتھ ساتھ تحقیق اور تنقید بھی آپ کی دلچسپیوں کے مرکز ہیں۔آپ نے ۱۹۵۷ میں محفل شعرو ادب اور ۱۹۶۳ء میں مجلس نوادرات علمیہ کی بنیاد ڈالی یہ دونوں تنظیمیں تا حال مصرف عمل ہیں۔ یہ دونوں تنظیمیں ادبی افق کی درخشانی میں نمایاں مقام رکھتی ہیں۔آپ دونوں تنظیموں کے بانی اور سیکرٹری ہیں۔’’واماندگی شوق‘‘ آپ کا نعتیہ مجموعہ ہے آپ کی چند مطبوعہ کتب کے نام یہ ہیں : دیوان شاکر اٹکی (قصہ مشائخ)، غایتہ الامکان فی معرفتہ الزمان و المکان، انتخاب دیوان ظفر احسن۔
ڈاکٹر سعد اﷲ کلیم ۱۷فروری ۱۹۲۵ء کو فتح جنگ میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم ناڑا سے حاصل کی بعد از آں محکمہ تعلیم میں ملازمت اختیار کر لی۔دوران ملازمت آپ نے میٹرک ،ایف۔ اے، بی۔ اے ،بی ایڈ اور ایم۔ اے (اردو) کے امتحانات پاس کئے۔ ۱۹۸۶ء میں ’’ اردو غزل کی تہذیبی اور فکری بنیادیں ‘‘ کے موضوع پر مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ آپ گورنمنٹ کالج اٹک میں کئی سال اردو ادبیات کے استاد رہے۔ سبکدوشی سے کچھ عرصہ قبل علامہ اقبا ل اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں بھی اردو کے پروفیسر ہے۔
ڈاکٹر سعید اﷲ کلیم شاعر ، نقاد اور محقق ہیں۔ آپ کے تحقیقی اور تنقیدی مقالات ادبی دنیا، ماہ نور اور اوراق میں شائع ہوتے رہے ہیں آپ کا طویل مضمون’’ اقبال کے مشابہ بہ اور مستعار منہ‘‘ اقبال اکادمی لاہور کتابی صورت میں شائع ہو چکی ہے۔
ڈاکٹر سعد اﷲ کلیم اردو اور پنجابی کے شاعر ہیں۔ آپ کا اردو پنجابی کلام مختلف رسائل، جرائد اور اخبارات میں شائع ہوتا رہا ہے۔ تاہم ابھی تک کلام کا کوئی مجموعہ اشاعت آشنا نہیں ہوا آپ کا طویل تحقیقی مقالہ ’’اردو غزل کی تہذیبی اور فکری بنیادیں ‘‘ انجمن ترقی اردو کے زیر اہتمام اشاعت کے مراحل میں ہے۔
ڈاکٹر اشرف الحینی کا اصل نام محمد اشرف ہے۔آپ ملک روشن دین کے گھر کامرہ کلاں (محلہ میر پور حسین) ضلع اٹک میں پیدا ہوئے۔آپ کی تاریخ پیدائش ۲۵ فروری۱۹۳۰ء ہے۔آپ نے گورنمنٹ پائلٹ سکنڈری اٹک سے میٹرک کا امتحان پاس کیا بعد از آں گورنمنٹ پولی ٹیکنیک رسول سے سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ حاصل کیا۔ حصول علم کی لگن بی۔اے،ایم۔اے انگریزی،ایل۔ایل۔بی اور پی ایچ ڈی(عربی) کی منزلوں تک لے گئی۔استاد ادبیات انگریزی کی حیثیت سے آپ مختلف کالجوں سے وابستہ رہے۔۱۹۹۰ء میں گورنمنٹ کالج اٹک سے سبکدوش ہوئے
ڈاکٹر اشرف ا لحینی مختلف قلمی ناموں (جیسے پولی گلوٹ، سیف،ایم اشرف وغیرہ) سے لکھتے رہے ہیں۔آپ دنیا کی ۲۶ زبانوں کے ماہر ہیں۔آپ نے ۱۹۴۲ء میں ادب سے وابستگی اختیار کی۔روشن دین نیز آپ کے ادبی رہنما ہیں۔آپکی پچاس سے زائد کتب شائع ہو چکی ہیں۔چند ایک کے نام یہ ہیں۔ا
ہٹلر کے آخری دس روز (ہٹلر کی حیات معاشقہ)
شاہ فیصل
(لارڈ بائرن کی حیات معاشقہ)
قاضی طلا محمد خان الفشاوری(احوال و آثار)
اشرف اللغات (سہ زبانی)
آغا عبدالغفور ۱۲ مارچ ۲۹۳۱ء کو آغا عبد الرشید کہ گھر دہرہ دون(بھارت) میں پیدا ہوئے آپ کے والد گرامی کا تعلق ایک معزز افغان خاندان سے تھا۔ انھیں انگریزی نے ہندوستان میں نظر بند کیا تھا۔ آغا عبد الغفور نے میٹرک کے بعد سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ کیا۔ آج کل آپ خواجہ گلاس اڈسٹریز حسن ابدال میں ملازمت کرتے ہیں آغا عبدالغفور تحقیق اور تاریخ نگاری کے میدان میں عرصہ سے سر گرم کار ہیں۔آپ کی ایک تحقیقی کتاب ’’ٹکسلا کا تہذیبی سفر نامہ‘‘ شائع ہو کر خراج تحسین حاصل کر چکا ہے۔ آپ کی چند غیر مطبوعہ کتابوں کے نام یہ ہیں۔
تاریخ اٹک
سرائے خربوزہ سے بیگم سرائے
فتح جنگ۔۔۔ دید شنید
آغا عبدالغفور مختلف تنظیموں کے رکن اور عہدہ دار ہیں۔آپ ماہنامہ ’’نیلاب‘‘ کے مدیر اور ’’اٹک نامہ‘‘ کے معاون مدیر بھی رہے۔
رانا محمد صادق ادیب میانوالی کے راجپوت خاندان کے چشم و چراغ ہیں جو تحریک آزادی مین پیش پیش رہا۔ آپ ۷فروری ۱۹۳۲ء کو رانا قطب الدین کے گہر پیدا ہوئے۔ آپ کا مولد نشا وتہ خیل ضلع میانوالہ ہے۔ آپ نے ایف۔ اے کی تکمیل کے بعد آنرز ان اردو اور پھر شرعی وکالت کی اسناد حاصل کیں۔ آپ کے اساتذہ میں بابائے اردو مولوی عبد الحق ، ظہور الحسن ارزش اور پروفیسر اظہر الحسن وارثی کے نام شامل ہیں۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد آپ ادب اور صحافت سے وابستہ ہوئے اور تا حال انہی میدانوں مین مصروف عمل ہیں۔ صحافت مین آپ کو نامور صحافی میاں محمد شفع نے ۱۹۵۳ء میں باقاعدہ شعر گوئی اور نثر نگاری کا آغاز کیا۔ شاعری مین پروفیسر ظہور الحسن خان ارزش آپ کے استاد ہیں۔ آپ کے سینکڑوں مقامات ، مضامین۔۔۔ نظمیں او ر کالم اخبارات و رسائل مین طبعی ہو چکے ہیں۔ صحافتی اور ادبی خدمات کے اعتراف میں آپ کو مختلف اداروں اور تنظیموں نے متعدد اعزازات سے نوازا جن کی تفصیل یہ ہے۔
گولڈ میڈل تحریک پاکستان، میڈیا کا رکردگی ایوارڈ، علمی و ادبی خواجہ زکریاؒ ایوارڈ، پبلک ویلفیئر سلور پرائز، سند حسن کارکردگی قومی کمیشن برائے خواندگی و تعلیم عامہ، حکومت پاکستان
رانا محمد صدق ادیب مستقلاً اٹک میں قیام پذیر ہیں۔ آپ کے مقالات، منظومات اور کالموں کے الگ الگ مجموعے زیر ترتیب ہیں۔
غلام ربانی فروغ یکم مارچ ۱۹۳۲ء کو فتح محمد کے گھر اٹک شہر میں پیدا ہوئے۔آپ کے جد اعلا گگن مغلاں سے ہجرت کر کے اٹک میں آئے اور یہیں کے ہو رہے۔غلام ربانی فروغ نے گورنمنٹ پائلٹ سکینڈری سکول اٹک سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ معاشی نا ہمواری کے باعث مزید تعلیم جاری رکھ سکے اور محکمہ ریلوے میں ملازم ہو گئے۔چار سال اس محکمے میں کام کرنے کے بعد پاکستان ائیر فورس میں ملازمت اختیار کر لی جہاں آپ نے ۲۴ سال تک ملازمت کی۔ ائیر فورس سے سبکدوشی کے بعد ڈی دی آفس اٹک میں رکارڈ کیپر اور ڈسٹرکٹ ناظم کے طور پر کام کیا۔ دوران ملازمت آپ بی۔ اے ، ایم۔ اے اردو اور پنجابی کے امتحانات پاس کیے۔۱۹۸۵ء مین گورنمنٹ کالج پنڈی گھیب میں بہ طور پنجابی استاد تقریر ہوا ، ۲۹فروری ۱۹۹۲ء کو گورنمنٹ کالج حضرو سے ریٹائر ہوئے۔ اب بھی اس ادارے میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
پروفیسر غلام ربانی نے ۱۹۴۵ء مین شعر گوئی کا آغاز کیا۔ آپ کے اساتذہ فن ملکھی رام برق دہلوی (اردو) اور رضا ہمدانی (ہند کو) ہیں۔آپ حلقہ ارباب ذوق اٹک کے رکن رہے۔آپ نے اٹک کی مقام بولی کو اظہار کا ذریعہ بنایا۔ آپ کا اردو اور پنجابی کلام مختلف رسائل میں شائع ہوتا رہتا ہے، تاہم ابھی تک آپ کی کوئی کتاب شائع نہیں ہو سکی۔
شیر بہادر پنچھی یکم اپریل ۱۹۳۳ء کو لعل خان کے گھر شکر درہ تحصیل و ضلع اٹک میں پیدا ہوئے۔ میٹرک کا امتحان گورنمنٹ پائلٹ سکنڈری سکول اٹک سے پاس کیا اور تدریس کے پیشے سے وابستہ ہو گئے۔ دوران ملازمت ایف۔اے کا امتحان پاس کیا۔ چار پانچ سال کی معلمی کے بعد محکمہ ترقی دیہات میں ملازم ہو گے۔ اور اسی محکمہ سے بہ عہدہ پراجیکٹ اسسٹنٹ ریٹائر ہوئے۔
شیر بہادر اردو اور پنجابی کے شاعر ہیں۔ آپ نے ابتدا مین خور رضوی اور تائب رضوی کو بلترتیب اردو اور پنجابی کلام دکھایا۔آپ کی دو طویل نظمیں ’’ اندرا رانی ‘‘ اور ‘‘ ایک سوال ایک جواب‘‘ کتابی صورت مین شائع ہو چکی ہیں۔ پہلی نظم ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ کے حوالے سے جبکہ دوسری کا موضوع سقوط ڈھاکہ ہے۔
محمد جعفر خان اعوان کھٹڑ قبیلے کے چشم و چراغ ہیں۔آپ ۱۸جولائی ۱۹۳۳ء کو سردار محمد اسلم خان کے گھر پڑی (داخلی ناڑا) تحصیل جنڈ مین پیدا ہوئے۔آپ کو بچپن میں والد محترم کی موت کا صدمہ سہنا پڑا۔ آپ کے دادا نے آپ کی کفالت کی۔ آپ نے ہائی سکول بسال سے میٹرک کا امتحان پاس کیا بعد میں فاضل اردو کا امتحان دیا اور کامیاب ٹھہرے۔ اہل خاندان کے برے سلوک نے آپ کے تعلیمی سفر کو آگے نہ پڑھنے دیا۔ آپ تدریس کے پیشے سے منسلک ہو گئے اور مختلف سکولوں میں اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔
جعفر ملک نے ۱۹۵۸ء میں شعر کہنا شروع کیا۔ آپ تعمیر، کوہستان اور مشرق مین فرضی ناموں سے لکھتے رہے اور مختلف رسالوں مین آپ کا کلام بھی شائع ہوتا رہا۔آپ حلقہ اٹک اور مجلس ادب اٹک کے ممبر رہے۔ تا حال آپ کا کوئی مجموعہ کلام منظر عام پر جلوہ گر نہیں ہوا۔
سلطان محمود بسمل ممتاز کھٹڑ قبیلے کے چشم و چراغ ہیں۔ آپ سردار محمد خان کے گھر ۳۱جولائی۱۹۳۳ء کو پنڈ فضل خان تحصیل فتح جنگ ضلع اٹک مین پیدا ہوئے۔پرائمری تک تعلیم گاؤں میں حاصل کی۔مڈل سکول باہتر سے آٹھویں اور گورنمنٹ ہائی سکول حسن ابدال سے میٹرک کا امتحان پاس کیا بعد از آں گورنمنٹ کالج مین داخل ہوئے اور یہاں سے ایف۔ اے کا امتحان پاس کیا۔ آپ کے اساتذہ میں پروفیسر محمد عثمان، ڈاکٹر غلام جیلانی برق اور پروفیسر رزمی صدیقی کے نام شامل ہیں۔ آپ ۱۹۵۷ء میں محکمہ مال میں گرد اور بھرتی ہوئے اور ۳۱دسمبر ۱۹۹۲ء میں بہ عہدہ نائب تحصیل دار ریٹائر ہوئے۔ آج کا کاشتکاری کرتے ہیں ۔
سلطان محمود بسمل نے سکول کے زمانے سے شاعری آغاز کی ، باقاعدہ آغاز کالج کے زمانے میں ہوا، رزمی صدیقی شاعری میں آپ کے استاد ہیں۔ آپ بزم اردو اٹک کے نائب صدر اور حلقہ ارباب ذوق کے سیکرٹری رہے۔ آپ کا مجموعہ کلام ’’ساغر سم‘‘ کے نام سے ۱۹۸۹ء میں شائع ہوا تھا۔ اب غزلیات ، نظموں اور قطعات کے علیحدہ علیحدہ مجموعہ ترتیب کے مراحل میں ہیں۔
حاجی سکندر خان ۷نومبر ۱۹۳۳ء کو محمد ایوب خان کے گھر ویسہ علاقہ چھچھ ضلع اٹک میں پیدا ہوئے ویسہ گاؤں کے متنی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے اور شاہجہان کے ہم عصر تھے حاجی سکندر خان نے ۱۹۵۱ء گورنمنٹ ہائی سکول حضرو سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور گورنمنٹ کالج اٹک میں داخل ہو گئے، یہاں دوسرے سال کہ طالب علم تھے کہ گورنمنٹ کالج مردان چلے گئے اور وہیں ایف۔ ایس۔ سی کا امتحان پاس کیا۔ بعد از آں کنگ ایڈ ورڈ میڈیکل کالج میں داخلہ لیا مگر بہ وجہ ڈاکٹری کی تعلیم مکمل نہ کی اور ملازمت اختیار کر کی۔ آپ کے نامور اساتذہ میں پروفیسر شیخ محمد اقبال ، ڈاکٹر غلام جیلانی برق اور پروفیسر مولانا محمد ادریس کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ حاجی سکندر خان نے ملک اور بیرونِ ملک مختلف اداروں میں کام کیا۔ آج کل ویسہ میں اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ حاجی سکندر خان پشتو اور اردو کہ شاعر اور نثار ہیں آپ نے ۱۹۶۲ء سے شعر گوئی اختیار کی آپ کے اساتذہ فن میں حضرت امیر حمزہ شنواریؒ اور پروفیسر سراج الاسلام سراج کہ اسماء شامل ہیں حاجی سکندر خان کی مجموعہ کتابوں کہ نام یہ ہیں
تاریخ وادی چھچھ ( تاریخ)
روسی خرکار کریمنسکی (سفر نامہ)
احسن الکلام حدیث خیرالانعام
دامن اباسین(تاریخ وادی چھچھ کا جدید ایڈیشن)
کشف الاسرار(پشتو ترجمہ)
آپ کی غیر مطبوعہ کتابوں میں
’’ اٹک سے پیرس تک ‘‘،
’’ لیبیا میں چند روز‘‘
’’وادی چھچھ کے چار بیتہ گو شعراء‘‘
’’ہڑپہ کے آس پاس‘‘
’’دور کے ڈھول سہانے(سفر نامہ برطانیہ)‘‘ اور’’ دا اٹک گلونہ(پشتو کلام)‘‘
حاجی سکندر خان چھچھ پشتو ادبی جرگہ کے صدر ہیں۔
محمد ایوب بخاری کا تعلق بوٹا کے معروف سادات گھرانے سے ہے۔ آپ ۲۳ دسمبر ۱۹۳۳ کو سید غلام فرید شاہ کے گہر بوٹا ضلع اٹک میں پیدا ہوئے۔ آپ نے لوئر مڈل تک گاؤں میں تعلیم حاصل کی۔ مڈل سکول اکھڑی سے مڈل کا امتحان پاس کیا۔ بعد از آں گورنمنٹ کالج اٹک سے بی۔ اے اور یونیورسٹی لا کالج لاہور سے ایل۔ایل۔بی کا امتحان پاس کیا۔ آپ کے نا م ور اساتذہ میں سعید پال،پروفیسر ظہور احمد، فضل احمد قریشی، ڈاکٹر غلام جیلانی برق اور اشفاق علی خان کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد آپ نے ضلع کچہری اٹک میں وکالت کا آغاز کیا۔ اب ایڈوکیٹ سپریم کورٹ ہیں۔
سید محمد ایوب شاہ بخاری ۱۹۵۴ء میں مائل بہ ادب ہوئے۔ ۱۹۵۴ء میں آپ کا ایک انگریزی ڈرامہ شائع ہوا۔آپ نے کئی کتابوں کے ترجمے بھی کیے۔آپ کی چند کتابوں کے نام یہ ہیں۔
From Kaka Chitta to California
Ali's attraction and repulsion
(شریعی مطہری کی کتاب ’’جاذبہ و دافعہ علی‘‘ کا ترجمہ)
They Shall Live (Drama)
Qurbani and Economy of Pakistan
فلسفہ حافظ
اسلام کا عدالتی نظام
بضع واربعین(سید زین الدین بخاری کی کتاب کا ترجمہ)
سید ایوب بخاری کے مولانا ابو الا علیٰ مودودی، مولانا غلام اﷲ خان، علامہ اظہر حسن زیدی ، علامہ نصیر الاجتہادی اور قاضی زاہد الحسینی کے ساتھ خصوصی روابط رہے۔
پنڈی گھیب کے بزرگ شاعر محمد توکل سائل ۱۹۳۴ء میں میں احمد دین کے گہر پیدا ہوئے۔ پنڈی گھیب آپ کا مولد و منشا ہے۔ سکولی تعلیم ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی کہ پنجاب رجمنٹ میں سپاہی بھرتی ہو گئے۔ اس وقت آپ کی عمر ۷ برس تھی۔آپ نے ۲۷ برس سپہ گری کی۔۱۹۶۲ء میں مغربی ایران انڈونیشیاء جانے والے امن دستے میں بطور رکن شامل ہوئے اور امن میڈل کے حقدار ٹھرے۔ ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ مین چھیب جوڑیاں سیکٹر میں ایک پلاٹون کی کمانداری کی ۱۹۷۱ء میں بھی شریک ہوئے اور ستارۂ حرب حاصل کیا۔۱۹۸۹ء مین صوبیداری کے منصب سے سبکدوش ہوئے۔
صوبیدار روکل سائل اردو اور پنجابی میں شعر کہتے ہیں۔ آپ کا ایک ضخیم مجموعہ کلام ’’کشکول سائل‘‘ کے عنوان سے ترتیب پا چکا ہے۔
آپ پنڈی گھیب کی ادبی تنظیم حلقہ ارباب شاد کے اساسی رکن ہیں۔
محمد عظیم بھٹی یکم دسمبر ۱۹۳۶ء کو کرم دین بھٹی کے گھر شینھ باغ خورد ضلع اٹک میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول سروالہ سے حاصل کی ، میٹرک کا امتحان گورنمنٹ ہائی سکول اٹک سے پاس کیا۔ بعد از آں گورنمنٹ کالج اٹک سے بی۔ اے اور پشاور یونیورسٹی سے ایم۔اے (اردو) کی ڈگری حاصل کر لی۔ آپ کے اساتذہ میں ماسٹر شیر علی ، پروفیسر محمد عثمان ، ڈاکٹر طاہر فاروقی اور پروفیسر خاطر غزنوی کے اسمائے گرامی شامل ہیں
تکمیل تعلیم کے بعد آپ مختلف اداروں میں کام کرتے رہے جن مین ڈی سی آفس اٹک ، فروز سنز لاہور اور آئی۔ ای۔ آر لاہور شامل ہیں بعد از آں قومی ادارہ برائے تحقیق تاریخ و ثقافت اسلام آباد میں ملازمت اختیار کر لی اور اسی ادارے سے بہ عہد سینئر اردو افسر ریٹائر ہوئے۔
محمد عظیم بھٹی اردو اور پنجابی کے شاعر اور محقق تھے آپ نے ۱۹۵۵ء میں ادب وادی مین قدم رکھا آپ محفل شعر و ادب اٹک اور مجلس نوادرات علمیہ کے بانی اراکین میں شامل تھے۔آپ کلام اور تحقیق مضامین کے ممتاز ادبی رسائل و جرائد میں طبع ہوتے رہتے رہے آپ کی کوئی کتاب آپ کی حیات مین زیور طبع سے آراستہ نہ ہو سکی۔ آپ ۲۶ستمبر۱۹۹۹ء میں راہی ملک بقا ہوئے۔
عبد اﷲ راہی ہمک تحصیل فتح جنگ کے معروف اعوان زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں آپ ۱۵ دسمبر۱۹۳۷ء کو ملک لعل خان کے گہر پیدا ہوئے۔میٹرک کا امتحان گورنمنٹ ہائی سکول اٹک سے پاس کیا ایف۔ ایا گورنمنٹ کالج اٹک اور بی۔ اے زمینداری کالج گجرات سے پاس کیا۔ بعد از آں پشاور یونیورسٹی سے ایل۔ ایل۔ بی کی ڈگری حاصل کی آپ کے اساتذہ میں اختر عالم صدیقی ، پروفیسر اشفاق علی خان پروفیسر محمد عثمان کے اسمائے گرامی شامل ہیں تکمیل تعلیم کے بعد ضلع کچہری اٹک میں وکالت کرتے رہے آج کل وکالت سے تقریباً دست بردار ہو گئے اور زمین داری کرتے ہیں۔عبد اﷲ راہی نے ۱۹۵۶ء میں شعر گوئی کا آغاز کیا۔غزل ،نظم ،قطعہ اور مثنوی کی سی اصناف میں طبع آزمائی کرتے ہیں آپ کا مجموعہ کلام ’’جبین دل‘‘ کے نام سے۱۹۸۴ء میں شائع ہوا تھا۔بعد از آں آپ کی ایک طویل مثنوی ’’بحر ایثار‘‘ شائع ہوئی۔ آپ کا ایک اور مجموعہ کلام ’’تاریخ وفا‘‘ ترتیب پا چکا ہے آپ اٹک کی ایک ادبی تنظیم بزم اردو کے رکن ہیں۔
انور فیروز کا اصل نام انوار احمد ہے۔ آپ کا تعلق حصار کے یوسف زئی قبیلے سے ہے۔ آپ کے والس محترم ڈاکٹر اظفر حسین خان اظفر اردو کے صاحب دیوان شاعر تھے۔ انوار فیروز ۵جون ۱۹۳۸ء کو حصار (مشرقی پنجاب) میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے وقت آپ کے والد محترم اٹک آئے اور یہیں کے ہو رہے۔انور فیروز نے گورنمنٹ کالج سے بی۔ اے کا امتحان پاس کیا بعد از آں جامعہ پنجاب سے اردو میں ایم۔اے کیا۔ آپ کے نامور اساتذہ میں پروفیسر اشفاق علی خان کا نام سب سے نمایاں ہے۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد آپ نے اپنے آپ کو صحافت کے پیشے سے منسلک کر لیا۔ آپ مختلف اخبارات کے ساتھ وابستہ رہے۔آج کل نوائے وقت راولپنڈی اسلام آباد نیوز ایڈیٹر ہیں۔
انوار فیروز نے زمانہ طالب علمی سے مشق سخن آغاز کی۔ آپ کی اردو پنجابی تخلیقات ملک اور بیرونی ملک کے اردو اور پنجابی رسالوں میں تواتر سے شائع ہوتی ہیں آپ نے کئی ملکوں کی سیاحت کی۔تا حال آپ کا کوئی مجموعہ نظم و نثر اشاعت آشنا نہیں ہوا۔’’دیکھتی آنکھیں ‘‘ کے عنوان تلے ’’نوائے وقت‘‘ میں آپ کا کالم بھی شائع ہوتا ہے۔
زاہر حسن فاروقی ، حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی کی اولاد سے ہیں۔ آپ ۱۵دسمبر ۱۹۳۸ء کو تھانہ پھون ضلع مظفر نگر (یو۔ پی)میں اختر حسن فاروقی کے گھر پیدا ہوئے۔تقسیم ہندوستان کے وقت خاندان کے ہمراہ پاکستان آ گئے اور راولپنڈی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ بعد از آں گارڈن کالج راولپنڈی میں داخل ہوئے جہاں سے آپ نے ایف۔اے،بی۔اے اور ایم۔اے (اردو) کے امتحانات پاس کیے۔ آپ کے اساتذہ میں خواجہ عبید الرحمن ، پروفیسر قدرت اﷲ فاطمی ، سید صفی حیدر دانش ، رزمی صدیقی،مسز اسٹیورٹ اور ڈاکٹر وحید الزمان کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ کچھ ماہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے بعد از آں قومی اسمبلی میں مترجم رہے۔ پریس انفارمیشن اور چینی سفارت خانے میں بھی کچھ عرصہ ملازمت کی۔ بعد میں عبد اﷲ کالج راولپنڈی میں اردو کے استاد مقرر ہوئے۔۱۹۷۰ء میں گورنمنٹ کالج اٹک میں بطور استاد اردو تعیناتی ہوئی اور اسی کالج سے بہ عہدہ ایسوسی ایٹ پروفیسر ۱۴دسمبر۱۹۹۸ء سبکدوش ہوئے۔ آج کل شاہین کالج کامرہ کینٹ میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں
ظاہر حسن فاروقی نے ۱۹۴۹ء میں پہلا افسانہ لکھا۔ ابتداء میں آپ زاہر تھانوی کے قلمی نام سے افسانے اور مضامین تحریر کر تے تھے۔ آپ کے افسانے اور مضامین شاہکار، چنگاری، نیرنگ خیال، فلیمشیا اور نقاد‘‘ میں شائع ہوتے رہے ہیں آپ روزنامہ تعمیر اور ماہنامہ نیرنگ خیال کے سب ایڈیٹر بھی رہے۔۱۹۷۱ء میں آپ نے اٹک میں بزم اردو کی بنیاد ڈالی یہ تنظیم کئی سال تک بے حد فعال رہی آپ ادارہ فنکار راولپنڈی ، مجلس نوادرات علمیہ اٹک اور ایجوکیٹر کلو اٹک کے ممبر رہے۔ زمانہ طالبعلمی میں گارڈن کالج کے مجلہ ’’گورڈونین‘‘ کے مدیر اور زمانہ تدریس میں گورنمنٹ کالج اٹک کے مجلہ ’’مشعل‘‘ کے نگران بھی رہے۔
میاں محمد اکرم اٹک کے معروف مغل (میاں )گھرانے کے چشم و چراغ ہیں۔ آپ یکم اپریل ۱۹۴۰ء کو میاں غلام ربانی کے گھر حضرو ضلع اٹک میں پیدا ہوئے۔ میاں محمد اکرم نے اسلامیہ کالجیٹ سکو ل پشاور سے دسویں ، اسلامیہ کالج پشاور سے بارھویں اور گورنمنٹ کالج اٹک سے چودھویں کا امتحان پاس کیا بعد از آں ۱۹۷۹ء میں اول آئے۔آپ کے نام ور اساتذہ میں پروفیسر محمد عثمان، پروفیسر ڈاکٹر سعید اﷲ کلیم ، ڈاکٹر عبد المتین اور جسٹس عبد الحمید کے اسماء شامل ہیں۔تعلیم کی تکمیل کے بعد میاں محمد اکرم نے اپنا ذاتی کاروبار شروع کیا۔آپ نے مختلف ملکوں جیسے امریکہ، سوئٹرز لینڈ اور سعودی عرب کی سیاحت کی۔
میاں محمد اکرم نے اپنا پہلا افسانہ ’ ’ معصوم لاش‘‘ کے عنوان سے ۱۹۶۹ء میں لکھا جو کتابی شکل میں شائع ہوا۔آپ کے ادبی رہنماؤں میں ڈاکٹر غلام جیلانی برق ، پروفیسر غلام ربانی فروغ ، نذر صابری اور اذکار الحق کے اسماء شامل ہیں۔ میاں محمد اکرم کی کئی افسانوی، انشائی اور معلوماتی طرز کی کتابیں شائع ہو چکی ہیں چند کے نام یہ ہیں۔
اقوال زریں ، معلومات نو، معلومات عامہ، ہنسئے اور پھنسئے، سکندر اعظم اٹک شہر میں ، عیسائیوں کے تین خدا، مرزائیت پر ایک نظر وغیرہ
طارق سلطان پوری کا اصل نام محمد عبدالقیوم خان ہے۔ آپ یوسف زئی پٹھان ہیں آپ کا خاندان علم و فضل میں ممتاز مقام کا حا مل ہے۔ آپ نے محمد عبد العزیز خان کے گھر ۵جون ۱۹۴۲ء کو سلطان پور(حسن ابدال سے شمال مشرق کی طرف دریائے ہرو کے کنارے پر آباد تاریخی قصبہ) میں جنم لیا۔ ابتدائی دینی تعلیم اور پانچویں تک کی تعلیم گاؤں سے حاصل کی پوڑ میانہ سے آٹھویں او ر ۱۹۵۹ء میں حسن ابدال ہائی سکول سے دسویں کا امتحان پاس کیا۔ بعد از آں نیشنل پینک آف پاکستان میں ملازم ہو گئے۔ اور دورانِ ملازمت ہی کراچی سے ایف۔ اے، بی۔ اے اور ۱۹۷۱ء میں ایم۔اے فارسی کے امتحانات پاس کیے۔آپ کے نامور اساتذہ میں حضرت سید ضیاء الدین شاہ سلطان پوری اور ڈاکٹر غلام سرور کے نام شامل ہیں۔
طارق سلطان پوری نے ۱۹۵۶ء سے ادب کوچے میں قدم رکھا۔ آپ غزل، نظم، نعت اور تاریخ گوئی میں طبع آزمائی کرتے ہیں۔آپ کا نعتیہ مجموعہ ’’سبحان اﷲ ما اجملک‘‘ زیر اشاعت ہے۔ اس کے علاوہ آپ کے تین تاریخی قطعات پر مشتمل مجموعے منظر اشاعت ہیں جن کے نام یہ ہیں :
تاریخ راج۔۱۴۱۵ہجری۔ رباب تاریخ۔۱۴۱۶ ہجری۔نعیم التواریخ۔۱۴۱۸ ہجری۔
طارق سلطان پوری آستانہ علیہ گولڑہ شریف کے سید غلام محی الدین شاہ المعروف بہ (بابو جی) سے شرف بیعت رکھتے ہیں ۔
محمد انور جلال ۱۵ اگست ۱۹۴۲ء کو اٹک کے ایک قطب شاہی اعوان گھرانے میں پید ا ہوئے۔ آپ کے والد محترم کا نام ملک عطا محمد ہے جو پوسٹ ماسٹر تھے۔ محمد انوار جلال نے ۱۹۶۳ء میں گورنمنٹ کالج اٹک سے بی۔ اے کا امتحان پا س کیا اور ۱۹۶۵ء میں اورینٹل کالج جامعہ پنجاب سے ایم۔ اے اردو کی ڈگری لی۔ آپ کے اساتذہ میں آفتاب قریشی ، نور الٰہی، پروفیسر محمد عثمان ، منیر اے شیخ،ڈاکٹر سعد اﷲ کلیم ، غلام محمد اور وقار بن الٰہی کے اسماء شامل ہیں آپ تکمیل تعلیم کے بعد ۱۹۶۶ء میں لیکچر ر اردو مقرر ہوئے ۱۹۸۶ء میں اسٹنٹ پروفیسر اور ۱۹۹۶ء میں ایسوسی ایٹ پروفیسر بنے ، آغاز کار سے لے کر تک گورنمنٹ کالج اٹک سے وابستہ ہیں
محمد انوار جلال نے ۱۹۶۶ء مین افسانہ نگاری شروع کی۔آپ کے رہنماؤں میں غلام عباس ، احمد ندیم قاسمی، اور پروفیسر وقار عظیم کے اسمائے گرمی شامل ہیں۔آپ نے ابتدا میں کہانیوں کے انگریزی سے اردو ترجمے کیے جو امروز او ر افکار میں شائع ہوئے۔ آپ ۱۵ سال تک گورنمنٹ کالج اٹک کے علمی و ادبی محلہ’’ مشعل‘‘ کے نگران رہے۔ آپ نے بیشمار افسانے لکھے مگر ابھی تک آپ کا کوئے افسانوی مجموعہ شائع نہیں ہوا۔
نغمہ آغا کا اصل نام پروین ثروت ہے۔ آپ معروف محقق اور آثار شناس آغا عبد الغفور کی رفیقۂ حیات ہیں۔ آپ یکم مارچ ۱۹۴۴ء کو معروف تاجر خواجہ آفتاب احمد کے گھر کان پور (انڈیا) میں پیدائش ہوئیں۔ محترم نغمہ آغا نے بی۔ اے تک تعلیم حاصل کی۔ آج کل حسن ابدال میں ایک پرائیویٹ تعلیمی ادارے حرا پبلک سکول کی پرنسپل ہیں آپ میونسپل کمیٹی حسن ابدال کی لیڈی کونسلر بھی رہیں۔ نغمہ آغا افسانہ نگاری کہ ساتھ ساتھ شاعری میں بھی طبع آزمائی کرتی ہیں۔ آپ کے افسانے اور مضامین ملک کے کئی مقبول رسالوں میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ آپ کی کوئی باقاعدہ کتاب نظر عام پر جلوہ گر نہیں ہوئی۔
آغا شہباز جعفری کا تعلق ترکستان کے علامہ میر بخاری کے بیٹے میر بخاری کی نسل سے ہے۔ آپ آغا عطر الدین خان کے گھر ۱۶ ربیع الاول ۱۳۶۳ہجری کو حضرو میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حضرو سے حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج اٹک سے بی۔اے کا امتحان پاس کیا بعد از آں محکمہ تعلیم میں ملازمت اختیار کر لی۔ دوران ملازمت آپ نے ایم۔ اے اسلامیات ، ایم۔ اے سیاسیات، ایم۔ اے اردو، ایم۔ اے فارسی،ایم۔اے عربی اور ایم۔اے پنجابی کے امتحانات پاس کیے۔ آج کل گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول جنڈ مین مدرس ہیں۔ آپ کے اساتذہ میں مولوی روشن دین، مولانا محمد حسین، اشفاق علی خان ، شریف کنجاہی اور حافظ سمیع اﷲ کے اسماء شا مل ہیں۔
آغا شہباز جعفری نے ۱۹۵۷ء میں مشق سخن کا آغاز کیا۔ شعری میں آپ نے رئیس امروہوی سے اصلاح کی۔ آپ نے نظم کی جملہ اصناف میں طبع آزمائی کی آپ نے حضرو سے ایک ادبی ماہنامے ’’سخنور‘‘ کا اجراء کیا جو زیادہ دیر شائع نہ ہو سکا۔ آپ کی کوئی کتاب ہنوز شائع نہیں ہوئی۔ آپ کے چند غیر مطبوعہ کتابوں کے نام یہ ہیں
ابر گوہر بار۔سلک مروارید۔ گنج شائیگاں۔ رقص بسمل۔تاریخ پوپل زئی۔ سلک مروارید۔ بتان کاشی۔ تاریخ المیر۔ تذکرۂ شعر ائے اٹک۔
مشتاق عاجز کا اصل نام مشتاق احمد ہے۔ آپ کا تعلق سیدھن (علاقہ چھچھ) کے ایک اعوان گھرانے سے ہے۔ آپ یکم اپریل ۱۹۴۴ء مین ملک احمد خان کے گھر جنڈ ضلع اٹک میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد پولیس میں ملازم تھے۔ ملک مشتاق عاجز نے ایم۔ اے سی مڈل سکول سے آٹھویں اور گورنمنٹ پائلٹ سکنڈری سکول اٹک سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ گورنمنٹ کالج اٹک مین ملازم ہو گئے، دوران ملازمت آپ نے ایم۔ اے (اردو) اور ایم۔ ایڈ کے امتحانات پاس کیے۔۱۹۶۶ء سے ۱۹۹۸ء تک آپ محکمہ تعلیم میں مختلف عہدوں جیسے سینئر انگلش ٹیچر۔ ہیڈ ماسٹر سکول ، ہیڈ ماسٹر ہائی سکول ،اے۔ ای۔ او اور ڈپٹی ڈی۔ او۔ پر فائز رہے۔
مشتاق عاجز نے ۱۹۶۳ مین سخن گوئی کا آغاز کیا۔ ابتدا میں کچھ غزلیں حکیم تائب رضوی کو دکھائیں۔ شاعری کے علاوہ مصوری ، خطاطی ، گلوکاری اور بینجو نوازی بھی آپ کی دلچسپیوں کی مرکز رہے ہیں۔ آپ کا مجموعہ کلام ’’ آئنے سے باہر‘‘ شائع ہو چکا ہے۔ آپ اٹک کی ادبی تنظیم ’’ کاروان قلم‘‘ کے رکن بھی ہیں۔
دلدار حسین اختر بوٹا(اٹک ) کے سادات خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔آپ نذر حسین شاہ کے گھر ۱۹۴۵ء میں پیدا ہوئے آپ نے میٹرک کا امتحان گورنمنٹ پائیلٹ سکنڈری سکول اٹک سے پاس کیا آپ کے قابل ذکر اساتذہ میں گوہر دین ، شاہ فردوس، ملک جعفر اور اذکار الحق کے نام شامل ہیں میٹرک کے بعد آپ نے تعلیم کو خیر باد کہا اور زمیں داری کو وسیلہ رزق ٹھہرایا۔
دلدار حسین اختر نے ۱۹۶۸ء سے شاعری کا آغاز کیا۔ غزل اور رباعی آپ کی پسندیدہ اصناف ہیں۔آپ کا کوئی مجموعہ کلام ابھی تک منظر عام پر جلوہ گر نہیں ہوا۔
شیخ محمد سلیمان۱۵ مئی ۱۹۴۶ء کو شیخ عبد العزیز کے گھر کالو سخورد (علاقہ چھچھ) میں پیدا ہوئے۔پانچ سال کی عمر میں گاؤں کے بابا فقیر محمد سے قرآن مجید کی ناظرہ تعلیم حاصل کی۔ بعد از آں گاؤں کے پرائمری سکول سے پرائمری کا امتحان پاس کیا اور وظیفہ حاصل کیا۔۱۹۶۱ء میں شمس آباد میں مڈل اور ۱۹۶۳ء مین ڈی سی ہائی سکول شادی خان سے میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویثرن مین پاس کیا۔ اس کے بعد فکر روزگار نے آپ کو کراچی پہنچا دیا جہاں آپ ملازمت کے ساتھ ساتھ تعلیم سے بھی وابستہ رہے اور کراچی یونیورسٹی سے بی۔اے کا امتحان پاس کیا۔ آپ کے اساتذہ مین پروفیسر شاہ فرید الحق ، پروفیسر خواجہ آشکار حسین وفا، اور پروفیسر حسین کاظمی کے اسماء شامل ہیں۔ آُ نے ۱۹۶۳ء میں علی آٹو موبائیلز کراچی میں بطور کلرک ملازمت آغاز کی اور ۱۹۸۷ء تک اسی ادارے سے وابستہ رہے آج کل راولپنڈی مین ملازمت کرتے ہیں
شیخ محمد سلیمان نے تیسری جماعت سے شاعری شروع کی۔ شاعری میں آپ کا کوئی باقاعدہ استاد نہیں۔ آپ ’’بقدر ظرف ‘‘ کے عنوان سے ’’ندائے وقت اور ’’ابلیس کی ڈائری‘‘ کے عنوان سے ’’ راول پنڈی ویوز‘‘ میں کالم بھی لکھتے رہے ابھی تک آپ کا کوئی مجموعہ منظر اشاعت پر جلوہ گر نہیں ہوا۔
یوسف جمال بھٹی ۲۷ مئی ۱۹۴۷ء کو فتح جنگ میں محمد مسکین کے گھر میں پیدا ہوئے۔ آپ نے میٹرک تک تعلیم پائی۔ ابتدا میں مختلف نوعیت کے کام کر کے اپنا پیٹ پالتے رہے آج کل بہ سلسلہ روزگار اسلام آباد میں مقیم ہیں
یوسف جمال بھٹی اردو اور پنجابی دونوں زبانوں کے شاعر ہیں شاعری میں شاکر بیگ آپ کے استاد ہیں
’’حسن یوسف ‘‘اور جمال یوسف‘‘ کے عنوان سے آپ کی شاعری کے دو مجموعے منتظر اشاعت ہیں۔
غلام صابر مسعود یکم فروری ۱۹۴۸ ء کو فتح جنگ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم کا نام محمد دین دار خان ہے۔ آپ نے بی۔ اے تک تعلیم پائی۔
مسعود نے ۱۹۲۳ء سے دشت سخن میں قدم رکھا۔ شاعری میں خان اقبال خان مقصود آپ کے استاد ہیں۔ آپ نے غزل ، نظم ، نعت اور منقبت جیسی اصناف میں قلم اٹھایا۔ مجموعہ نعت اور مجموعہ غزل ترتیب دیے جا چکے ہیں۔ آپ ادارہ قندیل ثقافت کے صدر جب کہ تحصیل سوشل ویلفیئر کونسل،ادارۂ فروغ ادب اور ادارۂ عروج ادب کے جنرل سیکرٹری ہیں۔
مرزا حامد بیگ کے جد امجد مرزا محمد بیگ ۱۷۵۰ء میں صوبیدار اٹک تھے۔ والد کی طرف سے آپ کا نسب نامہ حضرت بابا اٹکی سے جا ملتا ہے۔ آپ محمد اکرم بیگ کے گھر ۲۹اگست۱۹۴۹ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ۱۹۶۶ء میں ڈسٹرکٹ کونسل ہائی سکول نواب شاہ سے میٹرک ۱۹۶۸ء میں اسلامیہ کالج سکھر سے ایف۔ اے اور ۱۹۸۱ء میں گورنمنٹ کالج اٹک سے بی۔ اے کا امتحان پاس کیا بعد از آں اورینٹل کالج ، جامعہ پنجاب سے ایم۔ اے (اردو)کیا اور’’ اردو ادب انگریزی سے نثری تراجم‘‘ کے موضوع پر مقالہ لکھ کر پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد کچھ عرصہ بطور ریسرچ سکالر جامعہ پنجاب سے وابستہ رہے۔۳۰ اکتوبر۱۹۷۴ء سے اردو تدریس میں مصروف ہیں۔ آپ مری، راولپنڈی اور اٹک کے گورنمنٹ کالجوں مین رہے۔ آج کل اسلامیہ کلج لاہور سے وابستہ ہیں۔
ڈاکٹر مرزا حامد بیگ نے نیرنگ خیال شمارہ ۵۴۲ سے افسانہ نگاری کا آغاز کیا ، آپ کا شمار اردو کے معروف کہانی نگاری کے علاوہ تحقیق اور تنقید بھی آپ کے زیادہ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ افسانہ نگاری کے علاوہ تحقیق اور تنقید بہی آپ کے میدان ہیں۔ آپ حلقۂ ارباب ذوق ، پاکستان رائٹرز گلڈ اور آرئٹس ایکویٹی پاکستان کے ممبر ہیں۔آپ کو درج ذیل کتابوں پر ادبی انعام ملا۔
۱۔قصہ کہانی (چھاچھی افسانے)پاکستان رائٹرز گلڈ ادبی انعام ۱۹۸۴ء
۲۔گناہ کی مزدوری بہترین مسعودہ ایواش نیشنل بک آف پاکستان ۱۹۹۲ء
۳۔ مصطفٰی زیدی کی کہانی۔ بہترین مسودہ ایوارڈ نیشنل بک آب پاکستان۱۹۹۲ء
ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کی چند کتابوں کے نام یہ ہیں۔
گمشدہ کلمات۔
تار پر چلنے والی۔
قصہ کہانی۔
افسانے کا منظر نامہ
تیسری دنیا کا افسانہ
کتابیات تراجم۔
ترجمے کا فن نظری مباحث۔
مغرب سے نثری تراجم۔
مصطفی زیدی کی کہانی۔
نر ناری۔
اردو افسانے کی روایت۔
ڈاکٹر ایوب شاہد ۵جنوری ۱۹۵۱ء کو میاں مرسلین کے گھر اٹک شہر میں ہوئے۔ آپ کے آباؤ اجداد کوہاٹ سے اٹک آئے اور یہیں کے ہو رہے۔ محمد ایوب شاہد میٹرک کا امتحان گورنمنٹ پائلٹ سکنڈری سکول اٹک سے پاس کیا۔ گورنمنٹ کالج سے بی۔ اے اورینٹل کالج (جامعہ پنجاب) سے ایم۔ اے اردو کیا۔ ایم۔ اے اردو آپ نے پنجاب یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کی اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔آپ اساتذہ مین ماسٹر محمد یوسف ذاہر حسن فاروقی اور ڈاکٹر وحید قریشی کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ محمد ایوب شاہد نے جامع پنجاب سے ’’شارحین غالب کا تنقیدی مطالعہ‘‘ کے موضوع پر کام کر کے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔تعلیم کی تکمیل کے بعد آپ اردو ادبیات کے استاد مقرر ہوئے۔
سرگودھا اور راول پنڈی کے گورنمنٹ کالجوں میں پڑھاتے رہے۔ آج کل کل گورنمنٹ کالج اٹک میں اردو کی تدریس میں منہمک ہیں۔ آپ تنظیم اساتذہ پاکستان کے رکن ہیں۔
ڈاکٹر محمد ایوب شاہد کالج کے زمانہ میں ادب سے وابستہ ہوئے ابتداء میں شعر گوئی سے ہی لگاؤ رہا مگر رفتہ رفتہ شعر گوئی سے دامن چھڑایا اور تنقید لگانے لگے۔ آپ کی دو کتابیں مندرج ذیل ہیں
مطبوعہ:
۱۔ شار حین غالب کا تنقیدی مطالعہ(دو جلدیں )
۲۔ اقبال کا تصور توانائی
غیر مطبوعہ:
۱۔ فکر اقبال میں مظاہر فطرت کی علامتی معنویت۔
۲۔ اقبال اور اجتہاد۔
۳۔ فلسفہ و حدۃ الوجود اور غالب
ڈاکٹر محمد ایوب شاہد کے تنقیدی مضامین اوراق، ماو نو،ادبیات،افکار معلم اور دیگر رسائل و جرائد میں شائع ہوتے ہیں۔
صاجزادہ عبد الظاہر رضوی معروف روحانی شخصیت پیر عبد الصبور بادشاہ کے گھر ۱۷ستمبر ۱۹۵۲ کو بام خیل تحصیل و ضلع صوابی مین پیدا ہوئے۔ آپ نے پانچ سال کی عمر میں قرآن پاک ختم کیا۔ ابتدائی دینی تعلیم کے بعد آپ جامعہ رضویہ ضیاء العلوم راولپنڈی میں داخل ہوئے جہاں آپ نے میٹرک کی سکولی تعلیم کے ساتھ درس نظامی اور فاضل طب کی سند بھی حاصل کی۔ آپ کے اساتذہ میں شیخ الحدیث مولانا محب النبیؒ ،سید غلام محی الدین اور قاضی محمد عبد الوہاب کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ تکمیل تعلیم دین کے بعد آپ نے اٹک میں ایک دینی ادارے جامعہ قادریہ حقانیہ کی بنیاد رکھی۔آپ اس ادارے کے پرنسپل ہیں۔ اس ادارے کے فارغ التحصیل طلباء اور بیرونی ملک اشاعت و تدریس دین میں سرگرم عمل ہیں۔
صاحبزادہ عبد الظاہر رضوی درس و تدریس کے ساتھ ساتھ تحریر و تقریر سے بھی وابستہ ہیں۔ آپ کی مطبوعہ کتابیں یہ ہیں۔
میلاد النبی ﷺ
رمضان المبارک کی فضیلت اور اہمیت
رجب المرجب شریف
آپ کی غیر مطبوعہ کتابوں میں ’’دین کے دو ڈاکو‘‘،’’مجموعہ درود شریف‘‘ اور ’’اسلام کا عادلانہ نظام‘‘ شامل ہیں۔
ساغر منہاس کا اصل نام سلطان محبوب ہے۔ آپ ۱۹۵۳ء کو فتح جنگ میں پیدا ہوئے۔ایف۔اے تک تعلیم حاصل کی۔ بے۔اے کا امتحان بھی دیا مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ اس کے بعد فکر روزگار نے اس طرف متوجہ نہیں ہونے دیا۔ساغر منہاس نے ۱۹۷۲ء سے شاعری آغاز کی۔ شاعری میں آپ کے استاد شاکر بیگ ہیں۔’’جام شکستہ ‘‘اور ’’دیدہ تر‘‘ کے عنوانات سے آپ کے شاعری کے دو مجموعے منظر اشاعت ہیں۔
فتح جنگ کے شاعروں میں اعجاز خان ساحر کا نام نمایاں ہے۔ آپ سردار جعفر خان کے گھر فتح جنگ میں پیدا ہوئے۔ آپ کی تاریخ پیدائش یکم جنوری۱۹۵۴ء ہے۔ آپ نے ایف۔اے تک تعلیم حاصل کی بعد از آں سماجی اور سیاسی مصروفیات کی بناء پر تعلیم ترک کر دی۔ آپ بلدیہ فتح جنگ کے وائس چیئر مین بھی رہے ہیں۔ آپ کئی سماجی اور فلاحی تنظیموں کی روح ہیں۔
آپ ۱۹۷۰ء میں سخن آشنا ہوئے۔ آپ کے اساتذہ فن میں ڈاکٹر سعد اﷲ کلیم اور شاکر بیگ کے نام شامل ہیں۔ آپ کا کلام مقامی رسالوں اور اخباروں میں تواتر سے چھپتا رہتا ہے۔’’رقص شرر‘‘ کے عنوان سے مجموعہ کلام ترتیب دے چکے ہیں جو ہنوز شائع نہیں ہو سکا۔ ادارہ ادب ثقافت ، ادارہ فروغ ادب ،حلقہ ارباب سخن اور کئی دیگر ادبی تنظیموں کے سر پرست اور رکن رکین ہیں ۔
ملک گلاب خان نیاز چوہان راجپوت ہیں۔ آپ ۱۹مارچ۱۹۵۵ء کو ملک غلام محمد کے گھر کھوڑ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے کھوڑ سے ہی میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ بعد میں تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور ملازمت اختیار کر لی۔
گلاب خان نیاز ۱۹۹۰ء میں نثر نویسی کی طرف آئے۔ کھوڑ کی کئی علمی ادبی سماجی اور فلاحی تنظیموں کے رکن اور عہدہ دار ہیں۔ فلاحی و سماجی خدمات کے اعتراف میں آپ کو گولڈ میڈل مل چکا ہے۔آپ روزنامہ ’’خبریں ‘‘کے پریس رپورٹر بھی ہیں۔
محمد صفدر حسرت۲۰مئی ۱۹۵۵ء کو حاجی محمد مسکین کے گھر فتح جنگ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے میٹرک تک تعلیم پائی بعد از آں معاشی ناہمواری کے باعث تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔ آج کل فتح جنگ میں کپڑے کا کاروبار کرتے ہیں۔
حسرت ۱۹۷۹ء سے وابستہ شعرو سخن ہیں۔آپ اردو اور پنجابی کی کئی اصناف میں طبع آزمائی کرتے ہیں تاہم نعت، غزل اور ترانہ ملی آپ کی پسندیدہ اصناف شعر ہیں۔شاعری میں آپ شاکر بیگ کے شاگرد ہیں ’’اظہار خیال‘‘ کے عنوان سے آپ نے شاعری کا مجموعہ ترتیب دے رکھا ہے آپ کے لکھے ہوئے کئی ترانے قومی تہواروں پر مقامی سطح کے ملی اور ثقافت پروگراموں میں گائے جاتے ہیں۔آپ کئی ادبی اور سماجی تنظیموں کے سرگرم رکن اور عہدہ دار ہیں۔ آپ فتح جنگ سے شائع ہونے والی پندرہ روز ہ اخبار ’’تلاش حقیقت ‘‘کے ادبی صفحے کہ انچارج اور ادبی رسالے ’’عروج‘‘ کے معاون مدیر رہے ہیں۔
حافظ بنارس خان ۷مارچ۱۹۵۶ ء کو جعفر خان کے گھر محلہ میر پور حسین ، کامرہ کلاں ضلع اٹک میں پیدا ہوئے۔ آپ نے قرآن مجید اور ابتدائی عربی فارسی تعلیم مولانا ابوالکلام سے حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج اٹک سے بی۔ایس۔سی کا امتحان پاس کیا اور قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم۔ ایس۔سی(بیالوجی )کی ڈگری حاصل کی۔آپ کل گورنمنٹ کالج اٹک میں بیالوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔
حافظ بنارس خان نے نذر صابری اور قاضی وجاہت اشرف کی تحریک اور ایماء پر لکھنا پڑھنا شروع کیا۔مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد نے گیارھویں اور بارھویں جماعتوں کے لئے بیالوجی کی نصابی کتاب اردو ترجمے کی اشاعت کا منصوبہ بنایا تو مترجمین میں حافظ بنارس خان کا نا م بھی شامل تھا۔ آپ نے اپنے حصہ کا کام نہایت محنت سے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ یہ دونوں کتابیں مقتدرہ نے شائع کر دیں ہیں۔
جاوید اقبال افگار امیر محمد کے گھر چھب تحصیل جنڈ ضلع اٹک میں پیدا ہوئے۔آپ کی تاریخ پیدائش ۹مارچ۱۹۵۶ء ہے۔آپ نے ایف۔اے تک تعلیم پائی۔ تعلیم زیادہ تر لنڈی کوتل میں حاصل کی کیونکہ آپ کے والد محترم خیر رائفلز لنڈی کوتل میں ملازم تھے۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ فرنٹیر کور میں بہ طور کلرک بھرتی ہوئے اور ہیڈ کلرک کے عہدہ پر ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ شاندار ملازمت کے اعتراف میں انسپکٹر جنرل فرنٹیر کور صوبہ سرحد کی طرف سے سند تحسین ملی۔جاوید اقبال افگار آج کل اپنے گاؤں میں ہی کاروبار کرتے ہیں۔
جاوید اقبال افگار اردو پشتو کے شاعر اور نثار ہیں۔ آپ کے ادبی رہنماؤں میں امیر حمزہ شنواری،نعمت اﷲ اسیر اور خیبر آفریدی کے اسمائے گرامی شامل ہیں آپ کی نصف درجن کے قریب کتابیں شائع ہو کر دادو تحسین حاصل کر چکی ہیں اور تقریباً اتنی ہی منتظر اشاعت ہیں۔آپ کے پشتو کلام کے مندرجہ ذیل مجموعہ منظر عام پر آ چکے ہیں۔
۱۔ افگار زڑہ
۲۔ ستاخکلا او زما مینہ
۳۔ پہ مینہ مینہ
۴۔ ارغنے لارے
۵۔ زاڑہ طرزونہ۔نوے سندرے
افگار نے ریڈیو اور ٹیلی ویثرن کے مختلف پروگراموں میں شمولیت کی اور ادکاری کے ساتھ بہ طور رائٹر بھی وابستہ رہے۔ آپ کی ثقافتی اور ادبی خدمات کے اعتراف میں اباسین آرٹس کونسل نے آپ کو سند تحسین سے نوازا ہے۔
محمد تحسین حسین ۱۵ اکتوبر ۱۹۵۸ء کو سید محمد شبیر حسین کے گھر اٹک میں پیدا ہوئے۔قیام پاکستان کے وقت آپ کا خاندان بریلی(یو۔پی) سے ہجرت کر کے اٹک میں رہائش پذیر ہوا۔محمد تحسین حسین نے ایم سی پرائمری سکول سے پرائمری کا امتحان پاس کیا اور گورنمنٹ پائلٹ سکنڈری سکول اٹک سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔گورنمنٹ کالج اٹک سے بی۔اے اور اسلامیہ لاء کالج کراچی سے ایل۔ایل۔بی کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کے اساتذہ میں ماسٹر محمد یوسف اور پروفیسر ڈاکٹر سعد اﷲ کلیم کے اسماء گرامی شامل ہیں۔تعلیم کے حصول کے بعد اپنے ذاتی کاروبار میں منہمک ہو گئے آج کل اٹک میں قالین کا کاروبار کرتے ہیں۔
محمد تحسین حسین۱۹۷۳ء سے ۱۹۹۰ء تک جماعت اسلامی سے وابستہ رہے اب مختلف سماجی تنظیموں کے ممبر اور عہدہ دار ہیں۔محمد تحسین حسین بطور صحافی مختلف اخبارات سے وابستہ رہے بعد از آں ’’اٹک نامہ‘‘ کے نام سے اپنا ماہنامہ رسالہ نکالتے رہے۔’’اٹک نامہ‘‘ تین چار سال تک تواتر سے شائع ہوتا رہا۔سیاسی ‘ سماجی اور مذہبی موضوعات پر آپ کی تحریریں اکثر اس ماہنامے کی زینت بنتی رہیں۔ آپ نے ’’آداب تجارت‘‘ کے نام سے احادیث مبارکہ کا انتخاب کیا اور حجاج کرام کی رہبری کے لئے ’’ہمدم حرمین شریفین‘‘ کے نام سے ایک کتاب بھی مرتب کی ، یہ دونوں کتابیں ہنوز شائع نہیں ہو سکیں۔
محمد الطاف اعوان ۲۷ اکتوبر۱۹۵۹ء کو گلاب خان کے گھر کھوڑ میں پیدا ہوئے ایف۔اے تک تعلیم حاصل کی بعد از آں پی۔او۔ایل کمپنی کھوڑ میں ملازمت اختیار کر لی۔
محمد الطاف اعوان نے ۱۹۸۰ء سے لکھنا پڑھنا شروع کیا۔ شاعری کے علاوہ اخبار میں کالم بھی لکھتے ہیں۔محمد امین انجم آپ کے ادبی رہنما اور استاد ہیں۔
محمد الطاف اعوان ساغر صدیقی رائٹرز کونسل کھوڑ یونٹ کے جنرل سیکرٹری اور کاروان کوثر کے سینیئر نائب صدر ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف سماجی اور صحافی تنظیموں کے رکن بھی ہیں۔ سماجی خدمات خدمات کے اعتراف میں آپ کو ستارۂ سماج اور گولڈ میڈل مل چکا ہے۔
سید شاکر القادری کا اصل نام ابرار حسین ہے۔ آپ سید محمد سلیمان قادری کے گھر میں ۱۵مئی۱۹۶۱ء میں پیدا ہوئے۔اٹک شہر آپ کا مولد و منشا ہے۔ آپ کے اجداد کوئیٹہ سے نقل مکانی کر کے اٹک آئے تھے۔شاکر القادری نے میٹرک کا امتحان گورنمنٹ پائلٹ سکو ل اٹک شہر سے پاس کیا بعد از آں پرائیویٹ طور پر ایف۔ اے اور سرٹیفکیٹ لائبریرین شپ کے امتحانات پاس کیے۔ آپ کے اساتذہ میں غلام حسین شبنم اور فضل الہٰی کے نام نمایاں ہیں۔تعلیم سے فراغت کے بعد ضلع کونسل اٹک میں بہ طور اردو ٹائپسٹ ملازم ہو گئے۔آج کل اسی ادارے کی لائبریری میں بہ طور کتاب دار فرائض انجام دے رہے ہیں۔
شاکر القادری نے ۱۹۸۰ء میں مشق سخن آغاز کی۔ شاعری میں آپ کے استاد نذر صابری صاحب ہیں۔ شاکر القادری مجلس نوادرات علمیہ، محفل شعرو ادب اور پنجابی ادبی سنگت کے سرگرم رکن ہیں۔ شاعری میں شاکر القادری کا زیادہ تر رجحان غزل اور نعت کی طرف ہے۔آپ کا کلام اور مضامین مختلف رسائل و جرائد میں اشاعت پذیر ہوتے ہیں آپ نے ’’عکس رخ یار‘‘ کے عنوان سے منتخب رباعیات خیام کا منظوم اردو ترجمہ کیا جو محفل شعرو ادب کے زیر اہتمام شائع ہو چکا ہے۔گستاخان و شاتمان رسول ﷺ کے عبرت ناک انجام کے حوالے سے آپ کی ایک تحقیقی کتاب ’’شاتمان رسول کا انجام‘‘ ترتیب کے مراحل سے گزر رہی ہے۔ اس کے علاوہ آپ نے بڑی جانفشانی سے ڈاکٹر غلام جیلانی برق کا کلام مرتب کیا ہے جو برق بے تاب کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔
راجا نور محمد نظامی راجپوت خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ آپ کے آباؤ اجداد مسلم عہد میں علاقہ ٹکسلا کے بڑے جاگیر دار تھے۔ سکھ عہد حکومت میں ان سے جاگیریں چھین لی گئیں۔ راجا نور محمد نظامی راجا فضل الہٰی کے گھر بھوئی گاڑ (علاقہ پنج کٹھہ )تحصیل حسن ابدال میں پیدا ہوئے۔ آپ کی تاریخ پیدائش ۲۷جون۱۹۶۱ء ہے۔آپ نے ایف۔ اے تک تعلیم حاصل کی بعد میں اسلام آباد سے جرنلزم اور کراچی سے بلڈنگ کنسٹرکشن میں ڈپلومہ حاصل کیا آج کل زمینداری اور تجارت سے وابستہ ہیں۔
راجا نور محمد نظامی ۱۹۸۵ء سے تاریخ اور آثاریات کے میدان میں اترے۔ ڈاکٹر محمد سلیم کی رہنمائی نے آپ کو تاریخ نگاری اور آثار شناسی کا راستہ دکھایا۔ مختلف رسائل اور جرائد میں آپ کے ۲۵ مضامین شائع ہو چکے ہیں۔آپ نے کئی تحقیقی اور تاریخی کتابیں رقم کی ہیں جو ابھی تک زیور طباعت سے آراستہ نہیں ہو سکیں۔ آپ کے چند اہم کتابوں کے نام یہ ہیں۔
۱۔ تاریخ ٹکسلا۔۔۔ طلوع اسلام کے بعد
۲۔ تذکرہ اولیائے پوٹھو ہار
۳۔ تاریخ دارالعلوم بھوئی گاڑ
راجا نور محمد نظامی ٹکسلا ہسٹاریکل سوسائٹی کے جوائنٹ سیکرٹری آر کیالوجیکل ہسٹاریکل کلچر اکیڈمی اٹک کے ڈائریکٹر اور انجم ربانیہ کے سیکرٹری نشر و اشاعت ہیں۔
نثار ترابی۱۰ اکتوبر۱۹۶۱ء کو غلام مصطفیٰ کے گھر مور گاہ راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد محترم دو میل ضلع اٹک سے تعلق رکھتے تھے سلسلہ ملازمت مورگاہ میں قیام پذیر تھے۔نثار ترابی نے ابتدائی تعلیم دو میل ضلع اٹک سے حاصل کی۔ میٹرک کا امتحان گورنمنٹ ایلیٹ سکول مورگاہ سے جب کہ ایف۔اے اسلامیہ کالج کراچی سے پاس کیا۔ بعد از آں جامعہ پنجاب سے بی۔ اے ، بی۔ایڈ اور ایم۔ اے (اردو) کے امتحانات پاس کیے۔’’حضرت شاہ مراد خان پوری۔۔۔ حیات و دفن‘‘ کے موضوع پر مقالہ لکھ کر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم۔ فل کی ڈگری حاصل کی۔اب کراچی یونیورسٹی سے ’’اردو غزل اور عصری رویے ‘‘ کے عنوان سے پی۔ ایچ۔ ڈی کی تحصیل میں منہمک ہیں۔ نثار ترابی گورنمنٹ کالج آف کامرس راولپنڈی میں اردو کے استاد ہیں۔
آپ نے ۱۹۸۰ء کی دہائی میں مشق سخن آغاز کی آپ کے ما ہیوں کا مجموعہ ’’بارات گلابوں کی‘‘ ۱۹۹۴ء میں شائع ہوا۔ آپ ادبی تنظیم حرف و آواز کے سیکرٹری اور بزم علم و فن کے سینئر رکن ہیں آپ اساس کے ادبی صفحے کے مدیر ہیں۔ آپ پاکستان ٹیلی ویثرن سے بطور کمپیئر بی وابستہ رہے۔آپ کی مختلف خدمات کے اعتراف میں آپ کو متعدد اعزازات سے نوازا گیا ہے جن کی تفضیل درج ذیل ہے۔
گولڈن جوبلی ایوارڈ ۱۹۹۷ء (پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن راولپنڈی۔۔۔ شاعری اور کمپیئرنگ)
وارث شاہؒ ایوارڈ۔۔۔ ۱۹۹۷ء لندن۔ دھن کہون ایوارڈ۔۔۔ چکوال۔ شاہ مرادؒ کلچرل سوسائٹی ایوارڈ۔۔۔ (شعبہ تحقیق)نوائے سحر ایوارڈ برائے ادبی خدمات۔
راشد علی زئی کا اصل نام دوست محمد خان ہے۔ آپ حضرو کے ممتاز علمی و ادبی علی زئی خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ آپ کے دادا عطا خان عطا شاعر اور ادیب تھے اور مولانا ظفر علی خان کے دوستوں میں شامل تھے۔ آپ کے والد خواجہ محمد خان اسد بھی علم کے دوست انسان تھے اور اپنے زمانہ کے مشاہیر اہل قلم سے ان کا گہرے مراسم تھے۔
راشد علی زئی ۱۳ اکتوبر۱۹۶۲ء کو محلہ محمد عظیم خان حضرو میں پیدا ہوئے۔ آ پ نے ابتدائی تعلیم حضرو سے حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج اٹک سے بی۔ اے کا امتحان پاس کیا۔گریجوئیشن کے بعد تعلیم جاری نہ رکھ سے اور کاشت کاری اور اپنے ذاتی کاروبار میں منہمک ہو گئے۔
راشد علی زئی ۱۹۷۴ء میں میدان ادب و صحافت مین اترے۔ شاعر ی میں آپ کا کوئی باقاعدہ استاد نہیں ہے تاہم ابتداء میں حضرو کے معروف شاعر عبد الحئی خاکی سے مشورہ سخن کرتے رہے۔آپ حضرو کی علمی و ادبی تنظیموں کے علاوہ پاکستان رائٹرز گلڈ کے رکن بھی ہیں۔ حضرو سے آپ نے ہفت روزہ اخبار ’’حضرو‘‘ اور ایک ادبی رسالہ ’’صدف‘‘ کا اجرا کیا۔ آپ نے اپنے والد گرامی کے احوال ایثار پر ایک ضخیم کتاب بہ نام ’’خواجہ محمد خان اسدؒ۔۔۔ احوال ایثار‘‘ مرتب کی جو شائع ہو چکی ہے۔ آپ کی غیر مطبوعہ کتابوں میں شعری مجموعہ کے علاوہ تذکرۂ شعرائے چھچھ، تذکرۂ علمائے چھچھ،کلام اسد حضروی، مضامین اسد حضروی اور مکاتب مشاہیر شامل ہیں۔ راشد علی زئی اپنے والد محترم کے قائم کردہ نادر کتب خانے میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں۔یہ کتب خانہ اہل علم و دانش کے لیے بہت کشش رکھتا ہے۔
نورین طلعت عروبہ معروف شاعر انوار فیروز کی صاحبزادی ہیں۔ آپ ۳/ مارچ ۱۹۶۳ء کو اٹک میں پیدا ہوئیں۔ آپ کے دادا اظفر حسین خان اظفر بھی صاحب دیوان شاعر تھے۔ نورین طلعت عروبہ نے مطالعہ پاکستان اور اردو میں ایم۔اے کی ڈگری حاصل کی۔ آپ ہیکن ہاؤس میں کافی عرصہ تک تدریس کے فرائض انجام دیتی رہیں۔ آج کل جدہ(سعودی عرب )میں مقیم ہیں۔
نورین طلعت عروبہ کو گھر میں شاعرانہ ماحول میسر آیا۔ شاعری میں آپ کے رہنما آپ کے والد انوار فیروز ہیں۔آپ کا کلام معروف و معتبر ادبی رسائل میں شائع ہوتا رہتا ہے۔ آپ کا مجموعہ غزل ترتیب کے مراحل میں ہے۔
ارشاد علی کا اصل نام محمد ارشاد ہے۔آپ ۵اگست۱۹۶۳ء کو محمد یوسف کے گھر شکر درہ تحصیل و ضلع اٹک میں پیدا ہوئے۔آپ نے مختلف اداروں سے تعلیم حاصل کی۔ آپ کے قابل ذکر اساتذہ میں ماسٹر بشیر،ماسٹر نور محمد اور ڈاکٹر سعد اﷲ کلیم کے اسماء شامل ہیں۔ ایف۔اے کے بعد آپ نے محکمہ بہبود آبادی میں ملازمت اختیار کر لی اور ہنوز اسی محکمہ سے وابستہ ہیں۔
ارشاد علی ۱۹۸۲ ء میں میدان ادب میں اترے۔ آپ کی پہلی تحریر نوائے وقت میں بچوں کے میگزین ’’پھول اور کلیاں ‘‘ میں شائع ہوئی۔ اول اول شاعری اور افسانہ نگاری کے میدانوں میں سرگرم رہے بعد از آں توجہ صرف اور صرف افسانہ نگاری پر مرکوز کر لی اور شاعری سے قریب قریب دست بردار ہو گئے۔ افسانہ نگاری میں اردو کے معروف کہانی نگار ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کی رہبری نے ارشاد علی کے جوہر کو اور چمکا دیا۔آپ کے افسانے ملک کے ممتاز ادبی جرائد میں شائع ہوتے ہیں ’’شب سرخاب‘‘ کے عنوان سے آپ کے افسانوں کا مجموعہ ترتیب کے مراحل میں ہے۔
سجاد حسین ساجد ملک اﷲ یار خان کے گھر جھمٹ ضلع اٹک میں پیدا ہوئے۔ساجد کی تاریخ پیدائش ۲مارچ۱۹۶۴ء ہے آپ نے گورنمنٹ ہائی سکول چھب سے میٹرک اور گورنمنٹ کالج اٹک سے انٹر میڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔ بعد میں بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ سے بی۔اے کی ڈگری حاصل کی۔آپ کے اساتذہ میں ماسٹر گل خان، مظفر خان ساغر، بسم اﷲ جان اور نور حسین جعفری کے نام شامل ہیں گریجوئیشن کے بعد سجاد حسین ساجد نے پاک فضائیہ میں ملازمت اختیار کر لی۔
سجاد حسین ساجد نے ۱۹۸۱ء سے مشق سخن آغاز کی۔غزل اور نظم آپ کی پسندیدہ اصناف سخن ہیں آپ کی شاعری کے دو مجموعے ’’آئین وفا‘‘ اور خواہش نمو‘‘ ترتیب پا چکے ہیں۔آپ ادبی تنظیم ’’کاروان قلم‘‘ کے رکن ہیں ۔
ملک نذیر سانول کا اصل نام محمد نذیر ہے۔ آپ ۲۰ اگست۱۹۶۴ء میں سرور خان کے گھر گلی جاگیر تحصیل فتح جنگ ضلع اٹک میں پیدا ہوئے۔پرائمری کا امتحان گلی جاگیر سے پاس کیا۔ ہائی سکول ملال سے مڈل اورایلیٹ سکول مورگاہ سے میٹرک کے امتحانات پاس کیے۔گورڈن کالج راولپنڈی سے ایف۔اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد اورینٹ پیٹرولیم ڈھرنال میں ملازم ہو گئے۔ آپ کے اساتذہ میں ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کا نام سر فہرست ہے۔
ملک نذیر سانول نے ۱۹۸۶ء مین مشق سخن آغاز کی۔ آپ اردو اور پنجابی میں شعر کہتے ہیں۔شاعری میں آپ کا کوئی استاد نہیں۔ آپ کا مجموعہ کلام ’’کشکول درماندہ‘‘ ترتیب پا چکا ہے۔
نوجوان شاعر وقار عمران انوار فیروز کے گھر اٹک میں پید ا ہوئے۔ آپ کی تاریخ پیدائش ۳دسمبر۱۹۶۴ء ہے۔ آپ نے اٹک اور راولپنڈی سے تعلیم حاصل کی بی۔اے کرنے کے بعد ’’نیو آرٹ مین پرنٹرز‘‘ کے نام سے راولپنڈی میں اپنا پرنٹنگ پریس شروع کیا۔ وقار عمران کا م کے ساتھ ساتھ ایم۔اے کی ڈگری کی تحصیل میں بھی مصروف ہیں۔
وقار عمران شاعرانہ ماحول میں پلے بڑھے اور اسی ماحول کا حصہ بن گئے۔ آپ کا شعری مجموعہ منتظر اشاعت ہے۔
مطلوب حسین طالب ۱۶مارچ۱۹۶۵ء کو شرف دین کے گھر فتح جنگ میں پیدا ہوئے۔آپ نے گورنمنٹ کالج فتح جنگ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔اور گورنمنٹ انٹر کالج فتح جنگ سے ایف۔اے کا امتحان پاس کیا۔مزید تعلیم جاری نہ رکھ سے اور جی۔پی۔او میں کلرک بھرتی ہو گئے۔ مطلوب حسین طالب ۱۹۸۲ء میں دانستہ شعر و سخن ہوئے۔ شاعری میں آپ نے شاکر بیگ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔نظم اور غزل آپ کی من پسند اصناف ہیں ’’صلائے عام‘‘ کے نام سے آپ نے مجموعہ کلام ترتیب دے رکھا ہے۔آپ حلقہ ارباب سخن فتح جنگ کے رکن ہیں۔
طاہر مسعود قاضی اعوان قوم کے چشم و چراغ ہیں۔آپ کے جد امجد اپنے علم و فضل کی بنیاد پر قاضی کہلائے اور اسی نسبت سے قاضی کا لفظ اہل خاندان کے ناموں کا حصہ بنا۔ آپ ۲۲اگست ۱۹۶۵ء کو قاضی مسعود احمد کے گھر ہمک تحصیل فتح جنگ میں پیدا ہوئے۔ میٹرک کا امتحان گورنمنٹ پائیلٹ سکنڈری سکول اٹک سے پاس کیا۔ جب ایف۔اے اور بی۔اے کے امتحانات پرائیویٹ پاس کیے۔بعد از آں بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آباد سے ایل۔ایل۔بی (شریعہ) اور جامعہ اسلامیہ بہاولپور سے ایم۔اے (اسلامیات) کی ڈگری حاصل کی۔علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ’’ارتکاب جرائم کے اسباب اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان کا سد باب ضلع اٹک کے خصوصی حوالے سے ‘‘ کئی عنوانات سے ایم۔فل کا مقالہ لکھ کر کامیابی حاصل کی۔ آپ کے اساتذہ میں حافظ عبد الحق ، ڈاکٹر شرف الدین خطاب ، ڈاکٹر عبد العزیز عامر اور ڈاکٹر محمود احمد غازی کے اسماء گرامی شامل ہیں۔ قاضی طاہر مسعود اب ضلع کچہری اٹک مین وکالت کرتے ہیں۔
طاہر مسعود قاضی۱۹۸۵ء میں وابستہ شعر و ادب ہوئے۔ ابتداع میں اپنے کلام پر اصغر بریلوی سے اصلاح لی۔ آپ کی نثری تحریریں بھی رسائل میں شائع ہوتی رہیں ہیں۔’’انوار حق‘‘ کے نام سے آپ نے اٹک کے جید عالم قاضی انوار الحقؒ کا تذکرۂ کیا ہے جو ہنوز شائع نہیں ہو سکا۔آپ محفل شعر و ادب اور مجلس نوادرات علمیہ کے رکن ہیں۔
محمد جہانگیر اصغر ڈھوک سیلو فتح جنگ کے ایک اعوان گھرانے میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد سلطان محمد بھی پنجابی کے شاعر ہیں۔محمد جہانگیر اصغر کی تاریخ پیدائش ۲۵فروری۱۹۶۶ء ہے۔ آپ نے فتح جنگ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا بعد از آں بلدیہ فتح جنگ میں بطور چونگی محرر ملازم ہو گئے۔
محمد جہانگیر اصغر نے ۱۹۹۰ء میں مشق سخن آغاز کی۔ شاعری میں آپ کے استاد شاکر بیگ ہیں۔ محمد جہانگیر اصغر زیادہ تر غزل اور مرثیہ کہتے ہیں۔ آپ کا مجموعہ کلام ’’کونجاں ‘‘کے عنوان سے زیر ترتیب ہے۔محمد جہانگیر اصغر فتح جنگ کی ادبی تنظیموں حلقہ ارباب سخن،ادارہ عروج اور فروغ ادب کے سرگرم رکن اور عہد ہ دار ہیں۔
عبدالعزیز ساحر نوجوان محقق۔ نقاد اور شاعر عبد العزیز ساحر ۹اپریل ۱۹۶۶ء کو پنڈی گھیب کے ایک دور افتادہ گاؤں ڈمیال میں پیدا ہوئے۔ میٹرک کا امتحان گورنمنٹ پائیلٹ سکنڈری سکول اٹک سے پاس کیا۔ بی۔اے گورنمنٹ کالج اٹک جب کہ ایم۔اے (اردو گورنمنٹ کالج لاہور سے اعزاز کے ساتھ پاس کیا۔ آپ کے نامور اساتذہ میں ڈاکٹر معین الرحمن ، ڈاکٹر احسان الحق، ڈاکٹر سلیم اختر،پروفیسر اصغر ندیم،سید کے اسماء شامل ہیں۔ آج کل ساحر گورنمنٹ کالج مری میں اردو کے استاد ہیں اور ’’ اردو غزل اور فلسفہ و حدت الوجود‘‘ کے موضوع پر پی۔ایچ۔ ڈی کا مقالہ لکھ رہے ہیں۔
عبدالعزیز ساحر نے ۱۹۸۳ء سے مشق سخن آغاز کی شاعری میں اصغر بریلوی اور نذر صابری آپ کے استاد ہیں۔ شاعری کے ساتھ ساتھ تنقید اور تحقیق بھی ساحر کے میدان ہیں۔آپ کی دو کتابیں
۱۔ جمیل الدین علی نثر نگاری
۲۔ ڈاکٹر غلام جیلانی برق کے خطوط
منظر عام پر جلوہ گر ہو کر داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں۔آپ کی کتاب ’’اندر سبھا۔نئی تشکیل‘‘ منتظر اشاعت ہے۔ ساحر محفل شعرو ادب ، مجلس نووادرات علمیہ، پنجاب ادبی سنگت اٹک اور پاکستان رائٹرز گلڈ کے ممبر ہیں۔
نذیر احمد شاکر یکم مئی ۱۹۶۶ء کو حاجی میاں محمد کے گھر کھوڑ تحصیل پنڈی گھیب ضلع اٹک میں پیدا ہوئے۔آپ نے میٹرک کا امتحان کھوڑ سے پاس کیا بعد میں آباد ٹیکنیکل ٹریننگ سنٹر فتح جنگ سے الیکٹریشن کورس کیا۔ آج کل پاکستان واپڈا میں ملازم ہیں۔
نذیر احمد شاکر نے ۱۹۸۲ء سے نثر نویسی کا آغاز کیا۔ اب کھوڑ کی کئی سماجی ، فلاحی اور ادبی تنظیموں کے ممبر اور عہدہ دار ہیں۔سماجی و فلاحی خدمات کے اعتراف میں آپ کو گولڈ میڈل کے علاوہ تعریفی اسناد اور کئی انعامات دیئے جا چکے ہیں۔
ثقلین عباس انجم ہمک تحصیل فتح جنگ کے سید خانوادے کے چشم و چراغ ہیں۔آپ ۳ستمبر ۱۹۶۷ء کو شاہ فردوس کے گھر میں پیدا ہوئے۔میٹرک پائلٹ سکینڈری سکول اٹک اور بی۔اے گورنمنٹ کالج اٹک سے کیا۔بعد از آں جامعہ پنجاب سے ایم۔اے (اردو )کی ڈگری حاصل کی۔ آج کل محکمہ تعلیم پنجاب میں بہ طور مدرس تعینات ہیں۔ آپ کے اساتذہ میں شاہ فردوس، ڈاکٹر اشرف الحسینی اور سید ابرار حسین کہ اسماء شامل ہیں۔
ثقلین عباس انجم نے ۱۹۸۷ء مین مشق سخن آغاز کی۔ آپ غزل اور نظم لکھتے ہیں۔ شاعری کا مجموعہ ’’دکھ مشقت ہے‘‘ کے عنوان سے ترتیب دے رکھی ہے۔ اٹک کی ادبی تنظیموں ’’کاروان قلم‘‘ ، جہت نما‘‘ اور’’ قندیل ادب ‘‘کے رکن ہیں۔
شوکت محمود شوکت علاقہ چھب تحصیل جنڈ کے ساغر پٹھان ہیں۔ آپ امیر محمد خان ساغری کے گھر ۳نومبر۱۹۶۷ء کو پشاور میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم بھی پشتو ، پنجابی کے شاعر اور نثر نگار ہیں۔ شوکت محمود شوکت نے ایم۔ اے (اردو)کا امتحان پاس کیا اور پھر پنجاب یونیورسٹی سے ایل۔ایل۔بی کی ڈگری لی۔ آج کل پاکستان ایئر فورس میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
شوکت محمود شوکت نے ۱۹۸۱ء میں مشق سخن آغاز کی۔ ابتداء میں والد محترم سے اصلاح لی بعد از آں سجاد حسین سجاد سے مشورہ سخن ہونے لگا۔آپ کا مجموعہ غزل ’’زخم خنداں ‘‘ تشنہ اشاعت ہے۔ آپ کی شاعری اور مضامین اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے ہیں۔
حافظ رفاقت علی حقانی بولیانوال تحصیلو ضلع اٹک میں ۷مارچ۱۹۶۸ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم کا نام حاجی اعظم خان ہے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد آپ جامعہ قادریہ حقانیہ اٹک شہر سے وابستہ ہو گئے اور وہیں سے آپ نے بلترتیب ادیب، عربی،علم فارسی،فاضل عربی، درس نظامی‘ ایم۔اے (عربی)اور ایم۔اے (اسلامیات )کے امتحانات پاس کیے آپ کے اساتذہ میں سید سلیمان شاہ ،پیر عبد الظاہر رضوی،مولانا عبدالباری ، قاضی انوار الحق وار پروفیسر راجا قمر الدین کے اسماء شامل ہیں۔
تکمیل تعلیم دین کے بعد آپ نے اٹک صدر میں ایک دینی ادارے ’’مدرسہ ظاہر العلوم ‘‘ کی بنیاد رکھی جہاں آپ دینی تعلیم کے فروغ میں روز ز شب مصروف ہیں۔ آپ جمعیت علمائے پاکستان ضلع اٹک کے صدر ہیں۔درس و تدریس کے ساتھ ساتھ تحریر و تقریر بھی آپ کی دلچسپی کا باعث مرکز بنی رہی۔آپ کی مطبوعہ کتابوں کے نام یہ ہیں۔
۱۔ جواہر التسمیہ۔ ۲۔نعت مصطفی کا ارتقائی سفر۔ ۳۔پیغام مصطفی۔
’’مقالات حقانی‘‘، ’’اسلامی اور فقہی پہیلیاں ‘‘ اور’’ میلاد مصطفی کے فوائد‘‘ آپ کی غیر مطبوعہ کتابیں ہیں۔
سید نصرت بخاری کامرہ کلاں ضلع اٹک کے معروف بخاری سادات کے چشم و چراغ ہیں۔ آپ کے والد محترم کا نام لعل شاہ سے۔ آپ نے ۲۲جون ۱۹۶۸ء میں جامعہ پنجاب سے بی۔ اے کا امتحان پاس کیا آج کل محکمہ تعلیم میں بہ طور استاد ملازمت کر رہے ہیں۔
سید نصرت بخاری ۱۹۹۰ سے سر گرم سخن ہیں۔ آپ نے نادر وحید اور شاکر القادری سے شاعری میں اصلاح لی۔ ابھی تک آپ کی کوئی کتا ب منصۂ شہود پر جلوہ گر نہیں ہوئی۔ تاہم مختلف رسائل اور جرائد میں آپ کا کلام بہ کثرت شائع ہوتا ہے۔
افتخار یوسف کا اصل نام افتخار احمد خان ہے۔ آپ معروف شاعر انوا فیروز کے صاحبزادے ہیں۔ آپ ۳۰نومبر۱۹۶۸ء کو ملتان میں پیدا ہوئے۔مختلف جگہوں سے تعلیم حاصل کی۔آج کل ایم۔اے کے طالب علم ہیں اور ساتھ ساتھ صحافت کے پیشہ سے بھی وابستہ ہیں۔ اس وقت پی۔پی۔آئی اسلام آباد کے سینئر رپورٹر ہیں۔
افتخار یوسف نے شاعرانہ ماحول میں آنکھ کھولی، دادا ، والد اور بڑی بہنیں دولت شعر سے شرف یاب تھیں افتخار یوسف بھی اسی رنگ میں رنگے گئے۔ افتخار یوسف غزل کے شاعر ہیں۔ آپ کا مجموعہ غزل عنقریب اشاعت پذیر ہو گا۔
محمد طارق وفا پنڈی گھیب کے رہنے والے جواں سال شاعر ہیں۔آپ ۲۴ اگست ۱۹۶۹ء کو مستری محمد رمضان کے گھر پنڈی گھیب میں پیدا ہوئے۔مڈل تک تعلیم حاصل کی بہ وجوہ مزید تعلیم حاصل نہیں کر سکے اور فوج میں سپاہی بھرتی ہو گئے۔
محمد طارق وفا اردو اور پنجابی کے شاعر ہیں۔ صوبیدار محمد توکل سائل شاعری میں آپ کے استاد ہیں۔ ابھی تک آپ کا کوئی مجموعہ کلام شائع نہیں ہوا۔
در شہوار توصیف معروف شاعر انوار فیروز کی دختر نیک اختر ہیں۔آپ ۲۶ نومبر ۱۹۶۹ ء کو ملتان میں پیدا ہوئیں۔در شہوار توصیف نے بی۔اے تک تعلیم حاصل کی۔
آپ کے گھر میں شاعرانہ ماحول میسر آیا۔ شاعری میں آپ نے اپنے والد محترم انوار فیروز سے مشورہ کیا۔ دیگر اصناف کے مقابلے میں در شہوار توصیف کا زیادہ تر رجحان غزل کی طرف رہا۔ آپ کا ابھی تک کوئی مجموعہ کلام شائع نہیں ہوا تاہم ملک اور بیرون ملک کے اکثر جرائد میں آپ کا کلام تواتر شائع ہوتا رہتا ہے۔
ارشد محمود ناشاد یکم جنوری ۱۹۷۰ کو ضلع اٹک کے ایک دور افتادہ اور پس ماندہ گاؤں ڈومیال میں اصغر علی کے گھر میں پیدا ہوئے۔سیماب پائی کے باعث ثانوی تعلیم کی تکمیل تک متعدد ادارے تبدیل کیے۔بالآخر ایف جی بوائز ہائی سکول اٹک سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔گورنمنٹ کالج اٹک سے بی۔اے کرنے کے مختلف اداروں میں ملازمت کرتے رہے اور ساتھ ساتھ تعلیم بھی جاری رکھی۔جامعہ پنجاب سے پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے ایم۔اے (اردو ) اور پنجابی کے امتحانات پاس کیے۔بعد میں گجرانوالی کے ایک معروف تعلیمی ادارے پاکستان انٹرنیشنل پبلک سکول اینڈ کالج سے بہ طور استاد منسلک رہے۔آج کل گورنمنٹ انٹر کالج آف کامرس اٹک میں اردو کی تدریس پر مامور ہیں۔جامعہ پنجاب میں پی۔ایچ۔ڈی کے لئے ان کی رجسٹریشن ہو چکی ہے اس کے لئے ان کا موضوع ’’اردو غزل کا تکنیکی،ہیئتی اور عرضی سفر‘‘ ہے۔ ارشد محمود ناشاد کے اساتذہ میں ماسٹر محمد خان،ماسٹر انوار الحق، ماسٹر محمد ریاض،پروفیسر سلطان علی مہر کے اسماء گرامی قابل ذکر ہیں۔
ارشد محمود ناشاد نے ۱۹۸۵ء میں باقاعدہ شعر گوئی اختیار کی۔شاعری میں اصغر بریلوی اور نذر صابری ان کے استاد ہیں۔۱۹۹۰ مین پنجاب ادبی سنگت کی بنیاد رکھی۔ارشد محمود ناشاد پاکستان رائٹرز گلڈ کے بھی ممبر ہیں۔آپ کی اب تک کی کار گزاری کا اجمال یہ ہے۔
۱۔ آغوش گل۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجموعہ کلام
۲۔ضلع اٹک دے پنجابی شاعر۔۔۔۔۔۔ تحقیق
۳۔مقلات برق۔۔۔۔۔۔ ترتیب
۴۔ابھی تک تم نہیں سمجھے۔۔۔۔۔۔ مجموعہ کلام
۵۔اشلوک۔۔۔۔۔۔ ترجمہ کلام بابا فریدؒ
۶۔ضلع اٹک (تاریخ۔ثقافت۔ادب)۔۔۔۔۔۔ تحقیق
۷۔آیات۔۔۔۔۔۔ غزلیات
آخر الذکر دو کتابوں کے علاوہ باقی شائع ہو چکی ہیں۔
جگر نیازی کا اصل نام ظفر اقبال ہے۔آپ۳۰اپریل۱۹۷۰ء کو سلطان خان جانی کے گھر کھباڑاں والہ ضلع تحصیل میانوالی میں پیدا ہوئے۔گورنمنٹ پرائمری سکول کھباڑاں والہ سے پرائمری اور سنٹرل ماڈل کا لج سے میٹرک کا اور ایف۔اے امتحانات پاس کیے۔بعد از آں جامعہ پنجاب سے پرائیویٹ امیدوار لی حیثیت سے بی۔اے کا امتحان پاس کیا۔آپ کے قابل ذکر اساتذہ میں عبدالمجید اور پروفیسر احمد خان کے اسماء شامل ہیں۔۱۹۹۱ء سے ۱۴ ڈی ایس جی کمپنی کامرہ میں ملازمت کر رہے ہیں۔
جگر نیازی نے ۱۹۹۰ء سے مشق سخن آغاز کی۔آپ نے زیادہ تر پنجابی میں لکھا۔نظم،دوہڑہ،گیت اور مہیا آپ کی من پسند اصناف ہیں۔ شاعری میں آپ کے استاد نہیں۔ تا حال آپ کا کوئی مجموعہ کلام منظر اشاعت پر جلوہ گر نہیں ہوا۔
صفدد احسان کا اصل نام غلام جفدر ہے۔ آپ غلام رسول کے گھر فتح جنگ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم یہیں سے حاصل کی
صفدد احسان نے ۱۹۸۵ء میں میدان سخن میں قدم رکھا۔ پشاور کے معروف شاعر نا زسیٹھی شاعری میں آپ کے استاد ہیں۔’’بادل اور گرد‘‘ کے عنوان سے مجموعہ شعر ترتیب پا چکا ہے مگر ابھی تک شائع نہیں ہو سکا۔
حافظ ظفر اقبال حقانی کا تعلق پنڈی گھیب کے دور افتادہ گاؤں پیرانہ سے ہے آپ کے والد محترم کا نام عبد المجید ہے۔ آپ ۴نومبر۱۹۷۰ء میں پیدا ہوئے۔پرائمری تک کی سکولی تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی پھر مذہبی تعلیم کے حصول کے لیے جامعہ قادریہ حقانیہ اٹک میں داخل ہوئے اور یہیں سے حفظ، تجوید،درس نظامی، فاضل عربی اور میٹرک تک کی سکولی تعلیم حاصل کی۔جامعہ اسلامیہ اکوڑہ خٹک میں بھی زیر تعلیم رہے۔آج کل جامع مسجد غوث اعظم ٹھوک فتح میں خطابت اور دینی تعلیم کی تدریس میں منہمک ہیں۔ آپ کے اساتذہ میں شیخ الحدیث علامہ عبدالباری اور علامہ امیر رحمن کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔
آپ جمعیت علمائے پاکستان تحصیل اٹک کے صدر ہیں۔صاجزادہ عبدالظاہر رضوی کی تحریک پر آپ نے لکھنا شروع کیا اور مذہبی موضوعات پر مضامین لکھتے رہے۔
نزاکت علی نازک سروالہ کی ’’سلطان‘‘ قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔آپ حق نواز کے گھر ۱۸فروری۱۹۷۱ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گاؤں سے حاصل کی۔ بہ وجوہ تعلیم ادھوری چھوڑی اور زرگری پیشہ اختیار کیا اور ہنوز اسی پیشہ سے وابستہ ہیں۔
نزاکت علی نازک ۱۹۹۵ء میں میدان ادب میں اترے۔ آ پ نظم ، غزل ، نعت اور سلام کہتے ہیں۔ اٹک کی ادبی تنظیم قندیل ادب کے سیکرٹری رہ چکے ہیں۔اب ایک نئی تنظیم کارواں قلم کی داغ بیل ڈالی ہیں اور اسی کے معتمد کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
عظمت عاصی کا اصل نام عظمت ہے۔ آپ ۶جون۱۹۷۱ء کو صوبہ خان کے گھر شیں باغ خورد ضلع اٹک میں پیدا ہوئے۔آپ کا تعلق بھٹی قبیلے سے ہے۔ آپ نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی اور آج کل محکم تعلیم حسن ابدال میں ملازم ہیں۔
عظمت عاصی وے۱۹۹۱ء سے سخن آغاز کیا۔ غزل ماہیا اور افسانہ لکھتے ہیں۔ شاعری میں آپ کے کوئی استاد نہیں۔اٹک کی ادبی تنظیموں قندیل ادب اور مدار ادب کے رکن ہیں ’’ہے دھوم بہاروں کی‘‘ کے عنوان تلے آپ کے ماہیے زیر ترتیب ہیں۔
عائشہ اشرف معروف ادیب ڈاکٹر اشرف الحسینی کی دختر نیک اختر ہیں۔آپ۲۱ دسمبر۱۹۷۱ء کو کامرہ کلاں ضلع اٹک میں پیدا ہوئیں۔سکول اور کالج کی تعلیم اٹک سے حاصل کی۔بعد از آں جامعہ پنجاب سے ایم۔اے(فارسی) کا امتحان پا س کیا۔ آپ کے اساتذہ میں ڈاکٹر آفتاب اصغر،شیخ نوازش علی اور معین نظامی کے اسماء شامل ہیں۔آپ آج کل گورنمنٹ کالج برائے خواتین گجرات میں فارسی ادبیات کی استاد ہیں۔
عائشہ اشرف نے اپنے والد محترم ڈاکٹر اشرف الحسینی اور مادام نسرین کی تحریک ۱۹۷۹ء میں لکھنا پڑھنا شروع کیا۔آپ کی مندرج ذیل دو کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔
۱۔ فارسی امروزہ مع فرہنگ جدید
۲۔ خد آموز سندھی
’’تحریک رباعیات عمر خیام‘‘ اور ’’ابن سینا اور ان کے آثار‘‘ ہنوز غیر مطبوعہ ہیں۔
داؤد تابش ۲۱ اپریل ۱۹۷۲ء کو عبد الرؤف کے گھر فتح جنگ ضلع اٹک میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی و ثانوی تعلیم فتح جنگ سے ہی حاصل کی۔جامعہ پنجاب سے بی۔اے کا امتحان پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے پاس کیا۔
داؤد تابش نے ۱۹۸۹ میں میدان سخن میں قدم رکھا۔ شاعری میں آپ نے شاکر بیگ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا۔ غزل اور نعت آپ کی پسندیدہ اصناف ہیں۔ شاعری کے ساتھ ساتھ آپ موسیقی سے بھی گہرا لگاؤ رکھتے ہیں۔موسیقی میں اصغر علی پنڈی والے آپ کے استاد ہیں۔
رحمت علی شاعر۱۰جنوری۱۹۷۵ء کو ڈومیال تحصیل پنڈی گھیب میں صوبدار(ر) عبد اﷲ خان کے گھر پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم گاؤں سے ہی حاصل کی۔ میٹرک کا امتحان گورنمنٹ ہائی سکول میاں والہ جب کہ ایف۔ اے کا امتحان گورنمنٹ ڈگری کالج پنڈی گھیب سے پاس کیا۔بہ وجوہ مزید تعلیم جاری نہ رکھ سکے اب گاؤں میں دکان داری کرتے ہیں۔
رحمت علی غزل ، نظم اور نعت کہتے ہیں۔ آپ ۱۹۹۰ء سے سرگرم سخن ہیں۔ابتدا میں کچھ غزلیں ملک عبد اﷲ صحرائی کو دکھائیں۔پنڈی گھیب کی ابی تنظیم گلشن ادب کے رکن ہیں۔
سجاد اصغر انجم ڈھوک فتح ضلع اٹک کے اعوان خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔آپ کے والد کا نام اصغر علی ہے۔آپ۹فروری۱۹۷۵ء میں پیدا ہوئے ۱۹۹۴ء میں پائلٹ سکنڈری سکول اٹک سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور ۱۹۹۶ء میں گورنمنٹ ڈگری کالج حضرو سے ایف۔ اے کا امتحان پاس کیا۔آپ کے مہربان اساتذہ میں پروفیسر غلام ربانی فروغ کا نام سر فہرست ہے۔سجاد اصغر آج کل خزینہ کمپیوٹر اکیڈمی میں انسٹرکٹر ہیں۔
۱۹۹۴ء سے لکھنے پڑھنے میں منہمک ہیں۔ عبد اﷲ صحرائی شاعری میں آپ کے استاد ہیں۔آپ کی غزلوں کا مجموعہ ’’قصہ شوق‘‘ ترتیب و تشکیل کے مراحل میں ہے۔آپ ادبی تنظیم ’’جہت نما‘‘ کے رکن ہیں۔شاعری کے ساتھ ساتھ صحافت میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں اور اس وقت انٹر نیشنل ایجنسی این۔این۔آئی کے ر پورٹر ہیں۔
عدنان فاروق خان بسال تحصیل جنڈ کے معروف کھٹڑ خاندان کے چشم چراغ ہیں۔ آپ کے دادا حاجی مہر خان اور نانا ہیڈ ماسٹر محمد نواز خان کا شمار بسال کی متحرک اور معزز شخصیات میں ہوتا ہے۔عدنان فاروق خان ۲۵مارچ۱۹۷۷ء کو فضل خان کے گھر میں پیدا ہوئے۔ آپ نے پرائمری کا امتحان گورنمنٹ پرائمری سکول بسال سے کیا۔گورنمنٹ پائیلٹ سکینڈری سکول اٹک سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور انٹر کالج آف کامرس اٹک سے ڈی۔کام کا امتحان پاس کیا۔آج کل کامرس کالج راولپنڈی میں بی۔کام(فائنل) کے طالب علم ہیں۔ آپ کے اساتذہ میں جہاں داد خان ،محمد نواز خان اور ارشد محمود ناشاد کے نام شامل ہیں۔
عدنان فاروق خان نے ۱۹۹۸ء سے مشق سخن آغاز کی۔ ارشد محمود ناشاد شاعری میں آپ کے استاد ہیں۔آپ اردو اور پنجابی میں طبع آزمائی کرتے ہیں۔آپ اٹک کی ادبی تنظیموں کارواں قلم اور پنجابی ادبی سنگت کے رکن ہیں۔
طاہر اسیر کا اصلی نام طاہر محمود خان ہے۔آپ ۱۰اپریل۱۹۷۷ء میں پیدا ہوئے۔آپ کا تعلق معروف کھٹڑ اﷲ یار خان کے فرزند سردار لعل خان کے خانوادے سے ہے۔ میٹرک کا امتحان ۱۹۹۳ء میں گورنمنٹ پائلٹ سکینڈری سکول اٹک سے پاس کیا بعد میں انٹر کالج آف کامرس میں داخل ہوئے اور وہیں سے سی۔ کام کا امتحان دیا مگر بہ وجوہ فنی تعلیم کو جاری نہ رکھ سکے۔ایف۔ اے کا امتحان گورنمنٹ کالج حضرو سے پاس کیا۔ اب علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بی۔اے کی تحصیل میں سرگرم ہیں۔
طاہر اسیر ۱۹۹۵ سے میدان ادب میں سرگرم سخن ہیں۔ شاعری میں شاکر القادری آپ کے استاد ہیں۔ غزل ،نظم اور مرثیہ آپ کی پسندیدہ اصناف سخن ہیں۔اٹک کی ادبی تنظیم ’’جہت نما‘‘ کے بانی اور سیکرٹری ہیں۔
جمیل حسن ساگر کا تعلق معروف کھٹڑ خاندان سے ہے۔ آپ محمد اکرم خان کے گھر ۲۹دسمبر۱۹۷۸ء کو پنڈ صاحب خان تحصیل فتح جنگ میں پیدا ہوئے۔ پرائمری تک گاؤں میں تعلیم پائی میٹرک کا امتحان گورنمنٹ ہائی سکول باہتر سے پاس کیا۔ بعد از آں گورنمنٹ کالج اٹک میں داخلہ کیا اور اب اسی کالج میں بی۔اے (فائنل) کے طالب علم ہیں۔آپ کے مشفق اساتذہ میں اظہر منیر شاہ (مرحوم)ابو عبید شاہ اور صغیر خا ن کے نام شامل ہیں۔
جمیل حسن ساگر نے ۱۹۹۵ء میں مشق سخن آغاز کی۔ غزل ، نظم اور افسانے کی طرف زیادہ رجحان ہے۔ شاعری میں آپ کا کوئی استاد نہیں ’’شب تنہائی‘‘ کے عنوان سے آپ مجموعہ کلام ترتیب دے چکے ہیں۔ اٹک کی ادبی تنظیم ’’کاروان قلم‘‘ کے رکن ہیں۔
سہیل بخاری ۲۰جنوری۱۹۸۹ء کو ہستال تحصیل فتح جنگ میں سید بادشاہ تبسم بخاری کے گھر پیدا ہوئے۔تبسم بخاری خود اعلیٰ درجہ کے شاعر اور استاد نثار ہیں۔سہیل بخاری نے پرائمری تعلیم گاؤں سے حاصل کی۔ گورنمنٹ ہائی سکول فتح جنگ سے میٹرک اور ڈگری کالج سے ایف۔اے کا امتحان پاس کیا۔آج کل گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اٹک میں بی۔اے (فائنل) کے طالب علم ہیں۔
سہیل بخاری نے ۱۹۹۵ء میں مشق سخن آغاز کی۔ آپ کے والد محترم تبسم بخاری شاعری میں آپ کے استاد ہیں۔آپ کا مجموعہ غزل ’’موسم گل‘‘ ترتیب کے مراحل میں ہے۔ آپ اٹک کی ادبی تنظیم ’’کاروان قلم‘‘ کے رکن ہیں۔
ثاقب محمود ثاقی فقیر محمد کے گھر شیں باغ خورد ضلع اٹک میں پیدا ہوئے۔ آپ کی تاریخ پیدائش ۱۲اکتوبر۱۹۸۰ء ہے۔پرائمری سکول سروالہ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔مڈل اور میٹرک کے امتحانات گورنمنٹ پائلٹ سکول اٹک سے پاس کیے۔اب پرائیوٹ طور پر ایف۔اے کا امتحان دے چکے ہیں۔
ثاقب محمود ثاقی نے ۱۹۹۷ء سے لکھنے پڑھنے کا آغاز کیا۔آپ نظم، غزل ، نعت اور افسانہ لکھتے ہیں۔ ابھی تک آپ کی کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی۔
عمران احمد خان پٹھانو ں کے صدر خیل قبیلہ کے چشم و چراغ ہیں۔ آپ کے والد گرامی آدم خان سپہ پیشہ تھے اور بہ عہدہ صوبیداری سبکدوش ہوئے آپ ۲۵دسمبر۱۹۸۰ء میں ہدووالی تحصیل جنڈ ضلع اٹک میں پیدا ہوئے۔ گورنمنٹ ہائی سکول ہدو والی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا بعد از آں گورنمنٹ انٹر کالج آف کامرس اٹک سے ڈی۔کام کا امتحان پاس کیا اور آج کل پنجاب کالج آف کامرس راولپنڈی میں بی۔کام کے طالب علم ہیں۔سکول و کالج میں جن اساتذہ نے آپ پر گہرے اثرات مرتب کیے ان میں ماسٹر فرید احمد خان اور ارشد محمود ناشاد کے نام شامل ہیں۔
عمران احمد خان نے ۱۹۹۸ء میں شاعری آغاز کی۔ شاعری میں آپ نے کسی سے اصلاح نہیں لی البتہ ارشد محمود ناشاد سے اکثر مکالمہ سخن رہتا ہے۔آپ کی تا حال کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی۔
کھوڑ کے نوجوان نظم نگار اور صحافی عبدالرشید طاہر اعوان قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔آپ ۱۹مارچ۱۹۸۱ء کو عبد العزیز کے گھر سرگودھا میں پیدا ہوئے۔آپ اس وقت ڈی۔کام کے طالب علم ہیں۔
عبدالرشید طاہر نے ۱۹۹۵ء میں لکھنے پڑھنے کا سلسلہ شروع کیا آپ کھوڑ کی کئی ادبی اور سماجی تنظیموں کے عہدہ دار اور رکن ہیں۔سماجی خدمات کے اعتراف میں ایک مقامی تنظیم کی طرف سے آپ کو گولڈ میڈل بھی مل چکا ہے۔
عابد علی خان عابد فتح جنگ کے نوجوان شاعر ہیں۔آپ محمد بلند خان کے گھر ۱۷جولائی۱۹۸۱ء میں پیدا ہوئے آپ نے میٹرک کا امتحان ہائی سکول فتح جنگ سے پاس کیا۔ آج کل ایف۔اے کی تحصیل میں مصروف ہیں۔
عابد علی عابد نے ۱۹۹۹ء سے شعر و شعری شروع کی آپ اعجاز ساحر سے کلام پر اصلاح لیتے ہیں۔ شاعری کے ساتھ ساتھ مصوری بھی عابد علی عابد کی دلچسپیوں کا مرکز ہے۔
تشکر: شاکر القادری اور محمد تفسیر احمد، القلم لائبریری
پروف ریڈنگ تدوین اور ای بک: اعجاز عبید